خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں0%

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف: محمد صادق نجمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20450
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20450 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

۱۰ ۔ حضرت عثمان کا ایک انوکھا فتوی!!

غسل جنابت آیہ قرآن کی نص اور متعدد احادیث کے مطابق (جو خود صحا ح ستہ میں نقل کی گئی ہیں ) مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر واجب ہو جاتا ہے:

۱ ۔ منی کا خارج ہونا ۔

۲ ۔ التقاء ختانین (یعنی مرد و عورت کی ختنے کی جگہ مل جائے اور جماع صادق آئے) چاہے منی خارج ہو یا نہ ہو،چنانچہ حدزنا اور لزوم مھروغیرہ میں جنابت سے مراد یھی ہے۔

امام شافعی کھتے ہیں :

خدا نے غسل کو جنابت کی وجہ سے واجب قرار دیا ہے اور جنابت کے معنی عرب کے نزدیک عام فھم ہیں،اہل عرب جانتے ہیں : جنابت سے مراد جماع ہوتا ہے چاہے منی خارج نہ ہوئی ہو،چنانچہ جماع ہی مھر اور حد زنا کا موجب ہو تاہے اوران موارد میں بھی منی کانکلنا لازمی نھیں، لہٰذا جو شخص عربی زبان سے واقفیت رکھتا ہے اس کے سامنے یہ کھا جائے کہ فلاں مرد فلاں عورت سے مجنب ہوگیا تو اس کے نزدیک یھی معنی تبادر کر یں گے کہ اس مرد نے فلاں عورت سیجماع کیا ،چاہے منی خارج نہ ہوئی ہو۔

اس کے بعد امام شافعی کھتے ہیں :

قطعی سنت اس بات پر قائم ہے کہ جنابت دو طریقے سے حا صل ہوتا ہے، مرد عورت سیجماع کرے چاہے منی خارج نہ ہو ،یا منی خارج ہو جائے چاہے اسی جماع نہ کھیں ۔( ۱ )

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں منجملہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں اس موضوع سے متعلق کثرت کے ساتھ روایات منقول ہیں :

اگر مرد و عورت کی ختنے کی جگہ مل جائے(جماع کریں ) تو غسل جنابت واجب ہو جاتا ہے چاہے منی نہ نکلی ہو ۔

چنانچہ مسلم نے تو اس بارے میں ایک مخصوص باب اس:”نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانین “عنوان سے تحریر کیا ہے۔( ۲ )

لیکن صحیحین کی ایک دوسری روایت کے مطابق عثمان سیجب کسی نے سوال کیاکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سیجماع کرے اور منی نہ نکلے تووظیفہ کیاہے؟

حضرت عثمان نے کھا : وہ شخص عضوئے تناسل کو دھوکر وضو کرلے اور میں نے یہ مسئلہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں ہی سنا ہے اورجب میں نے حضرت علیعليه‌السلام ، زبیر بن العوام،طلحہ بن عبید الله اور ابی بن کعب وغیرہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ لوگوں نے بھی یھی جواب دیا جس کو میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سن رکھا تھا:

… ”خالد الجهنی اخبره؛ انه ساٴل عثمان بن عفان؛ فقال: اٴرایت اذا جامع الرجل امراٴته فلم یمن؟ قال عثمان: یتوضاٴ کما یتوضاٴ للصلٰوة، ویغسل ذکره، قال عثمان :سمعته من رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، فساٴلت عن ذالک علی بن ابی طالب، عليه‌السلام والزبیر بن العوام ،وطلحة بن عبید الله ، و ابیٴ بن کعب، فامروه بذالک “ ( ۳ )

عرض مولف قارئین محترم ! یہ تھا صحیحین میں حضرت عثمان کا انوکھا فتویٰ کہ اگر انسان جماع کرے تو غسل کرنے کی ضرورت نہیں ، لیکن روایت کا دوسرا حصہ جس میں اس فتوی کی تائید کرتے ہوئے راوی نے رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا، حضرت امیر المومنین ،طلحہ ،زبیر اور ابی بن کعب وغیرہ کے قول کو نقل کیا ہے آیا یہ حقیقت ہے ؟! ھرگز نہیں ،بلکہ یہ ( بالکل کھلا وا کذب اور برهنہ الزام ہے ) عثمان کی عزت بچانے کی خاطر اسے ان کے فتوے کے ساتھ اضافہ کر دیا گیا ہے اوریہ کوئی تعجب خیز بات نہیں بلکہ ایسے شواہد کثرت کے ساتھ پائیجاتے ہیں ((وکم لہ من نظیر)) یا پھر یہ کہئے کہ جو فتویٰ عثمان نے دیا یہ صدر اسلام سے مربوط ہے،کیو نکہ نقل کیا گیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صدراسلام میں فرمایا تھا (الماء من الماء) لیکن ابن عباس فرماتے ہیں : یہ جملہ احتلام سے مربوط ہے نہ کہ جماع سے۔( ۴ )

بھر صورت جو مسئلہ روز مرّہ کا مبتلا بہ ہو اس میں خلیفہ صاحب کا نا بلد ہونا تعجبخیز ہیجبکہ اس سلسلے میں اصحا ب کے درمیان حدیثیں کثرت کے ساتھ پائی جاتی تھیں !(اذا جاوز الختان وجب الغسل ) ممکن ہے کہ عثمان نے صدر اسلام میں کھیں سے سن لیا تھا کہ خالی دھونا کافی ہے، چنانچہ صدر اسلام کا یہ جملہ یا د کرلیا اور انھیں ا س حکم کے نسخ کی اطلاع نہ ملی، لہٰذا اپنی سابقہ ذهنی معلومات کی بناپر فتوی صادر کردیابھر کیف مسئلہ ھر حال میں محل تعجب ہے!!

۱۱ ۔ احراق قرآن بدست حضرت عثمان !!

اما م بخاری نقل کرتے ہیں :

جب حذیفہ یمانی اہل شام وعراق کے ہمراہ آرمینیہ اور آذربائیجان کی جنگ میں مصروف تھے تو قرآن کی قراتوں میں مسلمانوں(اہل شام و عراق) کے درمیان اختلاف دیکھ کر گھبرا گئے اور حضرت عثمان سیجاکر کھا کہ قبل اس کے کہ یہود و نصاری کی طرح مسلمان بھی اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں اختلاف کا شکار بن جائیں کتاب خدا کی خبر لیجئے، حضرت عثمان نے ایک گروہ کو حکم دیا کہ جتنے قرآن دسترس میں ہیں انھیں جمع کرلیا جائے اور پھرجو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں قرات تھی اسی کے اعتبار سے نسخہ بر داری کریں اور اگر اختلاف نظر ہوجائے تو قریش کے لہجے اور قرات میں قرآن لکھنا کیونکہ قرآن قریش کے لہجے میں نازل ہوا ہے، المختصر یہ کہ اس قرآن سے متعدد نسخے بناکر اطراف و نواح کے شھروں میں بھیج دئے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ اس قرآن کے علاوہ جھاں بھی دوسراقرآن ہے اسے فوراً جلا دیا جائے:

”وارسل الیٰ کل افق بمصحف ممانسخواوامربماسواه من القرآن فی کل صحیفةاومصحف ان یحرق“ ( ۵ )

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کہ تمام دیگر قرآنوں کو جمع کرکیجلا دیا گیا،اگر کوئی قرآن ہڈی وغیرہ پر لکھا تھا تو اسے سرکہ سے دھو دیا گیا!!

عصر حا ضر کے ایک مشہور محقق کھتے ہیں :

حضرت عثمان نے اپنے دورخلافت میں جس قرات پر قرآن جمع کروایا تھا وہ وھی قرات تھی جو اُس وقت مسلمانوں کے درمیان رائج ، متواتر اور قطعی الصدور تھی جس کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہونا یقینی تھا،لہٰذا حضرت عثمان نے اس کام کو انجام دیکر امت مسلمہ کو ایک قرات پر جمع کر دیا اور دیگر بے اساس ، ناشائستہ ا و رغلط قراتوں سے بچا لیا جو مسلمانوں میں اختلاف ک ا سبب بنتیں چنانچہ حضرت عثمان کا یہ عمل بجا اور شائستہ تھا، اسی وجہ سے آپ اس عمل کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان لعن طعن کا نشانہ نہیں قرار پائے ،کیونکہ اگر حضرت عثمان یہ کام نہ کرتے تو اسی قرات کے اختلاف کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے کو کفر کا فتویٰ دیکر قتل و خونریزی کرتے!البتہ جو چیز اعتراض کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے دیگر قرآنوں کو جلوادیا ! اور یھی نہیں بلکہ یہ کام آپ نے خود کیا اور لوگوں کو اس بات کا حکم بھی دیا!حضرت عثمان کی یہ بات قابل تنقید ومذمت ہے یھاں تک کہ کچھ مسلمانوں نے آپ پر اعتراض بھی کیا اور آپ کو”حرّاق المصاحف“ قرآن جلانے والاکهنے لگے۔( ۶ )

عرض مولف

آپ جانتے ہیں کہ قرآن مجید اسلام کی نظر میں ایک خاص احترام کا حا مل ہے اور اس کے احترام ، عظمت اور حفاظت کے بارے میں اسلام میں باقاعدہ قوانین اور شرائط پائیجاتے ہیں ۔ مثلاًاس قرآن کو بغیر وضو مس کرنا حرام ہے ، مجنب و حا ئض کے لئے سورہ عزائم کا پڑھنا شیعوں کے نزدیک اور تمام سورتوں کاپڑھنا اکثرعلمائے اہل سنت کے نزدیک حرام ہے، اسی طرح قرآن کا نجس کرنا بھی حرام ہے۔ کلی طور پر علمائے اہل تشیع و تسنن کا اتفاق ہے کہ قرآن کے ساتھ ھر وہ عمل انجام دینا حرام ہیجو قرآن محید کی بے احترامی ک ا سبب بنے،چنانچہ احترام قرآن سے متعلق اسلامی کتابوں میں متعدد احادیث کو نقل کیا گیا ہے، ترمذی اپنی سنن میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ حدیث( مجنب اور حا ئض قرآن نہیں پڑھ سکتے )نقل کرنے کے بعد کھتے ہیں :

یھی فتوی صحا بہ کرام ،تابعین عظام اور موجودہ ومتقدمین علمائے اسلام کا ہیجیسے سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمدبن حنبل،اسحاق، وغیرہ ان تمام علماء نے فتوی صادر فرما یا ہے کہ مجنب اورحائض قرآن نہیں پڑھ سکتے البتہ کسی آیت کے ایک کلمہ کواور اسی طرح تسبیح وتھلیل کرنا ان کے لئیجائز ہے ۔( ۷ )

عرض مولف

جی ھاں! یہ تمام تاکیدیں قرآن مجید کی عظمت ،اہمیت ا ور احترام کی حفاظت کی خاطر دین اسلام میں بیان کی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود خلیفہ وقت کا مدینہ اور دیگر تمام اسلامی ممالک میں موجودہ قرآن جلانے کا حکم دینا کس مدرک کی بنا پر تھا ؟! آخر ایسا فتوی کیسے صادر کیا؟ قرآن کی اس قدر عظمت اوراس کے صریحا حکام کے ہوتے ہوئے خلیفہ صاحب کی کیسے ہمت ہوئی کہ قرآن کیجلانے میں حکم صادر فرمائیں؟!ان مطالب کو ہم قارئین کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں ۔( ۸ )

اوراگر دیگر قرآن جلانے کا مقصد یہ تھا کہ دوسری قرائتوں کو ختم کیا جائے تاکہ مسلمانوں میں اختلاف نہ ہونے پائے ،تو یہ کام دوسرے طریقے سے بھی کیا جاسکتا تھا ، جس سے احترام قرآن باقی رہ جاتا، مثلاً دوسرے قرآنوں کو کسی پاک جگہ دفن کردیاجاتا ،یا کسی محفوظ جگہ حفاظت سے رکھ دیا جاتا، یادریا برد کردیاجاتا وغیرہ وغیرہ ۔

۳ ۔ خلفاء اوراسلامی احکام

امام ؛احکام الہٰیَّہ کامحا فظ اور قرآنی قوانین کاجاری کرنے والاہے

قال علی علیہ السلام:”وَلَا الْمُعَطِّلُ لِلسُّنَّةِ فَیُهلِکُ اْلاُمَّةَ “”قدعملت الولاة قبلی اعمالا خالفوا فیها رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه

,,اورامام کو احکام خدا معطل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امام کااحکام خدا ترک کرنا امت مسلمہ کے ھلاک ہونے ک ا سبب ہوتا ہے،بالتحقیق مجھ سے پھلی جو خلفاء گزرے انہوں نے کچھ ایسے اعمال انجام دئیجن میں رسول اللہ کی صریحا مخالفت کی گئی تھی“

ا س میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام اور اسلامی حا کم کے لئے سب سے اہم شرط بلکہ خلافت الٰھیہ کا اصل فلسفہ اور مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ احکام خداوندی کا پاسبان اور قرآن کے قوانین کا اجرا ء کرنے والا ہو، مولائے متقیانعليه‌السلام خلیفہ کے لئے اس شرط کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

”امام کو احکام خدا معطل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امام کااحکام خدا ترک کرنا امت مسلمہ کے ھلاک ہونے ک ا سبب ہوتا ہے“۔

لیکن تاریخ اسلام اور صحیحین کی مختلف احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں احکام خدا کوا علانیہ اور ظاہر بظاہر ترک کیا گیا، احکام خداوندی میں تغییر و تحریف کی گئی ،اسلامی احکام کو ذاتی نظریات ، مقاصد اور مصالح میں رنگ دیا گیا ،ھر شخص جیسے چاہتا اسلامی حکم کو اپنی رائے کے مطابق تبدیل کردیتا !جیسے چاہتا اسلامی قوانین میں اظھار نظر فرماتا ! چنانچہ خلفائے ثلاثہ نے بھی حکم ِ خدا میں خوب من مانی کی اور جب محل لعن و طعن قرار دیا گیا تو کچھ نام نھاد اور زر خرید علمائے اہل سنت نے اس تحریف وتغےیر کو علمی رنگ میں پیش کرنے کے لئے اسے اجتھاد کا نام دیکر ان عیوب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور انھوںنیجھاں اس قسم کی مخالفت اور تحریف دیکھی اسے اجتھاد کے خوش نما لفافہ میں رکھ کر اسلامی امت کے سامنے پیش کردیا، تاکہ اسلامی معاشرہ کے نزدیک قابل قبول قرار پائے، حا لانکہ اجتھاد ایک جدا بحث ہے اورصریحا قرآن و سنت کی مخالفت ایک جدا بحث ہے، دونوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :

”قد عملت الولاة قبلی اعمالاخالفوا فیهارسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله معتمدین بخلافه، ناقضین لعهده، مغیرین لسنته، ولوحملت الناس علی ترکها وحولتها الی مواضعهاوالی ما کانت فی عهد رسول الله لتفترق عنی جندی، حتی ابقی وحدی اومع قلیل من شیعتی الذین عرفوا فضلی وفرض اما متی من کتاب الله و سنةرسوله“ ( ۹ )

