اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27060
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27060 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

وجود خدا پر قرآنی آیات

قارئین کرام ! آئےے قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں خداوندعالم کے وجود کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ درج ذیل آیات میں حیوانات کی خلقت اور دوسرے دقیق نظام کو بیان کیا گیا ہے جن کے مطالعہ کے بعد انسان کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ حساب شدہ نظام یونھی اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوا۔

ارشاد خداوندی ہوتا ہے:

( وَاللّٰهُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّاءٍ فَمِنْهُمْ مَنْ یَمْشِیْ عَلٰی بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی رِجْلَیْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ یَّمْشِیْ عَلٰی اٴَرْبَعٍ یَخْلُقُ اللّٰهَ مَایَشَآءُ ) ( ۱۴ )

”اور خدا ہی نے تمام زمین پر چلنے والے (جانوروں) کو پانی سے پیدا کیا اوران میں سے بعض تو ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو دو پاؤں سے چلتے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو چار پاؤں پر چلتے ہیں ، خدا جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔“

( وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالاٴنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ ) ( ۱۵ )

”اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چار پایوں کی بھی رنگتیں طرح طرح کی ہیں“

( وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الاٴرْضِ وَلَا طٰٓٓائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلاّٰ اُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ( ۱۶ )

”زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ہے ان کی بھی تمھاری طرح جماعتیں ہیں“

( اَوَلَمْ یَرَوا اِلٰی الطَّیْرِ فَوْقَهُمْ صٰفٰتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُهُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ) ( ۱۷ )

”کیا ان لوگوں نے اپنے سروں پر پرندوں کو اڑتے نہیں دیکھا جو پروں کو پھیلائے رہتے ہیں اور سمیٹ لیتے ہیں کہ خدا کے سوا انھیں کوئی روکے نہیں رہ سکتا“

( وَالْاَنْعَامِ خَلَقَهَا لَکُمْ فِیْهَا دَفْ ء ٌوَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْکُلُوْنَ o وَلَکُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تَرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرِحُوْنَ o وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَمْ تَکُوْنُوْا بَالِغَیْهِ اِلَّا بِشَقِّ الْاَنْفُسْ اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَو فٌ رَحِیْمْ o وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْهَا وَزِیْنَةً وَیَخْلُقُ مَا لٰا تَعْلَمُوْنَ ) ( ۱۸ )

”اسی نے چار پایوں کو بھی پیداکیا کہ تمھارے لئے ان (کی کھال اور اُون ) سے جاڑوں (کاسامان) ہے اس کے علاوہ اور بھی فائدے ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو اور جب تم انھیں سرِشام چرائی پر سے لاتے ہو جب سویرے ہی چرائی پر لے جاتے ہو تو ان کی وجہ سے تمھاری رونق بھی ہے اور جن شھروں تک بغیر بڑی جان کپھی کے پہنچ نہ سکتے تھے وھاں تک یہ چوپائے تمھارے بوجھ اٹھائے لئے پھرتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ تمھاراپروردگار بڑا شفیق مھربان ہے اور (اسی نے) گھوڑوں ،خچروں اور گدھوں کو( پیدا کیا)تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (اس میں) زینت (بھی) ہے (اس کے علاوہ) اور چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم نہیں جانتے“

اقسام حیوانات

ماھرین علم نے حیوانوں کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں، اور ان حیوانوں کے رہنے کی جگہ بھی مختلف ہے مثلاً: خشکی، دریا جن میں مختلف حیوانات رہتے ہیں اور ان حیوانات کے مختلف طریقوں کے ساتھ ایک بہت بڑا اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ ہر حیوان اپنی زندگی کے لئے ایک مخصوص گھر بناتا ہے او ران کی غذا بھی مختلف ہوتی ہے۔

یہ منھ ھاضمہ کے لئے سب سے پہلا مرحلہ ہے اور اس کے لئے ایک عظیم فکر کی گئی ہے جو فکر وتصمیم گیری کرنے والے اور ان چیزوں کے خلق کرنے والے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

ان حیوانات میں کچھ ایسے ہیں جو صحرائی اور جنگلی ہوتے ہیں جیسے شیر اور بھیڑئے ، ان کے لئے وھاں کوئی غذا نہیں ہوتی مگر جس کا وہ شکار کرلیں چنانچہ ان کے لئے تیز اور سخت دانت اور بہت طاقتور ھاتھ اورپیروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ شکار کرسکیں ،اسی طرح ان کے لئے پنجوںمیں طاقتور ناخن اور قوی ھاضمہ کا ہونا ضروری ہے تاکہ گوشت اور اپنے سخت کھانے کو ہضم کرسکےں۔

اور کچھ حیوانات ایسے ہیں جو چراگاہ میں زندگی گذارتے ہیں جن سے انسان خدمت لیتا ہے انسان ان کے قوام کے لئے نباتات اور چھوٹے چھوٹے درختوں اور گھاس وغیرہ کے ذریعہ غذا فراہم کرتا ہے، چنانچہ ان کے ھاضمہ کاسسٹم ان کے جسم کے لحاظ سے بنایا گیا ہے ،اسی وجہ سے ان کے منھ نسبتاً بڑے ہوتے ہیں، لیکن ان کا منھ کچھ مخصوص دانتوں سے خالی ہوتا ہے، جن کے بدلے ان کو اللہ نے ایسے دانت دئے ہیں جن کے ذریعہ مختلف درختوں اور گھاس وغیرہ کو بہت جلد کھا جاتے ہیں، اور اس کو ایک دفعہ میں نگل جاتے ہیں لیکن اس کے ہضم کے لئے عجیب مشین موجود ہے ،وہ جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ معدہ میں جاتا ہے جو کھانے کا مخزن ہے اور جب حیوان کھانا کھالیتا ہے اور آرام کے لئے بیٹھتا ہے تو پھر یہ کھانا معدہ سے ایک دوسرے” تجویف“نامی جگہ کی طرف چلا جاتا ہے اور پھراس معدہ کے منھ تک آتا ہے تاکہ ا سکو اچھی طرح کوٹ لے اس کے بعد پھر ایک دوسری تجویف میں چلا جاتا ہے اور پھر چوتھی بار بھی اسی طرح ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام فعالیت حیوان کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ حیوان کے جسم کے لئے جگالی کرنا نھایت ضروری اور حیاتی ہے کیونکہ گھاس کا ہضم ہونا ایک مشکل کام ہے کیونکہ اس میں ایسے اجزاء اور سلیلوز ہوتے ہیں جن پر سبزی کے خلیے کے غلاف ہوتے ہیںجن کو ہضم کرنے کے لئے حیوان کو کافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اب اگر یہ حیوان جگالی نہ کرے اور اس کے لئے حیوان کے پاس مخزن نہ ہو تو اس صورت میں حیوان کا چارہ چرنے میں کافی وقت ضایع ہوگا یھاں تک وہ صبح سے شام تک بھی چرتا رھے گا تب بھی پیٹ نہ بھرے گالہٰذا حیوان کی غذا ہضم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا مخزن ہو جس میں وہ اپنی غذا کو جگالی کے ذریعہ تحلیل کرے تاکہ بدہضمی کا شکار نہ ہو اور یہ غذا اس کے لئے سود مند ثابت رھے۔

لیکن پرندوں کے ھاضمہ کا سسٹم مذکورہ حیوانوں سے بالکل الگ ہوتاھے کیونکہ ہر پرندہ کی صرف ایک چونچ ہوتی ہے جس میں ہڈی نما دانت بھی ہوتے اوران کے نہ منھ ہوتا ہے اورنہ ہونٹ ہوتے ہیں چنانچہ پرندہ غذا کو بغیر چبائے کھاتا ہے۔

ان پرندوں کی غذا کی طرح ان کی چونچ بھی الگ الگ طرح کی ہوتی ہیں ان میں جو شکاری پرندے ہوتے ہیں ان کی چونچ قوی اور لمبی ہوتی ہے تاکہ گوشت کو خوب کوٹ لیں اور ”بطخ“ اور” ہنس“ کی چوڑی چونچ ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنی غذا مٹی اور پانی دونوں سے تلاش کرسکیں اور چونچ کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی کچھ اضافی چیز بھی ہوتی ہے (جس طرح چھوٹے چھوٹے دانت) جو ان کی غذا کے کاٹنے میں مدد کرتی ہیں لیکن چڑیا ،کبوتر اور دوسرے پرندوں کی چونچ چھوٹی ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے ہدف تک پهونچ سکیں۔

ان کے علاوہ بھی ہم اس مخلوقات کی عظیم او رمنظم چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں مثلاً حیوانات کے پیر، جن کی وجہ سے حیوان چلتا پھرتا، دوڑتااور بوجھ اٹھاتا ہے، کیونکہ یھی پیر حیوان کو تیز دوڑنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں اورحیوان کے ہر پیر میںکُھر ہوتے ہیں جو دوڑتے وقت احتمالی ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں۔

