قیامت

قیامت0%

قیامت مؤلف:
زمرہ جات: معاد

قیامت

مؤلف: علی موسیٰ الکعبی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10745
ڈاؤنلوڈ: 3628

تبصرے:

قیامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10745 / ڈاؤنلوڈ: 3628
سائز سائز سائز
قیامت

قیامت

مؤلف:
اردو

دوسری فصل

ضرورت قیامت پر محکم دلائل و برہان

اول: قرآنی دلائل

بے شک روز قیامت پر ایمان رکھنے کی بنیاد اس وحی الٰھی کے ثبوت پر قائم ھے جو ذات اقدس سے صادر ھوتی ھے،اور عقیدہ قیامت پر قرآن مجید میں بہت سی آیات بیان ھوئی ھیں،اور قرآن مجید کا کوئی سورہ بھی ایسا نہ ھوگا جس میں قیامت اور عالم آخرت کے بارے میں گفتگو نہ کی گئی ھو،یہاں تک کہ بعض علماء نے یہ بھی بیان کیاھے کہ قرآن مجید میں تقریباً ایک ہزار آیات میںوضاحت کے ساتھ یاارشارہ و کنایہ میں قیامت کے بارے میں بیان ھوا ھے۔

اسی طرح روز قیامت اور اس سے متعلق امور کے بارے میں مختلف صورتوں میں تفصیل بیان ھوئی ھے، جن کے ذریعہ سے مختلف دلائل اور براھین کے ذریعہ قیامت کے وجود کو حتمی اور ضروری عنوان سے بیان کیا گیا ھے، اس عقیدہ کو تمام ھی آسمانی ادیان کے مسلم اصول میں شمار کیا جاتاھے،اور انکار کرنے والوں کے شبہات ردّ کئے گئے ھیں، اور روز قیامت، حشرو نشر، حساب و صراط اور جنت میں مومنین کے حالات اور ان کے لئے آمادہ نعمات نیز گناہگاروں کے لئے جہنم اور ان کے لئے تیار ھمیشگی عذاب کے بارے میں تفصیل بیان ھوئی ھے۔

قارئین کرام! ھم یہاں پر قیامت سے متعلق قرآن مجید کی اھم مضامین پر مشتمل ان آیات کو بیان کرتے ھیں:

۱ ۔ روز قیامت کو اعتقادی بنیادوں میں شمار کیا گیا ھے اور اس بات پر زور دیا گیاھے کہ روز قیامت کا اعتقاد واجب اعتقاد کے اصول میں سے ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:

( لَیْسَ الْبِرَّ اٴَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ ) ( ۱ )

”نیکی کچھ یھی تھوڑی ھے کہ (نمازمیں)اپنے منہ اور پورب یا پچھم کی طرف کرلوبلکہ نیکی تو اس کی ھے جو خدا اور روز آخرت اور فرشتوںاور( خدا کی)کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائے“۔

اسی طرح ارشاد ھوتا ھے:

( مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِوَعَمِلَ صَالِحًا فَلاَخَوْفٌ عَلَیْهِمْ ) ( ۲ )

”جو خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے گا اور اچھے (اچھے)کام کرے گا ان پر البتہ نہ تو کوئی خوف ھو گا “۔

۲ ۔درج ذیل آیات میں روز قیامت کے وجود پر تاکید کی گئی ھے اور اس کو ایک حتمی اور غیر قابل شک امر بتایا گیا ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( رَبَّنَا إِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیهِ إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ ) ( ۳ )

”اے ھمارے پرور دگار بیشک تو ایک نہ ایک دن جس کے آنے میں کوئی شبہ نھیں لوگوں کو اکٹھا کرے گا (تو ھم پر نظر عنایت رھے )بیشک خدا اپنے وعدے کے خلاف نھیں کرتا “۔

( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیهِ وَمَنْ اٴَصْدَقُ مِنْ اللهِ حَدِیثًا ) ( ۴ )

”اللہ تو وھی پروردگارھے جس کے سوا کوئی قابل پر ستش نھیں وہ تم کو قیامت کے دن جس میں ذرا بھی شک نھیں ضرور اکٹھاکرے گا خدا سے بڑھ کر بات میں سچا کون ھوگا“۔

( وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَهْدَ اٴَیْمَانِهِمْ لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوتُ بَلَی وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔( ۵ )

”اور یہ کفار خدا کی جتنی قسمیں ان کے امکان میں تھیں کھا کر کہتے ھیں کہ جو شخص مرجاتا ھے پھر خدا اس کو دوبارہ زندہ نھیں کرے گا(اے رسول تم کہدو کہ)ہاں(ضرور ایسا کرے گا)اس پر اپنے وعدہ (کی وفا)لازمی و ضروری ھے مگربُہتر ے آدمی نھیں جانتے ھیں“۔

( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوالاَتَاٴْتِینَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴْتِیَنَّکُمْ ) ۔۔( ۶ )

”اور کفار کہنے لگے کہ ھم پر تو قیامت آئے ھی گی نھیں (اے رسول)تم کہدو ہاں(ہاں)مجھ کو اپنے اس عالم الغیب پرور دگار کی قسم ھے“۔

۳ ۔ھم ذیل میں وہ آیات پیش کرتے ھیں جن میں ظاہری طور پر قیامت کے تصور کو ثابت کیا گیاھے اور کبھی بھی ان آیات کی تاویل و توجیہ نھیں کی جاسکتی ، جن میں گزشتہ امتوں کے بعض افراد یا گروہ اور حیوانات کو اسی دنیا میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ھے، جب کہ وہ مرچکے تھے ،ان کی موت ثابت ھوچکی تھی، اور اس موت کے بعد خدا نے ان کو دوبارہ زندہ کےااور پھر دوبارہ خدا نے ان کو موت دی ھے، یہ کام مختلف زمانوں میں انجام پایا ھے تاکہ اس کے بعد دنیا والے تعجب نہ کرےں، اور انھیںخداوندعالم کی قدرت کا اندازہ ھوجائے، ھم یہاں پر ان میں سے بعض آیات کو مثال کے طور پر بیان کرتے ھیں۔( ۷ )

الف۔ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو دوبارہ زندگی ملی، جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

( اٴَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِهِمْ وَهُمْ اٴُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمْ اللهُ مُوتُوا ثُمَّ اٴَحْیَاهُمْ إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ ) ( ۸ )

”تاکہ تم سمجھو (اے رسول)کیا تم نے ان لوگوں (کے حال)پر نظر نھیں کی جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے ان سے فرمایا کہ سب کے سب مر جاو (اور وہ مر گئے )پھر خدا نے انھیں زندہ کیا ۔بیشک خدا لوگوں پر بڑ ا مہربان ھے مگر اکثر لو گ اس کا شکریہ ادا نھیں کرتے“۔

ب۔ بنی اسرائیل کے ایک نبی کو دوبارہ زندہ کیا گیا،جیساکہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

( اٴَوْکَالَّذِی مَرَّ عَلَی قَرْیَةٍ وَهِیَ خَاوِیَةٌ عَلَی عُرُوشِهَا قَالَ اٴَنَّی یُحْیِی هَذِهِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَاٴَمَاتَهُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اٴَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ آیَةً لِلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَکْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ قَالَ اٴَعْلَمُ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۹ )

”(اے رسول تم نے )مثلاً اس (بندے کے حال )پر نظر بھی کی جو ایک گاوں پر (سے ھو کر)گذرا اور وہ ایسا اجڑا تھا کہ اپنے چھتوں پر ڈھے کے گر پڑا تھا ،یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا ، اللہ اب اس گاوں کو (ایسی )ویرانی کے بعد کیونکر آباد کرے گا اس پر خدا نے اس کو (مار ڈالا )سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو جلا اٹھایا (تب)پوچھا تم کتنی دیر پڑے رھے عرض کی ایک دن پڑا رھایا ایک دن سے بھی کم،فرمایا نھیں تم (اسی حالت میں) سو برس پڑے رھے ،اب ذرا اپنے کھانے پینے (کی چیزوں)کو دیکھ کہ اُبسی تک نھیں اور ذرا اپنے گدھے (سواری)کو تو دیکھو(کہ اس کی ہڈیاں ڈھیر پڑی ھیں اوریہ سب اس واسطے کیاھے تاکہ لوگوں کے لئے تمھیں قدرت کا نمونہ بنائیں اور (اچھا اب اس گدھے کی ہڈیوں کی طرف نظر کرو کہ ھم کیونکر جوڑ جاڑ کر ڈھانچہ بناتے ھیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ھیں پس جب ان پر یہ ظاہر ھوا تو بیساختہ بول اٹھے کہ(اب )میں بہ یقین کامل جانتا ھوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ھے “۔

ج۔ قوم موسیٰ کے ستّر لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا، ارشاد ھوتا ھے:

( وَإِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اللهَ جَهْرَةً فَاٴَخَذَتْکُمْ الصَّاعِقَةُ وَاٴَنْتُمْ تَنظُرُونَ # ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) ( ۱۰ )

”اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کھاتھا کہ اے موسیٰ ھم تم پر اس وقت تک ہر گز ایمان نہ لائیں گے جب تک تم خدا کو ظاہر بظاہر نہ دیکھ لیں اس پر تمھیں بجلی نے لے ڈالا اور تم تکتے ھی رہ گئے ۔پھر تمھیں تمہارے مرنے کے بعد ھم نے جلااٹھایا تاکہ تم شکر کرو“۔

د۔ بنی اسرائیل کے ایک مقتول شخص کا زندہ ھونا، ارشاد ھوتا ھے:

( وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَاٴْتُمْ فِیهَا وَاللهُ مُخْرِجٌ مَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا کَذَلِکَ یُحْیي اللهُ الْمَوْتَی وَیُرِیکُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ) ( ۱۱ )

”اور جب تم نے ایک شخص کو مارڈالا اور تم میں اس کی بابت پھوٹ پڑگئی ۔کہ ایک دوسرے کوقاتل بتانے لگا اور جو تم چھپاتے تھے خدا کو اس کا ظاہر کرنا منظور تھا۔ پس ھم نے کھاکہ اس گائے کا کوئی ٹکڑا لے کر اس (کی لاش)پر مارو یوں خدا مردے کو زندہ کرتا ھے اور تم کو اپنی قدرت کی نشانیان دکھادیتا ھے تاکہ تم سمجھو “۔

