حا کم ؛ حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں
شرائط امامت
۱ اَللّٰهم اِنّی اول من اناب، وسمع و اجاب، لم یسبقنی الارسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
اللّٰه بالصلٰوة، وقد علمتم انَّه لاینبغی ان یکون الوالی علی الفروج،والدماء، والمغانم والاحکام،وامامة المسلمین اَلْبخیلُ، فتکون فی اموالهم نَهْمَتُه، ولاالجاهل فیَُضِلَّهُمْ بجهله، ولاالجافی فیََقْطعُهم بجفائه، ولاالحا ئِفُ للدول،فیتخِذَ قوماً دون قوم، ولا المُرتشِی فی الحکم فیذهب بالحقوق،ویَقِفَ بهادون المَقاطِعَ ولاالمُعَطِّلُ للسنة فیُهلکُ الاُمَّةَ
“
اے اللہ ! میں پھلا شخص ہوں جس نے تیری طرف رجوع کیا اور تیرے حکم کو سن کر لبیک کھی ، رسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے علاوہ کسی نے بھی نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی ،اے لوگو! تمھیں یہ معلوم ہے کہ ناموس ، خون ، مال غنیمت ، نفاذِ احکام اور مسلمانوں کی پیشوائی کے لئے کسی طرح مناسب نہیں کہ کوئی بخیل حا کم ہو، کیونکہ اگر ایسا ہوگا تو اس کے دانت مسلمانوں کے مال پر لگے ر ہیں گے اور نہ کوئی جاہل ہو کہ وہ انھیں اپنی جھالت کی وجہ سے گمراہ کردے گا، نہ کوئی کج خلق ہو کہ وہ اپنی تند مزاجی سے چر کے لگاتا رہے گا اور اپنے اور لوگوں کے درمیان فاصلہ کردے گا، نہ کوئی مال ودولت میں بے راہ روی کرنے والا ( ظالم)کہ وہ کچھ لوگوں کو دے گا اور کچھ کو محروم کردے گا، نہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والا کہ وہ دوسروں کے حقوق کو رائگاں کردے گااور انھیں انجام تک نہ پهنچائے گا اور نہ کوئی سنت کو بیکار کردینے والا کہ وہ امت کو تباہ و برباداور ضائع کردے گا۔
اس خطبہ میں مولا علی علیہ السلام نے اس شخص کے لئیجو مسلمانوں کی امامت و سرپرستی اور ان کے درمیان قوانین اسلام نافذ کر نا چاہتا ہے ،جنگ وصلح کے احکام صادر کرنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کے درمیان احکام خدا کی تبیین وتوضیح کرنا چاہتا ہے چھ بنیادی شرائط بتلائے ہیں :
۱ ۔ امام اور حا کم ،بخیل نہ ہو کہ و ہ لوگوں کے مال و ثروت میں ہمیشہ لالچ کی نظر جمائے رکھے گا،(اورامت اسلام پر مال و دولت خرچ کرنے کے بجائے خود ہی دولت جمع کرنے کی فکر میں مبتلا رہے گا)۔
۲ ۔ اما م اور حا کم ،اسلام کے تمام جزئیا ت اور قوانین کا بحد کافی علم رکھتا ہو۔
۳ ۔ حا کم، اخلاق حسنہ رکھتا ہو اور غصہ و خشونت سے دور ہو۔
۴ ۔ حا کم ،ظالم و ستمگر نہ ہو کہ دوسرے کے حق کو پائمال کردے۔
۵ ۔ حا کم اور امام رشوت خورنہ ہو۔
۶ ۔ امام ،قوانین اسلام اور قرآن کے نافذ کرنے سے گریز نہ کرے، بلکہ وہ ہمیشہ قوانین الہٰی کو نافذ اور ان کی حفاظت کرے ۔
یہ ہیں اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھانے والے حا کم کے چند شرائط، لیکن مسلمانوں کی صحیح، معتبر اورمھم ترین کتابیں یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کھتی ہیں کہ خلفائے ثلاثہ مذکورہ شرائط( حسن اخلاق، علم وآگاہی)سے عاری اور خالی ہی نہیں بلکہ وہ ان شرائط کے مقابل متضاد صفات کے حا مل تھے !!
چنانچہ اس بات کے ثبوت کے لئے ہم چند نمونے کتب صحیحین سے پیش کرتے ہیں ،جنھیں علمائے اہل سنت اپنے دین کا مدرک و ماخذ سمجھتے ہیں ، (اور ان میں نوشتہ احادیث کو قرآن کی آیت کے مساوی مانتے ہیں ) کیونکہ ہم نے اپنی بحث کا مدرک انھیں دو کتابوں کو بنایا ہے، وگرنہ اس بارے میں کتب تواریخ و حدیث میں بھت زیادہ مطالب موجود ہیں ، جن کا نقل کرنا ہمارے موضوع سے متعلق نہیں ہے ۔
۱ ۔ حا کم کا صاحبِ حسن اخلاق ہوناضروری ہے
”ولا الجافی فیقطعهم بجفائه
“( قول حضرت علی علیہ السلام)
اور امام کو کج خلق اور تند مزاج نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اپنی کج خلقی اور تند مزاجی سے لوگوں کو ہمیشہ اپنے پاس سے بھگاتا رہے( کیونکہ اس طرح اسلامی احکام صحیح طریقے سے نافذ نہ ہوسکیں گے ) “
محترم قارئین ! جیساکہ ہم نے گزشتہ فصلوں میں نقل کیا کہ ایک رھبر اور ھادی امت کیلئے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور حسن اخلاق رکھتا ہو، تند خو اور غصہ ور شخص کیلئے منصب امامت سازگار نہیں ،لیکن صحیحین کی بعض احادیث اورسنیوں کی دیگر معتبر کتابوں کے مطابق خلفائے ثلاثہ ان صفات سے بے بھرہ تھے چنانچہ اس کے دو نمونے ذیل میں نقل کرتے ہیں :
۱ …عن ابی ملیکة؛ قال کاد الخیران ان تهلکا ابو بکر وعمر ،لما قدم علی النبی وفد بنی تمیم، اشار احدهما با لاقرع بن حا بس الحنظلی اخی بنی مجاشع، واشارالآخر بغیره ،فقال ابوبکر لعمر: انما اردت خلافی؟فقال عمر:ما اردت خلافک، فارتفعت اصواتهما عند النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
، فنزلت الآیه:<
(
یٰا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ…
)
>
اما م بخاری نے ابن ابی ملیکہ سے نقل کیا ہے :
نزدیک تھا کہ ایک واقعہ میں وہ دو نیک مرد (ابوبکر و عمر) ھلاک ہوجاتے، جب بنی تمیم کا ایک وفد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت بابرکت میں مشرف ہوا تو ان دونوں (ابوبکر و عمر) میں سے ایک نے اقرع بن حا بس حنظلی برادر بنی مجاشع کو اس قبیلہ کاسرپرست ظاہر کر دیا اور دوسرے نے کسی اور شخص کی سفارش کی ، اس پرابوبکر نے عمر سے کھا : تونے اس کام میں میری مخالفت کی ہے ؟
عمر نے کھا : میں اس امر میں تیری مخالفت کرنے کا قصد نہیں رکھتا تھا، بالآخر جب دونوں کے درمیان تو تو ، میں میں ، ہوئی اور ایک شور و هنگامہ ہونے لگا(اوررسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی موجودگی کا کسی کو خیال نہ رھا، لہٰذاجب خداوند عالم نے اس بدتمیزی اور بدتہذیبی کو دیکھا ) تو یہ آیت نازل فرمائی:
(
یٰا اَیُّهَاْ لَّذِیْنَ آمَنُوْا لَاتَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهُ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ ِلبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعماَلکُمُْ وَ اَنْتُمْ لاَتَشْعُرُوْنَ
)
اے ایماندارو !بولنے میں تم اپنی آوازیں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آواز پر بلند مت کیا کرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زور زور بولا کرتے ہو ان (رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
) کے روبرو زور سے نہ بولا کرو، ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال حبط (ختم) ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔
ابن حجرنے فتح ا لباری( شرحا لبخاری) میں قلمبند کیا ہے : قبیلہ بنی تمیم کے وفد کا آنا اور یہ واقعہ پیش آناہجرت کے نویں سال میں تھا ۔
عرض مولف
مذکورہ حدیث مسند احمد ابن حنبل میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
مذکورہ حدیث کے مضمون اور بنی تمیم کے وفد کے مدینہ آمد کی تاریخ میں غور کرنے سے ایک سوال جو ابھر تا ہے وہ یہ ہے کہ جو افراد آنحضرت صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بیس سال سے زندگی گزار رہے تھے، وہ نبی کے ساتھ رہ کر تہذیب یا فتہ کیوںنہ ہوئے ؟!آخر ان کو احترام رسالت کا خیال کیوں نہ تھا؟!یہ لوگ کیوں نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے سامنے اس قدر ھلڑ هنگامہ کرتے تھے کہ خدا کو ان کی تھدید اور تنبیہ کے لئے آیت نازل کرنا پڑی؟!
