اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27053
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27053 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

امام کے بارے میں وضاحت

گذشتہ گفتگو کا خلاصہ :

۱ ۔ راہ اسلام کو جاری وساری رکھنے کے لئے امامت کا ہونا ضروری ہے۔

۲ ۔ امامت کا انتخاب بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر ضروری ہے کیونکہ آپ کی ذات( لاینطق عن الهوی ) کی مصداق ہے اور جب بات یھاں تک آگئی ہے اور واضح خلاصہ بھی آپ حضرات نے ملاحظہ فرمالیا تو بات آگے بڑھ کرایک جدید مرحلہ تک پهونچتی ہے اوروہ یہ کہ ہم اس امام کی تلاش کریں جس کے بارے میں نص او راعلان کیا گیا ہے نیز ان واضح نصوص کو بھی ملاحظہ کریں جن کے ذریعہ سے امام کی معرفت و شناخت ہوتی ہے۔

اور چونکہ امامت سے متعلق روایات اور رایوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور راویوں کے بیان کرنے کا طریقہ بھی جداجدا ہے، لیکن ہم یھاں پر فقط تین عدد شاہد پیش کرتے ہیں اور باقی تفصیل کو تفصیلی کتابوں کی طرف حوالہ دیتے ہیں۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی ، عبقات الانوار اورالمراجعات وغیرہ)

پہلی حدیث: ” حدیث دار “

ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل ہوئی :

( وَانْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاٴَقْرَبِیْنَ ) ( ۳۱ )

”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

یا بنی عبد المطلب انی واللّٰه ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومه باٴفضل ممّا قد جئتکم به، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰه تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیه، فاٴیکم یوازرنی علی هذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟

(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا ہو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ہے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا۔)

چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کھا:

انا یا نبي اللّٰه اٴکون وزیرک علیه ، فقال (ص) ان هذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا له واطیعوا

(یا رسول اللہ میں حاضر ہوں اور میں آپ کا وزیر ہوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:

یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے ہوئے چلے گئے:

”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“( ۳۲ )

قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ہے:

۱ ۔وزیرهونا۔

۲ ۔وصی ہونا۔

۳ ۔خلیفہ ہونا۔

اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نہیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پہلے جلسہ کا انتخاب کیا؟

اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ہے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ہم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ہے:

قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے اس پہلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔

کیونکہ جب کوئی اہم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ہے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق ہوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نہیں ہوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ہے اس وقت تک یہ دین باقی ہے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا ہوگا اور وہ یہ جوان ہے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)

اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح ہوجاتی ہیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ہیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ ہوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نہیں پاتے، اور اگر یہ طے ہو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح ہوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ہیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص ہوتے ہیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ہے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ہی وصی بنایا جاتا ہے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ہے۔

اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا ہو تو کھا جاتا ہے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ہے)، ”وصیي“(میرا وصی) نہیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ہے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ہے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔

لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے روز اول ہی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی ہوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ ہوجائے۔

اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ہمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔

دوسری حدیث: ”حدیث المنزلة“

امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:

انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی( ۳۳ )

(اے علی تم میں اور مجھ میں وھی نسبت ہے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ (ع) کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں)

قارئین کرام ! اگرچہ یہ حدیث مختصر ہے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نہیں ہوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح ہوجائیں گے۔

چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ہے :

۱ ۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے وزیر ہیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:

( وَاجعلْ لی وَزِیراً منْ اٴَهلی ) ( ۳۴ )

”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر بنادے“

۲ ۔آپ رسول اللہ کے بھائی ہیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:

( هَارُوْنَ اَخِیْ ) ( ۳۵ )

”میرے بھائی ھارون“

۳ ۔ آپ ہی رسول اللہ کے شریک ہیں کیونکہ جناب ھارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:

( وَاشْرِکْهُ فِیْ اٴَمْرِیْ ) ( ۳۶ )

”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“

۴ ۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ہیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:

( وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْهِ هَارُوْنَ اخْلُفْنِی فِیْ قَوْمِی ) ( ۳۷ )

”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کھا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین ہو“

۵ ۔ امامت نبوت سے مشتق ہے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یھاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ہے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ہیں تب ہی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

الا انه لا نبی بعدی “ (مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں)

اور جب جناب موسیٰ (ع)نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ہے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے ہوتی ہے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نھیں۔

قارئین کرام ! جب ہم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ہیں تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نہیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اہم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ھاتھ میں دے کر جارھے ہیں۔

اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ہے کہ حضرت علی (ع)،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ شریک ہیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نہیں ہے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ہے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اہم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ ہونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے ہوئے فرمایا:

” میرے بعد کوئی نبی نھیں“

اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن ہوجائیں جب یہ معلوم ہو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارھے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔

لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نھیںهوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجنگ تبوک کے لئے نکلے ہیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے او رمدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نہیں گئے تھے چاھے وہ مجبور ہوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نہیں رکھتا۔( ۳۸ )

لیکن حدیث پرغوروفکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ہے کہ:

اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔

جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ہے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ہی کمزور ہوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وھاں سے غائب ہورھا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کب ختم ہوگی اور کب پلٹ کر آنا ہوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بناکر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ہے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ہر ممکن خطرہ موجود ہو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں ہوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ہے۔

تیسری حدیث: ”حدیث غدیر“

اس حدیث کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ہے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ہے۔( ۳۹ )

بطور اختصارہم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ہیں۔

چنانچہ اکثر روای کہتے ہیں:

”جب ہم حجة الوداع سے واپس پلٹ رھے تھے ، اورغدیر خم میں پهونچے تو رسول اسلام نے نماز ظھر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:

”اے لوگو ! قریب ہے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کهوں میں بھی مسئول ہوں او رتم بھی مسئول ہو، پس تم لوگ کیا کہتے ہو؟

تب لوگوں نے کھا: ”ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ہم کو وعظ ونصیحت کی اورجھاد کیا ، ”فجزاک اللّٰہ خیراً“

یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:

ان اللّٰه مولای واٴنا مولی المو منین ، وانا اولی بهم من انفسهم، فمن کنت مولاه فهذا علی مولاه، اللّٰهمّ وال من والاه وعاد من عاداه وانصر من نصره، واخذل من خذله واٴدر الحق معه حیثما دار ۔“

(اللہ میرا مولا ہے او رمیں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف ہوں پس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے)

اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام ہوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:

بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة

(مبارک ہو مبارک اے علی، آپ ہمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے)

اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے:

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاٰمَ دِیْناً ) ( ۴۰ )

”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“

قارئین کرام ! یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ہے اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہ امامت ، ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت کی حامل ہے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جارھا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے لوگوںکے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔

لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ہیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ہم یہ نہیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ہے۔

لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور ہوا وهوس کی دین ہے اور نہ ہی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ہے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:

۱ ۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل ہونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری حج سے واپس آرھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:

( یَاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) ( ۴۱ )

”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے پهونچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ہی نہیں پهونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“

۲ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔

۳ ۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر ہونا:

الف:اللّٰه مولای ۔

اللہ میرا مولا ہے۔

ب:انامولی المومنین ۔

میں مومنین کا مولا ہوں۔

ج:من کنت مولاه فهذا علی مولاه ۔( ۴۲ )

جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)بھی مولا ہیں۔

۴ ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:

اللّٰهمّ وال من والاه وعاد من عاداه واخذل من خذله وادرالحق معه حیث دار ۔( ۴۳ )

پروردگارا ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاھے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔

جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نہیں ہوسکتے ہیں

۵ ۔ آیہ اکمال کا نازل ہونا:الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔( ۴۴ ) جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔

۶ ۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔( ۴۵ )

مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی (ع) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وراث ،ناصر ،دوست او رابن عم نہیں ہیں اور نہ ہی ارث ونصرت کا مسئلہ ہے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان باتوںکاقصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ ہو تو پھر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ہے اور جو لوگ اس حدیث کا انکارکرتے ہیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ہے، چنانچہ موصوف کہتے ہیں:

”چونکہ اھل ظاہر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وھابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ہی اپنا شعار بنارکھا ، اسی وجہ سے انھوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔( ۴۶ )

مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی امت کی قیادت ورھبری کے لئے امام کی معرفی کی ہے۔

اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ او رمناسبت مختلف ہیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ہے جو مکمل طریقہ سے ہمارے مقصود پر دلالت کرتی ہے۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فقط امام اول کا معین ہوجانا کافی ہے اور باقی ائمہ علیہم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نہیں ہے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا ہونا ضروری ہے؟

یعنی باقی ائمہ (ع) کی امامت کیسے ثابت ہوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ہے؟

قارئین کرام ! ائمہ (ع)کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے:

پہلا طریقہ:

ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشهور ہیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسن وامام حسین علیہما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

انتما الامامان ولامکما الشفاعة( ۴۷ )

(تم دونوں امام ہو اور دونوں شفاعت کرنے والے ہو)

اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

هذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة( ۴۸ )

(یہ خود بھی امام ہیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموںکے باپ ہیں)

اور اس طرح بہت سی روایات موجود ہیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ہیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

دوسرا طریقہ:

گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل ہوتاھے اور اس پر یقین رکھناضروری ہے جبکہ ہم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ہیں۔( ۴۹ )

اب رھا ائمہ (ع) کا بارہ ہونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ہیں( ۵۰ ) اور ہمارے لئے یھی کافی ہے کہ اس مشهور ومعروف حدیث نبوی کو مشهور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ارشاد فرمایا:”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلهم من قریش( ۵۱ )

(دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے)

ایک دوسری حدیث میں اس طرح ہے:

ان هذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیه اثنا عشر( ۵۲ )

(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نہیں ہوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) ہوں گے)

اور اگر ہم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوںنے صحیح مانا ہے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررھی ہے:

۱ ۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔

۲ ۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ہی ہوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ہوں گے۔

اور یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نہیں ہیں جو شروع کی چار صدیوں میں ہوئے ہیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ہے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نہیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حقیقی خلیفہ نہیں ہوسکتے۔

