اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27065
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27065 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

قیامت

( زَعَم الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اٴَنْ لَنْ یُبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَ رَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبِّو نَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ ) ( ۱ )

”کافروں کا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ دوبارہ نہ اٹھا ئے جائیں گے (اے رسول) تم کہہ دو، وھاں اپنے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھا ئے جاو گے پھر جو جو کام تم کرتے رھے اس بارے میں تم کو ضرور بتادیا جائے گا اور یہ تو خدا پر آسان ہے“

( قُلِ اَللهُ یَحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ القِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ) ( ۲ )

”(اے رسول )تم کہہ دو کہ خدا ہی تم کو زندہ (پیدا)کرتا ہے اوروھی تم کو مارتا ہے پھر وھی تم کو قیامت کے دن جس (کے ہونے)میں کسی طرح کا شک نھیں“

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد لله رب العالمین والصلوٰة و السلام علی خیرخلقه محمد وآله الطیبین الطاهرین

یہ وہ عظیم اسلام ہے جس نے اپنے احکامات و تکالیف نوع بشریت کے حوالے کئے ہیں اور اپنے تمام احکامات میں یا تو کسی فعل کو طلب کیا ہے یا اس فعل کے ترک کرنے کے لئے کھا ہے اسی طرح اپنے تمام اھداف و مقاصد میں جتنے بھی رابطے پائے جاتے ہیں چاھے اس شخص کامعاشرہ سے رابطہ ہو یا معاشرہ کا افراد سے رابطہ ہو یا ان تمام کا حکومت سے رابطہ ہو یا حکومت کا اپنے تمام شعبہ جات سے رابطہ ہو، اس کے بعد (ان تمام رابطوں سے بڑھ کر)انسان کا اپنے پروردگار سے رابطہ کس طریقہ سے ہو یا کس طریقہ سے خدا کی عبادت کی جائے اور اس کا تقرب حاصل کیا جا سکے۔

اس ہمیشہ باقی رہنے والے ا سلام نے اپنی تمام تر تعلیمات احکام،فرائض اور نظم و ضبط کے باوجود کیااس نے ایک مسلمان کو عملی میدان میں آزادی کا اختیار دیا ہے؟کہ اگر وہ چاھے تو عمل کرے اور نہ چاھے تو عمل نہ کرے؟

یا اس کو ملزَم اور مجبور کر دیا گیا کہ احکامات و تکالیف پر ہر حال میں عمل کرے اور کسی بھی صورت میں ان سے غفلت نہ کرے، کیونکہ اگر ان فرائض و احکام کی مخالفت کرے گا تو مستحق عقاب ہوگا ،۔

اور جب ایک مسلمان کے لئے ان تمام احکام پر مکمل طریقہ سے عمل کرنا ضروری ہے، تو کیا صرف ان مخالفتوں پر عذاب وعقوبت ہوگی جس کا علم حاکم وقت کو ہوجائے اور وہ اس کے لئے قانون کے معین شدہ عقوبت کو اس پر جاری کرے اور بس؟

لیکن وہ جرائم اور مخالفتیں جو مخفی طورپر انجام پاتی ہیں تو اس صورت میں تو کسی حاکم کو معلوم نہیں ہوتا تو کیا ان مخالفتوں پر کوئی عقاب نہیں ہوگا؟!

تو اس بارے میں کیا نظریہ ہے جس میں مخالفت اور قانون شکنی پر کوئی بھی دیکھنے والا نہیں ہوتا تاکہ اس کو اس کے جرائم کی سزا دلاسکے، لہٰذا یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ خدا کے اوامر واحکامات کی مخالفت ہے مثلاً انسان کا نمازنہ پڑھنا یا روزہ نہ رکھنا۔

اور جن مخالفتوں پر مجرم پر حد جاری ہوتی ہے یا اس کو دیت دینا پڑتی ہے تو کیا ان میں خداوندعالم کا حق بھی ہوتا ہے ”جس پر قانون وضعی کی اصطلاح میںعام حق کا اطلاق ہوتا ہے“ یا فقط مجرم پر حد جاری ہونے سے مجرم بالکل بری الذمہ ہوجاتا ہے؟

