۷۱۔حدیث غدیر سے متعلق ایک مناظرہ
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں:
اپنے وطن تیونس میں،میں نے ایک سنی عالم دین سے ایک مناظرہ میں اس طرح کہا:
”تم حدیث غدیر کو قبول کرتے ہو“؟
تیونسی عالم: ”ہاں میں اس حدیث کو قبول کرتا ہوں یہ صحیح ہے“۔
میں نے خود قرآن کی تفسیرلکھی ہے جس میں سورہ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں حدیث غدیر کو پیش کیا ہے اس کے بعد اس نے اپنی تفسیر میرے سامنے لا کر رکھ دی اور جہاں اس نے حدیث غدیر کا تذکرہ کیا تھا وہ مجھے دکھایا۔
میں نے اس کتاب میں دیکھا حدیث غدیر کے باب میں اس طرح عبارت درج ہے:
”شیعہ حضرات اس بات کے معتقد ہیں حدیث غدیر صریحی طور پر علی کی خلافت بلا فصل پر دلالت کرتی ہے لیکن اہل سنت حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ یہ حدیث ابو بکر وعمر وعثمان کی خلافت سے منافات رکھتی ہے اس وجہ سے ہمارے لئے یہ لازم ہو گیا کہ اس روایت کی صراحت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کی تاویل کریں
یعنی ہم یہ کہیں کہ یہاں مولیٰ کے معنی دوست اور یاور ہیں جیسا کہ قرآن میں یہ لفط دوست اور یاور کے معنی میں آیا ہے اور خلفائے راشدین اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عظیم صحابیوں نے بھی لفظ مولا سے یہی مراد لیا ہے اس کے بعد ان کے تابعین اور علمائے مسلمین نے بھی اسی بات کی تائید کی ہے اور اسی صورت کو مقبول بتایا ہے۔اس طرح شیعوں کے اس عقیدہ کا کوئی اعتبار نہیں“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا خود واقعہ غدیر تاریخ میں پایا جاتا ہے یا نہیں؟“
تیونسی عالم: ”ہاں کیوں نہیں اگر واقعہ غدیر نہ ہوا ہوتا تو علماء ومحدثین اسے نقل ہی نہ کرتے“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”کیا یہ مناسب ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم حج سے واپسی کے وقت غدیر خم کے تپتے ہوئے صحراء میں ہزاروں مرد،عورتوں اور بچوں کے مجمع میں سب کو روک کر ایک طویل خطبہ دیں اور اس کے بعد یہ اعلان کریں کہ علی تمہارے دوست اور مدد گار ہیں کیا تم اس طرح کی تاویل کو پسند کرتے ہو؟“
تیونسی عالم: ”بعض صحابہ کرام نے جنگ کے دوران حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں نقصان اٹھا یا تھا اس میں بہت سے ایسے تھے جن کے دلوں میں ان کی طرف سے کینہ پرورش پا رہا تھا لہٰذا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے میدان غدیر میں یہ اعلان کیا کہ جو علی سے کینہ رکھتے ہیں وہ اپنے کینوں کو دور کریں اور انھیں اپنا دوست اور مددگار سمجھیں؟“
ڈاکٹر تیجانی: ”علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اس بات کا تقاضہ نہیں کرتا کہ پیغمبر اکرم ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے درمیان تپتے ہوئے صحراء میں روکیں اور نماز جماعت ادا کریں اور ایک طولانی خطبہ دیں اور اس خطبہ کے دوران بعض ایسے مطالب بیان کریں جو علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت کے لئے مناسب ہوں نہ کہ دوستی اور یاوری کے لئے مثلاًاسی خطبے کا ایک ٹکڑا یہ ہے جس میں آنحضرت نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے سوال کیا”الست اولی بکم من انفسکم “کہ میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا ؟“
تمام لوگوں نے اقرار کیا ہاں کیوں نہیں یا رسول اللہ“۔
یہ تمام باتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ یہاں پر مولا سے مراد رہبر وآقا کے ہیں اور اس سے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ثابت ہوتی ہے“۔
اسی وجہ سے خود ابوبکر نے بھی لفظ مولی سے امام علی علیہ السلام کی رہبری اور خلافت جانا ہے اور اسی صحرا کی تپتی ہوئی دھوپ میں امام علی علیہ السلام کے پاس آکر انھیں اس طرح مبارک باد پیش کیا۔
”بخ بخ لک یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولا کل مومن ومومنة“
”مبار ک مبارک ہو ؛اے ابو طالب کے بیٹے !اب تم میرے اور تمام مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے “
یہ مبارک باد دینا بہت ہی مشہور حدیث ہے جسے اہل سنت اور اہل تشیع سبھی نے نقل کیا ہے۔
اب تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ کیا اگر یہ اعلان صرف دوستی اور یاوری کے لئے ہوتا تو ابو بکر و عمر حضرت علی علیہ السلام کو اسی طرح مبارک باد پیش کرتے ؟اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم اپنے خطبے کے بعد اس طرح اعلان کرتے:
”سلّموا علیہ بامرة المومنین“۔
”اے مسلمانو! علی کوامیر المومنین کہہ کر سلام کرو“۔
اس کے علاوہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ مائدہ کی ۶۷ ویں آیت کے نزول کے بعد یہ عمل انجام دیا اور آیت میں ہم یہ پڑھتے ہیں:
(
” یَااٴَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ
