‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 103391
ڈاؤنلوڈ: 3594


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103391 / ڈاؤنلوڈ: 3594
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

پیغمبر انسانوں کی اس سفر میں مدد دیتے ہیں، ان کی راہنمائی کرتے ہیں_ اگر ہم پیغمبروں کے کلام اور ان کی راہنمائی کی اطاعت کریں تو آخرت کے سفر کے راستے کو سلامتی اور کامیابی سے طے کرلیں گے اور اپنے مقصد تک پہونچ جائیں گے''_

اس کے سننے کے بعد دوبارہ میرے دل میں وہ خطرہ یاد آیا جو مجھے راستے میں پیش آیا تھا داؤدی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے کہ کہ یہ سفر ہم نے اس راہنما کی راہنمائی اور مدد سے سلامتی کے ساتھ طے کیا ہے اور ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے ہیں_ جناب داؤدی نے ہماری طرح اپنے اوپر کمبل اوڑھ رکھا تھا میری طرف شکریہ کی نگاہ کی اور کہا کہ

''یقینا ہم مقصد تک پہنچ جائیں گے بشرطیکہ ہم پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کریں اور آخرت کے سفر کے لوازمات اور اسباب مہیا کریں''_

اس کے بعد ایک نگاہ لڑکوں پر ڈالی اور پوچھا: ''لڑکو کیا جانتے ہو کہ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے زاد راہ اور توشہ کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

''پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ آخرت کے سفر کا زاد راہ ایمان و تقوی اور عمل ہے، ہر انسان کی سعادت اس کے عمل اور رفتار سے وابستہ ہے، انسان جو بھی اس دنیا میں بوئے گا اسے آخرت میں کائے گا اگر اس دنیا میں خوبی کرے گا تو آخرت میں خوبی دیکھے گا اور بدی کرے گا تو آخرت میں بدی دیکھے گا_

ہر ایک انسان کا سعادتمند ہونا یا شقی ہونا، بلند و بالا یا پست و ذلیل ہونا اس کے کاموں اور اعمال سے وابستہ ہے، جو انسان پیغمبروں کی راہنمائی پر عمل کرتا ہے آخرت کے سفر کو سلامتی کے

۱۰۱

ساتھ طے کرے گا اور بلندترین مقام و سعادت کو پالے گا''_

جناب داؤدی کی گفتگو یہاں تک پہنچی تو انھوں نے اپنی نگاہ ستاروں سے پر آسمان کی طرف اٹھائی اور کافی دیر تک چپ چاپ آسمان کی طرف دیکھتے رہے تھوڑی دیر بعد لمبی سانس لی اور کہا:

''لڑکو تم تھک گئے ہو ہوجاؤ میں اور تمھارے باپ باری باری جاگتے اور پہرہ دیتے ہیں گے، تم میں سے جو بھی چاہے باری باری پہرہ دے سکتا ہے_ اللہ کی یاد کے ساتھ ہوجاؤ اور صبح جلدی بیدار ہوجانا کہ کل ایک بہت عمدہ پروگرام سامنے ہے''_

۱۰۲

سوالات

غور سے مندرجہ ذیل سوالات کو پڑھو، بحث کرو اور یاد کرلو

۱) ___ باقر نے یہ کیوں کہا کہ کوہ پیمائی کے لئے ایک راہنما انتخاب کرو، آخر کون سی مشکلات کا سامنا تھا؟

۲)___ کس نے کہا تھا کہ راہنما کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے اپنے اس مطلب کے لئے کیا دلیل دی تھی؟ اس کی دلیل درست تھی؟ اور اس میں کیا نقص تھا؟

۳)___ باقر نے اسے کس طرح سمجھایا کہ راہنما کی ضرورت ہے اسے اس مطلب کے سمجھانے کے لئے کون سے سوالات کئے؟

۴)___ کیا اس نے باقر کی گفتگو کے بعد راہنما کی ضرورت کو قبول کرلیا تھا؟ واقعا اس نے کس وقت اسے قبول کیا تھا؟ خود اسی درس سے اس کی دلیل بیان کرو_

