اصول دین

اصول دین18%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28001 / ڈاؤنلوڈ: 4385
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

خالق ازلی کے وجود کی ضرورت

وجودخالق کائنات کے دلائل کی بحث ایک قدیم زمانہ سے چلی آرھی ہے اور مختلف زمانہ میں مختلف طریقوں سے بحث ہوتی رھی ہے نیز دلائل وبرھان بھی بدلتے رھے ہیں۔

اور جب سے انسان نے شعور اور ترقی کی طرف قدم اٹھانا شروع کیا ہے اسی وقت سے اس کی دلی خواہش یہ رھی ہے کہ وہ ”ماوراء الغیب“ کی باتوں کا پتہ لگائے، کیونکہ اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مختلف اشیاء کے حقائق اور انتھا کا پتہ لگانے کے لئے بے چین ر ہے ، اوراس کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال اٹھتا رہتا ہے کہ وہ کھاں سے آیا؟ اور اس کی کیسے خلقت ہوئی؟ اوراسے آخر کھاں جانا ہے۔؟

چنانچہ اسی فطرت کے تحت اس نے کائنات کے بارے میں معلومات کرنا شروع کی اور اس سلسلہ میں غور وفکر سے نہیں گھبرایا اپنی استعداد کے مطابق اس نے ہر زمانہ میں اپنی کوشش جاری رکھی اور مبداء اول (وہ خداجو تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا ہے )کے وجود کی بحث اوراس کائنات کے اسرار کی معلومات ایک مقدمہ رھی ہے جس کا سمجھنا مشکل کام رھا ہے اگرچہ انسان نے اپنی بھر پور کوشش صرف کردی ہے۔

اور جب انسان نے اشیاء کے حقائق سمجھ لئے تو اس نے سب سے پہلے وجود کو محدود اور بسیط پایا اس کے بعد اس نے مرور زمان کے ساتھ اپنی معرفت کے لحاظ سے اس دائرہ معرفت کو وسیع کیا چنانچہ اس نے اپنی عقل کے معیار کے مطابق اس کائنات کے خالق کے وجود کے بارے میں اعتقاد پر دلیل قائم کی۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس قدیم زمانہ میں انسان نے حیوانات، ستاروں اور دوسرے جمادات کی عبادت کی اور ان کو اپنا خدا تصور کیا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یھی موت وحیات دیتے ہیں یھی خلق کرتے ہیں یھی رزق دیتے ہیں یھی عطا کرتے ہیں اور کسی چیز میں مانع ہوتے ہیں اور صرف ان کی عبادت یا ان کی تصدیق پر ہی اکتفاء نہ کی بلکہ یہ ان کے لئے قربانی کیا کرتے تھے اور ان سے قریب کرنے والے کاموں کو کیا کرتے تھے تاکہ ان تک خیر وبرکت پهونچے اور ان سے بلاء وشر دور رھے۔

چنا نچہ انسانوں کے ایک گروہ نے جب سورج کو دیکھا کہ وہ سب چیزوں کو حیات ورُشد عطا کرتا ہے اور اس کے بغیر کو ئی بھی چیز زندہ نہیں رہ سکتی لہٰذا اسی کو خدا مان بیٹھے۔

جب انھوں نے چاند کو رات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے لوگوں کو نور دیتے ہوئے دیکھا تو اسی کو خدا مان لیا۔

جب انھوں نے ان ستاروں کود یکھا جو اپنی شعاعوںکی چمک دمک کو ایک دور درازمقام سے زمین کی طرف بھیجتے ہیں جو انسان کو سرگرداں اور حیران کردینے والی ہیں جو فکر انسان کو متحر ک کرکے مسدود کردیتی ہیں تو انسان یہ سمجھا کہ یھی نجوم خدا ہیں جن کی چمک دمک کائنات کو حیران وپریشان کئے ہوئے ہے۔

اورآخر میں جب انھوں نے بعض ان حیوانات کو دیکھا جن کے ذریعہ سے ان کے کھانے پینے یا پہننے کی چیزیں حاصل ہوتی ہیں یا ان میں عجیب وغریب چیزیں پائی جاتی ہیں یا ان کی قوت اور بھاری جسم کو دیکھا تو اس اعتقاد کے ساتھ کہ یھی خدا ہیں ان کی ہی عبادت شروع کردی۔!!

یہ باتیں صرف اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنی فکر وعقل میں کمزور تھا جس طرح سے یہ بات بھی واضح ہے کہ انسان کی صحیح وسالم فطرت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کوئی خدا ہے جس نے اس کائنات کو خلق کیا ہے۔

لیکن جب خداوندعالم نے آسمانی کتابیں اور انبیاء ومرسلین بھیجے تو انسان کو یہ معلوم ہوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق ہی ہمارا ربّ ہے۔

( الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَی فِی خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ هَلْ تَرَی مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعْ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهو حَسِیرٌ ) ( ۴ )

”جس نے سات آسمان تلے اوپر بنا ڈالے ،کیاتجھے خدا کی آفرینش میں کوئی کسر نظر آتی ہے؟ تو پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھے کوئی شگاف نظر آتا ہے پھر دوبارہ آنکھ اٹھاکر دیکھ تو (ھر بار تیری) نظر ناکام او رتھک کر تیری طرف پلٹ آئے گی“

بے شک انسان اپنی فطرت کے ذریعہ ہی اپنے رب کو پہچان کر اس پر ایمان لاسکتا ہے، چنانچہ یھی فطرت انسانی (جس کو لا شعو رکہتے ہیں) انسان کو اس کائنات کے خالق کے وجود تک پهونچاتی ہے جس نے ان تمام موجودات کو خلق کیا اوران کو عدم سے وجود بخشا ، ہر چیز کے لئے ایک مخصوص نظام وقوانین وضع فرمائے تاکہ ان کے تحت وہ سب اپنے فرض کو پورا کرتی ہوئی اپنے اغراض ومقاصد تک پهونچ جائیں اور وہ نظام بھی ایسا ہو جو دقیق اور مرتب ہو جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہو۔

اور جیسا کہ فرانس کے بعض ماھرین نے وسطی افریقا، انڈومان نیکوبار جزائر نیز جزیرہ مابقہ اور فلپین کے بعض علاقوں میں پائی جانے والی قوم”اقزام“( ایک پستہ قد قوم جو بڑی بھادر ہوتی ہے) کی حیات کے بارے میںتحقیق کی تو اس نتیجہ تک پهونچے کہ یہ قوم ایک قدیم ترین طور وطریقہ اور ثقافت کی نشاندھی کرتی ہے جس کی بنا پر ہمیں بشر کے جنسی طور وطریقہ اور ثقافت کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہیں اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم ابتداء میں مشرقی ایشیاء کے جنوبی ممالک کے تمام قوم وقبیلہ پر حاکم تھی۔

چنانچہ اس جماعت کے عقائد کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماھر ”ینشمٹ“ وغیرہ نے کوئی ایسا اثر ونشانی نہیں پائی جس کی بنا پر یہ سمجھا جاسکے کہ یہ لوگ مادیات اور ارواح کی عبادت کرتے تھے لیکن ان کا سحر وجادو پر اعتقاد رکھنا یہ ناقص اور کم سے کم عقیدہ تھا،بلکہ مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ ایک موجود اسمی کی عبادت کرتے تھے جس کے بارے میں یہ کھا جاسکتا ہے کہ وہ سید عالم (خدا ) ہے۔

ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم ان قدیم قبیلوں اور ان کے عقائد کو دیکھیں لیکن یہ تاریخ ادیان خطرناک کشف ہے کیونکہ وہ (مستحکم اور قطعی دلائل کی بنیاد پر) فطرت انسان اور توحید (خدا) کے بارے میں ایک خاص رابطہ کا اقرار کرتے تھے۔( ۵ )

چنانچہ اسکاٹ لینڈ کے ایک دانشمند ”لانج“ کہتے ہیں:

”ھر انسان اپنے اندر ”علت“ کا نظریہ لئے ہوئے ہے اور اس کا اس کائنات کے بنانے والے خالق کا عقیدہ رکھنے کا نظریہ کافی ہے۔“( ۶ )

لہٰذا انسان نے اسی فطرت کے ذریعہ اس حقیقت کو سمجھا اورجب انسان کی یھی فطرت بسیط (غیر واضح) تھی تو اس کی دلیل بھی غیر واضح رھی اور جب فطرت انسانی واضح اور مکمل ہوگئی تو انسان کی دلیل بھی واضح اور مکمل ہوگئی، اس حیثیت سے کہ انسان اسی فطرت کے تحت اس بات کو مانتا رھا ہے کہ ہر اثر اپنے مو ثر پر دلالت کرتا ہے اور ہر موجود اپنے موجد (بنانے والے) پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اونٹ کے پیر کے نشان اونٹ کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اسی طرح پیروں کے نشانات گذرنے والوں پر دلالت کرتے ہیں توپھر یہ زمین وآسمان کس طرح لطیف وخبیر (خدا) پر دلالت نہیں کرتے۔؟!!

قارئین کرام ! انسانی فطرت اور اس کی وجہ سے خدا پر ایمان رکھنے والی مثال کی طرح درج ذیل واقعہ بھی ہے:

”ہم ایک روز بغداد میں دینی مسائل کے بارے میں تقریرکررھے تھے کہ اچانک ایک دھریہ اس تقریر کے دوران آگیا اور اس نے خدا کے وجود کے لئے دلیل مانگی، چنانچہ صاحب مجلس نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے متکلمین کے پاس ایک شخص کو بھیجا لہٰذا وہ شخص ایک متکلم کے پاس گیا اور واقعہ کی تفصیل بیان کی چنانچہ اس متکلم نے اس شخص سے کھا کہ تم چلو میں آتا ہوں۔

ادھر سب لوگ اس کے منتظر تھے لیکن جب بہت دیر ہوگئی اور لوگ اٹھنا ہی چاہتے تھے تو وہ متکلم بڑبڑاتے ہوئے مجلس میں وارد ہوا، اور صاحب مجلس سے اپنی تاخیر کی عذر خواھی کی اور کھا کہ میں نے خواہ مخواہ دیر نہیں کی بلکہ میں راستے میں ایک عجیب وغریب واقعہ دیکھ کر مبهوت رہ گیا اور مجھے وقت کا احساس نہ ہوا اور جب کافی دیر کے بعد مجھے احساس ہوا تو میں دوڑتا ہوا چلا آیا۔

اور جب اس سے اس تعجب خیز واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کھا:

”جب میں آتے وقت دجلہ کے ساحل پر پهونچا تو میں نے ایک بہت بڑے درخت کو دیکھا کہ وہ دجلہ کی طرف جھکا اور خود بخود اس کے برابر تختے کٹتے چلے گئے او رپھروہ تختے آپس میں مل گئے یھاں تک وہ ایک بہترین کشتی بن گئی اور ساحل پر آکر رگ گئی اور میں اس کشتی میں سوار ہوگیا اور وہ بغیر چلانے والے کے چل پڑی یھاں تک کہ اس نے مجھے دریا کے اس طرف چھوڑدیا او رپھر دوسرے لوگ اس میں سوار ہوئے تو ان کو اُس طرف لے جاکر چھوڑ دیا اور وہ اسی طرح چلتی رھی، میں کھڑا اس منظر کو دیکھتا رھا، اوریھی میری تاخیر کا سبب ہے“

ابھی ان صاحب کی گفتگو تمام ہی ہوئی تھی کہ اس دھریہ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اس کا مذاق بناتے ہوئے کھا:

”واقعاً مجھے اپنے اوپر افسوس ہورھا ہے کہ میں نے اس شخص کے انتظار میں اپنا اتنا وقت برباد کیا! میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ بے وقوف اور احمق شخص نہیں دیکھا ! کیا کسی انسان کی عقل اس بات کو قبول کرسکتی ہے کہ کوئی درخت خود بخود کٹے،اس کے تختے بنیں اور وہ آپس میں جڑےں اور کشتی بن جائے او ر پھر وہ کشتی خود بخود چل پڑے اور مسافروں کو ادھر سے ادھر پهونچائے؟!!

یہ سن کر وہ متکلم بول اٹھے:

”جب اس چھوٹی سی کشتی کا بغیر بنانے والے کے بن جانا عقلی طور پر ناممکن ہے اور بہت ہی تعجب او ربے وقوفی کی بات ہے، تو پھر یہ زمین وآسمان، چاند وسورج او راس کائنات کی دوسری چیزیں خود بخود کس طرح بن سکتی ہیں؟!! او راب بتا کہ میری باتیں تعجب خیز ہیں یا تیری؟۔

یہ سن کر وہ دھریہ خاموش ہوگیا ، اس کا سر جھک گیا اور اس کے سامنے اپنے غافل ہونے کے اقرار کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہ پڑا۔

اس طرح فطرت انسان دلیلِ اعتقاد بن سکتی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعہ انسان آسان طریقہ سے فلسفی دلیل وبرھان اور اس کی اصطلاحات کے دلدل میں پھنسے بغیر وجود خالق پر دلیل قائم کرسکتا ہے ۔

وجود خدا پر عقلی اور فلسفی دلائل

قارئین کرام ! فلسفہ کی دلیل وبرھان کے مختلف طریقے ہیں چنانچہ فلاسفہ حضرات نے وجود خدا کے بارے میں منطقی اور عقلی برھان قائم کئے ہیں جو خداوندعالم کے وجود پر ایمان کو پختہ اور شبھات واعتراضات کا خاتمہ کردیتے ہیں۔

چنانچہ فلاسفہ حضرات کی سب سے واضح دلیل یہ ہے:

”اگر کوئی موجود ”واجب الوجود“ ہو تو ہمارا مقصود ثابت ہوجاتا ہے اور اگر وہ وجود واجب الوجود نہ ہوتو پھر” دور“ " Viciouscircle " یا” تسلسل“" Infinitc Regress " لازم آئے گا جو عقلی طور پر محال ہے۔

توضیح :

جو چیز ہمارے سامنے موجود ہے اگر وہ ”واجب الوجود“ ہے توہمارا مقصود ثابت ہے اور اگر ممکن الوجود ہو تو اس کے لئے کوئی ایسی مو ثر شئے کا ہونا ضروری ہے جو اس کو وجود عطا کرے اور اگروہ مو ثر شے واجب الوجود ہو تو ہمارا مقصود ثابت ہے اور اگر وہ مو ثر شے ممکن الوجود ہو تو وہ بھی ایک ایسے مو ثر کی محتاج ہوگی جو اس کو وجود عطا کرے، اور اگر وہ مو ثر شے واجب الوجود ہوگی تو ہمارا مقصود ثابت، اور اگر وہ بھی ممکن الوجود ہو تو پھر اس طرح تسلسل لازم آتا ہے جو عقلی طور پر باطل ہے۔

مزید وضاحت :

جو چیز ہمارے سامنے موجود ہے اس کے وجود میں کسی کو بھی شک نہیں ہوتا او راگر یہ وجود اپنی ذات کے لئے واجب ہو (یعنی اس کا وجود ذاتی ہو جس طرح آگ کے لئے حرارت) توہمارا مقصود ثابت ہے (یعنی وھی خدا ہے) اور اگرو ہ چیز اپنی ذات میں ممکن ہو، تو پھر یہ چیز اپنے وجود میں کسی مو ثر کی محتاج ہے اور اگر وہ مو ثر اپنی ذات میں واجب ہے تو بھی ہمارا مقصود ثابت ہے او راگر وہ بھی اپنے وجود میں کسی مو ثر کی محتاج ہو او روہ غیر خود اپنے نفس کے لئے مو ثر ہو تو اس صورت میں ”دور“ لازم آتا ہے جو محال ہے کیونکہ اس وقت ہر ایک بذات خود دوسرے پر موقوف ہوگی ،جبکہ مو ثر کا اثر پر مقدم ہونا لازم ہے۔

اور اگر وہ مو ثر کوئی دوسری چیز ہو تو پھر درج ذیل حالات سے خالی نھیں:

۱ ۔ وہ چیز ایسے وجود پر جاکر رکے جو اپنی ذات میں واجب ہو۔

۲ ۔ اس سلسلہ کی کوئی انتھا نہ ہو۔

اگر پہلی صورت ہو تو ہمارا مقصود ثابت ہے جبکہ دوسری صورت باطل ہے کیونکہ ہر ممکن شے کے لئے ایک مو ثر کا ہونا ضروری ہے اور یہ مو ثر تین حال سے خالی نہیں ہے:

۱ ۔ کوئی چیز بذات خود اپنے لئے مو ثر ہو۔

۲ ۔اس میںکوئی اندرونی شے مو ثر ہو۔

۳ ۔ کوئی بیرونی شے اس میں مو ثر ہو۔

پہلی صورت ناممکن او رمحال ہے کیونکہ مو ثر کا اثر سے پہلے ہونا ضروری ہے کیونکہ کسی چیز کا اپنے نفس پر مقدم ہونا عقلی لحاظ سے ممنوع ہے۔

دوسری صورت بھی محال ہے کیونکہ کسی چیز کا مو ثر ہونا اس کے ہر جز میں مو ثر ہونا چاہئے اور اگر اس کا کوئی جز مو ثر ہو تو پھر خود اپنے نفس میں مو ثر ہونا لازم آتا ہے او راپنے اثر میں بھی مو ثر کا ہونا لازم آتا ہے اور یہ دونوں محال ہیں پہلی صورت اس لئے محال ہے کہ ”تقدم الشی علی نفسہ“ (کسی چیز کا اپنے اوپر مقدم ہونا) لازم آتا ہے اور دوسری صورت اس لئے محال ہے کہ ”دور“ لازم آتا ہے اور دور بھی محال وباطل ہے۔

اور جب پہلی دوصورت باطل ہیں تو پھر تیسری صورت صحیح ہے یعنی ہر چیز میں کسی بیرونی شے کا مو ثر ہونا، او راگر وہ بیرونی شے ممکنات میں سے ہے ،تو وہ اپنی ذات کے لئے ممکن نہیں بن سکتی ،کیونکہ اگر ایسا ہو(یعنی اپنی ذات کے لئے ممکن ہو) تو پھر وہ شی اس میں داخل ہے، بلکہ اس چیز کا بیرونی ہونا ضروری ہے اور یھی ہماری بات کو ثابت کردتیا ہے۔

مذکورہ دلیل کا خلاصہ :

”بے شک اس کائنات کا پیدا کرنے والا کوئی نہ کوئی ہے کیونکہ کسی چیز کا خود بخود عدم سے وجود میں آنا ممکن نہیں ہے تو پھر اس پیدا کرنے والے کا وجود بھی ضروری ہے کیونکہ یہ بات بھی مسلم ہے کہ کسی امر عدمی کے ذریعہ کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی، تو پھر یہ پیدا کرنے والا یا تو واجب الوجود ہے یا واجب الوجود نہیں ہے۔

اور اگر واجب الوجود ہو تو ہمارا مقصد ثابت ہوجاتا ہے (کہ یھی واجب الوجود ذات خدا ہے)

اور اگر واجب الوجود نہیں ہے تو اس کے لئے ایک مو ثر کی ضرورت ہے جو اس کو وجود عطا کرے اور اگر یہ مو ثر اور سبب واجب الوجود ہو تو بھی ہمارا مقصود ثابت ہے اور اگر واجب الوجود نہ ہو پھر اس کے لئے بھی ایک مو ثر کی ضرورت ہے ، اسی طرح ہم آگے بڑھتے رھیں گے یھاں تک کہ وجود خالق اور واجب الوجود جو اس کائنات کا خالق ہے اس تک پهونچ جائیں ورنہ تو درج ذیل دو چیزوں میں سے ایک چیز لازم آئے گی (جو محال ہے):

۱ ۔ ”تسلسل“ تسلسل کے معنی یہ ہیں کہ ہر موجود اپنے موجد (بنانے والے) پر موقوف ہو او رپھر یہ موجود دوسرے مو جود پر موقوف ہوگا او رپھر وہ دوسرے پر ، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رھے اور عقلِ انسانی نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جس سلسلہ کی کوئی انتھا نہ ہو وہ باطل ہے کیونکہ انسان اس سے کسی نتیجہ پرنھیں پہنچ سکتا۔

۲ ۔ ”دَور“ دور کے معنی یہ ہیں کہ موجدِ مو ثر نے ایسی چیز کو خلق کیا جس کو اثر کھا جاتا ہے او رخود اس اثرنے اس موجدِ مو ثر کو خلق کیا اور یہ واضح البطلان ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے پر موقوف ہیں۔

جیسا کہ ہم نے بیان کیا جب تسلسل او ردور دونوں باطل ہیں تو پھر ضروری ہے کہ ہم ایسے پیدا کرنے والے موجد کا اقرار کریں جس کا وجود اپنی ذات کے لئے واجب ہے (یعنی جو واجب الوجود ہے) اور وھی خدا کی ذات ہے۔

متکلمین کا استدلال

قارئین کرام ! خداوندعالم کے وجود کے سلسلے میں متکلمین حضرات نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے جس میں صرف عقلی طریقہ پر اعتماد کیا گیا ہے جس میں کسی طرح کی آیات وروایات اور تقلید سے کام نہیں لیا گیا چنانچہ ان کے دلائل میں سے بعض دلائل اس طرح ہیں، ان کا کہنا ہے:

”تمام اجسام (بدن) حادث ہیں اور ان کے حدوث کی دلیل یہ ہے کہ ان میں تجدّد (تبدیلی اور نیا پن) ہوتارہتا ہے (یعنی تمام چیزیں ہمیشہ ایک سی نہیں رہتیں بلکہ بدلتی رہتی ہیں) اور جب یہ چیزیں تجدد سے خالی نہیں ہیں تو پھر ان کا محدث ہونا ضروری ہے اور جب ان کا حادث ہونا ثابت ہوگیا ہے تو پھر اپنے افعال کے بارے میں قیاس کرسکتے ہیں کہ ان کا بھی حادث کرنے والا ہے، مثلاً:

”یہ جھان محدث ہے، پہلے نہیں تھا بعد میں وجود میں آیا، کیونکہ کائنات کی ان تمام چیزوں میں خلقت کے آثار پائے جاتے ہیں بعض چیزیں چھوٹی ہیں بعض بڑی، کسی میں زیادتی ہے کسی میں کمی، اور ان سب کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں جیسا کہ رات دن سے بدل جاتی ہے، لہٰذا خداوندعالم ہی ان تمام چیزوں کا خالق ہے کیونکہ ہر چیز کے لئے ایک بنانے والے کا ہونا ضروری ہے اور ہر کتاب کے لئے لکھنے والے کا نیز مکان بنانے کے لئے ایک معمار کا ہونا ضروری ہے“

مذکورہ استدلال کا خلاصہ :

یہ عالم؛ جس میں جمادات، نباتات اور دیگر موجودات شامل ہیں، یہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا بعد میں موجود ہوا جیسا کہ ان تمام میں واضح طور پر آثار وجود پائے جاتے ہیں کہ ان چیزوں میں کمی وزیادتی طول وقصر موجود ہے اور ایک حال سے دوسرے حال میں بدلتے رہتے ہیں یا اسی طرح کے دوسرے آثار جن سے ان کے حادث ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ یہ چیزیں عدم سے وجود میں آئی ہیں۔

اور جب اس کائنات کی تمام چیزوں میں تغییر وتبدیلی پائی جاتی ہے اور ہمارے افعال وحرکات کے ذریعہ ان چیزوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے اس طرح ہمارے افعال بھی خود بخود نہیں ہوتے بلکہ ہم ہیں جو ان کو انجام دیتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کھانا پینا، حرکت کرنا، لکھنا، پڑھنا اور ہمارے روز مرّہ کے امور انجام دینے والے کا ہونا ضروری ہے تو اس کائنات کا خلق کرنے والے کا بھی ہونا ضروری ہے اور وہ خداوندعالم کی ذات اقدس ہے جس طرح ہر چیز کے لئے بنانے والے ،کتاب کے لکھنے کے لئے کاتب اور مکان کے بنانے کے لئے معمار کا ہونا ضروری ہے۔

قرآن کریم سے استدلال

ہم اس وقت قرآن کریم کی ان آیات کو بیان کرتے ہیں جن کے ذریعہ اس حقیقت کی واضح طور پر برھان ودلیل قائم کی گئی ہیں۔

قارئین کرام ! قرآن کریم وجود خالق پر مختلف طریقوں سے بہت سی دلیلیں اور برھان بیان کرتا ہے اور اس سلسلہ میں بہت زیادہ اہتمام کیا ہے جبکہ دوسری آسمانی کتابوں میں اس قدر اہتمام نھیںکیا گیا ہے بلکہ جس قدر قرآن کریم نے وجود خدا پر دلائل وشواہد پیش کئے ہیں کسی بھی(آسمانی) کتاب میں نہیں ہیں، قرآن کریم میں سوئی ہوئی عقلوں کو مکمل طور پر بیدار کردیا گیا ہے۔

شاید یھی سبب ہو کہ توریت میں ملحدین اور خدا کے بارے میں شک کرنے والوں کو قانع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا کیونکہ توریت میں ان لوگوںکو مخاطب کیا گیا ہے جو اسرائیل کے خدا پر ایمان رکھتے تھے، اور اس کے وجود میں ذرا بھی شک نہیں کرتے تھے بلکہ توریت میں خدا کے غضب سے ڈرایا ہے او رغیر خدا پر ایمان لانے والوں کی عاقبت سے باخبرکیا گیا ہے اور اگر ان کو اپنے واجبات میں غفلت کرتے دیکھا گیا تو ان کو خدا کے وعدہ اوروعید کی یاد دھانی کرائی گئی ہے۔

اسی طرح انجیل (جبکہ بعض تواریخ میں کئی انجیل بتائی گئی ہیں) اور مذھب اسرائیل میں وجود خدا کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ سب سے بڑا اختلاف یہ تھا کہ اس قوم کے سردار نفاق کے شکار ہوگئے تھے اور انھوں نے دین کا مذاق بنا رکھا تھا اور مال ودولت ا ورجاہ وحشم کے پیچھے پڑے ہوئے تھے (چنانچہ انجیل میں ان سب چیزوں کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے)

اور جب اسلام کا ظهور ہوا، او رقرآن کریم نازل ہوا تو اس وقت لوگوں میں وجود خدا کے بار ے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا تھا اس دور میں ملحد( دھریہ)مشرک اور توریت وانجیل کے ماننے والے پائے جاتے تھے او ران سب کا خدا اور اس کے طریقہ عبادت میں اپنا الگ الگ نظریہ تھا لہٰذا قرآن کریم کے لئے اس سلسلے میں خاص اہتمام کرناضروری تھا کیونکہ اس دور میں سبھی لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا تھی اور ان کو قانع کرنا اور راہ راست کی طرف ہدایت کرنامنظور تھا۔

اور چونکہ اسلام خاتم الادیان اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے، اور اس دین اور اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قیامت تک کے لوگوں کے لئے اعتقادی اور دنیاوی پھلوؤں کو بیان کیا گیا ہے لہٰذا قرآن کریم میں ان تمام پھلوو ں پر توجہ بہت ضروری تھی، لہٰذا قرآن کریم میں وجودِ خداوندعالم پر دلائل بیان کئے ہیں اور ملحدین ومشککین اور جاھلوں کو اس کائنات کے خالق اور ان عظیم آثار کی طرف توجہ دلائی جو خداوندعالم کے وجود او رکمال پر دلالت کرتے تھے ،لہٰذا اس سلسلہ میں موجود ہر طرح کے شبھات واعتراضات کا سدّ باب کردیاگیا۔

چنانچہ قرآن مجید کی درج ذیل آیات نے ان موضوعات کی طرف عقل انسانی کو بہت ہی نرم انداز میں متوجہ کیا او راس کو اصلی ہدف ومقصد کی راہنمائی کی اورنرم لہجہ میں راہ مستقیم کی ہدایت کی اور انسان کے سامنے خلقت کے آثار وشواہد کو مکمل طور پر واضح کردیا اور کائنات کے دقیق حقائق پر حکمت کے ذریعہ متوجہ کیا اور انسان میں اٹھتے ہوئے طوفان کویقین وقناعت کے ساحل پر لگادیا۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِیهَا مِنْ کُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونْ ) ( ۷ )

”بے شک آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے ردّ وبدل میں اور کشتیوں (جھازوں) میں جو لوگوں کے نفع کی چیزیں (مال تجارت وغیرہ) دریا میں لے کر چلتے ہیں اور پانی میں جو خدا نے آسمان سے برسایا ہے پھر اس سے زمین کو مردہ (بے کار) ہونے کے بعد جلا دیا (شاداب کردیا) اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دئے اور ہواؤں کے چلانے میں اور ابر میں جو آسمان وزمین کے درمیان (خدا کے حکم سے) گھرا رہتا ہے (ان سب باتو ں میں) عقل والو ں کے لئے (بڑی بڑی) نشانیاں ہیں۔“

( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَآیَاتٍ لِاٴُولِی الْاٴَلْبَابِ ) ( ۸ )

”اس میں تو شک ہی نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے پھیر بدل میں عقلمندوں کے لئے (قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں“

قارئین کرام ! درج ذیل تمام قرآنی آیات خداوندعالم کے وجود پر دلالت کرتی ہیں بشرطیکہ خلقت انسان او ردیگر مخلوقات کی پیچیدگیوں اور دوسرے امور میں توجہ کی جائے کیونکہ یہ تمام مخلوق بغیر کسی قادر کی قدرت اور بغیر کسی خالق کے ارادہ کے وجود میں نہیں آسکتی۔

ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:

( اٴَفَرَاٴیْتُمْ مَا تُمْنُوْنَ اٴَ اٴَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَهُ اٴَمْ نَحْنُ الْخَالِقُوْنَ ) ( ۹ )

”جس نطفہ کو تم (عورتوں کے ) رحم میں ڈالتے ہو کیا تم نے دیکھ بھال لیا ہے؟ کیا تم اس سے آدمی بناتے ہو یا ہم بناتے ہیں؟“

( فَلْیَنْظُرِ الاٴنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ ) ( ۱۰ )

”تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے؟ اچھلتے ہوئے پانی (منی) سے پیدا ہوا جو پشت اور سینے کی ہڈیوں کے بیچ سے نکلتا ہے۔“

( اٴَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اٴَمْ هُمُ الْخَالِقُوْنَ ) ( ۱۱ )

”کیا یہ لوگ کسی کے (پیدا کئے ) بغیر پیدا ہوگئے ہیں یا یھی لوگ (مخلوقات کے) پیدا کرنے والے ہیں؟“

( وَمِنْ آیَاتِه اَنْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَآ اٴَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُوْنَ ) ( ۱۲ )

”اور اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ،پھر یکایک تم آدمی بن کر (زمین پر) چلنے پھرنے لگے“

( وَاللّٰهُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمِّهَاتِکُمْ لاٰ تَعْلَمُوْنَ شَیئًا وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالاٴبْصَارَ وَالاٴَفْئِدَةَ ) ( ۱۳ )

”اور خدا ہی نے تمھیں تمھاری ماو ں کے پیٹ سے نکالا (جب) تم بالکل نا سمجھ تھے او رتم کو کان دئے آنکھیں (عطا کیں) اور دل عنایت کئے“

تو کیا انسان کی یہ عجیب وغریب خلقت اور دوسرے شواہد خداوندعالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتے ؟!!

سائنس کے نظریات

جیسا کہ آج کا سائنس کہتا ہے :

”انسان کا اصل وجود ایک خَلیہ " Cell "(جسم کا مختصر ترین حصہ)سے ہوا ہے او ریھی ایک خلیہ" Cell " ہر مخلوق کی بنیاد ہے اورھر خلیہ ایک باریک پردہ میںلپٹا ہوا ہوتا ہے (جو غیر جاندار ہوتا ہے) اور یھی پردہ، خلیہ کی شکل وصورت کو محدود کرتا ہے، پھر اس پردہ کے اندر سے خلیہ کا احاطہ کرلیتا ہے ایک اور جاندار پردہ، جو نھایت صاف و شفاف اور رقیق ہوتا ہے اور یھی وہ پردہ ہے جو خلیہ میں دوسرے جزئیات کو داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے اور بعض جزئیات کو اس سے خارج ہونے کا حکم دیتا ہے۔

اس کے بعد اس میں مختلف قسم کے لاکھوں کیمیاوی " Chemistry " (کیمسٹری) اجزاء پائے جاتے ہیں لیکن یہ اجزاء بہت ہی محدود ہوتے ہیں ، چنانچہ ان میں سے بعض تو اتنے نازک ہوتے ہیں کہ صرف دوذرّوں والے ہوتے ہیں (جیسے کھانے کا نمک) اور بعض تین ذرووں والے ہوتے ہیں (جیسے پانی کے اجزاء) اور بعض چار، پانچ، دس، سو اور ہزار اجزاء والے ہوتے ہیں جبکہ بعض لاکھوں ذرات سے تشکیل پاتے ہیں (جیسے پروٹن " Proten " اور وراثتی " Geneticcs "اجزاء)

اسی طرح ہزاروں قسم کے اجزاء کا سلسلہ جاری رہتا ہے جن میں سے انسانی حیات کے لئے بعض قسم کے اجزاء پیدا ہوتے ہیں اور بعض ختم ہوجاتے ہیں اور یہ سب ایک دقیق کیمیاوی مشین کے ذریعہ فعالیت جاری رکھتے ہیں جن کے سامنے انسانی فکردنگ رہ جاتی ہے۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہم اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ پروٹن کا ایک چھوٹا سا جز بھی بنالیں،جبکہ خود خلیہ کے اندر چندسیکنڈ کے اندر بن جاتا ہے۔

اور صرف پروٹن ہی نہیں ہیں بلکہ کیمیاوی مختلف عملیات ہیں جو بہت زیادہ دقیق ، نظام دقیق خلیہ اور اس کی ہیئت کے قانون کے زیر نظر جاری ہوتی ہے ، اور اسی کو خلیہ کا کیمیاوی ادارہ کھا جاتا ہے۔

اسی خلیہ اوراس پر حاکم ادارہ کے اندر بہت سے اہم امور تشکیل پاتے ہیں۔ چنانچہ اس خلیہ میں دو جزء پائے جاتے ہیںجو دونوں اس کی زندگی میں بہت قیمتی جزء ہوتے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

پہلا : حامض ہے، جس کو ”حامض ڈی اوکسی ریبو نیوکلیک“ " Deoxy Ribonuclec acid "کھا جاتا ہے جس کا مخفف " h.d,n "هوتا ہے۔

دوسرا: حامض اس کو ”حامض ریبو نیو کلیک “ " Ribonuclec Acid "کھا جاتا ہے اوراس کا مخفف ”ح۔ر۔ن“ " h.r.n "هوتا ہے۔

لیکن ”ح۔ ڈ ۔ ن“ ، ” ح۔ر۔ن“سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے صرف تھوڑا سا فرق ہے لیکن یہ کیمیاوی فرق ہی عالم خلیہ " Cells "میں اصل ہے مثلاً وراثتی " Geneticcs " اجزاء میں ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی اصل ہے اور ”ح۔ر۔ن“کا درجہ اس سے کم ہے۔

لہٰذا خلیہ کی زندگی اسی طریقہ ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی کی وجہ سے یہ اجزاء بڑھتے ہیں اور ان ہی کی وجہ سے اصل کے مطابق شکل وصورت بنتی ہے چنانچہ اس کے تحت کروڑوں سال سے انسان کی شکل وصورت اسی طریقہ پر ہوتی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طریقہ سے گدھا اور مینڈھک میں بھی ہیں کہ وہ اسی طرح کی شکل وصورت رکھتے ہیں اورا نہیں اپنے اپنے خلیوں کی بنا پر انسان بنتا ہے ، گدھا اور مینڈھک بنتا ہے او رھر مخلوق کی تمام صفات انھیں ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی بنا پر بنتی ہیں۔

اور یھی ”ح۔ ڈ ۔ ن“ ”ح۔ ر۔ ن“کو دوسرے اجزاء کے بنانے کے لئے معین کرتے ہیں تاکہ چھوٹے چھوٹے وہ اجزاء جن پر فعالیت کرنا اس ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی شایان شان نہیں ہے ان ”ح۔ر۔ن“ فعالیت انجام دیں اور یہ ”ح۔ ر ۔ ن“چھوٹے چھوٹے اجزاء پر حکومت کرتے ہیں یھاں تک کہ ان اجزاء کی تعداد اس قدر زیادہ ہوجاتی ہیں جو معمہ کی شکل بن جاتی ہے۔

چنانچہ اس ایک خلیہ" Cell " کی ترکیب وترتیب سے انسان بنتا ہے اور انھیں سے انسان کے تمام اعضاء وجوارح بنتے ہیں اس کی وجہ سے بعض انسان پستہ قد اور بعض دیگر لوگ بلند قد ہوتے ہیں بعض کالے اور بعض گورے ہوتے ہیں، در حقیقت انسان کی حیات اسی خلیہ کی بنا پر ہوتی ہے،جبکہ آج کا سائنس اس ترکیب کو کشف کرسکتا ہے اس کی حرکت کا مقایسہ کرسکتا ہے اور اس کے مادہ کی تحلیل اور طریقہ تقسیم کو معلوم کرسکتا ہے لیکن اس میں چھپے حیاتی اسرار کو جاننے والے ماھرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ کام صرف اور صرف خداوندعالم کی ذات کا ہے۔

چنانچہ شکم مادر میں جو بچہ ہوتا ہے کس طرح اپنی غذا حاصل کرتا ہے، کس طرح سانس لیتا ہے اور کس طرح اپنی حاجت کو پورا کرتا ہے ،کس طرح اپنے اندر موجود اضافی چیزوں کو باھر نکالتا ہے اور کس طرح اپنی ماں کے شکم سے جڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ غذا حاصل کرکے اپنی آخری منزل تک پهونچتا ہے، کیونکہ بچہ کی غذا اس تک پهونچنے سے پہلے کس طرح تیار ہوتی ہے اور اس تک پهونچتی ہے یا جو غذا اس کے لئے باعث اذیت ہوتی ہے کون سی چیز اس تک پهونچنے میں مانع ہوتی ہے؟!

