اصول دین

اصول دین0%

اصول دین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اصول دین

مؤلف: علامہ شیخ محمد حسن آل یاسین
زمرہ جات:

مشاہدے: 27067
ڈاؤنلوڈ: 4059

تبصرے:

اصول دین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 27067 / ڈاؤنلوڈ: 4059
سائز سائز سائز
اصول دین

اصول دین

مؤلف:
اردو

نبوت

( وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْْسَلِیْْنَ اِلاّٰ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْْذِرِیْنَ فَمَنْْ آمَنَ وَاٴَصْلَحَ فَلاٰ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلاٰ هُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ( ۱ )

”اور ہم تورسولوں کو صرف اس غرض سے بھیجتے ہیں کہ( نیکوں کو جنت کی)خوشخبری دیں او (بدوں کو عذاب جہنم سے) ڈرائیں، پھر جس نے اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں پر قیامت میں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔“

( یَاَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهِ وَالْکِتَابِ الَّذِیْ اٴَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَّکْفُرْ باِللهِ وَملاَئِکَتِه وَکُتُبِهِ وَرُسُلِه وَالیوْمِ الآخِرِ فقدْ ضلَّ ضلالاً بعیداً ) ( ۲ )

”اے ایمان والو ! خدا اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (محمد ) پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے نازل کی ایمان لاؤ، اور (یہ بھی یاد رھے کہ ) جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور روز آخرت کا منکر ہوا تو وہ راہ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑا۔“

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

وواتر الیهم انبیاء ه، لیستاٴدوهم میثاق فطرته، ویذکروهم منسي نعمته، ویحتجوا علیهم بالتبلیغ، ویثیروا له دفائن العقول

(خدا نے انسانیت کی خاطر مسلسل انبیاء بھیجے تاکہ ان کی فطرت کو بیدار کریں اور اور ان کو خدا کی فراموش شدہ نعمتوں کے بارے میں یاد دلائیں، اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حجت قائم کریں، اور ان کے لئے عقل کے چھپے خزانوں کو ظاہر کریں)

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔

قارئین کرام ! جب یہ بات طے ہے کہ زمین وآسمان اور جو کچھ ان کے درمیان موجو ہے ان پر بغیر کسی شریک اور مخالف کے خدا کا حکم جاری ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( هو اللّٰهُ الَّذِیْ لاٰ اِلٰهَ اِلاّٰ هو، اَلْمٰلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلاٰمُ الْمَو مِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ) ( ۳ )

وھی خدا جس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں (حقیقی) بادشاہ پاک ذات (ھر عیب سے) بری، امن دینے والا، نگھبان، غالب زبردست بڑائی ولا ہے۔“

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( هو اللّٰهُ الْخَاْلِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَهُ اٴَلاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی ) ( ۴ )

”وھی خدا (تمام چیزوں کا) خالق ، موجد صورتوں کا بنانے والا اس کے اچھے اچھے نام ہیں“

ایضاً :

( هو اللّٰهُ الَّذِیْ لاٰ اِلٰهَ اِلاّٰ هو عَاْلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ هو الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ) ( ۵ )

”وھی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ،وھی بڑا مھربان نھایت رحم کرنے والا ہے“

اور جب ان آیات کی روشنی میں یہ طے ہوگیا ہے کہ تمام چیزوں پر خداوندعالم کا ہی حکم جاری ہے جس کی گواھی مستحکم دلائل اورفطرت انسانی دیتی ہیں تو اس خدا کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے (اس کے لطف وکرم اور فضل کی بنا پر) کہ وہ نوع بشریت کی ہدایت کا انتظام کرے تاکہ اس ہدایت کے ذریعہ نوع بشریت کمال وعروج تک پهونچے ان کی رفتار وگفتار کی اصلاح کرے، جیسا کہ خدا کے لئے یہ بھی ضروری ہے (لطف وکرم اور فضل کی تکمیل کے لئے) کہ ہر زمانہ کے انسانوں کے لئے حلال وحرام کی تفصیل بیان کرے تاکہ ان پر اتمام حجت ہوجائے اور عام طور پر سبھی مستفید ہوسکیں۔

قارئین کرام ! یہ تھے مختصر طور پر نبوت عام کے معنی۔

اور جبکہ عقلِ انسانی زمانہ کے ساتھ ترقی کررھی ہے اور تیزی سے جدید نتائج اور گھرائیوں کا پتہ لگارھی ہے تو اس لحاظ سے آسمانی ادیان بھی جو کہ انسانی عقل کے اعتبار سے نازل کئے گئے ہیں تاکہ ہر قوم وملت اور ہر زمانہ کے تقاضوں کو پورا کرسکے، اور ان کی ضروریات کا مکمل طور پر جواب دے سکے نیز اس زمانے کے فکری مسائل کا حل پیش کرسکے، یھاں تک کہ اسلام اس درجہ پر پهونچا کہ خداوندعالم نے اس کو منتخب کیا تاکہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے ان کی عقلی پیشرفت اور ترقی کا جواب گو ہوسکے۔

