پہلا معجزہ: قرآن مجید ۔
دوسرے معجزات: جن کا اس وقت کے مسلمانوں نے مشاہدہ کیا ہے اور ان کی تعدا دبھی بہت زیادہ ہے، اوروہ متواتر طریقوں سے نقل بھی ہوئے ہیںنیز ان کے بارے میںبہت سی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں،اور علماء حدیث نے بھی ان کو جمع کیا ہے او ریہ نقل وروایت کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہر زمانہ میں جاری رھے گا۔ (انشاء اللہ)
اگرچہ بعض جاھل اور متعصب مولفین نے ان معجزات میں شک وتردید کی ہے اور بعض نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ خود قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ہیں جو قرآن کے علاوہ دوسرے تمام معجزات کی نفی کرتی ہیں اور یہ کہ صرف قرآن مجید ہی آپ کا واحد معجزہ ہے اور یہ وہ معجزہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا تاکہ اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرسکیں۔
چنانچہ ان لوگوں نے اپنی دلیل کے طور پر درج ذیل آیت پیش کی جس میں ارشاد قدرت ہوتا ہے:
(
وَمَامَنَعْنَا اَنْ نُرْسِلَ باِلْاٰیٰاتِ اِلاّٰ اَنْ کَذَّبَ بِهَا الاٴوَّلُوْنَ
)
”اور ہمیں معجزات بھیجنے سے تو اس کے علاوہ اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انھیں جھٹلایا“
کیونکہ انھوں نے گمان کیا کہ اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن کریم کے علاوہ کوئی دوسری نشانی (معجزہ) لے کر نہیں آئے کیونکہ وہ نشانیاں جو گذشتہ امتوں پر نازل کی گئیںان لوگوں نے ان کو جھٹلایا (لہٰذا ہمارے پیغمبر کو وہ نشانیاں دے کر نہیں بھیجا گیا)
اس اعتراض کے جواب میں ہمارے استاد آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی نے تفصیل کے ساتھ دندان شکن جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے۔
”مذکورہ آیہ کریمہ میں جن آیات (نشانیوں) کا ذکر ہے او رجن کی نفی کی گئی ہے اور جن کو گذشتہ امتوں نے جھٹلایا ان سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کوگذشتہ انبیاء (ع) کے امتی اپنے نبی کے لئے
پیش کرتے تھے ، پس مذکورہ آیہ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اے نبی تم پر واجب نہیں ہے کہ مشرکین کی تراشیدہ شدہ نشانیوں کا جواب دو، اور یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مطلق طور پر دوسرے معجزات کی نفی نہیں کرتی، اور اگر یہ طے ہو کہ کسی آیت (نشانی) کو جھٹلانے کی وجہ سے نشانیاں نہ بھیجی جائےں تو پھر تو قرآن کو بھی نہیں بھیجنا چاہئے تھا، کیونکہ بعض لوگوں نے تو اس کو بھی جھٹلایا اور یہ وجہ دوسری نشانیوں سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے بالخصوص جبکہ قرآن مجید آنحضرت کے معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ ہے، لہٰذا ماننا پڑے گا کہ جن نشانیوں کی نفی کی ہے وہ ایک خاص قسم کی نشانیاں ہیں مطلق نشانیاں نہیں ہیں۔
اگر گذشتہ امتوں کا جھٹلانا اس بات کی صلاحیت رکھتا ہو کہ حکمتِ الٰھی اور نشانیاں نہ بھیجنے میں اثرانداز ہوتا تو پھر اس بات کی بھی صلاحیت رکھتا ہوگا کہ خدا ،رسولوں کونہ بھیجے (کیونکہ دنیا والوں نے نہ معلوم کن کن انبیاء کو جھٹلایا) اور جب یہ بات باطل او رمردود ہے توگذشتہ بات بھی باطل ہے۔
لہٰذا طے یہ ہوا کہ خداوندعالم نے جو اپنی نشانیاں نازل فرمائیں وہ طلب کرنے والوں کی طلب کے مطابق تھیں، اور یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگ اتمام حجت کرنے والی نشانیوں کے علاوہ بھی دوسری نشانیاں طلب کرتے تھے،(گویا ان کا مقصد ایمان لانانھیں تھا بلکہ اس طرح کی نشانیوں کے مطالبہ کے بعد نبی کو عاجز کرنا ہوتا تھایھی وجہ تھی کہ طلب شدہ نشانیوں کے بعد بھی ایمان نہیں لاتے تھے) اور جب یہ بات طے ہوگئی کہ معجزات دیکھنے کے باوجود بھی وہ ایمان نہیں لاتے تھے تو اب خدا پر لازم نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کے معجزات طلب کرنے پر معجزات ظاہر کردےتا، اور اگر خداوندعالم ان میں مصلحت دیکھتا کہ یہ لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں گے تو حتماً ان کی طلب شدہ نشانیوں کو بھی نازل کردیتا۔
لہٰذا معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مطالبات اتمام حجت کے بعد تھے اور سابقہ امتو ں کا جھٹلانا ہی سبب تھا کہ خداوندعالم اپنی نشانیوں کو نہ بھیجے کیونکہ ان نشانیوں کا جھٹلانا ان پر عذاب نازل ہونے کا سبب تھا لیکن امت محمدی پر خداوندعالم نے اپنے نبی کی خاطر لطف وکرم رکھا کہ اس امت سے اس طرح کی نشانیوں کا انکار کرنے والوں سے عذاب کو دور کیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:
(
وَمَاکَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاٴَنْتَ فِیْهِمْ
)
”حالانکہ جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو تو خدا ان پر عذاب نہیں کرےگا“
لیکن ان نشانیوں کو جھٹلانے والوں پر عذاب اخروی کیا جائے گا کیونکہ اگر خدا کی کوئی نشانی صرف کسی نبی کی نبوت کے صرف اثبات کے لئے تواس کی تکذیب پر کوئی اخروی عذاب نہیں ہوگا اور اگر عذاب ہوگا تو اس نبی کے جھٹلانے پر عذاب ہوگا۔
لیکن وہ آیات ونشانیاں جن پر لوگوں نے اصرار کیا اور ہٹ دھرمی کی اور ان کا مطالبہ کیا تو اگر وہ اس وجہ سے ہو کہ خدا کی پہلی نشانی کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس نشانی کو دیکھ کر حق واضح ہوجائے اور جب ان کی طلب شدہ چیز کو نبی انجام کرکے دکھادے تو پھر ان پر اس نبی کی تصدیق کرنا ضروری ہوجاتا ہے او راگر اپنی طلب شدہ چیز کو دیکھ کر بھی اس نبی پر ایمان نہ لائے تویہ نبی اور حق کا مذاق اڑانا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جو قرآن کے علاوہ دوسرے معجزات کی نفی کرتی ہو اگرچہ یہ بھی طے ہے کہ قرآن مجید ہمارے لئے عظیم دائمی اعجازھے، لیکن
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے دوسرے بھی بہت سے معجزات ہیں۔
قارئین کرام ! معجزہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے اصلی اور نقلی ہونے کو کوئی آسانی سے نہیں سمجھ سکتا جیسا کہ گذشتہ اعتراض سے ظاہر ہوتا ہے، بلکہ اس سلسلہ میں معلومات رکھنے والے علماء ہی سمجھ سکتے ہیں اور اس کی خصوصیات سے یھی افراد آگاہ ہوتے ہیں اور یھی لوگ تشخیص دے سکتے ہیں کہ نوع انسانی اس طریقہ کا کام انجام دینے سے قاصر ہے یا وہ اس طرح کا کام انجام دے سکتے ہیں اسی وجہ سے علماء ہی سب سے پہلے معجزات پر ایمان لاتے ہیں:
(
اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِه الْعُلَمَاءُ
)
”اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء (ھی) ہیں“
کیونکہ جاھل انسان صدق وکذب میں امتیاز نہیں کرسکتا او رجو لوگ جاھل ہیں اور جب تک اس علم کے مقدمات سے جاھل ہیںان پر باب شک کھلا رہتا ہے کیونکہ یہ لوگ احتمال دیتے رھیں گے کہ اس کام کے کرنے والے نے اس علم کے مقدمات کے ذریعہ یہ کام کردکھایا ہے اور یہ صاحبان علم کے لئے ایسا کام کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، چنانچہ ان تمام احتمالات کی بنا پر اس معجزہ کی جلدی تصدیق نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر نبی کا معجزہ اس کے زمانہ میں شایع شدہ علم کے مشابہ ہو، جس پر اس زمانہ کے علماء نے ممارست اور تمرین کی ہو اور اس جیسا عمل انجام دینے کی کوشش کی ہو تاکہ جلد ہی تصدیق کرسکےں اور حجت تمام ہوجائے۔
اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرنے میں جلدی کی کیونکہ جناب موسیٰ (ع) کے معجزہ کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگالیا کہ جو کچھ حضرت موسیٰ (ع) نے انجام دیا وہ جادو گری نہیں ہے۔
اسی طرح نزول قرآن کے وقت چونکہ عربوں کی فصاحت وبلاغت اپنے عروج پر تھی، تواس وقت کے لحاظ سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا معجزہ فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ممتاز ہو، چنانچہ پیغمبر اسلام نے قرآن کو معجزہ کے طور پر پیش کیا جو فصیح وبلیغ تھا تاکہ عرب کے زبان داں اور ممتاز ادیبوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ کلام الٰھی ہے جو انسانی فصاحت وبلاغت اور ان کی فکر سے اوپر ہے۔
قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقرآن مجید کے علاوہ بھی دوسرے معجزات رکھتے تھے جن کو اس کتاب میں بیان نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کریم وہ عظیم معجزہ ہے جس کی شان نرالی ہے اور جس کی حجت بھی کامل ترین ہے کیونکہ ایک جاھل عرب جو علوم طبیعت سے واقف نہیں ہے وہ ان معجزات میں شک کرسکتا ہے اور وہ ان اسباب کی طرف نسبت دے سکتا ہے جن سے وہ جاھل ہے او راپنے ذہن میں یہ سوچ سکتا ہے کہ شاید یہ سب سحر اور جادو ہو، جیسا کہ سب سے پہلا گمان بھی یھی تھا لیکن جب فنون بلاغت اور کلام فصیح کے اسرار ان پر کشف ہوجائیں گے تو ان کو قرآن کے معجزہ ہونے میں کوئی شک نہیں رھے گا، ان پر یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اس طرح کا کلام کوئی بشرپیش نہیں کرسکتا، جبکہ دوسرے معجزات کم مدت والے ہوتے ہیں اورجب وہ ختم ہوجاتے ہیں تو راوی اس کو نقل کرتے ہیں یا اس بات کے چرچے عوام الناس کی زبان پر ہوتے ہیں اس صورت میں باب شک کھل جاتا ہے جس میں بعض لوگ تصدیق کرتے ہیں اور بعض لوگ جھٹلاتے ہیں، لیکن قرآن کریم ایسا معجزہ ہے جو زمین وآسمان کے باقی رہنے تک باقی رھے گا، اور اس کا اعجاز بھی ہر زمانے کے تمام لوگوں کے سامنے باقی رھے گا۔
بتحقیق ہر وہ شخص جس تک اسلام کی دعوت پهونچی ہے یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے تمام لوگوں اور تمام امتوں کو اسلام کی دعوت دی ہے اور قرآن کریم کے ذریعہ ان لوگوںپر حجت تمام کی ہے اور وہ قرآن کا جواب دینے سے قاصر ہیں کیونکہ ان سب سے قرآن کا مثل لانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن کوئی بھی جواب پیش نہیں کرسکتا ، چاھے وہ اپنے وقت کا کتناھی بڑا سورماکیوں نہ ہو۔
اس کے بعد تنزل کرتے ہوئے اس جیسے دس سوروں کا مطالبہ کیا اس کے بعد ایک ہی سورے کا جواب طلب کیاگیا اور اگر عرب کے فصیح وبلیغ افراد میں کوئی بھی اس کا جواب لانے کی قدرت رکھتا تو قرآن کے اس چیلنج کا جواب دیتا اور قرآن کے چیلنج کوختم کردیتا ہے لیکن جب قرآن سنا تو حقیقت امر کا اقرار کیااور قرآن کے اعجاز کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے، اور یہ یقین کرلیا کہ ہم قرآن سے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے،چنانچہ ان میں سے بعض نے قرآن کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرلیا، لیکن بعض لوگ اپنے بغض وعناد پر قائم رھے اور جنگ وجدل کرنا شروع کردیا۔
چنانچہ بعض مورخین نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ ولیدبن مغیرہ مخزومی کا ایک روز خانہ کعبہ سے گذر ہوا او رنبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی زبان سے تلاوت کلام پاک کو دور ہی سے کان لگاکر سنا، اس کے بعد اپنی قوم کے مشرکین سے جاکر کھا:
”میں نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے کلام کو سنا، جو نہ کسی انسان کاکلام ہے اور نہ ہی کسی جن کا، یہ وہ کلام ہے جس میں حلاوت اور خوبصورتی ہے اس کے اوپر کا( حصہ )ثمر دینے والے درخت کی مانند اور نیچے کاحصہ گورا ہے، یہ قرآن کی ترقی کی حالت میں ہے اور ہمیشہ سربلند رھے گا۔
اسی طرح ہشام بن حکم راوی ہیں کہ ایک سال خانہ کعبہ میں اپنے زمانہ کے چار بڑے بڑے مفکر اور ادیب جمع ہوئے جن کے نام اسی طرح ہیں:
۱ ۔ ابن ابی العوجاء۔
۲ ۔ ابو شاکر دیصانی۔
۳ ۔عبد الملک البصری۔
۴ ۔ ابن مقفع۔
اور یہ چاروں خدا کا انکارکرنے والے دھریے تھے ، جو آپس میں نبی اسلام اور حج کے بارے میں گفتگو کررھے تھے، چنانچہ گفتگو کے دوران طے یہ پایا کہ اس قرآن کا مقابلہ کیا جائے جو اس دین کی بنیاد ہے تاکہ اس کے مقابلہ اور تعارض سے قرآن کے اعجاز کو ختم کردیا جائے چنانچہ آپس میں یہ طے کیا کہ ان میں سے ہر شخص ایک چھارم ( on quarter )قرآن کا جواب لائے، چنانچہ اس پروگرام کے تحت آئندہ سال کا موسمِ حج طے کیا گیا۔
اور جب سال گذرنے کے بعد یہ لوگ تاریخ معینہ پر خانہ کعبہ میں جائے معین پر جمع ہوئے اور ایک دوسرے سے محوِ گفتگو ہوئے کہ تم نے کیا کیا او رتم نے کیاکام انجام دیا، چنانچہ ابن ابی العوجاء کہتا ہے کہ میرا پورا سال پریشانی واضطراب کی حالت میں گذر گیا اور قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں سوچتا رھا:
(
فَلَمَّا اسْتَیْئَاٴسُوْا مِنْهُ خَلَصُوْا نَجِیاً
)
”پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے“
اور میں اس جیسی کوئی آیت نہیں بنا سکا۔
اس کے بعد عبد الملک نے بھی اسی طرح کھا کہ میں پورے سال قرآن مجید کی اس آیت سے مقابلہ کے بارے میں سوچتا رھا:
(
یَاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهُ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنٍ اللّٰهِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهُ وَاِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لاٰ یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ
)
”اے لوگو ! ایک مثل بیان کی جاتی ہے تم اسے کان لگاکر سنو کہ خدا کو چھوڑ کرتم جن کو پکارتے ہو اور وہ لوگ اگرچہ سب کے سب اس کا م کے لئے اکٹھے ہوجائیں تو بھی ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتے، اور اگر کھیں مکھی کچھ ان سے چھین لے جائے تو اس سے اس کو چھڑا نہیں سکتے، (عجب لطف ہے) کہ مانگنے والا اور جس سے مانگا گیا ہے دونوں ضعیف ہیں۔“
لیکن میں اس جیسی آیت بنانے سے قاصر رھا۔
اسی طرح ابی شاکر کا بھی خیال تھا کہ میں درج ذیل آیت کی طرح سوچنے سے قاصر رھا۔
(
لَوْکَانَ فِیْهِمَا آلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا
)
”بفرض محال زمین وآسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے برباد ہوگئے ہوتے۔“
اور یھی حال ابن مقفع کا بھی تھا کہ پورا سال گذر گیا اور میں اس آیت سے مقابلہ نہ کرسکا:
(
وَقِیْلَ یَا اَرْضُ ابْلَعِیْ مَاءَ کَ وَیَا سَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّاْلِمِیْنَ
)
”اور جب خدا کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اے زمین اپنا پانی جذب کرلے، اور اے آسمان (برسنے سے) تہم جا اور پانی گھٹ گیا اور (لوگوں کا) کام تمام کردیا گیا اور کشتی جودی (نامی پھاڑ) پر جا ٹھھری اور (ھر چھار طرف) پکار دیا کہ ظالم لوگوں کو خدا (کی رحمت سے) دوری ہو۔“
ہشام کہتے ہیں کہ اسی موقع پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام وھاں سے گذرے، ان لوگوں کو دیکھا تو آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
(
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ یَّاتُوْا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لاٰیَاتُوْنَ بِمِثْلِهِ وَلَوْکَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْراً
)
”(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر ساری دنیا کے آدمی اور جن اس بات پر اکھٹا ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو (غیرممکن)، اس کے برابر نہیں لاسکتے اگرچہ اس کوشش میں ایک ایک کا مددگار بھی بنے۔“
قارئین کرام ! ہمیشہ دشمنان دین چاھے وہ کسی بھی عقیدہ، نظریات اور فلسفہ کے ماننے والے ہوں ؛ ان کا یہ وطیرہ رھا ہے کہ اس معجزہ (قرآن کریم) کے اعجاز میں شک وتردید ایجاد کریں اور ہمیشہ اسلام دشمن طاقتوں نے سازش کرکے حملہ کئے ہیں اور اپنی پوری طاقت صرف کردی تاکہ اپنے شوم اہداف میں کامیاب ہوجائیں، جیسا کہ تاریخ کے اوراق پر ان حملوں کی تعدادبے شمار ملتی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک اور اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی آیات میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے جو اعجاز قرآن کے منافی ہے اور ان کے گمان کے مطابق یہ قرآن انسان کی صفت ہے اور کلام الٰھی نہیں ہے، چنانچہ اپنے اعتراض کی دلیل میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت پیش کی ہے کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
(
آیَتُکَ اَلَّا تَکُلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ اَیَّامٍ اِلّٰا رَمْزاً
)
”تمھاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارہ سے۔“
کہ یہ آیہ کریمہ دوسری آیت کے مخالف ہے جس میں خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
(
آیَتُکَ اَلَّا تَکُلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَیَالٍ سَوِیًّا
)
”تمھاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکوگے۔“
پس پہلی آیت میں تین دن کا ذکرھے جبکہ دوسری آیت میں یہ مدت تین رات بیان کی گئی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں کافی ہے کہ ہم اشارہ کریں کہ لغت عرب میں ”یوم“ کے معنی کیا ہیں چنانچہ عربی زبان میں ”یوم“ کہہ کر دن مراد لیا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
(