لیکن گائے اور بھینس کے پیر چھوٹے اور مضبوط ہوتے ہیںجن میں کھُر ہوتے ہیں جو زراعتی اور نرم زمین پر چلنے میں مدد کرتے ہیں، اسی طرح اونٹ کے پیر اس قسم کے ہوتے ہیں جو اس کو ریت پر چلنے میں مدد کرتے ہیں اسی طرح اس کے پیروں پر موٹی اورسخت کھال ہوتی ہے جو اس کو کنکریوں اور ریت پر بیٹھنے میں مدد کرتی ہے۔

اسی طرح پرندوں کے پیر بھی ان کی طبیعت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ ان میں سے بعض گوشت خوار ہوتے ہیں اور ان کے پنچے سخت او رمضبوط ہوتے ہیں تاکہ وہ شکار کرنے میں ان کی مدد کریں جیسے باز اور گدھ،لیکن وہ پرندے جو اناج اور دیگر دانے وغیرہ کھاتے ہیں جیسے مرغ اور کبوتر ان کے پنچوں میں ا یسے ناخن ہوتے ہیں جن سے صرف زمین کھود سکتے ہیں (تاکہ اس میں چھپے دانوں کو نکال سکےں)، لیکن وہ حیوانات جو اپنی غذا پانی میں تلاش کرنے پر مجبور ہیں ان کی انگلیوں کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پانی میں تیر کر اپنی غذا تلاش کرتے ہیں۔

اسی طرح انھی عجیب وغریب خلقت میں سے مینڈھک کی خلقت بھی ہے ، کیونکہ اس کی زبان دوسرے زندہ موجودات سے لمبی ہوتی ہے اور اس کی لمبائی اس کے قدکے نصف ہوتی ہے اور اس میں چپک ہوتی ہے جس سے وہ مکھیوں کا آسانی سے شکار کرتا ہے، کیونکہ مینڈھک بالکل کوئی حرکت نہیں کرتا مگر یہ کہ مکھی اس کے قریب ہوجائے اور جب زبان باھر نکالتا ہے تو اپنے سامنے موجود مکھیوں کا شکار کرلیتا ہے۔

اور واقعاً مینڈھک میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ اگر اس میں وہ گردن نہ ہوتی جس سے وہ اپنے سر کو حرکت دے کر اپنے اطراف میں دیکھتا ہے تو پھر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں جو چاروں جانب (گردن کے حرکت کرنے کی بنا پر) حرکت کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! آج کے سائنس نے یہ بات کشف کی ہے کہ اکثر پستاندار " Mammals "حیوانات میں” قوہ شامہ“ (سونگھنے کی قوت)قوی ہوتی ہے برخلاف قوت باصرہ کے، جبکہ پرندوں میں دیکھنے کی قوت زیادہ تیز اور قوی ہوتی ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ حیوانات کی غذا معمولاً زمین پر ہوتی ہے اور وہ اس کو سونگھ کر حاصل کرسکتے ہیں لیکن پرندے معمولاً آسمان میں پرواز کرتے ہیں لہٰذا ان کو اپنی غذا کی تلاش میں تیز آنکھوں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ دور سے اپنی غذا کو دیکھ سکیں۔

لیکن ”مُحّار“(ایک دریائی حیوان) جس کی آنکھیں ہماری طرح ہوتی ہیں البتہ ہماری صرف دو آنکھیں ہوتی ہیں لیکن اس کی کئی عدد ہوتی ہیں اور ان میں لاتعداد چھوٹی چھوتی پتلیاں ہوتی ہیں جن کا احصاء ممکن نہیں ، اور کھا یہ جاتا ہے کہ ان کی مدد سے داہنے سے اوپر کی طر ف دیکھ سکتی ہیں، اور چھوٹی چھوٹی پتلیاں انسانی آنکھوں میں نہیں پائی جاتیں، تو کیا یہ پتلیاں اس محار میں اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ اس میں انسان کی طرح سوچنے کی صلاحیت نہیں ہوتی؟ اسی طرح کھا یہ جاتا ہے کہ بعض حیوانوں میں دو آنکھیں اور بعض میں ہزار آنکھیں ہوتی ہیں جو سب کی سب الگ ہوتی ہیں تو کیا طبیعت علم مرئیات میں اتنے عظیم مرتبہ پر فائز ہے۔؟! یعنی کیا یہ تمام کی تمام دقیق اور حساب شدہ چیزیں بغیر کسی خالق کے وجود میں آسکتی ہیں؟!!

اسی طرح مچھلی میں عجیب وغریب حس پائی جاتی ہے جس کی بنا پر دریاؤں کے پتھروں اور دوسری چیزوں سے نہیں ٹکراتی ، چنانچہ بعض ماھرین نے اس سلسلہ میں غور وخوض کرکے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ مچھلی کے دونوں طرف ایک طولانی خط (لکیر) ہوتا ہے ، جبکہ یہ خط اتنا باریک ہوتا ہے کہ صرف دوربین ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس میں قوت حس کے بہت سے اعضاء ہوتے ہیں چنانچہ مچھلی انھیں کے ذریعہ پتھر یا کسی دوسری چیز کا احساس کرلیتی ہے جب پانی پتھروں اور دوسری چیزوں سے ٹکراتا ہے اور یہ پتھر وغیرہ کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دیتی ہے۔

اسی طرح چمگادڑکی خلقت بھی کتنی عجیب وغریب ہے جیسا کہ ماھرین نے اس پر توجہ دلائی ہے، یہ چمگادڑ رات میں اڑتا ہے لیکن اپنے راستہ میں کسی مکان ، درخت یا کسی دوسری چیز سے نہیں ٹکراتا،چنانچہ اٹلی کے ایک ماھراور سائنسداں نے اس کی قدرت کے سلسلہ میں تحقیق کی، اس نے ایک کمرے میں کچھ رسیاں باندھیں، ہر رسی میں ایک چھوٹی گھنٹی باندھی کہ اگر رسی سے کوئی بھی چیز ٹکرائے تو وہ گھنٹی بجنے لگے ، اس کے بعد اس نے کمرے کو بالکل بند کردیا اور اس میں چمگادڑ کو چھوڑ دیا چنانچہ چمگادڑ اس کمرے میں اڑنے لگا لیکن کسی بھی گھنٹی کی کوئی آواز سنائی نہ دی، یعنی وہ کسی بھی رسی سے نہیں ٹکرایا ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چمگادڑ میں ایسی طاقت ہوتی ہے کہ جب وہ اڑتاھے تو اس کے اندر سے ایک ایسی آواز نکلتی ہے جو کسی بھی چیز سے ٹکراکر واپس آتی ہے اور اسی واپس آئی آواز کے ذریعہ وہ اس چیز کا احساس کرلیتا ہے ، پس ثابت یہ ہوا کہ اس کے احساس کا طریقہ بالکل ”راڈار“ کی طرح ہے۔

اسی طرح اونٹ کی خلقت بھی بڑی عجیب ہے،چنانچہ اس کو خدا کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

( اٴفَلاٰ یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ ) ( ۱۹ )

”تو کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف غور نہیں کرتے کہ کیسا (عجیب) پیدا کیا گیا ہے“

چونکہ اونٹ کی زندگی زیادہ تر جنگل اور ریگستان میں بسر ہوتی ہے چنانچہ خداوندعالم نے اس کو ایسا خلق کیا ہے جس سے وہ ایک طولانی مدت تک بغیر کچھ کھائے پئے رہ سکے، اور اپنی بھوک وپیاس پر کافی کنٹرول رکھ سکے۔

اسی طرح اونٹ کی لمبی اور گھنی پلکیں ہوتی ہیں جن کی بنا پر شدید طوفان او رآندھی میں بھی اپنی آنکھیں کھولے رکھتا ہے اور اس کی آنکھیں محفوظ رہتی ہیں ، اور جس طرح ہم آندھی کے وقت اپنی آنکھوں کے بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں وہ اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر مجبور نہیں ہوتا۔

اسی طرح اس کے پاؤں اس طرح نرم ہوتے ہیں جن سے وہ ریت پر آسانی سے چل سکتا ہے اور اس کے پیر ریت اور ریگستان میں نہیں دھنستے، اور اس کی ناک بھی آندھی کے وقت کھلی رہتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی گرد وغبار نہیں جاتا، اور اس کا اوپر والا ہونٹ نکلا ہوا ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ کانٹوں والی گھاس وغیرہ کا آسانی سے پتہ لگاسکے۔

اسی طرح چیونٹی کی خلقت بھی کتنی عجیب ہے چنانچہ چیونٹی میں بہت سی خدا کی نشانیاں بتائی جاتی ہیں، کیونکہ اس میں فہم وادراک، صبراور احساس اس قدر ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے چھوٹے سے جسم اور حجم کو دیکھنے کے بعد نہیں سمجھ سکتا، اور شاید آج کی بہت سی جدید چیزیں اسی میں غور وفکر کرنے سے وجود میں آئی ہیں کیونکہ اس کی خلقت میں بہت ہی دقت اور نظم وترتیب کا لحاظ رکھاگیا ہے۔

چنانچہ بعض چیونٹی سردی کے زمانہ میں دوسری ان چیونٹیوں کے لئے کھانے دانے کا انتظام کرتی ہیں جو باھر نہیں نکل سکتیں، اسی طرح ان میں سے بعض وہ ہوتی ہیں جو دانوں کاآٹا بناتی ہیںاور وہ ہمہ وقت اسی کام میں مشغول رہتی ہیں۔

