اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27056
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27056 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

آٹھویں امام : حضرت علی رضا علیہ السلام

آپ (ع)کا مشهور لقب ”رضا“ ہے۔

آ پ (ع)کی ولادت باسعادت ۱۱/ ذیقعدہ ۱۴۸ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ (ع)کے زمانہ میںسب سے پہلاعباسی خلیفہ بنا او رآپ اپنے پدربزرگوار پر پڑنے والی تمام مشکلات میں شریک تھے، جس وقت مامون کو خلافت ملی تو اسلامی علاقوں میں بہت سی اہم مشکلات پیدا ہوگئیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

امین ومامون کے درمیان ہوئی جنگ کے نتیجہ میں حکومت کی ساکھ کمزور پڑگئی اور چونکہ مامون نے ایران کو دار السلطنت بنالیا تھا لہٰذا عباسی افراد اور ان کے طرفدار برائی کیا کرتے تھے اور اسی طرح علویوں کی طرف سے مکہ مکرمہ، یمن، کوفہ، بصرہ اور خراسان سے قیام ہوئے۔

چنانچہ ان تمام مشکلات کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ مامون پریشان رہتا تھاچنانچہ اس کو کوئی چارہ کار دکھائی نہ دیا مگر یہ کہ امام علیہ السلام کو ”مرو“ (خراسان کا ایک علاقہ) میں بلالیا اور جب آپ سے ملاقات ہوئی تو خلافت آپ کے سپرد کرنے کی پیش کش کی، (لیکن امام علیہ السلام نے قبول نہیں کی) اس کے بعد مامون نے ولی عہدی کے لئے بہت اصرار کیا (چنانچہ امام علیہ السلام نے مجبوراً ومصلحتاً قبول کرلیا)

مامون اس کام کے ذریعہ موجودہ حالات سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا خصوصاً عالم اسلام کے بعض مناطق میں حکومت کی مخالفت میں قیام ہوچکے تھے۔لہٰذا اس حکومت میں امام رضا علیہ السلام کی شرکت (اگرچہ برائے نام ہی کیوں نہ ہو) بھڑکے ہوئے آگ کے شعلوں کو خاموش کرنے میں مددگار ثابت ہوئی، کیونکہ ان مناطق میں حب آل علی پائی جاتی تھی اور چونکہ امام علیہ السلام اولاد علی میں سے تھے لہٰذا ان کا قیام ختم ہوگیا۔

امام علیہ السلام جانتے تھے کہ مامون کا اصرار صرف ایک چال ہے کیونکہ یھی مامون مستقبل میں میرے خلاف ایک زبردست مہم چلائے گا یا بعض علویوں کے ضمیروں کو خرید کر اس تحریک کا علمدار بنادے گا۔

لیکن امام علیہ السلام اس علم کے باوجود یہ احساس کررھے تھے کہ اگر اس پیش کش (ولی عہدی) کو قبول نہ کیا تو باعث عسر وحرج ہوگا کیونکہ اگر آپ قبول نہ کرتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ آپ اصلاً مستحق خلافت نہیں ہیں یا خلافت کی مھار سنبھالنے کی لیاقت نہیں رکھتے۔

اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ولی عہدی کو قبول کرلیا تاکہ مامون کا امتحان لیا جاسکے اور اس کو آزماسکیں۔

چنانچہ امام علیہ السلام رسمی طور رپر ولی عہد ہوگئے۔

اس کے بعد بہت سے واقعات رونما ہوئے اور امام علیہ السلام کی وفات ایسے حالات میں ہوئی جن کو دیکھ کر انسان شک میں پڑجاتا ہے (اور وہ یہ کہ آپ کی شھادت مامون کے ذریعہ ہوئی ہے) لیکن ان تمام تفصیلات کو یھاں ذکر نہیں کیا جاسکتا۔

امام علیہ السلام کے علمی آثار وہ عظیم مجموعہ ہے جن کا اسلامی منابع میں شمار ہوتا ہے ان میں سے ایک رسالہ جس کو مامون کے لئے لکھا تھا جس کا نام ”الذھبیہ“ تھا جو طبی مسائل میں تھا اور ”طب الرضا“ کے نام سے مشهور ہوا، اس رسالہ کی شرح ڈاکٹر زینی صاحب نے کی ہے، اور اس رسالہ کے مطالب او رعلم طب کے درمیان مقایسہ کیا ہے،چند سال قبل یہ رسالہ بغداد سے شایع ہوچکا ہے۔

