حد یث کے ذریعہ منسوخ ہو نے کادعویٰ!
جو حضرات احادیث شریفہ سے آیہ متعہ کو منسوخ سمجھتے ہیں ان کے درمیان بھی مختلف اقوال نظر آتے ہیں ، یھاں تک کہ ان میں پندرہ قول پائیجاتے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل متضاد و متناقض ہیں ان میں سے پانچ یہ ہیں :
۱ ۔بعض روایات میں وارد ہواہے کہ حکم متعہ جنگ خیبر میں منسوخ ہوا۔
۲ ۔بعض روایات میں آیاہے کہ یہ حکم فتح مکہ میں نسخ ہوا ۔
۳ ۔بعض میں جنگ تبوک کا تذکرہ ہے ۔
۴ ۔بعض روایات میں حجةالوداع کے موقع پر نسخ ہونے کو بتلایا گیاہے ۔
۵ ۔بعض میں جنگ حنین کا ذکر ہے ۔وغیرہ وغیرہ
قارئین کرام! عدم ِطوالت کی بنا پرتمام اقوال نقل کرنے سے ہم معذرت خواہ ہیں صرف حوا لہ کتاب پر اختصارکرتے ہیں ۔
الغرض جیسا کہ ہم پھلے بتا چکے ہیں کہ صحیح روایات بالخصوص صحیحین کی روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حکم ِمتعہ کا نسخ ہونا نہ قرآن کے ذریعہ ثابت ہے اور نہ ہی سنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ذریعہ ، بلکہ یہ حکم رسول سلام ،صلىاللهعليهوآلهوسلم
ابوبکرا ورعمر کے تھوڑے زمانہ خلافت تک جاری رھا اور عمر نے چند سال کے بعد اپنے دور خلافت میں اس کو حرام قراردیدیااورقابل توجہ بات یہ ہے کہ جن روایات میں حکم ِمتعہ کے منسوخ ہونے کا تذکرہ ہے وہ قرآن اور صحیح روایات سے متعارض و متضاد ہو نے کے ساتھ ساتھ خبرآح ا د بھی ہیں اور یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہو چکی ہے کہ نسخ ِحکم قرآن کریم خبر واحد سے نہیں ہوسکتا۔
۵ ۔ تھمتیں اورافتراپردازیاں !
جیساکہ ذکر ہو چکا کہ حکم ِ متعہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور اس حکم کے حدود اور شرائط شیعہ فقھی کتب میں واضح طور پر موجودھیں ، لیکن افسوس کہ اس کے باوجود کئی علمائے اہل سنت جیسے غریقی نیجب حکم متعہ کی( غلط سلط) نسخ ہو نے کی توجیھات کو غیر مناسب دیکھا تو اپنے کو ھر طرح سے مجبور پا کر اس شخص کی طرح جو دریا میں غرق ہوتا جارھا ہو لیکن ھاتھ پیر مار کرسھارے کے لئے ایک تنکا تلاش کر رھا ہو ، اپنے خبث باطنی اوربر بنائے تعصب بے بنیاد اور واہیات چیزیں خود حکم متعہ میں پیدا کرنے کی کو شش کی ہے، چنانچہ ذیل میں ہم ان علمائے اہل سنت میں سے صرف چار علمائے اہل سنت کے اسمائے گرامی تحریر کرتے ہیں ، جنھوں نے کھوکھلے فکری اور وھمی نتائج متعہ میں پیدا کرنے کی سعی لاحا صل فرمائی ہے :
۱ ۔ شیخ محمد عبدہ: آپ حکم ِ متعہ کی مخالفت میں تحریر فرماتے ہیں :
” متعہ عورت کی عفت اور اس کے کلی قانون ِازدواج کے خلاف ہے ،کیونکہ اس طرح کے نکاح میں مرد اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کے علاوہ کوئی دوسرامقصد نہیں رکھتا اور اس طرح کی شادی در حقیقت اس عورت کی عفت ریزی اور آبرو برباد کرنے کے مترادف ہے ،کیونکہ جو عورت ھر روز اپنے آپ کو کرائے پرایک دوسرے مرد کے اختیار میں دیدے اس کی شخصیت اور عزت کیا ر ہے گی؟اور ایسی عورت کے حق میں یہ شعر پڑھنا مناسب ہوگا :
کرةحذفت بصوالجة -- -- فتلقّفهارِجْلٌ من رجل
وہ ( عورت ) اس گیند کے مانند ہیجس کو ایک طرف سے دوسری طرف پیروں سے ٹھکیل دیتے ہیں اور وہ اِدھر سے اُدھر اچھلتی پھرتی ہے“
عرض مولف
ازدواج موقت( متعہ ) عورت کی عفت کے بر خلاف اور قانون ِازدواج کے منافی اس وقت ہو سکتا ہیجب ہم متعہ کو(مثل صاحب المنار ) شرعی حیثیت نہ دیں اور اس کو زنا و سفاح سے تعبیر کریں ،یعنی شیخ محمدعبدہ نیجو وجوھات بیان کی ہیں کہ متعہ سے عورت کی عفت اورشخصیت مجروح ہوتی ہے ،وغیرہ و غیرہ یہ ساری وجوھات اس وقت تسلیم کی جاسکتی ہیں جب حکم ِ متعہ (عقد موقت)کو غیر شرعی مانیں اور اس کے لئے کوئی حد بندی نہ ہو ، حا لانکہ ہم گزشتہ صفحا ت میں ثابت کرچکے ہیں کہ اس کے لئے بھی دائمی نکاح کی مانند ا حکام اور شرائط پائیجاتے ہیں ۔
اور صاحب تفسیر المنار (شیخ عبدہ )کا یہ کهنا کہ متعہ والی عورت ایسی ہیجیسے ایک عورت روزانہ اپنے کو کرایہ پر دیدے اور ایک گیند کی طرح ا یک ھاتھ سے دوسرے ھاتہمیں ناچتی پھرے۔
ا ولاً: یہ اعتراض اگرصحیح ہوتوڈائریکٹ شریعت محمدی پر ہوگا کیونکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانہ میں بھی تو یہ حکم نافذالعمل تھا اور جو چیز قبیح ہے وہ ہمیشہ قبیح ہو گی لہٰذاایسا ھرگز نہیں ہو سکتا کہ مذکورہ تشبیہ صرف ایک زمانہ سے مخصوص ہو یعنی متعہ کا قبیح ہونا صرف ہمارے زمانے کے لحا ظ سے ہو اور جو مسلمان صدر اسلام میں متعہ کرتے تھے ان کو شامل نہ ہو !!
ثانیا: یہ اعتراض اس عورت پر بھی جاری ہو سکتا ہیجو دائمی عقد میں ہو ،کیو نکہ اس کے لئے بھی مناسب نہ ہوگا کہ اگر اس کی طلاق ہو جائے تو وہ دوسرا شوھر کرے ،یادوسرا شوھر مرنے کے بعد کوئی تیسرا شوھر کرے،اس لئے کہ اس صورت میں یہ بھی شیخ محمد عبدہ کے معیار کے مطابق ایک مرد کے ھاتھ سے دوسرے مرد کے ھاتہمیں مثل گیند کیجائے گی ، پس عقد دائمی والی عورت کے لئے دوسرا شوھر کرنا بھی بقول صاحب المنار عزت و آبرو کے خلاف ہے!!
اس سے بھی تعجب خیز بات صاحب المنار کی وہ ہیجسے وہ آگے اس طرح بیان کرتے ہیں :
”جو بحث میں نے متعہ کے سلسلے میں کی ہے وہ صرف حقیقت پر مبنی ہے اور مذھبی تعصب سے باکل دور ہوکر بیان کی ہے، یہ ایک درد دل تھا جو میں نے بیان کردیا“!!
الله اکبر! کیا درد دل اور حقیقت بیانی سے کام لیا ہے؟ ! قارئین آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یھی انصاف ، حقیقت بیانی اور درد دل ہے کہ ایک شرعی حکم جو قرآن مجید، سنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور اجماع مسلمین سے ثابت ہو ،اس کی غلط توجیھات بیان کرکے کالعدم قراردیاجائے ؟!
کیا یہ مذھبی تعصب اور شریعت اسلامیہ کے ساتھ مسخرہ پن نہیں تو کیا ہے ؟!!
