قضاء وقدر
مسئلہ” قضاء وقدر“ کی بحث (اگر چہ علماء کلام نے اس کو خاص عنوان کے تحت بیان کیا ہے) ”جبر واختیار“ کا اہم حصہ ہے جس کو جبر واختیار کی بحث سے جدا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ مسئلہ بھی مذکورہ بحث کا بنیادی نظریہ ہے۔
ہم اس باب میں اختصار کی خاطر مکمل طریقہ سے تمام پہلو وں کوبیان نہیں کریں گے، کیونکہ بہت سی چیزیں اس کتاب کی وسعت سے باھر ہیں، ہم یھاں صرف اس کے اسلامی معنی کو واضح کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ قرآن وسنت نے اس بارے میں وضاحت کی ہے، تاکہ ہمارے عزیز قارئین اصول دین کے اس اہم مسئلہ کو پہچان لیں اور اس پر عقیدہ رکھیں، خصوصاً جیسا کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ انسان صبح سے لے کر شام تک کے واقعات،مصیبت و بلا اور خیر وشر کی باتوں کو قضا وقدر کہہ دیتاھے، تو کیایہ تمام کے تمام اسلامی عقیدہ کے تحت ہیں؟!یا نھیں؟
ہم ان دونوں الفاظ کے معنی اسلامی صحیح نقطہ نظر سے بیان کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ لغت اور قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں تاکہ ہم اس طریقہ سے ان دونوں الفاظ کے معنی میں شریعت کے ہدف ومقصد کو سمجھ سکیں، اوریہ دیکھ سکیں کہ اسلامی نصوص میں ان کا استعمال کس طرح ہوا ہے:
۱ ۔ لغوی معنی:
”قضا کے معنی عمل کے ہیں، پس اس کے معنی صنعت اور اندازہ کے ہیں مثلاً : ”قضی الشیٴ قضاء ا صنعه وقدره
“ (یعنی کسی چیز کو بنانے کے لئے اس کی مقدار معین کی) یا ہر وہ کام جس کو کرنے کے لئے تیاری کی، اس کو تمام کیا، یا کسی چیز کو ادا کیا ، یا کسی چیز کو واجب کیا یا کسی چیز کا علم پیدا کیا، یا کسی چیز کو نافذ کیا۔ تو گویا اس نے ان کاموں کا اندازہ معین کیا۔
”وقضیٰ ای حکم“ (یعنی اس نے قضا کی یعنی اس پر حکم لگایا) جس طرح کوئی شخص فیصلہ میں قضاوت کرتے ہوئے حکم لگاتا ہے۔
قضا کے ایک معنی اعلان کے بھی ہیں جیسا کہ کہتے ہیں:
”قضینا الیه ذالک الامر ای هیناه الیه وابلغناه ذالک
“
(یعنی ہم نے فلاں شخص کے لئے یہ اعلان کیا یعنی اس کو منع کیا اور اس تک خبر پهونچائی)
معنی قدر: قدر کے معنی قضا اور حکم کے ہیں۔
۲ ۔ قرآنی معنی:
قرآن مجید میں قضا کے درج ذیل چند معنی بیان ہوئے ہیں:
الف: خلق وایجاد، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
(
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ
)
یعنی ہم نے سات آسمان کو خلق کیا۔
ب: وجوب وحکم، جیسا کہ ارشاد ربّ العزت ہے:
(
وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
)
یعنی ہم نے انسان پر واجب اور حکم کیا کہ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے۔
ج: اعلان کرنا ، خبر دینا، جیسا کہ ارشاد ہے:
(
وَقَضَیْنَا إِلَی بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ
)
یعنی ہم نے بنی اسرائیل تک یہ خبر پہنچائی یا ان کے لئے یہ اعلان کیا۔
اسی طرح قرآن مجید میں لفظِ ”قدر“ دومعنی میں استعمال ہوا ہے:
الف: خلق وتنظیم اور تدبیر وترتیب، ارشاد ہوتا ہے:
(
وَقدَّرَ ِفیْهَا اٴَقْوَاتَهَا
)