آپ کی شھادت صفر ۳۰۳ ھ( ۸۷ ) کو طوس میں ہوئی اور طوس (خراسان) میں دفن ہوئے ہیں، آج آپ کے مدفن کو ”مشہد“ کھا جاتا ہے۔

نویں امام : حضرت محمدتقی علیہ السلام

آپ کے دو مشهور لقب تھے ”جواد “ اور ”تقی“ ،آپ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک ۱۹۵ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ نے خلیفہ مامون کے زمانہ میں اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ مامون جو اھل بیت (ع) اور ان کی ولایت کا جھوٹا مظاہرہ کررھا تھا۔

اور جس وقت امام رضا علیہ السلام کی وفات واقع ہوئی تو لوگوں کی زبان پر امام علیہ السلام کے قتل کا الزام مامون پر لگایا جارھا تھا چنانچہ مامون نے اس افواہ کو جھوٹا ثابت کرنے اور عملی طور پر دلیل قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے امام تقی علیہ السلام سے محبت کا اظھار کیا او راپنی بیٹی امّ الفضل سے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ دونوں خاندانوںمیں جدید رشتہ داری کی بنا پر محبت پیدا ہوجائے، لیکن اس کام کے لئے دوسرے عباسیوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور اصرار کیا کہ اس شادی سے صرف نظر کرے او ریہ مطالبہ کیا کہ علویوں کے ساتھ گذشتہ خلفاء کا رویہ اختیار کرے یعنی ان کے ساتھ جنگ ودشمنی کی جائے،لیکن مامون نے ان کی یہ بات نہ سنی او ران کو جنگ ودشمنی سے روکا کیونکہ اسے آل علی (ع) سے قطع تعلق کی کوئی خاص وجہ نہیں دکھائی دی اور ان کے سامنے وضاحت کی کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی عاطفہ او رمحبت کی بنا پر نہیں کررھا ہوں بلکہ امام علیہ السلام کی شخصیت وفضیلت تمام علماء اور ماھرین پر واضح ہے درحالیکہ ان کاسن بھی کم ہے۔

لیکن جب ان لوگوں نے مامون کو اپنے فیصلہ پر مصمم پایا تو کھا کہ امام علیہ السلام کو مزید علم وفقہ میں مھارت حاصل کرنے دو اس وقت مامون نے کھا: ”یہ اھل بیت (ع) کی ایک فرد ہیں ان کا علم خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اگر تم نہیں مانتے تو ان کا امتحان کرلو تاکہ تم پر بھی حقیقت واضح ہوجائے۔“

چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ امام علیہ السلام کا امتحان لیا جائے اور ان میں سے بعض لوگ امتحان کے لئے تیار ہوگئے، اور قاضی القضاة یحيٰ بن اکثم کو آمادہ کیا کہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کرکے شکست دیدے۔، چنانچہ امتحان کی تاریخ پهونچ گئی اور امام ویحيٰ بن اکثم کے درمیان مناظرہ ہوا جس کے نتیجہ میں یحيٰ بن اکثم کو منھ کی کھانی پڑی او رامام علیہ السلام کی شخصیت فقہ اسلامی کے میدان میں روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی،اس مناظرہ میں امام علیہ السلام کی قابلیت کو دیکھ کر مامون نے اپنی لڑکی سے شادی کردی اور امام ومامون کے درمیان تعلقات بہتر ہوگئے۔(ظاہراً)

لیکن جب مامون کے بعد معتصم کو خلافت ملی تو اس نے امام علیہ السلام کو بغداد بلالیا اور آپ کو ایک مخصوص گھر میں رکھا گیا لیکن آپ کی وفات ان مبہم حالات میں ہوئی جن کی بنا پر معتصم پر الزام لگایا جانے لگا کہ اس نے ام الفضل کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زھر پلایا۔

اور چونکہ امام علیہ السلام معتصم کے زیر نظر تھے لہٰذا بغداد کے ان حالات میں بھی امام علیہ السلام نے وہ علمی آثار چھوڑے جن سے مشهور اسلامی کتابیں منور ہیں۔