اور جب حمل (بچہ) اپنی آخری منزل پر پهونچ جاتا ہے تو پھر وہ کثیر غدد (رحم مادر)سے جدا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ غدد مختلف اغراض کے لئے ہوتے ہیں ان میں سے بعض تو وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے رحم کھلتا او ربند ہوتا ہے ان میں ہی سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچہ پیر پھیلاسکتا ہے اور انھیں میں سے بعض وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچہ کی پیدائش طبیعی طور پر ہونے میں مدد ملتی ہے۔

اور چونکہ پستان بھی ایک غدہ ہے اور جب حمل پورا ہوجاتا ہے تو پھر اس میں دودھ پیدا ہوجاتا ہے جو ھلکے زرد رنگ کا ہوتا ہے اور واقعاً یہ عجیب چیز ہے کہ یہ دودھ ایسے کیمیاوی اجزا سے بنتا ہے جو بچے کو بہت سی بیماریوں سے بچاتا ہے لیکن یہ ولادت کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے اور واقعاً نظام قدرت کس قدر عظیم ہے کہ پستان مادر میں ہر روز اس دودھ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس دودھ کے اجزاء میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ شروع میں یہ پانی کی طرح ہوتا ہے جس میں اجزاء رشد اور شکر کم ہوتی ہے لیکن (بچہ کی ضرورت کے تحت) اس میں اجزاء رشد ونمو ، شکر اور چربی بڑھتی رہتی ہے۔

اور جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تواس کے منھ میں دانت نکلنا شروع ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت بچہ کچھ کھانا کھاسکتا ہے چنانچہ انھیں دانتوں کو خدا کی نشانیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ بھی مختلف طریقہ کے ہوتے ہیں کچھ کھانا کاٹنے کے لئے ہوتے ہیں تو کچھ چبانے کے لئے اور ان میں چھوٹے بڑے بھی ہوتے ہیں تاکہ کھانے کو اچھی طرح چبایا جاسکے، اگرچہ بعض ماھرین نے انسان کے مصنوعی دانت بنالئے ہیں یا دانتوں میں تبدیلی کے طریقے بنالئے ہیں لیکن وہ بھی خدا کی قدرت کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کے اصلی دانت ہی طبیعی نظام کو مکمل کرسکتے ہیں اگرچہ انھوں نے طبیعی دانتوں کی طرح مصنوعی دانت بنالئے ہیں ۔

اسی طرح جب بچہ کا دودھ چھڑایا جاتا ہے اور وہ کھانا کھانا شروع کردیتا ہے تو خداوندعالم کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر کتنی عجیب خلقت ہے جو انسان کی زندگی کو محفوظ کرتی ہے، مثلاً انسان کے منھ میں تین راستہ ہوتے ہیں ایک ناک والا، ایک سانس والا اور ایک حلق والا راستہ ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کا علم طب کہتا ہے کہ اگرکچھ گرد وغبار سانس والے راستہ سے جانا چاھے تو وہ خود بخود رک جاتا ہے اس طرح سانس والے راستہ سے غذا بھی نہیں جاسکتی جبکہ یہ سب راستے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور اگر غبار کا ایک ذرہ بھی (کھانے پینے کی چیزیں تو دور کی بات ہے) سانس والی نالی میں پهونچ جائے تو انسان فوراً مر جائے گا اور اس کام کے لئے ”چھوٹی زبان“ کا کردار عجیب وغریب ہے جو کھانے کے راستہ سے صرف غذائی چیزوں ہی کو جانے دیتی ہے اور اس زبان کی خلقت کتنی عجیب ہے کہ دن میں سیکڑوں مرتبہ انسان کھاتاپیتا ہے لیکن کبھی بھی یہ زبان غلطی نہیں کرتی بلکہ غذا کو اپنے مخصوص راستہ ہی سے اندرجانے دیتی ہے۔

اس کے بعد اس غذا کے ھاضمہ کی بات آتی ہے تو واقعاً کتنے منظم اور دقیق لحاظ سے یہ کھانا ہضم ہوتا ہے کیونکہ ایک خاص مشین کی دقیق فعالیت کے ذریعہ کھانا ہضم ہوتا ہے جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ اس بہترین نظام کو خلق کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔

کیونکہ انسان دن بھر مختلف چیزیں کھاتا ہے چاھے وہ بہنے والی ہوں یا منجمد (جمی ہوئی)، سخت ہوں یا نرم، ھلکی ہو ں یا بھاری، کڑوی وتیز ہوں یا میٹھی، ٹھنڈی ہوں یا گرم یہ سب کی سب صرف ایک ہی چیز اور ایک ہی طریقہ سے ہضم ہوتی ہیں کیونکہ اس غذا پر ایک ترش (کڑوے) قسم کے غدہ سے کچھ رس نکلتا ہے جو اس غذا کو ہضم کرتا ہے او راگر یہ رس ذرا بھی کم ہوجائے تو غذا ہضم نہیں ہوگی اور اگر تھوڑا بھی زیادہ ہوجائے تو انسان کا جسم جلنے لگے او رپورے بدن میں سوزش ہونے لگے۔

اور جس وقت غذا منھ میں رکھی جاتی ہے تو ھاضمہ سسٹم کا پہلا کام شروع ہوجاتا ہے کیونکہ یہ غذا لعاب دہن سے مخلوط ہوتی ہے اور لعاب لعابی غدود سے نکلتا ہے جو کھانے کوہضم کرنے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ جس طرح یہ لعاب کڑوی ، تیز اور تکلیف دہ چیزوں کے اثر کو ختم کرنے میں اصلی عامل ہے، اور اسی کی وجہ سے کھانے کے درجہ حرارت کو کم کیا جاتا ہے اور ٹھنڈی چیزوں کی ٹھنڈک کو کم کیا جاتا ہے چاھے وہ برف ہی کیوں نہ ہو،بھرحال جب یہ غذا دہن میں اپنے لعاب کے ذریعہ خوب چباکر مھین کرلی جاتی ہے تووہ پھر وہ آہستہ آہستہ حلق تک پهونچتی ہے اس کے بعد آنتوں کے ذریعہ معدہ تک پهونچتی ہے، اور یہ معدہ ”کلور وڈریک حامض“ جدا کرتا ہے، کیونکہ یہ کلور معدہ سے خاص نسبت رکھتا ہے اور اس کی نسبت ہزار میں چار یا پانچ ہوتی ہے، اور اگر اس حامض کلورکی نسبت زیادہ ہوجائے تو پھر پورا نظام معدہ جل اٹھے گا،چنانچہ یھی کلور حامض مختلف اجزا میں جدا ہونے کے بعد کھانے کو اچھے طریقہ سے ہضم کردیتا ہے، لہٰذا یہ آنتوں کا عصارہ اور عصارہ زردنیز ”بنکریاس“ وغیرہ یہ تمام عصارات اس غذا سے ملائمت رکھتے ہیں۔

اسی طرح آج کاسائنس یہ بھی کہتا ہے کہ وہ پانی جو معدہ او رآنتوں سے نکلتا ہے اس طرح وہ پانی جو ان کے پردوں میں ہوتا ہے یہ دونوں ان اہم عاملوں میں سے ہیں جو مختلف قسم کے مکروب" Microbe سے لڑتے ہیں کیونکہ جب یہ عصارات (پانی) نکلتے ہیں تو دوسرے قسم کے پانی ان دونوں کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتے یھاں تک وہ فضلہ کے ساتھ انسان سے خارج ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ ابھی چند سال پہلے تک یہ بات معلوم نہیں تھی کہ ان ”صمّاء غدوں“ (بھرے غدوں) کاکیا کام ہے۔

او رکیمیاوی چھوٹے عامل جسم کی ضروری ترکیبات کو پورا کرتے اور ان کے کروڑوں اجزاء ہوتے ہیں، اور اگر ان میںسے کوئی ایک جزء بھی ناکارہ ہوجائے تو انسان کا پورا جسم متاثر ہوجاتا ہے کیونکہ ان غدوں سے نکلنے والا پانی جو ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث ہوتا ہے ،چنانچہ ان میں ذرا سا بھی اختلال، انسان کے لئے خطرہ جان بن جاتا ہے۔

اور واقعاً یہ بھی عجیب بات ہے کہ آج کا سائنس اس نتیجہ پر پهونچ چکا ہے کہ انسان کے جسم میں موجود انتڑیاں ساڑھے چھ میٹر کی ہوتی ہیں او ران کے اندر دو طرح کی حرکت ہوتی ہے:

۱ ۔ ”حرکت خلط“ جس کے ذریعہ کھانے کو اچھی طرح باریک کیا جاتا ہے اور آنتوں میں موجود مختلف قسم کے عصارات سے وہ کھانا بالکل ہضم ہوجاتا ہے۔

۲ ۔ ہضم شدہ کھانے کو جسم کے مختلف اعضاء تک پهونچانا اور آنتوں میں جس وقت کھانا ہضم ہوتا ہے تویہ کھانا دوحصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ہضم شدہ کھانا (غذائیت) اور غلاظت، لہٰذا اس حرکت کی بنا پر انسان کے جسم سے صرف غلاظت باھر نکلتی ہے جس کے باقی رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا (بلکہ نقصان ہوجاتا ہے)

اسی انسان کے جسم میں ان پیچیدہ مختلف کیمیاوی مادوں کے علاوہ دوسرے” میکروب “ " Microbe "، جراثیم" Virus " اور باکٹریا " Bacteria " بھی ہوتے ہیں جیسا کہ ماھرین علم کا کہنا ہے کہ اگر میکروب اور جراثیم میں کسی قسم کا کوئی اضافہ ہوجائے یا ان میں سے کوئی اپنا کام کم کرنے لگے یا ان کا تناسب کم وزیاد ہوجائے تو انسان ھلاک ہوجاتا ہے۔

اور یھی غدّے اور ان سے نکلنے والا مختلف قسم کا پانی ہی آٹومیٹک طریقہ سے کھانے کو مشکل سے آسان ، سخت سے نرم اور نقصان دہ سے فائدہ مند بنادیتے ہیں چنانچہ ماھرین علم نے معدہ کے اندر ان میکروب اور جراثیم کی تعداد ایک مربع سینٹی میٹر( C.M ) میں ایک لاکھ بتائی ہے ۔

اسی طرح ہمارے پورے جسم پرجو کھال ہوتی ہے اس کے اندرایسے سوراخ ہوتے ہیں جن کے ذریعہ بدن سے فاضل پانی (پسینہ) نکلتا ہے لیکن قدرت کانظام دیکھئے کہ اس کھال کے سوراخوں سے باھر کا پانی اندر نہیں جاتا اور چونکہ فضا میں موجود جراثیم جب اس کھال کے اوپر حملہ آور ہوتے ہیں تو یھی کھال ان کو مار ڈالتی ہے اور جب بیرونی جراثیم اس کھال پر غلبہ پانا چاہتے ہیں اور منطقہ جلدکو اکھاڑپھینکنا چاہتے ہیں تو یھاں پر ایک جنگ کا دور شروع ہوجاتا ہے اور اس جگہ نگھبان جراثیم جو جلد کی حفاظت کی خاطر پائے جاتے ہیں وہ جلدی سے اس جنگ کے موقع پر حاضر ہوجاتے ہیں اور اپنے دشمن کے اردگرد ایک مضبوط حصار بنادیتے ہیں اس کے بعد یاتویہ ان باھری جراثیم کو جسم سے دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر ہمارے جسم کا نگھبان جراثیمی گروہ حملات کی تاب نہ لاکر موت کے گھاٹ اترجاتا ہے لیکن فوراً اس کے بعد جسم کا نگھبان دوسراگروہ حاضر ہوجاتا ہے اور وہ بھی بیرونی جراثیم سے مقابلہ کرنا شروع کردیتا ہے اور جب یہ گروہ بھی تاب مقاومت کھوبیٹھتا ہے تو پھر تیسرا گروہ آتا ہے اسی طریقہ سے یکے بعد دیگرے بیرونی جراثیم سے مقابلہ کرنے کے لئے جسم کے نگھبان گروہ آتے رہتے ہیں یھاں تک کہ یہ نگھبان گروہ بیرونی جراثیم کوشکست دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اور یہ جسم کے نگھبان گروہ خون کے ذرات ہوتے ہیں ، جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار بلین" Billion" (۳۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰,۰۰۰ ,) ہوتی ہے جس میں کچھ ذرے سفید ہوتے ہیں اور کچھ سرخ۔

چنانچہ جب آپ کھال کے اوپر کسی سرخ پھنسی کو دیکھیں کہ جس کے اندر پیپ پیدا ہوچکا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ گروہ جوجسم کی حفاظت کے لئے مامور تھا وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے میں مرجاتا ہے کیونکہ یہ اپنے وظیفہ کی ادائیگی میں مارا گیا ہے اور یہ پھنسی کے اندر جو سرخی ہے یہ خون کے وھی ذرات ہیں جو اپنے خارجی دشمن کے سامنے ناکام ہونے کی صورت میںپھنسی کی شکل میں پیدا ہوگئے ہیں۔

اسی طرح اگر ہم کھال پر تھوڑی سی دقت کریں تب ہمیں اس کی عجیب خلقت کا احساس ہوگا کیونکہ جب انسان اس خلقت پر توجہ کرتا ہے تو یھی انسان کا سب سے بڑا عضو دکھائی دیتا ہے چنانچہ ایک متوسط قامت انسان کی کھال تقریبا تین ہزار بوصہ (دو میٹر) ہوتی ہے اور ایک مربع بوصہ میں دسیوں چربی کے غدے اور سیکڑوں عرق کے غدے اور سیکڑوں عصبی خلیے " Cells " ہوتے ہیں جن میں چند ہوائی دانہ ہوتے ہیں اور ملیونوں خلیے ہوتے ہیں۔

اور اس کھال کی ملائمت اور لطافت کے بارے میں اگر ہم بات کریں تو اس کو ہماری آنکھیں جس طریقہ سے دیکھ رھی ہیں در حقیقت یہ کھال ویسی نہیں ہے بلکہ اگر اس کو میکرواسکوپ" Maicroscope " کے ذریعہ دیکھیں تو یہ کھال اس سے کھیں زیادہ فرق رکھتی ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، چنانچہ جب ہم اس میکرواسکوپ کے ذریعہ دیکھیں گے تو اس کے اندربہت سے ابھاراور بہت سے گڑھے نظر آئیں گے جیسے بال کی جڑوں کے سوراخ، جن کے اندر سے روغن نکلتا ہے تاکہ ہماری کھال کی سطح کو چربی مل سکے، اور انھیں جڑوں کے ذریعہ پسینہ نکلتا ہے اور یہ پسینہ وہ سسٹم ہے کہ جب درجہ حرارت شدید ہوتا ہے تو جلد کو شدت گرمی سے محفوظ رکھتا ہے۔

اسی طرح اگر آپ کھال کے باھری حصہ کو میکرواسکوپ کے ذریعہ مشاہدہ کریں تو اس میں واضح طور پر ان اسباب کو دیکھیں گے جن کی وجہ سے کوئی چیز باھر نکلتی ہے، جس طرح پھاڑوں، پتھروں وغیرہ میں ہوتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے جسم کی کھال کجھلانے یا دھونے سے بعض چیزیں خارج ہوتی ہیں، اور اس کھال سے بعض مواد کے خارج ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کھال پر ایک باریک پردہ پیدا ہوتا ہے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن اگر اس کو میکرواسکوپ کے ذریعہ دیکھیں تو گویا بہت سے مردہ خلیے ہیں جو اپنی اصلی حالت کو کھوبیٹھے ہیں، چنانچہ ہر روز اسی طرح ہماری کھال پر ہزاروں باریک باریک پردہ بدلتے رہتے ہیں ،لیکن اگر یھی مردہ کھال تبدیل نہ ہو تو انسان کی صورت مسخ شدہ حیوان کی طرح دکھائی دے، لہٰذا ان مردہ خلیوں او رمردہ کھال کے لئے ضروری ہے کہ یہ تبدیل اور تعویض ہوتی رھے، تاکہ ان مردہ کھال کی جگہ نئی کھال آجائے، اور یہ سلسلہ اس زندگی میں چلتا رہتا ہے ، بھر کیف ہر جسم کے لئے اسی طرح کی کھال کا بدلتے رہنا ضروری ہے گویا یہ خلیوں کا ایک طبقہ ہوتا ہے، جبکہ کھال کے اندر سے ان کی غذا ان تک پهونچتی رہتی ہے تاکہ دن میں لاکھوں خلیے بنتے رھیں اور مردہ ہوکر باھر نکلتے رھیں۔

اسی طرح ہمیں انسان کے جسم کے بارے میں بھی توجہ کرنی چاہئے !کیونکہ اسی انسان کے کان کے ایک جز میں ایسا سلسلہ ہوتا ہے جو چار ہزارباریک اور ایک دوسرے سے بندھے ہوئے قوس(کمان) سے بنتا ہے، جو حجم اور شکل وصورت کے لحاظ سے ایک عظیم نظام کی نشاندھی کرتا ہے۔

چنانچہ ان کو دیکھ کر یہ کھا جاسکتا ہے کہ گویا یہ ایک آلہ موزیک ہے کیونکہ ان ہی کے ذریعہ انسان کی سنی ہوئی باتیں عقل تک پهونچتی ہیں ، چاھے وہ معمولی آواز ہو یا بجلی کی آواز سبھی کوعقل انسانی سمجھ لیتی ہے کہ یہ کس چیز کی آواز ہے۔

اسی طرح انسان میں عجیب وغریب گذشتہ چیزوں کے علاوہ دوسری چیزیں بھی موجود ہیں جیسے قوت سامعہ (کان)، قوت باصرہ، (آنکھ) قوت شامہ (ناک) اور انسانی ذوق، انسان کی ہڈیاں، رگیں، غدے، عضلات ونظام حرارت وغیرہ۔

المختصر یہ کہ طرح انسانی وجود میں ہزاروں دلیلیں موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسانی جسم کا یہ نظام ایک اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی اتفاقی طور پر پیدا ہوگیا ہے اور نہ ہی ”بے جان مادہ“ کی حرکت کا نتیجہ ہے (جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں)۔

ہم اس سلسلے کی اپنی بحث کے اختتام پر سائنس کے کشف شدہ نتیجہ پر ختم کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ انسان کے جسم میں ایک عجیب وغریب سسٹم ہے جس کو ”کروموسوماٹ“ " Chromosomic " کھا جاتا ہے۔

کیونکہ ”کروموسوماٹ“ بہت ہی دقیق اور باریک ریشہ ہوتا ہے جس کی تشکیل ایسے ذرات کرتے ہیں جن پر ایک باریک پردہ ہوتا ہے اور وہ اپنے اطراف کی تمام چیزوں سے جدا ومحفوظ رہتا ہے، گویا یہ باریک ریشہ اپنے اس مقصد کے تحت اپنا پورا کام بغیر کسی رکاوٹ کے انجام دیتا رہتا ہے، لیکن یہ باریک پردہ دوسرے کیمیاوی مرکبات سے مل کر بغیر کسی رکاوٹ کے رشد ونموکرتے ہیں،جو”سیٹوپلازم“ " Cytoplasm "سے اس باریک پردہ کی طرف مندفع ہوتے ہیں، تاکہ ان کیمیاوی مرکبات کے ذریعہ ”کروموسوماٹ“ سے اجزاء تشکیل پائیں، اور زندگی کے مورد نیاز عناصر کی تخلیق ہوسکے۔

کیونکہ کروموسوماٹ کی ترکیب " D.N.A "کے اجزاء سے ہوتی ہے جس کو ” وراثتی " Geneticcs "“ اجزاء بھی کھا جاتا ہے،اس کی وجہ سے انسان لمبا اور ناٹا ہوتا ہے اور اسی کی بنا پر انسان کے جسم، آنکھ اور بالوں کا رنگ تشکیل پاتا ہے اور ان تمام سے بالا تر انسان کی آدمیت تشکیل پاتی ہے اور انھیں وراثتی اجزاء کی بناپر گھوڑے سے گھوڑا ہی پیدا ہوتا ہے او ربندر سے بندر، چنانچہ اسی کے باعث ہر مخلوق اپنی خاص شکل وصورت پر پیدا ہوتی ہے اور کروڑوں سالوں سے ہر مخلوق اپنی گذشتہ صنف کے مشابہ پیدا ہوتی ہے، چنانچہ کبھی آپ نے یہ نہ دیکھا ہوگا کہ کسی انسان سے گدھا متولد ہوا ہو، یا کسی گدھے سے بندر پیدا ہوا ہو؟! اور کسی درخت سے پھولوں کی جگہ پرندے پیدا ہوئے ہوں؟!!۔

کیونکہ یہ تمام صفات " D.N.A "کی بناپر ہوتے ہیں۔

اوران ”جزی “(اجزاء)کی تشکیل کا طریقہ کار بہت ہی عمدہ اور بہترین ہے ،اور یہ گول قسم کے ہوتے ہیں اور باہم ملے ذرات سے مل کر کبھی تو ”ریبوز“ نامی سوگر " Sugar "پیدا ہوتی ہے ، جس کا پتہ ماھرین آج تک نہیں لگاپائے کہ کھاں سے آتی ہے او رکیسے پیدا ہوتی ہے، اور ریبوز”فاسفیٹ“" Phoohate " کے ذرات سے مرتبط ہے،اور یہ عمل کروڑوں مرتبہ تکرار ہوتا ہے فاسفیٹ اور شوگر کے درمیان،اور اس کا ہمیشہ ایسے عمل کرتے رہنا ضروری ہے۔

چنانچہ اس شکل کے درجات کیمیاوی ماھرین کے تعریف سے کھیں زیادہ قیمتی ہیں، جو چار قوانین کے تحت تشکیل پاتے ہیں:

۱ ۔”آڈنین“۔

۲ ۔”ثمین“۔

۳ ۔”غوانین“

۴ ۔”سیٹوسین“

یھاں پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں کا پہلا تیسرے سے یاچوتھے سے کیوں نہیں بدلتا؟ اور کون ہے جو اس میں مانع ہے؟

لہٰذا اس کے منع میں دوران ہندسہ ، دوری اور زاویہ مانع ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے ھرایک کے لئے محدودیت ہے جو ان میں سے دوسرے کے علاوہ صرف ایک میں حلول کرتا ہے۔

اور شاید یہ عظمت اور خوبصورتی کے بہترین عکاس ہیںجو ان عملیات میں جو ایک نئے جز کے بنانے کے وقت آپ مشاہدہ کریں، چنانچہ یہ دائرہ نما شکل اپنے اطراف میں ملیونوںالٹے چکر لگاتی رہتی ہے جو آخر میں ایک بغیر بنی رسی نما بن جاتی ہے ، چنانچہ آج کا سائنس ابھی تک اس بات کو کشف کرنے سے عاجز ہے کہ اس میں ایسی طاقت کھاں سے آئی ؟!

اسی طرح کسی قادر کی قدرت کے ذریعہ اس چیز میں دو شگاف ہوجاتے ہیں وہ بھی اس طرح جیسے کسی آری سے دوٹکڑے کردئے گئے ہوں، اور ملیونوں مرتبہ یہ شگاف پیدا ہوتا ہے تب جاکے کھیں اس ذرہ کی پیدائش ہوتی ہے، اور پھر اس پردہ کی طرف سے جزئیات کے اندر یا شوگر، فوسفات، آڈینین، ثیمین، غوانین اور سیٹوسین کے اندر داخل ہوتا ہے ، اور یہ تمام سوائے فوسفات کے علاوہ جادوئی طریقہ سے بن جاتے ہیںاس کے بعد اپنی شکل کے اطراف میں گھومنے لگتے ہیں، جبکہ ان میں سے بعض تو اس شکل کے دوسری (بیرونی) طرف گھومتے ہیں جن کی وجہ سے شوگر اور فوسفات بنتے ہیں اور ان سب سے مل کر اس کے دوبڑے جزء بنتے ہیں ، اور اس کے بعد ان عملیات کی دس کروڑبار تکرار ہوتی ہے تب جاکے ایک شکل بنتی ہے اور پھر دسیوں کروڑ بار یہ عملیات جاری ہوتے ہیں اسی طریقہ سے اس کی شکلیں بنتی جاتی ہیں تاکہ پروٹن کے ذرات تشکیل پائیں۔

جبکہ D.N.A کے اجزاء انسان سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ تمام زندہ چیزوںکے مکروب سے لے کر حشرات او رھاتھی وغیرہ میں بھی پائے جاتے ہیں اور یھی اساسی او ربنیادی اجزاء ہیں جن کی بنا پرحیات مکمل ہوتی ہے۔

حالانکہ علم کیمیاء نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ قواعد جن کی بنا پر تمام چیزوں میںجو لازمی اجزاء ہوتے ہیں تو وہ تمام کائنات میں ان کی ترکیب میں اختلاف نہیں ہوتا، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے الگ کیوں ہیں؟!!

چنانچہ بعض ماھرین نے اس اختلاف کی وجہ یہ بتائی ہے کہ D.N.A .کے اجزاء کی مقدار اور گذشتہ چار قواعد کی بنا پر ان تمام چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

لیکن کسی بھی ماھر نے کوئی ایسی مطمئن بات نہیں بتائی جس کوانسان قبول کرسکے۔

کیونکہ جن ماھرین نے حیات کے اسرار کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھیں ہیں ان سب میں ”شاید“ ، ”بالفرض“ ،”بسااوقات“ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً شاید اس کی وجہ یہ ہے ،بالفرض اس کی وجہ یہ ہو، جو اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ وہ ابھی تک حیاتی اسرار سے پردہ نہیں اٹھاپائے ہیں۔

کیونکہ اس شکل میں کروموساٹ ہوتے ہیںاور کروموساٹ ژین اور وراثتی اجزاء بنتے ہیں ، اور یہ وراثتی اجزاء D.N.A .کے اجزاء سے بنتے ہیں اور یہ D.N.A .جزئیات سے بنتے ہیں اور یہ جزئیات چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنتے ہیں، گویا یہ ایک ایسی عمارت ہے جس کے اندر ایک کمرہ اس کمرہ میں ایک اور کمرہ اور اس کمرہ میں ایک اور کمرہ۔۔۔۔۔۔

علامات ظھور

علامات ظھور کا موضوع ایک دلچسپ موضوع ہے ۔اکثر لوگ اس کو ایک پیشن گوئی کی نظر سے دیکھتے ہیں ،اگر کوئی بات ان کو پوری ہوتی ہوئی نظرآتی ہے تو اس پر خوش ہوکر رہ جاتے ہیں ۔جبکہ یہ علامات نہ پیشن گوئی ہے نہ کوئی علم نجوم اور نہ ہی کوئی ھاتھ کی لکیروں سے نکالاھوا نتیجہ ہے ،بلکہ ایک واقعیت ہے کہ جو واقع ہورھی ہے یارونما ہوگی، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں انسان کو متوجہ ہوجانا چاہئے اور ہر مومن کو اپنی کمر کس لینی چاہئے ۔

البتہ کچھ علامات قطعی نہیں ہیں بلکہ کسی د وسرے واقع یا شئے پر مشروط ہیں جبکہ بعض علامات قطعی ہیں اور ان کے پورا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اوران کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں جس طرح کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

من المحتوم الذی لابد منه ان یکون قبل القائم :خروج السفیانی وخسف بالبیداء وقتل النفس الذکیه والمنادی من السماء وخروج الیمانی ۔“( ۱۳۲ )

ترجمہ:وہ نشانیاں جوکہ بغیر کسی شک و شبہ اور حضرت (عج) کے ظھور سے پہلے حتماً رونما ہونگیں :( ۱) خروج السفیانی ( ۲) سورج کو گھن لگنا( ۳) نفس ذکیہ کاقتل ( ۴) آسمان سے نداکا آ نا ( ۵) شخص یمانی کاخروج کرنااور اس کے علاوہ۔ایک اور مقام پر معصوم علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

النداء من المحتوم والسفیانی من المحتوم وقتل النفس الذکیه من المحتوم وکفّ یطلع من السماء من المحتو م ۔“( ۱۳۳ )

ترجمہ: آسمانی نداآنا حتمی ہے ۔سفیانی کاخروج بھی حتمی ہے ۔نفس ذکیہ کا قتل بھی حتمی ہے ۔اور ھاتھ کی ہتھیلی جو کہ آسمان پر ظاہر ہوگی وہ بھی حتمی ہے ۔

پھر دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں :

خمس قبل قیام القائم من العلامات الصحیحة والیمانی و الخسف بالبیداء و خروج السفیانی و قتل النفس الذکیه ۔‘( ۱۳۴ )

ترجمہ:پانچ نشایناں حضرت(عج)کے ظھور سے قبل حتمی ھیں۔خروج یمانی ،سورج گھن ،خروج سفیانی اورقتل نفس ذکیہ ۔

ایک طویل روایت میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیھما السلام بیان فرماتے ہیں :

یخرج اذا خفّت الحقائق ولحق اللاحق وثقلت الظهور وتتابعت الامور ،واختلفت العرب واشتدّالطلب،وذهب العفاف واستحوذالشیطان و حکمت النسوان وفدحت الحوادث ونفثت النوافث وهجم الواثب و عبس العبوس و اجلب الناسوس ویفتحون العراق ویحمعون الشقاق بدم یراق( ۱۳۵ )

ترجمہ:وہ اس وقت ظاہر ہونگے جب حقیقت کی کوئی وقعت نہ رہے گی۔ دنیااحمقوں کے پیچھے چلے گی ،کمریں وزنی ہوجائیں گی ،ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونما ہوتارہے گا ،عربوں میں پھوٹ پڑجائے گی ،کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ہوگی ،رشتہ داریاں ختم ہوچکی ہونگیں ،شیطان سب پر حاوی ہوچکا ہوگا ، عورتیں حکومت کیا کریں گی ، کمرتوڑ حادثات رونما ہونگے ،چیڑنے والے چیڑتے ہوئے اور آگے بڑھ جائیں گے ، تیز پرواز کرنے والے پرندے حملہ آور ہونگے ،دنیا کی لذتیں کھٹی ہو جائیں گی ، راز دان لوگ خیانت کرکے راز فاش کریں گے ، عراق کو دوسرے فتح کرلیں گے اورھر قسم کے اختلاف کا جواب خونریزی سے دیا جانے لگے گا ۔

اذا خفت الحقائق

-- جب حق کی کوئی وقعت نہ رہے گی ۔

ظاھر ہے جب زمانہ گمراھی اور ضلالت کی طرف بڑھ رھا ہوگا تو اس گمراھی کے سیلاب میں حق کی پہچان مٹ جائے گی اور اگر کوئی حق کہتا نظر بھی آیاتواس کو حق کھنے کے

جرم میں سزاوار ٹھرایا جائے گا ۔ اس طرح سے حق گو لوگ خود بخود گوشہ نشینی کاشکار ہوجائیںگے ۔

اور یہی وہ علامات ہیں جو ہم آجکل اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں ۔مشرق سے مغرب تک ظلم کا بازار گرم ہے ۔ھر طاقتور اپنے سے کمزور پر حاوی ہوناچاہتا ہے ۔اس حصول قدرت اور طاقت کی کشمکش میں دنیا ظلم سے بھر تی جارہی ہے۔

لحق الاحق

پیروی کرنے والے احمقو ں کے پیچھے چل نکلیں گے :

آج اکثریت کا یہی حال ہے کہ دنیا اندھی تقلید کا شکار ہو رھی ہے ۔انسان جب کسی کی پیروی کرنے پر آتا ہے توایسا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ حق و نا حق کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اورنہ فقط یہ کہ حق کو نہیں پہچان پاتا بلکہ وہ اس ظلمت کے بھاو میں خود اپنے آپ کوبھی کھو بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں ہر طرف افراط اور تفریط کے شکار ہوئے لوگ نظرآرہے ہیں ۔ چاہے وہ مذھبی ہوں یا سیاسی اور یہ افراط یا تفریط ہونا پورے معاشرے کے نظام کو درہم برہم کئے ہوئے ہے۔

وثقلت الظهور

پشت وکمر بھاری ہوجائے گی :

اگر اس سے مراد انسانی کمر ہے تو مطلب بہت واضح ہو جائے گا ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے اوپر کام کا بوجھ اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ جو اس کی طاقت سے باھر ہوگا۔بظاھر تو انسانی زندگی ایک آرام دہ اور پر آسائش کی طرف جارہی ہے اور وہ اس کے پیچھے کتنی زحمتیںاٹھارھا ہے اس طرف بالکل توجہ نہیں کرتا ۔اگر اپنے اس زمانہ سے ذراماضی کی طرف چلے جائیں تو بہت سے کام جو کہ آج کی دنیا میں ہورہے ہیں وہ ناممکن تصور کئے جاتے تھے۔

ایک طرف تو انسان نے الیکٹرونکس کے میدان میں اتنی ترقی کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رھا ہے ۔لیکن دوسری طرف اپنے اس آسائش کے حصول کے خاطر اپنے دین اور ایمان سے بھی ھاتھ دھوبیٹھا ہے ۔یھی آسائش اور وقتی لذّتیں انسانی زندگی کا ھدف بن کر رہ گئی ہیں ۔ چاہے ان چیزوں کے حصول کے لئے کوئی بھی راستہ اپناناپڑے انسان اسے انجام دینے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسا ن کو آسائشیں تو میسر ہوتی جارہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سکون بھی ختم ہوتا جارہا ہے ۔ھر شخص پریشانی اور مایوسی میں مبتلاھے آما ر کے لحاظ سے چالیس کے سن سال سے اوپر کے لو گوں میں ۸۰ فیصد لوگ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء ہوجاتے ہیں ۔اور یہ حساب چالیس سال سے بھی کمسن لوگوں میں تیزی سے بڑھ رھی ہے۔

اگر ان لوگوں سے ان کی زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے ۔تو ان میں سے شاید ہی کوئی انسان اپنی زندگی سے مطمئن نظر آئے گا ۔ انسان نے اپنے آپ کو خود سے ہی ایک ختم نہ ہونے والی دوڑمیں شامل کرلیا ہے جس کی کوئی انتھا نظر نہیں آتی ہے۔

تتابعت الامور

ایک کے بعد دوسرا حادثہ ہوتا نظر آرھا ہے :

یہ بات اب آج کی دنیا میں بہت واضح ہے کہ ھرروز کسی نہ کسی جگہ پرکوئی بڑا حادثہ ہوتا نظر آتا ہے اور اس شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ انسان پچھلے واقع کو بھلا دیتا ہے ۔اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ ایسے حوادث پر لوگوں کا رد عمل ختم ہوتا جارہا ہے ۔ ا ب بڑے سے بڑے واقعہ کو وہ اپنے لئے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ھیں۔اب تو دنیا کے بڑے شھروں کے بارے میں بڑی آسانی سے یہ بات کہہ دی جاسکتی ہے کہ وھاںایک دن میں ۱۵ یا ۲۰ آدمی کا قتل ہونا ایک معمولی سی بات ہے ۔ اسی وجہ سے معصوم علیہ السلام سے یہ بھی منقول ہوا ہے کہ:

توقَّعواآیات کنظم الخَرَز

ایسے حادثات کے منتظر رہو کہ جوتسبیح کے دانہ کی طرح یکے بعد دیگرے رونما ہوں ۔( ۱۳۶ )

اور یہی ہورھا ہے کہ بہت تیزی اور بغیر کسی وقفہ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔

واختلف العرَب

عربوںمیں اختلافات شروع ہو جائیں گے :

یہ بات بھی بہت پہلے سے ظاہر ہوچکی ہے ۔ اور ھرروز اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

واشتدَّ الطّلب

کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ہوگی :

اب یہ بات سرعام پر آرھی ہے کہ دنیا میں ھرطرف لوگ کسی ایسی شخصیت کے

منتظر ہیں جوانھیں دلدل سے نکالے۔مومنین کی آنکھیں میں انتظاراور مایوسی نظرآرھی ہے اور چشم براہ ہیں کہ وہ نجات دینے والا منجی عالم بشریت کب ظھور کرے؟اورطوفان ظلم وستم کب ختم ہواورمومنین کایہ امتحان کب اپنے انجام کوپھنچے ۔؟

نہ فقط مومنین ومسلمین بلکہ ملحد اوربے دین بھی اپنی طرف سے اسی کوشش میں مصروف نظر آنے لگے ھیںکہ ہم کس طرح اس جھان انسانیت کو عدالت اورحق جوئی کی جانب گھسیٹ کرلائیں اورظلم کے سیلاب پرقابوحاصل کریں۔

ذَهَبَ الْعفافُ

رشتہ داریاں ختم ہوجائیںگے:

لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھلا بیٹھیںگے۔ ایک دوسرے کے تعلقات ان کی مصلحت اندیشی پر منحصر ہونے لیںگے۔خونی رشتوں کی اہمیت ختم ہوجائے گی ۔ اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے لوگ فقط مصلحت اندیشی پر اتر آئیں گے جدھر سے فائدہ نظر آئے گاادھر ہی سے رشتہ بھی باقی رکھیں گے ۔

نوبت تو یھاں تک آگئی ہے کہ صلہ رحمی کو حماقت اور وقت ضایع کرنے کانام دیا جانے لگا ہے ۔ اگرکوئی شخص صلہ رحمی کی غرض سے کسی کے گھر جائے تو لوگ اس کو ایک بے کار آدمی سمجھنے لگتے ھیں۔ کیونکہ آج کے دورمیں مصروفیت ایک بہت بڑا فیشن بن گیا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جوشخص جتنا زیادہ مصروف ہوتا ہے اتنا ہی اہم اوربڑا آدمی ہوگا۔