”اور اس نے ایک مناسب انداز پر اس میں سامان معیشت کا بندوبست کیا“
(
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ
)
”اور ہم نے چاند کے لئے منزلیں مقرر کردیں“
(
وَاللّٰهُ یُقَدِّرُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ
)
”اور خدا ہی رات اور دن کا اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے“
(
وَخَلَقَ کُلَّ شَیءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِیْراً
)
”اور ہر چیز کو اسی نے پیدا کیا پھر اسے اندازے سے درست کیا“
ب: بیان کرنا اور خبر دینا، جیسا کہ ارشاد ہے:
(
اِلاّٰ امْرَاٴتَهُ قَدَّرْنَاهَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ
)
”یعنی ہم نے (جناب نوح (ع)) کو خبر دی ان کے لئے بیان کیا کہ ان کی بیوی غابرین (تقدیر میں پیچھے رہنے والوں) میں سے ہیں۔“
اب جبکہ ہمارے لئے ان دونوں الفاظ کے لغوی اور قرآنی معنی واضح ہوگئے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم قضاء وقدر کی طرف اپنے افعال کو منسوب کرتے ہوئے ان معنی کا لحاظ کریں اور جب ہم یہ کھیں کہ ہمارا یہ کام خداوندعالم کی قضاء وقدر سے ہے تو ہمیں اس کے معنی معلوم ہونے چاہئےں۔
کیونکہ ہمیں قضا وقدر سے معنی خلق مراد لینے کا حق نہیں ہے، (جو قضا وقدر کے ایک معنی ہیں)چونکہ گذشتہ بحث میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہمارے افعال ہمارے اختیار ، ہمارے ارادہ اور ہماری ایجاد سے ہوتے ہیں اور خداوندعالم کی ایجاد اور اس کے خلق کردہ نہیں ہوتے۔
پس جب ہم دلیل کے ذریعہ اس معنی (خلق) کو مراد نہیں لے سکتے تو پھر ان دونوں الفاظ کے معنی محصور ہوجاتے ہیں اس وقت خدا کی قضا کے معنی ”وجوب اور حکم“ کے ہوں گے، اور قدر کے معنی ”بیان اور علم“ کے ہوں گے۔
اس وقت کسی معنی فعل کے بارے میں ہمارا خبر دینے کا مطلب قضاء اللہ ہوگی اس کی قدر یعنی کسی چیز کے بارے میں وجوب یا اس کو بیان کرنا یا اس کا علم پیدا کرنا۔
لہٰذا ہم اس بنیاد پر کہتے ہیں کہ اللہ کی قضا پر راضی رہنا ، اور اس کی قدر کو قبول کرنا ضروری اور جس چیز کو خداوندعالم نے ہمارے لئے بیان کیا یا کسی چیز کے بارے میں حکم کیا ان پر ایمان ویقین رکھنا ضروری ہے، اور قضاوقدر کا یھی مطلب ہے، اس کے علاوہ اور کوئی مطلب ومقصد نہیں ہے۔
اس بات کے صحیح ہونے کی دلیل میں ہمارے لئے حضرت علی علیہ السلام کے اس جواب پر توجہ کرنا کافی ہے جوآپ نے صفین کے راستہ میں ایک شامی شخص کے سوال( کہ کیا جنگ صفین خداوندعالم کی قضاو قدر سے ہے؟ )کے جواب میں فرمایا:
”نعم یا شیخ، ما علوتم تلعة ولاهیطتم وادیاً الا بقضاء اللّٰه
فقال الشامی: عند اللّٰه احستب عنائي یا امیر المومنین
فقال علیه السلام: مه یا شیخ ، فان اللّٰه قد عظم اجرکم فی مسیرکم وانتم سائرون وفی مقامکم و انتم مقیمون، وفی انصرافکم وانتم منصرفون ولم تکونوا فی شیٴ من امورکم مکرهین“[۸۳]
ھاں اے شیخ، تم کسی پھاڑی پر نہیں چڑھتے اور نہ کسی وادی میں اترتے مگر یہ سب کام خدا کی قضاء قدر سے ہوتے ہیں، اس وقت اس شامی نے کھا یا امیر المومنین (ع)کیا یہ کام اللہ کے نزدیک عنایت شمار ہوگا یعنی کیا جنگوں کی تمام پریشانیوں کا ثواب ملے گا؟!