سَخَرَّهَاْ عَلَیْهِمْ سَبْعَ لِیَالٍ وَثَمَانِیَةَ اَیَّامٍ
)
”خدا نے اسے (تیز آندھی کو )سات رات اور آٹھ دن لگاتا ران پر چلایا“
اور کبھی یوم کہہ کرشب وروز ( ۲۴ گھنٹے) مراد لئے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِی دَارِکُمْ ثَلاٰثَةَ اَیَّامٍ
)
”تب جناب صالح نے کھا اچھا تین دن تک (اور)اپنے گھر میںچین سے بیٹھ جاؤ“
جبکہ ”لیل“ سے مراد رات لی جاتی ہے:مثلاً:
(
وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشیٰ
)
”رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے“
ایضاً:
(
سَبْعِ لِیَالٍ وَثَمَانِیَةَ اَیَّامِ
)
اور کبھی کبھی ”لیل“ سے مراد شب و روز ہوتے ہیں:
(
وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً
)
”اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا“
قارئین کرام ! جب لغت میں لیل ونھار کا استعمال ان دونوں معنی میں جائز اور صحیح ہے تو مذکورہ دونوںآیات میں کسی طرح کا کوئی تناقض نہیں ہے کیونکہ یوم اور لیل کبھی دن اور رات کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی یوم اور لیل کا اطلاق ۲۴ گھنٹے پر ہوتا ہے، اور اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے اگر خود غرضی نہ ہو:
(
اَفَلاٰ یتَدَبِّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اِخْتَلاٰفاً کَثِیْراً
)
” تو کیا یہ لوگ قرآن میںغور نہیں کرتے اور (یہ خیال نہیں کرتے) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو (ضرور) بڑا اختلاف پاتے“
اب جبکہ یہ طے ہوگیا کہ قرآن کریم اپنی تمام روش میں بے انتھا فصیح وبلیغ معجزہ ہے اور اس کی فصاحت وبلاغت کا حال یہ ہے کہ نوع بشر اس کی مثال نہیں لاسکتی، اور ایسی منظم کتاب ہے جس میں ذرہ برابر بھی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا،پس قرآن کریم کے اعجاز کے دوسرے بھی پہلو ہیں جن کی تعداد بہت ہے اور قرآن میں غور وفکر کرنے والے پر بہت سی چیزیں کشف ہوتی ہیں کیونکہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں بہت سے معارف، اسرارِ علوم اور عالم کائنات کے حقائق بیان کئے ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص یہ احتمال نہیں دے سکتا کہ یہ اس زمانہ میں زندگی بسر کرنے والے انسان کے بیان شدہ ہیں کیونکہ اس زمانے میں زندگی بسر کرنے والا شخص ان چیزوں کو درک نہیں کرتا تھا۔
اور جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم دین، عقیدہ اور تشریع کی کتاب ہے علم فلکیات، علم کیمیا اور علم فیزیک کی کتاب نہیں ہے ، لیکن پھر بھی ہم اس قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر کائنات اور طبیعت کے بارے میں بہت دقیق باتیں دیکھتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں ایسی چیزوں کا علم ہونا ناممکن ہے مگر یہ کہ خداوندعالم ان چیزوں کے بارے میں وحی کرے اور اپنے رسول کو بتائے۔
بتحقیق قرآن کریم نے ان اسرار کو بیان کرنے میں بہترین انداز اپنایا ہے بعض چیزوں کے بارے میں صاف صاف وضاحت کی ہے جبکہ بعض چیزوں کی طرف صرف ایک اشارہ کیا ہے کیونکہ اس زمانہ میں بعض حقائق کو قبول کرنا بہت مشکل تھا۔
چنانچہ اس وقت کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ ان چیزوں کی طرف ایک اشارہ کیا جائے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے جس وقت علم کی پیشرفت ہو اور حقائق ظاہر ہوں ؛یہ چیزیں واضح اور کشف ہوجائیں، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:
(
اَلَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مِهٰداً
)
”جس نے زمین کو تمھارے لئے فرش بنایا“
یہ آیہ کریمہ اشارہ کرتی ہے کہ زمین گھومتی ہے لیکن اس چیز کو چند صدی گذرنے کے بعد سمجھا گیا کیونکہ لفظ ”المہد“ زمین کی حرکت کی طرف اشارہ کررھا ہے لیکن قرآن مجید کا یہ ایک ھلکا سا اشارہ تھا اور اس کو وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا، کیونکہ اس وقت زمین کو حالت سکون میں سمجھنا ایک عام بات تھی اور اس کے بارے میں گفت وشنید بے کار تھی، اور اگر اس وقت زمین کی حرکت کی باتیں کی جاتیں تو ان کو خرافات اور محال کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ۔
قارئین کرام ! ہم یھاں پر قرآن کریم کے ذکر شدہ چند حقائق کو بیان کرتے ہیں چاھے ان کو قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا ہو یا ان کی طرف صرف اشارہ کیا ہو اگرچہ اس سلسلہ میں تفصیلی طور پر معلومات حاصل کرنے کے لئے الگ کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہیں اور ان تمام کو اس کتاب میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارا مقصد صرف چند مثالوں کو پیش کرنا ہے تاکہ بحث مکمل ہوجائے۔
قرآن مجید کے ان علمی اور دقیق اشاروں میں سے ایک یہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں موجود ہے:
(
یَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ
)
”اس کے سینہ کو تنگ دشوارگزار کردیتا ہے گویا(قبول ایمان) اس کے لئے آسمان پر چڑھنا ہے“
جیسا کہ سائنس نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جب انسان بلندی کی طرف آسمانوں میں پرواز کرتا ہے او راوپر کی طرف بڑھتا ہے تو اس کے سینہ میں دباؤ پیدا ہوتا ہے یھاں تک کہ اس کا دم گھٹنے لگتا ہے کیونکہ اس وقت اس کو ”آکسیجن“ " Oxygen "نھیں ملتا۔
اسی طرح قرآن مجید کا علمی مسائل کی طرف ایک اشارہ درج ذیل آیت میں ہوتا ہے:
(
وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ
)
”اور ہم ہی نے وہ ہوا بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے ہوئے ہیں“
آج کا سائنس یہ کہتا ہے کہ تلقیح
دوقسم کی ہیں:
۱ ۔ذاتی؛ جیسے درخت اور گھاس بطور مستقیم تلقیح کرتے ہیں۔
۲ ۔خلطی؛ جس میں تلقیح کے لئے تخم ایک پودے سے دوسرے پودے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اسی صورت میں ایسے وسائل موجود ہونا ضروری ہیں جن کے ذریعہ سے تخم تلقیح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکے اگر چہ ان کے درمیان کافی دوری ہی کیوں نہ ہو، تو ان منتقل کرنے والے وسائل میں سے ہوا ایک اہم وسیلہ ہے کیونکہ اس زمین پر ایسے بہت سے درخت وغیرہ ہیں جن کی تلقیح ہوا کے علاوہ ممکن ہی نہیں ہے۔
انھیں اشاروں میں سے قرآن مجید کا ایک اشارہ یہ بھی ہے جس کو ماھرین فلکیات نے بھی قبول کیا کہ سورج بھی دوسرے ستاروں کی طرح اپنی حرارت کی زیادتی اور اپنی شعاعوں کو کم کرے کیونکہ اس میں اتنی شدت پائی جاتی ہے جس کو عقلِ انسانی قبول نہیں کرسکتی۔یھاں تک کہ اگر زمین سے اس کی دوری کو ختم کردیا جائے تو زمین سے شعلہ نکلنے لگےں، اور چاروں طرف سے دھواں اٹھنے لگے، اور یہ دھواں چاند تک پہنچ جائے گا او رپھر تمام نظام شمسی درہم وبرہم ہوجائےگا۔
اورآسمان پر موجود تمام ستاروں کا اسی اپنی حالت پر گامزن رہنا ضروری ہے قبل اس کے کہ اپنی دائمی محور کو حاصل کرے، چنانچہ ہمارا یہ سورج کبھی دائرہ سے خارج نہیں ہوتا۔
اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے خداوندعالم کے فرمان کے معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ خداوندعالم نے روز قیامت سے کس طرح ہم لوگوں کو ڈرایا ہے اور دنیاکی نابودی کی کس طرح تصویر کشی کی ہے:
(
فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ یَو مَئِذٍ اَیْنَ الْمَفَرُّ
)
(جب آنکھیں چکاچوند ہوجائیں گی اور چاند میں گہن لگ جائے گا اور سورج اور چاند اکھٹا کردئے جائیں گے تو انسان کھے گا: آج کھاں بھاگ کر جاؤں)
قرآن مجید کے انھی علمی اشاروں میں سے ایک یہ ہے جس کو قرآن مجیدنے بیان کیا ہے:
(
وَاٴَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنٍ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّاْ یَعْرِشُوْنَ
)
”اور (اے رسول) تمھارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پھاڑ وںاور درختوں اوروہ لوگ جو اونچے اونچے مکان بناتے ہیں ان میں اپنے چھتے بنا۔“
جیسا کہ ماھرین علم کاکہنا ہے کہ شہد کی مکھی نے سب سے پہلے پھاڑوںمیں اپنا گھر بنانا شروع کیا اور یہ زیادہ تر وھیں پر اپنا گھر بنا کر زندگی کرتی ہیں اور اسی میں زاد ولد کرتی ہیںلیکن وھاں پر موجود بعض پریشانیوں کی بنا پر وھاں سے منتقل ہوکر درختوں میں اپنا گھر بنایا درختوں کو اس وجہ سے انتخاب کیا کیونکہ اس میں سوراخ اور کھوکھلی جگہ ہوتی ہیں تاکہ ان میں آرام سے زندگی گذار سکیں۔
اور جب انسان نے (دوسرے جانوروں کے گھروں کو دیکھ کر ) اپنے لئے گھر بنانا چاھا تو پہلے گھر بالکل اسی طرح ہوتے تھے جیسے جانوروں کے، شروع میں تو یہ گھر مٹی کے بنائے گئے اور