ھ۔ جناب ابراھیم علیہ السلام کے لئے باذن اللہ پرندوں کا زندہ ھونا، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِي الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِی قَالَ فَخُذْ اٴَرْبَعَةً مِنْ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَی کُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْء اً ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاٴْتِینَکَ سَعْیًا وَاعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ( ۱۲ )

”اور(اے رسول )وہ واقعہ بھی یاد کرو )جب ابراھیم نے (خداسے)در خواست کی اے میرے پرور دگار تو مجھے بھی دکھا دے کہ تو مردہ کو کیونکر زندہ کرتا ھے خدا نے فرمایا کیا تمھیں (اس کا) یقین نھیں ،ابراھیم نے عرض کی (کیوں نھیں) مگر آنکھ سے دیکھنا اس لئے چاہتاھوں کہ میرے دل کو اطمینان ھوجائے فرمایا (اچھااگر یہ چاہتے ھو) تو چار پرندے لو اور ان کو( اپنے پاس منگا لو اور )ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو اس کے بعد ان کو بلاو(پھر دیکھوتو کیونکر)وہ سب کے سب تمہارے پا س کس طرح آتے ھیں اور سمجھو کہ خدا بیشک غالب و حکمت والا ھے“۔

۴ ۔ قرآن مجید میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیاھے کہ انبیاء علیھم السلام کے مھم امور میں سے ایک کام روز قیامت اور روز حساب و کتاب سے ڈرانا تھا، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے :

( یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلَی اٴَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوا عَلَی اٴَنفُسِهِمْ اٴَنَّهُمْ کَانُوا کَافِرِینَ ) ( ۱۳ )

”پھر( ھم پوچھیں گے)کہ کیوں اے گروہ جن و انس کیا تمہارے پاس تمھیں میں سے پیغمبر نھیں آئے جو تم سے ھماری آیتیں بیان کریں اور تمھیں اس روز (قیامت )کے پیش آنے سے ڈرائیں وہ سب عرض کریں گے (بیشک آئے تھے)ھم خود اپنے اوپر آپ (اپنے خلاف )گواھی دیتے ھیں (واقعی )ان کو دنیا کی (چند روزہ)زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا اور ان لوگوں نے اپنے خلاف آپ گواھی دی کہ بیشک یہ سب کے سب کافر تھے ‘ ‘ ۔

نیز ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَسِیقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَی جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّی إِذَا جَاءُ وهَا فُتِحَتْ اٴَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَتْلُونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هَذَا قَالُوا بَلَی وَلَکِنْ حَقَّتْ کَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَی الْکَافِرِینَ ) ( ۱۴ )

”اور جو لوگ کافر تھے ان کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے یہاں تک کہ جب جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھو ل دئے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم ھی لوگوں میںسے پیغمبر تمہارے پاس نھیں آئے تھے جو تم کو تمہارے پرور دگار کی آیتیں پڑھ کر سناتے اور تم کو اس روز (بد) کے پیش آنے سے ڈراتے وہ لوگ جواب دیں گے کہ ہاں (آئے توتھے)مگر (ھم نے نہ مانااور ) عذاب کا حکم کافروں کے بارے میں پورا ھو کر رھا“۔

یہاں پر انذار اور خوف سے عام معنی مراد ھیں، کسی خاص قوم سے مخصوص نھیں ھیں۔

۵ ۔ قرآن کریم نے اس بات پرزور دیاھے کہ اسلام سے قبل آسمانی شریعتوں میں معاد کا عقیدہ موجود تھا، جیسا کہ خداوندعالم جناب نوح کے اپنی قوم سے خطاب کرتے ھوئے فرماتا ھے:

( وَاللهُ اٴَنْبَتَکُمْ مِنْ الْاٴَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا ) ( ۱۵ )

”اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پیدا کیا پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا“۔

اسی طرح جناب موسیٰ کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:

( ثُمَّ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ تَمَامًا عَلَی الَّذِی اٴَحْسَنَ وَتَفْصِیلًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَهُدیً وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُونَ ) ( ۱۶ )

”پھر ھم نے جو نیکی کی اس پر اپنی نعمت پوری کرنے کے واسطے موسیٰ کو کتاب (توریت)عطا فرمائی اور اس میں ہر چیز کی تفصیل (بیان کر دی )تھی اور لوگوں کے لئے (از سرتا پا)ہدایت و رحمت ھے تاکہ وہ لوگ اپنے پرور دگار کے سامنے حاضر ھونے کا یقین کریں“۔

اسی طرح خداوندعالم جناب موسیٰ کی فرعون اور اس کی قوم کی حکایت کرتے ھوئے فرماتا ھے:

( وَقَالَ مُوْسٰٓی إِنِّی عُذْتُ بِرَبِّی وَرَبِّکُمْ مِنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لاَیُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ) ( ۱۷ )

”اور موسیٰ نے کھاکہ میں تو ہر متکبر سے جو حساب کے دن (قیامت)پر ایمان نھیں لاتا اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ لے چکا ھوں“۔

نیز جناب عیسیٰ علیہ السلام کے لئے قیامت کے متعلق تذکرہ کرتے ھوئے ارشاد ھوتا ھے:

ا( ِٕذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی إِنِّی مُتَوَفِّیکَ وَرَافِعُکَ إِلَیَّ وَمُطَهِّرُکَ مِنْ الَّذِینَ کَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوکَ فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاٴَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیمَا کُنْتُمْ فِیهِ تَخْتَلِفُونَ ) ( ۱۸ )

”جب عیسیٰ سے خدا نے فرمایا اے عیسیٰ میں ضرور تمہاری زندگی کی مدت پوری کر کے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور کافروں (کی گندگی)سے تم کو پاک و پاکیزہ رکھوں گا اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ان کو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا ،پھر تم سب کو میری طرف لوٹ آنا ھے تب(اس دن)جن باتوں میں تم (دنیا)میں جھگڑے کرتے تھے (ان کا)تمہارے درمیان فیصلہ کردوں گا “۔

۶ ۔قرآن کریم نے بہت سی آیات میں اس بات کی تاکید کی ھے کہ خداوندعالم نے بندوں کے اعمال و افعال کو دقیق طور پر لکھنے کے لئے فرشتوں کو مامور کیا ھے، اور ایسے دفتر میں لکھتے ھیں جس میں وہ ان کے اعمال نہ ذرہ برابر اضافہ کرتے ھیں اور نہ کمی کرتے ھیں، جیسا کہ ارشاد قدرت ھے :

ا( ِٕنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتَی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَکُلَّ شَیْءٍ اٴحْصَیْنَاهُ فِی إِمَامٍ مُبِینٍ ) ( ۱۹ )

”ھم ھی یقیناً مردوں کو زندہ کرتے ھیں اور جو کچھ وہ لوگ پہلے کرچکے ھیں(ان کو) اوران کی(اچھی یا بُری باقی ماندہ) نشانیوں کو لکھتے جاتے ھیں اور ھم نے ہر چیز کو ایک صریح و روشن پیشوا میں گھیر دیاھے “۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( اٴَمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّا لاَنَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَی وَرُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَکْتُبُونَ ) ( ۲۰ )

”کیا وہ لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ ھم ان کے بھیداور ان کی سر گو شیوں کو نھیں سنتے۔ ہاں (ضرور سنتے ھیں)اور ھمارے فرشتے ان کے پاس ھیں اور ان کی سب باتیں لکھتے جاتے ھیں “۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنْ الْیَمِینِ وَعَنْ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِید ) ( ۲۱ )

”اور بیشک ھم نے انسان کو پیدا کیا اور جو خیالات اس کے دل میں گذرتے ھیں ھم ان کو جانتے ھیں اور ھم تو اس کی شہرگ سے بھی زیادہ قریب ھیں جب ( وہ کوئی کام کرتا ھے تو)وہ لکھنے والے (کراماًکاتبین)جو (اس کے )داہنے بائیں بیٹھے ھیں لکھ لیتے ھیں کوئی بات اس کی زبان پر نھیں آتی مگر نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ھے “۔

درج ذیل قرآنی آیات اس بات کو واضح کرتی ھیں کہ روز قیامت انسان کا نامہ اعمال ان کے سامنے پیش کیا جائے گا، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ هَذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا کُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ( ۲۲ )

”جو کچھ تم لوگ کرتے تھے آج تم کواس کا بدلہ دیا جائے گا یہ ھماری کتاب (جس میں اعمال لکھے ھیں) تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رھی ھے جو کچھ بھی تم کرتے تھے ھم لکھواتے جاتے تھے “۔

چنانچہ ان نامہ اعمال کو دیکھ کر کہ اس میں کس قدر امانت داری اور دقت سے کام لیا گیا ھے گناہگاروں میں خوف و دہشت طاری ھوجائے گا، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھے:

( وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْکِتَابِ لاَیُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلاَیَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا ) ( ۲۳ )

”اور لوگوں کے اعمال کی کتاب (سامنے )رکھی جائے گی تو تم گنہگار وں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ھے(دیکھ کر)سھمے ھوئے ھیں اور کہتے جاتے ھیں ہائے ھماری شامت یہ کیسی کتاب ھے کہ نہ چھوٹے ھی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو،اور جو کچھ ان لوگوں نے (دنیامیں )کیا تھا وہ سب( لکھا ھوا)موجود پائیں گے اور تیرا پرور دگار کسی پر ظلم نہ کرے گا“۔

قارئین کرام! ان تمام آیات کے پیش نظر انسان مکمل طور سے قیامت کے عقیدہ پر یقین حاصل کرسکتا ھے وہ روز قیامت جہاں پر انسانی زندگی کا حساب و کتاب پیش کیا جائے گا، جہاں پر تمام چھوٹی بڑی سب چیزیںپیش ھوں گی۔

۷ ۔ قرآنی وہ بہت سی آیات جن میں قیامت کے منکرین کے بے جا اعتراضات کا جواب دیا گیا ھے اور اس بات کی تاکید کی گئی ھے کہ ان کے انکار کے لئے ذرہ بھی گنجائش باقی نھیں ھے، کیونکہ وہ تو صرف ظن کی پیروی کرتے ھیں اور ظن حق سے بے نیاز نھیں کرسکتا، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( وَقَالُوا مَا هِیَ إِلاَّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُهْلِکُنَا إِلاَّ الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلاَّ یَظُنُّونَ ) ( ۲۴ )

