خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں0%

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف: محمد صادق نجمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20451
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20451 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

عرض مولف

ھم نے اس حدیث کو ابن ماجہ سے نقل کیا ہے البتہ مختصر سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے ۔ صحیح مسلم میں اس طرح آ یا ہے :

…”عن جابر بن عبداللّٰه؛ قال: اهللنا مع رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالحج، فلماقدمنامکةامرناان نَحِلّ ونجعلهاعمرة، فَکَبُر ذالک َعلینا وضاقت(۶۱) به صدورُنا، فبلغ ذالک النبی، صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فماندری اٴَشَیٴ ٌبلغه من السماء ام شیٴٌ من قِبَل الناس! فقال: ایهاالناس! اَحِلُّوافلولاالهدی الذی معی فعلت کمافعلتم، قال: فاحللناحتیٰ وطِئَناَالنساء، وفعلنامایفعل الحلال، حتیٰ اذاکان یوم الترویةِ ،وجعلنامکّة بظهرٍ،اهللنا بالحج “ ( ۶۲ )

جابر بن عبداللہ سے منقول ہے :

ھم نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ حج کے لئیاحرام باندھا اور جب مکہ وارد ہوئے تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا : اس احرام کو احرام عمرہ قرار دے دیں اور اس طرحا حرام سے محل (خارج)ھو جائیں ۔

جابر کھتے ہیں : یہ حکم ہم لوگوں پر گراں گزرا اور ہم لوگوں کے سینے اس کی وجہ سے تنگ ہوگئے۔”وضاقت بہ صدورُنا“

ادھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو اس کی اطلاع مل گئی ،پتہ نہیں اس بات کی اطلاع آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آسمان سے پهنچی یا ہم لوگوں میں سے کسی نے بتلادیا،بھر حال اس وقت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :اے لوگو ! احرام سے خارج ہوجاو!اگر میرے ساتھ یہ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی تمھاری طرحا حرام سے خارج ہوجاتا۔جابر کھتے ہیں :ھم تمام لوگ احرام سے خارج ہوگئے، یھاں تک کہ ہم لوگ اپنی اپنی بیویوں سے بھی ہم بستر ہوئے اور وہ تمام کام انجام دئے ،جو غیر محرم افراد انجام دیتے ہیں ،یھاں تک کہ روز ترویہ آگیااورھم نے مکہ کو عرفات جانے کے قصد سے ترک کیا اور حج کے لئے احرام باندھا ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ چونکہ افراد کی زمانہ جاہلیت کی ذهنیت بن چکی تھی کہ جس نے شوّال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں احرام باندھ لیا وہ حق نہیں رکھتا کہ محرمات ِ احرام کو انجام دے، خصوصاًعورتوں سے ہمبستر ہون ا سخت ممنوع ہے ،جب تک کہ وہ اعمال حج کو تمام کر کے احرام حج سے خارج نہ ہو جائے ، اس لئے انھوں نے یہ اعتراض کیا : ”اننطلق ومذاکیرنا تقطر“ آیا ہم اس حا لت میں خارج ہوں کہ ہمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ہو ؟! ! اور کچھ افراد نئے حکم کو قبول کرنے سے ہی کترارہے تھے ،یھاں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی اس روش سے ناراض و آزردہ خاطر ہوئے چنانچہ عائشہ اس بارے میں ناقل ہیں :

…”عن عائشة؛انها قالت :قدم رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لاربع مضین من ذی الحجة اوخمس،فدخل علی وهوغضبان، فقلت: من اغضبک یارسول اللّٰه !ادخله الله النار، قال: اوما شعر ت انی امرت الناس بامرٍفاذاهم یترددون…!! ؟( ۶۳ )

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذی الحجہ کی چوتھی یاپانچویں تاریخ میں وارد مکہ ہوئے تو میں (عائشہ )نے ناگاہ دیکھا کہ رسو ل غضبناک اور آزردہ خاطر میرے پاس آ ئے، میں نے کھا :یارسول اللہ! خدا واصل جهنم کرے اس شخص کو جس نے آپ کو ناراض کیا،آخرآپ کو غضبناک کیوں دیکھ رھی ہوں؟ “ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! کیا تم نہیں دیکھ رھی ہو کہ میں ان لوگوں کو حکم دے رھاہوںاور یہ لوگ اس حکم کے قبول کرنے میں آنا کانی کررہے ہیں؟!!( ۶۴ )

حج تمتع کی تحریم کا فتویٰ

جیسا کہ مذکورہ مباحث میں ہم نے اشارہ کیاکہ جب حج تمتع کا حکم آیا تو بعض مسلمانوں پر یہ حکم گراں گزرا،لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بے پایان جد و جھد کے بعد اس حکم کو نافذاور عملی جامہ پهنادیا، تااینکہ یہ حکم خلیفہ اوّل ابوبکر کے دور خلافت میں نافذالعمل رھا ،مگر خلیفہ دوم حضرت عمر کے دور خلافت میں اس کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور مخالفت کر نے والوں کو سخت سزا کی دھمکی دی گئی ، اس بارے میں کتب صحا ح و سنن کے علاوہ تاریخی اور رجال کی کتابو ں میں بھی بھت زیادہ روایات پائی جاتی ہیں ، چنانچہ چند روایات بطور نمونہ صحیحین سے نقل کرتے ہیں :

۱…”قال عمران بن حصین:نزلت آیة المتعة فی کتاب اللّٰه(یعنی متعة الحج) وامرنا بها رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، ثم لم تنزل آیة تنسخ آیةمتعةالحج،ولم ینهَ عنها رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله حتیٰ مات، قال:رجل برایه بعدُماشاء“ ( ۶۵ )

عمران بن حصین سے منقول ہے :

جب آیہ حج تمتع قرآن مجید میں نازل ہو ئی توآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہم کو اس حج کے انجام دینے کا طریقہ بتلایا،اس کے بعد نہ اس حکم کے نسخ کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی اور نہ ہم کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع فرمایا ،یھاں تک کہ رسول کی وفات ِ حسرت آیات واقع ہوگئی،اس کے بعد ایک مرد نے اپنی خواہشات نفسانی سے اس میں جو چاہا کیا(یعنی ا س حکم کو انجام دینا حرام قرار دے دیا )!

۲…”عن ابی نضرة ؛قال:کنت عند جابر بن عبدالله ،فاتاهآ ت،فقال:ابن عباس وابن الزبیراختلفا فی المتعتین(متعة الحج ومتعةالنساء)،فقال جابر:فعلنا هما مع رسول ا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لله،ثم نها ناعنهماعمرفلم نَعُدْلَهُما“ ( ۶۶ )

امام مسلم نے ابی نضرہ سے نقل کیاہے :

میں جابر بن عبداللہ کے پاس تھا کہ ایک شخص آیا اور کهنے لگا :ابن عباس اور ابن زبیر متعة الحج اور متعةالنساء کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ، (حقیقت کیا ہے؟) جابر نے کھا :ھم لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ میں دونوں کو انجام دیتے تھے،لیکن عمر نے اپنے دور حکومت میں اس سے منع کردیا،لہٰذا ہم نے بھی اس کے بعد اعادہ نہیں کیا۔

۳…”عن مُطَرَّف؛قال:بعث اِلیٰ عمران بن حُصَین فی مرضه الذی تُوُفِّی فیه، فقال:انی کنت مُحدِّثُک باحادیث لعل اللّٰه ان ینفعک بهابعدی،فان عشتُ فاکتم عنی،وان ُمتُّ فحدِّ ثْ بها ان شئت،انه قد سُلِّم عَلَی،َّواعلم ان نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه قدجَمَعَ بین حج وعمرة،ثم لم ینزل فیها کتابُ اللّٰه ولم ینهَ عنها النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال رجل فیها برایه ماشاء“ ( ۶۷ )

مطرف سے منقول ہے:

جب عمران بن حصین مریض تھے اور انہوں نے اسی مرض میں وفات پائی تو انھوں نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا اور کھا : اے مطرف! میری موت اب حتمی اور :یقینی ہو چکی ہے ،لہٰذا چاہتا ہوں کہ چند موضوعات کی طرف تمھیں متوجہ کر دوں ،شاید میرے مرنے کے بعد تمھارے لئے مفید ثابت ہوں ، اگر میں زندہ رہ گیاتو اس کو مخفی و پنھاںرکھنا اوراگر میں اسی مرض میں دنی ا سے چلا گیا تو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اے مطرف! آگاہ ہو جا وکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حج وعمرہ کو ایک سال میں جمع کیا ، اس کے بعد اس کی ممنوعیت میں نہ کوئی آیت نازل ہوئی اور نہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع فرمایا ، لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ایک مرد نیجو چاہا،اس میں اپنی طرف سے تبدیلی کردی!( ۶۸ )

عرض مولف

مذکورہ روایت سے عمر کی زبانی تحریم تمتع کے علاوہ دو باتوں کا مزید استفادہ ہوتا ہے:

اول یہ کہ عمران نے بھت سے حساس موضوعات مطرف کے حوالے کئے تھے ،لیکن دیگر موضوعات فرامو ش کردئے گئے!! اور روایت میں صرف حج تمتع کا ذکر آیا ہے ۔

دوم یہ کہ زمانہ اس قدر پر آشوب اور پر خطر تھا کہ کسی کو حق بیان کرنے کی آزادی نہیں تھی اور مجبورتھے کہ خلفائے وقت کے سامنے خاموش رھیں ، جو وہ کھیں اسے بغیر چون چرا تسلیم کرلیں اور ان کی حا کمیت کے سامنے کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں،حقائق کو خلفا ء کے فائدہ میں پنھا ں رکھا جائے، لہٰذا عمران نے کھا: ” اگر میں زندہ رھا توان باتوں کو کسی سے مت کهنااور اگر مر گیا تو دوسروں کو بتانے میں کوئی حرج نہیں “ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خلفا ء کے زمانہ میں ظلم اس قدر بڑھ گیا تھاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معزز صحا بہ بھی زبان کشائی سے ڈرتے تھے!!

