قیامت کا ممکن ہونا اوراس کی دلیل
ہم نے اس بحث کے مقدمہ میں عر ض کیا تھا کہ ہم مسئلہ معاد پر مکمل طور پر عقیدہ رکھتے ہیں اور وھاں پر ہم نے یہ اشارہ بھی کیا کہ قیامت پر ایمان رکھنا خدا وند عالم کے ایمان کانتیجہ ہے کیونکہ وھی تمام مخلوقات کا خالق ہے اور تمام موجودات کی اصل وجہ ہے اور وھی مسبب الاسباب ہے،بغیر اس کے کہ اس کے وجود کے لئے کوئی سبب ہو،یا اس کے وجود کے لئے کوئی مسبب ہو۔ اور جب ہم نے خدا وند عالم کی ذات اقدس پر مکمل ایمان کر لیا اور یہ مان لیا کہ وھی تمام مخلوقات کی علت ہے،اور یہ کہ مادہ اس کی ایک مخلوقات میں سے ہے اگر چہ بعض نے مادہ کو ازلی اور ابدی تصور کیا ہے
لہٰذا انسان حشر ونشر اور قیامت کے عقیدہ سے فرار نہیں کرسکتا ،کیونکہ قیامت کا امکان پایا جاتا ہے اور اس کا واقع ہونا محال نہیں ہے۔
وہ عقل جو فاعل اول پر ایمان رکھتی ہے وہ ایسے راستے کھول دیتی ہے کہ اس فاعل کی ایسی قدرت پر ایمان رکھے جو اس فعل کو دوسری مرتبہ بلکہ ہزاروں مرتبہ انجام دے سکتا ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے جس کے لئے مزید وضاحت و استدلال کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس چیز کے لئے ہم ایک مثال پر اکتفاء کرتے ہیں کہ وہ شخص جو کوئی ایک چیز بنا سکتا ہے (مثلاً الکٹرونک عقل یا کوئی گاڑی)تو وہ انسان اس چیز کو دوبارہ بنانے کی بھی قدرت رکھتا ہے ،اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ،جب کہ ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ صانع اول خدا وندعالم کی ذات ہے۔
اسی طرح ایک گاڑی بنانے والا انجینئر اگراس گاڑی کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں مختلف پرزوں کو الگ الگ بھی کردے ،تو وہ پھر بھی اس بات پر قادر ہے کہ اس گاڑی کو ویسی ہی بنادے جس طرح وہ پہلے تھی ،اور کوئی شخص بھی اس سے کوئی دلیل طلب نہیں کرے گا کہ وہ ایسی قدرت کس طرح رکھتا ہے ،کیونکہ جو شخص کسی چیز کو پہلی مرتبہ بنا سکتا ہے وہ اس کو دوبارہ کیا بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں بار بنا سکتا ہے۔
بالکل اسی طرح قیامت کے امکان پر بھی دلیل قائم ہو سکتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں قرآن مجید نے واضح طورپر حشر ونشر اور قیامت کے عقیدہ کو بیان کیا ہے،لہٰذاہم یھاں پر صاحبان ارباب کے لئے قرآن مجید کی وہ آیات بیان کرتے ہیں جن میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ارشاد خدا وندی ہوتا ہے:
(
وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَءِ نَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ
)
”اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم (مرنے کے بعد سڑ گل کر)ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا از سر نو پیدا کرکے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟!! (اے رسول)تم کہہ دو کہ تم (مرنے کے بعد)چاھے پتھر بن جاو یا لوھا یا کوئی اور چیز جو تمھارے خیال میں بڑی (سخت)هواور اس کا زندہ ہونا دشوار بھی ہو، وہ بھی ضرور زندہ ہوگی، تو یہ لوگ عنقریب ہی تم سے پوچھیں گے بھلا ہمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا تم کہہ دو کہ وھی (خدا)جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا“
(
وَیَقُوْلُ الاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا اَوَ لَایَذْکُرُ الاِنْسَانُ اَناَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلمَ ْیَکُ شَیْئًا
)
”اور( بعض )آدمی (ابی بن خلف)تعجب سے کھا کرتے ہیں کہ کیا جب میں مرجاو ں گا تو جلدی سے جیتا جاگتا (قبرسے)نکالا جاو ں گاکیا وہ (آدمی)اس کو نہیں یادکرتا کہ اس کو اس سے پہلے جب وہ کچھ نہیں تھا پیدا کیا“
(
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاٴْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُه وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ
)
”(یہ) وہ دن (هوگا)جب ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیںگے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے جس طرح ہم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) دوبارہ (پیدا)کر چھوڑیں گے (یہ وہ)وعدہ (ھے جس کا کرنا) ہم پر لازم ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رھیں گے“
(
اَللهُ یَبْدَو ا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُه ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْ جَعُوْنَ