اور بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی فطرت میں کھانا کھانے کا مخصوص گھر بنانے کا میلان ہوتا ہے ، جن کو کھانے کا باغیچہ کھا جاسکتا ہے اور وھاں پر مختلف کیڑے مکوڑوں کا شکار کرکے لاتی ہیںاور وھاں پر آرام سے بیٹھ کر کھاتی ہیںان میں سے بعض ان شکار شدہ کیڑے مکوڑوں کے اندر سے ایک طریقہ کا رس نکالتی ہیں جو شہد کے مشابہ ہوتا ہے تاکہ اس کا کھاتے وقت مزہ لیں۔

اسی طرح ان میں سے بعض وہ بھی ہوتی ہیں جو اپنے گروہ کوایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور ان میں محافظ کا کام کرتی ہیں ، نیز بعض چیونٹیاں اپنے لئے گھر بنانے کی ذمہ داری نبھاتی ہیں جبکہ دوسری چیونٹیاں اس طرح کے پتّے کاٹتی ہیں جو ان کے اندازہ کے مطابق ہوتے ہیں،اور ان میں سے بعض اپنے گھر کے اردگرد پھرہ داری کرتی ہیں۔

قارئین کرام ! ان تمام تفصیلات کے پیش نظر کیا مادہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اتنی دقیق چیزوں کو پیدا کرے جن میں ایک چیونٹی بھی ہے جو اتنے دقیق حساب وکتاب سے رہتی ہے؟

پس ان تمام چیزوں کے پیش نظر حیوانات قابل توجہ ہیں چنانچہ قرآن مجید نے اس بارے میں پہلے ہی بیان کردیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

( حَتَّی إِذَا اٴَتَوْا عَلَی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ یَااٴَیُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لاَیَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ ) ( ۲۰ )

”یھاں تک کہ جب (ایک دن) چیونٹیوںکے میدان میں آنکلے توایک چیونٹی بولی اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمھیں روند ڈالے اور انھیں خبر بھی نہ ہو۔“

اس کے صدیوں بعد کھیں علم نے ان حقائق اور معلومات کو ثابت کیا ہے۔

قارئین کرام ! مذکورہ حیوانات کے علاوہ اور بھی بہت سی مختلف قسم کے حیوانات اور جانور ہوتے ہیں،مثلاً یھی مرغ جس سے ہم زیادہ سروکار رکھتے ہیں ان کی آواز بھی مختلف ہوتی ہے چنانچہ جب مرغی چھوٹے بچوں کو دانے ملنے کی بعد آواز لگاتی ہے تو اس کی آواز اور ہوتی ہے اسی طرح جب ان کو اپنے گھر کی طرف بلاتی ہے تو اس کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔

اسی طرح شہد کی مکھی جب کھیں پھولوں والی زمین میں جاتی ہے تو اپنے ایک خاص انداز میں گھومتی ہے جیسے انگریزی میں "۸"کا ہوتا ہے اور پھول میں شہد ہوتا ہے تو اس کو حاصل کرلیتی ہے۔

چنانچہ ایک ماھر دانشور جس نے چیونٹی کے متعلق تحقیق کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے ایک چیونٹی کو اپنے بل سے دور دیکھا جس نے اپنے ڈنک سے ایک مکھی کاشکار کیا اور اس کو تھوڑی دیر کے لئے وھیں پر ڈال دیا تقریباً بیس منٹ بعد جب اس کومکھی کے مرنے کا یقین ہوگیا تو اس کو اٹھاکر اپنے بل کی طرف چلنا شروع کیا ، لیکن جب اس میں لے جانے کی طاقت نہ رھی تو اس نے تنھا جاکراپنے ساتھیوں کو باخبر کیا تو ان چیونٹیوں کا ایک گروہ اس کے ساتھ نکلا یھاں تک کہ سب نے مل کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے اور پھر سبھوں نے اس کے مختلف اجزاء کو اٹھایا،اور اپنے بل میں لے گئیں، اب یھاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ پہلی چیونٹی ،تنھا بغیر کچھ لئے اپنے بل میں گئی تو اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کو دیکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اس شکار کے بارے میںمعلوم ہوتا تو پھر اس چیونٹی نے دوسری چیونٹیوں کو کس زبان میں باخبر کیا کہ میںنے ایک بہترین شکار کیا ہے آؤ مدد کرو تاکہ اس کو اپنے بل میں لے آئیں۔(پس معلوم ہوا کہ ان کی بھی ایک خاص زبان ہے جس سے وہ سمجھتی اور سمجھاتی ہیں)۔

اسی طرح آپ ھاتھی کی خلقت پر غور کریں تو اس میں بھی عجیب وغریب قدرت کے آثار ملاحظہ کریں گے مثلاًھاتھیوں کا جھنڈ جب ایک ساتھ چلتا ہے تو ان کے درمیان سے مسلسل ہمہمہ کی آواز آتی رہتی ہے لیکن جب یھی ھاتھی اپنے گروہ سے جدا ہوکر الگ الگ چلتے ہیں توان کی وہ آواز ختم ہوجاتی ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟!۔

اسی طرح جناب کوے کی آواز کس قدر مختلف اور بامفهوم ہوتی ہے چنانچہ وہ خطرہ کے وقت رونے جیسی آواز نکالتا ہے تاکہ اس کے دوسرے ساتھی خطر ہ سے مطلع ہوجائیں ، اور یھی کوا جب کوئی خوشی کامقام دیکھتا ہے تو ایسی آواز نکالتا ہے جو قہقہہ اور ہنسی سے مشابہت رکھتی ہے۔

قارئین کرام ! حیوانات میں کوئی ایسی زبان نہیں ہے جس کو سب سمجھتے ہوں ، بلکہ ان میں سے ہر صنف کی الگ الگ زبان ہوتی ہے، مثلاً آپ مکڑی کو دیکھیں ، یہ جب جالا بناتی ہے تو اس جالے کے تار ان کے درمیان گفتگو کاوسیلہ بنتے ہیں، چنانچہ کھا جاتا ہے کہ جب جالے کے ایک طرف مذکر اور دوسری طرف مونث ہو تو اسی جالے کے تارکے ذریعہ ان کے درمیان تبادلہ خیالات ہوتا ہے،اور اس کی مادہ اپنے شوھر کے استقبال کے لئے اسی جالے کے تار کے ذریعہ رابطہ قائم کرتی ہے، جس طرح آج کل فون کے ذریعہ گفتگو کی جاتی ہے۔

اور جب ہم مرغی کو دیکھتے ہیں تو اس کے اندر الٰھی شاہکار کی بہت سی عحیب وغریب نشانیاں پاتے ہیں، چنانچہ ہمارے لئے درج ذیل حقائق پر نظرکرکے خالق خائنات کی معرفت حاصل کرنا ہی کافی ہے:

ایک امریکی ماھر نے مرغی کے انڈے سے بغیر مرغی کے بچہ نکالنا چاھا ،چنانچہ اس نے انڈے کو ایک مناسب حرارت (گرمی) میں رکھا ، جس مقدار میں مرغی انڈے کو حرارت پهونچاتی ہے ، لہٰذا اس نے چند عدد انڈوں کو جمع کرکے ایک مشین میں رکھا ،وھاں موجود ایک کاشتکار نے اس کو بتایا کہ انڈوں کو الٹتا پلٹتا رھے، کیونکہ اس نے مرغی کو دیکھا ہے کہ وہ انڈوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ہے، لیکن اس ماھر نے اس کاشتکار کا مذاق اڑاتے ہوئے کھا کہ مرغی اس لئے انڈے کو بدلتی ہے تاکہ اپنے جسم کی گرمی انڈے تک پهونچاتی رھے،الغرض اس نے انڈوں کو چاروں طرف سے حرارت پهونچانے والی مشین میں رکھا لیکن جب انڈوں سے بچے نکلنے کا وقت آیا تو کوئی بھی انڈا نہ پھٹا تاکہ اس سے بچہ نکلتا، (وہ حیران ہوگیا) اور دوبارہ اس نے کاشتکار کے کہنے کے مطابق انڈوں کو مشین میں رکھ کر بچے نکلنے کی مدت تک ان کو الٹتا پلٹتا رھا، چنانچہ جب ان کا وقت آیا تو انڈے پھٹ گئے اور ان سے بچے نکل آئے۔

مرغی کے انڈوں سے بچے نکلنے میں الٹ پلٹ کرنے کی ایک دوسری علمی وجہ یہ ہے کہ جب انڈے کے اندربچہ بن جاتا ہے تو اس کی غذائی موادنیچے کے حصہ میں چلی جاتی ہے اب اگر اس کو مرغی نہ گہمائے تو وہ انڈا پھٹ جائے ، یھی وجہ ہے کہ مرغی پہلے اور آخری دن انڈوں کو نہیں پلٹتی کیونکہ اس وقت پلٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، پس کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ان اسرار کو وہ بغیر کسی الٰھی الھام کے سمجھتی ہے، جس کے سمجھنے سے انسان بھی قاصر ہے؟

