عدل الٰھی
(باعتبارجبر واختیار)
(
إِنَّ اللّٰهَ یَاٴمَرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ
)
”بے شک خداوند عالم انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور احسان کا حکم کرتا ہے۔“
(
وَمَا رَبُّکَ بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ
)
”اور تمھارا پروردگا تو بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نہیں ہے۔“
صدق اللّٰه العلی العظیم
مقدمہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰه علی نعمائه والصلاة علی خاتم انبیائه وعلی آله الطیبین الطاهرین حجج اللّٰه واولیائه
خداوند عالم پر ایمان لانے والوں کے نزدیک عدل الٰھی ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
تمام آسمانی ادیان، ہر عقلِ سلیم اور علمی منطق مکمل طریقہ سے عدل الٰھی کا اقرار کرتے ہیں۔
لہٰذا صرف عدل الٰھی ا ن عقائد میں سے نہیں ہے جس کی تصحیح کے لئے یہ خاص بحث کی جائے یعنی عدل الٰھی پر کوئی دلیل قائم کرنے یااس سلسلہ میں ہوئی قیل وقال اور شبھات کے جوابات کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک واضح بحث ہے ،جس کے لئے کسی وضا حت اور استدلال کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ توضیح واضحات اور مسلمات پر استد لال کی کوئی ضرورت نہیں ہوا کرتی ۔
لیکن ان واضح اور بد یھی فکر ی مسائل میں کبھی کبھی کچھ ملاوٹ اور حاشیہ زنی ہوجاتی ہے اور فرعی طور پر گمراہ کن چیزیں اضافہ ہوجاتی ہیں اور غلط ونا مناسب تفسیر وتاویلات کے ذریعہ بعض مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، تو پھر اس قدر واضح وروشن چیزوں کی شفافیت مکدر ہوجاتی ہے ۔اور ان کا وضوح انحراف وکجروی کی طرف مٹرجاتا ہے ۔اس صورت میں ان چیزوں کو واضح کر نے کے لئے مزید بحث وگفتگو کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ حقیقت سے پردہ اٹھایا جاسکے ۔تاکہ پھر حواشی اور فروعات پر کوئی پردہ باقی نہ رھے نیزبحث وجدل کے وجہ سے مکدرفضا کوخوشگوار بنایا جاسکے ۔
چنانچہ علماء علم کلا م نے مسئلہ جبر واختیار کے سلسلے میں ایک طویل بحث کی ہے ۔ اور ان کو دو متقابل یا دومتضاد صفات میں تقسیم کیا ہے۔
اور ان تمام بحثوں کا نتیجہ عدل الٰھی لیا ہے لہٰذا جبر واختیار کا مسئلہ عدل الٰھی کی ایک فصل بن چکی ہے یا عدل الٰھی کے ابواب میں سے ایک باب بن گیا ہے ۔
اسی طرح علماء علم کلام نے مسئلہ قضاوقد رمیں بھی بہت تفصیلی گفتگو کی ہے اور بعض جگہ افراط کیا ہے یھاں تک کہ اس کو ایک مشکل مسئلہ بنا دیا ہے اور اس بحث کو عدل الٰھی کے ساتھ اضا فہ کردیا ہے اور اس کو اس اہم بحث کی ایک فصل قرار دیدیا ہے ۔
اس کے بعد بعض لوگوں نے اس مشکل کے بارے میں اکثر مسلمانوں کو اس بحث میں جاھل بتا یا ہے ۔اور بعض جوانوں کو مسئلہ قضا وقدر میں شک کرنے والابتایا ہے ۔
انھی وجوھات کی بناپر ہمارے لئے ضروری ہے (تاکہ اپنے دینی فریضہ کو پورا کر سکیں اور اپنے قارئین کی خد مت بھی ) کہ ہم اس اسلامی عقیدہ کے تحت ایک تفصیلی بحث کریں ۔لہٰذا امید کرتے ہیں کہ اس بحث کو مکمل طور پر واضح کریں اور اس مسلہ میں موجود شک وشبھات کو دور کریں اور حقیقت سے پردہ اٹھائیں۔
چونکہ یہ بحث علم کلام کی اصطلاحات والفاظ پر مشتمل ہے جس میں مختلف اقوال ونظریات اور شبھات واحتمالات پائے جاتے ہیں، لیکن ہماری پوری کوشش رھے گی کہ اس بحث کو آسان الفاظ اور واضح مطلب کے ذریعہ مکمل کریں تا کہ عصر حاضر کے تمام متعلم وطلباء اور عام لوگوں پر حقیقت واضح ہوجا ئے ۔
ہماری دلی آرزویہ ہے کہ خداوندعالم ہماری اس سعی کو درجہ قبولیت عطا کرے اور ہمارے لئے (اور دوسروں کے لئے ) سود مند وثواب واجر کا باعث بنے ۔
والحمد للّٰه الذی هدانا وما کنا لنهتدی لولا ان هدانا اللّٰه
۔
خداوندعالم عادل ہے
خداوند عالم پر سچا اور واقعی ایمان ( جیسا کہ ہماری عقل اور دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں) یہ ہے کہ ہم خداوند عالم کی قدرتِ خلاقیت پر ایمان رکھیں،۔ وہ قدرت خداجس کے ذریعہ یہ تمام کائنات اور جو کچھ بھی اس میں موجودھے اور اس کا ئنات کے لئے ایک مرتب نظام اور مسلم قوانین ترتیب دئے جن کو علماء کرام قوانین ”الا سباب والمسبات“ یا” علل ومعلولات“ کہتے ہیں ۔
اس نظام کائنات کی ایجاد جس میں دقیق اور حساب شدہ قوانین پائے جاتے ہیں جس میں عمل وسلوک کا بہترین طریقہ ہے، جو ایسی تنظیم ہے جس کا ہدف صواب، ثبوت اور استقرار ہے (جیسا کہ گذشتہ باب میں تفصیل گذر چکی ہے) یہ تمام چیزیں اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ بے شک ان تمام چیزوں کا خلق کرنے والا عاقل، حکیم، صاحب اختیار اور قادر مطلق ہے اس کے حی (زندہ) ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ہے بلکہ یہ کھا جائے کہ وہ تمام صفاتِ جمال وکمال کا مالک ہے، (ان الفاظ کے بھر پور معنی میں) اور اس کی یہ صفات ذاتی ہیں یعنی اضافی نہیں ہیں ، جیسا کہ بعض اذھا ن میں اس کا تبادر ہوتا ہے، بلکہ خداوند عالم کی یہ تمام صفات ذاتی اور لازمی ہیں جن کو علماء علم کلام ”عین ذات“ کہتے ہیں۔
اور یہ بات اپنی جگہ ثابت ہوچکی ہے کہ حقیقی حاکمیت خداوندعالم ہی کی ہے کیونکہ وھی ہر چیز پر قادر ہے جو چاھے کرسکتا ہے اس کی ذات ہے :
(
لَا یَسْاٴَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْئَلُوْنَ
)
”جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوگی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس ہوگی۔“
(
قُلْ مَنْ بِیَدِهِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ
)
”(اے رسول) تم ان لوگوں سے پوچھو کہ بھلا اگر تم کچھ جانتے ہو تو(بتاؤ) کہ وہ کون ہے جس کے اختیار میں ہر چیز کی بادشاہت ہے۔“
اس کی ذات میں خطا اور غلطی کا ذرہ برابر بھی امکان نہیں ہے اور اس کی قدرت کاملہ کے سامنے کوئی قدرت نہیں آسکتی۔
نیز اسی طرح یہ بات بھی مسلم ہے کہ حاکمیتِ قانونی صرف اور صرف خداوندعالم ہی کی ذات کے لئے ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے:
(
اِ نِ الْحُکْمُ اِلاّٰ لِلّٰهِ اَمَرَ اٴَنْ لَا تَعْبُدُوْا اِلاّٰ اِیَّاهُ
)
”حکومت تو بس خدا ہی کے لئے خاص ہے اس نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔“
(
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اٴَنْزَلَ اللّٰهُ فَاٴُوْلٓئِکَ هُمُ الْکَافِرُوْنَ
)
”(اور سمجھ لو) جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔“
یہ بات گذشتہ آیات ودلائل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہے کہ انسا ن کی موت کے بعد اس سے بڑا سخت حساب وکتاب ہوگا کہ اگر انسان فرمانبردار تھا تو اس کو جزا وثواب ملے گا اور اطاعت کے بدلے اس کو نعمتیں اور سعادت ابدی نصیب ہوگی، اور اگر کوئی شخص گناہگار تھا تو اس کی نافرنی کی بدولت اس کو عذاب اور بدبختی میں مبتلا کیا جائے گا۔