مجھ سے پھلے خلفاء ایسے اعمال انجام دے چکے ہیں کہ جن میں عمداًرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله کی صریحا مخالفت اور پیمان شکنی کی گئی،آپ کی سنت کو بدلا گیا، چنانچہ اگر میں لوگوں کو ان بدعتوں کے ترک کرنے پر مجبور کروںاور اسلامی قوانین کواصلی صورت پر پلٹاوں جس روش پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله کے زمانہ میں تھے،تو میرے لشکر والے ہی سب سے پھلے مجھ سے دور ہو جائیں گے اور میں اپنے شیعوں کے چند افراد کے ساتھ تنھا رہ جاوں گا، جنھوں نے میری فضیلت اور امامت کو قرآن وسنت سے پہچانا ہے ۔

دوسری جگہ امام فرماتے ہیں :

جس روز میں نے اپنے داخلی اختلاف سے نجات پائی اسی دن بھت سے ان بدعتی احکام کو ا ن کی اصلی صورت پر پلٹاوں گا:

”لوقد استوت قدما ی من هٰذه المداحض لغیرت اشیاء“

ابن ابی الحدید امام کے اس قول کے ذیل میں کھتے ہیں :

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنینعليه‌السلام احکام شرعی اور قضاوت میں گزشتہ خلفاء کے فتاوی اور ان کے نظریات کے خلاف عمل کرتے تھیجیسے چور کی حد ، ام ولد کا حکم، امام نے گزشتہ خلفاء کے بر خلاف چور کی حد میں انگلیوں کو کاٹا اور ام ولد کو فروخت کیا( ۱۰ )

ابن ابی الحدید آخر میں تحریر کرتے ہیں :

جو چیز امیر المومنین علی علیہ السلام کو بطور کلی بدعتی احکام بدلنے سے مانع تھی وہ آپ کا باغی اور خوارج کے ساتھ مصروف جنگ رهنا ہے،امام کو اس اختلاف نے فرصت نہیں بخشی کہ خلفاء کے زمانہ والے بھت سے بدعتی احکام تبدیل کرتے۔( ۱۱ )

عرض مولف

جو اسلامی احکام خلفاء کے زمانہ میں تبدیل کئے گئے وہ کثرت کے ساتھ کتب تواریخ ، تفاسیر ا ور احادیث میں موجود ہیں لیکن ہم اپنی روش کے مطابق صرف صحیحین سے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

۱ ۔ خلیفہ کے حکم سے مسلمانوں کا قتل عام اور اسلامی احکام میں تبدیلی

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ جس نے کلمہ شھادتین زبان پر جاری کر دیا اور خدا کی وحدانیت اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کا اعتراف کر لیا ،اس کی جان و مال اسلام کی رو سے محفوظ و محترم ہوجاتی ہے اور کسی کو اسیجانی اور مالی نقصان پهنچانے کا حق نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی ذاتی حق رکھتا ہو ، چنانچہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :

”امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا: لا الٰه الا اللّٰه ،فمن قال: لا الٰه الا اللّٰه، فقد عَصَمَ منّی مالَه و نفسَه الا بحقّه وحسابُه علی اللّٰه“

مجھے خدا کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک منکرین خد ا سیجنگ کروں جب تک کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کوزبان پر جاری نہ کریں ، لہٰذا اگر کوئی کلمہ توحید پڑھنے لگے تواب اس کی جان و مال محفوظ ہوجاتی ہے، البتہ اگر کوئی شخصی حق رکھتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور اس کا حساب یوم آخرت اللہ کے اوپر ہے۔( ۱۲ )

لیکن افسوس کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد خلفائے وقت نے کچھ ایسے مسلمانوں کا خون مباح کر دیا تھا جوتمام اسلامی احکام اور زکاة کے پابند تھے صرف خلفائے وقت کو زکاة دینے سے انکارکر رہے تھے در حقیقت ان لوگوں نے خلیفہ کی بیعت کرنے سے انکارکر دیا تھا اس لئے ان کے مردوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان کی عورتوں ، بچوں کو اسیر کر کے کنیز ا ور لونڈی بنا لیا گیا(جو اسلام کی رو سے قطعاً جائز نہ تھا)۔( ۱۳ )

البتہ اس قتل وغارت کی توجیہہ اور خلیفہ صاحب کے دامن کو تنقید سے بچانے کی خاطر کچھ زرخرید راویوں نے روایتیں گڑھنا شروع کردیں! جن کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جن لوگوں کو خلیفہ وقت نے قتل کرنے کا حکم دیا تھا وہ مرتد ہوگئے تھے!! اس طرح ان لوگوں کو مانند مسیلمہ اور طلیحہ، کفار کی صف میں کھڑا کردیا! زمان رسالت سے مسلمانوں سے نبرد آزما ں تھے ، حا لانکہ کتب تواریخ وروایات اس اتھام کو صراحت کے ساتھ رد کرتی ہیں ، چنانچہ صحیحین میں بھی اس واقعہ کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، لہٰذا پھلے ہم اس بارے میں صحیحین سے نقل کرتے ہیں ، اس کے بعد تاریخ کے لحا ظ سے اس واقعہ کا خلاصہ نقل کریں گے:

…,,عن ابن شهاب؛اخبرنی عبید اللّٰه بن عبدا للّٰه بن عتبة؛ان ابا هریرة قال:لما توفّٰی النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واستخلف ابوبکر وکفر من کفر من العرب،قال عمر:یا ابابکر کیف تقاتل الناس وقد قال رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه: امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا:لا اله الا اللّٰه، فمن قال لا اله الا اللّٰه عَصَمَ منی مَاْ لَهُ ونفسه الا بحقه وبحسابه علی اللّٰه؟قال ابوبکر؛واللّٰه َلاٴ قاتِلَنَّ من فرّق بین الصلٰوة والزکٰوة،فان الزکاة حق المال واللّٰه لو منعونی عَناقا کانوایودونها الی رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، لقاتلَتْهُمْ علی منعها، قال عمر:فواللّٰه ما هو الّا ان رَاٴیتُ ان قد شرّحا للّٰه صدرَابی بکر للقتال، فعرفتُ انه الحق“ ( ۱۴ )

امام بخاری اور مسلم نے تمام اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے:

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر تخت خلافت پر جا نشین ہوئے تو عرب کے بعض قبیلے اپنے کفر کی طرف پلٹ گئے، عمر نے ابوبکر سے کھا: اے ابوبکر! تم ان لوگوں سے کیسیجنگ کرو گے حا لانکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان تھا: میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ اس وقت تک لوگوں سیجنگ کروں جب تک یہ خدا کی وحدانیت کے قائل نہ ہو جائیں اور جو شخص خدا کی وحدانیت کو قبول کر لے اس کی جان و مال محفوظ ہے، البتہ اگر کوئی شخصی حق رکھتا ہو تو اس کی جان مباح ہوسکتی ہے؟ (بطورخون بھا وغیرہ) ،ابوبکر نیجوا ب میں کھا: خدا کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جنہوں نے نماز و زکاة میں فرق کیا کیونکہ زکاة مالی حق ہے (اسلامی حکومت کا حق ہے) قسم خدا کی جو زکاة یہ لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیتے تھے وھی مجھے نہ دی اور اس میں سے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا تو میں ان سیجنگ کروں گا۔

عمر نے کھا :قسم خدا کی یہ جواب ابوبکر کو اس شرح ِ صدر کی وجہ سے عطا ہوا تھا جو خدا نے کیا یعنی یہ جواب خدا کی طرف سے القاء ہوا تھا لہٰذا میں سمجھ گیا کہ ابوبکر کی بات کاملاً ٹھیک ہے۔( ۱۵ )

عرض مولف

اس حدیث کے پھلے ٹکڑے میں یہ کھا گیا ہے: عرب کے بعض قبیلے کافر ہوگئے ،یہ سراسر غلط اور جھوٹا الزام ہے اور در حقیقت خلیفہ صاحب کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ جملہ اضافہ کیا گیا ہے، چنانچہ مزے کی بات یہ ہے کہ اسی روایت کے بعد والی جملوں سے اس کا جعلی ہونا ثابت ہے کیونکہ :

۱ ۔ اس روایت میں آیا ہے کہ جب عمر نے ابو بکر سے پوچھا کہ آپ ان سے کیسیجنگ کریں گے؟ تو ابوبکر نے کھا میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جو نماز و زکاة میں فرق کر رہے ہیں ، اس جملہ سے ظاہر ہورھا ہے کہ وہ نہ صرف کافر نہیں ہو ئے تھے بلکہ خدا کے حکم کے مطابق نماز و روزہ و اصول دین وغیرہ پر یقین رکھتے تھے اور ان کی بجا آوری بھی کرتے تھے۔

۲ ۔ اگر مان لیا جائے کہ وہ لوگ کافر ہوگئے تھے تو حضرت عمر نے ابو بکر پر کیوں اعتراض کیا تھا کہ ان سے کیسیجنگ کی جائے گی حا لانکہ وہ لاالہ الا اللہ اور محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله کھتے ہیں اور رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم بھی یھی دیا گیا تھا کہ جب تک لا الہ الا اللہ نہ کھے اس وقت تک جنگ کرو؟

مشہور فقیہہ اور فلسفی جناب ابن رشید کھتے ہیں :

زکاة کے احکام میں سے ایک حکم اس کا یہ بھی ہے کہ کوئی شخص زکاة کے وجوب کا انکار نہ کرے لیکن زکاة دینے سے انکار کرے اورابوبکر کا عقیده یہ تھا کہ جو شخص زکاة کے وجوب کا قائل ہو مگر دینے سے انکار کرے وہ مرتد کے حکم میں ہے، چنانچہ جب عرب کے قبائل نے ابوبکر کو زکاة دینے سے انکار کر دیا توحضرت ابو بکر نے ان سیجنگ کی اور ان کے بال بچوں کو اسیر کر لیا،لیکن عمر کا یہ نظریہ نہیں تھا لہٰذا انھوں نے اس حکم میں ابو بکر کی مخالفت کی اور جن لوگوں کو ابوبکر نے اسیر کر رکھا تھا آزاد کر دیا اور اکثر علمائے اہل سنت بلکہ تمام علماء اس مسئلہ میں عمر کے ہم عقیده ہیں ۔

”وخالفه فی ذالک عمر واطلق من کان استرق منهم و بقول عمر قال الجمهور…“ ( ۱۶ )

یہ سارا قتل وغارت کا قضیہ عکرمہ ابن ابی جھل کی سرپرستی میں ” حضر موت“ کے مقام پر مختلف قبائل (کندہ، مآرب) کے ساتھ اور اطرافِ مدینہ میں ” عبس و ذبیان، بنی کنانہ “سے خالد بن ولید کی سرپرستی میں وقوع پذیر ہوا، یہ تمام افراد جن کو مسلمانوں نے خالد بن ولید و عکرمہ کی سرپرستی میں قتل کیا مرتد نہیں ہوئے تھے،بلکہ سب یھی کہہ رہے تھے کہ جب تلک ہمارے درمیان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے ہم نے ان کی پیروی کی لیکن ابوبکر سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے”اطعنا رسول الله مادام وسطنا فیا قوم ما شا نی و شان ابی بکر “ اورکبھی گورنر کے سامنے یہ کھتے کہ تو ہمیں ایسے مرد کی اطاعت کو کیوں کہہ رھا ہیجس کے بارے میں ہم سے اور تجھ سے کوئی عھد نہیں لیا گیا ہے؟”انک تدعوا الی طاعة رجل لم یعھد الینا ولا الیکم فیہعھد “ اور کبھی یہ کھتے کہ تم نے خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس معاملہ سے کیوں دور کر دیا؟منصب خلافت کے اصلی حقدار وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد الہٰی ہے:

( وَاُوْلُواْالاَرْحا مِ بَعْضُهُم اَوْلَی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰه ) ( ۱۷ )

ابن کثیر کھتے ہیں :

عرب کے مختلف قبائل، گروہ در گروہ مدینہ آتے اور نماز کے سلسلے میں اقرار و اعتراف کرتے تھے، لیکن زکاة کے ادا کرنے سے گریز کرتے تھے اور کچھ ان میں سے ایسے تھیجو خلیفہ وقت کو زکاة دینے سے انکار کرتے تھے۔( ۱۸ )

سنیوں کے مشہور مصنف عقاد مصری کھتے ہیں :

وہ عرب کے قبیلیجو مدینہ کے نزدیک رھتے تھے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں بھت مخلص اورھمدرد تھے، لیکن جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر نے زمام حکومت سنبھالی تو ان لوگوں نے اس کی نافرمانی اور مخالفت کی اور کهنے لگے :ھم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے ہیں ہم کو ابوبکر سے کیا مطلب؟ !

اس کے بعد عقاد کھتے ہیں :

کچھ افراد ایسے تھیجو اصل زکاة کا عقیده رکھتے تھے لیکن جو زکوٰةوصول کرنے والے تھے ان کو دینے سے انکار کرتے تھے۔( ۱۹ )

مشہور مصنف محمد حسین ہیکل مصری کھتے ہیں :

”ابوبکر نے صحا بہ کو جمع کیا اور ان لوگوں کے بارے میں مشورہ کیا جنہوں نے ابوبکر کو زکاة دینے سے انکار کر دیا تھا کہ آیا ان سیجنگ کی جائے یا نہیں ؟کچھ لوگوں کا کهنا تھا کہ ان سیجنگ کرنا جائز ہے اور کچھ لوگوں کا کهنا تھا کہ جنگ نہ کی جائے اور ان منع کرنے والوں میں حضرت عمر بھی تھے، آپ کا کهنا تھا : ان سیجنگ نہ کریں کیونکہ یہ لوگ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان رکھتے ہیں ،بلکہ ان سے دشمنان اسلام کے مقابلہ میں فائدہ اٹھایا جائے۔ “

اس کے بعد محمد حسین ہیکل کھتے ہیں :

شاید مجلس مشاورت میں شرکت کرنے والوں میں سے اکثر لوگ یھی عقیده رکھتے تھے کہ ان سیجنگ نہ کی جائے اور اس نظریہ کے مخالفین اقلیت میں تھے ،بلکہ ظن قوی یہ ہے کہ جب حا ضرین مجلس میں اس اہم اور خطرناک معاملہ پر بحث ومباحثہ بھت بڑھ گیا تو ابوبکر نے مجبور اً ذاتی طور پر اس میں مداخلت کرکے اقلیت کے نظریہ کی تصدیق و تائید کردی اور پرُ زور طور پر اپنی بات منوانے کیلئے کهنے لگے : ”قسم بخدا وہ چیز جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دی جاتی تھی اس میں سے انہوں نے ایک بکری کا بچہ بھی روک لیا تو میں ان سیجنگ کروں گا“( ۲۰ )

عرض مولف

اس تمام واقعہ کو سیوطی نے تاریخ الخلفاء، بلاذری نے انساب الاشراف اور اعثم کوفی نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے، اعثم کوفی کھتے ہیں :

ابوبکر نیجملہ قسمیہ ”والله لومنعونی عقالاً“ عمر کیجواب میں کھا تھا، کیونکہ عمران مسلمانوں سے قتل و کشتار کرنے کے مخالف تھے۔( ۲۱ )

بھر کیف جو تفصیلات اور مطالب ہم نے تاریخ ابن کثیر اور دیگر کتابوں سے نقل کئے ہیں ان سے اور خود حضرت ابو بکر کی بات سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جن کو ابوبکر کے حکم سے قتل کیا گیاوہ مرتد نہیں بلکہ مسلمان تھے اوریہ لوگ باقاعدہ اصل زکاة پر ایمان رکھتے تھے ،البتہ ابوبکر کوزکاة دینے سے انکار کر رہے تھے، بس اسی بات پر ان کو ابو بکر نے تہہ تیغ کروادیا !!