بتایئے ایسے افراد کیا جانشین نبی ، عظیم الشان قائد، اسلامی رھبر اور مقام خلافت کے حقدار ہو سکتے ہیں ؟!ھرگز نہیں ۔
۲ …سعد بن ابی وقاص؛ قال: استاٴذن عمرعلی رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله ،وعنده نسآء من قریش،یُکَلِّمْنَهُ و یَسْتَکْثِرْنَهُ عالیة اصواتهن، فلما استاٴذن عمر، قمن یبتدرن الحجاب، فاٴذ ن له رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله ،ورسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله یضحک، فقال عمر: اضحک الله سنک یا رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله !قال: عجبت من هٰولاء الّاتی کن عندی، فلم ا سمعن صوتک، ابتدرن الحجاب، قال عمر: فانت یا رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله !کنت احق ان یهبن، ثم قال: ای عد وات انفسهن! اتهبنی ولا تهبن رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله ؟قلن انت افظ واغلظ من رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله
۔
سعد بن ابی وقاص سے بخاری نے نقل کیا ہے:
ایک مرتبہ عمر نے رسول کی خدمت میں شرفیاب ہونے کی درخواست کی اس وقت بعض زنان قریش رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں باتیں کررھی تھیں اور زیادہ تیز آواز میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے سوال و جواب کر رھی تھیں ، لیکن جب عمر نے چاہا کہ خدمت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں حا ضر ہوں توقریش کی یہ سب عورتیں گھر کے ایک گوشے میں پوشیدہ ہوگئیں ۔
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس ماجرا کو دیکھ کر مسکرانے لگے اور تبسم کی حا لت میں عمر کو گھر میں وارد ہونے کا اذن دیا، عمر نے کھا: یارسول اللہ! اللہ آپ کو ہمیشہ خوشحال رکھے یہ مسکرانے کا کیا مطلب ہے؟!
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: مجھے اس امر نے تعجب میں ڈال دیا ہے کہ جب ان قریش کی عورتوں نے تیری آواز سنی تو سب متفرق ہوگئیں اور گوشہ میں پوشیدہ ہوگئیں !
عمر نے کھا :یا رسول اللہ!ان کو آپ سے ڈرنا چاہیئے نہ کہ مجھ سے، اس وقت ان عورتوں سے مخاطب ہوکر بولے :اے اپنے وجود کی دشمنو !تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نہیں ؟
عورتوں نے اس کیجواب میں کھا: ھاں ہم لوگ آپ سے ڈرتے ہیں لیکن رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نہیں ، کیونکہ آپ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی بنسبت بڑے بدمزاج ،غصہ ور اور تند خو آدمی ہیں ۔”قلن انت افظ واغلظ من رسول الله
“
عرض مولف
خلیفہ دوم کی سخت مزاجی اور بداخلاقی کے بارے میں کتب احادیث میں بھت سارے واقعات قلمبند کئے گئے ہیں بعض کتابوں میں آیا ہے :جب حضرت عمر غصہ ہوتے تھے تو بعض اوقات ان کا غصہ اس وقت تک ختم نہ ہو تا جب تک کہ اپنے ہی دانتوں سے اپنا ھاتھ چبا کر زخمی نہ کرلیا کرتے تھے!( یہ حالت میرے خیال سے اس وقت ہوتی ہوگی جب انھیں غصہ اتارنے کے لئے کوئی ملتا نہ ہوگا) زبیر بن بکار اس مطلب کو نقل کرنے کے بعد کھتے ہیں:ھاتھ کو دانتوں سے چبا نے والا واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ کے کسی فرزند کی شکایت کوئی کنیز آپ کے پاس لائی ،اس وقت بھی خلیفہ صاحب نے اپنا ھاتھ چبا لیا تھا!!
اس کے بعد ابن بکار کھتے ہیں:خلیفہ کی اسی تند مزاجی کی وجہ سے ابن عباس” مسئلہ عول “کی مخالفت میں حق بات کے اظھار سے خاموش رہے اور جب خلیفہ دوم کی موت واقع ہوگئی تب آپ نے اس حقیقت کا اظھار کیا، لوگوں نے ابن عباس سے کھا: آپ نے اس حقیقت کو خلیفہ دوم کے سامنے کیوں نہ ظاہر کیا ؟ آپ نے فرمایا : میں اس سے ڈرتا تھا ،کیونکہ وہ ایک خوف ناک اورغصہ ور حا کم تھا۔
۲ ۔ حا کم کو احکام الہٰیّہ سے آگاہ ہوناچاہیئے
,,وَلَا اْلجَاهل فَیُضِلُّهُمْ بِجَهله
“(فرمان امام علی علیہ السلام)
حا کم اور امام کو جاہل نہیں ہونا چاہیئے ،کیونکہ اگر جاہل ہوگا تو وہ اپنیجھل کی بنا پر لوگوں کو گمراہ کردے گا۔
حا کم اوراما م کے لئیجھاں اوردیگر شرائط ضروری ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ بھی لازم ہے کہ وہ احکام اور قوانین الٰھیہ سے آگاہ اور آشنا ہو،چنانچہ اگر حا کم اسلامی قوانین اور احکام کے تمام جزئیات و جوانب سے واقف نہ ہو اور ضرورت کے وقت ا یرے غیرے سے دریافت کرنے کا محتاج ہو اور اسلامی احکام کو فلاں ڈھکاں سے معلو م کرے گا، توایسا شخص منصب ِ خلافت کے لائق نہیں ہو سکتاکیونکہ وہ غلط اورخلاف واقع احکام کو صادر کرکے لوگوں کو گمراہی و ضلالت میں مبتلا کردے گا یا پھر لوگوں کو شک وتردید میں ڈال دے گا ۔
لیکن کتب تواریخ و احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے : خلفائے ثلاثہ جو اسلامی حا کم تھے، یہ لوگ اسلامی احکام کی کچھ اطلاع نہیں رکھتے تھے! اور اسلامی احکام اور دینی مسائل دریافت کرنے کی غرض سے دوسروں کے دروازوں پر دستک دیتے تھے،اسی وجہ سے بسااوقات یہ حضرات متضاد اور عجیب و غریب،خلاف ِ واقع فتاویٰ صادر کردیتے تھے۔
(یھاں تک کہ مدینہ کی عورتیں تک ان پر اعتراض کردیتی تھیں !)چنانچہ حضرت امیرالمو منین علی علیہ السلام نیجب یہ دیکھاتو ایک خطبہ ارشادفرمایا ،جس میں آپ نے ان حکام کی تصویر کشی کی جو بغیر علم کے حکومت کرتے ہیں ۔
