۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 35164
ڈاؤنلوڈ: 6436

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35164 / ڈاؤنلوڈ: 6436
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

۶۱۔مامون کا آیہ غار کے متعلق سنی عالم سے مناظرہ

مامون (عباسی دور کا ساتواں خلیفہ )نے یحییٰ بن اکثم (قاضی وقت)کو حکم دیا کہ تمام مشہور ومعروف علماء کو فلاں روز فلاں وقت پر میری بزم میں حاضر کیا جائے۔

یحییٰ بن اکثم نے اس زمانہ کے تمام مشہور معروف علماء اور راویوں کو ایک جگہ جمع کیا ،مامون اس بزم میں حاضر ہوا اور احوال پرسی کے بعد اس نے کہا: ”میں نے تمہیں یہاں اس لئے بلایا ہے کہ ساتھ بیٹھ کر آزاد طریقہ سے اور بغیر کسی قید وبند کے امامت کے بارے میں باتیں کریں تاکہ تمام لوگوں پر حجت تمام ہو جائے“۔

اس بزم میں ہر عالم نے ابوبکر و عمر کی برتری اور فضیلت کو ثابت کیا تاکہ وہ خلیفہ رسول سمجھے جائیں لیکن مامون ہر ایک کو اچھی طرح جواب دیتا رہا اور ان کی دلیلوں کو رد کرتا رہا یہاں تک اسحاق نامی ایک عالم میدان مناظرہ میں آیا اور تھوڑی دیر بحث کے بعد اس نے کہا:

”خداوند متعال قرآن کریم میں سورہ توبہ آیت ۴۰ میں ابو بکر کے بارے میں فرماتا ہے:

( ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ“ )

”اور وہ ایک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار میں تھے تو اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے (اپنے پیغمبر) پر سکون (سکینہ) نازل کردیا“۔

خدا وند متعال نے اس آیت میں ابو بکر کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا مصاحب اور دوست کہہ کر تعارف کرا رہا ہے۔

مامون: ”عجیب بات ہے لغت اور قرآن سے تم کتنی کم آگاہی رکھتے ہو کیا کبھی کافر مومن کا مصاحب اور رفیق نہیں ہوتا؟ایسی صورت میں یہ مصاحب کافر کے لئے کس افتخار کا سبب بنے گی؟ جیسا کہ قرآن میں سورہ کہف آیت ۳۷ میں خدا وند متعال فرماتا ہے:

( قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ یُحَاوِرُهُ اٴَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرَاب )

”اس کے ایک ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تو اس کا انکار کردیا ہے جس نے تجھے خاک سے پیدا کیا ہے“۔

اس آیت کے مطابق مومن کافر کا ساتھی شما ر کیا گیا ہے۔

بہت سے فصحائے عرب کے اشعار بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ کبھی کبھی انسانوں کے ساتھی حیوان بھی ہوتے ہیں، لہٰذا ساتھی ہونا کسی بھی طرح کی دلیل وافتخار نہیں ہے“۔

اسحاق: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ آیت کے مطابق ابو بکر کو اطمینان دلایا اور دل جوئی کی اور ان سے فرمایا:”لا تحزن“ (یعنی غمگین نہ ہو)

مامون: ”مجھے بتاو کیا ابو بکر کا حزن وملال گناہ تھا یا اطاعت ؟اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اطاعت تھا تو اس صورت میں تم نے گویا فرض کر لیا کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے اطاعت سے منع کیا(جب کہ اس طرح کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق بالکل غلط ہے)اور اگر کہتے ہو کہ وہ عمل گناہ تھا تو اب گناہ کے لئے تم کون سی فضیلت اور افتخار کو ثابت کرتے ہو؟“

اسحاق: ”خدا وند متعال نے مذکورہ آیت میں اپنا سکون اور آرام (سکینہ) ابو بکر پر نازل کیا یہ خود ان کے لئے فضیلت اور افتخار ہے اور یہ خدا کا آرام وسکون ابو بکر سے مخصوص ہے نہ کہ پیغمبر اکرم سے کیونکہ وہ راحت وسکون کے محتاج نہیں ہیں“۔