تب حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اے شیخ !(صبر کرو تاکہ واضح ہوجائے) خداوندعالم انھیں امور کا تمھیں بہت زیادہ اجر دیتا ہے اور تمھارے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے میں ثواب ہے اور تم کسی کام میں مضطر ومجبور نہیں ہو ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
”لعلک ظننت قضاء اً لازماً وقدراً حاتماً ولوکان ذلک کذلک لبطل الثواب والعقاب وسقط الوعد والوعید، ان اللّٰه سبحانه امر عباده تخییرا ونهاهم تحذیراً وکلف یسیرا ولم یکلف عسیراً واٴعطی علی القلیل کیثراً
“
کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ قضا وقدر حتمی اور ضروری ہیں کیونکہ اگر ضروری اور حتمی ہوں تو پھر ثواب وعذاب باطل ہوجائیں، وعدہ ووعید ختم ہوجائیں، بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار کے ساتھ حکم دیا ہے اور ڈرانے کی وجہ سے نھی کی ہے، کم تکلیف کی ہے اور مشکل کاموں پر مکلف نہیں کیا اور وہ تو تھوڑے (اعمال) پر کثیر (جزا) دیتا ہے۔
قارئین کرام ! آپ نے توجہ فرمائی کہ حضرت علی علیہ السلام کے یہ فصیح وبلیغ کلمات ہماری بات پر واضح دلیل ہیں اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ شام کی طرف حرکت کرنا خدا کے حکم سے تھا (یعنی خداوندعالم کا حکم تھا کہ باغیوں سے جنگ کرنا واجب ہے) اور خداوندعالم نے ان لڑنے والوں کے لئے اجر کو عظیم قرار دیا ہے کیونکہ انھوں نے خدا کے حکم کی خاطر اس جنگ میں حصہ لیا ہے۔
اسی طرح حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ملائکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ومنهم امناء علی وحیه والسنة والیٰ رسله ومختلفون بقضائه وامره
“
(اور ان میں سے بعض خدا کی وحی پر امین بنائے گئے اور بعض مرسلین کے لئے خدا کی زبان ہیں اور خدا کی قضا اور اس کے حکم کے پهونچانے والے ہیں)
ہم قضاء الٰھی اور امر ربی کو نہیں سمجھتے مگر وہ واجبات اور احکام جو ملائکہ، انبیاء ومرسلین کے لئے لے کر نازل ہوتے ہیں تاکہ انبیاء اپنی امتوں تک پهونچادیں۔
قدر پر ایمان کے سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الناس فی القدر علی ثلاثة اٴوجه:رجل یزعم ان الامر مفوض الیه فقد وهن اللّٰه فی سلطانه، فهو هالک ورجل یزعم ان اللّٰه جل وعز اجبر العباد علی المعاصی وکلفهم ما لا یطیقون فقدظلم اللّٰه فی حکمه فهو هالک ورجل یزعم ان اللّٰه کلف العباد ما یطیقون ولم یکلفهم ما لا یطیقون فاذا اٴحسن حمد لله واذا اٴساء استغفر اللّٰه فهذا مسلم
۔“
قدر کے سلسلہ میں لوگوں کے تین گروہ ہیں:
۱ ۔ وہ شخص جو گمان کرتا ہے کہ تمام کام اس پر چھوڑدئے گئے ہیں تو اس نے خدا کی سلطنت میں اس کی توھین کی اور وہ ھلاک ہونے والا ہے۔
۲ ۔ وہ شخص جو گمان کرتا ہے کہ خداوندعالم بندوں کی معصیت کرنے میں ان کا اجیر ہے، اور اس نے بندوں کو ان چیزوں پر مکلف بنایا جو ان کی قدرت سے باھر ہیں، تو اس نے خدا کے حکم کے سامنے خدا پر ظلم کیا اور وہ بھی ھلاک ہونے والا ہے۔
۳ ۔ وہ شخص جس کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو انھی کاموں پر مکلف کرتا ہے جن کی وہ طاقت رکھتے ہیں اور جس چیز کی طاقت نہیں رکھتے ان پر مکلف نہیں کرتا، اور وہ جب کوئی نیک کام کرتا ہے تو خدا کی حمد کرتا ہے اور جب کوئی برا کام ہوجاتا ہے تو خدا سے استغفار کرتا ہے پس یھی شخص مسلمان ہے۔) اور یہ خداوندعالم کی قضاوقدر کے ایک دوسرے معنی ہیں جس میں اس کے امر( حکم) اور بندوں پر تکالیف کو بیان کیا گیا ہے،لہٰذا ہمارا اسلام پر راضی رہنا اور شریعت مقدسہ کا اقرار کرنا قضاء الٰھی پر راضی ہونا اور قدر الٰھی کا اقرار کرنا ہے۔
ہدایت وگمراھی
آخر بحث میں صرف ”ہدایت وگمراھی“کا مسئلہ باقی رہ گیا ہے جس کو علماء کرام نے جبر واختیار اور قضا وقدر کا ضمیمہ قراردیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ہوئی ہیں جن میں سے ایک اشارہ ملتا ہے کہ خداوندعالم ہی انسان کو ہدایت یا گمراھی دیتا ہے اور اس میں انسان کو کوئی اختیار بھی نہیں ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
فَیُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ یَّشَاءُ وَیَهْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ
)
”تو یھی خدا جسے چاہتا ہے گمراھی میں چھوڑدیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے“
(
وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
)
”اور جس کو خدا گمراھی میں چھوڑدے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نھیں“
قارئین کرام ! یھاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہدایت وگمراھی خدا کی طرف سے
ھے تو پھر گمراهوں کو ان کی گمراھی کی بناپر کیوں عذاب دے گا؟!! اور مومنین کو ان کی ہدایت پر ثواب کیوں دے گا؟!! جبکہ دونوں خداوندعالم کے افعال اور اس کے ارادہ سے ہیں۔
اس اعتراض کے جواب سے پہلے ہم ہدایت وگمراھی کے معنی بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ لغت کی کتابوں اور قرآن مجید کے استعمالات میں ان دونوں کے کیا معنی ہیں تاکہ واضح طور پر ان دونوں کے مفهوم کو سمجھ سکیں۔
لغت میں ہدایت کے معنی:
”الدلالة علی الطریق الرشد
“
(ترقی کے راستہ پر دلالت کرنا)
لسان العرب میں ہدایت کے اس طرح معنی کئے ہیں:
”هداه للطریق والی الطریق، اذا دلّه علی الطریق، وهدیته الطریق والبیت هدایة ای عرفته
۔
اس کی راستہ کی طرف ہدایت کی جبکہ وہ راستہ کو جانتا تھا، یا میں نے اس کی راستہ کی ہدایت کی یعنی اس کو جانتا تھا )
ہدایت گمراھی کی ضد ہے ،ہدایت کے معنی راہ دکھانا اور دلالت کے ہیں۔
یا جیسا کہ کھا جاتا ہے : ”ہد یت لک فی معنی بینت لک “۔
(میں نے تمھارے اس معنی میں ہدایت کی جس کو میں نے بیان کیا )
اسی طرح سے خدا وند عالم کایہ فرما ن بھی ہے ۔(
اَوَلمْ یَهْدِ لَهُمْ
)
”کیا ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم۔ “
لیکن خداوند عالم کا یہ فرمان :
(
قَالَ رَبَّنَا الَّذِیْ اٴَعْطٰی کُلَّ شَیٴٍ خَلَقَهُ ثُمَّ هَدیٰ
)
”(جناب موسی علیہ السلام نے کھا ) ہمارا پروردگار جس نے ھرچیز کو اسی کے (مناسب ) صورت عطافرمائی اور پھراس نے ہدایت کی“
اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم نے ہر چیز کو اس طریقہ سے پیدا کیا ہے تا کہ اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔اس کے بعد اس کی زندگی کی طرف ہدایت کی ہے۔
کلام عرب میں ہدایت کے معنی توفیق کے بھی ہیں جیسا کہ شاعر کہتا ہے :
ولاتحر فنی هداک اللّٰه مساٴلتی
ولاآکونن کمن اودی به السفر [۹۶]
(یعنی خداوندعالم آپ کو توفیق دے کہ آپ ہماری حاجت پوری کریں ۔)
جیسا کہ خداوند عالم کا فرمان بھی ہے:
(
فَاهْدُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ
)
یعنی ان کو جہنم میں داخل کردو۔
” کما تهدی المراٴة الی زوجها یعنی بذلک انها تدخل الیه
“
(جیسا کہ بیوی کو اس کے شوھر کے گھر بھیجا جاتا ہے، اور (اسی نکاح کے ذریعہ) ان میں میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے)
اسی وجہ سے جو شخص قوم کے آگے آگے چلتا ہے یا ان کی ہدایت کرتا ہے اس کو ”ھادی“ کھا جاتا ہے ۔
او رہدایت کے معنی ثواب کے بھی ہیں
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ
)
”یعنی خدا نے ان کو ایمان کا ثواب عنایت فرمایا۔“
(
وَاللّٰهُ لاٰ یَهْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ
)
(
وَاللّٰهُ لاٰ یَهْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ
)
(
وَاللّٰهُ لاٰ یَهْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ
)
(
اِنَّ اللّٰهُ لاٰ یَهْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ
)
یعنی ان ظالمین، کافرین، فاسقین اور خائنین کو ثواب نہیں دیا جائے گا۔
نیز ارشاد قدرت ہوتا ہے:
(
لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاهُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ
)
”یعنی ان کو ثواب نہیں دیا جائے گا او رخدا جس کو چاھے ثواب عطا کرے“
قارئین کرام ! ضلال وگمراھی کے معنی ھلاکت کے ہیں ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
(
وَاِذَا ضَلَلْنَا فیْ الاٴرْضِ
)
”یعنی ہم نے ان کو ھلاک کردیا۔“
اور دین سے گمراھی کا مطلب حق سے دور ہوجانا اور اضلال کے معنی گمراھی کی دعوت دینا، یا گمراھی کو کسی کے سر پر لاد دینا، جیسا کہ خداوندعالم کا فرمان ہے:
(
وَاَضَلَّهُمُ السَّاٴمِرِیُّ
)
”یعنی سامری نے ان کو گمراہ کر چھوڑا“
اور اضلال کے معنی گناہگاروں کو جہنم میں ڈالنے کے بھی ہیں۔
قارئین کرام ! ہدایت وضلال کے ان تمام مذکورہ معنی کے پیش نظر درج ذیل چیزیں روشن ہوجاتی ہیں:
۱ ۔ اضلال کے معنی مخالف حق، اور گمراھی کی دعوت دینا یا کسی کے سر پر گمراھی کو لاد دینا بھی ہیں، اور ان معنی کے لحاظ سے خدا کی طرف اس کی نسبت نہیں دے سکتے، ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَاکَانَ اللّٰهُ لِیُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ اِذْ هَدَاهُمْ
)
”خدا کی شان یہ نہیں کہ کسی قوم کو جب ان کی ہدایت کرچکا ہو اس کے بعد انھیں گمراہ کردے“
بلکہ ضلالت وگمراھی (جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت کی گئی ہے) صرف انسان کے ارادہ واختیار سے ہوتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاٰلاً بَعِیْداً
)
”جس نے کسی کو خدا کا شریک بنالیا وہ تو بس بھٹک کر بہت دور جاپڑا“
(
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰی نَفْسِيْ
)
”(اے رسول ) تم (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر میں گمراہ ہوگیا ہوں تو اپنی ہی جان پر میری گمراھی (کا وبال) ہے“
(
مَنِ اهْتَدیٰ فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا
)
”جو شخص روبراہ ہوتا ہے تو بس اپنے فائدہ کے لئے راہ پر آتا ہے او رجو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس نے بھٹک کر اپنا آپ بگاڑا“
(
اِنَّ رَبَّکَ هو اٴَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهِ
)
”بے شک تمھارا پروردگار ان سے خوب واقف ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں“
اسی طرح اضلال ، ابطال وھلاکت کے معنی میں استعمال ہوا ہے:
ارشاد قدرت ہے:
(
کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰهُ الْکَافِرِیْنَ
)
”یعنی کافرین کو ھلاک کردیا گیا“
(
وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
)
”یعنی کافرین وظالمین میں سے خدا جس کو بھی ھلاک کرنا چاہتا ہے اس کو ثواب عطا نہیں کرتا“
نیز خداوندعالم کا قول ہے:
(
وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ فَلَنْ یُضِلَّ اٴَعْمَالَهُمْ
)
”یعنی جو لوگ راہ خدا میں جھاد کرتے ہیں خدا ان کے اعمال کو باطل نہیں کرتا“
۲ ۔ ہدایت، حق کی طرف دلالت کو کہتے ہیں۔
جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:
(
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِهٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ هَدَانَا اللّٰهُ
)
”شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ہمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ہم کسی طرح یھاں تک نہیں پهونچ سکتے تھے“
(
بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ هَدَاکُمْ لِلْاِیْمَاْنِ
)
”بلکہ اگر تم (دعوی ایمان میں) سچے ہو تو (سمجھو کہ) خدا نے تم پر احسان کیا کہ اس نے تم کو ایمان کا راستہ دکھایا“
(
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَیْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْهُدیٰ
)
”اور رھے ثمود تو ہم نے ان کو سیدھا رستہ دکھا دیا مگر ان لوگوں نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا۔“
اسی طرح ہدایت کاثواب پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ہے:
(
وَسَیَهْدِیْهِِمْ وَیُصْلِحُ بَالَهُمْ
)