,,ترد علی احدهم القضیةُ فی حکم من الاحکام فیحکم فیها برایه، ثم ترد تلک القضیةبعینها علی غیره فیحکم فیها بخلاف قوله، ثم یجتمع القضاة بذالک عند الامام الذی استقضاهم، فیصُوّب آرائهم جمیعاً، و اِلٰهُهُمْ واحدٌ !و نبیهم واحد !وکتابهم واحد ٌ!افامر هم اللّٰه تعالی بالاختلاف فاطاعوه! ام نهاهم عنه فعَصَوْه! ام انزل اللّٰه تعالی دیناً ناقصاً فاستعان بهم علی اتمامه !ام کانوا شرکاء له ،فلهم ان یقولوا ،و علیه ان یرضیٰ؟ ام انزل اللّٰه تعالی دیناً تاماً فقصَّر الرسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
عن تبلیغه وادائه!؟ واللّٰه سبح ا نه یقول:< مَا فَرَّطْنَا فی الْکِتَابِ مِنْ شَیءٍ…> (۷۵) وفیه تبیان کل شیء“
جب ان میں کسی ایک کے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لئے پیش ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے سے اس کا حکم لگا دیتا ہے، پھر وھی مسئلہ بعینہ دوسرے کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ اس پھلے حکم کے خلاف حکم دیتا ہے، پھر یہ تمام کے تمام قاضی اپنے اس خلیفہ(حا کم) کے پاس جمع ہوتے ہیں جس نے انھیں قاضی بنا رکھا ہے، تو وہ سب کی رائے کو صحیح قرار دید یتا ہے! حا لانکہ ان کا اللہ ایک، نبی ایک اور کتاب ایک ہے ،انھیں غور تو کرنا چاہیئے!کیا اللہ نے انھیں اختلاف کا حکم دیا تھااور یہ اختلاف کر کے اس کا حکم بجا لاتے ہیں ؟یا اس نے تو حقیقتاً اختلاف سے منع کیا ہے اور وہ اختلاف کر کے عمداً اس کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں ؟یا یہ کہ الله نے دین کو ادھورا چھوڑا تھا اور ان سے تکمیل کے لئے ھاتھ بٹانے کا خواہش مند ہوا ؟یا یہ اللہ کے شریک تھے کہ انھیں اس کے احکام میں دخل دینے کا حق ہو اور اس پر لازم ہو کہ وہ اس پر رضامند رہے؟ یا یہ کہ اللہ نے تو دین کو مکمل اتارا تھا،مگر اس کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس کے پهنچانے اور ادا کرنے میں کوتاہی کی تھی،حا لا نکہ اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے:ھم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان کرنے میں کوتاہی نہیں کی اور اس میں ھر چیز کا واضح بیان ہے۔
قارئین محترم !ا ب ہم خلفائے ثلاثہ کے چند شواہد پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے متعدد مقامات پر الٹے سیدھے اور خلافِ واقع حکم اور فتوے صادر فرمائے، جو قرآن و حدیث کے صریحا مخالف تھے، جس کی وجہ سے حضرت امیر المومنینعليهالسلام
نے اس رویہ کو اپنی محکم اورمضبوط دلیل و برھان کے ذریعہ ہدف تنقید قرار دیا ، چنانچہ اسبارے میں اہل سنت کی معتبر کتابوں میں کثرت کے ساتھ شواہد پائیجاتے ہیں،ھم صرف اس جگہ گیارہ عددمقامات صحیحین سے نقل کرنے پراکتفاکرتے ہیں۔
۱ ۔ حضرت عمر نے حکم تیمم کی صریحا خلاف ورزی کی!!
قرآن مجید کی صریحا یت اور رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا واضح دستور اس بارے میں موجود ہے کہ جب انسان( مثلاً) مجنب ہو جائے اور پانی کا حا صل کرنا ممکن نہ ہو، یا پانی کا استعمال ضرر رساں ہو،توانمقامات پر انسان کے اوپر واجب ہے کہ وہ تیمم کرکے اپنی عبادت بجا لائیجب تک کہ عذر زائل نہ ہو جائے،لیکن جب یہ قضیہ عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو بجائے اس کے کہ آپ اس صورت میں حکمِ تیمم بیان کرتیجو قرآن و حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے، آپ نے فوراً ”لَاتُصَلِّ“ کا علی الاعلان حکم صادر فرمادیا یعنی نماز نہ پڑھے !!اتفاقاً عمار یاسر اس وقت موجود تھے لہٰذاآپ نے خلیفہ وقت پر اعتراض کیا اور فرمایا : ایسی صورت میں تیمم کر کے انسان اپنی عبادت بجالائے گا اور یہ بات روایات ِ نبوی سے ثابت ہے، لیکن خلیفہ صاحب کو عمار یاسر کی بات پر اطمینان نہ ہوااور الٹے عمار یاسر کو تھدید کرنے لگے!( الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے) جس کی وجہ سے عماریاسر کو یہ کهنا پڑا کہ اگر خلیفہ صاحب مصلحت نہیں سمجھتے تو میں اپنی بات واپس لیتا ہوں !! ہم اس جگہ اس بارے میں دو عدد روایتیں معہ ترجمہ و متن نقل کرتے ہیں :
۱ سعید بن عبدالرحمان عن ابیه؛ان رجلااتی عمر،فقال: انی اجنبت فلم اجد ماءً ،فقال:لا تصل، فقال عمار:اما تذکر یا امیرالمومنین! اذاانا وانت فی سریة فاجنبنا فلم نجد ماءً فاما انت فلم تصل،واما انا فتمعکت فی التراب وصلیت،فقال النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
انم ا یکفیک ان تضرب بیدیک الارض ثم تنفخ،ثم تمسح بهماوجهک وکفیک؟فقال عمر:اتق الله یا عمار! فقال ان شئت لم احدث به!!
سعید بن عبدالرحمن اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں :
ایک مرد عمر کے پاس آیا اور سوال کیا : میں مجنب ہو گیا ہوں اور پانی دستیاب نہیں ہے بتائیے اس حا لت میں کیا کروں ؟عمر نے کھا: نماز مت پڑھو! (اتفاقاً)عمار یاسر اس وقت موجود تھے، انھوں نے کھا: اے امیرالمومنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ کسی جنگ میں تھے اور مجنب ہو گئے اور کسی جگہ پانی نہ ملا ،تو آپ نے نماز نہیں پڑھی ،لیکن میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ کرنمازکو انجام دیا، جب رسو ل خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو فرمایا : اسی اندازہ بھر کا فی ہے کہ تیمم کی غرض سے (نماز کیلئے)دونوں ھاتھوں کو زمین پرمارواور خاک کے ذرات کو بر طرف کر کے (ھاتھوں کو جھاڑکے)دونوں ھاتھوں کو چھرے پر پھیر لو اور پھر اپنے ھا تھوں کے اوپر مسح کرلو؟ عمر نے کھا :اے عمار! خد ا سے ڈرو! عمار نے کھا:آپ اگر چاہیں تو میں اس واقعہ کو نقل نہ کروں؟!!
