خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں0%

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: امامت

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف: محمد صادق نجمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20449
ڈاؤنلوڈ: 4268

تبصرے:

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 17 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20449 / ڈاؤنلوڈ: 4268
سائز سائز سائز
خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

خلافت و امامت صحیحین کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

روزمحشراہل ِبدعت کاحشر !!

۱ …”عن سهل بن سعد؛قال النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( انی فَرَطُکم علی الحوض مَن مَرَّعَلَیَّ شَرِبَ ومن شرب لم یظماٴ ابدا لَیَرِدَنَّ عَلیَّ اقوام اعرفهم ویعرفوننی ثم یُحال بنیي وبینهم))قال ابوحا زم: فسمعنی النعمان بن ابی عیاش: فقال:هٰکذاسمعتَ من سهل؟ فقلت: نعم فقال:اشهد علیٰ ابی سعیدالخدری لسمعته وهویزیدفیها: فاقولُ:انهم منی؟فیقال: انک لا تدری ما احدثوا بعدک؟ فاقول سحقاً سحقاًلمن غیَّربعدی!! “

ابوحا زم سھل بن سعد سے نقل کرتے ہیں :

رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے فرمایا : میں تم سب سے پھلے حوض کوثر پر وارد ہوں گا اور جو بھی اس دن (روز قیامت) میرے پاس آئے گاوہ آب حوض کوثر سے سیراب ہو گااور جو حوض کوثر سے سیراب ہو جائے گا ،پھر اس کو کبھی تشنگی نہیں محسوس ہو گی ۔

اور بالتحقیق ایک گروہ ایسا واردھو گا جنھیں میں بھی پہچانتا ہو ں گااور وہ بھی مجھے پہچانتے ہوں گے،اس کے بعد میرے اور ان کے درمیان جدائی کردی جائے گی( یعنی وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیداراورحوضِ کوثر کی سیرابی سے محروم ہو جائیں گے) ابو حا زم( ناقل حدیث )کھتے ہیں : جب نعمان بن عیاش نے اس حدیث کو مجھ سے سنا تو پوچھنے لگا: کیا تونے خود سھل ابن سعد سے اس حدیث کو سناہے ؟

نعمان کھتے ہیں : میں نے کھا :ھاں میں نے خود اس حدیث کو سن کر تجھ سے نقل کیا ہے،تو ابن عیاش اس وقت کهنے لگے : میں خدا کو شاہد قرار دے کر کھتا ہوں: میں نے خود اس حدیث کو ابوسعید خدری سے سنا ہے اور وہ اس حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کرتے تھے:”رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت کهنے لگے:دور ہوجائیں رحمت خد ا سے،دور ہوجائیں رحمت خد ا سے وہ لوگ جنھوں نے میرے بعد دین اسلام میں تحریف وتبدیلی کی!!“( ۱۶۵ )

اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم دونوں نے نقل کیا ہے، (لیکن مسلم نے متعدد طرق و اسناد کے ساتھ اور ”لمن غیربعدی“کی جگہ”لمن بدل بعدی“ نقل کیا ہے۔)قسطلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

حدیث میں تغییر و تبدیلی سے مراد دین اورآئین اسلام کی تغییر وتبدیلی ہے کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نفرین ، لعنت اورپھٹکار اسی کے لئے مناسب ہیجو دین خدا میں تبدیلی کرے اور مرتد ہو جائے ،لیکن معصیت اور تغییر ِعمل کرنے والوں کے لئے لعنت اورپھٹکا ر کا استعمال درست نہیں ہے، کیونکہ جو لوگ گنہ گار ہوں گے ،ان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفاعت کے ذریعہ خدا وند عالم کی رحمت ِ واسعہ اور اس کا لطفِ عمیم شامل حال ہوگا ،لہٰذاحدیث میں جن لوگوں کی طرف اشارہ ہے ،وہ وھی افراد ہوسکتے ہیں جومرتدہوگئے ہوں،یھی لوگ رحمت پروردگار سے دورہوں گے ۔( ۱۶۶ )

۲ ۔امام مسلم نقل کرتے ہیں :