)
“
”اے رسول وہ چیز پہنچا دو جو تمہارے رب کی طرف سے پہلے ہی تم پر نازل کی جا چکی ہے اور اگر تم نے اسے نہ پہنچایا تو گویا تم نے کار رسالت انجام ہی نہیں دیا“۔
کیا حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہو گیا تھا کہ اگر اسے لوگوں کےدرمیان بیان نہ کیا جائے تو آنحضرت کی رسالت کو خطرہ لاحق ہوجائے ؟“
تیونسی عالم: ”تو اس بارے میں تم کیا کہو گے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت نہ کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت کر لی، کیا ان کا یہ عمل گناہ تھا ؟کیا انھوں نے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی نا فرمانی کی؟“
ڈاکٹر تیجانی: ”جب خود اہل تسنن اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب نے رسول اکرم کے زمانہ میں خود آپ کی مخالفت کی تو اس بنا پر یہ کوئی ایسی تعجب کی بات نہیں کہ آپ کے بعد اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔
جیسے شیعہ اور سنی دونوں طریقوں سے یہ ثابت ہے کہ جب رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک نواجوان صحابی (اسامہ بن زید)کو سپہ سالار بنایا تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت کی مخالفت کی جب کہ آنحضرت نے انھیں تھوڑی سی مدت کے لئے بہت تھوڑے سے لشکر کا سردار بنایا تھا تو یہی لوگ حضرت علی علیہ السلام کی رہبری کو کس طرح طرح قبول کر لیتے کیونکہ وہ بھی دوسروں کے مقابلہ میں کم عمر تھے (اس وقت آپ کی عمر ۳۳ سال تھی)اور خود یہ لوگ علی علیہ السلام کو ان کی پوری زندگی تک رہبر کیسے قبول کرلیتے اور تم نے خود ہی پہلے یہ اقرار کیا کہ بعض لوگ علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔
تیونسی عالم: ”اگر علی علیہ السلام جانتے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے مجھے اپنا خلیفہ بنایا ہے تو رسول اکرم کے بعد وہ خاموش نہ بیٹھے رہتے بلکہ اپنی بے انتہا شجاعت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حق کا دفاع کرتے“۔
ڈاکٹر تیجانی: ”یہ تو دوسری بحث ہے جس میں ہم ابھی وارد نہیں ہونا چاہتے جب تم واضح حدیث کی تاویل کرتے ہو تو امام علیہ السلام کے خاموش رہنے پر بحث کرنے میں کس طرح قانع ہو سکتے ہو؟“
تیونسی عالم نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے کہا: ”خدا کی قسم میں ان لوگوں میں سے ہوںجو علی علیہ السلام کو دوسروں سے افضل جانتے ہیں اور اگر یہ بات میرے بس میں ہوتی تو میں علی علیہ السلام پر کسی کو مقدم نہ کرتا کیونکہ وہ مدینة العلم اور اسد اللہ الغالب ہیں لیکن خدا نے اسی طرح چاہا کہ بعض کو مقدم اور بعض کو موخر رکھے اس کی مشیت کے بارے میں کیا کہیں“۔
میں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا: ”قضاو قدر “کی بحث دوسری ہے جس کے متعلق ابھی ہم بحث نہیں کر رہے ہیں“۔
تیونسی عالم: ”میں اپنے عقیدہ پر باقی رہوں گا اور اسے بدل نہیں سکتا“۔
ڈاکٹر تیجانی کہتے ہیں : وہ اسی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا یہ خود اس کی بے بسی اور عاجزی کی دلیل تھی۔
۷۲ ۔شاگرد اور استاد کے درمیان مناظرہ
شاگرد: ”خالد بن نوفل نام کا ایک استاد ، اردن کی ”شریعت یونیورسٹی “میں درس دینے آتا تھا، میں اس کے شاگردوں سے تھا، میں شیعی مسلک کا تابع تھا“۔
چونکہ یہ استاد خود سنی تھا اس لئے اسے جب بھی موقع ملتا شیعوں پر کچھ نہ کچھ الزام تراشی کرتا رہتا تھا، ایک دن میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشینوں کے متعلق گفتگو کرنے لگا آپ بھی اس گفتگوکو سنیں اور فیصلہ کریں۔
استاد: ”ہم حدیثوں کی کتابوں میں قطعی طور پر یہ حدیث نہیں پاتے کہ آنحضرت کے بارہ ہی خلیفہ ہوں گے ، لہٰذا یہ حدیث تم شیعوں کی گڑھی ہوئی ہے“۔
شاگرد: ”اتفاق سے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں متعدد مقامات پر متعدد سندوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے مثلاًرسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”الخلفاء بعدی اثنا عشر بعدد نقباء بنی اسرائیل وکلهم من قریش
۔“
”میرے بعد بنی اسرائیل کے نقباء کے برابر میرے بارہ خلیفہ ہوں گے اوروہ سب کے سب قریش سے ہوں گے“۔
استاد: ”اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح بھی ہے تو تمہاری نظر میں ان بارہ سے کون لوگ مراد ہیں؟“
شاگرد: ”اس سلسلے میں سیکڑوں روایات موجود ہیں جن میں ان کے نام اس طرح بتائے گئے ہیں۔
۱ ۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔
۲ ۔حسن بن علی علیہ السلام۔
۳ ۔ حسین بن علی علیہ السلام۔
۴ ۔علی بن الحسین علیہ السلام۔
۵ ۔محمد بن علی الباقر علیہ السلام۔
۶ ۔جعفر بن محمد علیہ السلام۔
۷ ۔موسیٰ بن جعفر علیہ السلام۔
۸ ۔علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام۔