۲ ۔ موسی ٰجارالله :اپنی کتاب ”الوشیعہ“ میں تحریر کرتے ہیں :
اسلام میں متعہ یعنی معینہ مدت کا نکاح نام کا کوئی حکم وجود نہیں رکھتا اورنہ اس کیجواز کے سلسلہ میں کوئی آیہ قرآنی نازل ہوئی اورنہ صدر اسلام میں اس کیجواز کے بارے میں کوئی دلیل پائی جاتی ہیجو اس حکم کی تصدیق کرے ،البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ دور جاہلیت کی ایک رسم تھی جو مسلمانوں میں باقی رہ گئی تھی اوراس کے بارے میں شارع کی جانب سے کوئی اباحت اوراجازت نہیں ہے، لہٰذا متعہ کے لئے حکم ِنسخ آنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ یہ ایک اسلامی قانون منسوخ ہورھا ہے، بلکہ یہ ایک دوران جاہلیت کی قبیح رسم کا ممنوع وحرام قرار دینا تھا جو نسخ کی صورت میں آیا ۔
عرض مولف
موسیٰ جاراللہ کا جواب قارئین پر گزشتہ صفحا ت کا مطالعہ کرنے کے بعد خود ہی ظاہر ہوگیاہوگا،کیونکہ حکم متعہ قرآن و سنت سے ثابت ہوچکاہے اور تمام محدثین و مفسرین اس بارے میں اتفاق نظر رکھتے ہیں ،لہٰذا موسیٰ جاراللہ کا یہ دعوی کرنا کہ یہ حکم اسلام میں نہیں پایاجاتا تھا ،یا دوران جاہلیت کی رسم ہے ،یہ صریح کذب ،بے بنیاد دعوی اور کتب تفسیراور تاریخ اسلام کا مذاق اڑانا ہے (یا پھر یہ کہئے کہ موصوف اس قدر جھالت کے شکار ہیں کہ کتابیں پڑھنے کی ضرورت نھیں)
(
فَوَیْلٌ ِللَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ ْالْکِتَاْبَ بِاَیْدِیْهِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَاْمِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِه ثَمَنًاقَلِیْلاً فَوَیل لَّهُمْ مِمَّاْکَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَوَیْلٌ لَّهُمْ مِمَّاْیَکْسِبُوْنَ
)
ویل ہو ان کے لئیجو لوگ اپنی طرف سے کتابیں لکھتے ہیں اور کھتے ہیں :یہ اللہ کی طرف سے ہیں تاکہ کچھ آمدنی ہو جائے ،ویل ہے اس کے لئیجس نے کتاب لکھی۔ الخ۔۔۔۔
۳ ۔ محمود شکری آلوسی کھتے ہیں :
شیعہ حضرات کے یھاں متعارف متعہ کے علاوہ ایک متعہ اور ہوتا ہے جسے دوری متعہ کھتے ہیں اور اس متعہ کی فضیلت میں روایات بھی نقل کرتے ہیں ، اس کی صورت اس طرح ہے کہ کچھ لوگ ایک عورت سے متعہ کرتے ہیں اور عورت ان سے کھتی ہے کہ طلوع آفتاب سے لے کر کچھ دن چڑھنے تک تیرے متعہ میں ہوں اور اس کے بعدوقت ظھر تک دوسرے مرد کے اختیار میں اور ظھر سے عصر تک تیسرے مرد کے حوالے اور عصر سے مغرب تک کسی اور مرد کے متعہ میں اور مغرب سے عشاء تک ایک دوسرے مرد کے اختیار میں ، اس کے بعد نصف شب تک اور نصف شب سے لے کر صبح تک،کسی دوسرے مرد کے متعہ میں ہوں۔
عرض مولف
چونکہ گزشتہ مباحث میں ہم متعہ کی اصل حقیقت، ماہیت ا ور صورت بیان کرچکے ہیں لہٰذاآلوسی نیجس بات کو شیعوں کی طرف نسبت دی ہے وہ تھمت ،بھتان اورصریحا فتراء پردازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
کیا کوئی نہیں جو اس ( نا هنجار ) شخص سے دریافت کرے کہ کون شیعہ ہیجو اس متعہ کے طریقہ کو جانتا ہے ؟!
. وہ کونسا راوی ہیجس نے اس متعہ کی فضیلت میں روایات نقل کی ہیں ؟!اور وہ کون سی روایات ہیں جن میں اس متعہ کا نام آیا ہے؟!
. جوروایات اس شخص کے ذهن کی اختراع ہیں وہ کو نسی کتاب میں ہیں ؟!اوران روایات کو کس محدث نے نقل کیا ہے ؟!
. آخر وہ کون سا مجتھد اور عالم ہیجس نے اس متعہ کیجواز کا فتویٰ دیا ہے ؟!
. وہ کون سی کتاب حدیث ، فقہ و تفسیر ہیجس میں اس متعہ کے بارے میں بحث کی گئی ہے ؟!
(
وَلَایَحْزُنْکَ قَوْلُهُمْ اِنَّ الْعِزَّةَلِلّٰهِ جَمِیْعاً وَهُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
)
۴ ۔ محمود شلتوت : مشہوراعتدال پسند عالم اہل سنت جناب شیخ محمود شلتوت سابق وائس چانسلر آف ازھر یونیور سٹی مصر، اپنی وجاہت علمی اور وافر معلومات کے باوجود متعہ کے بارے میں تعصب کے شکار نظر آتے ہیں ،چنانچہ متعہ کے بارے میں اپنے تعصب کا اظھار اس طرح کرتے ہیں :
نکاح ِمتعہ کہ جس کی ایک قسم معینہ مدت کی شادی ہے، یہ ہے : مرد اس عورت سے توافق کریجس سے شرعی طورپر شادی کرسکتاہو کہ وہ عورت اس کے پاس معینہ مدت ،یاغیر معینہ مدت تک کے لئے معین مھر کے عوض رہے گی !! اس کے بعد کھتے ہیں :لیکن قرآن مجید میں جو ازدواج کے سلسلہ میں احکام بیان کئے گئے ہیں،مثل توارث ،ثبوت نسب ، طلاق وعدّہ وغیرہ یہ سب ا حکام اس متعارف متعہ کے بارے میں نہیں ہیں جو ہم جانتے ہیں (یعنی شیعوں کا متعہ)
عرض مولف
جیساکہ ہم پھلے بیان کر چکے ہیں کہ متعہ میں اساسی شرط یہ ہے کہ مدت معین ہواور اس ازدواج کے سلسلہ میں تمام اقسام عدہ ،نسب وتوارث کے تمام احکام پائیجاتے ہیں ،لہٰذا موقت ازدواج کو اقسام متعہ میں
شمار کرنا بے معنی ہے!!
(
اٴَفَرَاٴَیْتَ مَنِ اْتَّخَذَاِٴلَٰهَهُ هَواَهُ وَاٴَضَلَّهُ الله عَلَیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِهِ غِشَٰاوَةً فَمَنْ یَهْدِیْهِ مِن بَعْدِ الله اٴَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ
)
۷ ۔ نمازتراویح کی حقیقت !!