چنانچہ ان تمام مذکورہ باتوں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے جس کو ماننا اور اقرار کرنا ہر انسان کا فریضہ ہے کہ وہ حاکم مطلق جس میں حقیقی اور قانونی حاکمیت دونوں موجودہیں اور جس کے قبضہ قدرت میں ثواب وعقاب ہے توپھر اس حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاک وپاکیزہ اور عادل ہو، اور اس کی پاکیزگی عدل مطلق کے درجہ تک پهونچی ہوئی ہو، تاکہ انسان اپنی خوشی اور اطمینان اور رضایت کے ساتھ اس کی اطاعت کرے اور اس کی ذات کو تمام شهوات اور نفسانی خواہشات سے پاک ومنزہ مانے، اس حاکم کی عدالت پر بھر پور اعتماد کرے، تاکہ اس کے احکام اور اس کی عدالت میں کوئی شک وشبہ نہ ہونے پائے، اور اگر اس حاکم کی عدالت پر ایما ن نہ ہو اور اس کو ظلم وجور سے پاک ومنزہ نہ مانے تو پھر انسان اپنے نفس کو نفس پرستی سے نہیں روک سکتا ، اور نہ ہی اپنے کو اعمال صالحہ پر پابند بناسکتا ہے اور نہ ہی اپنے کو محرمات سے روک سکتا ہے۔
عدل کے عقیدہ کے لئے اور اس کو ارکان اسلام کا ایک اہم رکن ماننے نیز ظلم کو قبیح ماننے اور اسی کو برائی وفساد کی بنیاد ماننے کے لئے ہمارے لئے کافی ہے کہ قرآن کریم نے ہم سب لوگوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا ہے اور ظلم وستم سے منع فرمایا ہے جیسا کہ عقل بھی یھی حکم کرتی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
عدل کے بارے میںقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
إِنَّ اللّٰهَ یَاٴمَرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ
)
”بے شک خداوند عالم انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور احسان کا حکم کرتا ہے۔“
(
اِعْدِلُوْا هو اٴَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ
)
”تم (ھر حال میں) انصاف کرو، یھی پرھیزگاری سے بہت قریب ہے۔“
(
وَ إِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اٴَنْ تَحْکَمُوْا باِلْعَدْلِ
)
”اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔“
(
وَاٴُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ
)
”اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمھارے (اختلافات کے) درمیان انصاف (سے فیصلہ) کروں۔“
(
هَلْ یَسْتَوِیْ هو وَمَنْ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ هو عَلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ
)
”کیا وہ شخص جو لوگوں کو عدل میانہ روی کا حکم کرتا ہے اور وہ خود بھی سیدھی راہ پر قائم ہے۔“
(
وَتَمَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً
)
”اور سچائی اور انصاف میں تو تمھارے پروردگار کی بات پوری ہوئی۔“
اسی طرح قرآن مجید میں ظلم وستم سے نھی کی گئی ہے اور ظلم کے نتائج سے باخبر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
(
قَالَ اٴَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسُوْفَ نُعَذِّبُهُ
)
” جو شخص سرکشی کرے گا ہم اس کو فوراً سزا دیں گے۔“
(
وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظَّاْلِمِیْنَ
)
”خدا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔“
(
لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الظَّاْلِمِیْنَ
)
”ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔“
(
وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اٴیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلَبُوْنَ
)
”اور جن لوگوں نے ظلم کیا انھیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ لوٹائے جائیں گے۔“
(
فوَیلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ اٴَلِیْمٍ
)
”جن لوگوں نے ظلم کیا ان پر درد ناک دن کے عذاب سے افسوس ہے۔“
(
وَمَا ظَلَمْنَاْهُم وَلَکِنْ کَانُوْا اٴَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
)
”ان پر کچھ ظلم نہیں کیا مگر وہ لوگ خود اپنے اوپر ستم توڑتے رھے ہیں۔“
(
وَمَا ظَلَمْنَاْهُمْ وَلَکِنْ ظَلَمُوْا اٴَنْفُسَهُمْ
)
”اور ہم نے کسی طرح ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے آپ اپنے اوپر (نافرمانی کرکے) ظلم کیا۔“
قارئین کرام ! یہ تھیں قرآن مجید کی بعض وہ آیات جن میں خداوند عالم نے عدل کا حکم دیا ہے اور عدل کی ترغیب (رغبت) دلائی ہے نیز ظلم وجور سے روکا ہے اور اس کے نتائج سے مسلمانوں کو باخیر کیاھے، (اور اس سلسلہ میں مزید بہت سی آیات ہیں جن کو اختصار کے پیش نظر بیان نہیں کیا گیا ہے)
لہٰذا ان تمام آیات کے پیش نظر خداوندعالم کو عادل مطلق اور ظلم سے پاک وپاکیزہ ماننا ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خداوندعالم کو عادل ماننے کے لئے ہمیں کسی قرآنی آیت یا دوسری لفظی دلیلوں کے سھارے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود عقل انسانی اس مسئلہ پر بہترین دلیل ہے، کیونکہ عدل کو حسن ماننا اور ظلم کو قبیح ماننا عقل کے ان مسلمات میں سے ہے جن کے لئے کسی بھی دلیل وبرھان کی ضرورت نہیں ۔
کیونکہ اگر کوئی انسان آپ کی مکمل طور پر اطاعت کرے اور آپ کے احکامات کو مکمل طریقہ سے انجام دے لیکن پھر بھی آپ کی طرف سے یہ یقین ہو کہ آپ اس کو پریشان کریں گے یا اس کو اذیت دیں گے یا آپ اس کی اطاعت کا صلہ نہیں دیں گے، تو انسانی عقل چاھے مومن ہو یا کافر اس بات کے لئے قطعی راضی نہیں ہوگی بلکہ اس کام کو بہت برا اور پست ترین صفات میں شمار کرے گی۔
اسی بنا پر اس مسئلہ میں کوئی بھی مخالف نہیں ہے۔
اور چونکہ خداوندعالم (جوکہ کمالِ مطلق ہے) ایک عام انسان کے اخلاق سے گرا ہوا نہیں ہے (تعالی اللّٰہ عن ذالک علواً کبیراً)
مزید وضاحت:
قارئین کرام ! ہم ایک بنیادی اور اہم قاعدہ پر ایمان رکھتے ہیں (جیسا کہ عقل کا فیصلہ بھی یھی ہے) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوندعالم کے افعال صرف اور صرف حسن (نیک) ہوتے ہیں، یعنی خداوندعالم کسی بھی فعلِ قبیح کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ خداوندعالم اس برے فعل کی برائی جانتا ہے اور اس فعل کے انجام دینے میں کوئی رغبت بھی نہیں رکھتا،کیونکہ جب کوئی انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کو کسی نہ کسی غرض کے لئے یا اس کی برائی سے لاعلمی کی وجہ سے یا اس کو کسی ذاتی مصلحت کے لئے انجام دیتا ہے، لہٰذا خداوندعالم اس برے کام کو اس لئے نہیں انجام دیتا کہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، ہر چیز کا عالم ہے اور کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔
اسی طرح ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں (گذشتہ قاعدہ کے تحت اور عقلی حکم کی بنا پر بھی) کہ خداوندعالم کا ہر کام کسی نہ کسی غرض اور کسی نہ کسی فائدہ کے لئے ہوتا ہے:
(
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلاً
)
”اور ہم نے آسمان اور زمین اورجو چیزیںان دونوں کے درمیان ہیں بے کار نہیں پیدا کیا۔“
(
اٴَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَاْ خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً
)
”تو کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تم کو یوں (ھی) بے کار پیدا کیا ہے۔“
مذکورہ آیت میں فعل عبث (بے ہودہ کام)کی نفی کی گئی اور بے ہودہ کام بے غرض ہوتا ہے اور بے غرض وبے مقصد کام حکیم اور صاحب عقل کے لئے قبیح ہوتاھے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ فعل قبیح خداوندعالم کے لئے محال ہے۔
غرض سے ہماری مراد یہ نہیں ہے (جیسا کہ بعض خود غرض لوگوں نے مراد لی ہے) بلکہ وہ غرض جو خدا کی طرف پلٹتی ہے وہ ذاتی مصلحت یا ذاتی منفعت کے تحت ہوتی ہے، اور چونکہ خداوندعالم کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور نہ خدا کے لئے ہماری اصطلاح کے مطابق کوئی مصلحت ہے بلکہ اس غرض سے انسانوں کا فائدہ اور نظام کائنات کی مصلحت مراد ہوتی ہے۔
اور چونکہ خداوندعالم کا کوئی بھی کام عبث اور لهو ولعب نہیں ہوتا ،تو پھر ضروری ہے کہ خدا کے بارے میں یہ ایمان رکھیں کہ وہ اپنے بندوں سے اطاعت چاہتا ہے اور نافرمانی کو ناپسند سمجھتا ہے:
(
یُرِیْدُ اللّٰهُ اٴَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاْتِهِ
)
”خدا یہ چاہتا ہے کہ دینی باتوںسے حق کو ثابت کرے“
(
وَلاٰ یَرْضٰی لِعَبَادِهِ الْکُفْرَ
)
”(خدا) اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری پسند نہیں کرتا“
(
فَاِنَّ اللّٰهَ لاٰ یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ
)
”خدا قوم فاسقین سے ہر گز راضی نہ ہوگا“
(
یُرِیْدُ لِیُطَهرکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکُمْ
)
”(خدا) یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک وپاکیزہ کردے اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردے“
(
یُرِیْدُ اللّٰهَ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَیَهْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ
)
”خدا تو یہ چاہتا ہے کہ (اپنے احکام) تم لوگوں سے صاف صاف بیان کردے اور جو اچھے لوگ تم سے پہلے گذر چکے ہیں ان کے طریقہ پر چلادے“
قارئین کرام ! یہ وہ حقیقت ہے جس کے لئے کسی لفظی دلیل کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمارے لئے کافی ہے کہ خداوندعالم نے تمام لوگوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے، (اور اس کے لئے حکم کرنا صحیح نہیں ہے مگر وھی کام جس کا وہ ارادہ کرے) اور خداوندعالم نے لوگوں کو اپنی نافرمانی سے منع فرمایا ہے (اور اس کا نھی کرنا صحیح نہیں ہے مگر جس کام کو وہ ناپسند کرے) بلکہ یہ بات عقلی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے کہ جس کام کو نہیں چاہتا اس کا حکم دے اور جس کو پسند کرتا ہے اس سے روکے۔
لیکن بعض مسلمان متکلمین نے اس بات کو ماننے سے انکار کیا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ تمام اطاعتیں اور نافرمانیاں جن کے انسان مرتکب ہوتے ہیں وہ تمام افعال خدا میں سے ہیں اور وہ سب خداکے خاص ارادہ کے تحت انجام پاتے ہیں، (یعنی تمام کام خدا کرتا ہے انسان کچھ نہیں کرتا)
چنانچہ اس بات پر ان کی دلیل دو چیزیں ہیں:
پہلی دلیل:۔ اگر خداوندعالم صرف اطاعت کا ارادہ کرے، تو پھر اس کا ارادہ ہر حال میں متحقق ہونا چاہئےے، اگرچہ بندہ اس کی مخالفت ہی کیوں نہ کرنا چاھے ، کیونکہ اگر انسان نافرمانی کا ارادہ کرے، تو یہ خداوندعالم کے ارادہ کے خلاف ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خداوندعالم کا ارادہ فیل ہوگیا ہے، (نعوذ باللہ) اور خدا کے ارادہ پر بندہ کے ارادہ کا غلبہ ہوگیا ہے، اور یہ بات غیر ممکن اور غیر معقول ہے۔
لہٰذا یہ بات کھی گئی کہ خداوندعالم ہمیشہ اپنے بندوں سے اطاعت نہیں چاہتابلکہ جو وہ چاھے وہ انجام پاتا ہے۔
قارئین کرام ! اس مذکورہ اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خداوندعالم ھرحال میں اطاعت چاہتا ہے لیکن خداوندعالم بندہ کو مجبور نہیں کرتا بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ خود اپنی مرضی،رغبت اور یقین کے ساتھ اس کی اطاعت کرے، اور صرف مکلف کے ارادہ سے وجود پائے، بغیر اس کے خداوندعالم کے ارادہ سے اس کا کوئی ربط ہو۔
دوسری دلیل:۔ خداوندعالم جس چیز کے انجام پانے کے بارے میں علم رکھتا ہے اس کا انجام پانا ضروری ہوتا ہے اور اس کا جس چیز کے نہ ہونے پرعلم ہوتا ہے اس کو انجام نہیں پانا چاہئے۔
پس جب خداوندعالم کسی انسان سے اطاعت نہ کرنے کا علم رکھتا ہے تو پھر انسان پر اس کا انجام دینا محال ہے، کیونکہ وہ ایسا کام کیسے کرسکتا ہے جو محال ہو، اور چونکہ خداوندعالم ہر چیز پر احاطہ رکھتا ہے تو پھر بندوں کے تمام افعال، خداوندعالم کے علم کے مطابق ہونے چاہئےں ، چاھے بندہ اس کام کا ارادہ کرے یا نہ کرے، لہٰذا انسان کے لئے اطاعت ونافرمانی میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
اس اعتراض کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوندعالم کے علم کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سامنے تمام حقائق واضح اورتمام چیزیں روشن ہیں اسی وجہ سے خداوندعالم کا ابولھب کے کفر اور ہمیشگی عذاب کے بارے میں خبر دینا ہے، کیونکہ خداوندعالم کو معلوم ہے کہ یہ شخص اسلام کا اقرار نہیں کرے گا اور آخر عمر تک اپنے کفر پر بضد رھے گا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خداوندعالم کا علم اس کے ایمان نہ لانے کا سبب ہے اور آخر عمر تک اس کے کفر پر باقی رہنے کا باعث ہے۔
قارئین کرام ! اس بات کو سمجھانے کے لئے ہم ایک دنیاوی مثال پیش کرتے ہیں:
فرض کیجئے جب کوئی ڈاکٹر کسی مریض کود یکھتا ہے اور اس کا معائنہ کرنے کے بعد اس کے نہ بچنے کی خبر دیتا ہے تو اس کی وجہ اس کا خطرناک مرض ہوتاھے اور کبھی کبھی اس کے تیمارداروں کو یہ بھی خبر دیدیتا ہے کہ یہ شخص مرنے سے پہلے بہت زیادہ درد وپریشانی میں مبتلا رھے گا۔
کیونکہ ڈاکٹر اس کے مرض کی کیفیت کو اچھی طرح جانتا ہے تو کیا کوئی انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ اس شخص کی موت کا سبب ڈاکٹر کا علم ہے؟! یا یہ کہ ڈاکٹر کا علم اور اسی کی موت کا خبر دینا ڈاکٹر پر اس کی حقیقت واضح و روشن ہونے کی وجہ ہے۔
اس طرح کی گفتگو کرنے والوں پر یہ بات پوشیدہ رھی ہے اور انھوں نے دو فاعلوں میں غلط فہمی کی ہے کیونکہ کوئی فاعل جیسے انجینیر، مو لف اور شاعر کے لئے ضروری ہے کہ یہ لوگ پہلے اپنے کام کو اپنے ذہن میں تصورکریں کیونکہ اسی تصور کے تحت ان کی کتاب، قصیدہ اور نقشہ تیار ہوتا ہے جو ان کے سابق علم کا معلول ہوتا ہے۔