۹ ۔محمد بن علی الجواد علیہ السلام۔
۱۰ ۔علی محمد الہادی علیہ السلام
۱۱ ۔حسن بن علی العسکری علیہ السلام۔
۱۲ ۔حجة القائم (عجل اللہ فرجہ الشریف)۔
استاد: ”کیا حضرت مہدی علیہ السلام ابھی زندہ ہیں؟“
شاگرد: ”ہاں وہ زندہ ہیں اور کچھ وجوہات کی بنا پر ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں جب اس دنیا میں ان کے ظہور کی راہیں ہموار ہوجائیں گی تو وہ ظہور کریں گے اور پوری دنیا کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں گے“۔
استاد: ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے جب کہ ایک انسان کی طبیعی عمر زیادہ سے زیادہ سو سال ہوتی ہے“۔
شاگرد: ”ہم مسلمان ہیں اور قدرت خداوند متعال پر یقین رکھتے ہیں اس میں کیا برائی ہے کہ خداوند متعال کی مشیت سے ایک انسان ایک ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟“
استاد: ”قدرت خدااپنی جگہ پر ہے لیکن اس طرح کی چیزیں سنت خدا سے خارج ہیں“۔
شاگرد: ”تم بھی قرآن کو قبول کرتے ہو اور ہم بھی اسے مانتے ہیں قرآن مجید کے سورہ عنکبوت آیت ۱۴/ میں خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَی قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِیهِمْ اٴَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا
)
“۔
”اور بلا شبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طر ف بھیجا جہاں وہ پچاس سال چھوڑ کے ایک ہزار سال رہے“۔
اس آیت کے مطابق جناب نوح علیہ السلام طوفان سے پہلے اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال زندہ رہے اسی طرح اگر خدا چاہے تو دوسرے کو بھی اتنی یا اس سے زیادہ عمر دیدے“۔
رسول خدا نے متعدد مقامات پر حضرت مام مہدی علیہ السلام کا تعارف دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے والے کی صورت میں کرایا ہے اس سلسلہ میں سیکڑوں کیا بلکہ ہزاروں حدیثیں ،سنی اور شیعہ دونوں طرف سے نقل ہوئی ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ہے۔
مثال کے طور پرحضرت رسول اسلام نے فرمایا ہے:
”المهدی من اهل بیتی یملاالارض قسطا و عدلا کماملئت ظلما و جوراً
“۔
مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوں گے جو دنیا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔
جب بات یہاں تک پہنچی تو وہ استاد چپ ہو گیا کیونکہ اس شاگرد کی تمام باتیں منطقی اور اہل سنت کے معتبر حوالوں سے مدلل تھیں۔
شاگرد نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ”چلئے ہم اپنی بات کی طرف واپس پلٹتے ہیں آپ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ہے: ”میرے خلیفہ بارہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے“۔
آپ نے مجھ سے پوچھا کہ وہ بارہ افراد کون لوگ ہیں میں نے ان کا نام حضرت علی علیہ السلام سے لے کر امام مہدی علیہم السلام تک سنا دیا اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ بارہ خلفاء یہ لوگ نہیں ہیں تو پھر ان کے علاوہ کون لوگ ہیں؟“
استاد: ”ان بارہ لوگوں میں چار خلفاء راشدین (ابو بکر،عمر،عثمان، اور حضرت علی علیہ السلام) کا نام لیا جاتا ہے اس کے بعد حسن علیہ السلام، معاویہ ،ابن زبیر و عمر بن عبد العزیز(کہ یہ سب ملا کر آٹھ ہوگئے)اور یہ بھی ممکن ہے کہ مہدی عباسی(بنی عباس کا تیسرا خلیفہ)کو بھی شمار کر لیا جائے اس کے علاوہ ابن طاہر عباسی بھی ان میں شامل ہو سکتا ہے خلاصہ کے طور پر ہماری نظر کے مطابق یہ بارہ آدمی معین نہیں ہیں ان کے متعلق ہمارے علماء کے مختلف اقوال ہیں“۔
شاگرد: ”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ثقلین کے متعلق تم لوگوں کا کیا خیال ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا ہے:
”انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اهل بیتی
۔۔۔“۔
یہ بات واضح رہے کہ عمر وابوبکر ،معاویہ ،عباسی اور عبد العزیز عترت رسول میں شمار نہیں کئے جا سکتے لہٰذا اس صورت میں ہمارے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ خلیفہ کو پہچاننا ممکن نہیں ہوگا جب کہ حدیث ثقلین کے معیار کو سامنے رکھ کر ہم بڑی آسانی سے ان کا پتہ لگا سکتے ہیںذرا سی غور وفکر کے بعد یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ وہ خلفاء وہی ہیں جن کو شیعہ مانتے ہیں کیونکہ یہی عترت اور اہل بیت کے مصداق ہیں“۔
استاد: ”ٹھیک ہے اس کے جواب کے لئے مجھے کچھ موقع درکار ہے کیونکہ اس وقت ان باتوںکا کوئی قانع کنندہ جواب میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے“۔
شاگرد: ”بہت خوب اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ آپ تحقیق کریں گے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ جانشین قیامت تک کون ہیں؟“