عرض مولف
مذکورہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں منقول ہے، لیکن امام بخاری نے اپنے شدید تعصب کی بنا پر اس روایت میں کاٹ چھانٹ فرمادی ہیجیساکہ ہم نیجلد اول میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس روایت میں حضرت عمر کا جواب (لا تصل )کو حذف کردیا ہے :
۲,,… عن شقیق ابن سلمة؛ قال:کنت عند عبدالله بن مسعود وابی موسی الاشعری، فقال له ابو موسی: یا اباعبد الرحمان! اذا اجنب المکلف فلم یجد ماءً کیف یصنع ؟قال عبد الله : لا یُصَلِّی حتی یجد الماء، فقال ابو موسیٰ: فکیف تصنع بقول عمارحین قال له النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
” کان یکفیک …؟قال: الم ترعمرلم یقنع بذالک؟ فقال ابو موسی: دعنا من قول عمار، فما تصنع بهٰذه الآیة ؟:و تلی علیه آیة الما ئدة: قال: فمادری عبد الله ما یقول
۔
امام بخاری نے شقیق ابن سلمہ سے نقل کیا ہے:
میں عبد اللہ ابن مسعود اور ابو موسی اشعری کے پاس تھا ابوموسی اشعری نے ابن مسعود سے پوچھا: اگر کوئی مجنب ہو اور پانی حا صل نہ کرسکتا ہو تو کیا کرے گا؟ ابن مسعود نے کھا: اگر پانی نہ ہو تو نماز نہ پڑھو، ابو موسی ٰنے اس پر اعتراض کیا اور کھا :عمار ی ا سر کا وہ قول کھا ں جائے گا جو تیمم کے بارے میں انھوںنے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل کیا ہے:”ان تضرب بیدیک الارض ثم تنفخ،ثم تمسح بهما وجهک وکفیک“
؟
ابن مسعود نے کھا :مگر عمار یاسر کے قول کو حضرت عمر نے تو قبول نہیں کیا تھا؟ ابو موسی اشعری نے کھا: چلو عمار یاسر کے قول کو نہ مانو، لیکن یہ آیہ قرآن کھاں جائے گی ؟ جو حکم تیمم کو صراحت کے ساتھ بیان فرما رھی ہے؟فَلَمْ تَجِدُوامَاءً فَتَیَمَّمُوْاصَعِیْداً طِیِّباً
اور جب تم کو پانی نہ ملے تو پاک خاک سے تیمم کرلو۔ابن مسعود اس وقت خاموش ہوگئے اور کچھ نہ کہہ سکے ۔
متذکرہ حدیث بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں آئی ہے لیکن بعض علمائے اہل سنت نے اس واقعہ کو دوسرے انداز میں پیش کرنے کی بیجا کوشش کی ہے، تاکہ اپنے ہیرو کی کچھ خدمت اور ان کے علمی مقام کا دفاع کر سکیں کھتے ہیں :حضرت عمر کا یہ اعتراض ان کے اجتھاد کی بنا پر تھا اوریہ ان کا اپنا ذاتی نظریہ اور اجتھادتھا کبھی کھا جاتا ہے: خلیفہ صاحب کو اس بارے میں اس وجہ سے ہدف تنقید نہیں بنایا ج ا سکتا کیونکہ آپ حدیث ِ رسول فراموش کر گئے تھے، ان کے اوپر نسیان غالب آگیا تھا، جس کی وجہ سے وہ عمار کو اس طرح تھدید کر رہے تھے۔
چنانچہ ابن حجر فتح ا لباری میں لکھتے ہیں :
جب غسل جنابت کرنے کے لئے پانی نہ ہو تونماز ترک کرنا یہ صرف حضرت عمر کا ان کے اجتھادکی بناپرذاتی نظریہ تھا ، چنانچہ مشہور ہے کہ عمر اس مسئلہ میں یہ نظریہ رکھتے تھے۔
اس کے بعد ابن حجر کھتے ہیں :
ان واقعات سے استفادہ ہو تا ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانہ سے ہی صحا بہ نے اجتھاد کرنا شروع کردیا تھا !!
ابن رشد جو سنیوں کے مشہور دانشور ،فلسفی اور فقیہ ہیں ، آپ اپنی استدلالی کتاب” بدایةالمجتھد“ میں تحریر کرتے ہیں :
” حضرت عمر نے عمار سے یہ بحث ومباحثہ اس لئے کیا تھاکہ وہ حکم تیمم فراموش کر گئے تھے، ان پر نسیان طاری ہوگیا تھا، آپ نے اس طرح خلیفہ صاحب کو معذور قرار دیا ،البتہ علمائے اسلام کی اکثریت کا عقیده یھی ہے کہ نماز کو تیمم کرکے پڑھے گااور شخص ِ مجنب پر نماز کا واجب ہوناآیت کے علاوہ حضرت عمار اور عمران بن حصین کی حدیث سے بھی ثابت اوریقینی ہے ، عمران ابن حصین کی حدیث کو امام بخاری نے بھی نقل فرمایا ہے، لہٰذا حضرت عمر کا نسیان و فراموشی کی بنا پر حضرت عمار کی حدیث پر عمل نہ کرنا جناب عمار کی حدیث کے مضمون پر کوئی اثر نہیں کرتا “
”لٰکن الجمهور راو ا ان ذالک قد ثبت من حدیث عمار و عمران بن حصین……
“
۲ ۔ شراب خورکی حداورحضرت عمرکی خلاف ورزی!!
”…قتادة یحدث عن انس بن مالک؛ان النبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
اتی برجل قد شربالخمرفَجَلَدَه بجرید تین نحواربعین،قال:ففعله ابوبکرفلما کان عمر،استشارالناس،فقال عبد الرحمان:اخف الحدود ثمانین، فامربه عمر“
قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے:
ایک ایسے شخص کو خدمت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں لایا گیا جس نے شراب پی تھی رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حکم صادر فرمایا : اس کو خرمہ کی چوب سے چالیس ضرب لگائی جائیں ،حضرت ابوبکر نے بھی اپنے دور خلافت میں شراب پینے والے کو چالیس ضرب لگوائیں ، لیکن جب عمر کا دور خلافت آیا تو آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا: آیا چالیس ضرب شراب خور کی حد کمتر نہیں ہے؟! توعبد الرحمان بن عوف نے کھا: اسی ( ۸۰) کوڑے (قرآن مجید میں ) کمترین حد (سزا) بیان کی گئی ہے ،عمر نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور اسی وقت سے اسی ( ۸۰) کوڑے لگائیجانے لگے۔
عرض مولف
اس حدیث کو مسلم نے کئی طریق سے نقل کیا ہے اور بخاری نے اسے دو جگہ پر نقل کیا ہے، لیکن حدیث کاآخری حصہ حذف کر دیا ہیجس میں یہ ہے کہ حضرت عمر نے لوگوں سے مشورہ کر کے اسی ( ۸۰) کوڑے مارنے کا حکم اجراء کیا۔
محترم قارئین !حقیقت حال یہ ہے کہ شارب ُالخمر کی حد صدر اسلام سے ہی اسی ( ۸۰) کوڑے تھی ،ایسا نہیں تھا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانہ میں چالیس کوڑے تھی اور خلیفہ صاحب نے مشورہ کرکے اسی کوڑے کردی ،کیو نکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانہ میں اکثر لوگ جنگ و جدال میں مبتلا رھتے تھے،شراب پینے کا موقع ہی نہ ملتا تھا ، یا پھر اسلامی قوانین پر زیادہ عمل پیرا تھے، لہٰذا حد ِخمر جاری کرنے کابھت ہی شاذ ونادراتفاق ہوتا تھا ، اس وجہ سے خلیفہ صاحب( اپنی بھترین ذھانت کی بنا پر) یہ حکم فراموش کر گئے ،لیکن جب وفات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد عمر کے زمانہ تک مسلمان معنویت اور روح ا نیت سے رفتہ رفتہ دور ہو نے لگے اور کچھ آسائش ، عیش و عشرت کا زمانہ ملا اور شراب نوشی عام ہونے لگی تو شراب پینے کی حدجاری کرنا پڑی، لیکن اس طرف چونکہ حضرت عمراس مسئلہ کا حکم بھول چکے تھے، لہٰذا موصوف کو یہ سزا کم معلوم ہوئی چنانچہ آپ نے اسی ( ۸۰) کوڑے کر دی ، جبکہ پھلے سے ہی اسی ( ۸۰) کوڑے سزا تھی۔
اور اسی کوڑے کے بارے میں حضرت عمر کا رهنما عبدالرحمان بن عوف نہ تھا بلکہ اس بارے میں در اصل حضرت امیرعليهالسلام
نے رهنمائی فرمائی تھی،جیسا کہ ا ھل سنت کی معتبر اور اصلی کتابوں سے ثابت ہے ،چنانچہ ابن رشد اندلسی شراب خوری کی حد کے بارے میں علما ئے اہل سنت کے درمیان اختلاف نقل کرنے کے بعد کھتے ہیں :
”اکثر فقھا ء بلکہ تمام فقھا ء کا نظریہ شراب خور کی حد کے بارے میں اسی کوڑے ہے ، اس کے بعدآپ مزید تحریر کرتے ہیں : شراب خوری کے بارے میں اسی تازیانے کی حد کی دلیل ان اکثر فقھاء کے نزدیک حضرت امیر المومنینعليهالسلام
کا یھی نظریہ ہیجسے آپ نے اس وقت جب عمر کے زمانہ میں زیادہ شراب پی جانے لگی اور اس کی حدپر ایک شور و هنگامہ ہوا کہ شراب خور کی حد کمتر ہے، عمر اور دیگر صحا بہ اس بارے میں مشورہ کرنے کیلئے بیٹھے تو بیان فرمایا : شراب خور کی حد وھی ہیجو قذف کی ہے یعنی اسی ( ۸۰) کوڑے“
بھر کیف ان مطالب سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ خلیفہ صا حب نے اسی کوڑے مارنے کاحکم دوسروں کے مشورے اور راهنمائی سے حا صل کرنے کے بعدجاری فرمایا ، راهنما کوئی بھی ہو حضرت امیر المومنینعليهالسلام
یا عبد الرحمن بن عوف ۔
۳ ۔ جنین کی دیت اور حضرت عمر کا رویہ!!