پھر ان کو خوبصورت بنانا چاھا تو لکڑی سے بنائے جانے لگے اسی طریقہ سے ان میں ترقی ہونے لگی اور آج یھاں تک پهونچ گئے ہیں (کہ بڑے بڑے شھروںمیں بڑی بڑی عمارتوں کی بھر مار ہے)۔
پس شہد کی مکھیوں کا پھاڑ میں گھر بنانااور پھر ان کا درختوں کا انتخاب کرنا اور ان کو دیکھ کر انسانوں کا گھر بنانا ان تمام چیزوں کے بارے میں قرآن کریم نے گفتگو کی ہے
ان ہی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ہے زمین سے متعلق ہے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ہے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ ہوا داخل ہوتی ان ہی علمی حقائق میں سے جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ہے زمین سے متعلق ہے جو ماضی قریب کی صدیوں تک مجهول رھا ۔اور وہ یہ ہے کہ زمین میں سوراخوں کے ذریعہ ہوا داخل ہوتی بلکہ زمین کے یھی سوراخ اور ان کا اندازہ بھی سب سے اہم سبب ہے جس کی وجہ سے زمین مختلف ہوتی ہیں کہ بعض زمین سخت ہوتی ہیں اور بعض بھوڑ (ریتیلی زمین )، اور یہ بات ابھی کچھ دن پہلے ہی کشف ہوئی ہے کہ زمین میں سوراخ ہوتے ہیں اور ان میں ہوا ہوتی ہے اور جب زمین پر بارش ہوتی ہے تو اس ہوا کی جگہ وہ پانی بھر جاتا ہے اور جیسا کہ علم کیمیا نے کشف کیا ہے کہ مٹی پانی کے ذریعہ پھیل جاتی ہے اور خشک ہونے سے سمٹ جاتی ہے اور جب زمین کے سوراخ میں پانی بھر جاتا ہے تو مٹی کے اجزا ء پانی بھرنے سے متحرک ہوجاتے ہیں چنانچہ جب زمین پر بارش ہوتی ہے تو زمین حرکت میں آجاتی ہے اور اپنے اندازہ سے زیادہ ہوجاتی ہے زمین کی اس حرکت کو اس وقت دیکھا جاسکتا ہے جب اس میں پانی بھر جائے اسی طرح اس کے اندازہ کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
قارئین کرام ! یہ وہ حقائق ہیں جن کو آج کا سائنس کشف کررھا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کے بارے میں چودہ سو سال پہلے ہی خبر دی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
وَتَرَی الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَا اٴَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَهِیْجٍ
)
”اورزمین کو مردہ دیکھ رھا ہے پھر جب اس پرپانی برسادیتے ہیں تو لھلھانے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خوشنما چیزیں اگاتی ہے “
یھاں پر” اہتزاز“ کے معنی حرکت کے ہیں اور ربت کے معنی جسم میں زیادتی کے ہیں، چنانچہ ان حقائق سے اس وقت پردہ برداری ہوئی جب آج کا علم کہتا ہوا نظر آرھا ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو زمین میں شگاف پیدا ہوتے ہیں یا پانی کے ذریعہ اس میں سوراخ کھل جاتے ہیں۔
قرآن کریم کے بتائے ہوے انھیں حقائق میں سے ایک یہ بھی ہے جس کو آج کا سائنس بھی قبول کرتا ہے کہ بدن سے خارج ہونے والی چیزوں کی دو قسمیں ہیں :
۱ ۔جن سے جسم کا فائدہ ہوتا ہے جیسے افرازات (خارج شدہ ) چیزیں ہضم ہونے والی چیزیں و مادہ تناسل یا بعض وہ چیزیں جو جسم کے اندر ہوتی ہیں اور جسم کے لئے ضروری ہموتے ہیں اور یہ قسم انسان کے بدن کے لئے ضروری ہے اور ان میں کوئی ضررو نقصان بھی نہیں ہے
۲ ۔ دوسری قسم وہ ہے جن میںجسم کے لئے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ جسم سے ان کا نکلنا ضروری ہے کیونکہ ان میں ایک قسم کا زھر پایا جاتا ہے کہ اگر وہ جسم میں باقی رھیں تو جسم کے لئے خطرہ لاحق ہوجائےگا جیسے پیشاب پاخانہ ۔پسینہ اور خون حیض۔
چنانچہ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(
یَسْاٴ لُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ هو اٴَذًی فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیْضِ
)
”اے رسول تم سے لوگ حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تم ان سے کہدو کہ یہ گندگی اور گھن کی بیماری ہے لہٰذا تم ایام حیض میںعورتوں سے الگ رهو “
خداوند عالم نے آج کے علم کواس نتیجہ پر پہنچے سے پہلے ہمیں بتا دیا کہ خون حیض اذیت کنندہ ہے اور اس کا بدن میں باقی رہنا جسم کے لئے خطرناک ہے اور اس چیز کے پیش نظر مخصوص ایام میں عورت سے مباشرت کرنے سے منع فرمایا کیونکہ اس دوران عورت کا رحم شدید درد کی حالت میں ہوتا ہے اور اس کا بدن اضطراب و پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے ۔
کیونکہ اس کے اندرونی غددوں سے یہ خون باھر نکلتا رہتا ہے اور اس حالت میں جنسی تعلقات، نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو حیض آنا بند ہوجاتا ہے نیز دوسرے غلط اثراث مترتب ہوتے ہیں اور کبھی کبھی اعضاء وتناسل میں سوزش ہونے لگتی ہے۔
انھی حقائق میں سے ایک یہ بھی ہے جس کے متعلق خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
(
افَلَا اُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النَّجُوْمِ وَاِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ
)
”تو میں تاروں کی بنائی کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ہے“
ماھرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ستاروں کے درمیان تاحد خیال فاصلہ ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں خداوندعالم نے قسم کھائی ہے کیونکہ تمام ستارو ں کی دوری ۷۰۰ / نوری سال کے برابر ہے اور ایک نوری سال میں کروڑوں کلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ہے۔
انھی حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ جس کی طرف خداوندعالم نے اشارہ فرمایا ہے:
(
وَاٴَنْبَتْنَا فِیْهَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُوْنٍ
)
”اور ہم نے اس میں ہر قسم کی مناسب چیز اگائی۔“
کیونکہ یہ آیہ کریمہ دلالت کرتی ہے کہ تمام نباتات میں ایک خاص وزن ہوتا ہے جیسا کہ سائنس نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے کہ نباتات خاص اجزاء سے مرکب ہوتی ہیں اور ان کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اس حیثیت سے کہ اگر کسی جز میں اس کی مقدار معین میں کمی یا زیادتی آجائے تو اس کی حقیقت بدل جاتی ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ان اجزاء میں سے بعض اجزاء کا بہت دقیق وزن ہوتا ہے مثلاً میلی گرام یا اس سے بھی دقیق جس طرح سے آج کل سونا تولا جاتا ہے۔
قرآن مجید کتاب خداھے اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے:
(
اِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمَو مِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَهُمْ اَجْراً کَبِیْراً
)
”اس میں شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے او رجو ایماندار اچھے اچھے کام کرتے ہیں ان کو یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر (وثواب موجود) ہے۔“
(
صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اِنَّهُ خَبِیْرٌ بَمَا تَفْعَلُوْنَ
)
”(یہ بھی) خدا کی کاریگری ہے کہ جس نے ہر چیز کو خوب مضبوط بنایا اور بے شک جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے خوب واقف ہے۔“
شبھات واعتراضات
ہم نے شروع ہی میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھاکہ کتاب کے ان صفحات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی سیرت طیبہ اور تاریخ منور کو بیان نہیں کریں گے اور حوالہ دیا تھا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی سیرت طیبہ کو ”فی رحاب رسول (ص) “ نامی کتاب میں تحریر کریں گے۔
لیکن اس کے باوجود بھی نبوت عامہ، مخصوصاً ہمارے نبی اعظم کی نبوت کی گفتگو کے دوران دو اہم نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے او راس سلسلہ میں تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان نکات سے چشم پوشی نہ کرے، کیونکہ وہ بہت عمیق ہیں اور ان میں خطا وغلطی کا امکان ہے، خصوصاً چونکہ یہ دونوں مسائل مقام نبوت سے بہت زیادہ ارتباط رکھتے ہیں کیونکہ مقام نبوت ایک الٰھی منصب ہے جو شهوات اور لذاتِ دنیا نیز گناهوں اور خطاؤں سے پاک وپاکیزہ ہوتا ہے۔
اور وہ دو مسئلے در ج ذیل ہیں:
۱ ۔ کثرتِ ازواج۔
۲ ۔ عصمت۔
اور ہمارے خیال کے مطابق اس بات میں ہمارے قارئین کرام بھی متفق ہوں گے کہ یہ دونوں مسئلے مقامِ رسالت سے بہت زیادہ ارتباط رکھتے ہیں لہٰذا یہ دونوں سیرت رسول بیان کرنے سے زیادہ اہم ہیں۔
قارئین کرام ! ہم آئندہ صفحات میں ان دونوں مسئلوں پر گفتگو کریں گے البتہ کتاب کی ضخامت کے پیش نظر مختصر طور پر بیان کریں گے، خداوندمنان ہمیں توفیق عنایت کرے۔ (آمین)