واستحوذالشیطان

شیطان سب پرحاوی ہوجائے گا :

ھرشخص کسی نہ کسی طریقہ سے شیطان کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔

اگرچہ یہ حق ہے کہ ”العصمة لاہل ھا“ عصمت اورگناہوں سے پاکیزگی ان لئے ہے جو اس کی اہل یت (معصومین(ع)) رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جومعصوم نھیںتھے اس کے باوجود کمال کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے ۔ اورھرزمانہ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں ۔ جس طرح معصوم (ع)حجت ھیںاورھرزمانہ میں کسی نہ کسی معصوم (ع) کا ہونا لازمی ہے اسی طرح سے ایسے افراد بھی ھرزمانے میں رہے ہیں اورقیامت تک باقی رھیںگے اگرچہ ایسے لوگ انگشت شمار ہی کیوں نہ ہوں ۔ صدر اسلام کے دور سے لیکر آج تک ایسے لوگوں کی فھرست بنائی جائے تو کئی کتابیںان کے اوپر لکھی جاسکتی ہیں ۔حتی آج بھی قم مقدس میں کچھ شخصیات ایسی ھیںجن کے بارے میں یہ تصور بھی محال نظر آتا ہے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ بھی بولاھوگا یاوہ کبھی بول سکتے ہیں ۔غیبت تھمت تو بہت دور کی بات ہے ۔” استغفر اللہ من کل الذنوب “نہ فقط قم میں ایسی شخصیات ھیںبلکہ دنیا میں کہیں ہی ایسے لوگ مل سکتے ہیں ۔

نقل کرتے ھیںکہ ایک شخص نے خواب میں شیطان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے زنجیر یںبنا رہاہے یہ زنجیریں بہت مختلف سائز کی ھیںاور کوئی تو بہت بڑی اور موٹی توکوئی دھاگے کی طرح باریک ۔خواب دیکھنے والے شخص نے شیطان سے سوال کرنا شروع کیا یہ سب سے موٹی زنجیر کس کے لئے بنارھا ہے تو شیطان نے اس زمانہ کے کسی جید عالم دین کانام لیا کہ ان کو اس زنجیر سے باندھنے کی کوشش کروں گا۔

اس سے پتلی زنجیر کے بارے میں سوال کیا تو شیطان نے کسی عارف کانام بتایا، یہ شخص سوال کرتا رھا اور شیطان جواب دیتا رھا ہے یہ زنجیر فلان فلان شخص کے لئے ہے۔ آخر میں اس شخص نے شیطان سے سوال کیا کہ : میرے لئے کونسی زنجیر ہے ۔ ؟تو شیطان نے مسکراکرجواب دیا تمھارے لئے کسی زنجیر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم بغیر زنجیر کے میرے قبضہ میں ھو۔

اب یہی حال اکثریت کا ہے اس زمانہ میں شیطان کا کام بہت آسان ہوکررہ گیا ہے ۔ بہت ہی کم لوگوں کیلئے اسے زنجیر بنانے کی ضرورت پڑے گی ۔ ھرشخص کسی نہ کسی روحی بیماری میں مبتلاء نظر آرھا ہے لوگوں کودین اور حق کے راستہ پرلانا فساد اور گمراھی کے راستہ پرلانے سے کھیںزیادہ مشکل ہوچکاھے ۔ کوئی شخص دین اور آخرت کی بات سننے کو تیار نھیںہوتا ۔ حتی اگر کوئی کسی محفل میں خدا اور رسول(ص) کا ذکر کربیٹھے تو اسے مسخرہ آمیز القاب سے نواز کرنہ فقط اس کی بات ختم کردی جاتی ہے بلکہ اس شخص کی اپنی اہمیت اورشخصیت کوبھی سخت گذندپھنچتی ہے ۔

حکمت النسوان

عورتیں حکومت کریںگی :

یقینا اس حکومت سے صرف ملکی سطح کی حکومت مراد نھیںبلکہ زندگی کے ھرشعبہ میں عورتیںحکومت کرتی نظر آئیںگی ۔اگر کسی ملک کی حکومت کی بات کی جارہی ہو تو یہ بات کافی عرصہ پہلے سے رونما ہوچکی ہے ۔اب تو یہ بات عادی ہوچکی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ لوگوں میں غیرت ختم ہوچکی ہے ۔آزادی کے نام پر عورتوں کی لگامیں ٹوٹ چکیں ہیں ۔

البتہ اس سے مراد یہ نھیںھے کہ عورتیںخدا کی کوئی پست مخلوق ہے العیاذ باللہ بلکہ اسلام میں جتنا احترام عورتوں کو دیا ہے کسی اور مذھب یا دین نے نہیں دیا ہے ۔یہ جاہل یت کی بات ہے کہ عورتیں گھر میں بندھو کررہ جائیں ۔یہ اسلام طالبان تو ہوسکتا ہے کہ جو خود اسلامی تعلیمات سے بے بھرہ ھیںلیکن دین حق اور مذھب حقہ سے اس کاکوئی واسطہ نھیںھے ۔اسلام نے ھرشخص اور مخلوق کو اس کا مقام عطا کرنے کے ساتھ اس کے کاموں کا دائرہ کار بھی معین کیا ہے ۔

عورت اگر ماں کے روپ میں ہوتو اس کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ہے ۔اگر بیوی ہو تو قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تمام ضروریات زندگی کواس کے شوھر پر لازم قرار دیا ہے ۔ اگر بھن کی صورت میں ہوتو بھائی کو اس کا وقار قرار دیا ہے اگر بیٹی کے روپ میں ھوتو باپ پر اس کے لئے شفقت اور محبت لازم کی ہے ۔

لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ عورت اور مرد کے حقوق برابر ہونے کا نعرہ بلند کرکے مغالطہ میں مبتلا کرنے کے بعد اس کی شرم وحیا کو اس سے لے لیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے عورت بے حیا ہوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورت کی ہر بات حق ہوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورت کو گھر سے بغیر کسی وجہ کے باھر نکال دیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیںحکم خدا سے تجاوز کرجائیں ۔؟

آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیںسیرت حضرت فاطمہ (ع) اور زینب کبری (ع) کو بھلا بیٹھیں۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے سروں سے چادریںاتار دیں۔

نھیں!ہرگزایسانھیں ہے ۔ اسلام نے کسی کے حقوق معین کرتے وقت ہرگز کسی دوسرے کی حق تلفی نھیںکی ہے ۔ ھرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق حقوق عطا کئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں برابری کے نام سے بے لگام آزادی کا نعرہ ہے وھاں ایک شریف اور باعزت عورت کی کوئی وقعت باقی نہیں رھی ہے اگر بات یھیں تک ہوتی تو صبر آجاتا مگر اب وہی آزادعورتیںیہ کھنے پر مجبور پرگئی ہے کہ ہماری حفاظت کی جائے ، اور اب وہ اس مقام پر پہنچ چکی ہیںکہ وہ لوگ اپنی حفاظت کرنے سے ناچار ہوچکی ہیں، اب اس غلط راہ پرنکلنے کا نتیجہ نظر آنے لگا ہے یہ توایک جانب سے عورتوں کا کردار تھا ۔

دوسرا کردار عورتوں کا وہ ہے کہ جووہ خاندانی سیاستوں میں ادا کرتی ہیں۔ ایک خونی رشتہ کو دوسرے خونی رشتہ سے الگ کرانے سے بڑے بڑے جھگڑوں کے پیچھے انھیںکا کردار ہوتا ہے ۔ افسوس ہے ایسے مردوں کی عقل پر کہ جو اس طرح سے عورتوں کی تقلید کرتے ہیں ۔گھروں اور خاندانوں کے بڑے بڑے فیصلوں میں عورتوں کی سیاست چلاکرتی ہے ۔ اوریہ مرد اپنی عقلوں پہ تالہ باندھ کر کونے میں رکھ دیتے ھیں۔یھاں تک کہ کسی گھر میں دین داری اور بے دینی کا دارو مدار عورتوں کے اختیار میں ہے اگر باپ چاہے جتنا بھی متقی یا پرھیزگار کیوں نہ ہو اگر اس کی بیوی مذھبی نھیںھے تو ساری اولاد پر وہ اپناھی رنگ چڑھا دیتی ہے ۔اگرچہ عورتوں کاکردار بے اثر نھیںہوتا لیکن اس حدتک کہ مرد کو اپنے گٹھنے ٹیکنے پڑجائیں۔

اس کے برعکس اس بات کی جانب بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ حق تلفیاں جو ہمارے ملک پاکستان میں مختلف مقامات پر عورتوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہو ا کہ اس دور میں کہ جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے ، ایسے بھی لوگ رہتے ھیںکہ جو عورتوں کو ایک جانور کی حیثیت سے رکھتے ہیں ۔ شادی کا تصور ان کے نزدیک یہ ہے کہ ایک عورت بچہ دینے کے ساتھ ساتھ گھر میں کام بھی کرے گی ۔حتی بعض علاقوں میں ہم سے یہ سوال کیا کہ آیا عورت رنگین کپڑے بھی پھن سکتی ہے؟ تو بڑا تعجب ہوا۔معلوم کرنے اور دیکھنے پر پتہ چلا کہ وھاں عورتوں کو سفید کپڑے پھنائے جاتیں ھیں۔ اور گاڑی کے پرانے ٹائر سے بنے ہوئے جوتے پھنائے جاتے ہیں ،آج بھی مسلمانوں میں ایک طرح سے خرید وفروخت ہورھی ہے کہ جوکوئی بھی ہو جس عمر کابھی ہو اگر زیادہ پیسے لائے گا تو اس کو لڑکی دیدی جائے گی حتی خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ستر سالہ شخص کی شادی ایک ۱۰/ سالہ لڑکی سے کردی گئی ۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بہت عام ہے گاؤں دیھاتوں میں عام دیکھنے کو مل جاتا ہے کہ اگر بیوی سے کوئی روٹی جل جائے کہ جسے اس نے گھنٹوں محنت کرکے لکڑے کے چولھے پر پکایا ہواہوتا ہے تو اس کی پٹائی ہوجاتی ہے ۔

ایسی باتوں پر مرد بڑا فخر کرتے ھیںکہ میں اپنی گھر والی کو مارکرآیا ہوں بات یھاں پر ختم نھیںھوتی بعض علاقوں میں تو اپنے جرم کو چھپانے کے لئے کارا کاری کا چکر بناکر عورتوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نھیںکیا جاتا ۔ ابھی بھی پاکستان میں ایسے مقامات ہیں کہ جہاں شاید ہی کوئی خاندان یا گھر ایسا ہوکہ جو کارا کاری کا شکار نہ ہو چکاھو اس طرح عورتوں کو علم کے حصول سے محروم رکھ کر اپنے باغیرت ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے ۔

واضح ہے کہ اسلام کا ان تمام چیزوں سے کوئی واسطہ نھیںھے یہ ساری چیزیں اسلامی تعلیمات سے دور ہونے کے سبب پیدا ہوتی ھیںاسی جاہل یت کی وجہ سے ہم افراط اور تفریط کا شکار ہوچکے ہیں ۔

وفدحتِ الحوادث

کمر شکن حادثات رونما ہونگے :

ظاھر ہے کہ جب پوری دنیا میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ہوجائیں گے حتی یہ کہ حکومتوں میں حصول قدرت اورطاقت کی دوڑ اپنے عروج پر ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جو جبران ناپزیر ہوں۔ یھاں تک کہ کوئی بھی قوم یا حکومت ایسی باقی نھیںرہے گی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے گا کہ یہ امن اور سکون کی زندگی بسر کررہے ھیں۔

نفثت النوافث و هَجَمَ الواثب

چیر کر آگے بڑھنے والے آگے بڑھ جائیں گے اور تیزپرواز کرنے والے حملہ آور ہونگے :

نہ فقط موجودہ زمانے کے لوگ بلکہ گذشتہ صدی کے لوگ اس چیزکا خوب مشاھدہ کرچکے ہیں کہ یہ جنگی طیارے ھرروز بروز ایک سے بڑھ کر ایک جدّت کے ساتھ دنیا میں ایجاد ہورہے ہیں کہ جن کے ذریعہ حکومتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے روی زمین پر رہنے والوں کو آگ اور خون میں غلطان کرتی رہتی ھیں۔ اب تو اس دنیا سے بڑھ کر سیاروں کی جنگ کی باتیں ہو رھی ھیںاگرچہ کہ ابھی تک یہ ایک مفروضہ کی حد تک ہی محدود ہے ۔

وعبس العبوس

دنیا کی لزتیں کھٹی ہوجائیں گی :

تما م گذشتہ باتوں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب دنیا میں ھرطرف آشوب اور ھنگامہ آرائی بڑھ جائے گی تو کوئی بھی شخص سکو ن کی زندگی بسر نہیں کرسکے گا۔جب سکون ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر زندگی میں مزا کہاں سے آئے گا ۔یھی وجہ ہے کہ دنیا میں جس طرف توجہ کرکے دیکھیں لوگ ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز قدم اٹھا رہے ہیں خود کشی کرنے والوں کا تناسب پوری دنیا میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ یہ سب نتائج اسی لئے نکل رہے ھیںکیوں کہ دنیا میں ان لوگوں کے لئے کوئی کشش باقی نہیں رہ گئی ہے اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوکر یا تو خود کشی کربیٹھتے ھیںیا پھر انتقامی جذبہ کے پیش نظر اشتعال انگیز اقدامات کرنے سے گریز نھیںکرتے ۔

ایک اور روایت کے ذیل میں مولیٰ متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام فرماتے ہیں:

وانجر العیص واراع القنیص و اکثر القمیصُ

جس وقت جنگلات خشک ہو کر ختم ہوجائیں گے شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کرتے رہتے ہوں گے اور نفرتیں اورہجرتیں زیادہ ہوجائیں گی۔( ۱۳۷ )

انجر العیص

جس وقت جنگلات خشک ہو کر ختم ہوجائیں گے:

پوری دنیا میں ھرطرف اس بات کا رونا ہے کہ جنگلات ختم ہورہے ہیں ۔ اس کی کیا وجوھات ہوسکتی ہیں ایک تو حکومتیں یاپھر کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لئے جنگلات ختم کرتے ہیں یاپھر بارشیں کم یا بعض مقامات پر نہ ہونے کے سبب جنگلات ختم ہوتے جارہے ہیں یا پھر بعض موقع پر اشتعال انگیز کاروایوں کے نتیجہ میں بھی یہ خداداد نعمت روبہ زوال ہوتی جارہی ہے ۔

آج پوری دنیا میں سیمینار منعقد کئے جارہے ھیںکہ کسی طرح سے ان قدرتی وسائل کو ضائع ہونے سے روکا جائے ۔ قحط سالی روز بروز شدت اختیا کرتی جارہی ہے حکومتوں کے درمیان پانی کے مسئلہ پر اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اور عنقریب عین ممکن ہے کہ حصول آب کے لئے حکومتوں کے درمیان جنگیں چھڑ جائیں ۔

واراع القنیص

شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کریں گے:

کسی زمانے میں جب شکار کرنے والوں کاذکر آتاتھاتو اس سے یہ تصور کیا جاتا تھا جانورں کے شکار کرنے والے ۔ لیکن اب بات اس سے آگے بڑھ چکی ہے ۔ اغوا برائے تاوان یا سیاسی مقاصد کے لئے انسانوں کا اغوا بہت عام سی بات ہوکررہ گئی کسی بھی ملک یا قوم میں اس قسم کی خبریں روزانہ کا معمول بن کررہ گئی ھیں۔ یاتو لوگ پیسہ کی خاطر سرمایہ دار لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرتے ھیںیاپھر سیاسی مقاصد کے تحت بھی ایسے اقدامات کئے جاتے ھیںمشرق سے لے کر مغرب تک ایسے واقعات روزانہ کا معمول بن گئے ہیں ۔

کثر القمیصُ

اضطراب اورہجرت زیادہ ہوجائے گی:

ہجرت کرنے والے افراد بیشتر اس سبب کے تحت کرتے ہیں :کہ کچھ لوگ خشک سالی کی خاطر ہجرت کرتے ھیںجبکہ بعض لوگ امن وامان اور حفظ جان کے لئے بھی ہجرت کرتے ھیںجن ملکوں کے لوگ بیشتر ہجرت کرتے ھیںان کے اپنے وطن کے حالات معمول پر نھیںھوتے ۔ ان کاملک اقتصادی، اجتماعی ،معاشرتی یاپھر امن وامان کے مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔

آج لوگ ایک ایک کرکے یا پھرگروہ کی صورت میں نہیں بلکہ پوری کی پوری قوم ملکر ہجرت کرتی ہے حتی بعض ممالک میں تو حشریہ ہے کہ اس ملک کے مقیم حضرات کی تعداد وھاں سے ہجرت کرنے والوں سے کم ہوتی ہے ۔ دنیا میں برے پیمانے پر ہجرتیں ہورھی ہیں ،یہ مھاجرین عام طور سے اپنے ملک کے ھمسایہ ملکوں میں یا پھر اپنے مال ووسائل کے مد نظر مغربی دنیا کا رخ کرتے ہیں ۔اپنے ھمسایہ ملک افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے اسی طرح عراق ،فلسطین اور بعض پورپی ممالک کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔

اس طرح سے لوگ اقتصادی مسائل یا پھر نقص امن سے بچنے کے لئے بھی دنیا بھر میں ہجرت کرتے جارہے ہیں ۔ مھاجرین کی تعداد پوری دنیا میں اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ بعض ممالک نے اپنے وطن میں قانون بنادیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی مھاجر نھیںآسکتا ۔ جن ممالک میں مھاجرت کی جاتی ہے وھاں پر ان مھاجرین کی وجہ سے اقتصادی مسائل پیدا ہونے کے ساتھ اس ملک کے مقیم اصل باشندوں کو نوکریوں کا مسئلہ ہوجاتا ہے اسی طرح ھمسایہ ممالک اس کے ضمن میں کئی ایک مسائل کا شکار ہوکررہ جاتے ھیںکہ جوایک طرح کاقوموں میں اضطراب اور نفرت کا سبب بھی بنتا ہے ۔

ایک اور مقام پر حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ہیں:

اذا صاحَ الناقوس وَکَبَسَ الکابوس وتَکلَّمَ الجاموس فعند ذالک عجائبٌوایُّ عجائب( ۱۳۸ )

جس وقت ناقوس سے صدا بلند ہوگی کابوس کا منحوس سایہ ھرجگہ پر پھیل چکا ہوگا ،اور جاموس بولنے لگے گا اور اس زمانے میں حیرت انگیز واقعات رونماھونگے اورکیا عجیب وغریب واقعات پیش آئنگے ۔

ناقوس کا معنی ہوشیار کرنے والی آواز یا خطرے کی گھنٹی وغیرہ ہے۔ یھاں پر اس سے مراد حضرت جبرئیلں کی آواز ہے کہ جو پوری دنیا میں سنی جائے گی۔

کابوسخوفزدہ اور وحشت آور خواب کو کہتے ھیںکہ جو پوری دنیا پر حاکم ہوگا ھرجانب سے لوگ خوف وھراس کا شکار ہونگے ۔

جاموسھرجامد چیز کو کہتے ھیں۔مراد یہ ہے کہ جامد چیزیں بولنے لگیں گی یہ بات جب اس زمانے میں کہ جب یہ گفتگو بیان کی جارہی تھی تو ایک بہت ہی عجیب اور

تقریبا محال بات نظر آتی تھی لیکن آج اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ریڈیو ،ٹی و ی ٹیلی فون، ٹیپ ریکاڈر،کمپیوٹر اور اسی طرح کی سیکڑوں اور چیزیں ۔

آج کی دنیا میں دن بہ دن عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیز ایجاد ہورھی ہے کہ جن کو دیکھ کر انسانی عقل مبھوت ہو کررہ جاتی ہے۔ ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ مھینوں کے حساب سے جدت آرھی ہے ۔

حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ہیں:

ولذلک علامات وکشفُ الهکل وخفْقُ آیاتٍ ثلاثٍ حولَ المسجد الاکبر تهتزُّ یُشبهن بالمهدی وقتلٌ سریعٌ وموت زریعٌ( ۱۳۹ )

اس کام (ظھور حضرت (ع))کے لئے کئی نشانیاں ھیں۔ ان میں سے ھیکل کا ملنا،تین پرچموں کا بلند ہونا کہ جو تینوں کے تینوں حضرت مھدی (ع) کے پرچم سے ملتے جلتے ہونگے امان نہ دینے والے قتل اور اچانک موت و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھیکل سے مراد وہ عظیم الشان معبد گاہ ہے کہ جو حضرت سلیمان (ع) نے تعمیر کروائی تھی وہ معبد گاہ بیت المقدس میں تھی۔اس کے تین سو ساٹھ( ۳۶۰) ستون تھے،وہ عظیم الشان عمارت مختلف قیمتی پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔اس کی زمین پر شیشے کے مانند پتھر نصب تھے کہ جس کے نیچے سے پانی بھا کرتا تھا کہ جس کودیکھ کربلقیس نے اپنے پائنچے

اوپر اٹھا لئے تھے یہ سمجھ کر کہ یہ پانی ہے اور میرے پائنچے بھیگ جائیں گے ۔اس کے علاوہ اور بھی بے تحاشہ حیرت انگیزاشیاء اس محل میں موجود تھیں۔

ہمارے زمانے میں یھودیوں کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس ھیکل کو زمین کے اندر سے نکالا جائے کہ جس کا کچھ حصہ مسجد اقصیٰ اور دوسرا حصہ قیامت کے چرچ کے نیچے ہے۔اس وقت اس ھیکل کا تھوڑا بہت حصہ دریافت ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اسرائیلی حکومت مکمل طور پر اس ھیکل تک نہیں پھونچ سکی ہے۔ اگرچہ اس کی پوری کوشش ہے کہ اس عمارت کو جلد سے جلد کھود کر دریافت کیا جائے۔ تین ملتے جلتے پرچموں سے مراد یہ ہے کہ تین گروہ جو کہ اپنے آپ کو حق پر کہتے ہونگے اسلام کے نام پر جھاد کرنے کو نکل کھڑے ہونگے جب کہ ان میں سے کوئی بھی حق پر نہیں ہوگا۔

آج کی دنیا میں ہر طرف حق کے نام پرقتل و غارت و جھاد کے نام سے جنگیں ہو رھی ھیں۔آیا یہ سارے گروہ واقعاً دین اسلام پر عمل پیرا ہیں یا نھیں؟یہ تو خود انکے اعمال اور گفتار سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،ھر حق کا دعویدار حقدار نہیں ہوتا ہے۔

آخری زمانے کے لوگوں کی خصوصیات:

اس سے پہلے کہ ہم آخری زمانے کے لوگوں کے بارے میں کچھ بیان کریں ایک نکتہ کی طرف توجہ بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کے لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ متمدن(ماڈرن اور ترقی یافتہ )سمجھتے ھیں۔لیکن حقیقت میں وہ انسانیت کے دائرے سے کتنا دور جا چکے ھیں،اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں معصومین (ع) کے اقوال کے تحت شعاع آنا ہوگا۔جب کہیں جاکر ہم اپنی حقیقت کو سمجھ سکتے ھیں۔اس سے پہلے کہ خصوصیات بیان کی جائیں،ہم اپنی گفتگو کا آغاز رسول خدا(ص) کے اس بیان سے کرتے ہیں کہ جہاں پر انھوں نے زمانہ کے بارے میں کچھ یوں بیان کیا ہے:

لا یاتی علیکم زمان الّا الّذی بعده شرّ منه!( ۱۴۰ )

”کوئی زمانہ نہیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے بعد والا زمانہ اس سے برا ہوگا“۔

یہ ایک واضح بات ہے کہ جوپوری دنیا میں قابل مشاھدہ ہے ۔اگر تاریخ کا سھارا لیا جائے تو پھر اور بھی وضاحت کے ساتھ یہ بات روشن ہو جائے گی اگراپنی زندگی کو بھی نظر میں رکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ زمانہ کہ جو ہمارے بچپن کا تھا جوانی سے بہتر اور جوانی کا زمانہ بڑھاپے سے بہتر ہے ۔ آج جس زمانے میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں کل ہماری اولاد کو اس سے برا اور زیادہ سخت زمانے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے :

یاتی علی النّاس زمانٌ همّهم بطونهم وشرَفهم متاعُهُم وقبلتهم نساوهم ودینهم دَراهمهم ودنانیرهم اولٰٓئک شرُّ الخلق لاخلاق لَهُم عنداللّه ۔( ۱۴۱ )

”لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایساآئے گا کہ جب ان کا ہم وغم ان کا پیٹ ہوگا۔ ان کی شرافت کا اندازہ ان کے رھن سھن اور دنیا داری سے ہوگا ۔ ان کا قبلہ ان کی بیویاں ہوںگیں۔ان کا دین ان کامال ودولت ہوگا ۔وہ لوگ بدترین لوگ ہونگے اور خداوند متعال کے نزدیک ان کے لئے کوئی مقام نہیں ہوگا۔“

یہ ایسی صفات ہیں کہ جو روز روشن کی طرح عیاں ھیں۔ ھرشخص دنیا داری اور پیٹ بھرنے کے لئے دوڑرہاہے ہر شخص اپنے معیار زندگی کو اوپر سے اوپر لے جانے کی کوشش میں لگا ہواہے ۔ لوگو ں کا ملنا جلنا ان کی بیویوںکے ملنے جلنے پر منحصر ہوگیا ہے ۔ اگر بیوی کے تعلقات کسی نزدیکی رشتہ دار سے خراب ہوجائیں تو ان کے شوھر اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی قطعہ تعلق کرکے بیٹھ جاتے ہیں جس طرف ان کا قبلہ (ان کی بیگمات) گھو میں گی اسی طرح سے وہ خود بھی گھومتے چلے جاتے ہیں ۔ اُن کا دین ان کی دولت ہے ۔ اگر دولت کے حصول کے لئے دین کوبھی روندنا پڑجائے تو وہ اس کام کو بھی آسانی سے کرگزرتے ھیں۔ یہی ہے آج کی دنیا اور دنیا والوں کا رواج!۔

وعندها یظهرالربا ویتعاملون بالرُّشیٰ ویوضع الدین وترفعُ الدنیا( ۱۴۲ )

”اور سود عام ہوچکا ہوگا اور معاملات زندگی رشوت سے طے ہونگے دین کم اہمیت اور دنیا باارزش ہوچکی ہوگی ۔“

اسی رشوت کے بارے میں اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

لیاتینَّ علی النّاس زمانٌ لایبقی احَدٌ الَّااکل الرِّبٰافانْ لم یاْکُلْهُ اصابَهُ غُبارُهُ ( ۱۴۳ )

” لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ جس زمانے میں کوئی بھی ایسا شخص نھیںملے گا کہ جوسود نہ کہا چکاھو ۔ اگر مستقیمابھی سود نہ کہایا ہو لیکن اس کی گرد وغبار ضرور چکھی ہوگی ۔“

یعنی سود اتنا عام ہوچکا ہوگا کہ ہر شخص اس برائی سے آلودہ ہو چکا ہوگا ۔ اور آج بھی یہی حال ہے کہ پوری دنیا کے اقتصاد کا دار ومدار سود پر ہے حتی اسلامی ممالک جو کہ اس بات کا ادعا کرتے ھیںکہ اسلام کے قوانین پرعمل پیراھیںلیکن ان ممالک کے بینک کے چلنے کا دارومدار بھی اسی سود آور معاملوں پر ہے اگر آج یہ سود دینا یا لینا بند کردیں تو ان کی بینک کاری کانظام بیٹھ جائے گا ۔

اسی طرح سے رشوت بھی پوری دنیا میں اپنی جڑیںبچھا چکی ہے اس زمانے میں رشوت کے متعدد نام ھیںمٹھائی ،چائے اورپانی کاخرچہ تحفہ ،ھدیہ وغیرہ ،مختلف عناوین سے رشوت لی اور دی جارہی ہے ۔انسان کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بھی اسی کاسھارا لینا پڑتا ہے ورنہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائے ۔اور ظاہر ہے جہاں سودورشوت عام ہوچکی ہو اورلوگوں کے پیٹ میں یہ حرام لقمہ جارہا ہو تو وھاں خود بخود دین کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور صرف دنیا ودنیاداری باقی رہ جائے گی ۔

اس حرام لقمہ کا انسانی زندگی، اسکی سوچ اور اس کے رھن سھن پر بہت اثر ہوتا ہے ۔ اگر کوئی باپ یہ تصور کرے کہ میں حرام لقمہ کہلاکر اپنے پیچھے کوئی صالح فرزند چھوڑ کرجاؤںتو وہ خام خیالی کا شکار ہے ۔ کبھی بھی حرام کے لقمہ سے پلنے پھولنے والے لوگ نیکی اور اچھائی کاراستہ نھیںاختیار کرسکتے مگر یہ کہ اپنے جسم سے اس حرام لقمہ کے اثر کوزائل کردیں ۔

معصوم (ع) فرماتے ھیںکہ :

یکون اسعد الناس بالدنیا لکعٍ ابن لکعٍ لایٴومنُ بااللّه ورسولهِ( ۱۴۴ )

”دنیا میں خوش بخت ترین لوگ وہ ہوں گے جو بالکل ذلیل ہواور جو خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔“

حقیقت بھی یہی ہے کہ آج دنیا میں خوشحالی انھیںکے پاس زیادہ نظر آتی ہے کہ جو کسی چیز کے پابند نھیںھیںنہ خدا کومانتے ہیں اور نہ ہی کسی رسول(ص) پرایمان رکھتے ھیں۔ دنیاکی خوشحالی ان ہی بے دینوں کے پاس نظر آتی ہے اکثر دین دار لوگ اپنی مشکلات کے شکار رہتے ھیں۔

یصبح الرّجل مومناویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اَحَدُکم دینه بِعرضٍ من الدنیا قلیلٍ( ۱۴۵ )

”انسان ایمان کی حالت میں صبح کرے گا۔ اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور کفر کی حالت میں b بح کرے ۔ اپنے دین کو بہت معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا ۔“

اس بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بین یدی الساعة فتنٌ کقطع اللیل المظلم یصبح الرّجل منکم مو مناً ویصبح الرّجل مومناًویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اقوامٌ دینهم بِعرضِ الدنیا

”ظھور سے پہلے رات کی تاریکی کی طرح فتنے پھیل چکے ہونگے انسان صبح کے وقت مومن اور دن کے آخری حصہ میں کافر اور رات کے پہلے حصہ میں مومن اور رات ہی کے آخری حصہ میں کافر ہوچکا ہوگا ۔ قومیں اپنے دین کو بہت معمولی سے مال دنیاکے بدلے میں بیچ دیا کریں گے ۔“

اس بارے میں متعدد معصومین (ع) سے روایتیں وارد ہوئی ھیں، اور آج بھی یہی صورت حال ہے کہ انسان اپنے دین کو ہتھیلی پر رکھے گھوم رھا ہے ، اس سیاست اور فتنہ کے دور میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جو بہت جلد ختم ہونے والی ہیں اپنے دین کو بیچ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں دیندار افرادنایاب ہوتے جار ہے ہیں ،ایسے وقت کے لئے امام جوادںراہ حل بھی پیش کرتے ھیں۔

وقبل ذالک فتْنَةٌ شرٍیُمسی الرّجُلُ مٴومناً ویصبح کافراویصبح مومناًویمسی کافراًفمن ادرک ذالک الزمان فلیتقِ اللّه ولیکن من احلاس بیته( ۱۴۶ )

”روز موعود (ظھور ) سے پہلے بہت بڑا فتنہ ہوگا کہ انسان ایمان کی حالت میں شام کرے گا اور کفر کی حالت میں صبح اور ایمان کی حالت میں صبح اور کفر کی حالت میں

میں شام کرے گا ،اورجوکوئی بھی اس زمانہ کودرک کرے تو وہ اپنے گھر کے بچھونوں میں سے ایک بچھونابن جائے۔ “

یعنی اس زمانہ میں انسان اپنے گھر سے باھر نکلنے سے پرھیز کرے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی رہے کہ اپنے گھر میں وقت گزارے کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے آپ کو دنیا کی آلودگی سے بچا سکتا ہے ۔ جتنا انسان دنیا کے لوگوں میں گھلے ملے گااتنا ہی اس کے گناہ میں پڑنے کااحتمال زیادہ ہوگا۔

حضرت امام صادق(ع) بھی یہی فرماتے ہیں:

اذا کان ذالک فکونوا احلاس بیوتکم حتی یظهر الطاهر المطهّرِ( ۱۴۷ )

”جب وہ وقت آئے تو اپنے گھر کے بچھونوں میں سے بچھونا بن جائے یھاں تک کہ طاھر ومطھر امام غائب (عج) ظھور کرجائے ۔

امام صادق(ع) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

کُفُّوا الْسِنَتُکُمْ والْزَمُوْا بُیُوتَکُمْ فَانَّه لا یصیبکم امرٌ تُخَصِّوْنَ بِه ابداً( ۱۴۸ )

”اپنی زبانوں کو قابو میں رکھو اور اپنے گھروں سے باھر نہ نکلو بے شک تمھارے لئے کوئی ایسا حادثہ پیش نھیںآئے گا کہ جو تم سے مخصوص ہو ۔“

زبان کو قابو میں رکھنا بھی ایک بہت مسئلہ ہے اسی زبان کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑے فتنہ رونما ہوجاتے ھیں۔ کبھی انسان بے خیالی میں بھی کوئی ایسی بات کرجاتا ہے کہ جس کانتیجہ بہت بھانک ثابت ہوتا ہے یہ زبان انسان کودنیا و آخرت دونوں میں نقصان پھنچانے میں ایک موثر کردار ادا کرتی ہے ۔ یعنی نہ فقط دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اس زبان کے بے جاہل انے کا حساب کتاب ہوگا ۔یھی وجہ ہے کہ اپنی زبان کوقابو میں رکھنے کے لئے متعدد رویات میں تاکید کی گئی ہے ۔

یتجاهرُ النَّاس بالمنکرات …فَیُنْفِقُ المالُ للغنٰاءِ( ۱۴۹ )

”لوگ منکرات کو علناًانجام دیںگے اورکثرت سے اپنے مال ودولت کو گانے نجانے پر خرچ کریںگے ۔“

آج کے دور میں بھی یہی ہے کہ لوگ بڑے فخر سے اپنے اور اپنی اولاد کے گناہ کبیرہ کو لوگو ں کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ ناچ گانے کی بڑی بڑی محفلیں ہوتی ہیں، کہ جس پر بے تحاشہ مال دولت صرف کیا جاتا ہے مثال کے طور پر صرف شادی بیاہ کی تقاریب ہی کو دیکھ لیں اگر کسی شادی میں ناچ گانا نہ ہوتو اسے بہت بے رونق اور فضول تقریب سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس اگر اس تقریب میں ناچنے والے اوروالیاں بلائی جائیںرات پھر مھندی کی رسم کے نام پر رقص ہو بڑے بڑے میوزیکل گروپ کو دعوت دی جائے ،ایسی محافل کو بہت بارونق اور یادگار شادیوں میں شمار کیا جاتا ہے ،حتی آج کل بعض لوگ علماء کے اعتراض سے بچنے کے لئے نکاح وغیرہ کی رسم کو گھر پر مختصرلوگوں کی

موجودگی میں انجام دے دیتے ہیںتاکہ مھمانوں کے سامنے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

حضرت امیرالمومنین ںفرماتے ہیں:

یُصبح الآمر بالمعروف ذلیلاً والفاسق فیمالاًیحبُّ اللّٰه محموداً( ۱۵۰ )

”امر بالمعروف (لوگوں کو واجبات کی تلقین) کرنے والا ذلیل اور گناہ کرنے والا لوگوں کے نزدیک مورد احترام ہوگا ۔

لیاتینَّ علی الناس زمانٌ یَطرَّفُ فیه الفاجر و یُقَرَّبُ فیه الماجن ویُضعف فیه المنصف( ۱۵۱ )

”لوگوں کے لئے ایک زمانہ آئے گا کہ جب فاجر اور فاسق کا احترام ہوگا اور مداری (ناچنے گانے والے) لوگوں کے نزدیک محبوب ہونگے اور انصاف کرنے والا ضعیف ہو کررہ جائے گا ۔“

آج کی دنیا کی یہی حقیقت ہے ۔ اور کوئی شخص دیندار ی کی بات کرے تو لوگ اسے زھنی مریض اور نجانے کن کن القاب سے پکارنے لگتے ھیںاس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی محفل میں فسق و فجور کی بات کرے تو سب بڑی توجہ کے ساتھ سنتے ھیںاور ایسے ہی لوگوں کا احترام بھی کرتے ھیں۔

اور بھی بہت سی علامتیں ہے کہ جواس زمانہ کے لوگوں میں پائی جائیںگی ہم نے اختصار سے کام لیتے ہوئے فقط چند ایک پر انحصار کیا ہے ۔ خداوند ہمیں اور ہماری اولاد کو ان تما م صفات رزیلہ سے محفوظ فرمائے (الھی آمین)

آخری زمانے کے مرد

حضرت محمد (ص)فرماتے ہیں:

ماترک بعدی فتنة اخر علی الرَّجال من النساء( ۱۵۲ )

”میرے بعد کے لوگوں کے لئے سب سے برا فتنہ وہ ہوگا کہ عورتوں کی جانب سے آئے گا ۔“

بعد والی حدیث میں اس طرح سے بیان ہوا کہ :

هلکت الرِّجال حین الطاعت النساء( ۱۵۳ )

”وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے کہ جوعورتوں کی اطاعت کریںگے ۔ “

یعنی عورتوں کے پیچھے چلنے والے لوگ اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کربیٹھیںگے ۔

ایک نکتہ کی وضاحت کرتے چلیں کہ یھاں پر مراد ھرعورت نھیںھے ۔ کیونکہ متدین اور مومنات خواتین اس گفتگو سے خارج ھیں۔ ہماری گفتگو ان عورتوں کے بارے میں ھے کہ جونہ خود خدا اوررسول(ص) پہ ایمان رکھتی ہیں اور ساتھ میں اپنی اولاد اور شوھر

کو بھی گمراھی کے کنوئیں میں ڈھکیلتی ہیں یہ وہ عورتیںھیں کہ جو اپنے شوھر وں کو غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاھے :

لعن اللّه الرجل لبس لبسة المراة والمراة لبسة الرجل( ۱۵۴ )

”خداوند لعنت کرے ایسے مرد پر کہ جو عورتوں کا لباس پھنے اوران عورتوں پر کہ جو مردوں کا لباس پھنے ۔“

یہ بات بھی واضح ہے کہ جو آج کل کے جوان اور نوجوانوں میں فیشن کے نام پر ہورھا ہے ھردیکھنے والے کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ایک اور اہم مسئلہ کہ جوآج کی دنیا میں ایک رائج اوربہت سے ممالک میں رسمی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے وہ ہم آمیزی کا مسئلہ کہ مردمرد سے اور عورت عورت سے شادیاں کررہے ھیں۔ اسی کے بارے میں متعدد روایات چودہ سو برس پہلے ہمارے معصومین علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں۔

مانند:

اذا رکب الذکور الذکور والاناث الاناث( ۱۵۵ )

”جب مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ ہم بستری کریں“۔

اذا اکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء( ۱۵۶ )

”جب مردوں کے لئے مرد اورعورتوں کے لئے عورتیںکفایت کریں۔ “

اور بھی بہت سی روایات اس بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔!