۵)___ کس نے لڑکوں کی راہنمائی اور راہبری کو قبول کیا؟ اس نے چلنے کے لئے کون سے دستورات دیئے؟ کون سے وسائل کا ذکر کیا کہ انھیں ساتھ لے آئیں اس نے خود اپنے ساتھ کن چیزوں کے لے آنے کا وعدہ کیا تھا؟

۶)___ جب صبح کی نماز پڑھ چکے اور پہاڑ پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے تو راہنما نے کون سے دستورات کی یادآوری کی؟ وہ کون سے دستور تھے؟ تمھاری نگاہ میں اس دستورات میں سے کس کو اہمیت دی گئی تھی؟

۷)___ جب کبھی راستہ سخت اور دشوار آجاتا تو راہنما لڑکوں کو کیا ہدایت دیتا؟

۸)___ ہادی نے کیسے قبول کرلیا کہ راہنما اور راہبر کا وجود ضروری اور لازمی ہوتا ہے؟

۱۰۳

۹)___ جناب داؤدی کی نگاہ میں مہم ترین اور پر اسرارترین سفر کون سا تھا؟

۱۰)___ جناب داؤدی نے اس مہم اور اسرار آمیز سفر کے بارے میں لڑکوں سے کون سے سوالات کئے تھے؟

۱۱)___ باقر کے باپ نے جناب داؤدی کے سوالات کا کیا جواب دیا تھا؟ پیغمبر جو آخرت کے سفر کے راہنما ہیں کون سی ذمہ داری ان کے ذمّے ہوا کرتی ہے؟ کس صورت میں ہم سلامتی اور کامیابی کے ساتھ مقصد تک پہنچ سکتے ہیں؟

۱۲)___ پیغمبروں نے آخرت کے سفر کے لئے کون سا توشہ اور زادہ راہ بیان کیا ہے ہر انسان کا بلند مقام یا پست مقام پر جانے کو کس سے مربوط جانا ہے؟

۱۳)___ جب تمام لڑکے سوگئے تو جناب داؤدی نے رہبری کا کون سا وظیفہ انجام دیا؟

۱۴)___ کیا بتلا سکتے ہو کہ لڑکوں کے کل کا بہترین پروگرام کیا تھا؟

۱۰۴

پیغمبر یا آخرت کے سفر کے راہنما

انسان کی روح اور جان بہت سے مخفی راز رکھتی ہے_ کیا انسان اپنی روح و جان کے رموز سے پوری طرح واقف ہے؟ انسان کے سامنے بہت زیادہ ایسے سفر کہ جو اسرار آمیز ہیں موجود ہیں_ کیا انسان ایسے سفروں اور زندگی سے پوری اطلاع رکھتا ہے؟ کیا آخرت کے زاد راہ سے جو ضروری ہیں آگاہ ہے؟ کیا انسان، ارتقاء اور سعادت تک پہونچنے کے راستوں کو پہچانتا ہے؟ کیا راستوں کی دشواریوں اور ایسے موڑوں سے کہ جن سے انسان گرسکتا ہے خبردار ہے؟

ان سوالوں کا جواب کون سے افراد دے سکتے ہیں؟ کون سے حضرات سیدھے راستے اور کج راستے واقف ہیں؟ کون سے حضرات انسان کا راستہ بتلا سکتے ہیں ؟ کون سے حضرات انسانوں کو ان راستوں کی راہنمائی اور مدد دے سکتے ہیں؟ خدا کے فرستادہ پیغمبر ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں پس انسان ہمیشہ پیغمبروں اور راہنماؤں کے وجود کا محتاج رہا ہے اور رہے گا_

خداوند عالم کہ جس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ان کی ضروریات کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اور انھیں ارتقاء کی راہ تک پہونچا دیا ہے_ انسان کو یعنی موجودات عالم میں سے

