خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں0%

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف: محمد صادق نجمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20446
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20446 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

منصب خلافت و امامت فرمان علی علیہ السلام کے پرتو میں :

”ذَرَعُوا الْفُجورَ،وسَقَوه الغُرورَ،وحَصَدُوْا الثُّبُورَ،لایُقاسُ بِآلِ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من هذه اُلامَّةِ اَحَد،ٌ وَ لَایُسوَّی بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُهم علیه اَبَداً،هُم اَساسُ الدِّین، وَعِمادُ الیقین، اِلیهم یَفِئیُ الغَالِی،وبهم یُلْحَقُ التاَّلِی ،ولَهُم خَصائِصُ حّقِّ الوِلَایَة،ِ وَ فِیهم الوَصِیَّةُ وَالْوِراثَةُ،اَلْآنَ اِذْرَجَعَ الْحَقُّ اِلیٰ اَهله، ونُقِل اِلیٰ مُنْتَقَلِه!( ۱ )

انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی ،غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی، اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں ،وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے، وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ان سے آکر ملنا ہے، حق ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ہیں،انھیں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ہے، اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا ۔

روش بحث،مقصداورتین سوال

قارئین کرام !جیسا کہ عنوانِ بحث سے ظاہر ہے کہ آئندہ ہم صحیحین کی ان احادیث کو پیش کریں گے جو خلافت سے متعلق ہیں ، لہٰذا ہمارا مقصد یھا ں پر صرف اِن احادیث کا نقل کرنا ہے نہ کہ مسئلہ خلافت کی تحقیق،کیونکہ ہماری کتاب علم کلام کی کتاب نہیں ہے کہ جس میں مسئلہ خلافت کی تحقیق وتحلیل کریں اور فریقین میں سے ایک گروہ کے عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے محکم اور ٹھوس دلائل پیش کریں،یا پھر دوسرے گروہ کے عقیدہ کو ہدف تنقید قرار دے کر حق کو بیان کریں ،بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کی اہم ترین اساسی کتابیں ”صحیحین“کے مختلف ابواب میں نقل کردہ وہ حدیثیں جو براہ راست خلافت سے متعلق ہیں،ان کو محترم قارئین کے سامنے پیش کریں،لہٰذا ہمارے اوپریہ لازم نہیں کہ ہم اِن روایات کے تمام تاریخی جزئیات کوجو ان روایتوں کے بارے میں پائے جاتے ہیں نقل کریں،یا ان کی عمیق ودقیق تحقیق و تنقید کریں ،کیونکہ:

ا ولاً: یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے۔

ثانیاً :اس بحث کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے اور حسن اتفاق سے اس موضوع سے متعلق ہمارے یھاں بھت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، چنانچہ اگر ہم نے کھیں پرخلافت سے متعلق بعض مطالب کو بیان کیا ہے تووہ صرف اپنے مطلوب اورمحل بحث احادیث کے مفہوم کی وضاحت کے خاطرہے نہ کہ موضوعِخلافت چھیڑناہے، بہر کیف تمھیدکے طورپر ہم پھلے تین سوال پیش کرتے ہیں اور ان سوالوں کے جوا بات ھر اس شخص سے پوچھنا چاہتے ہیں جو خلافت پر اعتقاد رکھتا ہے۔

مسئلہ خلافت سے متعلق تین سوال

مسئلہ خلافت رسول اسلام کا وہ اساسی ترین مسئلہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان ایک،دو،پانچ، دس صدی سے محل ِ اختلاف قرار نہیں پایا بلکہ یہ مسئلہ آفتاب ِ رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غروب ہونے کے بعد ہی اختلاف کی نظرہوگیا تھا،جیسا کہ عالم اہل سنت جناب شھرستانی اپنی کتاب”الملل والنحل“ میں کھتے ہیں :

امت اسلام سب سے زیادہ مسئلہ امامت میں اختلاف کرتی ہے، یعنی مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ امامت اور خلافت کا ہے جو سبب ِ اختلاف قرار پایا ہے، کیونکہ اسی مسئلہ امامت کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانیں گئی ہیں ، امامت کے علاوہ اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس میں اس قدر اختلاف اور خونریزی ہوئی ہو:

”اعظم خلاف بین الامة خلاف الامامةاذماسل سیف فی الاسلام علی قاعدة دینیة مثل ما سل علی الامامة فی کل زمان…“ ( ۲ )

ہمیں اس ا ختلاف کے وجود میں آنے کی کیفیت اور تاریخ سے کوئی سرو کار نہیں لیکن آیندہ آنے والی احادیث کے لئے تمھید کے طورپر تین مطالب کو بعنوان سوال ذکر کرتے ہیں :

۱ ۔ جب مسئلہ خلافت و امامت اتنا اہم مسئلہ ہے تووہ خدا کہ جس نے اسلام کے ماننے والوں کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بیان کیا ہے ،جیسے سونا ، جاگنا، کھانا، پینا، حمام،غسل کنگھی کرنا ، نامحرم عورتوںپر نگاہ ڈالنا ایک لمحہ بھر ہی کیوں نہ ہو، دوسرے کی غیبت کرنا اگرچہ ایک کلمہ کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو،چنانچہ ان احکام کی تعداد واجبات ،محرمات ،مستحبات اور مکروھات میں بےشمار ہے ،یعنی انسان کی زندگی کا کوئی ایسا پھلو ترک نہیں کیا گیا ہے جس میں شریعت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو ،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ امامت جیسے اہم مسئلہ کے بارے میں کچھ نہیں کھاگیا ہو؟ !اور امت کو بغیر کسی رھبر اورھادی کے چھوڑ کر خدا نے اپنے حبیب کو اپنے پاس بلالیا؟! اگر کھاجائے کہ خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مسئلہ کو خود مسلمانوں کے حوالہ کردیا تھا،تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کے جزئیات اور فروعات کو خدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود مسلمانوں کے حوالے کیوں نہ کیا؟! اوران کو خود کیوں بیان فرمایا ؟! اور جب جزئی اور فرعی احکام جیسے سر منڈوانا، ناخون کٹوانا، حج و زیارات، پیشاب، پاخانہ کے آداب، ہمبستر ہونے کے آداب وغیرہ میں بھی سکوت اور چشم پوشی کرنا قاعدہ لطف کی بنا پر جائز نھیں،تو پھر یہ کیسے تصور کیا ج ا سکتا ہے کہ خدا وند متعال مسلمانوں کے اہم ترین مسئلہ امامت پر سکوت اختیار کرلے گا؟ !کیا قاعدہ لطف یھاں پر تقاضہ نہیں کرتا ؟! اور اگر اس نے سکوت اختیار نہیں کیا تو ہمیں اس خلیفہ کانام اور وہ کن شرائط کا حا مل ہے اس کاپتہ بتلائیں ؟!!اوراگر کوئی خلیفہ تعین نہیں ہو اتو خدا کی ذات ہدف ِ تنقید قرار پاتی ہے!! ”نعوذ بالله من ذالک“ یہ وہ باتیں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بحکم خدا ضرور کوئی خلیفہ منتخب کیا تھا اور اگر مان لیا جائے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقرر نہیں فرمایا تو کم سے کم جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اس منصب الہٰی کا بوجھ اٹھائے اس کے لئے کچھ شرائط تو ضرور بیان فرمائے ہوں گے؟!!

۲ ۔ آیات، احادیث اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فرزندان ِ توحید ہمیشہ قرآن و احادیث کی شرح و تفسیر ، دینی اخلاقی و دنیوی مسائل میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے، یھی نہیں بلکہ حوادثات ، امور دنیوی اور اپنی زندگی کے جزئی معاملات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا ملجا وماوہ سمجھتے اور آپ سے معلومات حا صل کرتے تھے ،یھاں تک کہ اپنی پریشانیوں کے حل اور مریضوں کے معالجہ کے لئے بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی استشفاء کرتے تھے،جیسا کہ صحیح بخاری ،سنن ترمذی ا ور صحیح مسلم میں آیا ہے :

”ایک شخص نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کھا: یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میرا بھائی پیچش میں مبتلا ہے، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اس سے کھو شھد کا استعما ل کرے ، چند دنوں کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کهنے لگا :اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !شھد سے میرے بھائی کی ابھی پیچش ٹھیک نہیں ہوئی ہے، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے کھا: شھد کا استعمال جاری رکھے، تیسری مرتبہ پھر اس نے پیچش کی شکایت کی ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھر شھد کھانے کی تاکید فرماتے ہیں ،یھاں تک کہ اس کی پیچش ٹھیک ہو جاتی ہے۔“( ۳ )

پس یھاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ۲۳ سالہ زندگی میں کسی شخص کے ذهن میں یہ سوال نہ آیا اور کوئی بھی صحا بیرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہو ا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مسئلہ جانشینی کا کیا ہوگا؟!اور نہ ہی کسی مسلمان نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کو پوچھا: ”اے رسول!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ نے اسلام کو خون ِ دل دے کر پروان تو چڑھا یا ہے مگر اس کی حفاظت آپ کے بعد کون کرے گا؟ ! ہم لوگ آپ کی وفات کے بعد اپنے مسائل کے بارے میں کس طرف رجوع کریں گے؟ !!“ آخر تما م مسلمانوں پر غفلت کا پردہ کیوں پڑا رھا ؟! جبکہ سب لوگ یہ جانتے تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی بشر ہیں لہٰذا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی موت سے ہمکنار ہونا ہے ،چنانچہ ان آیتوں کو اس

وقت کے سبھی مسلمان سنتے اور پڑھتے ہوں گے:( اِنَّکَ مَیِّتٌ وَ اِنَّهُمْ مَیِّتُوْن ) ۔( ۴ ) اے میرے حبیب آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ لوگ تو مریں گے ہی( اٴَفَاٴِنْ مَّاْ َ اَوْقُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلیٰ اَعْقَاْبِکُم ) ۔( ۵ ) پھر کیا اگر (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) اپنی موت سے مرجائیں ،یا مار ڈالے جائیں،تو تم الٹے پاوں (اپنے کفر کی طرف )پلٹ جاو گے

اور دوسری جانب سب لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ مسئلہ خلافت انسان کی دنیاوی اوراخروی زندگی سے جڑا ہوا ہے یعنی یہ وہ مسئلہ ہے جو نبوت کی طرح ا نسان کی زندگی میں عمیق اثر رکھتا ہے،اس کے بغیر نہ انسان کی دنیاوی زندگی کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی اخروی، اس کے بغیر نہ روح ا نی کمال تک پهنچا جاسکتا ہے اور نہ مادی اورسب سے زیادہ تعجب تو یہ ہے کہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی فکر نہ ہوئی کہ میں نے اتنی محنتوں سے اسلام کو پھیلایا ہے لیکن اس کا محا فظ میرے بعد کون ہوگا؟!اس کا اتاپتہ نہیں ! پس نہ رسول کو فکر ہوئی اور نہ ہی اس بارے میں کسی نے ۲۳ سال کے اندر آپ سے سوا ل کیا !!

۳ ۔ خداوند متعال وصیت کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے:

( کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَ اْ حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِن تَرَکَ خَیراً نِ الوَصِیَّةُ لِلوَالِدَیْنِ والاَقرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقّاً عَلَی المُتَّقِینَ ) ( ۶ )

مسلمانو!تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت واقع ہو نے والی ہو بشرطیکہ مرنے والا کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کے لئے اچھی وصیت کرے ،جو خد ا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے۔

اسی طرح خودرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام اس وظیفہ وصیت کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :

”قالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ماحق امریمسلم لہ شیء یوصی فیہ یبیت لیلتین،الاووصیتہ مکتوبة عندہ۔“

ایک مسلمان مرد کا اہم ترین وظیفہ یہ ہے کہ وہ دو راتیں نہ گزارے مگر اپنے لئے وصیت نامہ تیار کر کے رکھ لے۔( ۷ )

عبد اللہ ابن عمر کھتے ہیں :

میں نے اس مطلب کو جب سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے تب سے کوئی بھی رات ایسی نہیں گزری مگر میرا وصیت نامہ میرے ساتھ تھا۔( ۸ )

محترم قارئین!جب قرآن او راحادیث سے ثابت ہے کہ وصیت کرنا ایک ضروری امر ہے توپھرعقل اس بات کو کیسے تسلیم کرسکتی ہے کہ جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسروں کے حق میں وصیت کے لئے اس قدر تاکید کرے وہ خود وصیت کئے بغیر چلا جائے گا؟! کیایہ کھا جاسکتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی کے لئے وصیت نہیں کی تھی ؟!جب کہ آپ کے لئے وصیت کرنا اشد ضروری تھا ؟!کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک اہم ثروت و ترکہ( دین اور قوانین الٰھیہ )کو چھوڑ کر جارہے تھے، اس سے زیادہ قیمتی اور کوئی ترکہ ہوھی نہیں سکتا تھا ، لہٰذا ان کی حفاظت تو بھت ہی ضروری تھی، ان کے لئے ایک ولی اور سرپرست ہو نا بیحد لازمی تھا ،ان شرائط کے باوجود اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعد ملت ِمسلمہ اوردین اسلام کا کوئی محا فظ نہ چنیں تو گویا کہ آپ نے سارے جھان کو لاوارث چھوڑدیا!کیا ہمارا وجدان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسے دور اندےش اور زیرک ترین شخص کے لئے یہ سوچ سکتا ہے کہ آپ کی عقل ِ کامل اس اہم ترین گوشہ کی طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوئی ! جس کی وجہ سے آپ نے اپنے بیش قیمت ترکہ( قوانین الٰھیہ) اورملت ِمسلمہ بلکہ سارے جھان کو بغیر ولی اور سرپرست کے یونھی چھوڑ دیااورکسی طرح کا انتظام نہیں کیا ؟!! قطع ِ نظر حکم ِعقل و وجدان کے یہ بات بھی تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی جنگ میں کوئی لشکر بھیجتے تھے تو اس کا ایک رھبر اور سپہ سالا ر معین فرماتے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کر دیتے تھے کہ اگر فلاں شخص شھید ہو جائے تو فلاں کو اپن ا سپہ سالار چن لینا اور اگر وہ بھی شھید ہو جائے تو فلاں کو سردار منتخب کر لینا، وغیر ہ وغیرہ ، اسی طرح یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ آنحضرت نے اپنی تدفین ،غسل اور ادائیگیقرض کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کردی تھی،لہٰذا ان تاکیدات کے باوجودیہ کیسے سوچا جاسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خلافت کے لئے کسی کے حق میں وصیت نہیں کی تھی؟!پس جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرض،دفن اور کفن جیسے جزئی مسئلہ کو نہ بھولے وہ خلافت جیسے اہم مسئلہ کو کیسے بھول جائے گا؟!!العجب ثم العجب ۔