لیکن واقعیات کا علم (مثلاً بندوں کے افعال پر خداوندعالم کاعلم) اس کے بر خلاف ہوتا ہے کیونکہ ان کا علم صرف کشف حقیقت ہوتا ہے اور جس طرح ہونے والا ہوتا ہے اسی پرعلم ہوتا ہے اور اس علم میں علت وسبب کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔
قارئین کرام ! ہمارے لئے یہ بات واضح ہے کہ ان دونوں اعتراضات میں کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے گذشتہ مطلب ثابت ہوسکے، کیونکہ خداوندعالم اپنے ارادہ میں انسان کو مجبور نہیں کرتا، اور نہ ہی اس کا علم اطاعت ومعصیت کا سبب بنتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد پروردگار ہے:
(
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاّٰ مَا سَعٰی
)
”اور یہ کہ انسان کو وھی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔“
(
وَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْهِ کُفْرُهُ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِاٴَنْفُسِهِمْ یَمْهَدُوْنَ
)
”جوکافر بن بیٹھا اس پر اس کے کفر کا وبال ہے اور جنھوں نے اچھے کام کئے وہ اپنے ہی لئے آسائش کا سامان کررھے ہیں“
قارئین کرام ! ان اعتراضات کے جوابات اور ردّ نیز ان جیسے اعتراضات کے مزید جواب آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔
جبر واختیار
”جبر واختیار“ کا مسئلہ ایک طولانی بحث کا حامل ہے چند صفحات میں اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس کتاب میں اس کی تفصیل بیان ہوسکتی ہے۔
اور چونکہ مسئلہ ”جبر“ ایک سیاسی حربہ ہے یہ صرف غیر مذھبی حکام نے اپنے افعال واعمال کو صحیح کرنے کا ایک ذریعہ نکالا ہے ، ان کا مقصد صرف اسلام کے مخالف اعمال کو غیر اختیاری (جبری) کہہ کر عذر پیش کرنا ہے ۔
یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پہلو رکھتا ہے اسی وجہ سے علم کلام کے اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے اور عقائد کے باب میں اہم باب ہے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ہے۔
مسئلہ ”جبر“ یااس کے مثل دوسرے مسائل جن پر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے ان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کے افعال واعمال صرف اس کے ارادہ واختیار سے انجام نہیں پاتے بلکہ وہ خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انجام پاتے ہیں اور ان کے انجام دینے میں انسان کا کوئی کردار نہیں ہوتا، اس نظریہ کو ”جبر“ کھا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو مجبور ماننا پڑتا ہے، چاھے وہ اطاعت ہو یا معصیت یعنی ان کے انجام پر مجبور ہوتا ہے چاھے ان کا ارادہ کرے یا نہ کرے۔
چنانچہ جبر کے قائل لوگوں نے اپنے گمان کے مطابق قرآن کریم کی بعض وہ آیات جن میں اس بات کا ایک ھلکا سا اشارہ پایا جاتا ہے، پیش کی ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
(
قُلْ لَنْ یُصِیْبَنَا اِلاّٰ مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَنَا
)
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ ہم پر ہر گز کوئی مصیبت نہیں پڑسکتی مگر وھی جو خدا نے (ہماری تقدیر میں) لکھ دیا ہے۔“
(
قُل کُلُّ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ
)
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ سب خدا کی طرف سے ہے“
لہٰذا ان آیات کے پیش نظر ان لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ان آیات کے ذیل میں انسان کے افعال واعمال بھی آتے ہیں۔
جبکہ بعض مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے (کیونکہ وہ مذکورہ نظریہ کو باطل جانتے ہیں) کہ انسان او ر خداوندعالم میں سوائے خلق اول کے کوئی رابطہ نہیں ہے، یعنی خداوندعالم نے ان کو خلق کرنے کے بعد مکمل آزاد کردیا ہے اور تمام چیزوں کو انھیں پر چھوڑ دیا ہے ، ان کا خدا سے کوئی ربط نہیں ہے، ان کا ماننا یہ ہے کہ علت محدثہ معلول کی بقا کے لئے کافی ہے، اس حیثیت سے کہ معلول اپنے وجود کے بعد اپنی علت سے بے نیاز ہوجاتا ہے کیونکہ وہ فقط پہلی علت حدوث کا محتاج ہوتا ہے ،چنانچہ علماء علم کلام اس نظریہ کو” تفویض“ کہتے ہیں یعنی خداوندعالم نے تمام کاموں کو انسان پر چھوڑ دیا ہے اور اب اس سے کوئی مطلب نھیں۔
جبکہ حقیقت میں صحیح نظریہ ان دونوں نظریات کا درمیانی راستہ ہے، اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کا بیان بہترین او ر دقیق ہے، آپ نے اپنی مشهور حدیث میں فرمایا:
”لا جبر ولا تفویض ، بل منزلة بین المنزلتین
“
(نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ صحیح ہے)
وضاحت:
ھرانسان فطری طور پر اس بات کو سمجھتا ہے کہ وہ بہت سے کاموں پر قادر ہے اور وہ جن کاموں کا ارادہ کرے ان کو انجام دے سکتا ہے اور جن کاموں کو انجام نہ دینا چاھے ان کو چھوڑ سکتا ہے اور ہمارے لحاظ سے کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہوگا جو اس بات میں شک کرے، جو اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ انسان مکمل طور پر آزاد ہے۔
اسی طرح ہر انسان یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ تمام صاحبان عقل اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص اچھے کام کرتا ہے اس کی مدح وتعریف کرتے ہیں اور جو شخص برے کام کرتا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں، اور یہ بھی اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ انسان اپنے افعال میں مکمل آزاد ہے اور (اگر اختیار نہ ہو) تو صاحبان عقل کا مدح ومذمت کرنا صحیح نہ ہوگا۔
اسی طرح انسان فطری طور پر اس بات کا بھی احساس کرتا ہے کہ انسان کے کسی بلندی سے سیڑھی کے ذریعہ نیچے اترنے اور بلندی سے زمین کی طرف کودنے میں فرق ہے کیونکہ انسان پہلی صورت پر قادر ہے اور دوسری صورت میں مجبور۔
اسی طرح عقل سلیم کے نزدیک یہ بات بھی مسلم ہے اور کسی کو بھی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان میں ان طاقت وتوانائی کا خلق کرنے والا ان کو ایجادکرنے کے بعد ان سے جدانھیںهوا ہے، بلکہ ان چیزوں کاباقی رہنا ہر لمحہ اس مو ثر کا محتاج ہے،کیونکہ ان اشیاء کا خالق کسی معمار کی طرح نھیںھے کہ مکان بننے کے بعد مکان کو معمار کی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ عمارت اپنی جگہ پرباقی رہتی ہے چاھے اس کابنانے والا معمار مرھی کیوں نہ ہوجائے، اسی طرح کتاب جو اپنے لکھے جانے میںکاتب کی محتاج ہے ، بلکہ اس کائنات اور جوکچھ اس میں موجود ہے؛کاخالق روشنی کے لئے بجلی کی طرح ہے کہ جب تک بجلی رہتی ہے روشنی باقی رہتی ہے، اورروشنی اپنی بقاء میں ہر لمحہ بجلی کی محتاج رہتی ہے اوراگر بجلی کا تار ایک لمحہ کے لئے ہٹالیاجائے تو روشنی فوراًختم ہوجاتی ہے،بالکل اسی طرح اس کائنات کی تمام چیزیں اپنے وجود اور بقاء میںھر لمحہ اپنے مبدع اور مصدر (خالق) کی محتاج ہیں۔
