‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد ۳

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) 0%

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 302

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

مؤلف: ‏آيت اللہ ابراهیم امینی
زمرہ جات:

صفحے: 302
مشاہدے: 103392
ڈاؤنلوڈ: 3594


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 302 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 103392 / ڈاؤنلوڈ: 3594
سائز سائز سائز
‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم)

‏تعلیم دین ساده زبان میں(جلدسوم) جلد 3

مؤلف:
اردو

کی خوشخبری لایا ہوں_

اے میرے معزز رشتے دارو تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو اگر میں تمھیں بتاؤں کہ دشمن اس پہاڑ کے پیچھے بیٹھا ہے اور تم پر حملہ کرناچاہتا ہے تو کیا میری اس بات کا یقین کر لو گے؟ کیا دفاع کے لئے تیار ہوجاؤ گے؟ ''

تمام حاضرین نے کہا کہ:

'' ہاں اے محمد(ص) ہم نے تمھیں سچّا اور صحیح آدمی پایا ہے''_

'' میں تمھاری بھلائی و سعادت کو چاہتا ہوں، کبھی تم سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ خیانت کرتا ہوں_ لوگو تم اس دنیا میں بے کار خوق نہیں کئے گئے ہو اور موت، زندگی کی انتہاء نہیں ہے تم اس جہان سے آخرت کے جہان کی طرف منتقل ہوگے تا کہ اپنے اعمال کی جزاء دیکھ سکو_

اے میرے رشتے دارو میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور تمام انسانوں کی ہدایت و نجات کے لئے بھیجا گیا ہوں، مجھے اب حکم ملا ہے کہ میں تمھیں توحید، خداپرستی و دین اسلام کی طرف بلاؤں او رعذاب الہی سے ڈراؤں_ میں اس حکم کی بجا آؤری میں استقامت سے کام لوں گا_ تم میں سے جو بھی میری اس دعوت کو قبول کرے اور میری مدد کرے وہ میرا بھائی، میراوصّی، میرا خلیفہ اور میرا جانشین ہوگا''_

مجمع پر سنّاٹا چھایا ہواتھا چنانچہ ایک کونے سے ایک نوجوان اٹھا اور اس نے کہا:

۲۶۱

'' یا رسول اللہ (ص) میں اللہ تعالی کی وحدانيّت، روز جزاء کی حقّانیت اور آپ کی پیغمبری کی گواہی دیتا ہوں اور اس آسمانی پیغام کی کامیابی کے لئے آپ کی مدد کروں گا''_

جانتے ہو کہ یہ نوجوان کون تھا؟

پیغمبر اسلام(ص) نے ایک محبت آمیز نگاہ اس کی طرف کی اور اپنے مہمانوں کے سامنے اپنی بات کو دوبارہ بیان کیا_ اس دفعہ بھی سب خاموش بیٹھے رہے اور پھر وہی جوان اٹھا او راسی وعدہ کا تکرار کیا_ پیغمبر (ص) نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر تیسری دفعہ تکرار کیا_ پھر وہی جوان اٹھا اور اپنی مدد کا ہاتھ پیغمبر اسلام(ص) کی طرف بڑھایا_ اس وقت رسول خدا (ص) نے اسے اپنے پاس بلایا اس کا ہاتھ پکڑا او رحاضرین کے سامنے فرمایا:

''انّ هذا اخی و وصیيّی و خلیفتی فیکم فاسمعوا له و اطیعوا (۱)

'' یہ نوجوان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو''_

تمام مہان اٹھ گئے ان میں سے بعض ہنستے ہوئے اپنے غصّے کو چھپا رہے تھے اور سب نے جناب ابوطالب (ع) سے کہا:

'' سنا ہے کہ محمد(ص) کیا کہہ رہے ہیں؟ سنا ہے کہ انھوں نے تمھیں کیا حکم دیا ہے ؟ تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کرو''_

____________________

۱) یہ واقعہ اہل سنّت کی بھی مستند کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۳۲، الکامل فی التاریخ جلد ۲ صفحہ ۶۲

