پہلی فصل
تعریف معاد اور اس عقیدہ کے آثار و فوائد
پہلی بحث: معاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی
معاد کے لغوی معنی:
ہر چیز کا اپنے مقصد او رانتھاکی طرف پلٹنا، اور یہ ”عادالیہ “ کا مصدرھے جس طرح کھاجاتا ھے: ”یعود عوداً وعودةً ومعاداً“ یعنی اس کی طرف رجوع کیا اور اس کی طرف پہنچ گیا، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:
(
کَمَا بَدَاٴَکُمْ تَعُودُونَ
)
”جس طرح اس نے تمھیں شروع (شروع) میں پیدا کیا تھا اسی طرح پھر (دوبارہ) زندہ کئے (اور لوٹائے) جاوگے۔ “
اور یہ بنفسہ متعدی
بھی ھوجاتا ھے،اور ھمزہ کے ذریعہ بھی متعدی بناتے ھیں، یعنی باب افعال میں لے جاکر متعدی بناتے ھیںجیسے: ”عاد الشیءَ عوداً وعِیادا
“، ”واعدتُ الشیء “یعنی میں نے اس کو دوبارہ بنادیا، یا اس کو دوبارہ پلٹادیا۔ جیسا کہ خداوندعالم کا قول ھے:
(
ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا
)
”پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا“۔
معاد کی اصل ”مَعْود“ بر وزن ”مَفْعل“ھے جس کے واو کو الف سے بدل دیا گیا، اس کی بہت سی مثالیں بھی ھیں جیسے مقام اور مراح،جس کو حضرت امیر المومنین علیہ الصلاة والسلام نے ایک حدیث کے ضمن میں بیان فرمایا ھے:
”والحکم الله والمعود الیه القیامة
“۔
”مَفْعل“ اور اس سے مشتق بمعنی عَودمصدر صحیح میں استعمال ھوتا ھے،اور معاد (عود) اسم زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ھوتا ھے جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
(
إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ
)
”(اے رسول خدا ) جس نے تم پر قرآن نازل کیا ضرور ٹھکا نے تک پہنچا دے گا“۔
اور جیسا کہ حدیث میں وارد ھوا ھے:
”’واصلح لی آخرتی التی فیھامعاد ي“۔
”(پالنے والے میری آخرت کی اصلاح فرما، جہاں مجھے پلٹ کر جانا ھے“۔
”مبدی المعید“ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ھے ، کیونکہ خداوندعالم نے تمام مخلوقات کو زندگی دی اس کے بعد ان کو موت دے گا اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:
(
وَهُوَ الَّذِی یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَهُوَ اٴَهْوَنُ عَلَیْهِ
)
”اور وہ ایسا (قادر مطلق) ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ھے پھر دوبارہ(قیامت کے دن )پیدا کرے گااور یہ اس پر بہت آسان ھے“۔
معاد کے اصطلاحی معنی:
معاد کے اصطلاحی معنی : خداوندعالم کا تمام چیزوں کو مرنے اور ان کے اجزاء بکھرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ھے۔
معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ھے: ”فنا کے بعد دوبارہ وجود کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ھونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ھونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا
لیکن آیا معاد فقط روحانی ھے یا جسمانی اس میں اختلاف ھے، بعض فلاسفہ کے نظریہ کے مطابق معاد صرف روحانی ھے ،چونکہ ان کی نظر میں ایک قاعدہ عقلی ھے کہ ”إن المعدوم لا یعاد
“ (جو چیز ختم ھوگئی وہ دوبارہ پلٹ نھیں سکتی)لہٰذا جب جسم موت کی وجہ سے معدوم ھوگیا تو پھر اس کا پلٹا ناممکن نھیں، لہٰذا یہ لوگ کہتے ھیں کہ معاد صرف روح سے متعلق ھے کیونکہ روح فنا نھیں ھوتی، (بلکہ روح باقی رہتی ھے)
لیکن جسمانی معاد کے معتقد حضرات تقریباً تمام ھی مسلمین، متکلمین، فقہاء ،اہل حدیث اور صوفی حضرات کا یہ نظریہ ھے کہ روز قیامت اسی جسم کے ساتھ پلٹائے جائیں گے، جیسا کہ خداوندعالم نے بھی بیان کیا ھے۔
البتہ ان لوگوں نے روح کی بازگشت اور اس کے ٹھکانے کے بارے میں اختلاف کیا ھے، اور اس اختلاف کا سبب خود روح کے سلسلہ میں پائی جانے والی تفسیر اور اس کے معنی ھیں چنانچہ ان میں سے ایک گروہ یہ کہتا ھے کہ روح بھی ایک جسم ھوتا ھے جو انسان کے بدن میں جاری وساری ھوتا ھے جیسے کوئلہ میں آگ اور دریا میں پانی، چنانچہ ان کی نظر میں معاد جسم و روح سے متعلق ھے جس کو جسمانی معاد کھاجاتا ھے۔ دوسرا گروہ جس میں بہت سے بزرگ حکماء ، عظیم الشان علماء کلام وعرفان ھیں، جو کہتے ھیں کہ روح مجرد ھے لیکن یہ روح روز قیامت جسم میں پلٹ جائے گی، ان کے نزدیک یہ معاد جسمانی اور روحانی ھے، چنانچہ اس بنا پر معاد کے سلسلہ میں تین نظریے قائم ھوتے ھیں:
۱ ۔ معاد روحانی۔
۲ ۔ معاد جسمانی۔
۳ ۔ معاد جسمانی و روحانی۔
دوسری بحث: عقیدہ معاد کے آثار
عقیدہ معاد پر مرتب ھونے والے آثار کو بیان کرنے سے پہلے ھم یہ بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ خداوندعالم نے یوم آخرت پر عقیدہ رکھنا ھمارے اوپر فرض نھیں کیا ھے، اسی طرح جو حساب و کتاب میں دقیق باتیں ھیں اور جو اعمال کے نتائج ظاہر ھوں گے، اس کے بارے میں ھم پر اعتقاد فرض نھیں ھے اسی طرح دنیا میں شر و فساد کے ردع کرنے کے وسائل کے بارے میں اعتقاد رکھنا یا عمل خیر و شر کی طرف ترغیب کے بارے میں اعتقاد ھمارے اوپر فرض نھیں ھے بلکہ خداوندمتعال نے اعتقاد بالمعاد اس لئے فرض کیا ھے کہ یہ ایک ثابت حقیقت ھے اور اس کا وجود واقعی ھے لہٰذا ایمان بالمعاد ایک امر واقع پر ایمان و اعتقاد رکھنا ھے اور ایک حتمی و ضروری قضا کے سامنے تسلیم ھونا ھے۔
جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:
(
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لاَتَاٴْتِینَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ عَالِمِ الْغَیْبِ لاَیَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الْاٴَرْضِ وَلَااٴَصْغَرُ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرُ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ
)
”اور کفار کہتے ھیں کہ قیامت آنے والی نھیں ھے، تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم !وہ ضرور آئے گی ، وہ عالم الغیب ھے ،اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ دور نھیں ھے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا، بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب (لوح محفوظ) میں محفوظ ھے۔ “
لیکن روز قیامت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے پیدا ھونے والے آثارو فوائد جیسے شریعت کے احکام سے واقف ھونا اور اس کے احکام و قوانین کے مطابق عمل کرنا(اور جو آثار شریعت کی پیروی سے پیدا ھوتے ھیں مثلاً انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں صالح اور دیندار بن جاتا ھے، اخلاق و تہذیب کے میدان میں نیک کردار ھوجاتا ھے، نفسیاتی طور پر اس میں نیک سیرت اور اچھائی پیدا ھوتی ھے اور احکام خداوندی پر عمل کرنے سے اس کے فضل و کمال پیدا ھوجاتا ھے وغیرہ وغیرہ، ) یہ ساری چیزیں اعتقاد بالمعاد کی فرع ھیں یعنی اول اعتقاد بالمعاد ھوگا تب یہ ساری چیزیں پیدا ھوسکتی ھیں، قارئین کرام! ھم یہاں پر ان اھم آثار و فوائد کی طرف اشارہ کرتے ھیں:
۱ ۔انسانی زندگی پر معاد کے آثارو فوائد
قارئین کرام ! یہ بات ظاہر ھے کہ انسانی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت کے پیش نظر بعثت انبیاء ضروری ھے اور یہ اسی صورت میں کارساز ھوسکتی ھے کہ جب اس ہدایت کو نافذ کرنے والی ایک بہترین قدرت ان کے پاس ھو، تاکہ انسان ان کی اطاعت و فرماں برداری کرے ، یہ الٰھی تعلیمات و احکام انسان کو آمادہ کردیتی ھیں جس کی وجہ سے انسان ہدایت و راہنمائی کے ساحل پر پہنچ جاتا ھے، بغیر اس کے کہ اس کی ذرہ برابر بھی مخالفت اور تجاوز کرے، لیکن اگر وہ قوت او رقدرت نہ ھو تو پھر یہ تعلیمات اور احکام صرف موعظہ بن کر رہ جائیں گے، جس کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور انسانی زندگی میں بے اثر ھوجاتی ھے۔
جب ھم بعض دنیاوی قوانین کو دیکھتے ھیں (جیسے سزائے موت، عمر قید، پھانسی اور جلا وطن کرنا وغیرہ) تو نفس پر کنٹرول کرتے ھیں اور یہ قوانین نیک اور اچھے کاموں کی طرف ہدایت کرتے ھیں، لیکن ھم خارج میں دیکھتے ھیں کہ یہ قوانین انفرادی و اجتماعی شرّ و فساد کو بالکل ختم کرنے میں ناکافی ھیںاور نہ ھی ان کے ذریعہ انسانی انفرادی یا اجتماعی سعادت و کمال کا حصول ممکن نھیں۔
یہ قوانین اس بنا پر معاشرہ سے شر و فساد کوختم کرنے میں ناکافی ھیں کہ قوانین جہاں مجرمین و اشرار کو بڑی سے بڑی سزا دینے میں کفایت کرتے ھیں وھیں پر جب سیاسی حضرات کی باری آتی ھے تو ان قوانین پر عمل نھیں ھوتا، حکام وقت اپنے خود ساختہ قوانین کے سایہ میں لوگوں کا مال ہضم کرتے ھوئے نظر آتے ھیں۔