یہ تھے معنی نبوت بمعنی خاص۔

ہم اس حصہ میں عنقریب نبوت پر عام معنی میں روشنی ڈالیں گے جو گذشتہ انبیاء علیہم السلام سے متعلق ہے، نیز ہم نبوت بمعنی خاص کی بھی وضاحت کریں گے جو دین اسلام سے مربوط ہے اور دین اسلام کے مبلغ اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی زندگی پر بھی روشنی ڈالیں گے۔

البتہ کتاب کی ضخامت کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح عبارت اور دلیلوں کے ذریعہ گفتگو کریں گے۔

لیکن توجہ رھے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت پاک کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لئے خود ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے البتہ اس سلسلہ میں ہم نے ”فی رحاب الرسول (ص)“ نامی کتاب کا کام شروع کررکھا ہے امید ہے کہ خداوندمنان توفیق اور فرصت عطا کرے تاکہ اس کو پایہ تکمیل تک پهونچادیں۔

اسی وجہ سے ہمارے قارئین محترم اس باب میں ”نبوت“ اور اس سے مربوط مسائل کے علاوہ دوسری گفتگو نہیں پائیں گے، خداوندعالم ہماری مدد کرے اور استحکام عطا فرمائے۔

( رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیاً یُنَادِی لِلْاِیْمَانِ اٴَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیَّآتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ وَلاٰ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ اِنَّکَ لاٰ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ) ( ۶ )

”اے ہمارے پالنے والے (جب) ہم نے ایک آواز لگانے والے (پیغمبر) کو سنا کہ وہ ایمان کے لئے پکارتا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لائے، پس اے ہمارے پالنے والے ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے، اور ہمیں نیکیوں کے ساتھ اٹھا، اور اے پالنے والے اپنے رسولوں کی معرفت ہم سے جو کچھ وعدہ کیا ہمیں دے، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، تو تووعدہ خلافی کرتا ہی نھیں۔“

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین ۔

نبوت بمعنی عام

ہم نے پہلے بیان کیا اور اس نتیجہ کو باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا کہ اس کائنات کے خالق پر ایمان رکھنا بالکل واضح ہے جس پرعقل، منطق، فطرت اور وجدان سبھی دلالت کرتے ہیں، اور اسی وضاحت کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ اگر ”مادہ“ کا وجود معلول ہے تواس کے لئے ایک ایسی قدرت کا ہونا ضروری ہے جو معلول نہ ہو، اسی ذات کو ”واجب الوجود“ اور ”ضروری الوجود“ کہتے ہیں، نیزاسی ذات اور مصدر اول کاعاقل ا ور توانا اور حکیم ہونا ضروری ہے، اور یہ چیزیں مادہ میں نہیں پائی جاتیں۔

ہم نے اس سے قبل اس بات کو بھی ثابت کیا کہ تمام چیزوں پر خداوندعالم کی ہی حاکمیت ہے کیونکہ:

( وَهو عَلٰی کُلِّ شَیء ٍقَدِیْر ) ( ۷ )

”اور وہ ہر چیز پر قادر وتوانا ہے“

( اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ ) ( ۸ )

”بے شک تمھارا پرودگار جو چاہتا ہے کرھی کے رہتا ہے“

( بِیَدِهِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیٴٍ ) ( ۹ )

”تو وہ خدا (ھر نقض سے) پاک وصاف ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے“

( لَا یُسْاٴَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَهُمْ یُسْاٴَلُوْنَ ) ( ۱۰ )

”جو کچھ وہ کرتا ہے اس کی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی (ھاں) اور لوگوں سے باز پرس ہوگی۔“

وہ سهو ونسیان سے پاک وپاکیزہ ہے وھی غنی وحمید ہے اور ہم کسی ایسی ذات کی حاکمیت پر تسلیم نہیں کرتے جس میں یہ صفات نہ پائی جائیں، اور عقل اس بات کی طرف واضح ثبوت دیتی ہے کہ یہ تمام صفات اللہ رب العزت کے علاوہ کسی میں نہیں پائی جاتے۔( ۱۱ )

قارئین کرام ! ہماری مذکورہ باتوں سے درج ذیل مسلم نتائج برآمد ہوتے ہیں:

ہمارا خدا وہ ہے جو قادر، عاقل اور حکیم ہے ، در حقیقت سارے جھان پر اس کی مکمل طور پر حاکمیت ہے اور نظام بشریت کا اسی حاکمیت کے زیر سایہ رہنا ضروری ہے تاکہ اس کی حاکمیت مزید روشن ہو، ایسی حاکمیت جس میں وہ جو چاھے کرے جو چاھے نہ کرے، کیونکہ خداوندعالم کی ذات عالم ہے اور اس کے علم کی طرح کسی کاعلم نہیں انسان خدا کے علم کی طرف ہزاروں سال بعد متوجہ ہورھا ہے جبکہ سب لوگوں کے ذوق اور سلیقے الگ الگ ہیں جن کے مصالح اور خواہشات جدا ہیں، افکار ونظریات مختلف ہیں اور اس شدید اختلاف کی صورت میں کوئی بھی حکومت نہیں کرسکتا مگر یہ کہ جس کی سب پر حکومت ہو اور تمام افراد اسی کے سامنے سر جھکائیں، ایسی حکومت جس میں ہر انسان کے لئے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کو بیان کیا گیا ہو، جس کے زیر سایہ نوع بشریت کی تمام مشکلات حل ہوجائیں۔