چنانچہ یھی الٰھی الھام ہے جس کی بنا پر پانی میں رہنے والے جانور بالخصوص سانپ اپنی جگہ سے ہجرت کرکے دور درازگھرے سمندروں میں جیسے ”جنوبی برمودا “ چلے جاتے ہیں ، پس یہ کتنی عجیب مخلوق ہے کہ جب ان کا رشد ونمو مکمل ہوجاتا ہے تو دریاؤں سے ہجرت کرکے مذکورہ سمندروں میں چلے جاتے ہیں ،وھیں انڈے دیتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد مرجاتے ہیں لیکن ان کے بچے جو اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ کو نہیں پہنچانتے یہ لوگ اس راستہ کی تلاش میں رہتے ہیںکہ جدھر سے ان کے والدین آئے تھے، اس کے بعد سمندری طوفان اور تھپیڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے آبائی وطن پهونچ جاتے ہیں اور جب ان کا رشد ونمومکمل ہوجاتا ہے تو ان کو ایک مخفی الھام ہوتا ہے کہ وہ جھاں پیدا ہوئے تھے وھی جائیں ، لہٰذا ان چیزوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کون سی طاقت ہے جو ان کو اس طرح کا الھام عطا کرتی ہے؟!، چنانچہ یہ کھیں نہیں سنا گیا ہے کہ امریکی سمندروں کے سانپ یورپی سمندر میں شکار کئے گئے ہوں، یا اس کے برعکس، اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ یورپی سانپوں کا رشد دیگر سانپوںکی بنسبت ایک سال یا اس سے زیادہ کم ہوتا ہے، کیونکہ یہ لوگ طولانی مسافت طے کرتے ہیں۔

بھرحال ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سانپوں کے اندر یہ طاقت اور فکرکھاںسے آئی جس کی بناپر یہ سب اپنی سمت، سمندر کی گھرائی وغیرہ کو معین کرتے ہیں،لہٰذا کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب ”بے جان مادہ“کی مخلوق ہیں؟!!

اسی طرح الٰھی الھام کی وجہ سے مختلف پرندے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے والدین کی طرح اپنے لئے الگ آشیانہ بناتے ہیں اور وہ بھی بالکل اسی طرح جس میں وہ رہتے چلے آئے ہیں، یعنی ان کے گھونسلوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

یھی الٰھی الھام ہے کہ جس کی بنا پر بعض حیوانات کے اجزاء کٹنے یا جلنے کے بعد دوبارہ اسی طرح سے بن جاتے ہیں، مثلاًجب سمندری سرطان (کیکڑا) اپنے جسم کے پنجوں کو ضائع کربیٹھتا ہے تو جلد ہی ان خلیوں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کے پنجوں کی جگہ کام کریں اور جب خلیے بھی ناکارہ ہوجاتے ہیں تووہ سمجھ جاتا ہے کہ اب ہمارے آرام کرنے کا وقت آپہنچاھے، اور یھی حال پانی میں رہنے والے دیگر جانوروں کا بھی ہے۔

اسی طرح ایک دریائی حیوان جس کو ”کثیر الارجل“(بہت سے پیر والا)کہتے ہیں اگر اس کے دوحصہ بھی کردئے جائیں تو اس میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ اپنے باقی آدھے حصے سے دوسرا حصہ بھی مکمل کرلے۔

اسی طرح ”دودة الطعم“نامی کیڑے کی اگر گردن کاٹ دی جائے تووہ اس سر کے بدلے میں ایک دوسرا سر بنا لیتا ہے، جس طرح جب ہمارے جسم پر کوئی زخم ہوجاتا ہے یا گوشت کا ٹکڑا الگ ہوجاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ صحیح ہوجاتا ہے اور جب یہ زخم بھرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ خلیے کس طریقہ سے حرکت کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں نیا گوشت، نئی ہڈی اور نئے ناخن یا کوئی دوسرا جز بن جاتا ہے۔

قارئین کرام ! حشرات کی دنیا بھی کیا چیز ہے چنانچہ اس میں غور وفکر کرنے کے بعد انسان کو تعجب ہوتاھے، اور شاید ان کی ”شناخت غرائز“ کے بعد ان کی تفصیل ہمارے سامنے مجسم ہوجائے۔

کیونکہ ”ابو دقیق “ حشرہ جو کرم کلے (بندگوبھی) میں پایا جاتا ہے اور اس میں انڈے دیتا ہے جبکہ وہ بند گوبھی کو نہیں کھاتا لیکن اس کے اندر ایک ایسا غریزہ ہوتا ہے جس کی بناپر اس کا انتخاب کرتا ہے ، چنانچہ جب اس کے انڈوں سے بچے نکلتے ہیں وہ بند گوبھی کو کھاجاتے ہیں ، پس معلوم یہ ہوا کہ یہ کیڑاانڈے دینے کے لئے بند گوبھی کا اس لئے انتخاب کرتا ہے تاکہ اس کے بچوں کو مخصوص غذا مل سکے۔

تو کیا یہ ابو دقیق نامی کیڑا اس مسئلہ کو عقلی طور پر سمجھتا ہے؟!

اسی طرح ”زنبور الطین“ (انجن ھاری،جس کو کمھاری بھی کہتے ہیں) جو کیڑے مکوڑوں کا شکار کرتی ہے اور اپنے مٹی کے چھتے میں لے جاتی ہے تاکہ کھانے کے لئے گوشت جمع رھے، اوراس کے بعداس پر ایک انڈا دیتی ہے، اس کو اپنے گھر میں رکھ دیتی ہے ، پھر گارے مٹی کی تلاش میں نکلتی ہے جب اس کو مل جاتی ہے تو اس سے اپنے گھر کا دروازہ بند کردیتی ہے تاکہ جب انڈے پھٹنے کا وقت آئے اور بچے باھر نکلےں تو ان کا کھانے پہلے سے موجود رھے۔

اسی طرح وہ مچھر جو پانی پر اپنے انڈے دیتے ہیںلیکن کبھی بھی اس کے انڈے بچے پانی میں ضایع نہیں ہوتے تو کیا یہ مچھر قوانین ”ارشمیڈس“کو جانتا ہے۔

اسی طرح وہ حشرہ جس کو علم حشرات میں ”قاذفة القنابل“ کہتے ہیں جو پھاڑ کھانے والے حیوانات کے آگے آگے بغیر کسی خوف وھراس کے چلتا ہے اور اگرکسی جانور نے اس کو کھانے کے لئے منھ کھولا تو اپنے پیٹ پر موجود ایک تھیلی کو فشار دیتا ہے تاکہ اس سے تین قسم کے غدے نکلےں جس میں ”ھیڈروکینون“ ، ”فوق اکسیڈھیڈ روجین“ اور ”ازیم خاص“ اور جب یہ تینوں چیزیں مخلوط ہوتی ہیں تو ان میں سے ایک قسم کا گیس نکلتا ہے جس کی وجہ سے وہ درندہ حیوان بھی ڈر کی وجہ سے بھاگنے لگتا ہے ، تو کیا اس حشرہ اور کیڑے نے علم کیمسٹری میں کامبرج یونیورسٹی سے ڈیپلم" Diploma " کیا ہے؟!!

اسی طرح ابریشم کے کیڑے ، جو نھایت ہی باریک جال بناتے ہیں۔اور اسی طرح وہ جگنو جو رات میں روشنی پھیلاتا پھرتا ہے تاکہ روشنی پر آنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑوں کا شکار کرسکے۔

نیز اسی طرح پانی کے کچھ خاص کیڑے جو چند میٹر پانی میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر آسمان میں بھی کافی اوپر اڑلیتے ہیں۔

اسی طرح وہ تتلی جس کے پر بہت ہی نازک اور شفاف ہوتے ہیں جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ نیلے رنگ کے دکھائی پڑتے ہیں، اور اگر اس میں دسیوں ہزار میں سے ایک جز بھی متغیر ہوجائے تو پھر اس کی روشنی میں بھی فرق آجائے گا یا بالکل ختم ہوجائے گی۔

قارئین کرام ! یھاں تک ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ حیوانات کی دنیا واقعاً عجیب وغریب ہے جن کی خلقت اور نوآوری وغیرہ کو دیکھنے کے بعد(اگرچہ حیوانات کے صفات اس مختصر کتاب میں کماحقہ بیان نہیں کئے جاسکتے) انسان اس نتیجہ پر پهونچتا ہے :

) ِ صُنْعَ اللهِ الَّذِی اٴَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ إِنَّهُ خَبِیرٌ بِمَا تَفْعَلُون ) ( ۲۱ )

”(یہ بھی ) خدا کی کاریگری ہے کہ جس نے ہر چیز کو خوب مضبوط بنایا ہے بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اس سے وہ خوب واقف ہے۔“

