پہلا مرحلہ :
نظریہ مہدویت
گذشتہ فصل ”امامت“ کا خلاصہ یہ ہے کہ امامت نام ہے رسالت کے مکمل کرنے والے جز کا، جیسا کہ نصوص اور عقل انسانی بھی دلالت کرتی ہیں، اور جو دلیل نبوت کے لئے قائم کی جاتی ہے اسی دلیل کے تحت امامت کی بھی ضرورت کو ثابت کیا جاسکتا ہے، کیونکہ بغیر امامت کے نبوت کا وجود مکمل نہیں ہوتاھے اور اگر نبوت کو ناقص تصور کرلیں تو یہ بات حقیقت اسلام سے منافی ہے کیونکہ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ قیامت تک نبوت ورسالت کا ہوناضروری ہے۔
لہٰذا نبوت زندگی کا آغاز ہے او رامامت اس زندگی کا دوام او رباقی رہنا ہے، اور اگر ہم نبوت کوامامت کے بغیر تصور کریں تو پھر ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ رسالت ایک محدود سلسلہ ہے جو رسول کے بعد اپنی حیات کو باقی نہیں رکھ سکتایعنی اپنے اغراض ومقاصد میں اپنی وصی کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پهونچاسکتی۔
جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وصیت روایات کے ذریعہ بھی ثابت نہ ہو تو ہماری عقل اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس طرح کی وصیت کرنی چاہئے، کیونکہ ہمارے سامنے جب کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ہے تو اپنے تھوڑے سے مال کے لئے بھی وصیت کرتا ہے اور کسی ایک شخص کو اپنا وصی بناتا ہے تاکہ اس کی اولاد اور مال ودولت پر نظر رکھے، تو کیا وہ رسول جوسردار انبیاء ہو اور اتنی عظیم میراث (نوع بشریت کے لئے اسلام) چھوڑے جارھا ہے، اس میراث پر کسی کو وصی نہ بناکرجائے گا؟!!
لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وقت ِوفات کے حالات کے پیش نظر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے وصی بنایا اور آپ نے اپنی امت کو شک وشبھات کی وادی میں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔
اسی طرح یہ بات بھی مزید روشن ہوجاتی ہے کہ شیعہ امامیہ نے انتخاب کے مسئلہ میں مخالفت احساسات کی بنا پر نہیں کی، یا کسی سیاسی پہلو کو مد نظر رکھا ہو، بلکہ انھوں نے تو روایات اور دیگر نصوص میں وہ چیزیں پائی ہیں جن میں صحیح زندگی کی ضمانت ہے چنانچہ ہم لوگ تو اس مسئلہ میں اس تائید کا دفاع کرتے ہیں اور وہ بھی اسلام واخلاص کی حقیقت کے پیش نظرتاکہ کسی مقصد تک پهونچ جائیں۔
حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے امام ہیں اور ان تمام ائمہ (ع)کے بارے میں متواتر احادیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمموجود ہیں جن میں کبھی تو وضاحت کے ساتھ او رکبھی اشاروں میں ائمہ (ع)کی امامت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے، (جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں) اور یہ تمام روایات اپنے انداز بیان کے اختلاف کے ساتھ ایک ہی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور وہ یہ کہ یہ حضرات رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد امام اور خلیفہ ہیں۔
دوسرے امام : حضرت حسن بن علی (علیہ السلام )
تیسرے امام : حضرت حسین بن علی( علیہ السلام )
چوتھے امام : حضرت علی بن الحسین ، (امام سجاد علیہ السلام )
پانچویں امام : حضرت محمد بن علی (امام باقر علیہ السلام )
چھٹے امام : حضرت جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام )
ساتویں امام: حضرت موسیٰ بن جعفر الکاظم (علیہ السلام )
آٹھویں امام : حضرت علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام )
نویں امام: حضرت محمد بن علی ،تقی (علیہ السلام )
دسویں امام : حضرت علی بن محمد نقی (علیہ السلام )
گیارهویں امام: حضرت حسن بن علی عسکری (علیہ السلام )
بارهویں امام : حضرت محمد بن حسن المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
اوربارهویں امام لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں اور جب حکم خدا ہوگا تو آپ ظهور فرمائیں گے” اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔“
لیکن امام مہدی کے سلسلہ میں بہت سے لوگوں نے عجیب وغریب اور بے جا اعتراضات کئے ہیں اور آپ کی” غیبت“کے بارے میں بہت زیادہ بے ہودہ گفتگو کی ہے جس کی بنا پر سیاہ بادلوں نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا اور انسان صحیح طریقہ پر حقیقت کی پہچان نہ کرسکا، جبکہ بعض مخلص مو لفین نے اس سلسلہ میں غور وخوض سے کام نہیں لیا اس خوف سے کہ یہ سلسلہ بہت مشکل ہے ، جبکہ مخالفین اور منکرین اس سلسلہ میں بہت زیادہ مذاق اڑانے کی غرض سے خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اس موضوع کو نابود کردیا اور جس کو یہ لوگ بہت بڑا اسلحہ سمجھتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال خام یہ ہے کہ ہماری یہ باتیں
نھایت استدلال اور منطق پر استوار ہیں جن کی کوئی ردّ نہیں کرسکتا۔
اسی طرح بعض لوگوں نے ”مہدی ومہدویت“ کے بارے میں علمی استدلالات سے بحث نہیں کی ہے اور نہ ہی خاص موضوع کو واضح کیا ہے چنانچہ ایسے خیالات کے قائل ہوگئے ہیں کہ عقل ومنطق سے دور ہیں۔
قارئین کرام ! اس کتاب میں ہماری روش اسی موضوع کے تحت ہوگی تاکہ ہم بھی ان اشکالات سے دور رھیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔
لہٰذا ہم اس کتاب میں اپنے طریقہ کی بنا پر احادیث کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے :
۱ ۔ وہ احادیث جن میں نظریہ ”مہدویت“ کو بیان کیا گیا ہے اور وہ کس طرح اسلام سے ارتباط رکھتی ہیں۔
۲ ۔ وہ احادیث نبوی جن میں امام” مہدی “کو معین کیاگیا ۔
۳ ۔ وہ احادیث جن میں امکان ”غیبت“ پر بحث کی گئی ہے اور غیبت پر دلالت کرتی ہیں۔
چنانچہ ان تمام احادیث کی وضاحت کرنے کے کے بعد حقیقت واضح ہوجائے گی، اور اس کووہ تمام ہی لوگ جو اپنی ہویٰ وهوس اور خود غرضی کے خواھاں نہ ہوں؛آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
اگر ہم تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں( خصوصاً اگر تاریخ ادیان کو ملاحظہ کریں)تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ”مہدویت “ کا عقیدہ صرف اور صرف شیعہ حضرات سے ہی مخصوص نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ایجاد ہے (جیسا کہ بعض مولفین نے کھا ہے کہ مہدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کی ایجاد ہے) بلکہ ہم تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ مسلمانوں سے بھی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان بھی اس عقیدہ میں شریک ہیں۔
کیونکہ یهود ونصاریٰ بھی ایک ایسے مصلح منتظر کا عقیدہ رکھتے ہیں جو آخرالزمان میں آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ ہوگا (یہ تھا یهودیوں کا نظریہ) جبکہ عیسائیوں کے نزدیک وہ مصلح منتظر حضرت عیسیٰ بن مریم ہونگے۔
اسی طرح دیگر مسلمان بھی اپنے مذھبی اختلاف کے باوجود اسی چیز کا اقرار کرتے ہیں جبکہ شیعہ امامی اور کیسانیہ اور اسماعیلیہ ”امام مہدی“ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اس کو ضروریات مذھب سے شمار کرتے ہیں، اسی طرح اھل سنت حضرات اپنے ائمہ اور علماء حدیث کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں،جن میں سے بعض لوگوں نے مہدویت کا دعویٰ بھی کیا ہے جیسا کہ مغرب ، لیبی اور سوڈان میں اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ اھل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنے کو ”مہدی مصلح“ کھلوایا۔
نیز اسی طرح کا عقیدہ تینوں آسمانی ادیان میں ملتا ہے۔
اسی طرح یہ عقیدہ شیعہ حضرات میں، دوسرے مسلمان بھائیوں کی طرح پایا جاتا ہے اور امام مہدی کے بارے میں ان کا وھی عقیدہ ہے جس کو ڈاکٹر احمد امین صاحب نے اھل سنت کے نظریہ کو بیان کیا ہے کہ:
”اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک آخرالزمان میں اھل بیت (ع) سے ایک شخص ظاہر نہ ہوجائے جو دین کی نصرت کرے گا اور عدل وانصاف کو عام کردے گا ،تمام مسلمان اس کی اتباع وپیروی کریں گے اور تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرے گا جس کا نام ”مہدی“ ہوگا۔
شیعہ حضرات بھی وھی کہتے ہیں جو شیخ عبد العزیر بن باز رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کہتے ہیں، چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
”(حضرت ) مہدی کا مسئلہ معلوم ہے کیونکہ ان کے سلسلہ میں احادیث مستفیض بلکہ متواتر ہیں جو ایک دوسرے کی کمک کرتی ہوئی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ واقعاً مہدی موعود ہیں اور ان کا ظهورحق ہے“۔
قارئین کرام ! یھاںتک یہ بات واضح ہوگئی کہ ”نظریہ مہدویت“ایک صحیح نظریہ ہے جیساکہ معاصر کاتب مصری عبد الحسیب طٰہ حمیدہ کہتے ہیں
لیکن واقعاً تعجب خیز ہے کہ جناب عبد الحسیب صاحب اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوئے کہ خود پہلے نظریہ مہدویت کوصحیح مان چکے ہیں کیونکہ ان کا بعد کا نظریہ پہلے نظریہ کے مخالف ہے جبکہ اس سے پہلے انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ ”مہدویت کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ہے جو یهودیوں سے لیا گیا ہے اور جس کا اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے“