۱۰۵

کامل ترین اور اہم ترین موجود کو زندگی کے پر خطر آخرت کے سفر کے لئے رہبر اور راہنما کے بغیر نہیں چھوڑا بلکہ اسے ا رتقاء و ہدایت اور تمام قسم کی مدد کے لئے راہنما چنا اور انھیں مبعوث کیا ہے صرف ذات الہی ہے کہ جو انسان کے جسم اور روح کے رموز اور اسرار اور اس کے گذشتہ اور آئندہ سے آگاہ ہے اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی سے پوری طرح واقف ہے_

کون اللہ تعالی سے زیادہ اور بہتر انسان کی خلقت کے رموز سے آگاہ ہے؟ کون سی ذات سوائے اللہ کے انسان کی سعادت اور ارتقاء کا آئین اس کے اختیار میں دے سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ جس خدائے مہربان نے انسان کو پیدا کیا ہے اسے اس قسم کے دشوار راستے کے طے کرنے کے لئے بغیر رہبر، آئین اور راہنما کے چھوڑ دیا ہو؟ نہیں اور ہرگز نہیں اللہ تعالی نے انسان کو اس مشکل اور پیچیدہ سفر کے طے کرنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑ رکھا بلکہ اس کے لئے راہنما اور راہبر بھیجا ہے_

پیغمبروں کو اللہ تعالی نے انسانوں میں سے چنا ہے اور ضروری علوم انھیں بتایا ہے تا کہ وہ لوگوں کی مدد کریں اور انھیں ارتقاء کی منزلوں تک پہونچنے کے لئے ہدایات فرمائیں_ پیغمبر صحیح راستے اور غیر صحیح راستے کو پہچانتے ہیں اور وہ ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا کرتے ہیں، اللہ تعالی کا پیغام لیتے ہیں اور اسے بغیر زیادتی و کمی کے لوگوں تک پہونچاتے ہیں پیغمبر چنے ہوئے لائق انسان ہوتے ہیں کہ دین کا آئین انھیں دیا جاتا ہے اور اپنی گفتار و کردار سے لوگوں کے لئے نمونہ ہوا کرتے ہیں_ جب سے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس نے اس کرہ ارض پر زندگی شروع کی ہے تب سے ہمیشہ اس کے لئے پیغمبر موجود رہے ہیں_

پیغمبر لوگوں کی طرح ہوتے تھے اور انھیں جیسی زندگی بسر کرتے تھے اور لوگوں

۱۰۶

کو دین سے مطلع کرتے تھے، لوگوں کے اخلاق و ایمان اور فکر کی پرورش اور رشد کے لئے کوشش کرتے تھے، لوگوں کو خدا اور آخرت کی طرف جو ہمیشہ رہنے والا ہے متوجہ کرتے تھے_

خداپرستی، خیرخواہی، خوبی اور پاکیزگی کی طرف ان کی روح میں جذبہ اجاگر کرتے تھے، شرک و کفر اور مادہ پرستی سے مقابلہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ ظلم و تجاوزگری سے جنگ کرتے تھے، پیغمبر لوگوں کو اچھے اخلاق اورنیک کاموں کی طرف دعوت دیتے تھے اور برے اخلاق ، پلید و ناپسندیدہ کردار سے روکتے تھے، سعی و کوشش، پیغمبروں اور ان کے ماننے والوں کی راہنمائی سے بشر کے لئے ارتقاء کی منزل تک پہونچنا ممکن ہوا ہے_

سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ہیں اور دو کے درمیان بہت سے پیغمبر آئے ہیں کہ جن کو پیغمبر اسلام(ص) نے ایک حدیث کی روسے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بتلایا ہے_ پیغمبر قبیلوں، دیہاتوں، شہروں او رملکوں میں بھیجے جاتے تھے اور وہ لوگوں کی راہنمائی، تعلیم و تربیت میں مشغول رہتے تھے_

کبھی ایک زمانہ میں کئی ایک پیغمبر مختلف مراکز میں تبلیغ کرتے تھے، پیغمبروں کی رسالت اور ذمہ داری کا دائرہ ایک جیسا نہیں ہوا کرتا تھا بعض پیغمبر صرف قبیلہ یا دیہات یا ایک شہر یا کئی شہروں اور دیہاتوں کے لئے مبعوث ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض کی ماموریت کا دائرہ وسیع ہوتا یہاں تک کہ بعض کے لئے عالمی ماموریت ہوا کرتی تھی_