”اور وہ لوگ کہتے ھیں کہ ھماری زندگی تو بس دنیا ھی کی ھے یھیں مرتے ھیں اور یھیں جیتے ھیں اور ھم کو بس زمانہ ھی (جلاتا)مارتا ھے اور ان کو اس کی کچھ خبر تو ھے نھیں یہ لوگ تو بس اٹکل کی باتیں کرتے ھیں “۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَمَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا ) ۔( ۲۵ )

”(حالانکہ )انھیں اس کی کچھ خبر نھیں ۔وہ لوگ تو بس گمان (خیال)کے پیچھے چل رھے ھیں حالانکہ گمان یقین کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نھیں آیا کرتا “۔

اور جب منکرین قیامت کا انکار کرتے ھیں تو ان سے دلیل طلب کی جاتی ھے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) ( ۲۶ )

”اے (رسول )تم (ان مشرکین سے) کہدوکہ اگر تم سچے ھو تو اپنی دلیل پیش کرو ‘ ‘ ۔

کیونکہ ان کے اعتراضات اور شبہات بے جا اور بے ھودہ ھوتے ھیں( ۲۷ ) جن کا

جواب قرآن مجید نے کافی اور وافی طور پر دیا ھے، جن میں سے بعض کو عقلی دلائل کی بنیاد پر پیش کیا گیا ھے اور قیامت کی ضرورت اور وعدہ الٰھی کے پورا ھونے پر تاکید کی گئی ھے، جیسا کہ خداوندعالم نے ان کے اعتراض کو بیان کرتے ھوئے اس کا جواب بھی دیا ھے:

( وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ یُحْیِي الْعِظَامَ وَهِیَ رَمِیمٌ # قُلْ یُحْیِیهَا الَّذِی اٴَنشَاٴَهَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ ) ( ۲۸ )

”اور ھماری نسبت باتیں بنانے لگا اور اپنی خلقت (کی حالت)بھول گیا (اور)کہنے لگا کہ بھلا جب یہ ہڈیاں (سڑ گل کر)خاک ھو جائیں گی تو (پھر)کون (دوبارہ )زندہ کر سکتا ھے(اے رسول)تم کہدو کہ اس کو وھی زندہ کرے گا جس نے ان کو(جب یہ کچھ نہ تھے )تو پہلی مرتبہ زندہ کر دکھا یا وہ ہر طرح کی پیدائش سے واقف ھے “۔

دوسری دلیل: کلام معصوم

احادیث نبوی (ص)اور کلام اہل بیت علیھم السلام میں عالم آخرت ،روز قیامت حشر و نشر، حساب و کتاب اور جزا و سزا کا تذکرہ تفصیل سے بیان ھوا ھے، اور جس تفصیل سے قرآن مجید میں آیات موجود ھیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مزید وضاحت کے ساتھ احادیث میں ذکر ھوا ھے، ھم یہاں پر بعض ان احادیث کا ذکر کرتے ھیں جو قیامت کے وجود کو ثابت کرتی ھیں اور اس کو حتمی اور ضروری سمجھتی ھیں۔

حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:

یا بنی عبد المطلب!إن الرائد لایکذب اٴهله،والذی بعثنی بالحق لتموتنّ کما تنامون،ولتبعثنّ کما تستیقظون،ومابعد الموت دارٌ إلاّٰ جنّة اٴونار،خَلْقُ جمیع الخلق و بعثهم علی الله عزّوجلّ کخلق نفس واحدة و بعثها،قال الله تعالیٰ :( وما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدة ) ۔(سورہ لقمان آیت ۲۸)(۲۹)

”اے بنی عبد المطلب ! بیشک سر پرست اپنے اہل و عیال کے سامنے جھوٹ نھیں بولتا قسم اس خدا کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا تمھیں موت ویسے ھی آئے گی جیسے تمھیں نیند آتی ھے، اور تم کو اٹھایاجائے گا جیسے تم بیدار ھوتے ھو، اور موت کے بعد سوائے جنت یا جہنم کے کچھ نھیں ھے، تمام مخلوق کو خداوندعالم کے سامنے ایک نفس کی طرح پیش ھونا ھے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: ”تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد )جلا اٹھانا ایک شخص کے (پیدا) کرنے اور جلااٹھانے کے برابر ھے“۔

نیز رسول اکرم (ص)کا ارشاد گرامی ھے:

لا یومن عبد حتی یومن باربعة: یشهد ان لااله الا الله وحده لا شریک له،وانی رسول الله بعثنی بالحق ،وحتی یومن بالبعث بعد الموت،وحتیٰ یومن بالقدر ۔“( ۳۰ )

”کوئی بھی شخص اس وقت تک ایمان لانے والا نھیں بن سکتا جب تک چار چیزوں پر یقین نہ رکھے: گواھی دے کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نھیں ھے اور اس کا کوئی شریک نھیں ھے، اور میری نبوت کا اقرار کرے کہ مجھے حق کے ساتھ معبوث کیا گیا ھے، اور روز قیامت پر ایمان لائے، اور (قضاو) قدر پر یقین رکھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:

حتی اذا بلغ الکتاب اجله ،والامر مقادیره،والحق آخرالخلق باوله،وجاء من امرالله مایرید ه من تجدید خلقه،ماد السماء وفطرها، وارج الارض وارجفها،وقلع جبالهاونسفها،ودک بعضهابعضا من هیبة جلالته،ومخوف سطوته ،واخرج من فیها فجددهم بعد اخلاقهم ،و جمعهم بعد تفرقهم ،ثم میزهم لما یریده من مسالتهم عن خفایا الاعمال،وخبایا الافعال،و جعلهم فریقین :انعم علی هولاء، وانتقم من هولاء “۔( ۳۱ )

”یہاں تک کہ جب قسمت کا لکھا اپنی آخری حدتک اور امر الٰھی اپنی مقررہ منزل تک پہنچ جائےگا، اور آخرین کو اولین سے ملادیا جائے گا، اور ایک نیا حکم الٰھی آجائے گا، کہ خلقت کی تجدید کی جائے تو یہ امر آسمانوں کو حرکت دے کر شگافتہ کردے گا، اور زمین کو ہلاکر کھوکھلا کردے گا، اور پہاڑوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑادے گا اور ھیبت جلال الٰھی اور خوف سطوت پروردگار سے ایک دوسرے سے ٹکراجائیں گے، اور زمین سب کو باہر نکال دے گی اور انھیں دوبارہ بوسیدگی کے بعد تازہ حیات دیدی جائے گی، اور انتشار کے بعد جمع کردیا جائے گا، اور مخفی اعمال پوشیدہ افعال کے سوال کے لئے سب کو الگ الگ کردیا جائے گا، اور مخلوقات دو گروھوں میں تقسیم ھوجائے گی ایک گروہ مرکز نعمات ھوگا اور دوسرا محل انتقام“۔

اسی طرح ایک دوسری جگہ حضرت علی علیہ السلام قیامت کی صفات بیان کرتے ھوئے بیان فرماتے ھیں:

ذٰلک یوم یجمع الله فیه الاولین وآلاخرین لنقاش الحساب وجزاء الاعمال، خضوعا، قیاماً قد الجمهم العرق ،و رجفت بهم الارض،فاحسنهم حالا ً من وجد لقدمیه موضعاً، و لنفسه متسعاً “۔( ۳۲ )

”(روز قیامت) وہ دن ھوگا جب پروردگار اوّلین و آخرین کو دقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ھوں گے، پسینہ ان کے دہن تک پھونچا ھوگا اور زمین لرز رھی ھوگی، بہترین حال اس کا ھوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرلے گا اور جسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا“۔

اسی طرح حضرت سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:

العجب کل العجب لمن شک فی الله وهو یری الخلق ،والعجب کل العجب لمن انکر الموت وهو یری من یموت کل یوم و لیلة، والعجب کل العجب لمن انکر النشاة الاخرة وهو یری النشاة الاولیٰ، والعجب کل العجب لعامر دار الفناء و یترک دار البقاء “۔( ۳۳ )

”واقعاً بہت زیادہ تعجب ھے اس شخص پر جو مخلوق کو تو دیکھ رھاھو لیکن خدا کے وجود کا انکار کرے، اور بہت زیادہ تعجب ھے اس شخص پرجو موت کا انکار کرے اور وہ آئے دن مرنے والوں کو دیکھ رھاھو، اور واقعاً تعجب ھے اس شخص پر جو روز قیامت کا انکار کرے جبکہ وہ خلقت اول کو دیکھ رھاھو، اور بہت زیادہ تعجب ھے اس شخص کے لئے جو اس فانی ھونے والی دنیا میں لگا ھوا ھے اور دار بقاء کو ترک کربیٹھا ھے“۔

تیسری دلیل: اجماع

روز قیامت ایک ایسا عقیدہ ھے جس پر تمام ھی اسلامی فرقوں کااجماع اور اتفاق ھے، اور اس کے حتمی ھونے پر کسی کو کوئی اختلاف نھیں ھے، اور سبھی اسلامی فرقے قیامت کے عقیدہ کو ضروریات دین( ۳۴ ) میں شمار کرتے ھیں اور اس عقیدہ کے وجوب کے قائل ھیں، اور جو لوگ اس عقیدہ کا انکار کرتے ھیں وہ مسلمانوں کی فہرست سے خارج ھیں،( ۳۵ ) اور یھی وہ عقیدہ ھے جس کا ہر مسلمان نماز پنجگانہ میں اقرار کرتا ھے:( مالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ) گویا یہ اس بات کا اعتراف ھے کہ موت کے بعد ایک دن زندہ کیا جائے گا ، اور اس عقیدہ کو سبھی مانتے ھیں۔

تمام ادیان اور شریعتیں اس بات پر متفق ھیں کہ مرنے کے بعد ایک حیات ھوگی اگرچہ موت کے بعد زندگی کی کیفیت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ھے، جیسا کہ ھم نے قیامت کے اصطلاحی معنی میں اقوال ذکر کئے ھیں، ھم یہاں پر ان اقوال کی نقد و تحقیق نھیں کرنا چاہتے اور نہ ھی یہاں پر یہ بیان کرنا چاہتے ھیں کہ کونسا قول صحیح ھے اور کون باطل،یہاں پر اھم بات اصل عقیدہ قیامت کو ثابت کرنا ھے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا چاھے کسی بھی طرح ھو اور اس کو اس کے اعمال و کردار کی جزا دی جائے گی اگر اچھے اعمال انجام دئے ھیں تو اس کی جزا بھی اچھی دی جائے گی اور اگر برے اعمال کئے ھیں تو ان کی سزا بھی بُری ھی دی جائے گی، اور اس بات پر تمام ھی ادیان متفق ھیں، کیونکہ یہ بات عقلی طور پر ممکن ھے اور قرآنی و دیگر آسمانی کتابوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ھے۔

