قیامت

قیامت0%

قیامت مؤلف:
زمرہ جات: معاد

قیامت

مؤلف: علی موسیٰ الکعبی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10732
ڈاؤنلوڈ: 3619

تبصرے:

قیامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10732 / ڈاؤنلوڈ: 3619
سائز سائز سائز
قیامت

قیامت

مؤلف:
اردو

چوتھی فصل

منازل الآخرت

انسان کے مرنے کے بعد خدا کے حضور میں جانے تک متعدد سخت ترین منزلیں ھیںجن سے گزرکر آخرت کی منزل تک پہنچنا ھے، اور یہ اتنی سخت منزلیں ھیں کہ اگر ان کو حالت احتضار (یعنی مرنے کے وقت ) کے ساتھ مقایسہ کیا جائے تو موت کی منزل بہتر اور آسان دکھائی دے گی۔

مصحف ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

ان بین الدنیا والاخرة الف عقبة ،اهو نها و ایسرها الموت “۔( ۱ )

”(موت کے بعد) دنیا اور آخرت کے درمیان ہزار خطرناک گھاٹیاں ھیں (جن سے گزرکر جانا ھے) اور ان میں سب سے آسان مرحلہ موت ھے“۔

قارئین کرام! ھم یہاں پر مختصر طور پر ان منزلوں کو پانچ بحثوں میںبیان کرتے ھیں جنھیںانسان طے کرے گا۔

پہلی بحث : موت اور اس کی سختیاں

روز قیامت تک پہنچنے کے لئے سب سے پہلی منزل ھے، اور یہ آخرت تک پہنچنے کے لئے پہلی نشانی ھے۔ حضرت رسول اکرم (ص)فرماتے ھیں:

الموت القیامة ،اذا مات احدکم فقد قامت قیامته،یری ما له من خیر و شر “۔( ۲ )

”موت ھی قیامت ھے، جب تم میںسے کوئی شخص مرتا ھے تو اس کی قیامت آجاتی ھے وہ اپنے کئے اعمال کی جزا یا سزا کو دیکھ لیتا ھے۔“

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

الموت باب الاخرة “۔( ۳ )

”موت آخرت کا دروازہ ھے“۔

موت سے مراد انسان کی روح قبض ھونا اور جسم و روح کے رابطہ کا خاتمہ ھے، یا دنیاوی زندگی سے اُخروی دنیا تک منتقل ھوجانے کا نام ھے، اور یہ ”فعل اللہ“ یعنی اللہ کا کام ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( هُوَ الَّذِی یُحْیِي وَیُمِیتُ فَإِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ) ( ۴ )

”وہ وھی خدا ھے جو جلاتا اور مارتا ھے پھر جب وہ کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتا ھے تو بس اس سے کہہ دیتا ھے کہ ھوجا تو وہ فوراً ھوجاتا ھے“۔

بے شک خداوندعالم نے یہ ذمہ داری یعنی قبض روح کا کام ملک الموت کے حوالہ کررکھا ھے، ملک الموت ھی حکم خدا وندی سے انسان کی روح کو قبض کرتا ھے:

( قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّکُمْ تُرْجَعُونَ ) ( ۵ )

”(اے رسول ) کہدو کہ ملک الموت جو تمہارے اوپر تعینات ھے وھی تمہاری روحیں قبض کرے گا اس کے بعد تم سب کے سب اپنے پرور دگار کی طرف لوٹا ئے جاو گے ‘ ‘ ۔

اور خداوندعالم نے ملک الموت کے لئے دیگر فرشتوں کو اعوان و انصار مقرر فرمایا ھے جو اسی کے حکم سے روح قبض کرتے ھیں اور ان کا فعل خدا کا فعل ھوتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:

( حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَیُفَرِّطُونَ ) ( ۶ )

”یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو ھمارے فرستادہ (فرشتے)اس کو( دنیا سے)اٹھا لیتے ھیں اور وہ( ھمارے حکم میں ذرا بھی)کوتاھی نھیںکرتے“۔

خداوندعالم ملک الموت کے ذریعہ انسان کو موت دیتا ھے:

( اَللّٰهُ یَتَوَفَّی الْاٴَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا ) ( ۷ )

”اللہ ھی ھے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ھے“۔

اسی مطلب کی طرف حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ حدیث اشارہ کرتی ھے، جیسا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا ھے:

ان الله جعل لملک الموت اعوانا من الملائکة ،یقبضون الارواح،بمنزلة صاحب الشرطة له اعوان من الانس ،یبعثهم فی حوائجه، فتتوفاهم الملائکة ،و یتوفاهم ملک الموت من الملائکة مع ما یقبض هو،و یتوفا ها الله تعالیٰ من ملک الموت “۔( ۸ )

”خداوندعالم نے ملک الموت کے لئے دیگر فرشتوں کو ناصر و مددگار بنایا ھے، جو انسانوں کی روحوں کو قبض کرتے ھیں جیسے انسانوں میںداروغہ کے ساتھ پولیس اور دیگر ناصرو مددگار ھوتے ھیں، اور انھیں اپنی حاجتیں پورا کرنے کے لئے ادھر اُدھر بھیجتا ھے اسی طرح ملک الموت دیگر فرشتوں کو روح قبض کرنے کے لئے بھجتا ھے اور ان فرشتوں کی روح خود ملک الموت قبض کریں گے اور ملک الموت کو خود خدا موت دے گا“۔

موت کی سختیاں

موت وہ حقیقت ھے جو عالم کائنات میں انسانی زندگی کی آخری منزل ھے، جس سے کوئی بھی فرار نھیں کرسکتا، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِی تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِیکُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ( ۹ )

”(اے رسول) تم کہدو کہ موت جس سے تم لوگ بھاگتے ھو وہ تو ضرور تمہارے سامنے آئے گی پھر تم پو شیدہ اور ظاہر کے جاننے والے (خدا ) کی طرف لوٹا دیئے جاوگے پھر جو کچھ بھی تم کرتے تھے وہ تمھیں بتا دے گا“۔

موت اور اس کی سختیوں کے بارے میں بہت سی آیات و روایات میں تفصیل بیان ھوئی ھے، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

وان للموت لغمرات هی افظع من ان تستغرق بصفة ،او تعتدل علی عقول اهل الدنیا “۔( ۱۰ )

”بے شک موت کی سختیاں ایسی ھی ھیں جو اپنی شدت میں بیان کی حدووں میں نھیں آسکتی، اور اہل دنیا کی عقول کے اندازوں پر پوری نھیں اترسکتی ھیں“۔

ھم ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں موت کی بعض سختیوں کے بارے میں بیان کرتے ھیں:

۱ ۔ حالت احتضار(جانکنی): حالت احتضار سے مراد ملک الموت یا اس کے اعوان و انصار کا حاضر ھونا ھے چاھے وہ ملائکہ رحمت ھوں یا ملائکہ عذاب، تاکہ مرنے والے کی روح کو قبض کریں، اور یہ سب سے مشکل ترین مرحلہ ھے کیونکہ ملائکہ کو دیکھ کر اس پر بہت زیادہ خوف و وحشت طاری ھوتی ھے، حضرت امام زین العابدین علیہ الصلاة و السلام فرماتے ھیں:

اشد ساعات ابن آدم ثلاث ساعات :الساعة التی یعاین فیها ملک الموت ،والساعة التی یقوم فیها من قبره ،والساعة التی یقف فیها بین یدی الله تبارک و تعالیٰ ،فاما الی الجنة ،واما الی النار “۔( ۱۱ )

”انسان کے لئے تین موقع بڑے سخت ھوتے ھیں: ایک موقع وہ جب انسان ملک الموت کا مشاہدہ کرتا ھے، دوسرا وہ موقع جب انسان کو قبر میں اتارا جاتا ھے، تیسرا موقع وہ ھے جب انسان روز قیامت حساب و کتاب کے لئے پیش ھوگا، چاھے جنت میں جائے یا دوزخ میں“۔

حالت احتضار کا خوف و وحشت تمام مرنے والوں کے لئے برابر نھیں ھے بلکہ اگر انسان نیک کردار ھوتا ھے تو اس کی جاں کنی آسانی سے ھوتی ھے اور اگر مرنے والے دیندار نہ ھو تو اس کے لئے سختیاں اور پریشانیاں زیادہ ھوتی ھیں،لہٰذا اگر مرنے والا مومن اور متقی ھے تو فرشتے بہت آسانی سے اس کی روح قبض کرتے ھیں اور اس کو جنت الفردوس کی بشارت دیتے ھیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمْ الْمَلاَئِکَةُ طَیِّبِینَ یَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ( ۱۲ )

”(یہ) وہ لوگ ھیں جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ھیں کہ وہ (نجاست کفر سے)پاک و پاکیزہ ھوتے ھیں تو فرشتے ان سے (نہایت تپاک سے) کہتے ھیں سلام علیکم، جو نیکیاں دنیا میں تم کرتے تھے اس کے صلہ میں جنت میں (بے تکلف) چلے جاو“۔

لہٰذا ان کے مرنے اور بشارت میں کوئی فاصلہ نھیں ھوتا کیونکہ آیت کے دونوں جملوں میں کوئی حرف عطف بھی نھیں ھے ، پس موت کے ساتھ ساتھ بشارت ھوتی ھے۔

لیکن کفار و ظالموں کی موت کی سختیوں کے سلسلے بہت سی آیات قرآنی بہت زیادہ خوف و وحشت اور ھیبت کے بارے میں بیان کرتی ھیں کیونکہ ان کو دردناک اور سخت سے سخت عذاب کے بارے میں خبر دی جائے گی، خداوندعالم فرماتا ھے:

( وَلَوْتَرٰٓی اِذْیَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْمَلائِکَةُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ذَٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ ) ( ۱۳ )

”اور کاش (اے رسول) تم دیکھتے جب فرشتے کافروں کی جان نکال لیتے تھے اور ان کے رخ اور پشت پر (کوڑے )مارتے جاتے تھے اور (کہتے جاتے تھے کہ)عذاب جہنم کے مزے چکھو یہ سزا اس کی ھے جو تمہارے ہاتھوں نے پہلے کیا کرایا ھے اور خدا بندوں پر ہر گز ظلم نھیں کیا کرتا “۔

۲ ۔ سکرات موت: خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَجَاءَ تْ سَکْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْهُ تَحِیدُ ) ( ۱۴ )

”اور موت کی بیھوشی یقینا طاری ھوگی یھی وہ بات ھے جس سے تو بھاگا کرتا تھا“۔

سکرات موت سے وہ کرب و پریشانی مراد ھے جسے دیکھ کر مرنے والا بے ھوش ھوجاتا ھے،مرگ بار مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ھیں، وہ حیرت زدہ رہ جاتا ھے ،شدید قسم کے آلام اور طرح طرح کے امراض و اسقام ھوتے ھیں.

انة موجعة ،و جذبة مکربة و سوقة متعبةٍ “۔( ۱۵ )

انسان سکرات موت کی مدھوشیوں، شدید قسم کی بدحواسیوں، دردناک قسم کی فریادوں اور کرب انگیز قسم کی نزع کی کیفیتوں اور تھکادینے والی شدتوں میں مبتلا ھوجاتا ھے۔

حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:

ادنی جبذات الموت بمنزله مائة ضربة بالسیف “۔( ۱۶ )

”موت کا معمولی سا درد تلوارکی سو ضربت کے برابر ھے“

ان سکرات موت اور غمرات موت کے آثار میں سے انسان کی زبان کا لڑکھڑانا ھے،یا مثلاً آنکھوں کی بینائی کم ھوجاتی ھے اور پہلو ہلنے لگتے ھیں، اس کے ھونٹ پپڑا جاتے ھیں، اس کی پسلیاں چڑھ جاتی ھیں، اس کا سانس پھول جاتا ھے، اس کا رنگ پیلا پڑجاتا ھے اور آہستہ آہستہ اس کے اعضاء و جوارح بے جان ھونے لگتے ھیں یہاں تک کہ اس کی رانیں، اس کا سینہ اور اوپری حصہ گلے تک ٹھنڈے پڑ جاتے ھیں، اس کے بعد دنیا سے رخصت ھوجاتا ھے اور اس کے بعد دنیا میں نھیں لوٹ سکتا:

( فَلَوْلاَإِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ وَاٴَنْتُمْ حِینَئِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْکُمْ وَلَکِنْ لاَتُبْصِرُونَ فَلَوْلاَإِنْ کُنتُمْ غَیْرَ مَدِینِینَ تَرْجِعُونَهَا إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) ( ۱۷ )

”تو کیا جب جان گلے تک آپہنچی ھے اور تم اس وقت (کی حالت) پڑے ھوئے دیکھا کرتے ھو اور ھم (اس مر نے والے) سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ھیں لیکن تم کو دکھائی نھیں دیتا تو اگر تم کسی کے دباو میں نھیں ھوتو اگر (اپنے دعوے میں) تم سچے ھو تو روح کو پھیر کیوں نھیں دیتے“۔

یھی وہ موقع ھے جس کو حالت احتضار کہتے ھیں جو واقعاً ایک وحشت ناک موقع ھے۔

(خدا وندعالم اس وقت ھماری مدد کرے، آمین)

حضرت علی علیہ السلام حالت احتضار کے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:

اجتمعت علیهم سکرة الموت ،وحسرة الفوت ،ففترت لها اطرافهم وتغیرت لها الوانهم ،ثم ازداد الموت فیهم ولوجا فحیل بین احدهم وبین منطقه ،وانه لبین اهله ،ینظر ببصره ،ویسمع باذنه ،علی صحة من عقله ،وبقا ء من لبه ،یفکر فیم افنی عمره ،فیم اذهب دهرهفهو یعض یده ندامة علی ما اصحر له عند الموت من امره،ویزهد فیما کان یرغب فیه اٴَیام عمره فلم یزل الموت یبالغ فی جسده،حتی خالط لسانه و سمعه،فصار بین اهله لا ینطق بلسانه ولا یسمع بسمعه ،یردد طرفه بالنظر فی وجوهم، یری حرکات اٴلسنتهم، ولا یسمع رجع کلامهم، ثم ازداد الموت التیاطاً به ،فقبض بصره کما قبض سمعه ،و خرجت الروح من جسده ،فصار جیفة بین اهله ،قد او حشوا من جانبه ،و تباعد وا من قربة ،لا یسعد باکیا ً ،ولا یجیب داعیاً ، ثم حملوه الی مخط فی الارض ،فاسلموه الی عمله، وانقطعوا عن زورته“ ۔( ۱۸ )

”(تو اب اس مصیبت کا بیان بھی ناممکن ھے) جہاں ایک طرف موت کے سکرات ھیں اور دوسری طرف فراق دنیا کی حسرت، حالت یہ ھے کہ ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑگئے ھیں اور رنگ اڑگیا ھے، اس کے بعد موت کی دخل اندازی اور بڑھی تو وہ گفتگو کی راہ میں بھی حائل ھوگئی کہ انسان گھروالوںکے درمیان ھے انھیں آنکھوں سے دیکھ رھاھے، کان سے ان کی آوازیں سن رھاھے، عقل بھی سلامت ھے اور ھوش بھی برقرار ھے، یہ سوچ رھاھے کہ عمر کو کہاں برباد کیا ھے اور زندگی کو کہاں گزارا ھے۔۔۔

ندامت سے اپنے ہاتھ کاٹ رھاھے اور اس چیز سے کنارہ کش ھونا چاہتا ھے جس کی طرف زندگی بھر راغب تھا اب یہ چاہتا ھے کہ کاش جو شخص اس سے اس مال کی بنا پر حسد کررھاتھا یہ مال اُس کے پاس ھوتا اور اس کے پاس نہ ھوتا۔ اس کے بعد موت اس کے جسم میں مزید دراندازی کرتی ھے اور زبان کے ساتھ کانوں کو بھی شامل کرلیتی ھے کہ انسان اپنے گھروالوں کے درمیان نہ بول سکتا ھے اور نہ سُن سکتا ھے، ہر ایک کے چہرہ کو حسرت سے دیکھ رھاھے ، ان کی زبان کی جنبش کو بھی دیکھ رھاھے لیکن الفاظ نھیں سن سکتا ۔

اس کے بعد موت اور چپک جاتی ھے، توکانوں کی طرح آنکھوں پر بھی قبضہ ھوجاتا ھے، اور روح جسم سے پرواز کرجاتی ھے اب وہ گھروالوں کے درمیان ایک مُردار ھوتا ھے، جس کے پہلو میں بیٹھنے سے بھی وحشت ھونے لگتی ھے اور لوگ دور بھاگنے لگتے ھیں، یہ اب نہ کسی رونے والے کو سہارا دے سکتا ھے اور نہ کسی پکارنے والے کی آواز پر آواز دے سکتا ھے، لوگ اسے زمین کے ایک گڑھے تک پہنچادیتے ھیں اور اسے اس کے اعمال کے حوالہ کردیتے ھیں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ختم ھوجاتا ھے۔

لیکن بعض اعمال صالحہ جیسے صلہ رحم، والدین کے ساتھ نیکی کرنا وغیرہ حالت احتضار کے وقت مشکل آسان کرتے ھیں، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایاھے:

من احب ان یخفف الله عز وجل عنه سکرات الموت ،فلیکن لقرابته وصولاً،وبوالدیه باراً ۔۔۔“۔( ۱۹ )

”جو شخص چاہتا ھے کہ خداوندعالم سکرات موت اور اس سختیوں کو آسان کردے تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحم کرے اور اپنے والدین کے ساتھ نیکی اور احسان کرے“۔

۳ ۔ قبض روح : احادیث میں بیان ھوا ھے کہ انسان کی جان کنی اس کے اعمال کے لحاظ سے آسانی سے یا سختی کے ساتھ ھوگی، وہ مومنین جن کا ایمان راسخ ھے، جنھوں نے اپنے اعضاء و جوارح کو گناھوں سے روکا ھے، ان کو لقاء پروردگار کی آرزو رہتی ھے، تو ملائکہ رحمت ان کی روح بہت آسانی سے قبض کریں گے، لیکن کفار جن کو دنیا نے دھوکہ میں ڈال دیا ھے، اور فسق و فجور کے دلدل میں پھنس گئے ھیں، نیز لقاء پروردگار سے روگرانی کرتے ھیں تو عذاب و غضب کے فرشتے ان کی روح شدت اور سختی سے قبض کرتے ھیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

ان آیة المومن اذا حضره الموت ان یبیض وجهه اشد من بیاض لونه ،و یرشح جبینه ،و یسیل من عینیه کهیئة الدموع ،فیکون ذلک آیة خروج روحه ،وان الکافر تخرج روحه سلاًمن شدقه کزبد البعیر ۔۔“۔( ۲۰ )

”جان کنی کے عالم میںمومن کی نشانی یہ ھے کہ اس کے چہرے کا رنگ سفید ھوجاتا ھے، اس کی پیشانی سے پسینہ جاری ھوجاتا ھے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ھوجاتا ھے، پس روح نکلنے کی یھی نشانیاں ھیں، لیکن کافر کی روح بڑی سختی سے اس طرح نکالی جاتی ھے جیسے اونٹنی کے دودھ سے گھی نکالا جاتا ھے“۔

قارئین کرام! احادیث معصومین علیھم السلام سے یہ بات ظاہر ھوتی ھے کہ مذکورہ قاعدہ (جان کنی میں سختی اور آسانی سے کسی کے ایمان یا کفر کا پتہ لگانا)مسلم نھیں ھے ،کیونکہ اگر کسی شخص کی جان کنی سختی کے ساتھ ھورھی ھو تو وہ عذاب میں مبتلا ھے اور جس کی آسانی سے روح نکل جائے وہ ثواب اور اکرام کی حالت میں ھے، کیونکہ کبھی مومن کی روح سختی سے قبض کی جاتی ھے تاکہ یہ سختی اس کے گناھوں کا کفارہ بن جائے، اور وہ آخرت میں پاک ھوکر جائے، اور کبھی کبھی کافر کی روح آسانی سے نکل جاتی ھے تاکہ اس کی نیکیوں کی جزا دنیا ھی میں مل جائے( ۲۱ ) ، جیسا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ھم دیکھتے ھیں کہ کسی کافر کی روح آسانی سے اس حال میں نکل جاتی ھے کہ ، وہ باتیں کررھاتھا ہنس رھاتھا ، اور مومنین کے لئے بھی ایسا ھی ھوتا ھے، بہر حال ھم کس طرح مومنین اور کفار میں سکرات موت اور سختیوں کا اندازہ لگائیں؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا:

ماکان من راحة للمومن هناک فهو عاجل ثوابه ،وماکان من شدة فهو تمحیصه من ذنوبه ،لیرد الاخرة نقیاً نظیفاً ،مستحقاً لثواب الابد، لامانع له دونه ،وماکان من سهولة هناک علی الکافر فلیوفی اجر حسناته فی الدنیا ،لیرد الاخرة ولیس له الا ما یوجب علی العذاب، وماکان من شدة علی الکافر هناک فهو ابتداء عذاب الله له بعد نفاد حسناته ،ذلک بان الله عدل لایجور “۔( ۲۲ )

”جس مومن کے لئے حالت احتضار میں راحت و سکون ھوتا ھے وہ اس بنا پر ھے کہ اس کو آخرت میں ثواب ملنے ولاھے اور اس کا ثواب اس قدر ھے کہ اس دنیا میں ھی وہ ثواب سے محظوظ ھونے لگتا ھے یعنی تعجیل ثواب میں اس کو یھیں سے راحت و سکون دیدیا جاتا ھے،او راگر اسے حالت احتضار میں سختیاں پیش آئیں تو وہ اس کو گناھوں سے پاک کرنے کے لئے ھیں تاکہ وہ آخرت میں گناھوں سے پاک و صاف ھوکر جائے، اور ھمیشہ کے لئے ثواب اور نعمتیں ملتی رھیں، اور اس کے ثواب میں کوئی مانع درپیش نہ آئے، لیکن کفار کے لئے موت کے وقت آسانی دنیا میں کی ھوئی نیکیوں کی وجہ سے ھے تاکہ آخرت میں اس کے لئے عذاب ھی عذاب رھے اور اگر کافر پر سختیاں ھیں تو یہ عذاب خدا کی ابتداء ھے کیونکہ اس کے پاس نیکیاں نھیں ھے، یہ سب اس وجہ سے ھے کہ خداوندعالم عادل ھے کسی پر ظلم نھیں کرتا“۔

۴ ۔ آخرت کی منزل میں داخل ھونا:جب انسان موت کو دیکھتا ھے تو اس کی پریشانیاں بڑھ جاتی ھیں، اس کی روح نکلنے کے لئے تیار ھوتی ھے اور موت کے ذریعہ اس کے سامنے سے زندگی میں موجود پردے ہٹ جاتے ھیں جیسے سوتا ھوا انسان کچھ نھیں دیکھتا اور جاگتے میں سب کچھ دیکھتا ھے کیونکہ جاگتے میں وہ پردہ ہٹ جاتا ھے گویا کہ انسان کی زندگی ایسی ھے جیسے کہ ”لوگ سوئے ھوئے ھیں جب مرجاتے ھیں تو متوجہ ھوتے ھیں“،تووہ ان چیزوں کا مشاہدہ کریں گے جو زندگی میں نھیں کرسکے تھے، ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( لَقَدْ کُنْتَ فِی غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَکَشَفْنَاعَنْکَ غِطَاء کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیدٌ ) ( ۲۳ )

”(اس سے کھاجائے گا )کہ اس (دن) سے تو غفلت میں پڑا تھا تو اب ھم نے تیرے سامنے سے پر دے کو ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بڑی تیز ھے“۔

انسان موت کے وقت کن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ھے، احادیث کے مطابق ھم ان کا ذکرکرتے ھیں:

الف۔ جنت یا جہنم میں اپنا مقام: حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:

اذا مات احدکم عرض علیه مقعد ه بالغداة و العشي،ان کان من اهل الجنة فمن اهل الجنة، وان کان من اهل النار فمن اهل النار، ویقال: هذا مقعدک حتی یبعثک الله الیه یوم القیامة “۔( ۲۴ )

”جب انسان مرجاتا ھے تو اس کواس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ھے ، اگر وہ اہل جنت سے ھے تو اس کو جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا ھے او راگر جہنمی ھے تو دوزخ میں اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ھے، اور اس سے کھاجاتا ھے: یہ تیرا ٹھکانا ھے یہاں تک کہ روز قیامت خدا سے ملاقات کرے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جب محمد بن ابی بکر کو مصر کا والی بنایا تو آپ نے ایک تحریر لکھی:

لیس احد من الناس تفارق روحه جسده حتی یعلم ای المنزلتین یصل ؛الی الجنة ،ام الی النار، اعدو هو لله ام ولی ،فان کان ولیالله فتحت له ابواب الجنه ،و شرعت له طرقها،ورای ما اعدالله له فیها ففرغ من کل شغل ،ووضع عنه کل ثقل ،وان کان عدواً لله فتحت له ابواب النار، و شرعت له طرقها، و نظر الی ما اعدا لله له فیها ،فاستقبل کل مکروه و ترک کل سرور، کل هذا یکون عندالموت ،و عنده یکون الیقین “۔( ۲۵ )

”جب تک انسان کو جنت یا جہنم میں اس کا مقام نھیں دکھادیا جاتا اس وقت تک اس کی روح مفارقت نھیں کرتی، اور یہ کہ وہ دشمن خدا ھے یا دوست خدا، اگر وہ دوست خدا ھے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ھیں اور اس کے راستے کھول دئے جاتے ھیں اور وہ خداوندعالم کی طرف سے تیار کردہ نعمتوں کو دیکھ لیتا ھے، وہ ہر کام سے فارغ ھوجاتا ھے او راس کی ہر مشکل دور ھوجاتی ھے، اگر وہ مرنے والا دشمن خدا ھے تو اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دئے جاتے ھیں اور اس کے راستے بتادئے جاتے ھیں، اور وہ خدا کی طرف سے تیار کردہ عذاب کو دیکھ لیتا ھے، تو اس کی پریشانیوں میں اضافہ ھوجاتا ھے اور ساری خوشیاں ختم ھوجاتی ھیں، یہ تمام چیزیں موت کے وقت ھوتی ھیں، اور وہ ان باتوں کا یقین کرلیتا ھے“۔