کثرتِ ازواج
حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی حیات طبیہ میں کثرتِ ازواج کا مسئلہ بہت اہم ہے یھاں تک کہ دشمنان دین اور انگریز رائٹروں نے اس پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں اور اپنے گمان کے مطابق اس مسئلہ میں دین اسلام او رپیغمبر اسلام پر لعن وطعن قرار دیا ہے۔
اصل موضوع کو بیان کرنے سے پہلے یہ عرض کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی عظیم ہستی اپنی بیوی سے محبت کرے یا وہ اس کے ساتھ اپنی مشترکہ زندگی گذارے تو یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ یہ تو فطری تقاضا ہے اور بقاء انسانیت کا وسیلہ ہے، اور چونکہ نبی بھی بشروانسان ہیںلہٰذا ان میں ایک انسان کے تمام صفات کا پایا جانا ضروری ہے، ارشاد قدرت ہوتا ہے :
(
وَقَالُوْا مَالِ هَذَا الرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ
)
”اور ان لوگوں نے (یہ بھی)کھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے“
(
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ هَلْ کُنْتُ اِلاّٰ بَشَراً رَسُوْلاً
)
”اے رسول تم کہہ دو کہ سبحان اللہ میں ایک آدمی ہوں خدا کے رسول کے سوا آخر اور کیا ہوں“
چنانچہ یہ عیب نہیں ہے بلکہ عیب یہ ہے کہ انسان اس محبت میں اس قدر آگے بڑھ جائے کہ اپنے واجبات کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائے اور اپنے حدود سے باھر نکل جائے اور اس کی تمام طاقت وتوانائی اسی میں صرف ہوجائے۔
تو کیا کوئی دشمن حضرت محمد (انگریز ہو یا غیر انگریز) یہ بات کہہ سکتا ہے کہ آپ نے کسی زوجہ کی وجہ سے کسی بھی واجب کو ترک کیا ہے، بلکہ اس سلسلہ میں تحقیق کرنے والوں کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت محمد کی ذات گرامی ایسی ذات تھی جس نے نبوت کا بھی مکمل حق ادا کیا اور ازواج کو بھی ان کا کامل حق دیا، اور یہ چیز ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عظمت پر بہترین دلیل ہے۔
اگر قلب نبی میں ذرہ برابر بھی شهوت پرستی اور ہواپرستی پائی جاتی تو پھر آپ کی ذات سر زمین مکہ پر عفت وحیا سے مشهور نہ ہوتی ، اور اگر شهوت پرستی کا ذرا بھی وجود پایا جاتا تو آپ اپنے شباب کے عالم میں اپنی قوم وقبیلہ کی باکرہ اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرتے، اوران بیوہ اور طلاق شدہ عورتوں سے شادی نہ کرتے، جن میں اکثر بوڑھی یا سن رسیدہ تھیں۔
بلکہ آنخضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شادیوں کا مقصد بعض حالات میں یہ ہوتا تھا کہ سسرالی رشتہ کی تعداد زیادہ ہو، تاکہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافہ ہو جبکہ بعض حالات میں آپ کامقصد یہ ہوتا تھا کہ جو عورتیں اسلامی جنگوں میں یا اسلام کی خاطر مصیبت زدہ ہوتی تھیں یا ان کے شوھر شھید ہوجاتے تھے ان پر لطف ومھربانی کریں، چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ کی بیویوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رھا لیکن اس کو اسلام دشمن عناصر نے دلیل کے طور پر پیش کیا کہ (حضرت) محمد (ص) نے شهوت پرستی کی خاطر اتنی شادیاں کی ہیں۔!
لہٰذا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بیویوں کے اسماء گرامی او رمختصر حالات بیان کرتے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں ہوئے اعتراضات کا خاتمہ ہوجائے۔
۱ ۔ خدیجہ بنت خویلد:
چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان کے ساتھ مل کر تجارت کاکام کیا کرتے تھے اسی اثنا میں آپ سے آشنائی اور واقفیت ہوگئی، جناب خدیجہ (ع) کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادی ہوچکی تھی اور اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی عمر ۲۵/ سال تھی، اس وقت آپ نے جناب خدیجہ سے شادی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اس زوجہ کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے آنحضرت کے ساتھ اس وقت زندگی گذاری جب آپ نے ظاہری طور پر اعلان رسالت نہیں کیا تھا اور آپ ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت پر ایمان لائیں، اور راہِ اسلام میں اپنا سارا مال ودولت خرچ کردیا۔
اسی طرح دشمنان اسلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکویہ بھی طعنہ دیا کہ جناب خدیجہ کی عمر چونکہ حضرت محمد (ص) سے ۱۵/ سال زیادہ تھی لیکن ان کے پاس چونکہ بہت زیادہ مال ودولت تھی اورآنحضرت کے پاس کچھ نہیں تھا لہٰذا آپ نے مال کے لالچ میں جناب خدیجہ سے شادی کی ۔
لیکن یہ اعتراض خود بخود ختم ہوجاتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمخود جناب خدیجہ کی ذات کو اس قدر چاہتے تھے کہ آپ ان کی زندگی میں بھی ان کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے او ران کی وفات کے بعد بھی ان کا بہت زیادہ احترام اور محبت کا اظھار کیا کرتے تھے اور اس بات کا مشاہدہ دوسری ازواج نے بھی کیا ہے۔
کیا کسی انسان کو اتنی محبت واحترام بیوی کے مال کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔!
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ازواج میں صرف یھی پہلی مومنہ کا امتیاز ہے کہ خداوندعالم نے اسی بیوی کے ذریعہ نسلِ نبوت کوباقی رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اکلوتی بیٹی
جناب فاطمہ زھرا = کے ذریعہ آپ کی نسل کو بڑھایا۔
۲ ۔ سودة بنت زمعة:
یہ بی بی جوانی کے آخری حصے میں بیوہ ہوگئیںتھیں کیونکہ ان کا مسلمان شوھر ہجرت سے قبل مکہ میں ہی وفات پاگیاتھا اور جب ان کی زندگی بیوہ ہونے کی وجہ سے تنھائی میں بسر ہونے لگی تو اس وقت رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم کرتے ہوئے اور ان کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ان سے نکاح کیا تاکہ ان کی مشکلات دور ہوجائیں، اور ان کے پڑھاپہ کا سھارا بن جائیں، لہٰذا ان کے شوھر محمد رسول اللہ ہیں نہ صرف ”محمد“ (ص)جن کے بارے میں شهوت پرستی کا ڈھول بجایا جار ھا ہے۔
۳ ۔عائشہ بنت ابی بکر:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی سب سے کم عمر تھی اور ازواج نبی میں صرف یھی باکرہ تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ہجرت کے بعد ان سے شادی کی ہے۔
۴ ۔ حفصہ بنت عمر بن الخطاب:
ان کے پہلے شوھر جنگ بدر میں زخمی ہوئے او رانتقال کرگئے، جس وقت حفصہ بیوہ ہوئیں تو حضرت عمر نے جناب عثمان سے ملاقات کی اور رودادِ غم سنائی تب جناب عثمان نے کھا: مجھے عورتوں کے مسئلہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس کے بعد ابوبکر سے ملاقات ہوئی اور ان سے بھی کچھ کھا تو وہ بھی چُپ رھے تو یہ دیکھ کر حضرت عمر جناب ابوبکر پر غصہ ہوئے (لیکن جب کسی سے کوئی بات نہ بنی تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان سے نکاح کرلیا۔
گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماسلامی جنگ میں شھیدهونے والے اُن کے شوھر کی جگہ لے لینا چاہتے تھے اور ان کی مشکلات کو دور کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ ان کے پدر بزرگوار (جناب عمر) بھی یھی چاہتے تھے۔
۵ ۔زینب بنت خزیمہ:
انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے قبل دو دفعہ شادی کی تھی ان کا دوسرا شوھر جنگ بدر میں شھید ہوگیا تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کے اور ان کے شوھر کے اکرام میں ان سے نکاح کیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی یہ بیوی صرف آٹھ ماہ زندہ رھیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں۔
۶ ۔ ام سلمہ:
آپ کے پہلے شوھر جنگ احد میں زخمی ہوئے اور جب زخم کچھ مندمل ہوگئے تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے سرائے (مہمان خانہ) میں رکھا گیا لیکن وھاں بھی ان کے زخم ٹھیک نہ ہوئے اور جب زخم بڑھتے گئے تو ان کی حالت خراب ہوگئی اور اسی عالم میں دار فانی سے رخصت ہوگئے، چنانچہ انھوں نے ام سلمہ اور چند اولاد چھوڑیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی اور ان کے بچوں کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا، اور ،چونکہ جناب ام سلمہ کے شوھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا زاد بھائی بھی تھے، چنانچہ جب رسول اللہ نے جناب ام سلمہ سے اپنا پیغام بھجوایا تو انھوں نے اپنے بڑھاپے اور بچوں کی وجہ سے معذرت چاھی لیکن حضرت رسول خدا نے ان کے عذر پر توجہ نہ دی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا مقصد ان پراور ان کی اولاد کی حالت پر رحم کرنا مقصودتھا۔