”یعنی ان کو ثواب دیا جائے گا“
قارئین کرام ! ہدایت وضلالت کے معنی کی بحث سے درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:
اگر اضلال کے ” خلاف حق اشارہ کرنے“ کے معنی مرادلئے جائیں تو یہ معنی خداوندعالم کے لئے محال ہیں کےونکہ خدا تو حق کا حکم دیتا ہے، جبکہ عقلِ انسان بھی حکم کرتی ہے کہ خداوندعالم کبھی بھی خلاف حق حکم نہیں دے سکتا۔
ہدی وہدایت کے معنی ، حق کی طرف دلالت کرنا ہے اور یہ کام خداوندعالم نے کیا بھی ہے اور ہر زمانہ میں ارسال رسل اور انزال کتب کے ذریعہ حق کی طرف ہدایت کی بھی ہے۔
لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر ہدایت وگمراھی کے صرف یھی بہترین معنی ہیں کہ اضلال کے معنی ھلاکت اور عقاب کے ہیں او رہدی وہدایت کے معنی ثواب کے ہیں، اور قرآن مجید میں
یھی دونوں معنی مراد بھی ہیں، جن کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
(
اٴَ ُترِیدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضلَّ اللّٰهُ
)
”یعنی جن کو خدا کے عذاب میں مبتلا کیا ہے کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ثواب دیا جائے“
(
یُضِلُّ بِهِ کَثِیْراً وَیَهْدِی بِهِ کَثِیْراً
)
”یعنی قرآن کے ذریعہ، خداوندعالم نے بہت سے لوگوں کو ھلاک کردیا ، کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کے مقابلہ میں سرکشی کی اور اس کے اوامر ونواھی پر عمل نہیں کیا جبکہ ان پر اس پر عمل کرنا واحب ہے۔“
اور اگر ہدایت کے معنی ثواب نہ ہوں تو پھر ہم قرآن مجید میں موجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ہدایت کے معنی نہیں سمجھ پاتے، کیونکہ ارشاد ہوتا ہے:
(
لَیْسَ عَلَیْکَ هُدَاهُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَشَاءُ
)
”(اے رسول) ان کا منزل مقصود تک پہچانا تمھارا فرض نہیں ہے (تمھارا کام ) راستہ دکھانا ہے مگر ھاں خدا جس کو چاھے منزل مقصود تک پهونچادے“
(
اِنَّکَ لاٰ تَهْتَدِیْ مَنْ اٴحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَشَاءُ
)
”(اے رسول ) تم جسے چاهو منزل مقصود تک نہیں پهونچاسکتے مگر ھاں جسے خدا چاھے منزل مقصود تک پہنچائے“
کیونکہ اگر ہدیٰ کے معنی ارشاد اور دلالت کے ہوں تو پھر یہ دونوں آیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت کو ناکام کردیتی ہیں کیونکہ پھر نبی پر ارشاد اور توجیہ کرنا واجب ہے۔
لہٰذا اسی طریقہ پر ہم قرآن مجید کی دوسری آیات میں موجود لفظ ہدیٰ واضلال کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے واضح ہے کہ یہ تمام نصوص اختیار کامل اور ارادہ وآزادی کے خلاف معنی سے سالم ومحفوظ ہیں۔
اسی بنا پر ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے فرمان کو بہترین طریقہ سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:
”الشقی من شقی فی بطن امه والسعید من سعد فی بطن اُمّه
“
(شقی اپنے ماں کے شکم سے شقی ہوتا ہے او رسعید اپنی ماں کے شکم سے سعید ہوتا ہے)
اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ خداوندعالم نے انسان کو مجبور خلق کیا تاکہ وہ ضلالت وگمراھی کے ذریعہ شقی ہوجائے یا اطاعت وہدایت کے ذریعہ سعید ہوجائے بلکہ مقصد یہ ہے جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”الشقی من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل الاشقیاء، والسعید من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل السعداء“
(شقی وہ ہے جس کے بارے میں خدا جانتا ہے (درحالیکہ وہ شکم مادر میں ہوتا ہے) کہ وہ اشقیاء والے کام انجام دے گا، اور سعید وہ ہے جس کے بارے میں خدا جانتا ہے کہ نیک کاموں کو انجام دے گا)
پس ثابت یہ ہوا کہ خداوندعالم پر حقیقت واضح ہوتی ہے، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں اور اس میں ذرہ برابر بھی معنی جبر واکراہ نہیں ہیں۔
(
قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
۔
____________________