ب۔ مال و اولاد اور اعمال کا مجسم ھونا:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

ان العبد اذا کان فی آخر یوم من الدنیا ،واول یوم من آلاخرة،مثل له ماله وولده وعمله، فیلتفت الی ماله ویقول :والله انی کنت علیک حریصا شحیحاً فما لی عندک ؟فیقول :خذ منی کفنک قال فیلتفت الی ولده ،فیقول :والله انی کنت لکم محبا ،وانی کنت علیکم محامیا، فماذا لی عندکم؟ فیقولون :نودیک الی حفرتک ونواریک فیها فیلتفت الی عمله فیقول :والله انک کنت علي لثقیلا ،وانی کنت فیک لزاهد ا،فماذا عندک ؟فیقول :انا قرینک فی قبرک ویوم نشرک حتّیٰ اعرض انا وانت علی ربک “۔( ۲۶ )

”جب انسان کی زندگی کا آخری روز اور آخرت کا پہلا دن ھوتا ھے تو اس کا مال ، اس کی اولاد اور اس کے اعمال مجسم ھوجاتے ھیں، چنانچہ اپنے مال کی طرف متوجہ ھوکرکہتا ھے: خدا کی قسم میں تیرے سلسلے میں بہت زیادہ حریص او رلالچی تھا، (تجھے حاصل کرنے کے لئے کتنی زحمتیں اٹھائیں ھیں؟) تو میری کیا مدد کرسکتا ھے؟ اس وقت مال کھے گا: میں تجھے کفن دے سکتا ھوں (اور بس) اس کے بعد اپنی اولاد کی طرف متوجہ ھوکر کہتا ھے: قسم خدا کی میں تم سے بہت محبت کیا کرتا تھامیں تمہاری حمایت او رمدد کیا کرتا تھا، آج تم میری کیا مدد کرسکتے ھو؟ تو اولاد کھے گی: ھم تجھے تیری قبر تک پہنچا سکتے ھیں اور تجھے قبر میں چھپا سکتے ھیں، اس کے بعد اپنے اعمال کی طرف متوجہ ھوکر کہتا ھے: قسم خدا کی، تم میرے لئے ثقیل اور گراں تھے اور میں تم سے دور رہتا تھا، آج تم کیا کروگے؟ اس وقت انسان کے اعمال کھیں گے کہ ھم تیرے ساتھ رھیں، قبر میں بھی اور روز محشر بھی، یہاں تک کہ ھم دونوں بارگاہ الٰھی میں پیش ھوں“۔

۴ ۔ نبی اکرم (ص)اور ائمہ علیھم السلام کا دیدار:

شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں کہ اس سلسلے میں شیعہ امامیہ کا اتفاق ھے ، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام سے متواتر احادیث بیان ھوئی ھیں، نیز حضرت علی علیہ السلام نے حارث ھمدانی سے مشھور اشعار میں فرمایا:

یا حارِ همدان من یمُت یرني

من مومن اٴو منافقٍ قبلا

یعرفني طرفه و اٴعرفه

بعینه و اسمه وما فعلا(۲۷)

ابن ابی الحدید معتزلی نے حضرت علی علیہ السلام کے درج ذیل قول کے بعد چھ مصرعہ بیان کئے ھیں:

فانکم لو قد عاینتم ما قد عاین من مات منکم،لجزعتم و وهلتم، وسمعتم واطعتم ولکن محجوب عنکم ما قد عاینوا ،و قریب ما یطرح الحجاب “۔( ۲۸ )

اس کے بعد ابن ابی الحدید کہتے ھیں: ممکن ھے کہ اس کلام سے حضرت علی علیہ السلام نے اپنے نفس کا ارادہ کیا ھو کہ اس وقت تک کوئی انسان نھیں مرتا جب تک کہ علی (علیہ السلام) اس کے پاس حاضر نہ ھوجائے۔

اس کے بعد ابن ابی الحدید اس قول کے صحیح ھونے پر استدلال کرتے ھوئے کہتے ھیں: یہ کوئی عجیب چیز نھیں ھے اگر حضرت نے یہ بات اپنے بارے میں کھی ھو کیونکہ قرآن مجید کی آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ اہل کتاب اس وقت تک نھیں مرتے جب تک وہ حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی تصدیق نہ کردیں، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( وَإِنْ مِنْ اٴَهْلِ الْکِتَابِ إِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکُونُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا ) ( ۲۹ )

چنانچہ بہت سے مفسرین کہتے ھیں کہ اس کا مطلب یہ ھے کہ یھود و نصاریٰ اور گزشتہ امت کے مرنے والے لوگ حالت احتضار میں حضرت عیسیٰ مسیح کو دیکھتے ھیں اور اس کی تصدیق کرتے ھیں جس نے فرائض اور تکالیف کے وقت جناب عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی ھو۔( ۳۰ )

لیکن دیدار کی کیفیت کے کا صحیح علم ھمارے پاس نھیں ھے بلکہ اس مسئلہ میں اور اس جیسے غیبی مسائل میں صرف اجمالی تصدیق کافی ھے، اور اسی چیز پر ایمان رکھنا کافی ھے کیونکہ اس سلسلے میں ائمہ معصومین علیھم السلام سے صحیح احادیث بیان ھوئی ھیں۔

دوسری بحث : برزخ اور اس کا عذاب

بزرخ کے معنی: دو چیزوں کے درمیان حائل چیز کو برزخ کہتے ھیں( ۳۱ ) یہ موت اور قیامت کے درمیان کا واسطہ ھے ، او راسی عالم برزخ میں روز قیامت کے لئے انسان نعمتوں سے نوازا جائے گا یا اس پر عذاب ھوگا( ۳۲ ) خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ) ( ۳۳ )

”اور ان کے مرنے کے بعد (عالم) برزخ ھے (جہاں )سے اس دن تک کہ دوبارہ قبروں سے اٹھائے جائےں گے “۔

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ عالم برزخ دنیاوی زندگی اور روز قیامت کے درمیان ایک زندگی کا نام ھے۔

عالم برزخ کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:

البرزخ:القبر ،وفیه الثواب والعقاب بین الدنیا وآلاخرة “۔( ۳۴ )

وحشت برزخ: جیسا کہ ھم بیان کر چکے ھیں کہ عالم آخرت کی زندگی موت سے شروع ھوتی ھے، انسان موت کے ذریعہ عالم آخرت میں پہنچ جاتا ھے، اور موت کے بعد درج ذیل قبر کے خوف و وحشت سے روبرو ھوتا ھے:

۱ ۔ وحشت قبر اور قبر کی تاریکی: قبر، معادکی وحشتناک منزلوں میں سے ایک منزل ھے، جب انسان کو ایک تاریک و تنگ کوٹھری میں رکھ دیا جاتا ھے جہاں پر اس کے مددگار صرف اس کے اعمال اور عذاب یا ثواب کے فرشتے ھوں گے۔

حضرت علی علیہ السلام اہل مصر کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ھیں:

یا عباد الله،ما بعد الموت لمن لا یغفر له اشد من الموت؛القبر فاحذروا ضیقه و ضنکه وظلمته و غربته،ان القبریقول کل یوم :انابیت الغربة،انا بیت التراب،انا بیت الوحشة ،انا بیت الدود و الهوام “۔( ۳۵ )

”اے بندگان خدا! اگر انسان کی بخشش نہ ھو تو پھر موت کے سے سخت کوئی چیز نھیں ھے، (لہٰذا قبر کی تاریکی، تنگی اور تنہائی سے ڈرو!! بے شک قبر ہر روز یہ آواز دیتی ھے: میں تنہائی کا گھر ھوں، میں مٹی کا گھر ھوں، میں خوف و حشت کا گھر ھوں، میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ھوں۔۔۔“۔(اے کاش ھم اس آواز کو سن لیں)

قارئین کرام! یھی وہ جگہ ھے کہ جب انسان زمین کے اوپر سے اس کے اندر چلا جاتا ھے، اہل و عیال اور دوستوں کو چھوڑ کر تنھاھوجاتا ھے، روشنی کو چھوڑ کر تاریکی میں چلا جاتا ھے، دنیا کے عیش و آرام کو چھوڑ کر تنگی اور وحشت قبر میں گرفتار ھوجاتا ھے، اور اس کا سب نام و نشان ختم ھوجاتا ھے اور اس کا ذکر مٹ جائے گا اس کی صورت متغیر ھوجائے گی اور اس کا جسم ابدان بوسیدہ اور جوڑ جوڑ جدا ھوجائیں گے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

فکم اکلت الارض من عزیز جسد ،وانیق لون ،کان فی الدنیا غذی ترف ،وربیب شرف، یتعلل بالسرور فی ساعة حزنه و یفزع الی السلوة ان مصیبة نزلت به ،ضنا بغضارة عیشه وشحاحة بلهوه و لعبه ۔۔۔“۔( ۳۶ )

”اُف! یہ زمین کتنے عزیزترین بدن اور حسین ترین رنگ کھاگئی ھے جن کو دولت و راحت کی غذامل رھی تھی اور جنھیں شرف کی آغوش میں پالا گیا تھا جو حزن کے اوقات میں بھی مسرت کا سامان کیا کرتے تھے اور اگر کوئی مصیبت آن پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوں پر للچائے رہنے واور اپنے لھو و لعب پر فریفتہ ھونے کی بنا پر تسلی کا سامان فراھم کرلیا کرتے تھے“۔

(زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے؟!! )

۲ ۔ فشار قبر:

احادیث میں وارد ھوا ھے کہ میت کو اس قدر فشار قبر ھوگا کہ اس کاگوشت پارہ پارہ ھوجائے گا، اس کا دماغ باہر نکل آئے گااس کی چربی پگھل جائے گی، اس کی پسلیاں آپس میں مل جائیں گی، اس کی وجہ دنیا میں چغل خوری اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ بداخلاقی، بہت زیادہ (بے ھودہ) باتیں کرنا، طہارت ونجاست میں لاپرواھی کرنا ھے، اور کوئی انسان اس(فشار قبر) سے نھیں بچ سکتا مگر یہ کہ ایمان کے ساتھ دنیا سے جائے اور کمال کے درجات پر فائز ھو۔

ابو بصیر کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا کوئی شخص فشار قبر سے نجات پاسکتا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

نعوذ بالله منها ما اقل من یفلت من ضغطة القبر ۔۔۔“۔( ۳۷ )

”ھم اللہ کی پناہ مانگتے ھیں فشار قبر سے، بہت ھی کم لوگ فشار قبر سے محفوظ رھیں گے“۔

صحابی رسول سعد بن معاذ /کو بھی فشار قبر کے بارے میں روایت میں ملتا ھے کہ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ملائکہ تشییع جنازہ کے لئے آئے اور خود رسول اکرم (ص)آپ کی تشییع جنازہ میں پابرہنہ اور بغیر عبا کے شریک ھوئے، یہاں تک کہ قبر تک لے آئے اور قبر میں رکھ دیا گیا تو امّ سعد نے کہا: اے سعد تمھیں جنت مبارک ھو ، تو اس وقت رسول اکرم نے فرمایا:

”یا ام سعد! مَہ لاتجزمي علی ربک ،فان سعدا قد اصابتہ ضمة“۔وحینما سُئل عن ذلک، قال(ص) ”انہ کان فی خلقہ مع اھلہ سوء“۔( ۳۸ )

”اے مادر سعد یہ نہ کھو ، تم اپنے رب کے بارے میں یہ یقینی نھیں کہہ سکتی، سعد پر اب فشار قبر ھورھاھے“۔

اور جب رسول اکرم (ص)سے اس کی وجہ معلوم کی گئی تو آنحضرت (ص)نے فرمایا کہ سعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آتے تھے“۔

رسول اکرم (ص)نے یہ بھی فرمایا:

ضغطة القبر للمومن کفارة لما کان منه من تضییع النعم “۔( ۳۹ )

”فشار قبر مومن کے لئے کفارہ ھے تاکہ اس کی نعمتوں میں کمی نہ ھو۔“

۳ ۔ سوال منکر و نکیر:

خداوندعالم، انسان کی قبر میں دو فرشتوں کو بھیجتا ھے جن کا نام منکر و نکیر ھے، یہ دوفرشتے اس کو بٹھاتے ھیں اور سوال کرتے ھیں کہ تیرا رب کون ھے ؟ تیرا دین کیا ھے؟ تیرا نبی کون ھے؟ تیری کتاب کیا ھے؟ تیرا امام کون ھے جس سے تو محبت کرتا تھا، تو نے اپنی عمر کو کس چیز میں صرف کیا، تونے مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیاھے؟ اگر اس نے صحیح اور حق جواب دیا تو ملائکہ اس کوراحت و سکون اور جنت الفردوس کی بشارت دیتے ھیں اور اس کی قبر کو تا حد نظر وسیع کردیتے ھیں، لیکن اگر اس نے جواب نہ دیا یا ناحق جواب دیا، یا اس کا جواب نامفھوم ھوا تو ملائکہ اس کی کھولتے ھوئے پانی سے میزبانی کرتے ھیں اور اس کو عذاب کی بشارت دیتے ھیں۔

بے شک اس سلسلے میں نبی اکرم (ص)اور اہل بیت علیھم السلام سے صحیح روایت منقول ھےں جن پر سبھی مسلمین اتفاق رکھتے ھیں( ۴۰ ) اور اس مسئلہ کو ضرورت دین میں سے مانتے ھیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

من انکر ثلاثة اشیاء ،فلیس من شیعتنا المعراج ،والمساء لة فی القبر ، والشفاعة “۔( ۴۱ )

”جو شخص تین چیزوں کا انکار کرے وہ ھمارا شیعہ نھیں ھے، معراج، سوال منکر و نکیر، اور شفاعت“۔

۴ ۔ قبر میں عذاب و ثواب:

یہ عذاب و ثواب عالم برزخ میں ایک مسلم حقیقت ھے ، اور لامحالہ واقع ھوگا، کیونکہ اس کا امکان پایا جاتا ھے، آیات ِقرآن مجید اور نبی اکرم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے احادیث میں متواتر بیان ھوا ھے ، نیز اس سلسلے میں علماء کرام کا گزشتہ سے آج تک اجماع بھی ھے( ۴۲ )

قرآنی دلائل: وہ آیات جن میں قبر میں ثواب و عذاب کے بارے میں بیان ھوا یا بعض آیات کی تفسیر عذاب و ثواب کی گئی ھے، جن میں سے بعض کو ھم نے ”روح کے مجرد ھونے“ کی بحث میں بیان کیا ھے، ھم یہاں پر دو آیتوں کو پیش کرتے ھیں:

( وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ ) ( ۴۳ )

”اور فرعونیوں کو برے عذاب نے(ہر طرف سے )گھیر لیا (اور اب تو قبر میں دوزخ کی) آگ ھے کہ وہ لوگ (ہر)صبح و شام اس کے سامنے لا کرکھڑے کئے جاتے ھیں اور جس دن قیامت برپا ھوگی (حکم ھوگا کہ )فرعون کو لوگوں کے سخت سے سخت عذاب میں جھونک دو“۔

یہ آیہ شریفہ وضاحت کرتی ھے کہ قبر میں ثواب و عذاب ھوگا کیونکہ اس آیت میں ”واو“کے ذریعہ عطف کیا گیا ھے( وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ ) جو اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ اس سے پہلے بیان شدہ ایک الگ چیز ھے اور اس کے بعد بیان ھونے والا مطلب الگ ھے، کیونکہ پہلے صبح و شام آگ نے گھیر رکھا ھے، اور اس کے بعد روز قیامت کے عذاب کے بارے میں بیان کیا گیا ھے، اسی وجہ سے پہلے جملے میں( عَرَضَ ) (گھیرنے کے معنی) ھیں اور دوسرے جملہ میں( اٴَدْخِلُوا ) (داخل ھوجاؤ)کا لفظ استعمال ھوا ھے۔( ۴۴ )

اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ نے فرمایا:

ان کانوا یعذبون فی النار غدوا و عشیا ففیما بین ذلک هم من السعداء لا ولکن هذا فی البرزخ قبل یوم القیامة ،الم تسمع قوله عزوجل :( وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ ) ؟“۔( ۴۵ )

” اگر وہ صبح و شام عذاب میںھوں گے اگرچہ ان کے درمیان کچھ نیک افراد بھی ھوں لیکن یہ سب برزخ میں ھوگا قبل از قیامت، کیا تو نے خداوندعالم کے اس فرمان کو نھیں سنا: ”اور جب قیامت برپا ھوگی تو فرشتوں کو حکم ھوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔

۲ ۔ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَمَنْ اٴَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِی فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکًا وَنَحْشُرُهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَعْمَی ) ( ۴۶ )

”اور جس نے میری یاد سے منھ پھیرا تو اس کی زندگی بہت تنگی میں بسر ھوگی اور ھم اس کو قیامت کے دن اندھا( بنا کے) اٹھائیں گے“۔

بہت سے مفسرین کہتے ھیں کہ ”سخت اور تنگ زندگی“ سے مراد عذاب قبر اور عالم برزخ میں سختیاں اور بدبختی ھے، قرینہ یہ ھے کہ حرف عطف ”واو“ کے ذریعہ حشر کا ذکر کیا جو اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ھوں۔ سخت زندگی سے دنیا کی پریشانیاں مراد نھیں لی جاسکتیں کیونکہ دنیا میں بہت سے کفار کی زندگی مومنین سے بہتر ھوتی ھے، اور ایسے چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ھیں کہ اس میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نھیں ھوتی ھے۔( ۴۷ )

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

واعلموا ان المعیشة الضنک التی قالها تعالیٰ :( فَإِنَّ لَهُ مَعِیشَةً ضَنکًا ) هی عذاب القبر “۔( ۴۸ )

جان لو کہ (مذکورہ بالا) آیت میں سخت اور تنگ زندگی سے مراد عذاب قبر ھے“۔

احادیث سے دلائل: قبر کے عذاب و ثواب پر دلالت کرنے والی متعدد احادیث شیعہ سنی دونوں طریقوں سے نقل ھوئی ھیں،( ۴۹ ) اور بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ھوئی ھیں، بعض کو ھم نے ”روح کے مجرد ھونے“ کی بحث میں بیان کیا ھے، یہاں پر ان میں سے صرف تین احادیث کو بیان کرتے ھیں:

۱ ۔ حضرت رسول اکرم (ص)ارشاد فرماتے ھیں:

القبر اما حفرة من حفرالنیران او روضة من ریاض الجنة “۔( ۵۰ )

”قبر یا دوزخ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ھے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے“۔

۲ ۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ھیں:

یسلط علی الکافر فی قبره تسعة و تسعین تنینا،فینهشن لحمه ، و یکسرن عظمه ،و یترددن علیه کذلک الی یوم یبعث ،لوان تنینا منها نفخ فی الارض لم تنبت زرعا ابدا “۔( ۵۱ )

”خداوندعالم کافر کی قبر میں ۹۹ اژدھے مسلط کرتا ھے، جو اس کے گوشت کو ڈستے ھوں گے اور اس کی ہڈیوں کو کاٹ کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردےں گے،اور روز قیامت تک وہ اژدھے اس پر عمل کرتے رھیں گے کہ اگر وہ ایک پھونک زمین پر ماردیں تو کبھی بھی کوئی درخت اور سبزہ نہ اُگے“۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا گیا:

مِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ( ۵۲ )

”اور ان کے مرنے کے بعد (عالم) برزخ ھے (جہاں )سے اس دن تک کہ دوبارہ قبروں سے اٹھایے جائےں گے “۔

تو آپ نے فرمایا:

هوالقبر،وان لهم فیه لمعیشة ضنکا ، والله ان القبر لروضة من ریاض الجنة،اوحفرة من حفر النیران “۔( ۵۳ )

”اس آیت سے مراد قبر ھے،اور کفار کے لئے سخت اور تنگ زندگی ھے، قسم بخدا، یھی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے یا جہنم کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ھے ‘ ‘ ۔

اعتراضات: قبر کے ثواب و عذاب کے بارے میں بعض اشکالات و اعتراضات کئے گئے ھیں جن میں سے اکثر عذاب و ثواب کی کیفیت کے بارے میں ھیں، کہ اس میں ثواب و عذاب کی کیفیت کیا ھوگی، لیکن اس سلسلے میں تفصیل معلوم کرنا ھمارے اوپر واجب نھیں ھے، بلکہ اجمالی طور پر قبر کے ثواب و عذاب پر عقیدہ رکھنا واجب ھے، کیونکہ یہ ممکن امر ھے، اور معصومین علیھم السلام نے اس سلسلے میں بیان کیا ھے، اور تمام غیبی امور اسی طرح ھیں کیونکہ غیبی امور عالم ملکوت سے تعلق رکھتے ھیں جس کو ھماری عقل اور ھمارے حواس نھیں سمجھ سکتے۔

ھم یہاں پر عالم برزخ پر ھونے والے بعض اھم اعتراضات بیان کرکے قرآن و حدیث کے ذریعہ جوابات پیش کرتے ھیں:

۱ ۔ جب انسان کا بدن ھی روح تک عذاب پہنچنے کا وسیلہ ھے تو بدن سے روح نکلنے کے بعد انسان پر کس طرح عذاب یا ثواب ھوگا، جب کہ بدن بوسیدہ ھوچکا ھوگا۔

جواب: احادیث اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ خداوندعالم انسان کو منکر نکیر کے سوالات کے لئے دوبارہ زندہ کرے گا، اور اگر وہ مستحق نعمت ھے تو اس کو ھمیشہ کے لئے حیات دےدی جائے گی، اور اگر عذاب کا مستحق ھے تو بھی ھمیشہ کے لئے اس کو عذاب میں باقی رکھا جائے گا، عذاب ھونے والا بدن ،یھی دنیاوی بدن ھوگا یا اس بدن کے مثل ایک بدن ھوگا۔ احادیث میں ان دونوں کے سلسلے میں بیان کیا گیا ھے:

اول: یھی دنیاوی بدن زندہ کیا جائے گا:

یعنی خداوندعالم انسان کی قبر میں اس کے بدن میں روح لوٹادے گا، اور متعدداحادیث اس بات پر دلالت کرتی ھیں، جیسا کہ حضرت رسول اکرم (ص)سے (ایک حدیث کے ضمن) مروی ھے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

تعاد روحه فی جسده ،ویاتیه ملکان فیجلسانه “۔( ۵۴ )

”(انسان کی)روح اس کے بدن میں لوٹا دی جائے گی اور دو فرشتے اس کو بٹھاکر سوال و جواب کریں گے“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

فاذادخل حفرته ،ردت الروح فی جسده ،وجاء ه ملکا القبر فامتحناه “۔( ۵۵ )

”جب انسان کو اس کی قبر میں اتاردیا جائے گا تو اس کی روح اس کے بدن میں واپس لوٹا دی جائے گی اور دو فرشتے اس کے امتحان کے لئے آئیں گے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

ثم یدخل ملکا القبر ،وهما قعیدا القبر منکر و نکیر ،فیقعد انه و یلقیان فیه الروح الی حقویه “۔( ۵۶ )

”۔۔۔ اس کے بعد قبر میںدومنکر و نکیر آئیں گے، اور قبر کے دونوں کناروں پر بیٹھیں گے اس کو بٹھائیں گے اور اس کے جسم میں ہنسلیوں تک روح داخل کردےں گے“۔

اسی وجہ سے کھاگیا ھے کہ قبر کی حیات ،حیات ِبرزخی اور ناقص ھے، اس میں زندگی کے تمام آثار نھیں ھوتے سوائے احساس درد و الم اور لذت کے، یعنی عالم برزخ میں روح کا بدن سے کمزور سا رابطہ ھوتا ھے، کیونکہ خداوندعالم قبر میں صرف اتنی زندگی عطا کرتا ھے جس سے درد و الم اور لذت کا احساس ھوسکے۔( ۵۷ )

دوم: مثالی بدن کو عذاب یا ثواب دیا جائے گا:

احادیث میں وارد ھوا ھے کہ

خداوندعالم انسان کے لئے عالم برزخ میں ایک لطیف جسم مثالی میں روح کو قرار دے گا، ایسا مثالی بدن جو دنیا کے بدن سے مشابہ ھوگا، تاکہ قبر میں اس سے سوالات کئے جاسکیں اور اس کو ثواب یا عذاب دیا جاسکے، پس اسی عالم میں روز قیامت تک کے لئے اس کو ثواب یا عذاب دیا جائے گا، اور روز قیامت اسی بدن میں انسان کی روح لوٹائی جائے گی۔( ۵۸ )

ابو بصیر سے روایت ھے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے مومنین کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

فی الجنة علی صورا بدانهم ،لورایته لقلت فلان “۔( ۵۹ )

”جنت میں ان کی روح ان کے جسم میں لوٹائی جائے گی کہ اگر تم روح کو دیکھو گے تو کھوگے کہ یہ فلاں شخص ھے“۔

یونس بن ظبیان سے مروی ھے کہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا، تو آپ نے فرمایا: مومنین کی ارواح کے سلسلے میں لوگ کیا کہتے ھیں؟ تو میں نے کہا: کہتے ھیں : عرش کے نیچے پرندوں کے پوٹوں میں رہتی ھےں، اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

سبحان الله ! المومن اکرم علی الله من ان یجعل روحه فی حوصلة طیریا یونس ،المومن اذاقبضه الله تعالیٰ صیر روحه فی قالب کقالبه فی الدنیا ،فیا کلون و یشربون ،فاذاقدم علیهم القادم عرفوه بتلک الصورة التی کانت فی الدنیا “۔( ۶۰ )

”سبحان اللہ! مومن خدا کے نزدیک اس سے کھیں زیادہ باعظمت ھے کہ اس کی روح کو پرندہ کے پوٹے میں رکھاجائے، اے یونس! جب خداوندعالم مومن کی روح قبض کرتا ھے تو اس کو دنیا کی طرح ایک قالب میں ڈال دیتا ھے، جس سے وہ کھاتا اور پیتا ھے، جب کوئی (دنیا سے جاتا ھے تو)اس کو پہچانتا ھے اور وہ اسی صورت میں رہتا ھے جس میں دنیا میں رہتا تھا“۔

اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں وارد ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:

المومن اکرم علی الله من ان یجعل روحه فی حوصلة طیر،ولکن فی ابدان کابدانهم “۔۔( ۶۱ )