کچھ ہی دنوں بعد پھرشاگرد کی استاد سے ملاقات ہوئی مگر ابھی تک وہ استاد اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کوئی دلیل نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔
اسی طرح ایک دوسرے مناظرہ میں جب ایک طالب علم نے اپنے ایک استاد سے سوال کیا کہ آیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ خلیفہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے ؟
استاد: ”ہاں ہماری معتبر کتابوں میں اس طرح کی روایتیں موجود ہیں“۔
طالب علم: ”وہ بارہ کون سے لوگ ہیں؟“
استاد: ”وہ ابو بکر ،عمر،عثمان،علی علیہ السلام، معاویہ اور یزید بن معاویہ“۔
طالب علم: ”یزید کو کس طرح خلیفہ رسول سمجھا جا سکتا ہے جب کہ وہ علی الاعلان شراب پیتا تھا اور واقعہ کربلا اسی کی کارستانی ہے اور اسی نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے صحابیوں کو قتل کیا ہے ؟“
اس کے بعد طالب علم نے اس سے کہا: ”بقیہ کا نام بتاو“۔
استاد نے جو اس کے اس سوال سے بے بس ہو چکا تھا موضوع بدل لیا اور کہنے لگا۔تم شیعہ حضرات اصحاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا بھلا کہتے ہو“۔
طالب علم: ”ہم ان کے تمام اصحاب کو بر ابھلا نہیں کہتے، تم یہ کہتے ہو کہ وہ تمام عادل تھے مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے زمانہ میں ہی سارے منافقوں کے بارے میں آیتیں اتری ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ آنحضرت کے زمانے میں سارے اصحاب عادل تھے تو ہمیں قرآن کی بہت سی آیتوں کو رد کرنا پڑے گا جو اس کا ایک عظیم حصہ ہیں“۔
استاد: ”تم گواہی دو کہ ابو بکر عمر اور عثمان سے خوش ہو“۔
طالب علم: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اصحاب میں سے جو بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے راضی تھا میں بھی اس سے راضی ہوں اور جس سے بھی آنحضرت اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا راضی نہیں تھیں میں بھی اس سے راضی نہیں ہوں“۔
۷۳۔قبر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بلند آواز میں زیارت پڑھنا
ایک شیعہ عالم کہتے ہیں: ”ہم تقریبا ً پچاس آدمیوں کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ منورہ مسجد النبی میں گئے اور وہاں جا کر آنحضرت کی زیارت پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔
حرم کا منتظم (شیخ عبد اللہ بن صالح )میرے قریب آیا اور اعتراض کے طور پر اس نے کہا: ”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے مرقد کے قریب اپنی آواز بلند نہ کرو“۔
میں نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے؟“
منتظم: ”خدا وند متعال قرآن (سورہ حجرات آیت ۲) میں فرماتا ہے:
(
” یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا اٴَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اٴَنْ تَحْبَطَ اٴَعْمَالُکُمْ وَاٴَنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ
)
“۔
”اے ایمان لانے والو! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آواز بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے چیخوچلاو جس طرح تم ایک دوسرے کے سامنے چیختے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بیکار نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہونے پائے“۔
میں: ”امام جعفر صادق علیہ السلام “کے اسی جگہ پر چار ہزار شاگرد تھے اور تدریس کے وقت باآواز بلند درس دیتے تھے تاکہ ان کی آواز ان کے شاگردوں تک پہنچ جائے کیا انھوں نے حرام کام کیا؟ابو بکرو عمر اسی مسجد میں بلند آواز سے خطبہ دیا کرتے تھے اور تکبیر کہتے تھے کیاا ن سب لوگوں نے حرام کا م انجام دیا؟اور ابھی ابھی تمہارے خطیب نے بلند آواز سے خطبہ دیا تم لوگ مل کر با آواز بلند تکبیر کہہ رہے تھے کیا یہ لوگ قرآن کے خلاف کر رہے تھے؟ کیونکہ قرآن اس سے منع کرتا ہے ؟
منتظم: ”اچھا تو پھر آیت کاکیا مطلب ہوا؟“
میں: ”اس آیت سے مراد ہے بے فائدہ اور بے جا شور و غل نہ کرو جو آنحضرت کی حرمت و احترام کے خلاف ہو جیسا کہ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت ہے:
قبیلہ ”بنی تمیم“کے کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے پیچھے سے چیخ کر کہنے لگے یا محمد باہر نکلو اور ہم سے ملاقات کرو۔
دوسری بات یہ کہ ہم تو نہایت ہی تواضع و احترام سے زیارت پڑھنے میں مشغول ہیں اور مذکورہ آیت میں غور وفکر کرنے سے یہ سمجھ میں آتاہے کہ اس آیت میں وہ لوگ شامل ہیں جو رسول اکرم کی اہانت کی غرض سے چیخ کر آواز لگاتے تھے کیونکہ اس آیت میں اعمال کے بیکار ہونے کی بات آئی ہے اور یقینا اس طرح کی سزا کافر یا گناہ کبیرہ انجام دینے والے اور توہین کرنے والے کے لئے ہوگی نہ کہ ہمارے لئے کیونکہ ہم تو نہایت ادب واحترام سے ان کی زیارت پڑھ رہے ہیں اگر چہ ذراسی آواز بلند ہوگئی تو کیا ہوا اس لئے روایت میں آیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثابت بن قیس (رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطیب )جن کی آواز بہت ہی موٹی تھی نے کہا کہ اس آیت سے مراد میں ہوں اور میرے نیک اعمال حبط ہو گئے۔جب اس بات کا علم آنحضرت کو ہوا تو آپ نے فرمایا: ”نہیںایسانہیں ہے ثابت بن قیس جنتی ہے“۔(کیونکہ وہ اپنے وظیفہ پر عمل کرتا ہے نہ کہ توہین کرتا ہے)۔