)
”خدا ہی نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا وھی دوبارہ (پیدا) کرے گا پھر تم سب لوگ اس کی طرف لوٹائے جاو گے“
(
وَقَالُوْا اٴَ ءِ ذَا کُنَّا عِظَاماً وَ رُفَاتاً اٴَءِ نَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلقاً جَدِیْداً
)
”اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم (مرنے کے بعد سڑ گل کر )ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، تو کیا از سر نو پیدا کرکے اٹھا کھڑے کئے جائیں گے“
(
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ قَادِرٌعَلٰی اَن یَّخلُقَ مِثْلَهُمْ
)
”کیا ان لوگوں نے اس پر بھی نہیں غور کیا کہ وہ خدا جس نے سارے آسمان اور زمین بنائے اس پر بھی (ضرور ) قادر ہے کہ ان ایسے آدمی دوبارہ پیدا کرے“
(
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً فِی قَرارٍ مَکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةًفَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰاماً فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْماً ثُمَّ اَنْشَاٴْ نٰهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُون ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰاَمَةِ تُبْعَثُوْنَ
)
”اور ہم نے آدمی کو گیلی مٹی کے جوھر سے پیدا کیا ،پھر ہم نے ا س کو ایک محفوظ جگہ (عورت کے رحم میں)نطفہ بنا کر رکھا پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنا یا ،پھر ہم نے منجمد خون کو گو شت کا لوتھڑا بنایا، ہم ہی نے لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیںپھر ہم ہی نے ہڈیوں پر گو شت چڑھایا پھر ہم ہی نے اس کو (روح ڈال کر)ایک دوسری صورت میں پیدا کیا تو (سبحان الله)خدابا برکت ہے جو سب بنانے والوں سے بہتر ہے پھر اس کے بعد یقینا تم سب لوگوں کو (ایک نہ ایک دن)مرنا ہے اس کے بعد قیامت کے دن تم سب کے سب قبروں سے اٹھائے جاو گے“
(
نَحْنُ خَلَقْنٰکُمْ فَلَوْلَا تُصَدِّقُوْنَ اَفْرَءَ یْتُمْ مَا تُمْنُوْنَ ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَه اَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ نَحْنُ قَدَّرْناَ بَیْنَکُمْ الْمَوْتَ وَ ماَ نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَعَلٰی اَنْ نُبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَ نُنْشِئَکُمْ فِی مَالَا تَعْلَمُوْنَ لَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاَةَ اٴلاُولٰی فَلَوْلاَ تَذَکَّرُوْنَ
)
”تم لوگوں کو(پہلی بار بھی) ہم ہی نے پیدا کیا ہے پھر تم لوگ (دوبارہ کی) کیوں نہیں تصدیق کرتے تو جس نطفہ کو تم (عورت کے)رحم میں ڈالتے ہو کیا تم نے دیکھ بھال لیا، کیا تم اس سے آدمی بناتے ہو؟ یا ہم بناتے ہیں ہم نے تم لوگوں میں موت کو مقرر کر دیا ہے اورہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمھارے ایسے او ر لوگ بدل ڈالیں اور تم لوگوں کو اس (صورت)میں پیدا کریں جسے تم مطلق نہیں جانتے اور تم نے پہلی پیدائش تو سمجھ ہی لی ہے (کہ ہم نے کی)پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟“
(
اَیَحْسَبْ الْاِنْسَانُ اَنْ ُیتْرَکَ سُدًی اَلَمْ یَکُ نُطْفَةً مِّنْ مَّنِیٍّ یُّمْنٰی ثُمَّ کَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰی فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنَّ یُحِْیَ الْمَوْتٰی
)
”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا کیا وہ (ابتداً)منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے پھر لوتھڑا ہوا پھر خدا نے اسے بنایا پھر اسے درست کیا پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک)مرد اور(ایک) عورت ،کیا اس پر قادر نہیں کہ (قیامت میں)مردوں کو زندہ کر دے“
(
اَوَلمَ ْیَرَوْا اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ وَ لَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰیٓ اَنْ یُّحْیَِ الْمَوْتٰی بَلٰی اِنَّه عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ
)
”کیا ان لوگوں نے یہ نہیں غور کیا کہ جس خدا نے سارے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نہیں ،وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کرے ھاں(ضرور) و یقینا ہر چیز پر قادر ہے“
(
اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِنْ مَّآءٍ مَهِیْنٍ فَجَعَلْنٰهُ فِی قَرَارٍ مَّکِیْنٍاِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍفَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ وَیْلٌ یَّو مَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ
)
”کیا ہم نے تم کو ذلیل پانی (منی) سے پیدا نہیں کیا؟! پھر ہم نے اس کوایک معین وقت تک ایک محفوظ مقام (رحم)میں رکھا، پھر(اس کا) ایک اندازہ مقرر کیا، تو ہم اچھا اندازہ مقرر کرنے والے ہیں، اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے“
(
اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اِنَّا خَلَقْنٰه ُ مِنْ نُطْفَةٍ فَاِذَا هوخَصِیْمٌ مُبِیْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَه قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بُِکِّل خَلْقٍ عَلِیْمُ
)
”کیا آدمی نے اس پر بھی غور نہیں کیا ہم ہی نے اس کو ایک ذلیل نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ یکا یک (ہمارا ہی)کھلم کھلامقابل (بنا)ھے اور ہماری نسبت باتیں بنانے لگا ہے اور اپنی خلقت (کی حالت)بھول گیا (اور)کہنے لگا کہ بھلا جب یہ ہڈیاں (سڑ گل کر)خاک ہوجائیں گی تو (پھر) کون (دوبارہ)زندہ کر سکتا ہے (اے رسول) تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو (جب یہ کچھ نہ تھے)پہلی مرتبہ حیات دی، وہ ہر طرح کی پیدایش سے واقف ہے“
(
اَوَ لَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلٰی وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ
)
”(بھلا )جس (خدا)نے سارے آسمان اور زمین پیدا کئے کیا وہ اس پر قابو نہیں رکھتا کہ ان کے مثل (دوبارہ)پیدا کردے ھاں(ضرور قابو رکھتا ہے)اور وہ تو پیدا کرنے والاواقف کار ہے“
(
اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الاَوَّلِ بَلْ هُمْ فِی لَیْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ
)
”تو کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟(ھر گز نھیں)،مگر یہ لوگ ازسر نو(دوبارہ)پیداکرنے کی نسبت شک میں پڑے ہیں“
(
لَخَلَقُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ
)
”سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا،لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت یقینی بڑا(کام) ہے مگر اکثر لوگ (اتنابھی) نہیں جانتے“
(
یٰاَ یُّهَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآءُ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّکُمْ وَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یَّرِدُّ اِلٰیٓ اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلَا یَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا وَتَرَی الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَهِیْجٍ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللهَهُوَالْحَقُّ وَاَنَّه یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّه عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ لَارَیْبَ فِیْهَا وَاَنَّ اللهَیَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
)
”اے لوگو! اگر تم کو (مرنے کے بعد)دوبارہ جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہے تو اس میں شک نہیں کہ ہم نے تمھیں (شروع شروع مٹی )سے اس کے بعد نطفہ سے اس کے بعد جمے ہوئے خون سے پھر اس لوتھٹر ے سے جو پورا(سڈول)هو یا ادھوراهو؛ پیداکیا تاکہ تم پر(اپنی قدرت)ظاہر کر یں (پھر تمھارا دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے)؟! اور ہم عورتوںکے پیٹ میں جس (نطفہ)کو چاہتے ہیں ایک مدت معین تک ٹھھرا رکھتے ہیں ،پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں پھر (تمھیںپالتے ہیں)تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیںجو (قبل بڑھاپے کے)مر جاتے ہیں اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو ناکارہ زندگی (بڑھاپے )تک پھیر لائے جاتے ہیں تاکہ سمجھنے کے بعدسٹھیاکے کچھ بھی (خاک)نہ سمجھ سکے اور وہ تو زمین کو مردہ (بیکار افتادہ) دیکھ رھا ہے ،پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو لھلھانے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خو شنما چیزیں اگاتی ہے تو یہ (قدرت کے تماشے اس لئے دکھاتے ہیں تاکہ تم جانو)کہ بیشک خدا بر حق ہے اور (یہ بھی کہ)بیشک وھی مردوں کو جلاتا ہے اور وہ یقینا ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اور بیشک جو لوگ قبروں میں ہیں ان کو خدا دوبارہ زندہ کرے گا“