آپ کی شھادت ذی الحجہ ۲۲۰ ھ( ۸۸ ) میں ہوئی او رآ پ کو آپ کے دادا کے پاس ”کاظمیہ“ (کاظمین) میں دفن کیا گیا۔

دسویں امام : حضرت علی نقی علیہ السلام

آپ ”نقی“ او ر”ھادی“ کے لقب سے مشهور تھے۔

آپ کی ولادت باسعادت ۱۵/ ذی الحجہ ۲۱۲ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کی کچھ زندگی معتصم کے زمانہ میں گذری اور یھی وہ زمانہ تھا جس میں ”سرمن رائے“ تشکیل پائی کیونکہ اس زمانہ میں ترکوں او رممالک نے حکومت اسلامی کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کردی تھیں لہٰذا معتصم ان مشکلوںکا مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھا۔

اس کے بعد واثق کا زمانہ آیا یہ وہ زمانہ تھا جس میں امام علیہ السلام او رخلیفہ کے درمیان اچھے تعلقات رھے ہیں۔

اس کے بعد متوکل کا زمانہ آیا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں اھل بیت (ع) سے علی الاعلان دشمنی او رمقابلہ کیا جانے لگا اور لوگوں کو ان سے منحرف کیاجانے لگا۔

اور جب مدینہ میں متوکل کے والی کو امام علیہ السلام کی شان وشوکت کو دیکھ کر اپنی حکومت کے ڈگمگانے کا خوف لاحق ہوا تو اس نے متوکل کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امام علیہ السلام تیری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ہیں۔

جب ان تقاریر کا سلسلہ بڑھنے لگا تو متوکل نے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر سرمن رائے بلایا تاکہ آپ او رآپ کے اھل بیت وھاں پر رھیں تاکہ لوگوں کا رجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے اور والی مدینہ کو لکھا کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کچھ محافظین بھیجے تاکہ امام علیہ السلام کے احترام واکرام کا مزید مظاہرہ ہوسکے۔

چنانچہ امام علیہ السلام نے ان حالات کو دیکھ کر سفر کا ارادہ کرلیا اور سرمن رائے جانے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا اور جب امام علیہ السلام متوکل کے تیار کردہ مکان میں پهونچے، چند روز رہنے کے بعد آپ نے اس کا مکان چھوڑ دیا اور اپنے مال سے ایک مکان خریدا تاکہ خلیفہ کے مہمان بن کر نہ رھیں ، یھی وہ مکان تھا جس میں آپ کو دفن بھی کیا گیا، جو آج بھی لاکھوں افراد کی زیات گاہ ہے۔

امام علیہ السلام نے مجبوراً سرمن رائے میںقیام فرمایا، یھاں تک کہ آپ کی شھادت واقع ہوئی کیونکہ ہمیشہ آپ کے خلاف سازش ہوتی رھی او رآپ کو ہر طرح کی اذیت دی جانے لگی،اس جرم میں کہ یہ ہماری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے او رہماری حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔

ان تمام حالات کے بعد بھی خلیفہ کو جب بھی کوئی شرعی مشکل پیش آتی تھی تو وہ امام علیہ السلام کے پاس آکر پنا ہ لیتا تھا کیونکہ خلیفہ میں مسائل شرعی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی او رنہ ہی وہ شرعی سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔

امام علیہ السلام کے علمی آثار نفیس وقیمتی ہیں جن میں ”جبر وتفویض“ کے موضوع پر بہترین رسالہ ہے جس میں مسئلہ کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی اور اس میں موجود ہ پیچیدگیوں کا مکمل حل بیان کیا گیا ہے خلاصہ یہ کہ اس مسئلہ میں مکمل وضاحت کی گئی ہے او رآپ کے جد امجد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول: ”لا جبر ولا تفویض ، بل امر بین الامرین“( ۸۹ ) کی مکمل شرح کی گئی ہے۔

آپ کی شھادت رجب ۲۵۴ ھ( ۹۰ ) کو سامرہ میں ہوئی اور آپ کو اپنے ہی گھر میں دفن کیا گیا جو ہزاروں مومنین کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

گیارهویں امام : حضرت حسن عسکری علیہ السلام

آپ ”عسکری “ کے نام سے مشهور تھے ، عسکری ”عسکر“ کی طرف منسوب ہے جوسرمن رائے کے ناموں میں سے ایک نام تھا۔