نماز تراویح سے مراد وہ مستحبی نمازیں ہیں جنھیں ماہ رمضان کی راتوں میں جماعت کے ساتھ پڑھا جاتاہے ،البتہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرن ا سنت رسو لصلىاللهعليهوآلهوسلم
نہیں ہے ،بلکہ یہ نمازیں رسو ل خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اورابو بکرکے زمانہ میں اور چند سال دور خلافت عمر میں فرادیٰ پڑھی جاتی تھیں ۔
دین اسلام میں کوئی بھی مستحب نماز سوائے نماز استسقاء کیجماعت سے نہیں پڑھی جاتی، کیونکہ جماعت کا اختصاص صرف واجبی نمازوں کے لئے ہے ۔
لیکن خلیفہ دوم حضرت عمر نے ۱۴ ہمیں مسلمانوں کو مجبور کیاکہ ماہ رمضان کی راتوں میں پڑھی جانے والی مستحب نمازیں جماعت سے ادا کی جائیں اور یہ حکم نامہ تمام اسلامی شھروں اورممالک میں ارسال کردیااورمدینہ میں ابی بن کعب کو مردوں کا امام جماعت مقرر کیا اور عورتوں کے لئے تمیم داری کو امام جماعت بنایا ، چنانچہ کتب تواریخ و احادیث و بالاخص صحیحین میں نماز تراویح کے بارے میں اس طرح آ یا ہے:
۱…”عن عبدالرحمن بن عبدالقاری؛ انه قال:خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الیٰ المسجد ،فاذاالناس اوزاع متفرقون، یصلی الرجل لنفسه، ویصلی الرجل،فیصلی بصلوته ا لرهط، فقال عمر:اٴِنِّی اٴَریٰ لو جمعت هٰولاء علی قاریٴ واحد لکان امثل، ثم عزم فجمعهم علیٰ ابی بن کعب، ثم خرجت معه لیلةاخریٰ، والناس یُصلُّون بصلاة قارئهم ،قال عمر:نعم البدعةهذه…“
عبدالرحمن بن عبد القاری سے منقول ہے :
ایک روز میں رمضان المبارک کی شب میں عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد کی طرف گیا ،تو دیکھا کہ لوگ متفرق متفرق اپنی نمازیں ادا کررہے ہیں ،کچھ حضرات ایک جگہ اجتما ع کرکے نماز ادا کررہے ہیں ،تو کوئی مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رھا ہے ، جب عمر ابن خطاب نے اس حا لت کو دیکھا توکهنے لگے :اگر یھی حضرات کسی ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھتے تو کتنا اچھا ہوتا ،اس کے بعد اس بارے میں فکر کرکے دستور دیاکہ تمام لوگ ابی بن کعب کے پیچھے یہ نماز با جماعت ادا کریں ،کچھ دنوں کے بعد ہم لوگ جب ایک شب مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام نمازی ایک پیش نماز کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں ، اس وقت عمر ابن خطاب نے مجھ سے کھا:کتنی اچھی یہ بدعت ہے:”نعم البدعة “ جس کو میں نے رائج کیا ہے!!
۲… ’ ’عن ابن شهاب عن حمید بن عبد الرحمان عن ابی هریرة؛ ان رسول الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قال:من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفرله ما تقدم من ذنبه، قال ابن شهاب: فتوفی رسول الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
والا مرعلی ذالک، ثم کان الامر علی ذالک فی خلافة ابی بکر، وصدراً من خلافة عمر“
۔
بخاری اور مسلم نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ہے :
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :جو بھی آخرت پرایمان و اعتقاد رکھتے ہوئے ، ماہ رمضان کی شبوں میں عبادت کرے ،اس کے تما م گزشتہ گناہ بخش د یں گے، اس کے بعد ابو ھریرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
آنحضر تصلىاللهعليهوآلهوسلم
تا آخر ِ وفات، شب ماہ رمضان کی تمام مستحبی نمازیں فرادی ٰ پڑھتے تھے اوراسی طریقہ سے حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں نماز پڑھی جاتی رھی اور خلافتِ عمر کے زمانہ اوائل میں بھی اسی طریقہ سے نماز پڑھی جاتی رھی!!
ابن سعد اپنی کتاب” الطبقات“ میں لکھتے ہیں :
عمر وہ پھلے شخص ہیں جنھوں نے ماہ مبارک رمضان کی رات کی مستحبی نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کا قانون نافذکیا اور تمام دیگر شھروں میں اس حکم کا ابلاغ فرمایااور یہ واقعہ ۱۴ ہمیں وقوع پذیر ہوا ، چنانچہ مدینہ والوں کے لئے دو پیش نماز معین فرمائے ،ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے ۔
”وهو ( عمر ) اول من سن قیام شهر رمضان و جمع علی ذالک و کتب به الی لبلدان و ذالک فی شهر رمضان سنة اربع عشرة
“
اس واقعہ کی طرف اجمالی طورپر کتاب” ارشادالساری “میں بھی اشارہ ملتاہے۔
اسی طرح تاریخ اسلام کے مشہور مورخ یعقوبی، ۱۴ ھکے واقعات وحوادثات کو تحریر کرتے ہوئے قلمبند فرماتے ہیں :
اسی سال حضرت عمر نے شب ِماہِ رمضان کی مستحب نمازوں کو با جماعت پڑھنے کا حکم جاری کیا اور تمام اسلامی ممالک میں اپنے اس حکم کو نافذ کروادیا، چنانچہ اہل مدینہ کے لئے ابیابن کعب اور تمیم داری کو پیش نماز معین کیا ۔
اس کے بعدیعقوبی کھتے ہیں :
کچھ لوگوں نے خلیفہ پراعتراض کیا کہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں تو ایسا نہیں ہوا؟! عمر نیجواب دیا : اگر یہ بدعت بھی ہے تو اچھی (حسنہ) بدعت ہے: ”ان تکن بدعة فما احسنھا من بدعة“!!
علامہ جلال الدین سیوطی بھی اپنی کتاب” تاریخ الخلفاء“ میں یھی تحریر فرماتے ہیں :
۱۴ ہمیں حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح کے پڑھنے پر مجبور کیا !!
”وفیھا( ۱۴ ہجری) جمع عمر بالناس علی صلاة التراویح “
حضرت علیعليهالسلام
کی زبانی نماز تراویح کی رد
کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاہے کہ حضرت امیر المومنینعليهالسلام
کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان سلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امامعليهالسلام
کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی ، چنانچہ حضرت امیرالمومنینعليهالسلام
نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ہے:
…”امرت الناس ان لایجمعوافی شهررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اهل العسکر ممن یقاتل معی: یا اهل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نهینا ان نصلی فی شهررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوسی، لما لقیت من هذه الامة بعد نبیها من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“
میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاہے !اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ہے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!تف ہو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ہے۔
ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ہیں :
”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالمو منینعليهالسلام
سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امامعليهالسلام
نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بر خلاف ہے،چنانچہ بظاہر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ہی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا، جب امیر المو منینعليهالسلام
کو اس کی اطلاع ہو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں ، جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “!!
بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !!
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں :
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاہے کیونکہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی، بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نہیں کریں گے!!
عرض مولف بدرالدین سے ہمار ا سوال یہ ہے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ہیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟! اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ہے کہ عمر کی بدعت سنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور قانون خد ا سے بھتر ہے تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ہے!!(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ہے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ہے نماز تراویحا ج تلک کیوں پڑھتے آ رہے ہیں ؟!!
۸ ۔ تین طلاقیں اورحضرت عمر!!