قارئین کرام ! ہماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کے اعمال وافعال جبر وتفویض کے درمیان ہوتے ہیں، اور ان کے لئے دونوں میں حصہ ہوتا ہے، لہٰذا فعل یا ترک کو انجام دینے کی طاقت اگرچہ انسان کے اختیار سے ہی ہوتی ہے لیکن یہ قدرت خدا کا عطیہ ہے، اور انسان کا فعل ایک لحاظ سے خود انسان کی طرف منسوب ہوتاھے، اور ایک لحاظ سے خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن سے ”جبریوں“ نے استدلال کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسان کا اختیار کسی کام کو انجام دینے میں خدا کی قدرت کے نافذ ہونے میں مانع نہیں بن سکتا، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خدا کی ذات اور اس کی قدرت سے بے نیاز ہوگیاھے ؟!!۔
اس سلسلہ میں ہمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رحمةاللہ علیہ نے اپنے درس میں ”المنزلة بین المنزلتین“کی تفسیر کرتے ہوئے درج ذیل بہترین مثال پیش کی:
”اگر کسی انسان کا ھاتھ اس طرح شَل ہوجائے کہ وہ اس کو نہ چلا سکے، اور کوئی ڈاکٹر اس کے کوئی ایسا آلہ لگائے جس کی وجہ سے اس کا ھاتھ حرکت کرنے لگے، اس طرح کہ جب وہ آلہ لگا ہوا ہو تو انسان اپنے ھاتھ کو حرکت دے سکے، تو جب تک وہ آلہ لگا ہوا ہے اس کا ھاتھ کام کرتا ہے اور جب اس کو الگ کردیا جائے تو اس کا ھاتھ اپنی پہلی حالت پر پلٹ جائے، تو جب اس کے وہ آلہ لگا ہوا ہے اور وہ اپنے ھاتھ کو حرکت دینے پر قادر ہے اور اپنے معمولی کاموں کو انجام دے رھا ہے تو اس کی یہ حرکت دونوں چیزوں کی سبب ہوگی ایک لحاظ سے صاحب دست کی طرف مستند ہے کیونکہ وہ اپنا ھاتھ خودچلا رھا ہے ، دوسری طرف وہ حرکت اس آلہ کی طرف بھی منسوب ہے کیونکہ وہ اس آلہ کے ذریعہ اپنا ھاتھ چلانے پر قادر ہے۔“
قارئین کرام ! یھی گذشتہ مثال مسئلہ ”جبر وتفویض“ کو اچھی طرح واضح کردیتی ہے کیونکہ ایک انسان حیات وقدرت کے عطا کرنے والے کا محتاج ہے جو ہر حال میں خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے لہٰذا ”تفویض“ بھی نہیں اوردوسری طرف انسان اپنے اعمال میں مجبوربھی نہیں ہے اور اس کے افعال بغیر اس کے ارادہ کے انجام نہیں پارھے ہیں لہٰذا ”جبر“ بھی نہیں ہے۔
لہٰذامذکورہ مطلب کے پیش نظر ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان فعل وترک پر مکمل اختیار رکھتا ہے اور اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے یعنی انسان کے مختار ہونے کے سلسلہ میں کچھ دلائل پیش کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ہوئے اعتراضات کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
۱ ۔اختیاری اوراضطراری افعال میں فرق
ہم نے اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان کے وہ افعال جواس کے قصد وارادہ سے انجام پاتے ہیں اور ان افعال میں جو اس کے اراداہ کے بغیر انجام پاتے ہیں ان دونوں میں واضح فرق ہے مثلاً کسی کے ھاتھ میں رعشہ پیدا ہوجائے اور اس کا ھاتھ ھلتا رھے، تو یہ اس کے مرض کی وجہ سے ہے اور انسان اس کو روکنے پر قادر نہیں ہے کیونکہ اسکے اختیار اورطاقت سے باھر ہے اور کبھی اس کاکام اختیاری ہوتاھے اوروہ اپنے اختیارسے انجام دیتاھے۔
اسی طرح انسان دوسرے افعال میں بھی فرق محسوس کرتاھے کہ کچھ کام اس کے اختیار سے ہوتے ہیں اور کچھ کام بغیر اختیار کے۔
او رجب ہمارے تمام افعال (ایک گمان کے مطابق) خداوندعالم کی مخلوق ہیں اور ان میں ہمیں ذرہ برابر بھی اختیار نہیں ہے تو پھر اختیاری و اضطراری کاموں میں فرق کااحساس کیسے کرسکتے ہیں؟!
اس سلسلہ میں بعض متکلمین نے فلسفہ تراشی کی ہے اور دونوں (اختیاری واضطراری) میں فرق بیان کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ فعل اضطراری وہ افعال ہیں جو خدا کے ارادہ سے انجام پاتے ہیں انسان کی قدرت او ر اس کے ارادہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، او ر فعل اختیاری وہ ہوتے ہیں جن کو خداوندعالم انسان کے ارادہ کے ساتھ ساتھ ایجاد کرتا ہے۔ لیکن ان کا یہ قول بالکل واضح البطلان ہے۔
کیونکہ اگرقدرت سے مراد ، مشهور لغوی معنی ہوںکہ” اگر چاھے انجام دے اورنہ چاھے تو انجام نہ دے“ تو یہ مذکورہ جبر کے معنی کے خلاف ہیں بلکہ یہ تو اختیار پر دلیل ہے اور اگر اس قدرت سے کوئی دوسرے معنی مراد ہوں، تو پھر یہ اکراہ کے خلاف نہیں ہے، اور اس کو کبھی بھی قدرت نہیں کھا جاسکتا۔
لیکن اگر ارادہ کے معنی مذکورہ فلسفی لحاظ سے لئے جائیں تواسکے معنی بھی اختیار کے ہوں گے۔ (جیسا کہ صحیح بھی ہے)کیونکہ قائل کے گمان کے مطابق یھاںپر اختیار ہے ہی نھیں۔ کیونکہ (دعوی کے مطابق) فعل انسان کے ارادے واختیارسے نہیں ہے، او ر اگر قائل کے نزدیک ارادہ کے معنی فعل کوانجام دینے میں رغبت مراد ہو تو یہ رغبت فعل کا ایجاد کرنانھیںھے جیسا کہ ہماری عقل بھی یھی کہتی ہے،کیونکہ ایسے بہت سے کام ہیں جن میں انسان رغبت رکھتاھے لیکن صرف رغبت سے وہ کام نھیںهوپاتے، جبکہ رغبت عین فعل نہیں ہے (جیساکہ ہم پہلے کہہ چکے) تو پھراختیار واضطرار میں مذکورہ فرق لاحاصل ہوجاتاھے۔
۲ ۔اختیارکے سلسلہ میں قرآن مجید کی وضاحت :
قرآن مجید میںایسی بہت سی آیات موجودھیں جو اختیار کو بہترین طریقہ سے ثابت کرتی ہیں،اور واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسان اپنے افعال واعمال میں مکمل طور پر مختارھے اوراگر ہر فعل اس انسان کی طرف منسوب ہے جس میں کسی بھی طرح کی تاویل وتفسیرنھیں کی جاسکتی۔
ارشادخداوندی ہوتاھے:
(
کُلُّ امْرِیٴٍ بِمَا کَسَبَ رَهِیْنٌ
)
”ھرشخص اپنے اعمال کے بدلے میں گرو ہے“
(
مَنْ یَّعْمَلُ سُوْء اً یُجْزَ بِهِ
)
”اور جو بھی برام کام کرے گا بھر حال اس کو سزا ملے گی“
(
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اٴَسَاٴتُمْ فَلَهَا
)
”اگر تم لوگ اچھے کام کروگے تو اپنے فائدہ کے لئے کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو(بھی) اپنے لئے۔“
(
فَمَنْ شَاءَ فَلْیُو مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ
)
”بس جو چاھے ایمان لائے اور جو چاھے کفر اختیار کرے“
(
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراً یَرَهُ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَهُ
)
”جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو اسے (بھی) دیکھ لے گا“
(
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْهُدیٰ
)
”اور رھے ثمود تو ہم نے ان کو سیدھا رستہ دکھادیا مگر ان لوگوںنے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا“