ایک روز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک قبرستان سے گزر ہوا توآپ نے اہل قبرستان کو سلام کیا” السلام علیکم دارقوم مومنین “اور فرمایا: انشاء اللہ میں بھی تم سے ملحق ہوں گا ،اس کے بعد فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو دیکھو ں ،اصحا ب نے عرض کیا: یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ فرمایا :نھیں تم میرے صحا بہ ہو، میرے بھائی ابھی تو پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں ،اصحا ب نیکھا: یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! وہ افراد جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے آپ ان کو کیسے پہچانتے ہیں ؟رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو شخص سفید پیشانی کا ایک اونٹ رکھتا ہوکیا، وہ سیا ہ پیشانی والے اونٹوں کے درمیان اپنے اُس اونٹ کو نہیں پہچان سکتا ؟!صحا بہ نے عرض کی: کیوں نہیں یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ! رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:میرے بھائی میدان محشر میں اس حا لت میں میرے پاس واردہوں گے کہ ان کی پیشانیاں وضوء کے اثر سے سفید اور نورانی ہوں گی اور ان سے پھلے میں حوض کوثر پر وارد ہوں گا ،پھر آپ نے فرمایا: آگاہ ہوجاو کہ ایک گروہ میرے پاس سے حوض کوثر پر روک دیا جائے گا، جیسے کہ ایک گم شدہ اونٹ کودوسرے گلہ میں وارد ہونے نہیں دیتے ، میں ان کو آواز دوں گا، میرے پاس آجاو،تو جواب دیا جائے گا: اے میرے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !تیرے بعد انھوں نے کیا کیا دین میں تغیرو تبدل کر دیا تھا تم نہیں جانتے؟!! میں ا س وقت کہوں گا: یہ رحمت خدا سے دور ہوں! رحمت خد ا سے دور ہوں!

((…الا لیذادن رجال عن حوضی کما یذادالبعیر الضال، انا دیهم الا هلم فیقال: انهم قد بدلوا بعد ک، فاقول سحق ا سحقا)) ( ۱۶۷ )

۳ …”عن ام سلمة زوجةالنبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انها قالت: کنت اسمع الناس یذکرون الحوض ولم اسمع ذالک من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه،… فقال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله :انی لکم فَرَطٌ علی الحوض فایا ی لایا ِتیَنَّ احد کم فیُذَبُّ عنی کما یُذَبُّ البعیرُ الضالُّ فاقول: فیم هذا؟ فیقال: انک لا تدری مااحد ثوابعدک؟! فا قول: سُحْقاً!!“

زوجہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ام سلمہ سے منقول ہے:

میں نے حوض کوثر کے سلسلے میں لوگوں سے بھت کچھ سن رکھا تھا، مگر کبھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ نہ سناتھا، اتفا قاً ایک روز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :اے لوگو ! میں تم سب سے پھلے حوض کوثر پر وارد ہوں گا، لہٰذا خبر دار !تم میں سے کوئی شخص ایسا ہوجو میرے پاس آئے تو وہ میرے پاس سے بحکم خدا دور کردیا جا ئے ،جس طرح گمشدہ اونٹ کو گلہ سے دور کردیتے ہیں اور پھر میں وھاں کہوں: آخر ان لوگوں کو میرے پاس سے کیوں دور کر دیا گیا ؟اور اس کیجواب میں مجھ سے کھا جائے: اے میرے رسول!صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم نہیں جانتے انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا بدعتیں اسلام میں بھر دیں تھیں ! اور پھر مجھے کهنا پڑے کہ تم رحمت خد ا سے دور ہوجا و کیونکہ تم مستحق لعنت ہو !!( ۱۶۸ )

بعض صحا بہ کا اعترافِ حقیقت

یہ تھیں چند روایتیں جو بعد وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ایک گروہ کے مرتد ہونے پر صحیحین میں منقول ہیں ، ان روایا ت میں بعض کلمات ایسے ہیں ، جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ افراد دنیا میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھت زیا دہ قریب اور خاص تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے بیحد الفت ومحبت کرتے تھے،مثلاً کلمہ ”اَصْحا بِیْ،اُصَیْحا بِیْ ،مِنِّی “ وغیرہ سے ان معانی کااستفادہ ہوتا ہے ۔