”مومن خدا کے نزدیک اس سے کھیں زیادہ باعظمت ھے کہ اس کی روح کو پرندہ کے پوٹے میںرکھے، بلکہ انسان کی روح دنیا کی طرح ایک بدن میں ھوتی ھے“۔

اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ھیں جو ھماری عرض کی ھوئی بات پر دلالت کرتی ھیں ۔( ۶۲ )

قارئین کرام! مذکورہ باتوں کے پیش نظر احادیث میں بیان شدہ قبر کے ثواب و عذاب سے مراد عالم برزخ میں دوسری زندگی ھے جس میں انسان کی روح بدنِ مثالی میں قرار دی جائے گی ، لہٰذا آیات قرآن اور احادیث میں بیان شدہ روح کے مجرد ھونے اور عذاب و ثواب والا مسئلہ حل ھوجاتا ھے، کہ انسان کی روح مجرد بھی ھے لیکن اس پر عذاب و ثواب بھی ھوتا ھے اور اس کی روح پرواز بھی کرتی ھے اور اپنے اہل و عیال اور دوسروں کو دیکھتی بھی ھے۔

سائنس جسم مثالی کی تائید کرتا ھے :احضار روح کے ماہرین کے تجربوں سے اجسام مثالی کی حقیقت کا پتہ چلتا ھے جیسا کہ اس سلسلہ میں مشھور ماہرین کہتے ھیں: در حقیقت موت کچھ نھیں ھے مگر یہ کہ ایک مادی جسم سے دوسرے مادی جسم میں منتقل ھوجانا، لیکن وہ دوسرا (مادی جسم) اس دنیاوی جسم سے زیادہ واضح اور لطیف ھوتا ھے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ھے کہ روح کے لئے ایک بہت زیادہ شفاف اور لطیف مادہ ھوتا ھے ، لہٰذا اس پر مادہ کے قوانین جاری نھیں ھوسکتے۔( ۶۳ )

کیا یہ باطل تناسخ نھیں ھے؟

بعض لوگوں نے گمان کیا ھے کہ انسان کی روح کا اس دنیاوی بدن سے جدا ھونے کے بعد اسی جیسے بدن میں چلاجانا یہ وھی باطل تناسخ ھے ، جو صحیح نھیں ھے، کیونکہ ضرورت دین اور اجماع مسلمین تناسخ کی نفی کرتے ھیں حالانکہ بہت سے متکلمین اور محدثین جسم مثالی کے قائل ھوئے ھیں، اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث میں بیان ھوا ھے، لیکن تناسخ کے قائل لوگوں نے اس کا انکار کیا ھے اور اسی وجہ سے معاد اور ثواب و عذاب کا انکار کرتے ھیں، کہتے ھیں کہ یہ روح دوبارہ اسی دنیا میں دوسرے بدن میں آجاتی ھے، لہٰذا قیامت کا کوئی وجود نھیں ھے، نیز یہ لوگ تناسخ کے ذریعہ خالق اور انبیاء علیھم السلام کا بھی انکار کرتے ھیں، نیز لازمہ تناسخ وظائف اور تکالیف کا بھی انکار کرتے ھیں، اور اسی طرح کی دوسری بے ھودہ باتیں ھیں( ۶۴ )

۲ ۔ اس سلسلے میں دوسرا اعتراض یہ ھے کہ قبر میں کس طرح ثواب و عذاب ھوگا حالانکہ جنت یا دوزخ موجود نھیں ھے۔

جواب: وہ قرآنی آیات اور احادیث جن کو ھم نے قبر کے ثواب و عذاب کے دلائل کے عنوان سے بیان کیا ھے وہ اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ جنت اور دوزخ مخلوق (اور موجود)ھیں،اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے مروی روایت بھی اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ جب آپ سے مومنین کی روحوں کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

فی حجرات فی الجنة ،یاکلون من طعامها ،و یشربون من شرابها “۔( ۶۵ )

”(مومنین کی روحیں) جنت کے بالا خانوں میں رہتی ھیں جنت کا کھانا کھاتی ھیں اور جنت کا شربت پیتی ھیں“۔

اسی طرح امام صادق علیہ السلام کی دوسری حدیث:

ان ارواح الکفار فی نارجهنم یعرضون علیها “۔( ۶۶ )

”کفار کی ارواح کوجہنم کی آگ کی سیر کرائی جاتی ھے“۔

شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں: جنت و جہنم کے سلسلے میں ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ یہ دونوں مخلوق ھیں اور ھمارے نبی اکرم ﷺمعراج کی شب جنت کی سیر فرماچکے ھیں، اور جہنم کو بھی دیکھ چکے ھیں، اور اس وقت تک انسان اس دنیا سے نھیں جاتا جب تک جنت یا دوزخ میں اپناٹھکانا،نہ دیکھ لے“۔( ۶۷ )

علامہ خواجہ نصیر الدین طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ھیں:آیات و روایات جنت و دوزخ کے مخلوق ھونے پر دلالت کرتی ھیں، (یعنی جنت و نار اس وقت بھی موجود ھیں) لہٰذا جو روایات اس مفھوم کے مخالف اور متعارض ھیں ان کی تاویل کی جائے گی، علامہ حلی علیہ الرحمہ نے اپنی شرح میں اختلاف کو بیان کرتے ھوئے فرمایاھے:لوگوں کے درمیان یہ اختلاف ھے کہ جنت و نار اس وقت موجود اور مخلوق ھیں یا نھیں؟ بعض لوگوں کا عقیدہ ھے کہ جنت و نار مخلوق شدہ ھیں اور اس وقت موجود ھیں، اس قول کو ابوعلی اختیار کرتے ھیں، لیکن ابو ہاشم اور قاضی قائل ھیں کہ غیر مخلوق ھے (یعنی اس وقت موجود نھیں ھے۔

پہلانظریہ رکھنے والوں نے درج ذیل آیات سے استدلال کیا ھے:

( اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ ) ( ۶۸ )

”اور ان پرھیزگاروں کے لئے مھیا کی گئی ھے“۔

( اٴُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ ) ( ۶۹ )

”اور کافروں کے لئے تیار کی گئی ھے“۔

( یَاآدَمُ اسْکُنْ اٴَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ ) ( ۷۰ )

”اے آدم تم اپنی بیوی سمیت بہشت میں رھاسھاکرو اور جہاں تمہارا جی چاھے“۔

( عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی ) ( ۷۱ )

”اسی کے پاس تو رہنے کی بہشت ھے“۔

جنة الماوی یھی دار ثواب ھے جو اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ یہ اس وقت آسمان میں موجود ھے۔

ابو ہاشم نے اپنے نظریہ کے اثبات کے لئے درج ذیل آیت سے استناد کیا ھے:

( کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ إِلاَّ وَجْهَه ) ( ۷۲ )

”اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ھونے والی ھے “۔

چنانچہ ابوہاشم نے کھاھے کہ اگر اس وقت جنت موجود ھوتی تو اس (روز قیامت) کا ہلاک اور نابود ھونا ضروری ھوتا، لیکن یہ نتیجہ باطل ھے، چونکہ خداوندعالم فرماتا ھے:

( اٴُکُلُهَا دَائِمٌ ) ( ۷۳ )

”اور اس کے پھل دائمی ھوںگے“۔

چنانچہ علامہ حلّی علیہ الرحمہ نے جواب دیتے ھوئے فرمایا: اس کے پھل دائمی ھونے کا مطلب یہ ھے کہ اس قسم کے پھل ھمیشہ رھیں گے، کیونکہ اس طرح کے پھل ھمیشہ پیدا ھوتے رھیں گے، اور جنت کے پھل کھانے سے ختم ھوجاتے ھیں لیکن خداوندعالم دوبارہ ان جیسے پھل پیدا کردیتا ھے، یہاں پر ہلاک ھونے کے معنی ”فائدہ پہنچانے سے رک جانا“ ھیں، بے شک مکلفین کے ہلاک ھونے سے جنت بھی غیر قابل انتفاع ھوجائے گی، پس اس معنی کے لحاظ سے جنت بھی ہلاک ھوجائے گی۔( ۷۴ )

تیسری بحث: قیامت کی نشانیاں

اشتراط الساعة کے لغوی معنی تمام شرائط کا جمع ھونا ھے، یہاں پر نشانی مراد ھے، لہٰذا اشتراط الساعة کے معنی قیامت کی نشانیاں یا قیامت پر دلالت کرنے والی علامتیں ھیں،ابن عباس سے مروی ھے کہ قیامت کی نشانیاں جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:

( فَهَلْ یَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ اٴَنْ تَاٴْتِیَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ اٴَشْرَاطُهَا فَاٴَنَّی لَهُمْ إِذَا جَاءَ تْهُمْ ذِکْرَاهُمْ ) ( ۷۵ )

”تو کیا یہ لوگ بس قیامت ھی کے منتظر ھیں کہ ان پر اک بارگی آجائے تو اس کی نشانیاں آھی چکی ھیں تو جس وقت قیامت ان (کے سر) پر آپہنچے گی پھرانھیں نصیحت کہاں مفید ھو سکتی ھے“۔

یہ آیہ شریفہ قیامت کی دو نشانیاں بیان کرتی ھیں:

۱ ۔ قیامت اچانک او رناگہانی طور پر آئے گی، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( لاَتَاٴْتِیکُمْ إِلاَّ بَغْتَةً ) ( ۷۶ )

”وہ تمہارے پاس بس اچانک آجائے گی“۔

یہ آیت اس بات پر (بھی) دلالت کرتی ھے کہ قیامت کے آنے کا وقت صرف خداوندعالم کے پاس ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّی لاَیُجَلِّیهَا لِوَقْتِهَا إِلاَّ هُوَ ) ( ۷۷ )

”تم کہہ دو کہ اس کا علم بس فقط میرے پروردگار ھی کو ھے وھی اس کے معین وقت پر اس کو ظاہر کردے گا “۔

۲ ۔ جس وقت قیامت کے آثار نمایاں ھوجائیں اور اس کی نشانیاں دکھائی دینے لگیں تو پھر ایمان لانا یا گناھوں سے توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا، جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:

( یَومَ یَاٴْتِي بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَیَنفَعُ نَفْسًا إِیمَانُهَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اٴَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِهَا خَیْرًا ) ( ۷۸ )

”(یہ صرف اس بات کے منتظر ھیں کہ ان کے پاس ملائکہ آجائیں یا خود پروردگار آجائے ) یا اس کی بعض نشانیاں آجائیں تو جس دن اس کی بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن جو نفس پہلے سے ایمان نھیں لایا ھے یا اس نے ایمان لانے کے بعد کوئی بھلائی نھیں کی ھے اس کے ایمان کا کوئی فائدہ نہ ھوگا“۔

قیامت کی نشانیاں ظاہر ھونے کے بعد کسی کی توبہ قبول نھیں ھوگی اور نہ ھی کسی کا ایمان لانا مفیدھو گا۔

نشانیوں کے اقسام:

قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں قیامت کی نشانیوں کو دو قسموں پر تقسیم کیا جاسکتا ھے:

اول:

پہلی نشانی آخر الزمان میں لوگوں کے کردار سے مخصوص ھے، اور اسی سے متعلق ھے، چاھے اس سلسلے میں متعدد احادیث میں آخر الزمان میں لوگوں کے اعمال اور کردار کی باتیں کی گئی ھوں یا حوادث اور جنگوں کے بارے میں بیان کیا گیا ھو، (لہٰذا ھم ذیل میں چند ایک احادیث بیان کرتے ھیں:)

۱ ۔ابن عباس ، حضرت رسول اکرم (ص)سے روایت کرتے ھیں کہ آنحضرت نے فرمایا:

من اشراط الساعة :اضاعة الصلوات ،واتباع الشهوات والمیل الی الاهواء،و تعظیم اصحاب المال، و بیع الدین بالدنیا ، فعندهایذاب قلب المومن فی جوفه کما یذاب الملح بالماء ،مما یری من المنکر فلا یستطیع ان یغیره “۔( ۷۹ )

”قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ھیں: نماز کو ضایع کیا جائے گا، شھوت پرستی کی پیروی کی جائے گی، ھوا و ھوس کی طرف رغبت ھونے لگے گی، مالدار لوگوں کا (ان کے مال کی وجہ سے)احترام کیا جائے گا، دین کو دنیا کے بدلے فروخت کیا جائے گا، پس وقت مومن کا دل اس کے اندراس طرح ذوب (پانی) ھوجائے گا جس طرح پانی میںنمک ، اس وقت برائیوں کو دیکھنے والا ان کو بدل نھیں سکے گا“۔

۲ ۔ اسی طرح حضرت رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

اذا عملت امتی خمس عشرة خصلة حل بها البلاء“ قیل: یا رسول الله وما هی؟ قال:”اذاکانت المغانم دولا،والامانة مغنما،والزکاة مغرما، واٴطاع الرجل زوجته و عق امه، وبر صدیقه ،وکان زعیم القوم ارذلهم ،و اکرمه القوم مخافة شره ،و ارتفعت الاصوات فی المساجد،ولبسوا الحریر ،واتخذوا القینات ،وضربوا بالمعازف ،ولعن آخر هذه الامة اولها، فلیرتقب عند ذلک الریح الحمراء اوالخسف اوالمس خ “۔( ۸۰ )

”جب میری امت میں ۱۵ / عادتیں پیدا ھوجائےں تو ان پر بلائیں نازل ھونا جائز ھے“۔ تو لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ وہ کیا ھیں؟ تو آنحضرت (ص)نے فرمایا: جب مال غنیمت کا ناجائز استعمال کیا جانے لگے، اور امانت کو غنیمت سمجھا جانے لگا، زکوٰة کی ادائیگی نہ کی جائے، جب شوہر اپنی زوجہ کی اطاعت اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنے لگے ، دوست سے نفرت کی جائے، پست و ذلیل لوگ قوم کی سرپرستی کریں، شریف ترین لوگ ان کے خوف سے سھم جائیں، مسجد میں آوازیں بلند ھونے لگے، حریر کا لباس پہنا جانے لگے، ناچ گانے کا سازو سامان جمع کیا جانے لگے، اس امت کے بعد والے پہلے والوں پر لعنت کرنے لگےں، اس وقت سرخ آندھی ، سورج گرہن اور مسخ ھونے کا انتظار کرو“۔

دوم :

قیامت کی دوسری نشانی زمینی اور فلکی حوادث ھیں جیسا کہ بعض احادیث میں بیان ھوا ھے:

۱ ۔ حیوان کا نکلنا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اٴَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنْ الْاٴَرْضِ تُکَلِّمُهُمْ اٴَنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لاَیُوقِنُونَ ) ( ۸۱ )

”اور جب ان لوگوں پر (قیامت کا) وعدہ ھوگا تو ھم ان کے واسطے زمین سے ایک چلنے والا نکال کھڑا کریں گے جو ان سے یہ باتیں کرے گا کہ(فلاں فلاں ) لوگ ھماری آیتوںپر یقین نھیں رکھتے تھے“۔

۲ ۔ امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا ظھور ، قیامت سے پہلے امام زمانہ (عج) کے ظھور کے سلسلے میں بہت (ھی)زیادہ احادیث بیان ھوئی ھیں، جن میں حضرت رسول اکرم (ص)کی مشھورومعروف یہ حدیث ھے:

لاتقوم الساعة حتی یخرج رجل من عترتی (اوقال من اهل بیتی) یملو ها قسطا و عدلاً کما ملئت ظلما و عدواناً “۔( ۸۲ )

”اس وقت تک قیامت نھیں آئے گی جب تک میری عترت میں سے ایک شخص قیام نہ کرے، جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی“۔

۳ ۔ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا (آسمان سے) نزول ھوگا، جیسا کہ درج ذیل آیت کی تفسیر میں یہ بات کھی گئی ھے:( ۸۳ )

( وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلاَتَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ) ( ۸۴ )

”اور وہ تو یقینا قیامت کی ایک روشن دلیل ھے تم لوگ اس میں ہر گز شک نہ کرو اور میری پیروی کر و۔یھی سیدھا راستہ ھے“۔

مذکورہ بالا حدیث کے سلسلے میں بہت سے مفسرین نے کھاھے کہ یہ آیت حضرت عیسی علیہ السلام کے آخر الزمان میں نزول سے مخصوص ھے۔( ۸۵ )

۴ ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج،( ۸۶ ) جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( حَتَّیٰ إِذَا فُتِحَتْ یَاٴْجُوجُ وَ مَاٴْجُوجُ وَهُم مِن کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُونَ وَ اقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِٴذَا هِیَ شَاخِصَةٌ اٴَبْصَارُ الَّذِینَ کَفَرُوا ) ( ۸۷ )

”بس اتنا (توقف توضرور ھوگا)کہ جب یاجوج و ماجوج (سد سکندری کی قید سے) کھول دیئے جائیں اور یہ لوگ (زمین کی) ہر بلندی سے دوڑتے ھوئے نکل پڑیں اور قیامت کا سچاوعدہ نزدیک آجائے پھر تو کافروں کی آنکھیں ایک دم سے پتھراھی جائیں“ ۔

۵ ۔ بہت زیادہ دھواں اٹھے گا، خداوندعالم کا فرمان ھے:

( فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاٴْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ یَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ( ۸۸ )

”تو تم اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے ظاہر بظاہر دھواں نکلے گا(اور) لوگوںکو ڈھانک لے گا یہ درد ناک عذاب ھے “۔

احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ(قیامت سے پہلے) مشرق و مغرب تک دھواں پھیل جائے گا اور یہ دھواں چالیس دن تک رھے گا۔( ۸۹ )

۶ ۔ ان کے علاوہ قیامت کے سلسلے میں احادیث میں دوسری بہت سی نشانیاں بھی ذکر ھوئی ھیں، جیسے قعر عدن سے ایسی آگ کا نکلنا،جو لوگوں کو محشر کی طرف ڈھکیلے گی، جس کے پیچھے کوئی نھیں رہ جائے گا، اور جب لوگ رکےں گے تو وہ بھی رک جائے گی اور جب لوگ چلنے لگےں گے تو بھی چلنے لگے گی،مغرب سے سورج نکلے گا، تین سورج گہن ھوں گے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں اور تیسرا جزیرہ عرب پر، دجال( ۹۰ ) ظاہر ھوگا، فالج کی بیماری اور اچانک موتیں زیادہ ھوں گی( ۹۱ ) (دمدار) ستارہ طلوع کرے گا، بے موسم میں بارشیں ھوگی( ۹۲ ) اور کالی آندھی چلے گی۔( ۹۳ )

چوتھی بحث : روز قیامت کا مشاہدہ

قیامت، یعنی وہ روز جب تمام مخلوق خدا کے حضور میں حاضر ھوں گے، کھاگیا ھے کہ لفظ قیامت نحوی اعتبار سے مصدر ھے ، جیسے کھاجاتا ھے: قام الخلق من قبورھم قیامةً“ ایک قول یہ ھے کہ یہ سریانی زبان کا لفظ ”قِیمثا“ ھے جس کو عربی بنالیا گیا ھے۔( ۹۴ )

حضرت رسول اکرم (ص)سے سوال کیا گیا کہ قیامت کو ”قیامت“ کیوں کہتے ھیں تو آنحضرت (ص)نے فرمایا: ”لان فیها قیام الخلق للحساب “۔( ۹۵ )

”کیونکہ اس روز مخلوق ،حساب کے لئے جمع کی جائے گی“۔

قرآن مجید میں بہت سے الفاظ کے ذریعہ قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ھے جیسا کہالازفة، والحاقة، والقارعة، والطامة الکبریٰ، والواقعة، والصاخّة، والساعة،و یوم الجمع، ویوم التغابن،ویوم الموعود، ویوم المشهود، ویوم التلاقی، ویوم التنادی، ویوم الحساب، ویوم الفصل،و یوم الحسرة،و یوم الوعید ۔

قیامت انسان کے لئے ایک سخت منزل ھے کیونکہ اس دن خوف و ہراس، نالہ و فریاد اور طولانی مدت تک قیام ھوگا، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

یَااٴَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَیْءٌ عَظِیمٌ یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اٴَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارَی وَمَا هُمْ بِسُکَارَی وَلَکِنَّ عَذَابَ اللهِ شَدِیدٌ ( ۹۶ )

”اے لوگواپنے پروردگار سے ڈرتے رھو (کیونکہ) قیامت کا زلزلہ (کوئی معمولی نھیں) ایک بڑی سخت چیز ھے جس دن تم اسے دیکھ لوگے تو ہر دودھ پلانے والی (ڈر کے مارے)اپنے دودھ پیتے (بچے) کو بھول جائیں گی ا ور ساری حاملہ عورتیں اپنے اپنے حمل (دہشت سے) گرادیں گی اور( گھراہٹ میں )لوگ تجھے متوالے معلوم ھوںگے حالانکہ وہ متوالے نھیں ھیں بلکہ خدا کا عذاب بہت سخت ھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”کل شيء من الدنیا سماعہ اعظم من عیانہ ،وکل شيء من آلاخرة عیانہ اعظم من سماعہ ۔فیکفیکم من العیان السماع ومن الغیب الخبر“۔( ۹۷ )

”(یارکھو!) دنیا میں ہر شے کا سننا اس کے دیکھنے سے عظیم تر ھوتا ھے او رآخرت میں ہر شے کا دیکھنا اس کے سننے سے بڑھ چڑھ کر ھوتا ھے لہٰذا تمہارے لئے دیکھنے کے بجائے سننا اور غیب کے مشاہدہ کے بجائے خبر ھی کو کافی ھوجانا چاہئے“۔

قیامت کے مواقف (قیام کی جگہ) زیادہ ھوں گی اور دیر دیر تک کھڑا ھونا پڑے گا، جس کے مختلف مقامات ھیں، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا علیها ،فان للقیامة خمسین موقفا،کل موقف مقداره الف سنة“، ثم تلا قوله تعالیٰ :( تَعْرُجُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ إِلَیْهِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ اٴَلْفَ سَنَةٍ ) ( ۹۸ )

”اپنے نفس کا حساب کرو قبل اس کے تمہارا حساب کیا جائے، کیونکہ قیامت کے پانچ موقف ھوں گے، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ھوگا، اس کے بعد آنحضرت نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

”جس طرف فرشتے اور روح الامین چڑھتے ھیں (اور یہ) ایک دن میں (اتنی مسافت طے کرتے ھیں ) جس کا اندازہ ہزار برس کا ھوگا“۔

قارئین کرام !ھم ذیل میں قیامت کے مواقف کو بیان کرتے ھیں کہ جب صور پھونکی جائے گی اور اس کو یا جنت میں سعادت اور کامیابی یا جہنم میں بدبختی کا پیغام سنایا جائے گا:

۱ ۔ صور پھونکا جائے گا: جیسا کہ ارشاد الٰھی ھے:

( وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِی الْاٴَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَاءَ اللهُ ) ( ۹۹ )

”اور( جب پہلی بار )صور پھونکا جائے گاتو جو لوگ آسمانوں میں ھیں اور جو لوگ زمین میں ھیں (موت سے) بیھوش ھو کر گر پڑیںگے (ہاں) جس کو خدا چاھے(وہ البتہ بچ جائے گا)“۔

نیز ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( مَا یَنظُرُونَ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً تَاٴْخُذُهُمْ وَهُمْ یَخِصِّمُونَ فَلاَیَسْتَطِیعُونَ تَوْصِیَةً وَلاَإِلَی اٴَهْلِهِمْ یَرْجِعُونَ ) ( ۱۰۰ )

”(اے رسول ) یہ لوگ ایک سخت چنگھاڑ (صور) کے منتظر ھیں جو انھیں (اس وقت) لے ڈلے گی جب یہ لوگ باھم جھگڑ رھے ھوں گے پھر نہ تو یہ لوگ وصیت ھی کرنے پائیں گے اور نہ اپنے اہل و عیال ھی کی طرف لوٹ کر جا سکیں گے “۔

تفاسیر میں بیان ھوا ھے کہ” صور “سے مراد وہ قرن(سنکھ)ھے جس سے(صور) پھونکا جائے گا، اور یہ بھی کھاگیا ھے کہ ”صور“صورت کی جمع ھے یعنی خداوندعالم قبر میں انسانوں کی صورت خلق فرمائے گا جس طرح سے شکم مادر میں انسانوں کی صورت خلق کرتا ھے، اور پھر ان میں روح پھونکے گا جیسا کہ صورت بننے کے بعد شکم مادر میں روح پھونکتا ھے۔( ۱۰۱ )

لیکن قرآن مجید کی آیتوں کے ظھور اور احادیث کی صراحت پہلے معنی پر دلالت کرتے ھیں، جیسا کہ متضافرہ (یعنی تواتر کے حد سے کم اور واحد کے حد سے زیادہ) احادیث میں وارد ھوا ھے کہ خداوندعالم نے اسرافیل کو خلق فرمایا تو اس کے ساتھ ایک صور کو بھی خلق فرمایا جس کے دو گوشے ھیں ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں، اور اسرافیل اس صورکو لئے حکم خدا کے منتظر ھیں، جس وقت خدا وندعالم حکم فرمائے گا تواسرافیل صور پھونک دیں گے۔( ۱۰۲ )

صورپھونکنے کا نتیجہ یہ ھوگا کہ زمین و آسمان کے درمیان تمام ذی روح کو موت آجائے گی، کوئی زندہ نھیں بچے گا زندگی کے کوئی آثار نھیں بچےں گے، مگر جو خدا وندعالم چاھے:

( لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ کُلُّ شَیْءٍ هَالِکٌ إِلاَّ وَجْهَهُ لَهُ الْحُکْمُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ( ۱۰۳ )

”اس کے سوا کوئی قابل پرستش نھیں اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ھونے والی ھے، اس کی حکومت ھے اور تم لوگ اسی کی طرف (مرنے کے بعد)لوٹائے جاوگے “۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

وانه سبحانه یعود بعد فناء الدنیا وحده لا شيء معه کما کان قبل ابتداء ها ،کذلک یکون بعد فناء ها بلا وقت ولا مکان ،ولا حین ولا زمان ،عدمت عند ذلک الاجال و الاوقات،وزالت السنون والساعات، فلا شيء الا الله الواحد القهار الذی الیه مصیر جمیع الامور “۔( ۱۰۴ )