کیونکہ موصوف اپنی اس عبارت سے صرف اور صرف شیعوں پر تہمت لگانا چاہتے ہیں کہ شیعوں کے عقائد یهودیوں سے لئے گئے ہیں،لیکن موصوف نے اپنے اس اعتراض سے تمام مسلمانوں پر تہمت لگائی ہے (جبکہ اس بات کی طرف متوجہ بھی نہیں ہیں) کیونکہ ان کی ان دونوں بات میں واضح طور پر ٹکراؤ ہے کیونکہ پہلے انھوں نے نظریہ مہدویت کو صحیح تسلیم کیا لیکن بعد میں اس کو یهودیوں کے عقائد میں سے کہہ ڈالا، چنانچہ آپ حضرات نے بھی اندازہ لگایا لیا ہوگا کہ موصوف کا اتنی جلدی نظریات کا تبدیل کرنا ان کی بد نیتی اور تعصب پر دلالت کرتا ہے کیونکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات پر یہ بات واضح ہے کہ عبد اللہ ابن سبا نامی شخص کا تاریخی وجود ہی نہیں بلکہ یہ صرف خیالی اور جعلی نام ہے اور صرف اس کے نام سے مختلف عقائد منسوب کردئے گئے ہیں جو سب کے نزدیک معلوم ہیں کہ یہ سب کچھ جعلی اور صرف افسانہ ہے، اور شاید یہ سب اس وجہ سے ہو کہ صدر اسلام میں عبد اللہ بن سبا کا نام بہت زیادہ زبان زدہ خاص وعام تھا اور اس سے مراد رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے جلیل القدر صحابی جناب عمّار یاسر ہوتے تھے جیسا کہ بعض مولفین نے اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہوا کہ ”نظریہ مہدویت“ شیعوں کی ایجاد کردہ نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلہ میں یهود وغیریهود کی اتباع کرتے ہیں بلکہ اس سلسلہ میں تینوں آسمانی ادیان (یهودی ،عیسائی اور اسلام) نے بشارت دی ہے ، اور اسلام نے اس سلسلہ میں عملی طور پر مزید تاکید کی ہے ، چنانچہ تمام مسلمانوں نے اس مسئلہ کو قبول کیا ہے اور اس بارے میں احادیثیں نقل کی ہیںاور ان پر یقین کامل رکھتے ہیں۔
لہٰذا ان تمام باتو ںکو ”شیعہ حضرات کی گمراھی اور بدعتیں“ کہنا ممکن نہیں ہے اور اس قول پر یقین کرنا ناممکن ہے ، بلکہ یہ ایک ایساصحیح عقیدہ ہے جو عقائد اسلام کی حقیقت اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اخذ شدہ ہے جس کا انسان انکار ہی نہیں کرسکتا۔
چنانچہ اس حقیقت کا خلاصہ عراقی سنی عالم جناب شیخ صفاء الدین آل شیخ نے یوں کیا ہے:
”حضرت امام مہدی منتظر کے بارے میں احادیث اس قدر زیادہ ہیں کہ انسان کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ” وہ آخر الزمان میں ظاہر ہوں گے اور اسلام کو اس کی صحیح حالت پر پلٹادیں گے، اوردین و ایمان کی قوت اور رونق کو بھی پلٹادیں گے اسی طرح دین کی رونق کو بھی لوٹادیں گے“
چنانچہ اس طرح کی روایت بغیر کسی شک وشبہ کے متواتر ہیں بلکہ ان سے کم بھی ہوتیں تب بھی علم اصول کی اصطلاح کی بنا پر ان کومتواتر کہنا صحیح تھا ۔
قارئین کرام ! حضرت امام مہدی کے بارے میں صاف صاف روایات موجود ہیں اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ علماء اھل سنت نے اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی ہیں جیسا کہ برزنجی صاحب نے ”الاشاعة لاشتراط الساعة“ میں ، جناب آلوسی صاحب نے اپنی تفسیر میں، ترمذی صاحب ، ابو داؤد، ابن ماجہ ، حاکم، ابویعلی ، طبرانی عبد الرازق، ابن حنبل، مسلم، ابونعیم ، ابن عساکر، بیہقی ، تاریخ بغداد ، دار قطنی ، ردیانی ونعیم بن حمادنے اپنی کتاب ”الفتن“ میں اور اسی طرح ابن ابی شیبہ، ابونعیم الکوفی، البزار، دیلمی، عبد الجبار الخولانی نے اپنی تاریخ میں، جوینی، ابن حبان، ابوعمرو الدانی نے اپنی سنن میںو۔۔۔
خلاصہ مذکورہ حضرات وغیرہ نے لکھا ہے کہ (امام مہدی) کے ظهور پر ایمان رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان کے ظهور پر اعتقاد رکھنا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کی تصدیق کرنا ہے۔
قارئین کرام ! اکثر علماء اسلام نے مہدویت کے بارے میں اقرار کیا ہے اور اس سلسلہ میں اخبار وراوایات کی تصحیح کی خاطر کتابیں تالیف کی ہیںتاکہ زمانہ پر حقیقت واضح ہوجائے اور اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا ہے ، لہٰذا ہم مثال کے طور پر چند مولفین کے نام پیش کرتے ہیں ، اگرچہ مولفین کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں:
۱ ۔ عباد بن یعقوب الرواجنی متوفی ۲۵۰ ھ نے کتاب ”اخبار المہدی“ میں۔
۲ ۔ ابو نعیم اصفھانی متوفی ۴۳۰ ھ نے کتاب ”اربعین حدیثا فی امر المہدی“
و کتاب ”مناقب المہدی“
و کتاب ”نعت المہدی“ میں۔
۳ ۔محمد بن یوسف کنجی شافعی متوفی ۶۵۸ نے کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“ میں۔
۴ ۔ یوسف بن یحيٰ سلمی شافعی متوفی ۶۸۵ ھ نے کتاب ”عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر“ میں ۔
۵ ۔ ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ ھ نے کتاب ”المہدی“ میں۔
۶ ۔ ابن حجر ہیتمی شافعی متوفی ۸۵۲ ھ نے کتاب ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“ میں
۷ ۔ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ ھ نے کتاب ”العرف الوردی فی اخبار المہدی“ جو شایع شدہ بھی ہے اسی طرح دوسری کتاب ”علامات المہدی“ میںبھی۔
۸ ۔ ابن کمال پاشا حنفی متوفی ۹۴۰ ھ نے کتاب ”تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان“ میں
۹ ۔ محمد بن طولون دمشقی متوفی ۹۵۳ ھ نے کتاب ”المہدی الی ماورد فی المہدی“ میں۔
۱۰ ۔علی بن حسام الدین متقی ہندی متوفی ۹۷۵ ھ نے کتاب ”البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان“ اورکتاب ”تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخر الزمان“ میں۔
۱۱ ۔ علی قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ ھ نے کتاب ”الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی“ وکتاب”المشرب الوردی فی اخبار المہدی“ میں ۔
۱۲ ۔ مرعی بن یوسف الکرمی حنبلی متوفی ۱۰۳۱ ھ نے کتاب ”فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر“ میں
۱۳ ۔ قاضی محمد بن علی شوکانی متوفی ۱۲۵۰ ھ نے کتاب ”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المہدی المنتظر والدجال والمسیح“ میں۔
۱۴ ۔ رشید الراشد التاذفی حلبی (معاصر) نے کتاب ”تنویر الرجال فی ظهور المہدی والدجال“ میں جو شایع شدہ بھی ہے۔
قارئین کرام ! یہ تھے چند اھل سنت مولف جنھوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث نقل کی اور کتابیں لکھیں ہیں۔
اسی طرح شعراء کرام نے بھی حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں اپنے اپنے اشعار میں مہدی او رمہدویت کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ انھوں نے اپنے اشعار وقصائد میں حضرت مہدی کی معرفت، ان کے ظهوراور ان کے وجود کی ضرورت کو بیان کیا ہے جن کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ، لہٰذا ہم یھاں پر چند شعراء کے ا شعار بطور مثال پیش کرتے ہیں:
۱ ۔ کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ ھ کہتے ہیں:
متیٰ یقوم الحق فیکم متیٰ یقوم مهدیکم الثانی
کب ہمارے درمیان حق آئے گا اور کب ہمارا مہدی قیام کرے گا۔
۲ ۔ اسماعیل بن محمد حمیری متوفی ۱۷۳ ھ کہتے ہیں:
باٴن ولیَّ الامر والقائم الذی تطلع نفسی نحوه بتطرّبِ
له غیبة لابد من اٴن یغیبها فصلی علیه اللّٰه من متغیب
فیمکث حیناً ثم یظهر حینه فیملاٴ عدلا کل شرق ومغرب[۱۲۱]
ولی امر قائم منتظر کے لئے میرا دل خوشحالی سے انتظار کرتا ہے۔
ان کے لئے غیبت ضروری ہے پس اس غائب پر خدا کا درود وسلام ہو۔
وہ پردہ غیب سے ظاہر ہونگے تو مشرق ومغرب (پوری دینا)کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔
۳ ۔ دعبل خزاعی متوفی ۲۴۶ ھ کہتے ہیں:
خروج امامٍ لا محالة خارج یقوم علی اسم اللّٰه والبرکاتِ
یمیز فینا کل حق وباطل ویجزی علی النعماء والنقمات[۱۲۲]
امام کا ظهور (ایک روز) حتمی اور ضروری ہے اور آپ خدا کے نام او راس کی برکتوں کے ساتھ ظهور کریں گے۔
اور آپ کے ظهور کے وقت حق وباطل الگ الگ ہوجائے گا اور نعمت ونقمت کے لحاظ سے جزا دیں گے۔
۴ ۔ مھیار دیلمی متوفی ۴۲۸ ھ کہتے ہیں:
عسیٰ الدھر یشفي غداً من عداک قلبَ مغیظٍ بہم مکمدِ
عسیٰ سطوة الحق تعلو المحال عسیٰ یُغلب النقص بالسودد
بسمعي لقائمکم دعوة یلبي لھا کل مستنجد
ہم اس دن کے منتظر ہیں کہ جب آپ کے دشمن ھلاک ہونگے اور ہم خوشحال۔
عنقریب وہ دن آنے والا ہے جب حق باطل پر اور کمزور متکبروں پر غلبہ حاصل کریں گے۔
اور جب ہمارے کانوں میں حضرت قائم(ع) کی آواز آئے گی تو ہم سب ان کی آواز پر لبیک کھیں گے۔
۵ ۔ ابن منیر طرابلسی متوفی ۵۴۸ ھ مخالف کا مسخرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
والیتُ آل امیة ة الطھر المیامین الغرر
واکذّب الراوی واٴطعن ن فی ظهور المنتظر
میں آل امیہ کو دوست رکھتا ہوں جن کے صفات عالی ہیں!!
اور میں اس راوی کی تکذیب کرتا ہوں جو ظهور مہدی کے انتظارمیں کہتا ہے!!