۲۶۲

پیغمبر اکرم(ص) نے اس مجلس میں اپنی دعوت کو واضح طور سے بیان کر کے اپنی ذمّہ داری کو انجام دیا اور اپنے آئندہ کے پروگرام سے بھی حاضرین کو مطلع کیا اپنا وزیر و جانشین معيّن کردیا دین اسلام و مسلمانوں کے لئے رہبر چن لیا اور رہبری کی اطاعت کو واجب و لازم قرار دے دیا_

حاضرین نے پیغمبر اسلام(ص) کی گفتگوسے کیا سمجھا ____؟ کیا انھوں نے بھی یہی سمجھا تھا؟ کیا انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ پیغمبر اسلام (ص) ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وزیر اور مسلمانوں کے لئے اپنے بعد ان کا رہبر بنادیا ہے؟

اگر وہ یہ نہ سمجھے ہوتے تو کس طر ہنستے اور مزاح کرتے اور ابوطالب (ع) سے کہتے کہ محمد(ص) نے تمھیں حکم دیا ہے کہ آج کے بعد اپنے فرزند کی اطاعت کیا کرو

قرآن مجید کی آیت:

( و انذر عشیرتک الاقربین و اخفض جناحک لمن اتّبعک من المؤمنین ) (۱)

'' اپنے رشتے داروں کو خدا کے عذاب سے ڈراو اور ان مومنین کے ساتھ جو تمھاری پیروی کرتے ہیں نرمی اورملائمت سے پیش آو''_

____________________

۱) سورہ شعراء آیت ۲۱۵

۲۶۳

سوالات

ان سوالات کے بارے میں بحث کرو

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) کا دوسرا تبلیغی مرحلہ کس طرح شروع ہوا اور اس مرحلہ کے لئے خدا کی طرف سے کیا حکم ملا؟

۲)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس کو انجام دینے کے لئے کیا حکم دیا اور علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو کیا حکم دیا؟

۳)___ کس نے پہلے نشست کو خراب کیا تھا؟ اور کیوں؟

۴)___ کیا پیغمبر (ص) نے ان کے کہنے سے اپنے ارادے کو بدل دیا تھا؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے دن مہمانوں سے کیا کہا تھا اور ان سے کیا مطالبہ کیا تھا؟

۶)___ مہمانوں نے ابوطالب (ع) سے کیا کہا تھا ا ور کیوں؟

۷)___ اس دعوت کا کیا مقصد تھا؟

۲۶۴

پیغمبر(ص) کی دو قیمتی امانتیں

پیغمبر اسلام (ص) اپنی عمر کے آخری سال مكّہ تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کو جو بھی استطاعت رکھتا ہے وہ اس سال حج میں شریک ہو_ پیغمبر(ص) کی دعوت پر مسلمانوں کی کثیر تعداد مكّہ گئی حج کے اعمال و مناسک کو پیغمبر اسلام (ص) سے لوگوں نے یاد کئے اور وہ حج کے پر عظمت و پر شکوہ اعمال کو پیغمبر(ص) کے ساتھ بجالائے_

پیغمبر اسلام(ص) حج اور زیارت وداع کے مراسم کو ختم کرنے کے بعد دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ایک کارواں کی شکل میں روانہ ہوئے_ حجاز کی جلا دینے والی گرمی اور بے آب و گیاہ میدان کو طے کرنے کے بعد غدیرخم پہونچے_ پیغمبر اسلام (ص) اس جگہ اپنے اونٹ سے اترے اور قافلے والوں کو بھی وہیں اترنے کا حکم دیا_ وہ لوگ جو پیغمبر (ص) سے آگے نکل چکے تھے انھیں واپس بالا یاگیا اور جو ابھی پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا_