تین طلاقوں سے کیا مراد ہے ؟
مذھب شیعہ کے نزدیک تین طلاقوں کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرد تین دفعہ عورت کو طلاق دے اورھر طلاق کے بعد عدّہ تمام ہونے سے قبل رجوع کرلے ،یا پھر انقضائے مدت ِ عدہ کے بعد دوبارہ اس سے شادی کرلے، اس طرح سے اگر مرد تیسری مرتبہ طلاق دیدے تو وہ بیوی اس مرد پر حرام ہو جائے گی لہٰذا اگر کوئی مرد ایسی عورت کو اپنے عقد میں لانا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ پھلے وہ عورت کسی دوسرے مرد سے عقد کرے ،او ر جب وہ (دوسرا مرد )طلاق (معہ شرائط ) دیدے یا مرجائے تب اس سے اس کا پھلا شوھر دوبارہ شادی کر سکتاہے ۔
چنانچہ قرآن مجید میں یہ حکم صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
(
اَلطَّلاٰقُ مَرَّتٰانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعرُوفٍ اَوْ تَسْریحٌ بِاِحْسٰانٍ …فَاِنْ طَلَّقَهٰافَلاٰ تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَهُ …
)
طلاق (رجعی جس کے بعد رجوع ہوسکتاہے )دوھی مرتبہ ہے، پھر اس کے بعد یا تو شریعت کے موافق روک لینا چاہئے، یا حسن ِ سلوک سے (تیسری دفعہ طلاقِ بائن دے کر)بالکل رخصت کر دے اور تم کو یہ جائز نہیں کہ جو کچھ تم ان کو دے چکے ہواس میں سے پھر کچھ واپس لے لو۔پھر اگر (تیسری)بار طلاق (بائن) دی تو اس کے بعد جب تلک وہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کر ے، اس کے لئے حلال نہیں ۔
جملہ(
اَلطَّلاقُ َمرَّتاَنِِ
)
دلالت کرتا ہے کہ خود طلاق کے اندر تعد ّد ضروری ہے، یعنی طلاق دو دفعہ دی جائے، لہٰذا اگر طلاق ایک مرتبہ دے اوراس کے ساتھ لفظ تین کا اضافہ کردے،مثلاً اس طرح کھے :” میں تجھے تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں(یاطلاق، طلاق ،طلاق کھے)“ تو یہ تین طلاقیں شمار نہیں ہو گی ، بلکہ صرف ایک ہی طلا ق شمار کی جائیں گی چنانچہ ایسی صورت میں مرد عورت کی طرف عدہ طلاق کے دوران رجوع یا عدہ تمام ہونے پر اس سے دوسری شادی کر نے کا حق رکھتا ہے اور مرد کیلئے یہ طلاق اس بات کی موجب نہیں قرار پاتی کہ اس عورت کی طرف مرد کارجوع کرنا حرام ہو جائے اور نہ ہی اس طلاق کی بنا پر مرد کا اس سے دوبارہ شادی کرناحرام ہوگا ۔
زمخشری جملہ(
الطلاق مرتان
)
کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ طلاق جس کے بعد شرعاً عورت مرد پر حرام ہو جا تی ہے اوردوبارہ اس عورت کا مرد ،اس سے ازدواج نہیں کر سکتا یہ ہے کہ ”مرد(دونوں طلاقوں میں سے )ھر ایک طلاق بطور مستقل اور جدا دے، پس اگر کوئی مرددفعة ً واحدہ یکبارگی دونوں طلاقیں دیدے تو اس کی ایک طلاق شمار ہوگی “۔
اس کے بعد زمخشری کھتے ہیں :
آیت میں دوبار طلاق دینے سے مراد ،عمل ِ طلاق کا تعدد ہے، نہ کہ تعددلفظ، یعنی (طَلَّقْتُکَ طَلَاقَیْنِ
) میں نے تجھے دو مرتبہ طلاق دی،یہ کهنا کافی نہیں ہے اور یہ طلاق دو مرتبہ شمار نہیں کی جاسکتی ، بلکہ ھر طلاق کو علیٰحدہ علیٰحدہ دینا ہو گا ،گویا یہ آیت بھی آ یہ شریفہ(
فَاْرْجِعِِ الْبَصَرَکَرَّتَیْنِ
)
کی طرح ہیجس میں پھلی نگاہ کے بعددوسری نگاہ ،مراد ہے۔ “
بھر کیف تین طلاقوں کا مسئلہ قرآن اورسنت کی رو سے بھت ہی واضحا ور روشن ہے ، لیکن خلیفہ دوم حضرت عمر نے تین طلاقوں کے لئے تعددِ لفظ کو کافی جاناہے ، یعنی اگر کوئی اپنی بیوی کو اس طرح کھے کہ میں نے تجھے تین طلاقیں دیں ،تو وہ عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گی یھاں تک کہ دوسرا مرد اس عورت کو اپنے حبالہ عقد میں لائے، اس کے بعد وہ مرجائے یا اپنی مرضی سے طلاق دیدے ،تب وہ عورت اپنے پھلے شوھر کیلئے عدّہ تمام ہو نے کے بعد حلال ہوگی۔
اگرچہ اس مضمون کی روایات صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتب اہل سنت میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن ہم صحیح مسلم سے یھاں نقل کرتے ہیں ، کیونکہ صحیحین کی روایا ت ہی ہماری موضوع ِ بحث ہیں :
۱ …”عن ابن عباس؛ قال: کان الطلاق علیٰ عهد رسول الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
وابی بکروسَنَتَین من خلافةعمرطلاق الثلاث واحدةً ،فقال عمربن الخطاب:ان الناس قد استعجلوا فی امرکانت لهم فیه اَناة، فلوامضَیْناه علیهم فامضاه علیهم
۔
ابن عباس سے منقول ہے :
عھد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم وعھد ابوبکر اور دوسال حضرت عمر کے دورانِ خلافت میں ، اگر کوئی تین مرتبہ لفظاًطلاق دیتا تو اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ،یعنی اگر کوئی اپنی بیوی سے یہ کھتا: میں تجھے تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں( یا طلاق ، طلاق،طلاق کھتا)تو اس کی ایک طلاق محسوب ہوتی تھی،لیکن خلیفہ دوم حضرت عمر نے کھا: لوگوں کو جس میں مھلت دی گئی تھی اورجو حکم ان کے نفع میں تھا ،اس میں انھوں نے عجلت سے کام لیا، کیا بھتر ہوتا کہ ان کے ضرر میں حکم کو جاری کر دیا جائے!
چنانچہ عمر نے (ایک طلاق کو ) تین طلاق شمار کرنے کا حکم نافذ کردیا ،جو حقیقت میں ایک طلاق تھی،یعنی اگر ایک دفعہ کوئی شخص کھے: میں تین طلاقیں دیتا ہوں (یاطلاق،طلاق،طلاق کھے) تو اس کی تین مرتبہ طلاق شمار ہو جائے گی یہ حکم حضرت عمر نے نافذ کردیا!۔
۲…ان ابا الصحبا ء قال لابن عباس: هاتِ مِن هناتک؟ الم یکن الطلاق الثلاث علیٰ عهد رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله
صلىاللهعليهوآلهوسلم
وابی بکر واحدة؟فقال:قد کان ذالک، فلمّا کان فی عهد عمر تتا بع الناس فی ا لطلاق، فاجازه علیهم
۔
طاووس کھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو صحباء نے ابن عباس سے کھا : کوئی نئی تازی خبر ہم کو سنائیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ عھد پیمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
و ابوبکر اور تین سال عھد عمر میں تین طلاق ”یعنی ایک طلاق بلفظ ِثلاث“ایک طلاق محسوب ہوتی تھی ؟
ابن عباس نے کھا: ھاں ایساہی تھالیکن لوگوں نے دورا نِ خلافت ِعمر میں طلاق کے بارے میں زیادہ روی اختیار کی، لہٰذا اس (عمر)نے ان کے ہی ضرر میں یھی حکم نافذکردیایعنی ایک طلاق کو تین طلاق شمار کرنے کاحکم نافذکردیا !!
محترم قارئین !یہ تھاتین طلاقوں کا مسئلہ جودیگر معتبر کتب اہل سنت میں بھی مندرج ہے ،اسی روش کو اکثر علمائے اہل سنت اور ائمہ اربعہ نے اختیار کیا ہے اور حضرت عمر کی رائے کے مخالف فتوی ٰدینے سے حتی الامکان پر ہیز کیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ لوگ آج بھی عمر کے اس فتوی ٰپرعمل پیر اہیں !! مگرچوں کہ یہ حکم نص ِقرآن کریم اورسنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بر خلاف ہے لہٰذا بعض جید علمائے اہل سنت نے عمر کے اس فتویٰ کے برخلاف اشارةًوکنایةًمخالفت کا اظھار کیا ہے اوربعض نے تو تصریح کے ساتھ اس کی مخالفت کی ہے ،یھاں تک یہ مسئلہ اتنا طولانی ہوا کہ مصر کی عدالت عالیہ میں جید اہل سنت کے مفتیوںنے اس بدعت کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمادیا ۔
بھر کیف ذیل میں مذکورہ مسئلہ کی سیر تاریخی ہم نقل کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
ابن رشد کھتے ہیں :
اکثریت فقھائے اہل سنت کے نزدیک وہ طلاق جو میں بہ لفظ ثلاث (تین)ہووہ واقعی تین طلاق کے حکم میں ہے اوراس کے بعد شوھراپنی مطلقہ عورت کی طرف رجوع کرنے کاحق نہیں رکھتا ۔
کتاب”الفقہ علی المذاہب الاربعة“کے مولف کھتے ہیں :
اگر مرد عورت سے کھے : میں نے تجھے تین طلاقیں دیں ،تومذاہب اربعہ اور جمہور فقھائے ا ھل سنت کے نزدیک تین واقعی طلاق شمار کی جائیں گی اور مرد اس کی طرف اب رجوع نہیں کر سکتا ۔
”بان قال لها : انت طالق ثلاثا لزمه ما نطق به من العدد فی المذاهب الاربعة …“
لیکن خود ابن رشد صاحب کتاب (الفقہ علی المذاہب الاربعة )نے اس نظریہ کی مخالفت کی ہے اور اس حکم کو اپنے اور حکم ِ واقع کے خلاف جانا ہے ۔
ابن رشد نے ایک لطیف اشارہ سے دوسرے مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لفظ تین کے ساتھ طلاق دینے کو ردکیا ہے ، فرماتے ہیں :
یھی وجہ ہے کہ اگر کوئی لوگوں پر یہ حکم ضروری قرار دے کہ وہ ایک طلاق کو تین طلاقیں سمجھیں توگویا اس نے اس حکمت اور مصلحت ِ واقعیہ کوختم کر دیاجو اس حکم کی تشریع میں — تھی !!