”وہ خدائے پاک و پاکیزہ ھی ھے جو دنیا کے فنا ھوجانے کے بعد بھی رہنے والا ھے،اس کے ساتھ کو ئی رہنے والا نھیں ھے جیساکہ ابتداء میں بھی ایسا ھی تھا اور انتھامیں بھی ایسا ھی ھونے والا ھے، اس کے لئے نہ وقت ھے نہ مکان، نہ ساعت ھے نہ زمان، اس وقت مدت اور وقت سب فنا ھوجائیں گے، اور ساعت و سال سب کا خاتمہ ھوجائے گا، اس خدائے واحد و قہار کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے اسی کی طرف تمام امور کی بازگشت ھے“۔(ص ۳۶۵ ترجمہ علامہ جوادی )

۲ ۔ نظام کائنات کی تبدیلی: عالم آخرت کی زندگی ایک نئے نظام کے تحت ھوگی جو ھمیشہ کے لئے ھوگی، یا فقط سعادت و نیک بختی ھوگی یا عذاب و بدبختی، اور یہ نظام اس دنیاوی نظام کے خاتمہ پر ھوگا، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاٴَرْضُ غَیْرَ الْاٴَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ) ( ۱۰۵ )

”(مگر کب ) جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین کر دی جائے گی اور( اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے) اور سب لو گ یکتا قہار خدا کے روبرو (اپنی اپنی جگہ سے) نکل کھڑے ھوں گے“۔

خداوندعالم نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کے تبدیلی کا ذکر فرمایا ھے،جن کا مضمون اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑدیں گے اور بیابان بن جائیں گے یا ریتیلے ٹیلے کی شکل اختیار کرلیں گے اور دھنکی ھوئی روئی کی طرح اڑنے لگےں گے،سمندروں میں طوفان پیدا ھونے لگے گا زمین چٹیل میدان بن جائے گی، کچھ بھی دکھائی نھیں دے گا، زلزلہ آئے گا ، زمین میں لرزش پیدا ھوجائےگی، سورج چاند میں گہن لگ جائے گا ستارے ڈوب جائیں گے، نور چلا جائے گا آسمان سرخ ھوجائے گا، چاروں طرف دھواں ھی دھواں پھیلا ھوگا ، آسمان گرجائے گا، اور ایک طومار کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔

حضرت علی علیہ السلام اس دن کے متعلق یوں فرماتے ھیں:

یوم عبوس قمطریر،ویوم کان شره مستطیرا، ان فزع ذلک الیوم لیرهب الملائکة الذین لا ذنب لهم و ترعد منه السبع الشداد ،والجبال الاوتاد ،والارض المهاد ، وتنشق السماء فهی یومئذ واهیة،و تتغیر فکانها وردة کالدهان ،و تکون الجبال کثیبا مهیلا بعد ما کانت صما صلاباً “۔( ۱۰۶ )

”قیامت کا دن وہ دن ھوگا جب انسان کی شکل بگڑ جائے گی اور ھوائیاں اڑنے لگےں گی، اس کی سختی ہر طرف پھیل جائے گی، اس روز کے خوف و وحشت سے بے گناہ فرشتے بھی ڈرنے لگیں گے، شدید قسم کی بھوک و پیاس ھوگی، پہاڑوں کی کیلیں ہلنے لگے گی، زمین خاک بن جائے گی، آسمان پھٹ جائے گا، آسمان تیل کی طرح سرخ ھوجائے گا، پہاڑریت کے ٹیلوں اور موج کی طرح ھوجائیں گے، جبکہ اس سے پہلے وہ بہت قوی ھوں گے“

۳ ۔ زندگی کا صور پھونکاجانا: دوسری مرتبہ جب صور پھونکا جائے گا تو تمام مخلوق عالم آخرت کے لئے زندہ ھوجائے گی، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

( وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ إِلَی رَبِّهِمْ یَنسِلُونَ# قَالُوا یَاوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ# إِنْ کَانَتْ إِلاَّ صَیْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِیعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُونَ ) ( ۱۰۷ )

”اورپھر( جب دوبارہ)صور پھونکا جائے گا تو اسی دم یہ سب لوگ (اپنی اپنی) قبروں سے (نکل نکل کے )اپنے پروردگار (کی بارگاہ) کی طرف چل کھڑے ھوں گے اور حیران ھوکر کھیں گے کہ ہائے افسوس ھم تو پہلے سو رھے تھے ھمیں ھماری خوابگاہ سے کس نے اٹھا یا (جواب آئے گا )کہ یہ وھی (قیامت کا)دن ھے جس کا خدا نے (بھی )وعدہ کیا تھااور انبیاء نے بھی سچ کہاتھا(قیامت تو) بس ایک سخت چنگھاڑ ھوگی پھر ایکا ایکی یہ لوگ سب کے سب ھمارے حضور میں حاضر کئے جائیں گے “۔

نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ذَلِکَ یَوْمُ الْوَعِیدِ وَجَاءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِیدٌ ) ( ۱۰۸ )

”اورصور پھونکا جائے گا یھی (عذاب کے) وعدہ کا دن ھے اور ہر شخص (ھمارے سامنے اس طرح حاضر ھو گا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ )ہنکانے والا ھوگا اور ایک (اعمال کا) گواہ “۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

لا تنشق الارض عن احد یوم القیامة الا و ملکان آخذان بضبعیه، یقولان :اجب رب العزة “۔( ۱۰۹ )

”روز قیامت زمین پھٹتے ھی فرشتے اس کے بازو پکڑلیں گے اور کھیں گے: چلو اپنے پروردگار کے سامنے حساب و کتاب دو“۔

” پس اس وقت منادی پکارے گابعد اس کے کہ زمین پھٹنے لگے گی، حساب و کتاب کی طرف جلدی چلو ، حالانکہ ان کی آنکھیں دھنسی ھوں گی رسوائی چھائی ھوگی، ٹڈی دل کی طرح منتشر ھوجائیں گے۔

( یَوْمَ یَخْرُجُونَ مِنْ الْاٴَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاٴَنَّهُمْ إِلَی نُصُبٍ یُوفِضُونَ# خَاشِعَةً اٴَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِکَ الْیَوْمُ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ ) ( ۱۱۰ )

”اسی طرح یہ لوگ قبروں سے نکا ل کر اس طرح دوڑیں گے گویا وہ کسی جھنڈے کی طرف دوڑے چلے جا تے ھیں (ندامت سے) ان کی آنکھیں جھکی ھوئی ھو ں گی ان پر رسوائی چھائی ھوئی ھوگی ۔یہ وھی دن ھے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا“۔

۴ ۔ حشر: حشر کے معنی جمع کرنے کے ھیں، یہاں پر حشر سے مراد یہ ھے کہ تمام مخلوق بغیر کسی استثناء کے جمع ھوگی کوئی باقی نھیں بچے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اٴَحَدًا ) ( ۱۱۱ )

”اور ھم ان سبھو ں کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے ایک کو نہ چھوڑیں گے“۔

پرندے، حیوانات اور درندے سبھی محشور کئے جائیں گے، چنانچہ خداوندعالم ارشادفرماتا ھے:

( وَاِٴذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ ) ( ۱۱۲ )

”اور جس طرح وحشی جانور اکٹھاکئے جائیں گے“۔

نیز خدا وندعالم کا یہ فرمان:

( وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَطَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْهِ إِلاَّ اٴُمَمٌ اٴَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّهِمْ یُحْشَرُون ) ( ۱۱۳ )

”زمین میں جو چلنے والے پھرنے والا (حیوان ) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ھے ان کی بھی تمہاری طرح جماعتیں ھیں (اور سب کے سب لوح محفوظ میں موجود ھیں ) ھم نے کتاب (قرآن ) میں کوئی بات فرو گذاشت نھیں کی ھے پھر سب کے سب (چرند ھوں یا پرند ) اپنے پرور دگار کے حضور میں لائے جائیں گے“۔

حشر اس مقام کا نام ھے کہ جہاں پر عقلیں حیران ھوجائیں گی اور انسان کے دل ہل جائیں گے اس طرح کہ انسان ہر طرف بری طرح سے چیخ پکار کرتا ھوگا، ننگے پاؤں بے کسی کے عالم میں تھکا ھوگا اور پسینہ سے شرابور ھوگا۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

وذلک یوم یجمع الله فیه الاولین والاخرین ،لنقاش الحساب و جزاء الاعمال، خضوعا، قیاما، قد الجمهم العرق ،و رجفت بهم الارض، فاحسنهم حالاً من وجد لقدمیه موضعا ولنفسه متسعاً “۔( ۱۱۴ )

”(روز قیامت) وہ دن ھوگا جب پروردگار اوّلین و آخرین کو دقیق ترین حساب اور اعمال کی جزا کے لئے اس طرح جمع کرے گا کہ سب خضوع و خشوع کے عالم میں کھڑے ھوں گے، پسینہ ان کے دہن تک پھونچا ھوگا اور زمین لرز رھی ھوگی، بہترین حال اس کا ھوگا جو اپنے قدم جمانے کی جگہ حاصل کرلے گا اور جسے سانس لینے کا موقع مل جائے گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ آپ نے فرمایا:

مثل الناس یوم القیامة اذا قاموالرب العالمین ،مثل السهم فی القرب ،لیس له من الارض الا موضع قدمه کالسهم فی الکنانة ،لا یقدر ان یزول هاهنا ولا ها هنا “۔( ۱۱۵ )

”انسان روز قیامت اس طرح اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ھوگا جیسے پہلو میں تیر، کہ صرف کھڑے ھونے کی جگہ ھوگی، جس طرح ترکش میں تیر ھوتا ھے کہ وہ ادھر آسکتا ھے اور نہ اُدھر جاسکتا ھے“۔

تمام لوگ اپنے رب کے فیصلہ کے منتظر ھوں گے وہاں پر نہ مال کام آئے گا اور نہ مقام، اور نہ نھی ان کی کوئی چیز پوشیدہ ھوگی:

( یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لاَتَخْفَی مِنْکُمْ خَافِیَة ) ( ۱۱۶ )

”اس دن تم سب کے سب (خدا کے سامنے )پیش کئے جاو گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نھیں رھے گی“۔

مخفی چیزیں ظاہر ھوجائیں گی، اور سب راز کھل جائیں گے:

( یَوْمَ تُبْلَی السَّرَائِرُ ) ( ۱۱۷ )

”جس دن دلوں کے بھید جانچے جائیں گے“۔

اس وقت انسان کے تمام اعمال و عقائد بالکل ظاہر ھوجائیں گے جن کا وہ دنیا میں مالک تھا:

( یَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ لاَیَخْفَی عَلَی اللهِ مِنْهُمْ شَیْءٌ ) ( ۱۱۸ )

”جس دن وہ لوگ (قبروں سے) نکل پڑیں گے (اور )ان کی کوئی چیز خدا سے پوشیدہ نھیں رھے گی“۔

لیکن روز قیامت کا حال انسان کے اعمال کے لحاظ سے ھوگا، اس روز (مومن و) متقی افراد سواری پر محشور ھوں گے:

( یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا ) ( ۱۱۹ )

”جس دن پرھیزگاروں کو (خدا ئے ) رحمان کے سامنے مھمانوں کی طرح جمع کریں گے “۔

اور ان کے چہروں پر خوشی و مسرت کے آثار ظاہر ھوں گے:

( وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ# ضَاحِکَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ ) ( ۱۲۰ )

”بہت سے چہرے تو اس دن خنداں شادماں اور چمکتے ھوں گے (یھی نیکوکار ھیں ) ‘ ‘۔

کیونکہ انھوں نے دنیا میں رہ کر ثواب و عظیم کامیابی کا راستہ اپنایا تھا، ان کے لئے ایک نور ھوگا جس کے سہارے وہ اہل قیامت کے سامنے سے گزر جائیں گے:

( یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعَی نُورُهُمْ بَیْنَ اٴَیْدِیهِمْ وَبِاٴَیْمَانِهِمْ ) ( ۱۲۱ )

”جس دن تم مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کانور ان کے آگے آگے اور دا ہنی طرف چل رھاھوگا“۔

لیکن کافر و مشرک مجرمین اپنے شیطان و ستم گر دوستوں کے ساتھ محشور کئے جائیں گے:

( فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّیَاطِینَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا ) ( ۱۲۲ )

”(اے رسول ) تمہارے پرور دگار کی (اپنی) قسم ھم ان کو اور شیطانوں کو اکٹھا کریں گے پھر ان سب کو جہنم کے گردا گرد گھٹنو ں کے بل حاضر کریں گے“۔

اور خدا کو چھوڑ کر جس کی وہ عبادت کرتے تھے، ان کے ساتھ محشور کیا جائے گا:

( وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ ) ( ۱۲۳ )

”اور جس دن خدا ان لوگوں کو اور جس کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پرستش کیاکرتے ھیں“۔

اہل محشر ان کے سیاہ چہروں اور ظاہری صورت کو دیکھ کر سمجھ جائیں گے (کہ یہ لوگ جہنمی ھیں):

( وَوُجُوهٌ یَوْمَئِذٍعَلَیْهَا غَبَرَةٌ# تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ ) ( ۱۲۴ )

”اور بہت چہرے ایسے ھوں گے جن پر گرد پڑی ھوگی ۔ان پر سیاھی چھائی ھوئی ھوگی“۔

ان کے چہروں کو دوزخ کی طرف گھسیٹا جائے گا اور وہ حواس باختہ ھوں گے:

( وَنَحْشُرُهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَی وَجُوهِهِمْ عُمْیًا وَبُکْمًا وَصُمًّا ) ( ۱۲۵ )

”اور قیامت کے دن ھم ان لوگوںکو منھ کے بل اوندھے اندھے اور گونگے اور بہرے قبروں سے آٹھائیں گے “۔

۵ ۔عدالت الٰھیہ: خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَاٴَشْرَقَتْ الْاٴَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیءَ بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ# وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُونَ ) ( ۱۲۶ )

”اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور (اعمال کی) کتاب (لوگوں کے سامنے) رکھدی جائے گی ،اور پیغمبر اور گواہ لاحاضر کئے جائیں گے اور ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر (ذرہ برابر ) ظلم نھیںکیا جائے گا ۔اور جس شخص نے جیسا کیا ھو اسے ا س کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور جو کچھ یہ لوگ کرتے ھیں وہ اس سے خوب واقف ھے“۔

یہ عدالت الٰھیہ ھوگی جو دنیاوی عدالتوں کی طرح نھیں ھوگی، کیونکہ روز قیامت کا قاضی خائن آنکھ کو پہچانتا ھے اور دلوں کے راز سے آگاہ ھے، اس کے گواہ انبیاء و مرسلین (علیھم السلام) ھوں گے، اور انسان کے اعضاء و جوارح اس کی گواھی دیں گے نیز اس کے کئے اعمال بھی وہاں اس کے سامنے مجسم ھوں گے، اور اس کا نامہ اعمال اس کے سامنے موجود ھوگا جس میں سب کچھ لکھا ھوگا، کوئی چھوٹی بڑی چیز ایسی نہ ھوگی جو اس میں لکھی نہ گئی ھو، اس وقت انسان (اپنے اعمال کا) انکار کیسے کرے گا؟ جبکہ اس کے اعمال حاضر ھوں گے، نامہ اعمال پیش نظر ھوگا، گواہ، گواھی دے چکے ھوں گے اور اعضاء و جوارح بول چکے ھوں گے؟!

قارئین کرام! ذیل میں ھم ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جن کے ذریعہ عدالت الٰھی ھمیں فیصلہ ھوگا، کیا کیا سوال ھوگا، کیسا حساب ھوگا اور کون کون گواھی دےں گے:

۱ ۔ سوال : تمام ھی مخلوقات سے سوال ھوگا:

( فَوَرَبِّکَ لَنَسْاٴَلَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون ) ( ۱۲۷ )

”تو( اے رسول )تمہارے ھی پرور دگار کی (اپنی ) قسم کہ ھم ان سے جو کچھ یہ کرتے تھے ( اس کے متعلق بہت سختی سے)ضرور باز پرس کریںگے“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

( فَلَنَسْئلَنَّ الَّذِینَ اٴُرْسِلَ إِلَیْهِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِینَ ) ( ۱۲۸ )

”پھر ھم تو ضروران لوگوں سے جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے تھے ،سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی پوچھیں گے“۔

یعنی دین کے بارے میں سوال ھوگا، لیکن گناھوں کے بارے میں سوال نھیں ھوگا مگر جس کا حساب ھوچکا ھو اور جس کا حساب ھوگا اس پر عذاب ضرور ھوگا چاھے طولانی مدت تک کا قیام ھی کیوں نہ ھوں۔( ۱۲۹ )

اعضاء و جوارح سے سوال ھوگا جیسا کہ درج ذیل آیت :

( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلَئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْوولاً ) ( ۱۳۰ )

”(کیونکہ ) کان اور آنکھ اور دل ان سب کی( قیامت کے دن )یقینا باز پرس ھوتی ھے “۔

کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا:

یسال السمع عما سمع ،والبصر عما یطرف ،والفواد عما یعقد علیه “۔( ۱۳۱ )

”آنکھوں سے سوال ھوگا کہ انھوں نے کیا دیکھا، کانوں سے سوال ھوگا کہ انھوں نے کیا سنا اور دل سے سوال ھوگا کہ اس نے کس چیز پر عقیدہ رکھا“۔

یہ سوال انسان کے پورے وجود اور اس کے اعتقاد سے ھوگاجیسا کہ رسول اکرم سے مروی ھے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتی یسال عن اربع :عن عمره فیما افناه وعن جسده فیما ابلاه و عن ماله مما اکتسبه وفیم انفقه ، وعن حبنا اهل البیت “۔( ۱۳۲ )

”روز قیامت انسان سے چار چیزوں کے بارے میں سوال ھوگا: (الف) کس چیز میں عمر گزاری،(ب) اعضاء و جوارح سے کیا کام لیا،(ج) مال کو کس طرح جمع کیا اور کہاں خرچ کیا، (د) اور ھم اہل بیت کی محبت کے بارے میں سوال ھوگا“۔

جن اہل بیت علیھم السلام کی محبت کے بارے میں سوال ھوگا، وھی اہل بیت علیھم ا لسلام ھیں جن کی عصمت کے بارے میں خدا وندعالم نے آیہ تطھیر میں وضاحت فرمائی ھے:

( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ( ۱۳۳ )

”اے (پیغمبر کے )اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ھے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ھے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے“۔

وھی اہل بیت علیھم السلام جن کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) نے نصاری نجران کے مقابلہ میں مباہلہ کیا، ارشاد ھوتا ھے:

( فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ( ) ۱۳۴)

”تو کھو کہ (اچھا میدان میں )آو ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ھم اپنی عورتوں کو (بلائیں ) اور تم اپنی عورتوںکو اور ھم اپنی جانوں کو (بلائیں ) اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ھم سب مل کر خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں “۔

اہل بیت رسول خدا ﷺ، حضرت علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام اور آپ کی ذریت کے نو امام معصوم علیھم السلام ھیں، ان کے علاوہ کوئی اہل بیت میں شامل نھیں ھے۔

انھی اہل بیت علیھم السلام کی محبت کے بارے میں خداوندعالم سوال کرے گا کیونکہ اس نے محبت اہل بیت کو مخلوق پر واجب قرار دیا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( قُلْ لَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِٴلَّاالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَیٰ ) ( ۱۳۵ )

”اور (اے رسول )تم کہدو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابتداروں (اہلبیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نھیں مانگتا“۔

جس طرح پیغمبر اکرم (ص)نے دل و جان سے اسلام اور ایمان کے قبول کرنے کی دعوت دی ھے اور آنحضرت (ص)نے اہل بیت علیھم السلام سے محبت کرنے پر زور دیا ھے جیسا کہ بہت سی احادیث میں بیان ھوا ھے، آنحضرت (ص)فرماتے ھیں:

احبوا الله لما یغذوکم من نعمه ،وا حبونی لحب الله ،و احبوا اهل بیتی لحبی “۔( ۱۳۶ )

”خدا سے محبت کرو کیونکہ وھی تمہارے لئے رزق کا انتظام کرتا ھے، اور مجھ سے خدا کی محبت کے لئے محبت کرو اور میرے اہل بیت (علیھم السلام) سے میری محبت کی وجہ سے محبت کرو“۔

صرف ان کی محبت کے بارے میں سوال نھیں ھوگا بلکہ رسول اکرم (ص)کے بعد ان کی ولایت و امامت اور وصی برحق ھونے کے اعتقاد کے سلسلے میںسوال ھوگا، جیسا کہ آنحضرت (ص)سے درج ذیل آیت :

( وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْوولُونَ ) ( ۱۳۷ )

”اور (ہاں ذرا)انھیں ٹھہراو توا ن سے کچھ پوچھنا ھے“۔

کے بارے میں سوال کیا کہ روز قیامت کس چیز کے بارے میں سوال ھوگا تو آنحضرت (ص)نے فرمایا:

یعنی عن ولایة علی بن ابی طالب “۔( ۱۳۸ )

”ولایت علی بن ابی طالب کے بارے میں سوال ھوگا“۔

۲ ۔ حساب: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( إِنَّ إِ لَیْنَا إِ یَا بَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَاحِسَابَهُمْ ) ( ۱۳۹ )

”بیشک ان کو ھماری طرف لوٹ کر آنا ھے ،پھر ان کا حساب ھمارے ذمہ ھے“۔

حساب کے معنی یہ ھیں کہ انسان کے اعمال اور اس کی جزا کو تولا جائے گا، تاکہ نیک اعمال پر جزا دی جائے اور بُرے اعمال پر سزا دی جائے، جس کے نیک اعمال ھوں اس کی مدح و ثنا ھوگی، اور اس کو نیک جزا کا مستحق قرار دیا جائے گا۔( ۱۴۰ )

خداوندعالم اولین و آخرین سے اپنے حساب کے لئے ایک آواز دے گا جس کو سب سنیں گے لیکن سوچیں گے کہ میرے علاوہ کسی دوسرے کو کھاجارھاھے، اور خداوندعالم کا خطاب میرے علاوہ کسی دوسرے سے ھے، اور خدا کو کوئی مشغول نھیں کرسکتا، خداوندعالم تمام اولین و آخرین کا حساب دنیا کے ایک گھنٹے میں کرلے گا۔( ۱۴۱ )

جب معصوم سے( وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ ) ( ۱۴۲ ) (”اور خدا بہت جلد حساب لینے والا ھے “۔) کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ اس سے مراد پلک جھپکتے ھی خداوندعالم حساب کرلے گا یا ایک روایت کے مطابق بکری کو دوہنے کے برابر وقت میں حساب کرے گا۔( ۱۴۳ )

حضرت امام صادق سے درج ذیل آیہ شریفہ کے بارے میں سوال کیا:

( فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِینَ اٴَلْفَ سَنَةٍ ) ( ۱۴۴ )

”ایک دن میں ،جس کا اندازہ پچاس ہزار سال کا ھوگا“۔

تو امام علیہ السلام نے جواب دیا:

لو ولی الحساب غیر الله لمکثوا فیه خمسین الف سنة من قبل ان یفرغوا ،والله سبحانه یفرغ من ذلک فی ساعة “۔( ۱۴۵ )

”اگر اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا حساب کرے تو واقعاً وہ پچاس ہزار سال سے پہلے حساب نھیں کرسکے گا، لیکن خداوندعالم ایک ساعت میں تمام مخلوق کے حساب و کتاب سے فارغ ھوجائے گا“۔

حضرت امیرے المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اتنی کثیر مخلوق کا کس طرح حساب کرے گا تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

کما یرزقهم علی کثرتهم “ قیل: فکیف یحاسبهم ولایرونه؟ قال: ”کما یرزقهم ولا یرونه “۔( ۱۴۶ )

”جس طرح وہ ان کی کثرت کے باوجود ان کو رزق دیتا ھے“،سوال کیا گیا کہ خدا کس طرح حساب کرے گا حالانکہ وہ ان کو دیکھ بھی نھیں رھاھوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”جس طرح ان کو رزق پہنچاتا ھے اور ان کو دیکھنے کی ضرورت نھیں ھوتی“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ھے:

ان اول ما یحاسب به العبد الصلاة،فان قبلت قبل ما سواها “۔( ۱۴۷ )

”سب سے پہلے (روز قیامت) بندوں سے نماز کے بارے میں سوال ھوگا اگر نماز قبول ھے تو دوسرے اعمال بھی قبول ھیں“۔

روز قیامت کے خوف و ہراس سے کوئی نجات نھیں پائے گا مگر وہ شخص جس نے دنیا میں اپنے اعمال و اقوال کو شریعت کی میزان میں پرکھ لیا ھو، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

عباد الله زنوا انفسکم من قبل ان توزنوا ،و حاسبوها من قبل ان تحاسبوا وتنفسوا قبل ضیق الخناق ،و انقاد وا قبل عنف السیاق “۔( ۱۴۸ )

”بندگان خدا! اپنے آپ کو تول لو قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے تمہارا حساب کیا جائے،گلے کا پھندا تنگ ھونے سے پہلے سانس لے لو اور زبردستی لے جائے جانے سے پہلے از خود جانے کے لئے تیار ھوجاؤ۔۔۔“۔

۳ ۔ شھود اور تطائر کتب: یہ بھی قیامت کی وحشت و خوف و ہراس کی منزل میں ھے، کیونکہ اس وقت انسان بہت سے گواھوں کے مدمقابل ھوگا جن کی دلیل کو ردّ نھیں کرسکتا، اور نہ ھی ان کو جھٹلاسکتا ھے، لہٰذا اسے اپنے گناھوں اور خطاؤں کا اقرار کرنا ھوگا، گواھی کون کون دےں گے:

الف: خداوندعالم خود گواہ ھوگا: کیونکہ وہ ہر چیز کاعلم رکھتا ھے، اس کا علم سب چیزوں پر احاطہ کئے ھوئے ھے، انسان کی خلوت کو بھی دیکھتا ھے اور اس کے دل میں پوشیدہ اسرار سے بھی آگاہ ھے، وہ انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ھے، چنانچہ خداوندعالم فرماتا ھے:

( وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُهُودًا ) ( ۱۴۹ )

”اور (لوگو) تم کوئی سا بھی عمل کر رھے ھو ھم (ھمہ وقت )جب تم اس کام میں مشغول ھوتے ھو تم کو دیکھتے رہتے ھیں “۔

نیز ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( مَا یَکُونُ مِنْ نَجْوَی ثَلاَثَةٍ إِلاَّ هُوَ رَابِعُهُمْ وَلاَخَمْسَةٍ إِلاَّ هُوَ سَادِسُهُمْ وَلاَاٴَدْنَی مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْثَرَ إِلاَّ هُوَ مَعَهُمْ اٴَیْنَ مَا کَانُوا ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ( ۱۵۰ )

”جب تین (آدمیوں )کا خفیہ مشورہ ھوتا ھے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ھے اور جب پانچ کا (مشورہ) ھوتا ھے تو وہ ان کا چھٹا ھے اور اس سے کم ھوں یا زیادہ اور چاھے جہاں کھیں ھوں وہ ان کے ساتھ ضرور ھوتا ھے پھر جو کچھ وہ (دنیامیں ) کرتے رھے قیامت کے دن ان کو اس سے آگاہ کر دے گا بیشک خدا ہر چیز سے خوب واقف ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

اتقوا معاصی الله فی الخلوات ،فان الشاهد هو الحاکم “۔( ۱۵۱ )

”تنہائی میں بھی خدا کی نافرمانی سے ڈرو کہ جو دیکھنے والا ھے وھی فیصلہ کرنے والاھے“ ۔

ب: انبیاء اور اوصیاء الٰھی: قرآن کریم کی آیات اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ خداوندعالم کے سامنے ہر نبی اپنی امت کے اعمال پر گواھی دے گا،اور ھمارا نبی اکرم محمد مصطفی ﷺاپنی امت کے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتاھے:

( فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلاَءِ شَهِیدًا ) ( ۱۵۲ )

”بھلا اس وقت کیا حال ھوگا جب ھم ہر گروہ کے گواہ طلب کریں گے اور (اے محمد) تم کو ان سب پر گواہ کی حیثیت میں طلب کریں گے“۔

نیز خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ اٴُمَّةٍ شَهِیدًا عَلَیْهِمْ مِنْ اٴَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَهِیدًا عَلَی هَؤُلاَء ) ( ۱۵۳ )

”اور (وہ دن یاد کرو جس دن ھم ہر ایک گروہ میں سے ا نھیںمیں کا ایک گواہ ان کے مقابل لا کھڑا کریں گے اور (اے رسول)تم کو ان لوگوں پر (ان کے)مقابل میں گواہ بنا کر لاکھڑا کریں گے“۔

قارئین کرام! یہ آیہ مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ ہر زمانہ میں ایک ایسی شخصیت کا ھونا ضروری ھے جس کا قول اس زمانہ کے افراد کے لئے حجت ھو اور وہ خدا کے نزدیک عدل (بہت زیادہ عادل) ھو، اسی مطلب کو جبّائی صاحب اور اکثر اہل عدل مانتے ھیں، اور یھی قول علمائے شیعہ کی نظر کے موافق ھے، اگرچہ اختلاف پایا جائے جاتا ھے کہ وہ عدل اور حجت (خدا ) کون ھے؟۔( ۱۵۴ )

یہ بات واضح ھے کہ تمام امت کا انتخاب نھیں کیا جاسکتا اور نہ تمام امت عادل ھوسکتی ھے جن کو لوگوں کے لئے گواہ بنایا جاسکے، بہت سے ایسے ھیں کہ جن کی حالت لوگوں پر مخفی نھیں ھے، لہٰذا یہ صفات بعض افراد سے مخصوص ھےں ، پس انھیں بعض لوگوں کو انتخاب کیا جائے گا۔

تفسیر عیاشی میں درج ذیل آیت :

( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَهِیدًا ) ( ۱۵۵ )

”(اور جس طرح تمہارے قبلہ کے بارے میں ہدایت کی )اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بنیں “۔

کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:

فان ظننت اٴن الله تعالیٰ عنی بهذه الآیة جمیع اٴهل القبلة من الموحّدین، اٴفتری اٴن من لاتجوز شهادته فی الدنیا علی صاع من تمر، یطلب الله شهادته یوم القیامة، و یقبلهامنه بحضرة جمیع الاٴمم الماضیة؟ کلا لم یعن الله مثل هذا من خلقه، یعنی الاٴمة التي وجبت لهادعوة ابراهیم علیه السلام ( کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) ( ۱۵۶ )

وهم الاٴمة الوسطیٰ، وهم خیر اُمّة اُخرجت للناس “۔( ۱۵۷ )

”کیا تم یہ گمان کرتے ھو کہ خداوندعالم کی اس آیت سے تمام اہل قبلہ مراد ھیں، واقعاً یہ بہتان ھے کہ جس کی گواھی دنیا میں ایک صاع خرمہ کے بارے میں قبول نہ ھو خداوندعالم روز قیامت اس کو گواہ قرار دے، اور اس کی تمام گزشتہ امتوں کے بارے میں گواھی قبول کرے، ہرگز خدا نے (تمام اہل قبلہ) کاارادہ نھیں کیا ھے، یعنی وہ امت جس پر ملت ابراھیم علیہ السلام کی پیروی کرنا واجب ھے،(ترجمہ آیت:)”تم اچھے گروہ ھو کہ لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ھو“۔ وہ امت وسطیٰ ھے اور یھی لوگوں کی ہدایت کے واسطہ بہترین افراد ھیں“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام سے مروی ھے :

نحن الا مة الوسطی ، ونحن شهداء الله علی خلقه،و حججه فی ارضه “۔( ۱۵۸ )

”ھم امت وسطیٰ ھیں، ھم اللہ کی طرف سے لوگوں پر گواہ ھیں اور زمین پر اس کی حجت ھیں“۔

ج۔ ملائکہ اور فرشتے: خداوندعالم نے ہر انسان کے لئے دو فرشتوں کو مقرر کیا ھے کہ ھمیشہ اس کے ساتھ رھیں اور اس کے تمام اعمال کولکھتے رھیں، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنْ الْیَمِینِ وَعَنْ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ ) ( ۱۵۹ )

”جب (وہ کوئی کام کرتا ھے تو )دولکھنے والے (کراماً کاتبین)جو(اس کے) داہنے بائیں بیٹھے ھیں لکھ لیتے ھیں کوئی بات اس کی زبان پر نھیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ھے “۔

یھی ملائکہ روز قیامت انسان کے کئے اعمال (چاھے وہ نیک اعمال ھوں یا بُرے اعمال) کی گواھی دیں گے، ارشاد خداوندعالم ھے:

( وَنُفِخَ فِی الصُّورِ ذَلِکَ یَوْمُ الْوَعِیدِ وَجَاءَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِیدٌ ) ۔( ۱۶۰ )

”اور صور پھونکا جائے گایھی (عذاب کے )وعدہ کا دن ھے اور ہر شخص (ھمارے سامنے اس طرح )حاضر ھوگا کہ اس کے ساتھ ایک (فرشتہ )ہنکا نے والا ھوگا اور ایک (اعمال کا)گواہ“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

سائق یسوقها الی محشر ها ،و شهید یشهد علیها بعملها “۔( ۱۶۱ )

”انسان کے لئے قیامت کی طرف ایک(فرشتہ) ہکانے والا ھے اور ایک گواہ ھے جو روز قیامت اس کے اعمال کی گواھی دے گا“۔

د: اعضاء و جوارح: خداوندعالم قیامت میں بعض مقامات پر انسان کے منہ پر مہر لگادے گا اور خود انسان کے ہاتھ اور تمام اعضاء و جوارح ان سے کئے ھوئے اعمال کی گواھی دیں گے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

( یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اٴَلْسِنَتُهُمْ وَاٴَیْدِیهِمْ وَاٴَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ( ۱۶۲ )

”جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاوں ان کی کارستانیوں کی گواھی دیںگے“۔

یہاں پر اعضاء و جوارح کی بُرائیوں پر گواھی سے مراد انھیں (اعضاء ) کے لحاظ سے ھوگی پس جو گناہ انسان نے زبان سے کئے ھیں جیسے کسی پر قذف، جھوٹ کی تھمت لگانا یا کسی کی غیبت کرنا وغیرہ تو ان کی گواھی خود زبان دے گی، (یعنی اس زبان کی مہر ہٹالی جائے گی) اور اگر دوسرے اعضاء و جوارح سے گناہ کئے ھیں جیسے چوری، چغل خوری کے لئے جانا یا تھمت وغیرہ کے لئے جانا تو انسان کے دوسرے اعضاء گواھی دیں گے“۔( ۱۶۳ )

ھ: نامہ اعمال: جیساکہ ھم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ انسان کے تمام اعمال و اقوال فرشتوں کے ذریعہ نامہ اعمال میں لکھے جاتے ھیں، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِینَ کِرَاماً کَاتِبِینَ یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ) ( ۱۶۴ )

”حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ھیں بزرگ(فرشتے سب باتوں کے)لکھنے والے (کراماً کاتبین )جو کچھ تم کرتے ھو وہ سب جانتے ھیں “۔

یہ نامہ اعمال قیامت کے روز انسان کے سامنے پیش کردئے جائیں گے، اس وقت خداوندعالم ہر امت کے لئے ایک کتاب نکالے گا جو تمام لوگوں کے اقوال و افعال کی حقیقت کے بارے میںبولے گی جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:

( وَتَرَی کُلَّ اٴُمَّةٍ جَاثِیَةً کُلُّ اٴُمَّةٍ تُدْعَی إِلَی کِتَابِهَا الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ هَذَا کِتَابُنَا یَنطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ إِنَّا کُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ( ۱۶۵ )

”اور (اے رسول )تم ہر امت کو دیکھو گے کہ (فیصلہ کی منتظر ادب سے)گھٹنوں کے بل بیٹھی ھوگی اور ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی جو کچھ تم لوگ کرتے تھے آج تم کو اس کا بدلہ دیا جائےگا یہ ھماری کتاب (جس میں اعمال لکھے ھیں)تمہارے مقابلہ میں ٹھیک ٹھیک بول رھی ھے جو کچھ بھی تم کرتے تھے ھم لکھتے جاتے تھے “۔

ہر انسان کا نامہ اعمال جس میں تمام چھوٹے بڑے اعمال کو لکھا گیا ھے اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا، خداوندعالم ہر انسان کو اپنے نفس کے حساب کے لئے قاضی اور حاکم قرار دے گا، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:

( وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِی عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاهُ مَنشُورًا اقْرَاٴْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا ) ( ۱۶۶ )

”اور ھم نے ہر آدمی کے نامہ اعمال کو اس کے گلے کا ہار بنا دیا ھے (کہ اس کی قسمت اس کے ساتھ رھے )اور قیامت کے دن ھم اس کے سامنے نکال رکھ دیں گے کہ وہ اس کو ایک کھلی ھوئی کتاب اپنے روبرو پائے گا (اور ھم اس سے کھیں گے کہ)اپنا نامہ اعمال پڑھ لے اور آج اپنا حساب لینے کے لئے آپ ھی کافی ھے“۔

چنانچہ کفار و مشرکین اس دقیق حساب و کتاب کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے:

( وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْکِتَابِ لاَیُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلاَکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاهَا ) ( ۱۶۷ )

”اور لوگوں کے اعمال کی کتاب (سامنے) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروںکو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ھے (دیکھ کر) سھمے ھوئے ھیں اور کہتے جاتے ھیں ہائے ھماری شامت یہ کیسی کتاب ھے کہ نہ چھوٹے ھی گناہ کو بے قلمبند کئے چھوڑتی ھے نہ بڑے گناہ کو“۔

و: خوداعمال کا ظاہر اور مجسم ھونا: جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( یَوْمَئِذٍ یَصْدُرُ النَّاسُ اٴَشْتَاتاً لِیُرَوْا اٴَعْمَاَلُهْم ) ( ۱۶۸ )

”اس دن لوگ گروہ گروہ (اپنی قبروں سے)نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں“۔

نیز ارشادالٰھی ھوتا ھے:

( یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ اٴَنَّ بَیْنَهَا وَبَیْنَهُ اٴَمَدًا بَعِیدًا ) ( ۱۶۹ )

”(اور اس دن کو یاد رکھو )جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے (دنیا میں) نیکی کی ھے‘ اور جو کچھ برائی کی ھے ‘اس کو موجود پائے گا(اور)آرزو کرے گا کہ کاش اس کی بدی اور اس کے درمیان میں زمانہ دراز(حائل )ھو جاتا “۔

پس معلوم یہ ھوا کہ انسان کے یھی اعمال روز قیامت خود گواھی دیں گے، البتہ مفسرین کے درمیان اختلاف ھے کہ یہ اعمال کس طرح مجسم ھوں گے، چنانچہ بعض افراد نے کھاھے کہ انسان کے اعمال جزا یا سزا کی شکل میں حاضر ھوں گے یا نامہ اعمال حاضر کئے جائےں گے جس میں تمام نیکیاں اور بُرائیاں موجود ھیں، اس چیز پربنا رکھتے ھوئے کہ اعمال ”اعراض“ ھیں جو نابود ھوجاتے ھیں( ۱۷۰ ) یا خود اعمال ظاہر ھوں گے ، کیونکہ اعمال کا مجسم ھونا اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ خود اعمال موجود اور محفوظ ھیں ،لیکن وہ اس دنیا میں دکھائی نھیں دیتے، جن کو خداوندعالم روز قیامت حاضر کرے گا، اسی وجہ سے کھاگیا ھے کہ نامہ اعمال میں خود اعمال کی حقیقت موجود ھوگی۔( ۱۷۱ )

پس خود اعمال کا ظاہر ھونا اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ یہ اعمال غائبانہ طور پر ایک عالم خارجی میں محفوظ ھوجاتے ھیں، اسی بات کو ذہن قبول کرتا ھے، اور یھی اعمال روز قیامت انسان کے سامنے پیش ھوں گے جن کو وہ ظاہر بظاہر دیکھے گا اور اس کے لئے کوئی بہانہ باقی نھیں رھے گا۔

۶ ۔ میزان: لغت میں میزان ، اس شئے کو کہتے ھیں جس کے ذریعہ مختلف چیزوں کو تولا جاسکے، جس سے مختلف چیزوں کے معیار کاپتہ چلتا ھے، قیامت میں بھی تما م لوگوں کے لئے میزان قرار دے گا جس سے اہل ایمان و اہل اطاعت کو کفار اور گناہگاروں سے جدا کرے گا، ارشاد ھوتا ھے:

( وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلاٰ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَ إِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اٴَتَیْنَا بِهَا وَ کَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ ) ( ۱۷۲ )

”اور ھم قیامت کے روز انصاف کی ترازو قائم کریں گے اور کسی نفس پر ادنیٰ ظلم نھیں کیا جائے گا اور کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ھے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ھیں“۔

اور قیامت میں کفار و مشرکین کے اعمال کا وزن ھی نھیں کیا جائے گابلکہ ان کے اعمال باطل ھوجائیںگے،اور ان کو فوج در فوج جہنم میں بھیج دیاجائےگا،ارشاد الٰھی ھوتا ھے :

( اٴُولَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُهُمْ فَلاَنُقِیمُ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا ) ( ۱۷۳ )

”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پرور دگار کی آیتوں سے اور (قیامت کے دن) اس کے سامنے حاضر ھونے سے انکار کیا تو ان کا سب کیا کرایا اکارت ھو اتو ھم اس کے لئے قیامت کے دن میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے “۔

حضرت امام سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ھیں:

اعلموا عباد الله ان اهل الشرک لا تنصب لهم الموازین ،ولا تنشرلهم الدواوین ،وانما یحشرون الی جهنم زمرا ،وانما نصب الموازین و نشر الدواوین لاهل الا سلام ،فاتقواالله عباد الله( ۱۷۴ )

”اے بندگان خدا! جان لو کہ (کفار و )مشرکین کی میزان نصب نھیں کی جائے گی ، اور نہ ھی ان کے لئے فیصلہ کیا جائے گا بلکہ ان کو فوج در فوج جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، میزان اور فیصلہ تو اہل اسلام کے بارے میں ھوگا پس اے بندگان خدا ، خدا سے ڈرو۔()

اصل ِمیزان کی حقیقت کے بارے میں امت کے مختلف فرقوں میں کوئی اختلاف نھیں پایا جاتا، کیونکہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام اس کے وجود پر دلالت کرتی ھیں،لیکن اس کے معنی اور مفھوم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ھے، جن میں سے بعض کو احادیث سے مستند کیاجاتا ھے جن میں سے چند اھم یہ ھیں:

پہلا قول: قیامت کی میزان بھی دنیا کی میزان کی طرح ھے، ہر میزان میں ایک زبان ھوتی ھے اور دوپلڑے،چنانچہ اسی میزان میں انسان کے اعمال (اچھائیوں اور برائیوں) کو تولا جائے گا، اس قول میں صرف اس لفظ ”میزان“ کے ظاہر کو لیا گیا ھے، لیکن تُلنے والی چیز کے بارے میں اختلاف ھے کہ وہ اعمال ھیں یا نامہ اعمال ھیں یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز ھے۔( ۱۷۵ )

دوسرا قول: میزان ”عدل الٰھی“ کی طرف،کنایہ اور اشارہ ھے یعنی خداوندعالم کسی ایک پر بھی ظلم نھیں کرے گا، میزان یعنی عدل الٰھی ، پلڑا وہ بھاری ھوگا جس میں نیکیاں اور حسنات زیادہ ھوں گے لیکن بُرائیوں کا پلڑا ہلکا ھوگا، یعنی ترجیح عدل کے ساتھ ھوگی، جس کے حسنات کے غلبہ اور زیادتی کی وجہ سے اعمال کو ترجیح ھوگی تو وھی لوگ کامیاب ھوں گے، اور جن لوگوں کے اعمال کو حسنات کی وجہ سے ترجیح نہ ھوگی وھی لوگ خسارہ میں ھوں گے۔( ۱۷۶ )

اسی دوسرے قول کی تائید امام صادق علیہ السلام سے مروی حدیث سے بھی ھوتی ھے کہ جب ایک زندیق نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا اعمال کا وزن نھیں ھوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

لا ،ان الاعمال لیست باجسام ،و انما هی صفة ما عملوا وانما یحتاج الی وزن الشيء من جهل عدد الاشیاءولا یعرف ثقلها اوخفتها، وان الله لایخفی علیه شیء،قال فمامعنی المیزان؟، قال:”العدل“،قال فما معناه فی کتابه ( فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ ) ( ۱۷۷ ) ؟قال:فمن رجح عملہ“۔( ۱۷۸ )

”نھیں، اعمال کا کوئی جسم نھیں ھے، بلکہ اعمال اس صفت کانام ھے جس کو لوگ انجام دیتے ھیں، کسی چیز کا وزن کرنا اور تولنا تو اس شخص کے لئے ضروری ھے جو چیزوں کی حقیقت سے جاہل ھو اور اس کے وزن کو نہ جانتا ھو، بے شک اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کا علم مخفی نھیں ھے، زندیق نے سوال کیا تو پھر میزان کے کیا معنی ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میزان کے معنی ”عدل“ کے ھیں، پھر وہ بولا تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے کیا معنی ھیں:”پھر تو جن کے (نیک اعمال کے)پلے بھاری ھوں گے “،تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جس کے عمل کی ترجیح ھوگی “۔

تیسرا قول: میزان کے معنی حساب کے ھیں، اور میزان کا بھاری اور ہلکا ھونا حساب کے کم یا زیادہ ھونے کا کنایہ و اشارہ ھے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ھے :

ومعنی قوله :( فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُهُ ) ،( وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُهُ ) فهو قلة الحساب و کثرته، والناس یومئذ علی طبقات ومنازل ،فمنهم من یحاسب حساباًیسیراو ینقلب الی اهله مسروراً، ومنهم الذین یدخلون الجنة بغیر حساب ،لانهم لم یتلبسوا من امرالدنیا بشیء ،وانما الحساب هناک علی من تلبس هاهنا،ومنهم من یحاسب علی النقیر والقطمیر،ویصیرالی عذاب السعیر،ومنهم ائمة الکفرو قادةالضلال،فاولئک لایقیم لهم وزناً ولایعبابهم،لانهم لم یعباٴوابامره ونهیه،فهم فی جهنم خا لد و ن ، تلفح وجوههم النار ،وهم فیها کالحون “۔( ۱۷۹ )

”ان دونوں آیتوں سے مرادحساب کا کم یا زیادہ ھونا ھے، کیونکہ لوگوں کی کئی قسمیں ھیں ایک گروہ وہ ھوگا جن کا حساب بہت آسان ھوگا، اور وہ اپنے اہل و عیال کے پاس خوشحال واپس آئیں گے، ان میں سے ایک گروہ ایسا ھوگا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ھوجائے گا کیونکہ وہ دنیا کی کسی چیز میں مشغول نھیں ھوئے ھیں، بے شک حساب ان لوگوں کا ھوگا جو دنیاوی کاموں میں مشغول رھے ھیں، ان میں سے ایک گروہ وہ ھوگا جس کا حساب سخت ھوگا اور ان کو جہنم کے درد ناک عذاب میں بہت جلد بھیج دیا جائے گا، یہ گروہ گمراہ اور ضلالت کے سرداروں کا ھوگا، پس یھی لوگ بے اھمیت ھوں گے اور ان پر کوئی توجہ نھیں دی جائے گی کیونکہ انھوں نے خدا وندعالم کے احکام پر کوئی توجہ نھیں کی ھے، یھی لوگ ھمیشہ کے لئے جہنم میں رھیں گے، اور ان کے چہرے جہنم کی آگ میں جلتے رھیں گے اور یھی لوگ جہنم کے دردناک عذاب میں گرفتارر ھیں گے“۔

چوتھا قول: میزان اور موازین( صیغہ جمع) سے مراد انبیاء اور اوصیاء ھیں جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس آیت( نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ ) کی تفسیر کے بارے میں بیان ھوا ھے:

تو امام علیہ السلام نے فرمایا:”الموازین :الا نبیاء والاوصیاء “۔( ۱۸۰ )

”موازین (جمع میزان) سے مراد انبیاء اور اوصیاء الٰھی ھیں“۔

پس انبیاء اور اوصیاء علیھم السلام وہ پیمانے ھیں جن کے ذریعہ حق و عدل کی شناخت ھوگی، اور وہ اعمال کے لئے رجحان ھیں اور یہ رجحان ان کے ایمان کے برابر ھوگا اور جتنا انبیاء و اوصیاء علیھم السلام سے محبت اور ان کی اطاعت و پیروی ھوگی اسی لحاظ سے ھوگا۔

قارئین کرام! میزان کے سلسلے میں( چار) اھم قول اور احادیث تھیں کہ بعض مصادیق کو آپ حضرات نے سمجھ لیا ھے، لیکن میزان کی تفصیل کے بارے میں عقیدہ رکھنا ضروری نھیں ھے بلکہ کسی تفصیل اور حقیقت و ماھیت کے بغیرصرف اجمالی طور پر ”میزان“ کے اوپر عقیدہ رکھنا واجب ھے ۔

۷ ۔ صراط: صراط کے لغوی معنی راستہ یا واضح راستہ کے ھیں،جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ) ( ۱۸۱ )

”تو ھم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ“۔( ۱۸۲ )

صراط بھی آخرت کی ایک منزل ھے، اور صراط سے مقصود جہنم پر بچھایا جانے والا پُل ھے جس پر سے تمام مخلوق کو گزرنے کا حکم دیا جائے گا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ھوگا، اہل جنت بغیر کسی خوف و خطر کے وہاں سے گزر جائیں گے ، لیکن کفار خوف و عقاب میں زیادتی کی وجہ سے گزارے جائیں گے، اور جب وہ جہنم میں اپنی جگہ کے سامنے تک پہنچےں گے تو اسی پُل صراط سے گر پڑےں گے۔( ۱۸۳ )

پُل صراط سے گزرنے کی رفتار، دنیا میں کئے گئے اعمال کی وجہ سے مختلف ھوگی ، اور مومنین بجلی کی طرح بہت تیز اس پُل سے گزرجائیں گے اور اور کفار پہلے ھی قدم سے لڑکھڑا جائیں گے اور جہنم میں گرجائیں گے، حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

الناس یمرون علی الصراط طبقات ،والصراط ادق من الشعرة، واحد من السیف ،فمنهم من یمر مثل البراق، ومنهم من یمرّ مثل عدوالفرس ،ومنهم من یمرحبواً،ومنهم من یمر مشیاً،ومنهم من یمر متعلقاً،قد تاخذ النار منه شیئاً وتترک شیئاً “۔( ۱۸۴ )

”پُل صراط سے گزرنے والوں کی قسمیں ھوں گی، پُل صراط بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ھے، پس بعض لوگ اس پر سے بجلی کی طرح گزر جائیں گے، ان میں سے کچھ لوگ گھوڑے کی چال کی طرح اور کچھ لوگ رینگتے ھوئے گزریں گے اور کچھ لوگ آہستہ گزریں گے،اور کچھ لوگ ھوں گے جو صراط کو پکڑے ھوئے چلیں گے جب کہ ان کے پیر ادھر ادھر ڈگمگاتے ھوں گے، جہنم کی آگ ان میں سے کچھ کو اپنے اندر کھینچ لے گی اور کچھ کو چھوڑ دے گی“۔

ایک قول یہ ھے کہ پُل صراط بھی دنیا کے پُلوں کی طرح ھے جو شخص اس دنیا میں صراط مستقیم پر قائم رھااس کے لئے پُل صراط سے گزرنا آسان ھے اور وہ نجات پاجائے گا، لیکن جو شخص دنیا میں صراط مستقیم پر نھیں چلا او راپنے کو گناھوں او رمعصیتوں سے سنگین کرلیا تو ایسا شخص پہلے قدم پر ھی ڈگمگاجائے گا اور (جہنم میں گرپڑے گا)( ۱۸۵ )

حضرت امام صادق علیہ السلام پُل صراط کے معنی بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