اس کے بعد یہ بات بھی واضح ھے کہ انسان کی زندگی میں ظاہری اسباب بھی موثر ھوتے ھیں جیسا کہ اکثر حکومتوں میں سزائی قوانین مرتب کئے جاتے ھیں، اور یہ قوانین اس حکومت کی طاقت کے زور پر نافذ کئے جاتے ھیں ، لیکن اگر کسی حکومت میں قوانین نافذ کرنے کی طاقت ھی نہ ھو تو اس ملک میں بدامنی اور فساد پھیل جاتاھے اور پھر ان قوانین کی کوئی اھمیت باقی نھیں رہتی، اور نہ ھی ان قوانین سے کسی کو خوف و وحشت ھوتی ھے اور نہ ھی کوئی ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ھے۔
لہٰذا جب ھم نے یہ بات مان لی کہ قوانین ھی کے ذریعہ مجرمین کی تعداد کم کی جاسکتی ھے، اور انھیں قوانین کے ماتحت حکومت چل سکتی ھے، لیکن کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ھیں جہاں پر انسان تنہائی کے عالم میں ھوتا ھے اور وہاں پر اس حکومت کی رسائی نھیں ھوتی اور نہ ھی وہاں تک قانون کی رسائی ھوتی ھے اور ان شاذ و نادر جرائم کو حکومت فاش نھیں کرپاتی ، مثلاً انسان نفسانی شھوات کا شکار ھوجائے اور اس پر سوار شیطان ھوجائے:
(
وَیُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُضِلَّهُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا
)
”اور شیطان تو یہ چاہتا ھے کہ انھیں بہکا کے بہت دور لے جائے “۔
(
إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُبِینًا
)
”کیونکہ شیطان تو ایسی ھی باتوں سے فساد ڈلواتا ھے اس میں شک ھی نھیں کہ شیطان آدمی کا کھلا ھوا دشمن ھے“۔
اگر کوئی شخص کھے: ایک کافر و ملحد بھی کبھی کبھی صاحب فضیلت ھوتا ھے تو یہ اس کی ظاہری فضیلت ھوتی ھے،جس کی بنیاد نفسانی اصول نھیں ھوتے ھیں، ان کے اندر یہ اچھائیاں معاشرہ کے خوف کی وجہ سے پیدا ھوتی ھیں، یا حکومتی قوانین کے خوف سے پیدا ھوتی ھیں، چنانچہ اگر یہ دونوں چیزیں سامنے نہ ھوں اور وہ آزاد ھوں، تو پھر وہ کسی بھی طرح کے اخلاق کی رعایت نھیں کریں گے ، کسی کی بے عزتی کریں گے اور کسی کا مال لوٹیں گے، یا دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ھوں گے، کیونکہ جب نفس پر شھوت کاغلبہ ھوجاتا ھے تو پھر وہ کسی بھی برائی سے پرھیز نھیں کرتا اور برائی میں غرق ھوتا ھوا نظر آتا ھے، پس یہ فضیلت اس شخص میں کیسے جلوہ گر ھوسکتی ھے جو اپنے کو فانی حیوان سمجھتا ھے؟
لہٰذا حکومت کی طرف سے بنائے گئے قوانین یہاں تک کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض افراد کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ھے تاکہ وہ موجودہ شرائط کے ساتھ اپنی زندگی آرام سے گزار سکےں، اور یھی انسان کا کردار معاشرہ میں اثرانداز ھوجاتا ھے جس کی بنا پر انسان دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ھے۔
پس مذکورہ باتوں کے پیش نظر انسان کے اندر ایسے اندرونی اسباب ھوتے ھیں اور اس کا ضمیر اور وجدان ھوتا ھے جو انسان کے کرد ار کو سنوارتا ھے اور یھی انسان کا ضمیر اس کے سفر و حضر اور خلوت و بزم میں ادارہ کرتا ھے، اور چونکہ انسان کی روح اس کو اپنے اختیار میں رکھتی ھے، کیونکہ روح ایک بلند اور عالی حقیقت ھے جو انسان کو کمال و بلندی کی طرف لے جاتی ھے، لیکن کبھی کبھی انسان اپنے جسم کے لئے روح کو حاکم بنادیتا ھے کیونکہ یہ ایک مشکل کام ھے اور اس میں بہت زیادہ روحانی ریاضت کی ضرورت ھے، یہ وہ کام ھے جس کو اس شخص کے علاوہ اور کوئی انجام نھیں دے سکتا جو نفس اور روح کے ھمیشہ ھمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ رکھتا ھو، اور یھی اعتقاد انسان کے ضمیر کو نیک اور اچھے کاموں کے لئے ابھارتا ھے، تاکہ اس کو آخرت میں ثواب مل سکے، اسی طرح یھی عقیدہ انسان کو ھوائے نفس کی اطاعت اور آخرت کے عذاب کے خوف کی بنا پر گناھوں اور برے کاموں سے روکتا ھے۔
یہ اس لئے ھے کہ انسان کا ضمیر برائیوں پر ملامت اور سرزنش تو کرسکتا ھے لیکن اس کو عذاب نھیں دے سکتا، اسی طرح انسان کا ضمیر اس کو وعظ و نصیحت کرتا ھے لیکن کبھی بھی اس کے لئے توجیہ نھیں کرسکتا، کیونکہ انسان ھوائے نفس کے مقابلہ میں کوئی نفع و نقصان نھیں پہنچاسکتا، اور جب اس کا غلبہ ھوجاتا ھے تو اس کو ناکارہ بنادیتا ھے اور پھر انسان لوگوں کی نگاھوں سے بچ کر جو چاہتاھے وہ انجام دیتا ھے۔