پیغمبروں کا ایک گروہ کتاب آسمانی رکھتا تھا لیکن بہت سے پیغمبر آسمانی کتب نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے، آسمانی تمام

۱۰۷

کی تمام کتابیں اب موجود نہیں رہیں ایک سو چار آسمانی کتابیں تھیں_ بعض پیغمبر صاحب شریعت ہوا کرتے تھے لیکن بعض دوسرے پیغمبر شریعت نہیں لائے تھے بلکہ دوسرے پیغمبروں کی شریعت کی ترویج کیا کرتے تھے_

حضرت نوح (ع) ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی (ع) و حضرت عیسی (ع) اور حضرت محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم ممتاز و بزرگ پیغمبروں میں سے تھے ان پانچ پیغمبروں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے کہ ان میں ہر ایک صاحب شریعت تھا_

ہم مسلمان اللہ تعالی کے تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور سبھی کو اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغمبر مانتے ہیں، ان کی محنت اور کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہیں_ ہمارا وظیفہ ہے کہ حضرت موسی (ع) اور حضرت عیسی (ع) کے پیروکاروں کو کہ جنھیں یہودی اور عیسائی کہا جاتا ہے اور زردشتیوں سے بھی نیکی اور مہربانی سے پیش آئیں اور اسلام کی روسے جوان کے اجتماعی حقق ہیں ان کا احترام کریں_

۱۰۸

سوالات

فکر کیجئے، بحث کیجئے اور صحیح جواب تلاش کیجئے

۱)___ انسانوں کا پیغمبروں اور راہنماؤں کے محتاج ہونے کی علت کیا ہے؟

۲)___ انسانوں کے رہبر اور راہنما انسان کی پر خطر زندگی اور آخرت کے سفر کے لئے کون سے حضرات ہونے چائیں؟

۳)___کون زیادہ اور بہتر طور پر انسان کی خلقت کے راز سے آگاہ ہے اور کیوں؟

۴)___ پیغمبروں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ضروری معلومات کو پیغمبروں کے لئے کون فراہم کرتا ہے اور پیغمبروں کی ذمہ داریوں کون معین کرتا ہے؟

۵)___ کون سے ہدف کے لئے پیغمبروں کی دعوت اور کوشش ہوا کرتی تھی،

۶)___ پیغمبر اسلام(ص) نے پیغمبروں کی تعداد کتنی بتلائی ہے، آسمانی کتابوں کی تعداد کتنی ہے؟

۷)___ کیا پیغمبروں کی ماموریت کا دائر اور حدود ایک جیسے تھے اور کس طرح تھے؟

۸)___ اولوالعزم پیغمبر کون تھے، ان کی خصوصیت کیا تھی؟

۹)___ دوسرے پیغمبروں کے پیروکاروں کے متعلق ہمارا وظیفہ کیا ہے؟

۱۰)___ ہم مسلمانوں کا دوسرے پیغمبروں کے متعلق کیا عقیدہ ہے، ہم کیوں ان کا احترام کرتے ہیں؟

۱۰۹

پیغمبروں کی انسان کو ضرورت

انسان کا ہر فرد اس دنیا میں راستے کو ڈھونڈتا اور سعادت مندی طلب کرتا ہے پیاسا پانی کی طلب میں ادھر ادھر دوڑتا ہے کبھی ایک خوبصورت چمک کہ جو میدان میں نظر آتی ہے پانی سمجھ کر اس کی طرف جلدی سے دوڑتا ہے لیکن جب اس کے نزدیک پہونچتا ہے تو پانی نہیں پاتا اور اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑتا رہا تھا_