محترم قارئین ! ان سوالوں کا جواب اہل سنت نہیں دے سکتے ہیں ، ان کا جواب صرف مذھب اہل تشیع کے نزدیک واضحا ور روشن ہے، کیو نکہ یہ وہ مذھب ہے جو عقیده رکھتا ہے کہ نہ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اور نہ ہی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں مسلمانوں نے اس مسئلہ خلافت کے بارے میں سکوت اختیار کیا اور نہ ہی اسکے اظھارسے امتناع کیااورنہ تساہلی سے کام لیابلکہ جس روز سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے اسی دن سے آپ کو مامور کیاگیا تھا کہ آپ نبوت کے ساتھ ساتھ منصب خلافت کے حقدار کا بھی لوگوں کے درمیا ن اعلان کردیں، چنانچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس بارے میں کسی طرح کا ابھام نہیں چھوڑا، بلکہ آپ نے ھر جگہ اپنے متعددخطبات و بیانات میں اپنی جانشینی کے مسئلہ کو پیش کیااور جو لوگ آپ کے بعدمنصب ِ خلافت کے حقدارتھے، ان کی پہچان کروائی چنانچہ اوائل ِ بعثت میں جب آیہ وَاَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الاَقْرَبِینَ نازل ہوئی تو رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے خاندان والوں کو دعوت پر بلایا اور کھا نے کے بعد آپ نے تقریر کرنا چاہی،لیکن ابو لھب نے یہ کہہ کر مجمع کو بھکا دیا کہ آپ ساحر ا ور جادو گر ہیں ، کوئی ان کی باتیں نہ سنے ،مجمع متفرق ہوگیا ،لہٰذا رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسرے دن پھر بلایا اور کھانے کے بعد تقریر کرنا شروع کردی اور اپنی تقریر میں پیغام وحی سنایا اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کیلئے اپنی طرف سے جانشین ا ور خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور بعض لوگوں کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کا مسئلہ مضحکہ خیز بھی قرار پایاکہ ابھی ان کی نبوت کو کوئی مانتا نہیں اور انھیں دیکھو!جانشینی کا اعلان ابھی سے کررہے ہیں ؟!

فاخذ رقبتی ( علی عليه‌السلام ) ثم قال : ان هٰذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوا له و اطیعوا قال: فقام القوم یضحکون…( ۹ )

کیونکہ و ہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ابھی کسی نے ان کی نبوت قبول نہیں کی تو جانشین کو کیسے قبول کریں گے، لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پھلے ہی مرحلے میں ظاہر کر دینا چاہتے تھے کہ جانشینی کا حق علیعليه‌السلام و اولاد علیعليه‌السلام کا ہے، لہٰذا جو بھی میرا دین قبول کرے وہ اس لالچ میں قبول نہ کرے کہ آئندہ آپ اسے رھبری کا عھدہ سپرد کردیں گے! کیونکہ منصب ِ خلافت و ولایت ھر کس و ناکس کو نہیں ملتا بلکہ اس کا وھی حقدار ہے جس کا خدا نے انتخاب کیا ہو۔

اسی طرح آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر کے بے آب وگیاہ چٹیل میدان اوررچلچلاتی دھوپ میں آگے جانے والے اور پیچھے رہ جانے والے حجاج کو بلا کر اپنے آخری حج کے بعد بحکم خدا ” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ“کہہ کر حضرت علی علیہ السلا م کی خلافت کا اعلان فرمایا۔

اور جب آپ کی عمر کے آخری لمحے گزر رہے تھے ، جب آپ کی پےشانی پر موت کا پسینہ آچکا تھا، اس حساس موقع پر بھی آپ نے اس اہم مسئلہ کو فراموش نہیں کیا، چونکہ آپ کی نظروں میں الله کا دین وآئین گردش کررھا تھا ، لہٰذا آپ کے سامنے اس امت کی سرنوشت مجسم تھی کہ جس کی ہدایت میں آپ نے شدید سے شدید مشقتیں اٹھائیں تھیں ، لہٰذا آپ نے حکم دیا کہ مجھے قلم و دوات دیدو تاکہ میں ایک ایسی چیز ( مسئلہ جانشینی) لکھتا جاؤں، جو میرے بعد تم کوگمراہ ہونے سے بچا لے۔( ۱۰ )

اورکبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم منبر پر تشریف لے جاتے اور فرماتے تھے:

اِنیّ مخلف فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی ماان تمسکتم بهما لن تضلوا ابداً

اورکبھی اپنے حقیقی خلفاء کے اسم لیتے اور لوگوں کے سامنے ان کا تعارف کراتے، کبھی ان کی تعداد بیان فرماتے:الخلفاء بعدی اثنی عشر اورکبھی ان آیات کو پڑھتے تھے جو آپ کے خلفاء کی شان میں نازل ہوئیں ،کبھی آپ ارشاد فرماتے تھے :

یا علی انت منی بمنزلةهارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی “۔

کبھی اپنے بعد آئندہ اسلام میں ہونے وا لی بدعتوں کا تذکرہ کرکے اپنے گھرے افسوس کا اظھار کرتے تھے جونا حق خلافت کی وجہ سے وجود میں آئیں گی ۔

چنانچہ چودہ صدیوں سے ظالم اور جابر حکومتیں مسئلہ خلافت کو دھندلااور حقائق کو پوشیدہ کرنے کی سعی لاحا صل کئے جارھی ہیں ، حقائق کو چھپانے میں اپنی تما تر قوّتیں صر ف کردیں ، اپنے تمام وسائل اس مسئلہ میں استعمال کرلئے کہ خلافت کو اس کے حقیقی اور واقعی محور و مرکز سے ہٹا کر دوسری جگہ لیجائیں اور اس کو اصلی لباس سے برهنہ کرکے اس لباس میں پیش کریں جو باطل کا خود بافتہ و ساختہ ہے، لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے، آج بھی سنیوں کی اصلی اورمدر ک کی کتاب صحیح بخاری ، صحیح مسلم کے مختلف ابواب اسی طرح مسلمانوں کی دیگرمعتبر کتابوں میں ایسی ایسی روایات موجود ہیں جن سے صحیح واقعیات و حقائق اور حضرت علی اور بقیہ آئمہ علیھم السلام کی خلافت ِ بلا فصل کا اثبات ہوتاہے جو شیعوں کا عیں ہ ہے ،البتہ صحیحین کے مولفین نے کافی کوشش کی ہے کہ ایسی کوئی حدیث نقل نہ کریں جس سے حضرت امیرالمومنینعليه‌السلام کی خلافت کا اثبات ہوسکے،مگر:

” وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کر ے ‘ ‘

چنانچہ آئندہ فصلوں میں پھلے ہم ان احادیث کو ذکر کر یں گے جو اہل بیتعليه‌السلام کی فضیلت کے سلسلے میں صحیح بخاری ا ور صحیح مسلم میں منقول ہیں ،اس کے بعد صحیحین میں نقل کردہ روایات کے مضمون کے مطابق خلفاء کا تعارف پیش کریں گے۔

۱ ۔ خاندان رسالت کے فضائل صحیحین کی روشنی میں

۱ ۔ آیت تطھیراوراہل بیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۱ ۔”قالت عائشة:خرج النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غداة وعلیه مرط مرحل من شعراسود، فجاء الحسن ابن علی،فادخله،ثم جاء الحسین،فدخل معه،ثم جااٴت فاطمة سلام الله علیهافادخلها،ثم جاء علی،فادخله،ثم قال: ( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهل الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطَهِیْرًا ) ( ۱۱ )

حضرت عائشہ کھتی ہیں :

ایک مرتبہ حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بوقت صبح گھر سے اس حا لت میں خارج ہوئے کہ آپ کالی چادر اوڑھے ہوئے تھے ، اسی هنگام حضرت امام حسن ابن علیعليه‌السلام آپ کے پاس تشریف لائے، آپ نے شہزادے کو زیرچادر داخل کرلیا ،اس کے بعد حضرت امام حسینعليه‌السلام آئے ، وہ بھی زیر چادر آپ کے ساتھ داخل ہو گئے ،اس کے بعد حضرت فاطمہ زھراعليه‌السلام تشریف لائیں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو بھی زیر چادر داخل کرلیا، اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں بھی زیر چادر بلا لیا، اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهل الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطَهِیْرًا ) ( ۱۲ )

اور اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہل بیت نبی! تم کو پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے اورھر رجس و خباثت سے دور رکھے۔

مذکورہ حدیث مسلم کے علاوہ اہل سنت کی کتب تفاسیر و احادیث میں تواترکے ساتھ نقل کی گئی ہے، جیسا کہ ہم نے بحث”رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداازنظرآیات و احادیث“ میں اس جانب اشارہ کیا تھا ۔

بھر کیف اس آیت کے رسول وآل رسول علیهم السلام کی شان میں نازل ہونے کے بارے کوئی شک وشبہ نہیں چنانچہ جلد اول میں ہم نے اس آیت کے ذیل میں سنیوں کے بعض مدارک کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی جگھاس نکتہ کو بیان کیا کہ اس آیت کے ذریعہ خدا ومند متعال نے اہل بیتعليه‌السلام کو ھر گناہ سے پاک رکھنے کی ضمانت لی ہے اور آپ کو معصوم قرار دیا ہے اور یہ کہ آ یت ِ تطھیر اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اہلبیتعليه‌السلام کبھی سہواً بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ سھو و نسیان حکم تکلیفی(عقاب) کو تو برطر ف کر سکتے ہیں لیکن رجس اور حرمت کے ا ثر وضعی اوراس کی ذاتی نجاست کو مرتفع نہیں کر سکتے۔

۲ ۔ اہل بیت علیهم السلام اور آیہ مباہلہ

۲,,…عن عامر بن سعدبن وقاص عن ابیه؛قال:امرمعاویة بن ابی سفیان سعداً:فقال:ما منعک ان تسب ابا تراب؟فقال:اماما ذکرت ثلاثاً قالهن له رسول اللّٰه ،فلن اسبه،لان تکون لی واحده منهن احب الی من حمر النعم ، سمعت رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول له خلفه فی بعض مغازیه،فقال علی:یارسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !خلفتنی مع النساء والصبیان؟فقال له رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :” اَمَاْ تَرَضیٰ َانْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هَاْرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّااَنَّه ُلَانَبُوَّةَ بَعْدِیْ“وسمعته یقول یوم خیبر:” لاعطین الرایة رجلاًیحب اللّٰه ورسوله و یحبه اللّٰه ورسوله“قال فتطاولنا لها،فقال:ادعوا لی علیا،فاتی به ارمد، فبصق فی عینه،ودفع الرایة الیه، ففتح اللّٰه علیه،ولما نزلت هذه الآیه: … ( فَقُلْ تَعَاْلَوْا نَدْعُ اٴَبَنآئَنَاْ واٴَبَنآئَکُم ) ( ۱۳ ) دعیٰ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه عَلِیاًّ،وفاطمة،وحسناوحسینا،ً فقال:اَللّٰهُم َّهٰولآءِ اَهلی“ ( ۱۴ )

ایک روز معاویہ ابن ابی سفیان نے سعد بن ابی وقاص سے کھا: تجھے کس چیز نے روکا ہے کہ ابو تراب (علیعليه‌السلام ) کو گالی نہیں دیتا؟!“ سعد بن ابی وقاص نے کھا : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایسی تین فضیلتیں بیان کی ہیں جب بھی وہ فضیلتیں مجھے یاد آجاتی ہیں تو میں گالی دینے سے باز رھتا ہوںاور اگر ان میں سے ایک فضیلت بھی میں رکھتا ہوتا تو میرے لئے وہ سرخ اونٹوں سے بھتر ہوتی اور وہ تین فضیلتیں یہ ہیں :

۱ ۔ حضرت علیعليه‌السلام ھارون امت محمدیہ :ایک مرتبہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ایک جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے تو حضرت علی علیہ السلام کومدینہ میں اپنا جانشین مقرر فرمایا، اس وقت حضرت علیعليه‌السلام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ؟ اس وقت میں نے اپنے دونوں کانوں سے سنا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:” اے علیعليه‌السلام !کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تمھاری منزلت میرے نزدیک وھی ہے جو موسیعليه‌السلام کے نزدیک ھارونعليه‌السلام کی تھی ،بس فرق اتنا ہے کہ تم میرے بعد پیغمبرنھیں ہو لیکن ھارونعليه‌السلام ، موسیٰعليه‌السلام کے بعد پیغمبر تھے“۔

۲ ۔ مردِ میدان خیبر:اسی طرح جنگ خیبر کے روز میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

”کل میں یہ َعلم اس شخص کو دوں گا جو مرد ہوگااور اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہوگا اور اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔“

سعد ابن ابی وقاص معاویہ سے کھتے ہیں :ھم سب لوگ اس دن اس َعلم کی تمنا رکھتے تھے، لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا: علیعليه‌السلام کو میرے پاس بلاو !حضرت علی علیہ السلام کو آپ کے پا س اس حال میں لایا گیا کہ آپعليه‌السلام کی آنکھیں درد میں مبتلا تھیں ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دهن علیعليه‌السلام کی آنکھوں میں لگایا اور علم دے دیا، چنانچہ خدا نے حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھوں جنگ خیبر میں اسلام کو کامیابی عطا فرمائی ۔

۳ ۔ مصداق آیہ مبا ھلہ: جو میں نے دهن ِرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنی وہ یہ ہے کہ جب آیہ مباہلہ( فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ اَبنَائَنَاوَاَبنَائَکُمْ ) نازل ہوئی تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، فاطمہ ، حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں ۔

۳ ۔ حدیث غد یر اور اہل بیت علیهم السلام

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةَوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیه، قال له حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، راٴیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، وسمعت حدیثه،وغزوت معه،و صلیت خلفه، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! م ا سمعت من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال یابن اخی:واللّٰه لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عهدی،و نسیت بعض الذی اٴعِی من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا،فلاتکلفونیهثم قال:قام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یوما فینا خطیباًبِماءٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰه َو اَثْنیٰ علیه و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ:الَاَ یا ایها الناس! فانما انا بشر یوشک ان یاٴتِیَ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِکٌ فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُهُماَ کتاَبُ اللّٰه ،فِیْهِ الهُدیٰ وَ النُّورِ، فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ به، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰه وَ رَغَّبَ فِیْهِ، ثم قاَلَ: وَ اَهل بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فی اَهل بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰه فیِ اَهل بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰه فِی اَهل بَیْتی ثلَاَثاٌ،فقال له حصین :و من اهل بیته؟ یازید !اٴَلَیس نسائُه من اهل بیته؟ قال: نسائه من اهل بیته، و لکن اهل بیته من حُرِم الصّدقة بعده ،قال :و من هم؟ قال: هم آلُ عَلی،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل هٰولاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم…“