بھر حال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ،حضرت عمر نے اپنے دور حکومت میں اعلانیہ طور پر کہہ دیاتھاکہ عھد رسالتمآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دو متعہ (متعةالحج و متعة النساء)تھے ،لیکن میں ان کو حرام قرار دیتا ہوں ،آئندہ اگر کسی نے ان کو انجام دیا تو میں اس کو سخت سزا دوں گا:

متعتان کانتا علی عهد رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ،وانا انهی عنهما واعاقب علیهما متعة الحج ومتعة النساء ( ۶۹ )

یہ مطلب متعددکتب تاریخ ، حدیث،تفسیرو رجال میں موجود ہے، چنانچہ مسند احمد ابن حنبل جلد ۱ ،ص ۵۲ میں بھی موجود ہے لیکن حسب معمول یہ جملہ ”وانا انهی عنها “ حذف کردیا گیا ہے ۔

حج تمتع کی تحریم کا فتویٰ کیو ں د یا گیا ؟!

ممکن ہے کہ کسی کے ذهن میں یہ سوال اُبھر آئے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حج تمتع کو انجام دینے سے آخر کیوں خلیفہ صاحب نے روکا ؟کیوں حرمت کا فتویٰ صادر کیا ؟آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ خلیفہ صاحب کا اس سے کیا مقصدھو سکتا تھا ؟

اس سوال کا جواب خود متن روایات سے ہی مل جاتاہے اور وہ یہ کہ یہ مخالفت و ممانعت اسی سابقہ ذهنیت کی وجہ سے وجود میں آئی جو دوران جاہلیت میں رکھتے تھے:” شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں احرام باندھنابھت بڑا گناہھے“ جی ھاں !اس حکم پر پابندی لگانے کی علت وھی سابقہ ذهنی خرافات تھی جو کھتے تھے: ”اننطلق ومذاکیرنا تقطرالمنی؟! “”آیا ہم اس حا لت میں خارج ہوں کہ ہمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ہو“ ؟! وھی دوران جاہلیت کا موہومی فلسفہ جس کی وجہ سے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ناراض ہوئے اور جو لوگ اس حکم کی نافرمانی کررہے تھے ان کی مذمت فرمائی ۔

پس یھی علل و اسباب تھے کہ جن کی بنا پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد حج تمتع سے منع کیا جانے لگا ، انھیں علل واسباب کی وجہ سے قرآن ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صریح فرمان کے سامنے بعض لوگوں نے اظھار نظر فرمایا ، چنانچہ اس بارے میں صحیح مسلم اور اہل سنت کی دیگر معتبر کتابوں میں بالتفصیل روایات موجود ہیں جیسے ذیل کی روایت :

…”عن ابی موسی؛انه کان یُفِتی بالمتعة، فقال له رجل:رُویدک ببعض فتیاک فانک لا تدری ما احدث امیرالمومنین فی النُّسُک بعد؟حتی لقیه بعدُ:فساٴله، فقال عمر: قد علمت ان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قد فعله واصحابُه، و لکن کرهتُ ان یَظَلُّوا معرسین بهن فی الاراک، ثم یَرُوحُون فی الحج تقطرُروسُهم“ ( ۷۰ )

ابو موسیٰ حج تمتع کیجواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے ، ایک شخص نے ان سے کھا: فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرو ، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امیرالمومنین عمر نے اعما ل حج میں کتنا ردوبدل کر دیا ہے؟یھاں تک حضرت عمر کی خود ابوموسیٰ سے ایک دن ملاقات ہو گئی، ابوموسیٰ کھتے ہیں کہ میں نے ان سے سوال کیا تو وہ کهنے لگے:اے ابو موسیٰ!ھم جانتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اور آپ کے اصحا ب نے حج تمتع کیا ،مگر ہم کو اچھا نہیں لگتاکہ مسلمان درخت ”اراک“کے نیچے اپنی عورتوں کے ساتھ ہمبستر ہوں اور اس حال میں وہ اعمال حج کے لئے کوچ کریں کہ ان کے سروصورت سے آبِ غسل ٹپک رھا ہو !!

ایک نا معقول علت کا تجزیہ

صحیح مسلم کے بعض حاشیہ نویسوں نے حضرت عمر کے مذکورہ جملہ”تقطررووسهم “ (ان کے سرو صورت سے آب غسل ٹپک رھا ہو)کی تو جیہہ کرتے ہوئے کھا ہے :

عمر کایہ جملہ مناسب اور شائستہ ترہے اس جملہ سےجسے بعض مسلمان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں حج تمتع کی تشریع کے وقت استعمال کرتے تھے :آیا ہم اس حا لت میں اعمال حج کے لئے عرفات میں سفر کریں کہ ہمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپک رھی ہو؟! (فناٴتی عرفةتقطرمذ اکیرنا المنی )

بھر حال خلیفہ صاحب نے”تقطررووسھم“سے حج تمتع کے حرام قرار دینے کی علت بیان کی ہے ، کیونکہ شارح ِصحیح مسلم علامہ زرقانی تحریر کرتے ہیں :

حضرت عمر کا عقیده یہ تھا کہ حا جی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ایسے امور انجام دیجو خوشی،راحت اور تلذذ کے سبب ہوں،لہٰذا چونکہ حا جی کے لئے احرام کھولنے کے بعد عورتو ں سے ہمبستر ہونا خوشی اور تلذذ ک ا سبب ہے ،بنا براین حج تمتع کو حرام قرار دیاگیا ہے۔( ۷۱ )

امام سندی ”سنن نسائی“ کے حا شیہ میں تحریرفرماتے ہیں :

حضرت عمر کا مقصد یہ تھاکہ حا جی کو چاہئے کہ اس کا چھرہ پژمردہ اور حال پریشاں ہو ،لیکن حج تمتع سے چوں کہ اس کا برعکس ہو جاتا ہے، یعنی بجائے پژمردگی اورپریشاں حا لی کے انبساط و تلذذحا صل ہوتاہے لہٰذا حضرت عمر نے اس کو حرام قرار دے دیا۔( ۷۲ )

عرض مولف

اگر چہ حضرت عمر کے قول کی بیجااور نامعقول تو جیہہ علمائے اہل سنت بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر حقیقت یھی ہے کہ حضرت عمر نے حج تمتع کو دورجاہلیت کی رسم کو مد نظر رکھتے ہوئے حرام قراردیا ہے، لہٰذاعلمائے اہل سنت کی متذکرہ توجیھیں فقط الفاظ کی بازیگری ہے اورحقیقت وھی ہیجسے ہم نے بیان کیا، مزید یہ کہ مذکورہ علل قو لِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخالف بھی ہیں،کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے”انّا اتقاکم اللّٰه واصدقکم وابرکم “ میں قوانین الہٰیہ کے سلسلے میں تم سب سے زیادہ متقی،پرھیز گار ، نیک اور صادق ہوں ، اسی طرح یہ آیت متذکرہ تو جیھات کی تکذیب کرتی ہے:

( وَمٰاْ کَاْنَ لِمُومِنٍ وَلاٰمُومِنَةٍ اِذٰا قَضَی اللّٰهُ وَرَسُولُهُ اٴَمْراً اٴَنْ یَکُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُمِنْ اٴَمْرِهِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاٰلاًمُّبیناً ) ( ۷۳ )

او ر نہ کسی ایماندار مرد کو یہ حق حا صل ہے اور نہ ہی کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدااور اس کا رسوصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ل کسی کام کاحکم دیں توان کو اپنے اس کام (کے کرنے یا نہ کرنے ) کا اختیار ہو اور یاد رہے کہ جس نے خدا اور اس کے رسوصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ل کی نافرمانی کی وہ یقیناًکھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہو چکاہے۔

دور عثمان میں حج تمتع کی مخالفت!!