مالک بن نویرہ (نمائندہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کے قتل کاواقعہ

قارئین کرام! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں عرب کے مختلف قبائل سے اس لئیجنگ لڑی گئی اور ان کے بچوں اور عورتوں کو اس لئے اسیر کر لیا گیا کیونکہ ان لوگوں نے زکاة دینے سے

انکار کیاتھا ،مگر مشہور یہ کیا گیا کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے تھے، اگر ان تمام واقعات اور جزئیات کی تفصیل لکھی جائے تو ایک مستقل کتاب مرتب ہو جائے لیکن ہم یھاں پر صرف مالک بن نویرہ اور ان کے خاندان (جنھیں بے دردی سے قتل کیا گیا)کے واقعہ کو نمونہ کے طور پرنقل کرتے ہیں :

ابن حجر اپنی کتاب” الاصابہ“ میں تحریر کرتے ہیں :

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مالک بن نویرہ کو ان کے خاندان سے صدقات وصول کرنے کیلئے اور قبیلہ بنی تمیم سے زکاة حا صل کرنے پر اپنا نمایندہ مقرر فرمایا تھا۔( ۲۲ )

اعثم کوفی کھتے ہیں :

خالدبن ولید نے اپنے لشکر کو اس جگہ روک دیا جھاں قبیلہ بنی تمیم رھتا تھا اور گروہ گروہ کر کے تمام اطراف میں لشکر کو بھیجا،چنانچہ ایک گروہ اس باغ میں بھیجا جھاں مالک بن نویرہ اپنے خاندان کے ساتھ رھتے تھے، اس گروہ نے ا چانک حملہ کر کے تمام لوگوں کو گرفتار کرلیا اورمالک اور ان کی بیوی جو بیحد خوبصورت تھی اور ان کے خاندان کو اسیر کر کے خالد بن ولید کے پاس لایاگیا،خالدبن ولیدنے حکم دیاکہ مالک کے تمام خاندان کو قتل کردیا جائے!!

مالک اور ان کے ساتھیوں نے کھا: اے خالد! تو ہم کو کیوں قتل کر رھا ہے حا لانکہ ہم سب مسلمان ہیں ؟ اس وقت خالد نے کھا : خدا کی قسم میں تم سب کو قتل کردوں گا!! یہ بات سن کر ایک بوڑھے شخص نے کھا: اے خالد! کیا ابوبکر نے تجھے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ جو کعبہ کی طرف نماز پڑھتے ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے؟ خالدنے کھا: کیوں نہیں ، لیکن تم لوگ اصلاً نماز ہی نہیں پڑھتے ہو!

اعثم کھتے ہیں :

اس وقت ابو قتادہ جو خالد کے لشکریوں میں سے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور خالد سے کھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ان کو قتل کرنے کا حق نہیں رکھتا، کیونکہ جب ہم ان کو گرفتار کرنے گئے تو ان لوگوں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟تو ہم نے کھا: مسلمان ہیں ،اس وقت انہوں نے بھی کھا : ہم بھی مسلمان ہیں اور اذان دی گئی اور ان سب نے ہمارے پیچھے نماز ادا کی۔

اس وقت خالد نے کھا: اے ابو قتادہ !اگرچہ یہ لوگ نماز پڑھتے ہیں مگر چوں کہ زکاة دینے سے انہوں نے انکار کیا ہے لہٰذا ان کو قتل کیا جائے گا، یہ سنکر وہ بوڑھا مرد زورز ور سے چیخنے لگا ،لیکن خالد نے ان کی ایک فریاداورآہ وبکا کو نہ سنا اور ان سب کو یکے بعد دیگرے بے رحمی ا ور بے دردی سے قتل کردیا!

اعثم کوفی کھتے ہیں :

اس وقت سے ابو قتادہ نے یہ عھد کر لیا تھا کہ جس لشکر ک ا سردار خالد ہوگا اس میں شرکت نہ کرے گا۔

پھر خالد نے مالک کو پکڑ کر آگے کھینچا، مالک نے کھا: اے خالد! تو ایسے شخص کو قتل کر رھا ہیجو کعبہ کی طرف نماز پڑھتا ہے؟! خالد نے کھا: اے مالک! تم مسلمان ہوتے تو زکاة دینے سے انکار نہ کرتے اور نہ اپنے قبیلے کو زکاة دینے سے منع کرتے ، اے مالک ! خدا کی قسم میں تم کو ضرور قتل کروں گا،قبل اس کے کہ تیرے لبوں تک ایک قطرہ آب پهنچے ،اس وقت مالک نے اپنی بیوی کی طرف چھرہ کیا اور فرمایا : اے خالد! تو مجھے اس (بیوی) کی وجہ سے قتل کر رھا ہے؟

خالد نے کھا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا کیونکہ تو اسلام سے خارج ہوگیا ہے، تونے زکاة کے اپنے سارے اونٹ متفرق کردئے ہیں اور اپنے قبیلے کو زکاة دینے سے منع کردیا ہے، لہٰذا خدا نے تیرے قتل کا حکم دیا ہے ، اس وقت خالد نے مالک بن نویرہ کو تمام لوگوں کے سامنے قتل کر دیا۔

اعثم کوفی کھتے ہیں :

تمام مو رخین نے بالاتفاق نقل کیا ہے کہ خالد نے مالک کو قتل کرکے ان کی بیوی سے شادی کر لی تھی۔( ۲۳ )

مشہور مو رخ ِاسلام یعقوبی کھتے ہیں :

مالک کے بھائی متمم بن نویرہ نے اپنے بھائی کے سوگ میں اشعار و مراثی بھت کھے چنانچہ ایک روز متمم شھر مدینہ میں ابوبکر کے پاس گئے اورجب نماز صبحا بو بکر کے ساتھ بجالا چکے تو اپنی کمان پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور مندرجہ ذیل اشعار پڑھنا شروع کر دئے:

نعم القتیل اذاالریاح تناوحت

خلف البیوت قتلت یابن الازور

ادعوته باللّٰه ثم غد رته

لوهودعاک بذ مة لم یغد ر

کیا خوب مقتول ہے کہ جب سے قتل ہوا توفضائیں نوحہ کر رھی تھیں ،اے ازور (جھوٹے) کے بیٹے تو نے اس کو پشت خانہ کعبہ میں قتل کیا ہے، آیا پھلے تو نے خدا کی طرف اسے دعوت دی اس کے بعد اس کے ساتھ حیلہ و فریب کیا؟ اگر وہ (مالک) تجھے دعوت دیتا اور تیرے ساتھ عھد و پیمان باندھتا تو ایسا ذلیل فعل انجام نہ دیتا۔( ۲۴ )

ابوبکر نے کھا: نہ میں نے اس کو دعوت دی تھی اور نہ اس کے ساتھ غدر و فریب کیا۔

یعقوبی کھتے ہیں :

عمرنے تخت خلافت پر آنے کے بعد واقعہ جو کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ جن لوگوں کو ابو بکر نے اسیر بنا رکھا تھا ان کو آزاد کر دیا۔( ۲۵ )

اعثم کوفی کھتے ہیں :

جب مرتدین کے اسیروں کو لایا گیا تو عمر نے قتل کرنے سے منع کردیا تھا چنانچہ ان لوگوں کو ابوبکر نے یں خانہ میں ڈلوا دیا تھا ، لیکن عمر نے ان لوگوں کو آزاد کر دیا۔( ۲۶ )

جی ھاں! صرف ایک زکاة نہ دینے پر خلفاء نے کس طرح حکم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کا خون مباح کر دیا تھا ؟!ظلم کی انتھا یہ کہ ان کے بچوں اور عورتوں کو بھی تہہ تیغ کر دیا گیا !اورجو عورتیں بچے زندہ رہے،ان کے ھاتھ، پیروں میں زنجیرو ھتھکڑی ڈال کر اسلامی دارالحکومت کی طرف خلیفہ کے حکم سے کشاں کشاں لیجایا گیا !(اور کچھ عورتوں سے زبردستی خود عقد کر لیا ! چنانچہ) ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ کو اس فعل کو خطا ء کهنے پر مجبور ہونا پڑا اور پھلی فرصت میں ان قیدیوں کو آزاد کیا ، یہ ہیں مسلمانوں کے چھیتے خلفاء کے سیاہ کارنامے کہ شریعت اسلامیہ کو بالکل بالائے طاق رکھ کر جو دل چاہا حکم صادر کیا!کسی کو کوئی پاس خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ تھا!

صحیح مسلم میں آیا ہے :

مولائے متقیان حضرت علیعليه‌السلام کو جب جنگ خیبر میں علم دیا گیا تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے علی !”امش ولا تلتفت “جاو اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا تو اب علیعليه‌السلام کی اطاعت دیکھئے !کچھ دور چلے اور بغیر اس کے کہ چھرہ کو پیچھے کریں اسی طرح کھا :یا رسول اللہ!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قوم سے کب تک جنگ کروں؟رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جب تک یہ قوم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان نہ لائے، بس اسی صورت میں ان کی جان و مال محفوظ ہے اس کے بعدفوراً چل دئے اور جنگ کی( ۲۷ )

یہ ہے اسلامی خلیفہ کی اطاعت ِ فرمانِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! یہ ہے اسلام کا نظام! ایسے ہی افراد پر خلافت الٰھیہ زیب دیتی اور نازکرتی ہے۔( اور وہ ہے مسلمانوں کے خلیفہ وقت اور نام نھادجانشین ِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کردار !وہ ہے اسلام اور فرمان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کھلواڑ !! ) بھرحال یہ تھا اس واقعہ کا خلاصہ جو آپ نے ان چند سطروں میں ملاحظہ فرمایا ، صحیحین میں بھی اس کی طرف قدرے اشارہ کیا گیا ہے۔

۲ ۔ جاگیرفدک اور میراث پیغمبر کی سرگزشت

جھاں اور بھت سی حکم خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفتیں دور خلافت ابوبکر میں کی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ساری میراث اورباغ فدک جسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو ھبہ کر دیا تھا واپس لے کر بیت المال میں ملا دیا گیا،اس طرح صدیقہ طاہرہ کے دل کو رنجیدہ کیا، اس ماجرا کو صحیحین میں دوجگہ عائشہ سے اشارةً نقل کیا گیا ہے ، لہٰذا پھلے ان دو مورد کو ذیل میں ہم معہ متن و ترجمہ پیش کرتے ہیں اس کے بعد ان کی اجمالی توضیح و تحقیق کریں گے:

۱…”عُرْوة بن اٴلزُبیر؛ان عائشة ام المومنین؛اخبرته ان فاطمة الزهراء علیهاالسلام ابنةَ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساٴ لت ابا بکر الصد یق بعد وفاة رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ان یقسم لها میراثها مما ترک رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه مما افاء اللّٰه علیه، فقال لها ابوبکر:ان رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه قال”لا نورث ما ترکنا صدقة“ فغضبت فاطمة(س) بنت ُرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ، فهجرت ابابکر فلم تزل مهاجرتَه حتی توفِّیَتْ، وعاشت بعد رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ستَة اشهر،قالت وکانت فاطمة(س) تساٴلُ ابابکرنصیبها مما ترک رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه من خیبروفدکٍ وصَدَقَتَهُ بالمدینة ،فابی ابوبکرعلیها ذالک…!! ( ۲۸ )

عروہ بن زبیر نے عائشہ سے نقل کیا ہے:

وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر سے مطالبہ کیا کہ آپ کو میراث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حصہ اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ثروت جو خداوند متعال نے آپ کو بطور خاص عطا فرمائی تھی دی جائے،ابوبکر نے کھا : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے: ”لانورث ما ترکنا صدقة “ھم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے بلکہ جو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے۔

شہزادی کونین( س) اس جواب کو سن کرناراض ہوگئیں اور اسی ناراضگی کی حالت آپ نے د نی ا سے وفات پائی۔

عائشہ کھتی ہیں : فاطمہ(س) وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد چھ مھینے زندہ رھیں اور اس مدت میں آپ اس میراث کو طلب فرما تی رھیں جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خیبر ،فدک اور صدقاتِ مدینہ سے ارث کے طورپرچھوڑا تھا لیکن ابوبکر نے دینے سے انکار کردیا۔

۲ … عن عروة عن عائشة؛ ان فاطمه بنت النبی ارسلت الی ابی بکر تسئله میراثها من رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مما افاء الله علیها بالمدینه وفدک ومابقی من خمس خیبر،فقال ابو بکر:ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:” لا نورث ما ترکناصدقة“انما یاٴکل آل محمد فی هٰذا المال، وانی والله لا اغیر شیئاً من صدقة رسول الله عن حا لها التی کان علیها فی عهد رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ولا اعملن فیها بما عمل به رسول الله ، فابی ابوبکران یدفع الی فاطمة منها شیئاً ،فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذالک، فهجرته فلم تکلمه حتی توفیت، وعاشت بعد النبی ستة اشهر، فلما توفیت دفنها زوجها علی لیلاً ،ولم یوذن بها ابا بکر، وصلی علیها،وکان لعلی من الناس وجه حیاةفاطمة(سلام الله علیها)،فلماتوفیت،استنکرعلی وجوه الناس،فالتمس مصالحة ابی بکر،ومبایعته،ولم یکن یبایع تلک الاشهر،فارسل الی ابی بکران ائتنا ولا یاٴتنا معک احد …!! ( ۲۹ )

عروہ نے عائشہ سے نقل کیا ہے :

ایک مرتبہ بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا کہ جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے باغ فدک و دیگر اموال ِمدینہ میراث کے طورپر چھوڑے ہیں وہ شہزادی کو دے دئیجائیں اور خمس خیبر بھی دیا جائے ۔

ابوبکر نیجواب میں کھلایا : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے: ”لانورث ما ترکنا صدقة“ ہم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتیجو چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے بس وہ( آل رسول) اس مال وثروت سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں ،قسم بخدا میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ترک کردہ صدقہ اسی طرح ا ستعمال کروں گا جس طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں استعمال ہوتا تھااور ھرگز تغیر نہیں کرسکتا جس طرح رسوصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ل عمل کرتے تھے اسی طرح میں عمل کروں گا۔ پس جب ابوبکر نے میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو نہیں دی تو حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا ابوبکر پر ناراض ہوگئیں اوراپنی وفات تک ابوبکر سے کلام تک نہ کیا۔ حضرت عائشہ کھتی ہیں : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد شہزادی کونین( س) صرف چھ ماہ زندہ رھیں اور جب آپ نے وفات پائی تو حضرت علی علیہ السلام نے شب کی تاریکی میں انھیں دفن کر دیا اور خود ہی نماز وغیرہ پڑھی، ابوبکر کو خبر تک نہ دی اور جب تک فاطمہعليه‌السلام زندہ تھیں علی علیہ السلام لوگوں کے درمیان وقعت و اہمیت رکھتے تھے، لیکن جب حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کی وفات ہوگئی تو لوگوں کے اخلاق و کردار علی علیہ السلام کے بارے میں بدل گئے اور وہ حضرت علیعليه‌السلام کو نفرت کی نظروں سے دیکھنے لگے ،”چنانچہ علیعليه‌السلام نے ابو بکر سے مصالحت کرنا چاہی تاکہ بیعت کریں جبکہ حضرت فاطمہ زھر اعليه‌السلام کے ہوتے ہوئے چھ مھینے تک آپ نے بیعت کرنا قبول نہیں کیا تھا، لہٰذا کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا کہ وہ ہمارے پاس تنھا آئیں اور کسی کو ساتہمیں نہ لائیں “۔( ۳۰ )

عرض مولف

یہ دونوں حدیثیں صحیحین میں مفصل مذ کو رھیں ہم نے یھاں پر صرف اپنے استشھاد کے لئے اختصار کے طور پر نقل کیا ہے،بھر حال عائشہ نے اپنے زعم ناقص میں ان دونوں حدیثوں کے ذریعہ معاملہ کو لیپنے پوتنے کا کام کیا ہے، لیکن موصوفہ کی گفتگو سے در حقیقت چند قابل ِ توجہ نکا ت کا ایک ناقابل ِ انکا ر حقیقت سے پردہ فاش کرتے ہیں ، چنانچہ اختصار کے طور پر ذیل میں ہم ان نکات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں :

۱ ۔ مذکورہ روایت سے ثابت ہو تا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صرف میراث میں باغ فدک ہی نہیں چھوڑا تھا جیسا کہ مشہور ہے بلکہ فدک کے علاوہ دیگر اموال، آراضی اور قریہ و دےھات بھی چھوڑے تھیجو اطراف مدینہ میں واقع تھے،( ۳۱ ) اور حضرت عائشہ کی گفتگو سے اسی نکتہ کا استفادہ ہوتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ زھرا (س) ابو بکر کے ساتھ متعدد چیزوں مانند باغ فدک ، خمس ،غنائم ِخیبر، صفایا اور صدقات ِاطراف مدینہ میں اختلاف رکھتی تھیں ۔

ممکن ہے فدک کے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہو کہ اس کی مالیت سب سے زیادہ تھی جیسا کہ سنن ابی داؤد (متوفی ۲۷۵ ھ) میں آیا ہے :خلافت عمر بن عبد العزیز ( ۹۹ ۔ ۱۰۱ ھ )کے زمانہ میں فدک کی سالانہ آمدنی چالیس ہزار دینار تھی۔( ۳۲ )

۲ ۔ ابوبکر نے میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کو نہ دینے کے لئے ایک جعلی دلیل کاسھارا لیا اور اس دلیل (حدیث) کورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کر دیا !!