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کھتے ہیں :

ایک مرتبہ میں و حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:

”اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ہے کیو نکہ تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے لطف اندوز ہوچکاہے، تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی اس طرح تو نے خیر کثیر کو حا صل کیا ہے لہٰذا جو تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کھتے ہیں : اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بھت کچھ کلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں فراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رھا ہوں اسے قبول کرلینااور جھاں سکوت کرلوں اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کھتے ہیں : ایک روز رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمائی: اے لوگو ! میں بھی تمھاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمھارے درمیان چھوڑے جا رھا ہوں، ان میں سے پھلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رھو اور اس سے بھرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیتعليه‌السلام ہیں اور میرے اہل بیتعليه‌السلام کے بارے میں خد ا سے خوف کرنااور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا)زید نے جب حدیث تمام کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں ؟

زید ابن ارقم نے کھا: ھاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیتعليه‌السلام میں ہیں مگر ان اہل بیتعليه‌السلام میں نہیں جن کی سفارش رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمارہے ہیں ، بلکہ یہ وہ اہل بیتعليه‌السلام ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟زید بن ارقم نے کھا :وہ اولاد علیعليه‌السلام ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں !حصین نے کھا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کھا ھاں۔( ۱۵ )

عرض مولف

اس حدیث کو مسلم نے متعددسندوں کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حا لانکہ حدیث غدیر کے سیکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم بھی ہیں جو یہ کھتے تھے :

اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علیعليه‌السلام کا ھاتھ پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علیعليه‌السلام اس کے مولا و آقا ہیں ، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ۔( ۱۶ )

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیده کے لحا ظ سے اہل بیتعليه‌السلام کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حا لانکہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیتعليه‌السلام سے مراد آیہ تطھیر اور آیہ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا ہے،جیساکہ آپ نے آیہ تطھیر کی شان ِ نزول کے ذیل میں گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ۔

شدیدتعصب کی عینک

واقعہ غدیر خم اور حدیث ثقلین ان موضوعات و واقعات میں سے ہیں جن کو علمائے اہل سنت نے اپنی معتبر اور بنیادی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے،سینکڑوں کتب تاریخ وحدیث اور تفسیر میں علمائے اہل سنت نے ان واقعات اور روا یات کودسیوں سند کے ساتھ قلمنبد فرمایا ہے، لیکن امام بخاری اور مسلم کی کوتاہ نظری یہ ہے کہ (جیسا کہ ہم نے جلد اول میں بیان کیا) آپ حضرات نے اپنی آنکھوں پر ایسی تعصب کی عینک لگائی کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی بنیادی اور روز روشن کی طرح واضح و آشکار فضائل جیسے حدیث ِغدیرخم ، وحدیث ِ ثقلین وغیرہ نظر نہ آئے !! چنانچہ جو حدیث صحیح مسلم میں آئی ہے اس میں مسلم نے تاریخ اسلام کے مشہور واقعہ غدیر کے بعض حصے توڑ مروڑ کر ذکر کئے ہیں ۔

مناسب ہے کہ ہم اس جگہ عالم اہل سنت امام غزالی ابوحا مد کے قول کو نقل کردیں جو ہماری گفتگو سے مربوط ہے ،آپ فرماتے ہیں :

اہل سنت کے اکثر علماء نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قول کو نقل کیا ہے جسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میدان غدیر میں صحا بہ کے جم غفیر کے درمیان ارشاد فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاَهُ فَهٰذَاْ عَلِیٌ مَوْلَاهُ

اس کے بعد تحریر کرتے ہیں :

بنی کے اس جملے کے بعد حضرت عمر اٹھے اور فرمایا:

بخ بخ لک یا امیرالمو منین اصبحت مولای و مولا کل مومن و مو منة

مبارک ہو مبارک ہو اے مومنوں کے امیر( علیعليه‌السلام ) آج آپ میرے اور تمام مومنین مرد وعورت کے مولا بن گئے ۔

امام غزالی فرماتے ہیں :

اس جملہ کا مفہوم حضرت عمر کا علیعليه‌السلام کو حا کم مانتے ہوئے ان کی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے،لیکن بعد میں حب ِ ریاست اور پر چم ِ خلافت کے اٹھا نے کے شوق نے ان کو آلیا اور لشکر کشی اورفتوحا ت کی حرص نے کاسہ ہوا وہوس کو ان کے ھاتھوں میں تھمادیااور اس طرح یہ اسلام سے منحرف ہوکر زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ گئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جو عھد و پیمان (غدیر میں )کیا تھا،اس کو فراموش کر کے قلیل قیمت میں فروخت کردیا یہ کتنا بر ا سودا ہے:

< ( فبئس ما یشترون ) >”ثم بعد هٰذا غلب الهوی لحب الریاسة و حمل الخلافة ، عقود البنود وخفقان الهوی( ۱۷ )

۴ ۔ اہل بیتعليه‌السلام ”صلوات“ میں شریک ِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

اہل سنت کی متعدد کتابوں میں نقل کیا گیا ہے کہ حضرت رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مسلمانوں کو حکم فرمایا ہے: جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجی جائے تو آپ کے اہل بیت علیھم السلا م کو بھی صلوات میں ضرور شریک کیا جائے ،یعنی تنھا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجنا صحیح نہ ہوگا ،جب تک کہ آپ کے اہل بیتعليه‌السلام پر صلوات نہ بھیجی جائے گی،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقام نبوت کی تعظیم وتکریم کے ساتھ ساتھ اہل بیتعليه‌السلام ِعصمت و طھارت کی بھی تعظیم وتکریم لازم ہے اوراس معاملہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اور آپ کے خاندان کے درمیان کسی بھی طرح کا فاصلہ کرنا صحیح نہیں ہے ، چنانچہ کتب اہل سنت میں ایسی بھت ساری روایات موجود ہیں ،لیکن ہم صرف صحیحین سے چند نمونے پیش کر تے ہیں :

۱ ,,…حدثنا الحکم ؛قال: سمعت عبد الرحمٰن بن ابی لیلی؛ ٰقال: لقینی کعب بن عجرة فقال:الااهدی لک هدیة ً؟ان النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خرج علینا فقلنا، یا رسول الله ! لقد علمنا کیف نسلم علیک،فکیف نصلی علیک ؟ فقالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : قولوا!”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاهِیْمَ، اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْهِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ “

حکم نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے نقل کیا ہے :

( ایک دن) کعب ابن عجرہ سے میری( عبد الرحمٰن ابن ابی لیلیٰ) ملاقات ہو ئی، تو اس نے مجھ سے کھا : کیا تو چاہتا ہے کہ تجھے ایک تحفہ پیش کروں؟وہ تحفہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ہمارے درمیان تشریف لائے، ہم لوگوں نے سلام کیا اور پوچھا:یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ھم نے آپ پر سلام کرنا تو سمجھ لیا !مگر صلوات کس طرح بھیجی جائے؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں فرمایا:

” اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاهِیْمَ،اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَاْرِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَاْ بَاْرَکْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْهِیْم،َ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ“

” اے میرے معبود !رحمت نازل کر محمد وآل محمد پر،جس طرح تو نے رحمت نازل کی ابراہیم کی آل پر،بےشک تو بزرگ اور قابل حمد ہے، اے میرے معبود!اپنی برکت نازل فرما محمد وآل محمد پر، جس طرح تونے ابراہیم کی آل پر نازل کی ،بےشک تو صاحب مجد اور لائق تعریف ہے۔“( ۱۸ )

۲ ,,… عن ابی مسعود الانصاری؛قال: اٴَتانارسول الله ،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ونحن فی مجلس سعد بن عبادة ،فقال له بشر بن سعد،امرنا الله عزّوجلّ ان نصلی علیک یارسول الله !صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:فسکت رسول الله ،حتی تمنینا انه لم یسئله،ثم قال رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : قولوا: اَللّٰهمَّ صَلّ علی محمد وعلی آل محمد ،کما صلیت علی آل ابراهیم،وبارک علیٰ محمدوعلیٰ آل محمد،کما بارکت علیٰ آل ابراهیم فی العالمین،انک حمید مجید ،والسلام کما علمتم“

مسلم نے ابومسعود انصاری سے نقل کیا ہیکہ ابومسعود کھتے ہیں :

ھم سعد بن عبادہ کی نشست میں بیٹھے تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشریف لائے ،تو بشر بن سعد نے کھا : یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ھم کو خدا نے آپ پر صلوات بھیجنے کا دستور دیا ہے، مگر ہم کس طرح صلوات بھیجیں ؟

ابو مسعود کھتے ہیں :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وقت سکوت فرمایااور اتنی دیر ساکت رہے کہ ہم نے کھا : کا ش بشریہ سوال نہ کرتا،اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: صلوات اس طرح بھیجو :

” اللّٰهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ کَمَاْ صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْهِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍوَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ آلِ اِبْرَاهِیْمَ فِیْ العَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ“

اور سلام اسی طرح بھیجو جو تم جانتے ہو۔( ۱۹ )

عرض مولف

اہل سنت کی کتب صحا ح و مسانیداور تواریخ و تفاسیرمیں دسیوں حدیثیں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجنے کے طریقہ کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اوران سب میں جامع ترین تفسیر، دُرِّ منثور (سورہ احزاب کی تفسیر میں ) ہے۔

لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھیں بند ہونے کے بعد حکومت اور جاہ طلبی نے اس قدر مسلمانوں کو اندھا کردیا کہ جتنا ہو سکتا تھا اہل بیتعليه‌السلام کے فضائل کو چھپایا جانے لگا !چنانچہ صلوات میں بھی دھیرے دھیرے اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام کو حذف کرکے، صرف رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ناقص اور دم بریدہ صلوات بھیجنے پراکتفاء کرنے لگے ،حا لانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے ایسی صلوات بھیجنے سے بارھا منع فرمایا تھا، مگر افسو س آج بھی مسلمانوں کی یھی سیرت ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دم بریدہ صلوات بھیج کر دشمنی اہل بیتعليه‌السلام کاکھلم کھلا ثبوت دے رہے ہیں ، جب کہ علمائے اہل سنت کی آنکھوں کے سامنے آج بھی یہ حدیثیں موجود ہیں ، بلکہ خود یہ لوگ ان حدیثوں کو نقل بھی کرتے ہیں ، لیکن عملی میدان میں اپنی گفتگو اور تحریروں کے اندر ان احادیث کے مضمون اور حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صریحا مخالفت کرتے ہوئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجنے کے بارے میں اپنے اباواجداد کی سنت پر عمل کرتے ہیں !لہٰذا اس جگہ دقت کرنے سے ہماری سمجہمیں صرف ایک ہی چیز آتی ہے اوروہ ہے اپنے آباو اجداد کی طرحا ھل بیتعليه‌السلام کے بارے میں شدید تعصب میں مبتلا ہونا!

( <وَاِذَاْ قِیْلَ لَهُمُ اْتَّبِعُوْا مَاْ اَنْزَلَ الله قَاْلُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاْ وَجَدْنَاْ عَلَیْهِ آبا ئَنَاْ اَوَ لَوْکَاْنَ الشَّیْطَاْنُ یَدْعُوْهُمْ ِالیٰ عَذَاْبِ السَّعِیْرِ> ) ( ۲۰ )

” اور جب ان سے کھا جاتا ہے :جو کتاب خدا نے نازل کی ہے اس کی پیروی کرو ،تو وہ (چھوٹتے ہی یہ) کھتے ہیں : نہیں ہم تو اسی طریقہ پر چلیں گے جس پر ہم نے باپ داداؤں کو پایا، بھلا اگرچہ شیطان ان کے باپ داداؤں کو جهنم کے عذاب کی طرف بلاتارھا ہو، تو پھر کیا وہ ان کی پیروی کریں گے۔“

۵ ۔ کتب اہل سنت میں بارہ اماموں کا ذکر

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں بارہ اما م خصوصاً امام مھدی ارواحنا لہ الفداء (عج) کے اوصاف کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں،یھاں تک کہ ان احادیث کی وجہ سے بعض علمائے اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں آخری امام کیلئے ایک مستقل فصل قرار دی ہے اور بعض نے امام عصرعليه‌السلام کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں،لیکن فی الحال ہم صحیحین سے اس بارے میں نقل شدہ روایات پیش کر نے پر اکتفا ء کرتے ہیں :

۱,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرة ؛قال: سمعت النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعها،فقال ابی: انه قال: کلهم من قریش( ۲۱ )

عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:

میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا : آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کھتے ہیں : دوسرا کلمہ میں نے ٹھیک سے نہیں سنا جس میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا: وہ جملہ جو تم نے نہیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔

مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آ یا ہے:

”…جابر بن سمرة؛ قال:انطلقتُ الی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ومعی ابی، فسمعته، یقول: لایَزَالُ هذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْهَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلهم من قریش( ۲۲ )

جابر بن سمرہ کھتے ہیں :

ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مشرف ہوا تو میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا :آپ فرما رہے تھے: یہ دین الہٰی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رہے گا،اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حا ئل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا:یہ تمام بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔

عرض مولف

اس حدیث کومختلف مضامین کے ساتھ اہل سنت کی اہم کتابوں میں کثرت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے اور یہ حدیث مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے بطلان اور مذھب شیعہ کے حق ہونے پر ایک محکم و مضبوط دلیل ہے، اس لئے کہ اس حدیث کا مضمون مذھب شیعہ کے علاوہ کسی اور فرقہ اسلامی کے رهنماؤں سے منطبق نہیں ہوتا،کیونکہ اہل سنت خلفائے راشدین (جو چار ہیں ) کے قائل ہیں ، یا پھر امام حسن مجتبیعليه‌السلام کی خلافت کو ملا دیں توپانچ ہوتے ہیں ، لیکن حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہ فرمائے ہیں ، لہٰذا ان کے مذھب سے یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی اور اگر خلفائے بنی امیہ و بنی عباس کو ملایا جائے توسب سے پھلے یہ کہ ان کی تعداد بارہ سے زیادہ ہوتی ہے۔دوسرے یہ کہ ان میں سے اکثرخلفاء اہل فسق و فجور تھے، انھوں نے اپنی ساری عمر گناہوں ،قتل، غارتگری و خونریزی ، شراب نوشی اور زناکاری میں گزاری لہٰذا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو کیسے اپنا جانشین قرار دے سکتے ہیں ؟! پھرجس طرح یہ حدیث اہل سنت حضرات کے خلفاء کی تعداد سے منطبق نہیں ہوتی اسی طرح فرقہ زیدیہ،اسماعیلیہ ، فطحیہ، سے بھی منطبق نہیں ہوتی ،کیونکہ ان کے مذھب کے خلفاء کی تعداد ۱۲ سے کم ہے، لہٰذا صرف شیعہ اثنا عشریہ کے خلفاء کی تعداد سے منطبق ہوتی ہے، ان میں سر فھرست مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور آخر حضرت مھدی حجة ابن الحسن العسکری (عج) ارواحنا لہ الفداء ہیں ۔

۲ … جابر بن عبدالله وابوسعید قالا: قال رسول الله :یکون فی آخر الزمان خلیفة یقسم المال ولا یعده ۔( ۲۳ )

جابر بن عبد اللہ اور ابوسعید نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے :

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں میرا ایک جانشین و امام ہوگا جو مال و ثروت کو( ناپ و تول کے ساتھ ) تقسیم کرے گا نہ کہ گنے گا۔

۳ … عن ابی سعید؛ قال: قال رسول الله : من خلفاء کم خلیفة یحشو المال حشیاً ولا یعده عداً ۔( ۲۴ )

ابو سعید نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوسری حدیث نقل کی ہے ؛ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمھار ے خلفاء اور ائمہ میں سے ایک خلیفہ و امام وہ ہوگا جو مال کو مٹھی سے تقسیم کرے گا نہ کہ عدد و شمار سے۔

امام زمانہ (عج) کے بارے میں فاضل نَوَوی شارح صحیح مسلم؛ مذکور ہ حدیث کی لغت حل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

سونا اور چاندی کی اس قسم کی تقسیم ک ا سبب یہ ہے کہ اس وقت ان حضرتعليه‌السلام کی وجہ سے کثرت سے فتوحا ت ہوں گی جن سے غنائم اورمال وثروت فراوانی سے حا صل ہوگا اور آپ اس وقت اپنی سخاوت اور بے نیاز ی کا اس طرح مظاہرہ فرمائیں گے، اس کے بعد کھتے ہیں : سنن ترمذی و ابی واؤد میں ایک حدیث کے ضمن میں اس خلیفہ کا نام (مھدی) مرقوم ہے، اس کے بعد اس حدیث کو سنن ترمذ ی سے نقل کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :قیامت واقع نہیں ہوگی جب تک میرے اہل بیت ( خاندان )سے میرا ہمنام، جانشین ظاہر ہو کر عرب پر مسلط نہ ہو جائے۔

اس کے بعد نووی کھتے ہیں :

ترمذی نے اس حدیث کو صحیح جانا ہے اور سنن داود میں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی تحریر ہے : ” وہ خلیفہ اس زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔“

۴ ۔ امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ہیکہ آنحضرت نے فرمایا:

”کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ اِبنُ مَرْیَم فِیکُم وَاِمامُکم مِنْکُمْ( ۲۵ )

تمھارا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب ابن مریم حضرت عیسی تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور تمھارا امام تم میں سے ہوگا؟

ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام شافعی اپنی کتاب ”المناقب“ میں تحریر کرتے ہیں :

اس امت میں امام مھدیعليه‌السلام کا وجود اور آپ کا حضرت عیسیعليه‌السلام کو نماز پڑھانا حد تواتر کے طور پر ثابت ہے۔( ۲۶ )

ابن حجر اس کے بعد کھتے ہیں :

بدر الدین عینی اس حدیث کی مفصل شرح کرنے کے بعد اس طرح نتیجہ گیری کرتے ہیں :

”حضرت عیسیعليه‌السلام کا اس امت مسلمہ کے امام مھدیعليه‌السلام کے پیچھے قیامت سے نزدیک آخری زمانہ میں نماز پڑھنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ قائل ہیں کہ زمین کبھی حجت خد ا سے خالی نہیں ، وہ درست ہے اور ان کا یہ عقیده حق بجانب ہے۔“( ۲۷ )

اور امام نووی”کتاب تہذیب الاسماء“ میں کلمہ عیسیٰ کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں:

” حضرت عیسیٰعليه‌السلام کا آخری زمانہ میں امام مھدیعليه‌السلام کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے آنا اسلام کی تائید اور تصدیق کی خاطر ہے ،نہ کہ اپنی نبوت اور مسیحت کو بیان کرنے کے لئے اور خدا وند متعال حضرت عیسیٰعليه‌السلام کو امام مھدیعليه‌السلام کے پیچھے نماز پڑھواکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کے احترام میں اس امت اسلام کو قابل افتخار بنانا چاہتا ہے۔“( ۲۸ )

قارئین محترم! یہ تھی چند حدیثیں جوصحیحین میں وارد ہوئی ہیں ،جن سے بعض عقیدہ تشیع کی تائیدہوتی ہے،لیکن مذکورہ مطالب کو صحیح بخاری اورصحیح مسلم کے بعض متعصب شا رحین اور عصر حا ضر کے چند نام نھاد سنی مصنفین ہضم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں (اورنہ جانے کیوں ان مطالب کی بنا پر عارضہ شکم ِ درد میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں!)اور بجائے اس کے کہ یہ لوگ ان حدیثوں کے مفہوم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے،انھوں نے ایسی ایسی الٹی،سیدھی،ضد و نقیض اور غیر قابل ِ قبول توجیھات و تاویلات نقل کی ہیں جو صریحا عقل و نقل کے خلاف ہیں ۔

چنانچہ عصرحا ضر کے بعض محققین جب ان توجیھات کے فساد کی طرف متوجہ ہو ئے تو انھوں نے سرے سے مذکورہ حدیثوں کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایک دوسرا راستہ اپنایا! مثلاً شیخ محمود ابوریہ اپنی کتاب میں اس حدیث کی شرح کرنے سے گریز کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں :

”یہ روایات مشکل ترین حدیثوں میں سے ہیں،جن کا سمجھنا بھت دشوار ہے، بلکہ اس کے واقعی مفہوم کو درک کرنا ہمارے امکان میں ہے ہی نھیں، لہٰذا ان حدیثوں کی تشریح کے بجائے ہمیں اپنا گرانقدروقت اور اپنی قیمتی عمر دوسرے مفیدعلمی مطالب میں صرف کر نی چاہیئے۔‘ ‘( ۲۹ )

عرض مولف

جی ھاں!جو احادیث ان کے عقیده کے خلاف ہوتی ہیں، وہ ان کے نزدیک قابل ِ بحث و تمحیث اور لائق تشریح و تو ضیح نہیں ہوا کرتیں!!ان کا واقعی مفہوم درک(ہضم ) کرنا ان کے بس میں نہیں ہوتا!!حقائق بیان کرنے سے یونھی جان چرائی جاتی ہے ،اللہ بچائے ایسے ناحق شناسوں سے ۔

۲ ۔ فضا ئل علی علیہ السَّلام صحیحین کی روشنی میں

ابھی تک ہم نے اہل بیت علیھم السلام اور بارہ اماموں کے فضائل کے بارے میں بطور عموم صحیحین سے روایات آپ کی خدمت میں نقل کیں ہیں اب ہم فرداً فرداً اہل بیت کے فضائل میں صحیحین سے روایات نقل کرتے ہیں،چنانچہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل سے شروع کرکے حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا پھر حسنین علیھما السلام کے مشترکہ فضائل ذکر کریں گے، اس کے بعد ان میں سے ھرایک کے علیٰحدہ فضائل بیان کریں گے ۔

پھلی فضیلت: د شمنانِ علی دشمنانِ خد ا ہیں

۱ ۔,,عن ابی ذرقال نزلت الآیة:< ( هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّهِمْ ) >(۳۰) فی ستة مِن قر یشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بنِ الحا رث،و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة( ۳۱ )

ابوذر کھتے ہیں :

یہ آیت( هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّهِ ) دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں آپس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ آیت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی علیعليه‌السلام ، حمزہعليه‌السلام ، عبیدہ بن حا رث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے لڑے اور عتبہ ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لئے لڑے۔

۲,,… قیس بن عباد عن علی عليه‌السلام ؛ فینا نزلت هٰذه الآیة:< ( هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّهِمْ ) ۔( ۳۲ )

قیس بن عباد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :

آیہ( هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّهِمْ ) ہماری شان میں نازل ہوئی ۔

دوسری فضیلت : حضرت علیعليه‌السلام کی محبت ایمان کی پہچان اور آپ کی دشمنی نفاق کی علامت ہے

۳ ,,…عن عدی بن ثابت عن زر؛قال: قال علیعليه‌السلام : والَّذی فلق الحبة و بریٴ النسمةانه لعهد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الا می الی، اَنْ لَایُحِبَّنِی اِلَّا مُومِنٌ وَلاَیَبْغِضُنِی اِلَّا مُنَافِقٌ“

عدی بن ثابت زر سے نقل کرتے ہیں :

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : قسم اس ذات وحدہ لاشریک کی جس نے دانہ کو شگافتہ اور مخلوق کو پیدا کیا کہ یہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مجھ سے عھد و پیمان ہے کہ مجھے دوست نہیں رکھے گ ا سوائے مومن کے اور مجھ سے دشمنی نہیں کرے گ ا سوائے منافق کے۔( ۳۳ )

تیسری فضیلت :علیعليه‌السلام کی نماز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نماز ہے

…”عن مُطَرِّف بن عبدالله عن عمران بن حصین؛قال:صلی مع علی علیه السلام بالبصرة،فقال:ذکرناهذا الرجل صلٰوة نصلیهامع رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فذکرانه کان یکبرکلمارفع ،وکلماوضع“ ( ۳۴ )

مطرف بن عبد اللہ کھتے ہیں :

ایک مرتبہ عمران بن حُصَین نے بصرہ میں حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کهنے لگے : آج تو میں نے وہ نماز پڑھی ہیجو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایسے ہی رکوع و سجود نشست و برخواست میں تکبیر کھا کرتے تھے۔

چوتھی فضیلت:رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاحضرت علیعليه‌السلام کو ابو تراب کالقب دینا

”… عن ابی حا زم؛ ان رجلاً جاء الی سهل بن سعد، فقال: هٰذا فلان (امیرالمدینة) یدعوعلیاً عند المنبر، قال : فیقول: ماذا قال؟یقول له ابو تراب، فضحک، قال:والله ما سماه الا النبی، وما کان له اسم احب الیه منه ۔( ۳۵ )

ابو حا زم کھتے ہیں :

ایک مرد سھل ابن سعد کے پاس آیا اورکهنے لگا: فلاں شخص (ا میر مدینہ)رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر کے پاس حضرت علیعليه‌السلام کو برا بھلا کھتا ہے، سھل بن سعد نے اس سے پوچھا : وہ کیا کھتا ہے؟ اس نے کھا : علی کو ابوتراب کھتا ہے، سھل یہ سن کر مسکرائے اور کهنے لگے : قسم بخدا یہ نام اور لقب انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سوا کسی نے نہیں دیا اور حضرت علی علیہ السلام اس لقب کو دیگر تمام لقبوں سے زیادہ پسند کرتے ہیں ۔

عرض مولف جیساکہ متن حدیث میں آیا ہے کہ لقب ِ ابو تراب وہ لقب تھا جس سے امیرالمو منینعليه‌السلام خوش ہوتے اور اس پر افتخار کرتے تھے،لیکن دشمنان علیعليه‌السلام کو یہ لقب بھی گراں گزرا ،لہٰذا چونکہ اس سے انکار نہیں کرسکتے تھے اس لئے انھوں نے اس میں ایسی تحریف کردی کہ حضرت امیر لمومنینعليه‌السلام عليه‌السلام کی اس لقب سے فضیلت ظاہر نہیں ہوتی،چنانچہ اس لقب کے عطا کرنے کے بارے میں انھوں نے ایسی روایات جعل کیں جن سے امام المتقین حضرت امیرعليه‌السلام کی منقصت ظاہر ہو تی ہے، انشاء الله جلد سوم میں ہم اس حدیث کے اور ان دیگر احادیث پر جن سے مولا علیعليه‌السلام کی قدح ظاہر ہوتی ہے، کے اسبابِ جعل پر اگر خدا نے توفیق عنایت کی تو بحث کریں گے ۔

پانچویں فضیلت : علیعليه‌السلام سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا تھے

امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:

حضرت عمر نے کھا: حضرت علیعليه‌السلام ہم میں سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا ہیں ۔”وَاَقْضَاْنَاْعَلِیٌّ( ۳۶ )

عرض مولف

خلیفہ دوم کا اعتراف خود اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے بارھا اس جملہ کو لوگوں کے سامنے فرمایا تھا کہ علیعليه‌السلام اصحا ب میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں اور کبھی آپ فرماتے تھے کہ علیعليه‌السلام اس امت میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں ۔( ۳۷ )

بھر حال قابل توجہ نکتہ یھاں پر یہ ہے کہ مسئلہ قضاوت میں تقواو پرھیزگاری کے علاوہ وسیع معلومات اور کافی آگاہی کاہو نا ضروری ہے اورجب تک ان علو م سے آشنا نہیں ہو سکتا قضاوت کرنا نا ممکن امر ہے ، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا بقول مرسل اعظم علم قضاوت میں سب سے زیادہ آشنا ہونا اس بات کی دلیل ہے آپعليه‌السلام سب سے زیادہ علم و آگاہی رکھتے تھے، گویا ”اَقْضَاہم “ کا جملہ ” اَعْلَمُھُمْ“ او ر ”اَتَقَاْہُمْ “ وغیرہ کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔

چھٹی فضیلت : علیعليه‌السلام خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتے تھے اور خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کو

”… عن سهل بن سعد؛ قال: قال النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : یوم خیبر” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَ یُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ “ فبات الناس لیلتهم ایهم یُعطٰی؟ فغدَوْا کلهم یرجوه فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : این علی عليه‌السلام ؟ فقیل :یشتکی عینیه، فبصق فی عینیه ،ودعی له، فبرء کاٴن لم یکن به وجع،فاعطاه، فقال عليه‌السلام : اٴُقاتلهم حتی یکونوا مثلنا ؟ فقال: انفذ علی رِسْلِکَ حتیٰ تَنْزِلَ بِساحَتِهم، ثم ادعهم علی الاسلام، واخبرهم بما یجب علیهم ،فوالله لِاٴَن یهدی الله بک رجلا،خیرٌ لک من ان یکون لک حمر النعم ۔( ۳۸ )