خلافت عثمان میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالبعليه‌السلام کی بے پایا ن سعی و کو شش اور دوران معاویہ میں بعض مسلمانوں کی جد و جھد کا نتیجہ تھا کہ حج تمتع کا حکم ِ خدا و رسولعليه‌السلام دوبارہ اپنی اصلی ہیئت پر پلٹ آیا اور بالتدریج عمر کا حکم کالعدم ہوگیا، چنانچہ عمرکی مخالفت اور حضرت علی علیہ السلام کی موافقت میں علمائے اہل سنت نے فتاوے صادرفرمائے ہیں،یھاں تک کہ یھی حکم مسلمانوں میں عملی قرار پایا لہٰذا ذیل میں صحیحین اور دیگر اہل سنت کی معتبر کتابوں سے چند روایات نقل کرتے ہیں جن میں عمر کے حکم کے خلاف حضرت امیرعليه‌السلام اور بعض مسلمانوں کی جد و جھد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،تاکہ بات بالکل واضح اور آشکار ہوجائے :

۱ …”عن مروان بن الحکم؛ قال شَهِدتُ عثمان وعلیاً:وعثمان ینهی عن المتعة،وان یُجْمَع بینهما فلمّا راٴی علیٌ اهلّ بهما لبیک بعمرة وحجة، قال:ماَکنتُ لِادَع َ سنَّة النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لقول احد“ ( ۷۴ )

مروان بن حکم کھتا ہے:

میں نے عثما ن بن عفان کو دیکھا کہ وہ حج تمتع سے لوگوں کو روک رہے تھے، جب حضرت علی علیہ السلام نے انھیں منع کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اعمال عمرہ اورحج کیلئے احرام باندھااور کهنے لگے: میں کبھی بھی حکم خداوسنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت نہیں کروں گا اور نہ کسی ایک کی مخالفت پرحکم الہٰی کو ترک کروں گا ۔

۲…”عن سعید بن المسیب؛ قال:اجتمع علی عليه‌السلام وعثمان بِعُسفان:فکان عثمان ینهی عن المتعة اوالعمرة ،فقال علی:ٌ ماترید الی امرفعله رسول الله تنهی عنه؟فقال عثمان: دعنا منک ،فقال:انی لا استطیع ان اَدَعَک، فلمّاان رای علی ذالک، اهل بهما جمیعا“ ( ۷۵ )

سعید بن مسیب کھتے ہیں :

جب حضرت علی علیہ السلام اورعثمان بن عفان ”عسفان“ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیھات کا نام ) میں اکٹھے ہوئے تو عثمان عمرہ یا متعہ سے لوگوں کو منع کر رہے تھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اے عثمان! کیا تم فرمان ِخدا ورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کے علاوہ کوئی اور بھی مقصد رکھتے ہو؟ عثمان نے کھا! اے علیعليه‌السلام !ھم کو اپنے حال پر رهنے دو!حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اے عثمان ! میں ھر گز تم کو اس حال پر نہیں چھوڑوں گا کہ حکم خدا ورسول کی مخالفت کرو ،لیکن حضرت علی علیہ السلام نیجب فضا ء دگرگون دیکھی توخود آپعليه‌السلام نے اعمال عمر ہ وحج کے لئے احرام باندھا۔

(یہ روایت مسلم سے ماخوذ ہے البتہ بخاری میں بھی اس کے مانند روایت موجود ہے)

مسلم نے اس روایت کوعبدالله بن شقیق سے بھی نقل کیا ہے اوراس روایت میں یہ جملہ بھی موجودھے:

عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کو نازیباکلمات کھے:(فقال عثمان لعلی کلمة ) !!

سنن نسائی میں اس واقعہ کو سعیدبن مسیب سے یوں نقل کیا گیا ہے:

حضرت علیعليه‌السلام نے فرمایا:”اذاراٴیتموه قدارتحل فارتحلوا،فلبیٰ علی عليه‌السلام واصحا به بالعمرة “جب تم لوگ دیکھو کہ عثمان نے حرکت شروع کردی توتم لوگ بھی ان کے ساتھ حرکت شروع کردو،اس وقت علیعليه‌السلام اورآپ کے چاهنے والوں نے عمرہ کے لئے احرام باندھا ۔( ۷۶ )

امام سندی جملہ”اذاراٴیتموه…“ کی شرح میں لکھتے ہیں :

حضرت علی علیہ السلام کا مقصدیہ تھا کہ تم لوگ بھی عثمان کے ساتھ حرکت کرو لیکن عمرہ کااحرام باندھ کرتاکہ عثمان اوران کے چاهنے والے دیکھیں کہ ہم لوگوں نے ان کے قول پر سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مقدم کیا ہے اور انھیں اس بات کا علم ہو جائے کہ خدا و رسول کے قانون کے سامنے عثمان کی اطاعت نہیں ہوسکتی ۔( ۷۷ )

ایک قا بل توجہ نکتہ

یھاں پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بیشتر حقائق کو کتب تاریخ وحدیث میں تغیر وتبدل کر کے پیش کیاگیا ہے، یعنی یاسیاست ِزمانہ کی وجہ سے(حذف ہی کردیا گیا ہے،یا پھر)پردہ ابھام ان کے چھرے پرڈال کراصل حقیقت کو تحریف اورتوڑ مروڑ کے پیش کیاگیا ہے اور ہم تک صرف اشارہ پهنچا ہے۔

چنانچہ حضرت امیر المومنینعليه‌السلام اور عثمان کے درمیان حج تمتع کے بارے میں جو اختلاف ہوا، جسے صحیحین نے نقل کیا ہے یہ بھی انھیں حقائق میں سے ہیجنھیں تاریخ نے اشارة ً و کنایةً نقل کیا ہے، ورنہ یہ بات مسلم ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام اور عثمان کے درمیان اختلاف اسی سادگی سے نہ ہواہوگا ! چنانچہ بعض کتابوں میں شدت اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،جیساکہ ابو عمرابن عبدالبرنے عبدالله ابن زبیر سے نقل کیا ہے:

عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام کے درمیان اختلاف اس قدر شدید تھا کہ قریب تھا حضرت علیعليه‌السلام کو اس وجہ سے قتل کر دیا جاتا، چنانچہ ابن زبیر سے منقول ہے : خداکی قسم میں جحفہ میں تھا کہ ایک گروہ شام سے آیا، جس میں حبیب بن مسلمہ فھری بھی تھا اور یہ عثمان کے ہمراہ تھے ،عثمان نے اس وقت خطبہ دینا شروع کردیا اور حج تمتع کا جب ذکر آیا تو کهنے لگے: حج تمتع سے مراد یہ ہے کہ اعمال حج کو ما ہ ھائے حرام میں تمام کرو اور اعمال عمرہ کو اس سیجدا قرار دو ، بھتر تو یہ ہے کہ اعمال عمرہ(حج تمتع ) کو تاخیر میں ڈال دو ،تاکہ دوبارہ تمھیں زیارت ِخانہ خدا نصیب ہو ،کیونکہ خدا نے خیر میں وسعت دی ہے ۔

ابن زبیر کھتے ہیں:حضرت علیعليه‌السلام نے عثمان کے جواب میں فرمایا :اے عثمان!تمھارا مقصد یہ ہے کہ خدا نے جو اپنے بندوں کو وسعت اور ترخیص عنایت کی ہے اس کو تنگی میں بدل دو؟! اور دور دراز سے آنے والے افراد کیلئیجس قانون کو خدا کے حکم سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تشریع کیا ہے تم انھیں اس سے روکنا چاہتے ہو ؟! اس وقت حضرت علیعليه‌السلام نے خود احرام حج وعمرہ باندھا اس کے بعد عثمان نے لوگوں کی طرف چھرہ کیا اور کهنے لگے:کیا میں نے تم کو عمرہ سے منع نہیں کیا ہے؟ البتہ یہ میری رائے ہے اب اگرکوئی اس کو انجام دیتا ہے تو میں اس کا ذمہ دار نھیں،جو چاہے اس پر عمل کرے اور جوچاہے اس کو ترک کرے، ابن زبیر کھتے ہیں : اسی اثناء میں ایک شامی مرد آیا اور حبیب ابن مسلمہ سے کهنے لگا:اس شخص کو دیکھو !جو امیر المومنین (عثمان )کے مقابلہ میں مخالفت کررھا ہے ،قسم خدا کی اگر مجھے عثمان کی طرف سے اجازت مل جائے تو میں اس کو قتل کردوں،ابن زبیر کھتے ہیں:اس وقت حبیب بن مسلمہ فھری نے اس کے سینہ پر ھاتھ مارکر کھا :اوخاموش رہ !اصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپس کا اختلاف غیروں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں ۔”فان اصحا ب رسول الله اعلم بما یختلفون( ۷۸ )

حج تمتع دور معاویہ میں

محترم ناظرین ! ”متعتین“کے بارے میں گزشتہ صفحات میں ابن عباس اور ابن زبیرکی جد وجھد اور مخالفت ابن عباس کی جابر کی جانب سے طرفداری کو ہم نے نقل کیا اور متعة الحج و متعة النکاح کے بارے میں جناب جابر کی طرفداری اسی مورد میں منحصر نہیں بلکہ اس بارے میں کافی مواردنقل کئے گئے ہیں ،حا لانکہ خلفاء کے زمانے میں حدیث نقل کرنے پر سخت پابندی لگی ہوئی تھی لیکن جناب جابر اس موضوع کے بارے میں حقیقت واضح کرنے سے باز نہ آئے اور آپ نے اس بات کو سب پر روشن کردیا کہ یہ دونوں متعہ جزء اسلام ہیں ۔( ۷۹ )

اسی طرح ا حادیث کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عثمان چاہتے تھے کہ حضرت عمر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حج تمتع کو حرام قرار دیں ، اسی طرح معاویہ بھی چاہتا تھاکہ عمر اور عثمان کے حکم پر لوگوں کو گامزن رکھا جائے ، مگر کچھ افراد کی شدید مخالفت کی بنا ء پروہ کمزور پڑگیااور یہ مسلمان اس کا حکم ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے ۔

چنانچہ سنن نسائی میں آیا ہے:

عن ابن شهاب عن محمد …؛انه حدثه انه سمع سعد بن ابی وقاص والضحا ک بن قیس عام حج معاویة بن ابی سفیان وهما یذکران التمتع بالعمرة الی الحج،فقال الضحا ک:لایصنع ذالک الّا من جهل امر الله تعالی ،فقال سعد: بئسما ،قلت یابن اخی، قال الضحا ک: فَاٴِنَّ عمر بن الخطاب نهی عن ذالک، قال سعد: قد صنعها رسول الله وصنعنا معه( ۸۰ )