اور یہ مسلمان جو خدا کی خلوص کے ساتھ اطاعت کرتا ہے اور بہت سی لذات وشهوات اور رغبات کو اپنی اوپر حرام کرتا ہے تاکہ خدا کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے اس کا تقرب حاصل کرے ، جیسا روزہ دار جس کو بھوک وپیاس کا احساس ہوتا ہے لیکن خدا کی اطاعت میں روزہ بجالاتا ہے، یا جس طرح کوئی سامان کا بیچنے والا اگر وہ چاھے تو کم تول سکتا ہے یا کسی چیز میں ملاوٹ کرسکتا ہے ، لیکن خدا کی اطاعت کی خاطر یہ کام نہیں کرتا، یا اسی طرح کی دوسری مثالیں، جن میں انسان مخفی طریقہ سے کوئی حرام کام کرسکتا ہے لیکن خدا کی رضا کے پیش نظر اس کو انجام نہیں دے سکتا۔

چنانچہ یہ مسلمان جو اپنے نفس پر اتنی چیز وں کو صرف خدا کی خوشنودی کے لئے حرام قرار دیتا ہے، تو کیا اس کا ثمر ہ صرف یہ ہے کہ اس نے خدا کی اطاعت کرلی اور بس ، مرحبا،! یعنی اس کے بعد کوئی ثواب وجزا نھیں، یا اس کے بعد انسان کے لئے اس کا معاوضہ ملے گا جو اس نے اس دنیا میں رہ کر بہت سی چیزوں سے پرھیز کیا ہے اس کے بدلہ میں اس کو روزقیامت اتنااجر ملے گا کہ اس کا کوئی گھاٹا نہیں ہوگا، بلکہ اس کا بدلہ کھیں زیادہ ملے گا ۔

اور جبکہ اس کو یہ معلوم ہے کہ اس کو ان تمام چیزوں کے بدلے میں اتنا سب کچھ ملے گا تو وہ یہ کام اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتا ہے ، اور اس راہ میں آنے والی تمام روکاٹوں کا مقابلہ کرنے کےلئے دلی طور پر آمادہ رھے گا۔

اور جب یہ بدلہ صحیح ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اشارہ کیا تو یہ کب ہوگا اور کس طرح؟

تو پھر ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی گذارنے کے بعد اس منزل پر پہنچے جھاں اس کو اطاعت کے بدلے میں انعام واکرام ملے اور معصیت نافرمانی کے بدلے میں عقوبت و عذاب ملے۔

تو پھر انسان کے مرنے کے بعد ایک ایسے دن کا آنا ضروری ہے کہ جب اس کوحساب اور قضاوت کے لئے دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ شخص اپنے گذشتہ کاموں کی بنا پر مستحق ثواب وجزا ہے یا مستحق عذاب وسزا۔

لیکن یھاں پر پهونچنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب ممکن ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟ اور کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو قبول کرسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے؟ تا کہ اس کا حساب وکتاب ہوسکے اور اس کے ثواب وعذاب کے بارے میں طے کیا جاسکے؟!

قارئین کرام ! ہم نے انھیں تمام باتوں کی تفصیل بیان کرنے کے لئے اس حصہ کو مرتب دیا ہے تاکہ ہم اپنے قارئین کے سامنے ان مسائل کی تھوڑی تفصیل بیان کریں، البتہ ہم مطالب کو آسان عبارت میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے او رفلسفی اور دقیق اصطلاحوں سے پرھیز کریں گے تاکہ مطالب کماحقہ آپ حضرات تک پهونچ سکیں، اور آپ حضرات کی فکر روشن ہوجائے۔

ہمیں امید ہے کہ ان صفحات میں اپنے مقصد کو کما حقہ آپ تک پهونچائیں اور پیچیدہ مسائل کی توضیح وتفسیر بیان کریںتاکہ آپ حضرات تک اسلامی حقائق پهونچ جائیں۔

اوریہ بات بھی عرض کردینا ضروری ہے کہ: ہمارے قارئین کرام ہم سے یہ چاھیں (جبکہ ہم اصول دین کی اس اہم اصل (قیامت) کے بارے میں گفتگو کریں گے) کہ آپ کی بحث صرف عقلی ہونی چاہئے تاکہ نقض وبررسی کی جاسکے اور وہ بھی فلسفی روش کے مطابق تاکہ اس میں قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم یھاں پر ایک دوسرا طریقہ اختیار کررھے ہیں جو آپ کی خواہش سے تھوڑا مختلف ہے۔

کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کلی طور پر قیامت کا مسئلہ ہمارے عقیدہ اور شریعت اسلام کی حدود میں ہے، لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم قرآن کریم سے کوئی نظریہ اوردلائل پیش کریں اور اس کے بعد قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیارآپ لوگوں کوهوگا یا اس پر اشکال کا بھی اختیار ہوگا، لہٰذا ہم اسی روش کو اختیار کرتے ہیں۔