۷ ۔ زینب بنت جحش:
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے چچا کی لڑکی تھی چنانچہ انھوں نے پہلی مرتبہ زید بن حارثہ سے شادی کی اور یہ زید جناب خدیجہ بنت خویلد کے غلام تھے لیکن جناب خدیجہ نے ان کو رسول اللہ کو ھبہ کردیا تھا، رسول اللہ نے ان کو آزاد کردیا او راپنا بیٹا بنالیا او ران کو ”زید بن محمد “ کے نام سے مشهور کردیا گیا، اور یہ اس شھرت پر باقی رھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
(
اُدْعُوْهُمْ لِآبَائِهِمْ
)
”گود لئے بچوں کو ان کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو“
چنانچہ اس کے بعد ان کو اپنے حقیقی باپ حارثہ کی طرف نسبت دینے لگے اور ان کو زید بن حارثہ کھا جانے لگا۔
جناب زید نے رسول اللہ کی محبت اور رغبت میں زینب سے شادی کی تھی، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس شادی میں حصہ لیا ، گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمعملی طور پر ذات پات اور آقا وغلام کے فرق کو ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام میں مساوات کو فروغ ملے، آپ نے زینب کو اس شادی کے لئے راضی کیا اور وہ راضی بھی ہوگئیں ، اس وقت قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:
(
وَمَاکَانَ لِمُو مِنٍ وَلاٰ مُوْمِنَةٍ اَذَا قُضَی اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ اٴَمْراً اٴَنْ یَّکُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اٴَمْرِهِمْ
)
”اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ہے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے یا نہ کرنے) کا اختیار ہو۔)
چنانچہ جناب زینب نے اس شادی کو قبول تو کرلیا لیکن مکمل طورپر دل سے راضی نہ تھیں، اور یہ شادی ہوگئی لیکن چونکہ جناب زینب مکمل طریقہ سے راضی نہ تھیںلہٰذا یہ شادی زیادہ دن پابرجا نہ رہ سکی، کیونکہ جناب زینب اس شادی سے خوش نہ تھی اور زید بھی جناب زینب کی عظمت اور بزرگی کی گفتگو کیا کرتے تھے، چنانچہ ان تمام باتوں کے پیش نظر جناب زید اس مشترکہ زندگی کو
چلانہ سکے اور طلاق کا ارادہ کرلیا تاکہ ان مشکلات سے نجات مل جائے لیکن جناب زید آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے مشورے کے بغیر طلاق بھی نہیں دے سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مشورہ کیا تو رسول اسلام نے ان کو اس کام سے منع کیا اور فرمایا جیسا کہ قرآن مجید بھی اس چیز کی حکایت کررھا ہے:
(
اٴَمْسِکْ عَلَیْکَ زُوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰهَ
)
”(جناب زید کو حکم ہوتا ہے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو“
لیکن رسول اسلام جانتے تھے کہ یہ شادی آخر تک قائم نہیں رہ پائے گی اگرچہ آپ نے طلاق کو وقتی طور پر رکوادیا ،اس کے بعد آپ نے ارادہ کرلیا کہ اگر زید ان کو طلاق دے بھی دیں تو میں ان سے نکاح کرلوں گا، کیونکہ زید اس شادی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ادھر رسول اسلام بھی لوگوں کی قیل وقال سے خائف تھے کیونکہ عرب کے دستور کے مطابق اگر کسی شخص نے کسی کو اپنا لڑکا بنا رکھا ہو تو اس کی بیوی سے(طلاق کی صورت میں) نکاح کرنا بُرا سمجھا جاتا ہے۔
ادھر ایک مدت کے بعد جناب زید نے جناب زینب کو طلاق دیدی، اور جب طلاق ہوگئی تو خداوندعالم نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ جناب زینب سے نکاح کرلیں، تاکہ عرب میں مشهور غلط رواج کو ختم کردیا جائے کہ منھ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا حرام یا بُرا ہے۔
چنانچہ خداوندعالم نے اس بات کی حکایت کی ہے:
(
فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِنْهَا وَطْراً زَوَّجْنَاکَهٰا لِکَیْ لٰایَکُوْنَ عَلَی الْمُو مِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِهِمْ
)
”غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (اورزینب کوطلاق دیدی) تو ہم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا تاکہ عام مومنین کو اپنے منھ بولے لڑکوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں کسی طرح کی تنگی نہ رھے“
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نکاح خداوندعالم کے حکم سے تھا تاکہ حکمِ شریعت واضح ہوجائے اور عملی طور پر مساوات کا بہترین ثبوت پیش کیا جاسکے۔
بعض دشمنان دین (خصوصا انگریزوں) نے اس سلسلہ میں بہت سے قصے اور افسانہ گڑھ ڈالے او ریہ کھا کہ جب حضرت محمد زید کے گھر جاتے تھے تو ان کی بیوی کو تعجب سے دیکھتے تھے چنانچہ انھوں نے زید کو طلاق کے لئے ابھارا تاکہ خود زینب سے شادی کرلیں۔
لیکن ان کا یہ گمانِ ناقص، صاحبان غور وفکر کے نزدیک بالکل باطل ومردود ہے کیونکہ جناب زینب آپ کے چچا کی لڑکی تھیں اور آپ نے شادی سے پہلے بھی ان کو دیکھا تھا او ران کوپہچانتے تھے او راگر آپ کے دل میں ان سے شادی کرنے کی ذرا بھی رغبت ہوتی تو پہلے ہی ان سے شادی کرسکتے تھے اور زید کو ان سے شادی کرنے کے لئے نہ کہتے۔
۸ ۔ جویریة بنت الحارث:
یہ قبیلہ بنی مصطلق سے تعلق رکھتیں تھیں اور اپنے قبیلہ والے سے ہی شادی کی، لیکن جب وہ اسیر کرکے مدینہ لائی گئیں اور وہ مسلمانوں کے حصے میںآ گئیں ، چنانچہ انھوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اپنے کو ایک مبلغ معین میں خرید لیں اور نبی اکرم کے پاس آئیں او راپنا حسب ونسب اور حالِ حاضر کی حالت بتائی اور درخواست کی کہ آپ اس مبلغ کی ادائیگی میں مدد کریں، چنانچہ رسول اسلام نے ان پر لطف وکرم اور مھربانی واکرام کرنے کا ارادہ کیا گویا ان کی قوم والوں کو اس کام سے اسلام کی طرف رغبت دلائی اور آپ نے ان کو وہ مبلغ دیدیا تاکہ وہ مبلغ دیدیں او رآنحضرت سے نکاح کرلیں، چنانچہ اس واقعہ سے سب لوگوں کو خوشی ہوئی۔
چنانچہ اس شادی کا سب سے پہلا اثر یہ ہوا کہ اس قبیلہ کے جو اسیر مسلمانوں کے پاس تھے وہ سب نے آزاد کردئے کیونکہ یہ سب رسول اسلام کے سسرالی رشتہ دار ہوگئے تھے۔
۹ ۔ صفیہ بنت حي:
یہ قوم یهود سے تعلق رکھتی تھیں اور انھوں نے اپنے ہی قبیلہ والوں سے دو مرتبہ شادی کی تھی، لیکن جب جنگ خیبر ہوئی تو ان کو اسیر کرلیا گیا تب رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا تاکہ اسیروں کے حال پر رحم وکرم کامکمل ثبوت دیا جاسکے۔
۱۰ ۔ ام حبیبة بنت ابی سفیان:
ان کی بھی پہلے شادی ہوچکی تھی اور انھوں نے اپنے شوھر اور مسلمان مھاجرین کے ساتھ حبشہ ہجرت کی، لیکن وھاں جاکر ان کا شوھر مرتد ہوگیا لیکن یہ اپنے اسلام پر باقی رھیں،عالمِ غربت میں اپنے دین وایمان کی حفاظت کرتی رھیںاور ایک مدت تک حبشہ میں مشکلات کی زندگی گذارتی رھیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا شوھر بھی نہیں تھا او رنہ ہی مکہ واپس پلٹ سکتی تھیں چونکہ ان کے باپ اور ان کے بھائی او ردیگر قبیلہ والے دشمنان اسلام کی اسیری میں تھے۔
چنانچہ جب رسول اسلام نے اس واقعہ کی تفصیل سنی تو ایک شخص کو حبشہ بھیجا تاکہ ان سے جاکر نکاح کی بات کرے، چنانچہ انھوں نے بھی موافقت کی، اور جعفر بن ابی طالب کے ساتھ مدینہ واپس آگئیں اور رسول اسلام نے ان سے نکاح کرلیا اور یہ ام المومنین کے دائرے میں شامل ہوگئیں، گویا رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان کی حبشہ کی مشکلوں پر صبر وتحمل کرنے اور راہ اسلام میں استقامت کرنے کی وجہ سے ان سے نکاح کیا۔
۱۱ ۔ میمونہ بنت الحارث:
یہ بھی بیوہ تھیں اور ان کی عمر ۴۹ سال تھی انھوں نے اپنے نفس کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو ھبہ کردیا تاکہ آپ بھی ازواج نبی میں شامل ہوجائیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَاْمْرَاٴةً مَوْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيْ
)
” ایماندار عورت اگر وہ اپنے کو (پیغمبر )بنی کو دیدے اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہتے ہوں۔“
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان پر لطف وکرم کیا او ران کو بھی امھات المومنین میں شامل کرلیا۔
قارئین کرام ! کیا کوئی شخص ازواج نبی کی مذکورہ تفصیل پڑھنے کے بعد بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک شهوت پرست تھے؟! کیا ایسے شخص کو جس نے بیواو ں اور بوڑھی عورتوں سے نکاح کیا ہو اس کے بارے میں یہ کھا جاسکتا ہے کہ غرائز جنسی اور شهوت پرستی کے جال میں پھنسے ہوئے تھے، نہیں ھرگز نھیں۔