۶ ۔ محمد بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۲ ھ کہتے ہیں :
وقد قال رسول اللّٰه قولا قد رویناه
وقد ابداه بالنسبة والوصف و سمّاه
یکفی قوله ”منّی“ لاشراق محیاهُ
ومن بضعته الزهراء مرساه ومسراه
فمن قالوا هو المهدی ما مانوابما فاهوا
بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے (امام مہدی کے بارے میںارشاد فرمایا جس کو ہم نے بیان کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی نسبت، اوصاف اور نام بھی بیان کیا ہے۔
آپ کی شان میں لفظ ”مِنِّی“ کہنا ہی آپ کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت زھرا (ع)آپ کا ایک جزء ہیں جن سے آپ باھر جاتے وقت اور واپس آتے وقت (سب سے پہلے) ملاقات کیا کرتے تھے۔ جو افراد حضرت مہدی کے بارے میں کہتے ہیں وہ کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے (بلکہ یہ حقیقت تو پہلے سے معلوم شدہ ہے)
۷ ۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۶ ھ کہتے ہیں:
ولقد علمتُ بانه لا بد من مهدیکم ولیومه اٴتوقعُ
یحمیه من جند الاله کتائب کالیم اٴقبل زاخراً یتدفعُ
فیها لآل اٴبی الحدید صوارم مشهورة ورماحُ خط شرَّع[۱۲۶]
مجھے امام مہدی پر یقین ہے اور ان کے ظهور کا انتظار ہے۔ لشکر خدا کے سپاھی امام زمانہ کی اس طرح حمایت کریں گے جس طرح دریا کی لھریں اٹھتی ہیں۔
اس وقت آل ابی الحدید تیر وتلوار کے ساتھ آپ کی حمایت میں جنگ کرے گی۔
۸ ۔ شمس الدین محمد بن طولون حنفی دمشقی متوفی ۹۵۳ ھ ، موصوف ارجوزہ کے ضمن میں فرماتے ہیں جس کوبارہ اماموں کی شان میں کھا ہے: والعسکری الحسن المطھرُ محمد المہدی سوف یظھرُ
امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد حضرت مہدی ظاہر ہوں گے۔
۹ ۔ عبد اللہ بن علوی الحداد تریمی شافعی متوفی ۱۱۳۲ ھ فرماتے ہیں:
محمد المهدی خلیفة ربنا امام المهدی بالقسط قامت ممالکه
کاٴني به بین المقام ورکنها یبایعه من کل حزب مبارکه
حضرت امام مہدی ہمارے رب کے خلیفہ ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔ اور جب آپ رکن ومقام کے درمیان کھڑے ہوں گے اس وقت ہر گروہ آپ کی بیعت کرتا ہوا نظر آئے گا۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
ومنّا امام حان حین خروجه یقوم باٴمر اللّٰه خیر قیام
فیملو ها بالحق والعدل والهدی کما ملئت جوراً بظلم طغام
ہمارے امام کے ظهور کا وقت نزدیک ہے جو خدا کے حکم سے بہترین قیام کرےں گے۔ چنانچہ آپ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔
دوسرا مرحلہ: مہدی کون ہیں؟
حضرت مہدی (ع) کی معرفت
قارئین کرام ! اسلام نے یهودیوں کے اس نظریہ کو باطل قرار دیا ہے کہ ”ایلیا“ ہی مصلح منتظر ہے، اسی طرح نصاریٰ کا جناب عیسیٰ (ع)کو مصلح منتظر ماننے کوبھی باطل قرار دیا ہے ، نیز اسی طرح کیسانیہ کا محمد بن حنفیہ کا ، نیز اسماعلیوں کا جناب اسماعیل بن جعفر کا مصلح منتظر ماننے کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے کیونکہ محمد بن حنفیہ او راسماعیل بن جعفرزندہ نہیں ہیں۔
لہٰذا اب فقط شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان یہ اختلاف باقی ہے کہ مہدی کون ہیں؟
چنانچہ اھل سنت کا نظریہ یہ ہے کہ مہدی آخری زمانہ میں تلوار کے ساتھ ظاہر ہونگے کیونکہ اس سلسلہ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی روایات بہت زیادہ ہیں جو تواتر کی حد تک پهونچی ہوئی ہیں جن میں مہدی منتظر کی بشارت دی گئی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ میرے اھل بیت میں سے ہوں گے اور یہ کہ وہ سات سال حکومت کریں گے نیز وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ، ان کے ساتھ جناب عیسیٰ (ع) بھی ہوںگے او ر جناب عیسیٰ (ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
لیکن شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانہ میں ظاہر ہونگے ان کا نسب علوی ہوگا ان کے ھاتھ میں تلوار ہوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور پوری دنیا میں اسلام کا بول وبالا ہوگا۔
دونوں حضرات کے نظریات کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، دونوں حضرت مہدی کے ظهور کے قائل ہیں تو پھر ان دونوں میں اختلاف کیا ہے؟
تو عرض خدمت ہے کہ اختلاف صرف اتناھے کہ اھل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا ہوں گے یعنی وہ اس وقت موجود نہیں ہیں او ریہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کب پیدا ہوں گے ان کے باپ کون ہوں گے۔!!
اسی نظریہ کے تحت ”سنوسی“ نے لیبی میں او رعبد الرحمن نے سوڈان میں تلوار کے ذریعہ قیام کیا او رمہدویت کا دعویٰ کرڈالا ۔
لیکن شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مہدی : محمد بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیہم السلام) ہیں اور آپ اس دنیا میں موجود ہیں لیکن کوئی ان کود یکھ نہیں پاتا۔
اور یھی دونوں فریق میں نقطہ اختلاف ہے۔
اور چونکہ مدعی کے پاس دلیل کا ہونا ضروری ہوتا ہے (جیسا کہ فقھی قانون بھی کہتا ہے) لہٰذا ہم یھاں پر کچھ ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کے ذریعہ شیعہ حضرات اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرتے ہیں نیز منکرین کی طرف سے بیان شدہ دلائل کی بھی ردّ کریں گے تاکہ صاحبان علم وبصیرت پر حقیقت بالکل واضح اور روشن ہوجائے۔
اور چونکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت الٰھی منصب ہوتا ہے جس میں نص اور تعین کا ہونا ضروری ہوتا ہے لہٰذا منطق واحادیث کے مستحکم دلائل کی بنا پر شیعہ حضرات امامت حضرت مہدی پر ایمان رکھتے ہیں ۔
یھاں پر کوئی شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ وہ احادیث جن کے ذریعہ آپ امام مہدی کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں کھاں ہیں اور ان کے راوی کون کون ہیں۔؟
توہم جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایک یادو حدیث نہیں ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بہت سی احادیث ہیں جن کو اکثر صحابہ نے نقل کیا ہے اور بہت سے حفاظ نے روایت کیا ہے اور اس قدر روایت وتواتر کے پیش نظر کسی کو ان احادیث کی صحت پر شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
اس سلسلہ میں مزید دقت اور موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم ان احادیث کو سند ودلالت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱ ۔ وہ احادیث جن کی سند صحیح ہے اور ان کی دلالت بھی واضح ہے نیز ان میں کوئی شک وشبہ بھی نہیں ہے، ائمہ حدیث اور بڑے بڑے حفاظ نے ان احادیث کے حسن وصحت کا اقرار کیا ہے، اور بعض نے ان کی صحت کو بخاری اور مسلم میں ہونے کو شرط کیا ہے لہٰذا ان احادیث کے مطابق عمل کرنا او ران پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔
۲ ۔ وہ احادیث جو دلالت کے اعتبار سے صحیح ہیں لیکن ان کی سند ضعیف ہے، ان احادیث پر بھی عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ علم حدیث کے قواعد کے مطابق ان احادیث کا ضعف سند پہلی قسم کے ذریعہ جبران ہوجاتا ہے او راکثر مشهور علماء کرام نے ان پر عمل کیا ہے بلکہ ان کے مضمون پر اجماع ہے۔
۳ ۔ وہ احادیث جن میں بعض صحیح ہیں اور بعض ضعیف، لیکن یہ احادیث متواتر احادیث کے مخالف ہیں لہٰذا اگر ان کی تاویل ممکن نہ ہو تو پھر ان پر عمل نہیں کیا جاسکتا اور ان کو چھوڑدینا ضروری ہے مثلاً جس طرح یہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ” حضرت مہدی کا نام احمد ہے یا امام مہدی کے والد کا نام رسول اللہ(ص) کے پدر بزرگوار کے نام پر ہوگا یا آپ ابو محمد حسن زکی کی اولاد سے ہونگے“ کیونکہ یہ احادیث شاذاور نادر ہیں اور مشهور نے ان سے اعراض کیا ہے یعنی ان کے مطابق عمل نہیں کیا۔
لہٰذا قسم اول اور قسم دوم باقی بچتی ہیں جن پر عمل کیا جانا چاہئے جو مختلف طریقہ سے ایک ہی مقصد تک پهونچاتی ہیں اگرچہ الفاظ مختلف ہیں لیکن سب ایک ہی ہدف کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ، لہٰذا ہم یھاں پر ان احادیث کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
وہ احادیث جن میں کھا گیا ہے کہ حضرت مہدی قریش سے ہوں گے:
احمدا ورماوردی نے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ابشروا بالمهدی ، رجل من قریش من عترتی، یخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلا وقسطا کما ملئت ظلماً وجوراً
“
(میں تمھیں مہدی کے بارے میں بشارت دیتا ہوں جو قریش اور میرے عترت سے ہوں گے وہ لوگوں کے اختلاف اورتفرقہ کے وقت ظاہر ہونگے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیں گے۔)
بعض احادیث میں امام مہدی کو اولاد عبد المطلب سے بتایا گیا ہے:
ابن ماجہ نے اپنی سند کے ساتھ جناب انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ انس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
”نحن ولد عبد المطلب سادة اهل الجنة انا وحمزه وعلی وجعفر والحسن والحسین والمهدی
“
(ہم اولاد عبد المطلب اھل بہشت کے سردار ہیں: میں، جناب حمزہ حضرت علی جناب جعفر امام حسن وامام حسین او رامام مہدی (علیہم السلام)
جبکہ بعض احادیث کا بیان ہے کہ امام مہدی از آل محمد ہوں گے:
”قال رسول اللّٰه (ص) یخرج فی آخر الزمان رجل من ولدی اسمه کاسمی وکنیته ککنیتی، یملاٴ ا لاٴرض عدلاً کما ملئت جوراً فذلک هو المهدی“ (وهذا حدیث مشهور )