,,…عن المِسْوَربن مخرمة؛قال:استشارعمربن الخطاب الناس فی املاص المراٴة،فقال المغیرة بن شعبةشهدتُ النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قضی فیه بغرة عبدٍ اوامةٍ،قال: فقال عمر:ائتنی بمن یشهد معک؟قال:فتشهد محمدُ بن مسلمة“
مسور بن مخرمہ کھتے ہیں :
حضرت عمر نے ایک مرتبہ اس بچہ کی دیت کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا جو شکم مادر سے ساقط کر دیا جائے ، اس وقت مغیرہ بن شعبہ نے کھا: میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت بابرکت میں ایک مرتبہ حا ضر تھا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے سقط جنین کے بارے میں ایک غلام کی قیمت یا ایک کنیز کی قیمت ادا کرنے کا حکم دیا، عمر نے کھا :اے مغیرہ اپنی رائے پر شاہد پیش کرو، اس وقت مغیرہ کی بات کی گواہی محمد بن مسلمہ نے دی۔
عرض مولف
قارئین ِ محترم !صحیحین کی روایت کے اعتبار سے مذکورہ حکم ان احکام میں سے ایک ہیجن کو خلیفہ صاحب نے مشورہ سے حا صل کیا اور حضرت عمر نے صرف مغیرہ بن شعبہ کی گواہی پر بات کو تسلیم کر لیا ،لیکن مایہ افسوس یہ ہے کہ وہ مغیرہ جو ظالم ترین اور زناکار ترین لوگوں میں سے شمار کیا جاتا تھا ، اس کی بات کو آپ نے تسلیم کر کے ایک اسلامی حکم کوجاری فرمایا!! اس سے زیادہ خلیفہ صاحب کی نا اہلی اور کیا ہو سکتی ہے ؟!
۴ ۔حضرت عمر اور حکم استیذان!!
…” سمعت عن ابی سعیدالخدری؛یقول:کنت جالساًبا لمدینة فی مجلس الانصار، فاتانا ابو موسیٰ فزعاًاو مذعوراً،قلنا ما شاٴ نک ؟قال ان عمرارسل اليَّ ان آتیه،فاتیت با به فسلمت ثلاثاً فلم یرد عليَّ،فرجعت،فقال:ما منعک ان تاتینا؟ فقلت انی اتیتک فسلمت علی بابک ثلاثاًفلم یردوا علی، فرجعت، و قد قال رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله :اذا استاٴذن احدکم فلم یوذن له فلیرجع ،فقال عمر: اقم علیه البینة والا اوجعتک ،فقال ابی بن کعب: لا یقوم معه الا اصغر القوم، قال ابو سعید: قلت: انا اصغرالقوم، قال: فاذهب به“
ابو سعید کھتے ہیں :
ایک مرتبہ میں مدینہ میں انصار کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ابوموسی اشعری اضطراب و پریشانی کی حا لت میں وارد مجلس ہوئے ، میں نے اضطراب ک ا سبب پوچھا :تو ابوموسی نے کھا : مجھے عمر نے بلایا تھا ،لیکن جب میں ان کے گھر گیا ان کے دروازے پر میں نے تین مرتبہ سلام کر کے وارد ہونے کی اجازت چاہی، مگرجب کسی نیجواب نہیں دیا تو میں پلٹ آیا ،لیکن بعد میں جب عمر نے مجھے دیکھا تو کھا: میں نے تجھے بلایا تھا کیوں نہ آیا؟ میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا اور کھا: رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے چوں کہ فرمایا ہے :
اگرتین مرتبہ تک کوئی جواب نہ دے تو پلٹ جانا چاہیئے ، عمر نے اس بات کو جب سنا تو کھا :قسم خدا کی اگر تونے اس بات پر کسی کو گواہ پیش نہ کیا تو سخت سزادوں گا۔ ابوسعید کھتے ہیں : میں اس مجلس میں سب سے چھوٹا تھا اور ابی بن کعب نے کھا : اس مجلس ک ا سب سے چھوٹا اس بات کی گواہی دے گا ، میں نے کھا : میں سب سے چھوٹا ہوں ،چنانچہ میں نے ابی بن کعب کی رائے سے ابو موسیٰ کی گواہی دی۔
عرض مولف
مسلم نے اس مطلب کو ”باب الاستیذان“ میں مختلف اسناد و مضامین کے ساتھ نو ( ۹) حدیثیوں کے ضمن میں نقل کیا ہے،چنانچہ جب حضرت عمر پر یہ بات واضح و ثابت ہوگئی کہ وہ اس سادہ حکم کے بارے میں نابلد ہیں ،تو وہ اپنی بوریت ختم کرنے کیلئے ایک حدیث کے مطابق اس طرح توجیہہ کرتے ہوئے بولے:
ممکن ہے کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
کا یہ حکم میرے اوپر اس لئے پوشیدہ رھا ہو کہ میں اکثر بازار میں خرید و فروخت کرتا رھتا تھا ، لہٰذاخرید و فروخت نے مجھے اس حکم رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کیجاننے سے قاصر رکھا:
”خفی علی هٰذا من امررسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله الهانی عنه الصفق بالاسواق“
!!