تکون معیشة الرَّجل من دبره ومعیشة المراة من فرجها( ۱۵۷ )

”مردوعورت ذریعہ معاش اپنی شرمگاھوں کو بنائیںگے ۔“

یہ بات نہ فقط دنیا غرب میں بلکہ دنیا اسلام میں بھی عام ہوچکی ہے ۔ اورھر خاص و عام کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اسی کے بارے میں مولائے متقیان علیہ السلام فرماتے ہیں:

ویری الرجل من زوجته القبیح فلا ینعاها ولایردُّ هاعنه ویا خُذُ ماتَاتِیْ مِنْ کدِّ فرجها وَمِنْ مُفْسِدِ حِذرهاحتی لونُکِحَتْ طولاً وعرضاً لم ینهها ولایَسْمَع مَاوقع فَذاکَ هوالدَّیُّوْثَ( ۱۵۸ )

”مرداپنی عورت سے انحراف جنسی دیکھے گا لیکن اسے منع نہیں کرے گا ۔ اور جواس عورت نے جسم فروشی سے کماھویااسے لیکر کہائے گا۔ اور اگر یہ برائی اس عورت کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے پھربھی منع نھیںکرے گااورجوکچھ انجام دیا جارہا ہواور اس کے بارے میں کوئی بات کرے تو سننے کو تیار نھیںھوگا اور یہی شخص دیوث (بے غیرت )ھے۔“

ھاں آج کے زمانے میں ایسی بھی بہت سی مثالیںمل جائیں گی حتی مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے کئی واقعات آئے دن عدالتوں کی فائلوں میں اپنے وجود کی سیاھی سے قلم زن ہوتے رہتے ھیں۔

امام صادق(ع) اس طویل روایت میں فرماتے ہیں:

وَرایت الفِسْقَ قَدْ ظَهَرَواکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء وَرَایْتَ الرِّجال یَتَسمَنَّونَ للرجال والنِّساءَ وَرَایْتَ الرِّجل معیشة من دبره ومعیشة المراة من فرجهاوَاعطَوالرجالَ الاموال علی فروجهم وتُنُوفِسَ فی الرَّجل وتغایرعلیه الرجال … وَرَایْت الرجل یُعَبَّرُعلی اتیان النساء … وَرَایْت العقوق قد ظَهَرَ واستُحِفَّ بالوالدین وکانا من اسوَاالناس حالاًعندالولدوَرَایْت اعلامَ الحَقِّ قد درسَتْ فَکن علی حَذَرٍ واطلُبْ الی اللّه النجاة واعلم انّ الناس فی سُخْط اللّهِ عَزَّوجلَّ واِنَّما یُمْهِلُهُمْ لامرٍیُرَادُ بِهم فَکُنْ مُترَقِّباًواجتهد انْ یراک اللّهُ عزَّوَجَلَّ فی خلافِ ماهم علیه( ۱۵۹ )

”اوردیکھوگے کہ گناہ عام ہوچکے ہوں ،مرد مردوں سے اور عورت کو عورتیںپسند کریںمرد مردوں کیلئے آرائش کریں اور عورت عورتوں کے لئے بناوسنگھار کریں۔ مردوں اورعورتوں کا ذریعہ معاش ان کا اپنا وجود بن جائے ،مرد جنسی مسائل کیلئے

اپنا مال ودولت دل کھول کرخرچ کریں۔ مردوں کیلئے عورتوں کی طرح غیرت اور حسادت پیدا ہوگی (مردوں کے اوپر مرد جان جھڑکیںگے ) مردوں کا جنس مخالف سے ھمبستری پر مذاق اڑے گا ۔ عاق والدین عام ہوجائے گا ۔والدین اپنی اولاد کے سامنے ذلیل اور رسوا ہوجائیں گے اور ھرکوئی دوسرا شخص والدین سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ حق کی نشانیا ںختم چکی ہونگیںاس زمانے میں خدا کے غضب سے ڈرو اورخداوند سے نجات طلب کرو ۔ جان جاؤکہ لوگ موردغضب الٰھی ہیںاورخداوند بعض چیزوں کی وجہ سے ان کومھلت دیتا ہے ۔ کوشش کروکہ خداوند تم کو ان کی حالت سے مختلف حالت میں دیکھے۔اورکتنے کم لوگ ھیںکہ جواپنے آپ کو ان برائیوںسے بچانے کی کوشش کرتے ھیں۔“

آخرزمانے کی عورتیں

عورت کہ جو اسلام میں ایک بلند مرتبہ کی حامل ہے ۔اس کو ماں،بیٹی ،بھن اوربیوی جیسے مقدس رشتوں سے نوازا ہے اگر وہ اپنی قدر نہ کرے تو نہ فقط وہ بلکہ اپنے ساتھ اورچاروں طرف رہنے والو ں کو جھنم کی آگ میں ڈھکیل کرلے جاتی ہے ۔ وہ اپنا مقام بھلا بیٹھی ہے کہ جس کے پاؤں کے نیچے جنت قراردی گئی ہے۔ تعالیم اسلام اورقرآن سے دور ہونے کانتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ فقط خودگمراہ ہوتی ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرڈالتی ہے اور اس کے برعکس ایسی مومنہ خواتین کی مثالیں بھی بہت ھیںکہ جو اپنے گمراہ شوھر اور گھروالوں کو اپنے دین اور ایمان کی طاقت کے ذریعے راہ راست پہ لے آتی ہیں،یہ عورت ہے کہ جو معاشرے میں صحیح اور سالم فرزند مھیا کرتی ہے ، یہ عورت گھر کی چاردیواری میں رہ کر وہ عظیم ذمہ داری ادا کرتی ہے کہ جو مرد میدان جنگ میں ادا نہیں کرسکتے یہی ایک شریف اور باسعادت انسان کی تربیت کرتی ہے ۔

ھاں اگریھی گوھر اپنی قیمت بھول کر گمراہ ہوجائے توپورے معاشرے کو گندا کردیتی ہے کہ جس کی گندکی بدبو کئی نسلوں تک آتی رہتی ہے ۔

آخر زمانہ میں عورتوں کا فساد پھیلانے میں بہت بڑا کردار ہے ۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :

کیف بِکم اذا فسدت’نسائکم وفَسَقَ شَبابُکم ولم تامروا بالمعروف بل امرتم بالمنکر ونهیتم عن المعروف واذا را یْتُم المعروفَ مُنْکِراً والمنکرَ معروفاً فقیل له:ویکون ذالک یارسول(ص) اللّه؟فقال(ص) :نَعَمْ ،وشَرٌ مِنْ ذالک( ۱۶۰ )

”کیا ہوگا کہ تمھاری عورتیںفاسد ہوجائیں اور تمھارے جوان فسق وفجور کرنے لگیںاورتم بھی امر باالمعروف کی جگہ امر باالمنکر اور معروف سے نھی کروگے ۔ معروف کو منکر جانواور منکر کو معروف سمجھو۔لوگوں نے سوال کیا : آیا ایسا بھی کبھی ہوگا ؟ آپ(ص) نے جواب دیا: ہاں اور اس سے بھی زیادہ برا ہوگا۔“

اذا شارکَت النِساءُ ازواجَهُنَّ فی التجارة حرصاً علی الدنیا( ۱۶۱ )

”جس وقت عورتیںدنیا کی حوس میں اپنے شوھروں کے ساتھ تجارتی معاملات میں شریک ہوجائیں۔“

آج کل توبات اس سے آگے بڑھ چکی ہے کہ اب تو خواتین مستقل طور پر سب سے علیحدہ ہوکراپنے لئے تجارت کرنے لگی ہیں اور یہ ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔

ویَتَشَبَّهُ الرجالُ النساء والنساء بالرجال( ۱۶۲ )

”مرد خود کو عورتوں کی صورت میں اور عورتیںاپنے آپ کو مرد وں کی شکل میں ظاھر کریں۔“

ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:

سیکون فی آخرِاُمَّتِیْ رجالٌیرکب نسائُهم علی سروج کاشباه الرِّجال یَرْکبون علی المیاثر حتی یاتوا ابوابَ المساجدِنسائُهُمْ کاسیاتُ عاریاتٌ علی رُووسِهِنَّ کاسنِحَةِ البُخْتِ العجافِ لایَجِدْنَ رِیْحَ الْجَنَّة فالعَنُوْهنَّ فانهُنَّ ملعوناتٌ( ۱۶۳ )

”آخر زمانے میں کتنے ایسے مرد ہونگے کہ جن کی عورتیں مردوں کی طرح زینوں پر (گھوڑے کی زین سے مراد آجکل کی مرسوم سواریاں ھیں)سوار ہونگی تشک کے اوپر بیٹھیں گی اور مسجد تک آئیں گی ان کی عورتیںلباس پھننے کے باوجود عریاں نظر آئیں گی ان کے سر اونٹ کے کوھان کی طرح ہونگے وہ لوگ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گی

ان پر لعنت بھیجو کیونکہ وہ سب ملعون ھیں۔“

بات بالکل واضح ہے کہ آج کل کی عورتیںجس طرح مردوں سے برابری کے نام پر سڑکوں پر نکل آتی ھیں۔ ھرقدم پہ مردوں کے ساتھ رہنے کیلئے اپنے آپ کو ایک متمدن (اپنی دانست میں ) بنا کرپیش کرتی ہیں ایک طرف سے تو مردوں کی نقل میں انھی کارنگ اورڈھنگ اپنا لیتی ہیں، مثال کے طور پرایک ہی مورد لے لیجئے کہ بعض عورتوں نے اپنے بال اس طرح سے کٹوائی ھیںکہ پیچھے سے دیکھنے والا شک میں پڑ جاتا ہے کہ کوئی عورت ہے یا مرد اوراسی طرح سے بعض مرد بھی اپنے بال اتنے لمبے رکھنے لگے ھیںکہ کچھ لمحہ کوعقل مبھوت ہوجاتی ہے کہ مرد ہے یاعورت اور ایسی بے تحاشہ مثالیںاس بارے میں موجود ھیں۔

روایت میں زین اور تشک سے مراد آج کی مرسوم سوریاں ھیںکہ جو موٹر سائیکل اور کار وغیرہ کی صورت میں ھے ۔ اور کپڑے بھی ایسے ہی پھنے جانے لگے ھیںکہ جس سے پورا جسم عریان نظر آتا ہے ۔ اوریہ سب باتیںسرعام ھیںشاید ہی کوئی شخص ایسا ہوکہ جو حال حاضر میں ان تمام چیزوں کی موجودگی کا انکار کرے ۔انھی کپڑوں کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

لاتقوم الساعة حتی تظهر ثیابٌ تلبسها نساءٌ کاسٰاتٌ عاریاتٌ وتعلو التَّحوت الوُعُولَ( ۱۶۴ )

”قیامت برپا نھیںھوگی مگر اس وقت کہ جب ایسے لباس بنائے جائیں گے کہ

جن کوپھن کرعورتیںعریاں ہی رھیںگی اور اوباش لوگ شرفاء پر برتری حاصل کر لیںگے۔ “

ھاں!یہ انھی کپڑوں کی بات ہورھی ہے کہ جو سرعام بازاروں میں بک رہے ھیں۔ حتی خاندانی لوگ اورشرفاء کے درمیان میں بھی اس لباس کو بہت زیادہ مقبولیت ہے، ھرایک اس کو پھن کراپنے آپ کا زمانے کے ساتھ چلنے کا ثبوت دے رھا ہے ۔

واذا رایت المراة تصانع زوجها علی نکاح الرجال و رایت خیربیتٍ یساعد النساء علی فِسْقِهِنَّ( ۱۶۵ )

”جب دیکھو کہ عورت جانتے ہوئے کہ اس کاشوھر ہم جنسی کررھا ہے لیکن کچھ ظاہر نہ کرے ۔ اور دیکھو کہ اچھے اچھے گھروں میں عورت کو فاسقہ اور فاجرہ ہونے پر داد مل رھی ہو۔“

ھاں آجکل آزادی کے نام ھرشخص (بیوی اور شوھر) ایک دوسرے کے عیوب سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے ھیںتاکہ ھرایک اپنی اپنی حیوانی خواہشات پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل کرسکیں ۔ خداپرتوایمان چھوڑ ہی چکے ھیںدنیا کی رکاوٹوں کو آزادی کا نعرہ لگا کرراستہ سے ہٹا دیا ہے ۔

اذا رفعوا البنیان وشاوروا النسوانَ ویکثُرُ الاختلاط( ۱۶۶ )

”جب اونچی اونچی عمارتیںبننے لگیں، عورتوں سے مثورہ لیا جانے لگے عورتوں

اور مردوں کا محافل میں اختلاط بڑھ جائے۔“

عمارتیں بھی سبھی دیکھ رہے ھیں۔ عورتوں کے حقوق ( women Rigth ) کے نام پرھرجگہ عورتوں کو لایا جارہا ہے ۔ زندگی کے ھرشعبہ میں خواتین کو شامل کر لیا ہے صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ عورت اور مرد مساوی ہیں۔لیکن اس حقیقت اور واقعیت سے چشم پوشی کرلی ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت میں کچھ بنیادی فرق رکھا گیا ہے ۔ عورت کوخداوند متعال نے خاص نزاکت اور عفت کے ساتھ خلق کیا ہے اس کااصل حسن ہی اس کی حیا اور عفت ہے اور اگر اس حیا اورعفت کو اس سے چھین لیاجائے تو پھر وہ اپنے اس مقدس مقام سے گر پڑتی ہے کہ جس کیلئے اسے خلق کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس کو اتنے مقدس رشتہ عطاھوئے ہیں مانند ماں،بھن،بیوی

حتی اس کی مثال ایسے لے لیںکہ جومرد بھی ان حیوانی شھوات کاشکار ہوں اورآئے دن مختلف عورتوں سے ان کے تعلقات رہتے ہوں لیکن وہی مرد کبھی بھی ایسی عورتوں کو اپنی بیوی اوراپنے بچوں کی ماں بنانا پسند نھیںکریںگے کیونکہ یہ عورت کہ جس کی زینت اس کی حیااورعفت میں تھی اب کھوچکی ہے ۔

اذا رایت المراة تقهُرُ زوجَهاویعمل مالایشتهی و تنفق علیه مِنْ کسبهافیرض بالدنیءِ من الطعام والشراب !“( ۱۶۷ )

”جب دیکھو کہ بیویاں اپنے شوھروں کے ساتھ بدزبانی کریںاور ان کی مرضی کے خلاف عمل کریں اپنے کمائی ہوئے پیسوں میں ان کو بخشیں اور ان کے شوھر بہت ہی معمولی سے مال ودولت کی وجہ سے ان کی بری عادتوں کو برداشت کریں۔“

اب یہی زمانہ ہے حتی وہ خواتین کہ جوصحیح راستہ سے بھی نوکریاں کرتی ھیں۔ مختلف دفتروں میں کام کرتی ھیںعام طور پر ان کا اخلاق اپنے شوھروں کے ساتھ حاکمانہ ہوتا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ بھی پیسہ کماکرلارھی ہیںاور ان کے شوھربھی اسی بات پر چپ ہوجاتے ہیں کہ چلوکچھ بھی سھی کماتو رھی ہے ۔

ایک اور اہم مسئلہ کہ جو ہمارے معاشرے میں عام ہے اور وہ ہے خواتین کاحکومت کرنا۔ اکثر محافل میں یہ بحث رہتی ہے کہ آیا کوئی عورت صدر یاوزیر اعظم بن سکتی ہے یا نہیں ؟ مغربی ممالک تو کیا مشرقی اور اسلامی ممالک میں بھی عورتوں کی حکومت رہتی چلی آرھی ہے ۔ کبھی کسی خطہ میں کبھی کسی ملک پر ۔ اس بارے میں ختمی مرتبت(ص) فرماتے ہیں:

لنْ یُفْلِحُ قَوْمٌ ولَّوا امرَهم امراةٌ( ۱۶۸ )

”وہ قوم کبھی بھی فلاح نھیںپاسکتی کہ جس کی رہبری کسی عورت کے ھاتھ میں ہو۔“

ایک اور مقام پر فرمایا:

لایُقَدِّس اللّه اُمَّةًقادتْهُمْ امراة( ۱۶۹ )

”خداوند کبھی اس قوم کو تقدس نہیں بخشے گا کہ جس کی رہبری کسی عورت کے پاس ہو۔“

یہ دنیاوی سیاستیںکہ جو چند سال اور چند ماہ سے زیادہ نھیںھوتیں،دنیا والے کیا کیا قربانیاں نھیںدیتے اس حکومت کے لئے ۔،انسان اپنے مطلب کی خاطر اور کرسی کی محبت میں ھرکام کرگزرتا ہے آج اگر ہمارے مفاد میں ہوجائے کہ کسی عورت کی رہبری قبول کرنی پڑے تو وہ بھی کرلیںگے ،اگر ہمارے مفاد میں ہوجائے کہ کسی کافر کو آکر اپنے سروں کاتاج بنائیںتو وقت کی ضرورت کا نام لیکر وہ بھی انجام دے لیںگے ، غرض یہ کہ یہ تمام چیزیںہمارے مفاد کے گرد گھومتی ہیں تو پھر نتیجہ واضح ہے کہ معاشرہ اور عوام کی فلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے کہ جب انسانی معیارات ختم ہوجائیں ”انسانیت کے حقو ق“ ایک نعرہ بن کررہ جائیں اور ھرطرف لوٹ مار کابازار گرم ہو،ھرشخص اپنی جیب گرم کرنے میں مصروف ہوجائے ۔ ھرایک کی یہ کوشش ہے کہ اس آتے ہوئے وقت سے پوری طرح سے فائدہ اٹھایاجائے تو چلو ہم بھی بہتی گنگا میں ھاتھ دھولیں۔ کاش کہ بات خالی ھاتھ دھونے کی ہوتی تو صبر آجاتا یھاں تو کئی مرتبہ پوراغوطہ لگانے کے باوجود بھی طبیعت سیرہوتی نظر نھیںآرھی ہے ۔

اسی بارے میں مولائے متقیان حضرت علی ں فرماتے ہیں:

اذا غلبتِ النساء علی الملکِ وغلَبْنَ کل امرءٍ فلایوتی الَّا مالَهُنَّ فیه هوی( ۱۷۰ )

”جب عورتیںحکومت پر غالب آجائیں اورھرمرد سے برتری لے جائیں اورسوائے ان کی مرضی کے کوئی کام نہ ہو۔“

ظاھر ہے وہ عورت کہ جو اگر گھر پہ غالب آجائے تو کسی کو اپنی مرضی کے بغیر ھلنے نھیںدیتی ہے تو وہ حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر کیسے کسی کو برداشت کرے گی ۔ اگرچہ یہ بات فقط خواتین سے مخصوص نھیںھے جو کوئی بھی خداوند سے دور ہوگا اس سے ایسی ہی توقعات کی جاسکتی ہیں۔اورعورتوں کو کہ جنھیں خاص مقدس اور محترم مقاصد کے لئے خلق کیا گیا ہے اپنے کمال کے راستہ کو چھوڑ کرجھنم پر چل نکلتی ھیںاور آخر میں اسی طرح سے گمراھی کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ایسی ہی عورتوں کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

تکون النسوةُ کاشفاتٍ عاریاتٍ متبرجاتٍ من الدین خارجاتٍ والی الفتن مائلاتٍ والی الشهواتِ واللذاتِ مسرعاتٍ للمحرماتِ مستحلاتٍ وفی جهنَّم خالداتٍ( ۱۷۱ )

”عورتیں عریاں ظاہر ہونگی ،اپنی زینتوں کو سب پر ظاھرکریںگی، دین سے خارج ہوجائیںگی ،شھوات اوردنیاوی لذتوں کے پیچھے جایا کریںگی اور حرام چیزوں کو اپنے اوپر حلال کریںگی اورھمیشہ ھمیشہ کیلئے جھنم کی آگ کا ایندھن بن جائیںگی۔“

آج یہ ساری باتیںعمل کی صورت میں ظاھر ہوچکی ہیں۔صرف ایک چیز کہ جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوسکی ہے وہ ان کاجھنم میں رہنا ہے ۔ اگر چہ کہ ایسے لوگوں کی جھنم کا آغاز ان کی دنیا ہی سے ہوجاتا ہے ۔ یہ لوگ اپنی زندگی ہی میں ایسی مشکلات کا شکا ر ہوجاتے ھیںکہ جس کے سبب ان کازندہ رہنا عذاب بن کر رہ جاتا ہے ،ان عورتوں پر

ایک ایساوقت آتا ہے کہ کوئی ان سے بات کرنے کو تیا نھیںرہتا ۔ یہی کتنا بڑا غذاب ہے ایسی عورت کے لئے کہ جوکل تک ہر محفل کی ز ینت بنا کرتی تھی آج کسی سے بات کرنے کے قابل نہ رہ پائے ۔

اس کے برعکس وہ لوگ کہ جو خداوند متعال کے عبادت گزارہوں جس قدر ان کی عمر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ان کی عزت و احترام لوگوں کے درمیان بڑھتا رہتا ہے چاہے یہ کہ ان کی دینداری کی وجہ سے انھیں ناپسند بھی کیا جاتا ہو مگر برے وقتوں میں انھیںکے پاس پناہ لی جاتی ہے، ہاں ایسے موقع پر اگر یہ عورتیں پلٹ کرآنا چاہیں تو ممکن ہے انھیں بھی وہی جواب ملے کہ جو دریا میں غرق ہوتے وقت فرعون کو ملاتھا ۔

الئٰن وقد عصیت قبلُ وکنتَ من المفسدین ۔“( ۱۷۲ )

”اب جبکہ تم اس سے پہلے نافرمانی کرتے تھے اور فساد پھیلانے والوں میں سے تھے ۔“

آخر کار ایسی عورتیںوھاں جاپھنچیںگی کہ جس کی اطلاع ہمیں یوں دے دی گئی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :

اذا راتهم من مکان بعید سمعوا لها تغیُّظاً وزفیراً واذا القُوا منها مکاناً ضیِّقاً مقرَّبین دَعَوا هنا لک ثبوراً( ۱۷۳ )

ترجمہ:”جب جھنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو(جوش کہائے گی اور)یہ لوگ اس کے جوش وخروش کی آواز سنیں گے اور جب یہ لوگ زنجیر وں سے جکڑ کر اس کی تنگ جگہ میں جھونک دئے جائیں گے تو اس وقت موت کو پکاریں گے۔“

آخری زمانے کے علماء اور رہبر ان قوم کی خصوصیات

حضو اکرم (ص)کا فرمان ہے :

صنفان من الناس اذا صلحا صلح الناس واذا فسد ا فسد الناس : العلماء والامراء( ۱۷۴ )

”لوگوں میں سے دو صنفیں ایسی ھیںکہ اگر وہ اصلاح ہوجائیں تو لوگ بھی اصلاح ہوجائیں گے اور اگر فساد کرنے والے ہوجائیں تو لوگ بھی فساد کرنے والے ہوجائیں گے ایک عالم اور دوسرے رہبران قوم ۔“

ایک اور مقام پر ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں :

اذا کانت امراوکم اشرار کم واغنیائکم بُخلائکم وامورکم الیٰ نسائکم فبطن الارض خیرٌ من ظهرها ۔“( ۱۷۵ )

”جب تھارے رہبران تم میں سے بدترین لوگ ہوں اور تمھارے مالدار لوگ تم میں بخیل بن جائیںاور تمھارے کاموں کو تمھاری عورتیںچلائیں تو اس وقت زمین کے اندر رہنا اس کے اوپر رہنے سے بہتر ہے ۔ “

مراد واضح ہے کہ ایسی صورت میں مرجانا ہی بہتر ہے کیونکہ اس وقت کسی سے کسی نیکی کی امید نھیںکی جاسکتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں پورے معاشرے کا حساب و کتاب درہم برہم ہو کررہ جائے گا۔

پیغمبراسلام (ص)فرماتے ہیں:

ستکون علیکم ائمة یملکون علیکم ارزاقکم یحدثونکم فیکذبونکم لا یرضون منکم حتی تحسنوا قبیحهم وتصدِّقوا کِذْبَهُمْ ۔“( ۱۷۶ )

”تم پر ایسے حکومت کرنے والے مسلط ہوجائیںگے کہ جن کے ھاتھ میں تمھاری روزی ہوگی تم سے جھوٹ بولا کریںگے ۔ تم سے راضی نھیںھوں گے سوائے اس صورت میں کہ تم ان کے غلط کاموں کی تعریف کرو اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرو۔“

ظاھر ہے کہ جب معاشرے میں نااہل لوگ حکومت کریں گے تو چاپلوسی کا بازار گرم ہوجائے گا اورلوگ حقیقی معیار کو چھوڑ کرظاہری شان وشوکت سے مرعوب ہوکر ان ہی کے پیچھے چل پڑیں گے ۔

اسی طرح سے امام محمد باقر علیہ السلام نااہل اور جاہل علماء کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ”من افتی الناس بغیر علم ولاهدی من اللّه لعنة ملائکة الرحمة وملائکة العذاب ولحقه وِزرُ من عمل بِفتیاه( ۱۷۷ )

”جوکوئی بھی بغیر جانتے ہوئے فتوی دے تو رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھجیں گے ۔ اور ان کے فتوا پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی خود انھی کی گردن پر ہوگا ۔ “

اب ہوشیار رہنے کاوقت ہے کہ ہمیں علماء اہل علم اورجاہل علماء کے درمیان فرق رکھنا ہوگا ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم خود بھی اسی گناہ میں مبتلا ہوجائیں اورلوگوں کے درمیان غلط معیار بتلاکر مستحق عذاب بن جائیں۔

اس سلسلے میں اس سے زیادہ گفتگو کو جاری نھیںرکھنا ہے کیونکہ یہ ایک واضح سی بات ہے آج ہم مسلمان پورے دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی کفار غرب وشرق کے غلام بنے ہوئے ھیںوہ جیسے چاہتے ھیںہمیں چلاتے ہیں اسلامی مما لک کے مال ودولت کو لوٹتے ھیںمگر ہم زرہ برابر بھی کچھ نھیںکرپاتے کیونکہ ہماری حکومتیںانھی ظالموں اور کافروں سے وابستہ ھیں۔ اورجب تک یہ وابستگی اور خیانت جاری رہے گی مسلمان قومیں ذلیل ہوتی رھیں گی۔ اس سلسلے میں ایک آخری حدیث امیر المومنین علی ںسے نقل کرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ہیں:

”اذا خرج القائم ینتقم من اهل الفتوی بما لایعلمون فتعسالهم ولاتباعهم اوکان الدین ناقصاًفتمَّمُوه ام کان به عِوَ ج فقوموه ام هم

النَّاس بالخلاف فاطاعوه ام امر هم بالصواب فعصوه ام همَّ المختار فیما اوحِیَ الیه فذِّکره ام الدین لم یکتمل علی عهده فکمَّلوه ام جاء نبی بعده فاتبعوهُ“ (۱۷۸)

”جس وقت ہمارے قائم(عج) کاظھور ہوگا جو لوگ بغیر جانتے ہوئے (بغیر علم کے ) فتوی دیتے ہونگے ان سے انتقام لیںگے ۔ وای ہو ان پر اور ان کے پیرکاروں پر۔ آیا دین خدا ناقص تھا جوانھوں نے آکر کامل کیا؟ آیا دین خدا میں انحراف تھا جوانھوں نے آکرصحیح کیا؟ یا لوگ انحراف کی طرف جارہے تھے کہ جوان کی پیروی کی گئی ؟یالوگوں کو سچے راستے کی جانب رھنمائی کی گئی لیکن لوگوں نے مخالفت کی ؟ آیا رسول(ص) پرجووحی نازل ہوئی تھی وہ اس میں سے کچھ چھوڑ چکے تھے جوتم نے آکر یاد کرایا؟ یا رسول(ص) کے زمانے میں دین کامل نہیں ہوا تھا جو تم نے آکر مکمل کیا ؟آیا آپ(ص)کے بعد کوئی اور بھی پیغمبر آیا ہے کہ جس کی تم نے پیروی کی ہے ۔؟“

اس بیان امیر المومنین ںسے شک وشبھات رفع ہوجاتے ھیں۔ اگرچہ بظاھر امیرالمومنین ں اپنے زمانے کے حالات کو نظر میں رکھ کرفرمارہے ھیںمگر یہ معصوم(ع) کا قول قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے اورہمیں اس بات سے روکنا ہے کہ دین خدا وند متعال میں کسی بھی قسم کی جدیت اورردوبدل کی گنجائش نھیںھے ۔

عمومی علامات ظھور

نا گھانی موت اور ویرانی و بربادی

اس سلسلے میں اگرچہ روایات بہت کثرت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اختصار سے کام لیتے ہوئے اکثر علامات کو بیان کردیں۔

حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں:

اِنَّ عمران بیت المقدس خراب یثرب وخراب یثرب خروج الملحمة وخروج الملحمة فتح القسطنطنیه وفتح القسطنطنیه خروج الدَّجال ۔“( ۱۷۹ )

”بیت المقدس کے آباد ہوتے ہی مدینہ (یثرب) ویران ہوجائے گا اورمدینہ کے برباد ہونے سے جنگ شروع ہوجائے گی اس کے بعد قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا پھر دجال کا ظھورہوگا۔“

بیت المقدس کی آبادی تو اسرائیل کے ھاتھوں شروع ہوچکی ہے کہ جس کے بعد مدینہ کی بربادی اور پھر سفیان کا خروج کرنا ہے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

تکثرالبواسیر وموت الفجاةولجذام( ۱۸۰ )

”(جس وقت)بواسیراور اچانک موت اورجذام زیادہ ہوجائے ۔“

”واماالزوراء فتخرب من الوقایع والفتن واما واسط فیطغیٰ علیهاالماء وآذربیجان یهلک اهلها بالطاعون وامالموصل فیهلک

اهلها من الجوع والفلاء واما الحلب فتخرب من الصواعق و تخرب دمشق من شدةالقتل وامابیت المقدس فانه محفوظة لان فیه آثارالانبیاء“(۱۸۱)

”شھرزورا( فتنہ وفساد کی وجہ سے برباد ہوجائے گا شھر واسط (عراق)سیلاب میں بھرجائے گا آذربائیجان کے لوگ طاعون کی وجہ سے ہلاک ہوجائیںگے ،موصل (عراق) کے لوگ بھوک اورمھنگائی سے مرجائیںگے ، حلب(سوریہ)صاعقہ (آسمانی بلاووں ) کے سبب بر باد ہو جائے گا (دمشق )کشت وکشتار کی وجہ سے ویران ہوجائے گا ۔ لیکن بیت المقدس (یورشیلم ) پیغمبروں (ع) کی نشانیوں کے سبب امان میں رہے گا۔“

اس کے علاوہ اور بھی روایات میں ”صاعقہ“استعمال ہوا ہے ۔ یعنی آسمان سے گرنے والی بجلی ۔آج کی دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں ھیںجیسے طرح طرح کے میزائیل وغیرہ دور تک مارنے والی توپیں اورجنگی جھاز وغیرہ ۔ان میں سے ھرایک سوائے تباھی اوربربادی کے کچھ نھیںکرتا آج پوری دنیا میں ہم اس کی مثالیں اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ھیںاوران تمام ہتھیاروں میں دن بدن جدت آتی جارہی ہے ۔ اگر اپنے اطرف کے سیاسی حالات اورواقعات کونظر میں رکھیںتو یہ دن کوئی دور نہیں کہ جب ہمیں یہ واقعات رونما و ہوتے ہوئے نظر ائیں۔

مصر کے بارے میں روایات میں ملتا ہے :

”لایخرج اهل مصرمن مصرهم عدولهم ولکن یخرجهم نیلهم

هذا یغورفلاتبقیٰ منه قطرة“(۱۸۲)

”مصر کے لوگوں کو ان کے ملک سے کوئی بیرونی دشمن نھیںباھر نکالے گا بلکہ خود دریائے نیل ان کو باھر نکالے گا۔ اس کاپانی بالکل خشک ہوجائے گا اورحتی ایک قطرہ بھی اس میں باقی نہیں رہے گا۔“

رسول گرامی (ص)فرماتے ہیں:

وخراب مصر من جفاف النیل( ۱۸۳ )

”مصر دریائے نیل کے خشک ہونے سے برباد ہوجائے گا۔“

کوفہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے:

وینبثق الفرات حتی یدخل اذقة الکوفة وعقدالجسرممایلی اکرخ بمدینة بغداد ۔“( ۱۸۴ )

”فرات کے پانی میں طغیانی آجائے گی اور کوفہ کے گلی کوچوں میں پانی بھرجائے گا ۔ کرخ کے سامنے بغداد میں پل تعمیر کیا جائے گا ۔ “

یہ پانی کا طغیان کرنا ظاھراً ابھی تک واقع نہیں ہوا ہے لیکن بغداد میں کرخ کے سامنے پل تعمیر ہوچکا ہے ۔

آگ وآتش کاتباھی مچانا

حضور اکرم (ص)فرماتے ہیں:

یکون نار و دخان فی المشرق اربعین لیلة( ۱۸۵ )

”آتش اوردھواں مشرق سے چالیس دنوں تک نکلتا رہے گا ۔“

امام صادق ں فرماتے ہیں:

لاتقوم الساعة حتی تسیل وادمن اودیة الحجاز( ۱۸۶ )

”قیامت نھیںآئے گی مگر یہ کہ حجاز کی کسی ایک وادی سے آگ بھڑکے گی ۔“

سید الشھداء امام حسینں فرماتے ہیں:

اذا رائتم ناراًمن المشرق ثلاثة ایام اوسبعة فتوقعوا فرج آل محمد ان شاء اللّه( ۱۸۷ )

”جس وقت مشرق میں تین دن تک آگ دیکھو تو حضرت آل محمد(ص) کے فرج کے منتظر رہو انشاء اللہ ۔“

سورج اورچاند گھن

امام محمد باقرں فرماتے ہیں :

آیتان تکونان قبل قیام القائم لم یکونا مُنْذُ هبط آدم علیه

السلام علی الارض تنکسفُ الشمس فی النصف من رمضان والقمر فی آخره ۔“( ۱۸۸ )

”حضرت(عج) کے قیام سے پہلے دونشانیاں ظاہر ہونگی کہ جو حضرت آدم(ع) سے لے کر اب تک ظاہر نہیں ہوئی ہونگیں۔ رمضان کے درمیان میں سورج اورآخر رمضان میں چاند کا گرھن لگنا ۔“

اس بارے میں اور بہت سی روایات ھیںاگرچہ کہ بعض روایات میں سورج اور چاند گرھن کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان تمام روایات کو اگر مجموعی طور پر دیکھیںتو ایک بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک ہی رمضان میں چاند اور سورج گرھن دونوں کو گرھن لگنا اگرچہ کہ خلاف عادت ہے لیکن اس کا واقع ہونا حتمی ہے ۔

زلزلے

رسول اکرم (ص)فرماتے ہیں:

وتکثرالزلازل( ۱۸۹ )

”بہت زیادہ زلزلہ آنے لگ جائیں۔“

اورایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

” ثم رجفة بالشام یهلک فیهامئة الف یجعلها اللّه رحمة

للمومنین و عذاباً علی الکافرین “(۱۹۰)

”سرزمین شام میں زلزلہ آئے گا کہ جس کی وجہ سے ایک لاکھ آدمی مارے جائیںگے خداوند متعال اس زلزلے کو مومنین کے لئے رحمت اورکافروں کے لئے عذاب قرار دے گا ۔ “

البتہ واضح رہے کہ شام سے مراد فقط شھر دمشق مراد نھیںھے بلکہ اس کے اطراف میں لبنان وغیرہ کا علاقہ بھی شامل ہوتا ہے ۔

آسمانی ندا

حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں:

وینادی منادٍمن السماء اِنَّ امیرُکم فلانٌ وذلک هو المهدی( ۱۹۱ )