جس سال معاویہ حج کے لئے گیا توسعد بن ابی وقاص اور ضحا ک بن قیس(یہ دونوں مشہور صحا بی اور بڑے لوگوں میں تھے ) کے درمیان اختلاف ہو گیا ، ضحا ک کا کهنا تھا کہ حج تمتع انجام نہیں دے گاسوائے اس شخص کیجو حکم الٰھی کو جانتا ہی نہ ہو ، سعد نے کھا : اے برادر زادہ تم کیابیہودہ باتیں بک رہے ہو؟!ضحا ک نے کھا : اے سعد! کیا عمر ابن خطاب نے حج تمتع کو حرام قرار نہیں دے دیا تھا؟سعد نے کھا: صحیح ہے مگر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے اس کو انجام دیا ہے اور ہم نے بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے انجام دیا ہے ۔

صحیح مسلم اور مسند امام احمد بن حنبل میں اس طرح مرقوم ہے:

عن سلیمان حدثنی غنیم؛قال سئلت سعد بن ابی وقاص عن المتعة، قال فعلنا هاوهٰذاکافر بالعرش یعنی معاویه( ۸۱ )

سلیمان سے منقول ہے کہ غنیم کھتے ہیں :

جب میں نے سعد بن ابی وقاص سے متعہ کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے کھا :” ہم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے حج تمتع اس وقت کیا جب معاویہ خدائے عرش کے بارے میں کافر تھا۔ “

ان دونوں باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ معاویہ کے زمانے میں بھی حج تمتع کے بارے میں اختلاف پایا جاتاتھا، ورنہ اس کا کوئی مطلب نہیں کہ دو مسلمان افراد میں ایک مسئلہ کے بارے میں اختلاف کو کسی ایک سال سے مقید کردیا جائے، یا حج تمتع انجام دینے کے بارے میں یہ کھا جائے کہ میں نے اس کو اس وقت انجام دیا جب معاویہ کافر تھا، وغیرہ وغیرہ

۶ ۔ متعہ یامعینہ مدت کانکاح

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیثیں مطالعہ کرنے سیجھاں بھت سی باتوں کا انکشاف ہوتاہے ، ان میں سے اس بات کا بھی روزروشن کی طرح ا ستفادہ ہوتاہے کہ جواز ِمتعہ کو حرمت میں تبدیل کرنے والے بھی حضرت عمر تھے!اور یہ ایک ایسا حکم ِ خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے جس کی ممنوعیت پر اہل سنت حضرات آج تک قائم ہیں اور بڑی شدومد کے ساتھ بغلیں بجا کر مذھب شیعہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس مذھب میں متعہ جائزھے!( ۸۲ ) یھاں تک کہ فی الوقت یہ موضوع شیعوں اورسنیوں کے درمیان اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ گاہے بہ گاہے اس کی وجہ سے دست وگریبان ہو نے کی نوبت آجاتی ہے ، لہٰذا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس موضوع کو درج ذیل پانچ عنوان بحث میں محل تحقیق قرار دیں ۔

۱ ۔ متعہ یعنی چہ؟

اسلامی فقہ میں جو متعہ محل ِبحث قرار دیا جاتا ہے اور جسے شیعہ حضرات دائمی نکاح کی طرح ا سلام کا ایک ثابت قانون سمجھتے ہیں اس سے مرادیہ ہے : ”مردایک ایسی عورت سے معینہ مدت کے لئے مھر معین کے ساتھ نکاح کریجو عورت اس کے لئے شرعی ممانعت نہ رکھتی ہو ، یعنی عورت ان عورتوں میں سے ہو جس سے دائمی نکاح جائز ہو اورمتعہ میں جب مدت معینہ تمام ہو جاتی ہے تو مرد و عورت بغیر طلاق کے ایک دوسرے سیجداہوجاتے ہیں ، البتہ ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ مرد اپنی مدت عورت کو بخش کر مدت تمام ہونے سے پھلی جدا ہو جائے ۔“

عقد دائمی اور متعہ کے مشترک و مختلف احکام

قارئین کرام ! متعہ او ر دائمی نکاح کے زیادہ تر احکام ایسے ہیں جومشترک ہیں اور بعض احکام مختلف ہیں جن کی تفصیل ذیل میں ہم نقل کرتے ہیں :

مشترک احکام

۱ ۔متعہ میں بھی عقد دائم کی طرح زوجین کو بالغ اور رشید ہونا چاہیئے۔

۲ ۔ دائمی نکاح کی طرح ا س میں بھی رضایت ِطرفین کے ساتھ ساتھ صیغہ ایجاب و قبول پڑھنا ضروری ہے ، لہٰذا طرفین کی طرف سے صرف رضایت اور معاطات ہو تو متعہ درست نہیں ہیجب تک کہ صیغہ ایجاب و قبول نہ ہو اور صیغہ ایجاب و قبول میں مخصوص الفاظ کا پڑھنا لازمی ہے ، لہٰذا لفظ آجرت ، یا وھبت،ابحت وغیرہ سے متعہ واقع نہیں ہو سکتا ہے۔

۳ ۔ عقد دائم کی طرح ا س میں بھی مھرِ معین اور اجرت قرار دینا ضروری ہے ۔

۴ ۔ جس طرح دائمی نکاح میں عورت پر لازمی ہے کہ وہ شوھر سیجدائی کی صورت میں عدہ رکھیجبکہ مرد وعورت ہمبستر ہوئے ہوں اور عورت یائسہ نہ ہو اسی طرح متعہ میں بھی عورت پر جدائی کی صورت میں عدہ رکھنا ضروری ہے، البتہ متعہ میں عدہ کی مدت دو حیض کا آنا یا ۴۵ روز ہے اورنکاح میں تین ماہ(یاتین حیض ) ہوتی ہے ۔

۵ ۔دائمی نکاح کی طرح متعہ میں بھی عدہ وفات چار مھینے دس دن ہے۔

۶ ۔ دائمی نکاح کی طرح متعہ میں بھی ح ا ملہ عورت کا عدہ ،طلاق کی صورت میں وضع ِ حمل ہے اوراگر شوھر مر جائے تو عدہ ”ابعدالاجلین“ ہوگا ۔

۷ ۔ متعہ سے پیدا ہو نے والی اولاد بھی میراث و دیگر احکام میں اپنے ان بھائی و بهنوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ہیجو دائمی نکاح والی عورت سے متولد ہوئی ہو ۔

۸ ۔متعہ میں بھی عقد دائم کی طرح بیوی کی ماں اور اس کی لڑکی شوھر پر حرام ابدی ہوجاتی ہیں ( البتہ اس وقت تک حرام ہیجب تک کہ عورت زوجیت میں ہے) اسی طرح متعہ والی بیوی کی موجودگی میں شوھر اس کی بهن سے عقدمتعہ نہیں کر سکتا۔

۹ ۔متعہ میں بھی دائمی نکاح کے مانند ایام خاص میں جماع کرنا حرام ہو تا ہیجیسے ایام عادت (حیض و نفاس )یا ماہ رمضان کے روزے کی حا لت میں ۔

اختلافی موارد

۱ ۔دائمی نکاح کی طرح متعہ میں مدت غیرمعین نہیں بلکہ معین ہوتی ہے

۲ ۔ دائمی نکاح کی طرح مرد وعورت متعہ کی صورت میں ایک دوسرے کے وارث نہیں قرار پاتے مگر یہ کہ صیغہ عقد متعہ میں شرط ِتوارث قرار دے دی جائے ۔

۳ ۔ صیغہ متعہ میں مھر کا ذکراور اس کی تعیین ضروری ہے لیکن عقد دائمی میں ذکر ِمھر اور اس کی تعیین لازمی نہیں ۔

۴ ۔متعہ میں عورت حق نہیں رکھتی کہ مرد سے نان و نفقہ کا مطالبہ کرے البتہ اگر عورت ضمن ِعقد میں نان و نفقہ کی شرط کردے تو مرد پر اس کا نان ونفقہ واجب ہے۔

۵ ۔عقد متعہ میں بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ رکھ سکتا ہے ، لیکن دائمی نکا ح میں چار سے زیادہ نہیں رکھ سکتا۔( ۸۳ )

۲ ۔ ا سلام میں عقد متعہ کا جواز

مذھب اسلام میں اصل ِ متعہ کا جائز ہونا مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ کے علاوہ قرآن مجید اور سنت پیمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ بھی قطعی الثبوت ہے ،جھاں تک اتفاق مسلمین کا مسئلہ ہے تو تمام مسلمان اپنے مختلف نظریات،آراء و عقائد کے باوجود اس بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ متعہ کو رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کے حکم سے تشریع فرمایا ہے اور اس کا جائز ہو نا اتنا واضح و آشکا ر ہے کہ ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی متعہ کیجواز کا انکار نہیں کیا ہے ،گویا علمائے اسلام کے نزدیک حکم ِ ِمتعہ ضروریا ت ِدین میں سے ہے، چنانچہ اہلسنت والجماعت کے مشہور محقق وفلسفی علامہ فخرالدین رازی تحریر فرماتے ہیں :

” تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ متعہ اسلام میں مباح تھا ،لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نکاحِ متعہ بعد میں نسخ ہوایا نہیں ؟

ایک گروہ قائل ہے کہ یہ حکم نسخ ہوگیا تھااور دوسراگروہ عدم ِنسخ کاقائل ہے“( ۸۴ )