اس بات کو علماء کلام کی زبان میں ”ہدف بعثت انبیاء (ع) “ کھا جاتا ہے جس کو ”نبوت کے اغراض ومقاصد“ بھی کھا جاسکتا ہے۔

هوسکتا ہے کسی ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ: خداوندعالم نے نوع انسانی کی زندگی کے لئے ایک خاص نظام کیوں معین کیا؟! اور کیوں نہ اس کو مکمل طور پر آزاد چھوڑدیا تاکہ اپنے نظریات وخیالات کی بنا پر قواعد وضوابط بنائے اور اپنے تجربہ سے فائدہ حاصل کرے، چاھے وہ صحیح ہوں یا غلط، چاھے کسی چیز میں ترمیم کرے یاکسی چیز کو حذف کردے ،کسی چیز کو معتدل بنائے یا اس کو بالکل ہی بدل کر رکھ دے، یھاں تک کہ اپنی آخری منزل پر ایک بہترین اور کامل ترین نظام معین کرلے؟!

قارئین کرام ! ہم اس سوال کے تین جواب پیش کرتے ہیں:

پہلا جواب:

نظام اورقوانین بنانا صرف اسی کاحق ہے جو ”مصدر سلطنت“ (مالک الملک) ہو اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو، اور اسی بات پر آج کے تمام قانون گذار اور سیاست مدار اتفاق رکھتے ہیں۔

اور جیسا کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ اللہ رب العزت مالک الملک ہے وھی قانونی اور واقعی طور پر حاکم ہے کسی دوسرے کو ذرہ برابر بھی دخالت کرنے کا حق نہیں ہے، تو پھر نظام انسانی وغیر انسانی کے قوانین وضوابط بنانے کا حق اسی کا ہے:

( قُلْ اِنَّ هُدَی اللّٰهِ هو الْهُدیٰ ) ( ۱۲ )

”(اے رسول ) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ہی کی ہدایت تو ہدایت ہے(باقی سب ڈھکوسلا ہے) “

دوسرا جواب:

کیونکہ ہم معتقد ہیں کہ عقل انسانی اگرچہ اس کو خلاقیت کی قوت دی گئی ہے لیکن پھر بھی بعد والی مصلحتوں کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، اور انسان اپنے اوپر آنے والی مشکلات کو دور نہیں کرسکتااگرچہ کچھ مشکلات کو تجربات کی بنا پر حل کرسکتا ہے اور بعض میں غلطی اور خطا کا بھی امکان ہے، اور بعض مشکلات تو ایسی ہوتی ہیں کہ انسانی عقل کی رسائی تک نہیں اور منزل مقصود تک نہیں پهونچا جاسکتا:

( وَمَا اٴَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ اِلّٰا لِتُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا ِفیْهِ ) ( ۱۳ )

”اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) تو اسی وجہ سے نازل کی تاکہ جن باتوں میں یہ لوگ باہم جھگڑا کئے ہیں ان کو صاف صاف بیان کردو“

تیسرا جواب:

اس نظام بشریت سے پہلے بھی خاص نظریات کی حکومت تھی اور بعض امتیازات کو فوقیت دی جاتی تھی، نظام کے بنانے والے چاھے جس قبیلہ سے ہوں یا کسی رنگ کے ہوں،ان میں ذات پات کا انعکاس پایا جاتا تھا۔

اسی لئے ضروری تھا کہ نوع انسانی ان تمام جھل ونادانی اور غلط تجربوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک ایسا عام نظام بنائیں جو انسان کی ضرورتوں کو جانتا ہو، اور ان کی روز مرہ کی مشکلات کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اس کے نفع ونقصان کی چیزوں کو بیان کرتا ہو، اور نوع انسانی کے تمام افراد کے ساتھ مساوات کے قائل ہو ، اور یہ نہ دیکھے کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتاھے کس طبقہ سے مرتبط ہے، اور کس شھر کا رہنے والا ہے۔

اس کائنات میں ان صفات کا حامل خداوندعالم کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اور یہ نظام اورقوانین خدا کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء (ع) کی رسالت کے علاوہ کچھ نہیں ہے، خدا نے اپنے انبیاء کو روئے زمین پر بھیجا تاکہ انسانیت کو کامیاب وکامران بنائیں اور اس کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرےں۔