مامون: ”خداوند متعال قرآن کریم میں ( سورہ توبہ کی ۲۵ ۔ ۲۶ ویں آیت ) فرماتا ہے-:

( َیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ اٴَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمْ الْاٴَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُدْبِرِینَ # ثُمَّ اٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَی رَسُولِهِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ )

”خدا نے تمہاری بہت سی جگہوں میں مد د کی اور حنین کے دن جب تمہیں تمہاری کثرت نے تعجب میں ڈال دیا تھا مگر اس کثرت نے تمہاری کوئی مدد نہ کی اور زمین تمہارے اوپر تنگ ہو گئی پھر تم میدان سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے پھر خداوند متعال نے اپنا سکینہ اپنے رسول اور مومنین پر نازل کیا“۔

اے اسحاق ! کیا تو جانتا ہے کہ جن مومنوں نے فرار نہیں اختیار کیا تھا اور جنگ حنین میں پیغمبر کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں رہے وہ کون لوگ تھے؟

اسحاق: ”نہیں میں نہیں جاتنا“۔

مامون:جنگ حنین ( جو سرزمین مکہ اور طائف کے درمیان ہجرت کے آٹھویں سال واقع ہوئی)تمام اسلامی لشکر شکست کھا کر میدان سے فرار ہو چکا تھا اور میدان جنگ میں صرف پیغمبر اور ان کے ساتھ بنی ہاشم کے سات افراد باقی رہ گئے تھے جن میں علی علیہ السلام تلوار سے جنگ کرتے تھے عباس (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا) نے آنحضرت کو گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی اور پانچ دوسرے افراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے تاکہ کافروں سے انھیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے( ۳۵ ) نتیجہ میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فتح و کامرانی عطا کی (یہاں تک کہ خداوند متعال نے اپنے آرام وسکون (سکینہ) کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مومنین پر نازل کیا)

اس سے ثابت ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی الٰہی آرام وسکون کے محتاج تھے اور مومنین سے مراد اس آیت میں علی علیہ السلام اور چند لوگ بنی ہاشم کے ہیں جو میدان جنگ میں حاضر تھے اس بنا پر کون افضل ہے ؟آیا وہ لوگ جو میدان جنگ حنین میں پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے اور الٰہی آرام وسکون پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور ان لوگوں پر نازل ہوا وہ لوگ برتر ہیں یا وہ شخص جو پیغمبر اکرم کے ساتھ غار میں تھا اور اس کے لئے سکون وراحت نازل کرنا مناسب بھی نہیں تھا؟

اے اسحاق!کون شخص بہتر ہے آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ غار میں رہنے والا یا آنحضرت پر جان فدا کرکے ان کے بستر پر چین کی نیند سونے والا؟ کیونکہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے جا رہے تھے تو خدا کے حکم کے مطابق حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: ”تم میرے بستر پر سو رہو۔

حضرت علی علیہ السلام نے پوچھا: ”اے رسول خدا !اگر میں آپ کے بستر پر سوجاوں تو آپ کی جان بچ جائے گی ؟“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”جی ہاں“۔

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: ”( سمعاً و طاعةً )

اس کے بعد آپ بستر رسول پر آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کی چادر تان کر سوگئے۔مشرکین تمام رات انتظار کرتے رہے اور وہ شک بھی نہ کر سکے کہ اس بستر پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ کوئی اور سو رہا ہے۔

یہ منصوبہ تمام مشرکین کی اتفاق رائے سے وجود میں آیا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک شخص آپ کے پاس جا کر ایک ایک ضربت لگائے تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قتل ہو جائیں اور ان کا قاتل کوئی ایک شخص نہ ہو تاکہ بنی ہاشم پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقام نہ لے سکیں۔