ظہر کے نزدیک ہوا بہت گرم تھی، گرمی کی شدّت سے انسانوں کے سر اور پاؤں جل رہے تھے بعض لوگوں نے اپنی عبائیں سر پر ڈال رکھی تھیں، بعض نے اپنے پاؤں کپڑوں سے لیپٹ دیئے تھے اور بعض لوگ اپنے اونٹوں کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے_ سب لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیابات ہے؟ کیا پیغمبر اسلام(ص) کوئی اہم کام انجام دینے والے ہیں؟

جب لوگ آپ سے پوچھتے تو آپ انھیں جواب دیتے تھے کہ:

'' ظہر کی نماز کے بعد بتاؤں گا''_

۲۶۵

ظہر کی نماز کا وقت آگیا_ پیغمبر اسلام(ص) نماز کے لئے کھڑے ہوئے لوگوں نے آپ کی اقتداء کی اور آپ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی_ نماز کے بعد پیغمبر (ص) ایک بلند جگہ کھڑے ہوئے اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا اور سبھی کی توجہ پیغمبر اسلام (ص) کی طرف تھی آپ نے ذکر الہی سے اپنے خطبہ کی ابتداء کی اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد لوگوں کو وعظ اور نصیحت کی اس کے بعد فرمایا:

'' لوگو ہر انسان کے لئے موت حتمی ہے میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح مرجاؤں گا، خدا کا فرشتہ بہت جلد میری روح قبض کرنے کے لئے آنے والا ہے، میں اور تم سب کے سب اللہ کے سامنے دین اسلام کے بارے میں جواب گوہوں گے اور ہم سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا_

میں نے اپنے وظیفہ پر عمل کردیا ہے خدا کے پیغام کو تم تک پہونچا دیا ہے تمھاری راہنمائی و رہبری انجام دے دی ہے اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ میری موت نزدیک ہے خدا نے مجھے اپنی طرف بلالیا ہے اور مجھے اس کی طرف جانا ہے_

لوگو میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں لیکن دو گراں بہا چیزیں تمھارے درمیان بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے اگر تم نے ان سے تمسّک کیا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک قرآن اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ہیں_

قرآن، اللہ کی کتاب اور ایک مضبوط رسّی ہے جو آسمان

۲۶۶

سے اتری ہے اور دوسری امانت میرے اہلبیت (ع) ہیں_ اللہ تعالی نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں امانتیں آپس میں جدا نہ ہوں گی اور قیامت تک ایک رہیں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گی_ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم ان سے کیا سلوک کروگے؟ ''

اس کے بعد آپ (ص) نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنے نزدیک بلایا اور آپ (ع) کا ہاتھ پکڑکر لوگوں کے سامنے بلند کیا اور فرمایا:

'' لوگو اب تک تمھاری رہبری میرے ذمّہ تھی_ کیا میں خدا کی طرف سے تمھارا رہبر اور صاحب اختیار نہ تھا؟ کیا میں تمھارا ولی اور رہبر نہ تھا؟''

سب نے جواب دیا:

'' ہاں یا رسول اللہ (ص) آپ ہمارے پیشوا اور رہبر تھے''_

اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے بلند آواز سے فرمایا:

'' جس کا میں مولا تھا اب علی (ع) اس کے مولا ہیں جس نے میری ولایت کو قبول کیا ہے اب علی (ع) اس کے ولی ہیں''_

اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور یوں فرمایا:

'' خدایا جس نے علی (ع) کی ولایت کو قبول کرلیا ہے اس کو تو اپنی سرپرستی اور ولایت میں رکھ، خدایا علی (ع) کی مدد کرنے والوں کی مدد فرما اور علی (ع) سے دشمنی کرنے والوں سے دشمنی رکھ''

۲۶۷

نتیجہ:

پیغمبر اسلام(ص) کے غدیر کے تاریخی خطبہ اور اس حدیث غدیر سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

۱)___ پیغمبر اسلام (ص) نے اس حدیث میں اپنی عمر کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا، انقلاب اسلامی کے ہمیشہ رہنے اورترقی کرنے کے لئے دو قیمتی چیزوں کا اعلان کیا اور لوگوں کو اس سے روشناس کرایا تا کہ دینی، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کرنے میں لوگ ان کی طرف رجوع کریں_ ان میں سے ایک '' قرآن'' ہے اور اس کے متعلق لوگوں سے فرمایا تھا:

'' اپنی مشکلات کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا اس کے پڑھنے، سمجھنے ، اس سے مانوس ہونے، اس کے آئین دوسرے میرے '' اہلبیت (ع) '' ہیں_

پیغمبر اسلام(ص) لوگوں سے یہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی دینی، سیاسی اور اجتماعی ضروریات میں آپ کے اہلبیت (ع) کی طرف کہ جو پوری طرح قرآن و معارف اسلامی کے جاننے والے ہیں رجوع کریں او رقرآن کو ان کی راہنمائی میں سمجھنے کی کوشش کریں، اسلام کے فردی و اجتماعی قوانین ان سے حاصل کریں اور ان کے قول و فعل کی پیروی کریں، ان سے محبت کریں، ان کی ولایت و رہبری کہ جو در حقیقت پیغمبر(ص) کی ولایت کا دوام ہے، کو قبول کریں اور خداوند عالم کے

۲۶۸

آئین کی روشنی میں اپنی فردی اور اجتماعی زندگی گذاریں_

۲)__ _قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں، مسلمان اپنی دنیاوی و اخروی سعادت کے حصول کے لئے ان دو قیمتی چیزوں کے محتاج ہیں، قرآن کے محتاج اس لئے ہیں کہ زندگی کا آئین و دستور اس سے لیں اور اہلبیت (ع) کے محتاج اس لئے ہیں کہ قرآن کے معارف و احکام کو ان سے سکیھیں اہلبیت (ع) ہی ان لوگوں کی ہدایت کریں اور پیغمبر اسلام (ص) کے مقدس اہداف کو عملی جامہ پہنائیں_

۳)___جو مسلمان، قرآن کے دستور اور اہلبیت (ع) کی پیروی کرتے ہیں وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہوں گے اور دنیا و آخرت کی سعادت کو حاصل کریں گے_

۴)___ پیغمبر اکرم (ص) نے اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اہلبیت (ع) کی ایک فرد بتایا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حضرت علی (ع) کی ولایت و رہبری کو قبول کریں _ پیغمبر اسلام (ص) نے جن کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے ان کی تعداد کو پوری طرح واضح کردیا ہے_

یہ حدیث کہ جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو دو قیمتی چیزوں کے متعلق وصيّت کی ہے '' حدیث ثقلین'' کے نام سے مشہور ہے اور یہ ان احادیث میں سے ہے کہ جو مسلّم اور قطعی ہے اس حدیث کے راویوں نے اسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کیا ہے یہ حدیث شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں موجود ہے_(۱)

____________________

۱) البدایہ و النہایہ جلد ۵_ صحیح مسلم جلد ۴ _ مستدرک حاکم جلد ۳_ مجمع الزوائد جلد ۹_ اور ان کے علاوہ دوسری بہت زیادہ شیعہ اور سنّی کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے_

۲۶۹

پیغمبر اسلام (ص) نے ارشاد فرمایا:

قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و الہ: انّی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و اہل بیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض

'' میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں_ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرے اہلبیت (ع) ، یہ دونوں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے''_

۲۷۰

سوالات

سوچیئے اور جواب دیجئے

۱)___ پیغمبر(ص) کی دو قیمتی چیزیں کیا تھیں؟ ان کے بارے میں آپ نے مسلمانوں کو کیا حکم دیا ہے؟

۲)___ پیغمبر (ص) نے غدیر خم میں کس کو پہنچوایا تھا اس کے بارے میں کیا فرما اور کیا دعا کی تھی؟

۳)___ پہنچوانے سے پہلے آپ نے لوگوں سے کیا پوچھا تھا اور آپ کا ان سوالوں سے کیا مقصد تھا؟