ثبوت جواز متعہ ؛قرآن کی روشنی میں

جواز متعہ کے بارے میں سورہ نساء میں ارشاد ہوتاہے:

( فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ فَاٴتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ) ( ۸۵ )

پس جو لوگ عورتوں سے لذت اٹھانا چاہتے ہیں ان کو چاہیئے کہ جو اجرت تعین ہوتی ہے اس کو اداکریں ۔

اہل سنت کے اکثرمفسرین اور اہل تشیع کے تمام مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور استمتاع کی اجرت دینے کامطلب متعہ میں مھر اداکرنا ہے ،یھاں تک کہ قراّ ء ِقرآن کے ایک گروہ مانندابی ابن کعب، ابن عباس،سعید بن جبیر،سدی وغیرھم نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے:( فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ ( اِلیٰ اَجَلٍ ) فَاٴتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُن… ) یعنی ان حضرات نے مدت کا ذکر آیت کا جزء جانا ہیجو متعہ میں لازم ہو تا ہے۔

اس نظریہ کو طبری اورزمخشری نے اپنی اپنی تفسیر میں ابن عباس سے اور فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں ابی ابن کعب سے نقل کیا ہے ۔( ۸۶ )

تفسیر طبری میں صدر اسلام کے مشہور مفسر جناب مجاہد سے منقول ہے : مذکورہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ خود اس سورے کی آیات کاسیاق وسباق اور مذکورہ آیت میں موجودہ قرائن اس بات کی شھادت دیتے ہیں کہ یہ آیت متعہ سے متعلق ہے ،کیونکہ خدانے اس سورہ کے شروع میں پھلے عقد دائمی کا حکم بیان فرمایا ہے:

( فَانْکِحُوْاماَ طَابَ لَکُمْ مِنْ اَلنِّسَآءِ مَثنْیٰ وَثُلٰاثَ وَرُبٰعَ…. وَاٰتُواالِّنسَآءَ صَدُ قاَتِهِنَّ نِحْلَةً ) ( ۸۷ )

تو عورتوں سے تم اپنی مرضی کے موافق دودواور تین تین اور چارچار سے نکاح کرو ، پھر اگر تمھیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم(متعدد بیویوں میں )انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو ،یا جو (لونڈی) تمھاری زر خرید ہو (اسی پر قناعت کرو )یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بھت قرین قیاس ہے اورعورتوں کو ان کے مھر خوشی خوشی دے ڈالو ۔

اگر آیہ( فَمَاْاسْتَعْتُمْ ) سے مراد بھی عقد دائم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے بغیر کسی فائدہ اورنئے نکتہ کے ایک ہی سورہ میں ایک حکم کو دوبار بیان فرمایا ہے اور یہ رویہ قرآن کی بلاغت اور روش کے خلاف ہے ،لیکن اگریہ آیت متعہ سے مربوط ہو توآیت سے ایک نیا اور مستقل حکم کا پتہ چلتا ہے اوراس صورت میں کوئی اشکال وارد نہ ہوگا ، بالفاظ دیگر مذکورہ سورہ میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ میں خدا نے تمام ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہیجن سے نکاح کر نا حرام ہے اور پھر عورتوں کے حلال ہونے کے طریقہ کو اس ترتیب سے بیان کیا ہے:

۱ ۔ آزاد عورتوں کے ساتھ عقد دائم۔

۲ ۔کنیزوں کے ساتھ عقد دائم کرنا ۔

۳ ۔ملک یمین ۔( یعنی کنیزوں کو بغیر عقد اپنی زوجیت میں رکھنا)

۴ ۔ازدواج موقت (متعہ)۔

۱ ۔ ۲ ۔ازدواج دائم اور مِلک یمین کا حکم اس سورہ کی آیت نمبر ۳ میں آیاہے :

( فاَنْکِحُوْامَاطَابَ لَکُمْ مِنْ اَلنِّسَاءِ مَثْنیٰ وَ ثُلاٰ ثَ وَرُبٰعَ فَاٴِنْ خِفْتُمْ اٴَلَّا تَعْدِلُوْاْفَوَاْحِدَةًاٴَوْمَاْ مَلَکَتْ اٴَیْمَاْنُکُمْ ذَاْلِکَ ادنیٰ اٴَلَّا تَعُوْلُوْاْ .وَاٰتُوا النِّسَاءَ صَدُقا تِهِنَّ نِحْلَةً فَاٴِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِنْهُ نَفَساً فَکُلُوْهُ هنیْئاً مَرِیْئاً )

پس تم عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دودواور تین تین اور چارچار سے نکاح کرو ، پھر اگر تمھیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم(اپنی متعدد بیویوں میں )انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو ،یا جو (لونڈی) تمھاری زر خرید ہو (اسی پر قناعت کرو )یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بھت قرین قیاس ہے ۔اورعورتوں کو ان کے مھر خوشی خوشی دے ڈالو !پھر اگر تمھیں خوشی خوشی کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جان کھاوپیو۔

۳ ۔کنیزوں ( غیر آزاد عورتوں) سے شادی کرنے کا حکم اسی سورہ کی آیت نمبر ۲۵ میں بیان کیا گیا ہے:

( وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ َطوْلاًاَنْ یَّنْکِح ا لْمُحْصَنَاتِ اْلمُومِنَٰتِ فَمِنْ ماَّ مَلَکَتْ اٴَیْمٰنُکُمْ ِّمنْ فَتَیٰتِکُمْ اُلْمُومِنَٰتِ ) ( ۸۸ )

اورتم میں سیجو شخص آزاد مومنہ عفت دار عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی حیثیت نہیں رکھتا ہو تووہ تمھاری ان مومنہ لونڈیوں سیجو تمھارے قبضے میں ہیں نکاح کرسکتا ہے اور خدا تمھارے ایمان سے خوب واقف ہے ۔

۴ ۔ اس آیت میں خدا وند متعال نے ازدواج کی چوتھی قسم( متعہ )کا حکم بیان فرمایا ہے:

( فَمَاْاسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْهُنَّ فَاٴتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ ) ( ۸۹ )

پس جو لوگ عورتوں سے لذت اٹھانا چاہتے ہیں ان کو چاہئے کہ جو اجرت تعین ہوتی ہے اس کو اداکریں ۔

حدیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ثبوت جواز متعہ

محترم قارئین!ثبوت متعہ سے متعلق شیعہ و سنی کتب میں کثرت کے ساتھ روایتیں پائی جاتی ہیں ، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں سلمہ بن اکوع، جابر بن عبد الله ، عبد الله بن مسعود، ابن عباس، سبرہ بن معبد ، ابو ذر غفاری ،

عمران بن حصین اوراکوع بن عبد الله اسلمی سے متعدد روایات منقول ہیں ، چونکہ یھاں سب روایات کا نقل کرنا حجم کتاب کے منافی ہے، لہٰذا چند روایات ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں :

۱…”عن جابر بن عبدالله وسلمة بن اکوع ؛قالا: خرج علینامنادی رسولِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ،فقال: ان رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله قد اذن لکم ان تستمتعوا یعنی متعةالنساء( ۹۰ )

جابر بن عبداللہ وسلمہ بن اکوع سے منقول ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایک ندا آئی اور اعلان ہوا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے یہ اجازت ہے کہ تم عورتوں سے متعہ کرو۔

مسلم نے مذکورہ حدیث کو اس طرح بھی نقل کیا ہے :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے درمیان خود تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ متعہ کرو:

”ان رسول الله اتانا فاذن لنا فی المتعة “ ( ۹۱ )

اور بخاری نے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ہے:

”…کنا فی جیش فا تا نا رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،فقال: انه قد اذن لکم ان تستمتعوا فا ستمتعوا“ ( ۹۲ )

ھم لشکر کے درمیان تھے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے درمیان تشریف لائے اور فرمانے لگے:تمھیں عورتوں سے استمتاع ( متعہ )کر نے کی اجازت دی گئی ہے پس ان سے کرو۔

۲”جابر بن عبداللّٰه یقول:کنا نستمتع بالقبضة من التمروالد قیق الا یام علی عهدرسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وابی بکر،حتی نهی عنه عمر فی شاٴن عمروبن حریث ۔( ۹۳ )

جابر بن عبداللہ سے منقول ہے:

ھم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر کے دور میں ایک مشت خرمہ اور کچھ آٹے کے بدلے چند ایام کے لئے عورتوں سے متعہ کرتے تھے،یھاں تک عمروبن حریث کا واقعہ جب پیش آیا تو عمر نے متعہ کر نے سے منع کردیا !!