آپ کی ولادت باسعا دت ربیع الاول ۲۳۲ ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکام کا زمانہ تھا:

۱ ۔ خلیفہ المعتز ؛ اس زمانہ میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نہیں تھی کیونکہ اس زمانہ میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں ،اس کی حکومت میں تباہ کاری وخرابکاری کر رکھی تھی اورخلیفہ ان مشکلات سے دست وپنجہ نرم کر رھا تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول ہونا پڑا۔

۲ ۔ خلیفہ مہتدیٰ؛ اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص وسرور سے دور تھا اور نیکی وخیر کا مظاہر ہ کرتا تھا۔

۳ ۔ خلیفہ معتمد ؛ یہ خلیفہ اھل بیت (ع)کا سخت دشمن تھا اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانہ میں رکھا لیکن مجبور ہوکر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لئے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاہر کرنے کے لئے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ہیں۔

جس وقت امام علیہ السلام کی وفات کی خبر ملی تو وہ نگران تھا کیونکہ اس وقت ”محمد“ مہدی بن امام عسکری علیہما السلام کی بحث شروع ہوچکی تھی اور اس سلسلہ میں امام مہدی علیہ السلام کے چچاحعفر بن علی میں حسد وکینہ بھرا ہوا تھا او رآپ کے مال ومنال او رآپ کے مقام کی طرف چشم طمع لگائے ہوئے تھا، اور اپنے بھتیجے (امام مہدی (ع)) کو تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن یہ اور خلیفہ دونوں اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئے اور امام مہدی دشمنوں کی نظروں سے مخفی رھے اور خداوندعالم نے ان کو حاسدوں کے حسد سے نجات دی۔

حالانکہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ پُر آشوب تھا لیکن پھر بھی راویوںنے بہت سی روایات نقل کی ہیں جو علم ومعرفت میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔

آپ کی شھادت ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ھ( ۹۱ ) کو سرمن رائے میں ہوئی اور آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے جوار میں (آپ کے ہی مکان میں)دفن کیا گیا۔

بارهویں امام :حضرت محمد بن الحسن (مہدی منتظر (عج)

آپ کے ”مہدی“ اور ”القائم المنتظر“ دو مشهور ومعروف لقب ہیں ۔

آپ کی ولادت با سعادت ۱۵/ شعبان المعظم ۲۵۵ ھ کو فجر کے وقت سامراء میں ہوئی۔

جب حکومت وقت نے آ پ کے پدربزرگوار کی وفات کے وقت آپ کے بارے میں سنا تو آپ کو تلاش کیا گیا، لیکن آپ ان کی نظروں سے پوشیدہ رھے۔

آپ نے غیبت صغریٰ میں کچھ مخصوص افراد منتخب کئے جو شیعوں کے مسائل او رسوالات کو امام سے جاکر بیان کرتے او ران کے جواب لاتے تھے۔

اور جب اس غیبت میں بھی خطرہ در پیش آیا تو پھر ملاقات کا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا اور آپ مکمل طور پر پوشیدہ ہوگئے یھاں تک کہ آپ کے نائیبین بھی نہ مل سکے، (اور امام علیہ السلام آج تک مخفی ہیں)

انشاء اللہ ایک روز آئے گا جب خداوندعالم آپ کو ظهور کا حکم دے گا او ر آپ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ آپ کے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بہت سی احادیث میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے؛مثلاً:

ان علیا وصیي ومن ولده القائم المنتظر المهدی الذی یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً وظلماً

(بے شک علی میرے وصی ہیں اور ان ہی کی اولاد میں سے مہدی منتظر ہوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)

ایضاً:

ابشروا بالمهدی رجل من قریش من عترتی تخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت ظلماً وجوراً( ۹۲ )

(اے لوگو ! میں تم کو مہدی کے بارے میں بشارت دیتا ہوں جو قریش سے ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف اور لغزشیں پائی جائیں اسی وقت ان کا ظهور ہوگا اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)

قارئین کرام ! چونکہ موضوع امام مہدی ایک اہم موضوع ہے لہٰذا اس سلسلہ میں ایک مستقل باب میں بحث کرتے ہیں اور اس باب میں تین مرحلوں میں بحث کریں گے:

۱ ۔ نظریہ ”مہدویت“ او راس کااسلام سے رابطہ۔

۲ ۔مسلمانوں کے درمیان متفقہ احادیث نبوی میں امام مہدی کی شناخت او رتعین۔

۳ ۔ امکانِ غیبت اور اس کے دلائل۔

لہٰذا اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات کے لئے آئندہ باب میں رجوع فرمائیں۔

قارئین کرام ! بحث ”امامت“ عقل وروایات کی روشنی میں آپ نے ملاحظہ فرمائی اور امامت کے سلسلہ میں ”احادیث“ صاف اور واضح طور پر ملاحظہ کیں۔

نیز ائمہ (ع)کی پاک وپاکیزہ زندگی، سیرت اور علمی عظیم آثار پر بھی توجہ فرمائی۔ کیا ان سب حقائق کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ شیعہ یهودیوں کے پیروکار ہیں اوردائرہ اسلام سے خارج ہیں؟! اسی طرح گذشتہ وضاحت کے بعد بھی کیا کوئی یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ شیعیت کا ظهور خلافت عثمان بن عفان کے زمانہ میں ہوا، اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے قیام کیا۔

کیا عبد اللہ بن سبا کو شیعیت کا مو سس کھا جاسکتا ہے کہ اس نے اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کی؟!

اور کیا تاریخ میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ہے جس کی طرف شیعیت کی ایجاد کی نسبت دی جائے؟!

اب ہم اس سلسلہ میں مورخین کے نظریات قلمبند کرتے ہیں:

۱ ۔ ڈاکٹر برنارڈلویس نے عبد اللہ بن سبا کا وجود صرف خیالی بتایا ہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ مختلف زمانے میں ابن سبا کی طرف نسبت دینا متاخرین علماء کی من گھڑت کھانی ہے۔( ۹۳ )

۲ ۔ڈاکٹر طٰہ حسین صاحب نے ابن سبا کی طرف منسوب تمام واقعات کو نا قابل قبول مانا ہے اور مورخین کی روایات پر حاشیہ لگاتے ہوئے کھا:

”شیعوں پر یہ سب تہمتیں ،شیعہ مخالفین اور شیعہ دشمنوں نے لگائی ہیں“۔( ۹۴ )

۳ ۔ ڈاکٹر جواد علی صاحب نے عبد اللہ بن سبا کی تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا ہے کیونکہ اس کی تمام روایتیں سیف بن عمرھی سے ہیں اور اس کے علاوہ کسی نے بھی بیان نہیں کی جبکہ سیف بن عمر خود بھی اور اس کی روایات بھی غیر قابل قبول ہیں۔( ۹۵ )

۴ ۔ ڈاکٹر علی الوردی صاحب کا نظریہ ہے کہ اموی حکّام نے جلیل القدر صحابی جناب عمار بن یاسر کو عبد اللہ بن سبا کا لقب دیا ہے اور اس پر بہت سے قرائن وشواہد ہیں۔( ۹۶ )

۵ استاد احمد عباسی صالح صاحب کی نظر میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ایک افسانہ ہے، جیسا کہ موصوف اپنی گفتگو کے دوران فرماتے ہیں:

”اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن سبا ایک خرافی تصور کا نام ہے اور لوگوں نے اس خرافی شخص کا وجوداس لئے تصور کیاکہ اس کی طرف جو کچھ بھی نسبت دینا چاھیں وہ دے سکیں، چنانچہ عبد اللہ بن سبا کے جو واقعات موجود ہیں وہ سب متاخرین کی من گھڑت کھانیاں ہیں کیونکہ قدیمی منابع اور کتابوں میں اس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں ہے چہ جائیکہ اس کے نظریات کا کوئی وجود بھی ہو“( ۹۷ )

پس خلاصہ یہ ہوا کہ عبد اللہ بن سبا صرف ایک افسانہ ہے جس کا ذکر تاریخ میں نہیں ملتا تو پھر حقیقت میں شیعیت کی بنیاد رکھنے والا کون ہے؟ اور کس نے سب سے پہلے اس لفظ کو استعمال کیا؟

جواب :

سب سے پہلے اس لفظ کو حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے استعمال کیاجیسا کہ طبری اور حافظ ابن حجر نے اپنے مشهور حفاظ سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّ الَّذِینَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُوْلٰئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ( ۹۸ )

”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے ہیں یھی لوگ بہترین خلائق ہیں“