اور ”لطف“ کے یھی معنی علماء علم کلام کی بھی مراد ہیں، لہٰذا اسی (لطف) کی طرف مستند کرتے ہیں کہ قاعدہ لطف کی بنا پر خداوندعالم کے لئے ضروری ہے کہ تاقیام قیامت نبوت کاانتظام کرے تاکہ نبوت کے ذریعہ نوع انسانی ہدایت یافتہ ہوکر اپنے نفع ونقصان کی باتوں کا پتہ لگاسکے اور ان پر عمل پیرا ہوکر سعادت اخروی حاصل کرلے۔

براہمہ( ۱۴ ) کا نظریہ یہ ہے کہ انسان کو انبیاء ومرسلین کی کوئی ضرورت نہیں ان کی دلیل اور گمان یہ ہے کہ چونکہ انبیاء (ع) وھی سب کچھ بیان کرتے ہیں جس بات کاعقل حکم کرتی ہے تو جب ہمارے پاس عقل ہے تو پھر انبیاء ومرسلین کی کیا ضرورت ہے؟! اور اگر انبیاء وہ چیزیں بیان کریں جو عقل کے مخالف ہوں تو ان کو فرض کے خلاف سمجھ کر چھوڑدیا جاتا ہے اوران پر عمل نہیں کیا جاتا۔

لیکن ان کی یہ دلیل اور گمان بالکل واضح البطلان ہے کیونکہ دلیل و برھان ان کے نظریہ کے برخلاف ہے، کیونکہ جو شخص بھی آسمانی ادیان سے واقف ہے اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیشہ شریعت ایسی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے کچھ چیزیں عقل پر واضح ہوتی ہیں جبکہ کچھ چیزیں واضح نہیں ہوتیں اور جو چیزیں عقل پر واضح ہوتی ہیں ان پر شریعت زور دیتی ہے اور ان پر عمل کرنے کاحکم دیتی ہے اور اس میں عقل کی اہمیت واضح ہے۔

لیکن وہ چیزیں جو عقل پر واضح اور معلوم نہیں ہوتیں (جبکہ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے) تو ان چیزوں میں مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان بہترین کاموں کی طرف ہدایت کرے جن میں انسان اپنی زندگی کے مشکل ، مجهول اور جدید مسائل میں سرگرداں رہتا ہے۔

یہ وہ چیزیں ہیں جن کو عقل نہیں پہچانتی اور جن کو براہمہ نے ”مخالف عقل“ سے تعبیر کیا ہے جبکہ ان کی یہ تعبیر بعید از عقل ہے، کیونکہ رسالت ونبوت جو کچھ بھی بیان کرتی ہیں وہ کبھی بھی عقل کے مخالف نہیں ہوا کرتی،لیکن چونکہ انھوںنے ہر اس چیز کو مخالف عقل قرار دیدیا جو عقل پرواضح نہ ہو، اور یھیں سے رسالت ونبوت مجهول چیزوں سے پردہ برداری کرتی ہیں، اور عقل کو متوجہ کرتی ہے۔

ارشاد رب العز ت ہے:

( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهَ عَلَی الْمُو مِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُولاً مِنْ اٴَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ) ( ۱۵ )

”خدا نے توایمانداروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے واسطے انھیں کی قوم سے ایک رسول بھیجا جو انھیں خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ہے اور انھیںکتاب (خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ہے“

نیز ارشاد ہوتا ہے:

( تِبْیَاناً لِکُلِّ شَیٍٴ وَهُدیً وَرَحْمَةً ) ( ۱۶ )

”(سر تا پا) ہدایت اور رحمت اورخوشخبری ہے“

کیونکہ خداوندعالم نے ان عظیم سُفراء (انبیاء (ع)) کو امام کی صفت سے متصف کیا ہے :

( قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً ) ( ۱۷ )

”ہم تم کو لوگوں کا امام بنانے والے ہیں“

اسی طرح انبیاء (ع) کو خلافت کے نام سے نوازا:

( یَادَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْض ) ( ۱۸ )

”اے داوود ہم نے تم کو زمین پر (اپنا) نائب قرار دیا“

اور کبھی ان حضرات کو رسالت کے لقب سے سرفراز کیا:

( وَسَلاٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ ) ( ۱۹ )

”اور پیغمبروں پر (درود) وسلام ہو“

( اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسَالٰاتِ اللّٰهِ ) ( ۲۰ )

”وہ لوگ جو خدا کے پیغاموں کو (لوگوں تک جوں کا توں) پہنچاتے ہیں“

اور کبھی ان کو نبوت کا نام دیا:

( فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیِّیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْْنَ ) ( ۲۱ )

”تب خدا نے (نجات سے) خوشخبری دینے والے اور (عذاب سے) ڈرانے والے پیغمبروں کو بھیجا“

اور کبھی بھی ان حضرات کو حاکم کی صفت سے توصیف نہیں فرمایا، چاھے قانونی معنی کے لحاظ سے ہو یا سیاسی لحاظ سے، کیونکہ نبی ورسول حاکم اعلی نہیں ہوتے ہیں بلکہ حاکم اعلی (خدا) کے نائب ہوتے ہیں۔

قرآن کریم مذکورہ صفات (جن کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے خطاب کے لئے فقط نبی اور رسول کہہ کر خطاب فرماتا ہے:

( یٰاٴَ یُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اٴُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ) ( ۲۲ )

”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچادو“

( یَا اٴَیُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ ) ( ۲۳ )

”اے رسول تم کو بس خدا کافی ہے“

اور یھی دوصفات قرآن مجید میں اکثر مقامات پر تکرار ہوئی ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ان دونوں صفات کے ایک ہی معنی ہیں یا ان صفات میں فرق ہے؟!