۳ ۔ فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے اس جعلی قانون کو رد کرتے ہوئے تمام لوگوں کے سامنے واضح کر دیا کہ ابوبکر کا یہ کهنا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ فرمایا ہے بالکل غلط اور بھتان ہے کیونکہ اگر میرے بابا کا یہ فرمان ہوتا تو مجھ سے وہ یہ بیان کر کیجاتے لہٰذا یہ ابوبکر کی من گڑھت حدیث ہے، اسے میں مردود جانتی ہوں،یھی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا نے ابوبکر سے تا وفات بات نہ کی اور یھی نہیں بلکہ آپ جنازے میں شرکت کے لئے بھی منع فرما گئیں تھیں ، چنانچہ حضرت علیعليه‌السلام نے ابوبکر کو شہزادی کی وفات کی خبر تک نہ دی تھی اور آپ نے خلیفہ وقت کوبغیر اطلاع کئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اکلوتی بیٹی کو راتوں رات نماز جنازہ پڑھ کر دفنا دیا ۔

۴ ۔حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھااپنی چھ ماہ کی زندگی میں مولائے کائناتعليه‌السلام کے لئے مخالفین کے مقابلہ میں سب سے بڑی قوت تھیں ،یھی وجہ تھی کہ جب تلک فاطمہ (س) زندہ رھیں آپ نے(بقول عائشہ ) خلیفہ وقت کی بیعت نہ کی اور شہزادی کے ہو تے ہوئے کسی میں ہمت نہ تھی جوعلیعليه‌السلام سے اعلانیہ نفر ت کرتا، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہ زھرا(س)کی وفات ہوئی تو حضرت علی سے لوگوں کے چھرے بدل گئے یھاں تک کہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے مصالحت کی خواہش فرمائی!!

” استنکرعلی وجوه الناس فالتمس مصالحة ابی بکر“!! ( ۳۳ )

حد یث” نَحْنُ مَعَا شِرَالَْا نْبِیَاءِ لَانَرِثُ وَلَانُو ْرِثُ“کی حقیقت

قارئین ہماری بحث سے مربوط مذکورہ چار مطالب میں سے صرف پھلے دو مطلب ہیں :

۱ ۔ میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصب کرنا۔

۲ ۔ جھوٹا قانون جعل کرکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کردینا۔

ان دو مطلب میں سے بھی ہم میراث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غصب کرنے کے بارے میں بحث نہیں کریں گے،کیونکہ یہ بات توتمام مورخین کے نزدیک مسلم الثبوت اور مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ ہیکہ یہ حق حضرت فاطمہ زھرا ( س) کا تھا جس سے انھیں محروم کردیا گیا،چنانچہ اس وقت ہماری بحث صرف دوسرے مطلب (جھوٹا قانون )سے ہے، لہٰذا ذیل میں قدرے اس بارے میں تحقیق کرتے ہیں :

چونکہ خلیفہ اول اس حساس موقع پر اپنی بات کو عملی جامہ پهنانا چاہتے تھے اورجو اموالِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہ زھرا کے پاس تھے انھیں بیت الما ل کا جزء بنانا چاہتے تھے اور اہل بیت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلہ میں پبلک کے سامنے ہزیمت نہیں اٹھانا چاہتے تھے لہٰذا آپ نے حدیث کی صورت میں ایک نیاقانون گڑھا اور اس کی نسبت رسول کی طرفدے دی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:” ہم (گروہ انبیاء) جوترک کرتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے اور ہمارا کوئی وارث نہیں ہو تا !“( ۳۴ )

لیکن مذکورہ فرسودہ روایت کی قرآن صراحت کے ساتھ تکذیب کرتا ہے، اس کے علاوہ ذیل میں اس کیجعلی ہو نے پر چند دیگر شواہدو قرائن پیش کرتے ہیں تاکہ اہل انصاف کے لئے تحقیق کا راستہ باز ہوجائے :

اگر اس حدیث کا وجود تھا تو کیوں نہیں ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اعزا ، اقرباء اور اصحا ب میں بیان فرمایا یھاں تک کہ اپنی بیویوں ، داماد اوربیٹی کے سامنے بھی کبھی اس کا ذکر تک نہ کیا اور حضرت ابو بکر کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہ تھا ایسا کیوں؟!

کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لازم نہ تھا کہ آیہ( وَانْذ ِرْعَشِیْرَتَکَ اَلٴاقْرَبِیْنَ ) اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! سب سے پھلے تم اپنے قرابت دارو ں کو ڈراؤ اور ان کو احکام الٰھی سے آگاہ کروکے مطابق سب سے پھلے اس قانون کو اپنی بیٹی ، داماد اور دیگر خاندان کے افراد سے بیان فرماتے ،تاکہ اصحا ب ا ور اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان ارث کے بارے میں اختلاف نہ ہوتا؟! کیارسول نہیں جانتے تھے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی میراث میں ایک شدید اختلاف ہو جائے گا ؟!

اور اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیان فرمادیا ہو تا تو پھر حضرت فاطمہ زھرا (س)جو کہ ھر خطا و نسیان سے پاک و پاکیزہ تھیں ،جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل ہوئی ،کیوں میراث طلب فرمانے کے لئے بنی ھاشم کی عورتوں کے ساتھ اس حا لت میں جاتیں کہ غصہ سے چھرہ زرد ہورھا تھااور چادر زمین پر خط دے رھی تھی اور آپ کی رفتار ہو بھو رسول کی مانند رفتار تھی؟ چنانچہ آپ اس حا لت میں مسجد نبوی میں ابو بکر کے پاس پهنچیں کہ جب ابو بکر مھاجرین ، انصار او ر صحا بہ کے درمیان بیٹھے محو گفتگو تھے، آپ کے پردہ کیلئے مسجد میں ایک چادر تان دی گئی ، اس پردہ کے پیچھے سے شہزادی کی درد ناک آوازآہ وبکا بلند ہوئی ، جس کی وجہ سے اہل مسجد پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا اور ایک آہ ونالہ کی فریاد بلند ہوئی، حضرت فاطمہ زھرا (س) نے تھوڑا صبر کیا، یھاں تک آوازیں خاموش ہوئیں اور گریہ رک گیا،پھر آپ نے خطبہ شروع کیا، جس میں سب سے پھلے حمد وثنائے الہٰی بیان فرمائی اور زحمات ِ پیغمبر اور مسئلہ خلافت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محکم دلیلوں کے ساتھ مسئلہ توارث کو بیان فرمایا ، جس کا یہ جملہ آج بھی تمام تواریخ نے قلم بند کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

یابن ابی قحا فةاٴفی کتاب الله ان ترث اباک ولاارث من ابی “؟!

اے قحا فہ کے بیٹے !کیا یھی کتاب خدا میں ہے کہ تو اپنے باپ کا وارث بنے،لیکن میں اپنے بابا کی وارث نہ بنوں ؟!

اس کے بعد آپ نے رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی طرف رخ کیا اور ان اشعار کو پڑھا:

اے بابا!جان آپ کے بعد مصیبتوںاور بلاؤں کے پھاڑ ٹوٹ گئے۔

اے بابا!اگر آپ زندہ ہوتے تواس قدر مصائب نہ ڈھائیجاتے ۔

اے بابا!کچھ لوگوں نے اپنے سینوں میں جوکینے چھپارکھے تھے، ان کو ظاہر کردیا، جب آپ چلے گئے اور ہمارے اور آپ کے درمیان مٹی کے ڈھیر حا ئل ہوگئے۔

اے بابا!آپ کیجانے کے بعد کچھ لوگ ایسے ہوگئیجوھم کو بھرے دربار میں ذلیل کرتے ہیں اور نفرت کا اظھار کرتے ہیں ، اے بابا!لیجئے اب ہمارے مال کو صریحا غصب کیا جا رھاہے؟!

”لمااجمع ابو بکر علی منع فاطمة فدک،بلغها ذالک،لاثت خمارها، واشتملت بجلبابها،واقبلت فی لمة من حفدتها،ونساء قومها،تطاٴ ذیولهاما تخرم مشیتها مشیة رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،حتی دخلت علی ابی بکر،وهو فی حشد من المهاجرین والانصاروغیرهم،فنیطت دونها ملاٴة،فحنت ثم انت انة،اجهش القوم لهابالبکاء، فارتج المجلس ثم امهلت هنیةً،حتی اذا اسکن نشیج القوم،وهدئت فورتهم، افتتحت الکلام … الی ان قالت:

۱ قد کان بعدک انباء وهنبثه

لوکُنْتَ شاهِدَ ها لَم تکثر الخطبُ

۲ اَبد ت لنارجالٌ نجوی صدورِهم

لَمَّاقضیتَ وحا لَتْ دونک الکثبُ

۳ تَجْهمتنارجالٌ واستخف بنا

اذغِبْتَ عنا فنحن الیوم مغتصبُ(۳۵)

اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حدیث بیان فرمائی ہوتی تو ھر گز فاطمہ زھرا.کہ جس کی شان میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارھا فرمایا تھا: ”جس نے فاطمہعليه‌السلام کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی“( ۳۶ ) ابو بکر سے تاوفات ناراض نہ ہوتیں ، جبکہ آپ خلیفہ سے اس قدر ناراض تھیں کہ حضرت علی علیہ السلام سے وصیت بھی کردی تھی کہ ابو بکر ان کے کفن و دفن میں شریک نہ ہوں اور اگر یہ حدیث صحیح ہوتی توحضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالبعليه‌السلام و حسنین علیھم السلام ،جن کی شان میں آیہ مباہلہ و آیت تطھیر نازل ہوئیں ھر گز حضرت فاطمہ زھرا (س)کے دعویٰ کی موافقت نہ کرتے ۔

اور اگر یہ حدیث سچی ہوتی تو اہل بیتعليه‌السلام کیسے اس بات سے راضی ہو ئے کہ جو صدقہ اور فقراء کا مال ہے اس کو خود ضبط کرلیں ؟!! جبکہ خود صحیحین میں وارد ہوا ہے کہ اہل بیتعليه‌السلام پر صدقہ حرام ہے۔

پس مذکورہ باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ حضرات( حضرت فاطمہ زھرا ، حضرت علی ، حسنین علیھم السلام)ابو بکر کو اس حدیث کے بارے میں جھوٹ ا سمجھتے تھے۔( ۳۷ )

کیا صحا بہ کرام ”حد یث لا نورث “سے مطلع تھے ؟!

جیسا کہ ہم نے ضمناً اشارہ کیا کہ حدیث میراث( ہم گروہ انبیاء نہ کسی کو وارث بناتے ہیں اور نہ کسی کے وارث بنتے ہیں )ابو بکر کے علاوہ کوئی بھی صحا بی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہ جانتا تھا ، چنانچہ اس بات پر تمام علماء ،محققین اور مورخین اہل سنت کااتفاق ہے ، ہم بطورنمونہ چند شواہد ذیل میں نقل کرتے ہیں :

۱ ۔ ابن ابی الحدیدمعتزلی اپنی شرح نہج البلاغہ میں تحریر کرتے ہیں :

اس حدیث کو صرف ابوبکر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے اور اس پر تما م بزرگ محدثین اتفاق رائے رکھتے ہیں ، یھا ں تک علم اصول ِ فقہ میں اس واقعہ سے استنباط کرتے ہیں کہ انسان صرف ایک صحا بی کے قول کو دلیل بنا کر دینی موضوعات میں حکم صا در کر سکتاہے،ایک جگہ تحریر کرتے ہیں : یہ بات سید مرتضیٰ(رہ)کی صحیح ہے کہ اس حدیث کو تنھاابوبکر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیاہے ۔( ۳۸ )

۲ ۔علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب” تاریخ الخلفاء“ میں تحریرکرتے ہیں :

رحلت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد اصحا ب کے درمیان آپ کی میراث کے سلسلے میں اختلاف ہوگیاتھااور اس بارے میں کسی کو کوئی اطلاع نہ تھی ، تنھا ابوبکر تھیجنھوں نے فرمایا: میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:”اِنَّامَعٰشِرَ اْلاَنٴبِْیَاء لانورِْثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَة ً“ ھم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ،بلکہ جو کچھ ترک کرتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے ۔( ۳۹ )

۳ ۔ علامہ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں :

جب میراث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اختلاف ہوگیااور اس بارے میں کسی کے پاس کوئی اطلاع نہ ملی ،تب ابوبکر نے کھا: میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے:”اِنَّا مَعٰشِرَ اَلانْبِیَاءِ لَانُوْرِثُ مَاتَرَکْنَا صَدْقَةً( ۴۰ )

کیاازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث”لانورث“سے واقف تھیں؟

جس طرحا صحا ب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مذکورہ حدیث سے مطلع نہ تھے، اسی طرحا زواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی اس حدیث کی مطلقاً خبر نہ تھی ، لہٰذا اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو کم سے کم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے لوگوں سے پھلے اپنی ازواج کو تو ضرور بتلاکر جاتے ؟( یھاں تک کہ آپ نے اپنی چھیتی بیوی حضرت عائشہ سے بھی اس بات کو نہ بتلایا !!) کیونکہ آپ کی ازواج بھی میراث میں حصہ دار تھیں ۔

چنانچہ صحیح بخاری میں عائشہ سے منقول ہے:

خود ازواج پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد میراث میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ عثمان کے ذریعہ ابوبکر تک پهنچایا،پس اس مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی عملاً ابوبکر کو مذکورہ حدیث نقل کرنے میں منفرد اور کاذب سمجھتی تھیں ، ان کا بھی یھی عقیدہ تھا کہ میراث کا یہ نیا قانون خود ابو بکر کا گڑھا ہوا ہے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی کوئی حدیث بیان نہیں فرمائی ہے نہ اسلام میں ایسا کوئی قانون پایا جاتا ہے( اوربالخصوص حضرت عائشہ کا مطالبہ میراث کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ بھی اپنے بابا کو اس معاملہ میں جھوٹا جانتی تھیں ) چنانچہ امام بخاری نے اس بارے میں ایک مفصل حدیث نقل کی ہے ملاحظہ ہو :

”…عن عروة ابن الزبیر:سمعت عایشة زوج النبی: تقول؛ ارسل ازواج النَّبِی صلَّی الله علیه وآله وسلم، عثمان الیٰ ابی بکریسئلنه ثمنهن مماافاء الله علیٰ رسوله، فکنت انااَرُدُهن فقلت لهن: الا تتقین الله الم تَعْلَمْنَ ان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کان یقول:”لانورث ماترکنا صدقة“؟یریدبذالک نفسه انمایاکل آلُ محمد عليه‌السلام فی هذاالمال؟!…“ ( ۴۱ )

عروہ بن زبیر نے عائشہ سے نقل کیا ہے:

ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان کو ابوبکر کے پاس بھیجاکہ ان کے حصہ ( ۸۱) کی میراث ان کو دی جائے،جواللہ نے رسوصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ل کو عطاکی تھی عائشہ کھتی ہیں : میں نے ان کو جواب دیاکہ کیا تم کو خوف خدا نہیں ، کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :”لَانُوْرِثُ مَاتَرَکْنَا صَدَقَةً “ھم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے، بلکہ جو ترک کرتے ہیں ، وہ صدقہ ہو تاہے ، لہٰذارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام اس مال سے دیگر مسلمین کی طرح بقدر حا جت اخذکرسکتے ہیں ؟!