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک معمولی انسان نہ تھے بلکہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول تھے او رایسے انسان تھے جو ہر قسم کی شهوت پرستی سے پاک وپاکیزہ تھے اور شعور کے اس بلند درجہ پر فائز تھے کہ جھاں پر انسانیت سے بے پناہ محبت والفت اور ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ہے۔
عصمت
ھر صاحب عقل پر یہ بات واضح ہے کہ نبی چونکہ پیغامات الٰھی کولوگوں تک پهونچاتا ہے اور ان کے سامنے دینی احکامات پیش کرتا ہے لہٰذا اس کی باتوں پراس وقت یقین کیا جاسکتا ہے جب وہ صادق ہو اور بھول چوک اور خطا وغلطی سے پاک ہو، اور ہر طرح کی معصیت وگناہ سے دور ہو ،نیز خدا کی مکمل طریقہ سے اطاعت کرتا ہو،تاکہ (یقینی اور قطعی طور پر ) ان تمام چیزوں سے پاک ومنزہ ہو جو اس کے اقوال، اعمال اور دیگر امور میں باعثِ شک بنتے ہوں۔
چنانچہ اسی چیز کو علماء علم کلام”عصمت “ کہتے ہیں۔
اس بنا پر عصمت کے معنی ایک ایسی داخلی طاقت ہے جو نبی کو ترکِ طاعت، فعل معصیت اور بری باتوں سے روکتی ہے۔
انبیاء (ع) کی عمومی زندگی کی معرفت کے بعد انسان اس نتیجہ پر پهونچ جاتا ہے کہ نبی کے لئے صاحب عصمت ہونا ضروری ہے اور ہمارے لئے انبیاء کی عصمت پر یقین رکھنا واجب ہے، چنانچہ شیعہ حضرات انبیاء (ع) کی عصمت کی ضرورت پر زیادہ اصرار کرتے ہیں اور اسلامی فرقوں میں صرف ہمارا واحد مذھب ہے جو انبیاء (ع) کی عصمت کا قائل ہے چونکہ دوسرے اسلامی فرقے انبیاء (ع) کی عصمت مطلقہ کو ضروری نہیں سمجھتے، جبکہ فرقہ معتزلہ اگرچہ انبیاء (ع) کو گناہِ کبیرہ سے معصوم مانتاھے لیکن ان کے لئے گناہ صغیرہ کو جائز جانتا ہے البتہ ایسے گناہِ صغیرہ جو فقط ثواب کو کم کرتے ہیں لیکن باعث عذاب نہیں ہوتے۔
اور چونکہ مسئلہ واضح ہے لہٰذا اس میں زیادہ گفتگو اور دلیل کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ خود انسان کا وجدان اور دل اس بات کی گواھی دیتا ہے کہ وہ نبی جو خطا وغلطی کرتا ہو اور معصیت وگناہ کا مرتکب ہوتا ہو اس صورت میں کوئی بھی انسان اس کی اطاعت وپیروی نھیںکرے گا اور نہ ہی اس کے قول وفعل او رامر ونھی کو قبول کرے گا۔
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں بہت سی کلامی کتابوں میں بغیر سوچے سمجھے لکھ دیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں ان لوگوںکے وہم کی وجہ سے قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن کے ظاہر سے اس بات کااشارہ ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمگناہ اور معصیت کے مرتکب ہوئے۔
لیکن جب ہم بحثِ نبوت اور نبی کی عظمت کا صحیح طریقہ سے جائزہ لینا چاھیں تو ہمیں اس طرح کی آیات کے ظاہر سے پرھیز کرتے ہوئے ان کے اصل مقصد تک پهونچنا چاہئے یھاں تک کہ ہم پر حقیقت امر واضح ہوجائے اور ہم شکوک وشبھات کا سدّ باب، مستحکم دلیل وبرھان اور فہم صحیح سے کردیں۔ (لہٰذا مناسب ہے کہ پہلے ہم ان آیات کو بیان کریں جن کے ذریعہ سے مخالفین عصمت نے استدلال کیا ہے اور پھر ان کا مکمل جواب پیش کریں۔)
پہلی آیت:
ارشاد خداوندعالم ہوتا ہے:
(
لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَ
)
جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ کرنے پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے (اگرچہ ان کی بخشش کا وعدہ کیا گیا ہے)
جواب :
قارئین کرام ! اس سلسلہ میں لفظ ”ذنب“ کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت سی وجوھات بیان کی ہیں ان میں سب سے بہتر وجہ وہ ہے جس کو سید مرتضیٰ نے اختیار کیا ہے ، (سید مرتضیٰ کا علم وادب اور لغت میں منفرد مقام ہے) چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:
”آیہ کریمہ میں لفظ ”ذنبک“ سے مراد امت محمدی کے گناہ ہیں کیونکہ ذنب مصدر ہے اور مصدر کبھی کبھی فاعل کی طرف مضاف ہوتا ہے مثلاً ”اعجبنی شعرک اٴو ادبک او نثرک
“ (مجھے تمھارے اشعار یا نثر اور ادب پر تعجب ہے) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہوا ہے، لیکن کبھی کبھی مصدر اپنے مفعول کی طرف بھی مضاف ہوتا ہے مثلاً: ”ساء نی سجنک ا و مرضک
“ ( میں آپ کے قید ہونے یا مرض میں مبتلاهونے کی وجہ سے پریشان ہوا) کیونکہ اس مثال میں مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف ہوا ہے اور جس کو قید ہوئی یا بیمارهو وہ مفعول ہے۔
اب آئےے قرآن مجید کی اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ لفظ ”ذنب“ مفعول کی طرف اضافہ ہوا ہے اور ذنب سے مراد امت کے ذریعہ نبی کے اوپر واقع ہونے والے سبّ و شتم ا ورمذاق اڑانے کے گناہ ہیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی تکذیب اور جنگ میں آپ کو اذیت دینے والے کے گناہ مراد ہیں۔
اور اگر قرآن کی آیت کے اس طرح معنی نہ کریں تو آیت کی تفسیر نہیں ہوسکتی، آیت کو ملاحظہ فرمائیں ارشاد ہوتا ہے:
(
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ
)
”اے رسول یہ حدیبیہ کی صلح نہیں (بلکہ) ہم نے حقیقتاً تم کو کھلم کھلا فتح عطا کی ہے تاکہ خدا تمھاری امت کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے۔“
کیونکہ اس آیہ کریمہ میں فتح کے بعد غفران وبخشش کا ذکر ہے اور جس روز فتح حاصل ہوئی اس روز غفران نہیں تھی کیونکہ یہ آیت صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی، خداوندعالم نے اس صلح کانام فتح رکھا، اور اسی صلح کے ذریعہ سے فتح مکہ کے اسباب فراہم ہوئے، چنانچہ اس طرح سے آیت کے معنی واضح ہوجاتے ہیں :
”اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِیْناً لِیَغْفِرَلِاَجَلِکَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِ قومکَ نَحْوِکَ وَمَا تَاٴَخَّرَمنه بعد هذا الصلح والی ان َیُتِمَّ الفتح ولیتم نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ بالفتح الکبیر والنصر العظیم
“
یعنی اے میرے حبیب ہم نے تم کو واضح طور پر فتح وکامیابی عنایت کی اور اس صلح کے بعد سے مکمل کامیابی تک آپ کی وجہ سے آپ کی قوم کے گذشتہ وآئندہ کے گناہ بخش دئے تاکہ خدا اس عظیم فتح کے ذریعہ تم پر اپنی نعمتیں نازل کرے۔
قارئین کرام ! اگر مذکورہ آیہ مبارکہ کے معنی بعض کج فکر لوگوں کی طرح کریں کہ ذنب سے مراد بذات خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ ہیں تو پھر اس فتح کے بعد غفران وبخشش کوئی معنی نہیں رکھتے، کیونکہ اس بخشش کے سوا اس کے اور کوئی معنی نہیں ہوتے کہ فتح کے بعد ان لوگوں کے گناہ بخش دئے جائیں جنھوں نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شان میں بے ادبی کی، ان لوگوں کے وطن کو لشکر نبوی کے ذریعہ فتح کرائے او ران کے جاھلیت کے زمانہ کو ختم کردے۔
دوسری آیت:
(
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِ وَاٴَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اٴَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللهَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللهُ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَهَا
)
”اے رسول اس وقت کو یاد کرو جب اس شخص (زید) سے کہہ رھے تھے جس پر خدا نے احسان (الگ)کیا اور تم نے اس پر (الگ)احسان کیا ،(جناب زید کو حکم ہوتا ہے کہ)تم اپنی زوجہ (زینب) کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور خدا سے ڈرو، غرض جب زید اپنی حاجت پوری کرچکا (طلاق دیدی) تو ہم نے (حکم دے کر) اس عورت (زینب) کا نکاح تم سے کردیا“
جیسا کہ بعض لوگوںنے دعویٰ کیا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں رسول اسلام کی سرزنش اور ملامت کی گئی ہے کیونکہ وہ لوگوں کی قیل وقال سے خوف زدہ تھے۔
جواب:
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیںکہ یہ آیہ کریمہ زید بن حارثہ اور ان کی زوجہ جناب زینب بنت جحش کے بارے میں ہے او رہم نے چند صفحے قبل اس بارے میں تفصیل بیان کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد قارئین کرام آیت کے سیاق وسباق سے اچھی طرح آگاہ ہیں چنانچہ آپ حضرات اس آیت کے ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی کوئی سرزنش اور ملامت نہیں پاتے۔
تیسری آیت:
(
عَفَا اللّٰهُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وتَعْلَمَ الْکَاذِبِیْنَ
)
بعض لوگوں کا گمان یہ ہے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے گناہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بخشش اور معاف کرنا گناہ او رخطا کے بعد ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔
جواب:
حقیقت یہ ہے کہ اس آیہ کریمہ کے معنی اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتے جب تک اس کے سیاق وسباق کو مد نظر نہ رکھیں کیونکہ ماقبل ومابعد کو سامنے رکھ کر ہی آیت کے اصلی معنی سمجھے جاسکتے ہیں۔
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
(
لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوکَ وَلَکِنْ بَعُدَتْ عَلَیْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَیَحْلِفُونَ بِاللهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُهْلِکُونَ اٴَنفُسَهُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَهُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ لاَیَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ اٴَنْ یُجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ إِنَّمَا یَسْتَاٴْذِنُکَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِی رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُونَ وَلَوْ اٴَرَادُوا الْخُرُوجَ لَاٴَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَکِنْ کَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِیلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِینَ
)
”(اے رسول ) اگر سردست فائدہ اور سفر آسان ہوتا تو یقیناً یہ لوگ تمھارا ساتھ دیتے مگر ان پر مسافت کی مشقت طولانی ہوگئی، اور (اگر پیچھے رہ جانے کی پوچھو گے تو )یہ لوگ فوراً خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں سکت ہوتی تو ہم بھی ضرور تم لوگوں کے ساتھ ہی چل کھڑے ہوتے (یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھاکر ) اپنی جان آپ ھلاک کئے ڈالتے ہیں او رخدا تو جانتا ہے کہ یہ لوگ بیشک جھوٹے ہیں ۔(اے رسول ) خدا تم سے درگزر فرمائے تم نے انھیں (پیچھے رہ جانے کی)اجازت ہی کیوں دی تاکہ (تم ایسا نہ کرتے تو) سچ بولنے والے (الگ )ظاہر ہوجاتے اور تم جھوٹوں کو (الگ) معلوم کرلیتے۔ (اے رسول ) جو لوگ (دل سے) خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جھاد (نہ) کرنے کی اجازت مانگنے کے نہیں (بلکہ وہ خود جائیں گے)
اور خدا پرھیزگاروں سے خوب واقف ہے (پیچھے رہ جانے کی) اجازت تو بس وھی لوگ مانگیں گے جو خدا او رروز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل (طرح طرح کے) شک کررھے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواںڈول ہورھے ہیں (کہ کیاکریں او رکیا نہ کریں)اور اگر یہ لوگ (گھر سے) نکلنے کی ٹھان لیتے تو (کچھ نہ کچھ) سامان تو کرتے مگر (بات یہ ہے ) خد ا نے ان کے ساتھ بھیجنے کو ناپسند کیا تو ان کو کاھل بنادیا اور (گویا) ان سے کہہ دیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے (مکھی) مارتے) رهو۔“
جواب:
قارئین کرام ! ان آیات میں غور وفکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کلمہ ”عفا الله عنک“ میں گناہ شرعی نہیں ہے یعنی حکم خدا کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان آیات میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ آپ جنگ میں شرکت نہ کرنے والوں کے جھوٹ وسچ کو کن طریقوں سے پہچانےں تاکہ آپ کو اپنے اصحاب میں صادقین وکاذبین کی شناخت ہوجائے، کیونکہ اگر آپ ان لوگوں کی تاخیر میں اجازت نہ دیتے تو جھوٹے اور سچوں کی پہچان ہوجاتی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ان لوگوں کو جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دیدی جو یہ کہہ رھے تھے کہ ہم جنگ میں جانے سے معذور ہیں لہٰذا ان کی سچائی کا ثبوت نہ مل سکا کیونکہ ان میں سے بعض لوگ سچے تھے اور بعض لوگ صرف بھانہ کررھے تھے لیکن ان کے درمیان کوئی پہچان نہ ہوسکی۔
چوتھی آیت:
(
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَهَدیٰ
)
اور چونکہ ضلال عصمت کے مخالف ہے اور گمان کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا کہ جس میں ضلالت وگمراھی پائی جائے گی وہ ذات معصوم نہیں ہوسکتی۔
جواب:
حقیقت یہ ہے کہ ضلال کے معنی ذھاب اور انصراف کے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپھلے یہ نہیں جانتے تھے کہ کس طرح خدا کی عبادت کی جائے اور اپنے واجبات کی ادائیگی کرکے کس طرح تقرب الٰھی حاصل کیا جائے تو اس وقت تک خاص معنی میں عبادت نہیں کرتے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم نے آپ کی ہدایت کی اور رسالت اسلام سے سرفراز کیا اور مذکورہ آیت انھیں آیات میں سے ہے جن میں خداوندعالم نے اپنے نبی پر نازل کردہ نعمتوں کو شمار کیا اور اپنی خاص عنایات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے شامل حال رکھیں۔
ارشاد ہوتا ہے:
(
اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَآویٰ وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَهَدیٰ وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی
)
”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر (ابوطالب) کی پناہ نہیں دی (ضرور دی) او رتم کواحکام سے ناواقف پایا تو تمھیں منزل مقصود تک پهونچادیا او رتم کو تنگدست پاکر غنی کردیا“
چنانچہ یہ آیات واضح طور پر ہمارے مطلوب ومقصور پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ خداوندعالم نے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یتیم پایا تو آپ کو پناہ دی اور پرورش کی اور جب آپ کو تنگدست پایا تو آپ کو غنی کردیا اس کے بعد جب خاص معنی میں عبادت کا طریقہ نہیں آتا تھاتو خداوندعالم نے عبادت خاص کی طرف ہدایت کی۔
پانچویں آیت:
(
وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ
)
”اور تم سے وہ بوجھ اتاردیا“
جبکہ عرف عام میں”وزر“ کے معنی گناہ کے ہیں۔
جواب:
حقیقت یہ ہے کہ لغت میں ”وزر“ کے معنی ثقل (بوجھ) کے ہیں اور گناهوں کو اسی وجہ سے ”وزر“ کھا جاتا ہے کیونکہ گناهوں کا انجام دینے والا سنگین ہوجاتا ہے، چنانچہ اس بناپر ہر وہ چیز جو انسان کو بوجھل کردے تو اس کو ”وزر“ کھا جاتا ہے حقیقی ثقل سے شباہت کی وجہ ہے جیسا کہ یہ ذنب سے بھی مشابہ ہے اور ذنب کو بھی ”وزر“کھا جاتا ہے۔
لیکن وہ چیز جو رسول اسلام کو سنگین اور بوجھل کرتی تھی،وہ آپ کی قوم کا شرک وکفر اور آپ کی رسالت کا انکار نیز آپ کی دعوت کو قبول نہ کرنا تھا لیکن جس دین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلملے کر نازل ہوئے آپ اس کی مسلسل دعوت دیتے رھے جبکہ آپ دشمنوں کے مقابلہ میں کمزور اور ضعیف تھے او رنہ ہی آپ کے ساتھ بہت زیادہ افراد تھے جو اذیت اور شرارت کے وقت ان کا مقابلہ کرتے۔
اور یھی معنی ہیں ”وزر“ کے یعنی ایسی سنگینی جس کے غم والم کی وجہ سے آپ کی کمر ٹوٹی ہوئی تھی،اور شاید اسی معنی میں آیات کاا دامہ بہترین شاہد ہو کہ ارشاد ہوتا ہے:
(
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً
)
کیونکہ رفع ذکر اور مشکلات کے بعد آسانیوں کا تذکرہ اس صورت میں صحیح ہے جب وزرسے مراد رسول اسلام کی وہ سنگینی مراد لی جائے جو آپ کی قوم میں ہدایت اور اسلام سے بے توجھی کی وجہ سے آپ کے دل میں موجود تھی۔
قارئین کرام ! یہ تھی نبوت بمعنی عام کی گفتگو جو ہدایت بشر اور بہترین نظام زندگی کو سازوسامان بخشنے والی ہے اور یہ تھی بحث ”خاتم النبین“ (ص) کی جو تمام لوگوں کے رسول بناکر بھیجے گئے جو ”شاہد بھی ہیں اور مبشر ونذیر بھی جو خدا کے حکم سے خدا کی طرف دعوت دینے والے سراج منیر بھی ہیں۔ آپ کی ذات گرامی، وہ ہے جن کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهویٰ اِنْ هو الِاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی
)
” وہ تو اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو بس وحی ہے جو بولی جاتی ہے“
آخر کلام میں اس گفتگو کا اختتام اس طرح کرتے ہیں:
(
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِیْنَ
)
و(
اَلْحَمُدْ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدَانَا لِهٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَو لَا اَنْ هَدَانَا اللّٰهُ
)
”اے ہمارے پالنے والے جو کچھ تو نے نازل کیا ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے تیرے رسول (عیسیٰ (ع)) کی پیروی اختیار کی“ ”شکر ہے اس خدا کا حس نے ہمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ہمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ہم کسی طرح یھاں تک نہیں پهونچ سکتے تھے“۔
____________________