چنانچہ اس چیز کو ماننے میں کوئی عقلی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ تو منطق صحیح کا نتیجہ ہے جس کو ہر شخص قبول کرتا ہے اور اسی عقل کے ذریعہ انسان آہستہ آہستہ اپنے ایمان کو پختہ کرتا ہے او ر اس کو ہر اعتبار سے اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتا ہے۔

اورہم خداوندعالم پر ایمان رکھتے ہیں کہ وھی ہماراخالق اور ایجاد کرنے والا ہے، جبکہ اس ایمان پر عقل کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے۔( ۳ )

اسی طرح ہم خدا وندعالم پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو عادل مانتے ہیں جو ہر طرح کی ہواء نفسی، جھوٹ، ظلم اور برے قصد سے پاک و پاکیزہ ہے۔( ۴ )

اسی طرح خدا کے ایمان کے ساتھ ساتھ ہم نبوت عامہ (گذشتہ انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاتم (نبوت حضرت محمد مصفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر بھی ایمان رکھتے ہیں( ۵ )

کیونکہ یہ ایمان کے تینوں مراحل ایسے ہیں جو پہلے مرحلہ پر موقوف ہیں اور انھیں تینوں مراحل کی بنا پر ایک دوسرے مرحلہ کی نوبت آتی ہے جس کو قیامت کھا جاتا ہے، کیونکہ جب پہلے مرتبہ میں خدائے خالق وعادل پر ایمان رکھتے ہیں تو دوسری منزل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر ایمان رکھنا ضروری ہے اور تیسرے مرحلہ میں خداکی نازل کردہ کتاب (قرآن کریم) پر ایمان رکھنا ضروری ہوجائے گا، توپھر تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اس سلسلہ میں ان احادیث نبوی پر بھی عمل کریں جو خدا کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر وحی نازل ہوئی ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود ہم اس موضوع کو بیان کرنے میں صرف عقلی دلائل وبرھان پر ہی اکتفاء نہیں کریں گے بلکہ ہم یہ بھی بیان کریں گے کہ آیا عقلی طور پر قیامت کا وجود ممکن ہے یا محال؟ اور کیا عقل قیامت کے وجود کا تصور کرسکتی ہے یا نھیں؟ اور کیا یہ عقیدہ کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہے یا نہیں ، خلاصہ یہ کہ وجود قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآن واحادیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں بغیر افرادط وتفریط کے حق کو بیان کریں گے۔

خداوندعالم کا قول صادق اور سچا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هو لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ( ۶ )

”کوئی خدا نہیں سوائے اس کے وہ تم کو قیامت کے دن جس میں ذرا بھی شک نہیں ضرور راکھٹا کرے گا اور خدا سے بڑھ کر بات میں کون سچا ہوگا“

( وَیَقُولُونَ مَتَی هَذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ قُلْ لَکُمْ مِیعَادُ یَوْمٍ لاَتَسْتَاٴْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلاَتَسْتَقْدِمُونَ ) ( ۷ )

”اور (الٹے) کہتے ہیں کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو (آخر)یہ (قیامت کا) وعدہ کب (پورا) ہوگا، (اے رسول ) تم ان سے کہہ دو کہ تم لوگوں کے واسطے ایک خاص دن کی میعاد مقرر ہے کہ نہ تم اس سے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے ہی بڑھ سکتے ہو۔“

( یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ ) ( ۸ )

”اور( اس دن کو یادرکھو) جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیا میں) نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا“

( یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اٴَخِیهِ وَاٴُمِّهِ وَاٴَبِیهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِیهِ لِکُلِّ امْرِءٍ مِنْهُمْ یَوْمَئِذٍ شَاٴْنٌ یُغْنِیهِ وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضَاحِکَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ عَلَیْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ) ( ۹ )

”اس دن (قیامت) آدمی اپنے بھائی اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنے لڑکوں سے بھاگے گا اس دن ہر شخص (اپنی نجات) کی )ایسی فکر میں ہوگا جو اس کے (مشغول ہونے کے )لئے کافی ہو، بہت سے چھرے تو اس دن چمکتے ہونگے خنداں شادمان (یھی نیکوکار ہیں) اور بہت سے چھرے ایسے ہوں گے جن پر گرد پڑی ہوگی اس پر سیاھی چھائی ہوئی ہوگی (اور یھی کفار بدکار ہیں)“

وآخر دعونا ان الحمد لله رب العالمین

محمد حسن آل یاسین

کاظمین، عراق