(
لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ بَلْ زَعَمْتُمْ اٴَ لَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًا
)
”اور (اس وقت ہم یاد دلائیں گے کہ جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح )تم لوگوں کو (آخر)ہمارے پاس آنا پڑا، مگر تم تو یہ خیال کرتے تھے کہ تمھارے (دوبارہ پیداکرنے کے) لئے کوئی وقت ہی نہیں ٹھھرائیں گے“
اس طرح ہمارے بہترین طریقہ سے یہ واضح ہو جا تا ہے :
(
اَنَّ اللهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَ الاَرْضَ قٰادِرٌ عَلٰی اٴَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ
)
”وہ خدا جس نے سارے آسمان اور زمین بنائے اس پر بھی (ضرور )قادر ہے کہ ایسے آدمی دوبارہ پیدا کرے “
کیونکہ دوسری مرتبہ کسی چیز کا پیدا کرنا یا اس کو دوبارہ بنانا پہلی پیدائش سے مختلف نہیں ہو سکتا ،اور اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس پر دلیل بھی قائم ہے۔
اور اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ نطفہ میں اسی طرح کی صلاحیت ہے کہ وہ نطفہ سے علقہ بنے اور علقہ سے مضغہ بنے ،اور مضغہ سے جنین بنے اور جنین سے بچہ بنے اور پھر جوان ہو جائے اور آخر میںبڑھاپے کی منز ل تک پهونچ جائے ،تو جو خدا ان تمام چیزوں پر قادر ہے، تووہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ تخلیق کے ان مراحل کو دوبارہ بھی انجام دے، انسان کے لئے حشر و نشر قرار دے اور ان کو دوبارہ زندہ کرے۔
(
یُحْیِ الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیْمٌ
)
” وہ ہڈیوں کو راکھ ہونے کے بعد بھی زندہ کر سکتا ہے“
جیسا کہ اس نے انسان کو اس وقت بھی پیدا کیا جب کچھ نہ تھا۔
کیونکہ خدا وندا عالم کی ذات کے سامنے کوئی تعجب والی بات نہیں ہے کیونکہ اس کی ذات وہ ہے:
(
اَلَّذِیْ اَنْشَاهَا اَوَّلَ مَرَّةً
)
”اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو(جب یہ کچھ نہ تھے پہلی مرتبہ زندہ کیا“
اس کی ذات وہ ہے:
(
اَلَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰا تِ وَ الاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ
)
”آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نھیں“
اورخدا کی ذات ہی وہ ہے :
(
بَلٰی وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ
)
”اور وہ تو پیدا کرنے والا واقف کار ہے“
(
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ بِیَدِهِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ
)
”وہ خدا(ھر نفس سے)پاک صاف ہے جس کے قبضہ قدرت میںھر چیز کی حکومت ہے“
(
سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
)
”اور وہ خدا جو سارے جھاں کا پالنے والا ہے“
قارئین کرام ! یہ منطق و فطرت اور وجدان ہے ،جس میں کسی طرح کے شک و شبہ اور بے جا احتمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اس ٹھوس حقیقت میں شک کرے بھی تو ہم اس کو قیامت میں شک کرنے والا نہیں کھیں گے ،کیونکہ ہم اس پر اعتراض کریں گے ،کہ اس کا یہ شک اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کے دعوے میں کہ” خدا ہی مبداء اول ہے“ سچا نھیںھے،اور اس کو اس وقت یہ بھی حق نہیں پهونچتا کہ وہ قیامت کے بارے میں استدلال طلب کرے یا قیامت کا انکار کرے یا قیامت پر یقین نہ کر ے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خلق اول اور خالق اول پر ایمان کے سلسلے میں بحث کرے،کیونکہ قیامت کا مسئلہ (جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں) ایسے عمل کی تکرار ہے جو خدا وندا عالم نے پہلے انجام دیا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص گذشتہ مسئلہ پر یقین و ایمان رکھتا ہے تو پھربعد والے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نھیںرہ جاتی۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ قیامت کا انکا ر کرنا خدا وند عالم کے خالق ہونے کا انکار نہیں ہے بلکہ یہ تو حکم عقل کی بنا پر ہے کہ کسی چیز کا واپس پلٹانا محال ہے، کیونکہ انسان مرنے کے بعد معدوم ہو جاتا ہے ،اور یہ بات واضح ہے کہ معدوم کا اعادہ محال ہے، یعنی جو چیز بالکل ختم ہوجائے اس کو دوبارہ اسی حالت پر پلٹانا غیر ممکن ہے اور ایک عقلمند انسان کے لئے محالات پر ایمان رکھنا معقول نہیں ہے۔!!