سھل بن سعد نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے:

”رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نیجنگ خیبر کے دن یہ ارشاد فرمایا:

” لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ وَ یُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ “

کل میں ایسے مرد کو علم دوں گا جو اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہو اور اللہ و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسے دوست رکھتے ہوں۔ سھل کھتے ہیں: اس شب تمام لشکر اسلام کو چین کی نیند نہ آئی، کیونکہ ھر شخص اسی انتظارمیں تھا کہ کل مجھے علم اسلام مل جائے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا : علی( علیہ السلام) کھاں ہیں ؟

لوگوں نے کھا: ان کی آنکھوں میں درد ہے( آپ نے مولا علیعليه‌السلام کو طلب فرما کر) آپ کی آنکھوں میں لعاب دهن لگادیا اور دعا فرمائی:( اے اللہ علیعليه‌السلام کو شفا یاب فرما دے)رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعا کے نتیجہ میں آپعليه‌السلام کی آنکھیں ایسی ٹھیک ہوگئیں جیسے کہ آپ کی آنکھوں میں درد ہی نہ تھا چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علم اسلام کو آپ کے ھاتھوں میں دے دیا، آپعليه‌السلام نے فرمایا: یا رسول اللہ!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کب تک جنگ کروں؟ کیا اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ ایمان وعمل میں ہماری جیسے نہ ہو جائیں ؟

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے علیعليه‌السلام !اس لشکر کفار کی طرف حرکت کرو ،او رانھیں دعوت اسلام دو، انھیں قوانین اسلام سے آگاہ کرو ،کیونکہ قسم بخدا اگر خدا نے تمھارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت فرمادی تو وہ تمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بھتر ہوگا۔

مسلم نے اس حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بھی نقل کیا ہے :

,,…عن ابی هریرة؛ان رسول الله قال یوم خیبر:” لَاُعْطِیَنَّ هٰذِ هِ الرَّایَةَ رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه یَفتح ا للّٰهُ عَلٰیَ یَدَیْه“ قال عمر بن الخطاب:مااحببت الامارة الایومئذٍ،فتساورت لهارجاء ان ادعی لها،فدعی رسول الله علی بن ابی طالب:فاعطاه ایاها،وقال امش ولاتلتفت حتی یفتح ا لله علیک،قال:فسارشیئاًثم وقف ولم یلتفت، فصرخ یارسول الله !علی ماذا اقاتل الناس؟قال:وقاتلهم حتی یشهدواان لاا لٰه الا الله و ان محمداًرسول الله،فاذافعلوا ذالک،فقدمنعوا منک دمائهم و اموالهم، الا بحقها وحسابهم علی الله “ ( ۳۹ )

ابو ھریرہ نقل کرتے ہیں :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بروز جنگ خیبر یہ ارشاد فرمایا:آج میں اسلام کا علم ایسے مرد کو دوں گا جو الله ا ور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہے اور الله اس کے دونوں ھاتھوں پہ فتحیابی بخشے گا،حضرت عمر کھتے ہیں : جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ اعلان کیا تو مجھے بھی علم لینے کا دوبارہ اشتیاق ہوا ،چنانچہ آپ کھاکرتے تھے: روز خیبر سے پھلے مجھے کبھی علم اسلام اٹھا نے کا شوق نہیں ہوا! لہٰذا جب میں نے یہ اعلان سنا تو میں بھی( رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دوڑ کر گیا اور) علم کے ارد گرد گھومنے لگا!اس امید میں کہ (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھے دیکھ لیں اور ) علم مل جائے لیکن (افسوس) یہ افتخار علیعليه‌السلام کو حا صل ہوااور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بلایا اور علم آپ کے ھاتھوں میں دینے کے بعد فرمایا : اے علیعليه‌السلام ! دشمن کی طرف حرت کرو تاکہ خدا تمھارے ھاتھوں کے ذریعہ اس قلعہ کو فتح کرے ۔

حضرت عمر کھتے ہیں : علیعليه‌السلام تھوڑی دور آگے بڑھے اور رک گئے، بغیر اس کے کہ اپنا چھرہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف گھماتے ، دریافت فرمایا: اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ان لوگوں سے کب تک جنگ کروں ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :اے علیعليه‌السلام ! جنگ کرو جب تلک کہ یہ لوگ خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرارنہ کرلیں اور جب ان دوباتوں کو یہ لوگ قبول کرلیں تو ان کا خون ومال محفوظ ہوجائے گا اور ان کا حساب پھر خدا کے اوپر ہے ۔

ساتویں فضیلت : حضرت علیعليه‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک وھی منزلت تھی جو ھارون کی موسیٰ کے نزدیک

,, … عن مصعب بن سعد عن ابیه؛ ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خرج الی تبوک واستخلف علیاً ،فقال:اٴ تخلفنی فی الصبیان والنساء؟قال رسول اللّٰه:”اَلاَ ترَضِیْ اَنْ َتکُوْنَ ِمنیِّ بِمَنْزِلَةِ هاَرُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ،اِلاَّ اَنهَّ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ“ ( ۴۰ )

مصعب بن سعد نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے:

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ تبوک کیلئے خارج ہوئے اور آپ نے علیعليه‌السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ،تو حضرت علی علیہ السلام نے دریافت کیا : یا رسول الله !آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑیجا رہے ہیں ؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیجواب میں ارشاد فرمایا: اے علیعليه‌السلام !تمھاری میرے نزدیک وھی منزلت ہیجو ھارونعليه‌السلام کی موسیعليه‌السلام کے نزدیک تھی بس فرق اتنا ہے کہ وہ موسیٰعليه‌السلام کے بعد نبی تھے اور تم میرے بعد نبی نہیں ہو ۔

عرض مولف

محتر م قارئین !مذکورہ حدیث شیعہ وسنی دونوں کے درمیان متفق علیہ ہے ، یھاں تک کہ آپ کے پکے دشمن معاویہ نے بھی اس حدیث سے انکار کرنے کی جرات نہیں کی ہے! اس حدیث میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے علیعليه‌السلام کو تما م چیزوں میں ھارون سے تشبیہ دی ہے اورصرف نبوت کو خارج کیا ہے یعنی ھارون اور علیعليه‌السلام کے درمیان صرف نبوت کا فرق ہے بقیہ تمام اوصاف،کمالات، منصب اور مقام میں باہم شریک ہیں ، کیو نکہ اگر فرق ہوتا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیجس طرح نبوت کو جدا کر دیا،اسی طرح دوسری جھت کو بھی جدا کر دیتے، لہٰذا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیگر مناصب و کمالات سے استثنا ء نہ کرنا بیّن دلیل ہے کہ آپ میں ھارونعليه‌السلام کے تمام اوصاف پائیجانے چاہیئے تب تشبیہ صحیح قرار پائے گی اور جاننا چاہیئے کہ جناب ھارون مندجہ ذیل منصب اور کمال پر فائز تھے لہٰذا مولا علیعليه‌السلام میں یہ اوصاف پائیجانے چاہیئے تاکہ تشبیہ صحیح قرار پائے :

۱ ۔ مقام وزارت :جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ نبوت کے علاوہ تمام اوصاف علیعليه‌السلام میں پائیجانے چاہیئے تب مذکورہ تشبیہ صحیح ہوگی، لہٰذا جس طرح حضرت موسیعليه‌السلام کے بھائی ھارونعليه‌السلام آ پ کے وزیر تھیجیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا

:( وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْراً مِنْ اَهْلِیْ. هَاْرُوْنَ اَخِیْ ) ( ۴۱ )

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وزیر ہیں ، یھی وجہ ہے کہ ر سولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعدد جگہوں پر علیعليه‌السلام کے لئے اپنی وزارت کا اظھار کیا ہے۔

۲ ۔ مقام اخوت و برادری :جس طرح ھارون موسیعليه‌السلام کے بھائی تھے( هَاْرُوْنَ اَخِیْ ) اسی طرح علیعليه‌السلام بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے( رشتہ اور روحا نی اعتبار سے) بھائی ہیں ۔

۳ ۔ مقام خلافت:جس طرح موسیعليه‌السلام نے ھارون کو کوہ طور پر جانے کے وقت اپنا خلیفہ بنایا:( وَقَاْلَ مُوْسیٰ ِلَاخِیْهِ هَاْرُوْنَ اخْلُفنِْیْ فِیْ قَوْمِیْ ) ( ۴۲ )

جناب ھارونعليه‌السلام بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسیعليه‌السلام کے خلیفہ اور جانشین قرار پائے اور حضرت موسیٰعليه‌السلام نے ھارون کی اطاعت کو بنی اسرائیل پر واجب قرار دیااور ھارونعليه‌السلام کو وصیت کی کہ رسالت کی تبلیغ کریں اور میرے دین کو وسعت دیں ، اسی طرح حضرت علی علیہ السلام رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلیفہ اور جانشین ہیں ۔

۴ ۔ مقام وصایت: جب تک موسیعليه‌السلام زندہ تھے ھارون موسیٰ کے خلیفہ اور جانشین تھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰعليه‌السلام

عليه‌السلام وفات پا جاتے تو یقینا حضرت ھارونعليه‌السلام ہی ان کے وصی قرار پاتے، لیکن ھارونعليه‌السلام کا انتقال جناب موسیٰ کی حیات میں ہو گیاتھا،بھرحال جس طرح حضرت موسیعليه‌السلام کے ھارونعليه‌السلام وصی ہوتے اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام بھی مذکورہ حدیث کے مطابق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں ۔

۵ ۔ مقام معاونت:جس طرح جناب ھارون حضرت موسی علیہ السلام کے قوت بازو اور امر رسالت میں معاون تھے ،جیساکہ قرآن میں جناب موسیعليه‌السلام کی ھارونعليه‌السلام کے بارے میں دعا اور اس کے قبول ہونے کے الفاظ آئے ہیں :

( اُشْدُدْ بِه اَزْرِی.وَاَشْرِکْهُ فِیْ اَمْرِیْ .…قَاْلَ َقْد اُوْتِیت سُولَکَ یٰا مُوْسٰی ) ( ۴۳ )

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی اس صریح حدیث کے مطابق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قوت بازو اور معاونِ رسالت تھے ،البتہ خلافت اور جانشینی کے اعتبار سے نہ نبوت کے لحا ظ سے ۔

بھرحال مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کی نظر میں آپ کی زندگی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے نزدیک سب سے بھترین اور خیر امت حضرت علیعليه‌السلام تھے اور جس طرح بنی اسرائیل پر ھارون کی اطاعت واجب و لازم تھی، اسی طرح امت محمدی پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں احترام علیعليه‌السلام واجب تھا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد آپ کی اطاعت واجب و لازم تھی کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حضرت امیرعليه‌السلام ،افضل الناس ،ناصر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی جانشین تھے ۔

ایک قا بل توجہ نکتہ

اس جگہ ایک غلط فھمی کا ازالہ کر دینا لازم سمجھتا ہوں وہ یہ کہ بعض اہل سنت یہ سمجھتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حدیث ِمنزلت صرف جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمائی تھی( اس کے بعد کھیں نہیں فرمایا) لہٰذا حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت ایک زمانہ کے لئے مخصوص اور محصور ہے،برادرم ایسا نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی متعدد معتبر کتابوں کے مطابق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تقریباًچھ موارد پر یہ حدیث اختلاف زمان و مکان کے ساتھ ارشاد فرمائی ہے ، لہٰذا حدیث ِمنزلت کو ایک خاص زمانہ میں منحصر نہیں کیا جاسکتا ۔( ۴۴ )

۳ ۔ فضائل بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ؛صحیحین کی روشنی میں

۱ ۔حضرت فاطمہ زھراسلام الله علیھاجنت کی عورتوں کی سردار ہیں

…,,عن عائشة؛ قالت: اقبلت فاطمة(س) تمشی کَاَنَّ مِشْیَتَها مَشْیُ النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فقال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مرحباً بابنتی، ثم اجلسها عن یمینه اوعن شماله، ثم اسرالیها حدیثا،فبکت فقلتُ لها:لم تبکین؟ ثم اسرالیها حدیثاً ،فضحکت فقلت: ما رایت کالیوم فرحا اقرَب من حزن، فسالتها عما قال، فقالت: ما کنت لِاُفشِیَ سِرَّ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه حتی قُبِض النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فساٴَلتها: فقالت: اسرَّ اِلَیَّ: ان جبرئیل کان یعارضنی القرآنَ کل سنة مرّة ،و انه عارضنی العام مرتین، و لا اُراه الاحضراجلی،وانک اول بیتی لحا قابی، فبکیت،فقال: اَماَ تَرْضَیْنَ اَنْ تَکُوْنِی سَیَّدةَ نِسآءِ اَهل الجَنَّةِ اَوْ نَسَاْءِ اْلْمَوْمِنِیْن، فَضَحِکْتُ لذالک“

حضرت عائشہ کھتی ہیں :

ایک مرتبہ حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئیں تو میں نے دیکھا آپ کی رفتار بالکل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رفتار کی طرح تھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا: مرحباً یافاطمہ! اور اپنے داهنے یا بائیں چپ میں بٹھایا اورچپکے کچھ فرمایا، جسے فاطمہ(س) سن کر رونے لگیں ، میں نے پوچھا :گریہ کرنے کی کیا علت ہے؟

اس کے بعد پھررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چپکے کچھ فرمایا جسے فاطمہ( سلام اللہ علیھا )سن کرهنسنے لگیں ، میں نے کھا: آج تک میں نے یوں حزن کے فوراً بعد سرور نہیں دیکھا ،آج ایسا کیوں ؟ میں نے فاطمہ(س) سے پوچھنا چاہا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مخفیانہ کون سی بات بتلائی ہے، لیکن حضرت فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھا: میں اپنے باپ کے راز کو فاش نہیں کروں گی، جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت فرما چکے، تو میں نے حضرت فاطمہ زھر ا( سلام اللہ علیھا )سے دو مرتبہ اس بارے میں پوچھا، تو حضرت فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) نے فرمایا:وہ مخفی بات یہ تھی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایا : ھر سال جبرئیل میرے اوپر ایک مرتبہ قرآن کو پیش کرتے تھے، لیکن اس سال دو مرتبہ پیش کیا ہے اور اس کی علت اس کے سوا کچھ نہیں کہ میری موت قریب آچکی ہے اور مجھ سے سب سے پھلی جو ملحق ہوگا وہ تم ہوگی، اے میری بیٹی! یہ سن کر میں رونے لگی، لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ! کیا تم خوش نہیں کہ تم جنت کی عورتوں کی یا مومنین کی عورتوں کی سردار ہو ،یہ سن کر میں خوش ہوگئی۔( ۴۵ )