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرے نام پر جس کی کنیت میری کنیت پر ہوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا اور وہ مہدی ہوگا ، )اور یہ حدیث مشهور ہے۔
اور بعض کابیان ہے کہ مہدی میری عترت میں سے ہونگے:
ابوداؤد نے اپنی سند کے ذریعہ جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
”سمعت رسول اللّٰه (ص) یقول المهدی من عترتی
“
(میں نے رسول اللہ سنا کہ مہدی میری عترت سے ہوں گے)
بعض احادیث میں امام مہدی کو اھل بیت سے بتایا گیا ہے:
قال النبی (ص) لولم یبق من الدهر الا یوم لبعث اللّٰه رجلا من اهل بیتی یملو ها عدلا کما ملئت جوراً
(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا کہ اگر (قیامت میں) ایک روز بھی باقی رہ جائے تو خداوندعالم میرے اھل بیت سے ایک شخص کو ظاہر کرے گا جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا)
جبکہ بعض روایات ،امام مہدی کو نسل علی علیہ السلام سے بتاتی ہیں:
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ان علیا وصیي، و من ولده القائم المنتظر المهدی الذی یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلماً
“
(بے شک علی میرے وصی ہیں اور ان ہی کی نسل سے قائم منتظر مہدی ہوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)
جبکہ بعض روایات میں اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بتایا گیا ہے:
مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، بیہقی وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”المهدی من عترتی من ولد فاطمة
“
(مہدی میری عترت،جناب فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوں گے)
اوربعض روایات میںآیا ہے کہ امام حسین کی اولاد میں سے ہوں گے:
”قال رسول اللّٰه (ص) لاتذهب الدنیا حتی یقوم بامتی رجل من ولد الحسین یملاٴ الارض عدلاً کما ملئت ظلما
“
(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:جب تک حسین کی اولاد سے میری امت میںایک شخص ظهور نہ کرلے اس وقت تک قیامت نہیں آسکتی او روہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا“)
بعض روایت میں آیا ہے کہ ذریت امام حسین علیہ السلام سے نہم ہوں گے:
”عن سلمان الفارسی رضی اللّٰه عنه قالدخلت علی النبی (ص) فاذا الحسین علی فخذیه هویقبل خدیه ویلثم فاه ویقول انت سید ابن سید اخو سید وانت امام ابن امام اخو امام و انت حجة ابن حجة اخو حجة ابو حجج تسعه، تاسعهم قائمهم المهدی
(جناب فارسی راوی ہیں کہ جب میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی خدمت عالیہ میںمشرف ہوا تودیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کی آغوش میں بیٹھے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآپ کے رخسار اور منھ کا بوسہ لے رھے ہیں اور کہہ رھے ہیں تم سید ، سید کے بیٹے اور سید کے بھائی ہو۔ تم امام، امام کے بیٹے ، اور امام کے بھائی ہو۔ تم حجت، حجت کے بیٹے ، حجت کے بھائی اور نو حجتوں کے باپ ہو جن کا نواں مھدی ہوگا)
بعض روایات میں بارہ اوصیا بارہ ائمہ ،بارہ خلیفہ بیان ہوا ہے:
”۔۔۔ان وصیی علی بن ابی طالب وبعده سبطای الحسن والحسین تتلوه تسعه اٴئمه من صلب الحسین، قال :یامحمد فسمهم لی، قال : اذا مضی الحسین فابنه علی، فاذا مضی علی فابنه محمد فاذا مضی محمد فابنه جعفر، فاذا مضیٰ جعفر فابنه موسی فاذامضی موسیٰ فابنه علی فاذا مضی علی فابنه محمد فاذا مضی محمد فابنه علی فاذا مضی علی فابنه الحسن فاذا مضی الحسن فابنه الحجة محمد المهدی فهولاء اثنا عشر
“
(میرے وصی علی ابن ابی طالب ہیں ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسن وحسین (ع)ھیں اور ان کے بعد حسین کی نسل سے ۹ / وصی ہوں گے (سائل سے سوال کیا )یا رسول اللہ آپ ان کے بھی نام بیان فرمائیں ،تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا :
جب امام حسین گذر جائیں گے تو ان کے فرزند علی (زین العابدین ) اور جب علی گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (باقر) اور جب محمد گذر جائیں گے تو ان کے فرزند جعفر (صادق)اور جب جعفر گذر جائیں گے تو ان کے فرزند موسیٰ (کاظم )اور جب موسی ٰگذر جائیں گے ان کے فرزند علی (رضا ) اور جب علی (رضا ) گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (تقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند علی(نقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند حسن (عسکری )اور جب حسن گذر جائیں گے تو ان کے فرزند حجت محمد مھدی (علیہم السلام) ہوں گے بس یھی میرے وصی بارہ ہیں۔“)
یحيٰ بن الحسن نے کتاب عمدہ میں اس حدیث کے ۲۰/ طریقے نقل کئے ہیں کہ رسول اسلام کے بعد ۱۲ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے اور مذکورہ بیس طریقے درج ذیل کتابوں میں اس طرح ہیں :
صیح بخاری میں ۳/ طریقے۔
صیح مسلم میں ۹/ طریقے ۔
سنن ابی داؤدمیں ۳/ طریقے۔
سنن ترمذی میں ایک طریقہ۔
اور حمیدی میں ۳ / طریقے ۔
اور بعض روایات کے مطابق مھدی (ع)، حسن عسکری (ع)کے فرزند ہوں گے ۔
مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری ، حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے روایت کرتے ہیں:
”۔۔۔فبعده ابنه الحسن یدعی العسکری فبعده ابنه محمد یدعی بالمهدی و القائم والحجة فیغیب ثم یخرج فاذا خرج یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما
“
(آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک حدیث کے ضمن میں فرمایا: ان کے بعد ان کے فرزند حسن عسکری ان کے بعد ان کے فرزند محمد مہدی والقائم والحجة ہیں پس وہ ہونے کے بعد ظاہر ہوں گے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔)
قارئین کرام ! مذکورہ تمام احادیث کو جمع کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس امت کے مہدی امام حسن عسکری کے فرزند ہیں چنانچہ اس مسلم نتیجہ سے کوئی گریز نہیں کرسکتا ۔
اس حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان اصحاب کے اسماء گرامی کو بیان کیا جائے جنھوں نے حضرت مہدی سے متعلق احادیث نقل کی ہے اور چونکہ ہر روایت کے تمام افراد کو اس مختصر کتاب میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
(لہٰذا صرف راوی کو بیان کرتے ہیں )
۱) ابو اما مة الباھلی ۔
۲) ابو ایوب الانصاری ۔
۳) ابو سعید خدری
۴) ابو سلیمان راعی رسول اللہ (ص)۔
۵) ابوالطفیل۔
۶) ابو ھریرہ ۔
۷) ام حبیبہ ام المومنین ۔
۸) ام سلمہ ام المومنین ۔
۹) انس بن مالک ۔
۱۰) ثوبان (غلام رسول ) ۔
۱۱) جابر بن سمرة ۔
۱۲) جابر بن عبد اللہ انصاری ۔
۱۳) حذیفہ الیمانی ۔
۱۴) سلمان فارسی ۔
۱۵) شھربن حوشب ۔
۱۶) طلحہ بن عبیداللہ ۔
۱۷) عائشہ ام المومنین ۔
۱۸) عبد الرحمن بن عوف ۔
۱۹) عبد اللہ بن الحارث بن حمزہ ۔
۲۰) عبداللہ بن عباس ۔
۲۱) عبداللہ بن عمر ۔
۲۲) عبداللہ بن عمرو بن العاص۔
۲۳) عبداللہ بن مسعود ۔
۲۴) عثمان بن عفان ۔
۲۵) علی بن ابی طالب ۔
۲۶) علی الھلالی ۔
( ۲۷) عمار بن یاسر ۔
۲۸) عمران بن حصین۔
۲۹) عوف بن مالک ۔
۳۰) قرة بن ایاس ۔
۳۱) مجمع بن جاریة الانصاری
قارئین کرام ! شیخ عبد المحسن صاحب نے امام مہدی (ع)کے سلسلے میں احادیث بیان کرنے والے مشهور و معروف حفاظ کی تعداد ۳۸ بتائی ہے ، چنانچہ ہم یھاں پر ان افراد کی فھرست بیان کرتے ہیں :
۱ ۔ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۲ ۔ ترمذی نے اپنی کتاب جامع میں ۔
۳ ۔ ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۴ ۔ نسائی نے اپنی کتاب کبری میں ۔
۵ ۔ احمد نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۶ ۔ ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں ۔
۷ ۔ حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں۔
۸ ۔ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی کتاب المصنف میں ۔
۹ ۔ نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں ۔
۱۰ ۔ ابو نعیم نے اپنی کتاب المھدی والحلیة میں ۔
۱۱ ۔ طبرانی نے اپنی کتاب کبیر، اوسط اور صغیر میں۔
۱۲ ۔ دار قطنی نے اپنی کتاب الافراد میں ۔
۱۳ ۔ بارودی نے اپنی کتاب معرفة الصحابہ میں ۔
۱۴ ۔ ابو یعلی الموصلی نے اپنی کتاب مسند میں۔
۱۵ ۔ بزار نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۱۶ ۔ الحارث بن ابی اسامہ نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۱۷ ۔ الخطیب نے اپنی کتاب تلخیص المتشابہ ، المتفق اور مفترق میں۔
۱۸ ۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ میں۔
۱۹ ۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب تاریخ اصفھان میں۔
۲۰ ۔ ابو الحسن حربی نے اپنی کتاب الاول من الحربیات میں۔
۲۱ ۔ تمام الرازی نے اپنی کتاب فوائد میں ۔
۲۲ ۔ ابن جریر نے اپنی کتاب تہذیب الآثار میں ۔
۲۳ ۔ ابو بکر بن المقری نے اپنی کتاب معجم میں ۔
۲۴ ۔ ابو عمر والدانی نے اپنی کتاب السنن میں۔
۲۵ ۔ ابو غنم الکوفی نے اپنی کتاب الفتن میں۔
۲۶ ۔ الدیلمی نے اپنی کتاب مسند الفردوس میں۔
۲۷ ۔ ابو بکر الاسکاف نے اپنی کتاب فوائد الاخبار میں ۔
۲۸ ۔ ابو الحسین بن المناوی نے اپنی کتاب الملاحم میں ۔
۲۹ ۔بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں ۔
۳۰ ۔ ابوعمرا ور المقری نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۳۱ ۔ ابن الجوزی نے اپنی کتاب تاریخ میں ۔