چوتھی دلیل: دلیل عقلی

بہت سے فلاسفہ اور متکلمین نے محض عقلی دلائل اور برہان کے ذریعہ قیامت کے ضروری ھونے کو ثابت کیا ھے، جیسا کہ خود قرآن مجید میں بھی بہت سے عقلی اور فطری دلائل کے ذریعہ قیامت اور حیات آخرت کا انکار کرنے والوں کے جواب میں ثابت کیا ھے، اور یہ بات واضح کی ھے کہ قیامت کا وجود ضروری اور حتمی ھے، ھم یہاں پر اپنے معزز قارئین کے لئے چند دلائل پیش کرتے ھیں:

۱ ۔ برہان مماثلة

مرحوم علامہ حلّی تحریر فرماتے ھیں: ھمارے عالم کا مماثل (ھم مثل ) عالم بھی ممکن الوجود ھے کیونکہ مثلین (ایک طرح کی دوچیزوں) کا حکم ایک ھوتا ھے، لہٰذا جب یہ عالم ممکن الوجود ھے تو پھر دوسرا عالم بھی ممکن الوجود ھے۔( ۳۶ )

جیسا کہ قرآن مجید میں دنیاوی اور آخرت کی زندگی کی مماثلت کی بعض مثالیں بیان کی گئی ھیں اور یہ شباہت دو طرح کی ھے:

۱ ۔ پہلی زندگی عدم سے وجود میں آئی اور دوسری زندگی بھی عدم کے بعد ھوگی۔

۲ ۔آخرت کی زندگی کی مثال اس زمین سے دی گئی ھے کہ جو پہلے مردہ ھو پھر زندہ ھوجائے اور یہاں ھماری عقل مثلین کے بارے میں ایک حکم لگاتی ھے۔

عقل حکم کرتی ھے کہ ایک جیسی چیزوں کا حکم بھی ایک ھی ھونا چاہئے، جس سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ جو ذات پہلی زندگی پر قادر ھے وہ دوسری زندگی پر بھی قادر ھے، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مشابہ ھیں،

شباہت کی پہلی قسم: ھم اس بات سے روز قیامت پر دلیل قائم کرنا چاہتے ھیں مبداء کی بنا پر، کیونکہ ان دونوں میں شباہت پائی جاتی ھے، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی پہلی شباہت کے طریقہ پر معاد کے امکان کو ثابت کیا ھے، کیونکہ دنیا میں انسان کی پیدائش عدم سے ھوئی ھے، (جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ھے) اس کے بعد قرآن میں بیان کیا گیا ھے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( یَااٴَیُّهَا النَّاسُ إِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِنْ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْاٴَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا اٴَشُدَّکُمْ وَمِنْکُمْ مَنْ یُتَوَفَّی وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی اٴَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْلاَیَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا ) (الی قوله تعالیٰ )( ذَلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ هُوَ الْحَقُّ وَاٴَنَّهُ یُحْیي الْمَوْتَی وَاٴَنَّهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ( ۳۷ )

”اگر تم کو (مرنے کے بعد)دوبارہ زندہ ھونے میں کسی طرح کا شک ھے تو اس میں شک نھیں کہ ھم نے تمھیں (شروع شروع) مٹی سے اس کے بعد نطفہ سے اس کے بعد جمے ھوئے خون سے پھر اس لوتھڑے سے جو پورا (سڈول )ھویا ادھورا ھو پیدا کیا تاکہ تم پر (اپنی قدرت )ظاہر کریں(پھر دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ھے)اور ھم عورتوں کے پیٹ میں جس (نطفہ)کو چاہتے ھیں ایک مدت معین تک ٹھہرا رکھتے ھیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ھیں پھر (تمھیں پالتے ھیں)تاکہ تم اپنی جوانی تک کو پہنچو اور تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ھیں جو (قبل بڑھاپے کے)مر جاتے ھیں اور تم میںسے کچھ لوگ ایسے ھیں جو ناکارہ زندگی (بڑھاپے )تک پھیر لائے جاتے ھیں تاکہ سمجھنے کے بعد سٹھیا کے کچھ بھی (خاک)نہ سمجھ سکے اور تو زمین کو مردہ (بیکارافتادہ)دیکھ رہاھے پھر جب ھم اس پر پانی بر سادیتے ھیں تو لہلہانے اور ابھرنے لگتی ھے اور ہر طرح کی خوشنما چیز یں اُگائی ھیں “۔

پس انسان قابل ذکر نہ تھا خداوندعالم نے اس کو مٹی سے خلق فرمایا، اور وادی عدم سے ہستی وجود میں لایا، اس کو عقل و زبان عطا کیا اور اس کو احسن تقویم قرار دیا، لہٰذا اگر اس کو مرنے اور اس کے اعضاء کے مٹی میں ملنے کے بعددوبارہ زندہ کیا جائے تو اس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نھیں ھے، کیونکہ اس دنیا میں اس کی خلقت اور وجود (آخرت کے زندگی) سے مشابہ ھے، اور دو مشابہ چیزوں کا حکم ایک ھوتا ھے ان دونوں کے درمیان عقل فرق نھیں کرتی، بلکہ ایک کے وجود کو دوسرے کے وجود پر دلیل قرار دیتی ھے، جبکہ پہلی زندگی تو عدم سے ھے اور دوسری زندگی تو ان کے اعضاء کے ذریعہ ھوگی، بہرحال پہلی زندگی اعظم اور اھم ھے، جیسا کہ خود خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:

( وَهُوَ الَّذِی یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَهُوَ اٴَهْوَنُ عَلَیْهِ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاٴَعْلَی فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ( ۳۸ )

”اور وہ ایسا (قادرمطلق) ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتا ھے پھر دوبارہ (قیامت کے دن )پیدا کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ھے اور آسمان و زمین میں سب سے بالا تر اسی کی شان ھے “۔

اس برہان اور دلیل میں وہ تمام آیات شامل ھیں جو مبدا اور معاد کو حکم کے لحاظ سے مساوی اور برابر جانتی ھیں:

۱ ۔( اللهُ یَبْدَوا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۳۹ )

”خدا ھی نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا پھر وھی دوبارہ (پیدا) کرے گا پھر تم سب لوگ اسی کو لوٹا ئے جاوگے “۔

۲ ۔( فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلْ الَّذِی فَطَرَکُمْ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ ) ( ۴۰ )

”تو یہ لوگ عنقریب ھی تم سے پوچھیں گے کہ بھلا ھمیں دوبارہ کون زندہ کرے گا تم کہدو کہ وھی (خدا) جس نے تم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا“۔

۳ ۔( کَمَابَدَاٴْنَا اٴَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُهُ وَعْداً عَلَیْنَا اِٴنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ ) ( ۴۱ )

”جس طرح ھم نے (مخلوقات کو)پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح)دوبارہ (پیدا) کر چھوڑیں گے (یہ وہ)وعدہ (ھے جس کا کرنا)ھم پرلازم ھے اور ھم اسے ضرور کرکے رھیں گے“۔

شباہت کی دوسری قسم: قرآن کریم بہت سی آیات( ۴۲ ) میںقیامت کے اثبات کو شباہت کے طریقہ پر محسوس اور مشاہدہ کے طور پر دوبارہ زندگی پر تاکید کی ھے ، جو مردہ زمین کو دوبارہ حیات دینا ھے، زمین سے سبزہ پیدا کیا ھے جبکہ وہ خشک اور بے جان ھوچکی تھی، اور موسم سرما میں مردہ ھوچکی تھی، اسی طرح روز قیامت میں دوبارہ زندگی میں شباہت پائی جاتی ھے جیسا کہ ارشاد قدرت ھوتا ھے:

( اٴَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَیِّتٍ فَاٴَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَاٴَخْرَجْنَا بِهِ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ کَذَلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتَی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ ) ( ۴۳ )

”اور وھی تو وہ (خدا) ھے جو اپنی رحمت (ابر) سے پہلے خوش خبری دینے والی ھواوں کو بھیجتا ھے یہاں تک کہ جب ھوائیں (پانی سے بھرے )بوجھل بادلوں کو لے اڑیں تو ھم نے ان کو کسی شہر کی طرف (جو پانی کی نایابی سے گویا)مرچکا تھا ہنکادیا پھر ھم نے اس سے پانی برسایا پھر ھم نے اس سے ہر طرح کے پھل (زمین سے)نکالے ھم یونھی (قیامت کے دن زمین سے ) مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو“۔

قارئین کرام! یہ دونوں آیتیں عقل کے لئے یہ بات ثابت کرتی ھیں کہ دو مشابہ چیزوں کا حکم ایک جیسا ھوتا ھے، جب مردہ زمین کو زندگی مل سکتی ھے تو پھر مردہ انسان بھی دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ھے، اور دوسری چیزوں کو بھی زندہ کیا جاسکتا ھے۔

علامہ طباطبائی (رحمة اللہ علیہ )اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ھیں: آیہ شریفہ ”إِنَّ ذَلِکَ لَمُحْیِی الْمَوْتَی “ سے مراد زمین کے زندہ ھونے اور دوسرے مردوں کی زندہ ھونے میں شباہت پر دلالت ھے، کیونکہ دونوں میں موت پائی جاتی ھے یعنی زندگی کے آثار ختم ھوجاتے ھیں اور زندگی ان ھی آثار کے ختم ھونے کے بعد دوبارہ واپس آنے کا نام ھے، اور جب زمین اور نباتات میں دوبارہ زندگی ثابت ھوچکی ھے تو پھر انسان اور غیر انسان کی حیات اور زندگی بھی انھیں کے مشابہ ھے، اور”حکم الامثال فی ما یجوز و فی ما لایجوز واحد ۔“( مشابہ اور ایک دوسرے کے مثل چیزوں کا حکم ممکن اور غیر ممکن میں ایک ھوتا ھے) پس جب ان بعض چیزوں میں دوبارہ زندگی ثابت ھوگئی جیسے زمین اور نباتات تو پھر دوسری چیزوں کے لئے بھی یھی حکم ممکن اور ثابت ھے۔( ۴۴ )