تعالیٰ الله یقول المنکرون الجاحدون علوا کبیرا

قارئین کرام ! ہم یھاں پر ان آیات کریمہ کو بیان کرتے ہیں جو خداوند عالم کے وجود پربہترین دلیل ہیں ،جن میں انسان کونباتات،آسمان سے بارش ہونے اور زمین وآسمان کے درمیان موجودعجائبات میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے، کیونکہ ان تمام چیزوں کا اس قدر دقیق اور خصوصیات کے ساتھ پایا جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ صفات ان میں خود بخود نہیں پائے جاتے بلکہ ان سب کو مذکورہ صفات عطا کرنے والا خدوندعالم ہے۔

ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ مَا تَحْرُثُون اٴَاٴَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ اٴَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا ) ( ۲۲ )

”بھلا دیکھو تو کہ جو کچھ تم لوگ بوتے ہو کیا تم لوگ اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں، اگر ہم چاہتے تو اسے چور چور کردیتے ۔۔۔۔“

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ النَّارَ الَّتِی تُورُونَ اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَنشَاٴْتُمْ شَجَرَتَهَا اٴَمْ نَحْنُ الْمُنشِئُونَ ) ( ۲۳ )

”توکیا تم نے آگ پر بھی غور کیا جسے تم لوگ لکڑی سے نکالتے ہو کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں۔“

( وَهو الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْءٍ فَاٴَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاکِبًا وَمِنْ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَیْرَ مُتَشَابِهٍ اُنْظُرُوا إِلَی ثَمَرِهِ إِذَا اٴَثْمَرَ وَیَنْعِهِ إِنَّ فِی ذَلِکُمْ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُون ) ( ۲۴ )

”اور وہ وھی (قادر وتوانا) ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس کے ذریعہ سے ہر چیز کے کوئے نکالے پھر ہم ہی نے اس سے ھری بھری ٹہنیاں نکالیں کہ اس سے ہم باہم گتھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور چوھارے کے درخت سے لٹکے ہوئے گچھے (پیدا کئے) اور انگور اور زیتون اور انار کے باغات جو باہم صورت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (مزے میں) جداجدا ،جب یہ پہلے او رپکے تو اس کے پھل کی طرف غور تو کرو بے شک اس میں ایماندارلوگوں کے لئے بہت سی (خداکی ) نشانیاں پائی جاتی ہیں۔“

( الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ مَهْدًا وَسَلَکَ لَکُمْ فِیهَا سُبُلاً وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ اٴَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّی ) ( ۲۵ )

”وہ وھی ہے جس نے تمھارے( فائدہ کے واسطے)زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لئے اس میں راھیںنکالیں اور اس نے آسمان سے پانی برسایا پھر (خدا فرماتا ہے کہ )ہم ہی نے اس پانی کے ذریعہ مختلف قسموں کی گھاسیں نکالیں۔“

( اٴَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَاٴَنزَلَ لَکُمْ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَا کَانَ لَکُمْ اٴَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا اٴَ ء ِلَهٌ مَعَ اللهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ ) ( ۲۶ )

”بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے واسطے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم ہی نے پانی سے دلچسپ اور خوشنما باغ اگائے، تمھارے تو یہ بس کی بات نہ تھی کہ تم ان سے درختوں کو اگاسکتے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ (ھر گز نھیں) بلکہ یہ لوگ خود( اپنے جی سے گڑھ کے بتوں کو)اس کے برابربناتے ہیں۔“

قارئین کرام ! نباتات کی دنیا بھی کس قدر عجیب ہے چنانچہ زمین شناسی (جیولوجی) " Geological "کے ماھرین اس بارے میں ہمیشہ بررسی وتحقیق میںمشغول ہیں کیونکہ وہ ہر روز ایک نہ ایک نئی چیز کشف کرتے ہیں۔

اورجیسا کہ ماھرین نے بیان کیا ہے کہ نباتات کی تقریباً پانچ لاکھ قسمیں ہیں اور وہ ترکیب اورتزویج اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہیں کیونکہ انھیں نباتات میں سے وہ بھی ہیں جن کی عمر کچھ دن کی ہوتی ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کی عمر کچھ سال ہوتی ہے اور ان میں سے بعض کی عمر انسان کے کئی برابر ہوتی ہے۔

معمولاً نباتات وھاں پیدا ہوتی ہیں جھاں پر ان کے لئے مناسب اسباب موجود ہوں ، ان کے بیج طولانی مدت تک باقی رہتے ہیں کیونکہ جب تک ان کے لئے مناسب پانی اور مناسب گرمی موجود نہ ہوں تب تک پیدا نہیں ہوتیں، (جیسا کہ معلوم ہے کہ نباتات میں سے ہر ایک معین گرمی میں پیدا ہوتی ہیں) اسی طریقہ سے ان کے لئے ہوا کا بھی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ اسی کی بدولت زندہ رہتی ہے اور اسی سے سانس لیتی ہے۔

اور جب دانہ اگنا شروع ہوتا ہے، تو پہلے چھوٹی چھوٹی جڑیں پیدا ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا کو خود دانہ سے حاصل کرتا ہے یھاں تک کہ اس کی جڑیں زمین میں پھیلنا شروع ہوتی ہیں اس وقت وہ اپنی غذا زمین سے حاصل کرتا ہے گویا وہ انسان اور حیوان کے بچوں کی طرح ہے کہ جب تک وہ شکم مادر میں رہتا ہے تو اس کی غذا اس کی مادر کے ذریعہ پهونچتی ہے ، اس کے بعد اس کے دودھ سے غذا پهونچتی ہے اور جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو پھر وہ اپنی غذا میں خود مختار ہوجاتا ہے۔

قارئین کرام ! کیا ان تمام چیزوں کے ملاحظہ کرنے کے بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان تمام چیزوں کو خدا کے علاوہ کسی اور نے پیدا کیا ہے؟

اور نباتات کا غذائی سسٹم،جڑوںپر منحصر ہوتا ہے کیونکہ یہ جڑیں ہی غذائی سسٹم کا پہلا جز ہیں، اور جڑیں نباتات کی احتیاجات کی بنا پر مختلف ہوتی ہیں، پس ان میں سے کچھ گاجر جیسی اور بعض آلو جیسی اور بعض جالی نما ہوتی ہیں، جبکہ ان تمام ا ختلاف کے باوجود ایک ہی مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔اور یہ مقصد نباتات کا اپنے لئے غذا حاصل کرنا ہے۔

اورجب یہ جڑیں رشد کرتی ہیں تو اس پر موجود چھلکا زمین سے رطوبت حاصل کرکے اس کو جڑوں کے اوپرپهونچاتا ہے، اور یھاں سے نباتات تک غذا پهونچتی ہے جس کے ذریعہ وہ رشد کرتی ہیں اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ نباتات کے لئے روشنی، پانی اور دیگر ضروری عنصر کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے جیسے کاربن، " Carbon " آکسیجن، " Oxygen " فسفور " Phosphore "، ”کاربرائڈ“" Carbide " وغیرہ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رھے کہ نباتات اپنے پتوں کے ذریعہ سانس لیتی ہیں جو ان کے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں چنانچہ نباتات حیوانوں اور انسانوں کی طرح انھیں پتوں کے ذریعہ آکسیجن،" Oxygen " کو حاصل کرتی ہیں اور کاربن اکسیڈ دوم " Carbon oxide "کو نکالتی ہے،اور نباتات کے سانس لینے سے گرمی میں کمی پیدا ہوتی ہے اور نباتات کا عملِ تنفس شب وروز جاری وساری رہتا ہے، مگر اس کا نتیجہ دن میں عمل کاربن کے مقابلہ میں ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ عمل کاربن کو نباتات عمل تنفس سے زیادہ جلدی انجام دیتی ہیں پس آکسیجن نکلتا رہتا ہے اور کاربن ڈائی اکسیڈ دوم" Carbon Dioxide " کو حاصل کرتا ہے۔

چنانچہ آج کے سائنس کا کہنا ہے کہ کاربن " Carbon " کا پیدا ہونا ہی ،ڈائی اکسیڈ کاربن " Carbon Dioxide " کی نابودی کے لئے کافی ہے ، اگر صرف اسی چیز پر اکتفا کی گئی ہوتی تو کافی تھا، لیکن خداوندعالم نے جو خالق عظیم ہے ایسی دوسری زندہ موجوات کوبھی خلق کیا جو اپنے سانس لینے میں کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " نکالتی ہیں ، جیسا کہ مردہ جسم بھی کاربن اکسیڈ نکالتے ہیں نیز دیگر امور کی وجہ سے بھی یہ مادہ نکلتا ہے۔

چنانچہ اس کاربن اکسیڈ " Carbon oxide " کی نابودی میں کبھی کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ قدرت اور حکمت خدا کا تقاضا یہ ہے کہ فضا میں کاربن آکسائیڈ کی نسبت دس ہزار اجزا میں سے تین یا چار ہوتی ہے، اور اس نسبت کا اس مقدار میں موجود ہونا کائنات کی حیات کا سبب ہے ، اور (کاربن " Carbon " اور کاربن اکسیڈ" Carbon oxide " کی عملیات) میں ابھی تک کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب اس نسبت میں کوئی اختلاف ہوا ہو۔

چنانچہ بعض ماھرین کا کہنا ہے کہ اگرهوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۲۱ کے بجائے % ۵۰ ہوجائے تو اس کائنات میںجو چیزیں جلنے کے قابل ہیں ان سب میں آگ لگ جائے اور بجلی کی کوئی چنگاری اگر درخت تک پهونچ جائے تو وہ تمام آگ کی نذر ہوجائےں، اسی طرح اگر ہوا میں آکسیجن،" Oxygen" % ۱۰ یا اس بھی کم ہوجائے تو پھر تمام چیزوں کی زندگی خطرہ میں پڑجائے۔

تو کیا ان تمام تحقیقات کے بعد بھی کوئی انسان بے جان مادہ کوان تمام عجیب وغریب موجوات کا خالق کہہ سکتا ہے؟!!!