صاحب کتاب ”الفقہ علی المذاہب الاربعة “ طرفین( مخالف وموافق )کی دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں :
یہ مسئلہ اجتھادی مسائل میں سے ہے۔
اس کے بعدآپ ابن عباس اورعمر کے اس مسئلہ میں اختلاف ذکر کرتے ہوئے اس طرح نتیجہ گیری کر تے ہیں :
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ابن عباس بھی اپنی جگہ ایک مجتھد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی تقلید بھی مذھبی مسائل میں ہوسکتی ہے اور ان کے قول پر عمل کر نا جائز ہے، ضروری نہیں کہ ہم عمر کی آراء وفتاویٰ پر عمل کریں،کیونکہ وہ بھی ایک مجتھد کی حیثیت رکھتے ہیں ، حتی کہ اکثر علماء و فقھاء کے فتاویٰ جو حضرت عمرکی موافقت میں ہیں موجب نہیں بن سکتے کہ ہمارے اوپر ان کی ( عمر ) پیروی یا تقلید لازم ہو ۔
شیخ محمد عبدہ (متوفی ۱۳۲۳ ھ) آیہ طلاق میں مفصل بحث کرنے کے بعدثابت کرتے ہیں :
آیہ کریمہ میں تعددِ ِطلاق مراد ہے اور خلیفہ دوم اور جو لوگ آپ کے ہم خیال ہیں ان کی رائے کی مخالفت میں حدیث ِ ذیل کو سنن نسائی سے بعنوان تنقید اس طرح تحریر کرتے ہیں :
” آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنی زوجہ کو لفظ ثلاث کی یں سے ایک طلاق دی(مثلاً میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) تو رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
لوگوں کے درمیان غیض و غضب کی حا لت میں کھڑے ہوئے اور فرما یا: ابھی سیجبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں کتاب خداکامضحکہ اڑایا جارھاہے؟!! شیخ محمد عبدہ اپنی گفتگو کو یوں ختم کرتے ہیں :
”میرا مقصود مقلدین سے مجادلہ کرنا نہیں اور نہ ہی قضاة اور مفتیوں کو ان کی رائے سے منحرف کرنا ہے، کیونکہ ان لوگوں میں اکثر اُن دلیلوں اورحدیثوں کو اچھی طرح جانتے ہیں ،جن کو میں نے پیش کیا ہے، لیکن پھر بھی ان دلائل واحادیث شریفہ( جو کتب صحا ح ،مدارک و ماخذ میں موجود ہیں ) پر عمل نہیں کرتے ، کیونکہ ان لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ خود ساختہ اپنی کتابوں پر اعتماد کریں گے، نہ کہ کتاب خدا اورسنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر“
بھر حال مصر کی شرعی عدالت نے ۱۹۲۹ ء میں ۷۳ سال قبل ا س حکم(طلاق بلفظ سہ) کو منفی قرار دے دیا، پھرچند سال کے بعد سابق وائس چانسلر آف ازھریونیورسٹی اور عظیم مذھبی راهنماجناب شیخ محمود شلتوت نے فتویٰ دیا:
” جو طلاق قید ِثلاث کے ساتھ دی جائے گی یعنی اگر کوئی کھے کہ میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں، تو وہ ایک طلاق شمار ہوگی اور شوھر کو حق رجوع ہے کیونکہ ایسی طلاق حقیقت میں طلاق رجعی ہوتی ہے۔“
قارئین کرام! جو فتاوے اور نظریے ہم نے خلیفہ دوم کی مخالفت میں تحریر کئے، یہ کس حد تک خلیفہ دوم اور ائمہ اربعہ کے فتاوی کے مقابل میں موثر ہیں ، اس کا اندازہ مرورِ زمان کے ساتھ ہو گا، جب ہمارا اسلامی معاشرہ جملہ یں وبند، بیجا تقلید ا ور اندھے تعصب سے آزاد ہو کر سو چے گا۔
۹ ۔ کیا رونا بدعت ہے ؟!
اپنے عزیزوں ،رشتہ داروں اورچاهنے والوں کی موت پر غم منانا اورگریہ وزاری کرنا، بشر کی عطوفت ومحبت کا لازمہ اور رقت ِ انسانیت کے مقتضیات میں سے ہے ،چنانچہ دین اسلام نے بھی اپنے گزشتگان پر گریہ کرنے کو منع نہیں فرمایا ہے ، بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ کیا ہے ،خصوصاً اُن افراد پر جو راہ خدا میں شھید ہوگئے تھے ، لیکن اہل سنت کے بعض منابع و مدارک سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ دوم مردوں پر گریہ کرنے سے متفق نہ تھے اور اگر ان کے سامنے اپنے گزشتگان پر کوئی روتا تھا تو اس کو منع کرتے تھے، بلکہ تازیانہ ، ڈنڈااورپتھر وغیرہ سے سخت سزادیتے تھے!لہٰذا مناسب ہے کہ ہم ذیل میں صحیحین سے اُ ن روایات کو نقل کر دیں جن میں رسول اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے گریہ کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بعد پھر آپ خلیفہ دوم کا بھی ردعمل اس گریہ کرنے پر معتبر منابع کی رو شنی میں ملاحظہ فرمائیں ۔
۱…”عن انس بن مالک؛ ان النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
نَعیٰ جعفرا وزیدا قبل ان یجیٴ خبرهم وعیناهُ تذر فان “
انس بن مالک سے منقول ہے :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیجعفر و زید کی شھادت کی خبر لوگوں کے درمیان اس حا لت میں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے بیان کی، قبل اس کے کہ اُن کی خبر ِشھادت میدان جنگ سے مدینہ پهنچتی ۔
۲ …”عن انس بن مالک…؛ ثم دخلنا علیه بعد ذالک وابراهیم یجود بنفسه ،فجعلت عینارسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله تَذْرِفان ،فقال له عبد الرحمن بن عوف:وانت یا رسول
صلىاللهعليهوآلهوسلم
الله ؟ فقال:یا بن عوف! انها رحمةثم اتبعها بِاُ خریٰ فقال:ان العین تد مع، والقلب یحزن، ولا نقول الاّما یرضی ربُّناوانَّا بفراقک یا ابراهیم لمحزونون
“
انس بن مالک سے منقول ہے :
جس وقت فرزند پیمبرصلىاللهعليهوآلهوسلم
جناب ابراہیم احتضار و جانکنی کے عالم میں تھے ،اس وقت میں آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں گیا تو دیکھا کہ آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ،عبدالرحمن بن عوف نے کھا: یا رسول اللهصلىاللهعليهوآلهوسلم
!آپ بھی اپنے بیٹے کی موت پر گریہ فرمارہے ہیں ؟! رسول نے کھا: اے عوف کے بیٹے !یہ گریہ رحمت،عطوفت اور محبت کی نشانی ہے ، ابن عباس کھتے ہیں : رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پھر بھی گریہ کرتے رہے اور فرمایا: اشک جاری ہیں اوردل غم زدہ ہے ،لیکن جس چیز سے خدا راضی نہیں وہ زبان پر نہیں لاتا،اے میرے بیٹے ابراہیم ! میں تیری جدائی میں غم زدہ ہوں ۔
۳…”زار النبی قبر امه فبکی وابکی من حوله“
امام مسلم نقل کرتے ہیں :
جب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی مادر گرامی کی قبرکی زیارت فرمائی تواس قدر روئے کہ تمام صحا بہ کرام جوآپ کے ہمراہ تھے گریہ کرنے لگے۔
بھر کیف حضرت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
اورحضرت معصومہ عالم فاطمہ زھرا = کے گریہ سے متعلق صحیحین میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور ہم نے بعنوان نمونہ صرف مذکورہ تین حدیثوں کو نقل کیاہے البتہ آپ کی آسانی کیلئے بقیہ حدیثوں کا حوالہ نقل کردیتے ہیں ۔
محترم قارئین !یہ تھے چند مقامات جو صحیحین میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اکرم کے گریہ کے بارے میں مذکور ہوئے ہیں جس کو آپ نے ملاحظہ فرمایا ،اب آپ ذرا خلیفہ دوم کاکردار بھی ملاحظہ فرمائیں جو کتاب صحیحین میں ہی منقول ہے اور ا س کے راوی حضرت عمر کے بیٹے عبدالله ابن عمر ہیں :
۱ ۔ وہ کھتے ہیں : جب سعد بن عبادہ شدت سے مریض ہوگئے توآنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم عیادت کے لئے تشریف لائے ،آپ کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ،عبدالله بن مسعود،سعد بن ابی وقاص بھی تھے ،سعد بن عبادہ کی بد حا لی کو دیکھ کر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے دریافت فرمایا :آیا روح جسد خاکی سیجدا ہوگئی یا نہیں ؟لوگوں نے کھا :نھیں یا رسول الله !صلىاللهعليهوآلهوسلم