حضرت علی علیہ السلام مشرکوں کی تمام باتیں سن رہے تھے لیکن انھوں نے ذرا بھی بیتابی کا اظہار نہیں کیا جب کہ ابو بکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ غار میں رہتے ہوئے بھی بے تابی کا اظہار کر رہے تھے اور علی علیہ السلام نے تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل خلوص سے استقامت کی اور خداوند متعال نے علی علیہ السلام کے پاس فرشتے بھیجے تاکہ وہ مشرکوں سے ان کی حفاظت کریں۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زندگی میں اس طرح کی فداکاری اور ایثار کیا اور وہ اپنی طویل حیات میں بہت ہی عظیم فضائل ومناقب کے حامل تھے یہاں تک کہ خداوند متعال کے نزدیک بہت ہی محبوب اور مقبول حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔( ۳۶ )

۶۲۔ مولف کاابن ابی الحدید سے غائبانہ مناظرہ

اہل سنت کا ایک بہت ہی مشہورو معروف اور نہایت پڑھا لکھا عظیم مورخ عبد المجید بن محمد بن حسین بن ابی الحدید مدائنی گزرے ہیں جسے عام لوگ ”ابن ابی الحدید “کے نام سے جانتے ہیں ان کی تالیفات و تصنیفات میں ایک بہت ہی اہم اور مشہور ۲۰ جلدوں پر مشتمل ”شرح نہج البلاغہ “ہے۔

۶۵۵ ھ کومیں بغداد میں انھوں نے دنیا کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہا وہ اپنی شرح نہج البلاغہ کی چھٹی جلد میں پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد پرآشوب حالات کو لکھتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے چند آدمیوں کے ساتھ آکر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا گھر گھیر لیا جنا ب فاطمہ زہرا سلا م اللہ علیہا کی آواز بلند ہوئی کہتم لوگ میرے گھر سے بھاگ جاو۔۔۔

اور صحیح بخاری و صحیح مسلم سے بھی نقل کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہیں:

فهجرته فاطمه ولم تکلمه فی ذلک حتی ماتت فد فنها علی لیلاولم یوذن بها ابو بکر “۔( ۳۷ )

” پھر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابو بکر سے دوری اختیار کر لی تھی اور مرتے وقت تک ان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام نے آپ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور ابوبکر کو اس بات کی خبر بھی نہ دی۔

ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے ابن ابی الحدید عمر و ابوبکر کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے طرح طرح کی توجیہ کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں:

فان هذالوثبت انه خطالم یکن کبیرة بل کان من باب الصغائر التی لا تقتضی التبری ولا توجب زوال التولی “۔

”اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ ابوبکر کی رفتار اس طرح تھی تو ان کی طرف سے یہ خطا اور گناہ تو تھا لیکن گناہ کبیرہ نہیں ہے بلکہ ایک گناہ صغیرہ ہے جو ان سے بیزاری اور ولایت کے زوال کا موجب نہیں بن سکتا ہے“۔

مولف: ”کیا سچ مچ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کرنا اوراس کا حکم دنیا اور آپ کو اس حد تک ناراض کرنا کہ آخر عمر تک ابو بکر و عمر سے منہ پھیرے رہیں اور ان سے بات بھی نہیں کی، گناہ صغیرہ ہے ؟!

اگر ابن ابی الحدید کہتے کہ اصل حادثہ ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہے تو اس پر مجھے تعجب نہ ہوتا لیکن وہ اس حادثہ کا اقرارکرتے ہوئے کس طرح ایسی باتیں کرتے ہیں؟کیا وہ گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو نہیں جانتے ؟ایسا بھی نہیں ہے کہ ابن ابی الحدید نے صرف خود نقل کیا ہے بلکہ دوسرے علمائے اہل سنت نے بھی اس کو نقل کیا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرمایا ہے۔

ان الله یغضب لغضب فاطمة ویرضیٰ لرضاها “۔( ۳۸ )

”بے شک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا (میرے جگر کا ٹکڑا ہے ) جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی“۔

پس اس حدیث کی بنیاد پر ان دونوں نے یقینی طور پر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دی اور فاطمہ سلا م اللہ علیہا کو اذیت دینا خدا و رسول کو اذیت دینا ہے ان چیزوں کو جانتے ہوئے کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اذیت دینا گناہ صغیرہ ہے؟ہاں اگر یہ گناہ صغیرہ ہے تو پھرگناہ کبیرہ کیا ہے؟کیا خدا وند متعال قرآن مجید میں نہیں فرماتا:

( إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمْ اللهُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاٴَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِینًا )( ۳۹ )

”بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اس نے ان کے لئے اہانت آمیز عذاب تیار کررکھا ہے“۔

کیا گناہ صغیرہ انجا م دینے والا شخص خدا اور رسول کی لعنت کا مستحق نہیں ہے؟

۶۳۔نص کے مقابل اجتہاد کے متعلق ایک مناظرہ

اشارہ:

شریعت اسلام میں جو چیز آیات قرآن اورسنت پیغمبر سے صریحی اور واضح ہے اس چیز کی پیروی کرنا چاہئے اگر ہم اس کے مقابلہ میں کوئی توجیہ کریں تو ایسا اجتہاد نص کے مقابلہ میں ہوگا اور نص کے مقابلہ میں اجتہاد یقینا باطل ہے اور اس طرح کا اجتہاد ہی بدعت ہے جو کفر اور گمراہی پیدا کرتا ہے۔لیکن صحیح اجہتاد وہ ہے کہ کسی موضوع کے حکم کی صحیح دلیل سند یا دلالت کے لحاظ سے واضح نہ ہو،مجتہد قواعد اجتہاد کے ذریعہ اس موضوع کے حکم کے بارے میں استنبا ط کرتا ہے اس طرح کا اجتہاد اور اس طرح کے مجتہد جامع الشرائط مقلدین حضرات کے لئے حجت قرار دیئے گئے ہیں اسی بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے ذیل کا مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں:

ملک شاہ سلجوقی نے ایک جلسہ بلا یا اس میں خود اس کا وزیر بھی موجود تھا۔اس جلسہ میں اہل سنت کے ”عباسی “نام کے ایک بہت ہی جلیل القدر اور شیعوں کے ایک بہت ہی مشہور اور عظیم عالم (علوی) کے درمیان اس طرح مناظرہ شروع ہوا:

علوی: تمہاری معتبر کتابوں میں آیا ہے کہ بعض احکام جو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں قطعی مناسب اور یقینی تھے عمر نے اس میں تصرف کیا ہے اور اسے بدل ڈال ہے“۔

عباسی: ”کن احکام کو انھوں نے بدل دیا؟“

علوی: ”مثال کے طور:

الف: نماز تراویح ماہ رمضان میں پڑھی جاتی ہے اور مستحب ہے، عمر نے کہا: ”اسے با جماعت پڑھو “( ۴۰ ) جب کہ مستحب نمازیں جماعت کے ساتھ نہیں پڑھنا چاہئے۔جیسا کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں اسی طرح تھا کہ تمام مستحبی نمازیں فرادیٰ پڑھی جاتی تھیں لیکن بعض مستحبی نمازیں جیسے نماز استقاء پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بھی جماعت سے پڑھی گئی۔

ب: یا حضرت عمر نے حکم دیا کہ اذان میں”حی علی خیر العمل “کی جگہ ”الصلوة خیر من النوم “کہا جائے۔( ۴۱ )

ج: حج تمتع اور متعة النساء کو حرام قرار دیا۔( ۴۲ )

د:مولفة القلوب کے حصہ کو ختم کر دیا جب کہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۶۰ میں ان کے حصے کی وضاحت ہوتی ہے اس کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں۔

ملک شاہ: کیا سچ مچ عمر نے ان احکام کو بدل ڈالا؟“

خواجہ نظام الملک: ”ہاں واقعی یہ چیزیں سنیوں کی معتبر کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں“۔

ملک شاہ: ”بس ہم کس طرح ان لوگوں کی پیروی کریں جنھوں نے بدعت پھیلارکھی ہے ؟“

قوشچی: ”اگر عمر نے حج تمتع یا متعہ سے روکا ،یا اذان میں”حی علی خیر العمل“کی جگہ”الصلوة خیر من النوم“کا اضافہ کیا تو انھوں نے اجہتاد کیا ہے اور اجتہاد بدعت نہیں ہے۔( ۴۳ )