مسلم نے متعدد طرق واسناد کے ساتھ متذکرہ حدیث کو نقل کیا ہے۔

عرض مو لف

ابن حجر نے واقعہ عمرو بن حریث کو اس طرح نقل کیا ہے:

”عمروبن حریث ایک روز کوفہ آیااور اس نے ایک کنیز سے متعہ کیا اور جب وہ کنیز ا س سے حاملہ ہو گئی تو ایک روز جب وہ حاملہ تھی اسے عمر کے پاس لایا، چنانچہ عمر نیجب اس واقعہ کو عمروبن حریث سے دریافت کیاتواس نے بھی اعتراف کرلیا، یھی وہ موقع تھا جب عمر نے اعلان کیاکہ آج سے میں متعہ حرام قرار دیتاہوں!! “( ۹۴ )

۳…”عن قیس؛قال:سمعت عبدالله ؛ یقول:کنانغزْومع رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله لیس لنانساء، فقلنا:الانستخصِی؟ فنهاناعن ذالک، ثم رخّص لناان ننکحا لمراٴةبالثوب الی اجل، ثم قَرَءَ عبدالله :< ( یَا اَیُّهَاالذَّیِْن آَمَنُوْالَا تُحِرِّمُوْاطَیِّبَاْتِ مَاْ اَحَلَّ الله لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْااِنَّ الله لَا یُحِبُّ اْلْمُعْتَدِ یْنَ ) > ( ۹۵ )

امام بخاری اور مسلم تمام اسناد کے ساتھ قیس عبد الله بن مسعود سے روایت نقل کرتے ہیں :

ھم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں تھے اور ہماری عورتیں ہمارے ساتھ نہ تھیں ، لہٰذاہم نے عرض کیا:یا رسول الله !کیا ہم اپنے آپ کو خصی نہ کرلیں؟ پھلے تورسول نے ہمیں اس فعل کے انجام دینے سے منع فرمایا،لیکن پھر اس بات کی اجازت فرمائی کہ ہم لباس کے ایک قطعہ کے مقابلہ میں کچھ ایام کے لئے عورتوں سے نکاح کرلیں ۔

عبدالله بن مسعود نے اس وقت اس آیت کی تلاوت فرمائی :( یَا اَیْهَاَالْذِیْن آمَنُوْا ) اے ایماندارو! خدانیجن پاکیزہ چیزوں کو تمھارے لئے حلال قرار دیا ہے اس کو اپنے لئے حرام قرار نہ دو،حدودو قوانین خد ا سے تجاوز نہ کرو،کیونکہ خداوند متعال تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا( ۹۶ )

عرض مولف

مسلم نے اس حدیث کو تین طریق سے عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ہے اورابن مسعود کامذکورہ آیت کے اس موقعہ پرتلاوت کرنے کا مقصدان لوگوں پر تنقید اور اعتراض کرنا تھا جو اس ازدواج(متعہ)کو حرام سمجھتے تھے، یعنی ابن مسعود اس آیت کے ذریعہ اس مطلب کی طرف اشارہ فرمانا چاہتے تھے کہ یہ شادی طیبات اور اسلامی قوانین کاجز ہے،لہٰذااس کو ہمیشہ جائز رهنا چاہئے اوراس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرنا، قانون اسلام اورحدود الٰھی سے تجاوزکرنے کے مترادف ہے ۔

نووی نے اس حدیث کی شرح میں اس طرح لکھا ہے:

ابن مسعودکا اعتراض یہ بتلاتاہے کہ وہ بھی ابن عباس کی طرح متعہ کو حلال سمجھتے تھے اور حکم (متعہ)کے نسخ ہونے کی انھیں اطلاع نہ تھی !!

۴…”عن ابی نضرة؛قال کنت عند جابر بن عبد الله فاٴتاه آت، فقال: ابن عباس وابن الزبیراختلفا فی المتعتین، فقال جابر: فعلنا هما مع رسول الله ،ثم نهانا عنهما عمرفلم نعد لهما( ۹۷ )

ابو نضرہ کھتے ہیں :

میں جابر ابن عبدالله کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک شخص وارد ہوااور کهنے لگا : ابن عباس و ابن زبیر جو (متعة النکاح ومتعة الحج)کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں !جابر نے کھا:ھم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں دونوں متعہ انجام دے چکے ہیں ،لیکن جب سے عمر نے ہمیں متعہ کرنے سے منع کیا ہے تب سے ہم نے انجام نہیں دیاہے۔

۵ ۔مسلم اپنے تمام اسناد کے ساتھ حصین بن عمران سے نقل کرتے ہیں :

آیہ متعہ تو کتاب خدا میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے نسخ کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے اور یھی نہیں بلکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے بھی خود اس کے انجام دینے کا امر فرمایا ہے، چنانچہ ہم حیات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی کرتے رہے اور آپ نے اپنے آخری لمح ا ت تک ہم کو متعہ کرنے سے نہیں روکا، لیکن بعد میں ایک مرد آیااس نے اپنی رائے سے اس میں تغیر و تبدل کردیا!!( ۹۸ )

۳ ۔ تحریم متعہ خلیفہ ثانی کی زبانی !!

محترم قارئین ! مذکورہ مباحث سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ حکم ِمتعہ قرآن، سنت اوراجماع کی رو سیجائز ہے اور اس کی تشریع رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں ہوچکی تھی اور مذکورہ پانچ میں سے تین حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ حکم ابوبکر کے زمانے (اور چند سال عمر کے زمانے) میں بھی جاری رھا ،لیکن عمر نے چند سال کے بعد اس کو اپنے دور خلافت میں حرام قراردے دیا ،چنانچہ ذیل میں ہم چند سنی مورخین و محدثین کے اقوال اس بارے میں کہ عمر نے متعہ کو حرام کردیا تھا نقل کرتے ہیں :

۱ ۔احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب” المسند“ میں ابی نضرہ سے نقل کیا ہے :

میں نیجابر بن عبد الله سے کھا کہ ابی زبیر متعہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور ابن عباس متعہ کرنے کا امر کرتے ہیں ،جابرنے کھا: کیا خوب توباخبر شخص کے پاس آیاہے،ھم توخود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں متعہ کرتے تھے اور ابوبکر کے زمانے میں بھی ہم نے اس پر عمل کیاہے، البتہ جب عمر تخت خلافت پر بیٹھے تو ایک روز خطبہ میں کهنے لگے: قرآن وھی قرآن ہے اوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے ،لیکن دو متعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں جائز تھے” متعةالحج اورمتعةالنساء“ان کو میں حرام قرار دیتاہوں:)(وانھماکانتا متعتان علی عھد رسول الله .ص()( ۹۹ )

عرض مولف

مسند احمد بن حنبل میں حدیث کا آخری حصہ عمداً حذف کردیاگیا ہیجو یہ تھا:

” آج سے میں ان پرپابندی لگارھا ہوں اورجو ان کو انجام دے گا اس کو سخت سزادوں گا۔“

۲ ۔جلال الدین سیوطی کھتے ہیں :

عمر سب سے پھلے فردھیں جنھوں نے متعہ کرنے سے لوگوں کو منع کیا!!

اول من حرم المتعة ۔ “( ۱۰۰ )

۳ ۔ابن رشداندلسی مشہور فقیہ و فلسفی( متوفی ۵۹۵ ھ )کھتے ہیں :

یہ بات مشہورہے کہ ابن عباس متعہ کو حلال سمجھتے تھے اور اس عقیده میں آپ کے ہم خیال کچھ اہل یمن و اہل مکہ حضرات بھی تھے اورآپ جواز متعہ پر آیہ( مَاْاْسْتَمْتَعْتُمْ ) سے استدلال کرتے تھے اور آپ کی قرات میں( اِلیٰ اَجَلٍ مُسَمّٰی ) بھی تھا۔

پھر ابن رشد اندلسی نقل کرتے ہیں :

ابن عباس کھتے تھے: متعہ پروردگار عالم کی طرف سے ایک رحمت تھی جسے خدا وند عالم نے امت محمدی کو بالخصوص عطا کی تھی ، چنانچہ اگر عمر اس سے منع نہ کرتے تو بھت ہی کم افراد زناانجام دیتے ۔

اس کے بعدابن رشد کھتے ہیں :

”وهذاالذی روی عن ابن عباس ابن رواه عنه ابن جریج وعمروبن دینار و عن عطاء؛قال:سمعت جابر بن عبد الله بقول : تمتعنا علی عهد رسول الله و ابی بکرونصفا من خلافة عمر ثم نهی عنها الناس “ ( ۱۰۱ )

ابن جریج اور عمرو بن دینار نے بھی ابن عباس سے وھی نقل کیا ہیجو ہم نے اوپر نقل کیا، اسی طرح عطاء سے نقل کیا گیاہے کہ میں نیجابر بن عبد الله سے سنا کہ آپ کھتے تھے :ھم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور پھر ابوبکر کے زمانے میں اور نصف دور خلافت عمر تک متعہ ( وقتی نکاح)کرتے تھے ،لیکن بعد میں عمر نے اس کو انجام دینے سے روک دیا۔

عرض مولف

ابن رشدکے نقل کے مطابق ابن جریج جواز ِمتعہ کے قائل تھے اورابن جریج (متوفی ۱۵۰ ھ) اپنے زمانہ کے بھت بڑے فقیہ اور اہل مکہ کے ممتاز علمائے دین میں سے تھے ، چنانچہ عبداللہ بن احمد بن حنبل کھتے ہیں :

” میں نے اپنے والد سے سوال کیا: سب سے پھلے کس نے تالیف کا کام کیا ؟ میرے والد نے کھا :ابن جریح نے“۔

اسی طرح ا مام شافعی کھتے ہیں :

ابن جریج نے اپنی زندگی میں سترعورتوں سے متعہ کیا تھا۔

”قال الشافعی : استمتع ابن جریج سبعین امرائة نکاح ا لمتعة“ ( ۱۰۲ )

اسی طرح عالم علم رجال امام ذھبی؛ ابن جریج کے بارے میں کھتے ہیں :

آپ اپنے زمانہ میں فقیہ اہل مکہ تھے اورآپ نے سترّ( ۷۰) عورتوں سے متعہ کیا تھااور آپ تمام علمائے رجال کے نزدیک قابل وثوق ہیں ۔( ۱۰۳ )

۴ ۔فاضل قوشچی کھتے ہیں :

عمر نے بالائے منبر کھا : تین چیزوں پہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں عمل ہوتا تھا،آج سے میں ان کو انجام دینے سے منع کرتاہوں،جو ان کو انجام دے گااس کو میں سخت سزادوں گا،وہ تین چیزیں یہ ہیں:متعةالنساء،متعةالحج،حی علی ٰخیرالعمل ۔( ۱۰۴ )

۵ ۔جب مامون نے اپنے دو رحکو مت میں چاہاکہ متعہ النساء کو جائز کرے توعلمائے اہل سنت میں سیجناب محمدبن منصوراورابوالعیناء مامون کے پاس پهنچے،مامون اس وقت مسواک کر رھا تھا اور غصہ کی ح ا لت میں عمر کے ان جملوں((متعتان کانتاعلی عھد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰہ و ابی بکر وانَّاانھی عنھما۔عھد رسول اور عھد ابوبکر میں دو متعہ تھے لیکن آج سے میں ان کو انجا م دینے سے منع کر رھا ہوں)) کی تکرار کر رھا تھا اور یہ کہہ رھا تھا:”ومن انت یاجعل حتیٰ تنهی عما قال له رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه وابوبکر “اے عمر تواس چیز سے منع کرنے والا کون ہوتاجسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابوبکرنیجائز قراردیاہو ؟!