عرض مولف

جیساکہ ہم نے پھلے اشارہ کیاکہ اس حدیث کو سوائے ابوبکر کے کسی نے نقل نہیں کیا ہے، چنانچہ متذکرہ روایت

میں بھی عائشہ نے دیگر ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے اپنے باباجان کے قول کو ہی دھرایا ہے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کھی ۔ اور یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ دوران خلفائے ثلاثہ تمام ازواج کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا اور یہ وظیفہ اس میراث کی خانہ پری کرتا تھا،جس کو ابوبکر نے حدیث کے سھارے سے دبالیا تھا اور حضرت عائشہ کوبنسبت دیگر ازواج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمیشہ زیادہ ملتارھاہے، بھر حال حقیقت وھی ہیجسے ابن ابی الحدید کے ہم عصر جناب علی ابن الفارقی استاد مدرسہ غر بیہ بغداد نے ابن ابی الحدید سے کھا تھاکہ جب ابن ابی الحدید نے آپ سے پو چھا :

آیا حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کا دعویٰ فدک کے بارے میں صحیح تھا؟

ابن الفارقی نے کھا :جی ھاں !بالکل حق بجانب تھا ،اس وقت ابن ابی الحدید نے کھا: پھر استاد ابو بکر نے فدک واپس دینے سے گریز کیوں کیاجبکہ خود ابو بکر اس بات کو درست سمجھتے تھے ؟ابن الفارقی جوکہ ایک باوقار اور هنسی مذاق سے دور رهنے والے شخص تھے مسکرائے اور اس لطیف جملہ کو بیان کیا : اگر اس روز ابوبکر اس کو مان جاتے اور صرف حضرت فاطمہ(س) کے دعویٰ کرنے پر باغ فدک واپس کردیتے تو آگے چل کر اگر حضرت فاطمہ زھرا (س) اپنے شوھر نامدار کے لئے خلافت کے سلسلے میں دعویٰ کرتیں تب ابوبکر کو ماننا پڑتا اور ابوبکر کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے تھے،کیونکہ جب آپ حضرت فاطمہ زھرا (س) کو مسئلہ فدک میں سچا اور صادق تسلیم کرچکے ہوتے تو پھر مطالبہ خلافت پر کسی دوسری دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔پھرابن ابی الحدید کھتے ہیں : اگر چہ استاد نے مجھ سے یہ بات مزاح و شوخی کے طورپر کھی تھی مگر حقیقت میں یہ مطلب صحیح تھا!! یعنی حضرت فاطمہ زھر ا سلا م الله علیھا اپنے قول میں بالکل صادق تھیں :

هٰذا الکلام صحیح و ان کان اخرجه مخرج الدعابة والهزل( ۴۲ )

۳ ۔ صلح حدیبیہ اورحضرت عمرکی کٹ حجتی!!

ابو وائل کھتے ہیں کہمیں جنگ صفین میں تھا، جب لشکر علیعليه‌السلام و معاویہ میں جنگ بندی پراتفاق ہو نے کے بعداس کا اعلان کر دیا گیاتوحضرت علی علیہ السلام کے لشکر سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے مخالفت کردی، اس وقت سھیل بن حنیف ، لشکر کے در میا ن کھڑے ہو کر یوں کهنے لگے :

یاایهاالناس اتّهموا انفسکم فانا کنّا مع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله یوم الحدیبیة،ولونری قتالا لٰقتلنا،فجاء عمربن الخطاب،فقال یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله !اٴلسنا علی الحق وهم علی الباطل؟فقال:بلی فقال:اٴلیس قتلا نا فی الجنة وقتلا هم فی النار؟قال: بلی،قال:فعلیٰ مانعطی الد نّیه فی دیننا اٴَ نرجع ولما یحکم الله بینناوبینهم؟فقال:یا بن الخطاب! انی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ولن یُضَیِّعَنیِ الله ابدا،فرجع متغیظا فلم یصبرحتی جا ء ابوبکر، فقال: یا ابابکر! اٴلسنا علی الحق وهم علی الباطل؟ قال:یا بن الخطاب اِنه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ولن یضیّعه الله ابدا، فنزلت سورة الفتح:<اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحا مُّبِیْناً…

اے لوگو ! امیر المومنینعليه‌السلام کے سامنے اپنا نظریہ بیان نہ کرو اور خود خواہی سے دور رھو ،کیو نکہ میں صلح حدیبیہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا اور ہم تیار تھے کہ اگرجنگ ہو گی توجنگ کریں گے (لیکن جب صلح پر معاہدہ طے پایا) توعمرا بن خطاب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آ ئے اور معاہدہ صلح پر اپنی ناراضگی کا اظھار کیا اور کهنے لگے: یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! کیا ہم حق پر اور مشرکین باطل پر نہیں ہیں ؟! رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:کیوں نہیں ،ھم حق پر ہیں اور مشرکین باطل پر ہیں ،اس پر عمر نے کھا :کیا ہم میں سیجو قتل ہوں گے وہ جنت اور مشرکین کے مقتولین جهنم میں نہیں جائیں گے ؟ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :کیوں نہیں ، عمر نے کھا: پھر کیوں ہم اپنے موقف میں ذلت اختیار کریں اور بغیر جنگ و فتحیابی کے اپنے وطن واپس چلیجائیں ؟! رسول نے فرمایا:اے خطاب کے بیٹے ! میں الله کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں ، میں جو بھی اقدام کروں گا،خدا اس کو بے نتیجہ اور ضائع نہیں کر یگا ، عمر پھر بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام سے مطمئن نہ ہوئے اور حا لت غیظ میں واپس آگئے، یھاں تک کہ جب ابوبکر آئے تو ان سے کھا : اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور مشرکین باطل پر نہیں ہیں ؟ ابوبکر نے کھا: اے عمر! وہ خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ،خدا ان کے اقدام کو ھر گز ضائع نہیں کرتا ،چنانچہ اسی وقت خدا نے سورہ فتح نازل کرکے مسلمانوں کو فتحیابی کا مژدہ سنایا۔( ۴۳ )

مذکورہ حدیث صحیحین میں کئی سند کے ساتھ وارد ہوئی ہے ،ان میں سے ایک حدیث میں یہ جملہ بھی ملتاہے کہ جب سورہ فتح نازل ہواتو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ سورہ عمر کے پاس بھجوایا، عمر نے کھا: کیا یہ مژدہ فتح ہے ؟رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:ھاں عمر فتح کی خوشخبری ہے، تب عمر خاموش ہو کر چلے گئے ۔( ۴۴ )

عرض مولف

قارئین کرام ! آپ حضرات مذکورہ حدیث اور آئندہ آنے والے واقعہ قرطاس سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے خلیفہ دوم کی جسارت اور جرات کااچھی طرح ا ندازہ لگ ا سکتے ہیں اور ان واقعات سے اس بات کا بھی علم ہو جاتا ہے کہ آپ کا رسول اسلامعليه‌السلام کے قول و فعل پر کس قدر ایمان ، اعتقادا وراعتماد تھا ؟ اسی طرح صاحبِ( <وَماَیَنْطِقُ عَنِ الْهَویٰ. اِنْ هُوْاِلاَّوَحْیٌ یُوْحیٰ> ) کے فرمان کے سامنے خلیفہ صاحب کا رد عمل بھی ہمارے لے واضحا ور روشن ہو جاتا ہے ۔

اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو ر زور سے بولا کرتے ہو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ہو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو .بے شک جو لوگ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرلیا کرتے ہیں یھی لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پرھیزگاری کیلئیجانچ لیا ہے ان کیلئے آخرت میں بخشش اور بڑا اجر ہے ۔( ۴۵ )

۴ ۔ واقعہ قرطاس اور حضرت عمرکارویہ!!

۱…”عبیدالله بن عبد الله بن عتبةعن ابن عباس؛ قال:لماحُضِررسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله وفی البیت رجال فیهم عمر بن الخطاب،فقال النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :هَلُمَّ اکتب لکم کتابالاتضلون بعده ،فقال عمر:ان رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قد غلب علیه الوجع،و عندکم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت،فاختصموا،فمنهم من یقول قرّبوا یکتب لکم رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لن تضلّوابعده،ومنهم یقول ماقال عمر،فلما اکثرواللغووالاختلاف عند رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ،قال رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله :قومواقال عبید الله :فکان ابن عباس یقول:ان الرزیة کل الرزیة ماحال بینَ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله وبین ان یکتب لهم ذالک الکتاب من اختلافهم ولغطهم “ ( ۴۶ )

عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ ،ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :

جب رحلت پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نزدیک ہوئی اس وقت آپ کے اصحا ب کا ایک گروہ آپ کے خانہ اقدس میں موجود تھا ،جن میں حضرت عمر بھی تھے ، رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مجھے (قلم و دوات ) دیدوتاکہ تمھارے لئے ایک نوشتہ لکھتاجاوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو ،عمر نے کھا:ان کے اوپر وجع(شدیدبخار) کا غلبہ ہے ( اس لئے یہ اَوْل فول بک رہے ہیں )ھمارے درمیان کتاب خدا ہے، جو ہمارے لئے کافی ہے ، پس تمام حا ضرین کے درمیان اختلاف ہو گیا اور ایک دوسرے کی آوازیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بلند ہونے لگیں ،بعض لوگ کهنے لگے : رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کاغذو قلم دیدیا جائے تاکہ وہ کچھ لکھ دیں جو ہم کو گمراہ ہو نے سے بچالے اوربعض لوگ عمر کی پیروی میں انکار کررہے تھے، جب بھت زیادہ ھلڑ هنگامہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بلندھو گیا ،تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:یھاں سے چلیجاو! عبید الله کھتے ہیں : ابن عباس کھا کرتے تھے: سب سے بڑی مصیبت اسلام میں یھی تھی کہ اس قدر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے اختلاف اور هنگامہ برپاہوا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وصیت نامہ نہ لکھ سکے!!

۲…”عن سعید بن جبیر عن ا بن عباس؛انه قال:یوم الخمیس ومایوم الخمیس؟ثم بکیٰ حتیٰ خَضَبَ دمعهُ الحصباءَ،فقال اشتد برسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله وجعُه یوم الخمیس،فقال ایتونی بکتاب اکتب لکم کتابالن تضلوابعده ابدا،فتنازعواولا ینبغی عند نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تنازُعٌ ،فقالوا:هجررسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله!وقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :دعونی فاالذی انافیه خیر مماتدعوننی الیه،واوصٰی عند موته بثلاث:اخرجواالمشرکین من جزیرة العرب، واجیزواالوفَد بنحوماکنتُ اجیزُهم،ونسیت الثالثة!!! ( ۴۷ )

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:

آپ فرماتے تھے: جمعرات کا دن کس قدر عظیم مصیبت کا دن تھا ،اس کے بعد آپ گر یہ کر نے لگے اور اس قدر گریہ کیا کہ آپ کے آنسووں سے پوری ڈاڑھی تر ہو گئی اور کهنے لگے : روز جمعرات جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مرض شدت اختیار کر گیاتوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم صادر فرمایا : مجھے قلم ودوات دیدو تاکہ تمھارے لئے نوشتہ لکھدوں اور تم گمراہی سے میرے بعد محفوظ رہو۔ لیکن اس حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لوگ آپس میں جھگڑا کرنے لگے، حا لانکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنیجھگڑانھیں کر نا چاہیئے تھا،چنانچہ بعض افراد (جیسے عمر)کهنے لگے: رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہذیان بک رہے ہیں ، (ان کی بات مت مانو)اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (ناراضگی کی حا لت میں ) ارشاد فرمایا : تم لوگ میرے گھر سے نکل جاؤ، کیونکہ میرے لئے مرض کی تکلیف تمھار ی نافرمانی اور حکم عدولی کی تکلیف سے بھتر ہے۔

ابن عباس کھتے ہیں : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت کی تھی :

۱ ۔ حکم دیا کہ مشرکین کو جزیرةالعرب سے باہر نکال دو۔

۲ ۔ جو لوگ شھرمدینہ آئیں ان کو انعام وعطای ا سے نوازا جائے، جس طرح میں اپنی زندگی میں ان کو نوازتا تھا۔

۳ ۔ تیسری چیز میں ( راوی) فراموش کر گیا!!

عرض مولف

یہ حدیث صحیح مسلم میں ابن عباس سے دو طریق (سند) سے نقل کی گئی ہے : پھلاطریق؛ سعید بن جبیر تک پهنچتا ہے

اوردوسرا طریق ؛عبیداللہ بن عتبہ تک پهنچتا ہے۔( ۴۸ )

صحیح بخاری میں سات ( ۷) موارد پر مختلف اسناد کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا گیا ہے ۔

چونکہ یہ حدیث متن و الفاظ کے اعتبار سے صحیح بخاری میں ھر جگہ کچھ نہ کچھ مختلف نقل کی گئی ہے ،لہٰذا ان میں قابل ِ توجہ نکات اوراختلاف کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :

پھلانکتہ:۔ صحیح بخار ی کے سات موارد میں سے تین ایسے مورد ہیں جھاں پر صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت عمر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے حکم کی مخالفت کی اور آپ کو وصیت لکھنے سے روک دیا اور ان میں یوں آ یا ہے کہ عمر نے کھا :”فقال عمر:ان رسول الله قد غلب علیه الوجع…“ ( ۴۹ ) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پربخار کا غلبہ ہے، اس لئے آپ الٹی سیدھی باتیں بک رہے ہیں !!