تو پھر انکے علاوہ ہونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ہیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع) کے پاس جایا کرتے تھے۔

اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)

حضرات ائمہ علیہم السلام

سلسلہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مختصر طور پر ائمہ (ع) کے اسماء گرامی اور ان کے زمانہ کے مختصر حالات بیان کریں نیز مختصر طور پر ان کی چھوڑی ہوئی میراث کے بارے میں بھی ذکر کریں او رخود ان حضرات کی مختصر طورپر سوانح حیات بیان کریں، ان تمام باتوں میں ہم اختصار کا پورا خیال رکہیں گے تاکہ ہماری کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ ہوجائے۔

اور ہماری ساری امید خداوندعالم کی ذات پر ہے کیونکہ وھی مدد کرنے والا ہے تاکہ ہم ائمہ (ع) کی سوانح حیات کو تحریر کرسکیں اور ہر امام کے حالات بیان کریں تاکہ آج کا ہمارا زمانہ ان کی رھبری وقیادت اور ان کی چھوڑی ہوئی میراث کو پہچان لے، چنانچہ انھوں نے زمانہ کے لئے ایسی ایسی میراث چھوڑی ہیں جو عالم بشریت کے لئے بہت عظیم سرمایہ اور مایہ سرفرازی وباعث عزت ہے۔

خداوندعالم ہماری مدد ونصرت فرمائے(آمین)

پھلے امام : حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام

حضرت علی (ع)کا مشهور لقب ”امیر المومنین“ ہے آپ کو اس لقب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے سرفراز فرمایا تھا۔( ۵۳ )

آپ کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ اورخانہ کعبہ میں ۱۳/ رجب المرجب ۳۰ عام الفیل کو ہوئی۔( ۵۴ )

آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بچپن ہی سے اپنے پاس رکھا تاکہ آپ کے چچا ابوطالب پر کچھ بوجھ کم ہوجائے، چنانچہ خداوندعالم نے یہ چاھا کہ آپ کی تربیت اس کا محبوب رسول کرے اور ہر طرح کی مشکلات ومصائب سے محفوظ رکھے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممبعوث بہ رسالت ہوئے تو سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام نے اظھار اسلام کیا۔( ۵۵ )

اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تو اسی موقع پر آپ کی وزارت ، وصایت اور خلافت کے بارے میںواضح بیان دیا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ہے) اور جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شبیہ بن کر آپ کے بستر پر سورھے تاکہ قریش یہ سمجھیں کہ ”محمد“(ص) ابھی بستر پر سورھے ہیں۔

اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور ہر جنگ میں پرچم اسلام آپ(ع) ہی کے ھاتھوں میں رھا، اور آپ(ع) ہر جنگ میں(سوائے جنگ تبوک کے)نبی کے ساتھ ساتھ رھے ، چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کو اسلام کی دار السلطنت میں احتمالی خطرے کی بنا پر مدینہ میں چھوڑدیا تھا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ہے)

خداوندعالم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی تکریم کی خاطر رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے شادی کی۔( ۵۶ )

اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی آخری عمر میں آپ کو امامت کے لئے منصوب کیا جیسا کہ حدیث غدیر میں گذر چکا ہے۔

اور چونکہ وفات نبی کے بعد آپ کی زندگی میں بہت سے حادثات رونما ہوئے لیکن آپ(ع) نے اپنی کوشش اور وعظ ونصیحت کو جار ی رکھا تاکہ ہدف اسلام آگے بڑھتا رھے اور اس مقدس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رھے، اور مشکل حالات کو برداشت کرتے رھے۔اور جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کو خلافت قبول کرانا چاھاتو چنانچہ آپ نے کراہةً قبول کرلی لیکن اسی مناسبت سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

”اگر حاضرین کی بھیڑ جمع ہوکر میرے پاس نہ آتی او ریہ ثابت ہوجاتا کہ ہمارے ناصر ومددگار موجود ہیں او راگر علماء سے خدا کا عہد وپیمان نہ ہوتا کہ ظالم سے دشمنی اور مظلوم سے ہمدردی کریں تو پھر میں اس خلافت کی مھار کو اس کے سوار پر ڈال دیتا اور اس کے دوسرے کو پہلے والے کے کاسہ سے سیراب کردیتا، کیونکہ میں نے اس دنیاکو بکری کے ناک سے بہتے گندے پانی سے بھی پست پایا“۔(خطبہ شقشقیہ)

آپ کی خلافت کے دوران ناکثین (اھل جمل) قاسطین (تابع معاویہ) اورمارقین (خوارج) سے جنگ ہوئی ۔( ۵۷ )

آپ کی شھادت، مظلومانہ طریقہ سے شب ۲۱ / رمضان المبارک ۴۰ ھ( ۵۸ ) کو کوفہ میں ہوئی اور آپ کو کوفہ سے باھر ”نجف“ میں دفن کردیا گیا۔