محمد بن منصور نے چاہا کہ مامون سے گفتگو کرے لیکن ابوالعینا ء نے کھا: خاموش رہ جوشخص عمر کو ہدف تنقید قرار دے سکتاہے ہم اس کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ حکم متعہ جاری نہ کرے!! اتنے میں یحی بن اکثم وارد ہو ا اور مامون رشید کو اس حکم کیجاری کر نے کی صورت میں شورش، فتنہ و فسادبرپا ہونے کے خطرہ سے آگاہ کیا ،چنانچہ مامو ن رشید حکم متعہ جاری کرنے سے منصرف ہو گیا۔( ۱۰۵ )

۴ ۔نسخ حکمِ متعہ کی حقیقت

جب بھی خلفاء کواسلامی احکام کے تحریف و تبدیل کرنے کی وجہ سے ہدف تنقید قرار دیا جاتا ہے توکچھ خوش عقیده حضرات دو چیزوں (جھوٹی احادیث اوراجتھاد)ک ا سھارالے کرخلفاء کے ھر قسم کے سیاہ کارناموں کو درست کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں !! یعنی جب ہم خلفاء کو اسلامی احکام تبدیل کرنے پر ہدف تنقید قرار دیتے ہیں تو علمائے اہل سنت جب خلفاء کو اجتھاد کے سھارے سے نہیں بچا پاتے تو آپ حضرات کی رائے کی موافقت میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بلا واسطہ جھوٹی حدیثیں منسوب کردیتے ہیں !! خلاصہ یہ کہ جب ان لوگوں نیجھوٹی حدیثوں کے ذریعہ اپنا مقصد پورا ہوتا ہوانھیں دیکھا تو اجتھاد ک ا سھارا لیا ہے اور ھر خلیفہ کے حکم کو اس کے خاص اجتھاد کی طرف مستند کیاہے اور بعض مواقع پر تو ان لوگوں نے دونوں( اجتھاداور جعلی حدیثوں) چیزوں ک ا سھارا لیاہے ،چنانچہ حکم متعہ کے سلسلے میں بھی انھیں دونوں پھلووں کو اختیار کیا گیاہے!!

جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ کتب احادیث و تواریخ سے ثابت ہے کہ حکم متعہ پررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ابو بکر کے زمانے میں قرآن اور حکم رسول اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے مطابق عمل ہوتا رھااور یھی نہیں بلکہ عمر کے زمانہ خلافت میں بھی مسلمانوں نے اس حکم پرچند سال تک عمل کیا ،لیکن عمر نے بعد میں یہ اعلان کردیا کہ جو اس حکم پر عمل کرے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی !!

قارئین کرام!اگرچہ گزشتہ صفحا ت میں اس سے متعلق ہم مورخین کے اقوال اور احادیث نقل کر چکے ہیں لیکن قابل توجہ بات یھاں پریہ ہے کہ جب عمر نے اس حکم کو ممنوع قرار دیا توبھی کچھ صحا بہ کرام نیجن کا شمار محدثین اور مفسرین ِ قرآن میں ہو تا ہے، اسی زمانہ میں اس بارے میں عمرکے حکم کی آشکارا مخالفت کی اور آپ حضرات نے اسی زمانہ میں اس بات کی تصریح فرمادی تھی کہ جواز متعہ اسلام کا قابل تبدیل حکم نہیں ہے ، لیکن بعد میں خلیفہ صاحب کے عیب پر پردہ ڈالنے کیلئے اور ان کے حکم کو ثابت کرنے کیلئے ایک چال چلی گئی کہ حکم ِ متعہ قرآن کی دیگر آیا ت سے منسوخ قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا حکم متعہ اسلام کے منسوخہ احکام میں سے ہے ، اسی طرح نسخ ِحکم ِ متعہ کے بارے میں احادیث بھی جعل کی گئیں ، چنانچہ کبھی یہ بھانہ کیا گیا کہ خلیفہ صاحب نے اپنے اجتھاد سے حکم متعہ کو ممنوع قرار دیا ہے !!فاضل قوشچی نے اسی نظریہ کو اپنایا ہے،چونکہ نسخ ان کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے، بھر حال آیہ متعہ کے منسوخ ہونے اور اس کے احکام اور ان کیجوابات کے بارے میں اگر بحث کی جائے تو اس سلسلے میں ایک کتاب درکار ہے ،لہٰذا آپ اس کی تفصیلی معلومات کے لئے کتاب الغدیر،تفسیرمیزان اورتفسیربیان دیکھئے۔( ۱۰۶ )

البتہ ہم چند امور کی طرف یھاں پرآپ کی توجہ کو مبذول کرانا چاہتے ہیں :

حکم ِمتعہ قرآن کے ذریعہ نسخ ہوا ی ا سنت کے ذریعہ ؟!

جو حضرات رسول اسلام کے زمانے میں حکم متعہ کے منسوخ ہو نے کے قائل ہیں وہ خود ایک غیر قابل جمع شدیداختلاف میں مبتلا ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ آیہ متعہ کی منسوخیت کا صرف ایک بھانہ ہے،کیونکہ کچھ حضرات ان میں سے ایسے ہیں جو آیہ متعہ کو قرآن کی دیگر آیات سے منسوخ ہوناسمجھتے ہیں اور بعض احادیث سے آیہ متعہ کو نسخ قرار دیدیتے ہیں اور پھر ان دونوں کے درمیان بھی آپس میں ایسا اختلاف ہیجس کا جمع ہونا نا ممکن امر ہے ۔

حکمِ متعہ کا قرآن سے نسخ ہو نے کادعوی اور اس کا جواب

جو لوگ قرآن سے حکم متعہ کے نسخ ہو نے کے قائل ہیں ان کے درمیان پانچ قول ہیں :

۱ ۔بعض لوگ آیہ :

( وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حا فِظُوْنَ. اِلَّاعَلیٰ ٰاَزْوَاْجِهِمْ ) ( ۱۰۷ ) اور جو(اپنی ) شرمگاہوں کوحرام سے بچاتے ہیں مگر اپنی بیویوں سے

سے حکم متعہ کو منسوخ سمجھتے ہیں ۔

۲ ۔بعض اس آیت سے :

( وَالْمُطَلَّقَاْتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنْفُسِهن َثلَاْثَةَ قُرُوْءٍ وَلَایَحِلُ لَهن اَنْ یَکْتُمْنَ مَاْخَلَقَ الله ِفیْ اٴَرْحا مِهن… ) ( ۱۰۸ )

۳ ۔بعض لوگ اس آیت سے:

( وَلَکُمْ نِصْفُ مَاْ َتَرَک اَزْوَاْجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَهن وَلَدٌ… ) ( ۱۰۹ )

۴ ۔بعض لوگ اس آیت سے :

( حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَهَاْتُکُمْ وَبَنَاْتُکُمْ وَاٴَخْوَاْتُکُمْ وَعَمَّاْتُکُمْ… ) ( ۱۱۰ )

۵ ۔اور بعض لوگ اُس آیت سے منسوخ سمجھتے ہیں جس میں ازواج کی تعداد بیان کی گئی ہے:

( وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِیْ الْیَتٰمیٰ فَاْنْکِحُوْامَْاطَاْبَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنیٰ وَثُلاثُ وَرُبٰعُ…… ) ( ۱۱۱ )

ح ا لانکہ مذکورہ آیات میں سے کسی بھی آیت کا مفہوم آیہ متعہ سے متضاد نظر نہیں آتا جس کی بنا پر حکم ِمتعہ کو منسوخ قرار دیا جاسکے یعنی اگر ان آیات کا مفہوم آیہ متعہ سے متضاد ہوتا تب یہ آیات حکم ِ متعہ کی ناسخ قرار پاسکتی تھیں اور چونکہ ان آیات کا مفہوم آیہ متعہ سے متضاد نہیں ہے لہٰذا آیہ متعہ منسوخ نہیں ہوسکتی اور پھر یہ کہ ان میں سے بعض آیات مکی ہیں اور آیہ متعہ مدنی ہے،لہٰذا اس صورت میں مکی آیا ت جوپھلے نازل ہوئیں ،مدنی آیت کی جو بعد میں نازل ہو ئیں ناسخ کیسے قرار پ ا سکتی ہیں ؟! کیونکہ منسوخہ آیات کے لئے ضروری ہے کہ ناسخ آیات ان سے قبل نازل نہ ہوئیں ہوں بلکہ بعد میں نازل ہوئی ہوں ۔