۴)___ پیغمبر (ص) نے دینی ، اجتماعی اور سیاسی مشکلات کے حل کے لے کس شخص کو معيّن فرمایا ہے؟

۵)___ مسلمانوں کا ان دو چیزوں کے متعلق کیا فریضہ ہے؟

۶)___ قرآن اور عترت ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، اس کی وضاحت کیجیئے

۷)___ مسلمان کس طرح دنیا اور آخرت کی سعادت کو حاصل کرسکتا ہے اور کس کی رہبری کو قبول کر کے؟

۲۷۱

اسلام میں امامت

اسلام ایک مقدّس اور عالمی دین ہے جو انسان کی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے کافی ہے چنانچہ اس نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین ودستور وضع کئے ہیں_

انسان کے انفرادی امور کے لئے الگ قانون وضع کئے ہیں اور اجتماعی امور کے لئے الگ، لہذا احکام اسلامی کو دو حیثیت سے دیکھنا ہوگا_ ایک وہ جن کا تعلق افراد سے ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور طہارت و غیرہ اوردوسرے اجتماعی احکام ہیں جیسے جہاد، دفاع، قضا، حدود، دیات، قصاص، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اقتصادی و سیاسی

اگر چہ انفرادی احکام میں بھی اجتماعی و سیاسی پہلو ہے اور اسی طرح اجتماعی احکام میں انفرادی فائدہ بھی ہے یہ دونوں تقریبا ایک ہی جیسے ہیں_ اسلام کے اجتماعی اور سیاسی احکام لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنے، معاشرہ میں نظم ، ضبط، امنيّت اور حفاظت کے لئے ہوتے ہیں_ اسلام کے اجتماعی و سیاسی احکام، معاشرہ میں فلاح و بہبود کی بقاء کے ضامن ہوتے ہیں تا کہ لوگ اپنے عبادی فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرنا اور ان پر عمل کرانا شخصی طور پر ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے حکومت کی ضرورت ہے لہذا مسلمان، اسلامی حکومت کے ذریعہ ہی اسلام کے اجتماعی قوانین کو جاری کرسکتا ہے اور طاقت کے زور پر اسلامی قوانین کو عملی جامہ

۲۷۲

پہنا سکتا ہے اور اسلامی سرزمین کو دشمنوں سے لے سکتا ہے_

حالانکہ اس قسم کے تشکیلات ہر ملک کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی حکومت میں حکومت کے لارکان، اسلام کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اس کی رہبری ایک دیندار، دین شناس اور پرہیزگار شخص کے ذمّہ ہوتی ہے اور اس کے لئے یہ عہدہ خود خداوند عالم کی طرف سے ہوتا ہے_

پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں اسلامی حکومت کیسے تھی؟

رسول خدا(ص) کے زمانہ میں مسلمانوں کی رہبری خود آپ کے ذمّہ تھی آپ اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کو جاری کرتے تھے اور معاشرہ کو اسلامی طریقے سے چلاتے تھے جہاد و دفاع کا حکم خود آپ دیا کرتے تھے ، فوج کا کمانڈر خود معيّن کرتے تھے لیکن حکم آپ خود دیا کرتے تھے، آپ کے زیر فیصلے ہوتے تھے_

آپ قاضی کی تربیت کرتے انھیں دور و نزدیک کے شہروں اوردیہاتوں میں روانہ کرتے تھے تا کہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کریں، اسلام کے قوانین کے مطابق لوگوں کی مشکلات کو حل کریں اور حدود الہی کو جاری کریں_ بیت المال کی تقسیم آپ کے زیر نظر ہوا کرتی تھی اور جنگ میں ہاتھ آنے والے مال کی تقسیم بھی خود آپ ہی کے ذمّہ تھی_

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (ص) کا خداوند عالم سے ایک خاص ربط تھا آپ قوانین الہی کو وحی کے ذریعہ حاصل کرتے تھے اور انھیں لوگوں تک پہونچاتے تھے، معاشرہ کو حکم الہی کے مطابق چلاتے تھے یہاں تک کہ آپ کی آنکھ بند ہوگئی_