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں اس طرح آ یا ہے:
ابی ابن کعب نے اس موضوع کی گواہی خود دی تھی اور حضرت عمر پر اعتراض کرتے ہوئے کھا: اے خطاب کے بیٹے! اصحا ب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر عذاب مت بن:
,,فلا تکن یا ابن الخطاب عذاباًعلی اصحا ب رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله
۔“
عرض مولف
محترم قارئین ! صحیحین کی نقل کے مطابق مسئلہ استیذان خلیفہ صاحب کے لئے اس قدر مشکل مرحلہ تھا کہ گواہی اور سختی وغیرہ کی نوبت آگئی، جبکہ یہ مسئلہ ایک اخلاقی اورا نسانی اقدار کی عکاسی کرتا ہے ،جو لوگ صاحب اخلاق اور غیرت مند ہوتے ہیں وہ اپنے وجدان وفطرت میں ان احکام کو اچھی طرح درک کرتے ہیں ، چنانچہ مسئلہ اذن ایک ڈھکا چھپا مسئلہ نہ تھا بلکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اس مسئلہ کو بارھا بیان فرما دیا تھا،اس کے علاوہ قرآن مجید میں بھی خدا وند متعال نے اس مسئلہ کو ببانگ دھل بیان کر دیا تھا:
(
یَاْ اَیُّهَاْ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَدْخُلُوْاْبُیُوْتاً غیر بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْاْ وَتُسَلِّمُوْاْ عَلیٰ اَهلهَاْذَاْلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ فَاِٴنْ لَمْ تَجِدُوْاْ فِیْهَاْ اَحَداً فَلَاْ تَدْخُلُوْهَاْ حَتّٰی یُوذَنَ لَکَمْ وَاِنْ قِیل لَکُمْ اِرْجِعُوْ اْ فَاْرْجِعُوْ اْ هُوَ اَزْکٰی ٰلَکُمْ وَالله بِمَاْ تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ
)
اے ایماندارو !اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں ( درّانہ )نہ چلیجاو، یھاں تک کہ ان سے اجازت لے لو اور ان گھروں کے رهنے والوں سے صاحب سلامت کرلو یھی تمھارے حق میں بھتر ہے ( یہ نصیحت اس لئے ہے) تا کہ یا د رکھو ۔ پس اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاو تو تا وقتیکہ تم کو ( خا ص طور پر)اجازت نہ حا صل ہو جائے ان میں نہ جاو اور اگر تم سے کھا جائے کہ پھر جاو تو تم (بے تامل ) پھر جاو یھی تمھارے واسطے زیادہ صفائی کی بات ہے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا اس سے خوب واقف ہے ۔
ابی بن کعب کا یہ کهنا کہ ا س چیز کی گواہی کے لئے سب سے چھوٹا شخص جا ئے، یہ بعنوان اعتراض اور تنقید تھا ،بتلانا یہ چاہتے تھے کہ یہ حکم اس قدر عام ہے کہ بوڑھوں کی کیا با ت بچے بھی جانتے ہیں ، لیکن خلیفہ صاحب بچارے ھر وقت بازاروں میں مصروف رھتے تھے،جس کی بناپر اتنے سادہ مسئلہ سے واقف نہ ہو سکے ،اس جگہ سے ہمیں اس بات کا بھی پتہ چل جا تا ہے کہ خلیفہ صاحب مشکل مسائل کا کتنا علم رکھتے ہوں گے !!
۵ ۔ مسئلہ کلالہ سے حضرت عمر کی نادانی!!
”…عن سالم، عن معدان بن ابی طلحة؛ان عمر بن الخطاب خطب یوم الجمعة، فذکر نبی الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
وذکرابابکر،ثم قال:انی لاادع بعدی شیٴاًهم عندی من الکلالة، ماراجعت رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله فی شیءٍ ما راجعته فی الکلالة،ومااغلظ لی فی شیءٍ ما اغلظ فیه حتی ٰطعن باصبعه فی صدری وقال
صلىاللهعليهوآلهوسلم
:یا عمرالا تکفیک آیة الصیف َالّتَیِ فی آخرسورةالنساء؟وانی ان اعش اقض فیها بقضیةیقضی بهامن یقرئالقرآن ومن لا یقرء القرآن“
سالم نے معدان بن ابی طلحہ سے نقل کیا ہے:
ایک روز عمر ابن خطاب نے نماز جمعہ کے خطبہ میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور ابوبکر کو یاد کیا اور کھا کہ کلالہ سے زیادہ مشکل ترین مسئلہ اپنے بعد کوئی نہیں چھوڑ رھا ہوں، کیونکہ کلالہ کے علاوہ میں نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے اور کسی مسئلہ کو نہیں پوچھا ہے اور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
بھی مجھ سے کلالہ کے علاوہ اور کسی مسئلہ کے پوچھنے پر ناراض نہیں ہوئے ہیں اور اس مسئلہ کے دریافت کرنے پررسول اس قدرناراض ہوئے کہ ایک مرتبہ آپ نے میرے سینے پر انگلی مار کر فرمایا: اے عمر! آیہ صیف جو سورہ نساء کے آخر میں ہے کیا وہ تیرے لئے کافی نہیں ہے؟!بھر حال حضرت عمر نے اپنے خطبہ کو ان جملوں پرختم کیا کہ اگر میں زندہ رہ گیا تو کلالہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ جو قرآن پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کرتے ہیں ۔
وضاحت
آیہ صیف
میں کلالہ کی میراث بیان کی گئی ہے اور اس آیت کو آیہ صیف کھتے ہیں کیونکہ یہ آیت گرمی کے موسم میں نازل ہوئی تھی (صیف کے معنی گرمی کے ہیں )۔
مرحوم علامہ امینی (رہ)اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :
شریعت اسلامیہ کے قوانین کو خداوند عالم نے آسان و سھل بنایا ہے اسی وجہ سے اس کو شریعت ِ سھلہ کھا جاتا ہے مگر عمر کے لئے یہ شریعت، شریعت ِ مشکلہ تھی کیونکہ آپ منبر کے اوپر جاکر فرماتے تھے:
” میرے نزدیک سب سے زیادہ مشکل مسئلہ کلالہ ہے اس سے زیادہ میں کوئی مشکل مسئلہ اپنے بعد نہیں چھوڑیجا رھا ہوں۔“
اس کے بعدعلامہ امینی(رہ)کھتے ہیں :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عمر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے باربار کلالہ ک ا سوال کرتے تھے تو حضرت رسالتمآبصلىاللهعليهوآلهوسلم
اس کا جواب دیتے تھے یا نہیں ؟اگر آپ جواب دیتے تھے تو پھر عمر یاد کیوں نہیں کرتے تھے ؟یا پھر یا د کرتے تھے ، مگر بھول جاتے تھے کیونکہ آپ کی عقل اس کو درک کرنے سے عاجز تھی! اور اگر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
جواب نہیں دیتے تھے بلکہ مسئلہ کو لا ینحل اور مبھم بیان فرماتے تھے، تو یہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے بعید ہے کیونکہ جو مسئلہ روز مرہ کا مبتلا بہ ہو اس کا امت کے لئے واضح کر دینا آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدا کی جانب سے ذمہ داری ہے ۔اور پھریہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جس شخص کے سامنے قر آن کی اس سے مربوط آیات موجود ہوں،وہ کلالہ کے معنی نہ جانتا ہو جبکہ اسی آیت کے ذیل میں خدا ارشاد فرماتا ہے:یُبَیِّنُ الله لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاوَالله بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ :خدا واضحا ور روشن بیان کرتاہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاوآخر خدا نے اس حکم کو کیسے بیان کیا تھا کہ خلیفہ صاحب کی سمجہمیں نہیں آ یا اور اپنے نز دیک اس سے مشکل ترین مسئلہ کوئی نہیں جانا ؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
خدا کلالہ کی تو ضیح میں آیت کو کا فی سمجھیں لیکن کلالہ پھر بھی ایک غیر قابل حل مشکل کے طورپر باقی رہے ؟!!