۳۲ ۔ یحی الحمانی نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۳۳ ۔رویانی نے اپنی کتاب مسند میں۔
۳۴ ۔ ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں۔
قارئین کرام ! یہ تھی ان مولفین اور کتابوں کی فھرست جن میں حضرت امام مھدی کے سلسلہ میں احادیث بیان کی گئی ہیں۔
حضرت امام مھدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت
آپ کی ولادت با سعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھ کو فجر کے وقت شھرسامراء میں ہوئی
آپ کے والد گرامی نے آپ کا نام محمد رکھا اور یھی نام رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اس مشهور حدیث کا مصداق تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا” یواطی اسمہ اسمی “
(اس کا نام میرے نام پر ہوگا ) اور آپ ہی کے والد گرامی نے آپ کی کنیت (ابوالقاسم ) رکھی
یہ وہ حقیقت ہے جس پر شیعہ امامیہ اور دیگر اسلامی فرقے متفق ہیں لیکن بعض مسلمانوں نے (حالانکہ مھدویت کا اقرار کیا ہے ) حضرت مھدی کا اس وجہ سے انکار کیا چونکہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے کوئی فرزند نہیں تھا اور اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے چار دلیلیں بیان کی ہیں جن کو یھاں پر مختصر طور پر بیان کیا جاتا ہے :
۱ ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنی والدہ ام الحسن کے لئے تمام مال وقف اور دیگر امور کے بارے میں وصیت کی اور اگر امام حسن عسکری (ع)کے کوئی فرزند ہوتا تو ان کو وصیت کرنا چاہئیے تھی۔
۲ ۔ حضرت امام مھدی کے چچا جعفر بن علی نے اس بات کی گواھی دی ہے کہ ان کے بھائی ( امام حسن عسکری علیہ السلام ) کے کوئی فرزند نھیںتھا اور ایسے مسائل میں چچا کی گواھی خاص اہمیت رکھتی ہے ۔
۳ ۔ شیعہ حضرات جیسا کہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غیر خواص سے چھپایا ( یعنی صرف خاص لوگوں ہی کو معلوم تھا) تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟جب کہ اس زمانہ میں آپ کے اصحاب بہت زیادہ تھے اور ہر طرح کی طاقت و توانائی رکھتے تھے جب کہ گذشتہ ائمہ علیہم السلام جو اموی وعباسی حکام کے زمانے میں زندگی کرتے تھے اور اس وقت کے
حالات زیادہ خراب تھے ،لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس طرح اپنی اولاد کو نہیں چھپایا ۔
۴ ۔ تاریخ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جس میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی فرزند ہو اور نہ ہی کسی نے اس طرح کی روایت کی ہے ۔
انھیں چار دلیلوں کے ذریعہ امام مھدی بن الحسن عسکری کی ولادت کا انکار کرتے ہیں ۔
قارئین کرام ! ہم ان چار دلیلوں کے جواب مختصر طور پر بیان کرتے ہیں تاکہ حق و حقیقت واضح ہوجائے ۔
پہلی دلیل کا جواب :
امام علیہ السلام کا اپنی والدہ گرامی کو وصیت کرنا دلیل نہیں ہوسکتا کہ امام کے کوئی فرزند نہ ہو، امام علیہ السلام اس وصیت کے ذریعہ دشمنوں کی نظروں کو امام مھدی کی طرف سے ہٹا نا چاہتے تھے اور دشمن کو شک و شبہ میں ڈالنا چاہتے تھے کہ ان کے کوئی اولاد ہے یا نھیں؟ اور آپ نے عمداً اس طرح کا شک ایجاد کیا تاکہ حکومت وقت اس وصیت کو دیکھ کر مزید شک و شبہ میں پڑ جائے ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے گویا اپنے جد امام جعفر صادق علیہ السلام کی روش پر عمل کیا کیونکہ امام صادق علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت درج ذیل پانچ افراد کے لئے وصیت کی:
۱ ۔منصورعباسی۔
۲ ۔ ربیع ۔
۳ و ۴ ۔ قاضی مدینہ اور اس کے ساتھ ان کی زوجہ حمیدہ ۔
۵ ۔ اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) ۔
کیونکہ امام صادق علیہ السلام اپنے اس کام سے دشمنوں کی نظروں کو اپنے فرزند موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ہٹانا چاہتے تھے۔
اور اگر صرف امام موسی کاظم علیہ السلام ہی کو وصیت فرماتے تو پھر بنی عباس کا رویہ کچھ اور ہی ہوتا چنانچہ جب منصور عباسی کو امام صادق علیہ السلام کی وفات کی خبرپهونچی تو مدینہ میں اپنے والی کو خط بھیجا اور لکھا جو شخص بھی امام علیہ السلام کا وصی ہو اس پر زندگی تنگ کردی جائے ،چنانچہ والی مدینہ نے اپنی تحقیق کے بعد منصور کو خط لکھا کہ امام (علیہ السلام ) کے پانچ وصی ہیں ، جن میں سب سے پہلے اور مہم خود جناب خلیفہ ہیں، لہٰذا امام علیہ السلام نے اپنی اس سیاست کے تحت اپنے فرزند موسی کاظم علیہ السلام کو آزار و اذیت سے بچالیا۔
دوسری دلیل کا جواب :
جعفر بن علی ( امام حسن عسکری کے بھائی ) ایک عام انسان تھے اور ان سے بھی خطاو نسیان اور باطل دعوی کا امکان ہے ، اور وہ گویا قابیل کے مشابہ تھے جس نے اپنے بھا ئی ھابیل کو قتل کرڈالا، یا جناب یعقوب علیہ السلام کے لڑکوں کی طرح جنھوں نے اپنے بھائی (جناب یوسف ) کو کنویں میں ڈال دیا اور جھوٹی قسمیں کھانے لگے کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا ۔
جعفر کا خیال یہ تھا چونکہ میرے بھائی کے کوئی اولاد نہیں ہے لہٰذا اگر وہ ان کا انکار کریں گے تو وہ امام ہوجائیں گے اور ان کے پاس بیت المال اکٹھا ہوجائے گا لیکن خدا وند عالم کا ارادہ ہر چیز پر غالب ہوتا ہے، جو وہ چاہتا ہے وھی ہوتاھے۔
چنانچہ ایک مدت بعد (جعفر) اپنے کئے پر شرمندہ ہوے اور توبہ کی یھاں تک کہ جعفر تواب کے نام سے مشهور ہوئے ۔
قارئین کرام ! چچا کا بھتیجہ کے مقابلہ میں آجانا کوئی عجیب چیز نہیں ہے کیونکہ ابو لھب و عباس دونوں اپنے بھتیجے(حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقابلہ میں آگئے اور ان کی نبوت کا انکار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی طرف سحر وجنون کی نسبت دی، آپ سے مقابلہ کے لئے لشکر آمادہ کیا اور آپ کی دشمنی میں مختلف کا رنامے انجام دیئے۔
تیسری دلیل کاجواب :
امام عسکری علیہ السلام کا اپنے فرزند کے مسئلہ کو چھپانا ، ایک اہم مسئلہ تھا چونکہ امام عسکری جانتے تھے کہ یہ مشهور ہوچکا ہے کہ اھل بیت میں سے بارھواں امام، تلوار کے ساتھ قیام کرے گا اور باطل حکومتوں کو ختم کرکے حق کی حکومت قائم کرےگا اسی وجہ سے اس وقت کے تمام حکام خوف زدہ تھے لہٰذا آپ کی شناخت کے بعد آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوجاتے ۔
اسی وجہ سے امام عسکری علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ اپنے بیٹے مھدی کو خاص افراد کے علاوہ دوسرے لوگوں سے چھپائیں تاکہ محفوظ رہ سکیں ، اور اس بات کی وضاحت و تائید اس وقت ہوتی ہے،جب امام علیہ السلام کی شھادت کے بعد خلیفہ نے حکم دیا کہ امام علیہ السلام کے گھر میں پهونچ کر سب بچوں اور غلاموں کو پکڑ لو۔
اور اگر واقعا حکم خدا سے محمد بن الحسن (امام مھدی ) مخفی نہ ہوتے تو ان کوبھی قتل کردیا جاتا ۔
گویاامام حسن عسکری (ع) کا یہ فعل ،مادر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح تھا کہ جب ان پر وحی نازل ہوئی کہ حضرت موسی (ع) کو (صندوق) میں چھپا دیا جائے ،کیون کہ فرعون سے ان کو خطرہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان ہو ا ہے، لیکن گذشتہ ائمہ علیہم السلام کا ایسا نہ کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کا قیام تلوار کے ذریعہ نہیں تھا بلکہ حالات زمانہ کے لحاظ سے ہی ان کی ذمہ داریاں تھیں ۔
اسی وجہ سے بعض ائمہ محفوظ اور آزاد تھے اگرچہ صحیح معنی میں امان اور آزاد نہ تھے ۔
چوتھی دلیل کا جواب :
شرع مقدس میں کسی کی اولاد، دایہ کے قول یا ولادت کے وقت حاضر عورتوں کی کہنے یا باپ کے اعتراف سے یا دو مسلم افراد کے اقرار سے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے ثابت ہوجاتی ہے ، لہٰذا یہ تمام پہلو اس سلسلے میں موجود ہیں ۔
چنانچہ جناب حکیمہ بنت امام جواد علیہ السلام نے دایہ کے فرائض انجام دئے ہیں اور ولادت (مھدی ) پر گواھی دی ہے ۔
اسی طرح امام عسکری علیہ السلام نے اپنے خاص اصحاب کے سامنے اپنے فرزند کے بارے میں اقرار کیا
اسی طرح یکے بعد دیگرے مسلمانوں نے (نسل در نسل) اس کی روایت کی ہے اور اس کی صحت کی گواھی دی ہے، شیعہ امامیہ اجماع کے ساتھ ساتھ بہت سے مو لفین و مورخین نے بھی خبر ولادت کی روایت کی ہے مثال کے طور پر چند افراد کے اسماء گرامی درج کئے جاتے ہیں :
۱ ۔محمد بن طلحة الشافعی المتوفی ۶۵۲ ھ
۲ ۔ سبط ابن الجوزی المتوفی ۵۵۴ ھ
۳ ۔ الکنجی الشافعی المتوفی ۶۵۸ ھ
۴ ۔ابن خلکان الشافعی المتوفی ۶۸۱ ھ
۵ ۔ صلاح الدین الصفدی المتوفی ۷۶۴ ھ
۶ ۔ابن حجر ہیتمی الشافعی المتوفی ۸۵۲ ھ
۷ ۔ ابن الصباغ المالکی المتوفی ۸۵۵ ھ
۸ ۔ ابن طولون الدمشقی متوفی ۹۵۳ ھ۔
۹ ۔ الحسین بن عبداللہ سمرقندی متوفی ۱۰۴۳ تقریبا۔
۱۰ ۔ محمد العیان الشافعی متوفی ۱۲۰۶ ۔
۱۱ ۔ سلیمان القندوزی الحنفی متوفی ۱۲۹۴ ھ۔
۱۲ ۔ محمد امین السویدی متوفی ۱۲۴۶ ھ۔
۱۳ ۔ مومن الشبلنجی الشافی متوفی ۱۴۵ ھ۔
تیسرا مرحلہ :
امکان غیبت اور اس کے دلائل
قارئین کرام ! گذشتہ مرحلوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ عقیدہ مھدویت اسلام کابنیادی عقیدہ ہے جس کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بھی (گذشتہ احادیث میں ) بشارت دی ہے اور اصحاب و علماء نے ہر زمانہ میں یکے بعد دیگرے روایت کی ہے ۔