پانی کی خلقت

پانی ایک حیاتی اور ضروری مادہ ہے جو تمام ہی زندہ چیزوں کے لئے نھایت ضروری ہے:

( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شیءٍ حَيٍّ ) ( ۲۷ )

”اور ہم ہی نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا “

لہٰذا پانی ضروریات زندگی میں سب سے اہم کردار رکھتاھے، اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس عظیم نعمت پر غور وفکر کرنے کی دعوت ہے بلکہ کرہ زمین پر موجود پانی کو دیکھ کر تمام لوگوں کواس خالق کے وجود پر دلیل کو درک کرنے کی دعوت دی گئی ہے:

( اٴَفَرَاٴَیْتُمْ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُون اٴَاٴَنْتُمْ اٴَنزَلْتُمُوهُ مِنْ الْمُزْنِ اٴَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ اٴُجَاجًا فَلَوْلاَتَشْکُرُونَ ) ( ۲۸ )

”کیا تم نے پانی پر بھی نظر ڈالی جو (دن رات) پیتے ہو،کیا اس کو بادل سے تم نے برسایا یا ہم برساتے ہیں؟اگر ہم چاھیں تو اسے کھاری بنادیں تو تم لوگ شکر کیوں نہیں کرتے؟!

( وَمِنْ آیَاتِهِ یُرِیکُمْ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِ بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۲۹ )

”اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے واسطے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کوآباد کرتا ہے “

چنانچہ پانی کے ماھرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہی آب شیرین(پینے کامیٹھا پانی) کی بنیاد اور اساس ہے اگرچہ سمندر کا پانی بہت زیادہ نمکین ہوتا ہے جس کو زمین پر زندہ موجودات استعمال نہیں کرسکتی، لیکن خدا وندعالم نے اپنی موجودات کے لئے پانی کو بارش کے ذریعہ صاف وخوشگوار بنایا ہے کیونکہ بارش کے ذریعہ ہی یہ نمکین پانی صاف اورگورا بنتا ہے۔

خدا وندعالم آسمان سے بارش برساتا ہے:

( وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ) ( ۳۰ )

”اور وہ پانی جو خدا نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو مردہ (بیکار) ہونے کے بعد جلا دیا(شاداب کردیا)

اور اگرخدا چاہتا تو یہ کھارا اور نمکین پانی اپنی پہلی والی حالت پر باقی رہتاجیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ۔

جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا نمکین ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ سمندر بہت وسیع اور گھرے ہوتے ہیں لیکن محدود اور بند ہوتے ہیں اور ان میں پانی بھرا رہتا ہے اور اگر یہ پانی نمکین نہ ہوتا تو ایک مدت کے بعد یہ پانی خراب اور بدبودار ہوجاتا۔

قارئین کرام ! ان کے علاوہ بھی پانی کی اہم خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاً جب انسان سمندر کے پانی کو دیکھتا ہے تو اسے خدا کی قدرت اور اس کی تدبیر کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ زمین کے تین حصے پانی ہیں تو اس سے ہوا او رگرمی پر بہت اثر پڑتا ہے، اور اگر پانی کے بعض خواص ظاہر نہ ہوں تو پھر زمین پر بہت سے حادثات رونما ہوجائیں، اور چونکہ پانی پانی ہے اور سالوں باقی رہ سکتا ہے اور پانی کی گرمی بھی زیادہ ہوتی ہے جو اوپر رہتی ہے جس کی بنا پر درجہ حرارت سطح زمین سے اوپر ہی رہتا ہے اور زمین میں سخت گرمی ہونے سے روکتاھے، اور یہ چیز زمین کو طولانی حیات کرنے میں مدد کرتی ہے جس کی وجہ سے سطح زمین پر موجود انسانوں (اور حیوانوں) کو فرحت ونشاط ملتی ہے۔

اسی طرح مذکورہ خواص کے علاوہ بھی پانی کی کچھ منفرد خاصیتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس کے خالق نے اس کو اس طرح اس لئے خلق کیا ہے تاکہ اس کی مخلوقات مکمل طریقہ سے فائدہ اٹھاسکے۔ پس پانی ہی وہ مشهورومعروف اورواحدمادہ ہے جسکی کثافت " Density " پانی کے جماد کے وقت سب سے کم ہوتی ہے اور اس کی یہ خاصیت زندگی کے لئے بہت اہم ہے، کیونکہ اسی کی وجہ سے جب سخت سردی کے موسم میں پالا پڑتا ہے تو وہ اس کو ختم کردیتا ہے بجائے اس کے کہ وہ پانی کے اندر جائے اور غرق ہوجائے اور وہ آہستہ آہستہ جم جاتا ہے لیکن یہ پالا پڑنا اس پانی کو برف بننے سے روک دیتا ہے اگرچہ ٹھنڈک کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ، اسی وجہ سے پانی میں موجود مچھلی او ردیگر حیوانات زندہ رہتے ہیں اور جب گرمی آتی ہے تو یہ پالا بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی ہم پانی کے دوسرے عجیب فوائد کا ذکر کرسکتے ہیں، مثلاً نباتات کے لئے زمین کی سطح کو نرم کردیتا ہے، جس کی بنا پر نبات میں زمین کے اندر سے غذائی موادحاصل کرنے کے بعد رشد کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ یھی پانی ہے جو دیگر چیزوں کے اجسام کو نرم کرتا ہے ، اسی طرح پانی ہی وہ شے ہے جو انسان کے بدن میں داخل ہوکراس کے حیاتی مختلف عملیات میں مددگار ثابت ہوتا ہے، مثلاً خون یا خون کے مرکبات، اسی طرح پانی کا ایک بخار ہوتا ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے پانی ایک طولانی مدت تک پانی کی شکل میں بہنے والا باقی رہتا ہے ورنہ تو گرمی کی وجہ سے خشک ہوکر ختم ہوجائے۔

قارئین کرام ! سمندر اور دریا خدا کی عظیم نشانیاں ہیں، چنانچہ ان میں خشکی سے زیادہ متعدد قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیںاور اس کائنات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے، مثلاً ایک مربع میٹر میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے حیوانات پائے جاتے ہیں، جبکہ انھیں سمندروں میں بڑی بڑی مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں ، واقعاً خداوندعالم کا قول صادق اور سچا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَهو الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاٴْکُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون ) ( ۳۱ )

”اور وھی وہ خدا ہے جس نے دریا کو (بھی تمھارے) قبضہ میں کردیا تاکہ تم اس میں سے (مچھلیوں کا) تازہ تازہ گوشت کھاؤ اور اس میں سے زیور (کی چیزیں موتی وغیرہ)نکالو جن کو تم پہنا کرتے ہو اور تو کشتیوں کو دیکھتا رھے کہ (آمد ورفت میں) دریا میں (پانی کو) چیرتی پھاڑتی آتی جاتی ہے اور (دریا کو تمھارے تابع) اس لئے کردیا کہ تم لوگ اس کے فضل (نفع وتجارت) کی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔“

قارئین کرام ! یہ تو تھیں سمندر کی گھرائیوں کی باتیں اور اگر ہم اپنے اوپر وسیع وعریض نیلے آسمان پر دقت کے ساتھ غور وفکر کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ آسمان میں کس قدر چاند، سورج اور ستارے موجود ہیں ، اور اگر کوئی واقعاً ان میں غوروفکر کرے تو وہ بالکل دنگ رہ جائے گا اسی وجہ سے قرآن مجید نے اس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ ہم ایک عظیم اور ہمیشگی نتیجہ پر پهونچ جائیں، اور وہ یہ کہ یہ تمام عجیب وغریب چیزیں اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کا پیدا کرنا والا ”مادہ“ ہے:

( اٴَوَلَمْ یَنظُرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ ) ( ۳۲ )

”کیا ان لوگوں نے آسمان وزمین کی حکومت اور خدا کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں غور نہیں کیا ؟!!“

( قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض ) ( ۳۳ )

”(اے رسول ) تم کہہ دو کہ ذرا دیکھو تو سھی کہ آسمانوں اور زمین میں (خدا کی نشانیاں) کیا کچھ ہیں۔۔۔“

( اٴَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاهَا وَزَیَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوج ) ( ۳۴ )

”تو کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نظر نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیونکر بنایا ہے اور اس کو (کیسی) زینت دی اور اس میں کھیں شگاف تک نھیں“

( اللهُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ) ( ۳۵ )

”خدا وھی تو ہے جس نے آسمانوں کو جنھیں تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے اٹھاکھڑا کردیا۔۔۔“

( وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَاهَا بِاٴَیدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ) ( ۳۶ )

”اور ہم نے آسمانوں کو اپنے بل بوتے سے بنایا اور بے شک ہم میں سب قدرت ہے“

( ِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لِاٴَجَلٍ مُسَمًّی ) ( ۳۷ )

”اسی نے چاند اور سورج کو اپنی مطیع بنارکھا ہے کہ ہر ایک اپنے (اپنے) معین وقت پر چلاکرتا ہے“

ستاروں کی یہ کائنات کروڑوں ستاروں پر مشتمل ہے جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کو آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن بعض کو دوربین وغیرہ ہی کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کے وجود کا محققین وماھرین احساس کرتے ہیں لیکن ان کو دیکھا نہیں جا سکتا، لہٰذا ان تمام چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد انسان دنگ رہ جاتا ہے، کیونکہ کوئی ایسا مقناطیسی سسٹم نہیں ہے جس کی بناپر ان کو ایک دوسرے سے قریب یا ایک دوسرے سے دور کردے،جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی سمندر میں دو اسٹمیر " Steamer " ایک راستہ پر ایک ہی سرعت کے ساتھ چلتے ہیں اوران کا آپس میں ٹکرانے کا احتمال ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کا سائنس کہتا ہے کہ روشنی کی رفتارفی سیکنڈ ۱۸۶۰۰۰ میل ہے، ان میں سے بعض ستاروںکی روشنی فوراً ہی ہم تک پہنچ جاتی ہے اور بعض کی روشنی مھینوں اور بعض کی سالوں میں پهونچتی ہے تو آپ اندازہ لگائیں یہ آسمان کتنا وسیع وعریض اور عجیب وغریب ہے۔؟!

تو کیا یہ تمام چیزیں یونھی اتفاقی طورپر اور بغیر کسی قصد وارادہ کے پیدا ہوگئیں؟! اور کیا یہ تمام چیزیں بغیر کسی بنانے والے کے بن گئیں؟! اور کیا ”مادہ“ ان تمام چیزوں کو اتنا منظم خلق کرسکتا ہے؟!!

( هَذَا خَلْقُ اللهِ فَاٴَرُونِی مَاذَا خَلَقَ الَّذِینَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ) ( ۳۸ )

”(اے رسول ان سے کہہ دو کہ ) یہ تو خدا کی خلقت ہے پھر (بھلا) تم لوگ مجھے دکھاؤ تو کہ جو (معبود) خدا کے سوا تم نے بنارکھے ہیں انھوں نے کیا پیدا کیا بلکہ سرکش لوگ (کفار) صریحی گمراھی میں (پڑے) ہیں۔“

قارئین کرام ! اس زمین کو خداوندعالم نے اس طرح خلق کیا ہے تاکہ اس پر مختلف چیزیں زندگی کرسکیںاور یہ زمین گھومتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ شب وروز وجود میں آئیں۔

اور یہ زمین سورج کے گرد بھی گھومتی ہے جس کی وجہ سے سال اور فصل بنتی ہیں ، جس کی بنا پر کرہ زمین پر موجودہ مختلف مقامات پر ساکنین کے لئے مساحت زیادہ ہوجائے، اور زمین پر نباتات کی فراوانی ہوسکے۔

زمین کا یہ گھومنا بہت ہی حساب شدہ ہے، چنانچہ نہ اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ اگر اس زمین کی موجودہ حالت میں کمی یا اضافہ ہوجائے توزندگی کا خاتمہ ہوجائے۔

اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمین پر گیس کا غلاف ہوتا ہے جو گیس زندگی کے لئے ضروری ہے، چنانچہ یہ گیس زمین سے / ۵۰۰ میل کے فاصلہ پر رہتی ہے اوریہ غلاف اتنا ضخیم ہوتا ہے ،جو آج کے دور میں ایک سیکنڈ میں تیس میل کی دوری کو تیزی کے ساتھ طے کرتا ہے۔

جس کی بناپر ان ستاروں کی گرمی کو کم کردیتا ہے کہ اگر یہ غلاف نہ ہو تو پھر زمین پر کوئی زندہ باقی نہ بچے، اور اسی غلاف کی وجہ سے مناسب گرمی ہم تک پهونچتی ہے اسی طرح اس زمین سے پانی کا بخار بھی بہت دور رہتا ہے تاکہ خوب بارش ہوسکے، اور مردہ زمین سبزہ زار بن جائے کیونکہ بارش ہی کی وجہ سے پانی اتنا صاف ہوتا ہے اور اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر زمین چٹیل میدان نظر آئے اور اس میں زندگی بسرکرناغیر ممکن ہوجائے۔

اسی طرح پانی کا ایک اہم خاص امتیاز یہ ہے کہ وہ سمندر اور خشکی میں موجود تمام چیزوں کی حیات کی حفاظت کرتا ہے خصوصاً وہ برفیلے علاقے جھاں پر کڑاکے کی سردی ہوتی ہے کیونکہ پانی آکسیجن کی کافی مقدار کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے جب کہ آکسیجن کا درجہ حرارت کم ہو اور جو سمندر اور نھروں میں پانی کی سطح پر پالا ہوجاتا ہے اس کو یہ پانی ختم کردیتا ہے، کیونکہ نسبی طور پر خفیف ہوتا ہے پس اس بنا پر ٹھنڈے علاقے میں تمام پانی میں رہنے والے موجودات کازندگی گذار نا آسان ہوجاتا ہے، اور جب پانی جم جاتا ہے تو اس کے اندر سے کچھ حرارت نکلتی ہے جو سمندری حیوانات کی زندگی کی محافظت کرتی ہے۔

اب رھی خشک زمین تو یہ بھی بہت سی چیزوں کی حیات کے لئے بنائی گئی ہے ، چنانچہ اس میں ایسے بہت سے عناصر ہیں جو نباتات اور دوسری چیزوں کی حیات کی اہم ضرورت ہیں، جن سے انسان اور حیوانات کی غذا فراہم ہوتی ہے، چنانچہ بہت سے معادن زمین پر یا اس کے اندر پائے جاتے ہیں، اور اس سلسلہ میں بڑی بڑی کتابیںبھی لکھی گئی ہیں۔

اور اگراس زمین کا قُطر موجودہ قطر کے بجائے ایک چھارم ہوتا تو پھر اس کے اطراف میں موجود پانی اور فضائی دونوں غلاف کو یہ زمین اپنے اوپرروک نہ پاتی اور اس زمین پر اتنی گرمی ہوتی کہ کوئی بھی چیز زندہ نہیں رہ پاتی۔

اور اگر اس زمین کا اندازہ موجودہ صورت کے بجائے دوبرابر ہوتا اور اس زمین کی مساحت دوبرابر ہوتی ، اور اس وقت موجودہ زمینی جاذبہ دوبرابر ہوجاتا، جس کی بنا پر ہوائی غلاف کا نظام خفیف ہوجاتا، اور فضائی تنگی ایک کیلو گرام سے دو کیلوگرام فی مربع سینٹی میٹر ہوجاتی، اور یہ تمام چیزیں سطح زمین پر موجودہ تمام اشیاء کے لئے مو ثر ثابت ہوتیں، تو ٹھنڈے علاقے کی مساحت اور وسیع ہوجاتی، اور وہ زمین جو قابل سکونت ہے اس کی مساحت کافی مقدار میں کم ہوجاتی، چنانچہ ان وجوھات کی بناپر انسانی زندگی درہم وبرہم ہوجاتی۔

اسی طرح ا گرسطح زمین موجودہ مقدار سے زیادہ بلند ہو تو اس صورت میں یہ آکسیجن اور ڈائی اکسیڈ کاربن دوم " Carbon Dioxide "زیادہ جذب کرتی جس کی بنا پر نباتات کی زندگی تنگ ہوجاتی۔

اسی طریقہ سے اگر زمین کی سورج سے موجودہ دوری کو دوبرابر بڑھا دیا جائے تو اس کی سورج سے لی جانے والی موجودہ حرارت سے ایک چوتھائی کم ہوجائے گی اور اس صورت میں زمین کا سورج کے اردگرد چکر لگانا طولانی مدت طے پائے گا جس کی بنا پر سردی کا موسم بڑھ جائے گا اور سطح زمین پر رہنے والے موجودات کی زندگی مفلوج ہوکر رہ جائے گی۔

اسی طرح سے اگرزمین اور سورج کے درمیان موجودہ مسافت کو کم کرکے نصف کردیا جائے تو موجودہ حرارت میںچار گنا اضافہ ہوجائے گا، اور گردش زمین سورج کے اطراف میں تیز ہوجائے گی، جس کی بنا پر زمین پر کسی بھی موجود کا زندہ رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

یھاں تک کہ کرہ ارض کا میلان کہ جس کی مقدار ۲۳ زاویہ فرض کی گئی ہے یہ بھی بغیر مصلحت نہیں ہے کیونکہ اگر اس میں یہ میلان نہ ہوتا تو زمین کے دونوں قطب مسلسل اندھیرے میں ڈوبے رہتے اور پانی کے بخارات شمال وجنوب میں منڈلاتے رہتے، اور ایک دوسرے پر پالا یا برف بن کر منجمد ہوجاتے۔

المختصر زمین کا موجودہ دقیق نظام مختل ہوجائے تو تمام جاندار اشیاء کی زندگی نیست ونابود ہوکر رہ جائے گی، کیونکہ زمین کے اندر پائے جانے والے نظام جاندار اشیاء کے لئے اسباب حیات فراہم کرتے ہیں، تو کیا یہ سارا نظام اتفاقی اور تصادفی ہے؟!!