اس سوال کے جواب میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ صاحب علم وبصیرت کے نزدیک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بارے میں ان دونوں صفات میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ آپ کی ذات گرامی میں یہ دونوں صفات جمع ہیں اور آپ کی ذات والا صفات ان دونوں الفاظ کی مصداق ہے، اور اگر ان دونوں صفات میں فرق پایا جاتا ہے تو گذشتہ انبیاء ومرسلین میں ملتا ہے کہ ان میں سے بعض رسول تھے اور باقی تمام نبی۔

اگرچہ اس سلسلہ میں بہت سی تاویلات بیان کی گئی ہیں اور ان دونوں صفات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

نبی وہ ہوتا ہے جو خدا کی باتوں کو بغیر واسطہ کے انسانوں تک پهونچائے چاھے وہ صاحب شریعت ہو یا نہ ہو، صاحب شریعت ہو جیسے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمیا صاحب شریعت نہ ہو جیسے حضرت یحيٰ علیہ السلام کیونکہ ان کو اس وجہ سے نبی کھا گیاکہ ”انھوں نے خدا کی طرف سے خبر دی ہے۔“ نبی بروزن فعیل بمعنی مفعل ہے( ۲۴ )

اور رسول وہ ہوتا ہے جو بغیر واسطہ کے خدا کی طرف سے خبر دے اور وہ صاحب شریعت بھی ہو۔( ۲۵ )

یھاں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے خبر دینے میں نبی ورسول دونوں برابر ہیں لیکن رسول کا امتیاز یہ ہے کہ وہ صاحب شریعت بھی ہوتا ہے جبکہ نبی عام ہوتا ہے چاھے وہ صاحب شریعت ہو یا پہلے نبی کی شریعت کی تبلیغ کرے۔

اور یھی فرق اس سلسلہ میں بیان شدہ فرقوں میں بہتر ہے، جس کی وجہ سے علماء اھل کلام نے کھا ہے کہ :

ان کل رسول نبی ولا عکس

(یعنی ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا)

بھر حال ہماری گذشتہ گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خدا پر نبوت کا انتظام کرنا واجب ہے اور اس ”وجوب نبوت“ پر عقل اور قاعدہ لطف دونوں حکم کرتے ہیں۔

اسی طرح خدا اور بندوں کے درمیان ایسے سفیروںکا موجود ہونا ضروری ہے جو بندوں تک احکام پهونچائیں۔

نیز یہ بھی ضروری ہے کہ انبیاء (ع) کے پاس کوئی ایسی نشانی موجود ہو جو نبوت کے دعوے کو سچ کردکھائے، کیونکہ الٰھی سفارت کا یہ منصب اتنا عظیم ہوتاھے جس کا بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا ہے لہٰذا اس منصب کے ادعا کرنے و الے بعض جھوٹے ہوتے ہیں اور بعض سچے، لہٰذا نبی کے پاس وہ عظیم نشانی ہو جو طبیعی افعال سے بلندوبالا ہو اور ایسا کام کوئی جھوٹا دعویٰ کرنے والا انجام نہ دے سکتا ہو، اور یہ عظیم نشانی صرف ”معجزہ“میں منحصر ہے جو طبیعی قوانین کا پابند نہیں ہوتا بلکہ ان قوانین کو توڑ دیتا ہے اور ان سے بالاتر کی اشیاء کو پیش کرتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”معجزہ“ کیا ہے؟ تو معجزہ اور اعجاز کے لغت میں معنی ہیں: عجز کا ایجاد کرنا جیسے ”عجزت زیداً ای جعلتہ عاجزاً“ (میں نے زید کو عاجز کردیا)

اصطلاحی معنی: خدا کی طرف سے نبوت کا دعویٰ کرنے والا کوئی ایسا کام انجام دے جو طبیعی قوانین سے بالاتر ہو، اور (اس زمانہ کے)لوگ ایسا کام کرنے سے عاجز ہوں، اور یہ معجزہ نبی کے دعویٰ کی صداقت اور سچائی پر گواہ بن جائے۔

قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ہے کہ بعض وہ چیزیں جو جادوگر یا بعض علوم کے ماھرین انجام دیتے ہیں اس کو اصطلاح میں معجزہ نہیں کھا جاتا، اگرچہ جادوگروں کے کام کو کو ئی دوسرا نہیں کرسکتا (لیکن کیا کوئی دوسرا جادوگر بھی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا؟ بالکل دے سکتا ہے) کیونکہ جادوگروں کا کام خاص قواعد کے تحت ہوتا ہے او ران قواعد وقوانین کے جاننے والے ان نتائج تک پهونچ ہی جاتے ہیں اگرچہ ضروری ہے کہ وہ ان قواعد میں ماھر ہونا اورمھارت رکھنا ضروری ہے۔

هوسکتا ہے کوئی شخص منصب الٰھی کا دعویٰ کرے او رکوئی ایسا کام بھی انجام دے جس کو دوسرے افراد انجام دینے سے عاجز ہوں، لیکن پھر بھی اس کا یہ کام اس کے جھوٹ کی دلیل بن جاتا ہے، جیسا کہ مسیلمہ کذاب کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ جب اس نے ایک کم پانی والے کنویں میں پانی زیادہ کرنے کے لئے تھوکا تو اس میں موجود تمام پانی خشک ہوگیا، اسی طرح جب اس کے موالیوں نے بچوں کے سروں پر ھاتھ پھیرنے کو کھا تو جب اس نے ھاتھ پھیرا تو سب بچے گنجے ہوگئے۔

خلاصہ یہ کہ نبوت کے لئے معجزہ کا ہونا ضروری ہے۔

اور یہ معجزہ دعویٰ کے مطابق ہو۔( ۲۶ )

چنانچہ اسی طریقہ (مطابق دعویٰ) کا معجزہ دکھانے والا خدا کی طرف سے سچا نبی ہوتا ہے:

( وَمَاکَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَاتِیَ بِآیَةٍ اِلّٰا بِاِذْنِ اللّٰهِ ) ( ۲۷ )

”اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ کوئی معجزہ خدا کے اذن کے بغیر دکھائے“

پس یہ بات صحیح ہے کہ معجزہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اور دعویٰ کی صداقت پر واضح دلیل ہوتا ہے کیونکہ صاحب اعجاز ایسا کام انجام دیتا ہے جو قوانین طبیعت کو توڑدیتا ہے اور مشهور ومعروف نتائج کا خاتمہ کردیتا ہے اور یہ کام خداوندعالم کی عطا کردہ قدرت کے کے بغیر ممکن نہیں ہے:

( مَا کَانَ حَدِیْثاً یُفْتَرِیٰ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ ) ( ۲۸ )

”(یہ قرآن) کوئی ایسی بات نہیں ہے جو (خواہ مخواہ) گڑھ لی جائے بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اس کے پہلے موجود ہیں ان کی تصدیق ہے“

اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ھاتھوں پر ظاہر ہونے والا یہ معجزہ اس کی صداقت پر دلیل بن جاتا ہے اور یہ بات کشف کرتا ہے کہ خداوندعالم اس کی نبوت سے راضی ہے اور اس وجہ سے اس کو معجزہ دکھانے کی طاقت عطا کی ہے، چنانچہ اسی چیز کی طرف خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

( وَلَوْ تَقُوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الاَقَاوِیْلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِیْنَ ) ( ۲۹ )

”اگر رسول ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ان کا داہنا ھاتھ پکڑ لیتے، پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑادیتے“

( وَمَا کَانَ هَذَا الْقُرْآنُ اَنْ یُّفْتَرِیٰ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدِیْهِ وَتَفْصِیْلَ الْکِتَابِ لٰارَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اٴَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاهُ قُلْ فَاتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهِ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ) ( ۳۰ )

”یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ خدا کے سوا کوئی او راپنی طرف سے جھوٹ موٹ بنا ڈالے، بلکہ (یہ تو) جو (کتابیں پہلے کی) اس کے سامنے موجود ہیں اس کی تصدیق اور (ان) کتابوں کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ سارے جھان کے پروردگار کی طرف سے ہے ،کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول نے خود جھوٹ موٹ بنالیا ہے ، (اے رسول) تم کهو کہ (اچھا) اگر تم (اپنے دعویٰ میں) سچے ہو تو ایک ہی سورہ اس کے مقابلہ میںبنالاؤ، اور خدا کے سوا جس کو تمھیں (مدد کے واسطے) بلاتے بن پڑے بلالو)

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

گذشتہ بحث کا خلاصہ یہ تھا کہ ”نبوت“ کا ہونا ضروری ہے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے شخص کی عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے، نیز نوع بشریت بھی اس چیز کی ضرورت کا احساس کرتی ہے اور (خدا کے لطف وکرم اور رحمت کا تقاضا بھی یھی ہے کہ خدا کی طرف سے ہر زمانہ کے لئے نبی، رسول ،شریعت اور کتاب کا ہونا ضروری ہے، یھاں تک کہ یہ سلسلہ ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتک پهونچا، آپ کی ذات گرامی سید المرسلین وخاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمھے اور آپ کی شریعت دوسری شریعتوں کی خاتم ہے اور تاقیام قیامت باقی رہنے والی ہے۔