اس طرح یہ بات بھی طے ہوگئی ہے کہ جس مھدی کا احادیث میں تذکرہ ہوا ہے وہ محمد بن الحسن العسکری (علیہ السلام ) ہیں اور وہ سامرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی ولادت کی خبر اس روز خاص اصحاب تک پهونچی ہے نیز اس کے بعد سے تاریخ کے دامن میں اسی طرح مشهور ہے گذشتہ دو مرحلوں کے بعد ضروری ہے کہ تیسرے مرحلہ میں گفتگو کی جائے جو خود پہلے دو مرحلوں سے متعلق ہے کہ (حضرت) محمد (بن الحسن امام مہدی) کی ولادت ہو چکی ہے اور وھی مھدی ہیں، لہٰذا بہتر ہے درج ذیل بحث کو مختلف پھلوؤں سے واضح کریں:
۱ ۔کیا امام مھدی غائب ہیں ؟
۲ ۔اور اگر غائب ہیں تو کیا انسان اتنی طولانی عمر پا سکتا ہے ؟
اور چونکہ یہ مرحلہ بہت حساس ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ بحث میں وارد ہونے سے پہلے ایک مقدمہ بیان کریں تاکہ نتائج اور اہداف کو بہترین طریقہ سے واضح کرنے میں مدد مل سکے ۔
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ اسلام نے عقیدہ و ایمان کے لئے عقل کو اساس و مصدر قرار دیا ہے اور اندھی تقلید سے روکا ہے چونکہ غرض یہ ہے کہ اصول اعتقاد عقل سے مستند ہوں ، اورعقل کے ذریعہ ہی ان کو پرکھ کر عقیدہ کی منزل تک پهونچا جائے ، اور اس میں ہوائے نفس نردم دلی اورذاتی نظریات کو دخل نہیں ہونا چاہئے ۔
عقل ہی کے ذریعہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے اور یھی ایمان کی طرف ہدایت کرتی ہے اوریھی خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دلیل قائم کرتی ہے ۔
انسان اسی عقل کے ذریعہ خدا کے ایمان کے ساتھ ساتھ ضرورت نبوت ، امامت اور معاد پر دلیل قائم کرتا ہے ۔
لیکن احکام شرعی کے دوسرے فرعی احکام میں عقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ، اور اس طرح کی دلیل قائم کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ ان کو قبول کرنے کے لئے فقط شرعی طریقہ سے نصوص کا وارد ہوجانا ہی کافی ہے ۔اسی وجہ سے امت اسلامی ملائکہ کے وجود، جناب عیسی کے گهوارہ میں کلام کرنے نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ھاتھوں پر سنگریزوں کے تسبیح کرنے پراعتقاد رکھتے ہیں جو قرآن کریم اور سنت صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں ۔
اسی طرح جب ہم اما م مھدی اور ان کی غیبت کی بحث کرتے ہیں تو ہماری اس بحث سے اصول اسلام کو قبول کرنے والے افراد مراد ہوتے ہیں ، اور جوافراد خدا کا بھی انکار کرتے ہیں یا اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذھب کو مانتے ہیں وہ ہماری مراد نہیں ہیں ۔ کیونکہ اس مسئلہ کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و احادیث کا سھارا لینا ضروری ہے اور جو شخص قرآن و سنت ہی کو نہ مانتا ہو تو اس کے سامنے قرآن و احادیث سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
دوسرے الفاظ میں یہ عرض کیا جائے کہ ہم اس موضوع پر دینی اعتقاد کی بنیاد پر بحث کرتے ہیں جو شرعی دلائل سے مستند ہوتے ہیں اور تمام مسلمانوں کے نزدیک ان پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ، چنانچہ ہم نے کسی دوسری چیز کو بنیاد نہیں بنایا، اور ہمارا یہ مسئلہ ایک آسان حساب کی طرح نہیں ہے جیسے ۲ اور ۲ چار ہوتے ہیں یا کسی فلسفی قاعدہ کی طرح جو اپنی جگہ مسلم ہے اور اس میں کوئی مناقشہ نہیں کیا جاسکتا جیسے دور و تسلسل کے باطل ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہوتا۔
قارئین کرام ! ہم اس مسئلہ میں ہر پہلو کی قرآن و سنت کے ذریعہ وضاحت کریں گے کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیا ن یھی دونوں باب معرفت اور تشریع کے منابع ہیں ۔
اور اگر کوئی شخص ان دونوں کا انکار کردے وہ اسلام اور اسلام کے تمام احکام کے دائرہ سے خارج ہوجائے گا.
اور جب ہمار ی تمھید واضح ہوگئی ہے تو ہم کہتے ہیں : ”وہ احادیث نبی “ جن کو اکثر حفاظ حدیث نے بیان کیا ہے اور ان احادیث میں لفظ ”غیبت“ کی
تکرار ہوئی ہے ۔
(
وَلِیُمَحِّصَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِینَ
)
”اور یہ بھی منظور تھا) کہ سچے ایمانداروں کو ثابت قدمی کی وجہ سے (نراکھرا) الگ کرلے اور نافرمانوں (بھاگنے والوں )کا ملیامیٹ کردے“
اس کے بعد جناب جابر سے کھا :یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کے اسرار میں سے ایک راز ہے پس تم کو کبھی اس سلسلے میں شک نہ ہو کیونکہ خدا وند عالم کے امور میں شک کرنا کفر ہے ۔
اور بعض احادیث میں اس طرح ہے :
تکون له غیبة و حیرة تضل فیها الامم
(اس امام مھدی ) کے لئے ایسی غیبت ہوگی جس میں لوگوں کو حیرت ہوگی اور لوگ گمراہ ہوجائیں گے ۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے :
”لا یثبت علی القول بامامة الامن امتحن اللّٰه قلبه للایمان
“
ان کی غیبت ان کے اصحاب سے بھی ہوگی ان کی غیبت کا اقرار صرف وھی لوگ کرسکتے ہیں جن کا خدا وند عالم نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہوگا ۔
اس طرح ابن عباس کی روایت ہے :
”یبعث المهدی بعد ایاس حتی یقول الناس :لا مهدی
“
امام مھدی کا ظهور نا امیدی کے بعد ہوگا یھاں تک کہ لوگ کہنے لگیں گے کہ کوئی مھدی نہیں ہے ۔
قارئین کرام ! مذکورہ احادیث میں لفظ غیبت سے مراد یہ نہیں ہے کہ اما م مھدی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونگے اور اپنی وفات کے بعد دوبارہ اس دنیا میں لوٹائے جائیںگے بلکہ لفظ غیبت اس بات کی طرف اشارہ کررھا ہے کہ وہ مخفی ہیں اور پردہ میں ہیں اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور ان کو دیکھا نہیں جاسکتا، ان احادیث کا مطالعہ کرنے سے یھی بات انسان کے ذہن میں آتی ہے۔
اور اس حدیث شریف نقل کرنے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے:
”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیہ “
(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مر جائے اس کی موت جاھلیت کی موت ہوتی ہے۔)
اس حدیث کے مطابق ہر زمانہ میں امام کا ہونا ضروی ہے ۔
اب جبکہ ولادت محمد بن الحسن المھدی ثابت ہوگئی جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ،تو پھر لفظ ”غیبت “ اور ہر زمانہ میں وجود امام کی ضرورت بہترین اور جامع دلیل ہیں کہ حضرت امام مھدی علیہ السلام آج تک زندہ ہیں اور اس سلسلہ میں ہوئے تمام اعتراضات کا خاتمہ کردیتی ہیں۔
اور اگر کوئی شخص امام مھدی کی وفات کی بات کرے تو پہلے تو یہ گذشتہ احادیث کے مخالف ہے جن میں آپ کی غیبت اور استمرار حیات کے بارے میں بیان ہوا ہے اور اس کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی وفات کے بارے میںکوئی دلیل نہیں بیان کی یھاں تک کہ منکرین کی کتابوںمیں بھی اس طرح کی کوئی بات ذکر نہیں ہوئی کہ کب آپ کی وفات ہوئی کونسا دن تھا کونسی تاریخ تھی اور کیاسن تھا کب آپ کی تشیع جنازہ ہوئی کون لوگ آپ کی تشیع جنازہ میں شریک ہوئے؟ کھاں دفن ہوئے؟ کس شھر میں دفن ہوئے؟
لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظریہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ کا وجومبارک باقی ہے اور آپ دشمنوں کی نگاهوں سے مخفی ہیں اور آپ اپنی زندگی کی محافظت کررھے ہیں ۔
قارئین کرام ! امام علیہ السلام کی غیبت کے دو مرحلہ تھے ۔
۱ ۔ آپ کا لوگوں کی نظروںسے مخفی ہوناجب خلیفہ وقت کے لشکر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا آپ اسی وقت سے صرف اپنے معتمد نائبین سے ملاقات کرتے تھے اور انھی کے ذریعہ شیعوں کے مسائل اور مشکلوں کا جواب دیا کرتے تھے (امام علیہ السلام کی غیبت کایہ سلسلہ ۷۰ / سال تک جاری رھا اور اس زمانہ کو غیبت صغریٰ کہتے ہیں)
۲ ۔ آپ کا مکمل طور سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجا نا چنانچہ اب کسی سے بھی ملاقات نہیں کرتے ۔
کسی انسان کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ ( جبکہ امام مھدی کے وجوداور آپ کی غیبت اور آپ کی ادامہ حیات کے بارے میں یقین ہے ) کہ کیا کوئی انسان اتنی طولانی عمر پا سکتا ہے ؟ اور کیا عقل اس بات کو قبول کرتی ہے ؟
اس سوال کے جواب سے پہلے ہم قارئین کرام کے اذھان عالیہ کو گذشتہ مطلب کی طرف لے جانا چاہتے ہیں کہ اگر حقائق شرعی صحیح احادیث کے ذریعہ ثابت ہوجائیں تو چونکہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ان کا قبول کرنا ہمارے لئے ضروری ہے، چاھے ہمارے ذہن میں اس کا فلسفہ نہ بھی آئے اور اس بات کو سمجھنے سے قاصر رھیں۔
اور اگر کسی حکم کی حکمت اور علت نہ سمجھ پائیں تو اس کو انکارکرنے سے انسان بری الذمہ نہیں ہوسکتا بلکہ ہر حال میں اس پر یقین واعتقاد رکھنا ضروری ہے کیونکہ اسلام کے مسلم احکامات کا اس وجہ سے انکار کرنا صحیح نہیں ہے کہ یہ چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آرھی ہیں یا اس کی تاویل سے ہم قانع نہیں ہورھے ہیں۔
چنانچہ طول عمر اور سیکڑوں سال تک کسی کا زندہ رہنا محال نہیں ہے جیساکہ بعض لوگوں کا گمان ہے، بلکہ مورخین نے تاریخ بشریت کے ایسے بہت سے واقعات بیان کئے ہیں جن کی بہت زیادہ عمر رھی ہے، مثلاً حضرت آدم علیہ السلام نے ہزار سال کی عمر پائی۔
اسی طرح لقمان حکیم(صاحب نسور) نے ۳۵۰۰ سال عمر پائی، نیز جناب سلمان فارسی نے طویل عمر پائی جیسا کہ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ جناب سلمان فارسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معاصر تھے اور خلیفہ دوم کے زمانہ میں وفات پائی۔