لہٰذا جب ایک طرف سے حکومتی قوانین اور معاشرہ انسان کو برائیوں سے روکنے والا ھے اور دوسری طرف خود انسان کا ضمیر اندر سے انسان کو برائیوں سے روکتا ھے تو یہ دونوں چیزیں قدر معین کی طرف ہدایت کرتی ھیں، اور خداوندعالم وروز قیامت پر ایمان کے ذریعہ ان دونوں کے درمیان اتفاق قائم کردیتا ھے، جس کے ذریعہ انسانی نفس میں قول و عمل میں دشمن کے رقیب ھونے کی بنا پر تربیت اخلاقی ھوجاتی ھے، اور کوئی بھی بندہ مومن اپنے رقیب و دشمن سے فرار نھیں کرسکتا چونکہ خداوندعالم ہر چیز پر محیط ھے اور رگ گردن سے زیادہ قریب ھے، ظاہری اور باطنی چیزوں کو جانتا ھے، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کا حساب کرنے والا ھے، کوئی بھی ذرہ اس سے مخفی نھیں ھے، اسی وجہ سے بندہ مومن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ھونا چاہئے، خدا کے عقاب سے ڈرنا چاہئے، یہاں تک کہ اگر بندہ لوگوں کی نظروں سے چھپ کر بھی کوئی کام انجام دیتا ھے تو خود اس کے نفس سے جواب طلب ھوگا، چاھے قانون اور حکومت کی سزا سے محفوظ رھے، کیونکہ حکم خدا اور اس کی حکومت سے فرار ممکن نھیں ھے۔
جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ھے کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت میں آکر کہا: میں ایک عاصی اور گناہگار شخص ھوں، اور گناھوں پر صبر بھی نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھ کو نصیحت فرمائےے اس وقت امام علیہ السلام نے نصیحت فرمائی:
”افعل خمسة اٴشیاء و اذنب ما شئت، فاٴول ذلک: لا تاٴکل رزق الله، و اذنب ما شئت، والثانی: اخرج من ولایة الله، و اذنب ما شئت، والثالث: اطلب موضعاً لایراک فیه الله،و اذنب ما شئت، والرابع: إذا جاء ملک الموت لیقبض روحک فادفعه عن نفسک،و اذنب ما شئت، والخامس: إذا اٴدخلک مالک في النار فلاتدخل النار، و اذنب ما شئت
“۔
”پانچ کام انجام دینے کی طاقت حاصل کرلو اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو،پہلی: خداوندعالم کا عطا کردہ رزق نہ کھاؤ،اس کے بعد جو چاھو گناہ کرو، دوسری: خدا کی ولایت و حکومت سے نکل جاؤ پھر جو چاھو گناہ کرو،تیسری: کوئی ایسی جگہ تلاش کرلو جہاں پر خدا نہ دیکھ سکے، پھر جو چاھو گناہ کرو، چوتھی: جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئے تو اس کو روح قبض نہ کرنے دینا، پھر جو چاھو گناہ کرو، پانچویں: جب داروغہ دوزخ تمھیں آتش جہنم میں ڈالنا چاھے تو داخل نہ ھونے کی قدرت حاصل کرلو ، پھر جو چاھو گناہ کرو،“۔
پس ایک بندہ مومن کا اعتقاد یہ ھونا چاہئے کہ ہر چیز خداوندعالم کے ارادہ اور حکومت کے تابع ھے، اس کی ولایت کے ما تحت ھے، خداوندعالم انسان کے ہر ہر اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا ھے، ان تمام چیزوں سے باخبر ھے جو انسان کے دل میں پیدا اورخطور کرتی ھیں، یھی وہ اعمال ھیں جو انسان کے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے لئے اس کے ساتھی ھوں گے، اور انھیں اعمال کی بنیاد پر ثواب و عقاب دیا جائے گا، ان کے علاوہ اور کوئی چیز کام آنے والی نھیں ھے۔
حضرت رسول اکرم کا ارشاد گرامی ھے:
”یتبع المرء ثلاثة: اٴهله و ماله و عمله، فیرجع اثنان و یبقی واحد، یرجع اٴهله و ماله و یبقی عمله
“۔
روز قیامت پر ایمان کے نتائج میں سے یہ ھیں: انسان اس بات پر عقیدہ رکھے کہ ھم لوگ آنے والی چیزوں کے مقروض اور گزشتہ چیزوں کے مرھون منت ھیں، ایک روز آنے والا ھے جس دن اس خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونا ھے جو حساب و کتاب کرنے والا ھے اور اس سے چھوٹی سی چیز بھی مخفی نھیں ھے، تمام لوگوں سے ان کے اعمال، افعال اور مخفی ہر خیر و شرّکے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور اسی لحاظ سے جزا اور سزا دی جائے گی،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
(
وَلاَتَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْهَا وَلاَتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْرَی
)