”منادی آسمان سے آواز لگائے گا ۔ تمھارا سردار فلان ہے اور وہ مھدی آخرالزمان (عج) ہونگے ۔“

امیر المومنین علی بن ابی طالب ں فرماتے ہیں:

اذانادی منادٍمن السماء اِنَّ الحق فی آل محمد فعند ذلک یظهر المهدی علی افواه الناس ویشربون حبَّه ولایکون لهم ذکرٌغیره( ۱۹۲ )

”جس وقت منادی آسمان سے آواز دے گا کہ حق آل محمد(ص) کے ساتھ ہے ۔ حضرت مھدی (عج) کا نام لوگوں کی زبان پر جاری ہوجائے گا ۔ اور ان کی محبت دلوں میں اجاگر ہوجائے گی اور ان کی یاد کے علاوہ کوئی کام باقی نھیںرہے گا ۔“

اگرچہ اس بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ھیں۔ اوریہ ایک مسلم بات ہے کہ آپ(عج) کے ظھور کے وقت ندا لگائی جائے گی اورپوری دنیا میں یہ آواز سنی جائے گی یہاں تک کہ کوئی بھی شخص اس دنیا میں ایسا باقی نہیں رہے گاکہ جواس آواز کو نہ سن سکے اور پوری کائنات کے لوگوں پر اس وقت اتمام حجت ہوجائے گی اوریہ وہ وقت ہوگا کہ جب دنیا میں صرف دوگروہ رہ جائیں گے ایک حق اور دوسرا باطل پر ہوگا۔ جو کوئی بھی حضرت ( عج ) کے ہم رکاب ہوگا وہ حق پر ہوگا ۔ اورجوآپ (عج)کی امامت اورولایت کو قبول نھیںکرے گا وہ باطل پر ہوگا کہ جس کی سزا سوائے عبرت ناک موت کے کچھ نہ ہوگی ۔

جنگیں اور فسادات

اس بارے میں رسول اکرم (ص)فرماتے ہیں:

ینزَّل علی امتی بلاءٌ لم یسمع ببلاءٍ اشد منه فی تضیق بهم الارض الرّحبةّ “َ( ۱۹۳ )

”میری امت پرایسی بلاء نازل ہوگی کہ جو اس سے پہلے نھیںسنی گئی ہوگی ۔ حتی اتنی بڑی دنیا بھی امتیوں کے لئے تنگ ہوکر رہ جائی گی ۔“

آج ہم دیکھ رہے ھیںکہ حق ایسا ہی ہے ۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے اور ھرطرف سے انکو تعصب کی عینک سے دیکھا جارہا ہے حتی آج مسلمان کو اپنے ملکوں میں بھی امان نہیں ہے ان کو مختلف بھانوں سے دربدری اٹھانی پڑرھی ہے ۔حتی اسلامی حکومتیںبھی استعمار کے چنگل سے آزاد نہیں ہے۔ اورآج وہی ہورھا ہے کہ جو دنیا کی استعماری اور طاغوتی طاقتیں چاہ رھی ھیں۔ جنگ بھی ان کے ھاتھ میں ہے اور امن بھی، وہ جس طرح سے چاہتے ہیں عمل کرتے اور کرواتے ھیں۔

انھیں طاقتوں کے بارے میں ارشاد ختمی مرتبت (ص)ھے کہ:

” یکون قوم فی آخرالزمان یخضبون بهذا لسواد کحواصل الطیور لا یریحون ریح الجنة ۔“( ۱۹۴ )

”آخر زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی کہ جو اس زمین کو خون سے رنگین کردے گی ،ماؤں کے پیٹ کو مرغی کے پیٹ کی طرح کاٹا کرے گی ۔ ایسی قوم ہرگز جنت کی خوشبو بھی حاصل نھیںکرسکتی ۔“

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:

ویومئذٍیکون اختلاف کثیر فی الارض وفتن ویصبح الزمان مکلحاًمفصحاً یشتدّ فیه البلاد وینقطع فیه الرجاء ۔“( ۱۹۵ )

”اور اس وقت اختلافات اورفتنہ گری بہت بڑھ چکی ہوگی مشکلات اور قحط ہر طرف چھا چکاھوگا۔ شھروں پر مصبتیں ٹوٹ رھی ہونگی اور امیدیں ختم ہوچکی ہونگیں۔“

اسی سلسلے میں پیغمبر (ص)ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:

لتاتینکم بعدی اربع فتن الاولیٰ تستحل فیها الدماء والثانیه تستحل فیهاالدماء والاموال والثالثة تستحل فیها الدماء والاموال والفروج الرابعة صمَّاء عمیاء مطبقة تحور مور السفینة فی البحر حتی لایجد احدٌ من الناس مسلما تطیر بالشام وتعشٰی العراق وتخبط الجزیرة یدها ورجلها یعرک الانام البلاء فیها عَرْک الادیم لایستطیعُ احد ان یقول فیها مه مه ! لاترفعونها ناحیة الَّا انفتقت من ناحیةٍ اخری( ۱۹۶ )

”میرے بعد چار فتنہ برپا ہونگے ۔پھلے میں خون بھانہ مباح ہوجائے گا ۔ دوسرے میں خون اورمال مباح ہوجائے گا اورتیسرے میں خون اورمال اورعصمت مباح ہوجائے گی ، اور چوتھے میں ایسا اندھا آشوب بپا ہوگا کہ جو پوری دنیا کو اس طرح مضطرب کردے گاجیسے کوئی بہت بڑا بحری جھاز اپنے چاروں طرف کے پانی کو مضطرب کردیتا ہے ۔ یہ فتنہ شام پر چھاجائے گا اور عراق کواپنی لپیٹ میں لے لیگا اورجزیرة العرب (حجاز) میں ھاتھ پاؤں چلائے گا۔لوگ ان حادثات کی تلخی کو اس طرح احساس کریں گے جیسے دباغی کرتے جسم پر فشارپڑتا ہے ۔ کسی میں بھی ایک جملہ بات کرنے کی بھی جرات نہ ہوگی یہ فتنہ ابھی ایک جگہ ختم نہیں ہوگا مگر یہ کہ کسی دوسرے مقام پر برپا ہوجائے ۔“

ان تمام فتنوں کے آثار ہم پوری دنیا پر دیکھ رہے ھیںجو کوئی بھی ہے اپنی طاقت سے زور آزمائی میں لگا ہواہے ۔ طاغوتی قوتیںاپنی طاقت کا استعمال کرتی ھیںجھاں چاہتے ہیں روندتے ہوئے چلے جاتے ھیں۔

اسی بارے میں امیر المومنین علی بن ابی طالبں فرماتے ہیں:

تخرب سمرقندوجاح وخوارزم والبصرة وبلخ من العراق والهند من تبَّت وتبَّت من الصین وکرمان وبعض الشام لبنابک الخیل والتقل والیمن من الجراد والسلطان وسجستان وبعض الشام بالزنج وشامان بالطاعون ومرو بالرمل وهراة بالحيَّات و مصر من انقطاع النیل وآذربیجان لبنانک الخیل والصواعق و البخاریٰ بالغرق والجوع وبغداد یصیرعالیها سافله( ۱۹۷ )

”سمرقند ،جاح خوارزم ، بصرہ اور بلخ سیلاب کی وجہ سے ویران ہوجائیںگے ھند تبّتیوں کے ھاتھوں اور تبت چین کی وجہ سے نابود ہوجائے گا ۔ کرمان اورشام کاکچھ حصہ گھوڑوں کی ٹاپوںاورقتل وغارت کی وجہ سے برباد ہوجائے گا ۔ یمن ٹڈوں اور بادشاھوں کے ظلم کی وجہ سے نابود ہوجائے گا ۔ سجستان اور شام کا بعض حصہ زنجیوں کے ھاتھوں ،شام طاعون کے سبب ، مرو(مشھد) طوفان کی وجہ سے ھرات سانپوں کے ذریعہ، مصر دریائے نیل کے خشک ہوجانے کے سبب،آذربائیجان گھوڑوں کی ٹانپوں اور صاعقہ (گولہ باری ) کی وجہ سے برباد ہوجائے گا ۔ بخارا میں بھوک اور سیلاب سے تباھی

سے تباھی آئے گی اور بغداد الٹ پلٹ ہوکررہ جائے گا۔“

قتل وغارت کے سبب قتل ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں امیر المومنین (ع)علیہ السلام فرماتے ہیں:

لایقوم حتی یقتل الثلث ویموت الثلث ویبقی الثلث( ۱۹۸ )

”اما م(عج) قیام نھیںکریںگے یھاں تک کہ دوتھائی لوگ مارے جاچکے ہوں اور فقط ایک تھائی لوگ بچے ہوئے ہوں ۔“

امام محمد باقر ںاس بارے میں فرماتے ہیں:

لایکون هذا الامر حتی یذهب ثلثاً الناس فقال:اصحابه من یبقی فقال اما ترضون ان تکونوا من ثلث الباقی ؟( ۱۹۹ )

”یہ امر(ظھور) انجام نھیںپائے گا مگر اس وقت کہ دوتھائی لوگ مرچکے ہوں گے ، اصحاب نے عرض کیا :پھر کون لوگ باقی بچیں گے ۔ آپ (ع) نے فرمایا:آیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ تم لوگ باقی ایک تھائی میں سے ہو؟۔“

جھوٹے دعویداروں کے بارے میں امام جعفر صادق ںفرماتے ہیں:

کل را یة ترفع قبل قیام القائم فصاحبها طاغوت یعبد من دون اللّه عزوجلّ “َ( ۲۰۰ )

”جوپرچم بھی حضرت (عج) کے قیام سے پہلے بلند ہوگا اس کا بلند کرنے والاطاغوت ہوگا کہ جوخداوند کے علاوہ کسی اورکی پرستش کرتا ہوگا ۔“

اس بارے میں ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:

کل بیعة قبل ظهور القائم فبیعة کفر ونفاق وحذیعةٍ( ۲۰۱ )

”جو بیعت بھی حضرت(عج) کے قیام سے پہلے لی جائے گی وہ کفر ونفاق اور دھوکہ بازی کی بیعت ہوگی ۔“

رسول (ص)خدا فرماتے ہیں:

” خروج الثلاثة السفیانی والخراسانی والیمانی فی سنة واحدة فی شهر واحد فی یوم واحد ولیس فیها من رایة اهدیٰ من رایة الیمانی لانه ید عو ا الی الحق( ۲۰۲ )

”تین پرچم ایک سال ایک مھنے اورایک دن قیام کریںگے سفیانی ، خراسانی اور یمانی اور ان سب میں سب سے زیادہ خالص پرچم یمانی کا ہوگا کہ جوحق کی طرف دعوت دے گا ۔“

امام صادق ں اس یمنی شخص کے نسب کے بارے میں فرماتے ہیں:

خروج رجل من ولدٍ عمی زید بالیمن( ۲۰۳ )

”ایک آدمی ہمارے چچا زید کی اولاد میں سے یمن سے قیام کرے گا۔“

رسول خدا (ص)اس لشکر یمانی کی تعریف میں فرماتے ہیں:

” الیمانی یتولیٰ علیاً الیمانی والسفیانی کفرسی رهان( ۲۰۴ )

”یمانی علی بن ابی طالبں کے شیعوں میں سے ہوگا ۔ یمانی اور سفیانی کا قیام دوریس کے گھوڑوں کی مانند ہوگا ۔“

رسول خدا (ص)سید ھاشمی کے خروج کے بارے میں فرماتے ہیں:

یخرج بقزوین رجل اسمه اسم نبی یسرع الناس الی طاعته المشرک والمومن یملاالجبال خوفاً( ۲۰۵ )

”ایک شخص قزوین سے قیام کرے گا کہ جوکسی پیغمبر کے ھمنام ہوگا مشرک اور مومن اس کی اطاعت کریںگے پہاڑوں اور چٹانوں کو اپنے رعب سے وحشت زدہ کردے گا۔“

نفس ذکیہ کے قتل کے بارے میں رسول خدا (ص)فرماتے ہیں:

انَّ المهدی لایخرج حتی تقتل النفس الذکیه فاذا قتلت النفس الذکیه غضب علیهم من فی السماء ومن فی الارض فاتیٰ الناس المهدی فرفوَّه کماتذف العروس الی زوجها لیلة عُرسها( ۲۰۶ )

”امام مھدی (عج ) قیام نہیں کریں گے حتی یہ کہ نفس زکیہ کو مارا جائے اورجب نفس زکیہ کو ماردیا جائے گاتو اس وقت زمین اور آسمان پررھنے والے غضبناک ہوجائیں گے اور پھر امام مھدی (عج)کا قیام شروع ہوگا ۔ اور لوگ حضرت ولی عصر(عج) کے گرد اس طرح سے جمع ہوجائیں گے جیسے شادی کی رات دلھن کے گرد لوگ جمع ہوجاتے ھیں۔“

امام محمد باقرں اس بارے میں فرماتے ہیں:

وقتل غلام من آل محمد بین الرکن والمقام اسمه محمد بن الحسن النفس الزکیه( ۲۰۷ )

”آل محمد(ص) سے ایک جوان رکن اورمقام کے درمیان مارا جائے گا اس کانام محمد حسن نفس زکیہ ہوگا۔“

اماصادق ںفرماتے ہیں:

لیس بین القائم وقتل النفس الزکیه سوی خمس عشرة لیلة( ۲۰۸ )

”حضرت حجت(عج) اورنفس زکیہ کے قتل میں صرف پندرہ ( ۱۵) دنوں کا فاصلہ ہے۔“

بھرحال ہم نے کوشش کی ہے کہ اختصار سے کام لیتے ہوئے اکثر مشھور روایات کہ جن میں حتمی نشانیاں بیان ہوئی ھیں۔ حضرت حجت(عج) کے ظھور کی آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں۔ آخر میں حضرت حجت (عج) کے ظھور کی دعا کو ان الفاظ میں کرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ہیں:

اللّهم اجعلنا من اصحاب مولانا صاحب العصر والزمان الامان الامان من فتنة الزمان اللّهم صلی علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم الشریف ۔“

منابع :

( ۱) الائمة الاثنا عشر :شمس الدین محمد بن طولون،طبع ۱۹۵۸ قاھرہ

( ۲) اثبات الھداة:شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۱۳۹۹ ھ۔ قم

( ۳) اثبات الوصیة:علی بن حسین مسعودی طبع نجف اشرف

( ۴) احتجاج طبرسی :ابو منصور احمد بن علی طبرسی(رہ) ،طبع ۱۴۰۱ ھ بیروت

( ۵) احقا ق الحق:قاضی نور اللہ شو شتری(رہ) ،طبع قم

( ۶) اختصاص :شیخ مفید (رہ) ، طبع قم

( ۷) اختیار معرفة الرجال : شیخ طوسی (رہ) ،طبع مشھد یونیور سیٹی

( ۸) اربعین : شیخ بھائی ، ۱۳۵۷ ھ ش ،طبع تبریز

( ۹) ارشاد : شیخ مفید (رہ) محمد بن محمد بن نعمان ،طبع ۱۳۹۹ قم

( ۱۰) ازالة الغین: حیدر علی فیض آبادی ،طبع دھلی

( ۱۱) اسعاف الراغبین : محمد بن صبان مصری شافعی ،حاشیہ نور الابصار

( ۱۲) اصول کافی: محمد بن یعقوب کلینی (رہ)،طبع بیروت

( ۱۳) الاعلام : خیر الدین زرکلی ،طبع ۱۹۸۰ بیروت

( ۱۴) اعلام الوریٰ : امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی،طبع ۱۳۹۹ ھ بیرو ت

( ۱۵) اعیان الشیعہ : سید محسن جبل عاملی (رہ) ،طبع لبنان

( ۱۶) الایضاح : شیخ مفید(رہ) ،طبع تھران

( ۱۷) الزام الناصب :شیخ علی یزدی ،طبع بیروت

( ۱۸) الامالی : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۴۰۰ ھ بیروت

( ۱۹) الامامة والتبصرة:علی بن حسین بابویہ قمی(رہ) ،طبع ۱۴۰۷ ھ بیروت

( ۲۰) الایضاح : فضل بن شاذان،طبع ۱۳۶۳ ھ ش تھران

( ۲۱) بحار الانوار: علامہ مجلسی (رہ) ،طبع تھران

( ۲۲) البرہان : سید ھاشم بحرانی ،طبع تھران

( ۲۳) البیان فی اخبار صاحب الزمان : محمد بن یوسف گنجی شافعی،طبع ۱۳۹۹ ھ بیروت

( ۲۴) تاریخ الخلفاء :جلال الدین سیوطی ،طبع قاھرہ

( ۲۵) تذکرة الخواص : سبط ابن جوزی،طبع ۱۳۸۳ طبع نجف اشرف

( ۲۶) تفسیر صافی : فیض کاشانی ،طبع ۱۳۹۹ ھ بیروت

( ۲۷) تفسیر عیاشی : محمد بن مسعود بن عیاش سلمی ،طبع ۱۳۸۰ ھ تھران

( ۲۸) تفسیر قمی : علی بن ابراھیم ،طبع ۱۴۰۴ ھ قم

( ۲۹) تنقح المقال: شیخ عبدا۔۔۔مامقانی،طبع نجف اشرف

( ۳۰) الثاقب فی المناقب :،طبع ۱۴۱۲ قم

( ۳۱) ثواب الاعمال : شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۶۴ ھ ش قم

( ۳۲) جوھر الکلام : محمود بن وہیب قراغلی بغدادی حنفی

( ۳۳) حیلة الابرار : سید ھاشم بحرانی ،طبع سنگی

( ۳۴) الدر المنثور : سیوطی ،طبع ۱۴ ۱۳ ھ قاھرہ

( ۳۵) دلائل الامامة : ابو جعفر محمد بن جریر طبری

( ۳۶) الذخیرہ فی الکلام : سید مر تضی علم الھدیٰ ،طبع ۱۴۱۱ ھ قم

( ۳۷) الذریعہ الی تصانیف الشیعہ : شیخ آغا بزرگ تھرانی ،طبع بیروت

( ۳۸) روح المعانی : سید محمود آلوسی ، طبع بیروت

( ۳۹) روز گار رھائی،کامل سلیمان :ترجمہ علی اکبر مھدی پور ،طبع سوم تھران

( ۴۰) روضةالواعظین : ابن قتال نیشا پوری ،طبع سنگی ۱۳۰۳ ھ تھران

( ۴۱) سفینة البحا ر : شیخ عباس قمی ،طبع ۱۵ ۱۴ ھ قم

( ۴۲) سنن ابن ماجہ :حافظ ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی ،طبع ۱۳۹۵ ھ بیروت

( ۴۳) سنن ترمذی : ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،طبع بیروت

( ۴۴) شرح نہج البلاغہ :ابن ابی الحدید ،طبع قاھرہ

( ۴۵) شواھد التنزیل :عبیداللہ بن عبد اللہ حسکانی ،طبع ۹۳ ۱۳ ھ بیروت

( ۴۶) صحیح بخاری :ابو عبد اللہ محمدبن اسماعیل بن ابراھیم ،طبع مصر

( ۴۷) صحیح مسلم :مسلم بن حجاج نیشاپوری ،طبع بیروت

( ۴۸) الصواعق المحرقہ: احمد بن حجر ھیشمی مکی ،طبع ۱۳۱۴ ،طبع قاھرہ

( ۴۹) الطبقات الکبریٰ :محمد بن سعد کاتب واقدی ،طبع ۱۴۰۵ ھ بیروت

( ۵۰) علل الشرائع :شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۸۵ ھ نجف اشرف

( ۵۱) عھدین :طبع انجمن پخش کتب مقدسہ ۱۹۶۹ لندن

( ۵۲) عیون الاخبار :شیخ صدوق(رہ) ،طبع ۱۳۹۰ ھ نجف اشرف

( ۵۳) الغدیر: علامہ امینی (رہ) طبع کویت

( ۵۴) غیبت شیخ طوسی(رہ) :طبع نجف اشرف،و طبع جدید قم

( ۵۵) غیبت نعمانی:طبع ۱۳۹۷ ھ تھران

( ۵۶) فرائدالسمطین :ابراھیم بن محمد بن مویّد جوینی ،طبع ۱۳۹۸ ھ بیروت

( ۵۷) فرھنگ معین :محمد معین ،طبع تھران

( ۵۸) الفصول المھمہ :ابن صباغ مالکی ،طبع نجف اشرف

( ۵۹) فھرست شیخ طوسی (رہ) :طبع ۱۴۰۳ ھ بیروت

( ۶۰) قاموس الرجال :شیخ محمد تقی شوشتری

( ۶۱) الکامل فی التاریخ :ابن ابی اثیر شیبانی ،طبع بیروت

( ۶۲) کشف الغمہ :علی بن عیسیٰ اربلی طبع بیروت

( ۶۳) کفایة الاثر : علی بن محمد بن علی خرّازی،طبع ۱۴۰۱ ھ۔قم

( ۶۴) کمال الدین : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۳۹۵ ھ تھران

( ۶۵) کنز الدقائق :محمد رضا مشھدی ،طبع ۱۰ ۱۴ ھ تھران

( ۶۶) کنزل العمال :متقی ھندی ،طبع ۱۳۹۹ ھ طبع سنگی تبریز

( ۶۷) لسان العرب :ابن منظور،طبع ۱۴۰۸ ھ بیروت

( ۶۸) مستدرک صحیحین : حاکم نیشاپوری ،طبع بیروت

( ۶۹) مستدرک وسائل : میرزا حسین نوری ،طبع قم

( ۷۰) مسند احمد حنبل : ،طبع ۱۳۱۳ ھ قاھرہ

( ۷۱) مناقب آل ابی طالب :ابن شھر آشوب، طبع بیروت

( ۷۲) منتخب الاثر : حاج شیخ لطف اللہ صافی ،طبع قم

( ۷۳) نجم الثاقب :میرزا حسین نوری ،طبع تھران

( ۷۴) نہج البلاغہ : سید رضی تحقیق صبحی صالحی، طبع بیروت

( ۷۵) وسائل الشیعہ : شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۳۰ جلدی قم

( ۷۶) ینابیع المودة : سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی

( ۷۷) الیواقیت والجواھر : عبد الوھاب شعرانی ،طبع قاھرہ

( ۷۸) تحف العقول عن آل الرسول (ع):حسن بن علی حرانی، طبع بیروت ۱۹۶۹ ھ

( ۷۹) جامع احادیث شیعہ:طباطبائی بروجردی ،طبع تھران ۱۳۸۰ ھ

( ۸۰) مجمع البحرین : ،طبع ۸۱ ۱۳ ھ نجف اشرف

( ۸۱) کتاب الفتن: سلسلی ،طبع ۱۹۶۳ ھ نجف اشرف

( ۸۲) المحجة البیضاء :محمد بن مرتضیٰ کاشانی

( ۸۳) المھدی: سید صدر الدین صدر ،طبع ۵۸ ۱۳ ھ ایران

( ۸۴) نہج الفصاحہ: ،طبع ۱۳۴۱ ھ ایران

( ۸۵) نوائب الدھور فی علائم الظھور:محمد بن حسن مھاجری جر قوئی ،طبع ۱۳۸۳ ھ تھرا ن

( ۸۶) ترجمہ قرآن : مرحوم علامہ ذیشان حیدر جوادی(رہ)

۸۷ ۔او خواھد آمد :علی اکبر مھدی پور، طبع انتشارات رسالت ۲۰۰۰ قم

( ۸۸) تقریب المعارف:ابوالکلام تقی حلبی ،طبع ۱۷ ۱۴ ھ قم

____________________

(۱۳۲) ارشاد مفیدص۳۳۶ منتخب الاثرص ۴۵۵بحارج۵۲ ص۲۰۶الزام الناصب ص۱۸۱

(۱۳۳) اعلام الوری ص۴۲۶،ارشادمفید ص۳۳۶،منتخب الاثرص۴۵۵،بحار ج۵۲ص۲۰۶۔

(۱۳۴) بحارج ۵۲ ص۲۰۴،۲۰۹،۳۰۴،ا علام الوری ص۴۲۶،بشارةالاسلام۱۴۰،ارشادمفید ص ۶ ۳۳ ، منتخب الاثرص۴۵۲،۴۵۸۔

(۱۳۵) بشارةالاسلام ص۷۴،الزام الناصب ص۱۹۴،۲۰۳،۲۰۹۔

(۱۳۶) الملاحم والفتن ص۱۰۲۔

(۱۳۷) الزام لناصب ص ۱۹۴،۲۰۴،۲۰۹و۲۱۳۔

(۱۳۸) الزام الناصب ص۲۱۳۔

(۱۳۹) بشارةالاسلام ص ۵۸،۶۷،۷۳؛الزام الناصب ص۱۷۶؛بحار الانوار ج۲ ۵ ص ۳ ۷ ۲ ، ج ۵۳ ص۸۲۔

(۱۴۰) صحیح بخاری ج ۳ ص ۴۹۔

(۱۴۱) منتخب الاثرص ۴۳۸۔

(۱۴۲) نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰۔

(۱۴۳) بشارة الاسلام ص۲۶

(۱۴۴) نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰و۵۱۷ ۔

(۱۴۵) نہج الفصاحة ج۱ص۲۱۶،ج۲ص۵۱۰

(۱۴۶) الحاوی للفتاوی ج۲ص۱۵۹/منتخب الاثرص ۴۳۷

(۱۴۷) بشارة الاسلام ص۷۶الزام الناصب ص۱۲۱و۱۹۵۔

(۱۴۸) بحار الانوار ج ۵۲ص۱۳۹۔

(۱۴۹) بحار الانوار ج۵۲ص۲۶۴

(۱۵۰) منتخب الاثر ص۲۹۳بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۶،۲۶۴۔

(۱۵۱) بحار الانوار ج ۵۲/ص۲۶۵۔

(۱۵۲) نہج الفصاحةج۲ص۵۳۳۔

(۱۵۳) نہج الفصاحةج۲ص۶۳۸۔

(۱۵۴) نہج الفصاحةج۲ص۴۷۳بشارة الاسلام ص/۲۳۔

(۱۵۵) کشف الغمة ج ۳ص۳۲۴منتخب الاثرص۴۳۵

(۱۵۶) منتخب الاثر ص۴۲بحار ج ۵ص۷۰، ج۵۲ص۱۹۲،۲۲۸۔

(۱۵۷) بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۷۔

(۱۵۸) الزام الناصب ص۱۹۵بشارة الاسلام ص۷۷۔

(۱۵۹) بحار لانوارج ۵۱ص۷۰، ج۵۲ص۷۰،ج ۵۲ ص ۲۵۶منتخب الاثر ص۴۲۰الزام الناصب ص۱۸۳۔

(۱۶۰) منتخب الاثر ص۴۲۶الزام الناصب ۱۸۰ تحف العقول ص۴۱۔

(۱۶۱) منتخب الاثر ص۴۲۸الزام الناصب ۱۸۲۔

(۱۶۲) منتخب الاثر ص۲۹۲،المحجةالبیضاء ج۳ص۳۴۲،اعلام الوری ص۴۳۳،المھدی ص۱۹۹۔

(۱۶۳) صحیح مسلم ج ۶ص۱۶۸۔

(۱۶۴) منتخب الاثر ص۴۲۶۔

(۱۶۵) بحار ج ۵۲ص۲۵۷منتخب الاثرص۴۲۹۔

(۱۶۶) بحارالانوارج۵۲ ص۲۶۳الزام الناصب ص۱۸۱المھدی ص۱۹۹۔

(۱۶۷) بحار ج ۵۲ص۲۵۷،منتخب الاثر ص۴۳۰،الزام الناصب ص۱۸۳،بشارة الاسلام ص۱۳۳۔

(۱۶۸) صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵/تحف العقول ص۳۰۔

(۱۶۹) صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵ت/تحف العقول ص۳۰۔

(۱۷۰) بحار لانوارج ۵ص۲۵۹،بشارة الاسلام ص۱۳۴،الزام الناصب ص۱۸۴۔

(۱۷۱) منتخب الاثر ص۴۲۶

(۱۷۲) سورةیونس آیت /۹۱۔

(۱۷۳) سورةفرقان/ ۱۲،۱۳۔

(۱۷۴) نہج الفصاحة ج ۲ ص۳۹۳ تحف العقول ص۴۲۔

(۱۷۵) نہج الفصاحة ج ۱ص۴۵۔

(۱۷۶) بحارالانوار ج ۵۲ص۲۱۲۔

(۱۷۷) وسائل الشیعہ ج ۱۸ص۹۔

(۱۷۸) الزام الناصب ص۱۰۸۔

(۱۷۹) البیان والتبین ج ۳ص۳۲۔

(۱۸۰) بحاالانوار ج ۵۲ص۲۶۹۔

(۱۸۱) الزام الناصب ص۱۷۶،بشارةالاسلام ص۵۸۔

(۱۸۲) الملاحم والفتن ص۱۴۶۔

(۱۸۳) بشارة الاسلام ص۲۸۔

(۱۸۴) بحارالانوار ج۵۳ص۸۵،ارشادمفیدص۳۳۶،بشارة الاسلام ص۱۷۶۔

(۱۸۵) الملاحم والفتن ص۷۱۔

(۱۸۶) الملاحم والفتن ص۱۳۰۔

(۱۸۷) المجةالبیضاء ج۴ص۳۴۳۔

(۱۸۸) الامام المھدی ص۲۲۷۔

(۱۸۹) بشارة الاسلام ص۳۲۔

(۱۹۰) غیبت شیخ طوسی(رہ) ص۲۷۷۔

(۱۹۱) بشارة الاسلام ص۱۷۷۔

(۱۹۲) کشف الغمہ ج۳ص۳۲۴،منتخب الاثر ص۱۶۳۔

(۱۹۳) المھدی (عج) ص۲۲۱۔

(۱۹۴) صحیح مسلم ج ۸ص۱۷۲۔

(۱۹۵) بشارةالاسلام ص۱۷۵،الزام الناصب ص۱۸۵۔

(۱۹۶) الملاحم والفتن ص۱۷۔

(۱۹۷) بشارة الاسلام ص۴۳۔

(۱۹۸) منتخب الاثر ص۴۵۳۔

(۱۹۹) بحارالانوار ج۵۲ص۱۱۳۔

(۲۰۰) بحارالانوار ج ۵۲ص۱۴۳،غیبت نعمانی ص۵۶،وسائل الشیعہ ج ۱۱ص۳۷۔

(۲۰۱) بشارة الاسلام ص۲۶۸۔

(۲۰۲) ارشاد مفیدص۳۳۹،بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۰۔

(۲۰۳) نورالابصارص۱۷۲،بشارة الاسلام ص۱۷۵۔

(۲۰۴) غیبت نعمانی ص۱۲۳،بحارالانوار ج۵۲ص۲۷۵۔

(۲۰۵) بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۳۔

(۲۰۶) بشارة الاسلام ص۱۸۳،الملاحم والفتن ص۱۱۳۔

(۲۰۷) بشارة الاسلام ص۴۹۔

(۲۰۸) منتخب الاثر ص۴۳۹،بحار الانوار ج ۵۲ ص۲۰۳،اعلام الوری ص۴۲۷۔

علامات ظھور

علامات ظھور کا موضوع ایک دلچسپ موضوع ہے ۔اکثر لوگ اس کو ایک پیشن گوئی کی نظر سے دیکھتے ہیں ،اگر کوئی بات ان کو پوری ہوتی ہوئی نظرآتی ہے تو اس پر خوش ہوکر رہ جاتے ہیں ۔جبکہ یہ علامات نہ پیشن گوئی ہے نہ کوئی علم نجوم اور نہ ہی کوئی ھاتھ کی لکیروں سے نکالاھوا نتیجہ ہے ،بلکہ ایک واقعیت ہے کہ جو واقع ہورھی ہے یارونما ہوگی، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں انسان کو متوجہ ہوجانا چاہئے اور ہر مومن کو اپنی کمر کس لینی چاہئے ۔

البتہ کچھ علامات قطعی نہیں ہیں بلکہ کسی د وسرے واقع یا شئے پر مشروط ہیں جبکہ بعض علامات قطعی ہیں اور ان کے پورا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اوران کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں جس طرح کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

من المحتوم الذی لابد منه ان یکون قبل القائم :خروج السفیانی وخسف بالبیداء وقتل النفس الذکیه والمنادی من السماء وخروج الیمانی ۔“( ۱۳۲ )

ترجمہ:وہ نشانیاں جوکہ بغیر کسی شک و شبہ اور حضرت (عج) کے ظھور سے پہلے حتماً رونما ہونگیں :( ۱) خروج السفیانی ( ۲) سورج کو گھن لگنا( ۳) نفس ذکیہ کاقتل ( ۴) آسمان سے نداکا آ نا ( ۵) شخص یمانی کاخروج کرنااور اس کے علاوہ۔ایک اور مقام پر معصوم علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :

النداء من المحتوم والسفیانی من المحتوم وقتل النفس الذکیه من المحتوم وکفّ یطلع من السماء من المحتو م ۔“( ۱۳۳ )

ترجمہ: آسمانی نداآنا حتمی ہے ۔سفیانی کاخروج بھی حتمی ہے ۔نفس ذکیہ کا قتل بھی حتمی ہے ۔اور ھاتھ کی ہتھیلی جو کہ آسمان پر ظاہر ہوگی وہ بھی حتمی ہے ۔

پھر دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں :

خمس قبل قیام القائم من العلامات الصحیحة والیمانی و الخسف بالبیداء و خروج السفیانی و قتل النفس الذکیه ۔‘( ۱۳۴ )

ترجمہ:پانچ نشایناں حضرت(عج)کے ظھور سے قبل حتمی ھیں۔خروج یمانی ،سورج گھن ،خروج سفیانی اورقتل نفس ذکیہ ۔

ایک طویل روایت میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیھما السلام بیان فرماتے ہیں :

یخرج اذا خفّت الحقائق ولحق اللاحق وثقلت الظهور وتتابعت الامور ،واختلفت العرب واشتدّالطلب،وذهب العفاف واستحوذالشیطان و حکمت النسوان وفدحت الحوادث ونفثت النوافث وهجم الواثب و عبس العبوس و اجلب الناسوس ویفتحون العراق ویحمعون الشقاق بدم یراق( ۱۳۵ )

ترجمہ:وہ اس وقت ظاہر ہونگے جب حقیقت کی کوئی وقعت نہ رہے گی۔ دنیااحمقوں کے پیچھے چلے گی ،کمریں وزنی ہوجائیں گی ،ایک کے بعد دوسرا حادثہ رونما ہوتارہے گا ،عربوں میں پھوٹ پڑجائے گی ،کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ہوگی ،رشتہ داریاں ختم ہوچکی ہونگیں ،شیطان سب پر حاوی ہوچکا ہوگا ، عورتیں حکومت کیا کریں گی ، کمرتوڑ حادثات رونما ہونگے ،چیڑنے والے چیڑتے ہوئے اور آگے بڑھ جائیں گے ، تیز پرواز کرنے والے پرندے حملہ آور ہونگے ،دنیا کی لذتیں کھٹی ہو جائیں گی ، راز دان لوگ خیانت کرکے راز فاش کریں گے ، عراق کو دوسرے فتح کرلیں گے اورھر قسم کے اختلاف کا جواب خونریزی سے دیا جانے لگے گا ۔

اذا خفت الحقائق

-- جب حق کی کوئی وقعت نہ رہے گی ۔

ظاھر ہے جب زمانہ گمراھی اور ضلالت کی طرف بڑھ رھا ہوگا تو اس گمراھی کے سیلاب میں حق کی پہچان مٹ جائے گی اور اگر کوئی حق کہتا نظر بھی آیاتواس کو حق کھنے کے

جرم میں سزاوار ٹھرایا جائے گا ۔ اس طرح سے حق گو لوگ خود بخود گوشہ نشینی کاشکار ہوجائیںگے ۔

اور یہی وہ علامات ہیں جو ہم آجکل اپنے چاروں طرف دیکھ رہے ہیں ۔مشرق سے مغرب تک ظلم کا بازار گرم ہے ۔ھر طاقتور اپنے سے کمزور پر حاوی ہوناچاہتا ہے ۔اس حصول قدرت اور طاقت کی کشمکش میں دنیا ظلم سے بھر تی جارہی ہے۔

لحق الاحق

پیروی کرنے والے احمقو ں کے پیچھے چل نکلیں گے :

آج اکثریت کا یہی حال ہے کہ دنیا اندھی تقلید کا شکار ہو رھی ہے ۔انسان جب کسی کی پیروی کرنے پر آتا ہے توایسا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ حق و نا حق کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اورنہ فقط یہ کہ حق کو نہیں پہچان پاتا بلکہ وہ اس ظلمت کے بھاو میں خود اپنے آپ کوبھی کھو بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں ہر طرف افراط اور تفریط کے شکار ہوئے لوگ نظرآرہے ہیں ۔ چاہے وہ مذھبی ہوں یا سیاسی اور یہ افراط یا تفریط ہونا پورے معاشرے کے نظام کو درہم برہم کئے ہوئے ہے۔

وثقلت الظهور

پشت وکمر بھاری ہوجائے گی :

اگر اس سے مراد انسانی کمر ہے تو مطلب بہت واضح ہو جائے گا ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کے اوپر کام کا بوجھ اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ جو اس کی طاقت سے باھر ہوگا۔بظاھر تو انسانی زندگی ایک آرام دہ اور پر آسائش کی طرف جارہی ہے اور وہ اس کے پیچھے کتنی زحمتیںاٹھارھا ہے اس طرف بالکل توجہ نہیں کرتا ۔اگر اپنے اس زمانہ سے ذراماضی کی طرف چلے جائیں تو بہت سے کام جو کہ آج کی دنیا میں ہورہے ہیں وہ ناممکن تصور کئے جاتے تھے۔