۷۴۔علمائے اہل سنت سے شیخ بہائی کے پدربزرگوار کے مناظرے
دسویں صدی کے بہت ہی مشہور ومعروف عالم علامہ شیخ حسن بن عبد الصمد عاملی علیہ الرحمة (شیخ بہائی کے پدر بزرگوار)گزرے ہیں۔
موصوف محرم ۹۱۸ ھ جبل عامل میں پیدا ہوئے ۸ / ربیع الاول ۹۸۴ ھ میں ۶۶/ سال کی عمر میں رحلت فرماگئے وہ زبردست محقق ، تجربہ کار دانشور اور ایک عظیم شاعر تھے موصوف ۹۵۱ ھ میں شہر ”حلب“ (سوریہ کا ایک شہر )میں سفر کیا وہاں ان کی ملا قات ایک صاحب علم و دانش اہل سنت عالم کے سے ہوئی اور شیعہ کے مذہب کے بارے میں چند جلسہ اور مناظرے ہوئے سر انجام وہ سنی عالم شیعہ ہو گیا،
یہاں پر ہم ان مناظروں کا خلاصہ چار مناظروں میں پیش کرتے ہیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟
حسین بن عبد الصمد کہتے ہیں: جب میں شہر حلب میں وارد ہوا تو وہاں پر ایک حنفی عالم جو بہت سے علوم وفنون میں ماہر تھا اور اس کا شمار محققین میں ہوتا تھا اور وہ دھوکا دھڑی سے پاک تھا۔اس نے مجھے اپنے گھر پر ہی ٹھہرا لیا۔
بات چیت ہوتے ہوتے تقلید کی بات چھڑ گئی اور پھر ہوتے ہوتے یہی موضوع ہمارے مناظرہ کا محور ہوگیا۔
حسین: ”تم لوگوں کے نزدیک کیا قرآن ،احادیث یا سنت میں سے کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس کے ذریعہ ثابت ہو سکے کہ ابو حنیفہ کی تقلید اور پیروی ہم پر واجب ہے ؟“
حنفی: ”نہیں اس طرح کی کوئی آیت یا روایت وارد نہیں ہوئی ہے“۔
حسین: ”کیا مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہم ابو حنیفہ کی پیروی کریں ؟“
حنفی عالم: ”نہیں اس طرح کی کوئی آیت یا روایت وارد نہیں ہوئی ہے“۔
حسین: ”تو پھر کس دلیل کی بنا پر تمہارے لئے ابو حنیفہ کی تقلید جائز ہے ؟“
حنفی عالم: ”ابو حنیفہ مجتہد اور میں مقلد ہوں اور مقلد پر واجب ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے“۔
حسین: ”جعفر بن محمد علیہ السلام جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟“
حنفی عالم: ”جعفر بن محمد علیہ السلام کا مقام اجتہاد میں بہت اونچا ہے اور وہ علم و تقویٰ میں سب سے زیادہ بلند تھے ان کی توصیف ممکن نہیں ہمارے بعض علماء نے ان کے جن چارسو شاگردوں کے نام گنا ئے ہیں وہ سب کے سب نہایت پڑھے لگے اور قابل اشخاص تھے انھیں لوگوں میں سے ابو حنیفہ بھی تھے“۔
حسین: ”تم اس بات کا اعتراف کر رہے ہو کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجتہد تھے ،پائے کے عالم دین اور صاحب تقویٰ تھے ہم شیعہ اسی لئے ان کی تقلید کرتے ہیں ان باتوں کے باوجود تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ ہم گمراہ ہیں اور تم ہدایت کی راہوں پر گامزن ہو؟
جب ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام معصوم تھے اور غلطی نہیں کر سکتے ، ان کا حکم خدا کا حکم ہوتا ہے اور اس بارے میں ہم بہت سے دلائل متفقہ بھی رکھتے ہیں وہ ابو حنیفہ کی طرح قیاس اور استحسان کی بنیاد پر فتویٰ نہیں دیتے تھے، ابو حنیفہ کے فتوے میں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے فتوی میں ایسا کوئی امکان نہیں پایا جاتا تھا،بہر حال امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کے متعلق بحث چھوڑتے ہوئے اس وقت میں صرف آپ کی ایک بات پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے خود کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام مجتہد تھے لیکن ہمارے پاس ایسے دلائل موجو دہیں جن کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام تھے“۔
حنفی عالم: ”اس انحصار کے لئے تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق علیہ السلام تھے۔
حسین: ہماری چند دلیلیں ہیں:
۱ ۔ ہماری پہلی دلیل یہ ہے کہ اس بات کا تو آپ نے بھی اعتراف کیا ہے اور آپ کے علاوہ اسلام کے چاروں مشہور فرقے یہ بات قبول کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام علم و تقویٰ اور عدالت میں تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے میں نے اس بات میں کسی کو اعتراض کرتے ہوئے نہیں سنا،تمام اسلامی ادیان کی احادیث وروایات کی کتابوں میں کوئی کہیں یہ نہیں دکھا سکتا کہ کسی نے امام علیہ السلام کے کسی عمل پر اعتراض کیا ہو جب کہ وہ لوگ شیعوں کے حد درجہ دشمن تھے اور حکومت وقت ہمیشہ ان کے ہاتھوں میں رہنے کے باوجود کسی دشمن نے بھی آپ کی طرف کوئی ایسی بات منسو ب نہیں کی
یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو ان کے علاوہ کسی اور مسلک کے امام میں موجود نہیں ہے۔
لہٰذا بغیر کسی تردید کے تقلید اس کی واجب ہو گی جو علم و فضل و تقویٰ اور عدالت میں سے افضل و برتر ہو، اور محققین اس بات پر اجماع رکھتے ہیں کہ اچھے اور مدلل فتووں کی موجودگی میں کمزور اور غیر مستند فتاوی پر عمل کرنا جائز نہیںہے۔
اس بنا پر یہ کیونکر جائزہوسکتا ہے کہ اس شخص کی تقلید ترک کریں جس کی سبھی اسلامی علماء افضلیت کا اقرار کرتے ہیں، اور ایسے شخص کی تقلید کریں جس کے یہاں شک و تردید پایا جاتا ہو!،اور چونکہ مسئلہ تقلید میں شک و تردید کا نہ ہونا عدالت سے بھی زیادہ اہم ہے، چنانچہ یہ بحث اپنے مقام پر کی گئی ہے۔
علمائے حدیث میں سے تمہارے ایک امام ”امام غزالی“ ہیں جنھوں نے ابو حنیفہ پر تنقید کرتے ہوئے ”المنخول“ نامی کتاب لکھی ہے، اسی طرح شافعی کے بعض شاگردں نے بھی ”النکت الشریفه فی الردّ علی ابی حنیفه
“ نامی کتاب لکھی ہے۔
اس بنا پر اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ تقلید اسی شخص کی جائز ہے جس کے علم و تقویٰ اور عدالت پر سبھی کا اتفاق ہو، اور تمام اہل تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب راجح (افضل) فتویٰ موجود ہے تو پھر مرجوح (غیر افضل) فتویٰ پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
۲ ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک فرد سے ہیں جس کی آیہ تطہیر نے صراحت کی ہے اور اس بنا پر وہ ہر طرح کی نجاست اور پلیدی سے پاک ہیں جیسا کہ لغوی علامہ ابن فارس صاحب کتاب ”معجم مقاییس اللغة“نے خود اپنی کتاب ”مجمل اللغة“میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت میں شامل ہیں جب کہ ابن فارس اہل تسنن کے مشہورو معروف عالم دین ہیں اور یہ وہی مقام طہارت ہے جس کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے متعلق شیعوں کا اعتقاد ہے لیکن ابو حنیفہ کے بارے میں اجماع ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام میں سے نہیں ہے لہٰذا قرآن کے مطابق ہمیں ایسے افراد کی تقلید کرنا چاہئے جو تمام خطا اور نجاست سے پاک اور منزہ ہوں تاکہ مقلدین یقین کی منزل تک پہنچیں اور نجات یافتہ ہوں۔
حنفی عالم: ”ہم اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اہل بیت رسول میں ہیں بلکہ ہمارے لحاظ سے آیہ تطہیر صرف پانچ افراد(پنجتن) ہی کو شامل کرتی ہے“۔
حسین: ”بالفرض اگر ہم قبول بھی کرلیںکہ امام جعفر صادق علیہ السلام ان پانچ میں سے نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کا حکم اور ان کی پیروی تین دلیلوں سے انھیں پانچ افراد کی مانند ہوگی“۔
۱ ۔جو شخص بھی پنجتن کی عصمت کا معتقد ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کو بھی قبول کر تا ہے اور جو بھی پنجتن کی عصمت کا قائل نہیں ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی عصمت کا بھی قائل نہیں ہے۔پنجتن کا معصوم ہونا قرآن کی آیہ تطہیر سے ثابت ہے بس اسی وجہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کی بھی عصمت ثابت ہوتی ہے کیونکہ علمائے اسلام اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی عصمت میں کوئی فرق نہیں ہے اور امام جعفرصادق علیہ السلام کی عصمت کا قائل نہ ہو کر پنجتن کی عصمت کا قائل ہونا یہ اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔
۲ ۔راویوں اور مورخین کے نزدیک یہ بات مشہور ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور ان کے آبائے اجداد نے تحصیل علم کے لئے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا اور یہ بھی کہیں پر نقل نہیں ہوا کہ ان لوگوں نے علماء اور مصنفین کے دروس میں شرکت کی ہو بلکہ تمام لوگوں نے یہ نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے والد (امام محمد باقر علیہ السلام)سے اور امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے والد امام حسین علیہ السلام سے علم حاصل کیا اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام حسین علیہ السلام اہل بیت نبی میں سے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی باتیں اور اقوال اجتہاد کا نتیجہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی ان کے پاس سوال کرنے گیا تو وہ جواب لے کر واپس آتا تھا، اور جواب دینے میں کسی چیز کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس سلسلہ میں خود آپ نے تصریح کرتے ہوئے فرمایاہے: ہم لوگوں کی تمام باتوں کا منبع ہمارے بزرگ آباء واجداد ہیں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا قول ہے اور یہ بات صحیح طریقہ سے ثابت ہے۔
پس نتیجہ یہ ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے اقوال وہی ہیں جو اقوال ان ذوات مقدسہ کے ہیں جن کے لئے آیہ تطہیر نے پاک وپاکیزہ ہونے کی ضمانت لی ہے۔