”اور جو شخص کوئی برا کام کرتا ھے اس کا وبال اسی پر ھے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نھیں اٹھا ئےگا “۔
نیز ارشاد فرماتا ھے:
(
کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِینَةٌ
)
”ہر شخص اپنے اعمال کے بد لے گرو ھے“۔
پس فضائل اور برائیوں کا معیار و مقیاس انسان کے اعمال ھیں، اور یھی اعمال خدا کی رحمت سے نزدیک اور دور ھونے کی بنیاد ھےں، کیونکہ روز قیامت انسان کی شکل و صورت دیکھ کر حساب و کتاب نھیں کیا جائے گا، نہ ھی حسب و نسب کے لحاظ سے، نہ ھی تجارت وکثرت اولاد اور کثرت مال کو مد نظر رکھ کر حساب و کتاب کیا جائے گا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:
(
فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاٴَنسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَیَتَسَاءَ لُون. فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ فَاٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ فِی جَهَنَّمَ خَالِدُونَ
)
”پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رھیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے،پھر جن (کی نیکیوں)کے پلے بھاری ھوں گے تو یھی لوگ کامیاب ھوں گے اور جن (کی نیکیوں )کے پلے ہلکے ھوں گے تو یھی لوگ ھیں جنھوں نے اپنا آپ کو نقصان پہنچایا، وہ ھمیشہ جہنم میں رھیں گے“۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ھے:
(
لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اٴَمْوَالُهُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُهُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا
)
”ان کو خدا (کے عذاب)سے نہ ان کے مال ھی کچھ بچائیں گے،نہ ان کی اولاد (کچھ کام آئے گی)“۔
(
لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اٴَمْوَالُهُمْ وَلاَاٴَوْلاَدُهُمْ مِنْ اللهِ شَیْئًا
)
”خدا (کے عذاب )سے بچانے میں ہرگز نہ ان کے مال ھی کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد“۔
نیز ارشاد فرماتا ھے:
(
وَمَا یُغْنِی عَنْهُ مَالُهُ اِذَا تَرَدَّیٰٓ
)
”اور جب وہ ہلاک ھوگا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا “۔
حضرت رسول اکرم (ص)کا ارشاد گرامی ھے:
”ان الله لا ینظر الی صورکم ،ولا الی اموالکم ،ولکن ینظر الی قلوبکم و اعمالکم
“۔
”خداوندعالم تمہاری شکل و صورت اور تمہارے مال و اولاد کو نھیں دیکھے گا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کے (لحاظ سے حساب و کتاب کرے گا“)۔
قارئین کرام! یہ قیامت کے عقیدہ سے پیدا ھونے والے بعض آثار ھیں، اور یھی عقیدہ انسان کے اندر زہد و تقویٰ پیدا کرتا ھے ،خدا کی حرام کردہ چیزوں سے دور کرتاھے، اورانسان گناھوں کے ارتکاب سے پہلے اکثر مردد اور پریشان ھوتا ھے، اس کا ضمیر جس کا قیامت پر ایمان ھے اس کو روکتا ھے، اور اس کا ضمیر جو اعمال کے بارے میں رقیب پر یقین رکھتا ھے، بغیر اس کے قانون اور حکومت کا اس کو کوئی خوف ھو۔
لہٰذا معلوم ھوا کہ قیامت کا اعتقاد انسان کی انفرادی اورمعاشرتی زندگی پر موثرھے، کیونکہ قیامت پر ایمان رکھنے والا شخص قرآن کریم اور سنت نبوی (ص)سے تمسک رکھتا ھے ،جیسا کہ قرآن اور سنت نبوی میں زندگی بسر کرنے کا طریقہ بتایا گیا اسی لئے وہ ہر صاحب حق کے حق کوادا کرتا ھے، ہر کام کرتے وقت اس کو ذمہ داری اور فرض کا احساس ھوتا ھے، اور دوسروں کے حقوق پر زیادتی کو ظلم سمجھتا ھے، لہٰذا ان پر ظلم و ستم روا کرنے سے پرھیز کرتا ھے، جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی ھے:
”بئس الزاد الی المعاد العدوان علی العباد
“۔
”روز قیامت کے لئے بدترین زاد سفر بندگان خدا پر ظلم ھے“۔
نیز آپ کا ارشاد ھے:
”لا یومن بالمعاد من لایتحرّج عن ظلم العباد
“۔
”جو شخص روز قیامت پر ایمان نھیں رکھتا وہ بندگان خدا پر ظلم سے باز نھیں آتا“۔
ایک دوسری جگہ آپ فرماتے ھیں:
”والله لان ابیت علی حسک السعدان مسهد ا ،او اجر فی الاغلال مصفد ا ،احب الی من ان القی الله و رسوله یوم القیامة ظالما لبعض العباد،و غاصبا لشیء من الحطام، وکیف اظلم احداً لنفسٍ یسرع الی البلی قفولها ،و یطول فی الثری حلولها؟!