____________________

[۶۲] صحیح مسلم ج ۴،کتاب الحج ،باب(۱۷)”بیان وجوه الاحرام وانه یجوزافراد الحج والتمتع “حدیث۱۲۱۶۔

[۶۳] صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب”بیان وجوه الاحرام“ حدیث۱۲۱۱،

یہ حدیث کتاب الحج کی۱۳۰ / ایک سو تیسویں حدیث ہے۔

[۶۴] جس طرح امام بخاری نے مذکورہ مضمون سے متعلق متعدد احادیث نقل کی ہیں اسی طرح مسلم نے بھی متعدد طرق و اسناد کے ساتھ مختلف روایات نقل کی ہیں ۔ متر جم۔

[۶۵] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب الحج ، باب(۲۳)” جواز التمتع“حدیث ۱۲۲۳۔۱۲۲۶۔( ان دونوں روایتوں کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔مترجم)۔ صحیح بخاری :جلد ۲ ،کتاب الحج، باب” تمتع“ حدیث۱۴۹۶۔ جلد ۵، کتاب المغازی، باب” بعث ابی موسی الی الیمن“ حدیث۴۰۸۹۔

[۶۶] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”نکاحا لمتعة“ حدیث۱۴۰۵ (کتاب النکاح کی حدیث نمبر ۷ ۱ )۔

[۶۷] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب الحج ،باب ”جواز التمتع “حدیث۱۲۲۶۔(کتاب الحج کی حدیث نمبر ۱۶۸)

[۶۸] مسلم نے باب نکاح المتعہ اور باب التمتع میں متعہ النساء اور جواز تمتع سے متعلق متعدد احادیث مختلف طرق و اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کی ہیں جن سے یقینی طور پر ان کا جواز ثابت ہوتا ہے ، مذکورہ حوالے ملاحظہ فرمائیں ۔مترجم۔

[۶۹] احکام القرآن جصاص جلد۱، تفسیر سورة البقرة ،ص ۳۴۵،۳۴۲۔جلد ۲، تفسیر سورہ النساء ،ص ۱۹۱۔ تفسیر قرطبی جلد ۲ ،تفسیر سورة البقرة ،قولہ تعالی : ”فان احصرتم فما استیسر من الھدی “ص۳۶۵۔

کنزالعمال جلد ۱۶،النکاح_الافعال،حدیث ۴۵۷۱۵، ص۳۵۲،۳۵۳،(مطبوعہ: ہندوستان)۔ شرح تجرید قوشچی، فصل امامت۔

[۷۰] صحیح مسلم جلد۴ ،کتاب الحج، باب” فی نسخ التحلل“حدیث۱۲۲۲(کتاب الحج کی حدیث نمبر ۱۵۷)

سنن نسائی جلد۵، کتاب مناسک الحج ،باب” التمتع“ ص ۱۵۳۔ سنن ابن ماجہ جلد ۲،کتاب المناسک ،باب ” التمتع بالعمرة الی الحج “حدیث۲۹۷۹۔ مسند احمد بن حنبل جلد۱،مسند عمر بن الخطاب ،ص۴۹۔۵۰۔

[۷۱] شرح صحیح مسلم جلد ۴ ، کتاب الحج ،ص ۴۶ ، مطبوعہ: بیروت لبنان ۱۳۳۴ھ ۔

[۷۲] حا شیة السندی علی سنن النسائی جلد ۵ ،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲)” التمتع“۔

[۷۳] سورہ احزاب،آیت۳۶، پ۲۲۔

[۷۴] صحیح بخاری جلد ۲ ،کتاب الحج،باب (۳۴)”التمتع والا قران“حدیث۱۴۸۸ ۔

[۷۵] صحیح بخاری جلد۱،کتاب الحج ،باب(۳۴) ”التمتع والاقران“ حدیث۱۴۹۴ ۔

صحیح مسلم جلد ۴،کتاب الحج ،باب(۲۳)” جوازالتمتع“ حدیث۱۲۲۳۔

[۷۶] سنن النسائی جلد۵،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲) التمتع۔

[۷۷] حا شیة السندی علی سنن النسائی جلد۵،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲) التمتع۔

[۷۸] جامع بیان العلم و فضلہ جلد ۲،باب ”معرفة اصول العلم و حقیقتہ “ص۳۷۔

[۷۹] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحج، باب” حج تمتع“و باب” متعةالنکاح“

[۸۰] سنن نسائی جلد ۴ ،کتاب مناسک الحج ، باب” التمتع“ ص ۱۵۲۔

[۸۱] صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب”جواز التمتع“حدیث۱۲۲۵۔ مسند احمد بن حنبل جلد۱،مسند سعید ین زید بن عمرو ص۱۸۱۔

[۸۲] اگر اہل سنت حضرات سے الٹ کر کوئی سوال کرے کہ جس حکم کو خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نیجائز قرار دیا ہو کیاوہ ایک عام آدمی کے حرام قراردینے سے حرام ہوجائے گا؟!لہٰذاقابل ِ ا عتراض تو وہ مذھب ہیجو حرمت متعہ پر آج تک قائم رہ کر الٹی گنگا بھا رھا ہے نہ کہ وہ مذھب جو حکم خداورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل پیراہے۔مترجم۔

[۸۳] متعہ کے بقیہ جزئی احکام، فقھی کتابوں میں دیکھئے۔

[۸۴] تفسیر کبیر فخر رازی ،سورہ نساء، آیت نمبر ۲۹۔

[۸۵] سورہ نساء،آیت۲۴،پ۵۔

[۸۶] تفسیر طبری جلد ۵،سورہ نساء آیت ۲۴ ۔ تفسیر کشاف جلد ۱،سورہ نساء،آیت۲۴، ص۵۱۹۔ تفسیر کبیر جلد ۳،سورہ نساء،آیت۲۴،ص۲۰۱۔

[۸۷] سورہ نساء ،آیت ۳۔۴،پ۴۔

[۸۸] سورہ نساء، آیت۲۵،پ۵۔

[۸۹] سورہ نساء، آیت ۲۴ ، پ۵۔

[۹۰] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”النکاح ا لمتعة“حدیث۱۴۰۵

[۹۱] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”النکاح ا لمتعة“حدیث۱۴۰۵

[۹۲] صحیح بخاری جلد ۷ ،کتاب ا لنکاح، باب ”نھی رسول الله عن نکاح ا لمتعة آخراً“حدیث۴۸۲۷ ۔

[۹۳] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”نکاح ا لمتعہ“حدیث۱۴۰۵۔

[۹۴] فتح ا لباری جلد ۹،ص۱۴۹۔

[۹۵] سورہ مائدہ ،آیت نمبر۸۷ ،پ ۷۔

[۹۶] صحیح بخاری :جلد۶،کتاب التفسیر تفسیر سورہ مائدة، باب(۹)<لَا تُحِرِّمُوْاطَیَّبَاْتِ مَاْ اَحَلَّ الله لَکُم>حدیث۴۳۳۹ ۔ جلد ۷،کتاب النکاح، باب” مایکرہ من التبتل والخِصاء “حدیث۴۷۸۷۔

صحیح مسلم جلد ۴،کتاب النکاح ،باب ”نکاح ا لمتعة “حدیث۱۴۰۴۔

[۹۷] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب”نکاح ا لمتعہ “حدیث ۱۴۰۵۔

[۹۸] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحج کی حدیث نمبر۱۷۲۔

[۹۹] مسند احمد جلد۱،مسند عمر بن الخطاب ، ص۵۲۔

[۱۰۰] تاریخ الخلفاء ،فصل : اولیات عمر ص۱۳۷۔

[۱۰۱] بدایةالمجتھد جلد ۲، کتاب النکاح ،”الاول: منھا نکاح ا لشغار “ص۴۷۔

[۱۰۲] تہذیب التہذیب جلد ۶،( ۷۵۸_ ۴) السة ، ص۳۶۰۔

[۱۰۳] میزان الاعتدا ل، ( نمبر ۵۲۲۷،عبد الملک __عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ابوخالد المکی حرف العین ،تحقیق علی محمد البجاوی جلد۲،۶۵۹۔

[۱۰۴]شرح تجرید ا لاعتقادقوشچی فصل امامت۔ ابن ابی الحدیدنے بھی شرح نہج البلاغہ جلد ۱،خطبة شقشقیة ص۱۸۲میں نقل کیا ہے مگر آخری جملہ( حی علی خیر العمل ) کو حذف کر دیا ہے۔

[۱۰۵] تاریخ ابن خلکان جلد۲،ص۳۵۹( مطبوعہ: ایران)۔ وفیات الاعیان در بیان حا لات یحی بن اکثم۔ ان دو کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

[۱۰۶] الغدیرجلد۶۔ تفسیرالمیزان جلد۴۔ البیان، مصنفہ آیة اللّٰہ العظمیٰ خوئی۔

[۱۰۷] سورہ مومنون،آیت۶،۵پ۱۸۔

[۱۰۸] سورہ بقرہ ،آیت نمبر۲۲۸، پ۲۔

[۱۰۹] سورہ نساء، آیت نمبر آیت۱۲،پ۴۔

[۱۱۰] سورہ نساء، آیت نمبر ۲۳،پ۴ ۔

[۱۱۱] سورہ نساء ،آیت نمبر۳۔