۲۷۳

رسول خدا (ص) کے بعد اسلامی حکومت:

رسول خدا (ص) کے بعد دین اسلام اور احاکم و قوانین اسلامی کی حفاظت کون کرے؟ کیا اسلامی معاشرہ کو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد کسی رہبر کی ضرورت نہیں؟ کیا پیغمبر اسلام (ص) اسلامی معاشرہ کو بغیر کسی رہبر کے چھوڑ گئے اور آپ نے اس بارے میں کوئی وصيّت نہیں کی؟

حالانکہ پیغمبر اسلام (ص) نے دین اسلام کو ہمیشہ رہنے والا اور آخری دین بنایا ہے پس کس طرح ہوسکتا ہے کہ اس آخری دین کے لئے محافظ معيّن نہ کیا ہو؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی معاشرہ کو کسی رہبر کے بغیر چھوڑ کر گئے ہوں؟ حالانکہ کبھی آپ نے کسی فوج کو بغیر اس کے سردار کے جنگ کے لئے نہیں بھیجا بلکہ کبھی احتیاط کے طور پر چند سرداروں کو معيّن کرتے تھے تا کہ ایک کی شہادت سے دوسرا سردار فوج کو کنٹرول کرسکے_

یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسلام کی نوازئیدہ مملکت کو پیغمبر(ص) کوئی ولی معيّن کئے بغیر چھوڑ کر چلے جائیں حالانکہ بعض صورتوں میں آپ اگر تھوڑے دنوں کے لئے بھی سفر پر جاتے تھے تو مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لئے کسی کو معيّن کرتے تھے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نو بنیاد اسلامی معاشرہ کو بغیر سرپرست اور رہبر کے چھوڑ دیا ہو؟

حالانکہ جب بھی کسی جگہ کو فتح کرتے تو آپ فوراً کسی شخص کو اس کا سرپرست معيّن کردیتے تھے_ جو پیغمبر (ص) اتنا دور اندیش، مستقبل شناس اور امّت اسلامی کے اجتماعی و سیاسی

۲۷۴

مسائل پر اتنی توجہ دیتا ہو تو کیا اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر کی ضرورت سے غافل تھا؟ نہیں ہرگز نہیں

پیغمبر اسلام (ص) ، ضرورت امام (ع) سے بخوبی واقف تھے آپ کو اچھی طرح علم تھا کہ اسلام کے قوانین و احکام کی حفاظت کے لئے ایک ایسے رہبر کا وجود ضروری ہے جو دین اسلام کے قوانین اور احکام کا عالم ہو_ آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ پیغمبر(ص) کی ذمّہ داریوں کو کون بخوبی انجام دے سکتا ہے_

ہمارا عقیدہ:

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایسے کام سے کہ جس سے اسلام کی رگ حیات وابستہ تھی غفلت نہیں کی بلکہ بہت سے مواقع پر اس کا اظہار بھی کیا اور پیغمبر کی نظر میں یہ اتنا اہم کام تھا کہ آپ نے اسلام کی پہلی ہی دعوت میں کہ جس میں آپ نے اپنے رشتے داروں کو اپنے گھر بلایا تھا حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی و خلافت کا اعلان کردیاتھا_

مختلف مواقع پر اس یاد دہانی بھی کرتے تھے آپ کو اپنا خلیفہ اور مسلمانوں کا رہبر ولی بتاتے تھے اور آخری اعلان حکم الہی سے غدیر خم میں کیا _ پیغمبر گرامی (ص) نے حکم خدا سے کئی ہزار مسلمانوں کے سامنے جو حج سے واپس آرہے تھے رسمی طور سے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو اپنا وصی اور لوگوں کا امام منتخب کیا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی حکم الہی سے اپنے بعد امام حسن علیہ السلام کو امامت کے لئے معيّن فرمایا اور لوگوں کو اس سے آگاہ کیا اسی طرح ہر امام (ع) اپنے بعد کے امام (ع)