“۔
” خدا گواہ ھے کہ میرے سعدان کی خاردار جھاڑی پر جاگ کر رات گزار لینا یا زنجیروں میں قید ھوکر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ھے کہ میں روز قیامت پروردگار سے اس عالم میں ملاقات کرو ںکہ کسی بندہ پر ظلم کیا ھویا دنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ھو، بھلا میں کسی شخص پر اس نفس کے لئے کس طرح ظلم کروںگا جو بہت جلد فنا کی طرف پلٹنے والا ھے اور زمین کے اندر بہت دنوں رہنے والا ھے۔۔۔“۔
قارئین کرام! اسلام نے آخرت کے لئے بہترین زاد راہ ”تقویٰ“ کو قرار دینے پر زور دیا ھے، تاکہ انسان اسی تقویٰ کے ذریعہ خیانت اور دوسری برائیوں سے دور رھے، اور انفرادی و معاشرتی اصلاح کے لئے قدم بڑھائے۔
حضرات ائمہ طاہرین علیھم السلام نے مسلمانوں کو اسی راستہ کی ہدایت کی ھے، جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
””کان امیر المومنین علیه السلام بالکوفه ،اذا صلی بالناس العشاء الاخرة ینادی بالناس ثلاث مرات، حتی یسمع اهل المسجد :ایها الناس ،تجهزوا یرحمکم الله ،فقد نودی فیکم بالرحیل ،فما التعرج علی الدنیا بعد النداء فیها بالرحیل ؟!تجهزوا رحمکم الله ،و انتقلوا بافضل ما بحضر تکم من الزاد ،وهو التقوی
“۔
”حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کوفہ میں تشریف فرما تھے، نماز عشاء پڑھنے کے بعد لوگوں کو تین مرتبہ یہ پیغام دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تمام اہل مسجد اس کو سنتے تھے، اے لوگو! اپنے کو آمادہ کرلو، خدا تم لوگوں پر رحم کرے، تمھیں سفر پر جانا ھے، لہٰذا جب تمھیں (آخرت کے) سفر پر جانا ھے تو پھر دنیا داری کیسی، آمادہ ھوجاؤ ، خدا تم پر رحم کرے، اور تم لوگ وہاں کے لئے بہترین زادہ راہ اختیار کرو اور وہ تقویٰ (الٰھی) ھے۔۔۔“۔
یھی قیامت کا اعتقاد حقوق الناس کی ادائیگی میں مدد کرتا ھے اور انسان اصول و فرض کی بنا پر اپنی زندگی گزارتا ھے، جس میں انصاف، صداقت اور امانت سے کام لیتاھے، جیسا کہ خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:
(
وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِینَ الَّذِیْنَ اِذَا اَکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا کَالُوهُمّ اٴَوْوَّزَنُوهُمْ یُخْسِرُوْنَ اٴَلاَیَظُنُّ اٴُوْلَئِکَ اٴَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیِوْمٍ عَظِیمٍ
)
”ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی خرابی ھے،جو اوروں سے ناپ کرلیں تو پورا پورا لیں،اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں کیا یہ لوگ اتنا بھی خیال نھیں کرتے کہ ایک بڑے(سخت )دن (قیامت)میں اٹھائے جائیں گے“۔
اسلام نے اس بات پر بہت زور دیا ھے کہ جب انسان اس دنیا سے چلا جاتا ھے، تو اس کو کوئی چیز فائدہ نھیں پہنچاسکتی مگر یہ کہ نیک اولاد اور سنت حسنہ جس پر اس کی موت کے بعد عمل ھوتا ھے اور انسان کے عمل صالح اور دوسروں کے ساتھ نیکی اور احسان۔
حضرت صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:
”لیس یتبع المومن بعد موته من الاجرإلا ثلاث خصال :صدقة اجراها فی حیاته فهی تجری بعد موته، و سنة هو سنها فهی یعمل بها بعد موته ،او ولد صالح یدعوله
“۔
”مومن کے مرنے کے بعد تین چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز کام نھیں آئے گی : وہ صدقہ جاریہ جو اس نے اپنی زندگی میں کیا ھو ، تو وہ اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ھے، اور وہ سنت حسنہ جس کی بنیاد اس نے اپنی زندگی میں رکھی ھو اور اس پر عمل کیا جارھاھو، یا نیک اولاد جو اس کے لئے کار خیر انجام دیتی ھےں۔
اس حدیث پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ انسان کو اپنی اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے، اور ایسے کارنامے انجام دینا چاہئے جن ثواب سے موت کے بعد بھی فیضیاب ھوتا رھے۔
اس بنا پر روز قیامت اور روز حساب پر ایمان رکھنے سے انسان ایسے اعتقاد ات پر یقین حاصل کرلیتا ھے جو نتیجہ کے لحاظ سے بااھمیت اور واضح نتائج کے حامل ھوں ،تاکہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو صحیح طور پرمنظم کرسکے اور اپنے کردار کو انسانی اغراض و مقاصد کے لحاظ سے مرتب کرے ، یعنی ہر طرح کے ظلم و ستم، قتل و غارت گری اور فساد و برائی سے دور رھے جیسا کہ آج کی دنیا میں ہر طرف ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کا دور دورہ ھے۔