هو الطریق الی معرفة الله عز وجل ،وهما صراطان: صراط فی الدنیا ،و صراط فی آلاخرة، واما الصراط الذی فی الدنیا فهو الامام المفترض الطاعة ،من عرفه فی الدنیا و اقتدی بهداه ،مر علی الصراط الذی هو جسر جهنم فی الاخرة ،ومن لم یعرفه فی الدنیا زلت قدمه عن الصراط فی آلاخرة ، فتردی فی نار جهنم “۔( ۱۸۶ )

”یہ خدا کی معرفت کا راستہ ھے ، اور وہ دو صراط ھیں ، ایک صراط دنیا میں اور ایک آخرت میں، لیکن وہ صراط جو دنیا میں ھے وہ امام واجب الاطاعة ھے، جس نے دنیا میں اس کو پہچان لیا اور اس کی پیروی کی تو ایسا شخص اس پُل صراط سے گزرجائے گا جو جہنم کے اوپر واقع ھوگا، لیکن جو شخص اس دنیا میں (امام کو )نہ پہچانے تو اس کے قدم پُل صراط پر لڑکھڑا جائیں گے اور وہ جہنم میں گرجائے گا“۔

اسی مطلب پر آنحضرت (ص)کی یہ حدیث (بھی) دلالت کرتی ھے:

اذ اکان یوم القیامة ،ونصب الصراط علی شفیر جهنم ،لم یجز الا من معه کتاب علی بن ابی طالب “۔( ۱۸۷ )

”جب روز قیامت جہنم کے اوپر پُل بچھایا جائے گا، تو اس سے کوئی نھیں گزر سکتا مگر جس کے پاس (حضرت)علی بن ابی طالب کا خط ھوگا“۔

قارئین کرام! ائمہ معصومین علیھم السلام کا راستہ وہ واضح راستہ ھے جس کو ان کی محبت میں صراط مستقیم اور اعتدال سے تعبیر کیا گیا ھے ، جس میں نہ افراط ھو او رنہ تفریط، نہ غلو ھو اور نہ ھی تقصیر، کیونکہ خداوندعالم نے ان کی محبت کو ھم پر واجب کیا ھے اور ان پر عقیدہ رکھنا ضروری ھے اور اسی حال میں ھم خداوندعالم سے ملاقات کریں۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں:

الصراط المستقیم هو صراطان :صراط فی الدنیا،وصراط فی آلاخرة،فاما الصراط المستقیم فی الدنیا ،فهو ما قصر عن الغلو،و ارتفع عن التقصیر،و استقام فلم یعدل الی شیء من الباطل،اما الصراط الآ خرة فهو طریق المومنین الی الجنة ،الذی هو مستقیم لا یعدلون عن الجنة الی النار،ولا الی غیر النار سوی الجنة “۔( ۱۸۸ )

”صراط مستقیم دوصراط ھیں : ایک صراط دنیامیں اور ایک صراط آخرت میں، لیکن وہ صراط جو دنیا میں ھے اس میں نہ غلو ھو اور نہ تقصیر (اور کمی) ، انسان اسی پر قائم رھے اور باطل کی طرف نہ مڑے، لیکن آخرت کی صراط ، سے مراد جنت تک جانے کے لئے مومنین کا راستہ ھے، جو سیدھا ھے جو جنت سے جہنم کی طرف نھیں مڑتا اور نہ ھی جہنم سے کسی دوسری طرف مڑتا ھے“۔

پُل صراط کی گھاٹیاں : پل صراط سے گزرنا بہت سخت اور دشوار منزل ھے،کیونکہ اس میں بہت خطرناک گھاٹیاں ھوں گی جن سے ہر انسان کو گزرنا ھوگا،جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

واعلموا ان مجازکم علی الصراط ،ومزالق دحضه ،و اهاویل زلله، وتارات اهواله “۔( ۱۸۹ )

”یاد رکھوا! تمہاری گذرگاہ صراط اور اس کی ہلاکت خیز لغزشیں ھیں، تمھیں ان لغزشتوں کے ھولناک مراحل اور طرح طرح کی خطرناک منازل سے گذرنا ھے“۔

شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ھیں: ” پُل صراط پر گھاٹیاںھوں گی جو اوامر و نواھی کے نام پر ھوں گی، جیسے نماز، زکوٰة، صلہ رحم، امانت اورولایت، لہٰذا جس شخص نے ان چیزوں میںسے کسی میں بھی تقصیر کی ھوگی تو وہ شخص اس گھاٹی میں گِھر جائے گا ، اور وہاں پر حق خداوندی کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر وہاں سے ان اعمال صالحہ کے ذریعہ جن کو پہلے سے بھیجا گیا ھے یا رحمت خدا کے ذریعہ وہاں سے گزرکر دوسری گھاٹیتک پہنچ جائے گا، اسی طرح تمام گھاٹیوں سے گذرنا پڑے گا، جب ان تمام سے صحیح و سالم گذرجائے گا تو ”دار بقاء“ (بہشت) تک پہنچ جائے گا اور اس کوھمیشہ کے لئے زندگی مل جائے گی اور ایسی سعادت وخوشبختی نصیب ھوگی جس میں شقاوت کا ذرا بھی شائبہ نہ ھوگا، لیکن اگر وہ ان گھاٹیوںسے نہ گذرپایا تو اس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے اور وہ نارِجہنم میں گرپڑے گا“۔( ۱۹۰ )

اسی طرح شیخ مفید علیہ الرحمہ پل صراط کی گھاٹیوںکے بارے میں فرماتے ھیں:عقبات (یعنی گھاٹیوں) سے مراد واجب اعمال ھیں جن کے بارے میں سوال ھوگا، اور ان کی تائید ضروری ھے، اور ان گھاٹیوںسے مراد پہاڑ نھیں ھیں جن سے گزرنا پڑے گا بلکہ یہ وھی اعمال ھےں جو گھاٹی کی طرح دکھائی دیں گے، لیکن ان کو یہ صفت دی گئی ھے چونکہ اگر انسان نے خدا کی اطاعت میں تقصیر کی ھو تو اس کو وہ گھاٹیوں کی طرح دکھائی دےں گی جن سے نکلنا اور گزرنا مشکل ھوتا ھے، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

( فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ#وَمَا اٴَدْرَاکَ ماَ الْعَقَبَةُ #فَکُّ رَقَبَةٍ ) ( ۱۹۱ )

”پھر وہ گھاٹی پر سے ھو کر(کیوں)نھیں گزرااور تم کو کیا معلوم کہ گھاٹی کیا ھے،کسی کی گردن کا (غلامی یا قرض سے) چھڑانا“۔

خدا وندعالم نے انسان پر واجب کردہ اعمال کو گھاٹی کا نام دیا ھے کیونکہ یہ بھی گھاٹیوں اور پہاڑوں سے شباہت رکھتے ھیں، اور انسان کو ان کے ادا کرنے میں اسی طرح زحمت ھوتی ھے جس طرح گھاٹیوں پر چڑھنے میں زحمت ھوتی ھے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

ان امامکم عقبة کووداً ومنازل مهولة ،لابد لکم من الممربها، والوقوف علیها،فاما برحمة من الله نجوتم ،واما بهلکة لیس بعد ها انجبار “۔

”بندگان خدا! تمہارے سامنے گھاٹیاں ھیں جس طرح سخت وادی کی منزل ھوتی ھے، جن سے تمھیں گذرنا ھوگا، اور وہاں قیام کرنا ھوگا ، لیکن خدا کی رحمت سے وہاں سے نجات پاجاؤگے ، اوراگر انسان ان میں ہلاک ھوگیا (یعنی ان میں گھرگیا) تو اس کے بعد پھر نجات نھیں پاسکتے“۔

قارئین کرام! یہاں پر امام علیہ السلام کی گھاٹیوں سے مراد انسان کی قیامت کے روز سخت مشکلات ھیں۔( ۱۹۲ )

پانچویں بحث: اہل جنت اور اہل جہنم

روز قیامت کے خوف و حشت اور حساب وکتاب اور میزان و صراط کی منزلوں کو طے کرنے کے بعد انسان کو ایک ھمیشگی جگہ پر پہنچادیا جائے گا اور وہ یا تو جنت کی نعمتوں میں ھوگا یا جہنم کے دردناک عذاب میں۔

اول: جنت کی صفت، اہل جنت اور اس کی نعمتیں

جنت کی صفت: جنت وہ جگہ ھے جس کو خدا کی معرفت حاصل کرنے والے اور اس کی عبادت کرنے والے مومنین ،متقین اور صالحین کے لئے خداوندعالم نے آمادہ کررکھا ھے، اس کی نعمتیں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ھیں اور یہ ھمیشہ باقی رہنے والی جگہ ھے، یھی ”دار البقاء“ اور ”دار السلامة“ ھے جہاں نہ موت ھے اور نہ کوئی پریشانی و مصیبت اور نہ ھی مرض و آفت، اور نہ ھی کوئی غم و غصہ ، نہ ھی کوئی حاجت ھے اور نہ ھی محتاجگی، یہ غنیٰ اور سعادت کا گھر ھے ،یہ عظمت و کرامت کا گھر ھے، یہاں نہ کوئی بیماری ھوگی اور نہ ھی تھکن،یہاں پر اہل بہشت کی خواہش کے مطابق ہر چیز موجود ھوگی، اور وہ یہاں ھمیشہ رھیں گے،اہل بہشت خدا کے ھمسایہ اور اس کے اولیاء اور اس کے دوست اور اہل کرامت ھوں گے۔( ۱۹۳ )

اہل جنت:اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْوَارِثُونَ الَّذِینَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ( ۱۹۴ )

”درحقیقت یھی وہ وارثان جنت ھیں جو فردوس کے وارث بنیں گے اور اس میں ھمیشہ ھمیشہ رہنے والے ھیں “۔

خداوندعالم نے جنت الفردوس میں جانے والوں کے صفات بیان کئے ھیں: وہ ایمان لانے والے اور عمل صالح کرنے والے ھیں، وہ اپنے خدا سے ڈرنے والے ھیں، وہ خداورسول پر ایمان لانے والے ھیں، وہ اللہ و رسول کی اطاعت کرنے والے ھیں، وہ مصیبتوں پر صبر کرنے والے ھیں، وہ نماز قائم کرنے والے ھیں، وہ خدا کے عطا کردہ رزق سے مخفی طور پر اور ظاہر بظاہر خیرات کرنے والے ھیں۔

وہ شہدا اور صدیقین ھیں، وہ اپنے پروردگار کی عظمت کے سامنے ڈرنے والے اور ھوائے نفس پر کنٹرول کرنے والے ھیں، وہ کہتے ھیں کہ ھمارا رب اللہ ھے اور پھر اس پر قائم رہتے ھیں، وہ راہ خدا میں ہجرت کرتے ھیں اس کے بعد قتل ھوجاتے ھیں یا مرجاتے ھیں، وہ خدا کے مخلص بندے ھیں، وہ خدا کی آیات پر ایمان رکھتے ھیںاور مسلمان ھیں، وہ لوگ اپنے مومن و صالح آباء و اجداد، ازواج اور ذریت کے ساتھ جنت میں رھیں گے ، وہ اپنے نفس کی حفاظت کرنے والے ھیں ، وہ از غیب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ھیں اور قلب سلیم رکھتے ھیں۔( ۱۹۵ )

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے درج ذیل آیت:

( وَسِیقَ الَّذِینَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَی الْجَنَّةِ زُمَرًا ) ( ۱۹۶ )

(’ ’اور جو لوگ اپنے پر وردگار سے ڈرتے تھے وہ گروہ بہشت کی طرف (اعزازو اکرام )سے بلائے جائیں گے“۔)کے سلسلے میں اہل جنت کے دنیا میں صفات بیان کرتے ھوئے فرمایا:

قد اُمِن العذاب ،وانقطع العتاب، وزُحزحوا عن النار،واطماٴنّت بهم الدار ،ورضوا المثوی والقرار،الذین کانت اٴعمالهم فی الدنیا زاکیة،واٴعینهم باکیة،وکان لیلهم فی دنیاهم نهاراً،تخشّعا واستغفاراً، وکان نهارهم لیلاً توحّشاً وانقطاعاً،فجعل الله لهم الجنة مآباً،والجزاء ثواباً،وکانوا اٴحق بهاواٴهلها، فی ملک دائم،ونعیم قائم( ۱۹۷ )

”جہاں عذاب سے محفوظ ھوں گے اور عتاب کا سلسلہ ختم ھوچکا ھوگا، جہنم سے الگ کردئے جائیں گے اور اپنے گھر میں اطمینان سے رھیں گے، جہاں اپنی منزل اور اپنے مستقر سے خوش ھوں گے یھی وہ لوگ ھیں جن کے اعمال دنیا میں پاکیزہ تھے اور جن کی آنکھیں خوف خدا سے گریاں تھیں ، جن کی راتیں خشوع اور استغفار کی بنا پر دن جیسی تھیں اور ان کے دن وحشت و گوشہ نشینی کی بنا پر رات جیسے تھے، اللہ نے جنت کو ان کی بازگشت کی منزل بنادیا ھے اور جزائے آخرت کو ان کا ثواب”یہ حقیقتاً اسی انعام کے حقدار اور اہل تھے“، جو ملک دائم او رنعیم ابدی میں رہنے والے ھیں“۔

اہل بہشت کی قسمیں: شیخ مفید علیہ الرحمہ نے جنت میں رہنے والوں کی تین قسمیں بیان کی ھیں:( ۱۹۸ )

۱ ۔ جو لوگ مخلصین خدا ھوں گے، یہ لوگ عذاب خدا سے محفوظ رہتے ھوئے جنت میں داخل ھوںگے۔

۲ ۔ جن لوگوں نے نیک اعمال کے ساتھ بُرے اعمال بھی انجام دئے ھیں ، اور وہ توبہ کرنے کا ارادہ رکھتے ھوں ، لیکن انھیں قبل اس کے کہ وہ توبہ کرتے موت نے آلیا، پس انھیں عذاب کا خوف دنیا و آخرت میں لاحق ھوا یا صرف دنیا میں،اس کے بعد خدا کی بخشش یااس کے عذاب کے بعد یہ لوگ جنت میں داخل ھوں گے۔

۳ ۔ جس شخص نے دنیا میں عمل صالح انجام نھیں دئے ھیں ،لیکن ان پر خدا اپنا فضل و کرم کرے گا، جنت میں ھمیشہ رہنے والے لڑکے (غلمان) ھیں جنھیں خدا نے اہل جنت کے اعمال کے ثواب کے لئے ان کی خدمت اور ان کی حاجتیں پورا کرنے کے لئے مقرر کیاھے، جن کے تصرف میں انھیں کوئی زحمت و مشقت نھیں ھوگی، کیونکہ ان کی خلقت ھی مومنین کی خدمت اور ان کی مدد کرنے کے لئے ھوئی ھوگی۔

جنت کی نعمتیں: جنت میں مختلف قسم کی نعمتیں اور لذتیں ھیں جن سے جنت میں رہنے والے ھمیشہ لذت حاصل کریں گے، جنت میں وہ جو چاھیں گے اورانھیں جس چیز کی خواہش ھوگی وہ موجود ھے، جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:

( فِیهَا مَا تَشْتَهِیهِ الْاٴَنفُسُ وَتَلَذُّ الْاٴَعْیُنُ ) ( ۱۹۹ )

”اور جس سے آنکھیں لذت اٹھائیں (سب موجود ھے)“۔

( لَهُمْ مَا یَشَاوونَ فِیهَا وَلَدَیْنَا مَزِیدٌ ) ( ۲۰۰ )

”اس میں یہ لوگ جو چاھیں گے ان کے لئے حاضر ھے اور ھمارے ہاں تو( اس سے بھی)زیادہ ھے “۔

خداوندعالم نے اپنے متقین بندوں کے لئے جنت میں وہ نعمتیں آمادہ کررکھیں ھیں جن کی الفاظ کے ذریعہ توصیف بیان نھیں کی جاسکتی اور نہ ھی کسی انسان سے اب تک سنا ھے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

( فَلاَتَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اٴُخْفِیَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ اٴَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ( ۲۰۱ )

”ان لوگوں کی کار گذاریوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے ڈھکی چھپی رکھی ھے اس کو تو کوئی جانتاھی نھیں ھے“۔

حدیث قدسی میں بیان هوا هے:”قال الله تعالی :اعددت لعبادی الصالحین ما لاعین رات،ولااذن سمعت،ولاخطر علی قلب بشر “۔( ۲۰۲ )

”خداوندعالم فرماتا ھے: میں نے اپنے صالح بندوں کے لئے وہ چیز آمادہ کر رکھی ھے جس کو کسی آنکھ نے (ابھی تک ) نھیں دیکھا ھے، اور نہ ھی کسی کان سے سنا ھے، اور نہ ھی کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آیا ھے“۔

حسی لذات: اہل جنت کھانے پینے کی چیزوں سے لذت حاصل کریں گے اور وہاں کے مناظر اور حوروں سے لذت حاصل کریں گے، اور جس چیز کی خواہش ھوگی وہ سب ان کے لئے حاضر ھوگا۔( ۲۰۳ )

ھم یہاں پر قرآن مجید میں بیان شدہ بعض لذتوں کو بیان کرتے ھیں:

۱ ۔ کھانے پینے کی چیزیں: اہل جنت کو جنت میں کھانے پینے کی چیزیں بے حساب ملےں گی، اور وہ کبھی ختم نھیں ھوں گی، اور وہ جس طرح کی کھانے پینے کی چیزوں کی خواہش کریں گے وہ سب موجود ھوگی، اپنے مرضی سے چوپھل چاھےں گے مل جائے گا، ان کے سروں پر قریب ترین سایہ ھوگا اور اور میوے بالکل ان کے اختیار میں کردئے جائیں گے۔( ۲۰۴ )

اہل بہشت کے لئے شراب طھور ھوگی، جن سے انھیں سیراب کیا جائے گاجن کے پیالے پر مشک کی مہر لگی ھوگی ،اس سے ان کی عقلیں زائل نہ ھوںگی، اور نہ وہ بے ھودہ باتیں کریں گے، وہاں جام بہت خوبصورت اور دل پذیر ھوں گے، جن پر کافور اور زنجبیل کی خوشبو ھوگی ، جہاں بہت سی نہریں اور چشمے ھوں گے، صاف و شفاف پانی کی نہریں ھوں گی دودھ کی نہریں ھوں گی جس کا ذائقہ کبھی نھیں بدلے گا، شراب کی وہ نہریں ھوں گی جس سے پینے والوں کو مزہ آجائے گا، اور بہترین شہد کی نہریں ھوں گی، کوثر و تسنیم اور سلسبیل ھوں گی، اہل جنت سے کھاجائے گا کہ کھاؤ اور پیئو، ان اعمال کے بدلے میں جو تم انجام دیتے تھے( ۲۰۵ )

۲ ۔ لباس اور حلّے: اہل بہشت کے لئے جنت الفردوس میں بہترین قسم کے نازک کپڑے ھوں گے جیسے حریر اور ریشم، جس میں انھیں سونے چاندی کے کنگن اور موتیوں سے سجائے ھوئے لباس پہنائے جائےں گے۔( ۲۰۶ )

لذت بخش مناظر: اہل بہشت جنت میں نہروں کے کنارے بیٹھے لذت محسوس کریں گے اور ھمیشگی بہترین سایہ میں ھوں گے جہاں پر نہ سورج دکھائی دے گا اور نہ ھی سورج کی گرمی ھوگی، بہتی ھوئی نہروں اور جاری چشموں کو دیکھیں گے ، اور انگور، خرمہ اور انار کے باغات ھوں گے جو پھلوں سے لدے ھوں گے۔( ۲۰۷ )

۴ ۔ جنت کے محلوں اور اس کے وسائل سے محظوظ ھونا:

مومنین اس جنت میں داخل ھوں گے جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ھوگی، اس کے دروازے کھلیں ھوں گے، اور دروازوں پر ملائکہ استقبال کے لئے کھڑے ھوں گے، جنت میں بہت سے درجے ھوں گے جن میں سے بعض بعض پر فوقیت رکھتے ھوں گے دنیا میں جیسے اعمال انجام دئے ھوں گے ویسے ھی درجے ، محل اور مکانوں میں ان کو رکھا جائے گا، ھمیشہ کے لئے عالی وبہترین مسکن ھوں گے جن کے کمرے ایک دوسرے کے اوپربنے ھوں گے،جن کے نیچے نہریں جاری ھوں گے ، اہل بہشت بہترین اور خوبصورت بساط پھیلائے ھوئے بیٹھے ھوں گے،ان کے استبرق و حریر کے استر ھوں گے، بہترین اور اونچے تکیے لگائے ھوں گے، حالانکہ ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے ھوں گے، اور خدام جنت اہل جنت کے گرد سونے اور چاندی کے بڑے بڑے پیالے، ظرف اور لوٹے لے کر طواف کرتے ھوںگے،یعنی ان کی خواہش کے مطابق سب چیزیں مھیا ھوں گی۔( ۲۰۸ )

۵ ۔ھمیشہ رہنے والے نوجوان: جنت میں اہل جنت کی خدمت کے لئے غِلمان (نوجوان لڑکے) ھوں گے جو بہترین حسن و جمال اور خوبصورتی کے مظہر ھوں گے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

( وَیَطُوفُ عَلَیْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَاٴَیْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَنثُورًا ) ( ۲۰۹ )

”اور ان کے سامنے ھمیشہ ایک حالت پر رہنے والے نوجوان لڑکے چکر لگاتے ھوں گے کہ جب تم ان کو دیکھو تو سمجھو کہ بکھرے ھوئے موتی ھیں“۔

۶ ۔ ازواج اور حور عین : اہل جنت کے لئے پاک و پاکیزہ ازواج ”حور عین“ ھوں گی جو خیموں میں تکیہ لگائے بیٹھی ھوں گی، خداوندعالم نے ان کو جوان خلق کیا ھے جو اپنے شوہروں کی منتظر اور چاہنی والی ھوں گی،صرف اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ھوں گی، عمر میں اپنے شوہر کے برابر ھوں گی، وہ باکرہ او ردوشیزہ ھوں گی جن کو اس سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہ لگایا ھوگا، اپنے جمال میں جادو رکھتی ھوں گی گویا وہ یاقوت اور مرجان ھوں گی، یا لولو اور سفید مکنون کی طرح ھوں گی۔( ۲۱۰ )

روحی لذتیں: ان سب کے علاوہ اہل بہشت جنت میں روحانی یا عقلی نعمتوں سے محظوظ ھوں گے،جو خدا کی رضوان اوراس کی رحمت و مغفرت ھوگی اور وہ ملائکہ اور حوروں کی ھمراھی میں خوشی و مسرت کا احساس کریں گے، اور ان کی یہ سعادت و خوشبختی ھمیشگی ھوگی، اور وہ وہاں پر عذاب ، حزن و ملال اور ہر طرح کے لغو و بے ھودہ چیزوں سے امان میں ھوں گے۔( ۲۱۱ )

دوم: جہنم کے صفات ،اہل جہنم اور اس کے صفات

جہنم کے صفات: جہنم کفار اور گناہگاروں کے لئے انتقام اور خوف و وحشت کی جگہ ھے قرآن کریم نے اس کی ایک قید کی طرح توصیف کی ھے جو کافروں پر محیط اور ان کو گھیرے ھوئے ھے، اس میں پردے ھوں گے جو ان کو گھیرے ھوئے ھوں گے، وہ آگ لمبے لمبے ستون کے ساتھ ان کو گھیرے ھوگی،وہاں پر کسی طرح کا سایہ نہ ھوگا، اور وہ عذاب کی شدت میں گرفتار ھوں گے، اس میں آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ھوں گے، اس کی شدت کبھی ختم نہ ھوگی، اور جب آگ خاموش ھونا چاھے گی تو اس میں اور اضافہ ھوجائے گا، دردناک عذاب کے فرشتے غیض و غضب کے ساتھ ان پر عذاب کرتے رھیں گے، یہ فرشتے امر خدا کی معصیت نھیں کریں گے اور جو انھیں حکم دیا جائے گا اس کو انجام دیں گے، جہنم کے سات دروازے ھوں گے جس سے ایک گروہ داخل ھوگا۔( ۲۱۲ )

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

ان جهنم لها سبعة ابواب اطباق بعضها فوق بعضفاسفلها جهنم، وفوقهالظی،و فوقها الحطمة،و فوقها سقر، وفوقها الجحیم ،و فوقها السعیر،و فوقها الهاویه“و فی روایة :”اسفلها الهاویة،واعلاها جهنم “۔( ۲۱۳ )

”جہنم کے سات دروازے ھیں، اس کے چند طبقہ ھیں جس کا سب سے نیچے کا طبقہ جہنم ھے، اس کے اوپر ”لظی“ ھے اس کے اوپر ”حطمہ“ ھے ”اس کے اوپر ”سقر“ ھے، اس کے اوپر ”جحیم“ ھے اس کے اوپر ”سعیر“ ھے اور اس کے اوپر ”ہاویہ“ ھے“

ایک روایت میں اس طرح آیا ھے کہ سب سے نیچے والے حصہ کا نام ”ہاویہ“ ھے اور سب سے اوپر والے طبقہ کا نام ”جہنم“ ھے“۔

نیز حضرت جہنم کی وصف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

فاحذروا ناراً قعرها بعید،و حرها شدید،و عذابها جدید ،دارلیس فیها رحمة،ولا تسمع فیها دعوة ، ولا تفرج فیها کربة “۔( ۲۱۴ )

” اس جہنم سے ڈرو جس کی گہرائی بہت دور تک ھے اور اس کی گرمی بے حد شدید ھے اور اس کا عذاب بھی برابر تازہ ھوتا رھے گا، وہ ایساگھر ھے جہاں نہ رحمت کا گذر ھے اور نہ وہاں کوئی فریاد سنی جاتی ھے، اور نہ کسی رنج و غم کا کوئی امکان ھے۔۔۔“۔

اہل نار:

( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اٴَصْبَرَهُمْ عَلَی النَّارِ ) ( ۲۱۵ )

”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے گمراھی مول لی اور بخشش (خدا)کے بدلے عذاب ،پس وہ لوگ دوزخ کی آگ کوکیونکر برداشت کریں گے“۔