عرض مولف
ان تما م باتوں کے باوجود خلیفہ صاحب فرماتے ہیں :
”اگر میں زندہ رھا توایسافیصلہ کروں گاجوقرآن پڑھنے اورنہ پڑھنے والے کرتے ہیں۔“
اس سے ان کی کیا مرادھے؟آیا حکم قرآن کے مقابلہ میں کوئی جدید فیصلہ کرنا چاہتے ہیں؟!یاپھرحکم قرآن سے صحیح تر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جو قرآن کے مطابق ہو مگر صراحت اور تسھیل میں قرآن سے زیادہ روشن اور واضح ہو جسے ھرشخص کا ذوق سلیم تسلیم کرلے ؟!جبکہ خدا فرماتا ہے کہ میں نے اس مسئلہ کو روشن بیان کیا ہے ،یا پھر اور کوئی مطلب تھا؟!ھمارے نزدیک موصوف کی مراد مجہول ہے!!
۶ ۔ حضرت عمرکاپاگل عورت کو سنگسارکرنا!!
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے :
ایک مرتبہ عمر کے پاس ایک پاگل عورت کو لایا گیا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا ،حضرت عمر نے چند لوگوں سے مشورہ کر کے حکم دیا کہ اس عورت کو سنگسار کر دیا جائے لہٰذا اس عورت کو سنگسار کرنے کے لئے لیجا رہے تھے، ابن عباس کھتے ہیں : جب حضرت علی علیہ السلام نے اس عورت کو دیکھا تو دریافت کیا : لوگوں نے بتایا: یہ عورت دیوانی ہے اور فلاں قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے اوراس نے زنا کاارتکاب کیا ہے، اس لئے اس کو حضرت عمر کے حکم کی بنا پر سنگسار کرنے کے لئے لیجایا جارھا ہے۔
ابن عباس کھتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اس کو واپس لے چلو اور خود عمر کے پاس آئے اور فرمایا: اے عمر! کیا تمھیں نہیں معلو م کہ خدا نے تین لوگوں سے تکلیف اٹھالی ہے؟!
۱ ۔ ایک وہ شخص جو دیوانہ ہو یھاں تک کہ عقل مند ہو جائے ۔
۲ ۔ وہ شخص جو محو خواب ہو یھاں تک بیدار ہو جائے۔
۳ ۔ بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے۔
عمر نے کھا :کیوں نہیں امیرالمومنین! حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:تو پھر کیوں اس کی سنگساری کا حکم دیا؟اس کی آزادی کا حکم دو ! ابن عباس کھتے ہیں : عمر نے اس حال میں کہ زبان پر کلمہ اللہ اکبر تھا حکم د یا کہ اس عورت کو آزاد کردیا جائے۔
امام بخاری نے اس حدیث کو دو جگہ تحریر کیا ہے لیکن حضرت عمر کی عزت بچانے کے لئے حدیث کے آخر اور اول کیجملے حذف کر دئے ہیں،صرف خلیفہ صاحب کے وسط والیجملہ قسمیہ کے الفاظ نقل کئے ہیں جو یہ ہیں :
”قال علی لعمر:اماعلمت ان القلم رفع عن المجنون حتی یفیق، وعن الصبی حتی یدرک، و عن النائم حتی یستیقظ؟!“
علیعليهالسلام
نے عمر سے کھا:کیا تمھیں نہیں معلوم کہ مجنون سے قلم ِتکلیف اٹھا لیا گیا ہے یھاں تک کہ وہ ہوش میں آجائے ، اسی طرح بچے سے تکلیف ساقط ہیجب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے، اسی طرح سونے والے سے تکلیف ساقط ہیجب تلک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے؟!
اس حدیث کا کامل متن علم حدیث و تراجم کی مختلف کتب میں نقل کیا گیا ہے۔
ابن عبد البر نے تو اس حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی تحریر کیا ہے:
جب عمر نے یہ سنا توحضرت علیعليهالسلام
سے فرمانے لگے:”لَوْلَا عَلِیٌّ لَهلکَ عُمَرُ“اگر آج حضرت علیعليهالسلام
میری مدد نہ کرتے تو عمر ھلاک ہو جاتا۔
۷ ۔ حضرت عمر نماز عید میں سورہ بھول جایا کرتے تھے!!
”عن عبید اللّٰه بن عبد اللّٰه ان عمرابن الخطاب؛ ساٴل اباواقد اللیثی ما کان یقراٴ به رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اللّٰه فی الاضحیٰ والفطر؟فقال:کان یقراٴ فیهما بقٓ والقرآن المجید واقتربت الساعة وانشق القمر“
مسلم نے عبید الله ابن عبد الله سے نقل کیا ہے :
ایک مرتبہ حضرت عمر نے ابو واقد لیثی سے پوچھا : رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسلام نماز عیدین میں کون سے سورے پڑھتے تھے؟ابو واقد لیثی نے کھا :رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ان دونوں نمازوں میں سورہ ق ٓوالقرآن المجید اور سورہ(
اِقتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُ
)
پڑھتے تھے۔
یہ حدیث صحیح مسلم کے علاوہ موطا امام مالک ، سنن ترمذی اور سنن داؤد میں بھی نقل کی گئی ہے، لیکن ابن ماجہ میں یوں منقول ہوئی ہے:
”خرج عمر یوم عید فارسل الی ابی واقد لیثی…“
جب حضرت عمر نماز عید پڑھانے کے لئے باہر نکلے تو کسی کو ابو واقد لیثی کے پاس بھیج کر معلوم کروایا کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نماز عیدین میں کون سے سورے پڑھتے تھے؟
قارئین محترم! یھاں پر علامہ امینی(رہ) کتاب” الغدیر“ میں فرماتے ہیں :
اس جگہ خلیفہ صاحب سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا وجہ تھی کہ وہ ان سوروں کو بھول گئیجنھیں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نماز عیدین میں پڑھتے تھے؟!کیا واقعاً (کند ذهنی کا نتیجہ تھا کہ)یادنہ رکھ پائے اور فراموش کردیا جیسا کہ علامہ جلال لدین سیوطی نے کتاب” تنویر الحوالک“ میں یہ عذر تحریر کیا ہے؟! یا حضرت عمر کو بازاروں میں خرید و فروخت سے فرصت نہ ملتی تھی کہ نماز عیدین ادا کرتے؟ چنانچہ حضرت عمر خود بھی کبھی کبھی اس عذر کو بعض مواقع پرپیش کرتے تھے!! لیکن جھاں تک فراموشی کا مسئلہ ہے تو یہ بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ نماز عید ین ھر سال دو دفعہ پڑھی جاتی تھی لہٰذاا یسے بڑے لوگ (رووس الاشھاد)کیسے بھول سکتے ہیں یاپھر اس کا کچھ اور ہی مقصدتھا؟
عرض مولف
اس واقعہ میں دقت کرنے سے ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ خلیفہ صاحب اس بارے میں بھت ہی تذبذب اور پریشانی میں مبتلا تھے لہٰذا ایسے حساس موقع پر چلتے وقت بحالت مجبوری ابوواقدلیثی سے نماز عیدین کی صورت حال کومعلوم کیا!!
۸ ۔ زیوراتِ کعبہ اورحضرت عمرکی بدنیتی!!