(
اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
)
”جو کچھ تم کرتے تھے تمھیں اس کی سزا دی جائے گی“
(
وَاَنِّی لاٰ اُضِیْعُ عَمَلَ عَاْمِلٍ مِنْکُمْ
)
”ہم تم میں سے کسی کے عمل کو ضایع نہیں کرتے“
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ہیں جو تمام کی تمام اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے اختیار کی وجہ سے خود انسان کی طرف ہے، لیکن کوئی فعل خدا کی مشیت اور اس کے ارداہ کے بغیر انجام نہیں پاتا۔
لیکن بعض لوگوں نے اس نظریہ کو نہیں مانا اور کھا کہ خداوندعالم کا یہ قول:
(
اَللّٰهُ خَالِقُ کُلِّ شَیٴٍ
)
”اللہ ہر چیز کا خالق ہے“
اس بات کی دلیل ہے کہ تمام افعالِ انسان،خدا کی مخلوق ہیں کیونکہ ”کُلِّ شَیٴٍ
“ میں افعال انسان بھی آتے ہیں اور یہ افعال صرف انسان کی تخلیق نہیں ہیں، لہٰذا یہ ”جبر“ ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت انسان کے افعال واعمال کے سلسلہ میں نہیں ہے بلکہ اس آیت میں ان لوگوں کے نظریہ کی رد ہے جو متعدد خالق مانتے تھے مثلاً زمین کا خالق، افلاک کا خالق، انسانوں کا خالق وغیرہ وغیرہ، لہٰذا یہ آیت ان لوگوں کی ردّ میں نازل ہوئی ہے اور یہ کہتی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور تمام اشیاء کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
لفظ ”خالق“ کا خداوندعالم سے مخصوص ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہم اس کی خلقت کو تمام چیزوں میں عمومیت دیدیں یھاں تک انسان کے افعال بھی خدا کی مخلوق میں شمار ہونے لگےں، کیونکہ قرآن مجید میں تو خلق کی نسبت انسان کی طرف بھی دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد الٰھی ہوتا ہے:
(
وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِبِاِذْنِی فَتَنْفَخُ فِیْهَا فَتَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِی
)
”اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے چڑیا کی مورت بناتے پھر اس پر (کچھ) دم کردیتے تو میرے حکم سے (سچ مچ) چڑیا بن جاتی۔“
(
اٴَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُم مِنَ الطِّیْنِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِبِاِذْنِی فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ الله
)
”میں گندھی ہوئی مٹی سے ایک پرندہ کی مورت بناؤں گا پھر اس پر (کچھ) دم کرونگا تو وہ حکم خدا سے اڑنے لگے گا“
(
وَتَخْلُقُوْنَ اِفْکاً
)
:
”تم ان کو گھڑتے ہو۔“
(
فَتَبَارَکَ اللّٰهُ اٴَحْسَنُ الْخَاْلِقِیْنَ
)
”(سبحان اللہ) خدا بابرکت ہے سب بنانے والوں سے بہتر ہے“
(
وَتَذَرُوْنَ اٴَحْسَنَ الْخَاْلِقِیْنَ
)
”اور خدا کو چھوڑ بیٹھے ہو جو سب سے بہتر پیدا کرنےوالا ہے“
قارئین کرام ! مذکورہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان بھی خالق ہے لیکن خداوندعالم احسن الخالقین ہے۔ لیکن قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے یہ استدلال کرنا کہ افعالِ انسان، خداوندعالم کی ایجاد ہے:
(
اَللّٰهُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ
)
” خدا تمھارا خالق ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو“
کیونکہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ جو کچھ انسان انجام دیتا ہے وہ خداوندعالم کی خلقت ہے تو نتیجہ باطل ہے کیونکہ یہ آیہ شریفہ پہلی آیت کا نتیجہ ہے ارشاد ہوتا ہے:
(
قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ
)
(جناب ابراھیم نے کھا کہ افسوس ) تم اس کی پرستش کرتے ہو جسے تم لوگ خود تراش کر بناتے ہو“
لہٰذا اس سوال کے جواب میں یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی:
(
اَللّٰهُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ
)
اگر انسان ان دونوں آیات کوسامنے رکھے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ آیہ کریمہ ان لوگوں کی ردّ میں نازل ہوئی جو لکڑی اور پتھر سے بت بناکر ان کی عبادت کیاکرتے تھے اور ان سے قربت حاصل کرتے تھے، لہٰذا خداوندعالم نے اس آیت کے ذریعہ یہ ظاہر کردیا کہ ہم ہی نے ان مشرکین کو پیدا کیا ہے اور ان چیزوں کو پیدا کیا جن کے ذریعہ سے مشرکین بت بناتے ہیں۔
لہٰذا اس آیت میں بندوں کے افعال واعمال کے متعلق کوئی بات نہیں ہے۔
۳ ۔ عذاب، خود اختیا رپر دلیل ہے :
قارئین کرام ! خداوندعالم کا گناہکاروں پر عذاب کرنا، انسان کے مختار ہونے پر بہترین دلیل ہے، اس سلسلہ میں قرآن مجید میںموجودہ آیات کو ملاحظہ فرمائیں:
(
لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
)
”اگر (کھیں) شرک کیا تو یقیناً تمھارے سارے اعمال اکارت ہوجائیں گے اور ضرور تم گھاٹے میں آجاؤگے“
(
فَلاَیُجْزَی الَّذِینَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ إِلاَّ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ
)
”اور برائی کرنے والوں کو اتنی ہی سزا دی جائے گی جیسے وہ اعمال کرتے رھے ہیں“
(
یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اٴَلْسِنَتُهُمْ وَاٴَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
)
”جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ھاتھ اور پیر ان کی کارستانیوں کی گواھی دیں گے“
(
وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
)
”اور جیسی جیسی تمھاری کرتوتیں تھیں (ان کے بدلے) اب ہمیشہ عذاب کے مزے چکھو“
(
وَقِیْلَ لِلظَّالِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ
)
”اور ظالموں سے کھا جائے گا کہ تم دنیا میں جو کچھ کرتے تھے اب اس کے مزے چکھو۔“
(
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اٴَمِرِهِ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ
)
”جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ان کو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ (مبادا) ان پر کوئی مصیبت آپڑے“
(
وَمَنْ یَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اٴَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ
)
”اور جس نے ہمارے حکم سے انحراف کیا اسے ہم (قیامت میں) جہنم کے عذاب کا مزا چھکائیں گے“
کیونکہ اگر خداوندعالم اپنے بندوں کے افعال کا خالق ہو اور پھر ان کاموں پر ان کو عذاب میں بھی مبتلا کرے تو یہ محال ہے کیونکہ یہ تو کھلم کھلا ظلم ہے، (کہ افعال کو خود انجام دے اور سزا بندوں کو دے) اور خداوندعالم ہر ظلم سے پاک وپاکیزہ ہے:
(
وَمَارَبُّکَ بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ
)
”اور تمھارا پروردگا ر بندوں پر (کبھی) ظلم کرنے والا نہیں ہے“
(
وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْس بِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ
)