ایک طرف تو انسان نے الیکٹرونکس کے میدان میں اتنی ترقی کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رھا ہے ۔لیکن دوسری طرف اپنے اس آسائش کے حصول کے خاطر اپنے دین اور ایمان سے بھی ھاتھ دھوبیٹھا ہے ۔یھی آسائش اور وقتی لذّتیں انسانی زندگی کا ھدف بن کر رہ گئی ہیں ۔ چاہے ان چیزوں کے حصول کے لئے کوئی بھی راستہ اپناناپڑے انسان اسے انجام دینے سے گریز نہیں کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسا ن کو آسائشیں تو میسر ہوتی جارہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سکون بھی ختم ہوتا جارہا ہے ۔ھر شخص پریشانی اور مایوسی میں مبتلاھے آما ر کے لحاظ سے چالیس کے سن سال سے اوپر کے لو گوں میں ۸۰ فیصد لوگ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء ہوجاتے ہیں ۔اور یہ حساب چالیس سال سے بھی کمسن لوگوں میں تیزی سے بڑھ رھی ہے۔

اگر ان لوگوں سے ان کی زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے ۔تو ان میں سے شاید ہی کوئی انسان اپنی زندگی سے مطمئن نظر آئے گا ۔ انسان نے اپنے آپ کو خود سے ہی ایک ختم نہ ہونے والی دوڑمیں شامل کرلیا ہے جس کی کوئی انتھا نظر نہیں آتی ہے۔

تتابعت الامور

ایک کے بعد دوسرا حادثہ ہوتا نظر آرھا ہے :

یہ بات اب آج کی دنیا میں بہت واضح ہے کہ ھرروز کسی نہ کسی جگہ پرکوئی بڑا حادثہ ہوتا نظر آتا ہے اور اس شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ انسان پچھلے واقع کو بھلا دیتا ہے ۔اب تو حال یہ ہوچکا ہے کہ ایسے حوادث پر لوگوں کا رد عمل ختم ہوتا جارہا ہے ۔ ا ب بڑے سے بڑے واقعہ کو وہ اپنے لئے ایک معمولی سی بات تصور کرتے ھیں۔اب تو دنیا کے بڑے شھروں کے بارے میں بڑی آسانی سے یہ بات کہہ دی جاسکتی ہے کہ وھاںایک دن میں ۱۵ یا ۲۰ آدمی کا قتل ہونا ایک معمولی سی بات ہے ۔ اسی وجہ سے معصوم علیہ السلام سے یہ بھی منقول ہوا ہے کہ:

توقَّعواآیات کنظم الخَرَز

ایسے حادثات کے منتظر رہو کہ جوتسبیح کے دانہ کی طرح یکے بعد دیگرے رونما ہوں ۔( ۱۳۶ )

اور یہی ہورھا ہے کہ بہت تیزی اور بغیر کسی وقفہ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔

واختلف العرَب

عربوںمیں اختلافات شروع ہو جائیں گے :

یہ بات بھی بہت پہلے سے ظاہر ہوچکی ہے ۔ اور ھرروز اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

واشتدَّ الطّلب

کسی مصلح کے ظھور کی تمنا بڑھ چکی ہوگی :

اب یہ بات سرعام پر آرھی ہے کہ دنیا میں ھرطرف لوگ کسی ایسی شخصیت کے

منتظر ہیں جوانھیں دلدل سے نکالے۔مومنین کی آنکھیں میں انتظاراور مایوسی نظرآرھی ہے اور چشم براہ ہیں کہ وہ نجات دینے والا منجی عالم بشریت کب ظھور کرے؟اورطوفان ظلم وستم کب ختم ہواورمومنین کایہ امتحان کب اپنے انجام کوپھنچے ۔؟

نہ فقط مومنین ومسلمین بلکہ ملحد اوربے دین بھی اپنی طرف سے اسی کوشش میں مصروف نظر آنے لگے ھیںکہ ہم کس طرح اس جھان انسانیت کو عدالت اورحق جوئی کی جانب گھسیٹ کرلائیں اورظلم کے سیلاب پرقابوحاصل کریں۔

ذَهَبَ الْعفافُ

رشتہ داریاں ختم ہوجائیںگے:

لوگ اپنے خونی رشتوں کو بھلا بیٹھیںگے۔ ایک دوسرے کے تعلقات ان کی مصلحت اندیشی پر منحصر ہونے لیںگے۔خونی رشتوں کی اہمیت ختم ہوجائے گی ۔ اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے لوگ فقط مصلحت اندیشی پر اتر آئیں گے جدھر سے فائدہ نظر آئے گاادھر ہی سے رشتہ بھی باقی رکھیں گے ۔

نوبت تو یھاں تک آگئی ہے کہ صلہ رحمی کو حماقت اور وقت ضایع کرنے کانام دیا جانے لگا ہے ۔ اگرکوئی شخص صلہ رحمی کی غرض سے کسی کے گھر جائے تو لوگ اس کو ایک بے کار آدمی سمجھنے لگتے ھیں۔ کیونکہ آج کے دورمیں مصروفیت ایک بہت بڑا فیشن بن گیا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جوشخص جتنا زیادہ مصروف ہوتا ہے اتنا ہی اہم اوربڑا آدمی ہوگا۔

واستحوذالشیطان

شیطان سب پرحاوی ہوجائے گا :

ھرشخص کسی نہ کسی طریقہ سے شیطان کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔

اگرچہ یہ حق ہے کہ ”العصمة لاہل ھا“ عصمت اورگناہوں سے پاکیزگی ان لئے ہے جو اس کی اہل یت (معصومین(ع)) رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جومعصوم نھیںتھے اس کے باوجود کمال کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے ۔ اورھرزمانہ میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں ۔ جس طرح معصوم (ع)حجت ھیںاورھرزمانہ میں کسی نہ کسی معصوم (ع) کا ہونا لازمی ہے اسی طرح سے ایسے افراد بھی ھرزمانے میں رہے ہیں اورقیامت تک باقی رھیںگے اگرچہ ایسے لوگ انگشت شمار ہی کیوں نہ ہوں ۔ صدر اسلام کے دور سے لیکر آج تک ایسے لوگوں کی فھرست بنائی جائے تو کئی کتابیںان کے اوپر لکھی جاسکتی ہیں ۔حتی آج بھی قم مقدس میں کچھ شخصیات ایسی ھیںجن کے بارے میں یہ تصور بھی محال نظر آتا ہے کہ انھوں نے کبھی جھوٹ بھی بولاھوگا یاوہ کبھی بول سکتے ہیں ۔غیبت تھمت تو بہت دور کی بات ہے ۔” استغفر اللہ من کل الذنوب “نہ فقط قم میں ایسی شخصیات ھیںبلکہ دنیا میں کہیں ہی ایسے لوگ مل سکتے ہیں ۔

نقل کرتے ھیںکہ ایک شخص نے خواب میں شیطان کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے زنجیر یںبنا رہاہے یہ زنجیریں بہت مختلف سائز کی ھیںاور کوئی تو بہت بڑی اور موٹی توکوئی دھاگے کی طرح باریک ۔خواب دیکھنے والے شخص نے شیطان سے سوال کرنا شروع کیا یہ سب سے موٹی زنجیر کس کے لئے بنارھا ہے تو شیطان نے اس زمانہ کے کسی جید عالم دین کانام لیا کہ ان کو اس زنجیر سے باندھنے کی کوشش کروں گا۔

اس سے پتلی زنجیر کے بارے میں سوال کیا تو شیطان نے کسی عارف کانام بتایا، یہ شخص سوال کرتا رھا اور شیطان جواب دیتا رھا ہے یہ زنجیر فلان فلان شخص کے لئے ہے۔ آخر میں اس شخص نے شیطان سے سوال کیا کہ : میرے لئے کونسی زنجیر ہے ۔ ؟تو شیطان نے مسکراکرجواب دیا تمھارے لئے کسی زنجیر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تم بغیر زنجیر کے میرے قبضہ میں ھو۔

اب یہی حال اکثریت کا ہے اس زمانہ میں شیطان کا کام بہت آسان ہوکررہ گیا ہے ۔ بہت ہی کم لوگوں کیلئے اسے زنجیر بنانے کی ضرورت پڑے گی ۔ ھرشخص کسی نہ کسی روحی بیماری میں مبتلاء نظر آرھا ہے لوگوں کودین اور حق کے راستہ پرلانا فساد اور گمراھی کے راستہ پرلانے سے کھیںزیادہ مشکل ہوچکاھے ۔ کوئی شخص دین اور آخرت کی بات سننے کو تیار نھیںہوتا ۔ حتی اگر کوئی کسی محفل میں خدا اور رسول(ص) کا ذکر کربیٹھے تو اسے مسخرہ آمیز القاب سے نواز کرنہ فقط اس کی بات ختم کردی جاتی ہے بلکہ اس شخص کی اپنی اہمیت اورشخصیت کوبھی سخت گذندپھنچتی ہے ۔

حکمت النسوان

عورتیں حکومت کریںگی :

یقینا اس حکومت سے صرف ملکی سطح کی حکومت مراد نھیںبلکہ زندگی کے ھرشعبہ میں عورتیںحکومت کرتی نظر آئیںگی ۔اگر کسی ملک کی حکومت کی بات کی جارہی ہو تو یہ بات کافی عرصہ پہلے سے رونما ہوچکی ہے ۔اب تو یہ بات عادی ہوچکی ہے ۔حق تو یہ ہے کہ لوگوں میں غیرت ختم ہوچکی ہے ۔آزادی کے نام پر عورتوں کی لگامیں ٹوٹ چکیں ہیں ۔

البتہ اس سے مراد یہ نھیںھے کہ عورتیںخدا کی کوئی پست مخلوق ہے العیاذ باللہ بلکہ اسلام میں جتنا احترام عورتوں کو دیا ہے کسی اور مذھب یا دین نے نہیں دیا ہے ۔یہ جاہل یت کی بات ہے کہ عورتیں گھر میں بندھو کررہ جائیں ۔یہ اسلام طالبان تو ہوسکتا ہے کہ جو خود اسلامی تعلیمات سے بے بھرہ ھیںلیکن دین حق اور مذھب حقہ سے اس کاکوئی واسطہ نھیںھے ۔اسلام نے ھرشخص اور مخلوق کو اس کا مقام عطا کرنے کے ساتھ اس کے کاموں کا دائرہ کار بھی معین کیا ہے ۔

عورت اگر ماں کے روپ میں ہوتو اس کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی ہے ۔اگر بیوی ہو تو قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تمام ضروریات زندگی کواس کے شوھر پر لازم قرار دیا ہے ۔ اگر بھن کی صورت میں ہوتو بھائی کو اس کا وقار قرار دیا ہے اگر بیٹی کے روپ میں ھوتو باپ پر اس کے لئے شفقت اور محبت لازم کی ہے ۔

لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ عورت اور مرد کے حقوق برابر ہونے کا نعرہ بلند کرکے مغالطہ میں مبتلا کرنے کے بعد اس کی شرم وحیا کو اس سے لے لیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے عورت بے حیا ہوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورت کی ہر بات حق ہوجائے ۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورت کو گھر سے بغیر کسی وجہ کے باھر نکال دیا جائے ۔آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیںحکم خدا سے تجاوز کرجائیں ۔؟

آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیںسیرت حضرت فاطمہ (ع) اور زینب کبری (ع) کو بھلا بیٹھیں۔؟آیا مرد اور عورت کے برابر ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ عورتیں اپنے سروں سے چادریںاتار دیں۔

نھیں!ہرگزایسانھیں ہے ۔ اسلام نے کسی کے حقوق معین کرتے وقت ہرگز کسی دوسرے کی حق تلفی نھیںکی ہے ۔ ھرشخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق حقوق عطا کئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں برابری کے نام سے بے لگام آزادی کا نعرہ ہے وھاں ایک شریف اور باعزت عورت کی کوئی وقعت باقی نہیں رھی ہے اگر بات یھیں تک ہوتی تو صبر آجاتا مگر اب وہی آزادعورتیںیہ کھنے پر مجبور پرگئی ہے کہ ہماری حفاظت کی جائے ، اور اب وہ اس مقام پر پہنچ چکی ہیںکہ وہ لوگ اپنی حفاظت کرنے سے ناچار ہوچکی ہیں، اب اس غلط راہ پرنکلنے کا نتیجہ نظر آنے لگا ہے یہ توایک جانب سے عورتوں کا کردار تھا ۔

دوسرا کردار عورتوں کا وہ ہے کہ جووہ خاندانی سیاستوں میں ادا کرتی ہیں۔ ایک خونی رشتہ کو دوسرے خونی رشتہ سے الگ کرانے سے بڑے بڑے جھگڑوں کے پیچھے انھیںکا کردار ہوتا ہے ۔ افسوس ہے ایسے مردوں کی عقل پر کہ جو اس طرح سے عورتوں کی تقلید کرتے ہیں ۔گھروں اور خاندانوں کے بڑے بڑے فیصلوں میں عورتوں کی سیاست چلاکرتی ہے ۔ اوریہ مرد اپنی عقلوں پہ تالہ باندھ کر کونے میں رکھ دیتے ھیں۔یھاں تک کہ کسی گھر میں دین داری اور بے دینی کا دارو مدار عورتوں کے اختیار میں ہے اگر باپ چاہے جتنا بھی متقی یا پرھیزگار کیوں نہ ہو اگر اس کی بیوی مذھبی نھیںھے تو ساری اولاد پر وہ اپناھی رنگ چڑھا دیتی ہے ۔اگرچہ عورتوں کاکردار بے اثر نھیںہوتا لیکن اس حدتک کہ مرد کو اپنے گٹھنے ٹیکنے پڑجائیں۔

اس کے برعکس اس بات کی جانب بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ حق تلفیاں جو ہمارے ملک پاکستان میں مختلف مقامات پر عورتوں کے ساتھ ہوتی ہیں ۔مجھے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہو ا کہ اس دور میں کہ جب دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے ، ایسے بھی لوگ رہتے ھیںکہ جو عورتوں کو ایک جانور کی حیثیت سے رکھتے ہیں ۔ شادی کا تصور ان کے نزدیک یہ ہے کہ ایک عورت بچہ دینے کے ساتھ ساتھ گھر میں کام بھی کرے گی ۔حتی بعض علاقوں میں ہم سے یہ سوال کیا کہ آیا عورت رنگین کپڑے بھی پھن سکتی ہے؟ تو بڑا تعجب ہوا۔معلوم کرنے اور دیکھنے پر پتہ چلا کہ وھاں عورتوں کو سفید کپڑے پھنائے جاتیں ھیں۔ اور گاڑی کے پرانے ٹائر سے بنے ہوئے جوتے پھنائے جاتے ہیں ،آج بھی مسلمانوں میں ایک طرح سے خرید وفروخت ہورھی ہے کہ جوکوئی بھی ہو جس عمر کابھی ہو اگر زیادہ پیسے لائے گا تو اس کو لڑکی دیدی جائے گی حتی خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ستر سالہ شخص کی شادی ایک ۱۰/ سالہ لڑکی سے کردی گئی ۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بہت عام ہے گاؤں دیھاتوں میں عام دیکھنے کو مل جاتا ہے کہ اگر بیوی سے کوئی روٹی جل جائے کہ جسے اس نے گھنٹوں محنت کرکے لکڑے کے چولھے پر پکایا ہواہوتا ہے تو اس کی پٹائی ہوجاتی ہے ۔

ایسی باتوں پر مرد بڑا فخر کرتے ھیںکہ میں اپنی گھر والی کو مارکرآیا ہوں بات یھاں پر ختم نھیںھوتی بعض علاقوں میں تو اپنے جرم کو چھپانے کے لئے کارا کاری کا چکر بناکر عورتوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نھیںکیا جاتا ۔ ابھی بھی پاکستان میں ایسے مقامات ہیں کہ جہاں شاید ہی کوئی خاندان یا گھر ایسا ہوکہ جو کارا کاری کا شکار نہ ہو چکاھو اس طرح عورتوں کو علم کے حصول سے محروم رکھ کر اپنے باغیرت ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے ۔

واضح ہے کہ اسلام کا ان تمام چیزوں سے کوئی واسطہ نھیںھے یہ ساری چیزیں اسلامی تعلیمات سے دور ہونے کے سبب پیدا ہوتی ھیںاسی جاہل یت کی وجہ سے ہم افراط اور تفریط کا شکار ہوچکے ہیں ۔

وفدحتِ الحوادث

کمر شکن حادثات رونما ہونگے :

ظاھر ہے کہ جب پوری دنیا میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ہوجائیں گے حتی یہ کہ حکومتوں میں حصول قدرت اورطاقت کی دوڑ اپنے عروج پر ہوگی تو اس کے نتیجہ میں ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جو جبران ناپزیر ہوں۔ یھاں تک کہ کوئی بھی قوم یا حکومت ایسی باقی نھیںرہے گی کہ جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے گا کہ یہ امن اور سکون کی زندگی بسر کررہے ھیں۔

نفثت النوافث و هَجَمَ الواثب

چیر کر آگے بڑھنے والے آگے بڑھ جائیں گے اور تیزپرواز کرنے والے حملہ آور ہونگے :

نہ فقط موجودہ زمانے کے لوگ بلکہ گذشتہ صدی کے لوگ اس چیزکا خوب مشاھدہ کرچکے ہیں کہ یہ جنگی طیارے ھرروز بروز ایک سے بڑھ کر ایک جدّت کے ساتھ دنیا میں ایجاد ہورہے ہیں کہ جن کے ذریعہ حکومتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے روی زمین پر رہنے والوں کو آگ اور خون میں غلطان کرتی رہتی ھیں۔ اب تو اس دنیا سے بڑھ کر سیاروں کی جنگ کی باتیں ہو رھی ھیںاگرچہ کہ ابھی تک یہ ایک مفروضہ کی حد تک ہی محدود ہے ۔

وعبس العبوس

دنیا کی لزتیں کھٹی ہوجائیں گی :

تما م گذشتہ باتوں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب دنیا میں ھرطرف آشوب اور ھنگامہ آرائی بڑھ جائے گی تو کوئی بھی شخص سکو ن کی زندگی بسر نہیں کرسکے گا۔جب سکون ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر زندگی میں مزا کہاں سے آئے گا ۔یھی وجہ ہے کہ دنیا میں جس طرف توجہ کرکے دیکھیں لوگ ایک سے بڑھ کر ایک اشتعال انگیز قدم اٹھا رہے ہیں خود کشی کرنے والوں کا تناسب پوری دنیا میں دن بدن بڑھتا جارہا ہے ۔ یہ سب نتائج اسی لئے نکل رہے ھیںکیوں کہ دنیا میں ان لوگوں کے لئے کوئی کشش باقی نہیں رہ گئی ہے اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوکر یا تو خود کشی کربیٹھتے ھیںیا پھر انتقامی جذبہ کے پیش نظر اشتعال انگیز اقدامات کرنے سے گریز نھیںکرتے ۔

ایک اور روایت کے ذیل میں مولیٰ متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام فرماتے ہیں:

وانجر العیص واراع القنیص و اکثر القمیصُ

جس وقت جنگلات خشک ہو کر ختم ہوجائیں گے شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کرتے رہتے ہوں گے اور نفرتیں اورہجرتیں زیادہ ہوجائیں گی۔( ۱۳۷ )

انجر العیص

جس وقت جنگلات خشک ہو کر ختم ہوجائیں گے:

پوری دنیا میں ھرطرف اس بات کا رونا ہے کہ جنگلات ختم ہورہے ہیں ۔ اس کی کیا وجوھات ہوسکتی ہیں ایک تو حکومتیں یاپھر کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لئے جنگلات ختم کرتے ہیں یاپھر بارشیں کم یا بعض مقامات پر نہ ہونے کے سبب جنگلات ختم ہوتے جارہے ہیں یا پھر بعض موقع پر اشتعال انگیز کاروایوں کے نتیجہ میں بھی یہ خداداد نعمت روبہ زوال ہوتی جارہی ہے ۔

آج پوری دنیا میں سیمینار منعقد کئے جارہے ھیںکہ کسی طرح سے ان قدرتی وسائل کو ضائع ہونے سے روکا جائے ۔ قحط سالی روز بروز شدت اختیا کرتی جارہی ہے حکومتوں کے درمیان پانی کے مسئلہ پر اختلافات بڑھتے جارہے ہیں اور عنقریب عین ممکن ہے کہ حصول آب کے لئے حکومتوں کے درمیان جنگیں چھڑ جائیں ۔

واراع القنیص

شکار کرنے والے سب کو وحشت زدہ کریں گے:

کسی زمانے میں جب شکار کرنے والوں کاذکر آتاتھاتو اس سے یہ تصور کیا جاتا تھا جانورں کے شکار کرنے والے ۔ لیکن اب بات اس سے آگے بڑھ چکی ہے ۔ اغوا برائے تاوان یا سیاسی مقاصد کے لئے انسانوں کا اغوا بہت عام سی بات ہوکررہ گئی کسی بھی ملک یا قوم میں اس قسم کی خبریں روزانہ کا معمول بن کررہ گئی ھیں۔ یاتو لوگ پیسہ کی خاطر سرمایہ دار لوگوں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرتے ھیںیاپھر سیاسی مقاصد کے تحت بھی ایسے اقدامات کئے جاتے ھیںمشرق سے لے کر مغرب تک ایسے واقعات روزانہ کا معمول بن گئے ہیں ۔

کثر القمیصُ

اضطراب اورہجرت زیادہ ہوجائے گی:

ہجرت کرنے والے افراد بیشتر اس سبب کے تحت کرتے ہیں :کہ کچھ لوگ خشک سالی کی خاطر ہجرت کرتے ھیںجبکہ بعض لوگ امن وامان اور حفظ جان کے لئے بھی ہجرت کرتے ھیںجن ملکوں کے لوگ بیشتر ہجرت کرتے ھیںان کے اپنے وطن کے حالات معمول پر نھیںھوتے ۔ ان کاملک اقتصادی، اجتماعی ،معاشرتی یاپھر امن وامان کے مسائل کا شکار ہوتا ہے ۔

آج لوگ ایک ایک کرکے یا پھرگروہ کی صورت میں نہیں بلکہ پوری کی پوری قوم ملکر ہجرت کرتی ہے حتی بعض ممالک میں تو حشریہ ہے کہ اس ملک کے مقیم حضرات کی تعداد وھاں سے ہجرت کرنے والوں سے کم ہوتی ہے ۔ دنیا میں برے پیمانے پر ہجرتیں ہورھی ہیں ،یہ مھاجرین عام طور سے اپنے ملک کے ھمسایہ ملکوں میں یا پھر اپنے مال ووسائل کے مد نظر مغربی دنیا کا رخ کرتے ہیں ۔اپنے ھمسایہ ملک افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے اسی طرح عراق ،فلسطین اور بعض پورپی ممالک کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔

اس طرح سے لوگ اقتصادی مسائل یا پھر نقص امن سے بچنے کے لئے بھی دنیا بھر میں ہجرت کرتے جارہے ہیں ۔ مھاجرین کی تعداد پوری دنیا میں اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ بعض ممالک نے اپنے وطن میں قانون بنادیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی مھاجر نھیںآسکتا ۔ جن ممالک میں مھاجرت کی جاتی ہے وھاں پر ان مھاجرین کی وجہ سے اقتصادی مسائل پیدا ہونے کے ساتھ اس ملک کے مقیم اصل باشندوں کو نوکریوں کا مسئلہ ہوجاتا ہے اسی طرح ھمسایہ ممالک اس کے ضمن میں کئی ایک مسائل کا شکار ہوکررہ جاتے ھیںکہ جوایک طرح کاقوموں میں اضطراب اور نفرت کا سبب بھی بنتا ہے ۔

ایک اور مقام پر حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ہیں:

اذا صاحَ الناقوس وَکَبَسَ الکابوس وتَکلَّمَ الجاموس فعند ذالک عجائبٌوایُّ عجائب( ۱۳۸ )

جس وقت ناقوس سے صدا بلند ہوگی کابوس کا منحوس سایہ ھرجگہ پر پھیل چکا ہوگا ،اور جاموس بولنے لگے گا اور اس زمانے میں حیرت انگیز واقعات رونماھونگے اورکیا عجیب وغریب واقعات پیش آئنگے ۔

ناقوس کا معنی ہوشیار کرنے والی آواز یا خطرے کی گھنٹی وغیرہ ہے۔ یھاں پر اس سے مراد حضرت جبرئیلں کی آواز ہے کہ جو پوری دنیا میں سنی جائے گی۔

کابوسخوفزدہ اور وحشت آور خواب کو کہتے ھیںکہ جو پوری دنیا پر حاکم ہوگا ھرجانب سے لوگ خوف وھراس کا شکار ہونگے ۔

جاموسھرجامد چیز کو کہتے ھیں۔مراد یہ ہے کہ جامد چیزیں بولنے لگیں گی یہ بات جب اس زمانے میں کہ جب یہ گفتگو بیان کی جارہی تھی تو ایک بہت ہی عجیب اور

تقریبا محال بات نظر آتی تھی لیکن آج اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ریڈیو ،ٹی و ی ٹیلی فون، ٹیپ ریکاڈر،کمپیوٹر اور اسی طرح کی سیکڑوں اور چیزیں ۔

آج کی دنیا میں دن بہ دن عجیب و غریب واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیز ایجاد ہورھی ہے کہ جن کو دیکھ کر انسانی عقل مبھوت ہو کررہ جاتی ہے۔ ترقی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ مھینوں کے حساب سے جدت آرھی ہے ۔

حضرت علی ابن ابی طالبں فرماتے ہیں:

ولذلک علامات وکشفُ الهکل وخفْقُ آیاتٍ ثلاثٍ حولَ المسجد الاکبر تهتزُّ یُشبهن بالمهدی وقتلٌ سریعٌ وموت زریعٌ( ۱۳۹ )

اس کام (ظھور حضرت (ع))کے لئے کئی نشانیاں ھیں۔ ان میں سے ھیکل کا ملنا،تین پرچموں کا بلند ہونا کہ جو تینوں کے تینوں حضرت مھدی (ع) کے پرچم سے ملتے جلتے ہونگے امان نہ دینے والے قتل اور اچانک موت و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھیکل سے مراد وہ عظیم الشان معبد گاہ ہے کہ جو حضرت سلیمان (ع) نے تعمیر کروائی تھی وہ معبد گاہ بیت المقدس میں تھی۔اس کے تین سو ساٹھ( ۳۶۰) ستون تھے،وہ عظیم الشان عمارت مختلف قیمتی پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔اس کی زمین پر شیشے کے مانند پتھر نصب تھے کہ جس کے نیچے سے پانی بھا کرتا تھا کہ جس کودیکھ کربلقیس نے اپنے پائنچے

اوپر اٹھا لئے تھے یہ سمجھ کر کہ یہ پانی ہے اور میرے پائنچے بھیگ جائیں گے ۔اس کے علاوہ اور بھی بے تحاشہ حیرت انگیزاشیاء اس محل میں موجود تھیں۔

ہمارے زمانے میں یھودیوں کی پوری کوشش یہ ہے کہ اس ھیکل کو زمین کے اندر سے نکالا جائے کہ جس کا کچھ حصہ مسجد اقصیٰ اور دوسرا حصہ قیامت کے چرچ کے نیچے ہے۔اس وقت اس ھیکل کا تھوڑا بہت حصہ دریافت ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اسرائیلی حکومت مکمل طور پر اس ھیکل تک نہیں پھونچ سکی ہے۔ اگرچہ اس کی پوری کوشش ہے کہ اس عمارت کو جلد سے جلد کھود کر دریافت کیا جائے۔ تین ملتے جلتے پرچموں سے مراد یہ ہے کہ تین گروہ جو کہ اپنے آپ کو حق پر کہتے ہونگے اسلام کے نام پر جھاد کرنے کو نکل کھڑے ہونگے جب کہ ان میں سے کوئی بھی حق پر نہیں ہوگا۔

آج کی دنیا میں ہر طرف حق کے نام پرقتل و غارت و جھاد کے نام سے جنگیں ہو رھی ھیں۔آیا یہ سارے گروہ واقعاً دین اسلام پر عمل پیرا ہیں یا نھیں؟یہ تو خود انکے اعمال اور گفتار سے بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،ھر حق کا دعویدار حقدار نہیں ہوتا ہے۔

آخری زمانے کے لوگوں کی خصوصیات:

اس سے پہلے کہ ہم آخری زمانے کے لوگوں کے بارے میں کچھ بیان کریں ایک نکتہ کی طرف توجہ بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کے لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ متمدن(ماڈرن اور ترقی یافتہ )سمجھتے ھیں۔لیکن حقیقت میں وہ انسانیت کے دائرے سے کتنا دور جا چکے ھیں،اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے ہمیں معصومین (ع) کے اقوال کے تحت شعاع آنا ہوگا۔جب کہیں جاکر ہم اپنی حقیقت کو سمجھ سکتے ھیں۔اس سے پہلے کہ خصوصیات بیان کی جائیں،ہم اپنی گفتگو کا آغاز رسول خدا(ص) کے اس بیان سے کرتے ہیں کہ جہاں پر انھوں نے زمانہ کے بارے میں کچھ یوں بیان کیا ہے:

لا یاتی علیکم زمان الّا الّذی بعده شرّ منه!( ۱۴۰ )

”کوئی زمانہ نہیں آئے گا مگر یہ کہ اس کے بعد والا زمانہ اس سے برا ہوگا“۔

یہ ایک واضح بات ہے کہ جوپوری دنیا میں قابل مشاھدہ ہے ۔اگر تاریخ کا سھارا لیا جائے تو پھر اور بھی وضاحت کے ساتھ یہ بات روشن ہو جائے گی اگراپنی زندگی کو بھی نظر میں رکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ زمانہ کہ جو ہمارے بچپن کا تھا جوانی سے بہتر اور جوانی کا زمانہ بڑھاپے سے بہتر ہے ۔ آج جس زمانے میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں کل ہماری اولاد کو اس سے برا اور زیادہ سخت زمانے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

رسول اکرم(ص) کا ارشاد ہے :

یاتی علی النّاس زمانٌ همّهم بطونهم وشرَفهم متاعُهُم وقبلتهم نساوهم ودینهم دَراهمهم ودنانیرهم اولٰٓئک شرُّ الخلق لاخلاق لَهُم عنداللّه ۔( ۱۴۱ )

”لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایساآئے گا کہ جب ان کا ہم وغم ان کا پیٹ ہوگا۔ ان کی شرافت کا اندازہ ان کے رھن سھن اور دنیا داری سے ہوگا ۔ ان کا قبلہ ان کی بیویاں ہوںگیں۔ان کا دین ان کامال ودولت ہوگا ۔وہ لوگ بدترین لوگ ہونگے اور خداوند متعال کے نزدیک ان کے لئے کوئی مقام نہیں ہوگا۔“

یہ ایسی صفات ہیں کہ جو روز روشن کی طرح عیاں ھیں۔ ھرشخص دنیا داری اور پیٹ بھرنے کے لئے دوڑرہاہے ہر شخص اپنے معیار زندگی کو اوپر سے اوپر لے جانے کی کوشش میں لگا ہواہے ۔ لوگو ں کا ملنا جلنا ان کی بیویوںکے ملنے جلنے پر منحصر ہوگیا ہے ۔ اگر بیوی کے تعلقات کسی نزدیکی رشتہ دار سے خراب ہوجائیں تو ان کے شوھر اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی قطعہ تعلق کرکے بیٹھ جاتے ہیں جس طرف ان کا قبلہ (ان کی بیگمات) گھو میں گی اسی طرح سے وہ خود بھی گھومتے چلے جاتے ہیں ۔ اُن کا دین ان کی دولت ہے ۔ اگر دولت کے حصول کے لئے دین کوبھی روندنا پڑجائے تو وہ اس کام کو بھی آسانی سے کرگزرتے ھیں۔ یہی ہے آج کی دنیا اور دنیا والوں کا رواج!۔

وعندها یظهرالربا ویتعاملون بالرُّشیٰ ویوضع الدین وترفعُ الدنیا( ۱۴۲ )

”اور سود عام ہوچکا ہوگا اور معاملات زندگی رشوت سے طے ہونگے دین کم اہمیت اور دنیا باارزش ہوچکی ہوگی ۔“

اسی رشوت کے بارے میں اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

لیاتینَّ علی النّاس زمانٌ لایبقی احَدٌ الَّااکل الرِّبٰافانْ لم یاْکُلْهُ اصابَهُ غُبارُهُ ( ۱۴۳ )

” لوگوں کے لئے ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ جس زمانے میں کوئی بھی ایسا شخص نھیںملے گا کہ جوسود نہ کہا چکاھو ۔ اگر مستقیمابھی سود نہ کہایا ہو لیکن اس کی گرد وغبار ضرور چکھی ہوگی ۔“

یعنی سود اتنا عام ہوچکا ہوگا کہ ہر شخص اس برائی سے آلودہ ہو چکا ہوگا ۔ اور آج بھی یہی حال ہے کہ پوری دنیا کے اقتصاد کا دار ومدار سود پر ہے حتی اسلامی ممالک جو کہ اس بات کا ادعا کرتے ھیںکہ اسلام کے قوانین پرعمل پیراھیںلیکن ان ممالک کے بینک کے چلنے کا دارومدار بھی اسی سود آور معاملوں پر ہے اگر آج یہ سود دینا یا لینا بند کردیں تو ان کی بینک کاری کانظام بیٹھ جائے گا ۔

اسی طرح سے رشوت بھی پوری دنیا میں اپنی جڑیںبچھا چکی ہے اس زمانے میں رشوت کے متعدد نام ھیںمٹھائی ،چائے اورپانی کاخرچہ تحفہ ،ھدیہ وغیرہ ،مختلف عناوین سے رشوت لی اور دی جارہی ہے ۔انسان کو اپنا حق حاصل کرنے کے لئے بھی اسی کاسھارا لینا پڑتا ہے ورنہ وہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائے ۔اور ظاہر ہے جہاں سودورشوت عام ہوچکی ہو اورلوگوں کے پیٹ میں یہ حرام لقمہ جارہا ہو تو وھاں خود بخود دین کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور صرف دنیا ودنیاداری باقی رہ جائے گی ۔

اس حرام لقمہ کا انسانی زندگی، اسکی سوچ اور اس کے رھن سھن پر بہت اثر ہوتا ہے ۔ اگر کوئی باپ یہ تصور کرے کہ میں حرام لقمہ کہلاکر اپنے پیچھے کوئی صالح فرزند چھوڑ کرجاؤںتو وہ خام خیالی کا شکار ہے ۔ کبھی بھی حرام کے لقمہ سے پلنے پھولنے والے لوگ نیکی اور اچھائی کاراستہ نھیںاختیار کرسکتے مگر یہ کہ اپنے جسم سے اس حرام لقمہ کے اثر کوزائل کردیں ۔

معصوم (ع) فرماتے ھیںکہ :

یکون اسعد الناس بالدنیا لکعٍ ابن لکعٍ لایٴومنُ بااللّه ورسولهِ( ۱۴۴ )

”دنیا میں خوش بخت ترین لوگ وہ ہوں گے جو بالکل ذلیل ہواور جو خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہ رکھتے ہوں۔“

حقیقت بھی یہی ہے کہ آج دنیا میں خوشحالی انھیںکے پاس زیادہ نظر آتی ہے کہ جو کسی چیز کے پابند نھیںھیںنہ خدا کومانتے ہیں اور نہ ہی کسی رسول(ص) پرایمان رکھتے ھیں۔ دنیاکی خوشحالی ان ہی بے دینوں کے پاس نظر آتی ہے اکثر دین دار لوگ اپنی مشکلات کے شکار رہتے ھیں۔

یصبح الرّجل مومناویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اَحَدُکم دینه بِعرضٍ من الدنیا قلیلٍ( ۱۴۵ )

”انسان ایمان کی حالت میں صبح کرے گا۔ اور کفر کی حالت میں شام کرے گا اور کفر کی حالت میں b بح کرے ۔ اپنے دین کو بہت معمولی سی چیز کے بدلے میں بیچ دے گا ۔“

اس بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بین یدی الساعة فتنٌ کقطع اللیل المظلم یصبح الرّجل منکم مو مناً ویصبح الرّجل مومناًویمسی کافراًویمسی مومناًویصبح کافراًیَبیعُ اقوامٌ دینهم بِعرضِ الدنیا

”ظھور سے پہلے رات کی تاریکی کی طرح فتنے پھیل چکے ہونگے انسان صبح کے وقت مومن اور دن کے آخری حصہ میں کافر اور رات کے پہلے حصہ میں مومن اور رات ہی کے آخری حصہ میں کافر ہوچکا ہوگا ۔ قومیں اپنے دین کو بہت معمولی سے مال دنیاکے بدلے میں بیچ دیا کریں گے ۔“

اس بارے میں متعدد معصومین (ع) سے روایتیں وارد ہوئی ھیں، اور آج بھی یہی صورت حال ہے کہ انسان اپنے دین کو ہتھیلی پر رکھے گھوم رھا ہے ، اس سیاست اور فتنہ کے دور میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو جو بہت جلد ختم ہونے والی ہیں اپنے دین کو بیچ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں دیندار افرادنایاب ہوتے جار ہے ہیں ،ایسے وقت کے لئے امام جوادںراہ حل بھی پیش کرتے ھیں۔

وقبل ذالک فتْنَةٌ شرٍیُمسی الرّجُلُ مٴومناً ویصبح کافراویصبح مومناًویمسی کافراًفمن ادرک ذالک الزمان فلیتقِ اللّه ولیکن من احلاس بیته( ۱۴۶ )

”روز موعود (ظھور ) سے پہلے بہت بڑا فتنہ ہوگا کہ انسان ایمان کی حالت میں شام کرے گا اور کفر کی حالت میں صبح اور ایمان کی حالت میں صبح اور کفر کی حالت میں