( یھی وہ جگہ ھے کہ جہاں پر بے دین اور روز قیامت پر ایمان نہ رکھنے والے افراد مجبور ھوکر اس بات کا وضاحت کے ساتھ اعلان کرتے ھوئے نظر آتے ھیں کہ انسان کی زندگی کو ظلم و ستم سے بچانے اور حق و عدل اور انصاف سے زندگی گزارنے کے لئے قیامت کے عقیدہ کے علاوہ اور کوئی چیز نھیں ھوسکتی، جیسا کہ ”کانٹ“ اور ”فولٹر “وغیرہ نے اس کا اعتراف کیا ھے)۔
۲ ۔ انسانی زندگی پر قیامت کااثر
بے شک اللہ اور روز قیامت پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کوتیار اور محفوظ رکھتا ھے، کیونکہ یہ عقیدہ انسانی نفس میں ایک ایسی طاقت بخشتا ھے جو خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرتی ھے، اور اس دنیا میں دھوکہ دینے والی چیزوں سے محفوظ رہتا ھے اور عقیدہ معاد انسان کے لئے ایسی سپر ھے جس کی وجہ سے انسان خواہشات نفسانی ،دنیاپرستی اور ھوا وھوس سے مصون رہتا ھے کیونکہ اکثر وہ لوگ جو معاد پر ایمان نھیں رکھتے بلکہ ان کا اعتقاد ھے کہ جب انسان مرجائے گا تو اس کا جسم ریزہ ریزہ ھوکر نابود ھوجائے گا اور اس کی حیات بعد از مرگ تمام ھوجائے گی ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو دنیا میں اس کو سرکشی اور ھوا و ھوس سے روکے رکھے اور ان کو باطل پرستی و فعل قبیح کے اتیان سے باز رکھے۔
لیکن روز آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص اس دنیاوی چند روزہ زندگی کو ایک مدرسہ اور معرفت و فضیلت اور کمال تک پہنچنے کا وسیلہ اور آخرت میں آرام سے زندگی گزارنے اور سرمدی اور ھمیشگی زندگی کا ذریعہ سمجھتا ھے، کیونکہ انسان اس دنیا میں رہ کر اپنے کو گناھوں او رلغزشوں سے محفوظ رکھتا ھے، فضیلت و عدالت کو اپناتا ھے اور شرع و عقل کی مخالف چیزوں کا مقابلہ کرتا ھے تاکہ انسان کمال کی بلندی کو طے کرتا ھوا روحی اطمینان تک پہنچ جائے، جیسا کہ ارشاد رب العزت ھوتا ھے:
(
یَااَیْتُهَاالنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةَ ارْجِعِیٓ اِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی وَادْخُلِی جَنَّتِی
)
”اے اطمینان پانے والی جان اپنے پرور دگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی تو میرے (خاص)بندوں میں شامل ھوجا ،اور میرے بہشت میں داخل ھوجا“۔
اور انسان اس قیامت پر ایمان رکھے بغیر (جو برائی اور بھلائی کا روز جزا و سزا ھے)ان تمام اقدار اور بلندیوں کو نھیں چھوسکتا اور اسی عقیدہ معاد کی وجہ سے انسان کے نفس میں ایسی طاقت پیدا ھوجاتی ھے کہ جس سے انسان نیکیوں اور اچھائیوں کا دوستدار بن جاتا ھے اور گناھوں سے دور ھوتا چلاجاتا ھے، کیونکہ برائیوں کے ارتکاب سے انسان کے اندر شر مندگی، حسرت اور روز قیامت کی ذمہ داری کا احساس بڑھتا جاتاھے۔
اور پھر روز قیامت کا اعتقاد انسان کو برائیوں سے ھی نھیں روکتا بلکہ نفس کو مطمئن بھی کردیتا ھے اور خطرات کے موقع پر انسان میں چین و سکون پیدا کردیتا ھے، اسی کے ذریعہ امانت کی خاموش نہ ھونے والی شمع روشن ھوجاتی ھےں، انسان کی آرزوئیں صرف حق و کمال کی تلاش میں رہتی ھیں اس وقت انسان بافضیلت ھوجاتاھے، اور فضیلت کے اس مقام تک پہنچنے کی وجہ سے اس کا عذاب خدا سے ڈرنا یا امید ثواب نھیں ھے ،بلکہ اس معاد کے عقیدہ کی وجہ سے انسان رذیلت کی لذت سے فضیلت کی لذت محسوس کرنے لگتا ھے،اور وہ کسی ڈر یا لالچ میں اللہ کی عبادت نھیں کرتا بلکہ وہ خداکو عبادت کا مستحق سمجھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”الهی ما عبد تک خوفاً من عقابک ولا طمعا فی ثوابک ،ولکن وجدتک اهلا للعبادة فعبدتک
“۔( ۱)
”پالنے والے! میں تیری عبادت تیرے عذاب کے خوف سے کرتا ھوں نہ تیرے ثواب کے لالچ سے، بلکہ تجھے عبادت کا اہل پاتا ھوں تو تیری عبادت کرتا ھوں“۔
یھی عبادت آزادافراد اور مخلص مومنین کی ھے۔
لیکن قیامت پرایمان نہ رکھنے والے اور خدا کی بارگاہ میں حاضر ھونے کا عقیدہ نہ رکھنے والے لوگ اسی دنیاوی زندگی پر خوشحال ، اور مطمئن ھیں اور اسی پر بھروسہ کئے ھوئے ھیں، جس سے ان کی رغبتوں میں اضافہ ھوتا رہتا ھے، اور ھوائے نفس ان پراور ان کی ذات پر غلبہ کرلیتی ھے جس سے ان کے نفوس تباہ و برباد ھوجاتے ھیں،اس وقت یہ لوگ خود کو دنیاوی برائیوں کے دلدل میں پھنساھوا دیکھتے ھیں۔ کیونکہ یہ لوگ سعادت اور اپنی زندگی کا عیش و آرام اور مرنے سے پہلے بہت سی آرزوں کو حاصل کرنا چاہتے ھیں، ان کے عقیدہ کے مطابق عالم موتفنا ھوجانا ھے۔