دوسرے امام : حضرت حسن بن علی علیہ السلام

آپ کے دو مشهور ومعروف لقب ”مجتبیٰ “ او ر”زکی“ تھے۔

آپ کی ولادت باسعادت شب ۱۵/ رمضان المبارک تین ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کی تربیت آغوش پیغمبر اور قرآنی ماحول میں ہوئی۔

آپ امام ہدیٰ( ۵۹ ) وسیدی شباب اھل الجنة( ۶۰ ) میں سے ایک ہیں آپ کی ذات ان دومیں سے ایک ہے جن کے ذریعہ ذریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمباقی ہے، آپ ہی ان چار حضرات میں سے ایک ہیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاری نجران سے مباھلہ کیا او رآپ ہی پنجتن پاک کی ایک فرد ہیں جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل ہوئی۔

آپ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ سات سال زندگی گذاری اور اس کے بعد اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ تمام مشکلات ومصائب میں شریک رھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کی وفات ہوئی تو خلافت آپ کے قدموں میں آگئی اور معاویہ اور شام کے رہنے والوں کے علاوہ پورے عالم اسلام نے آپ کی بیعت کی، آپ نے دین کی خاطر اپنے لشکر کو معاویہ اور اس کے لشکر سے مقابلہ کے لئے بھیجا لیکن اس کے بعد آپ کو مشهور ومعروف صلح کرنی پڑی آپ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پہلے ہی ارشاد فرمادیا تھا:

ان هذا سید یصلح اللّٰه علی یدیه بین فئتین عظیمتین( ۶۱ )

(یہ میرا بیٹا سید وسردار ہے خداوندعالم اس کے ھاتھوں پر دو عظیم گروہ کی صلح کرائے گا)

قارئین کرام ! صلح امام حسن علیہ السلام کی تفصیل یعنی اس موقع کے حالات کیا تھے امام علیہ السلام نے کس طرح ان حالات کا مقابلہ کیا،صلح کا مقصد کیا تھا ، اس صلح کے کیا کیا بند تھے، شرطیں کیاکیا تھیں، کیا معاویہ نے ان شرائط کو پورا کیا؟ ان تمام چیزوں کو اس کتاب کی ضخامت کے پیش نظر بیان نہیں کیا جاسکتا او رجو شخص ان تمام چیزوں کی تفصیل جاننا چاھے تووہ ”صلح الحسن“نامی کتاب کا مطالعہ کرے، کیونکہ مذکورہ کتاب میں مکمل طریقہ سے بحث کی گئی ہے اور اس کتاب کے متعدد ایڈیشن بھی چھپ چکے ہیں۔

بعض معترضین نے امام حسن علیہ السلام پر یہ بھی اعتراض کیا کہ آپ کی کئی بیویا ںتھیں یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی بیویوں کی تعداد ۳۰۰ سے ۹۰۰ کے درمیان تھی۔( ۶۲ )

لیکن تاریخ کی تحقیق سے یہ اعتراض بے جا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کی سات یا آٹھ بیویاں تھیں۔( ۶۳ ) جیسا کہ یہ بات بھی کشف ہوجاتی ہے کہ آپ (ع)پنے اپنی تین بیویوں کو طلاق بھی دی ہے۔( ۶۴ )

چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی صاحب نے آپ کے مسئلہ تعدد ازواج کے بارے میں حاشیہ لگایا اور کھا:

”آپ کا تعدد ازواج سے شاید مقصد یہ رھا ہو کہ مختلف قبائل سے آپ کے سسرالی رشتہ داری ہوجائےں کیونکہ (ابن خلدون کے قول کے مطابق) حاکم وقت اپنی رشتہ داری اورخاندان کے بل بوتہ پر حکومت کرتاتھا یھی وجہ ہے کہ تمام بنی امیہ نے اس کی حکومت کی طرف داری کی، (اور اس کی حمایت میں حکومت شام کے مخالفین کا قتل وغارت کیا)

چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی اولاد کو قتل کیا جارھا ہے اور آپ کی نسل کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے کثرت ازواج اور کثرت نسل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں دیکھا۔( ۶۵ )

آپ کو (معاویہ کے حکم سے) زھر دیا گیا او رآپ مدینہ منورہ میں ۲۸/ صفر سن پچاس ہجری( ۶۶ ) کو شھید کئے گئے اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔

تیسرے امام : حضرت حسین بن علی علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب ”سید الشہداء“ ہے۔

آ پ کی ولادت باسعادت ۳/ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کی پرورش سایہ نبوت، موضع رسالت، مختلف الملائکہ اور معدن علم میں ہوئی۔

آپ بھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ہیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اھل الجنة میں سے ایک ہیں، آپ ہی کی ذات ان دو میں سے ایک ہے جن کے ذریعہ ذریت رسول باقی ہے آپ ہی ان چار حضرات میں سے ایک ہیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاریٰ نجران سے مباھلہ کیا اور آپ بھی پنجتن پاک(ع) کی ایک فرد ہیں جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل ہوئی۔

آپ(ع) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گذاری، او رآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اھل بیت (ع)پر پڑیں یھاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زھر سے شھید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔

اور جس وقت معاویہ کی موت ہوئی تو یزید اس کا وارث بنا اوراس نے سب مسلمانوں کو اپنی بیعت کے لئے بلایا، تو ان میں سے بعض لوگوں نے نالائق جوان کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔

چنانچہ آپ کی حکومت وقت سے مخالفت کے تین اہم اسباب تھے:

۱ ۔یزید کا مستحق خلافت نہ ہونا اور خلافت کی اھلیت نہ رکھنا۔

۲ ۔صلح امام حسن علیہ السلام میں جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوچکا تھا کیونکہ معاویہ کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت آپ (امام حسن (ع)) ہی کے پاس رھے گی او راگر امام حسن (ع) کے لئے کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آگیا تو ان کے بعد حق خلافت ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام کو ہوگا، لہٰذا معاویہ کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین کرنے کاکوئی حق نہیں تھا۔( ۶۷ )

اس کا مطلب یہ ہے کہ معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام در حقیقت صاحب خلافت ہوگئے تھے کیونکہ معاویہ نے اس معاہدہ پر بھی دستخط کر رکھے تھے۔

۳ ۔ اس وقت کے حالات اس طرح کے تھے کہ ایسے حالات میں قیام کرنا واجب ہوجاتا ہے کیونکہ خود آپ (ع) نے ایک حدیث میں اس طرح اشارہ کیا ہے:

انی لم اخرج بطراً و لااشراً ولامفسداً ولاظالماً وانما خرجت اطلب الصلاح فی امة جدی محمد (ص) ارید ان آمر بالمعروف وانهیٰ عن المنکر( ۶۸ )

(میں کسی فتنہ وفساد اور ظلم کے لئے نہیں نکل رھا ہوں بلکہ میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا ہوں اور میں امر بالمعروف او رنھی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں)

اسی طرح اپنے شیعوں کے نام ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:

فلعمری ما الامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط، الدائن بدین الحق، الحابس نفسه علی ذات الله( ۶۹ )

(خدا کی قسم امام کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ قرآن کے مطابق حکم کرے، عدالت قائم کرے، دین حق کی طرف دعوت دے اور پروردگار کے سامنے اپنے نفس کا حساب کرے)

قارئین کرام ! اس اسباب کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں کا نظریہ باطل ہوجاتا ہے جن کی نظر میں امام حسین علیہ السلام خطاکار ہیں جیسے ابوبکر بن عربی وغیرہ ،کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ امام حسین کے لئے یزید کی بیعت کرکے خاموش ہوجانا بہتر تھا۔( ۷۰ )

قارئین کرام ! آپ حضرات غور تو کریں کہ کیسے امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بہتر تھا کہ یزید کی بیعت کرکے خاموش ہوجاتے جبکہ امام حسین علیہ السلام اپنے اوپر واجب دیکھ رھے تھے کہ قیام کریں اور خود معاویہ نے اس عہد نامہ پر دستخط کررکھے تھے جس میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت نہ کرنے اور سکوت اختیار نہ کرنے کا حق تھا۔

لہٰذا حضرت امام حسین علیہ السلام تاریخ کے اوراق پر فاتح اکبر کے نام سے مشهور ہیں اگرچہ کربلا کے میدان میں ظاہری طور پر آپ کو اور آپ کے لشکر کو تہہ تیغ کردیا گیا جبکہ ان کے قاتلوں پر ہمیشہ تاریخ لعنت کرتی چلی آرھی ہے، اگرچہ انھوں نے اپنی جنگ میں غلبہ حاصل کیا،بلکہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جس میں جنگ میں(ظاہری) غلبہ پانے والوں پر دنیا نے اس طرح لعنت وملامت کی ہو جس طرح قاتلین امام حسین علیہ السلام پر کی ہے( ۷۱ )

آپ کی شھادت ۱۰/ محرم ۶۱ ھ کو عصر کے وقت کربلا میں ہوئی( ۷۲ ) او رآپ کربلائے معلی میں دفن ہیں۔

چھوتھے امام: حضرت زین العابدین علیہ السلام

آپ کے دومشهور لقب ہیں ”سجاد“ اور ”زین العابدین“ ،آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں سن اڑتیس ہجری کو ہوئی،آپ کا اس وقت بچپن تھا جس وقت آپ کے جد امیر المومنین علیہ السلام پر مصائب پڑے اور آپ کے چچا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ سازش کی گئی جس کے بعد آ پ کو معاویہ سے صلح کرنا پڑی، (جیسا کہ اشارہ گذر چکا ہے)