میں شام کرے گا ،اورجوکوئی بھی اس زمانہ کودرک کرے تو وہ اپنے گھر کے بچھونوں میں سے ایک بچھونابن جائے۔ “

یعنی اس زمانہ میں انسان اپنے گھر سے باھر نکلنے سے پرھیز کرے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی رہے کہ اپنے گھر میں وقت گزارے کیونکہ یہی ایک واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنے آپ کو دنیا کی آلودگی سے بچا سکتا ہے ۔ جتنا انسان دنیا کے لوگوں میں گھلے ملے گااتنا ہی اس کے گناہ میں پڑنے کااحتمال زیادہ ہوگا۔

حضرت امام صادق(ع) بھی یہی فرماتے ہیں:

اذا کان ذالک فکونوا احلاس بیوتکم حتی یظهر الطاهر المطهّرِ( ۱۴۷ )

”جب وہ وقت آئے تو اپنے گھر کے بچھونوں میں سے بچھونا بن جائے یھاں تک کہ طاھر ومطھر امام غائب (عج) ظھور کرجائے ۔

امام صادق(ع) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

کُفُّوا الْسِنَتُکُمْ والْزَمُوْا بُیُوتَکُمْ فَانَّه لا یصیبکم امرٌ تُخَصِّوْنَ بِه ابداً( ۱۴۸ )

”اپنی زبانوں کو قابو میں رکھو اور اپنے گھروں سے باھر نہ نکلو بے شک تمھارے لئے کوئی ایسا حادثہ پیش نھیںآئے گا کہ جو تم سے مخصوص ہو ۔“

زبان کو قابو میں رکھنا بھی ایک بہت مسئلہ ہے اسی زبان کی وجہ سے بعض اوقات بہت بڑے فتنہ رونما ہوجاتے ھیں۔ کبھی انسان بے خیالی میں بھی کوئی ایسی بات کرجاتا ہے کہ جس کانتیجہ بہت بھانک ثابت ہوتا ہے یہ زبان انسان کودنیا و آخرت دونوں میں نقصان پھنچانے میں ایک موثر کردار ادا کرتی ہے ۔ یعنی نہ فقط دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اس زبان کے بے جاہل انے کا حساب کتاب ہوگا ۔یھی وجہ ہے کہ اپنی زبان کوقابو میں رکھنے کے لئے متعدد رویات میں تاکید کی گئی ہے ۔

یتجاهرُ النَّاس بالمنکرات …فَیُنْفِقُ المالُ للغنٰاءِ( ۱۴۹ )

”لوگ منکرات کو علناًانجام دیںگے اورکثرت سے اپنے مال ودولت کو گانے نجانے پر خرچ کریںگے ۔“

آج کے دور میں بھی یہی ہے کہ لوگ بڑے فخر سے اپنے اور اپنی اولاد کے گناہ کبیرہ کو لوگو ں کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ ناچ گانے کی بڑی بڑی محفلیں ہوتی ہیں، کہ جس پر بے تحاشہ مال دولت صرف کیا جاتا ہے مثال کے طور پر صرف شادی بیاہ کی تقاریب ہی کو دیکھ لیں اگر کسی شادی میں ناچ گانا نہ ہوتو اسے بہت بے رونق اور فضول تقریب سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس اگر اس تقریب میں ناچنے والے اوروالیاں بلائی جائیںرات پھر مھندی کی رسم کے نام پر رقص ہو بڑے بڑے میوزیکل گروپ کو دعوت دی جائے ،ایسی محافل کو بہت بارونق اور یادگار شادیوں میں شمار کیا جاتا ہے ،حتی آج کل بعض لوگ علماء کے اعتراض سے بچنے کے لئے نکاح وغیرہ کی رسم کو گھر پر مختصرلوگوں کی

موجودگی میں انجام دے دیتے ہیںتاکہ مھمانوں کے سامنے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

حضرت امیرالمومنین ںفرماتے ہیں:

یُصبح الآمر بالمعروف ذلیلاً والفاسق فیمالاًیحبُّ اللّٰه محموداً( ۱۵۰ )

”امر بالمعروف (لوگوں کو واجبات کی تلقین) کرنے والا ذلیل اور گناہ کرنے والا لوگوں کے نزدیک مورد احترام ہوگا ۔

لیاتینَّ علی الناس زمانٌ یَطرَّفُ فیه الفاجر و یُقَرَّبُ فیه الماجن ویُضعف فیه المنصف( ۱۵۱ )

”لوگوں کے لئے ایک زمانہ آئے گا کہ جب فاجر اور فاسق کا احترام ہوگا اور مداری (ناچنے گانے والے) لوگوں کے نزدیک محبوب ہونگے اور انصاف کرنے والا ضعیف ہو کررہ جائے گا ۔“

آج کی دنیا کی یہی حقیقت ہے ۔ اور کوئی شخص دیندار ی کی بات کرے تو لوگ اسے زھنی مریض اور نجانے کن کن القاب سے پکارنے لگتے ھیںاس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی محفل میں فسق و فجور کی بات کرے تو سب بڑی توجہ کے ساتھ سنتے ھیںاور ایسے ہی لوگوں کا احترام بھی کرتے ھیں۔

اور بھی بہت سی علامتیں ہے کہ جواس زمانہ کے لوگوں میں پائی جائیںگی ہم نے اختصار سے کام لیتے ہوئے فقط چند ایک پر انحصار کیا ہے ۔ خداوند ہمیں اور ہماری اولاد کو ان تما م صفات رزیلہ سے محفوظ فرمائے (الھی آمین)

آخری زمانے کے مرد

حضرت محمد (ص)فرماتے ہیں:

ماترک بعدی فتنة اخر علی الرَّجال من النساء( ۱۵۲ )

”میرے بعد کے لوگوں کے لئے سب سے برا فتنہ وہ ہوگا کہ عورتوں کی جانب سے آئے گا ۔“

بعد والی حدیث میں اس طرح سے بیان ہوا کہ :

هلکت الرِّجال حین الطاعت النساء( ۱۵۳ )

”وہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے کہ جوعورتوں کی اطاعت کریںگے ۔ “

یعنی عورتوں کے پیچھے چلنے والے لوگ اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کربیٹھیںگے ۔

ایک نکتہ کی وضاحت کرتے چلیں کہ یھاں پر مراد ھرعورت نھیںھے ۔ کیونکہ متدین اور مومنات خواتین اس گفتگو سے خارج ھیں۔ ہماری گفتگو ان عورتوں کے بارے میں ھے کہ جونہ خود خدا اوررسول(ص) پہ ایمان رکھتی ہیں اور ساتھ میں اپنی اولاد اور شوھر

کو بھی گمراھی کے کنوئیں میں ڈھکیلتی ہیں یہ وہ عورتیںھیں کہ جو اپنے شوھر وں کو غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتاھے :

لعن اللّه الرجل لبس لبسة المراة والمراة لبسة الرجل( ۱۵۴ )

”خداوند لعنت کرے ایسے مرد پر کہ جو عورتوں کا لباس پھنے اوران عورتوں پر کہ جو مردوں کا لباس پھنے ۔“

یہ بات بھی واضح ہے کہ جو آج کل کے جوان اور نوجوانوں میں فیشن کے نام پر ہورھا ہے ھردیکھنے والے کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔ ایک اور اہم مسئلہ کہ جوآج کی دنیا میں ایک رائج اوربہت سے ممالک میں رسمی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے وہ ہم آمیزی کا مسئلہ کہ مردمرد سے اور عورت عورت سے شادیاں کررہے ھیں۔ اسی کے بارے میں متعدد روایات چودہ سو برس پہلے ہمارے معصومین علیہم السلام سے وارد ہوئی ہیں۔

مانند:

اذا رکب الذکور الذکور والاناث الاناث( ۱۵۵ )

”جب مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ ہم بستری کریں“۔

اذا اکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء( ۱۵۶ )

”جب مردوں کے لئے مرد اورعورتوں کے لئے عورتیںکفایت کریں۔ “

اور بھی بہت سی روایات اس بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔!

تکون معیشة الرَّجل من دبره ومعیشة المراة من فرجها( ۱۵۷ )

”مردوعورت ذریعہ معاش اپنی شرمگاھوں کو بنائیںگے ۔“

یہ بات نہ فقط دنیا غرب میں بلکہ دنیا اسلام میں بھی عام ہوچکی ہے ۔ اورھر خاص و عام کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اسی کے بارے میں مولائے متقیان علیہ السلام فرماتے ہیں:

ویری الرجل من زوجته القبیح فلا ینعاها ولایردُّ هاعنه ویا خُذُ ماتَاتِیْ مِنْ کدِّ فرجها وَمِنْ مُفْسِدِ حِذرهاحتی لونُکِحَتْ طولاً وعرضاً لم ینهها ولایَسْمَع مَاوقع فَذاکَ هوالدَّیُّوْثَ( ۱۵۸ )

”مرداپنی عورت سے انحراف جنسی دیکھے گا لیکن اسے منع نہیں کرے گا ۔ اور جواس عورت نے جسم فروشی سے کماھویااسے لیکر کہائے گا۔ اور اگر یہ برائی اس عورت کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے پھربھی منع نھیںکرے گااورجوکچھ انجام دیا جارہا ہواور اس کے بارے میں کوئی بات کرے تو سننے کو تیار نھیںھوگا اور یہی شخص دیوث (بے غیرت )ھے۔“

ھاں آج کے زمانے میں ایسی بھی بہت سی مثالیںمل جائیں گی حتی مسلمانوں کے درمیان بھی ایسے کئی واقعات آئے دن عدالتوں کی فائلوں میں اپنے وجود کی سیاھی سے قلم زن ہوتے رہتے ھیں۔

امام صادق(ع) اس طویل روایت میں فرماتے ہیں:

وَرایت الفِسْقَ قَدْ ظَهَرَواکتفی الرجال بالرجال والنساء باالنساء وَرَایْتَ الرِّجال یَتَسمَنَّونَ للرجال والنِّساءَ وَرَایْتَ الرِّجل معیشة من دبره ومعیشة المراة من فرجهاوَاعطَوالرجالَ الاموال علی فروجهم وتُنُوفِسَ فی الرَّجل وتغایرعلیه الرجال … وَرَایْت الرجل یُعَبَّرُعلی اتیان النساء … وَرَایْت العقوق قد ظَهَرَ واستُحِفَّ بالوالدین وکانا من اسوَاالناس حالاًعندالولدوَرَایْت اعلامَ الحَقِّ قد درسَتْ فَکن علی حَذَرٍ واطلُبْ الی اللّه النجاة واعلم انّ الناس فی سُخْط اللّهِ عَزَّوجلَّ واِنَّما یُمْهِلُهُمْ لامرٍیُرَادُ بِهم فَکُنْ مُترَقِّباًواجتهد انْ یراک اللّهُ عزَّوَجَلَّ فی خلافِ ماهم علیه( ۱۵۹ )

”اوردیکھوگے کہ گناہ عام ہوچکے ہوں ،مرد مردوں سے اور عورت کو عورتیںپسند کریںمرد مردوں کیلئے آرائش کریں اور عورت عورتوں کے لئے بناوسنگھار کریں۔ مردوں اورعورتوں کا ذریعہ معاش ان کا اپنا وجود بن جائے ،مرد جنسی مسائل کیلئے

اپنا مال ودولت دل کھول کرخرچ کریں۔ مردوں کیلئے عورتوں کی طرح غیرت اور حسادت پیدا ہوگی (مردوں کے اوپر مرد جان جھڑکیںگے ) مردوں کا جنس مخالف سے ھمبستری پر مذاق اڑے گا ۔ عاق والدین عام ہوجائے گا ۔والدین اپنی اولاد کے سامنے ذلیل اور رسوا ہوجائیں گے اور ھرکوئی دوسرا شخص والدین سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ حق کی نشانیا ںختم چکی ہونگیںاس زمانے میں خدا کے غضب سے ڈرو اورخداوند سے نجات طلب کرو ۔ جان جاؤکہ لوگ موردغضب الٰھی ہیںاورخداوند بعض چیزوں کی وجہ سے ان کومھلت دیتا ہے ۔ کوشش کروکہ خداوند تم کو ان کی حالت سے مختلف حالت میں دیکھے۔اورکتنے کم لوگ ھیںکہ جواپنے آپ کو ان برائیوںسے بچانے کی کوشش کرتے ھیں۔“

آخرزمانے کی عورتیں

عورت کہ جو اسلام میں ایک بلند مرتبہ کی حامل ہے ۔اس کو ماں،بیٹی ،بھن اوربیوی جیسے مقدس رشتوں سے نوازا ہے اگر وہ اپنی قدر نہ کرے تو نہ فقط وہ بلکہ اپنے ساتھ اورچاروں طرف رہنے والو ں کو جھنم کی آگ میں ڈھکیل کرلے جاتی ہے ۔ وہ اپنا مقام بھلا بیٹھی ہے کہ جس کے پاؤں کے نیچے جنت قراردی گئی ہے۔ تعالیم اسلام اورقرآن سے دور ہونے کانتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ فقط خودگمراہ ہوتی ہے بلکہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کرڈالتی ہے اور اس کے برعکس ایسی مومنہ خواتین کی مثالیں بھی بہت ھیںکہ جو اپنے گمراہ شوھر اور گھروالوں کو اپنے دین اور ایمان کی طاقت کے ذریعے راہ راست پہ لے آتی ہیں،یہ عورت ہے کہ جو معاشرے میں صحیح اور سالم فرزند مھیا کرتی ہے ، یہ عورت گھر کی چاردیواری میں رہ کر وہ عظیم ذمہ داری ادا کرتی ہے کہ جو مرد میدان جنگ میں ادا نہیں کرسکتے یہی ایک شریف اور باسعادت انسان کی تربیت کرتی ہے ۔

ھاں اگریھی گوھر اپنی قیمت بھول کر گمراہ ہوجائے توپورے معاشرے کو گندا کردیتی ہے کہ جس کی گندکی بدبو کئی نسلوں تک آتی رہتی ہے ۔

آخر زمانہ میں عورتوں کا فساد پھیلانے میں بہت بڑا کردار ہے ۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :

کیف بِکم اذا فسدت’نسائکم وفَسَقَ شَبابُکم ولم تامروا بالمعروف بل امرتم بالمنکر ونهیتم عن المعروف واذا را یْتُم المعروفَ مُنْکِراً والمنکرَ معروفاً فقیل له:ویکون ذالک یارسول(ص) اللّه؟فقال(ص) :نَعَمْ ،وشَرٌ مِنْ ذالک( ۱۶۰ )

”کیا ہوگا کہ تمھاری عورتیںفاسد ہوجائیں اور تمھارے جوان فسق وفجور کرنے لگیںاورتم بھی امر باالمعروف کی جگہ امر باالمنکر اور معروف سے نھی کروگے ۔ معروف کو منکر جانواور منکر کو معروف سمجھو۔لوگوں نے سوال کیا : آیا ایسا بھی کبھی ہوگا ؟ آپ(ص) نے جواب دیا: ہاں اور اس سے بھی زیادہ برا ہوگا۔“

اذا شارکَت النِساءُ ازواجَهُنَّ فی التجارة حرصاً علی الدنیا( ۱۶۱ )

”جس وقت عورتیںدنیا کی حوس میں اپنے شوھروں کے ساتھ تجارتی معاملات میں شریک ہوجائیں۔“

آج کل توبات اس سے آگے بڑھ چکی ہے کہ اب تو خواتین مستقل طور پر سب سے علیحدہ ہوکراپنے لئے تجارت کرنے لگی ہیں اور یہ ایک عام سی بات بن چکی ہے ۔

ویَتَشَبَّهُ الرجالُ النساء والنساء بالرجال( ۱۶۲ )

”مرد خود کو عورتوں کی صورت میں اور عورتیںاپنے آپ کو مرد وں کی شکل میں ظاھر کریں۔“

ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:

سیکون فی آخرِاُمَّتِیْ رجالٌیرکب نسائُهم علی سروج کاشباه الرِّجال یَرْکبون علی المیاثر حتی یاتوا ابوابَ المساجدِنسائُهُمْ کاسیاتُ عاریاتٌ علی رُووسِهِنَّ کاسنِحَةِ البُخْتِ العجافِ لایَجِدْنَ رِیْحَ الْجَنَّة فالعَنُوْهنَّ فانهُنَّ ملعوناتٌ( ۱۶۳ )

”آخر زمانے میں کتنے ایسے مرد ہونگے کہ جن کی عورتیں مردوں کی طرح زینوں پر (گھوڑے کی زین سے مراد آجکل کی مرسوم سواریاں ھیں)سوار ہونگی تشک کے اوپر بیٹھیں گی اور مسجد تک آئیں گی ان کی عورتیںلباس پھننے کے باوجود عریاں نظر آئیں گی ان کے سر اونٹ کے کوھان کی طرح ہونگے وہ لوگ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گی

ان پر لعنت بھیجو کیونکہ وہ سب ملعون ھیں۔“

بات بالکل واضح ہے کہ آج کل کی عورتیںجس طرح مردوں سے برابری کے نام پر سڑکوں پر نکل آتی ھیں۔ ھرقدم پہ مردوں کے ساتھ رہنے کیلئے اپنے آپ کو ایک متمدن (اپنی دانست میں ) بنا کرپیش کرتی ہیں ایک طرف سے تو مردوں کی نقل میں انھی کارنگ اورڈھنگ اپنا لیتی ہیں، مثال کے طور پرایک ہی مورد لے لیجئے کہ بعض عورتوں نے اپنے بال اس طرح سے کٹوائی ھیںکہ پیچھے سے دیکھنے والا شک میں پڑ جاتا ہے کہ کوئی عورت ہے یا مرد اوراسی طرح سے بعض مرد بھی اپنے بال اتنے لمبے رکھنے لگے ھیںکہ کچھ لمحہ کوعقل مبھوت ہوجاتی ہے کہ مرد ہے یاعورت اور ایسی بے تحاشہ مثالیںاس بارے میں موجود ھیں۔

روایت میں زین اور تشک سے مراد آج کی مرسوم سوریاں ھیںکہ جو موٹر سائیکل اور کار وغیرہ کی صورت میں ھے ۔ اور کپڑے بھی ایسے ہی پھنے جانے لگے ھیںکہ جس سے پورا جسم عریان نظر آتا ہے ۔ اوریہ سب باتیںسرعام ھیںشاید ہی کوئی شخص ایسا ہوکہ جو حال حاضر میں ان تمام چیزوں کی موجودگی کا انکار کرے ۔انھی کپڑوں کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

لاتقوم الساعة حتی تظهر ثیابٌ تلبسها نساءٌ کاسٰاتٌ عاریاتٌ وتعلو التَّحوت الوُعُولَ( ۱۶۴ )

”قیامت برپا نھیںھوگی مگر اس وقت کہ جب ایسے لباس بنائے جائیں گے کہ

جن کوپھن کرعورتیںعریاں ہی رھیںگی اور اوباش لوگ شرفاء پر برتری حاصل کر لیںگے۔ “

ھاں!یہ انھی کپڑوں کی بات ہورھی ہے کہ جو سرعام بازاروں میں بک رہے ھیں۔ حتی خاندانی لوگ اورشرفاء کے درمیان میں بھی اس لباس کو بہت زیادہ مقبولیت ہے، ھرایک اس کو پھن کراپنے آپ کا زمانے کے ساتھ چلنے کا ثبوت دے رھا ہے ۔

واذا رایت المراة تصانع زوجها علی نکاح الرجال و رایت خیربیتٍ یساعد النساء علی فِسْقِهِنَّ( ۱۶۵ )

”جب دیکھو کہ عورت جانتے ہوئے کہ اس کاشوھر ہم جنسی کررھا ہے لیکن کچھ ظاہر نہ کرے ۔ اور دیکھو کہ اچھے اچھے گھروں میں عورت کو فاسقہ اور فاجرہ ہونے پر داد مل رھی ہو۔“

ھاں آجکل آزادی کے نام ھرشخص (بیوی اور شوھر) ایک دوسرے کے عیوب سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاتے ھیںتاکہ ھرایک اپنی اپنی حیوانی خواہشات پر بغیر کسی رکاوٹ کے عمل کرسکیں ۔ خداپرتوایمان چھوڑ ہی چکے ھیںدنیا کی رکاوٹوں کو آزادی کا نعرہ لگا کرراستہ سے ہٹا دیا ہے ۔

اذا رفعوا البنیان وشاوروا النسوانَ ویکثُرُ الاختلاط( ۱۶۶ )

”جب اونچی اونچی عمارتیںبننے لگیں، عورتوں سے مثورہ لیا جانے لگے عورتوں

اور مردوں کا محافل میں اختلاط بڑھ جائے۔“

عمارتیں بھی سبھی دیکھ رہے ھیں۔ عورتوں کے حقوق ( women Rigth ) کے نام پرھرجگہ عورتوں کو لایا جارہا ہے ۔ زندگی کے ھرشعبہ میں خواتین کو شامل کر لیا ہے صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ عورت اور مرد مساوی ہیں۔لیکن اس حقیقت اور واقعیت سے چشم پوشی کرلی ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت میں کچھ بنیادی فرق رکھا گیا ہے ۔ عورت کوخداوند متعال نے خاص نزاکت اور عفت کے ساتھ خلق کیا ہے اس کااصل حسن ہی اس کی حیا اور عفت ہے اور اگر اس حیا اورعفت کو اس سے چھین لیاجائے تو پھر وہ اپنے اس مقدس مقام سے گر پڑتی ہے کہ جس کیلئے اسے خلق کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اس کو اتنے مقدس رشتہ عطاھوئے ہیں مانند ماں،بھن،بیوی

حتی اس کی مثال ایسے لے لیںکہ جومرد بھی ان حیوانی شھوات کاشکار ہوں اورآئے دن مختلف عورتوں سے ان کے تعلقات رہتے ہوں لیکن وہی مرد کبھی بھی ایسی عورتوں کو اپنی بیوی اوراپنے بچوں کی ماں بنانا پسند نھیںکریںگے کیونکہ یہ عورت کہ جس کی زینت اس کی حیااورعفت میں تھی اب کھوچکی ہے ۔

اذا رایت المراة تقهُرُ زوجَهاویعمل مالایشتهی و تنفق علیه مِنْ کسبهافیرض بالدنیءِ من الطعام والشراب !“( ۱۶۷ )

”جب دیکھو کہ بیویاں اپنے شوھروں کے ساتھ بدزبانی کریںاور ان کی مرضی کے خلاف عمل کریں اپنے کمائی ہوئے پیسوں میں ان کو بخشیں اور ان کے شوھر بہت ہی معمولی سے مال ودولت کی وجہ سے ان کی بری عادتوں کو برداشت کریں۔“

اب یہی زمانہ ہے حتی وہ خواتین کہ جوصحیح راستہ سے بھی نوکریاں کرتی ھیں۔ مختلف دفتروں میں کام کرتی ھیںعام طور پر ان کا اخلاق اپنے شوھروں کے ساتھ حاکمانہ ہوتا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ بھی پیسہ کماکرلارھی ہیںاور ان کے شوھربھی اسی بات پر چپ ہوجاتے ہیں کہ چلوکچھ بھی سھی کماتو رھی ہے ۔

ایک اور اہم مسئلہ کہ جو ہمارے معاشرے میں عام ہے اور وہ ہے خواتین کاحکومت کرنا۔ اکثر محافل میں یہ بحث رہتی ہے کہ آیا کوئی عورت صدر یاوزیر اعظم بن سکتی ہے یا نہیں ؟ مغربی ممالک تو کیا مشرقی اور اسلامی ممالک میں بھی عورتوں کی حکومت رہتی چلی آرھی ہے ۔ کبھی کسی خطہ میں کبھی کسی ملک پر ۔ اس بارے میں ختمی مرتبت(ص) فرماتے ہیں:

لنْ یُفْلِحُ قَوْمٌ ولَّوا امرَهم امراةٌ( ۱۶۸ )

”وہ قوم کبھی بھی فلاح نھیںپاسکتی کہ جس کی رہبری کسی عورت کے ھاتھ میں ہو۔“

ایک اور مقام پر فرمایا:

لایُقَدِّس اللّه اُمَّةًقادتْهُمْ امراة( ۱۶۹ )

”خداوند کبھی اس قوم کو تقدس نہیں بخشے گا کہ جس کی رہبری کسی عورت کے پاس ہو۔“

یہ دنیاوی سیاستیںکہ جو چند سال اور چند ماہ سے زیادہ نھیںھوتیں،دنیا والے کیا کیا قربانیاں نھیںدیتے اس حکومت کے لئے ۔،انسان اپنے مطلب کی خاطر اور کرسی کی محبت میں ھرکام کرگزرتا ہے آج اگر ہمارے مفاد میں ہوجائے کہ کسی عورت کی رہبری قبول کرنی پڑے تو وہ بھی کرلیںگے ،اگر ہمارے مفاد میں ہوجائے کہ کسی کافر کو آکر اپنے سروں کاتاج بنائیںتو وقت کی ضرورت کا نام لیکر وہ بھی انجام دے لیںگے ، غرض یہ کہ یہ تمام چیزیںہمارے مفاد کے گرد گھومتی ہیں تو پھر نتیجہ واضح ہے کہ معاشرہ اور عوام کی فلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے کہ جب انسانی معیارات ختم ہوجائیں ”انسانیت کے حقو ق“ ایک نعرہ بن کررہ جائیں اور ھرطرف لوٹ مار کابازار گرم ہو،ھرشخص اپنی جیب گرم کرنے میں مصروف ہوجائے ۔ ھرایک کی یہ کوشش ہے کہ اس آتے ہوئے وقت سے پوری طرح سے فائدہ اٹھایاجائے تو چلو ہم بھی بہتی گنگا میں ھاتھ دھولیں۔ کاش کہ بات خالی ھاتھ دھونے کی ہوتی تو صبر آجاتا یھاں تو کئی مرتبہ پوراغوطہ لگانے کے باوجود بھی طبیعت سیرہوتی نظر نھیںآرھی ہے ۔

اسی بارے میں مولائے متقیان حضرت علی ں فرماتے ہیں:

اذا غلبتِ النساء علی الملکِ وغلَبْنَ کل امرءٍ فلایوتی الَّا مالَهُنَّ فیه هوی( ۱۷۰ )

”جب عورتیںحکومت پر غالب آجائیں اورھرمرد سے برتری لے جائیں اورسوائے ان کی مرضی کے کوئی کام نہ ہو۔“

ظاھر ہے وہ عورت کہ جو اگر گھر پہ غالب آجائے تو کسی کو اپنی مرضی کے بغیر ھلنے نھیںدیتی ہے تو وہ حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر کیسے کسی کو برداشت کرے گی ۔ اگرچہ یہ بات فقط خواتین سے مخصوص نھیںھے جو کوئی بھی خداوند سے دور ہوگا اس سے ایسی ہی توقعات کی جاسکتی ہیں۔اورعورتوں کو کہ جنھیں خاص مقدس اور محترم مقاصد کے لئے خلق کیا گیا ہے اپنے کمال کے راستہ کو چھوڑ کرجھنم پر چل نکلتی ھیںاور آخر میں اسی طرح سے گمراھی کے دلدل میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ایسی ہی عورتوں کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

تکون النسوةُ کاشفاتٍ عاریاتٍ متبرجاتٍ من الدین خارجاتٍ والی الفتن مائلاتٍ والی الشهواتِ واللذاتِ مسرعاتٍ للمحرماتِ مستحلاتٍ وفی جهنَّم خالداتٍ( ۱۷۱ )

”عورتیں عریاں ظاہر ہونگی ،اپنی زینتوں کو سب پر ظاھرکریںگی، دین سے خارج ہوجائیںگی ،شھوات اوردنیاوی لذتوں کے پیچھے جایا کریںگی اور حرام چیزوں کو اپنے اوپر حلال کریںگی اورھمیشہ ھمیشہ کیلئے جھنم کی آگ کا ایندھن بن جائیںگی۔“

آج یہ ساری باتیںعمل کی صورت میں ظاھر ہوچکی ہیں۔صرف ایک چیز کہ جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوسکی ہے وہ ان کاجھنم میں رہنا ہے ۔ اگر چہ کہ ایسے لوگوں کی جھنم کا آغاز ان کی دنیا ہی سے ہوجاتا ہے ۔ یہ لوگ اپنی زندگی ہی میں ایسی مشکلات کا شکا ر ہوجاتے ھیںکہ جس کے سبب ان کازندہ رہنا عذاب بن کر رہ جاتا ہے ،ان عورتوں پر

ایک ایساوقت آتا ہے کہ کوئی ان سے بات کرنے کو تیا نھیںرہتا ۔ یہی کتنا بڑا غذاب ہے ایسی عورت کے لئے کہ جوکل تک ہر محفل کی ز ینت بنا کرتی تھی آج کسی سے بات کرنے کے قابل نہ رہ پائے ۔

اس کے برعکس وہ لوگ کہ جو خداوند متعال کے عبادت گزارہوں جس قدر ان کی عمر میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ان کی عزت و احترام لوگوں کے درمیان بڑھتا رہتا ہے چاہے یہ کہ ان کی دینداری کی وجہ سے انھیں ناپسند بھی کیا جاتا ہو مگر برے وقتوں میں انھیںکے پاس پناہ لی جاتی ہے، ہاں ایسے موقع پر اگر یہ عورتیں پلٹ کرآنا چاہیں تو ممکن ہے انھیں بھی وہی جواب ملے کہ جو دریا میں غرق ہوتے وقت فرعون کو ملاتھا ۔

الئٰن وقد عصیت قبلُ وکنتَ من المفسدین ۔“( ۱۷۲ )

”اب جبکہ تم اس سے پہلے نافرمانی کرتے تھے اور فساد پھیلانے والوں میں سے تھے ۔“

آخر کار ایسی عورتیںوھاں جاپھنچیںگی کہ جس کی اطلاع ہمیں یوں دے دی گئی ہے ۔ ارشاد رب العزت ہے :

اذا راتهم من مکان بعید سمعوا لها تغیُّظاً وزفیراً واذا القُوا منها مکاناً ضیِّقاً مقرَّبین دَعَوا هنا لک ثبوراً( ۱۷۳ )

ترجمہ:”جب جھنم ان لوگوں کو دور سے دیکھے گی تو(جوش کہائے گی اور)یہ لوگ اس کے جوش وخروش کی آواز سنیں گے اور جب یہ لوگ زنجیر وں سے جکڑ کر اس کی تنگ جگہ میں جھونک دئے جائیں گے تو اس وقت موت کو پکاریں گے۔“

آخری زمانے کے علماء اور رہبر ان قوم کی خصوصیات

حضو اکرم (ص)کا فرمان ہے :

صنفان من الناس اذا صلحا صلح الناس واذا فسد ا فسد الناس : العلماء والامراء( ۱۷۴ )

”لوگوں میں سے دو صنفیں ایسی ھیںکہ اگر وہ اصلاح ہوجائیں تو لوگ بھی اصلاح ہوجائیں گے اور اگر فساد کرنے والے ہوجائیں تو لوگ بھی فساد کرنے والے ہوجائیں گے ایک عالم اور دوسرے رہبران قوم ۔“

ایک اور مقام پر ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں :

اذا کانت امراوکم اشرار کم واغنیائکم بُخلائکم وامورکم الیٰ نسائکم فبطن الارض خیرٌ من ظهرها ۔“( ۱۷۵ )

”جب تھارے رہبران تم میں سے بدترین لوگ ہوں اور تمھارے مالدار لوگ تم میں بخیل بن جائیںاور تمھارے کاموں کو تمھاری عورتیںچلائیں تو اس وقت زمین کے اندر رہنا اس کے اوپر رہنے سے بہتر ہے ۔ “

مراد واضح ہے کہ ایسی صورت میں مرجانا ہی بہتر ہے کیونکہ اس وقت کسی سے کسی نیکی کی امید نھیںکی جاسکتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں پورے معاشرے کا حساب و کتاب درہم برہم ہو کررہ جائے گا۔

پیغمبراسلام (ص)فرماتے ہیں:

ستکون علیکم ائمة یملکون علیکم ارزاقکم یحدثونکم فیکذبونکم لا یرضون منکم حتی تحسنوا قبیحهم وتصدِّقوا کِذْبَهُمْ ۔“( ۱۷۶ )

”تم پر ایسے حکومت کرنے والے مسلط ہوجائیںگے کہ جن کے ھاتھ میں تمھاری روزی ہوگی تم سے جھوٹ بولا کریںگے ۔ تم سے راضی نھیںھوں گے سوائے اس صورت میں کہ تم ان کے غلط کاموں کی تعریف کرو اور ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرو۔“

ظاھر ہے کہ جب معاشرے میں نااہل لوگ حکومت کریں گے تو چاپلوسی کا بازار گرم ہوجائے گا اورلوگ حقیقی معیار کو چھوڑ کرظاہری شان وشوکت سے مرعوب ہوکر ان ہی کے پیچھے چل پڑیں گے ۔

اسی طرح سے امام محمد باقر علیہ السلام نااہل اور جاہل علماء کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ”من افتی الناس بغیر علم ولاهدی من اللّه لعنة ملائکة الرحمة وملائکة العذاب ولحقه وِزرُ من عمل بِفتیاه( ۱۷۷ )

”جوکوئی بھی بغیر جانتے ہوئے فتوی دے تو رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت بھجیں گے ۔ اور ان کے فتوا پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی خود انھی کی گردن پر ہوگا ۔ “

اب ہوشیار رہنے کاوقت ہے کہ ہمیں علماء اہل علم اورجاہل علماء کے درمیان فرق رکھنا ہوگا ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم خود بھی اسی گناہ میں مبتلا ہوجائیں اورلوگوں کے درمیان غلط معیار بتلاکر مستحق عذاب بن جائیں۔

اس سلسلے میں اس سے زیادہ گفتگو کو جاری نھیںرکھنا ہے کیونکہ یہ ایک واضح سی بات ہے آج ہم مسلمان پورے دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی کفار غرب وشرق کے غلام بنے ہوئے ھیںوہ جیسے چاہتے ھیںہمیں چلاتے ہیں اسلامی مما لک کے مال ودولت کو لوٹتے ھیںمگر ہم زرہ برابر بھی کچھ نھیںکرپاتے کیونکہ ہماری حکومتیںانھی ظالموں اور کافروں سے وابستہ ھیں۔ اورجب تک یہ وابستگی اور خیانت جاری رہے گی مسلمان قومیں ذلیل ہوتی رھیں گی۔ اس سلسلے میں ایک آخری حدیث امیر المومنین علی ںسے نقل کرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ہیں:

”اذا خرج القائم ینتقم من اهل الفتوی بما لایعلمون فتعسالهم ولاتباعهم اوکان الدین ناقصاًفتمَّمُوه ام کان به عِوَ ج فقوموه ام هم

النَّاس بالخلاف فاطاعوه ام امر هم بالصواب فعصوه ام همَّ المختار فیما اوحِیَ الیه فذِّکره ام الدین لم یکتمل علی عهده فکمَّلوه ام جاء نبی بعده فاتبعوهُ“ (۱۷۸)

”جس وقت ہمارے قائم(عج) کاظھور ہوگا جو لوگ بغیر جانتے ہوئے (بغیر علم کے ) فتوی دیتے ہونگے ان سے انتقام لیںگے ۔ وای ہو ان پر اور ان کے پیرکاروں پر۔ آیا دین خدا ناقص تھا جوانھوں نے آکر کامل کیا؟ آیا دین خدا میں انحراف تھا جوانھوں نے آکرصحیح کیا؟ یا لوگ انحراف کی طرف جارہے تھے کہ جوان کی پیروی کی گئی ؟یالوگوں کو سچے راستے کی جانب رھنمائی کی گئی لیکن لوگوں نے مخالفت کی ؟ آیا رسول(ص) پرجووحی نازل ہوئی تھی وہ اس میں سے کچھ چھوڑ چکے تھے جوتم نے آکر یاد کرایا؟ یا رسول(ص) کے زمانے میں دین کامل نہیں ہوا تھا جو تم نے آکر مکمل کیا ؟آیا آپ(ص)کے بعد کوئی اور بھی پیغمبر آیا ہے کہ جس کی تم نے پیروی کی ہے ۔؟“

اس بیان امیر المومنین ںسے شک وشبھات رفع ہوجاتے ھیں۔ اگرچہ بظاھر امیرالمومنین ں اپنے زمانے کے حالات کو نظر میں رکھ کرفرمارہے ھیںمگر یہ معصوم(ع) کا قول قیامت تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے اورہمیں اس بات سے روکنا ہے کہ دین خدا وند متعال میں کسی بھی قسم کی جدیت اورردوبدل کی گنجائش نھیںھے ۔

عمومی علامات ظھور

نا گھانی موت اور ویرانی و بربادی

اس سلسلے میں اگرچہ روایات بہت کثرت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اختصار سے کام لیتے ہوئے اکثر علامات کو بیان کردیں۔

حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں:

اِنَّ عمران بیت المقدس خراب یثرب وخراب یثرب خروج الملحمة وخروج الملحمة فتح القسطنطنیه وفتح القسطنطنیه خروج الدَّجال ۔“( ۱۷۹ )

”بیت المقدس کے آباد ہوتے ہی مدینہ (یثرب) ویران ہوجائے گا اورمدینہ کے برباد ہونے سے جنگ شروع ہوجائے گی اس کے بعد قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا پھر دجال کا ظھورہوگا۔“

بیت المقدس کی آبادی تو اسرائیل کے ھاتھوں شروع ہوچکی ہے کہ جس کے بعد مدینہ کی بربادی اور پھر سفیان کا خروج کرنا ہے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

تکثرالبواسیر وموت الفجاةولجذام( ۱۸۰ )