علوی: ”کیا قرآن کے واضح اور صریحی آیت یا رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کی صریحی احادیث کے مقابلہ میں دوسری باتیں پیش کی جا سکتی ہیں؟ کیانص کے مقابلہ میں اجتہاد جائز ہے ؟اگر اس طرح ہو تو ہر مجتہد اس چیز کا حق رکھتا ہے اور ایسے ہی کچھ دنوں کے بعد اسلام کے بہت سے احکام بدل جائیں گے اور اسلام کی حقیقت اور جاویدانی ہوناہمارے درمیان سے جاتی رہے گی کیا قرآن یہ نہیں فرمارہا ہے:

( وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا )( ۴۴ )

”جو کچھ رسول تم کو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اسے ترک کردو“۔

اسی طرح سورہ احزاب میں خدا کا ارشاد ہے:

( وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَی اللهُ وَرَسُولُهُ اٴَمْرًا اٴَنْ یَکُونَ لَهُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ اٴَمْرِهِمْ )( ۴۵ )

”کسی مومن یا مومنہ کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد (کس شئے پر) اختیار رکھے“۔

آیا پیغمبر (ص) نے یہ نہیں فرمایا:

حلال محمد حلال الی یوم القیامة وحرام محمد حرام الی یوم القیامة “۔( ۴۶ )

”حلال محمد قیامت تک کے لئے حلال ہے اور حرام محمد قیامت کے لئے حرام ہے“۔

نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے صریحی احکام کو بدلنا نہیں چاہئے کہ یہ کام تو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم بھی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں قرآن میں پڑھتے ہیں۔( ۴۷ )

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاٴَقَاوِیلِ لَاٴَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ )( ۴۸ )

”اور اگر وہ (پیغمبر) ہماری طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے تو ہم انھیں قوت سے پکڑ لیتے پھر ان کی رگ قلب کو قطع کر دیتے اور تم لوگوں میں سے کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا تھا“۔

____________________

(۳۵) وہ پانچ افراد یہ ہیں:،ابو سفیان بن حارث (رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے چچا زاد بھائی) نوفل بن حارث ،ربیعہ بن حارث ،فضل بن عباس ،عبد اللہ بن زیبر ، بعض نے عتبہ و معتب (ابولہب کے بیٹے) کانام بھی ذکر کیا ہے ، (اعلام الوریٰ ،ص۱۱۹،کامل ابن اثیر، ج۲، ص۲۳۹۔ )

(۳۶) بحار الانوار سے اقتباس ،ج۴۹ ، ص۱۹۴۔ ۲۰۰۔

(۳۷) شرح نہج البلاغہ ،ج۶،ص۴۶ و۴۷۔

(۳۸) صحیح بخاری، مطبوعہ دار الجیل ، بیروت ،ج۷ ص۴۷ ،اور ج۹،ص۱۸۵ ،و دوسرے مدارک، کتاب ”فضائل الخمسہ‘ ‘ ج ۳ ، ص ۱۹۰سے ۔

(۳۹) سورہ احزاب آیت۵۷۔

(۴۰) صحیح بخاری ، ج ۲ ، ص ۲۵۱،کامل ابن اثیر ، ج ۲، ص ۳۱۔

(۴۱) شرح زرقانی بر موطا مالک ج ۱ ص ۲۵۔

(۴۲) تفسیر فخر رازی سورہ نساء آیت ۲۴ کے ذیل میں۔

(۴۳) شرح تجرید ، قوشچی، ص۳۷۴،قوشچی اہل سنت کے ایک نہایت مشہور عالم دین ہیں جنھیں (امام المتقین )کہا جاتا تھا ۔

(۴۴) سورہ حشر، آیت ۷۔

(۴۵) سورہ احزاب، آیت ۳۶۔

(۴۶) مقدمہ سنن دارمی، ص۳۹ ، اصول کافی ،ج۱ ،ص۶۹۔

(۴۷) کتاب ”جستجوئے حق در بغداد “سے اقتباس (مقاتل بن عطیہ بکری) ص۱۲۷ سے ۱۲۹ تک۔

(۴۸) سورہ حاقہ آ یت ۴۴۔۴۶۔