قرآن کریم نے اسی معنی و مفھوم کی طرف اشارہ کیا ھے کہ انسان کی خلقت نباتات کی طرح ھے اسی طرح اس کی دوبارہ زندگی بھی ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( وَاللهُ اٴَنْبَتَکُمْ مِنْ الْاٴَرْضِ نَبَاتًا # ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا ) ۔( ۴۵ )

”اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پیدا کیا پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا “۔

۲ ۔برہان قدرت

جب خداوندعالم کی قدرت عظیم اور بے انتھاھے تو اس کی قدرت ہر مقدور شئے سے متعلق ھوسکتی ھے، اور خداکی یہ قدرت تمام چیزوں پر یکساں اور برابر ھے چاھے وہ کام آسان ھو یا مشکل ، اور یھی بات اس آیت سے ظاہر ھوتی ھے:( إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ۔ قرآنی آیات دونوں طریقوں سے قیامت پر استدلال قائم کرتی ھے ، کہ خدا کی قدرت عام اور لامحدود ھے :

پہلی صورت: خداوندعالم نے بہت سی آیات( ۴۶ ) میںمعاد اور روز قیامت کے سلسلے میں اپنی اس قدرت کا اظہار کیا ھے جس میں اس بات کا اشارہ موجود ھے کہ جو ذات گرامی عدم سے وجود عطا کرنے میں قدرت رکھتی ھے، اس کے لئے ان کو دوبارہ پلٹانا آسان ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( اٴَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُیْدِیٴُ اللهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ إِنَّ ذَلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرٌ#قُلْ سِیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَاٴَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللهُ یُنشیِءُ النَّشْاٴَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ) ( ۴۷ )

”بس کیا ان لوگوں نے اس پر غور نھیں کیاکہ خداکس طرح مخلوقات کو پہلے پہل پیدا کرتا ھے اور پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا یہ تو خدا کے نزدیک بہت آسان ھے (اے رسول ان لوگوں سے)تم کہدو کہ ذراروئے زمین پر چل پھر کر دیکھو تو کہ خدا نے کس طرح پہلے پہل مخلوق کو پیدا کیا پھر( اسی طرح وھی)خدا (قیامت کے دن)آخری پیدائش پیدا کرے گابیشک خدا ہر چیز پر قادر ھے “۔

قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ دونوں مذکورہ آیتیں انسان کو خلقت میں غور و فکر کرنے پر تحریک کرتی ھیں تاکہ انسان کی عقل اپنے خالق اور مدبر کی معرفت میں استقلال اور اطمینان پیدا کرلے، اور انسان یہ سمجھ لے کہ خدا کی قدرت کے سامنے معاد کی ضرورت ھے کیونکہ خدا کی قدرت بے انتھاھے، جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا گیا ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( اٴَلاَیَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ ) ( ۴۸ )

”بھلا جس نے پیدا کیا وہ بے خبر ھے اور وہ تو بڑا باریک بیںواقف کار ھے“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( نَحْنُ خَلَقْنَاکُمْ فَلَوْلاَتُصَدِّقُونَ ) ( ۴۹ )

”تم لوگوں کو (پہلی بار بھی )ھم ھی نے پیدا کیا ھے پھر تم (دوبارہ کی) کیوں نھیں تصدیق کرتے“۔

یہاں تک کہ ارشاد ھوا:

( وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ النَّشْاٴَةَ الْاٴُولَی فَلَوْلاَتَذکَّرُونَ ) ( ۵۰ )

”اور تم نے پہلی پیدائش توسمجھ ھی لی ھے (کہ ھم نے کی)پھر تم غور کیوں نھیں کرتے‘ ‘۔

یہ بات ظاہر ھے کہ انسان پہلی خلقت کا علم رکھتا ھے، اور یہ بھی جانتا ھے کہ اسی ذات نے اس کو پیدا کیا ھے اور اس کو اسی کے لحاظ سے قدرت دی ھے اور اس کے امور کی تدبیر کرتا ھے، وھی اللہ تمام مخلوقات کا خالق ھے، اس کے علاوہ کوئی اس کا خالق و مدبر نھیں ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدوا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ) ( ۵۱ )

”(اے رسول ان سے )پوچھو کہ تم نے جن لوگوں کو (خدا کا ) شریک بنایا ھے کوئی بھی ایسا ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرے پھر ان کو (مرنے کے بعد )دوبارہ زندہ کرے“۔

نیز ارشاد قدرت ھوتا ھے:

( کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللهِ وَکُنتُمْ اٴَمْوَاتًا فَاٴَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۵۲ )

”(ہائیں)کیوں کر تم خدا کا انکار کر سکتے ھوحالانکہ تم (ماوںکے پیٹ میں)بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیاپھر وھی تم کو مارڈالے گاپھر وھی تم کو (دوبارہ قیامت میں)زندہ کرے گاپھر اسی کی طرف لوٹائے جاوگے“۔

قارئین کرام! مذکورہ آیات کے پیش نظر یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ قدرت خدا کی نسبت پہلی اور دوسری زندگی کے بارے میں ایک جیسی ھے وہ کسی کام کرنے سے عاجز نھیں ھے اور نہ اس کے لئے کوئی کام کرنا مشکل ھے اور نہ ھی وہ کسی کام سے تھکتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( اٴَفَعَیِینَا بِالْخَلْقِ الْاٴَوَّلِ بَلْ هُمْ فِی لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِیدٍ ) ( ۵۳ )

”کیا ھم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ھیں (ہر گز نھیں ) مگر یہ لوگ از سر نو( دوبارہ ) پیدا کرنے کی نسبت شک میں پڑے ھیں“۔

اور یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ خلق اول اور خلق جدید کے بارے میں قدرت خدا امکان اور وقوع کے لحاظ سے نفس واحد ہ کی خلقت کی طرح ھے، ارشاد پروردگار ھوتا ھے:

( مَاخَلْقُکُمْ وَلاَبَعْثُکُمْ إِلاَّ کَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ) ( ۵۴ )

”تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد )جلا اٹھانا ایک شخص کے (پیدا) کرنے اور جلااٹھانے کے برابر ھے“۔

لہٰذا خدا کے لئے کوئی کام کرنا مشکل اور سخت نھیں ھے، یہ دلیل انسان کے لئے عقیدہ معاد کو ثابت کردیتی ھے اور اس کی تصدیق کا باعث بنتی ھے،(نیز انسان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ھے)

دوسری صورت: خداوندعالم نے قیامت کے بارے میںاپنی قدرت کو خلقت زمین و آسمان کی خلقت پر مرتب کیا ھے یعنی جس خدا نے زمین و آسمان کو خلق کیا ھو اس کے لئے دوبارہ پلٹانا کوئی مشکل کام نھیں ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَء ِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ قَادِرٌ عَلَی اٴَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ) ( ۵۵ )

”اور کہنے لگے کہ جب ھم (مرنے کے بعدسڑگل کر)ہڈیاں ریزہ ریزہ ھوجائیں گے تو کیا پھر ھم از سر نو پیدا کرکے اٹھائے جائیں گے،کیا ان لوگوں نے اس پر بھی نھیں غور کیا کہ وہ خدا جس نے سارے آسمان و زمین بنائے اس پر بھی (ضرور ) قادر ھے کہ ان کے ایسے آدمی پیدا کرے“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( اٴَوَلَیْسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَی اٴَنْ یَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَی وَهُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیمُ # إِنَّمَا اٴَمْرُهُ إِذَا اٴَرَادَ شَیْئًا اٴَنْ یَقُولَ لَهُ کُنْ فَیَکُون ) ( ۵۶ )

”(بھلا) جس خدانے سارے آسمان اور زمین پیدا کئے کیا وہ اس پر قابو نھیں رکھتا کہ ان کے مثل دوبارہ پیدا کر دے ہاں(ضرورقدرت رکھتاھے )اور وہ تو پیدا کرنے والا واقف کار ھے اس کی شان تو یہ ھے کہ جب کسی چیز کو (پیدا کرنا) چاہتا ھے تو وہ کہہ دیتا ھے کہ ھو جا تو (فوراً )ھو جاتی ھے“۔

ایضاً ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

( اٴَوَلَمْ یَرَوْا اٴَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی اٴَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیر ) ( ۵۷ )

”کیاان لوگوں نے یہ نھیں غور کیا کہ جس خدا نے سارے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے ذرا بھی تھکا نھیں وہ اس بات پر قادر ھے کہ مردوں کو زندہ ناکرپائے گا ہاں(ضرور)وہ یقینا ہر چیز پر قادر ھے“۔

قارئین کرام! اگر ھم زمین و آسمان کی خلقت پر غور و فکر کریں تو روز قیامت پر ھمارے ایمان میں اضافہ ھوجائے گا، کیونکہ زمین و آسمان کی خلقت اتنی عظیم ھے(جیسا کہ اس عظیم وسعت، عجائبات، چھوٹے چھوٹے نظام جن کو دیکھ کر انسان ”انگشت بدندان“ ھوجاتا ھے اور انسان ان میں ایک ذرہ ھے) تو پھر اس زمین و آسمان کا خلق کرنے والا روز قیامت دوبارہ انسان کو کیسے زندہ نھیں کرسکتا؟! کیونکہ زمین و آسمان کی خلقت کے سامنے انسان کی خلقت بہت ھی آسان ھے، ارشاد الٰھی ھوتاھے:

( لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ اٴَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ ) ( ۵۸ )

”سار ے آسمان و زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینی بڑا (کام ھے) مگر اکثر لوگ (اتنابھی)نھیں جانتے“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( ءَ اَنْتُمْ اٴَشَدُّ خَلْقاً اٴَمِ السَّماءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمْکَهَا فَسَوَّاهَا وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحَاهَا ) ( ۵۹ )

”بھلا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ھے ،یا آسمان کا کہ اسی نے اس کو بنایا اس کی چھت کو خوب اونچا رکھا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد زمین کو پھیلایا “۔