اور جس وقت واقعہ کربلا نمودار ہوا اس وقت آپ کی جوانی کا عالم تھا آپ تمام مصائب کربلا میں شریک تھے یھاں تک کہ آپ کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا لیکن آپ اور آپ کی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیھا نے یزید کے مقصد کو ناکام بنادیا کیونکہ یزید لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک خارجی نے حکومت وقت پر خروج کیا تھا لہٰذا اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا (لیکن جناب سید سجاد اور جناب زینب (سلام اللہ علیہما) کے خطبوں کی وجہ سے یزید کا سارا ہدف کافور ہوگیا،چنانچہ امام علیہ السلام کی زندگی میں واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ والوں نے یزیدی ظلم وجور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ”واقعہ حرہ“ پیش آیا جس میں یزید نے اپنی فوج کے لئے اھل مدینہ کے مال ودولت اور ناموس کو حلال کردیا تھا اور انھوں نے ظلم وبربریت کا وہ دردناک کھیل کھیلا کہ تاریخ شرمندہ ہے، اس واقعہ میں مروان بن حکم جیسے آپ کے دشمن کو بھی سوائے آپ کے در دولت کے علاوہ کھیں پناہ نہ ملی ۔( ۷۳ )

اور ان لوگوں کو اس وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی تاکہ تاریخ اور لوگوں کے لئے ایک عظیم درس مل جائے کہ الٰھی امام کا کردار کیسا ہوتا ہے۔امام علیہ السلام نے حکومت وقت کے ظلم اور اھل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کو اپنی دعاؤں میں بیان کرنا شروع کیا اور یہ دعائیں لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیں، چنانچہ امام علیہ السلام کی یہ دعائیں مومنین میں رائج ہوتی چلیں گئیں ان دعاؤں میں حاکم وقت کی حقیقت اور اس کے ظلم وجور کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور لوگوں کے ذہن کو ان سازشوں کی طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت تعلیمات دین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مقام اولیاء اللہ واصفیاء اللہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے نیز حلال وحرام میں تحریف کرناچاہتی ہے اور سنت رسول کو نابود کرنا چاہتی ہے۔( ۷۴ )

چنانچہ امام علیہ السلام نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ کیا ، امام (ع) کی ان دعاو ں کے مجموعہ کو ”صحیفہ سجادیہ“ کھا جاتا ہے امام کی یہ عظیم میراث ہمارے بلکہ ہر زمانہ کے لئے حقیقت کو واضح کردیتی ہے، یہ عظیم کتاب مختلف تراجم کے ساتھ سیکڑوں بار چھپ چکی ہے۔

امام علیہ السلام کی عظیم میراث میں سے ”حقوق“ نامی رسالہ بھی ہے جس میں تمام خاص وعام حقوق بیان کئے گئے ہیں جس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ عوام الناس کے حقوق کیا ہیں اور خدا کے حقوق کیا کیا ہیں انسان کو اپنے اعضاء وجوارح پر کیا حق ہے اور کیا حق نہیں ہے، چنانچہ یہ رسالہ بھی متعدد بارطبع ہوچکا ہے۔ امام سجاد علیہ السلام کی شھادت ۹۵ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کو ”جنت البقیع“ میں دفن کیا گیا۔( ۷۵ )

پانچویں امام : حضرت محمد باقر علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب ”الباقر“ ہے او رآپ کو یہ لقب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے عطا فرمایا تھا۔واقعہ کربلا میں آپ کا عہد طفولیت تھااور اپنی جوانی میں ان تمام مشکلات ومصائب میں شریک تھے جو آپ کے پدر بزرگوار امام سجاد علیہ السلام اور دوسرے علویوں پر پڑے۔جب آپ اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے تو آپ حکومت وقت سے بالکل جدا ہوگئے اور کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھا چنانچہ آپ نے اپنا سارا وقت علوم دینی اور حقائق اسلام کو بیان کرنے میں صرف کردیا اور گذشتہ اموی حکومت کے زمانہ میں فقہ وحدیث جو اموی دور میںغبارآلود ہوگئے تھے ان کو صاف کردیا۔

در حالیکہ آپ کا حکام زمانہ سے بالکل رابطہ نہیں تھا لیکن جب بھی انھیں کوئی مشکل اور پریشانی ہوتی تھی توان مشکلات کو حل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاصر ہوتے تھے، اور امام علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ اُن کی مشکلات کو حل فرما دیا کردیتے تھے اور ان کو وعظ ونصیحت فرماتے تھے، اسلام اور ارکان اسلامی کی حفاظت فرماتے تھے۔

جیسا کہ بعض مورخین نے لکھا ہے کہ عبد الملک بن مروان کا امام علیہ السلام سے مشورہ کے بعد ان تمام ظروف او رکپڑوں کو بند کرادیاجن پر مصر کے بعض عیسائیوں نے سریانی زبان میں اپنا عقیدہ ”اب، ابن اور روح القدس“ چھاپ کر بازاروں میں روانہ کیا تھا۔

اسی طریقہ سے جب خلیفہ اور بادشاہ روم کے درمیان گفتگو ہوئی اور خلیفہ بادشاہ روم کو کوئی مستحکم جواب نہ دے سکا ، چنانچہ اس نے خلیفہ کی طرف سے بے توجھی کی خاطر سخت رویہ اختیار کیا اور اس نے درہم ودینار پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے لئے نازیبا الفاظ لکھ کر مسلمانوں کے بازار میں بھیجے کیونکہ اس زمانہ میں درہم ودینا ر روم میں بنائے جاتے تھے۔