اور چار جگہ پرراوی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرنے والے کے نا م کو ذکر نہ کرکے لفظ ”بعض“ اور”قالوا“وغیرہ کہہ کر نام چھپانے کی کو شش کی ہے،ان میں سے ایک جگہ” بعض“ اور” قد غلب علیہ الوجع“کے ساتھ یوں استعمال ہوا ہے:”فقال بعضهم: ان رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ، قد غلب علیه الوجع ((پس بعض لوگوں نے کھاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بخار کا غلبہ ہے))( ۵۰ ) اور تین ” قد غلب“ کی جگہ ہجر اور بعض کی جگہ”فقالوا “کے ساتھ اس طرح آ یا ہے:”فقالوا:هجر رسول الله “((پس لوگوں نے کھا : رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہذیان بک رہے ہیں ))۔( ۵۱ )

بھر کیف مذکورہ احادیث کے مضمون اوران میں موجود تمام قرائن کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وصیت لکھنے سے باز رکھا ، جس نے اس معاملہ میں سب سے پھلے شبہ کا القاء کیا، وہ حضرت عمرھی تھے،لہٰذاان حدیثوں میں مذکورہ اختلافِ الفاظ:”فقال بعضھم“اور”فقالوا

ہجررسول الله “حقیقت کو نہیں چھپ ا سکتا ،کیونکہ ا گر چہ کچھ روایتوں میں لفظ ِ”بعض“ آیا ہے لیکن بعض روایتوں میں صراحت کے ساتھ خلیفہ صاحب کے نام کا ذکر ہیجو لفظ ”بعض“ کے پیچھے چھپے ہوئے شخص کی نشان دھی کرتا ہے اور جو لوگ حا ضرین میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت قبول ا و ررد کرنے کے بارے میں مخالفت کررہے تھے، وہ حضرت عمر ہی کی وجہ سے وجود میں آئی، کیونکہ ان کے قول کے بعد کچھ لوگوں نے آپ( عمر ) کی موا فقت کی اور کچھ لوگوں نے مخالفت کی ،پس جس جگہ لفظ ِ”بعض“ کا استعمال ہوا ہے، وہ بھی حضرت عمر کے اشارہ او ر ایماء سے ہی وجود میں آیا:

”فقال عمر:ان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله قد غلب علیه الوجع وعند کم القرآن حسبنا کتاب الله ،فاختلف اهل البیت، فاختصموا،فمنهم من یقول قربو ا یکتب لکم رسول الله کتاباً لن تضلوا بعده ،ومنهم من یقول ما قال عمر “

ابن ابی الحدیدنے ابن عباس اورعمر میں ایک مرتبہ ملا قا ت کے درمیان جو گفتگوہوئی اس کو بالتفصیل نقل کیا ہے، جس میں حضرت عمر نے صریحا اس بات کو قبول کیا ہے کہ میں ہی نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وصیت لکھنے سے باز رکھا :

”و لقد اراد ان یصرح باسمہ، فمنعت من ذالک “

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حا لت مرض میں چاہتے تھے کہ خلافت کے بارے میں علیعليه‌السلام کے نام کی تصریح کردیں ، لیکن میں نے ان کو اس بات سے باز رکھا ۔“

ابن ابی الحدید اس کے بعدکھتے ہیں :

ذکر هٰذاالخبر احمد بن ابی طاهرصاحب کتاب تاریخ بغداد فی کتابه مسندا ۔“( ۵۲ )

اس واقعہ کو احمد بن ابی طاہر تاریخ بغداد کے مولف نے اپنی کتاب میں باقاعدہ تما م اسناد کے ساتھ تحریر کیا ہے ۔

دوسرانکتہ:۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وصیت لکھنے کے لئے قلم دوات طلب فرمایا تو جواب میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ”ھجررسول الله “ اور”قد غلب علیہ الوجع “ جیسے کلمات استعمال کئے گئے!جو مفہوم اور معنی کے لحا ظ سے ایک ہیں ، یعنی جس طرح ”ھجررسول الله “سے توھین رسالت ہو تی ہے، اسی طرح ”قد غلب علیہ الوجع“سے توھین رسالت ظاہر ہوتی ہے اور ”ہجر رسول الله “کہہ کر ہذیان اور بیہودہ گوئی کی نسبت خاتم الانبیاءصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں دینا تونھایت ہی بدتمیزی اور گستاخی ہے!! یھی وجہ ہے کہ جب رُواة ِاحادیث اور مورخین ِ اہل سنت و الجماعت نے اس چیز کو دیکھا کہ اس روایت میں ہجر و ہذیان کی نسبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف خلیفہ صاحب کی جانب سے صراحت کے ساتھ دی گئی ہیجو قابل ِ تنقید واعتراض ہے اور اس طرح کی نسبت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف دینا صریحا قرآن کے مخالف ہے :مَاْ ضَلَّ صَاْحِبُکُمْ وَمَاْ غَوٰی(نہ تمھارادوست گمراہ ہو ااور نہ بھکا) لہٰذا اپنی پرانی خصلت کے مطابق روایت کے الفاظ میں اس طرح ردو بدل کردی کہ جھاں ہجر (ہذیان ) کا لفظ تھا وھا ں لفظ ِ عمرکو چاٹ گئے اور ہذیان کی نسبت حا ضرین ِ مجلس(فقالوا ہجر رسول الله ) کی طرف دے دی!!

ا ورجھاں خلیفہ صاحب کا نام صراحتاً یا کنایةً جیسے لفظ بعض کی آڑ میں مذکور تھا وھاں جملہ ”قدغلب علیہ الوجع“(ان کے اوپر بخار کا غلبہ ہے ) جوکنایہ کی صورت میں ہے اضافہ کردیا ،تا کہ اپنے محبوب کو تنقید سے کچھ حد تک بچایا ج ا سکے!!لیکن اگر غور کیا جائے تو جیسا کہ پھلے ہم نے اشارہ کیا کہ حا ضرین کے درمیان اختلاف کرنے کا شوشہ حضرت عمر ہی کی جانب سے چھوڑا گیا تھا یعنی حضرت عمرسے پھلے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات قبول کرنے میں کوئی بھی آنا کانا نہیں کر رھا تھا، یہ تو صرف آپ کی ہی دین تھی جس کی وجہ سے لوگوں میں حکم ِ رسول کی بابت چہ می گوئیاں ہونے لگیں،لہٰذا حا ضرین کی جانب سے اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف ہذیان کی نسبت دی گئی تھی تووہ حضرت عمر ہی کے الفاظ دھرا رہے تھے اوراس سلیقہ سے پےش آنے کا طریقہ حضرت عمر نے ہی بتلایا تھا!!( ۵۳ )

تیسرا نکتہ :۔تیسرا نکتہ جو اس حدیث کے ذیل سے مربوط ہیجسے اہل سنت کے بعض محدثین ومولفین نے نقل کیاہے اور بعض نے نھیں، یہ ہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تحریری وصیت نامہ نہ لکھ سکے تواس وقت آپ نے تین چیزوں کی وصیت کی ،لیکن ان تینوں وصیتوں میں سے( بعض ناقلین ِ حدیث نے) صرف دو کو تو قلمبند کیا ہے مگر تیسری چیز کے بارے میں کھا گیا کہ راوی فراموش کر گیا!!

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ وہ تیسری کون سی شے تھی جسے راوی فراموش کر گیا ؟!آخر تیسری وصیت کے یاد رکھنے کے موقع پر ہی کیوں راوی کے ذهن پرمکڑی نے فراموشی کا جالا تنا ؟! یقینا کوئی ایسی شیتھی جس کے فراموش کرنے میں راوی کو مصلحت نظر آئی اور بقیہ یا د رہ گئیں ؟!

بھر حال اتنی بات تومسلم ہے کہ تیسری کوئی ایسی خاص شےتھی جس کے اہتمام کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حساس موقع پر لکھنے کی ضرورت محسوس کی اور زبانی بتانے پر اکتفاء نہ کی اور ارشاد فرمایا : قلم و دوات دے دو تاکہ میں لکھدوںاور تم گمراہی سے محفوظ رہو۔

پس اتنا تو ماننا ہی پڑے گاکہ جس تیسری شےکی رسول وصیت کر رہے تھے وہ گمراہی سے بچانے والی تھی ،لہٰذا اب ہمیں جستجو اس بات کی کرنا ہے کہ آخر وہ شےجو گمراہی سے امت ِ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بچانے والی ہے وہ کیا ہے ؟کیا دیگر مورخین ومحدثین نے کوئی ایسی شے بتلائی ہیجو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کو گمراہی سے بچالے ؟تواس کے لئے اکثر علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے اور اس کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیاہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

”انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابداً کتاب الله و عترتی …“

اے لوگو! میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ یجارھا ہو ں ایک کتاب خدا ہے اور ایک میری عترت جو میرے اہل بیتعليه‌السلام ہیں ،اگر تم نے ان سے تمسک کیا توگمراہی سے محفوظ رھو گے اور یہ دونوں چیزیں کبھی ایک دوسرے سیجدا نہیں ہوں گی یھاں تک کہ یہ دونوں ساتھ ساتھ ہمارے پاس حوض کوثر پر واردہوں گی ۔

چنانچہ اسی بات کیلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بار بار قلم مانگ رہے تھے:

”فقال اٴِیتونی بکتاب اکتب لکم کتابالن تضلوا بعده ابدا“

اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جو چیز نجات ِ مسلمین کا باعث ہووھی راوی بھول جا ئے(اورجو قابل اہمیت نہ ہو ں وہ یاد رہ جائے )تعجب خیزنھیں تو کیاہے ؟!!

پس ثابت ہوا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بوقت وفات ایک بھت ہی اہم امر کی وصیت کرنا چاہتے تھے کہ جس کی وجہ سے بعض صحا بہ کی طرف سے ایسا ر د عمل ہو ا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جیسی بلند شخصیت کے مقابلہ میں بھی مخالفت کرنے کھڑے ہو گئے!!( ۵۴ ) اوریھی نہیں کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی ان لوگوں نے نافرمانی کی، بلکہ یہ لوگ باقاعدہ آپ کی اہانت کرنے پر تل گئے !اور کهنے لگے:

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دماغ خراب ہو گیا ہے ! معاذالله یہ دیوانے ہو گئے ہیں!ان کی باتیں کوئی نہ سنے !یہ پاگل پن اور ہذیان کی باتیں کرتے ہیں !!!

بھر حال ان تما م باتوں سے ثابت ہو تا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بوقت آخرایک ایسی اہم شے لکھنا چاہتے تھیجو بعض لوگوں کو ہضم نہ ہو سکی اور مخالفت کر بیٹھے! اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ سلسلہ رواة میں سے ابن عباس اور سعید بن جبیر نے تیسری وصیت کو نقل کیا تھا لیکن جب یہ سلسلہ تیسرے راوی جناب سلیمان تک پهنچا تو وہ تیسری شے بھول گئے:(ونسیت الثالثھاور میں تیسری وصیت فراموش کر گیا!)کیونکہ بخاری تصریح کرتے ہیں :

”سفیان بن عینیہ اس حدیث کے سلسلہ رواة میں سے چوتھے فردکھتے تھے :یہ قول (نسیت الثالثہ“ میں تیسری وصیت بھول گیا) سعید بن جبیر یا ابن عباس کا نہیں بلکہ سلیمان کا ہے ”قال سفیان بن عینیہ: ھذامن قول سلیمان“سفیان کھتے ہیں :” مجھ سے سلیمان نے کھا: میں تیسری وصیت فراموش کر گیا“ ۔( ۵۵ )

پس نتیجہ یھی نکلتا ہے کہ جس چیز کو فراموشی کا نام دیا گیاوہ صرف اہل بیتعليه‌السلام کی حا کمیت اور بالاخص علیعليه‌السلام کی خلافت کامسئلہ تھا جس کو دیگر مقامات پر مثلاًابن عباس اور عمر کے درمیان کی گفتگو میں وضاحت کے ساتھ ذکر کیاگیا ہے ۔

عرض مولف

مردہ باد ایسی سیاست جس نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واضحا ور روشن حقائق کے بیان سے باز رکھا ،زائل ہو جائیں وہ ذهن جو عالی اور لازمی مطالب کو سیاست میں فراموش کر جائیں !! لعنت ہو ایسی سیاست پر جس کی وجہ سے حقائق میں تحریف کردی جائے!!!

ایک اعتراض

بعض علمائے اہل سنت اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اس قدر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وصیت اہمیت رکھتی تھی تو پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعض لوگوں کی مخالفت کی بنا پر لکھنے سے باز کیوں رہے ؟کیوں نہیں آپ نے اپنی وصیت کو تحریر کیا جو امت کے نفع کے لئے تھی ؟

مذکورہ اعتراض کاجواب

اس سوال کیجواب میں ہم علامہ سید شرف الدین مرحوم کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جو معترضین کا منھ توڑ جواب ہے :

”وھی نظریہ جو (ہذیان یا غلب علیہ الوجع) حا ضرین مجلس کی طرف سے پیش کیا گیا، اسی کو مد نظر رکھتے ہو ئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وصیت لکھنے سے باز رہے ،کیونکہ جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے ہی اس قدر اختلاف و تند مزاجی بڑھ گئی اور ایک هنگامہ اٹھ کھڑا ہواتھا؟ تو اب اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کچھ لکھتے بھی تو اس کا اثرکیا مر تب ہو تا؟سوائے فتنہ وفساد بڑھ جا نے کے اور وھیں پرجنگ و جدال کی نوبت آجاتی، لہٰذ ارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بھتر یھی تھا کہ آپ کہہ دیں:” یھاں سے نکل جاو!“(قوموا عنی)اور اگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے حکم کے صادر کرنے میں اصرار کرتے تو وہ افراد اس سے بھی زیادہ سرکشی اور سختی کرتے ،جس کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نظر یں دیکھ رھی تھیں اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہذیان پر زیادہ سے زیادہ دلائل پیش کرتے اوران کی اندھی تقلید کرنے والوں کی طرف سے آج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہذیان پر سینکڑوں کتابیں لکھ دی جاتیں ! ہزاروں صفحا ت پر کئیجاتے ! چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بغیر کسی اصرار کے اپنی بات کو دبا لیا اور خاموش ہو گئے ، دوسری جانب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جانتے تھے کہ چاہے وصیت لکھی جائے ،یا نہ لکھی جائے ، حضرت علی علیہ السلام اور ان کے صحیح چاهنے والے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات کے سامنے مطیع اور خاضع ہیں اورمخالفین کو امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام کو خلیفہ تسلیم ہی نہیں کرنا ہے ،لہٰذاوصیت لکھنے سے کچھ فائدہ نہیں تھا۔( ۵۶ )

خلاصہ یہ کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ احساس کرلیا کہ یہ لوگ میرے سامنے ہی مجھے پاگل اور دیوانے کی نسبت دے رہے ہیں تو اگر میں اس وقت حضرت علیعليه‌السلام کے حق میں وصیت لکھ دو ں گاتو یہ لوگ میری جانے کے بعد میرے ہذیان اور دیوانے پن کوثابت کرنے میں اور کوشاں ہو جائیں گے اور یہ وصیت نامہ میری نبوت کو درجہ اعتبار سے ساقط کر دے گا اور نتیجہ وھی ہو گا جو اس وقت میں ملاحظہ کر رھا ہوں،بلکہ اس سے بھی بدتر حال ہو جائے گا، لہٰذا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حکمت ِ بالغہ اور دور اندیشی کا تقاضہ یہ تھا کہ وصیت لکھنے سے اجتناب فرمائیں تاکہ اصل نبوت پر اعتراض اور انتقاد کرنے کا دروازہ بند رہے۔

۵ ۔ حج تمتع اورخلفا ئے اسلام!