قارئین کرام ! یہ تھا بعض لوگوں کے اعتراض کا خلاصہ ،کیونکہ ان پر یہ بات مخفی رھی ہے اور موت و معاد کے حقیقی معنی کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے۔
کیونکہ اگر معتر ض اپپے اعتراض پر تھوڑا سا بھی غور کرے تو اس پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان کی موت کامطلب اس کے اجزاء و اعضاء کا معدوم ہونا نہیں ہے،بلکہ در حقیقت موت کے ذریعہ وہ اجزاء متفرق اور پرا کندہ ہو جاتے ہیں ۔ (جیسا کہ مشهور شعر ہے: )
(”موت کیا ہے انھیں اجزاء کا پریشاں ہونا“)
جبکہ بعض لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے جسم کے اعضاء کا متفرق اور بکھرجانا ان کا معدوم ہونا ہے یعنی اس کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہتا،جب کہ حقیقت میں یہ اجزاء موجود رہتے ہیں اگر چہ متفرق اور جدا جدا ہوجائیں،اور جب خدا ان بکھرے ہوئے اعضاء کو اپنی قدرت کاملہ سے جمع کرنا چاھے گا تو ان کو پرانی حالت پر پلٹادے گا اور جسم و روح ایک جگہ جمع ہو جائیں گے اور اسی کا نام معاد ہے۔
چنانچہ اس معنی کی طرف قرآن کریم کی وہ آیت جس میں جناب ابراھیم علیہ السلام نے اپنے پر وردگار سے سوال کیا تھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ،بہترین دلیل ہے۔
ارشادخدا وندی ہے:
(
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی
)
(پالنے والے تو مجھے دکھا دے کہ مردوںکو کس طرح زندہ کرے گا)
تو اس وقت خدا وند عالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کے جواب میں فرمایا:
(
قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَیْک
)
(یعنی جناب ابراھیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ چار پرندوں کو لے کر ان کا قیمہ بنا لو ،اور اس کو آپس میں اس طرح ملالو کہ وہ ایک دوسرے سے الگ کر نے کے قابل نہ رھیں۔
(
ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْء اً
)
”یعنی پھر ا س مخلوط قیمہ کو الگ الگ پھاڑوں پر رکھ دو ۔“
(
َ ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا
)
”اس کے بعد تم ان کو پکارنا ،وہ دوڑے ہوئے تمھارے پاس آجائیںگے۔“
یعنی خدا وندعالم نے ان پرندوں کے اعضاء و اجزاء کو ان کے اصلی صاحب سے ملادیا جبکہ وہ مستقل طریقہ سے ایک دوسرے سے جدا جدا ہوگئے ،اور جب ہر پرندہ کے سارے اجزاء اس سے مل گئے تو خدا وندعالم نے ان کو حیات عطا کر دی۔
قارئین کرام ! قرآن مجید کی یہ آیت ہمارے لئے بہترین دلیل ہے کہ موت نام ہے اجزاء و اعضاء کا متفرق ہوجانا،اور موت کسی بھی صورت میں انعدام نہیں ہے جیسا کہ قیامت کے بعض منکرین کا گمان ہے۔
لہٰذاطے یہ ہوا کہ اس کام (دوبارہ زندہ کرنے میں)استحالہ اور محال ہونے کی کوئی بات نہیں ہے،اور عقلی طور پر شک شبہ کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے،جیسا کہ بعض گمان کرنے والوں کا گمان ہے۔
اور جب یہ طے ہو گیا کہ معاد نام ہے انسان کو موت کے بعد حساب و کتاب کے لئے واپس پلٹانے کا،اور اسی محاکمہ کے نتیجہ میں ثواب وعقاب کیا جائے گا :
(
وَحَشَرَ نَا هُمْ فَلَمْ نُغَادِرُ مِنْهُمْ اَحَدًا
)
”اورہم ان سبھوں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“
(
یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ
)
”اور اس دن کو یا رکھو )جس دن ہر شخص جو اس نے (دنیا میں)نیکی کی ہے اور جو کچھ برائی کی ہے اس کو موجود پائے گا“
تو پھر ضروری ہے کہ تمام عالم اور جو کچھ اس میں موجود ہے وہ فنا ہوں اور ان کی حرکت حیات کی چکی بند ہو ،اور تمام زندہ چیزوں کو موت آئے۔
(