۲۷۵

کو معيّن کرتا اور لوگوں کو اس کی حبر دیتا تھا یہاں تک کہ نوبت بارہویں امام (ع) تک پہونچی اور وہ اب بھی زندہ ہیں تمام مسلمانوں کے ولی اور امام ہیں لیکن اس وقت آپ پردہ غیب میں ہیں_

غیبت کے زمانے میں:

امام عصر (ع) کی غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کی رہبری ایک فقیہ عادل کے ذمہ ہوتی ہے جو بارہویں امام حضرت حجّت بن الحسن (ع) کانائب ہوتا ہے وہ دین کے قوانین و احکام کو بیان کرتا ہے اور مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور وہ بارہویں امام (ع) کے ظہور کے عقیدہ کو مستحکم کرتا ہے_

قرآن کی آیت:

( و جعلنا منهم ائمة یهدون بامرنا لمّا صبروا و کانوا بایاتنا یوقنون ) (۱)

'' اور ان ہی میں سے ہم نے کچھ لوگوں کو چونکہ انھوں نے صبر کیا تھا پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اورہماری آیتوں کا دل سے یقین رکھتے تھے''_

____________________

۱) سورہ سجدہ آیت ۲۴

۲۷۶

سوالات

سوچیئےور جواب دیجئے

۱)___ جانتے ہو کہ ہماری حکومت کے ارکان کیا ہیں؟ حکومت اسلامی کا سب سے اہم رکن کیا ہے؟

۲)___ صدر اسلام کی حکومت میں پیغمبر اسلام (ص) کے کیا فرائض تھے؟

۳)___ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) ، تازہ اسلامی مملکت کو بغیر رہبر کے چھوڑ کر چلے جائیں؟ اس سوال کے جواب کو جواب کو جو اس درس میں بیان ہوئے ہیں بیان کرو_

۴)___ ہمارا عقیدہ اسلامی معاشرہ کے لئے رہبر کی تعیین کے متعلق کیا ہے؟

۵)___ پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف مواقع پر رہبری کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ان میں سے دو مواقع کو بیان کرو_

۶)___ بارہویں امام (ع) کے غیبت کے زمانے میں مسلمانوں کی رہبری کس کے ذمّہ ہے؟

۷)___ مسلمانوں کے رہبر کو کیا کرنا چاہیئے؟

۲۷۷

اسلام کا نمونہ مرد

حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت بے نظیر تھی، بچپن سے پیغمبر اسلام (ص) کے گھر میں رہے وہیں بڑے ہوئے اورآپ نے اسی گھر میں زندگی کے آداب و اخلاق یاد کئے_ پیغمبر اسلام (ص) بعثت سے پہلے، سال میں ایک مرتبہ غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور وہاں خدا سے راز و نیاز کرتے تھے_

حضرت علی علیہ السلام ان دنوں آپ کے لئے غذا لے جایا کرتے تھے اور کبھی خود بھی وہیں ورہ جاتے تھے پیغمبر (ع) کی عبادات کودیکھا کرتے تھے_ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص) اس پہاڑ میں عبادت میںمشغول تھے تو خداوند عالم کی طرف سے ایک فرشتہ آیا اور پیغمبری کے منصب کو آپ کے حوالہ کیا_

حضرت علی علیہ السلام اس وقت آپ ہی کے پاس تھے اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ نقل کیا کہ:

'' میں پیغمبر(ص) کے ساتھ غار حراء میں تھا اور آنحضرت میں پیغمبری کی علامتیں دیکھ رہا تھا''_

حضرت علی علیہ السلام پہلے شخص تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اسلام اور پیغمبر(ص) پر ایمان کو ظاہر کیا ہے آپ کی اس وقت دس سال سے زیادہ عمر نہ تھی لیکن آپ اتنے عقلمند تھے کہ وصی اور نبوت کے حقائق کو درک کر رہے تھے اور بغیر کسی

۲۷۸

خوف و ہراس کے پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ نما زجماعت کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے_