یہاں پر قرآن مجید ان جاہل لوگوں کا جواب دیتا ھے جو قیامت کے منکر تھے اور معاد کو بعید از عقل سمجھتے تھے، کہتے تھے:( وَقَالُوا اٴَءِ ذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا اٴَئِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا ) ۔( ۶۰ ) (”اور یہ لو گ کہتے ھیں کہ جب ھم (مر نے کے بعد سڑ گل کر) ہڈیاں رہ جائیں گے اور ریزہ ریزہ (ھو جائیں گے)تو کیا از سر نو پیدا کر کے اٹھا جائیں گے“) تو خداوندعالم نے اپنی قدرت مطلقہ کا ذکر کرتے ھوئے ان کے اس نظریہ کو ردّ کرتے ھوئے فرمایا:

( قُلْ کُونُوا حِجَارَةً اٴَوْ حَدِیدًا اٴَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُم ) ( ۶۱ )

”(اے رسول)تم کہدو کہ تم (مرنے کے بعد)چاھے پتھر بن جاو یا لوھایا کوئی اور چیز جو تمہارے خیال میں بڑی سخت ھو“۔

خدا نے ان کو پتھر یا لوھایا ان کے خیال میں سخت سے سخت چیز بن جانے کا حکم دیا یعنی جو چاھوبن جاؤ لیکن خداوندعالم تم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرلے گا، اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ خدا کی قدرت مطلق اور بے پناہ ھے، اس کے لئے کوئی مشکل نھیں ھے چاھے تم گل سڑکر مٹی بن جاؤ یا پتھر اور لوھابن جاؤ وغیرہ۔( ۶۲ )

۳ ۔ برہان حکمت

بے شک خداوند عالم اپنے کاموں میں حکیم ھے (یعنی اس کے تمام کام حکمت کے تحت اور حساب و کتاب کی بنا پر ھوتے ھیں) اور اس کے تمام کام چاھے عالم تکوینی میں ھوں یا عالم تشریعی میں؛ ان تمام کو حکمت کے تحت اور ہدف کے ساتھ انجام دیتا ھے، یہ عجیب نظام کائنات اپنے چھوٹے سے کام میں بھی خاص مقصد کے تحت حرکت کرتا ھے، اور اپنے بہترین نتیجہ کو حاصل کرتا ھے، اسی طرح عالم تشریع میں بھی تمام چھوٹی بڑی چیزیں حکمت الٰھی کے تحت ھوتی ھیں جن میں لغو اور بے فائدگی کا کوئی شائبہ نھیں ھوتا، چنانچہ خداوندعالم فرماتا ھے:

( اٴَفَحَسِبْتُمْ اٴَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَاٴَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَتُرْجَعُونَ ) ( ۶۳ )

”تو کیا تم یہ خیال کرتے ھو کہ ھم نے تم کو(یوںھی )بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ھمارے حضور میں لوٹا کر نہ لائے جاوگے“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلاً ذَلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ النَّارِ ) ( ۶۴ )

”اور ھم نے آسمان اور زمین اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان ھیں بیکار نھیں پیدا کیا یہ ان لوگوں کا خیال ھے جو کافر ھو بیٹھے تو جو لوگ دوزخ کے منکر ھیں ان پر افسوس ھے“۔

ایضاً ارشاد ھوا:

( اٴَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَنْ یُتْرَکَ سُدیً ) ( ۶۵ )

”کیاا نسان یہ سمجھتا ھے کہ وہ یوں ھی چھوڑ دیا جائے گا “۔

قارئین کرام! اس برہان کو قیاس کی شکل میں بھی بیان کیا جاسکتا ھے، جس کے دو مقدمے ھیں:

۱ ۔ خداوندعالم صاحب حکمت ھے۔

۲ ۔ صاحب حکمت کوئی بے ھودہ اور بے فائدہ کام نھیں کرتا۔

پس ان دونوں مقدموں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم کوئی عبث اوربے ھودہ کام نھیں کرتا، اب اگر انسان کے لئے معاد نہ ھو تو اس کا خلق کرنا عبث اور بے فائدہ ھے، جبکہ خدا کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ اس کا کوئی کام عبث اور بے ھودہ نہ ھو، لہٰذا ضروری ھے کہ انسان روز قیامت پلٹایا جائے، تاکہ وہاں پر حکمت الٰھی ظاہر ھوسکے۔

اوراگر انسان موت کے بعد نابود ھوجائے، اور اس کے بعد اس کے لئے کوئی دوسری دنیائے آخرت نہ ھو جہاں پر وہ سعادت و شقاوت کی زندگی گزارے تو پھر اس دنیا میں اس کی خلقت بے فائدہ ھوجائے گی، کیونکہ جب کسی کام کا کوئی فائدہ اور عقلائی ہدف نہ ھو تو وہ کام عبث اور بے ھودہ ھوتا ھے، لہٰذا فائدہ اور ہدف مرتب کرنے کی خاطر معاد کا ھونا ضروری ھے، کیونکہ اگر انسان موت کے بعد معدوم ھوجائے تو اس کامطلب یہ ھے کہ اس کی خلقت کا ہدف اور مقصد صرف یھی چند روزہ مشکلات و مصائب کی دنیا تھی ، اور اس زندگانی سے خداوندعالم صرف حیات دے کر مارنا چاہتا ھے، اورحیات و زندگی اسی طرح کرتا رھے اور اس کے کاموں کا کوئی مقصد نہ ھو !! واقعاً اس چیز کو کوئی بھی عاقل انسان قبول نھیں کرسکتا، تو پھر صاحب حکمت و جلال والی ذات اس کام کو کیونکر قبول کرسکتی ھے، کیونکہ خدا وندعالم کی حکمت سے کوئی بے ھودہ اور باطل کام سرزد نھیں ھوتا، تعالیٰ اللہ عن ذلک علواً کبیراً۔

لہٰذا مذکورہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات ثابت ھوجاتی ھے کہ عالم آخرت اور قیامت کا ھونا ضروری ھے جس میں انسان کی خلقت کا ہدف واضح ھوجائے، یہ وھی عالم ھے جس کو ”عالم بقا“( اور قرآن کی )اصطلاح میں”حَیوَان“ کھاجاتا ھے، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( وَمَا هَذِهِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ( ۶۶ )

”اور یہ دنیا وی زندگی تو کھیل تما شے کے سوا کچھ نھیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تواس میں شک نھیں کہ ابدی زندگی(کی جگہ) تو بس آخرت کا گھر ھے “۔

یہاں پر ھم ایسی قرآنی آیات پیش کرتے ھیں جو اس چیز کی تاکید کرتی ھیں کہ اس دنیا کی خلقت کی حکمت و مصلحت کے پیش نظر عالم آخرت اور قیامت کا ھونا ضروری ھے، ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا فِی اٴَنفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَاٴَجَلٍ مُسَمًّی وَإِنَّ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَکَافِرُونَ ) ( ۶۷ )

”کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں( اتنا بھی) غور نھیں کیا کہ خدا نے سارے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ھیں بس بالکل ٹھیک اور ایک مقررمیعاد کے واسطے خلق کیا ھے اور کچھ شک نھیں کہ بہتیرے لوگ تواپنے پروردگار (کی بارگاہ)کے حضور (قیامت) ھی کو کسی طرح نھیں مانتے “۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا لٰعِبِینَ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ إِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیقَاتُهُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ( ۶۸ )

”اور ھم نے سارے آسمان و زمین اور جو چیزیں ان دونوں کے درمیان میںھیں ۔ ان کو کھیل تماشا کرنے کے لئے نھیں بنایا ان دونوں کو ھم نے بس ٹھیک (مصلحت سے)پیدا کیا مگر ان میں کے بہتیرے لوگ نھیں جانتے بیشک فیصلہ (قیامت)کا دن ان سب (کے دوبارہ زندہ ھونے)کا مقرر وقت ھے“۔

۴ ۔ برہان عدالت

۱ ۔ انسان کے لئے فرائض کا ھونا وجود قیامت کا اقتضاء کرتا ھے:

واضح رھے کہ خداوندعالم نے انسان کے لئے اس دنیا کو امتحان گاہ( ۶۹ ) اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ھے، اس نے جہاں انسان کو جنبہ خیر عنایت کیا وھیں اس کو جنبہ شر بھی دیا ھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ امتحان دے سکے، اس کے ساتھ ساتھ خداوندعالم نے اس انسان کو عقل بھی عنایت کی ھے جس سے وہ اچھائی اور برائی کے درمیان امتیاز پیدا کرسکے، اس کے علاوہ خدا نے انبیاء اور مرسلین کو بھی بھیجا تاکہ خیر و شرّ کے راستہ کو معین کردیں، اس کے بعد خداوندعالم نے حق کی پیروی کو واجب قرار دیا اور شرّ اور برائی سے پرھیز کر نے کا حکم دیدیا، اس کے بعد انسان کو ارادہ و اختیار دیاتاکہ وہ اپنے ارادہ سے نیکیوں یا برائیوں کے انجام دینے پر عقاب و ثواب مستحق ھو سکے، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ اٴَیُّکُمْ اٴَحْسَنُ عَمَلاً ) ( ۷۰ )

”جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کام میں سب سے اچھا کون ھے “۔

ایضاً:

( وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ ) ( ۷۱ )

”اور دکھ (دونوں طرح)سے آزمایا تاکہ وہ (شرارت سے )بازآجائیں“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( وَ نَبْلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً وَ اِٴلَیْنَا تُرْجَعُونَ ) ( ۷۲ )

”اور ھم تمھیں مصیبت و راحت میں امتحان کی غرض سے آزماتے ھیں اور (آخر کار) ھماری ھی طرف لوٹائے جاو گے “۔

اسی بنا پر دنیاوی زندگانی میں مختلف قسم کی پریشانیاں اور سختیاں، بیماری، صحت ، مالداری اور غربت اور برائیوں کا رجحان اور نیکیوں سے بے رغبتی پائی جاتی ھے، یہ امتحان اور آزمائش ھے، اوریہاںپر کوئی ایسی چیز نھیں ھے جو جزا یا سزا بن سکے، اور چونکہ فرائض اور واجبات کا ھونا اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس کے لئے جزا یا سزا ھو اسی لئے روز قیامت کا ھونا ضروری ھے تاکہ نیکی انجام دینے والوں کو نیک جزا دی جائے اور برائی کرنے والوں کو سزا دی جائے، اور اگر ایسا نہ ھو تو پھر فرائض اور واجبات کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا اور واجبات و تکالیف لغو و بےکار ھوجائےں گے۔