اسی طرح بہت سے ایسے افراد تھے جنھوں نے سیکڑوں سال کی عمر کی، جن کے بارے میں بہت سے مورخین نے بیان کیا ہے خصوصاً جناب سجستانی صاحب نے زیادہ عمر کرنے والوں کو اپنی کتاب میں جمع کیا ہے جو ”المعمرون“ کے نام سے ۱۳۲۳ ھ مطابق ۱۹۰۵ ء میں مصر میں پہلی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔
قارئین کرام ! یہ تھا تاریخی پہلو جس کے ذریعہ کسی انسان کی طولانی عمر پانے کا اثبات کیا جاسکتا ہے۔
اب رھا قرآن کے ذریعہ استدلال، قرآن کریم کی گفتگو تمام مورخین اور روایوں سے زیادہ صادق اور بہترین دلیل ہے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
”جناب نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں ” ۹۵۰“ سال تبلیغ کی اور خدابہتر جانتا ہے کہ تبلیغ سے پہلے اور طوفان کے بعد جناب نوح کتنے سال زندہ رھے۔ اس طرح جناب یونس علیہ السلام بطن ماھی میں طویل مدت تک باقی رھے اور اگر خدا کا لطف و کرم نہ ہوتا تو بطن ماھی میں قیامت تک باقی رہتے :
(
فَلَوْلَا اِنَّهُ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبَثَ فِیْ بَطْنِه اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
)
”پھر اگر یونس (خدا کی ) تسبیح (وذکر ) نہ کرتے تو روز قیامت تک مچھلی ہی کے پیٹ میں رہتے پھر ہم نے ان کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) ایک میدان میں ڈال دیا“
حضرت یونس کا شکم ماھی میں باقی رہنا یعنی قیامت تک زندہ رہنا اس طرح ان کے ساتھ مچھلی کا بھی اس طولانی مدت تک زندہ رہنا ثابت ہوتا ہے ۔
اس طرح اصحاب کہف کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَ لَبِثُوا فِیْ کَهْفِهِمْ ثَلاٰثَ مِاٴَئةَ سَنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعاً
)
”اور اصحاب کہف اپنی غارمیں تو تین سو برس سے زیادہ رھے “
اور یہ بھی معلوم نہیں کہ غار میں جانے سے قبل اور غار سے باھر نکلنے کے بعد کتنے سال زندہ رھے۔
اسی طرح ارشاد خدا وندی ہوتاھے :
(
اٴَوْ کَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِهَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی هَذِهِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَاٴَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَکْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ
)
”(اے رسول تم نے) مثلاً اس (بندے کے حال) پر بھی نظر کی جو ایک گاؤں پر سے (هوکر) گزرا اور وہ ایسا اجڑا تھا کہ اپنی چھتوں پر ڈھے کر گرپڑا تھا یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا اے اللہ اب گاؤں کو (ایسی) ویرانی کے بعد کیونکر آباد کرے گا اس پر خدا نے اس کو (مارڈالا) اور سو برس تک مردہ رکھا او رپھر اس کو جلا اٹھایا (تب) پوچھا تم کتنی دیر پڑے رھے ؟ عرض کی: ایک دن پڑا رھا یا ایک دن سے بھی کم ، فرمایا: نہیں ، تم (اس حالت میں) سو برس پڑے رھے ، اب ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ ابھی تک خراب نہیں ہوئیں، اور ذرا اپنی سواری (گدھے) کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر پڑی ہیں،اور ہم اسی طرح تمھیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں، پھر ان ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شے پر قادر ہے“۔
کھانے پینے کی چیزوں کاسوسال تک خراب نہ ہونا انسان کی طولانی عمر سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے
ان کے علاوہ مولفین سیرت و حدیث نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جناب خضر علیہ السلام جناب موسی علیہ السلام سے پہلے تھے اور آخر زمان تک باقی رھیں گے ۔
تو کیا جن باتوں کو قرآن مجید اور سنت نبوی بیان کررھی ہے ان تمام باتوں کی تصدیق کرنا ایک مسلمان پر واجب نہیں ہے ؟ یا ان باتوں کی تصدیق کرنا واجب نہیں ؟ اور اگر ہماری عقل ان باتوں کو نہ سمجھے توکیا ہمارے لئے ان چیزوں کا انکار کرنا صحیح ہے جس کے بارے میں آج کا علم کشف اسرار کرنے سے قاصر ہے۔؟
قارئین کرام ! امام مھدی کی غیبت کا موضوع بھی اسی طرح ہے لہٰذا مذکورہ نصوص ودلائل کے مطابق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تصدیق کرتے ہوئے آپ کی حیات پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شان میں خداوندعالم فرماتا ہے:
قارئین کرام ! تو کیا ڈاکٹر صاحب کو جناب نوح ،جناب یونس(علیہم السلام)،مچھلی اور اصحاب کہف پر موت کا حکم جاری نہ کرنا عقل کوگھودینے کے مترادف نہیں ہے ۔
(
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهویٰ اِنْ هو الِاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی
)
”اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نھیں، یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے۔“
آپ کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے حکم خدا ہے :
(
وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَاب
)
”اور ھاں جو تم کو رسول دیدیں وہ لے لیاکرو، اور جس سے منع کریں اس سے باز رهو اور خدا سے ڈرتے رهو، بے شک خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔“
لہٰذا (امام مھدی پر ) ہمارا ایمان و عقیدہ کوئی عجیب وغریب شی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی چیز ہے جس کا سابقہ اسلام میں نہ ہو بلکہ یہ تو جناب نوح کی عمر اور جناب یونس کا شکم ماھی میں باقی رہنا یا سو سال تک کھانے کا خراب نہ ہونے پر ایمان کی طرح ہے ۔اب جبکہ قرآن واحادیث کے ذریعہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ انسان ہزاروں سال باقی رہ سکتا ہے اور گذشتہ امتوں میں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں ۔بس یہ بات مافوق علم یا مافوق عقل نہیں ہے جیسا کہ آج کا علم بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان ہزاروں سال زندہ رہ سکتا ہے اگر اس کے بدن کی طاقت کو محفوظ رکھنے کے وسائل مھیا ہوجائیں ۔
چنانچہ آج کل کے ڈاکٹروں کا ماننا یہ ہے کہ جسم کے اہم اجزاء بی نھایت وقت تک باقی رہ سکتے ہیں اور انسان کے لئے ممکن ہے کہ وہ ہزاروں سال زندہ رھے اگر اس کے لئے ایسے عوارض پیش نہ آئیں جن سے ریسمان حیات قطع ہوجائے، اور ان کا یہ کہنا صرف ایک گمان ہی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے تجربات سے اس نتیجہ پر پهونچے ہیں ۔انسان ساٹھ ،ستر یاسو سال کی عمر میں نہیں مرتا مگر یہ کہ بعض عوارض کی بنا پر اس کے بعض اعضاء خراب ہوجاتے ہیں یا بعض اعضاء کا دوسرے اعضاء سے ربط ختم ہوجانے پر انسان کی موت واقع ہوتی ہے اور جب سائنس اتنی ترقی کرلے گا کہ ان عوارض کو دور کرسکے تو پھر انسان کا سیکڑوں سال زندہ رہنا ممکنات میں سے ہوجائے گا
اس طرح ”جان روسٹن“ اپنے تجربیات اور کشفیات کی بنا پر قائل ہے کہ انسان کو سالم زندہ رکھنا کوئی محال کام نہیں ہے
کیونکہ مشهورو معروف ماھرین نے جو گذشتہ صدیوں میں اکتشافات کئے ہیں ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ انسان ایک ایسا مرکب نسخہ تیار کرے گا جس سے مزید تحقیق کرنے کے بعد اس مرحلہ تک پهونچ سکتا ہے جیسا کہ ”براون سیکوارڈ“،” کسی کاریل“، ”فورنوف مینش بنکوف“، ”بوغو مولٹینر“اور ”فیلاتوف “وغیرہ نے تجربات کئے ہیں ۔
لیکن” روبرٹ ایٹنجر“ نے ابھی کچھ دنوں پہلے ایک بہترین کتاب بنام”کیاانسان کا ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا ممکن ہے “ لکھی جس میں انسان کو مزید امیدوار کیا ہے اور یہ کھا یہ انسان جو زندہ ہے اور سانس لیتا ہے تو ان فیزیا ئیہ(وظائف اعضاء بدن) حصہ میں اپنی بقا کا مالک ہوجاتا ہے، یعنی انسان کے اعضاء وجوارح اگر ان پر کوئی مشکل نہ پڑے تو یہ طولانی مدت تک کام کرسکتے ہیں۔
ان تمام وضاحتوں کے بعد علاوہ جن میں انسان کا ہزاروں سال باقی رہنا ممکن ہے ،اور اگر انسانی خلیوں کو برف میں رکھ دیا جائے تو وہ خلیے محفوظ رہتے ہیں او راگر ان کو برف سے نکال کر مناسب گرمی دی جائے تو اس کی حرکت واپس آجائے گی۔اور جب حقیقت یھاں تک واضح ہوگئی اس کے علاوہ ہم عصر ماھرین نے بھی انسان کی طویل عمر کے امکان پر تاکید اور وضاحت کی ہے ، او ر ان وسائل کا پتہ لگانا جن کے ذریعہ سے انسان طولانی عمر حاصل کرسکتا ہے یھی ایک اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے جس کی وجہ سے انسان دنیاوی مشکلات کو دفع کرسکتا ہے،پس جب انسان کا حسب استعداد وطبیعت باقی رہنے کا امکان صحیح ہے تو پھر حضرت امام مھدی (عج) کا اتنے سال زندہ رہنا حسب طبیعت اور ارادہ الٰھی کی بدولت ممکن اور صحیح ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے گذشتہ مطالب کو ملاحظہ فرمایا اور چونکہ آج کل کا یہ زمانہ جس میں ہم زندگی گذار رھے ہیں فکری اعتبار سے پر آشوب زمانہ ہے لہٰذا اس دور میں اس مصلح منتظر کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے جو صحیح راہ سے بھٹکی انسانیت کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کرے۔ اور چونکہ عقل بشری (مسلم وغیر مسلم) ایسے مصلح منتظر کے وجود ضروری کا اقرار کرتی ہے، اگرچہ اس کے پاس آیات وروایات سے کوئی نص بھی موجود نہ ہو جیسا کہ انگریزی مشهور ومعروف فلسفی ”برنارڈشَو“ نے اس مصلح منتظر کے بارے میں اشارہ کیا ہے او راپنے ذاتی نظریات کو اپنی کتاب ”الانسان والسوپر مین“ میں بیان کیا ہے ، اس کا نظریہ ہے کہ یہ مصلح منتظر ایک زندہ اور صاحب جسم انسان ہے جن کا بدن صحیح وسالم ہے اور خارق العادة عقل کا مالک ہے وہ ایک ایسا اعلیٰ انسان ہے جس تک ایک ادنیٰ انسان جدوجہد کے ذریعہ ہی پهونچ سکتا ہے ، اوراس کی عمر ۳۰۰ سال سے کھیں زیادہ طولانی ہے، اور وہ قدرت رکھتا کہ ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائے جس کو اس نے اپنی حیات میں حاصل کیا مثلاً اپنی زندگی میں تجربات کئے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے تاکہ اپنے بدن کو صحیح وسالم رکھ سکے۔“