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَاءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُب
)
”جب ہم آسمان کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح خطوں کا طومار لپیٹا جاتا ہے“
(
یَوْمَ تُبَدِّلُ الاٴَرْضُ غَیْرَ الاٴَرْضِ وَالسَّمٰوٰاتِ
)
”جس دن یہ زمین بدل کردوسری زمین کر دی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دئے جائیں گے“
تو کیا یہ باتیں عقل میں آتی ہیں؟اور کیا آج کا سائنس اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کرتا ہے تاکہ ہمارے سامنے آفاق کی مجمل باتیں واضح و روشن ہو جائیں؟
(چند دانشوروں کے نظریات)
قارئین کرام ! اس سلسلے میں چند دانشوروں کے نظریات ملاحظہ فرمائیں:
پرو فیسر”فرانک لین“کہتے ہیں:
”ڈینا میکا حراری“ " Thermo Dynamics "کے قوانین اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کائنات کی حرارت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی،اور ایک دن وہ آئے گا کہ تمام چیزوں کا درجہ حرارت گھٹ کر بالکل ”صفر“هوجائے گا ،اور اس وقت تمام طاقتیں ختم ہو جائیں گی، اور پھر زندگی محال بن جائے گی، لہٰذاضروری ہے کہ ایک ایسی حالت پیدا ہو جس میں تمام طاقتیں ختم ہو جائیں کیونکہ مرور زمان کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کا درجہ حرارت بالکل (صفر) ہو جائےگا“
اسی طرح پرو فیسر ”اڈوارڈ لوثر کیل“کہتے ہیں :
” حرارت گرم چیزوں سے ٹھنڈی چیزوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اور کبھی اس کے بر عکس نہیں ہوتا یعنی حرارت اس کے بر عکس نہیں چلتی کہ ٹھنڈی چیزوں سے گرم چیزوں کی طرف منتقل ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن وہ آئے گا جب اس دنیا کی حرارت تمام اجسام میں برابر ہو جائے گی ،اور اس صورت میں تمام چیزوں کی طاقت ختم ہو جائے گی ،اور اس وقت کیمیاوی یا طبعی عملیات ختم ہو جائیں گی،اور پھر اس کائنات کی حیات ختم ہوجائے گی “
نیز پرو فیسر کلوڈ۔م۔ھا ثاوی کہتے ہیں:
”اسحاق نیوٹن،،کی تحقیق یہ ہے کہ یہ نظام کائنات نابودی کی طرف بڑھ رھا ہے ،اور ایک دن وہ آئے گا جب تمام چیزوں کی حرارت برابر ہو جائے گیاور حرارت کے بارے میںتحقیق ان نظریات کی تائید کرتی ہے اور” طاقت میسور“”طاقت غیر میسور“ میں تبدیل ہو جائے گی ،اور جب حرارت میں تبدیلی آئے گی تو طاقت میسور غیر میسور میں بدل جائے گی ،اور اس کے بر عکس ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے “
اسی طرح”بولٹز مین“ نے بھی اس نظریہ کی تائید کی ہے کیونکہ وہ اپنی لا جواب تدریس اورریاضی تحقیق کو بروئے کار لایا ہے یھاں تک کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ طاقت میسور کا ختم ہو جانا جس کی طرف ڈینا میکا" Thermo Dynamics "قوانین کا قانون دوم اشارہ کرتا ہے،اور یہ ایک ایسی خاص حالت کا پیدا ہونا ہے جس میں ہر طبیعی تغیر و تبدلی نظام کائنات میں نقص اور تحول ایجاد کرتی ہے، اور حرارت کی اس حالت میں طاقت میسور ،طاقت غیر میسور میں تبدیل ہوکر کم اور ختم ہو جائے گی ،یا بالفاظ دیگر تمام چیزیں منحل اور ختم ہو جائیں گی۔“
اسی طرح ڈاکٹر جمال الدین الفندی کہتے ہیں:
”تمام علماء فلک اس بات پر تائید کرتے ہیں کہ سورج (دیگر سیاروں کی طرح)کی حرارت ،اس کا حجم اور اس کی شعاعیں اس حد تک خطرناک ہوجاتی ہیں جن تک عقل کی رسائی ممکن نہیں ،اور جب یہ حرارت بیرونی سطح میں پھیل جائے گی تو اس کے شعلہ اور دھواں اس قدر پھیل جائے گا کہ وہ چاند تک پهونچ جائیں گے ،اور تمام نظام شمسی اپنا تو ازن ختم کردے گا ، آسمان میں ہر ستارہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا ہمیشگی کار نامہ سے پہلے ایسی حالت رکھتا ہو ،لیکن ہمارا یہ سورج اب تک اس مرحلہ تک نہیں پهونچا ہے۔“