اس سلسلہ میں علامہ فاضل مقداد کہتے ھیں: اگر روز قیامت کا عقیدہ صحیح اور حق نہ ھو تو پھر واجبات و فرائض کا وجود قبیح اور بُرا ھوگا، اور واجبات و فرائض قبیح نھیںھیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ عقیدہ قیامت بھی صحیح اور حق بجانب ھے کیونکہ فرائض اور تکالیف ایک مشقت اور کلفت ھے، پس مشقت بغیر معاوضہ(اور بدلہ) کے ظلم ھے، اور یہ بدلہ فرائض کی ادائیگی کے وقت نھیں ھے، تو اس کے لئے دوسرے جہان کا ھونا ضروری ھے تاکہ انسان کو اپنے اعمال کا بدلہ مل سکے، ورنہ تو واجبات اور محرمات کا معین کرنا ظلم ھوجائے گا، جو قبیح اور بُرا ھے، خدا ظلم سے پاک و پاکیزہ ھے۔( ۷۳ )

۲ ۔ وجود قیامت ،عدل الٰھی کا تقاضا ھے

علامہ نصیر الدین طوسی صاحب قیامت کو ثابت کرنے کے لئے کہتے ھیں:”وعدہ (خدا) اور اس کی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ قیامت کا وجود ھو“۔ اس جملہ کی شرح میں علامہ حلی فرماتے ھیں: ”چونکہ خداوندعالم نے انسان سے ثواب و جزا کا وعدہ کیا ھے اسی طرح عذاب کا بھی وعدہ کیا ھے، تو اس صورت میں قیامت کا ھونا ضروری ھے تاکہ خداوندعالم اپنے وعد و وعید پر وفا کرے۔“( ۷۴ )

کیونکہ اس بات میں کسی بھی انسان کو کوئی شک و شبہ نھیں ھے کہ انسان اس چند روزہ زندگی میں اپنے اعمال کی جزا یا سزا تک نھیں پہنچتا، لہٰذا وہ متدین افراد جنھوں نے اپنی عمر عبادت و بندگی میں گزاردی ھواور معاشرہ کی فلاح و بہبودی کے لئے زحمت اٹھائی ھو ، اس سلسلہ میں مشکلات، سختیاں اور پریشانیاں برداشت کی ھوں ، تو کوئی بھی حکومت اس کے اعمال کی جزا اور ثواب نھیں دے سکتی، اسی طرح انسانیت پر بڑے بڑے ظلم و ستم کرنے والے مجرمین کو جنھوں نے دوسروں پر ظلم و ستم کی وجہ سے اس دنیا میں مزے اڑائے ھوں ،بعض اوقات تو مجرم غائب ھوجاتے ھیں اور اگر گرفتار بھی کرلئے جائیں تو ان کی سزا ان کے جرائم سے بہت کم ھوتی ھے، مثلاً اگر اس نے پچاس انسانوں کا خون بہایا ھو تو اگر اس کی سزا میں اس کو سولی بھی دی جائے تو ایک انسان کا بدلہ ھوا ھے، اور باقی جرائم کا بدلہ باقی ھے، لہٰذا اس دنیا میں کوئی ایسی طاقت نھیں ھے جو اس کے تمام جرائم کی سزا دے سکے۔

لیکن جب انسان مرجاتا ھے اور ظالم و مظلوم، صالح اور مفسد بغیر عادلانہ ثواب و عقاب کے قبروں کے حوالے کردئے جاتے ھیںیعنی نیکی کرنے والوں کو ثواب نھیں ملتا اور ظلم و ستم کرنے والوں کو درد ناک عذاب نھیں ملتا، پس یہ چیز اس وعدہ الٰھی کے خلاف ھے جس کی بنا پر نیکی کرنے والوں اور ظلم و ستم کرنے والوں کے درمیان فرق قائم کرے اور نیک افراد کو ثواب دے اور برے لوگوں کو عذاب دے، اور چونکہ یہ کام اس دنیا میں نھیں ھوتا ھے لہٰذا ایک ایسی عدالت (قیامت) کا ھونا ضروری ھے جہاں پر خدا کا وعدہ عملی طور پر پورا ھو، اور انبیاء، اولیاء ، شہداء اور خدا کے نیک بندوں کے ساتھ کیا ھوا خدا کا وعدہ صادق ھو، اور ظالمین و مفسدین سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ قرآن کریم نے اس دلیل کو وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے، ان لوگوں کے مقابلہ میں جو نیک اور برے افراد کو برابر سمجھتے تھے:

۱ ۔ جن آیات میں گناہگار اور اطاعت کرنے والوں میں روز قیامت فرق کیا جائے گا تاکہ ثواب و عذاب ، وعد و وعیدمحقّق ھو، اور یہ سب کچھ عدل الٰھی کا تقاضا ھے۔

ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

( إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا وَعْدَ اللهِ حَقًّا إِنَّهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ ) ( ۷۵ )

”تم سب کو (آخر) اسی کی طرف لوٹنا ھے خدا کا وعدہ سچا ھے وھی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ھے پھر (مرنے کے بعد)وھی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے گا ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کے کفر کی سزامیں پینے کو کھولتا ھوا پانی اور دردناک عذاب ھوگا“۔

نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( فَاٴَمَّا مَنْ طَغَیٰ وَآثَرَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا فَاِٴنَّ الْجَحِیمَ هِیَ الْمَاٴْوَیٰ وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوَیٰ فَاِٴنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاٴْوَیٰ ) ( ۷۶ )

”اور جس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی اس کا ٹھکانا تو یقینا دوزخ ھے ۔مگر جو شخص اپنے پرور دگار کے سامنے کھڑے ھونے سے ڈرتا اور جولوگوں کونا جائز خواہشوں سے روکتا رھا۔تو اس کا ٹھکا نا یقینا بہشت ھے “۔

۲ ۔ جن آیات میں دونو ں کے برابر ھونے کو استفہام انکاری کے ذریعہ بیان کیا گیا ھے :

ارشاد پروردگار ھوتا ھے:

( اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) ( ۷۷ )

”تو کیا جو شخص ایمان دار ھے اس شخص کے برابر ھو جائے گا جو بدکار ھے(ہر گز نھیں یہ دونوں) بر ابر نھیں ھوسکتے“۔

نیز خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( اٴَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِینَ فِی الْاٴَرْضِ اٴَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ ) ( ۷۸ )

”کیا جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور (اچھے اچھے ) کام کئے ان کو ھم ان لوگوں کے برابر کردیں جو روئے زمین میں فساد پھیلایا کرتے ھیں ۔یا ھم پرھیزگاروں کو مثل بدکاروں کے بنادیں“۔

ایضاً:

( اٴَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ نَجْعَلَهُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْیَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ ) ( ۷۹ )

”جو لوگ برے کام کرتے ھیں کیا وہ یہ سمجھتے ھیں کہ ھم انھیں لوگوں کے برابر کر دیں گے جو ایمان لائے اور اچھے اچھے کام بھی کرتے رھے اور ان سب کا جینا مرنا ایک ساں ھوگا یہ لوگ (کیا ) برے حکم لگاتے ھیں “۔

إ( ِنَّ لِلْمُتَّقِینَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِیمِ اٴَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِینَ کَالْمُجْرِمِینَ مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ( ۸۰ )

”بیشک پر ھیز گار لوگ اپنے پروردگار کے ہاں عیش و آرام کے باغوں میں ھوں گے ۔تو کیا ھم فرنبرداروں کو نافرمانوں کے برابر کر دیں گے (ہرگزنھیں)تمھیں کیا ھوگیا ھے تم کیسا حکم لگاتے ھو“۔

____________________

(۱) سورہ بقرة آیت۱۷۷۔

(۲) سورہ مائدہ آیت ۶۹۔

(۳) سورہ آل عمران آیت۹۔

(۴) سورہ نساء آیت۸۷۔

(۵) سورہ نحل آیت ۸ ۳ ۔

(۶) سورہ سباء آیت۳۔

(۷) ھم یہاں پر صرف ان آیات کی طرف اشارہ کرتے ھیں تفصیل کے لئے کتاب ”الرجعة “،نشر مرکز الرسالة ص۱۸ ۔۲۶، پر رجوع کیجئے جس میں آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں احادیث بھی بیان کی گئی ھےں۔

(۸) سورہ بقرہ آیت۲۴۳۔

(۹) سورہ بقرہ آیت۲۵۹۔

(۱۰) سورہ بقرہ آیت۵۵۔۵۶۔

(۱۱) سورہ بقرہ آیت۷۲۔۷۳۔

(۱۲) سورہ بقرہ آیت۲۶۰۔

(۱۳) سورہ انعام آیت۱۳۰۔

(۱۴) سورہ زمر آیت۷۱۔

(۱۵) سورہ نوح آیت۱۷۔۱۸۔

(۱۶) سورہ انعام آیت۱۵۴۔

(۱۷) سورہ غافر آیت۲۷۔

(۱۸) سورہ آل عمران آیت۵۵۔

(۱۹) سورہ یٰس آیت۱۲۔

(۲۰) سورہ زخرف آیت۸۰۔

(۲۱) سورہ ق آیت۱۶۔۱۸، ایضا ً رجوع کریں:سورہ یونس آیت۲۱،سورہ اسراء آیت۱۴،سورہ قمر آیت ۵۲،۵۳،وانفطار آیت۱۰،۱۲۔

(۲۲) سورہ جاثیة آیت۲۸،۲۹۔

(۲۳) سورہ کہف آیت۴۹۔

(۲۴) سورہ جاثیة آیت۲۴۔

(۲۵) سورہ نجم آیت۲۸۔

(۲۶) سورہ نمل آیت۶۴۔

(۲۷) ھم انشاء اللہ بعض اعتراضات کو مع جواب تیسری فصل میں بیان کریں گے۔

(۲۸) سورہ یٰس آیت۷۹،۸۰۔

(۲۹) الا عتقادات ، شیخ صدوق :۶۴مو تمر شیخ مفید ۔قم ،بحا رالانوار /علامہ مجلسی۷:۴۷ /۳۱و۱۰۳/۱۳۔