جب عبد الملک نے یہ حال دیکھا تو امام علیہ السلام سے مشورہ کرنے پر مجبور ہوگیا اور اس سلسلہ میں آپ کوشام دعوت دی چنانچہ امام علیہ السلام نے مصلحت کے تحت اس دعوت کو قبول کیا اور آپ شام تشریف لے گئے اور جب عبد الملک نے آپ کے سامنے مشکل بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ صنعت گروں کو بلایا جائے، خلیفہ نے ان سب کو حاضر کرلیا تب امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ کس طرح درہم ودینار کا سانچہ بنائیں، کس طرح ان کی مقدار معین کی جائے اور کس طرح ان پر کچھ تحریر کیا جائے،چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طریقہ سے مسلمانوں کو رسوائی سے بچالیا اور بادشاہ روم ناکام ہوگیا( ۷۶ )

امام علیہ السلام کے بے شمار شاگرد تھے آپ کی میراث وہ گرانبھا ذخیرہ ہے جس سے تفسیر، فقہ، حدیث، کلام اور تاریخی کتب بھری ہیں، آپ کی شھادت ذی الحجہ ۱۱۴ ھ( ۷۷ ) مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

چھٹے امام : حضرت جعفر صادق علیہ السلام

آپ کا مشهور ومعروف لقب ”صادق “ھے۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کے زمانے میں اموی سلطنت کمزور ہوگئی یھاں تک کہ بالکل ہی اس کا خاتمہ ہوگیا اس کے بعد عباسی حکومت تشکیل پائی چنانچہ عباسی حکومت اپنے نئے منصوبوں کو تیار کرنے میں مشغول تھی لہٰذا امام علیہ السلام نے موقع غنیمت شمار کیا اور وسیع پیمانہ پر تعلیم وتربیت میں مشغول ہوگئے، آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ایسے ایسے شاگرد جو بعد میں اسلام کی مشهور ومعروف شخصیتیں بن گئیں۔

آپ(ع) کے شاگرد اور آپ سے احادیث روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں کی زبان پر شیعیت کے بجائے ”مذھب جعفری“ گردش کرنے لگا، اور اس مذھب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کرنے لگے جبکہ تشیع تمام اھل بیت (ع)سے منسوب ہے اور کسی ایک امام سے مخصوص نہیں ہے۔

امام علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں کس قدر دینی خدمات انجام دیں ہیں اس کے لئے کافی ہے کہ ہم بعض تاریخوں میں آپ کے شاگردوں اور رواة کی تعداد کو ملاحظہ کریں جن کی تعدادچار ہزارا تک بتائی جاتی ہے۔( ۷۸ )

اسی طرح ابو الحسن وشاء کہتے ہیں کہ :

”میں نے اس مسجد (کوفہ) میں ۹۰۰ / راویوں کو دیکھا جو کہتے تھے: ”حدثنی جعفر بن محمد(ع)“ (مجھ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا)( ۷۹ )

اسی طرح ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی بعض باقی باندہ علمی میراث کو دیکھیں اور امام علیہ السلام کی عظمت وبلندی کا اندازہ لگائیں۔

اگر آپ کی تفسیر قرآن، علم فقہ، فلسفہ اور علم کلام وغیرہ کو ایک ساتھ جمع کیا جائے تو ایک بے نظیر عظیم الشان دائرة المعارف بن جائے گا۔

آ پ کے علمی آثار میں سے :

طبی قوانین اور صحت سے متعلق دستور جن کو دو کتابوں میں جمع کیا گیا ہے۔

”توحید المفضل “ اور ”الاھلیلجہ “( ۸۰ )

ان دونوں کتابوں میں مسئلہ ”عدوی “ (جس کے ذریعہ ”مکروب“ " Microbe " کی شناخت ہوتی ہے) کے بارے میں مکمل طریقہ سے وضاحت کی گئی ہے۔

اسی طرح علم الامراض کے بارے میں مکمل طور پروضاحت کی گئی ہے، امام علیہ السلام نے سب سے پہلے دورة الدمویة تھر ما میٹر" Thermometer "کشف کیا اس کے بعد کھیں ڈاکٹر ”ھارفی بقرون“ نے اس طرح اشارہ کیا ہے۔

آپ ہی نے جابر بن حیان کو علم کیمیا ( Chemistry )کی تعلیم دی اسی وجہ سے آپ کو علم کیمیا کا موجد کھا جاتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر محمد یحيٰ الھاشمی کہتے ہیں۔( ۸۱ )

امام علیہ السلام کے طریقہ کار کے بارے میں استاد ”ڈونالڈسن“ نے تدریس کے طریقہ کو بیا ن کرتے ہوئے کھاھے:

”آپ کی روش تدریس سقراطی تھی آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ ہمیشہ بحث ومباحثہ کرتے تھے اور خالص او رسادہ موضوعات سے اپنی گفتگو کاآغاز فرماکر دقیق، علمی ، پیچیدہ اور مشکل موضوعات پر بحث ختم فرماتے تھے۔( ۸۲ )

آپ کی شھادت ۱۴۸ ھ( ۸۳ ) کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کوبھی جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