اور شاید یھی ہمارے نبی خاتم کا یہ پہلا امتیاز ہو کہ خداوندعالم نے ہمارے نبی کو دوسرے تمام انبیاء (ع) پر فضیلت دی ”رسول اللہ وخاتم النبیین“ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور آنحضرت کی رسالت کبریٰ، زمان ومکان کے لحاظ سے عالمی ہے اور کسی قوم سے مخصوص نہیں اور ایسا نہیں ہے کہ زمین کے کسی ایک حصہ میں مخصوص ہو اور کوئی دوسرا حصہ اس میں شامل نہ ہو اور نہ ہی کسی خاص امت سے مخصوص ہے، نیز کسی خاص زمانہ سے بھی مخصوص نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں خداوندعالم کا ارشاد ہے:

( وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ اِلاّٰ کَافَّةً لِلْنَّاسِ ) ( ۳۱ )

”اے رسول ہم نے تم کوتمام لوگوں کا رسول بناکر بھیجا“

( وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ اِلاّٰ رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنَ ) ( ۳۲ )

”(اے رسول) ہم نے تم کو سارے جھاں کے لوگوں کے لئے از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا“

( قُلْ یَا اُیُّهَا النَّاسُ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً ) ( ۳۳ )

”(اے رسول ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کے پاس خداکا بھیجا ہوا (پیغمبر)هوں“

( لِاُنْذِرَکُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ) ( ۳۴ )

”تاکہ میں تمھیں اور جس کے پاس اس کی خبر پهونچے، ڈراو ں“

( قُلْ یَا اُیُّهَا النَّاسُ اِنِّمَاْ اَنَا لَکُمْ نَذِیْرٌ مُبِیْنٌ ) ( ۳۵ )

”(اے رسول) کہہ دو کہ لوگو! میں تو صرف تم کو کھلم کھلا (عذاب سے) ڈرانے والا ہوں“

قارئین کرام ! یہ تمام آیات متفقہ طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتمام لوگوں کے نبی ہیں، چاھے وہ آپ کی بعثت کے وقت موجود ہوں یا آپ کے بعد پیدا ہوںگے، چاھے وہ جزیرة العرب میں ہوں یا دوسرے ممالک میں۔

اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پہلے کسی نبی یا رسول کو نہیں دیا گیا کیونکہ آپ سے پہلے انبیاء (ع) کسی خاص گروہ یا خاص طائفہ کے نبی ہوتے تھے وہ بھی خاص زمانہ میں جیسا کہ قرآن مجید نے واضح طور پر اشارہ کیا ہے:

( لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلٰی قَوْمِهِ ) ( ۳۶ )

”ہم نے جناب نوح کو ان کی قوم کے پاس (رسول ) بناکر بھیجا“

( وَاِلٰی ثَمُوْدَ اٴَخَاهُمْ صَالِحاً ) ( ۳۷ )

”اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (رسول بنا کر بھیجا“

( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا مُوسَیٰ بِآیَاتِنَا إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ) ( ۳۸ )

”اور ہم ہی نے یقیناً موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (پیغمبر بناکر ) بھیجا“

( وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِی اِسْرَائِیْلَ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ ) ( ۳۹ )

” اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کھا اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس خدا کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں“

چنانچہ ان آیات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کا اور جناب صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کا، جناب موسی علیہ السلام کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کا نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی وہ واحد ذات ہے جن کو تمام لوگوں کا نبی بنا کر بھیجا گیا۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ گذشتہ انبیاء (ع) کی رسالت وقتی اور خاص زمانہ کے لئے محدود ہونے کی کیا دلیل ہے؟ تو اس سلسلہ میں بھی عرض ہے کہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پہلی والی شریعت بعد والی شریعت کے ذریعہ منسوخ ہوجاتی ہے، پہلے والے احکام ختم ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ جدید احکام نافذ کئے جاتے ہیں کیونکہ انسان دونوں شریعتوں کے احکام پر عمل نہیں کرسکتا جو اکثر احکام میں مختلف اور مخالف ہوتی ہیں۔

نیز کسی ایک چیز پر دونوں شریعتیں الگ الگ حکم کرتی ہیں اور اس بات پر عقلی دلیل اور فطرت انسان دلالت کرتی ہے اور اس کا حکم واضح ہے۔

لیکن اس سلسلہ میں یهودی کہتے ہیں کہ ہماری شریعت اور ہمارے نبی کی نبوت باقی ہے کیونکہ یہ لوگ ”نسخ“ کے نظریہ اور نسخ واقع ہونے کی نفی کرتے ہیں( ۴۰ ) ان کا گمان یہ ہے کہ اگر نسخ شریعت کو مان بھی لیا جائے تو خداوندعالم کا جاھل اور غیر حکیم ہونا لازم آتا ہے !۔

ان کے اعتراض کی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم کے احکام اس زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے ہوتے ہیں کیونکہ بغیر مصلحت کے احکام عبث وبے ہودہ ہوتے ہیں او راس حکیم مطلق کی حکمت کے منافی ہیں۔