چنانچہ جناب عباس محمود العقاد” برنارڈشو“ کی گفتگو پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ”موصوف کی باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ”سوپر مین شو“ کا وجود ومحال نہیں ہے اور ان کی دعوت دیناایک مسلم حقیقت ہے“
آئےے آخر کلام میں خداوندعالم کی بارگاہ اقدس میں عرض کریں: ”اللّٰهم انا نشکو الیک فقد نبینا، وغیبة ولینا وکثرة عدونا وقله عددنا وشدة الفتن بنا، وتظاهر الزمان علینا، فصلی علی محمد وآله واعنا علی ذلک بفتح منک تعجله، وبضر تکشفه ونصر تعزّه وسلطان حق تظهره“ اللّٰهم انصره نصراً عزیزاً وافتح له فتحاً یسیراً واجعلنا من انصاره واعوانه انک سمیع مجیب“ وآخردعونا ان الحمد لله رب العالمین
۔
ملحق کتاب
اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے بعد استاد شیخ محمد رضوان الکسم (مقیم دمشق) کا ایک خط ملا جس میں انھوں نے ہماری بعض چیزوں پر اعتراض کیا ۔
لیکن اب جبکہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شایع رھا ہے ہم نے ان کے خط اور اپنے جواب کو اس بحث کے خاتمہ پر نقل کردینا مناسب سمجھاتاکہ ہمارے قارئین کرام بھی اعتراضات مع جوابات ملاحظہ کرلیں۔
شیخ کسم کا خط
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
۔
الحمد لله رب العالمین والصلوة والسلام علی خاتم النبین ۔
محترم جناب شیخ محمد حسن آل یاسین صاحب
سلام علیکم وروحمة اللّٰہ وبرکاتہ
امابعد:
آپ کی کتاب ”المہدی بین التصور والتصدیق“
نظروں سے گذری اور اس کامطالعہ کیا اور جیسا کہ آپ نے اس میں بیان کیا کہ ہماری یہ کتاب ایک بہترین اور صاف ستھری گفتگو نیز خود غرضی سے خالی ہے لیکن کتاب پڑھتے وقت آپ کی کچھ باتوں نے مجھے تعجب میں ڈال دیا جیسا کہ آپ نے فرمایا:
”اسلام نے عقیدہ کے لئے عقل کو اصل قرار دیا ہے اور اندھی تقلید سے منع کیا ہے“
لیکن ہمارے لحاظ سے آپ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ہیں اور خداوند عالم نے کسی چیز پر بغیر یقین کے اعتقاد رکھنے کو سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے :
(
قُلْ هَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا
)
”اے رسول تم کهو کہ کیا تمھارے پاس کوئی دلیل ہے (اگرھے) تو ہمارے (دکھانے کے واسطے )اس کو نکالو “
ایضا :
(
لَوْلَا یَا تُوْنَ عَلَیْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ اِفْتَرَیٰ عَلَی اللّٰهِ کِذْباً
)
(پھر یہ لوگ ان کے معبود ہونے ) کی کوئی صریح دلیل کیوں نہیں کرتے اور جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان سے زیادہ ظالم اور کون ہوگا )
ایضا:
(
مَالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اِتِّبَاعُ الظَّنِّ
)
”ان کو اس واقع کی خبر ہی نہیں مگر فقط اس گمان کے پیچھے چل رھے ہیں “
بس گویا خدا وند عالم ہم سے علم و یقین چاہتاھے اور ظن و گمان سے منع فرماتا ہے ،اور ظن پر عمل کرنے والوں کے لئے وعدہ عذاب دیا ہے لہٰذا ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے اعتقادات یقین کے مطابق ہونے ضروری ہیں ۔
اسی طرح آپ کی اس کتاب کے مطالعہ کے بعد آپ کی اس بات پر بھی اعتراض ہوا کہ حضرت امام مھدی (عج) کے عقیدہ کے بارے میں علم و یقین موجود ہے جیسا کہ آپ نے تحریر کیا کہ آپ (امام مھدی عج) کے بارے میںمتواتر احادیث وارد ہوئی ہیں اوریہ احادیث صاف طور پر بھی اور اشارتاً بھی، اور آپ نے کتاب کے حاشیہ میں حوالہ دیا شیخ شرف الدین کی کتاب المراجعات اور علامہ امینی کی کتاب الغدیر ج اول کا ،لیکن جب ہم نے ان دونوں کتابوں میں رجوع کیا تو ہمیں اس نظریہ پر استدلال کرنے والی احادیث نہیں ملی چونکہ جو احادیث ہیں بھی ان کی سند ،،سند احاد ہیں نہ کہ تواتر جیسا کہ آپ نے دعوی کیا ہے، تو کیا یہ احادیث یقین کی منزل تک پهونچاتی ہیں؟ واقعا آپ کی باتیں تعجب خیز ہیں ۔
اس طرح آپ کا یہ قول کہ امام مختار کے لئے تمام برائیوں سے پاک و پاکیزہ اور تمام صفات کمال کا حامل ہونا ضروری ہے (اور اسی کو عصمت کہتے ہیں ۔۔۔تا آخر۔) برادر عزیز !یہ کون سی عصمت ہے کیا کوئی انسان معصوم ہوسکتا ہے کیا آپ ہی نے امام علیہ السلام کا قول نقل نہیں کیا کہ” کل آدم خطا ء و خیرالخطائین توابون“ (ھرانسان خطاکارھے اور بہترین خطا کاروہ ہے جو توبہ کرلے )کیا اس قول سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات مستثنیٰ ہے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممستثنیٰ نہیں ہیں تو پھر آپ کے پاس عصمت کے لئے کیا دلیل ہے ؟!
اس کے علاوہ آپ نے درج ذیل مرقوم صحیح حدیث :”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة “
(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے اس کی موت جاھلیت کی موت ہوتی ہے)؛سے استدلال کیا اور اس سے محمد بن الحسن (امام مھدی ) کی امامت ثابت کرنا چاھی کیا کوئی عقلمند انسان آپ کی اس بات کو قبول کرسکتا ہے ؟ ! مذکورہ حدیث تو اپنے منطوق و مفهوم سے صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہر مسلمان اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے اور کتاب وسنت پر عمل کے ذریعہ اس (امام )کی بیعت کرے، لہٰذا مذکورہ حدیث امامت پر دلالت نہیں کرتی ، تو آپ نے کس طرح (امام) مھدی کی امامت کو مراد لیا اور کس طرح سے بارہ اماموں کی امامت میں محصور کیا آپ کی یہ بات بغیر دلیل نہیں ہے ؟!!
کیونکہ خدا وند عالم نے ہم تک بیان پہنچادیا ہے لہٰذا ہمیں روایات و احادیث کی پیر وی کرنا ہوگی ،اور اگر وہ احادیث قطعی ہوں تو ہم ان سے اپنے عقائد اخذ کریں گے اور اگر احادیث ظنی ہونگی تو ان سے صرف احکامات اخذ کرسکتے ہیں ،پس کسی بھی عقلمند مسلمان کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ وہ امور مظنونہ کے مطابق اعتقاد رکھے یعنی کسی چیز کاگمان کے مطابق معتقد ہوجائے اور کہنے لگے کہ (حضرت امام)مھدی عنقریب آئیں گے، جب تک اس کے پاس ایسی قرآنی دلیل نہ ہو جس کے ذریعہ برھان قائم کرسکے ۔ہم آپ اور آپ کے دوستوں سے امید وار ہیں کہ ہمارا یہ خط وکتابت کا سلسلہ اطمینان بخش ثابت ہو ،تاکہ خدا وند عالم کی رضایت و خوشنودی حاصل ہو سکے۔ والسلام علیکم و رحمةاللّٰہ وبرکاتہ۔
محمدرضوان الکسم
۱۵ ربیع الثانی ۸۹ ۱۳ ھ ۲۹/۷/۱۹۶۹ ئ
خط کا جواب
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
جناب محترم محمد رضوان الکسم صاحب
سلام علیکم و رحمة اللّٰہ وبر کاتہ۔
آپ کا خط ملا ،محبت کا شکریہ ۔
۱ ۔لیکن ہم اپنے اس قول سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹےں گے کہ اسلام نے عقل کو مصدر عقیدہ اور ایمان کی بنیاد قرار دیا ہے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا : عقائد یقین کے ساتھ ہونے چاہئیں ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اس سلسلہ میں بھی ذرہ برابر عقب نشینی نہیں کریں گے چاھے اس کے نتائج ہمارے حق میں ہوں یا ہمارے ضرر میں ۔
۲ ۔ جن احادیث نبوی کے بارے میں ہم نے تو اتر کا ادعا کیا ہے وہ حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ہیںاور وفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد وھی شرعی طور پر امام ہیں اور ہم نے تواتر سے مراد تواتر معنوی لیا ہے تواتر لفظی نھیں،کیونکہ وہ تمام احادیث اپنی تمام تر تاکید کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں اگرچہ آپ کے نظریہ کے مطابق ان احادیث کی سند احاد (غیر متواتر ) ہیں لیکن وہ تمام ایک ہی مطلب(مسئلہ امامت) کی نشان دھی کرتی ہیں ،پس مسئلہ امامت تمام احادیث میں متواتر ہے ۔
۳ ۔ ہم نے عصمت کی تفصیلی بحث کتاب امامت میں کی ہے لہٰذا بحث عصمت کو مذکورہ کتاب میں ملاحظہ فرمائیں، انشاء اللہ آپ ہمارے نظریہ سے متفق ہوجائیں گے ۔
۴ ۔ اب رھا آپ کا وہ اعتراض جس میں آپ نے کھا : یہ تعین کھاں سے اور بارہ اماموں سے کس طرح مخصوص کیا کس نے بیان کیا یہ سب کچھ بغیر دلیل کے نہیں ہے ؟
تو ان سب سوالوں کے جواب بھی بحث امامت میں ملاحظہ فرمائیں ۔
۵ ۔ لیکن وہ اعتراض جو آپ نے خط کے آخر میں کیا کہ (امام ) مھدی (ع) کا اعتقاد امور مظنونہ (گمان ) میں سے ہے لہٰذا اس پر اعتقاد رکھنا صحیح نہیں ہے ۔
آپ کا یہ اعتراض اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے ہماری کتاب کو غور سے نہیں پڑھا اور اگر آپ دوبارہ اس کتاب کو غور وفکرکے ساتھ ملاحظہ کریں تو آپ ان اصحاب و حفاظ کی فھرست دیکھیں گے جنھوں نے حضرت امام مھدی (عج) کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی احادیث بیان کی ہیں اور ان افراد کی فھرست بھی دیکھیں گے جنھوں نے امام مھدی کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں یا ان کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے،لہٰذا ان علماء کا امام مھدی کے بارے میں احادیث کا بیان کرنا اور ان کی صحت کا اقرار کرنا کیا انسان کو قطع و یقین کی منزل تک نہیں پهوچاتا ؟!
وسلام علی من اتبع الهدی وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
۔
محمد حسن آل یاسین
____________________