ایک مہم نکتہ یہ ہے کہ انسان کی اس دنیا وی زندگی کے علاوہ ایک اور زندگی بھی ہے، آج کے دن کے علاوہ ایک اور دن بھی آنے والا ہے، انسان اس جہاں کے علاوہ ایک اور ابدی دنیا (آخرت) میں بھی جانے والا ہے اور اس جہاں میں ہمیشہ کے لئے زندگی بسر کرے گا، کل آخرت میں اس دنیاوی جہان میں جو بویا ہوگا کاٹے گا_ انسان آخرت میں یا سعادت مند اور نجات پانے والا ہوگا یا شقی و بدبخت ہوگا_ انسان کے آخرت میں سعادت و شقاوت کا سرچشمہ اس دنیا کے اعمال ہیں اور یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے_

آج کون سا بیج بویا جائے تا کہ کل اس کا اچھا محصول حاصل کیا جائے؟ کون سا عمل انجام دیا جائے تا کہ آخرت میں سعادت مند ہوجائے؟ کس راستہ پر چلا جائے تا کہ آخرت میں اللہ تعالی کی عمدہ نعمتوں تک رسائی حاصل ہوسکے؟ کون سے برنامہ پر عمل کرے؟ کس طرح صحیح راستے کو غلط راستے سے پہچانے؟ کون راہنما ہو؟

انسان کا عمل اور کردار سعادت و کمال یا شقاوت و بدبختی کا موجب ہوا کرتا ہے

۱۱۰

لہذا انسان اپنے اعمال اور زندگی کے لئے ایک دقیق و جامع پروگرام کا محتاج ہے، ایسا پروگرام کہ جس میں انسان کی دنیاوی مصالح اور اخروی مصالح کی رعایت کی گئی ہو جس میں انسان کے جسم کا بھی لحاظ کیا گیا ہو اور اس کی روح و جان کا بھی لحاظ کیا گیا ہو_ زندگی کے اصول کو ایسا بنایا گیا ہو کہ اس کی زندگی اور آخرت پر اس کی روح کے لئے اس طرح پروگرام مرتب کیا گیا ہو کہ اسے حقیقی ارتقاء اور سعادت کے راستے پر ڈال دے تا کہ امن و قرب اور رضوان کی منزل تک فائز ہوسکے_

چند ایک سوال

کیا انسان اپنی عقل اور تدبیر سے اس قسم کا دقیق اور کامل آئین اپنے لئے منظم کرسکتا ہے؟ کیا وہ اپنی نفسانی اور آخرت کی ضروریات سے پوری طرح آگاہ ہے؟ کیا وہ اپنی اور جہان کی خلقت کے اسرار و رموز سے مطلع ہے؟ کیا انسان، روح کا جسم ہے کس طرح کا ارتباط ہے اور دنیاوی زندگی کس طرح اخروی زندگی سے مربوط ہے، سے مطلع ہے؟ کیا انسان تشخیص دے سکتا ہے کہ کون سے امور موجب ہلاکت و سقوط اور کون سے امور انسان کے نفس کو تاریک، سیاہ و آلودہ اور کثیف کردیتے ہیں؟ کیا انسان تنہا سعادت کے راستے کو غیر سعادت کے راستے سے تمیز دے سکتا ہے؟ ایسا نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں کرسکتا اور اس قسم کی وسیع اطلاع نہیں رکھتا_

انسان اپنی کوتاہ عمر اور محدود فکر کے ذریعہ اپنی اخروی اور نفسانی سعادت اور ارتقاء کا آئین منظم نہیں کرسکتا_ پس کون شخص ایسا کرسکتا ہے؟

۱۱۱

سوائے ذات خدا کے ایسا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ ذات ہے کہ جس نے انسان اور تمام جہان کو پیدا کیا ہے اور اس کے اسرار و رموز سے پوری طرح آشنا و آگاہ ہے اور سعادت و شقاوت کے اسباب وعوامل کو اچھی طرح جانتا ہے_ وہ ذات ہے جو انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو منظم و مدوّن کرسکتی ہے اپنے بہترین بندوں کو اس قسم کا برنامہ دے کر انسانوں تک پہونچاتی ہے تا کہ انسان خدا کے نزدیک کوئی عذر نہ پیش کرسکے_