اس کے بعد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
گریہ فرمانے لگے ،جو آپ کے ساتہمیں تھے ،وہ بھی گریہ کرنے لگے ،پھر رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ خداوند متعال اشک ریزی اور دل کی غمگینی کی وجہ سے کسی کو عذاب نہیں کرتا ؟!اس وقت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:خدا اس زبان کی وجہ سے انسان پر عذاب یا ترحم کرتاہے،لیکن بعض پسماندگان کے گریہ کی وجہ سے مردہ پریشان ہوتا ہے۔
عبدالله ابن عمر اس حدیث کو بیان کرنے کے بعداپنے باپ کی مخالفت ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں :
”وکان عمر یضرب فیه بالعصا یرمی بالحجارة ویحثی بالتراب!“
میرے والدلوگوں کوڈنڈے،پتھراورڈھیلوں سے مارتے تھیجب وہ اپنے مردہ عزیزوںپر روتے تھے۔
مسلم نے حدیث کاآخری حصہ حذف کردیا ہے ۔
صحیح بخاری میں آیاہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی بهن کو اپنے بھائی ابوبکر پر رونے کی وجہ سے گھر سے نکال دیاتھا ۔
امام احمد بن حنبل اپنی کتاب”المسند “ میں ایک حدیث کے ضمن میں عثمان بن مظعون کی موت کے بارے میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں :
جب دختررسول اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
جناب رقیہ نے بھی وفات پائی توآنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: اے میری دختر نیک اخترجاتو بھی ہمارے نیک سلف عثمان بن مظعون سے ملحق ہوجا!
ابن عباس کھتے ہیں:جب عورتیں جناب رقیہ کی موت پر گریہ کرنے لگیں توحضرت عمر ان کو تازیانے سے مارنے لگے: جب رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے دیکھا تو فرمایا: اے عمر! اس کام کو چھوڑ دے ،ان کو گریہ کرنے دے، اس کے بعد عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :اے عورتو ! اپنے کو شیطان کی آواز سے محفوظ رکھو،پھر فرمایا:جو کچھ دل اور آنکھوں میں ہے( تاثیر اور گریہ)وہ خدا کی جانب سے اور رقت ِ قلب کی وجہ سے ہے اور جو کچھ زبان اور ھاتہمیں ہے (یعنی وہ فعل جو انسان کے مرنے پر زبان اورھاتھ سے ظاہر ہوتاہے )وہ شیطان کی جانب ہے۔
اس کے بعد جناب رقیہ کی قبر مطھر پر آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
بیٹھ گئے آپ کے ساتھ شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا(س)بھی بیٹھی رورھی تھیں اور رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
پیارو محبت کے ساتھ اپنے لباس کے دامن سے آپ کے آنسو پونچھ رہے تھے۔
عرض مولف
اس واقعہ کو ابن سعد نے بھی اپنی کتاب ”الطبقات“ میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ تحریر کیاہے اور اس میں یہ جملہ بھی آیا ہے :
جب عمر نے عورتوں پر تازیانے سے حملہ کیا تو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے عمر کا ھاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: رک جا اے عمر!
”فاخذرسول الله بیده وقال مهلایا عمر“
!!
امام احمد بن حنبل پھر نقل کرتے ہیں :
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
ایک دفعہ کسی جنازے کے پاس سے گزرے تودیکھا کہ عورتیں گریہ کررھی ہیں ،عمرنے ان کو منع کیاتو رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا :عمر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے، کیو نکہ ان کے دل اپنے عزیز کی موت پر تازہ غمگین اور آنکھیں اشک آلودھیں :
”دعهن فان النفس مصابة والعین دامعة والعهد حدیث“
ابن ابی الحدید معتزلی کھتے ہیں :
عمر نے اپنے دورخلافت میں سب سے پھلی جس کو تازیانے سے ماراوہ ابوبکر کی بهن ام فروہ ہیں ، جوکہ ابوبکر کی موت پر گریہ کررھی تھیں اورجب ابوبکر کی بهن ام فروہ کو دیگر عورتوں نے مار کھاتے ہوئے دیکھا، تو سب بھاگ گئیں اور خود ام فروہ کو عمر نے مار کر نکال دیا :
”و اول من ضرب بالدرة ام فروة بنت ابی قحا فة ، مات ابو بکر فناحا لنساء علیه“
۱۰ ۔ حکمِ نمازِمسافراورحضرت عثمان!!
سفر میں نماز پنجگانہ میں سے چار رکعتی نمازیں (جب شرائط پائیجائیں تو) قصر ہوجاتی ہیں ، یعنی چار رکعت نمازکے بجائے دو رکعت نماز پڑھی جا ئے گی اورسفر کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ وہ تجارت کے لئے انجام دے، یا زیارت ، حج اور جنگ و غیرہ کے لئے اوریہ حکم قرآن مجید
اورسنت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے ثابت ہے،
چنانچہ یھی طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ نبوت اور دور خلافت ابوبکر وعمر میں باقی رھا ،لیکن عثمان نے اپنے دورخلافت کے اواسط میں مقام منیٰ میں بجائے اس کے کہ وہ چار رکعتی نماز کو دورکعت نماز قصرپڑ ھتے چاررکعت ہی پڑھی ،حا لانکہ وہ مسافر تھے اور شرائط قصر بھی موجود تھے، کچھ مسلمانوں نے بھی ان کی پیروی کی ،لیکن ایک گروہ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے ان پر اعتراض کیا، طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ عثمان کے طریقہ کار پر مسلمانوں کا یہ سب سے پھلااعتراض تھا ، یھیں سے عثمان کے خلاف بغاوت کا بیج پڑا!خلاصہ یہ کہ عثما ن نے اپنے دور خلافت میں نماز مسافر کا حکم تبدیل کردیا !اور اس بارے میں کتب حدیث ،تاریخ وتفسیر میں صراحت کے ساتھ متعدد روایات پائی جاتی ہیں لیکن ہم نمونے کے طور پر صحیح بخاری اورصحیح مسلم سے صرف تین روایتیں ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں :
۱…”عن عبداللّٰه؛ قال: صلیت مع النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
بمنی رکعتین وابی بکر وعمرومع عثمان صدراًمن خلافته، ثم اتمها“
عبد اللہ ابن عمر سے منقول ہے :
میں نے خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر،عمر اور عثمان کے ساتھ مقام منیٰ میں چار رکعتی نماز کو دورکعت بعنوان قصر پڑھا،لیکن عثمان نے اپنے دور خلافت کے کچھ دن گزر جانے کے بعد منی میں چارکعتی نماز کو بجائے اس کے کہ دو رکعت قصر کر کے پڑھتے چارکعت ہی پڑھا ۔
۲…”عن ابراهیم ؛قال: سمعت عبدالرحمٰن بن یزید؛ یقول:صلی بناعثمان بن عفان بمنی اربع رکعات، فقیل ذالک لعبداللّٰه بن مسعود: فاسترجع، ثم قال:صلیتُ مع رسول اللّٰه
صلىاللهعليهوآلهوسلم
بمنی رکعتین، وصلیت مع ابی بکر بمنی رکعتین، وصلیت مع عمر بن الخطاب بمنی رکعتین، فلیت حظی من اربع رکعات رکعتان متقبّلَتانِِ “
عبد الرحمٰن بن یزید سے منقول ہے :
عثمان نے مقام منی میں دورکعت کے بجائے چار رکعت نماز پڑھی (اورقصر کے حکم پر عمل نہ کیا ) اورجب اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا گیا توابن مسعود نے کلمہ استر جاع((
انا لله واناالیه راجعون
)
) پڑھا اور کھا: میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ تھا،جب میں نے مقام منیٰ میں چاررکعتی نماز کو دو رکعت پڑھا ،اسی طرح میں نے ابوبکر وعمر کے ساتھ بجائے چاررکعت کے دورکعت اداکی، کاش کہ آج بھی ہم دو رکعت نماز ہی ادا کرتے ۔
۳ ۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے :
عبد الله ابن مسعود اس بات کو نقل کر نے کے بعد” کہ ہم نے رسول ،ابو بکر و عمرکے زمانے میں دورکعت نماز پڑھی“ یہ جملہ بھی بیان کرتے ہیں:بعدمیں مسلمانوں کے سامنے اس سلسلے میں مختلف راستے پیش کردئے گئے، کاش کہ ان چار رکعتوں میں سے ہمیں وھی دورکعت نماز نصیب ہوتی تو کتنا بھتر تھا!!