لہٰذا مصلحت کے مطابق احکام کو ختم کرنا حکمتِ خداوندی کے خلاف ہے کیونکہ اس حکم کے ختم کرنے سے بندوں کی مصلحت کا نابود ہونا لازم آتا ہے مگر یہ کہ تشریع کنندہ ( خدا ورسول )کے لئے تشریع کے بعد واضح ہوجائے کہ اس حکم میں مصلحت نہ تھی، تو اس کو ختم کردیتا ہے اور اگر ہم اس معنی میں نسخ کو مانیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا جاھل ہے، لہٰذا جب نظریہ نسخ کا نتیجہ نسخ کرنے والے کا جھل اور غیر حکیم ہونالازم آتا ہے، تو پھر خدا وندعالم کے بارے میں ان دونوں چیزوں (جھل اور غیرحکیم ہونا)کا ہونا جائز نہیں ہے تو پھر نسخ کے بارے میں نظریہ رکھنا بھی محال ہے۔!

قارئین کرام ! اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ہے کہ شریعت کے احکام ومسائل مصلحتوں کے تحت ہوتے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ زمانہ کے بدلنے سے مصلحتیں بھی بدلتی رہتی ہیں کیونکہ کبھی کبھی کوئی خاص کام کسی قوم اور کسی زمانہ کے لئے صاحب مصلحت ہوتا ہے تو اس کام کے لئے حکم کیا جاتا ہے لیکن وھی کام دوسری قوم یا دوسرے زمانہ کے لئے صاحب مصلحت نہیں ہوتا تو اس کام سے روک دیا جاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ عقلِ بشری کے ساتھ ساتھ آسمانی ادیان نے بھی رشد وترقی کی ہے، (جیسا کہ ہم جانتے ہیں) جس طرح ایک بچے کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے روز بروز اس کے علم وعقل اور قابلیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یھاں تک کہ وہ اپنے نظریات اور افکار پراعتقاد کرلیتا ہے، (مثلاً پہلے بچہ ایک کھیل کو اپنے لئے صحیح اور ضروری سمجھتا ہے لیکن جب وہ باشعور ہوجاتا ہے تو اس کھیل کو عبث اور بے ہودہ سمجھتاھے۔)

بالکل یھی حال آسمانی ادیان کا بھی ہے جو ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے نازل ہوئے ہیں اور ہر قوم کی مصلحتوں کے لحاظ سے احکام جاری کرتا ہے اور اس زمانہ کے فکری او رپختہ نظریات کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، یھاں تک کہ شریعت اسلام میں اس بلندی پر پهونچا جس کو خداوندعالم نے اختیار اور پسند کرلیا، اور زمانہ اور عقلی رشد کی بلندی پر پہنچے ہوئے تمام انسانوں کے لئے یہ شریعت مشعل راہ بن گئی۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ خداوندعالم مصلحتوں سے جاھل تھا یا اس کے لئے کوئی ایسی چیز کشف ہوئی ہے جو پہلے کبھی معلوم نہ تھی۔ ان باتوں کے علاوہ خود توریت میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ہیں جو وقوع نسخ پر دلالت کرتی ہیں مثلاً حضرت آدم کی شریعت میں ایک شخص کا دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز تھا لیکن یھی کام شریعت جناب موسیٰ علیہ السلام میں حرام قرار دیدیا گیا، جس طرح جناب نوح (ع) کی شریعت میں ختنہ کرنے میں بڑے ہونے تک تاخیر کرنا جائز تھا لیکن حضرت موسی (ع)کی شریعت میںاس تاخیر کو حرام کردیا گیا، اسی طرح دوسرے واقعات بھی موجود ہیں۔

ان تمام باتو ںکے پیش نظر نسخ کو محال قراردینا صحیح نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی مستحکم دلیل ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے، لہٰذا یهودیوں کا یہ گمان خود ان کی کتاب توریت اور حکم عقل کے ذریعہ باطل ومردود ہے:

( وَلَنْ تَرْضیٰ عَنْکَ الْیَهودُ وَلَا النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ اِنَّ هُدَیٰ اللّٰهِ هو الْهُدیٰ ) ( ۴۱ )

”اور (اے رسول) نہ تو یهودی کبھی تم سے رضامند ہونگے نہ نصاریٰ یھاں تک کہ تم ان کے مذھب کی پیروی کرو، (اے رسول) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ہی کی ہدایت تو ہدایت ہے“

( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلاَمِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهو فِی الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ( ۴۲ )

”اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے تو اس کا وہ دین ھرگز قبول ہی نہ کیا جائے گا“

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ کسی بھی نبی کا دعویٰ نبوت اس وقت صادق ہوسکتا ہے جب وہ کوئی معجزہ پیش کرے ایسا معجزہ جس کی مثال پیش کرنے سے بشر قاصر ہو۔

ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدو طرح کے معجزات لے کر آئے۔