ساتویں امام : حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام

آپ کے دو مشهور لقب ”کاظم“ اور ”باب الحوائج“تھے ۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۸ ھ کو مقام ”ابواء“ (مدینہ کے قریب ایک مقام)میں ہوئی۔

آپ کی زندگی بنی عباس سلطنت کے زیر اثر مشکلات سے دوچار رھی ہے۔

آپ کی زندگی کس قید خانہ میں گذری ہے اس کا بیان کرنا مشکل ہے ھارون الرشید آپ کا سخت مخالف تھا اس کا سبب بھی بعض مورخین نے یہ بیان کیا ہے کہ جس وقت ھارون الرشید مدینہ منورہ میں داخل ہو کرمسجد النبی میں زیارت کے لئے گیا اور چونکہ اس نے قبر نبوی پر توجہ دی تو مدینہ کے زعماء اور سردار اس کو تحفے دینے کے لئے گئے او رجب ھارون قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر حاضر ہوا تو اس طرح سلام کیا:

السلام علیک یا ابن العم

(اے میرے چچازاد بھائی تم پر سلام ہو)

اس کا یہ سلام لوگوں کو فریب دینے کے لئے تھا تاکہ لوگ اس قریبی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کو خلافت کا مستحق مان لیں، لیکن جب امام علیہ السلام نے اس مکر وفریب کو دیکھا تو اس کو بے نقاب کردیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو مخاطب کرکے کھا:

السلام علیک یا ابه

(اے پدر بزرگوار تم پر سلام ہو)

یہ سن کر ھارون الرشید کا سر شرم کی وجہ سے جھک گیا اور اس پر کینہ وکدورت کے آثار ظاہر ہونے لگے۔

چنانچہ اس کے بعد سے امام علیہ السلام اور ھارون الرشید میں بہت سے مناظرات ہوئے کہ کون رسول اللہ سے زیادہ قریب ہے، ھارون الرشید کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی کی اولاد ”ذریت“ اور اس کے اولاد نہیں ہوتی۔ کیونکہ ذریت اور ابناء صرف باپ کے ذریعہ منسوب ہوتے ہیں ماں کے ذریعہ نھیں۔

لیکن امام علیہ السلام نے ھارون الرشید کو وہ دندان شکن جوابات دئے جن کی وجہ سے اس کو منھ کی کھانی پڑی، ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ہے:

۱ ۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماب تک زندہ ہوتے تو تیری بیٹی سے نکاح کرسکتے تھے لیکن میری بیٹی سے ہر گز یہ قصد نہ کرتے۔

۲ ۔خداوندعالم کا ارشاد ہے:

( فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْهِ مِنْ بَعْدِ مَاجَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَاءَ نَا وَاٴَبْنَاءَ کُمْ ) ( ۸۴ )

”پھر جب تمھارے پاس علم (قرآن) آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) جناب عیسیٰ (ع) کے بارے میں حجت کرے تو کهو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔۔۔۔“

اور اس بات کو تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آپ نے مباھلہ میں بیٹوں کی جگہ امام حسن وامام حسین علیہما السلام کو لیا جو آپ کی بیٹی کی اولاد ہیں اور قرآن کریم نے ان دونوں کو ابناء (بیٹے) کھا۔

قرآن مجید نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی زبانی نقل کیا:

( وَمِنْ ذُرِّیَّتِه دَاو دَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسیٰ وَهَارُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیَ الْمُحْسِنِیْنَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیيٰ وَعِیْسٰي ) ( ۸۵ )

”اور ان ہی (ابراھیم ) کی اولاد سے داو د ، سلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون (سب کی ہم نے ہدایت کی) اور نیکوکاروں کو ہم ایسا ہی صلہ فرماتے ہیں اور زکریا اور یحيٰ اور عیسیٰ(ع)۔۔۔)

اور جناب عیسیٰ (ع)بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن قرآن کریم نے ان کو ماں کی طرف سے ذریت ابراھیم علیہ السلام میں شمار کیا اس کامطلب یہ ہے کہ انسان ماں کی طرف سے ذریت میں شامل ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم اس بات کو صاف طور پر بیان کیا ہے۔

یہ تمام چیزیں سن کر ھارون الرشید شرمندہ ہوگیا لیکن اس کے دل میں بھرا بغض وحسد ظاہر ہونے لگا جس کی بنا پر امام علیہ السلام پر مصائب پڑنے لگے اور آپ کو قید خانہ میں بھیج دیا گیا اور اس پر بھی ھارون کو سکون نہ ملا بلکہ امام کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں بھیج دیتا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو تعلیم وتربیت کا موقع کم ملا ہے۔

لیکن پھر بھی آپ نے اپنی آزاد زندگی میں وہ عظیم علمی آثار چھوڑے ہیں جو اسلام کے عظیم منابع میں شمار ہوتے ہیں۔

آپ(ع) کی شھادت شب ۲۵ رجب ۱۸۳ ھ( ۸۶ ) کو ہوئی اور آپ کو قریش کے قبرستان میں دفن کیا گیا جس کو آج کل کاظمیہ (کاظمین) کھا جاتا ہے جو امام علیہ السلام سے منسوب ہے)