قرآن کریم کی آیات سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ خداوندعالم نے جہنم کو کفار،راہ خدا کو مسدود کرنے والے اور کفر کی حالت میں مرنے والوں کے لئے آمادہ کررکھا ھے، نیز ان مشرکین کے لئے جنھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا ھے، اور منافقین، متکبرین، ظالمین، طغیان کرنے والے، خدا و رسول کی تکذیب کرنے والے اور خدا و رسول کی نافرمانی کرنے والے، اور حدود خدا سے تجاوز کرنے والے، اس کی عبادت سے منھ موڑنے والے، اور خدا کے راستہ کو مسدود کرنے والے، ذکر خدا سے اعراض کرنے والے،اس کے حضور میں پیش نہ ھونے کی امیدنہ رکھنے والے، روز قیامت کا انکار کرنے والے، دنیاوی زندگی اس کی زرق و برق اور اس پر اطمینان کرنے والے، اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے والے، برائیوں اورخطاؤں سے بھرے ھوئے، دین خدا سے پھرنے والے اور کفر پر مرنے والے، مال حرام کھانے والے، یا یتیموں کا مال کھانے والے، کسی مرد مومن کو ناحق قتل کرنے والے، سونے چاندی (اور مال دو لت) جمع کرکے ان کو راہ خدا میں خرچ نہ کرنے والے، ظلم و ستم کے بانی اور سردار اور نماز کو ترک کرنے والوں کے لئے جہنم تیار کررکھا ھے۔( ۲۱۶ )

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

انی سمعت رسول الله یقول:یوتی یوم القیامه بالامام الجائر ولیس معه نصیر ولا عاذر فیلقی فی نار جهنم فیدورفیها کما تدورالرحی ،ثم یربط فی قعرها “۔( ۲۱۷ )

”میں نے رسول اکرم (ص)کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ روز قیامت ظالم رہنما کو اس عالَم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مددگار ھوگا اور نہ عذر خواھی کرنے والا، اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکّی ، اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑدیا جائے گا“۔

اسی طرح امام علیہ السلام اپنے اصحاب کو وعظ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

تعاهدوا امرالصلاة،وحافظوا علیها،واستکثروامنها،وتقربوا بها ، فانها کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً،الا تسمعون الی جواب اهل النار حین سئلوا :( ما سلککم فی سقر قالوا لم نک من المصلین ) ؟ ! ‘ ‘۔( ۲۱۸ )

”دیکھو ! نماز کی پابندی اور اس کی نگہداشت کرو، زیادہ سے زیادہ نمازیں پڑھو اور اسے تقرب الٰھی کا ذریعہ قرار دو، کہ یہ صاحبان ایمان کے لئے وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ھے، کیا تم نے اہل جہنم کا جواب نھیں سنا ھے کہ جب ان سے سوال کیا جائے گا کہ تمھیں کس چیز نے جہنم تک پھونچادیا ھے تو کھیں گے: ”ھم نمازی نھیں تھے“۔

جہنم میں ھمیشہ رہنے والے: جہنم میں ھمیشہ ، صرف کفار و مشرکین رھیں گے، لیکن اہل توحید کے گناہگار لوگ جہنم سے رھاھوجائیں گے یا تو رحمت خدا ان کے شامل حال ھوجائے گی یا اس کی شفاعت ھوگی۔( ۲۱۹ )

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں:

لا یخلد فی النار الا اهل الکفر والجحود ،واهل الضلال والشرک “۔( ۲۲۰ )

”جہنم میں ھمیشہ رہنے والے صرف کفار و ملحد اور اہل شرک اور اہل گمراھی ھوں گے“۔

عذاب جہنم: اہل جہنم کے لئے مختلف روحی اور حسی عذاب ھوگا جس کو خداوندعالم نے عذاب مھین، عذاب غلیظ، عذاب الیم، عذاب عظیم اور عذاب شدید سے توصیف کیا ھے، جس وقت مجرمین کو گروہ درگروہ جہنم میں لے جایا جائے گا، تو عذاب کے فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور ان کو جہنم میں ھمیشہ کے لئے ڈال دیا جائے گا، واقعاً متکبرین کا بُرا ٹھکانا ھے،جہنم کی آگ دور ھی سے ان کے انتظار میں ھوگی، جب ان کو دیکھے گی تو شیر کی طرح اپنا منھ کھولے ھوئے غیظ و غضب کا اظہار کرے گی جس طرح شیر اپنے شکار پر ٹوٹ پڑتا ھے۔

ان کے لئے دروازے کھول دئے جائیں گے، ان کو شیاطین اور وہ جس کی عبادت کیا کرتے تھے ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، پس یہ لوگ ایک دوسرے کے لئے ایندھن کا کام کرےں گے، اور جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو اس کی چیخ سنیں گے اور وہ جوش مارھاھوگا،بلکہ قریب ھوگا کہ جوش کی وجہ سے پھٹ پڑے، اور جہنم کی آگ بھڑک اٹھے گی، اس کے شعلے بھڑک اٹھےں گے اور شرارہ تند ھوجائیں گے اور اپنی شدت کے ساتھ جہنمیوں کو اپنے اندر سمیٹ لے گی، ان کا کھانا ، پینا اور لباس بھی جہنم ھوگا ، جہنم ھی ان کا گھوارہ اور یھی ان کی چھت ھوگی ، اور اوڑھنا بچھونا بھی یھی جہنم ھوگا،وہ طبقات جہنم میں چیختے چلاتے ھوں گے، لیکن عذاب ان کو نیچے اور اوپر سے گھیرے ھوگا، جہنم کے مختلف طبقات میں تارکول کے کپڑے ھوں گے، ان کی پیشانی پر ذلت کے نشان ھوں گے ،ان کے چہرے جل رھے ھوں اور اور وہ آگ میں منقلب ھورھے ھوں گے، ان کے چہرے کالے پڑجائیں گے ان کے سر سے پیپ نکل رھی ھوگی۔

وہ ھمیشہ اسی دردناک عذاب میں رھیں گے، ہر طرف سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن نھیں مریں گے، اور نہ ھی ان کے مرنے کی تمنا پوری ھوگی تاکہ وہ مرجائیں ، نہ ھی ان کے عذاب میں کچھ کمی آئے گی اور نہ ھی ان کو مہلت دی جائے گی، جب ان کی جِلد (کھال) جل جائے تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا ھوجائے گی تاکہ ان کے عذاب میں ایک تازگی پیدا ھوجائے، اور جب وہ اس شدت عذاب سے گھبراکر بھاگنا چاھیں گے تو ان کو واپس لوٹا دیا جائے گا، اور ان سے کھاجائے گا: بھڑکتی ھوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھو۔

یہ سب ایک طرف ، دوسری طرف ان کو ہتھکڑیوں، بیڑیوں اور طوق میں جکڑدیا جائے گا، ان کو تنگ جگہ میں رکھا جائے گا،کھولتا ھوا پانی ان کے اوپر ڈال دیا جائے گا،پھر پیشانی اور پیروں سے پکڑلئے جائیں گے، اس کے بعد آگ بھڑک اٹھے گی،لوھے کے درّوں سے پیشانی پھٹ جائے گی، ان کے سروں پر گرما گرم پانی ڈالا جائے گاجس سے ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ھے اور ان کی جلدیں سب گل جائیں گی۔

اور اگر وہ لوگ پیاس کی شدت سے استغاثہ بلند کریں گے تو ان کو جواب میں پیپ دار پانی پلایا جائے گا جس کے بعد سے پھر استغاثہ بلند نھیں کریں گے، یا گرما گرم پانی پلایا جائے گا جس سے ان کے اندر کا سب کچھ گل جائے گا، یا پگھلتے ھوئے تانبے کی طرح کھولتے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی ، ان کو نہ ٹھنڈا پانی پلایا جائے گا اور نہ ھی شربت ،سوائے گرما گرم کھولتے پانی اور پیپ کے، لیکن وہ اس کو پیاسے اونٹ کی طرح پی جائیں گے۔

اور اگر بھوک کی شدت سے کھانا طلب کرےں گے تو ان کو درخت زقوم کا دھوون دیا جائے گا، یہ ایسا درخت ھے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ھے اس کے پھل ایسے ھوں گے جیسے شیاطین کے سر، لیکن اس کے باوجود بھی یہ لوگ اسی کو کھائیں گے ، اسی سے اپنا پیٹ بھریں گے اور اسی ماء حمیم کو پئیں گے۔

وہاں پر خوف و وحشت ھوگا اور طبقات جہنم میں چیختے چلاتے رھیں گے ، ان کے اوپر کھولتا ھوا پانی ڈالا جائے گا،ان کے نالہ و فریاد اور چیخنے چلانے کی آوازیں بلند ھوں گی لیکن (اس دن) ان کی کوئی بات نھیں سنی جائے گی۔( ۲۲۱ )

حضرت علی علیہ السلام جہنم کے عذاب کے بارے میں فرماتے ھیں:

اما اهل المعصیة فانزلهم شر دار ،وغل الایدی الی الاٴعناق و قرن النواصی بالاقدام، والبسهم سرابیل القطران ،و مقطعات النیران ،فی عذاب قد اشتد حره و باب قد اطبق علی اهله فی نار لها کلب ولجب، ولهب ساطع ،و قصیف هائل ،لا یظعن مقیمها،ولا یفادی اسیرها ،ولا تفصم کبولها ،لا مدة للدار فتفنی ولا اجل للقوم فیقضی “۔( ۲۲۲ )

”لیکن اہل معصیت کے لئے بدترین منزل ھوگی جہاں ہاتھ گردن سے بندھے

ھوں گے اور پیشانیوں کو پیروں سے جوڑدیا جائے گا، تارکول اور آگ کے تراشیدہ لباس پہنائے جائیں گے اس عذاب میں جس کی گرمی شدید ھوگی اور جس کے دروازے بند ھوں گے اور اس جہنم میں جس میں شرارہ بھی ھوں گے اور شور و غوغا بھی، بڑھکتے ھوئے شعلے بھی ھوں گے اور ھولناک چیخیں بھی، نہ یہاں کے رہنے والے کوچ کریں گے اور نہ ھی یہاں کے قیدیوں سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ یہاں کی بیڑیاں جدا ھوسکتی ھیں نہ اس گھر کی کوئی مدت ھے جو تمام ھوجائے اور نہ اس قوم کی کوئی اجل ھے جو ختم کردی جائے۔

روحانی عذاب: اس روحانی عذاب کی مختلف صورتیں ھیں، جن میں سے خسارہ، ندامت،خوف و وحشت کا احساس ھوگا، جنت اور اس کی نعمتوں سے محرومی کی حسرت ھوگی، اور لقاء اللہ اور اس کی رضا کے فوت ھونے کا افسوس ھوگا، رحمت و مغفرت کے بدلے ناامیدی اور مایوسی ھوگی، اپنے کو ذلت و ندامت ھوگی جس وقت ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور ذلت کی وجہ سے نظریں جھکائے ھوں گے( ۲۲۳ )

جس وقت ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور عذاب جہنم کو دیکھیں گے تو حسرت و یاس اور ندامت سے ان کی سانسیں رک جائیں گی اس وقت وہ اپنے سرداروں اور رہبروں سے برائت کا اظہار کرےں گے، اور ان کی زبان پر ”اے کاش اے کاش“ ھوگا او رکھیں گے:

( یَالَیْتَنَا اٴَطَعْنَا اللهَ وَاٴَطَعْنَا الرَّسُول ) ( ۲۲۴ )

”اے کاش ھم نے خدا کی اطاعت کی ھوتی اور رسول کا کہنا مانا ھوتا“۔

ان میں سے ہر ایک کھے گا:

( یاَلَیْتَنِی قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی ) ( ۲۲۵ )

”کاش میں نے اپنی اس زندگی کے واسطے کچھ پہلے بھیجا ھوتا“۔

( یَاوَیْلَتیٰ لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ) ( ۲۲۶ )

”ہائے افسوس کاش میں فلاں شخص کو دوست نہ بناتا بے شک یقینا اس نے ھمارے پاس نصیحت آنے کے بعد مجھے بہکایا“۔

بے شک یہ لوگ ندامت کے عالم میں بڑی پریشانی کا سامنا کریں گے۔

دنیا میں لوٹنے کی حسرت کرتے ھوئے چلائیں گے کہ ھمیں دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ ھم نیک اعمال انجام دیں اور مومنین میں سے ھوجائیں اور پکاریں اور چلائیں گے:

( فَلَوْ اٴَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) ( ۲۲۷ )

”تو کاش ھمیں اب دنیا میں دوبارہ جانے کا موقع ملتا تو ھم (ضرور)ایمان داروں میںسے ھوتے “۔

( رَبَّنَا اٴَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَل ) ( ۲۲۸ )

”پروردگار ااب ھم کو (یہاں سے)نکال دے تو جو (برے کام)ھم کیا کرتے تھے اسے چھوڑ کر نیک کام کریں گے“۔

لیکن ان کی یہ آرزوئیں سراب ھوجائیں گی کیونکہ آخرت میں اطاعت ، توبہ اور اظہار پشیمانی کا کوئی فائدہ نھیں ھوگا، اگر وہ صادق ھوتے تو دنیا میں جہاں اعمال کی جگہ تھی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے:

( وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ( ۲۲۹ )

”اور (ھم جانتے ھیں کہ) یہ لوگ (دنیا میں)لوٹا بھی دیئے جائیں تو بھی جس چیز کی مناھی کی گئی ھے اسے کریںگے(اور ضرور کریں گے)اور اس میں شک نھیں کہ یہ لوگ ضرورجھوٹے ھیں “۔

لیکن اس موقع پر جواب دیا جائے گا:

( فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُون ) ( ۲۳۰ )

”ہاں(بالکل سچ) ھے تب خدا فرمائے گا چونکہ(دنیا میں) اس سے انکار کرتے تھے“۔

اور ان سے کھاجائے گا:

( اخْسَئُوا فِیهَا وَلاَتُکَلِّمُونِ ) ( ۲۳۱ )

”خدا فرمائے گا دور ھو جاواسی میں (تم کورہنا ھوگا)اور (بس)مجھ سے بات نہ کرو“۔

اس وقت ان کے دل میں حسرت رسوائی میں اضافہ ھوجائے گا اور رحمت و مغفرت سے محرومی اور ناامیدی ھوگی پس اس وقت جہنم میں مذمت، ملامت اور مردود کی حالت میں داخل ھوں گے۔

اور جیسے ھی ملائکہ ان کو جہنم کی طرف لے کر چلیں گے تو ان کے دل میں خوف و وحشت طاری ھوگا، اور اپنے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

ارشاد خداوندی ھوتا ھے۔

( کُلَّمَا اٴُلْقِیَ فِیهَا فَوْجٌ سَاٴَلَهُمْ خَزَنَتُهَا اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ نَذِیرٌ ) ( ۲۳۲ )

”جب کسی گروہ کو اس میں ڈالا جائے گا تو اس کے داروغہ ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نھیں آیا تھا؟“۔

اور وہ اعتراف و اقرار کریں گے:

( بَلَی قَدْ جَاءَ نَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ إِنْ اٴَنْتُمْ إِلاَّ فِی ضَلاَلٍ کَبِیرٍ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اٴَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی اٴَصْحَابِ السَّعِیرِ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِاٴَصْحَابِ السَّعِیرِ ) ( ۲۳۳ )

”ہاں ھمارے پاس ڈرانے والا تو ضرور آیا تھامگر ھم نے اس کو جھٹلادیا اور کھاخدا نے تو کچھ نازل نھیں کیا تم تو بڑی (گہرائی کے ساتھ)گمراھی میں(پڑے)ھواور (یہ بھی)کھیں گے کہ اگر(ان کی بات)سنتے یا سمجھتے تب تو (آج )دوزخیوں میں نہ ھوتے ۔غرض وہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیں گے تو(تب بھی) دوزخیوں کو خدا کی رحمت سے دوری ھے“۔

اور جس وقت وہ یاس و ناامید میں گھر جائیں گے تو داروغہ جہنم سے کھیں گے:

( یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ ) فیقول لهم ( إِنَّکُمْ مَاکِثُونَ ) ( ۲۳۴ )

”اے مالک اگر تمہارا پروردگار ھمیں موت دیدے تو بہت اچھا ھو، لیکن جواب ملے گا کہ تم اب یھیں رہنے والے ھو“۔

خداوندعالم ھم سب کو روز قیامت کے خوف و وحشت اور آتش جہنم کے شر سے محفوظ رکھے، اور اپنی رحمت واسعہ کے دائرہ میں لے لے اور ھمارے نبی اکرم اور آپ کی عترت اطہار علیھم السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔

(آمین یا رب العالمین، بحق محمد و آله الطاهرین )

.....................................تمام شد.................................

____________________

(۱) من لا یحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق،ج۱ص۸۰/۳۶۲۔دارالکتب الاسلامیہ ۔تہران ۔

(۲) کنزل العمال / متقی ہندی ۱۵:۵۴۸/۴۲۱۲۳۔

(۳) غررالحکم ۳ الامدی ۱:۲۳/ ۳۷۱۔

(۴) سورہ غافر آیت۶۸۔

(۵) سورہ سجدة آیت۱۱۔

(۶) سورہ انعام آیت ۶۱۔

(۷) سورہ زمر آیت ۴۲۔

(۸) من لا یحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق۱:۸۲/۳۷۱۔

(۹) سورہ جمعہ آیت۸۔

(۱۰) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۴۱۔خطبہ نمبر (۲۲۱)۔

(۱۱) خصال شیخ صدوق ، ص ۱۱۹، ۱۰۸، بحار الانوار ج ۶ص ۱۵۹ حدیث ۱۹۔

(۱۲) سورہ نحل آیت۳۲۔

(۱۳) سورہ انفال آیت ۵۰۔۵۱۔ اسی طرح درج ذیل آیات کو بھی ملاحظہ فرمائیں:

الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمْ الْمَلاَئِکَةُ ظَالِمِی اٴَنفُسِهِمْ فَاٴَلْقَوْا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ بَلَی إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ فَادْخُلُوا اٴَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِینَ فِیهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ (سورہ نحل آیت۲۸۔۲۹)

”یہ وہ لوگ ھیں کہ جب فرشتے ان کی روح قبض کرنے لگتے ھیں (اور یہ لوگ کفر کر کرکے)آپ اپنے اوپر ستم ڈھاتے رھے تو اطاعت پر آمادہ نظر آتے ھیں اور (کہتے ھیں کہ)ھم تو (اپنے خیال میں )کوئی برائی نھیں کرتے تھے (تو فرشتے کہتے ھیں)ہاں جو کچھ تمہاری کر تو تیں تھیں خدا اس سے خوب اچھی طرح واقف ھے (اچھا تو لو) جہنم کے دروازوں میں داخل ھو جاواور اس میں ھمیشہ رھوگے غرض تکبر کرنے والوں کا بھی کیا برا ٹھکانا ھے“۔

ذَلِکَ بِاٴَنَّهُمْ اتَّبَعُوا مَا اٴَسْخَطَ اللهَ وَکَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمَالَهُمْ (سورہ محمد آیت۲۸)

”یہ اس سبب سے کہ جس چیز سے خدا ناخوش ھوتا ھے اس کی تو یہ پیروی کرتے ھیں اور جس میں خدا کی خوشی ھے اس سے بیزار ھیں تو خدا نے ان کی کارستانیوں کو اکارت کر دیا “۔

(۱۴) سورہ ق آیت ۱۹۔

(۱۵) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۱۳۔خطبہ نمبر (۸۳)۔ترجمہ علامہ جوادی ص ۱۴۵۔

(۱۶) کنزل العمال ،متقی ہندی ۱۵:۵۶۹/۴۲۲۰۸۔

(۱۷) سورہ واقعہ آیت ۸۳۔۸۷۔

(۱۸) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۶۰ ا۔خطبہ نمبر۱۰۹۔(ترجمہ علامہ جوادی، ص ۲۱۵)

(۱۹) امالی شیخ طوسی :۴۳۲/۹۶۷۔

(۲۰) من لایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق۱:۸۱/۳۶۶،الکافی ۳ الکلینی ۳:۱۳۴/۱۱۔

(۲۱) رجوع فرمائیں :تصحیح الاعتقاد / الشیخ المفید :۹۵۔

(۲۲) معانی الاخبار ،شیخ صدوق،ج۱،ص۲۸۷،علل الشرائع ،شیخ صدوق۱:۲۹۸۔باب (۲۳۵)/ ح۲، العقائد ،شیخ صدوق:۵۴۔

(۲۳) سورہ ق آیت ۲۲۔

(۲۴) مسند احمد ۲:۵۱۔دارالفکر ،بیروت ،احیاء التراث العلوم /الغزالی ۵:۳۱۶۔دار الوعی ۔حلب ،کنزل العمال ۳ المتقہ الہندی ۱۵:۶۴۱/ ۴۲۵۲۹۔ مسند احمد ۲:۵۱۔دارالفکر ،بیروت ،احیاء التراث العلوم /الغزالی ۵:۳۱۶۔دار الوعی ۔حلب ،کنزل العمال ۳ المتقہ الہندی ۱۵:۶۴۱/ ۴۲۵۲۹۔

(۲۵) الامالی / المفید :۲۶۳۔۲۶۴۔

(۲۶) من الایحضرہ الفقیہ ،شیخ صدوق۱:۸۲۔۸۳/۳۷۳،الکافی الکلینی ۳:۲۳۱/۱، یہ اس روایت اور اس کے مثل روایت کے لحاظ سے ھے، اس سلسلہ میں میں دوسری بحثیں بھی ھیں کہ جن کو ھم اختصار کی وجہ سے ذکر نھیں کرسکتے۔

(۲۷) مزید احادیث کے سلسلہ میں رجوع فرمائیں: الکافی / الکلینی۳:۱۲۸۔۱۳۵۔باب مایعاین المومن والکافر ،بحارالانوار /علامہ مجلسی۶:۱۷۳۔۲۰۲باب(۷)۔

(۲۸) اوائل المقالا ت / الشیخ المفید :۷۳۔۷۴۔نشر موتمر الشخ المفید ۔قم

(۲۹) سورہ نساء آیت۱۵۹۔

(۳۰) شرح ابن ابی الحدید ۱:۲۹۹۔۳۰۰(خطبہ نمبر ۲۰)۔

(۳۱) لسان العرب / ابن منظور ۔برزخ ،۳:۸۔

(۳۲) تفسیر المیزان ۳ طباطبائی ۱:۳۴۹۔

(۳۳) سورہ مومنون آیت۱۰۰۔

(۳۴) تفسیرقمی ،ج۱،ص۱۹،بحارالانوار ۳ علامہ مجلسی،ج۶،ص۲۱۸/۱۲۔

”برزخ سے مراد قبر ھے جس میں انسان کو قیامت تک کے لئے ثواب یا عذاب دیا جائے گا“۔

(۳۵) امالی شیخ طوسی :۲۸/۳۱،بحارالانوار ۶:۲۱۸/۱۳۔

(۳۶) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۴۰ /خطبہ نمبر (۲۲۱)۔

(۳۷) اصول کافی /اکلینی۳:۲۳۶/۶۔

(۳۸) علل الشرائع :۳۰۹/۴امالی الصدوق :۴۶۸/۶۲۳،امالی شیخ طوسی :۴۲۷/۹۵۵۔

(۳۹) ثواب الاعمال ،شیخ صدوق:۱۹۷۔منشورات الرضی ۔قم ،علل الشرائع ،شیخ صدوق:۳۰۹/۳،امالی الصدوق :۶۳۲/۸۴۵۔

(۴۰) اصول کافی /الکلینی۳:۲۳۲/۱و۲۳۶/۷و ۲۳۸/۱۰و ۲۳۹/۱۲،الاعتقاد ات ،شیخ صدوق:۵۸ ،تصحیح الاعتقاد / المفید :۹۹۔۱۰۰،شرح الموقف / الجرجانی ۸:۳۱۷۔۳۲۰۔

(۴۱) امالی شیخ صدوق:۳۷۰/۴۶۴۔

(۴۲) کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۲،المسائل السرویہ /المفید :۶۲۔مسالة (۵)،الاربعین ۳ ،البہائی: ۲۸۳ و۳۸۷،حق الیقین ۳ عبد اللہ شبر ۲:۶۸۔

(۴۳) سورہ غافر آیت ۴۵۔۴۶۔

(۴۴) تفسیر المیزان / علامہ طباطبائی ۱۷:۳۳۵۔

(۴۵) مجمع البیان ۳ الطبرسی ۸:۸۱۸۔

(۴۶) سورہ طہ آیت۱۲۴۔

(۴۷) ا ربعین ، شیخ بہائی :۴۸۸۔

(۴۸) شرح ابن ابی الحدید ۶:۶۹۔داراحیاء الکتب العربیہ ۔مصر ،امالی شیخ طوسی :۲۸/۳۱۔

(۴۹) اصول کافی /الکلینی ۳:۲۳۱۔۲۳۹،۲۴۴۔۲۴۵و۲۵۳/۱۰،المحاسن / البرقی :۱۷۴۔۱۷۸۔ دارالکتب الاسلامیہ ۔قم ،بحارالانوار / مجلسی ۶:۲۰۲باب(۸)،سنن النسائی ۴:۹۷۔۱۰۸۔کتاب الجنائز ۔ دارالکتاب العربی ۔بیروت ،کنزل العمال/ المتقی الہندی ۱۵:۶۳۸و غیرھا۔

(۵۰) سنن الترمذی ۴:۶۴۰/۴۶۰۔کتاب صفة القیامة ۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت ،حیاء علوم الدین/ الغزالی ۵:۳۱۶۔

(۵۱) امالی شیخ طوسی :۲۸/۳۱۔

(۵۲) سورہ مومنون آیت۱۰۰۔

(۵۳) الخصال ،شیخ صدوق:۱۲۰/۱۰۸۔

(۵۴) درالمنثور ۳ ا،سیوطی ،ج۵،ص۲۸۔

(۵۵) ا صول کافی ،شیخ کلینی،ج ۳ص۲۳۴/۳۔

(۵۶) ا صول کافی /الکلینی ۳:۲۳۹/۱۲۔

(۵۷) اربعین ،شیخ بہائی :۴۹۲۔

(۵۸) اوائل المقالات ،شیخ مفید :۷۷،تصحیح الاعتقاد ،شیخ مفید۸۸۔۸۹،المسائل السرویہ،شیخ مفید: ۶۳۔ ۶۴۔ المسالة (۵)،الاربعین ، شیخ بہائی :۵۰۴۔