زندگی کے آئین اور اصول کا نام دین ہے کہ جسے خدا پیغمبروں کے ذریعے جو راہنما اور راہ شناس ہیں انسانوں تک پہونچاتا ہے، پیغمبر ممتاز اور برگزیدہ انسان ہوتے ہیں کہ جو اللہ تعالی سے خاص ربط رکھتے ہیں، انسان کو جاودانی زندگی دینے والا آئین خدا سے لیتے ہیں اور انسانوں تک اسے پہونچاتے ہیں_ پیغمبر انسان کی اس فطرت کو کہ جس میں جستجوئے خدا اور خدا دوستی موجود ہے کون اجاگر کرتے ہیں اور اس کے راستے کی نشاندہی کرتے ہیں اور س تک پہونچنے کے راستے کو طے کرنے میں مدد دیتے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق و خدا کو بہتر پہچانے اور اس سے آشنا ہو_ اچھے اور برے اخلاق کی شناخت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، تذکیہ نفوس، دین کے حیات بخش قوانین کے اجراء اور معاشرہ کی دیکھ بھال میں کوشش کرتے ہیں، انھیں کامل عزت اور عظمت تک پہونچاتے ہیں_

ان انسانوں کو خوشخبری ہو جو پیغمبروں کے نقش قدم پر چلتے اور اپنی دنیا کو آزادی سے سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی کمال سعادت و خوشنودی اور اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں اور پیغمبروں کے جوار میں با عزت سکونت اختیار کرتے ہیں_

قرآن کی آیت:

انا ارسلناک بالحق بشیرا و نذیراً و ان من امّة الّا خلافیها نذیر

۱۱۲

''ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذرا ہو''_(۱)

____________________

سورہ فاطر آیت نمبر ۲۴

۱۱۳

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ اس دنیا کے اعمال کا نتیجہ آخرت میں کس طرح ملے گا؟

۲)___ آخرت میں انسان کی دو حالتیں ہوں گی وہ دو حالتیں کیا ہیں؟

۳)___ انسان کی زندگی کے آئین میں کن چیزوں کا لحاظ کیا جانا چاہیئے؟

۴)___ کیا انسان اپنی زندگی کے لئے ایک جامع اور کامل قانون خود بنا سکتا ہے؟

۵)___ انسان کی سعادت اور ارتقاء کے آئین کو کون منظم کرتا ہے اور اسے کس کے ذریعہ پہونچاتا ہے؟

۶)___ خدا کے پیغمبر پر انسان کی ہدایت کے لئے کون سی ذمہ داری ہے؟

۷)___ دین کیا چیز ہے، دین کا فائدہ انسان کی دنیا اور آخرت میں کیا ہوتا ہے؟

۱۱۴

پیغمبری میں عصمت ، شرط ہے

خداوند عالم نے پیغمبروں کو چنا ہے اور انھیں بھیجا ہے تا کہ وہ ان قوانین کو لوگوں تک پہونچائیں جو دینی زندگی کا موجب ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی سرپرستی و راہنمائی کریں، ارتقاء کے سیدھے راستے اور اللہ تعالی تک پہونچنے کے لئے جو صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے، لوگوں کو بتلائیں، ان کی ہدایت کریں اور انھیں مقصد تک پہونچائیں، سعادت آور آسمانی آئین پر عمل کرنے اور دنیوی و اخروی راہ کو طے کرنے میں قول و فعل سے لوگوں کی مدد کریں، اللہ تعالیی کے قوانی کو جاری کر کے ایک اجتماعی نظام وجود میں لائیں اور اس کے ذریعہ انسانی کمالات کی پرورش کریں اور رشد کے لئے زمین ہموار کریں_

پیغمبروں کی ذمہ داریوں کو تین حصول میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱)___ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کریں_

۲)___ اللہ تعالی سے حاصل شدہ قوانین اور آئین کو بغیر کسی اضافہ و کمی کے لوگوں تک پہونچائیں_

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۵

سوالات

اس کے بعد اب ان سوالات میں خوب غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی انسان کو پیغام الہی کے لینے کے لئے معین کرے اور وہ اس میں خطا کا مرتکب ہو؟ خطا کرنے والا انسان کسی طرح اللہ تعالی کے واضح پیغام کو بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پوری طرح لوگوں تک پہونچا سکتا ہے؟