خداوندعالم کا ارشاد ہے:
(
فَاٴرْتَقِبْ یَوْمَ تَاٴتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِیْن
)
”تو تم اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے ظاہر بظاہر دھواں نکلے گا“
(
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الٴاٴِنْسَانُ یَوْمَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ
)
”جب آنکھیں چکا چوند میں آجائیں گی اور چاند گہن میں چلا جائے گا اور سورج اور چاند اکھٹا کر دئے جائیں گے تو انسان کھے گا آج کھاں بھاگ کر جاو گے“
(
وَحُمِلَتِ الاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتًا دَکَّةً وَاحِدَةً
)
”زمین اور پھاڑ اٹھا کر اکبارگی (ٹکراکر)ریزہ ریزہ کر دئے جائیں گے“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ بڑے بڑے دانشوروں کے نظریہ کے مطابق بھی یہ کائنات اور تمام عالم سب کچھ فنا کی طرف بڑھ رھا ہے تو پھر قیامت کے دن کا آنا بہت ممکن ہے ،بلکہ آج کے علمی لحاظ سے ایک یقینی اور قطعی بات ہے۔
اور اب جب کہ آج کے سائنس نے اس حقیقت کے بارے میں ہمیں مزید اطمینان عطا کردیا ہے ،لیکن بعض قدیم فلاسفہ جن کے زمانہ میں آج کا جدید علم نہیں تھا ،لہٰذاان کا نظریہ یہ تھا کہ یہ کائنات اسی صورت پر باقی رھے گی اور اس میں زوال و فنا نہیں ہو گا، کیونکہ وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ چونکہ سورج میں (اتنی طولانی عمر کے بعد بھی ) کوئی کمی اور کاستی نہیں آئی ہے،لہٰذایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رھے گا ،اور اگر اس میں فنا کی بات ہوتی تو اب تک اس میں تبدیلی یا نقص پیدا ہوگیا ہوتا ۔
لیکن ان کا یہ نظریہ درج ذیل حقائق کی روشنی میں باطل ہو جاتا ہے:
۱ ۔ڈینا میکا حراری " Thermo Dynamics " قانون نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ حرارت ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں ہے،اور ایک دن ایسا آئے گا جب یہ کائنات فنا ہوجائے گی (جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے)
۲ ۔ستارہ شناس افراد نے بہت سی مرتبہ سورج پر ہوئے دہماکوں کا تجربہ کیا جن کے بعد یہ پتہ چلتا ہے کہ سورج کے اس حصے میں بوسیدگی آگئی ہے۔
۳ ۔فلکی ماھرین کی اس بات کی تائید کرنا کہ سورج کی سطح خارجی چاند تک پهونچ جائے گی، اور پھر نظام شمسی کا تو زان ختم ہو جائے گا (جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے)
لہٰذاان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کائنات ضرور بالضرور فنا ہوجائے گی ،جبکہ سورج کا ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والوں کے قول کے لئے کوئی بھی دلیل موجود نہیں ہے۔
اسی طرح جب لوگوں نے قاعدہ ”المادة لاتفنیٰ“(مادہ کے لئے فنا نہیں ہے)کی بنا پر قیامت کا انکار کیا ہے ،لیکن ان کا یہ قول بھی بے بنیاد اور باطل ہے ،کیونکہ ان کا یہ قول بہت قدیمی ہے اور آج کے علم نے یہ بات ثابت کی ہے کہ مادہ بھی فنا ہو نے والا ہے، چاھے مادہ فنا ہو یا نہ ہو، اس مسئلہ کا ہماری بحث (معاد) سے کوئی رابطہ نہیں ہے،کیونکہ معاد مادہ کی صورت کا بدلنا ہے نہ کہ مادہ کا فنا ہونا،جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ
)
”(مگر کب) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کردی جائے گی۔“
اور تبدل اور فنا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ” تبدل مادہ“ اور ”فنا“ میں بہت بڑا فرق ہے۔
خلاصہ بحث !