(۵۹) تہذیب ، شیخ طوسی ،ج ۱،ص۴۶۶/۱۷۲۔

(۶۰) تہذیب ، شیخ طوسی ۱:۴۶۶/۱۷۱،الکافی /الکلینی ۳:۳۴۵/۶۔

(۶۱) اصول کافی /الکلینی ۳:۲۵۵/۱

(۶۲) اصول کافی /الکلینی ۳:۲۴۴/۳و۳۴۵/۷۔

(۶۳) دائرة معارف القرن العشرین /وجدی ۴:۳۷۵۔

(۶۴) حق الیقین /عبد اللہ شبر ۲:۵۰،الاربعین / البہائی :۵۰۵،بحارالانوار ۶:۲۷۱و۲۷۸۔

(۶۵) اصول کافی /الکلینی ۳:۲۴۴/۴۔

(۶۶) ا صول کافی /الکلینی ۳:۲۴۵/۲۔

(۶۷) الاعتقادات ،شیخ صدوق:۷۹۔

(۶۸) سورہ آل عمران آیت۱۳۳۔

(۶۹) سورہ بقرة آیت۲۴۔

(۷۰) سورہ بقرة آیت۳۵۔

(۷۱) سورہ نجم آیت۱۵۔

(۷۲) سورہ قصص آیت۸۸۔

(۷۳) سورہ رعد آیت۳۵۔

(۷۴) کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۳،رجوع کریں: شرح المواقف / الجرجانی ۸:۳۰۱۔۳۰۳۔

(۷۵) سورہ محمد آیت۱۸۔

لسان العرب، ابن منظور ۔شرط ۔۷:۳۲۹۔۳۳۰،مجمع البیان ، طبرسی،ج۹،ص۱۵۴،تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی ،ج۱۸،ص۲۳۶۔

(۷۶) سورہ اعراف آیت۱۸۷۔

(۷۷) سورہ اعراف آیت۱۸۷۔

(۷۸) سورہ انعام آیت۱۵۸۔

(۷۹) تفسیرقمی ۲:۳۰۳،بحار الانوار ۶:۳۰۶/۶۔

(۸۰) خصال شیخ صدوق:۵۰۰/۱و۲۔

(۸۱) سورہ نمل آیت۸۲۔،مزید تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: ”کتاب الرجعة“، مرکز الرسالة: ۲۷ ۔ ۲ ۳ ۔

(۸۲) مسند احمد ۳:۳۶،صحیح ابن حبان ۸:۲۹۰/۶۲۸۴،ا۔مستدرک علی اصحیحین ۴:۵۵۷۔

(۸۳) خصال شیخ صدوق:۴۴۹/۵۲،جامع الاصول / ابن الاثیر ۱۱:۸۷۔داراحیاء التراث العربی ، بیروت۔

(۸۴) سورہ زخرف آیت۶۱۔

(۸۵) معالم التنزیل / البغوی ۵:۱۰۵۔دارالفکر ۔بیروت ،الکشاف / الزمخشری ۴:۲۶،تفسیر الرازی ۲۷: ۲۲۲، تفسیر القرطبی ۱۶:۱۰۵۔داراحیاء التراث العربی ۔بیروت ،تفسیر ابی السعود ۸:۵۲۔داراحیاء التراث العربی۔بیروت۔

(۸۶) راجع:الخصال ، شیخ صدوق :۴۳۱/۱۳،الدرالمنثور / السیوطی ۶:۳۸۰۔

(۸۷) سورہ الانبیاء آیت۹۶۔۹۷۔

(۸۸) سورہ دخان آیت ۱۰۔۱۱

(۸۹) تفسیر الطبری ۲۵:۶۸۔دارالمعرفة ۔بیروت۔

(۹۰) الخصال ،شیخ صدوق:۴۳۱/۱۳،الدرالمنثور / السیوطی ۶:۳۸۰،مسند احمد ۲:۲۰۱،جامع الاصول / ابن الاثیر ۱۱:۸۷۔

(۹۱) اصول کافی / الکلینی ۳:۲۶۱/۳۹۔

(۹۲) تفسیر القمی ۲:۳۰۴و۳۰۶۔

(۹۳) بحارالانوار ۶:۳۱۵/۲۴۔

(۹۴) لسان العرب /ابن منظور ۔قوم ۔۱۲:۵۰۶۔

(۹۵) علل الشرائع ،شیخ صدوق:۴۷۰۔

(۹۶) سورہ حج آیت۱۔۲۔

(۹۷) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۷۰/خطبہ نمبر (۱۱۴)۔

(۹۸) الکافی /الکلینی ۸:۱۴۳/۱۰۸،امالی شیخ طوسی :۳۶/۳۸،، سورہ معارج ،آیت۴۔

(۹۹) سورہ زمر آیت۶۸۔

(۱۰۰) سورہ یس آیت۴۹۔۵۰۔

(۱۰۱) مجمع البیان / الطبر سی ۶:۷۶۶۔

(۱۰۲) تفسیر قمی ۲:۲۵۷،بحار الانوار ۶:۳۲۴/۲۔

(۱۰۳) سورہ قصص آیت۸۸۔

(۱۰۴) نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۲۷۶/خطبہ نمبر (۱۸۶)

(۱۰۵) سورہ ابراھیم آیت۴۸۔

(۱۰۶) امالی شیخ طوسی :۲۸/۳۱۔

(۱۰۷) سورہ یس آیت۵۱۔۵۳۔

(۱۰۸) سورہ ق آیت۲۰۔۲۱۔

(۱۰۹) الامالی ،شیخ صدوق:۴۹۷/۶۸۱۔

(۱۱۰) سورہ معارج آیت۴۳۔۴۴۔

(۱۱۱) سورہ کہف آیت۴۷۔

(۱۱۲) سورہ تکویر آیت۵۔

(۱۱۳) سورہ انعام آیت۳۸۔

(۱۱۴) نہج البلاغہ ،ص۱۴۷/خطبہ نمبر (۱۰۲)۔

(۱۱۵) اصول کافی ۳/الکلینی۸:۱۴۳/۱۱۰۔

(۱۱۶) سورہ حاقة آیت۱۸۔

(۱۱۷) سورہ طارق آیت۹۔

(۱۱۸) سورہ غافر آیت۱۶۔

(۱۱۹) سورہ مریم آیت۸۵۔

(۱۲۰) سورہ عبس آیت۳۸۔۳۹۔

(۱۲۱) سورہ حدید آیت۱۲۔

(۱۲۲) سورہ مریم آیت۶۸۔

(۱۲۳) سورہ فرقان آیت۱۷۔

(۱۲۴) سورہ عبس آیت۴۰۔۴۱۔

(۱۲۵) سورہ اسراء آیت۹۷۔

(۱۲۶) سورہ زمر آیت۶۹ ۔ ۰ ۷ ۔

(۱۲۷) سورہ حجر آیت۹۲۔۹۳۔

(۱۲۸) سورہ اعراف آیت۶۔

(۱۲۹) الا عتقادات ، شیخ صدوق :۷۴۔

(۱۳۰) سورہ اسراء آیت۳۶۔

(۱۳۱) تفسیر العیاشی ۲:۲۹۲/۷۵۔

(۱۳۲) خصال،شیخ صدوق:۲۵۳/۱۲۵،الامالی / شیخ طوسی :۵۹۳/۱۲۳۷، معجم الکبیر / طبرانی ۱۱:۳ ۸ / ۷ ۷ ۱ ۱ ۱ ۔ داراحیاء التراث العربی ۔بیروت ،مجمع الزوائد /ھیثمی ج۱۰، ص۳۴۶، دار الکتاب العربی ۔بیروت۔

(۱۳۳) سورہ ا حزاب آیت۳۳۔

(۱۳۴) سورہ آل عمران آیت۶۱۔

(۱۳۵) سورہ شوریٰ آیت۲۳۔

(۱۳۶) سنن الترمذی ۵:۶۶۴/۳۷۸۹۔دار احیاء التراث العربی۔بیروت،حلیة الاولیاء/ابونعیم ۳: ۲۱۱ ۔ دار الکتاب العربی ۔بیروت ،تاریخ بغداد / الخطیب ۴:۱۵۹۔دار الکتب العلمیہ ۔بیروت ،اسد الغابہ / ابن الاثیر ۲:۱۳۔دار احیاء التراث العربی ۔بیروت ،المستدرک / الحاکم ۳:۱۵۰و صححہ ۔دارالمعرفة ۔ بیر وت۔

(۱۳۷) سورہ صافات آیت۲۴۔

(۱۳۸) عیون اخبار الرضا علیہ السلام ، شیخ صدوق ۱:۳۱۳/۸۶،معانی الا خبار ، شیخ صدوق :۶۷/ ۷ الصواعق المحرقہ / الیتمی :۱۴۹باب ۱۱فصل ۱قال :اخرجہ الیلمی ،الامالی /شیخ طوسی :۲۹۰/۵۶۴،تفسیر الحبری: ۳۱۲/۶۰مو سسہ آل البیت ۔قم ،المنا قب / ابن شہر آشوب ۲:۱۵۲دارالاضواء۔بیروت ،مناقب علی بن ابی طالب / الخوارزمی :۱۹۵،تذکرة الخواص /سبط ابن الجوزی:۱۷۔

(۱۳۹) سورہ غاشیة آیت ۲۶۔

(۱۴۰) تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۳۔

(۱۴۱) الا عتقادات ، شیخ صدوق:۷۵۔

(۱۴۲) سورہ بقرة آیت ۲۰۲۔

(۱۴۳) مجمع البیان / الطبرسی ۲:۵۳۱۔

(۱۴۴) سورہ معارج آیت ۴۔

(۱۴۵) مجمع البیان / الطبرسی ۱۰:۵۳۱۔

(۱۴۶) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۵۲۸/ خطبہ نمبر (۳۰۰)۔

(۱۴۷) اصول کافی / الکلینی ۳:۲۶۸/۴،التہذیب / شیخ طوسی ۲:۲۳۹/۹۴۶۔

(۱۴۸) نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۱۲۳/ خطبہ نمبر (۹۰)۔

(۱۴۹) سورہ یونس آیت۶۱۔

(۱۵۰) سورہ مجادلة آیت ۷۔

(۱۵۱) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۵۳۲/ الحکمة (۳۴۳)۔

(۱۵۲) سورہ نساء آیت ۴۱۔

(۱۵۳) سورہ نحل آیت ۸۹۔

(۱۵۴) مجمع البیان ، علامہ طبرسی ، ج ۶،ص۵۸۴۔

(۱۵۵) سورہ بقرة آیت ۱۴۳۔

(۱۵۶) سورہ آل عمران آیت ۱۱۰۔

(۱۵۷) تفسیر العیاشی ۱:۶۳/۱۱۴۔

(۱۵۸) اصول کافی / الکلینی ۱:۱۴۶/۲و ۱۴۷/۴،بصائر الدرجات / الصفار :۱۸۳/۱۱و ۱۰۲/۳۔مو سسہ الاعلمی۔ تہران ،تفسیر العیاشی ۱:۶۲/۱۱۰۔

(۱۵۹) سورہ ق آیت ۱۷۔۱۸۔

(۱۶۰) سورہ ق آیت ۲۰۔۲۱۔

(۱۶۱) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۱۱۶/خطبہ نمبر (۸۵)۔

(۱۶۲) سورہ نور آیت ۲۴۔

(۱۶۳) تفسیر المیزان / الطباطبائی ۱۵:۹۴۔

(۱۶۴) سورہ انفطار آیت ۱۰۔۱۲۔

(۱۶۵) سورہ جاثیہ آیت ۲۸۔۲۹۔

(۱۶۶) سورہ اسراء آیت ۱۳۔۱۴۔

(۱۶۷) سورہ کہف آیت ۴۹۔

(۱۶۸) سورہ زلزال آیت ۶۔

(۱۶۹) سورہ آل عمران آیت ۳۰۔

(۱۷۰) مجمع البیان / الطبرسی ۲:۷۳۲،تفسیر الرازی ۸:۱۶۔

(۱۷۱) المیزان ،علامہ طباطبائی ۳:۱۵۶و ۱۳:۵۵۔

(۱۷۲) سورہ انبیاء آیت۴۷۔

(۱۷۳) سورہ کہف آیت ۱۰۵۔

(۱۷۴) الکافی/ ۸:۲۹،الامالی ،شیخ صدوق:۵۹۵/۸۲۲۔مو سسہ البعثة ۔قم

(۱۷۵) رجوع فرمائیں:کشف المراد / العلامہ الحلی:۴۵۳،تفسیر المیزان / الطباطبائی ۸:۱۴،حق الیقین / عبداللہ شبر ۲:۱۰۹۔

(۱۷۶) راجع:تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۴، تفسیر المیزان / الطباطبائی ۸:۱۲۔۱۳۔

(۱۷۷) سورہ اعراف آیت ۸۔

(۱۷۸) الاحتجاج / الطبرسی:۳۵۱۔

(۱۷۹) الاحتجاج / الطبرسی :۲۴۴۔

(۱۸۰) اصول کافی/ الکلینی ۱:۳۴/۳۶،معانی الاخبار / الصدوق:۳۱/۱،الاعتقادات / الصدوق:۷۴۔

(۱۸۱) سورہ فاتحہ آیت ۶۔

(۱۸۲) لسان العرب ۔سرط ۔۷:۳۱۳۔۳۱۴۔

(۱۸۳) کشف المراد / العلامہ الحلی :۴۵۳۔

(۱۸۴) الامالی ،شیخ صدوق:۲۴۲/۲۷۵،تفسیر القمی ۱:۲۹۔

(۱۸۵) احیا ء علوم الدین / الغزالی ۵:۳۶۳۔

(۱۸۶) معانی الاخبار ی،شیخ صدوق:۳۲/۱۔

(۱۸۷) الصواعق المحرقہ /ابن حجر :۱۴۹،مناقب علی ابن ابی طالب / ابن المغازلی :۲۴۲/ ۲۸۹،فرائد السمطین/ الجوینی۱:۲۸۹/۲۲۸،الامالی / شیخ طوسی -۲۸۹/۵۶۴۔

(۱۸۸) معانی الاخبار ،شیخ صدوق:۳۳/۴۔

(۱۸۹) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر (۸۳) ص۱۴۱۔

(۱۹۰) الا عتقادات ،شیخ صدوق:۷۱۔۷۲۔

(۱۹۱) سورہ بلد آیت ۱۱۔۱۲۔

(۱۹۲) تصحیح الاعتقاد ،شیخ مفید :۱۱۲۔۱۱۳۔

(۱۹۳) الا عتقادات،شیخ صدوق:۷۶،تصحیح الاعتقاد /المفید :۱۱۶۔

(۱۹۴) سورہ مومنون آیت ۱۰۔۱۱۔

(۱۹۵) رجوع فرمائیں:سورہ بقرہ آیت۲۵،۳۸ ،سورہ آل عمران : آیت۱۹۸، سورہ نساء : آیت۱۳و۶۹، سورہ توبہ: آیت ۲۰،سورہ رعد : آیت۲۲۔۲۴،سورہ طہ: آیت۷۵،سورہ حج: آیت۵۸،،سورہ صافات : آیت۴۰،سورہ غافر (مومن): آیت ۸،سورہ زخرف : آیت۶۹،سورہ احقاف : آیت۱۳۔۱۴،سورہ فتح : آیت۱۷،سورہ ق: آیت۳۱۔۳۳،سورہ طور : آیت۲۱،سورہ حدید : آیت۲۱،سورہ نازعات : آیت۴۰۔

(۱۹۶) سورہ زمر آیت ۷۳۔

(۱۹۷) نہج البلاغہ خطبہ نمبر (۱۹۰)، ص ۳۷۳۔

(۱۹۸) تصحیح الا عتقاد / المفید :۱۱۶۔۱۱۷۔

(۱۹۹) سورہ زخرف آیت ۷۱۔

(۲۰۰) سورہ ق آیت ۳۵۔

(۲۰۱) سورہ سجدہ آیت ۱۷۔

(۲۰۲) کنزل العمال / المتقی الہندی ۱۵:۷۷۸/۴۳۰۶۹،بحا رالانوار / علامہ مجلسی۸:۱۹۱ / ۱۶۸۔

(۲۰۳) تصحیح الاعتقاد / المفید :۱۱۷۔

(۲۰۴) رجوع کریں : سورہ رعد:آیت۳۵،سورہ حج:آیت۵۰،سورہ یٰس:آیت۵۷،سورہ ص:آیت۵۴، سورہ غافر: آیت۴۰،سورہ فصلت :آیت۳۱،سورہ محمد: آیت۱۵، سورہ طور:آیت۲۲، سورہ رحمن:آیت ۵۲ سورہ واقعہ: آیت۲۱،۲۸،۳۳، سورہ دہر: آیت۱۴،سورہ مرسلات: آیت۴۲،۔

(۲۰۵) رجوع کریں :سورہ صافات : آیت۴۵، سورہ محمد : آیت۱۵،سورہ طور :آیت۱۹و۲۳،سورہ واقعہ : آیت۱۷۔۱۹،سورہ انسان: آیت۵۔۶و۱۷۔۱۸و۲۱،سورہ مرسلات : آیت۳ ۴،سورہ مطففین : آیت۲۵۔۲۸۔

(۲۰۶) سورہ حج : آیت۲۳،سورہ کہف : آیت۳۱،سورہ فاطر- آیت ۳۳،سورہ دخان : آیت۵۳،سورہ دہر : آیت۱۲و۲۱۔

(۲۰۷) رجوع کریں : سورہ رعد: آیت۳۵،سورہ یٰس : آیت۵۶،سورہ رحمن : آیت۶۸،سورہ واقعہ : آیت۳۰،سورہ دہر : آیت۱۳،سورہ مرسلات : آیت۴۱،سورہ نباء : آیت۳۲۔

(۲۰۸) سورہ آل عمران : آیت۱۳۳،سورہ انفال : آیت۴،سورہ توبہ : آیت۷۲،سورہ مومنون : آیت ۳ ۰ ۱ ، سورہ عنکبوت:آیت۵۸، سورہ صافات: آیت۴۳۔۴۴،سورہ ص:آیت ۵۰۔۵۱،سورہ زمر آیت: ۲۰، سورہ زخرف : آیت۷۱،سورہ طور:آیت۲۰،سورہ رحمن:آیت۵۴،سورہ واقعہ:آیت۱۵۔۱۸۔ و۳۴، سورہ صف : آیت۱۲،سورہ دہر : آیت۱۴۔۱۶،سورہ غاشیہ : آیت۱۰۔۱۶۔

(۲۰۹) سورہ دہر :ا ٓیت ۱۹۔

(۲۱۰) رجوع کریں : سورہ یٰس :آیت۵۶،سورہ صافات :آیت۴۸۔۴۹،سورہ ص:آیت۵۲،سورہ دخان :آیت۵۴،سورہ طور :آیت۲۰،سورہ رحمن :آیت۵۶۔۵۸و۷۲،سورہ واقعہ:آیت۲۲۔ ۲۳ و ۳۵۔ ۳۷،سورہ نساء:آیت ۳۳۔

(۲۱۱) رجوع کریں:سورہ آل عمران :آیت۱۵و۱۳۶،سورہ توبہ :آیت۷۲،سورہ حجر:آیت۴۷۔ ۴۸، سورہ مریم :آیت۶۲،سورہ فاطر:آیت۳۴۔۳۵سورہ یٰس:آیت۵۵،سورہ زمر:آیت۷۳، سورہ دخان:آیت۵۶،سورہ محمد:آیت۱۵،سورہ طور:آیت۱۸،سورہ مجادلہ:آیت۲۲،سورہ نباء: آیت۳۵، سورہ غاشیہ:آیت۱۱۔

(۲۱۲) رجوع کریں: سورہ بقرہ:آیت۲۴،سورہ توبہ:آیت۴۹،سورہ حجر:آیت۴۳،۴۴،سورہ اسراء:آیت ۸و۹۷،سورہ کہف:آیت۲۹،تحریم:آیت۶،سورہ مرسلات:آیت۳۰۔۳۱،سورہ ھمزہ:آیت۸۔۹۔

(۲۱۳) مجمع البیان / علامہ طبرسی، ج۶:۵۱۹۔

(۲۱۴) نہج البلاغہ / صبحی الصالح:۳۸۴۔الکتاب (۲۷)۔

(۲۱۵) سورہ بقرہآیت ۱۷۵۔

(۲۱۶) رجوع کریں: سورہ بقرہ:آیات۸۱و۸۶و۱۶۱۔۱۶۲و۲۱۷،سورہ نساء:آیات۱۰، و۱۴و۵۶و ۹۳و ۱۴۵،سورہ توبہ:آیات۳۴و۶۳،سورہ یونس:آیات۷۔۸و ۵۲،سورہ ھود:آیات ۱۵۔۱۶،سورہ نحل: آیت۸۵،سورہ کہف:آیت۱۰۲۔۱۰۶،سورہ طہ: آیت۷۴و۱۲۴۔۱۲۷،سورہ فرقان:آیت۱۱،سورہ سجدہ : آیت۱۲۔۱۴، سورہ زمر: آیت۵۰و۷۱،۷۲،سورہ غافر: آیت ۶۰و ۷۰۔ ۷۲،سورہ ق: آیت۲۴۔ ۲۶، سورہ جن : آیت۱۷و۲۳،سورہ مدثر : آیت۴۱۔۴۶،سورہ نازعات : آیت۳۷۔۳۹۔

(۲۱۷) نہج البلاغہ /صبحی الصالح :۲۳۵۔خطبہ نمبر (۱۶۴)۔

(۲۱۸) نہج البلاغہ / صبحی الصالح :۳۱۶۔خطبہ نمبر (۱۹۹)، سورہ مدثر : آیت۴۲۔

(۲۱۹) الاعتقاد ات ،شیخ صدوق:۷۷۔

(۲۲۰) التوحید / الصدوق:۴۰۷/۶۔جامع مدرسین۔قم۔

(۲۲۱) مزید تفصیلات کے لئے رجوع فرمائیں :سورہ بقرہ:آیات۹۰و۱۰۴و۱۱۴و۱۶۲،سورہ نساء:آیت ۵۶،سورہ انعام : آیت۷۰،سورہ اعراف: آیت۴۱،سورہ ابراھیم: آیات۱۶، ۱۷ و۴۹۔۵۰،سورہ کہف : آیت ۲۹، سورہ طہ: آیت۷۴،سورہ انبیاء : آیت۹۸۔۱۰۰،سورہ حج: آیت۱۰۔۲۲،سورہ مومنون آیت۱۰۴،سورہ فرقان: آیت۱۲۔۱۴،سورہ عنکبوت : آیت۵۴۔۵۵،سورہ احزاب : آیت۶۴ ۔ ۶۸، سورہ فاطر: آیت۳۶۔۳۷،سورہ صافات : آیت۶۲۔۶۸،سورہ ص: آیت۵۵۔۶۴،سورہ زمر: آیت۷۱،سورہ غافر: آیت۷۰۔۷۶،سورہ دخان: آیت۴۳۔۵۰،سورہ محمد: آیت۱۵،سورہ طور: آیت۱۳۔۱۶،سورہ قمر: آیت۴۷۔۴۸،سورہ رحمن : آیت۴۱۔۴۴،سورہ واقعہ: آیات۴۱۔ ۴۴ و ۱ ۵ ۔ ۵۶،سورہ ملک: آیت۵۔۱۱،سورہ حاقہ: آیت۳۱،سورہ مزمل: آیت۱۲۔۱۳سورہ دہر: آیت۴،سورہ مرسلات: آیت۳۰۔۳۳،سورہ نباء: آیت۲۱۔۳۰سورہ لیل: آیت۱۴۔۱۶،سورہ ھمزہ: آیت۴۔۹۔

(۲۲۲) نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ۱۰۹،ص ۲۱۷۔

(۲۲۳) سورہ بقرہ:آیات۱۶۱و۱۶۶۔۱۶۷،سورہ انعام :آیات۲۷۔۳۱و۱۲۴،سورہ اعراف:آیت۵۳، سورہ ابراھیم:آیت۴۴،سورہ اسراء:آیت۱۸و۳۹،سورہ مومنون:آیت۱۰۳۔ ۱۰۸، سورہ شعراء:آیت ۹۵۔۱۰۲،سورہ عنکبوت:آیت۲۳،سورہ احزاب:آیت۶۶۔۶۸،سورہ سباء:آیت۳۳،سورہ فاطر: آیت ۳۶۔ ۳۷، سورہ زمر:آیت۷۱،سورہ غافر:آیت ۷۳۔ ۷۶، سورہ شوریٰ:آیت۴۵،سورہ زخرف:آیت۷۷،سورہ ملک: آیت۱۵،سورہ مطففین: آیت۱۵۔۱۷۔

(۲۲۴) سورہ احزاب آیت ۶۶۔

(۲۲۵) سورہ فجرآیت۲۴۔

(۲۲۶) سورہ فرقان آیت۲۸۔

(۲۲۷) سورہ شعراء آیت۱۰۲۔

(۲۲۸) سورہ فاطرآیت ۳۷۔

(۲۲۹) سورہ انعام آیت۲۸۔

(۲۳۰) سورہ انعام آیت۳۰۔

(۲۳۱) سورہ مومنون :آیت ۱۰۸۔

(۲۳۲) سورہ ملک آیت ۸۔۱۱۔

(۲۳۳) سورہ تحریم آیت ۸۔۱۱۔

(۲۳۴) سورہ زخرف: آیت ۷۷۔، چونکہ اس آخری بحث کے مضامین(جنت و دوزخ کے اوصاف) قرآن کریم کی روشنی میں بیان کئے ھیں اور ذیل میں قرآن مجید کے حوالے بھی نقل کئے ھیں، اس سلسلے میں بیان شدہ احادیث کے لئے پر رجوع فرمائیں : بحار الانوار ، علامہ مجلسی ج۸،ص ۱۱۶تا۲۲۲، ۳۲۹ تا۳۸۰، احیاء علوم الدین ، تالیف غزالی ج۵ص ۳۸۵، ۳۹۲، و ۳۷۴تا ۳۸۱ ۔