چنانچہ جن اصحا ب کی طرف روایت میں ارتداد کی نسبت دی گئی ہے، اُن کا بعض روایتوں میں اشارہ بھی ملتا ہے اور بعض کتابوں میں اس راز سے پردہ اٹھا یا گیا ہے،حتیٰ کہ خود اپنی زبان سے اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بطورنمونہ ہم ذیل میں دو حدیثیں نقل کرتے ہیں جو صحیح بخاری میں مندرج ہیں :

۱ ۔ امام بخاری نے علاء بن مسیب اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے:

جب میں نے براء بن عازب کو دیکھا تو اس کو جلیل القدر صحا بی ہونے کی مبارک باد پیش کی اور اس بات پر فخراور رشک کیا کہ اس نے درخت کے نیچے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ھاتھوں پر بیعت کی تھی اور برا ء کی اس بیعت اوررسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس کی قربت کواس کے لئے مایہ افتخار و مباہات جانا، تو براء بن عازب میرا افتخاریہ جملہ سن کر کهنے لگا:اے بھتیجے یہ جو کچھ تونے کھا وہ یقینا ًلائق ِصد افتخار ومباہات ہے،لیکن کیاکروں یہ ساری میری فضیلتیں رائیگاںھیں ،کیونکہ تو نہیں جانتا ہم نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد کیاکیابدعتیں اسلام میں داخل کردیں !!

فقال: یابن اخی انک لاتدری ما احدثنا بعده؟ !“( ۱۶۹ )

۲ ۔ امام بخاری نے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے :

جب عمر ابولو لو فیروزکے ھاتھوں زخمی ہوئے اوران کو اپنی موت کا یقین ہوگیا، تو وہ بھت زیادہ رونے پیٹنے لگے۔

ابن عباس نے تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرمایا:

اگر یہ زخم تیری موت کا سبب بن جائے تو کوئی گھبرانے کی بات نہیں ،کیونکہ تیری زندگی مصاحبت رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وجہ سے لائق صد افتخار ہے اوررسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تجھ سے راضی تھے، ابوبکر بھی تم سے راضی تھے اور مسلمانوں کے ساتھ آپ نے ایسا برتاوکیا کہ بظاہر مسلمان بھی آپ کے کردار واخلاق کی وجہ سے راضی وخوش ہیں،تو پھر آپ اس قدر کیوں رو رہے ہیں ؟!! عمر نے جواباً کھا :

اماماتراه من جزعی فهو من اجلک واجل اصحا بک، واللّٰه لوان لی طلاع الارض ذهباً لافتدیت به من عذاب اللّٰه عز وجل قبل ان اراه “۔( ۱۷۰ )

اے ابن عباس! جو کچھ تم نے کھا وہ اپنی جگہ واقعاً صحیح ودرست ہے ،مگر جس وجہ سے تم مجھے حیران و پریشان دیکھ رہے ہو، وہ تمھاری او رتمھارے خاندان کی وجہ سے ہے،قسم بخدا میں آرزو کرتا ہوں کہ یہ سارا کرہ ارض سونا بن جاتا اور میں وہ سب راہ خدا میں سخاوت کر دیتا، قبل اس کے کہ عذاب خدا میرے اوپر نازل ہوتا!!

والحمد للّٰه رب العالمین وصلی اللّٰه علی محمد واهل بیته الذین بهم تمت الکلمة وعظمت النعمة، اللّٰهم احشرنا فی زمرة المتمسکین بهم واللّائذین بفنائهم (آمین رب العالمین )

مولف :۔ محمد صادق نجمی: ۴ جمادی الثانی ۱۳۹۶ ھ، بروز سہ شنبہ سہ پھر

مترجم: ۔ محمد منیر خان ابن شہزاد علی خان مرحوم

۱۵ مارچ ۱۹۹۷ ء ،گرام و پو سٹ بڑھیاّ ،ضلع کھیری لکھیم پور ، یوپی ،هندوستان،مقیم حال قم ۔ایران۔