تبلیغ کے سلسلہ میں آپ پیغمبر (ص) کی دن رات مدد کیا کرتے تھے جیسا کہ معلوم ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے بعثت کے تیسرے سال اپنے رشتے داروں کو مہمانی کے لئے بلایا انھیں اسلام کی دعوت دی اور ان سے اپنی مدد کے لئے کہا_ اس مہمانی میں سوائے حضرت علی (ع) کے کسی نے بھی پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کو قبول نہ کیا اور نہ ہی مدد کرنے کا وعدہ کیا_

اس وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر مبارک تیرہ، چودہ سال کی تھی آپ نے پورے یقین سے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت کو قبول کیا اور آپ سے مدد کرنے کا پیمان باندھا اس قسم کا اقدام آپ کی کامل بصیرت و آگاہی کی علامت ہے اسی وجہ سے پیغمبر ا سلام (ص) نے آپ کو اپنا وزیر، خلیفہ و جانشین بنایا اور تمام حاضرین کے سامنے اس کا اظہار بھی کیا_

اسی دن سے حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کے خلیفہ ہوئے اور اپنی اس عظیم ذمہ داری کی وجہ سے جو خدا کی طرف سے آپ پر ڈالی گئی تھی آپ پیغمبر(ص) کی مشکلات میں مدد کرتے اور آپ کی ہر طرح سے حفاظت کرتے تھے_ حضرت علی علیہ السلام کا پیغمبر اسلام(ص) سے والہا نہ محبت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ پیغمبر (ص) کی حفاظت کی خاطر، خطرناک ترین موقعہ پر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان کی حفاظت کرتے تھے_

جب مكّہ کے بت پرستوں نے مصمّم ارادہ کرلیا کہ پیغمبر اسلام(ص) کو قتل کردیں تو خدا کی طرف سے حضور (ص) کو حکم ملا کہ رات کے وقت مكّہ سے نکل جائیں مدینہ کی طرف

۲۷۹

ہجرت کرجائیں دشمنوں کو اس کا علم نہ ہو اور کسی آدمی کو اپنی جگہ پر سلادیں_ پیغمبر اسلام(ص) نے یہ بات حضرت علی علیہ السلام سے بیان کی آپ نے بڑے شوق سے اس دعوت کو قبول کیا اور رات کے وقت بستر پیغمبر(ص) پر سوگئے_ آپ زمانے کے سب سے زیادہ بہادر تھے تمام جنگوں میں شریک ہوتے تھے، اسلام کی کامیابی اورانسانوں کو کفر و ظلم سے نجات دینے کے لئے میدان جنگ میں پہلی صف میں دشمنوں کے ساتھ لڑا کرتے تھے_

آپ جہاد و شہادت کے عاشق تھے، کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ ہمیشہ میدان جنگ میں آگے آگے رہتے تھے اورکبھی میدان جنگ سے فرار نہیںکرتے تھے آپ فرماتے تھے:

'' خدا کی قسم اگر تمام عرب اکٹھے ہو کر میرے ساتھ جنگ کریں تو بھی میں ان سے جنگ کرنے سے گریز نہیںکروں گا اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوں گا، خدا کی قسم کہ اگر میدان جنگ میںت لوار کی ہزار ضربتوں سے درجہ شہادت پر پہونچوں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ اسے بستر پر مروں''_

جب جنگ احد میں وفادار محافظ قتل کئے جاچکے یا وہ زخمی ہوگئے اور ایک گروہ نے پیغمبر اسلام (ص) کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور وہ فرار کر گئے تھے تو حضرت علی (ع) ہی یک و تنہا پیغمبر (ص) کی حفاظت کر رہے تھے اور آپ نے اس قدر اپنے طاقتور بازو سے تلوار چلائی کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی:

'' کوئی مرد سوائے علی (ع) کے مرد نہیں اور کوئی تلوار سوائے ان کی تلوار کے تلوار نہیں ہے'' _

۲۸۰