۲ ۔ حضرت فاطمہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے پھلے ملاقات کریں گی

”… عن عائشة قالت: دعیٰ النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فاطمة ابنته فی شکواه الذی قبض فیه، فسارها بشیءٍ، فبکت، ثم دعاها فسارها، فضحکت، قالت:فساٴلتها عن ذالک، فقالت سارنی النبی، فاخبرنی انه یقبض فی وجعه الذی توفی فیه، فبکیت، ثم سارنی فاٴخبرنی انی اول اهل بیته اتبعه، فضحکت“ ۔( ۴۶ )

امام بخاری اور مسلم نے حضرت عائشہ سے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو مرض الموت میں بلایااور کسی چیز کو مخفی طور پر بتلایا جس کی وجہ سے آپ کی بیٹی رونے لگیں ، اس کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (س) کو اپنے پ ا س بلاکر کچھ ایسی بات بتلائی کہ فاطمہ ( س)هنسنے لگیں ۔ عائشہ کھتی ہیں کہ میں نے فاطمہ(س) سے اس طرح هنسنے اور رونے کی علت پو چھی، تو آپ نے کھا : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھلے مجھ سے فرمایا : اس مرض میں میری موت واقع ہو جائے گی ، تو میں رونے لگی ، لیکن اس کے بعد آپ نے فرمایا: میرے خاندان میں سب سے پھلے تم میرے پاس آوگی تو میں هنسنے لگی۔

۳ ۔ حضرت فاطمہ زھرا ءعليه‌السلام جگر گوشہ رسول تھیں

”قال رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه: فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِّنیّ فَمَنْ اَغْضَبَهَا اَغْضَبَنِی“ ( ۴۷ )

امام بخاری نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے:

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ(س) میریجگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اس کو غضبناک کیا ،اس نے مجھے غضبناک کیا۔

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوسری روایت امام بخاری اس طرح نقل کرتے ہیں :

”فانما هی بضعة منی یریبنی ما ارابها و یوذینی مااذاها “ ۳

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :فاطمہ (س) میریجگر کا ٹکڑا ہیجس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا، جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔

مسلم نے بھی اس روایت کو مختصر فرق کے ساتھ نقل کیا ہے۔۴

۴ ۔ تسبیح حضرت فاطمہ زھراء سلام الله علیھا

,,…عن علیعليه‌السلام ؛ان فاطمةعليه‌السلام شکت ما تلقی من اثرالرحیٰ، فاتی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سبی، فانطلقت، فلم تجده، فوجدت عائشة ، فاخبرتها، فلما جاء النبی اخبرته عائشة بمجیء فاطمة، فجاء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الینا ،وقد اخذنا مضاجعنا ،فذ هبنا نقوم، فقال:علی مکانکما فقعد بیننا حتی وجدت برد قدمیه علی صدری، وقال: الا اعلمکما خیراً مم ا سئلتمانی؟ اذا اخذ تما مضاجعکما تکبرااربعاً وثلاثین، و تسبحا ه ثلاثا ً وثلاثین ،و تحمدا ثلاثا ً وثلاثین، فهوخیر ٌلکما من خادم “

امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی کتابوں میں حضرت علیعليه‌السلام سے نقل کیا ہے:

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے ھاتھ چکی چلاتے چلاتے زخمی ہو چکے تھے، انھیں دنوں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کچھ اسیر لائے گئے، تو شہزادی کونین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں گئیں ،تاکہ خدمت گزاری کے لئے ایک کنیز طلب کریں ،لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خانہ مقدس میں نہ پایا لہٰذا سارا واقعہ عائشہ سے کہہ دیا ،جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے خانہ اقدس میں تشریف لائے تو عائشہ نے سارا واقعہ سنادیا۔

حضرت امیر المومنینعليه‌السلام فرماتے ہیں : جب یہ قضیہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سنا تو فوراً ہمارے گھر کی طرف روانہ ہوگئے، ہم لوگ استراحت کے لئیجاچکے تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وارد خانہ ہوئے، ہم لوگوں نے چاہا کہ آپ کے احترام میں کھڑے ہوں ،لیکن آپ نے منع کیا اور فرمایا:کیا میں تم کو ایسا عمل بتلادوں جو اس سے بھتر ہو جس کی تم نے خواہش کی ہے؟

دیکھو ! جب تم سونے لگو تو : ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر کھو ، ۳۳ مرتبہ سبح ا ن اللہ اور اتنی ہی مرتبہ الحمدللہ یہ عمل خدمت گزار سے بھتر ہے ۔( ۴۸ )

۵ ۔ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کی محبت

۱,,…عن ابن مسعود؛ قال بینما رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یصلی عند البیت ،وابوجهل واصحا ب له جلوس و قد نحرت جزوربالامس، فقال ابوجهل: ایکم یقوم الی سلا جزور بنی فلان فیاٴخذه فیضعه فی کتفی محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اذ ا سجد؟فا نبعث اشقی القوم فاخذه، فلماسجد النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،وضعه بین کتفیه ،قال: فاستضحکو ا وجعل بعضهم یمیل علی بعض، وانا قائم ،انظر لوکانت لی منعة طرحته عن ظهررسول الله ، صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم والنبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساجد ما یرفع راسه ،حتی انطلق انسان، فاخبر فاطمة (س) فجائت وهی جویریة، فطرحته عنه ،ثم اقبلت علیهم تشمتهم ،فلما قضی النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلاته، رفع صوته، ثم دعا علیهم( ۴۹ )

امام بخاری اور مسلم نے عبد الله ابن مسعود سے نقل کیا ہے:

ایک مرتبہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجھل اور اس کے( نمک خوار) ساتھی بھی وھیں موجود تھے، ابوجھل نے اپنے ساتھیوں سے کھا : کون ہیجو فلاں شخص کے اونٹ کی اجھڑی کو لاکر سجدے کی حا لت میں اس مرد (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کی پشت پر ڈال دے؟ ان میں سے ایک بد بخت شخص کھڑا ہوا اور اس نے غلاظت کو اٹھا کر جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدہ میں گئے تو آپ کی پشت پر ڈال دیا،ابو جھل اور اس کے ساتھی یہ منظر دیکھ کر کھل کھلاکر اتنی زور سے هنسنے لگے کہ خوشی کہ وجہ سے ایک دوسرے پر گرے جارہے تھے،ابن مسعود کھتے ہیں : میں اس واقعہ کو دیکھ رھا تھا اور یہ سوچ رھا تھا کہ کاش میں اتناطاقتو ر ہوتا کہ اس غلاظت کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر سے اٹھاکرپھینک دیتا ،تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت نہ ہوتی،ابھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدہ ہی میں تھے کہ کسی نے فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو اس کی اطلاع دے دی ، آپ آئیں اور آپ ابھی بھت چھوٹی تھیں ، بھرحا ل آپ نے اس غلاظت کو صاف کیا اور ان لوگوں کو برا بھلا کھا ،جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو بلند آواز سے ان لوگوں کے لئے بد دعا کی۔

۲ ,,…عن ابن ابی حا زم عن ابیه؛ انه سمع سهل بن سعد ؛یسئل عن جرح رسول لله ،یوم احد: فقال: جرح وجه رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وکسرت رباعیته، وهشمت البیضة علی راسه، فکانت فاطمة ( س) بنت رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تغسل الدم، وکان علی بن ابی طالب یسکب علیها بالمجن، فلما راٴت فاطمة ( س) ان الماء لا یزید الدم الا کثرة، اخذت قطعة حصیر، فاحرقته حتی صاررماداً ،ثم الصقته بالجرح، فاستمسک الدم

امام مسلم نے ابن ابو حا زم سے اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے:

سھل بن سعد سے پوچھا گیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو روز جنگ احد کیسے زخم آئے ؟ تو سھل نے کھا ھاں اس دن آپ اس قدر مجروح ہوگئے تھے کہ آ پ کے دندان مبارک بھی شھید ہوگئے تھے اور آپ کے سر کا خود بھی ٹوٹ گیا تھا (جس کی وجہ سے آپ ک ا سر بھی زخمی ہوگیا تھا )اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تیمار داری علیعليه‌السلام اور فاطمہعليه‌السلام کر رہے تھے، علیعليه‌السلام اپنی سپر کے ذریعہ پانی ڈال رہے تھے اور فاطمہ (بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )آپ کے چھرے کو دھو رھی تھیں،جب فاطمہ ( س) نے دیکھا کہ پانی سے خون نہیں بند ہو تا تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلاکر راکھ کیا اور اس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زخم پر رکھ دیا جس سے خون بند ہوگیا ۔( ۵۰ )

۶ ۔ حضرت فاطمہ زھراصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات پربیحد غمناک ہونا

,,…عن انس؛ قال:لمَّاثَقُل النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جعل یَتَغشَّاه،فقالت فاطمة ”علیها السلام“:واکربَ اباه !فقالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لها:” لیس علی ابیکِ کَرْبٌ بعد الیوم“فلمّا مات،قالت :یا ابتاه !اجاب رباً دعاه ،یا ابتاه مَنْ جنة الفردوس ماواه ،یا ابتاه الی جبرئیل ننعاه؟فلمّا دفن،قالت فاطمة علیها السلام :یا انس! اطابت انفسُکم ان تحْثُوا علی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه التراب“

امام بخاری نے انس سے نقل کیا ہے :

جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مرض روز بروز بڑھتا گیا تو حضرت فاطمہ زھر ا سلام الله علیھا (بھی روز بروز زیادہ غمگین و ناراحت ہوتی رھیں اور آپ)نے اپنے غم کا اظھار ان جملوں میں کیا :واکربَ اباہ: ھائے میرے بابا کا غم واندوہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھرا = سے کھا: اے بیٹی! آج کے دن کے بعد تیرے باپ کا غم ختم ہو جائے گا۔

انس کھتے ہیں کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وفات پائی تو فاطمہ (س)نے یوں نوحہ سرائی کی:

اے میرے وہ بابا کہ جس نے دعوت خدا پر لبیک کھی، اے میرے وہ بابا کہ جس کی جائگاہ جنت الفردوس ہے ، اے میرے بابا آپ کی تسلیت کیا جبرئیل کو عرض کروں؟

اورجب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دفن کیا گیا تو فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:

اے انس! تم لوگ کیسے راضی ہوئے کہ جسد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خاک پر ڈالو۔( ۵۱ )

۴ ۔ حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں

۱ ۔ حسنین پرصد قہ حرام ہے

,,عن ابی هریرة؛ قال:کان رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یُوتیٰ بالتمر عند صِرام النخل، فیجیء هذا بتمرة ،وهذا من تمره ،حتی یصیرعنده کَوْما من تمر، فجعل الحسن عليه‌السلام والحسین عليه‌السلام یلعبان بذالک التمر، فاخذاحدهما تمرة، فجعله فی فیه، فنظر الیه رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،فاخرجها من فیه، فقال: اَمَاْ عَلِمْتَ اَنّّ آلَ مُحَمَّدٍ لَایَاْکُلُوْنَ الْصَّدَقَةَ؟!( ۵۲ )

امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے :

جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ہو جاتا تھاتو لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے ، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں خرمہ لے کر آئیجن کا ایک ڈھیر ہوگیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رہے تھے ،ایک روز ان دونوںشہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دهن مبارک میں رکھ لیا !جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دهن سے باہر نکال دیا اور فرمایا: ” اَماَ عَلِمْتَ اَنَّ آل مُحَمَّدٍ لَایَاکُلُوْنَ الصَّدَقَة“؟اے میرے لال! کیا تمھیں نہیں معلوم آل محمد پر صدقہ حرام ہے، وہ صدقہ نہیں کھاتے؟!( ۵۳ )

اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسنعليه‌السلام سے یوں منسوب کی ہے:

”ان الحسن بن علی اخذ تمرةمن تمر الصدقة،فجعلها فی فیه، فقال النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : کخ کخ لیطرحها،ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقة“ ۔( ۵۴ )

ایک مرتبہ امام حسنعليه‌السلام بن علیعليه‌السلام نے صدقہ کا خرمہ منہمیں رکھ لیا تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:نہ ،نہ ،چنانچہ امام حسنعليه‌السلام نے خرمہ کو منھ سے باہر نکال دیا اس وقت رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے میرے لال ! کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صدقہ حرام ہے؟!