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے چنے اور وہ اللہ تعالی کے پیغام پہونچانے میں خطا مرتکب ہوجائے؟ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم کسی کو پیغمبری کے لئے انتخاب کرے اور وہ آسمانی آئین و احکام میں تحریف کردے؟ کیا اس صورت میں اللہ تعالی کی غرض پیغمبر کے بھیجنے میں حاصل ہوجائے گی؟ کیا اللہ کا دین اور پیغام لوگوں تک صحیح پہونچ جائے گا؟

۳)___ ان قوانین اور الہی آئین کو عملی جامہ پہنانے میں لوگوں کی قولی اور عملی مدد کریں_

۱۱۶

ہرگز نہیں خداوند عالم ایسے افراد کو جو غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں پیغام الہی کے لینے اور لوگوں تک پہونچانے کے لئے ہرگز انتخاب نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہونچائے اور حق قبول کرنے والے لوگوں کو مقصد تک پہونچائے اس غرض کے حصول کے لئے اللہ تعالی ایسے افراد کا انتخاب کرے گا جو معصوم ہوں یعنی:

۱)___ قوانین اور دین الہی کے لینے میں غلطی نہ کریں_

۲)___ اللہ تعالی کے قوانین اور آئین کو لوگوں تک بغیر کسی اضافہ اور کمی کے پہونچائیں اور کسی قسم کی خطا و تحریف اور نافرمانی کو جائز نہ سمجھیں_

۳)___ دین کے واضح احکام پر عملکرانے میں لوگوں کی عملی و قولی مدد کریں اور خود پورے طور پر اس پر عمل کریں اور لوگوں کو اس پر عمل کرائیں _

خداوند عالم کے پیغمبر قوی اور ملکوتی ارادے کے مالک اور روحانی بصیرت رکھن والے افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی کے کامل پیغام پر ایمان رکھتے ہیں، وفادار ہوتے ہیں اور جو کچھ پہونچاتے اور کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں ایسے افراد اپنی بصیرت اور ہنرمندی کے لحاظ سے تمام انسانوں کے لئے کامل نمونہ ہوتے ہیں لوگ ان کی رفتار و گفتار کی پیروی کرتے ہیں_

''عصمت'' یعنی وہ عظیم طاقت وبصارت جو پیغمبر کے وجود سے مختص ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے دی ہوئی ذمہ داری کے بجالانے میں اس کی مدد کرتی ہے اورانھیں خطا سے محفوظ رکھتی ہے_

قرآن کی آیت:

( و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله ) (نساء آیہ ۴۳)

'' ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ لوگ اس کی حکم الہی سے اطاعت کریں''

۱۱۷

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبروں کی وہ ذمہ داری جو تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے اسے بیان کیجئے_

۲)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے انسان کو اپنے پیغام لینے کے لئے انتخاب کرے جو خطا کا مرتکب ہوسکے، کیوں؟ وضاحت کیجئے _

۳)___ کیا ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے کو پیغمبری کے لئے چنے کہ جو اللہ تعالی کے پیغام کو ناقص اور تحریف شدہ لوگوں تک پہونچائے، کیوں؟ وضاحت کیجئے

۴)___ کیا ممکن ہے خداوند عالم ایسے شخص کو پیغمبری کے لئے منتخب کرے کہ جو اللہ تعالی کے احکام اور دستور پر عمل کرانے میں غلطی کرے ، کیوں؟ وضاحت کیجئے_

۵)___ خداوند عالم جسے پیغمبری کے لئے منتخب کرتا ہے وہ معصوم ہوتا ہے، معصوم کی تین صفات کو بیان کیجئے_