” خدا تو کبھی بندوں پر ظلم کرنے والا نھیں“
(
وَمَا اٴَنَابِظَلاّٰمٍ لِلْعَبِیْدِ
)
”اور میں اپنے بندوں پر (ذرہ برابر بھی) ظلم کرنے والا نہیں ہوں“
(
وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِلْعَالَمِیْنَ
)
”اور خدا سارے جھان کے لوگوں (میںسے کسی) پر ظلم کرنا نہیں چاہتا“
(
وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِلْعِبَادِ
)
”اور خدا تو اپنے بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ہی نھیں“
(
اِنَّ اللّٰهَ لاٰ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ
)
”خدا تو ہر گز ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا“
(
اِنَّ اللّٰه لاٰ یَظْلِمُ النَّاْسَ شَیْئاً
)
”خدا تو ہر گز لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا“
(
وَلاٰ یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحداً
)
”اور تیرا پروردگار کسی پر (ذرہ برابر) ظلم نہ کرے گا“
(یہ تھیں وہ آیات جن میں خداوندعالم نے اپنے سے ظلم کی نفی کی ہے۔)
لیکن بعض علماء علم کلام نے خداوندعالم کی طرف ظلم کی نسبت کو صحیح مانا ہے ، چنانچہ ان کے نظریہ کا خلاصہ یہ ہے:
”خداوندعالم کے لئے ظلم قبیح نہیں ہے کیونکہ وہ ظلم قبیح ہے جس کو عقل مکروہ جانے، یعنی وہ ظلم قبیح ہے جو دوسرے پر کیا جائے لیکن اگر اپنے پر ظلم کیا جائے چاھے وہ اپنے بدن پر ہو یا اپنے مال اور اپنی عزت پر،کیونکہ انسان اپنے مال میں تصرف کرنے میں آزاد ہے اور بغیر کسی قید وشرط کے تصرف کرسکتا ہے اور اس کا یہ تصرف کرنا قبیح نہیں ہے۔
اسی طرح خداوندعالم کو بھی اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کامکمل حق ہے کیونکہ وھی ان کا خالق اور مالک ہے اور چونکہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہے اور اس کی قدرت وسلطنت کے آگے خاضع ہیں، لہٰذا وہ جس طرح چاھے ان میں تصرف کرسکتا ہے، پس جس کو چاھے عذاب کرے چاھے وہ مومن ہی کیوں نہ ہو، اور جس کو چاھے اپنی نعمتوں سے سرفراز کرے چاھے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تمام انسان اس کی ملکیت ہیں:
(
وَلاٰ یُسْاٴَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْاٴَلُوْنَ
)
”جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس ہوگی۔“
لہٰذا انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی عظمت کے سامنے اپنی قابلیت دھائے اور کھے کہ خداوندعالم کا یہ فعل حسن ہے اور یہ فعل قبیح۔
قارئین کرام ! یہ اعتراض چند وجوھات سے مردود اور باطل ہے:
۱ ۔ کیونکہ خداوندعالم کے بارے میں حکمِ عقل کے فرض کی گفتگو نہیں ہے بلکہ اس چیز کا بیان ہے جس سے بندوں کے معاملات میں فضل ولطف کی امید ہو، کیونکہ ہم اس بات کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں کہ محال پر تکلیف کرنا یا جس کام کے انجام دھی کی قدرت نہ ہو، اس کا حکم دینا یا گناہکار کوجنت میں داخل کرنا یا مطیع اور فرمانبردار کو جہنم میں داخل کرنا، ان تمام چیزوں پر خداوندعالم مکمل قدرت رکھتا ہے، اور ہر طریقہ کا تصرف کرسکتا ہے اور کوئی بھی حکم کرسکتا ہے، اور ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے کام انجام نہیں دیتا لیکن اس کا ان کاموں کو انجام نہ دینا اس کے لطف وکرم کی وجہ سے ہے نہ یہ کہ وہ ان کاموں کو انجام دینے سے قاصر اور عاجز ہے۔
۲ ۔ اگر ہم ظلم کو قبیح نہ مانیں تو پھر انسان خداوندعالم کے احکامات کی پیروی نہیں کرے گا کیونکہ ان احکامات اور ان کے نتائج کے درست ہونے پر یقین نہ ہوگا، اور اسی طرح اس کو خدا کے وعدہ وفا کرنے پر بھی اطمینان نہ ہو گا۔
جبکہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
(
اِنَّ اللّٰهَ لاٰ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ
)
”بے شک خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا“
کیونکہ یہ سب کچھ اس اعتبار سے ہے کہ ظلم، کذب اور خلف وعدہ قبیح ہے، لیکن اگر مسئلہ قبح وقباحت کو ہٹالیا جائے جیسا بعض لوگوں کا گمان ہے تو پھر انسان، خدا کی اطاعت، خواہشات نفس کی مخالفت ہوا اور نفس امارہ سے جنگ پر اطمینان اور اعتماد نہیں کرے گا۔
۳ ۔ ظلم کسی غیر پر تعدی کرنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ درمیانی راستہ سے افراط وتفریط کرنا بھی ظلم ہے، اسی وجہ سے کھا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے اوپر ظلم کیا، جبکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص اپنے تصرف، لباس، طعام، اور خرچ میں راہ اعتدال سے خارج ہوگیا ہے، درحالیکہ یہ سب کچھ اس کی ملکیت میں ہوتے ہیں، اور وہ اپنے مال میں تصرف کرنے میں بھی مکمل آزاد ہوتا ہے لیکن مذکورہ طریقہ کو عرف عام میں ظلم شمار کیا جاتا ہے۔
مثلاً اگر کوئی انسان کسی حیوان کو مارے جبکہ وہ حیوان اس کی ملکیت بھی ہو، اور اس کا فرمانبردار ،اور اس کو اذیت نہ دینے والا ہو تو کیا اس کو مارنے پر یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ میں تو اس کا مالک ہوں؟!
۴ ۔ ظلم قبیح ہے۔
اگر انسان اپنے افعال کے انجام دینے پر قادر اور مختار نہ ہو،اور صرف اس کے ارادہ سے ایجاد ہوجائے تو پھر خداوندعالم(معاذ اللہ) ”اظلم الظالمین“ ہوجائےگا، کیونکہ گناہگار شخص کو عذاب دیا جانا ضروری ہے اور چونکہ معصیت انسان کے اپنے اختیار سے نہیں ہے، لہٰذا اس کو عذاب کرنا کئی گنا ظلم سے بھی بُرا ہے۔
قارئین کرام ! ”جبر“ کا عقیدہ رکھنے والے اس سلسلہ میں دو جواب پیش کرتے ہیں:
۱ ۔ عذاب کسی فعل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ ”کسب “کی بنا پر ہے۔
لیکن ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ:
جو بات ”کسب“ کے لغوی معنی اور قرآن کریم میں استعمالات سے سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کسب اختیار کے ذریعہ انجام شدہ فعل کو کہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَنْ یَکْسِبْ اِثْماً فَاِنَّمَا یَکْسِبُهُ عَلیٰ نَفْسِهِ
)
”اور جو شخص کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سے کچھ اپنا ہی نقصان کرتا ہے“
(
لَهَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَااکْتَسَبَتْ
)
”اس (انسان) نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا (وبال) اسی پر پڑے گا“
(
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اٴَیْدِیَهُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا
)
”اور چور خواہ مرد ہو یا عورت تم ان کے کرتوت کی سزا میں ان کا (داہنا) ھاتھ کاٹ ڈالو“
(
وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّئَاٰتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِهَا
)
”اور جن لوگوں نے برے کام کئے ہیں تو گناہ کی سزا ان کے برابر ہے “
(