”(جس وقت)بواسیراور اچانک موت اورجذام زیادہ ہوجائے ۔“

”واماالزوراء فتخرب من الوقایع والفتن واما واسط فیطغیٰ علیهاالماء وآذربیجان یهلک اهلها بالطاعون وامالموصل فیهلک

اهلها من الجوع والفلاء واما الحلب فتخرب من الصواعق و تخرب دمشق من شدةالقتل وامابیت المقدس فانه محفوظة لان فیه آثارالانبیاء“(۱۸۱)

”شھرزورا( فتنہ وفساد کی وجہ سے برباد ہوجائے گا شھر واسط (عراق)سیلاب میں بھرجائے گا آذربائیجان کے لوگ طاعون کی وجہ سے ہلاک ہوجائیںگے ،موصل (عراق) کے لوگ بھوک اورمھنگائی سے مرجائیںگے ، حلب(سوریہ)صاعقہ (آسمانی بلاووں ) کے سبب بر باد ہو جائے گا (دمشق )کشت وکشتار کی وجہ سے ویران ہوجائے گا ۔ لیکن بیت المقدس (یورشیلم ) پیغمبروں (ع) کی نشانیوں کے سبب امان میں رہے گا۔“

اس کے علاوہ اور بھی روایات میں ”صاعقہ“استعمال ہوا ہے ۔ یعنی آسمان سے گرنے والی بجلی ۔آج کی دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں ھیںجیسے طرح طرح کے میزائیل وغیرہ دور تک مارنے والی توپیں اورجنگی جھاز وغیرہ ۔ان میں سے ھرایک سوائے تباھی اوربربادی کے کچھ نھیںکرتا آج پوری دنیا میں ہم اس کی مثالیں اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ھیںاوران تمام ہتھیاروں میں دن بدن جدت آتی جارہی ہے ۔ اگر اپنے اطرف کے سیاسی حالات اورواقعات کونظر میں رکھیںتو یہ دن کوئی دور نہیں کہ جب ہمیں یہ واقعات رونما و ہوتے ہوئے نظر ائیں۔

مصر کے بارے میں روایات میں ملتا ہے :

”لایخرج اهل مصرمن مصرهم عدولهم ولکن یخرجهم نیلهم

هذا یغورفلاتبقیٰ منه قطرة“(۱۸۲)

”مصر کے لوگوں کو ان کے ملک سے کوئی بیرونی دشمن نھیںباھر نکالے گا بلکہ خود دریائے نیل ان کو باھر نکالے گا۔ اس کاپانی بالکل خشک ہوجائے گا اورحتی ایک قطرہ بھی اس میں باقی نہیں رہے گا۔“

رسول گرامی (ص)فرماتے ہیں:

وخراب مصر من جفاف النیل( ۱۸۳ )

”مصر دریائے نیل کے خشک ہونے سے برباد ہوجائے گا۔“

کوفہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے:

وینبثق الفرات حتی یدخل اذقة الکوفة وعقدالجسرممایلی اکرخ بمدینة بغداد ۔“( ۱۸۴ )

”فرات کے پانی میں طغیانی آجائے گی اور کوفہ کے گلی کوچوں میں پانی بھرجائے گا ۔ کرخ کے سامنے بغداد میں پل تعمیر کیا جائے گا ۔ “

یہ پانی کا طغیان کرنا ظاھراً ابھی تک واقع نہیں ہوا ہے لیکن بغداد میں کرخ کے سامنے پل تعمیر ہوچکا ہے ۔

آگ وآتش کاتباھی مچانا

حضور اکرم (ص)فرماتے ہیں:

یکون نار و دخان فی المشرق اربعین لیلة( ۱۸۵ )

”آتش اوردھواں مشرق سے چالیس دنوں تک نکلتا رہے گا ۔“

امام صادق ں فرماتے ہیں:

لاتقوم الساعة حتی تسیل وادمن اودیة الحجاز( ۱۸۶ )

”قیامت نھیںآئے گی مگر یہ کہ حجاز کی کسی ایک وادی سے آگ بھڑکے گی ۔“

سید الشھداء امام حسینں فرماتے ہیں:

اذا رائتم ناراًمن المشرق ثلاثة ایام اوسبعة فتوقعوا فرج آل محمد ان شاء اللّه( ۱۸۷ )

”جس وقت مشرق میں تین دن تک آگ دیکھو تو حضرت آل محمد(ص) کے فرج کے منتظر رہو انشاء اللہ ۔“

سورج اورچاند گھن

امام محمد باقرں فرماتے ہیں :

آیتان تکونان قبل قیام القائم لم یکونا مُنْذُ هبط آدم علیه

السلام علی الارض تنکسفُ الشمس فی النصف من رمضان والقمر فی آخره ۔“( ۱۸۸ )

”حضرت(عج) کے قیام سے پہلے دونشانیاں ظاہر ہونگی کہ جو حضرت آدم(ع) سے لے کر اب تک ظاہر نہیں ہوئی ہونگیں۔ رمضان کے درمیان میں سورج اورآخر رمضان میں چاند کا گرھن لگنا ۔“

اس بارے میں اور بہت سی روایات ھیںاگرچہ کہ بعض روایات میں سورج اور چاند گرھن کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان تمام روایات کو اگر مجموعی طور پر دیکھیںتو ایک بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک ہی رمضان میں چاند اور سورج گرھن دونوں کو گرھن لگنا اگرچہ کہ خلاف عادت ہے لیکن اس کا واقع ہونا حتمی ہے ۔

زلزلے

رسول اکرم (ص)فرماتے ہیں:

وتکثرالزلازل( ۱۸۹ )

”بہت زیادہ زلزلہ آنے لگ جائیں۔“

اورایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

” ثم رجفة بالشام یهلک فیهامئة الف یجعلها اللّه رحمة

للمومنین و عذاباً علی الکافرین “(۱۹۰)

”سرزمین شام میں زلزلہ آئے گا کہ جس کی وجہ سے ایک لاکھ آدمی مارے جائیںگے خداوند متعال اس زلزلے کو مومنین کے لئے رحمت اورکافروں کے لئے عذاب قرار دے گا ۔ “

البتہ واضح رہے کہ شام سے مراد فقط شھر دمشق مراد نھیںھے بلکہ اس کے اطراف میں لبنان وغیرہ کا علاقہ بھی شامل ہوتا ہے ۔

آسمانی ندا

حضرت ختمی مرتبت (ص)فرماتے ہیں:

وینادی منادٍمن السماء اِنَّ امیرُکم فلانٌ وذلک هو المهدی( ۱۹۱ )

”منادی آسمان سے آواز لگائے گا ۔ تمھارا سردار فلان ہے اور وہ مھدی آخرالزمان (عج) ہونگے ۔“

امیر المومنین علی بن ابی طالب ں فرماتے ہیں:

اذانادی منادٍمن السماء اِنَّ الحق فی آل محمد فعند ذلک یظهر المهدی علی افواه الناس ویشربون حبَّه ولایکون لهم ذکرٌغیره( ۱۹۲ )

”جس وقت منادی آسمان سے آواز دے گا کہ حق آل محمد(ص) کے ساتھ ہے ۔ حضرت مھدی (عج) کا نام لوگوں کی زبان پر جاری ہوجائے گا ۔ اور ان کی محبت دلوں میں اجاگر ہوجائے گی اور ان کی یاد کے علاوہ کوئی کام باقی نھیںرہے گا ۔“

اگرچہ اس بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ھیں۔ اوریہ ایک مسلم بات ہے کہ آپ(عج) کے ظھور کے وقت ندا لگائی جائے گی اورپوری دنیا میں یہ آواز سنی جائے گی یہاں تک کہ کوئی بھی شخص اس دنیا میں ایسا باقی نہیں رہے گاکہ جواس آواز کو نہ سن سکے اور پوری کائنات کے لوگوں پر اس وقت اتمام حجت ہوجائے گی اوریہ وہ وقت ہوگا کہ جب دنیا میں صرف دوگروہ رہ جائیں گے ایک حق اور دوسرا باطل پر ہوگا۔ جو کوئی بھی حضرت ( عج ) کے ہم رکاب ہوگا وہ حق پر ہوگا ۔ اورجوآپ (عج)کی امامت اورولایت کو قبول نھیںکرے گا وہ باطل پر ہوگا کہ جس کی سزا سوائے عبرت ناک موت کے کچھ نہ ہوگی ۔

جنگیں اور فسادات

اس بارے میں رسول اکرم (ص)فرماتے ہیں:

ینزَّل علی امتی بلاءٌ لم یسمع ببلاءٍ اشد منه فی تضیق بهم الارض الرّحبةّ “َ( ۱۹۳ )

”میری امت پرایسی بلاء نازل ہوگی کہ جو اس سے پہلے نھیںسنی گئی ہوگی ۔ حتی اتنی بڑی دنیا بھی امتیوں کے لئے تنگ ہوکر رہ جائی گی ۔“

آج ہم دیکھ رہے ھیںکہ حق ایسا ہی ہے ۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے اور ھرطرف سے انکو تعصب کی عینک سے دیکھا جارہا ہے حتی آج مسلمان کو اپنے ملکوں میں بھی امان نہیں ہے ان کو مختلف بھانوں سے دربدری اٹھانی پڑرھی ہے ۔حتی اسلامی حکومتیںبھی استعمار کے چنگل سے آزاد نہیں ہے۔ اورآج وہی ہورھا ہے کہ جو دنیا کی استعماری اور طاغوتی طاقتیں چاہ رھی ھیں۔ جنگ بھی ان کے ھاتھ میں ہے اور امن بھی، وہ جس طرح سے چاہتے ہیں عمل کرتے اور کرواتے ھیں۔

انھیں طاقتوں کے بارے میں ارشاد ختمی مرتبت (ص)ھے کہ:

” یکون قوم فی آخرالزمان یخضبون بهذا لسواد کحواصل الطیور لا یریحون ریح الجنة ۔“( ۱۹۴ )

”آخر زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی کہ جو اس زمین کو خون سے رنگین کردے گی ،ماؤں کے پیٹ کو مرغی کے پیٹ کی طرح کاٹا کرے گی ۔ ایسی قوم ہرگز جنت کی خوشبو بھی حاصل نھیںکرسکتی ۔“

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:

ویومئذٍیکون اختلاف کثیر فی الارض وفتن ویصبح الزمان مکلحاًمفصحاً یشتدّ فیه البلاد وینقطع فیه الرجاء ۔“( ۱۹۵ )

”اور اس وقت اختلافات اورفتنہ گری بہت بڑھ چکی ہوگی مشکلات اور قحط ہر طرف چھا چکاھوگا۔ شھروں پر مصبتیں ٹوٹ رھی ہونگی اور امیدیں ختم ہوچکی ہونگیں۔“

اسی سلسلے میں پیغمبر (ص)ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:

لتاتینکم بعدی اربع فتن الاولیٰ تستحل فیها الدماء والثانیه تستحل فیهاالدماء والاموال والثالثة تستحل فیها الدماء والاموال والفروج الرابعة صمَّاء عمیاء مطبقة تحور مور السفینة فی البحر حتی لایجد احدٌ من الناس مسلما تطیر بالشام وتعشٰی العراق وتخبط الجزیرة یدها ورجلها یعرک الانام البلاء فیها عَرْک الادیم لایستطیعُ احد ان یقول فیها مه مه ! لاترفعونها ناحیة الَّا انفتقت من ناحیةٍ اخری( ۱۹۶ )

”میرے بعد چار فتنہ برپا ہونگے ۔پھلے میں خون بھانہ مباح ہوجائے گا ۔ دوسرے میں خون اورمال مباح ہوجائے گا اورتیسرے میں خون اورمال اورعصمت مباح ہوجائے گی ، اور چوتھے میں ایسا اندھا آشوب بپا ہوگا کہ جو پوری دنیا کو اس طرح مضطرب کردے گاجیسے کوئی بہت بڑا بحری جھاز اپنے چاروں طرف کے پانی کو مضطرب کردیتا ہے ۔ یہ فتنہ شام پر چھاجائے گا اور عراق کواپنی لپیٹ میں لے لیگا اورجزیرة العرب (حجاز) میں ھاتھ پاؤں چلائے گا۔لوگ ان حادثات کی تلخی کو اس طرح احساس کریں گے جیسے دباغی کرتے جسم پر فشارپڑتا ہے ۔ کسی میں بھی ایک جملہ بات کرنے کی بھی جرات نہ ہوگی یہ فتنہ ابھی ایک جگہ ختم نہیں ہوگا مگر یہ کہ کسی دوسرے مقام پر برپا ہوجائے ۔“

ان تمام فتنوں کے آثار ہم پوری دنیا پر دیکھ رہے ھیںجو کوئی بھی ہے اپنی طاقت سے زور آزمائی میں لگا ہواہے ۔ طاغوتی قوتیںاپنی طاقت کا استعمال کرتی ھیںجھاں چاہتے ہیں روندتے ہوئے چلے جاتے ھیں۔

اسی بارے میں امیر المومنین علی بن ابی طالبں فرماتے ہیں:

تخرب سمرقندوجاح وخوارزم والبصرة وبلخ من العراق والهند من تبَّت وتبَّت من الصین وکرمان وبعض الشام لبنابک الخیل والتقل والیمن من الجراد والسلطان وسجستان وبعض الشام بالزنج وشامان بالطاعون ومرو بالرمل وهراة بالحيَّات و مصر من انقطاع النیل وآذربیجان لبنانک الخیل والصواعق و البخاریٰ بالغرق والجوع وبغداد یصیرعالیها سافله( ۱۹۷ )

”سمرقند ،جاح خوارزم ، بصرہ اور بلخ سیلاب کی وجہ سے ویران ہوجائیںگے ھند تبّتیوں کے ھاتھوں اور تبت چین کی وجہ سے نابود ہوجائے گا ۔ کرمان اورشام کاکچھ حصہ گھوڑوں کی ٹاپوںاورقتل وغارت کی وجہ سے برباد ہوجائے گا ۔ یمن ٹڈوں اور بادشاھوں کے ظلم کی وجہ سے نابود ہوجائے گا ۔ سجستان اور شام کا بعض حصہ زنجیوں کے ھاتھوں ،شام طاعون کے سبب ، مرو(مشھد) طوفان کی وجہ سے ھرات سانپوں کے ذریعہ، مصر دریائے نیل کے خشک ہوجانے کے سبب،آذربائیجان گھوڑوں کی ٹانپوں اور صاعقہ (گولہ باری ) کی وجہ سے برباد ہوجائے گا ۔ بخارا میں بھوک اور سیلاب سے تباھی

سے تباھی آئے گی اور بغداد الٹ پلٹ ہوکررہ جائے گا۔“

قتل وغارت کے سبب قتل ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں امیر المومنین (ع)علیہ السلام فرماتے ہیں:

لایقوم حتی یقتل الثلث ویموت الثلث ویبقی الثلث( ۱۹۸ )

”اما م(عج) قیام نھیںکریںگے یھاں تک کہ دوتھائی لوگ مارے جاچکے ہوں اور فقط ایک تھائی لوگ بچے ہوئے ہوں ۔“

امام محمد باقر ںاس بارے میں فرماتے ہیں:

لایکون هذا الامر حتی یذهب ثلثاً الناس فقال:اصحابه من یبقی فقال اما ترضون ان تکونوا من ثلث الباقی ؟( ۱۹۹ )

”یہ امر(ظھور) انجام نھیںپائے گا مگر اس وقت کہ دوتھائی لوگ مرچکے ہوں گے ، اصحاب نے عرض کیا :پھر کون لوگ باقی بچیں گے ۔ آپ (ع) نے فرمایا:آیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ تم لوگ باقی ایک تھائی میں سے ہو؟۔“

جھوٹے دعویداروں کے بارے میں امام جعفر صادق ںفرماتے ہیں:

کل را یة ترفع قبل قیام القائم فصاحبها طاغوت یعبد من دون اللّه عزوجلّ “َ( ۲۰۰ )

”جوپرچم بھی حضرت (عج) کے قیام سے پہلے بلند ہوگا اس کا بلند کرنے والاطاغوت ہوگا کہ جوخداوند کے علاوہ کسی اورکی پرستش کرتا ہوگا ۔“

اس بارے میں ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:

کل بیعة قبل ظهور القائم فبیعة کفر ونفاق وحذیعةٍ( ۲۰۱ )

”جو بیعت بھی حضرت(عج) کے قیام سے پہلے لی جائے گی وہ کفر ونفاق اور دھوکہ بازی کی بیعت ہوگی ۔“

رسول (ص)خدا فرماتے ہیں:

” خروج الثلاثة السفیانی والخراسانی والیمانی فی سنة واحدة فی شهر واحد فی یوم واحد ولیس فیها من رایة اهدیٰ من رایة الیمانی لانه ید عو ا الی الحق( ۲۰۲ )

”تین پرچم ایک سال ایک مھنے اورایک دن قیام کریںگے سفیانی ، خراسانی اور یمانی اور ان سب میں سب سے زیادہ خالص پرچم یمانی کا ہوگا کہ جوحق کی طرف دعوت دے گا ۔“

امام صادق ں اس یمنی شخص کے نسب کے بارے میں فرماتے ہیں:

خروج رجل من ولدٍ عمی زید بالیمن( ۲۰۳ )

”ایک آدمی ہمارے چچا زید کی اولاد میں سے یمن سے قیام کرے گا۔“

رسول خدا (ص)اس لشکر یمانی کی تعریف میں فرماتے ہیں:

” الیمانی یتولیٰ علیاً الیمانی والسفیانی کفرسی رهان( ۲۰۴ )

”یمانی علی بن ابی طالبں کے شیعوں میں سے ہوگا ۔ یمانی اور سفیانی کا قیام دوریس کے گھوڑوں کی مانند ہوگا ۔“

رسول خدا (ص)سید ھاشمی کے خروج کے بارے میں فرماتے ہیں:

یخرج بقزوین رجل اسمه اسم نبی یسرع الناس الی طاعته المشرک والمومن یملاالجبال خوفاً( ۲۰۵ )

”ایک شخص قزوین سے قیام کرے گا کہ جوکسی پیغمبر کے ھمنام ہوگا مشرک اور مومن اس کی اطاعت کریںگے پہاڑوں اور چٹانوں کو اپنے رعب سے وحشت زدہ کردے گا۔“

نفس ذکیہ کے قتل کے بارے میں رسول خدا (ص)فرماتے ہیں:

انَّ المهدی لایخرج حتی تقتل النفس الذکیه فاذا قتلت النفس الذکیه غضب علیهم من فی السماء ومن فی الارض فاتیٰ الناس المهدی فرفوَّه کماتذف العروس الی زوجها لیلة عُرسها( ۲۰۶ )

”امام مھدی (عج ) قیام نہیں کریں گے حتی یہ کہ نفس زکیہ کو مارا جائے اورجب نفس زکیہ کو ماردیا جائے گاتو اس وقت زمین اور آسمان پررھنے والے غضبناک ہوجائیں گے اور پھر امام مھدی (عج)کا قیام شروع ہوگا ۔ اور لوگ حضرت ولی عصر(عج) کے گرد اس طرح سے جمع ہوجائیں گے جیسے شادی کی رات دلھن کے گرد لوگ جمع ہوجاتے ھیں۔“

امام محمد باقرں اس بارے میں فرماتے ہیں:

وقتل غلام من آل محمد بین الرکن والمقام اسمه محمد بن الحسن النفس الزکیه( ۲۰۷ )

”آل محمد(ص) سے ایک جوان رکن اورمقام کے درمیان مارا جائے گا اس کانام محمد حسن نفس زکیہ ہوگا۔“

اماصادق ںفرماتے ہیں:

لیس بین القائم وقتل النفس الزکیه سوی خمس عشرة لیلة( ۲۰۸ )

”حضرت حجت(عج) اورنفس زکیہ کے قتل میں صرف پندرہ ( ۱۵) دنوں کا فاصلہ ہے۔“

بھرحال ہم نے کوشش کی ہے کہ اختصار سے کام لیتے ہوئے اکثر مشھور روایات کہ جن میں حتمی نشانیاں بیان ہوئی ھیں۔ حضرت حجت(عج) کے ظھور کی آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں۔ آخر میں حضرت حجت (عج) کے ظھور کی دعا کو ان الفاظ میں کرکے اپنی گفتگو کو تمام کرتے ہیں:

اللّهم اجعلنا من اصحاب مولانا صاحب العصر والزمان الامان الامان من فتنة الزمان اللّهم صلی علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم الشریف ۔“

منابع :

( ۱) الائمة الاثنا عشر :شمس الدین محمد بن طولون،طبع ۱۹۵۸ قاھرہ

( ۲) اثبات الھداة:شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۱۳۹۹ ھ۔ قم

( ۳) اثبات الوصیة:علی بن حسین مسعودی طبع نجف اشرف

( ۴) احتجاج طبرسی :ابو منصور احمد بن علی طبرسی(رہ) ،طبع ۱۴۰۱ ھ بیروت

( ۵) احقا ق الحق:قاضی نور اللہ شو شتری(رہ) ،طبع قم

( ۶) اختصاص :شیخ مفید (رہ) ، طبع قم

( ۷) اختیار معرفة الرجال : شیخ طوسی (رہ) ،طبع مشھد یونیور سیٹی

( ۸) اربعین : شیخ بھائی ، ۱۳۵۷ ھ ش ،طبع تبریز

( ۹) ارشاد : شیخ مفید (رہ) محمد بن محمد بن نعمان ،طبع ۱۳۹۹ قم

( ۱۰) ازالة الغین: حیدر علی فیض آبادی ،طبع دھلی

( ۱۱) اسعاف الراغبین : محمد بن صبان مصری شافعی ،حاشیہ نور الابصار

( ۱۲) اصول کافی: محمد بن یعقوب کلینی (رہ)،طبع بیروت

( ۱۳) الاعلام : خیر الدین زرکلی ،طبع ۱۹۸۰ بیروت

( ۱۴) اعلام الوریٰ : امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی،طبع ۱۳۹۹ ھ بیرو ت

( ۱۵) اعیان الشیعہ : سید محسن جبل عاملی (رہ) ،طبع لبنان

( ۱۶) الایضاح : شیخ مفید(رہ) ،طبع تھران

( ۱۷) الزام الناصب :شیخ علی یزدی ،طبع بیروت

( ۱۸) الامالی : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۴۰۰ ھ بیروت

( ۱۹) الامامة والتبصرة:علی بن حسین بابویہ قمی(رہ) ،طبع ۱۴۰۷ ھ بیروت

( ۲۰) الایضاح : فضل بن شاذان،طبع ۱۳۶۳ ھ ش تھران

( ۲۱) بحار الانوار: علامہ مجلسی (رہ) ،طبع تھران

( ۲۲) البرہان : سید ھاشم بحرانی ،طبع تھران

( ۲۳) البیان فی اخبار صاحب الزمان : محمد بن یوسف گنجی شافعی،طبع ۱۳۹۹ ھ بیروت

( ۲۴) تاریخ الخلفاء :جلال الدین سیوطی ،طبع قاھرہ

( ۲۵) تذکرة الخواص : سبط ابن جوزی،طبع ۱۳۸۳ طبع نجف اشرف

( ۲۶) تفسیر صافی : فیض کاشانی ،طبع ۱۳۹۹ ھ بیروت

( ۲۷) تفسیر عیاشی : محمد بن مسعود بن عیاش سلمی ،طبع ۱۳۸۰ ھ تھران

( ۲۸) تفسیر قمی : علی بن ابراھیم ،طبع ۱۴۰۴ ھ قم

( ۲۹) تنقح المقال: شیخ عبدا۔۔۔مامقانی،طبع نجف اشرف

( ۳۰) الثاقب فی المناقب :،طبع ۱۴۱۲ قم

( ۳۱) ثواب الاعمال : شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۶۴ ھ ش قم

( ۳۲) جوھر الکلام : محمود بن وہیب قراغلی بغدادی حنفی

( ۳۳) حیلة الابرار : سید ھاشم بحرانی ،طبع سنگی

( ۳۴) الدر المنثور : سیوطی ،طبع ۱۴ ۱۳ ھ قاھرہ

( ۳۵) دلائل الامامة : ابو جعفر محمد بن جریر طبری

( ۳۶) الذخیرہ فی الکلام : سید مر تضی علم الھدیٰ ،طبع ۱۴۱۱ ھ قم

( ۳۷) الذریعہ الی تصانیف الشیعہ : شیخ آغا بزرگ تھرانی ،طبع بیروت

( ۳۸) روح المعانی : سید محمود آلوسی ، طبع بیروت

( ۳۹) روز گار رھائی،کامل سلیمان :ترجمہ علی اکبر مھدی پور ،طبع سوم تھران

( ۴۰) روضةالواعظین : ابن قتال نیشا پوری ،طبع سنگی ۱۳۰۳ ھ تھران

( ۴۱) سفینة البحا ر : شیخ عباس قمی ،طبع ۱۵ ۱۴ ھ قم

( ۴۲) سنن ابن ماجہ :حافظ ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی ،طبع ۱۳۹۵ ھ بیروت

( ۴۳) سنن ترمذی : ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورہ ،طبع بیروت

( ۴۴) شرح نہج البلاغہ :ابن ابی الحدید ،طبع قاھرہ

( ۴۵) شواھد التنزیل :عبیداللہ بن عبد اللہ حسکانی ،طبع ۹۳ ۱۳ ھ بیروت

( ۴۶) صحیح بخاری :ابو عبد اللہ محمدبن اسماعیل بن ابراھیم ،طبع مصر

( ۴۷) صحیح مسلم :مسلم بن حجاج نیشاپوری ،طبع بیروت

( ۴۸) الصواعق المحرقہ: احمد بن حجر ھیشمی مکی ،طبع ۱۳۱۴ ،طبع قاھرہ

( ۴۹) الطبقات الکبریٰ :محمد بن سعد کاتب واقدی ،طبع ۱۴۰۵ ھ بیروت

( ۵۰) علل الشرائع :شیخ صدوق (رہ) ،طبع ۱۳۸۵ ھ نجف اشرف

( ۵۱) عھدین :طبع انجمن پخش کتب مقدسہ ۱۹۶۹ لندن

( ۵۲) عیون الاخبار :شیخ صدوق(رہ) ،طبع ۱۳۹۰ ھ نجف اشرف

( ۵۳) الغدیر: علامہ امینی (رہ) طبع کویت

( ۵۴) غیبت شیخ طوسی(رہ) :طبع نجف اشرف،و طبع جدید قم

( ۵۵) غیبت نعمانی:طبع ۱۳۹۷ ھ تھران

( ۵۶) فرائدالسمطین :ابراھیم بن محمد بن مویّد جوینی ،طبع ۱۳۹۸ ھ بیروت

( ۵۷) فرھنگ معین :محمد معین ،طبع تھران

( ۵۸) الفصول المھمہ :ابن صباغ مالکی ،طبع نجف اشرف

( ۵۹) فھرست شیخ طوسی (رہ) :طبع ۱۴۰۳ ھ بیروت

( ۶۰) قاموس الرجال :شیخ محمد تقی شوشتری

( ۶۱) الکامل فی التاریخ :ابن ابی اثیر شیبانی ،طبع بیروت

( ۶۲) کشف الغمہ :علی بن عیسیٰ اربلی طبع بیروت

( ۶۳) کفایة الاثر : علی بن محمد بن علی خرّازی،طبع ۱۴۰۱ ھ۔قم

( ۶۴) کمال الدین : شیخ صدوق (رہ)،طبع ۱۳۹۵ ھ تھران

( ۶۵) کنز الدقائق :محمد رضا مشھدی ،طبع ۱۰ ۱۴ ھ تھران

( ۶۶) کنزل العمال :متقی ھندی ،طبع ۱۳۹۹ ھ طبع سنگی تبریز

( ۶۷) لسان العرب :ابن منظور،طبع ۱۴۰۸ ھ بیروت

( ۶۸) مستدرک صحیحین : حاکم نیشاپوری ،طبع بیروت

( ۶۹) مستدرک وسائل : میرزا حسین نوری ،طبع قم

( ۷۰) مسند احمد حنبل : ،طبع ۱۳۱۳ ھ قاھرہ

( ۷۱) مناقب آل ابی طالب :ابن شھر آشوب، طبع بیروت

( ۷۲) منتخب الاثر : حاج شیخ لطف اللہ صافی ،طبع قم

( ۷۳) نجم الثاقب :میرزا حسین نوری ،طبع تھران

( ۷۴) نہج البلاغہ : سید رضی تحقیق صبحی صالحی، طبع بیروت

( ۷۵) وسائل الشیعہ : شیخ حر عاملی(رہ) ،طبع ۳۰ جلدی قم

( ۷۶) ینابیع المودة : سلیمان بن ابراھیم قندوزی حنفی

( ۷۷) الیواقیت والجواھر : عبد الوھاب شعرانی ،طبع قاھرہ

( ۷۸) تحف العقول عن آل الرسول (ع):حسن بن علی حرانی، طبع بیروت ۱۹۶۹ ھ

( ۷۹) جامع احادیث شیعہ:طباطبائی بروجردی ،طبع تھران ۱۳۸۰ ھ

( ۸۰) مجمع البحرین : ،طبع ۸۱ ۱۳ ھ نجف اشرف

( ۸۱) کتاب الفتن: سلسلی ،طبع ۱۹۶۳ ھ نجف اشرف

( ۸۲) المحجة البیضاء :محمد بن مرتضیٰ کاشانی

( ۸۳) المھدی: سید صدر الدین صدر ،طبع ۵۸ ۱۳ ھ ایران

( ۸۴) نہج الفصاحہ: ،طبع ۱۳۴۱ ھ ایران

( ۸۵) نوائب الدھور فی علائم الظھور:محمد بن حسن مھاجری جر قوئی ،طبع ۱۳۸۳ ھ تھرا ن

( ۸۶) ترجمہ قرآن : مرحوم علامہ ذیشان حیدر جوادی(رہ)

۸۷ ۔او خواھد آمد :علی اکبر مھدی پور، طبع انتشارات رسالت ۲۰۰۰ قم

( ۸۸) تقریب المعارف:ابوالکلام تقی حلبی ،طبع ۱۷ ۱۴ ھ قم

____________________

(۱۳۲) ارشاد مفیدص۳۳۶ منتخب الاثرص ۴۵۵بحارج۵۲ ص۲۰۶الزام الناصب ص۱۸۱

(۱۳۳) اعلام الوری ص۴۲۶،ارشادمفید ص۳۳۶،منتخب الاثرص۴۵۵،بحار ج۵۲ص۲۰۶۔

(۱۳۴) بحارج ۵۲ ص۲۰۴،۲۰۹،۳۰۴،ا علام الوری ص۴۲۶،بشارةالاسلام۱۴۰،ارشادمفید ص ۶ ۳۳ ، منتخب الاثرص۴۵۲،۴۵۸۔

(۱۳۵) بشارةالاسلام ص۷۴،الزام الناصب ص۱۹۴،۲۰۳،۲۰۹۔

(۱۳۶) الملاحم والفتن ص۱۰۲۔

(۱۳۷) الزام لناصب ص ۱۹۴،۲۰۴،۲۰۹و۲۱۳۔

(۱۳۸) الزام الناصب ص۲۱۳۔

(۱۳۹) بشارةالاسلام ص ۵۸،۶۷،۷۳؛الزام الناصب ص۱۷۶؛بحار الانوار ج۲ ۵ ص ۳ ۷ ۲ ، ج ۵۳ ص۸۲۔

(۱۴۰) صحیح بخاری ج ۳ ص ۴۹۔

(۱۴۱) منتخب الاثرص ۴۳۸۔

(۱۴۲) نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰۔

(۱۴۳) بشارة الاسلام ص۲۶

(۱۴۴) نہج الفصاحة ج۲ص۵۰۰و۵۱۷ ۔

(۱۴۵) نہج الفصاحة ج۱ص۲۱۶،ج۲ص۵۱۰

(۱۴۶) الحاوی للفتاوی ج۲ص۱۵۹/منتخب الاثرص ۴۳۷

(۱۴۷) بشارة الاسلام ص۷۶الزام الناصب ص۱۲۱و۱۹۵۔

(۱۴۸) بحار الانوار ج ۵۲ص۱۳۹۔

(۱۴۹) بحار الانوار ج۵۲ص۲۶۴

(۱۵۰) منتخب الاثر ص۲۹۳بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۶،۲۶۴۔

(۱۵۱) بحار الانوار ج ۵۲/ص۲۶۵۔

(۱۵۲) نہج الفصاحةج۲ص۵۳۳۔

(۱۵۳) نہج الفصاحةج۲ص۶۳۸۔

(۱۵۴) نہج الفصاحةج۲ص۴۷۳بشارة الاسلام ص/۲۳۔

(۱۵۵) کشف الغمة ج ۳ص۳۲۴منتخب الاثرص۴۳۵

(۱۵۶) منتخب الاثر ص۴۲بحار ج ۵ص۷۰، ج۵۲ص۱۹۲،۲۲۸۔

(۱۵۷) بحار الانوار ج ۵۲ص۲۵۷۔

(۱۵۸) الزام الناصب ص۱۹۵بشارة الاسلام ص۷۷۔

(۱۵۹) بحار لانوارج ۵۱ص۷۰، ج۵۲ص۷۰،ج ۵۲ ص ۲۵۶منتخب الاثر ص۴۲۰الزام الناصب ص۱۸۳۔

(۱۶۰) منتخب الاثر ص۴۲۶الزام الناصب ۱۸۰ تحف العقول ص۴۱۔

(۱۶۱) منتخب الاثر ص۴۲۸الزام الناصب ۱۸۲۔

(۱۶۲) منتخب الاثر ص۲۹۲،المحجةالبیضاء ج۳ص۳۴۲،اعلام الوری ص۴۳۳،المھدی ص۱۹۹۔

(۱۶۳) صحیح مسلم ج ۶ص۱۶۸۔

(۱۶۴) منتخب الاثر ص۴۲۶۔

(۱۶۵) بحار ج ۵۲ص۲۵۷منتخب الاثرص۴۲۹۔

(۱۶۶) بحارالانوارج۵۲ ص۲۶۳الزام الناصب ص۱۸۱المھدی ص۱۹۹۔

(۱۶۷) بحار ج ۵۲ص۲۵۷،منتخب الاثر ص۴۳۰،الزام الناصب ص۱۸۳،بشارة الاسلام ص۱۳۳۔

(۱۶۸) صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵/تحف العقول ص۳۰۔

(۱۶۹) صحیح بخاری ج ۹ص ۵۵ت/تحف العقول ص۳۰۔

(۱۷۰) بحار لانوارج ۵ص۲۵۹،بشارة الاسلام ص۱۳۴،الزام الناصب ص۱۸۴۔

(۱۷۱) منتخب الاثر ص۴۲۶

(۱۷۲) سورةیونس آیت /۹۱۔

(۱۷۳) سورةفرقان/ ۱۲،۱۳۔

(۱۷۴) نہج الفصاحة ج ۲ ص۳۹۳ تحف العقول ص۴۲۔

(۱۷۵) نہج الفصاحة ج ۱ص۴۵۔

(۱۷۶) بحارالانوار ج ۵۲ص۲۱۲۔

(۱۷۷) وسائل الشیعہ ج ۱۸ص۹۔

(۱۷۸) الزام الناصب ص۱۰۸۔

(۱۷۹) البیان والتبین ج ۳ص۳۲۔

(۱۸۰) بحاالانوار ج ۵۲ص۲۶۹۔

(۱۸۱) الزام الناصب ص۱۷۶،بشارةالاسلام ص۵۸۔

(۱۸۲) الملاحم والفتن ص۱۴۶۔

(۱۸۳) بشارة الاسلام ص۲۸۔

(۱۸۴) بحارالانوار ج۵۳ص۸۵،ارشادمفیدص۳۳۶،بشارة الاسلام ص۱۷۶۔

(۱۸۵) الملاحم والفتن ص۷۱۔

(۱۸۶) الملاحم والفتن ص۱۳۰۔

(۱۸۷) المجةالبیضاء ج۴ص۳۴۳۔

(۱۸۸) الامام المھدی ص۲۲۷۔

(۱۸۹) بشارة الاسلام ص۳۲۔

(۱۹۰) غیبت شیخ طوسی(رہ) ص۲۷۷۔

(۱۹۱) بشارة الاسلام ص۱۷۷۔

(۱۹۲) کشف الغمہ ج۳ص۳۲۴،منتخب الاثر ص۱۶۳۔

(۱۹۳) المھدی (عج) ص۲۲۱۔

(۱۹۴) صحیح مسلم ج ۸ص۱۷۲۔

(۱۹۵) بشارةالاسلام ص۱۷۵،الزام الناصب ص۱۸۵۔

(۱۹۶) الملاحم والفتن ص۱۷۔

(۱۹۷) بشارة الاسلام ص۴۳۔

(۱۹۸) منتخب الاثر ص۴۵۳۔

(۱۹۹) بحارالانوار ج۵۲ص۱۱۳۔

(۲۰۰) بحارالانوار ج ۵۲ص۱۴۳،غیبت نعمانی ص۵۶،وسائل الشیعہ ج ۱۱ص۳۷۔

(۲۰۱) بشارة الاسلام ص۲۶۸۔

(۲۰۲) ارشاد مفیدص۳۳۹،بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۰۔

(۲۰۳) نورالابصارص۱۷۲،بشارة الاسلام ص۱۷۵۔

(۲۰۴) غیبت نعمانی ص۱۲۳،بحارالانوار ج۵۲ص۲۷۵۔

(۲۰۵) بحارالانوار ج۵۲ص۲۱۳۔

(۲۰۶) بشارة الاسلام ص۱۸۳،الملاحم والفتن ص۱۱۳۔

(۲۰۷) بشارة الاسلام ص۴۹۔

(۲۰۸) منتخب الاثر ص۴۳۹،بحار الانوار ج ۵۲ ص۲۰۳،اعلام الوری ص۴۲۷۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16