اسی وجہ سے آپ حضرات ان کو مضطرب اور پریشان دیکھتے ھیں، وہ ڈرتے ھیں کہ کھیں مرنے سے پہلے ھی ان کا رزق ختم نہ ھوجائے،مرنے سے پہلے آسائش و سکون کے اسباب نہ حاصل کرپائیں، وہ زندگی میں تھوڑی سی تکلیف سے پریشان ھوجاتے ھیں، اور ظاہری مال و دولت اور چین و سکون کے وسائل حاصل نہ کرنے پر اپنے نفس کی ملامت کرتے ھیں ان کی نظر میں یہ دنیا تاریک بن جاتی ھے یعنی اس کا مقصد معلوم نھیں ھوپاتا، اسی وجہ سے کبھی کبھی اس غم سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرلیتے ھیں، یہ لوگ درحقیقت اندھے ھیں، جو کچھ بھی نھیں دیکھ پاتے ھیں، دنیا نے ان کوحق و حقیقت اور خیر و کمال کو دیکھنے سے اندھا کردیا ھے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:
”انما الدنیا منتهیٰ بصر الاعمی ،لا یبصرمما و راء ها شیئا، والبصیر ینفذها بصره ،ویعلم ان الدار وراء ها فالبصیر منها شاخص، والاعمی الیها شاخص ،والبصیر منها متزود والاعمی لها متزوّد
“۔
”یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ھے جو اس کے ماوراء کچھ نھیں دیکھتا ھے جبکہ صاحب بصیرت کی نگاہ اُس پار نکل جاتی ھے اور وہ جانتا ھے کہ منزل اس کے ماوراء ھے، صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ھے اور اندھا اس کی طرف کوچ کرنے والا ھے، بصیر اس سے زاد راہ فراھم کرنے والا ھے اور اندھا اس کے لئے زاد راہ اکٹھا کرنے والا ھے“۔
لیکن اس کے برعکس ایک مرد مومن کا عقیدہ یہ ھوتا ھے او راس کا نفس اس بات پر مطمئن ھوتا ھے کہ سعادت و خوشبختی اس دنیا اور اس کے محدود مال و متاع میں خلاصہ نھیں ھوتی کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق جو چیز خدا کے پاس ھے وہ خیر کثیر اور باقی رہنے والی سعادت ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:
(
وَمَا اٴُوتِیتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَزِینَتُهَا وَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ وَاٴَبْقَی
)
”اور تم لوگوں کو جو کچھ عطا ھوا ھے تووہ دنیا کی (ذراسی)زندگی کا فائدہ اور اسی کی آرائش ھے اور جو کچھ خدا کے پاس ھے وہ اس سے کھیں بہتر اور پائیدار ھے “۔
لہٰذا وہ دنیاوی مشکلات و مصائب کے سامنے مضطرب اور پریشان نھیں ھوتا، حوادث کے سامنے سر نھیں جھکاتا، اضطراب و پریشانی کے موقع پر چیخ و پکار نھیں کرتا،بلکہ اپنے نفس کو صبر کی تلقین کرتا ھے، موت کا تذکرہ کرتا ھے، خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضرھونے کی جاودانہ سعادت کی امید رکھتا ھے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشادگرامی ھے:
”اکثروا ذکر الموت ویوم خروجکم من القبور ،وقیامکم بین یدی الله تعالی ،تهون علیکم المصائب
“۔
” اکثر اوقات موت کا ذکر اور قبر سے نکلنے کا تصور کیا کرواور خداوندعالم کے سامنے حاضری کا تصور کیا کرو تو تم پر مصائب آسان ھوجائیں گے“۔
پس معلوم ھوا کہ قیامت کا عقیدہ انسان کو سعادت اور خوشبختی کی طرف لے جاتا ھے اور انسان کو کمال و فضیلت کا مالک بنادیتا ھے، کیونکہ حقیقی کامیابی وھی آخرت کی کامیابی ھے جو انسانی کمال اور فضائل کسب کرنے کی بنا پر حاصل ھوتی ھے کہ انسان اپنے کو حد اعتدال میں رکھے اورغضب و شھوت میں افراط و تفریط کا شکار نہ ھو ، اور ان راستوں کا انتخاب کرے جن کے ذریعہ وہ بہترین کمال تک پہنچ جائے اور اپنے کو مختلف برائیوں سے دور رکھے کیونکہ برائیوں میں انسان کی ذلت اور خواری کے علاوہ کچھ نھیں ھے، تاکہ آخرت میں ذلت اور عذاب کا مستحق قرار نہ پائے، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر انسان کے لئے یہ دنیا اُخروی کمال تک پہنچنے کا راستہ بن جاتی ھے۔
آج جب کہ انسان مختلف چیزوں میں ترقی کرتا ھوا نظر آتا ھے، اور مختلف طاقتوں پر قبضہ کئے ھوئے ھے لیکن خود اس کے نفس کی لگام ڈھیلی ھے اور اس کو کمال مطلوب کی طرف پہنچنے میں مانع ھے اس کے بعد انسان ان انحرافات ،پریشانیوں اور مشکلات کو دور کرنے سے عاجز رہ جاتا ھے، جیسا کہ آج کل کی ترقی یافتہ دنیا کے اکثر ممالک میں ھورھاھے۔
اسی وجہ سے روحانی پریشانی اور اضطرابات کو دور کرنے کے تمام راہ حل بے کار رہ جاتے ھیں اور انسان شش و پنج کی زندگی میں مبتلا ھوجاتا ھے۔
لہٰذا یہاں پر صرف ایک عقیدہ معاد ھی راستہ باقی رہ جاتا ھے ، جس کے ذریعہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ بناسکتا ھے اور انحرافات اور برائیوں کے آڑے آسکتا ھے،اوریہ ایسی مضبوط زرہ ھے جو ھوائے نفس اور خواہشات نفسانی سے محفوظ رکھتی ھے تاکہ انسان اپنی منزل مقصود کو حاصل کرلے،اوراسی بنیادی رکن پر نفس اور فاضل معاشرہ کی بنیاد رکھی ھوئی ھے۔
____________________