۳ ۔تمہاری صحیح روایتوں میں متعدد طریقوں سے حدیث ثقلین نقل ہوئی ہے جس میں آنحضرت نے فرمایا ہے:
”انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی الثقلین کتاب الله و عترتی ، اهل بتی
۔۔۔“
”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزوں کو چھوڑے جارہا ہوں اور جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے کبھی میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت میرے اہل بیت“
یہ حدیث واضح طور پر یہ بیان کر رہی ہے کہ قرآن و عترت سے تمسک موجب ہدایت ہوتا ہے اور تمام اسلامی فرقوں میں صرف مذہب شیعہ ہی ایسا فرقہ ہے جس نے ان دونوں سے تمسک اختیار کیا کیونکہ شیعوں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے دوسرے لوگوں سے تمسک اختیار کیا۔
حدیث ثقلین میں یہ نہیں آیا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان قرآن اور ابو حنیفہ یا قرآن اور شافعی کو چھوڑا ہے ، پس ممکن ہے کہ عترت رسول کے علاوہ دوسرے لوگوں سے تمسک کیا جائے
۲۔مذہب تشیع کی عدم شہرت اور اہل سنت کی شہرت کے متعلق ایک مناظرہ
اس سے پہلے والے مناظرہ میں جب امام جعفر صادق علیہ السلام کی برتری کی بات آئی تو حنفی عالم نے کہا:
یہ بات صحیح ہے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ امام جعفر صاق علیہ السلام اور ان کے آباء واجداد سب کے سب بہت ہی پڑھے لکھے اور مجتہد تھے ان کا علم دوسرے لوگوں سے بہت بالاتر تھا اور ان کی تقلید ان کے مقلدوں کے لئے نجات کی ضمانت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کا مذہب اتنا زیادہ نہیں پھیلا کہ عالم کے گوشے گوشے میں ہر شخص اس سے واقف ہو جائے جب کہ مذاہب اربعہ پوری دنیا میں مشہور ہیں اور سبھی ان سے واقف ہیں اور تمام مسلمان اسی پر عمل پیرا ہیں“۔
حسین: ”اگر تمہارا مطلب یہ ہے کہ مذہب شافعی اور مذہب حنفی وغیرہ نے ہمارے مذہب کو نقل نہیں کیا تو بات صحیح ہے ، لیکن اس سے ہمارے مذہب کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ ان کی طرح ہم نے بھی ان کے مذہب کی کوئی تبلیغ نہیں کی ، اسی طرح خود مذہب شافعی نے مذہب حنفی و مذہب مالکی کو نقل نہیں کیا اور اسی طرح مذہب مالکی نے حنفی و شافعی مذہب کو نقل نہیں کیا، اسی طرح اسلام کے تمام مذاہب کا حال ہے ، لہٰذا کسی مذہب کا دوسرے مذہب کا نقل نہ کرنا کسی مذہب کے لئے نقصان دہ ثابت نہیں ہوگی۔
لیکن اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی نے بھی مذہب تشیع نقل ہی نہیں کیا ، تو تمہارا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کیونکہ خود شیعہ اور بہت سے اہل سنت اور دوسرے اسلامی فرقوں نے جعفری مذہب کے آداب واخلاق کو نقل کیا ہے، اس کے علاوہ خود شیعوں نے بھی اپنے مذہب کی ترویج و نشر کے لئے بہت اہتمام کیا ہے، سلسلہ روات کے متعلق تو شیعوں نے حددرجہ تحقیق کی ہے، اور اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔
حالانکہ علمائے شیعہ ،سنی علماء کے مقابل کم ہیں لیکن اگر ان کا موازنہ اہل تسنن کے مختلف دیگر مسلکوں سے الگ الگ کیا جائے تو یہ ان کے مقابل کم ہرگز نہیں ہو سکتے خاص طور پر حنبلی اور مالکی علماء سے یہ بالکل کم نہیں ہیں بلکہ ان سے زیادہ خود شیعہ علماء ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ علمائے شیعہ ہر دور میں اپنے زمانہ کے دوسرے مذہب کے علماء کے مقابل تقویٰ وعلم میں آگے ہی رہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ بارہ اماموں کے زمانہ میں کسی بھی عالم کی علمی اور عملی سطح ان لوگوں کے برابر نہیں تھی اور ا ن کے شاگردوں کی علمی سطح اور بحث و استدلال کی صلاحیت بلا شبہ دوسرے تمام مذاہب کے علماء سے کئی گنا زیادہ تھی جیسے ہشام بن حکم،ہشام بن سالم ،جمیل بن دراج،زرارہ بن اعین ،محمد بن مسلم اور ان کے جیسے بہت سے لوگ جن کی تعریف ان کے مخالفین یہ کہہ کر کرتے تھے کہ ”یہی پایہ کے اور حقیقی عالم ہیں“۔
امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ کے بعد شیعہ فرقہ میں ایک سے ایک جید علماء گزرے ہیں جیسے شیخ صدوق ،شیخ کلینی ،شیخ مفید،شیخ طوسی ،سید مرتضیٰ اور ان کے بھائی سید رضیٰ ،ابن طاووس، خواجہ نصیر الدین طوسی،میثم بحرانی،علامہ حلی،ان کے بیٹے فخر المحققین اور ان جیسے سیکڑوں علماء نے اپنی تالیفات اور علمی مناظروں سے مشرق ومغرب کو علم وحکمت سے بھر دیا ان کا انکار صرف تعصب اور جہالت کے نتیجہ میں ہی ہو سکتا ہے۔