(۳۰) بحا رالانوار /علامہ مجلسی۷:۴۰/۱۱۔

بحار الانوار ج ۷ ص ۴۰ حدیث ۱۱۔

(۳۱) نہج البلاغہ صبحی الصالح :۱۶۱۔خطبہ نمبر ۱۰۹۔

(۳۲) نہج البلاغہ صبحی الصالح :۱۴۷۔خطبہ نمبر۱۰۲۔

(۳۳) بحا رالانوار /علامہ مجلسی۷:۴۲/۱۴،حق الیقین /عبد اللہ شبر ۲:۵۴۔

(۳۴) ضروریات دین ان چیزوں کو کھاجاتا ھے جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ھو کہ یہ جز دین ھیں اور ان کے انکار سے انسان دین سے خارج ھوجاتا ھے۔ (مترجم)

(۳۵) دیکھے :بحا رالانوار /علامہ مجلسی۷:۴۷/۴۸،حق الیقین /عبد اللہ شبر ۲:۳۷۔۳۸۔

(۳۶) کشف المراد ،علامہ حلی :۴۲۴۔انتشارات شکوری ۔قم۔

(۳۷) سورہ حج آیت ۵،۶۔

(۳۸) سورہ روم آیت۲۷۔

(۳۹) سورہ روم آیت ۱۱۔

(۴۰) سورہ اسراء آیت۵۱۔

(۴۱) سورہ الانبیاء آیت۱۰۴۔

(۴۲)یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَیُحْیِي الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَکَذَلِکَ تُخْرَجُونَ (سورہ روم آیت ۱۹) ”وھی زندہ کو مردہ سے نکالتا ھے اور وھی مردہ کو زندہ سے پیدا کرتاھے اور زمین کو مرنے (پڑتی ھونے) کے بعد زندہ (آباد)کرتا ھے اور اسی طرح تم لوگ بھی(مرنے کے بعد) نکالے جاوگے “۔

وَاللهُ الَّذِی اٴَرْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَی بَلَدٍ مَیِّتٍ فَاٴَحْیَیْنَا بِهِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا کَذَلِکَ النُّشُورُ

(سورہ فاطر آیت۹)

”اور خدا ھی وہ (قادر و توانا) ھے جو ھواوں کو بھیجتا ھے تو ھوائیں بادلوں کو اڑا ئے لئے پھرتی ھیں ،پھر ھم اس بادل کو مردہ (افتادہ)شہر کی طرف ہنکادیتے ھیں پھر ھم اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد شاداب کرتے ھیں یونھی (مردوں کو قیامت میں) جی اٹھنا ھوگا“۔

وَمِنْ آیَاتِهِ اٴَنَّکَ تَرَی الْاٴَرْضَ خَاشِعَةً فَإِذَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ إِنَّ الَّذِی اٴَحْیَاهَا لَمُحْیِی الْمَوْتَی إِنَّهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ

(فصلت ۳۹)

”اس کی( قدرت کی )نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ھے کہ تم زمین کو خشک و بے گیاہ دیکھتے ھو پھر جب ھم اس پر پانی برسادیتے ھیں تو لہلہانے لگتی ھے اور پھول جاتی ھے جس(خدا) نے (مردہ)زمین کو زندہ کیا وہ لقیناً مردوں کوجلائے گا وہ ہر چیز پر قادر ھے“۔

فَانظُرْ إِلَی آثَارِ رَحْمَةِ اللهِ کَیْفَ یُحْیيِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِکَ لَمُحْیِی الْمَوْتَی وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ (۴۲)

”غرض خدا کی رحمت کے آثار کی طرف دیکھو تو کہ وہ کیونکر زمین کو اس کی پڑتی ھونے کے بعد آباد کرتا ھے۔بیشک یقیناوھی مردوں کا زندہ کرنے والا اور وھی ہر چیز پر قادر ھے“۔

نیز ارشاد قدرت ھوتا ھے:

وَهُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهِ حَتَّی إِذَا وَالَّذِی نَزَّلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاٴَنشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مَیْتًا کَذَلِکَ تُخْرَجُونَ ۔

(سورہ زخرف آیت۱۱۔)

”اور جس نے ایک( مناسب)اندازے کے ساتھ آسمان سے پانی بر سایا پھر ھم ھی نے اس کے ذریعہ سے مردہ (پڑتی)شہر کو زندہ(آباد)کیا اسی طرح تم بھی (قیامت کے دن قبروں سے) نکالے جاوگے“۔

رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَاٴَحْیَیْنَا بِهِ بَلْدَةً مَیْتًا کَذَلِکَ الْخُرُوجُ

(سورہ ق آیت۱۱۔)

”(یہ سب کچھ) بندوں کی روزی دینے کے لئے (پیدا کیا)اور پانی ھی سے ھم نے مردہ شہر (افتادہ زمین ) کو زندہ کیا اسی طرح (قیامت میں مردوں کو نکلنا ھوگا“۔

(۴۳) سورہ اعراف آیت۵۷۔

(۴۴) تفسیر المیزان ۔مو سسہ الاعلمی،ج ۱۶ص۲۰۳، نیز رجوع فرمائیںج ۱۷ص۲۱۔

(۴۵) سورہ نوح آیت۱۷،۱۸۔

(۴۶)إِلَیْهِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیعًا وَعْدَ اللهِ حَقًّا إِنَّهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ لِیَجْزِیَ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیمٍ وَعَذَابٌ اٴَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ

(سورہ یونس آیت۴)

”تم سب کو (آخر) اسی کی طرف لوٹنا ھے خدا کا وعدہ سچا ھے وھی یقینا مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کرتا ھے پھر (مرنے کے بعد)وھی دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کئے ان کو انصاف کے ساتھ جزائے خیر عطا فرمائے گا ۔اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے ان کے کفر کی سزائیں پینے کو کھولتا ھواپانی اور دردناک عذاب ھوگا“۔

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَواالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُونَ (سورہ یونس ۳۴)

”(اے رسول ان سے )پوچھو کہ تم نے جن لوگوں کو (خدا کا ) شریک بنایا ھے کوئی بھی ایسا ھے جو مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرے پھر ان کو (مرنے کے بعد )دوبارہ زندہ کرے (وہ توکیا جواب دیں گے) تمھیں کھو کہ خدا ھی پہلے بھی پیدا کرتاھے پھر وھی دوبارہ زندہ کرتا ھے تو کدھر تم الٹے چلے جا رھے ھو “۔

اٴَمَّنْ یَبْدَواالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ وَمَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَءِ لَهٌ مَعَ اللهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ (سورہ نمل آیت۶۴)

”بھلا وہ کون ھے جو خلقت کو نئے سرے سے پیدا کرتا ھے پھر اسے دوبارہ (مرنے کے بعد )

پیدا کرے گاان لوگوں کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ھے تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ھے (ہرگز نھیں اے رسول ) تم ان مشرکین سے کہدو کہ اگر تم سچے ھو تو اپنی دلیل پیش کرو“۔

اللهُ یَبْدَوا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ثُمَّ إِلَیْهِ تُرْجَعُونَ (سورہ روم آیت۱۱۔)

”خدا ھی نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا پھر وھی دوبارہ (پیدا) کرے گا پھر تم سب لوگ اسی کو لوٹائے جاوگے“۔

وَاللهُ اٴَنْبَتَکُمْ مِنْ الْاٴَرْضِ نَبَاتًا ثُمَّ یُعِیدُکُمْ فِیهَا وَیُخْرِجُکُمْ إِخْرَاجًا (سورہ نوح آیت۱۷،۱۸)

”اور خدا ھی نے تم کو زمین سے پیدا کیا پھر تم کو اسی میں دوبارہ لے جائے گا اور (قیامت میں اسی سے)نکال کھڑا کرے گا “۔

وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُوْدُ (سورہ بروج آیت۱۳)

”اور وھی دوبارہ( قیامت میں )زندہ کرے گا“

(۴۷) سورہ عنکبوت آیت۱۹،۲۰۔

(۴۸) سورہ ملک آیت۱۴۔

(۴۹) سورہ واقعہ آیت۵۷۔

(۵۰) سور ہ واقعہ آیت۶۲۔

(۵۱) سور ہ یونس آیت۳۴۔

(۵۲) سورہ بقرة آیت۲۸۔

(۵۳) سورہ ق آیت۱۵۔

(۵۴) سورہ لقمان آیت۲۸۔

(۵۵) سورہ اسراء آیات ۹۸،۹۹۔

(۵۶) سورہ یٰس آیات ۸۱،۸۲۔

(۵۷) سورہ احقاف آیت۳۳۔

(۵۸) سورہ غافر آیت۵۷۔

(۵۹) سورہ نازعات آیت۲۷،۠۰۔

(۶۰) سورہ اسراء آیت۴۹۔

(۶۱) سورہ اسراء آیت۵۱۔

(۶۲) دیکھئے المیزان ، علامہ طباطبائی ج۱ص۱۱۶۔

(۶۳) سورہ مومنون آیت۱۱۵۔

(۶۴) سورہ ص آیت۲۷۔

(۶۵) سورہ قیامت آیت۳۶۔

(۶۶) سورہ عنکبوت آیت۶۴۔

(۶۷) سورہ روم آیت ۸۔

(۶۸) سورہ دخان آیات ۳۸تا۴۰۔

(۶۹) جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے : ”الدنیا مزرعة الآخرة“ (دنیا آخرت کی کھیتی ھے)۔(مترجم)

(۷۰) سورہ ملک آیت۲۔

(۷۱) سورہ اعراف آیت۱۶۸۔

(۷۲) سورہ انبیاء آیت۳۵۔

(۷۳) النافع یوم الحشر فی شرح الباب الحادی عشر، / فاضل مقداد، ص ۸۶تا ۸۷، انتشارات زاہدی، اسی طرح علامہ حلی نے اپنے کتاب ”مناہج الیقین فی اصول الدین میں بیان کیا ھے۔

(۷۴) کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد/ علامہ حلی رحمة اللہ علیہ ص۴۳۱۔

(۷۵) سورہ یونس آیت۴۔

(۷۶) سورہ نازعات آیت۳۷،۴۱۔

(۷۷) سورہ سجدة آیت۱۸۔

(۷۸) سورہ ص آیت۲۸۔

(۷۹) سورہ جاثیة آیت۲۱۔

(۸۰) سورہ قلم آیت ۳۴ ، ۶ ۳۔