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
)
”جو لوگ گناہ کرتے ہیں انھیں اپنے اعمال کا عنقریب ہی بدلا دیا جائے گا“
اسی طرح قرآن کریم میں دیگر آیات بھی موجود ہیں جو تما م اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ارادہ واختیار کے ذریعہ جو فعل انجام پائے اس کو ”کسب“ کہتے ہیں لیکن اختیار کی ایک شرط قدرتِ انسان ہے۔
لہٰذا ان کو جب خود اپنا دعویٰ ناقص دکھائی دیا تو انھوں نے یہ کھا کہ وہ کسب جو عذاب کا سبب بنتا ہے وہ ایسا فعل ہے جو خدا سے صادر ہوتا ہے لیکن انسان کے ارادہ کے ساتھ یعنی اس فعل کے وجود کے لئے انسان کا ارادہ اور خدا کا اس کام کوکردینا ضروری ہے۔
لیکن ہم اس کا جواب یوں دیتے ہیں:
۱ ۔اگر یہ مقارن ہونا (ارادہ انسان اور فعل خدا کا ایک ساتھ ملنا) اختیار سے خارج ہو تو انسان پر عذاب کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کے گمان کے مطابق انسان تو صرف اس فعل سے رغبت رکھتا تھا، لیکن اس فعل کو خداوندعالم نے ایجاد کیا (ان کے گمان کے مطابق)
پس در حقیقت رغبتِ انسان اور ایجاد خدا میں مقارنت پائی گئی ، اور یہ مقارنت بھی خدا کے ارادہ اور اس کی قدرت کے ذریعہ پیدا ہوئی کیونکہ ان کے گمان کے مطابق وھی فاعل حقیقی ہے، تو پھر یہ کس طرح صحیح ہوگا کہ خداوندعالم اس بندہ پر عذاب کرے جس نے فعل ہی انجام نہ دیا ہو، یا اس مقارنت کی بنا پر جس پر اُسے ذرا بھی اختیار نھیں۔
۲ ۔ خداوندعالم کا اپنے بندوں پر ظلم کرنا قبیح نہیں ہے کیونکہ یہ تو مالک کے تصرف کا ایک حصہ ہے اور وہ جو چاھے کرسکتا ہے، (ہم نے اس سلسلہ میں وضاحت کردی ہے) کیونکہ خود ذات افعال میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کو حسن یا قبیح کا نام دیا جائے، اور انسان کے کاموں کو حسن وقبیح کہنا شریعت کی بناپر ہوتے ہیں کیونکہ جس کام کا شریعت نے حکم دیدیا ہے وہ حسن ہے اور جن کاموں سے روک دیا ہے وہ قبیح ہیں، کیونکہ اگر شارع کی نظر بدل جائے اور جس کام کا امر کیا تھا اس کے بارے میں نھی کردے اور جس چیز کے بارے میں منع فرمایا تھا اس کا حکم دیدے تو پھر قبیح، حسن سے اور حسن، قبیح سے بدل جائے گا، یعنی جو چیز حسن تھی وہ قبیح ہوجائے گی اور جو قبیح تھی وہ حسن ہوجائے گی۔
اور چونکہ (ان کے گمان کے مطابق) فعل کا حُسن وقبح شریعت مقدس کی وجہ سے ہے نہ کہ حکمِ عقل کی بنا پر، تو پھر خداوندعالم کے فعل کو حسن وقبح کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ وہ تو شریعت سے بھی بالاتر ہے، پس نتیجہ یہ ہوا کہ ہر وہ کام جو خدا انجام دے (چاھے ظلم پر ہی کیوں نہ منطبق ہو)وہ حسن وجمیل اور نیک ہے اور عقلِ انسانی یہ حکم کرنے سے قاصر ہے کہ خداوندعالم سے ظلم صادر ہونا قبیح ہے۔
قارئین کرام ! صحیح نظریہ بیان کرنے سے پہلے ہم حسن و قبح کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پھلے معنی :
حسن وقبح کا اطلاق کمال ونقص پر ہوتا ہے، لہٰذا علم حسن ہے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وکرم حسن ہیں اور ان کے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ہیں، اور ان میں کسی بھی مفکر اور دانشمند نے کوئی اختلاف نہیں کیا ہے کیونکہ یہ ایسے یقینی مسائل ہیں جن کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
دوسرے معنی:
حسن اس کو کہتے ہیں جو طبیعت کو اچھا لگے، اور قبیح اس کو کہتے ہیں جس سے طبیعت نفرت کرے،مثلاً یہ منظر، حسن ہے، یہ آواز حسن ہے یا بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن ہے، اسی طرح یہ بھی کھا جاتا ہے کہ یہ منظر قبیح ہے یہ آواز قبیح ہے، اور اس معنی میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ اس کا فیصلہ بھی خود انسانی شعور کرتا ہے اور اس میں شرع کا کوئی دخل نہیں ہے۔
تیسرے معنی :
حسن وقبح کا اس چیز پر اطلاق کرنا جو مستحق مدح وذم ہو، لہٰذا اسی بناپر یہ دونوں اختیاری افعال کی صفت قرار پاتے ہیں،اس حیثیت سے کہ عقلاء کے نزدیک حسن کے فاعل کو مستحق مدح وثواب سمجھا جاتا ہے اور تمام ہی لوگوں کے نزدیک قبیح کے فاعل کو مستحق ذم وعذاب سمجھا جاتا ہے ،اور یھی تیسرے معنی موضوع بحث ہیں۔
چنانچہ اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ افعال کے حُسن وقُبح پر عقل کوئی حکم نہیں کرتی، بلکہ حسن وہ ہے جس کو شریعت حسن قرار دے اور قبیح وہ جس کو شریعت مقدس قبیح قرار دے، اور ان چیزوں میں عقل کی کوئی دخالت نہیں ہے۔
لیکن شیعہ امامیہ اور معتزلہ مذکورہ نظریہ کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عقل کی نظر میں خود افعال کی ارزش واہمیت ہے بغیر اس کے شریعت کا اس میں کوئی دخل ہو، اور انھی افعال میں سے بعض وہ افعال ہیں جو بذات خود حسن ہیں اور بعض بذات خود قبیح ہیں اور بعض ایسے افعال ہیں جن کو ان دونوں صفات میں سے کسی بھی صفت سے متصف نہیں کیا جاسکتا، شریعت مقدس انھی چیزوں کا حکم کرتی ہے جو حسن ہوتی ہیں اور ان چیزوں سے منع کرتی ہے جو قبیح ہوتی ہیں اور چونکہ صدق بذات خود حسن ہے اسی حسن کی وجہ سے خداوندعالم نے صدق کے لئے حکم کیا ہے اور جھوٹ چونکہ بذات خود قبیح ہے ، اسی قبح کی وجہ سے خداوندعالم نے اس سے روکا ہے، نہ یہ کہ خدا نے منع کرنے کے بعد جھوٹ کو قبیح قرار دیا ہو۔
اس مطلب پر ہماری دلیل یہ ہے کہ جو لوگ دین اسلام کو نہیں مانتے اور مختلف نظریات کے حامل ہیں وہ بھی صدق کو حسن اور جھوٹ کو قبیح مانتے ہیںجبکہ ان کو شریعت نے حسن وقبح کی تعلیم نہیں دی ہے۔
لہٰذا ان تمام باتوں سے ثابت یہ ہواکہ حسن وقبح ذاتی دونوں شرعی ہونے سے پہلے عقلی ہیں، عدل حسن ہے کیونکہ عدل ہے اور ظلم قبیح کیونکہ وہ ظلم ہے، بغیر اس کے کہ ان کے حسن وقبح میں کوئی شرعی اور دینی حکم ہو۔ لہٰذا عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا عادل ہونا ضروری ہے کیونکہ عدل حسن ہے، اسی طرح عقلی لحاظ سے خداوندعالم کا ظالم ہونا محال ہے کیونکہ ظلم قبیح ہے۔
خلاصہ بحث:
عقلی اور قرآنی دلائل کے پیش نظر انسان اپنے فعل میں صاحب اختیار ہے اور اپنے تصرفات میں مکمل آزاد ہے اور کوئی جبر اکراہ نھیںھے، اور جو باتیں جبر کو ثابت کرنے کے لئے لوگوں نے بیان کی ہیں وہ ہماری بیان کردہ محکم نصوص ودلائل کے سامنے بے کار ہیں۔(لہٰذا نظریہ جبر باطل وبے بنیاد ہے)
خداوندعالم کا فرمان صادق اور سچا ہے:
ارشاد ہوتا ہے:
(
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهٰا فَاٴَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ اٴَفْلَحَ مَنْ زَکَّاهَا وَقَدْ خَاْبَ مَنْ دَسَّا هَا
)
”(اور قسم ہے) جان کی جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرھیزگاری کو اسے سمجھادیا، (قسم ہے) جس نے اس جان کو(گناہ سے) پاک رکھا وہ تو کامیاب ہوا، اور جس نے گناہ کرکے اسے دبادیا ، وہ نامراد رھا“