۲ ۔ شبیہ ِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعنی امام حسن و حسینعليه‌السلام

۱,, عن انس قال:لم یکن احد اشبه بالنبی من الحسن بن علی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۵۵ )

امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے:

امام حسن علیہ السلام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے۔

۲ ”راٴیت النبی وکان الحسن یشبه “ ( ۵۶ )

دوسری روایت میں امام بخاری نے ابن جحیفہ سے نقل کیا ہے:

میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھاتھا امام حسن آپ سے بالکل مشابہ ہیں ۔

۳… عن عقبة بن الحا رث؛ قال: راٴیت ابابکر (رضی الله عنه) وحمل الحسن وهو یقول:بابی شبیه بالنبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لیس شبیه بعلی ،وعلی یضحک“ ( ۵۷ )

اما م بخاری نے عقبہ ابن حا رث سے نقل کیا ہے :

عقبہ بن حارث کھتے ہیں : ایک روز میں نے دیکھا کہ ابو بکر امام حسنعليه‌السلام کو کاندھے پر بٹھائے ہوئے جارہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں :

میرا باپ قربان ہو جائے آپ پر (اے حسنعليه‌السلام )آپ شبیہ رسول ہیں نہ کہ شبیہ علی (علیہ السلام) اور علیعليه‌السلام اس (قضیہ) کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

۴… ,,عن انس بن مالک؛ اُتِیَ عبید اللّٰه بن زیاد براس الحسین عليه‌السلام بن علی علیه السلام، فجُعِل فی طشت ،فجعل یَنْکُت،ُ وقال فی حسنه شیئاً ،فقال انس: کا ن اشبههم برسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه وکان مخضوباً بالوسمه“ ( ۵۸ )

امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے :

جب امام حسین علیہ السلام ک ا سر اقدس جو وسمہ سے مخضوب تھا، عبید اللہ بن زیاد علیہ اللعنة الدائمہ کے پاس لایا گیا ،تو آپ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا ،ابن زیاد سر کے ساتھ بے احترامی (سر پر لکڑی مار رھا تھا) کررھا تھا اور آپعليه‌السلام کے حسن و زیبائی کے بارے میں کچھ کھتا جاتا تھا ۔ انس بن مالک یہ بات نقل کرنے کے بعد کھتے ہیں : جبکہ امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شباہت رکھتے تھے۔

۳ ۔ حسنین علیھما السلام کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بیحد محبت کرنا

,,… عن ابی هریرة؛قبل رسول الله الحسن بن علی،وعنده الاقرع بن حا بس التمیمی جالساً،فقال الاقرع: ان لی عشرة من الولد،ماقبلت منهم احدا،ً فنظررسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ثم قال:من لا یرحم لایرحم “ ( ۵۹ )

امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ہے:

ایک مرتبہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امام حسن علیہ السلام کے بوسے لے رہے تھے، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حا بس بھی تھا، اس نے کھا: یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ! میں دس فرزند رکھتا ہوں لیکن ابھی تک میں نے کسی کا بوسہ نہیں لیا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں ( فرزند کی) مھر و محبت نہ ہو وہ خدا کی رحمت سے دور رہے گا۔

عرض مولف

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کیا ہے لیکن امام حسنعليه‌السلام کی جگہ امام حسین بن علیعليه‌السلام کا نام ذکر کیا ہے۔( ۶۰ )

۴ ۔ حسنین ریحا نہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں

” عن ابن ابی نعیم ؛قال: کنت شاهداً لابن عمر، وساٴله رجل عن دم البعوض، فقال: ممن انت؟ فقال :من اهل العراق، قال:انظروا الی هٰذا یساٴلنی عن دم البعوض وقد قتلوا ابن النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ؟وسمعت النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول:هما ریحا نتا ی من الدنیا“ ۔( ۶۱ )

امام بخاری نے ابن ابونعیم سے نقل کیا ہے:

میں عبداللہ بن عمر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے عبد اللہ ابن عمر سے مچھرکے خون کے بارے میں سوال کیا، عبد اللہ بن عمر نے کھا تو کھاں کا رهنے والا ہے؟اس نے کھا عراق کارهنے والا ہوں،اس وقت عبد اللہ ابن عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کهنے لگے: اے لوگو! اس شخص کو ذرا دیکھو ،مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ہے حا لانکہ یہ لوگ فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امام حسینعليه‌السلام کا خون ناحق بھا چکے ہیں ؟! اس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے کھا: میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا تھا کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا میرے یہ دونوںبیٹے ”حسن و حسین ریح ا نتای من الدنیا“ اس دنیا میں میرے پھول ہیں ۔

۵ ۔ حسنینعليه‌السلام کے لئے دعائے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

” … عن ابن عباس ؛قال:کان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعوذ الحسن والحسین، ویقول: ان اباکما کان یعوذ بها اسماعیل عليه‌السلام و اسحا ق، اعوذ بکلمات اللّٰه التامّة من کل شیطان وهامّة ومن کل عین لامّة “ ( ۶۲ )

امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حسنعليه‌السلام و امام حسینعليه‌السلام کے بارے میں مخصوص دعا کا تعویذ بنایا اور فرمایا: تمھاریجد ابراہیم نے اپنے دونوں فرزند اسمعیل و اسحا ق کے لئے اسی دعا کا تعویذ بنایا تھا :

,,اعوذ بکلمات اللّٰه التا مّة من کل شیطان و هامّة و من کل عین لامّة“

۶ ۔ اے خدا !جو حسنعليه‌السلام کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ

,, …عن ابی هریرة؛ قال:خرج النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی طائفة النهار،ل ا یکلمنی ولا اکلمه،حتی اتی سوق بنی قینقاع، فجلس بفناء بیت فاطمة(س)، فقال: اثم لکع اثم لکع؟فحبستْه شیئاً ،فظننتُ انهاتلبسه سخاباً اوتغسله، فجاء یشتد حتی عانقه، وقبله ،وقال:اللّٰهم احببه واحبب من یحبه“ ( ۶۳ )

امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ہے :

ایک روز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے گھر سے بالکل خاموش باہر نکلے ،یھاں تک کہ بازاربنی قینقاع تشریف لائے اور یھاں سے پلٹ کر شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کے خانہ اطھر کے دروازے پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ان لفظوں میں بلانے لگے: کیا لکع یھاں ہے؟ کیا لکع یھاں ہے؟( ۶۴ )

ابوھریرہ کھتے ہیں : جب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا نے تاخیر کی تو میں نے سوچا کہ شاید آپ نے بچہ کو نظافت کی وجہ سے روک رکھا ہے ، اس کے بعد جب امام حسن علیہ السلام باہر تشریف لائے تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہزادے سے معانقہ کیا اور بوسہ لیا اور اس کے بعد دعا کی:

”اے میرے پروردگار! اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دوست رکھے اسے دوست رکھ“

قارئین محترم! یہ تھیں چند وہ آیات و احادیث جو صحیحین میں اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نقل کی گئیں ہیں ، انھیں چند صفحا ت کادقت سے مطالعہ کرنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ مسئلہ خلافت ایسا مسئلہ نہ تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فراموش کردیتے اور مسلمانوں کے درمیان اس منصب کے لائق اور حقیقی خلفاء کی نشان دھی نہ کرتے،بلکہ یہ وہ مسئلہ تھا جسے رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ھر جگہ بیان کرنا ضروری سمجھا اور متعدد موارد پر اپنے حقیقی خلفاء کا اعلان فرمایا۔

یہ بات بھی ذهن میں رہے کہ ہم نیجو صحیحین سے اہل بیتعليه‌السلام کے فضائل نقل کئے ہیں،یہ صحیحین میں ان کے فضائل کے انبار کے مقابلہ میں جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہیں اورجو سنیوں کی دیگرمعتبر کتب ِ احادیث و تواریخ میں موجود ہیں ،ایک تنکے سے بھی کم ہیں ،بھر حال اب ہم ان مطالب اوراحادیث کو نقل کرتے ہیں ،جنھیں خلفائے ثلاثہ سے متعلق ان دو کتابوں میں نقل کیاگیا ہے، لیکن اس سے قبل مولائے متقیان حضرت علیعليه‌السلام کا ایک خطبہ نقل کر دیں جو آپ نے امامت،خلافت ا ور حکومت کے بارے میں بیان کیا ہے اور نشان دھی فرمائی ہے کہ جو امت کا حا کم ہو اس کے لئے کون سے شرائط لازمی ہیں ۔( ۶۵ )

____________________

[۱] شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱،صفحہ ۱۳۸،خطبہ نمبر۲۔

[۲] الملل ونحل جلد۱،المقدمة الرابعہ:در بیان شبہ اول ، الخلاف الخامس، صفحہ ۲۴۔

[۳] صحیح بخاری ج ۷، کتاب الطب۔ سنن ترمذی کتاب الطب۔ صحیح مسلم کتاب الطب ، حدیث۲۲۱۷۔

[۴] سورہ زمر،آیت ۳۰َ،پ۲۴۔

[۵] سورہ آل عمران آیت ۱۴۴ پ ۴۔

[۶] سورہ بقرہ ،آیت ۱۸۰،پ۲۔

[۷] صحیح بخاری ج۴ ،کتاب الوصایا ،باب( ۱) ح ۲۵۸۷۔ صحیح مسلم ج ۵، کتاب الوصیة۔ سنن ابی داود ج ۱، باب”ما جاء فی یومر به من الوصیة “ ، ح ۲۸۶۲، ص ۶۵۴۔ سنن نسائی کتاب الوصایا ،باب الکراهیة فی تاخیر الوصیة ، ص ۲۳۹۔ سنن ابن ماجہ ج ۲، کتاب الوصایا، باب”الحث علی الوصیة “ ۔ سنن دارمی کتاب الوصایا باب من استحب الوصیة ص ۴۰۲۔ سنن ترمذی ،کتاب الوصیة ابواب الجنائز باب ما جاء فی الحث علی الوصیة ،ص ۲۲۴۔ مسند ج۲ ،مسند عبد الله ابن عمر، ص ۲ ، ۴ ،۵۷،۸۰۔

[۸] صحیح مسلم جلد ۵، کتاب الوصیہ ۔

[۹] الکامل جلد۱،”ذکر امر الله تعالی بنبیه باظهار دعوته “ص۵۸۶ ، مولفہ ابن اثیر، تاریخ طبری حوادث ۳ ھ ۔

[۱۰] افسوس کہ کچھ ایسے نافرمان صحا بہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نوشتہ نہ لکھنے دیا اور عذاب الیم کے مستحق بن گئے۔

صحیح بخاری جلد ۱ کتاب العلم باب کتابة العلم و جلد۷ ،کتاب المرضی باب ”قول المریض قوموا عنی“ دیکھئے :مزید معلومات کے لئے اسی کتاب کی فصل دوم بحث” امامت و خلافت صحیحین کی روشنی میں ،واقعہ قرطاس اور حضرت عمر کا رویہ“ مترجم۔۵۷۳۔

[۱۱] سورہ احزاب، آیت۳۳،پ۲۲۔

[۱۲] صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل اہل بیت النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم“ ح ۲۴۲۴۔

[۱۳] سورہ آل عمران،آیت۶۱، پ۴۔

[۱۴] صحیح مسلم جلد۷ ، کتاب فضائل الصحا بة،باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۴۔ ۲۴۰۵۔ ۲۴۰۶۔ ۲۴۰۷۔

مسلم نے مذکورہ روایات کو دیگر متن و طریق کے ساتھ بھی نقل کیا ہے۔

[۱۵] صحیح مسلم ج۷،کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل علی علیہ السلام“ حدیث۲۴۰۸۔

[۱۶] مستدرک حا کم، جلد۳ ،ذکر زید بن ارقم ،ص۵۳۳۔ مسند احمد ابن حنبل ،جلد۴ ،حدیث زید بن ارقم ،ص۳۷۲ ۔

[۱۷] سرالعالمیَنْ وکشف ما فی الدارین ، باب فی المقالة الرابعة فی ترتیب الخلافة ص۲۱ ، مولفہ امام غزالی ،مطبوعة نعمان پریس ، دوسرا ایڈیشن ، ۱۹۶۵ء ،نجف عراق۔

[۱۸] صحیح بخاری: جلد ۸، کتاب الدعوات، باب(۳۱)”الصلاة علی النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث ۵۹۹۶۔۵۹۹۷۔ جلد ۳ ،کتاب الانبیاء، باب”یزفون النسلان فی المشی “(آیت نمبر۹۴) حدیث۳۱۹۰۔ جلد ۶، کتاب التفسیر تفسیر، سورہ احزاب، باب۱۰”آیة ان الله و ملائکته یصلون علی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث ۵۴۲۰ ،۴۵۱۹۔ صحیح مسلم جلد۲ ،کتاب الصلوة، باب” الصلٰوة بعد التشھد علی النبی“ حدیث ۴۰۵،۴۰۶،۴۰۷۔

[۱۹] صحیح مسلم ج۱، کتاب الصلوٰة،باب” الصلوٰت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعد التشھد“ح ۴۰۵، ۴۰۶،۴۰۷۔

[۲۰] سورہ لقمان،آیت ۲۱،پ۲۱۔

[۲۱] صحیح بخاری ج۹، کتاب الاحکام، باب(۵۲)”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم ج۶، کتاب الامارة، باب(۱۱)” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“حدیث ۱۸۲۱۔

[۲۲] صحیح مسلم ج ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱حدیث۱۸۲۱۔(کتاب الامارة کی حدیث نمبر۹) ۔

[۲۳] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن ،باب” لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل“ حدیث۲۹۱۳۔۲۹۱۴۔

[۲۴] صحیح مسلم جلد۸ ،کتاب الفتن، باب ”لاتقوم الساعة حتی یمر الرجل“ حدیث۲۹۱۳،۲۹۱۴۔

[۲۵] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الانبیاء ،باب ”نزول عیسی ابن مریم “حدیث ۳۲۶۵۔

[۲۶] فتح ا لباری شرحا لبخاری ج۷ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم ص ۳۰۵۔

[۲۷] عمدة القاری جلد۱۶ ،کتاب الانبیاء باب قولہ تعالی : واذکر فی الکتاب مریم ۔

[۲۸] الا صابة جلد۴،عیسی المسیح بن مریم الصدیقة بنت عمران ، ص۶۳۸۔

[۲۹] اضواء علی السنة المحمدیہ ، مصنفہ، شیخ محمود ابوریہ۔

[۳۰] سورہ حج آیت ۹،پ ۱۷۔

[۳۱] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔

[۳۲] صحیح بخاری:جلد ۵،کتاب المغازی،باب(۸)” قتل ابی جھل“ حدیث۳۷۴۷ ، ۳۷۵۱ ، ۳۷۵۰ ، ۳۷۴۸ ، ۳۷۴۹۔ جلد۶ ،کتاب التفسیر،تفسیر سورہ الحج،باب (۳) آیہ < ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ>حدیث۴۴۶۷۔

[۳۳] صحیح مسلم جلد ۳ ،کتاب الایمان، باب(۳۳) ”ان حب الانصاروعلیعليه‌السلام من الایمان“ حدیث۷۸۔

[۳۴] صحیح بخاری جلد ۱، کتاب الصلوٰة، باب” اتمام تکبیر فی الرکوع “حدیث۷۵۱، باب” اتمام التکبیر فی السجود“ حدیث۳۵۳۔مترجم:(صحیح بخاری جلد۱،کتاب الصلوٰة،باب ”یکبر وھو ینھض من السجدتین“ حدیث۷۹۲۔) صحیح مسلم جلد۲، کتاب الصلوٰة،باب(۱۰)” اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع“ حدیث ۳۹۳۔

[۳۵] صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب فضایل الصحا بة،باب”مناقب علی ابن ابی طالبعليه‌السلام “ حدیث۳۵۰۰۔ جلد ۱،کتاب الصلاة ابواب المسجد،باب”نوم الرجل فی المسجد“حدیث۴۳۰،جلد۴، کتاب الادب، باب” التکنیّ بابی تراب“ حدیث۵۸۵۱۔ جلد۸ ،کتاب الاستئذان، باب” القائلہ فی المسجد“ حدیث۵۹۲۴۔ صحیح مسلم جلد۷،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث۲۴۰۹۔

[۳۶] صحیح بخاری ،جلد ۶، کتاب التفسیر سورہ بقر ہ ،باب ”تفسیر ماننسخ من آیة“(۱۰۶)حدیث۴۲۱۱۔