…”عن ابی وائل ؛قال: جلست الی شیبة فی هٰذاالمسجد، قال: جلس الی عمر فی مجلسک هٰذا،فقال:هممت ان لاادع فیها صفراء ولابیضاء الاقسمتهابین المسلمین،قلت:ماانت بفاعل،قال لم؟ قلت:لم یفعله صاحباک، قال هما المرء ان یقتدی بهما“
امام بخاری نے ابو وائل سے نقل کیا ہے:
ایک روز میں مسجد الحرام میں شیبہ کے پاس بیٹھا ہواتھا، تو مجھ سے شیبہ نے کھا: ایک روز میں اور عمر اسی جگہ بیٹھے تھے توعمر نے کھا : میرا ارادہ ہے کہ خانہ کعبہ پرجتنابھی سونا چاندی ہے سب کو اترواکر مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دوں؟ میں نے عمر سے کھا : آپ اس کام کو نہیں کرسکتے، حضرت عمر نے کھا کیوں نہیں کرسکتا؟ میں نے کھا: چوں کہ حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسلام و حضرت ابوبکر نے ایسا کام نہیں کیا، عمر نے کھا: صحیح ہے وہ لوگ کامل مرد تھے لہٰذا ان کی پیروی کرنا بھتر ہے۔
عرض مولف
بخاری نے اس روایت کو صحیح بخاری میں کچھ الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ دو جگہ نقل کیا ہے،لیکن کتب تواریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر نے یہ ارادہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ کیا ،مگر مسلمانوںاور رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے معزز صحابہ کی مخالفت کی وجہ سے اس کام کے انجام دینے سے باز رہے ،ایک دفعہ شیبہ نے باز رکھااوردوسری دفعہ مولا علیعليهالسلام
سے مشورہ کیا تو حضرتعليهالسلام
نے محکم دلائل کے ساتھ ان کو قانع کیا اور انھیں اس کام کے انجام دینے سے منصرف کردیاْ۔
چنانچہ اس واقعہ کو خود مولا علیعليهالسلام
نے نہج البلاغہ میں بیان فرمایا ہے:
” جب کعبہ کے سونے چاندی کی کثرت کولوگوں نے عمر سے بیان کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ اگر یہ سونا چاندی مسلمانوں کے اوپر جنگ کے وسائل فراہم کرنے پر خرچ کردیا جائے تواس کا زیادہ فائدہ حا صل ہو سکتا ہے، کیونکہ خانہ کعبہ کو سونے چاندی کی کیا ضرورت ؟! لہٰذا عمر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس بارے میں اقدام کیا جائے، لیکن جب حضرت امیر المو منینعليهالسلام
سے دریافت کیاتو آپ نے فرمایا:
”ان هٰذاالقرآن انزل علی النَّبِی صلَّی الله علیه وآله وسلم والاموال اربعة: اموال المسلمین فقسمها بین الورثة فی الفرائض،والفیٴ فقسمه علی مستحقیه، والخمس فوضعه الله حیث جعلها،والصدقات فجعلها الله حیث جعلها…“
جس وقت قرآن مجید رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر نازل ہوا تو مال و ثروت کی چار قس میں تھیں اوررسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ان چار قسموں میں سے ھر ایک کا حکم بیان فرما دیا تھا۔
۱ ۔ مسلمانوں کا وہ مال جو ارث میں رہ جائے: اس کو ورثاء میں تقسیم کیا جائے۔
۲ ۔ مال غنیمت:ان لوگوں میں تقسیم کیا جائیجو استحقاق رکھتے ہیں ۔
۳ ۔ مال خمس: یہ معین افراد کا حق ہے۔
۴ ۔ زکاة: یہ بھی ان لوگوں پر صرف کیا جائیجو مستحقین زکاة ہیں ۔
اس کے بعد امامعليهالسلام
نے فرمایا:
یہ سونا و چاندی جو خانہ کعبہ پر موجود ہے یہ نزول قرآن کے وقت موجود تھا لیکن خدا نے اس کو اسی طرح اپنے حال پرچھوڑدیا اور اس سلسلے میں کچھ نہیں بیان فرمایا کہ کھاں صرف کیا جائے اور اس کا حکم بیان نہ کرنا فراموشی یا خوف کی وجہ سے نہیں تھا،بلکہ قصداًاور عمداً تھا ،لہٰذا اے عمر! تو بھی اس سونے و چاندی کو اسی حال پر چھوڑ دیجس طرح خدا ورسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے چھوڑ ا ہے، اس وقت عمر نے کھا:اے علی!عليهالسلام
اگر آپ نہ ہوتے تو میں ذلیل ہو جاتا چنانچہ عمر نے کعبہ کے سونے چاندی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ۔
ابن ابی الحدید اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں :
جو کچھ حضرت علی علیہ السلام نے استدلال فرمایا تھا وہ درست ہے اوراس کو ہم دو طرح سے بیان کر سکتے ہیں یعنی حضرت کے بیان کیتصدیق پر ہم دو طریقہ سے استدلال پیش کرسکتے ہیں :
۱ ۔ کسی بھی مال و منفعت میں (جب تک اس کے مالک کی اجازت نہ ہو) اصل، حرمت اور منع ہے، لہٰذا بغیرِاذنِ شرعی اپنے سے غیر متعلق اموال کا استعمال کرنا درست نہیں ہے ،چنانچہ کعبہ ک ا سوناچاندی (کہ جس کے ہم مالک نہیں ہیں)استعمال کرنا اس اصلِ حرمت اور عدمِ تصرف کے تحت باقی ہے،کیونکہ اس کے تصرف کیلئے شریعت کی طرف سے کوئی اجازت موجود نہیں ہے ۔
۲ ۔ امام علی علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ تمام وہ اموال جو خانہ کعبہ سے متعلق ہیں وہ خانہ کعبہ پر وقف ہیں جیسے خانہ کعبہ کے دروازے اورپردے وغیرہ، لہٰذاجب یہ چیزیں بغیر شارع کی اجازت کے استعمال کرنا جائز نہیں ہیں تواسی طرح خانہ کعبہ کے سونے چاندی کا استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے،بھرحال جامع وجہ یھی ہے کہ چونکہ یہ اموال خانہ کعبہ سے مخصوص اوراس پر وقف ہیں لہٰذا ان کا شمار بھی کعبہ کیجزئیات سے ہو گا،جس کی بنا پر ان میں تصرف نہیں ہو سکتا ۔
” وروی انہ ذکر عند عمر بن الخطاب فی ایامہ حلی الکعبة و کثر تہ ، فقال قوم: فجہزت بہ جیوش المسلمین ان ہٰذا القرآن نزل علی محمد والاموال اربعة “
عرض مولف
اس واقعہ کو زمخشری نے بھی اپنی کتاب” ربیع الابرار“ میں تحریر کیا ہے۔
۹ ۔ واہ! یہ بھی ایک تفسیرِ قرآن ہے !!
”ان رجلاًساٴل عمر بن الخطاب عن قوله <
(
وَفَاکِهَةً وَاَبّاً
)
>:ما الاب؟ قال: نهینا عن التعمق والتکلف!“
ایک شخص نے عمر بن خطاب سے آیہ وَفَاْکِہَةً وَاَبّاً میں اب کے معنی دریافت کئے تو کهنے لگے: خدا نے ہمیں قرآن مجید کے اندرغور وفکر اور زحمت کرنے سے روکا ہے!
اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے حسب عادت خلیفہ صاحب کی عزت بچانے کی خاطر جملہ اُولیٰ کو حذف کر کے صرف حدیث کا آخری یہ جملہ تحریر کر دیا:نهیٰنا عن التعمق
۔۔۔۔لیکن اس بات سے غافل رہے کہ حق چھپانے سے چھپتانھیں ،چنانچہ شارحین صحیح بخاری،مورخین اور مفسرین نے کتب احادیث، تواریخ و تفاسیر میں مکمل حدیث کو نقل کیا ہے، جیسا کہ ہم نے ابتداء میں من و عن آپ کی خدمت میں پیش کیا،بلکہ بعض شارحین ِ صحیح بخاری نے اس بات کی تصریح بھی کی ہے کہ امام بخاری کی نقل شدہ حدیث مقطوع ہے اور اس کی تکمیل ا سطرح ہوتی ہے ۔
____________________