۶)___ عصمت سے کیا مراد ہے؟

۷)___ پیغمبر کن لوگوں کو حقیقی سعادت اور مقصد تک پہونچاتے ہیں؟

۸)___ معاشرہ میں فضائل انسانی کس طرح رشد اور پرورش پاسکتے ہیں؟

۱۱۸

پیغمبروں کا ایک برنامہ اور پروگرام اللہ تعالی پر ایمان کا لانا ہے

پیغمبر اسلام(ص) نے صبح کی نماز مسجد میں پڑھی نماز کے بعد لوگوں کی طرف منھ کیا تا کہ ان کی احوال پرسی کریں اور ان کے حالات کو جانیں لوگوں کی صف میں ایک نوجوان کو آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد، بدن لاغر اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں نمازیوں کی صف میں بیٹھا ہوا تھا اور کبھی بے اختیار اپنی پلکوں کو بند کرتا اور اونگھ رہا تھا ایسا ظاہر کر رہا تھا کہ گویا ساری رات نہیں سویا اور عبادت و نماز میں مشغول رہا ہے_ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے آواز دی اور پوچھا کہ ''تو نے صبح کیسے کی؟ '' جواب دیا: ''یا رسول اللہ (ص) یقین اور خدائے وحدہ پر ایمان کی حالت میں''

''ہر ایک چیز کی کوئی نہ کوئی علامت اور نشانی ہوا کرتی ہے تیرے ایمان اور یقین کی کیا علامت ہے؟ '' یا رسول اللہ (ص) ایمان اور یقین آخرت کے عذاب سے خوف و ہراس کا موجب ہوا ہے، خوراک اور خواب کو کم کردیا ہے دنیاوی امور میں بے رغبت ہوگیا ہوں گویا اپنی آنکھوں سے قیامت برپا ہونے کو دیکھ رہا ہوں اوردیکھ رہا ہوں کہ لوگ حساب و کتاب کے لئے محشور ہوگئے ہیں اور میں بھی ان میں موجود ہوں گویا بہشت والوں کو بہشتی نعمتوں سے بہرہ مند ہوتا

۱۱۹

دیکھ رہا ہوں کہ بہشتی بہترین مسند پر بیٹھے شرین گفتگ میں مشغول ہیں_

یا رسول اللہ (ص) جہنمیوں کو دیکھ رہا ہوں کہ عذاب میں گریہ و نالہ اور استغاثہ کر رہے ہیں گویا ابھی دوزخ کی آگ اور عذاب کی آواز سن رہا ہوں''

پیغمبر اسلام (ص) نے اصحاب کی طرف جو حیرت سے اس جوان کی گفتگو سن رہے تھے متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:

'' یہ جوان ایسا اللہ کا بندہ ہے کہ خداوند عالم نے ایمان کے وسیلہ سے اس کے دل کو روشن اور نورانی کردیا ہے''

آپ نے اس کے بعد اس جوان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ''اے جوان تو نے بہت عمدہ حالت پیدا کی ہوئی ہے اور اس حالت کو ہاتھ سے نہ جانے دینا''_

یا رسول اللہ (ص) شہادت کی تمنا اور آرزو رکھتا ہوں دعا کیجیئے کہ راہ خدا میں شہید ہوجاؤں''_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس کے لئے شہادت کی دعا کی تھوڑی مدت گذری تھی کہ ایک جنگ واقع ہوئی اس جوان نے مشتاقانہ طور سے فوجی لباس پہنا، اسلام کے پاسداروں اور جہاد کرنے والوں کے ساتھ اس جنگ کی طرف روانہ ہوگیا، بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر حملہ آور ہوا اور شمشیر سے پے در پے دشمن پر حملہ کرنے لگا اور بالآخر اپنی قدیم امید تک پہونچا اور میدان جنگ میں راہ خدا میں شہید ہوگیا_

خداوند عالم اور فرشتوں کا درود و سلام ہو اس پر، تمام شہیدوں اور غیور اسلام پہ قران ہونے والوں پر_

تمام پیغمبروں کو امر کیاگیا ہے کہ انسانوں کو اللہ تعالی پر ایمان لے آنے کی دعوت دیں، یقین کے درجہ تک پہونچائیں، واضح و روشن خدائی پیغام اور سعادت بخش آئین کو ان کے اختیار میں قرار دیں اور اللہ تعالی کے تقرّب کے راستے

۱۲۰