((… ثم تفرقت بکم الطرق فیالیت حظی من اربع رکعات متقبلتان
))
تاریخ طبری کے مولف کھتے ہیں :
جب ۲۹ ہمیں عثمان نے حج بیت اللہ کیلئے لوگوں کے ساتھ شرکت کی تو منیٰ میں خیمہ نصب کیا یہ پھلا موقع تھا کہ عثمان کے ذریعہ منیٰ میں خیمے لگائے گئے۔
اس کے بعد صاحب تاریخ طبری کھتے ہیں :
واقدی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے: جب عثمان نے اپنی خلافت کے چھٹے سال میں بجائے قصر کے پوری نماز پڑھی جبکہ اپنی خلافت کے چار پانچ سال تک آپ بھی منیٰ میں چار رکعت نماز کو دو رکعت قصر پڑھتے تھے، تویھی پھلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں نے اعلانیہ طور پر ان پرتنقید اور اعتراض کرنا شروع کیا اور بعض لوگوں نے خود حضرت عثمان سے اس بارے میں بات بھی کی،یھاں تک حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: ” اے عثمان! ابھی عھد رسالت کو گزرے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ،تم خود منیٰ میں رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے ساتھ موجود تھے ،چنانچہ تم نے خود دیکھا کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
منیٰ میں قصر نمازپڑھتے تھے اور یھی حال ابوبکر وعمر کے زمانے میں رھا ، حتی کہ تم خود منیٰ میں ابھی تک چار رکعتی نمازوں کو دو رکعت قصر پڑھتے رہے، لیکن اب تمھیں ایسا کیاہوگیا کہ تم نے اس حکم میں تبدیلی کردی ؟!!آخر تمھیں کیا ہو گیا کہ اپنی روش کو تبدیل کردیا؟!!عثمان نے کھا : میں نے مصلحت اس میں پائی اور یہ میری ذاتی رائے تھی جس پر میں نے عمل کیا۔“”فقال : راٴی راٴ یته“ (قال الواقدی
)
ایک موازنہ اور نتیجہ گیری
یہ تھے دس عدد وہ مقامات جھاں خلفائے ثلاثہ نے نص صریح کے مقابل میں اپنی رائے کا اظھار کیا اور حکم خدا و رسول کی اعلانیہ مخالفت کی !!المختصر یہ کہ حصول خلافت اور اس کی پشت پناہی کے یھی علل و اسباب اور حقائق تھے کہ جو صحیحین میں نقل ہوئے ہیں ۔
قارئین کرام !یہ اتنے واضحا ورروشن حقائق تھے کہ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی بھی تسلیم کر نے پر مجبور ہوئے،چنانچہ ایک جگہ آپ حضرت علیعليهالسلام
اور دیگر خلفاء کے درمیان ایک موازنہ کرنے کے بعد اس طرح فرماتے ہیں :
” حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام رائے ،تدبیراور اجتماعی معاشرہ کو چلانے کے اعتبار سے تمام لوگوں کی نسبت بلند مقام کے حا مل تھے اور خلفائے ثلاثہ اس اعتبار سے آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے، کیونکہ حضرت علیعليهالسلام
ہی تھی نھوں نے خلیفہ دوم کی تمام مشکل -----امور میں مدد کی اور خصوصاً لشکر کشی کے بارے میں راهنمائی فرمائی،یہ علیعليهالسلام
ہی تھے جنھوں نے عثمان کو اپنی زرین نصیحتوں سے آگاہ کیا، اگر عثمان آپ کی نصیحتوں پر عمل کرتے تو کبھی بھی ان کے ساتھ قتل کا حا دثہ پیش نہ آتا۔“
اس کے بعد ابن ابی الحدید فرماتے ہیں :
”اگر چہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ علیعليهالسلام
ثاقب الرائے اور صحیح تدبیر نہ رکھتے تھے!!لیکن ان کے اس قول کی وجہ یہ ہے کہ علیعليهالسلام
تمام احکام کو نافذکرنے میں قانون الہٰی کو مد نظر رکھتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے کا م کو بھی حکم خدا کے خلاف نہیں کرسکتے تھے اور آپ کے لئے تصور ہی نہیں ہوسکتا کہ دائرہ اسلام سے خارج ہوں ،چنانچہ خو د حضرت علیعليهالسلام
کا فرمان ہے :
”اگر دین اور خوف ِخدا میرے پیش نظر نہ ہوتا تو میں دنیا ئے عرب کا زیرک ترین مرد ہوتا“
لیکن دیگر خلفاء اس محدودیت کے قائل نہیں تھے، بلکہ وہ آزاد انہ مصالحا لناس کو دیکھتے ہوئے اور اپنی مصلحت کو مد نظر رکھ کراقدام کرتے تھے اوروہ جس کام میں اپنی ترقی دیکھتے اس کو کرتے تھے چاہے یہ کام شرع کے مخالف ہو یا موافق انھیں احکام الہٰی کا کوئی پاس نہ تھا۔“
”وغیره من الخلفاء کان یعمل بمقتضی مایستصلحه ویستوقفه سواء کان موافقا للشرع ام لم یکن“
اس کے بعد ابن ابی الحدید اس طرح نتیجہ گیری کرتے ہیں :
”اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو شخص زمانہ کی مصلحتوں کو دیکھ کر اپنی رائے اور اجتھاد کے مطابق عمل کرے اور اسلامی قوانین و حدود کا خیال نہ کرتا ہو، جو کہ اس کی دنیاوی ترقی سے مانع ہو،تو اس کی دنیا وی حا لت منظم ،پیشرفت اور ترقی یافتہ ہوگی اور وہ اپنے دنیاوی اہداف ومقاصد تک بہ آسانی پهنچ جائے گا،کیوکہ وہ آزاد ہو کر عمل کررھا ہے، اس کے سامنے کوئی موانع نہیں ہیں ، لیکن جو شخص چند ضوابط ا ورحدود میں میں ہویعنی جس کی نظر میں احکام الہٰی کا احترام ملحوظ ہو، ا س کی دنیاوی حا لت ظاہراً ترقی نہیں کر سکتی، یھی حال امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ہے ۔
خاتمہ
صحیحین کی روشنی میں حضرت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
خدا کی پیشگوئیاں
وفات رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد مسلمانوں کا حال
آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں ان تمام حوادث وواقعات کی پیش گوئی فرمادی تھی جو آپ کے بعد مسلمانوں کے درمیان رونما ہونے والے تھے۔
منجملہ: بنی امیہ کی ظالمانہ حکومت و سلطنت
خارجیوں کا وجود میں آنا اورپھر ان کا حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے ھاتھوں قتل ہونا
نیزجناب عمار یاسر کا ایک باغی گروہ کے ذریعہ قتل ہونا وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ وہ تمام مختلف قسم کی تحریفات اور بدعتیں جو دین اسلام میں آئندہ وجود میں آ نے والی تھیں ان کی خبر اور مسلمانوں کے ایک گروہ کے اسلام سے مرتد اور منحرف ہونے کی آگاہی آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے مسلمانوں کو پھلے سے دیدی تھی اور اس بات پر اپنے عمیق تاسف اور شدید تاثرکا اظھار بھی فرمایاتھا، ان تمام واقعات کے شواہد صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں ۔
چنانچہ گزشتہ مباحث کی مناسبت سے بعض مسلمانوں کے ارتداد اور ان کی طرف سے دین اسلا م میں تحریف اور بدعت گزاری سے متعلق ذیل میں چند روا یات صحیحین سے نقل کرتے ہیں :
بعض صحا بہ کا وفا ت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد مرتد ہوجا نا!!