قارئین کرام ! زمین کی مٹی بھی عجیب کائنات ہے اور اسی سے بہت سی چیزیں مربوط ہوتی ہیں، جو تمام اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس زمین اور مٹی کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ہے ، کیونکہ جب ہم مٹی کو دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کی فعالیت انجام دیتی ہے اور کس طرح بہت سے نتائج پیش کرتی ہے چنانچہ ماھرین نے اس کے نتائج کی درج ذیل قسمیں بیان کی ہیں: کہ اس کا نچلا حصہ گول ہوتا ہے اس پر مٹی کا ایک طبقہ ہوتا ہے، جب وہ ہٹ جاتا ہے تو دوسرا طبقہ اس کی چگہ پر آجاتا ہے۔

اور یہ بھی مسلم ہے کہ ہمارے لئے مٹی بہت ہی مفید ہے کیونکہ اکثرکھانے کی چیزیں اسی سے دستیاب ہوتی ہیں، کیونکہ تمام نباتات مٹی کی وجہ سے ہی رشد ونمو کرتی ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ بغیر زمین کے نباتات کا کوئی وجودهو ہی نہیں ہوسکتا،اور جب ان نباتات کی جڑیں کسی بھی موٹے پتھر سے ٹکراتی ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان سے ہٹتے جاتے ہیں البتہ پتھروں کا ہٹ جانا ان قواعد کے تحت ہوتا ہے جن سے پتھر پانی میںپگھل جاتے ہیں مثلاً ان میں کیلسم " Calcium "، میگنیسم" Magnesium " ، اورپوٹاشم" Potassium " ہوتے ہیں اسی طرح ان میں سلکون اسیڈس " Silicon Acids "باقی رہتے ہیں اور المینیم اور لوھے کا مٹی میں زیادہ غلبہ ہے ۔

جبکہ سلکون کے عناصر کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے پتھر کو پانی بناسکتے ہیںلہٰذا پتھر کو پانی بنانے والے اجزاء بھی اسی نبات میں ہوتے ہیں اور اسی طرح ان نبات میں وہ اجزاء بھی ہوتے ہیں جو ان کو رشد ونمودیتے ہیں تو یہ دونوں ایسی چیزیںھیں جو ایک دوسرے کے سوفی صد مخالف ہیںتوکیا ایک ساتھ رہ کر کام کرسکتی ہیں او ردرختوں اور نباتات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔

لیکن یھی نیٹروجن" Nytrogen "جس کے ذریعہ بجلی بنتی ہے اور اس بجلی کو بہت سے لوگ موت کا فرشتہ بھی کہتے ہیں، چنانچہ اسی نیٹروجن" Nytrogen "کے " OXidS "سے بجلی کی طاقت پیدا ہوتی ہے ،لیکن جب یھی نیٹروجن کے اکسیڈس بارش یا برف کے ذریعہ مٹی میں جذب ہوتے ہیں تو اس کو یا اس پر موجود درختوں کو جلانے کے بجائے ان کو رشد ونمو عطا کرتے ہیں، چنانچہ مٹی میں موجود نیٹروجن کی مقدار کو سالانہ سوڈیم کی تیس بالٹی حاصل کرتی ہے اور یہ مقدار درختوں او ردیگر نباتات کے رشد ونمو کے لئے کافی ہوتی ہے۔!!

اور یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نیٹروجن جس سے بجلی بنتی ہے تو یہ مستوی علاقوں میں بنسبت مرطوب اور معتدل علاقوں کے زیادہ ہوتا ہے پس خشک اور جنگلی علاقوں میں اس کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتاھے، خلاصہ یہ کہ یہ نیٹروجن علاقے کی ضرورت کے تحت مختلف چیزوں میں کارگر ہوتا رہتاھے کیونکہ ہر علاقہ میں اس کی ایک خاص ضرورت ہوتی ہے تو کیا اس کی تدبیر کے لئے کوئی نہیں ہونا چاہئے؟!!

الغرض اس دنیا کے عجائبات میں سے کس کس چیز کا ذکر کیا جائے مثلاً پانی کا دورہ، اکسیڈ کاربن دوم کا دورہ، عجیب انداز میں زاد ولد ہونا اسی طرح روشنی اور نور کی عملیات ان سب کی قوت شمس کے خزانہ میں بہت زیادہ اہمیت ہے ، اسی طرح اس موجودہ کائنات کی زندگی میں اہم کردار رکھتے ہیں ، چنانچہ اس کائنات کی ظاہری چیزیں اور سبب واقع ہونے والی چیزیں اسی طرح تکامل وتوافق او رتوازن جن کے ذریعہ سے بہت سی چیزیں منظم ہوتی ہیں، توکیا یہ اتنی عجیب وغریب چیزیں اتفاقی اور اچانک پیدا ہوگئیں،(انسان کی عقل کو کیا ہوگیا اور ان تمام مخلوقات میں غور نہیں کرتا)

چنانچہ یہ بسیط جزئیات جن کی کوئی صورت معین نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے ، لیکن ان سے کروڑوں کواکب اور ستارے نیز مختلف عالم وجود میں آئے جن کی معین صورت بھی ہوتی ہے اورطولانی عمر بھی اور اپنے خاص قوانین کے تحت کام کرتے ہیں، تو کیا یہ بھی سب کچھ اتفاقی طور پر اچانک پیدا ہوگیا؟!!

اور یہ کیمیاوی مشهور عناصر جن کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے تو کیا انسان ان میں تشابہ اور اختلاف کی صورتوں کو ملاحظہ نہیں کرتا؟کیونکہ ان میں بعض رنگین ہیں اور بعض رنگین نہیں ہیں، ان میں سے بعض ایسے گیس ہیں جن کو سائل (بہنے والی)یا جامد بنانا مشکل ہے اور بعض سائل ہیں، اور بعض ایسے سخت ہیں جن کو سائل یا گیس بنانا مشکل ہے ، ان میں سے بعض کمزور ہیں اور بعض سخت، ان میں سے بعض ھلکے اور بعض بھاری، بعض مقناطیسی ہیں اور بعض مقناطیسی نہیں ہیں، ان میں سے بعض نشاط آورھیں اور بعض بے قدرے، بعض احماض (کڑوے) ہیں اور بعض کڑوے نہیں ہیں ان میں بعض کافی عمر کرتے ہیں اور بعض کچھ دن ہی عمر کرتے ہیں ، لیکن یہ تمام ایک ہی قانون کے تحت ہوتے ہیں اور وہ قانون ”قانون دوری“ " Periodic Law "ھے۔

کیونکہ ان معین عنصر اور غیر معین عنصر کے ذرات کے درمیان فرق صرف پروٹونات اور نیوٹرونات کی تعداد میں ہوتا ہے جو گٹھلی کی طرح ہوتے ہیںاور دوسرا فرق یہ ہے کہ عدد اور الکٹرونات جو گٹھلی سے باھر ہوتے ہیں اور ان کا طریقہ تنظیم بھی جدا ہوتا ہے، لہٰذا اس بنا پر مواد مختلفہ کی کروڑوں قسمیں چاھے وہ عناصر ہوں یا مرکب چیزیں” کھربائی“" Electricity " جزئیات سے مل کر بنتی ہیں اور ان میں یا تو فقط صورت ہوتی ہے یا طاقت ، او رچونکہ مادہ بھی جزئیات او رذرات سے تشکیل پاتا ہے ، اور جزئیات وذرات ”الکٹرونات“ و”نیوٹرونات“سے ذرات تشکیل پاتے ہیں اسی طرح طاقت او رکھرباء" Electricity " یہ تمام کے تمام معین قوانین کے تحت ہوتے ہیں اس حیثیت سے کہ ان ذرات کی ایک مقدار بھی ان کی معرفت اور خصوصیات کو کشف کرنے کے لئے کافی ہے۔

کیا یہ تمام چیزیں اتفاقی ہوسکتی ہیں؟ اسی طرح کیا یہ تمام قوانین اور نظام کائنات صدفةً اور اچانک ہوسکتے ہیں؟!!

آج کا سائنس مادہ کے ازلی ہونے کو ردّ کرتا ہے

ہمیں اس بات کا یقین ہے اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ تمام جھان اور جو کچھ بھی اس میں موجود ہے جسے ہم ملاحظہ کررھے ہیں یہ سب قدیم زمانہ سے موجود ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ” عدم“ کے ذریعہ کوئی چیز وجود نہیں پاتی؟! بلکہ ہر چیز کے لئے ایک بنانے والے کا ہونا ضروری ہے ، یعنی یہ تمام چیزیں پہلے نہیں تھیں اور بعد میں وجود میں آئیں، تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