لہٰذا ب تمہیں چاہئے کہ تم ہمارے اسی مذہب کی پیروی کرو جس کی ہم تقلید کرتے ہیں کیونکہ ہمارے امام تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہیں اور جو بھی حقیقتاً سچے راستے کی تلاش میں ہوگا اسے آخر کا ر ہماری روش ہی اختیار کرنا پڑے گی تمہارے لئے لازم ہے کہ تم مذہب حق کے بارے میں تحقیق کرو کیونکہ تم غیر معصوم کے پیرو ہو جب کہ ہمارے لئے اس طرح کی کوئی حاجت نہیں ہے کیونکہ ہم ایسے کی تقلید کرتے ہیں جو معصوم ہے یوں بھی ہمارے یہاں امام کے لئے معصوم ہونا شرط ہے لہٰذا وہ فرقہ ناجیہ ہمیں ہیں اگر چہ ابھی تمہاری زبان ہمارے مذہب کی حقانیت کی گواہی نہیں دے رہی ہے مگر اس کے باوجود تمہارے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو تمہیں مذہب تشیع اختیار کرنے پر اکسا رہے ہیں کیونکہ تمہا ر اخود اعتراف ہے کہ ایسے مجتہد کی تقلید سبب نجات ہے وہ مجتہد صرف اور صرف ہمارے ہی مذہب میں پایا جاتا ہے۔
جب بات یہاں تک پہنچی تو حنفی عالم لا جواب ہوگیا اور خود اپنے اس سوال کو چھوڑ کر دوسرے مختلف سوالات کی پنا ہ ڈھونڈنے لگا۔
۷۵۔اصحاب کو برا بھلا کہنے کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
حنفی عالم: ”اب بھی میرے لئے ایک موضوع تشنہ رہ گیا ہے وہ یہ کہ اصحا ب پیغمبر کو بر ابھلا کہنا تمہاری نظر میں کیسا ہے؟ وہ اصحاب جنھوں نے آنحضرت کی جان ومال سے مدد کی اور تلواروں کو نیام سے نکال کر اپنے زور بازو سے مدد کی ، اور خدا کی توفیق سے نہ جانے کتنے شہروں کو قبضے میں کر کے اس پر پر چم توحید لہرا دیا مثال کے طور پر وہ فتوحات جوعمر بن خطاب کے زمانہ میں ہوئی ہیں وہ کسی بھی خلیفہ کے زمانہ میں نہیں ہوئیں کیونکہ ان کی قدرت وحشمت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا میں جب بھی تمہارے دلائل پرغور کرتا ہوں تو یہی سوچتاہوںکہ مذہب شیعہ میں سچائی اور حقانیت ہے لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ تمہارے مذہب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقرب اصحاب کو بر ابھلا کہنا صحیح ہے تو یہ مجھے بہت غلط عمل محسوس ہوتا ہے اور اسی سے میری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ مذہب باطل اور بے بنیاد ہے“۔
حسین: ”ہمارے مذہب میں ایسا نہیں ہے کہ اصحاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برابھلا کہنا واجب ہے بلکہ عوام انھیں برابھلا کہتے ہیں اور ہمارے علماء میں کسی نے بھی یہ فتویٰ نہیں دیا کہ انھیں برابھلا کہنا واجب ہے ان کی فقہی کتابیں دستیاب ہیں تمہیں ان میں کہیں نہیں مل سکتا ہے کہ ان اصحاب کو برا بھلا کہنا واجب ہے۔
اس کے بعد میں نے اس کے سامنے بہت ہی سخت قسم کھائی کہ ”اگر کوئی شخص مذہب تشیع پر ہزار سال زندہ رہے اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کو بھی دل وجان سے قبول کرے اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرے لیکن اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برابھلا کہے تو وہ گنہگار ہوگا اور اس کا ایمان ناقص مانا جائے گا“۔
حنفی عالم نے جب میری یہ بات سنی تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ نہایت خوش وخرم ہو گیا کیونکہ میں نے اس کی بات کی تصدیق کر دی تھی۔
اس کے بعد میں نے اس سے کہا: ”جب تم پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہر لحاظ سے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں تو پھر تم کیوں انھیں کا مذہب نہیںاختیار کرتے ؟“
حنفی عالم: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اہل بیت علیہم السلام کا پیرو کار ہوں لیکن میں صحابہ کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا“۔
حسین: ”تم کسی بھی صحابی کو برانہ کہو لیکن جب تمہیں اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ اہل بیت، اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ایک خاص مرتبہ کے حامل ہیں تو پھر ان کے دشمنوں کے ساتھ تمہارا سلوک کیا ہونا چاہئے ؟
(ہدایت یافتہ )حنفی عالم: ”میں اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں سے بیزار ہوں“۔
حسین: ”تمہاری شیعیت کے درست ہونے کے لئے میرے نزدیک اتناہی کافی ہے“۔
اسی دوران اس نے کہا : ”میں خدا اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ میں ان کا چاہنے والا اور پیرو ہوں اور ان کے دشمنوں سے بیزار ہوں“۔
اس کے بعد اس نے مجھ سے چند شیعی عقائد اور فقہ کی کتابیں مانگی میں نے اسے ”مختصر النافع“ (شرح شرایع الاسلام، ”محقق حلی (متوفی ۶۷۶ ھ)دیدی۔
اور اس طرح کا تمسک اختیار کرنے والا بھی نجات پائے ؟ہماری یہ بات یہ تقاضا کرتی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تقلید کی جائے اور اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیروی ابو حنیفہ کی شک آمیز تقلید پر ہزار فوقیت رکھتی ہے۔
____________________
(۷۷) یہ اس بات پر ایک ضمنی اقرار ہے کہ حدیث غدیر حضرت علیعلیہ السلام کی خلافت پر واضح بیان ہے لیکن ہم مجبور ہیں کہ اس کی وضاحت سے دست بردار ہوجائیں اور اس کی تاویل کریں (غور کریں !)۔