۱ ”سعید بن جبیر عن ابن عباس عن النبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
؛ قال:وان اناساً من اصحا بی یوخذ بهم ذات الشمال، فاقول:اٴصحا بی! اٴصحا بی! فیقول:انهم لم یزالوا مرتدین علی اعقابهم منذ فارقتهم ،فاقول:کما قال العبد الصالح: وکنت علیهم شهیداً ما دمت فيهم… “
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:
آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا: ایک گروہ میرے صحا بہ میں سے سمت شمال میں ہوگا
ان کی حمایت کی خاطر بارگاہ الہٰی میں عرض کروں گا ،میرے معبود یہ میرے صحا بہ ہیں یہ میرے صحا بہ ہیں ؟!خدا میریجواب میں کھے گا:اے میرے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
!تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹے پیر اپنے پرانے دین ِجاہلیت کی طرف پلٹ گئے تھے ،اس وقت میں نبدہ صالح عیسیعليهالسلام
کے قول کو دھراوں گا : میرے معبود! جب تک میں ان کے درمیان تھاان کے اعمال کا شاہد وناظر تھا ،لیکن جب مجھے تونے اپنی بارگاہ میں بلالیا ،تواب تو خود ہی ان کے اعمال کا مراقب وناظر ہے ،لہٰذا اگر ان پر عذاب نازل کرے گا تو میرا کچھ نہیں کیونکہ یہ تیرے بندے ہیں اگر تو ان کو معاف کر دے گا تو توُخدا ئے قوی و حکیم ہے ۔
صحیح مسلم میں جوحدیث مندرج ہے اس میں بجائے:
”انهم لم یزالوامرتدین
“جملہ ”انک لاتدری ما احدثوابعدک
“ آیا ہے:
خدا کھے گا:اے میرے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
!تجھے کیا معلوم انھوں نے تیری وفات کے بعد کیا کیا کرتوت کئے ؟!
صحیح بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں اَصحا بی کے بجائے ” اُصَیحا بی“کا لفظ استعمال ہوا ہے، جو عربی گرامر کے لحا ظ سے کمالِ محبت والفت یا شدیدتحقیر وتوھین پردلالت کرتا ہے،کیونکہ صیغہ تصغیر دونوں (محبت و توھین )کے لئے استعمال ہو تا ہے ،یعنی جن کے لئے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سفارش کریں گے ،وہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی نظر میں بیحد محبوب تھے ،یا پھر وہ آنحضرتصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے نزدیک بھت زیادہ حقیر تھیجن کے اخلاق وکردار سے آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
راضی نہ تھے اوررضایت کے بغیر آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے وفات پائی۔
۲ …”ابن ابی ملیکة؛قال:عن اسماء بنت ابی بکر؛قالت:قال النبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
:انیّ علیٰ الحوض حتی انظر من یرد علَّی منکم،وسیوخذ الناس دونی،فاقول:یارب منّی ومن امتی! فیقال:هل شعرت ماعملوابعدک؟والله ما برحوا یرجعون علیٰ اعقابهم،فکان ابن ابی ملیکة یقول:اللّٰهم انا نعوذبک ان نرجع علیٰ اعقابنا اونفتن فی دیننا “
ابن ابی ملیکہ اسماء بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں :
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
خدا نے فرمایا: میں روزمحشر حوض کوثر پر کھڑا ہو جاوں گاتاکہ ان لوگوں کو دیکھوںجو میرے پاس وارد ہوں گے ،لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گیجن کو میرے پاس سے پکڑلیا جائے گا،پس میں خد ا سے عرض کروں گا ،اے میرے پروردگار !یہ میرے خاص ا صحا ب اور میری امت سے ہیں ” فاقول یا رب منّی ومن امتی“ تو خدا کھے گا:(اے میرے حبیب)تمھیں نہیں معلوم تیرے بعد انھوں نے کیا کیا کرتوت کئے؟! قسم بخدا یہ اپنے آبائی دین جاہلیت کی طرف پلٹ گئے تھے!!
اورابن ملیکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کھا کرتے تھے : پروردگار ا! میں تیری پناہ چاہتا ہوںاس سے کہ میں اپنے پرانے دین کی طرف پلٹ جاوں ،یا اپنے دین میں محل آزمائش قرار پاوں ۔
جیساکہ ہم نے عرض کیا: اس حدیث کو بخاری نیجلد ۸ ۔ ۹ میں بھی تھوڑے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے چنانچہ ہم دونوں موارد کو ذیل میں نقل کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
۳…”عن ابی هریرة؛عن النبی؛
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قال:بینا اناقائم اذازُمرةٌ،حتّی،ٰاذا عرفتهم خرج رجل من بینی وبینهم، فقال: هلم، فقلت:این ؟قال: الیٰ الناروالله ،قلت وما شانٴهم؟ قال:انهم ارتدُّوابعدک علیٰ ادبارهم القهقرَیثم اذا زمرةحتیٰ ٰاذا عرفتهم،خرج رجل من بینی وبینهم فقال:هَلُمَّ ،قلت: این؟ قال: الیٰ النار والله ،قلت وماشاٴنُهم؟ قال انهم ارتدوا بعدک علیٰ ادبارهم القهقری…
۔.
ابو ھریرہ سے منقول ہے:
آنحضرت نے فرمایا :ایک روز میں نے خواب میں ایک گروہ کو دیکھا،جو میرے پاس لایا گیا ،جیسے ہی میں نے ان کو پہچانا تو ایک شخص ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ظاہر ہوااور ان لوگو ں سے کهنے لگا: جلدی آو میں نے کھا:انھیں کھاں لیجارھا ہے ؟کهنے لگا :قسم بخد اان کو جهنم (آتش)کی طرف لیجارھا ہوں، میں نے کھا:آخر انھوں نے کیا گناہ انجام دیا ہے ؟!کهنے لگا :یہ آپ کے بعد الٹے پاوں پیچھے پلٹ گئے تھے !!اس کے بعد رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے فرمایا:پھر دوسرا گروہ دیکھا جب میں نے ان کو پہچاناتو ایک شخص ہمارے اور ان کے درمیان سے نکلااوراس گروہ کو مخاطب قراردے کر کهنے لگا:جلدی آو ،جلدی آو، میں نے اس سے کھا :کھاں لیجارھاہے؟ وہ کھتا ہے : ان کو میں آگ (جهنم )کی طرف لیجارھاہوں ،تو میں نے کھا :آخر انھوںنے کیا گناہ انجام دیا ہے ؟ تو کهنے لگا: وہ آپ کے بعد الٹے پاوں پلٹ گئے تھے اور مذھب اسلام سے بالکل پھرگئے تھے۔
۴…” عن ابن شهاب عن ابن المسیب؛انه کان یحدِّث عن اصحا ب النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
؛ ان النبی
صلىاللهعليهوآلهوسلم
قال: یرد علی الحوض رجال من اصحا بی، فَیُحَلَّوونَ عنه، فاقول: یا رب اصحا بی؟ فیقول: انک لاعلم لک بما احدثوا بعدک، انهم ارتدوا علیٰ ٰادبارهم القهقری؟!!“
ابن مسیب سے مروی ہے:
صحا بہ کے ایک گروہ نے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے نقل کیا ہے : آپ نے فرمایا: میرے صحا بہ میں سے کچھ ایسے ہوں گیجو بروز محشر حوض کوثر پر وارد ہونا چاہیں گے،لیکن ان کوروک لیا جائے گا ، میں کہوں گا:میریمعبود! یہ میرے اصحا ب ہیں ان کو کیوں روکا جارھا ہے ؟! توخدا جواب دے گا :اے میرے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
! تم نہیں جانتے انھوں نے تمھارے بعد کیاکیاانجام دیا ؟!اے رسول !یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دین اسلام کو تمھارے بعد ترک کردیا اور اپنے آباء واجداد کے مذھب پر پلٹ گئے تھے ۔
____________________