[۳۷] سنن ابن ماجہ جلد۱۔(اس کتاب میں حقیر نے اس جملہ کو نہیں دیکھا ہے۔مترجم۔) استیعاب جلد۱ ،حرف العین باب علی صفحہ ۸۔ (اس کتاب میں اقضانا اور اقضاہم آیا ہے ۔مترجم )

[۳۸] صحیح بخاری: جلد۴ ،کتاب الجھاد و السیر ، باب۱۲۱ ”ما قیل فی لواء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم “حدیث ۲۸۱۲، باب۱۴۳” فضل من اسلم علی یدیہ رجل“ حدیث۲۸۴۷،کتاب فضایل الصحا بہ، باب(۹)” مناقب علی ابن ابی طالب “حدیث۳۴۹۸،۳۴۹۹۔ صحیح مسلم :جلد۷ ،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” فضائل علی ابن ابی طالب“ حدیث۰۵ ۲۴، کتاب الجھاد و السیر، باب(۴۵)” عزوہ ذی قرد وغیرھا“ حدیث۱۸۰۷۔

مترجم:(صحیح بخاری: جلد۴ ، کتاب الجھاد و السیر ،با ب” دعاء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الی الاسلام النبوة“حدیث۲۷۸۳۔کتاب فضائل الصحا بة باب ”عزوہ خیبر“حدیث۳۹۷۲،۳۹۷۳۔

مسلم نے ایک حدیث میں اس شعر کو بھی نقل کیا ہے جسے حضرت علیعليه‌السلام نے مرحب کے مقابل پڑھا تھا:

اناا لذی سمّتنی امی حیدره

کلیث غابات کریه المنظره)

[۳۹] صحیح مسلم جلد۷، کتا ب فضائل الصحا بة ،با ب( ۴)” فضائل علی ابن ابی طالب“حدیث ۲۴۰۵۔

[۴۰] صحیح بخاری :جلد۵،کتاب فضایل الصحا بة ،باب(۹) ”مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام“حدیث ۳۵۰۳۔

جلد ۵،کتاب المغازی، باب(۷۴) ”عزوہ تبوک “حدیث۴۱۵۴۔

صحیح مسلم جلد ۲ ،کتاب فضائل الصحا بة، باب” فضائل علیعليه‌السلام “حدیث۲۴۰۴

(یہ حدیث دیگر سند کے ساتھ بھی اس کتاب میں مذکور ہے) ۔

[۴۱] سورہ طہ، آیت ۳۰، پ ۱۶۔

[۴۲] سورہ اعراف، آیت۱۴۲،پ۹۔

[۴۳] سورہ طٰہٰ ،آیت نمبر۳۱، ۳۲، ۳۶، پ ۱۶۔

[۴۴] تفصیل دیکھئے: کتاب ”المراجعات “ مصنفہ علامہ سید شرف الدین ، و ”کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص۲۸۱، باب (۶۰)”فی تخصیص علی بقوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انت بمنزلة هارون من موسی “ مطبوعہ:۱۳۹۰ “(اس کتاب کے ساتھ گنجی شافعی کی دوسری کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“بھی شائع ہوئی ہے۔ مترجم.

آٹھویں فضیلت : علیعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیعليه‌السلام سے ہیں ۔

اَنْتَ مِنّیِ وَاَنَاْ مِنْکَّّ “حضرت رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے علی! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔

صحیح بخاری ،جلد ۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب”مناقب علی“۔ جلد۴، کتاب المغازی، باب(۴۱)”عمرةالقضاء (صلح حدیبیہ)“حدیث۴۰۰۵ ۔ کتاب الصلح ،باب(۶) ”کیف یُکتَبُ: ھذاماصالح فلان بن فلان“۲۵۵۲ ۔ مترجم.

نویں فضیلت:رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وقتِ وفات علیعليه‌السلام سے راضی رخصت ہوئے

حضرت عمر کا بیان ہے : جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وفات پائی تو آپ حضرت علی علیہ السلام سے راضی تھے۔صحیح بخاری جلد ۵،کتاب فضائل الصحا بة ،باب” مناقب علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (قبل از حد یث نمبر ۳۴۹۸)“ باب ”قصہ البیعة والاتفاق علی عثمان “حدیث ۳۴۹۷۔ مترجم.

محترم قارئین! جیساکہ آپ نے مولا علیعليه‌السلام کے فضائل صحیحین کی روشنی میں ملاحظہ فرمائے اور پھر قول حضر ت عمر بھی ملاحظہ فرمایا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات جب ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علیعليه‌السلام سے راضی تھے ،لیکن خود قائل کی پوزیشن کیا تھی؟معلوم نہیں ،کیونکہ صحیح بخاری کے بموجب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بوقت وفات جب قلم و دوات مانگی توحضرت عمر نے منع کردیا تھا جس کی وجہ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض ہوگئے اور آپ نے حضرت عمر کو اپنے گھر سے باہر نکال دیا، چنانچہ محترم مولف صاحب نے بحث ”واقعہ قرطاس“ ص۶۲۲پر اس بات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیاہے۔

[۴۵] صحیح بخاری :جلد۴، کتاب المناقب، باب(۲۲)” علامات النبوةفی الاسلام“ حدیث۳۴۲۶۔ جلد ۸ ،کتاب الاستیذان، باب ” من ناجی بین یدی الناس“ حدیث۵۹۲۸۔ صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضائل الصحا بة ،باب ”فضائل فاطمةالزھراء سلام اللّٰہ علیھا “۔

[۴۶] صحیح بخاری :جلد۴،کتاب المناقب، باب( ۲۵) ”علامات النبوت فی الاسلام “حدیث ۳۴۲۶ ۔ جلد ۵،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۱۲)” مناقب قرابة الرسول“صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث۳۵۱۱۔

مترجم:( صحیح بخاری جلد ۴ ،کتاب المغازی ،باب ”مرض النبی“صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث۴۱۷۰۔)

صحیح مسلم جلد۵ ، کتاب فضائل الصحا بة، باب (۱۵)” فضائل فاطمة زھر ا سلام اللہ علیھا“ حدیث ۲۴۵۰۔

[۴۷] .۳.۴.صحیح بخاری :ج۵،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب قرابة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم “حدیث۳۵۱۰۔ ج ۷،کتاب النکاح،باب” الذب الرجل عن ابنتہ“حدیث۴۱۳۲۔ج۳ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب فاطمة الزھرا(س)“حدیث۳۵۵۶۔ مترجم:( صحیح بخاری ج۳ ،کتاب فضایل الصحا بة،باب( ۱۶) ”ذکراصھارالنبی“ حدیث۳۵۲۳۔) صحیح مسلم ج۷، کتاب فضایل الصحا بة، باب ”فضائل فاطمة زھر ا سلام الله علیھا“حدث۲۴۴۹۔

[۴۸] صحیح بخاری:جلد۴، کتاب الخمس، باب(۶) ”الدلیل علی ان الخمس لنوائب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰہ“ حدیث۲۹۴۵۔ جلد۵، کتا ب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب علی علیہ السلام“ حدیث ۳۵۰۲۔ جلد۷،کتاب النفقات، باب(۶) ” عمل المرئة فی بیت زوجھا“حدیث۵۰۴۶،

مترجم:(صحیح بخاری جلد۷ ،کتاب النفقات،باب” خادم المرئة“ حدیث۵۰۴۷۔ کتاب الدعوات، باب(۱۱)”التکبیر والتسبیح عند المنام“ حدیث۵۹۵۹۔ )

صحیح مسلم جلد۸، کتاب الذکر و الدعا، باب” التسبیحا ول النھار و عند النوم“حدیث۷۲۷۲۔

[۴۹] صحیح بخاری جلد۱، کتاب الوضوء، باب(۶۹)” اذا اُلقِی علی َظھرِْ المصلی قذر“حدیث۶۹۔ صحیح مسلم جلد۳، کتاب الجھاد و السیر، باب(۳۹)”ما القی النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من اذیٰ المشرکین“حدیث۱۷۹۴۔

[۵۰] صحیح بخاری: جلد ۱، کتاب الوضوء، باب(۷۲)” غسل المرئة اباہا الدم عن وجہہ“ حدیث۲۴۰۔ جلد ۴، کتاب فضل الجھاد، باب ”لبس البیضة“ حدیث۲۷۵۴، مترجم:(صحیح بخاری جلد ۴، کتاب فضل الجھاد،باب” المجن ومن تیترس بترس الصحا بة“ حدیث ۲۷۴۷،باب(۱۶۰)”دواء الجرح باحراق الحصیر“ حدیث۲۸۷۲،باب” ما اصاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من الجراح یوم احد“ حدیث ۳۸۴۷۔ جلد ۵،کتاب النکاح، باب(۱۲۲)”ولا یبدین زینتھن الا بعولتھن “حدیث ۴۹۵۰۔ کتاب الطب، باب” حرق الحصیر لیسدّ بہ الدم“ حدیث ۵۳۹۰ ۔)صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد، باب( ۳۷)” غزوة احد“ حدیث ۱۷۹۰ ۔

[۵۱] صحیح بخاری جلد۶ ،کتاب المغازی ،باب(۷۸ )”مرض النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و وفاتہ “حدیث ۴۱۹۳۔

[۵۲] بخاری ج۲، کتاب الزکاة ،باب ”اخذ صدقہ التمر عند صرام النخل“ حدیث ۱۴۱۴۔

[۵۳] مترجم: مذکورہ حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت جاتا ہے کہ آل محمدعليه‌السلام پرصدقہ حرام ہے اس کا مفہوم یہ ہواکہ اصحا ب کے لئے جائز ہے گویا حرمت صدقہ آل محمد اعليه‌السلام ور اصحا ب کرام کے درمیان حد فاصل ہے، اس حدیث میں امام بخاری نے تھوڑ ا سا اضافہ کیا ہے وہ یہ کہ ”حسنینعليه‌السلام نے کھجور کو دہن اقدس میں رکھ لیا تب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع فرمایا “ایسا نہیں ہے بلکہ حسنین کھانے کے ارادہ سے بظاہر دیکھنے والوں کی نظر میں اٹھا رہے تھے ،مگر حقیقت یہ تھی کہ آپ دنیا والوں کی زبان پر اپنی فضیلت زبانِ رسالت سے سنوانا چاہتے تھے کہ آل محمدعليه‌السلام اور اصحا ب میں زمین و آسما ن کا فرق ہے، یعنی آپعليه‌السلام یہ بتا نا چاہتے تھے کہ اے مسلمانو! کبھی آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلہ میں اصحا ب کا قیاس نہ کرنا :

لایُقاسُ بِآلِ محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم من هذه اُلامَّةِ اَحَدٌ وَ لَایُسوَّی بهم مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُهم علیه اَبَداً هُم اَساسُ الدِّین وَ عِمادُ الیقین اِلیهم یَفِئیُ الغَالِی و بهم یُلْحَقُ التاَّلِی و لَهُم خَصائِص حّقِّ الوِلَایَةِ وَ فِیهم الوَصِیَّةُ وَ الْوِراثَةُ “ شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱صفحہ ۳۸ ( خطبہ نمبر۲)

ترجمہ: اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پرقیاس نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں ،وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے، یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے، حقِ ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ہیں ، انھیں کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ہے ۔۱۲

[۵۴] صحیح بخاری جلد۲، کتاب الزکاة ،باب ”مایذکر فی الصدقہ للنبی“صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث ۱۴۲۰۔ جلد۴ ،کتاب فضل الجھاد و السیر، باب” من تکلم بالفارسیة“حدیث۲۹۰۷۔

[۵۵] صحیح بخاری جلد۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب الامام الحسن و الحسینعليه‌السلام “ حدیث ۳۵۴۰،۳۵۴۲

[۵۶] صحیح بخاری جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“حدیث ۳۳۴۹،۳۵۰ ۳۔

[۵۷] صحیح بخاری جلد۵ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب الامام الحسن و الحسینعليه‌السلام “ جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“۳۵۴۲، ۳۳۵۰۔

[۵۸] صحیح بخاری جلد۵، کتاب الفضایل الصحا بة، باب ”مناقب الحسن و الحسینعليه‌السلام “حدیث۳۵۳۸ ۔

[۵۹] صحیح بخاری جلد۸، کتاب الادب، باب(۱۷)”رحمة الولد و تقبیله و معا نقته “حدیث ۵۶۵۱۔

[۶۰] مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ،مسند ابو ھریرة، ص ۲۴۱ ۔

مترجم: ایک جگہ امام بخاری نے اس طرح نقل کیا ہے:عليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :اللّٰهم انی اُحبّه فاَ حبَّه ، اے خدا !تو حسنعليه‌السلام کو دوست رکھ کیونکہ میں اس کو دوست رکھتا ہو ں۔

صحیح بخاری جلد ۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة ،باب ”مناقب حسنعليه‌السلام حسین “حدیث ۳۵۳۹،۳۵۳۷،باب ”ذکراسامة بن زید“ حدیث۳۵۲۸۔

[۶۱] صحیح بخاری جلد۸ ،کتاب الادب ،باب ”رحمة الولد و تقبیلہ“ حدیث۵۶۴۸ ۔

مترجم:(صحیح بخاری ج۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة، باب(۲۴)”مناقب الحسن والحسین“ ح۳۵۴۳۔)

[۶۲] صحیح بخاری جلد۲ ،کتاب الانبیاء، باب ”(سورہ صٰفات آیت ۹۴ )یزفون النسلان“ حدیث۳۱۹۱۔

[۶۳] صحیح بخاری جلد۳، کتاب البیوع، باب(۴۹)” ماذکر فی الاسواق“ حدیث۲۰۱۶۔ جلد ۷، کتاب اللباس، باب(۵۸)” السِخّاب للصبیان“ حدیث۵۵۴۵ ،صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۸ )”فضائل الحسن و الحسین علیھما السلا م“ حدیث۲۴۲۱۔ (معانقہ کے جملے صحیح مسلم میں آئے ہیں صحیح بخاری میں نہیں ۔مترجم )

[۶۴] نوٹ:لکع بمعنی چھوٹا بچہ استعمال کیا جاتا ہے ، دیکھئے :نھایہ ابن اثیر ۔

[۶۵] اگر آپ اس خطبہ کی روشنی میں خلفائے ثلاثہ کی زندگی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اس بات کے تسلیم کرنے میں کسی طرح کی شرم اورجھجھک محسوس نہ ہو گی کہ منصب خلافت کے واحد حقدار حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام تھے۔مترجم۔