تاریخ اسلام کی روشنی میں یہ بات پا یہ ثبوت تک پهنچ چکی ہے کہ حضرت عمر کے دور حکومت میں بھت سے اسلامی احکام کی مخالفت کی گئی اور بغیر کسی جھجھک کے حضرت عمر نے دستور ِ خداو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں تغیرو تبدل کیا، ان میں سے ایک حکم حج تمتع ہیجسے حضرت عمر نے اپنے زمانے میں حرام قرار دے دیا تھا، لیکن حضرت علیعليه‌السلام نے خلفاء کے اس بدعتی رویہ کی دور عثمان اور موصوف کے زمانہ خلافت کے بعد شدید مخالفت کی، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے سچے چاهنے والے اصحا ب کو اس حکم کے اصلی صورت پر لانے کے لئے بھت ہی زیادہ زحمت اور کوشش کرنا پڑ ی تب کھیں امام کواس حکم ِخدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اصلی صورت پر لانے میں کامیابی ہوئی، اس طرح عمر کے دستور کے مطابق جو ابھی تک عمل ہوتا آیا تھاوہ ختم کیا گیا اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ آج تمام علمائے اہل سنت بھی عمر ابن الخطاب کے نظریہ کے خلاف حج تمتع کیجواز کا فتویٰ دیتے اور عمل کرتے ہیں ۔( ۵۷ )

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم یھاں پر اس حکم کی کیفیت کے بارے میں کتب احادیث بالخصوص صحیحین سے جواستفادہ ہو تا ہے اس کو قارئین کی خدمت میں نقل کریں:

حج تمتع کسے کھتے ہیں ؟

حج تمتع یہ ہے کہ انسان شوال،ذیقعدہ یا ذی الحجہ کے مھینوں میں سے کسی ایک میں اپنے میقات سے عمرہ کی نیت سے احرام باندھے ،اس کے بعد مکہ میں داخل ہواور طوافِ کعبہ ،سعی بین ِ صفاو مروہ اور تقصیر (سر کے تھوڑے سے بال کٹوانا )کرکے احرام سے خارج ہوجائے یعنی وہ چیزیں جو حا لت ِ احرام میں حرام ہوتی ہیں وہ تقصیر کے بعد حلال ہوجاتی ہیں ،پھر تقصیر کے بعد اسی سال مکہ سے حج کے لئے احرام باندھے اور عرفات کے لئے روانہ ہوجائے ،عرفات کے بعد مشعر کی طرف کوچ کرے ،اس کے بعد منیٰ آئے اور بقیہ اعمال”رمیجمرہ،قربانی وطواف وغیرہ“ انجام دے، اسے حج تمتع کھتے ہیں اوراس حج کو حج تمتع اس لئے کھتے ہیں کہ اس حج میں لذت (متعہ) حا صل کرنے کو جومحرماتِ احرام میں سے ہیجائزقرار دیاگیا ہے ،کیونکہ دو احرام (احرام عمرہ واحرام حج )کے درمیان فاصلہ ہے اس فاصلہ میں وہ کام جو حا لت ِ احرام ِ عمرہ میں حرام تھے اور جو آئندہ احرام ِ حج میں حرام ہو جائیں گے وہ حلال کر دئیجاتے ہیں ، اس طرح یہ شخص احرامِ حج کے باندھنے تک ان لذات سے استفادہ کر سکتاہے ، مگریہ ان لوگو ں کے لئے ہیجو مکہ معظمہ سے تقریباً ۷۸ کلو میٹر دور رھتے ہیں اوریہ حکم نص ِقرآن اورقول و فعل ِرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ پایہ ثبوت تک پهنچ چکا ہے، چنانچہ اس بارے میں ارشاد الہٰی ہو تا ہے:

( <…فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِاِلیَ الْحَجِّ فَماَاسْتَیْسَرَمِنْ الْهَدْیِ فَمَنْ لَمْ َیجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثةِاَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَةٍاِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَةُکاَمِلَةٌ ذَالِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اَهْلُهُ حا ضِرِیِْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوْااْللّٰهَ وَاعَْلَمُوْااَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُالْعِقَابِ> ) ( ۵۸ )

پس جو شخص اعمال ِ عمرہ انجام دے چکا اور اعمال حج انجام دینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جو قربانی میسر آوے کرنی ہوگی اورجس سے قربانی ناممکن ہو تو تین روزے زمانہ حج میں (رکھنے ہوں گے )اور سات روزیجب تم واپس آو یہ پوری دھائی ہے،یہ حکم اس شخص کے لئے ہیجس کے لڑکے بچے مسجدالحرام(مکہ )کے باشندے نہ ہوں اورخداسے ڈرواور سمجھ لو کہ خدابڑ ا سخت عذاب والاہے ۔“

اس بارے میں احادیث بھی تواتر کے ساتھ پائی جاتی ہیں چنانچہ چند احادیث ہم آئندہ نقل کریں گے ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کادورجاہلیت کی بیہودہ رسوم کے خلاف جدوجھدکرنا

دورجاہلیت میں اعمال عمرہ ”ماہ شوال،ذیقعدہ اورذی الحجہ “ میں بجالانا ایک بھت بڑاگناہ سمجھاجاتا تھا ،لیکن آنحضر تصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اعلان ِبعثت کے بعد حکم صادر فرمایا: اعمال عمرہ انھیں میں سے کسی ایک ماہ میں انجام دئےجائیں گے،اس طرح آ پ نے حج ِ تمتع کو ان مھینوں میں تشریع کر کے دور جاہلیت کے خود ساختہ قانون کو بدل دیا،مگر چونکہ یہ قانون ایک نیا قانون تھا، لہٰذابعض مسلمانوں کے لئے گراں اور ناقابل قبول گزرا اوروہ حکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت پر اتر آئے۔

امام بخاری اور مسلم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں اس ماجرا کو ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے :

۱ …”عن ابن عباس؛قال:کانوایرون ان اٴلعمرةَ فی اشهرالحج من افجرالفجورفی الارض،ویجعلون المحرَّمَ صفراً،ویقولون اذابَرَءَ َالدَبَرُوعَفَاالاثَرَُوانْسلَخَ صَفَرحَلَّتِ العُمرَةُ لمن اعتمر،قدم النبُی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واصحابُه صبیحةَرابعة مُهلِیّن بالحج،فامرهم ان یجعلوهاعمرة،فتعاظم ذالک عند هم، فقالوا:یارسول الله ! اَیُّ الحِلِ؟ قال:حِلٌّکله “ ( ۵۹ )

امام بخاری اور مسلم نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:

اسلام سے پھلے حج عرب کے مھینوں (شواّل،ذیقعدہ ،ذی الحجہ ) میں اعمال عمرہ بجالاناروئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے اور کھتے تھے: جب ماہ صفر ختم ہو جائے تو اعمال عمرہ بجالانا حلال ہے (یعنی صفر کا مھینہ تمام ہونے کے بعد اعمالِ عمرہ بجالا نا جائز سمجھتے تھے )ابن عباس کھتے ہیں : رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحا ب کے ساتھ ماہ ذی الحجہ کی چار تاریخ کی صبح میں اس حالت میں مکہ وارد ہوئے کہ آپ احرام ِحج زیب تن فرمائے ہوئے تھے، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اس احرام کو عمرہ میں تبدیل کرد و(یعنی ابھی جواحرام باندھے ہوئے تھے ،اس کو احرامِ عمرہ سمجھو)اور احرام ِ حج سے خارج ہو جاواور اب تم محل ہوگئے ،لیکن یہ دستور کچھ اصحا ب پر گراں گزرا،لہٰذا قبول کرنے سے آنا کانی کرنے لگے اور کهنے لگے:یا رسول اللہ!احرام سے خارج ہو نے کی وجہ سے کون کون سی چیزیں حلال ہوں گی ؟!آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:تمام وہ چیزیں جواب تک حرام تھیں۔

۲…”عن جابرابن عبداللّٰه؛ قال:اَهْلَلْنَا مع رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه بالحج خالصاًلانخلطه بعمرة،فقَدِ مْنَامکةلاربع لیال خلون من ذی الحجة،فلمّا طفنا بالبیت وسعینا بین الصفاء والمروة امرنا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه ان نجعلها عمرة وان نحل الی النساء،فقلنا:ما بیننا، لیس بیننا و بین العرفة الاخمس، فنخرج الیها ومذاکیر نا تقطرمنیا،فقال رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه: انی لابرکم واصدقکم ولولاالهدی لاحللت، فقال سراقة ابن مالک: امتعتنا هٰذه لعامنا هٰذاام للابد؟فقال:لالابد الاباد“ ( ۶۰ )

جابر بن عبداللہ سے منقول ہے :

ھم لوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تنھا احرام حج باندھا ، بغیر اس کے کہ عمرہ کو اس میں دخل ہو اور چار راتیں ماہ ذی الحجہ کی گزر چکی تھیں کہ وارد مکہ ہوئے ،جب طواف و سعی بین صفا ومروہ سے فارغ ہوئے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم فرمایاکہ ان تمام اعمال کو اعمال عمرہ سمجھواوراب ہماری عورتیں ہمارے لئے حلال ہو جائیں گی ،جابر کھتے ہیں : اس حکم کو سن کر ہم لوگ آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے اور کهنے لگے : اب سے عرفہ تک صرف پانچ دن کافاصلہ ہے ،کیا ہم عرفہ کے لئے اس حا لت میں حرکت کریں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ہو!(اس اعتراض کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سن کر ) فرمایا: میں تم سب سے زیادہ احکام خداوندی کا پاسباں، وفادار اور سب سے نیک ہوں ،اگر میں قربانی کا جانورنہ لایا ہوتاتو تمھاری طرح میں بھی احرام سے خارج ہو جاتا، سراقہ بن مالک نے کھا :

آیا یہ حج تمتع صرف اسی سال کے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: نہیں ،یہ ہمیشہ کے لئے ہے ۔

____________________

[۱] الام جلد۱،کتاب تالطھارة ، باب ”ما یوجب الغسل ولا یوجبہ “صفحہ ۳۱ ۔

[۲] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحیض، باب(۲۲)”نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانتین“ حدیث ۳۴۸، ۳۴۹۔

[۳] صحیح بخا ری: جلد۱، کتاب الغسل، باب ”غسل ما یصیب من فرج المراة“ حدیث ۲۸۷۔ ۲۸۸۔۲۸۹۔ کتاب الوضوء، باب ”من لم یر الوضوء الا من المخرجین من القبل والدبر“ حدیث نمبر۱۷۷ صحیح مسلم جلد۱، کتاب الحیض، باب(۲۱)” انما الماء من الماء“ حدیث۳۴۷۔

[۴] فتح الباری جلد ۱،کتاب الغسل ، باب” غسل ما یصیب من رطوبة فرج المرائة“ ص ۳۳۹۔

[۵] صحیح بخاری ج۶ ،کتاب فضائل القرآن، باب” جمع القرآن“ ح۴۷۰۲۔( تاریخ یعقوبی ج۲ ،ص۱۷۰۔ مترجم)

[۶] بیان در علوم ومسائل کلی قرآن ، جلد ۱ ،ص۴۴۹ ، ترجمہ مولف و آقائی ھریسی۔

[۷] سنن ترمذی جلد۱، باب(۹۸) ابواب طھارت حدیث ۱۳۱،ص۸۸۔

[۸] ہمیں سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ہے جو خلیفہ صاحب کی اس بارے میں اندھی حمایت کرکے نار جحیم کے مصداق بن رہے ہیں !! مسلمانو ! ذرا انصاف سے بتاو کیا قرآن جلانے کا حکم عظمت ِ قرآن کے مخالف نہیں ؟ مترجم۔

[۹] الکافی ،((الروضة )جلد ۸، ”تاسف علیعليه‌السلام حدیث بعض ما حدث بعد رسول لله “ص ۵۱۔کتاب سلیس بن قیس ، ”کلام علی عن بدع ابی بکر و عمر و عثمان “ص۱۶۲۔ بحا رالانوار جلد ۸،ص ۷۰۴۔ احقاق الحق جلد ۱،ص۶۱۔

[۱۰] شیعہ مذھب کے مطابق ام ولد کوفروخت نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھئے : فقھی کتابیں ۔مترجم۔

[۱۱] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۹،خطبہ ۱۷۸، ص۱۶۱۔

[۱۲] صحیح بخاری :جلد۹ ،کتاب استتابة المرتدین ،باب (۳) حدیث۶۵۲۶۔

مترجم:(صحیح بخاری جلد ۲ ،کتاب الزکاة ،باب(۱) حدیث۱۳۳۵ ۔ جلد۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الیٰ الاسلام والنبوة“حدیث۲۷۸۶۔ جلد ۶،کتاب الاعتصام بالکتاب السنة، باب” اقتداء سنن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله “ حدیث۶۸۵۵۔) صحیح مسلم جلد۲ ،کتاب الایمان، باب (۸) ”الامر بقتال الناس“حدیث۲۰،۲۱۔ مسلم نے تقریباسات عدد اسناد کے ساتھ مذکورہ روایت کو نقل کیاہے۔

[۱۳] ریاض النضرہ ، جلد ۱ ص ۱۰۰ ،تالیف محب الدین طبری۔

[۱۴] صحیح بخاری جلد۹، کتاب استتابة المرتدین باب(۳) حدیث۶۵۲۶۔

مترجم:( بخاری ج ۲ ،کتاب الزکاة ،باب(۱) حدیث۱۳۳۵۔ ج۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الیٰ الاسلام والنبوة“حدیث۲۷۸۶۔ ج۶،کتاب الاعتصام بالکتاب السنة، باب” اقتداء سنن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله “حدیث۶۸۵۵۔)<

>مسلم ج۲ ،کتاب الایمان،باب(۸)”الامر بقتال الناس حتی یقولوا“ حدیث۲۰۔۲۱۔

مسلم نے تقریب ا سات عدد اسناد کے ساتھ مذکورہ روایت کو نقل کیاہے۔

[۱۵] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الایمان، باب” الامر بقتال الناس حتیٰ یقولوا“حدیث۲۰۔

صحیح بخاری: جلد۹،کتاب استتابةالمرتدین، باب( ۳)حدیث۶۵۲۶۔

مترجم:(صحیح بخاری ،جلد۱،کتاب الزکٰوة،باب (۱) ”وجوب الزکاة“حدیث۱۳۳۵،باب(۳۹)”اخذ العناق فی الصدقة“ حدیث۱۳۸۸۔جلد ۳،کتاب الجھاد، باب” دعاء النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الیٰ الاسلام “حدیث۲۷۸۶۔

جلد۶،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة،باب” الاقتداء بسنن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لله“ حدیث۶۸۵۵۔جلد۱،کتاب الایمان، باب(۱۴)”فان تابوا واقامواالصلوة والزکاة۔“(سورہ توبہ۵)حدیث۲۵)۔

[۱۶] بدایة المجتھد ج۱،کتاب الزکاة ، المسئلة الثالثة ،”اذا مات بعد وجوب الزکاة علیہ “ ص ۲۰۰۔

[۱۷] سورہ احزاب،آیت۶، پ ۲۱۔

نوٹ:مذکورہ واقعہ کو ” معجم البلدان حموی مادہ حضرت موت اور انساب الاشراف بلاذری” مالک ومتمم ابنا نویرة “اور تاریخ اعثم کوفی“ ذکر خلافت ابوبکر ،میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔

[۱۸] البدایہ و النھایہ؛ابن کثیر، جلد۶،فصل : ”تنفیذ جیش اسامة بن یزید “ صفحہ ۳۳۵۔

[۱۹] عبقریة الصدیق،بحث:”الصدیق والدولة الاسلامیة“ صفحہ ۱۲۴۔ ۱۲۵ ،مطبوعہ: بیرو ت لبنان۔

[۲۰] الصدیق ابوبکر ،الفصل الخامس : ”قتال من منعواالزکاة “ صفحہ ۹۶۔

[۲۱] ترجمہ اعثم کوفی ج ۱،”ذکرخلافت ابو بکر “ ص ۶،مطبوعہ: ایران ۔

[۲۲] الاصابہ جلد ۵ ، نمبر ۷۷۱۲، ( در بیان حا لات مالک بن نویرہ بن جمرة )ص۵۶۰۔

[۲۳] ترجمہ تاریخ اعثم کوفی جلد۱ ،ذکر خلافت ابو بکر ،صفحہ۷ ۔

[۲۴] تاریخ یعقوبی جلد۲ ،ایام ابو بکر صفحہ ۱۳۲ ۔

[۲۵] تاریخ یعقوبی جلد۲ ،ایام عمر بن الخطاب ، صفحہ ۱۳۹۔

[۲۶] تاریخ اعثم کوفی ج۱ ،ذکر خلافت ابو بکر ، ص ۱۸۔ ۱۹۔

[۲۷] صحیح مسلم ج۷، کتاب فضایل الصحا بة، باب” فضائل علی علیہ السلام“

[۲۸] صحیح بخاری: جلد۴، کتاب الجھاد ابواب الخمس، باب” فرض الخمس“ حدیث ۲۹۹۶۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد۴،کتاب المغازی، باب ”حدیث بنی نضیر“حدیث ۳۸۱۰،باب” غزوةخیبر“، حدیث۳۹۹۸۔ جلد ۳ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب قرابةالرسول“ حدیث۳۵۰۸۔ جلد ۵،کتاب الفرائض، باب ”قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لال نورث ماترکنا صدقة“ حدیث۶۳۴۶،۶۳۴۹۔) صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد والسیر، باب” قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لانورث“ حدیث۱۷۵۹۔

[۲۹] صحیح بخاری جلد۵،کتاب المغازی ،باب ”غزوة خیبر“حدیث۳۹۸۹۔ صحیح مسلم جلد۵، کتاب الجھاد و السیر ،باب (۱۶)”قول النبی :لا نورَث ما ترکنا فھو صدقة“حدیث۱۷۵۹۔

[۳۰] ہمارے پاس قرآ ن مجید او رکتب تواریخ سے مسلم الثبوت دلائل موجود ہیں کہ معصوم غیر معصوم کی بیعت نہیں کرتا لہٰذا مذکورہ حدیث میں جو بات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کھی گئی ہے کہ آپ نے وفات بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ابو بکر کی بیعت کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی یہ کھلا ہوا بھتان اور برہنہ کذب ہے، چونکہ اس کتاب کا موضوع اس بحث سے جدا گانہ ہے لہٰذا اس بارے میں آپ ہماری علم کلام کی کتابیں دیکھئے۔مترجم ۔

[۳۱] سنن ابی داؤد، جلد۲ ، کتاب الخراج والامارة ، باب(۱۹)” فی صفایا رسول الله من الاموال“حدیث۲۹۶۸۔

[۳۲] سنن ابی داؤد جلد۲ ، کتاب الخراج والامارة ، باب(۱۹)” فی صفایا رسول الله من الاموال “ح ۲۹۷۲،ص ۲۴۔

[۳۳] شیعہ مذھب کے نزدیک یہ بات محکم اورمتقن دلائل کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے بجز رسول کسی کی بھی بیعت نہیں کی ہے۔مترجم

[۳۴] اس حدیث کے جعل کرنے سے ایک مقصد ابو بکر کا یہ بھی تھا کہ اس ھتھکنڈے کے ذریعہ اہل بیتعليه‌السلام عصمت و طھار ت کو مالی ا ور اقتصادی اعتبار سے کمزور کیا جائے تاکہ وہ ہمیشہ ہمارے( خلفاء کے) محکوم رھیں اور کبھی اپنی خلافت کا حق نہ جتا پائیں اوردوسرے خلیفہ صاحب کی حا کمیت کے پر چار کے لئے دولت کی فراوانی رہے۔مترجم۔

[۳۵] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ۱۶،مکتوب نمبر ۴۵، ص۲۱۱۔ بلا غات النساء بحث فدک،ص۱۳۔ کتاب الشافی ،مولفہ سید مرتضی۔

[۳۶] صحیح بخاری جلد۵،کتاب فضائل اصحا ب النبی،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باب مناقب قرابة الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،جلد۷،کتاب النکاح، باب ”ذب الرجل عن ابنتہ “صحیح بخاری کے بقیہ حوالے جات ص۵۴۵ پر نقل کر چکے ہیں ، صحیح مسلم جلد۷،باب فضائل فاطمہ بنت النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حدیث۴۴۹۔

[۳۷] مزہ کی بات تو یہ ہے کہ جس مال کو صدقہ کہہ کر مسلمان فقر اء کا مال قرار دیا گیا اسی کو خود اپنے ذاتی تصرف میں ان حضرات نے لے لیا !یہ کھاں سے جائز ہوگیاتھا ؟!! مترجم۔

[۳۸] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۱۶،مکتوب ۴۵، ص۲۲۷۔۲۴۵۔

[۳۹] تاریخ الخلفاء جلد۱،فصل ”فیماوقع فی خلافةابی بکر“ص۷۳۔

[۴۰] صواعق محرقہ ،ص۱۹۔

[۴۱] صحیح بخاری:ج۵،کتاب المغازی، باب”حدیث بنی نضیر“حدیث نمبر۳۸۰۹ ، ۳۸۱۰۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد۴ ،کتاب الجھاد ابواب الخمس، باب”فرض الخمس“حدیث ۲۹۹۶۔ جلد ۳،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب قرابةالرسول“حدیث۳۵۰۸،باب” غزوة خیبر“ حدیث ۳۹۹۸ ۔ جلد ۵،کتاب الفرائض، باب”قول النبی لانورث ما ترکناہ صدقة“ حدیث۶۳۴۶ ، ۶۳۴۹۔) صحیح مسلم ج۵،کتاب الجھادوالسیر،باب”قول النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لانورث“ حدیث ۱۷۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶،مکتوب ۴۵، ص۲۲۰، ۲۲۳۔

[۴۲] شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید ،ج ۱۶،مکتوب ۴۵، صفحہ ۲۸۴۔

[۴۳] صحیح بخاری: ج۴،کتاب الخمس،ابواب الجزیة والموادعة،باب( ۱۷)”اثم من عاہد ثم غدر“ح۳۰۱۱۔ ج ۶، کتاب التفسیر،تفسیر سورہ فتح ،باب(۵) ”اذ یبایعونک تحت الشجرة “ ح۴۵۵۳۔ مترجم:( صحیح بخاری، ج۶،کتاب المغازی،باب(۳۳)”غزوة حدیبیہ“ح ۳۹۴۳۔) صحیح مسلم ج ۵،کتاب الجھاد، باب”صلحا لحدیبیة“ح ۱۷۸۵۔

[۴۴]صحیح بخاری: ج۴،کتاب الخمس،ابواب الجزیة والموادعة،باب( ۱۷)”اثم من عاہد ثم غدر“ح۳۰۱۱۔ ج ۶، کتاب التفسیر،تفسیر سورہ فتح ،باب(۵) ”اذ یبایعونک تحت الشجرة “ ح۴۵۵۳۔ مترجم:( صحیح بخاری، ج۶،کتاب المغازی،باب(۳۳)”غزوة حدیبیہ“ح ۳۹۴۳۔) صحیح مسلم ج ۵،کتاب الجھاد، باب”صلحا لحدیبیة“ح ۱۷۸۵۔

[۴۵] عرض مترجم: بھتر ہے کہ یھاں پر قرآن کی ان آیات کو پیش کردیا جائے جن میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کلام کرنے کے طریقے اورآپ پر حقیقی ایمان لانے کی شناخت کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہو تا ہے: <يَٰاْ اَیُّهَا الذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْهَرُوْاْ لَه بِاْلْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ اِنَّ اْلَّذِیْنَ یغضُّوْنَ اَصْوَاْتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ الله اُوْلَاْئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ الله قُلُوْبَهُمْ لِلتِّقْویٰ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ >(سورہ حجرات،آیت۲۔۳، پ۲۶)<اِنَّمَاْ اْلْمُومِنُوْنَ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ بِالله وَرَسُوْلِه ثُمَّ لَمْ یَرْتَاْبُوْاْ وَجَاْهَدُوْاْ بِاٴَمْوَاْلِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ الله اٴُوْلَائِکَ هُمُ الْصَّاْدِقُوْنَ >(سورہ حجرات،آیت۱۵،پ۲۶)

سچے مومن تو بس وھی ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جھاد کیا یھی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں۔ ۱۲

[۴۶] اس کے تفصیلی حوالے آگے نکتہ اولی۔میں ملاحظہ فرمائیں ۔

[۴۷] تفصیلی حوالے آگے نکتہ اولی ۔میں ملاحظہ کریں ۔

[۴۸] صحیح مسلم جلد ۵ ،کتاب الوصیة، باب(۵) ” ترک لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ“حدیث۱۶۳۷۔

[۴۹] صحیح بخاری: جلد۱،کتاب العلم ،باب(۴۰)”کتابة العلم“حدیث۱۱۴۔جلد ۷ ،کتاب المرضی، باب(۱۷)” قول المریض قومواعنی“حدیث۵۶۶۹۔ جلد۹،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة،باب(۲۶)” کراہیة الخلاف“ حدیث۶۹۳۲۔

[۵۰] صحیح بخاری ج۶،کتاب المغازی،باب”مرض النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ووفاتہ“حدیث ۴۱۶۹۔

[۵۱] صحیح بخاری جلد ۴،کتاب الجھاد، باب” ھل یستشفع الی اہل الذمة“ حدیث ۲۸۸۸۔ کتاب الخمس ابواب الجزیة والموادعة،باب”اخراج الیہود من جزیرة العرب“حدیث ۲۹۹۷۔ جلد ۶،کتاب المغاز ی، باب ”مرض النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ووفاتہ “حدیث ۴۱۶۸۔

[۵۲] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد۱۲، خطبة ۲۲۳،ص۲۱،۷۸ ۔

[۵۳] عرض مترجم :”ھجررسول الله “اور”قد غلب علیہ الوجع “ان دونوں جملوں کا مفاد ایک ہی ہے اورو ہ ہے شان رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں گستاخی اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنا،حا لانکہ قرآن صراحت کے ساتھ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان اس طرح بیان کرتا ہے:

۱۔ <یا اَیُّهَا ْالَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْهَرُوْاْ لَه بِاْلْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ .سورہ حجرات، آیت۲ ،پ۲۶>

اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو رزور سے بولا کرتے ہو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ہو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔

۲۔<اِنَّ اْلَّذِیْنَ یغضُّوْنَ اَصْوَاْتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ الله اُوْلَاْئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ الله قُلُوْبَهُمْ لِلتِّقْویٰ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْم ٌ. سورہ حجرات،آیت ۳، پ ۲۶ >

بیشک جو لوگ رسول خدا کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کرلیا کرتے ہیں یھی لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پرھیزگاری کیلئے جانچ لیا ہے ان کیلئے آخرت میں بخشش اور بڑا اجر ہے ۔

۳۔<اِنَّمَاْ اْلْمُومِنُوْنَ اْلَّذِیْنَ آمَنُوْاْ بِالله وَرَسُوْلِه ثُمَّ لَمْ یَرْتَاْبُوْاْ وَجَاْهَدُوْاْ بِاٴَمْوَاْلِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ الله اٴُوْلَائِکَ هُمُ الْصَّاْدِقُوْنَ. سورہ حجرات، آیت۱۵،پ ۲۶>

ترجمہ :۔ سچے مومن تو بس وھی ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان لائے پھر انھوں نے اس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جھاد کیا یھی لوگ دعوائے ایمان میں سچے ہیں ۔

[۵۴] جبکہ قرآن صراحت کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہو نظر آتا ہے : <یا اَیُّهَا ْالَّذِیْنَ آمَنُوْاْ لَاْ تَرْفَعُوْاْ اَصْوَاْتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ اْلْنَّبِیِّ وَلَاْ تَجْهَرُوْاْ لَه بِاْلْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَاْلُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاْ تَشْعُرُوْنَ اے ایماندارو ! بولنے میں تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیاکرو اور جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے زو ر زور سے بولا کرتے ہو ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو ،ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرای ا سب اکارت ہو جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو >؟! سورہ حجرات، آیت۲)

[۵۵] صحیح بخاری کتاب الخمس ابواب الجزیة والموادعة، باب” اخراج الیہود من جزیرة العرب“ حدیث ۲۹۹۷۔

[۵۶] المراجعات ص۸۶ ۔مولف علامہ شرف الدین ۔

[۵۷] تفصیل ملاحظہ کریں : بدایةالمجتھد جلد ۱، کتاب الحج،القول فی التمتع ، ص ۲۶۵۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ،کتاب الحج۔

[۵۸] سورہ بقرہ ،آیت نمبر۱۹۶، پ ۲۔

[۵۹] صحیح بخاری :ج۲،کتاب الحج، باب(۳۴) ” التمتع و الاقران والافراد“ حدیث۱۴۸۹۔ مترجم:( صحیح بخاری جلد ۳،کتاب فضائل الصحا بة ، باب(۲۶) ” ایام الجاہلیة“ حدیث ۳۶۲۰۔)

صحیح مسلم ج۴،کتاب الحج، باب(۳۱) ” جواز العمرة فی ا شھرالحج“ حدیث۱۲۴۰۔

سنن نسائی کتاب مناسک الحج، باب ”اشعار الھدی “ حدیث نمبر ۲۷۳۶،ص ۱۸۰۔

[۶۰] سنن ابن ماجہ جلد ۲، کتاب المناسک، باب (۴۱) فسخ الحج ، حدیث۲۹۸۰۔ صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب (۱۷) بیان وجوہ الااحرام وانہحدیث۱۲۱۶۔ صحیح بخاری:جلد۲،کتاب الحج، باب تقضی الحا ئض المناسک کلھاحدیث ۱۵۶۸۔ جلد۳،کتاب الحج ابواب عمرہ ، باب”عمرةالتنعیم“ حدیث۱۶۹۳۔ جلد ۳، کتاب الشرکة،باب(۱۵)” الاشتراک فی الھدی والبدن“حدیث۲۳۷۱۔

نوٹ: امام بخاری نے اس مضمون کی متعدد روایا ت ذکر کی ہیں ۔ دیکھئے: حدیث ۱۶۹۳ ، ۱۴۹۵ ، ۱۴۹۳ ، ۴۰۹۵، ۶۸۰۳ ، ۶۹۳۳ ، ۱۰۳۵ ، ۱۶۸۹ ۔مترجم۔

[۶۱] نوٹ:ضاقت بہ صدورن ا سے کثر ِت ناراضگی و نا پسندید گی کی طرف اشارہ ہو تا ہے۔