(
اَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیْهَا وَاَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ
)
”اور قیامت یقینا آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اوربیشک جو لوگ قبروں میں ہیں ان کو خدا دوبارہ زندہ کرے گا“
(
اِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُوْنَ فِی السَّاعَةِ لَفِی ضَلاَلٍ بَعِیْدٍ
)
”جو لوگ قیامت کے بارے میں شک کرتے ہیں وہ بڑے پر لے درجے کی گمراھی میں ہیں “
(
یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یَوْمَئِذٍ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ
)
”او ر جس روز قیامت بر پا ہوگی اس روز اھل باطل بڑے گھا ٹے میں رھیں گے۔“
اور یہ قیامت عنقریب آئے گی جب زمین اپنی پوری آب وتاب پر پهونچ جائے گی اور انسان ترقی کی آخری منزلوں کو طے کرلے گا ، اور زمین اپنی تمام تر زینتوں کے ساتھ مزین ہوجائے گی، اور انسان یہ گمان کرنے لگے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی حکومت تمام اشیاء پر ہے یھاں تک کہ بارش پر بھی کنٹرول کرنے لگے گا، اور پھاڑوں پر بھی زراعت کرنے لگے گا، نیزمشکل امراض کا علاج کرنے لگے گا، اور مردہ لوگوں کے دلوں اور آنکھوں کا زندہ انسان میں پیوند لگانے لگے گا، اور ستاروں کے درمیان سیر کرے گا ، اور ذرہ کو روشن کردے گا، اور پھاڑوں کو ہٹانے لگے گا، کیونکہ انھیں تمام چیزوں کے بارے میں خداوندعالم نے ڈرایا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
حَتّٰی اِذَا اَخَذَتِ الاَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّیِّنَتْ وَظَنَّ اٴَهْلُهَا اَنَّهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَیْهَا اٴَتَا هَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اَوْ نَهَا رًا فَجَعْلَنَاهَا حَصِیْدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِاٴلْاٴَمْسِ
)
”یھاں تک کہ جب زمین نے(فصل کی چیزوں سے)اپنا بناو سنگار کر لیا اور ہر طرح آراستہ ہوگئی اور کھیت والوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ اس پر یقینا قابو پا لیں گے (جب چاھیں گے کاٹ لیں گے) یکا یک ہمارا حکم و عذاب رات یا دن کو آپهونچا تو ہم نے اس کھیت کو ایسا صاف کٹا ہو ا بنادیاجیسے کل اس میں کچھ تھا ہی نھیں“
قارئین کرام !مذکورہ آیت میں ایک بڑا لطیف اشارہ ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے کہ قیامت رات میں آئے گی یا دن میں،اوراس کی تفسیر اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتی کہ زمین کروی(انڈے کے شکل کی)ھے جس میں آدھی میں رات ہوتی ہے اور آدھی میں دن، اور جب قیامت آئے گی تو وہ ایک لمحہ میں آئے گی:
(
وَمَا اٴَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اٴَوْ هو اٴَقْرَبُ
)
”قیامت کا واقع ہونا تو ایسا ہے جیسے پلک جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر“
یعنی قیامت کے وقت آدھی زمین میں رات ہوگی اور آدھی میں دن اس کے علاوہ قرآن مجید نے قیامت کی ایک دوسری نشانی بھی بیان کی ہے ،اور وہ یہ کہ جب صور پھونکا جائے گا تب قیامت آئے گی ۔
اسی طرح قیامت کے لئے قرآن مجید نے ایک اور نشانی بیان کی ہے کہ تمام لوگوں میں خون برف بن جائے گا چاند و سورج کو گہن لگے گا پھاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ،ستارے پھیکے (ماند)پڑجائیں گے دریا پھٹنے لگیں گے،زمین میں زلزلہ آجائے گا ،اور زمین و آسمان میں تمام زندہ چیزیں نابو د ہو جائیںگی۔
اور سب کچھ پہلے صور پھونکنے کے نتیجہ میں ہوگا۔اور دوسرے صور میں تمام کے تمام زندہ ہو جائیں گے اور حساب کتاب شروع ہوجائےگا۔
(
وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْکِتَابِ لاَیُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَیَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا
)
”نہ چھوٹے ہی گناہ ہو بے قلمبند کئے چھوڑتی ہے نہ بڑے گناہ کو اور جو کچھ ان لوگوں نے(دنیامیں )کیا تھا وہ سب (لکھا ہوا) موجود پائیں گے اور تمھارا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر ) بھی ظلم نہیں کرے گا“
(
وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهو اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ
)
”اور اعمال کی کتاب (لوگوں کے سامنے)رکھ دی جائے گی اور پیغمبر اور گواہ لاکر حاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرہ برابر ) ظلم نہیں کیا جائے گا اور جس شخص نے جیسا کیا ہوگا اسے اس کا پورا پورا بدلا مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ اس سے خوب واقف ہے“
والحمد لله رب العالمین۔
____________________