اور اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

”ہم انت وشیعتک“( ۹۹ ) (وہ آپ او رآپ کے شیعہ ہیں)

اب جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ سب سے پہلے اس کلمہ کا استعمال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے کیا اور شیعہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو لیا تو پھر خود غرض او ر شک کرنے والوں کے بے جا اعتراضات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔

اَلْحَمُدْ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِهٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَو لَا اَنْ هَدَانَا اللّٰهُ ۔

والسلام علی المرسلین والحمد لله رب العالمین ۔

مہدی منتظرکی معرفت عقل وفطرت کی روشنی میں

(مہدی ومہدویت)

( وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ ) ( ۱۰۰ )

ابن حجر ہیتمی شافعی اس آیت کے ذیل میںکہتے ہیں:

”مقاتل بن سلیمان اور ان کے تابع مفسرین نے کھا کہ یہ مذکورہ آیت (حضرت امام) مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“

( لِیُظْهرهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ ) ( ۱۰۱ )

حافظ گنجی شافعی اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں:

”سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ (دین اسلام کو تمام ادیان پر ظاہر کرنے والے) (حضرت ) امام مہدی اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیھا) سے ہیں۔“

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد لله علی ما اٴنعم واٴلهم ،صلی اللّٰه علی سیدنا محمد وآله وسلم

قارئین کرام ! حضرت امام ”مہدی منتظر“ کے سلسلہ میں بہت سے شک وشبھات کے سیاہ بادل منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں،اور مسلمانوں کے درمیان میں بہت سی ردّ وبدل ہوتی رھی ہے ،یھاں تک کہ بعض کتابوں اور بعض مولفین نے ”امام مہدی“ پر ایمان کو خرافات اور افسانہ پر ایمان رکھنابتایا ہے۔

جبکہ ان بحث کرنے والوں پر لازم تھا کہ اپنی بحث کو صرف اسی حقیقت کوواضح کرنے کے لئے مخصوص کرتے،تاکہ جو شبھات اس سے متعلق پائے جاتے تھے ان کو دور کرتے، اور ناقص افتراء پردازی کا خاتمہ کرکے خالص حقیقت سے پردہ برداری کرتے، تاکہ تمام لوگوں کے سامنے حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔

چنانچہ بعض حضرات ایسے بھی ہونگے جو یہ خیال کریں کہ یہ موضوع او راس طرح کے دوسرے موضوعات نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کردیا ہے اور ان کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکادی ہے، لہٰذا ان جیسے موضوعات پر بحث ہی نہ کی جائے تو زیادہ مفید ہے، لیکن ہمارے لحاظ سے یہ تصور حقیقت سے بہت دور ہے کیونکہ کسی بھی زمانہ میں کسی بات پر خاموش رہنا اس طرح کی مشکلات کا علاج نہیں رھا ہے، لہٰذا اس طرح کا خیال خام سوء ظن او رپستی کی علامت کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔

لہٰذا اس سلسلہ میں صاف اور وضاحت کے ساتھ گفتگو کرنا ہی مفید اور بہتر ہے، تاکہ نامعلوم حقائق سے پردہ برداری کی جاسکے ، جھوٹ او ربے ہودہ باتوں کا پول کھل جائے اور شک وتردید کا سد باب ہوسکے۔

اسی وجہ سے ہم اسی اہم مقصد وہدف کے بارے میں چند صفحات گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور ہم آپ تک خالصانہ واضح طورپرحقائق کو ہوبهو پهونچانا چاہتے ہیں۔

ہم اس حصہ میں بھی (اپنی تحقیق اور جستجو )کو محترم قارئین کی خدمت پر پیش کرتے ہوئے امیدوار ہیں کہ اس بحث کے مطالعہ کے بعد انصاف سے کام لیں اور خود غرضی کا شکار نہ ہوں۔

ہماری دلی آرزو یہ ہے کہ ہمارے قارئین کرام اس بحث کے مطالعہ میں وہ چیزیں پائے گے جن پر گذشتہ صدیوں سے غبار چڑھا ہوا تھا اور”مہدی ومہدویت“ کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کے عقیدہ سے بھی آگاہ ہوجائیں گے۔

اَلْحَمُدْ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِهٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَو لَا اَنْ هَدَانَا اللّٰهُ ۔