۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 35173
ڈاؤنلوڈ: 6436

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35173 / ڈاؤنلوڈ: 6436
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

۸۶۔قبروں کی عمارتوں کو ویرانی کے بارے میں ایک مناظرہ

اشارہ

جب میں مدینہ گیا تو وہاں اسلام کی عظیم شخصیتوں جیسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ،امام سجاد علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی قبروں کو زمین کے برابر اور خاک آلود دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا حالانکہ ان تمام قبروں پر پہلے قبے اور منیاریں تھی مگر وہابیوں نے شرک اور حرام کے بہانے سے ۱۳۴۴ ھ میں انھیں مسمار کر دیا۔

اسی سلسلہ میں ایک شیعہ اور وہابی عالم کے درمیان ایک مناظرہ ہوا جو مندرجہ ذیل تفصیل کے ساتھ پیش خدمت ہے:

شیعہ عالم: ”تم لوگ کیوں ان مزاروں کو ویران کر کے ان کی اہانت کرتے ہو؟“

وہابی: ”کیا تم حضرت علی علیہ السلام کو مانتے ہو؟“

شیعہ عالم: ”کیوں نہیں وہ تو رسول کے بلا فصل خلیفہ اور ہمارے پہلے امام ہیں“۔

وہابی: ”ہماری معتبر( ۵۷ ) کتابوں میں اس طرح نقل ہوا ہے“۔

حدثنا یحیيٰ بن یحیيٰ ،وابو بکر ابی شیبه وزهیر بن حرب قال یحیيٰاخبرنا ،وقال الآخرون ،حدثنا وکیع عن سفیان عن حبیب ابن ابی الهیاج الاسدی قال لی علی ابن ابی طالب ”الا ابعثک علی ما بعثنی علیه رسول الله ان لا تدع تمثالا الاطمسته ولا قبراً مشر فاً الا سویته ۔“

”تین آدمی یحی بن یحی، ابو بکر اور زہیر بن حرب وغیرہ نقل کرتے ہیں کہ وکیع نے سفیان اور اس نے حبیب اور اس نے ابی وائل اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے ابی الہیاج سے فرمایا:

کیا میں تمہیں اس بات پر ترغیب دلاوں جس کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ترغیب کی ہے کوئی تصویر بھی بغیر محو کئے نہ چھوڑو اور کوئی بھی بلند قبر بغیر زمین کے برابر کئے نہ چھوڑو“۔

شیعہ عالم: ” یہ حدیث سند اور دلالت دونوں اعتبار سے مخدوش ہے سند کی رو سے اس کہ لئے اس کے راویوں میں وکیع ،سفیان ،حبیب بن ابی ثابت ،ابی وائل جیسے لوگ ہیں کہ جن کی حدیث قابل اطمینان نہیں ہے جیسا کہ احمد بن حنبل نے ”وکیع“کے بارے میں نقل کیا ہے”اس نے پانچ سو حدیثوں میں غلطی کی ہے“۔( ۵۸ )

اسی طرح” سفیان “کے بارے میں ابن مبارک سے نقل ہوا ہے کہ ”سفیان حدیث نقل کرتے وقت تدلیس کرتا تھا لیکن جب مجھے دیکھتا تو شرماجاتا تھا، تدلیس: یعنی حق وناحق کو مخلوط کردینا“۔( ۵۹ ) حبیب بن ثابت کے بارے میں ابن حیان نے نقل کیا ہے کہ وہ بھی حدیثوں میں تدلیس کرتا تھا۔( ۶۰ )

ابو وائل کے بارے ملتا ہے کہ وہ ناصبی اور امام علیہ السلام کے دشمنوں میں سے تھا۔( ۶۱ )

قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام صحاح ستہ میں ابو الہیاج سے صرف یہی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ راویوں میں سے نہیں تھا اور قابل اعتماد بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں سمجھی جا سکتی۔

لیکن دلالت اور معنی کے لحاظ سے:

الف: ”مشرف“جو مذکورہ حدیث میں آیا ہے کہ اس کے معنی لغت میں ایک ایسا بلند مقام جو دوسرے مکانوں سے اونچا ہو اس کی وجہ سے تمام بلندی اس میں شامل نہیں ہوگی۔

ب: ”لفظ”سویة“کے معنی لغت میں برابر قرار دینے کے ہیں اور اسی طرح اس کے دوسرے معنی ٹیڑھی چیز کو سیدھا کرنا ہے۔

اب اس حدیث کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ ہر اونچی قبر کو ویران کر دو جب کہ قبروں کو زمین کے برابر کرنا اسلامی احکامات کے خلاف ہے کیونکہ تمام اسلام فقہاء نے قبر کو زمین سے ایک بالشت بلند کر نا مستحب قرار دیا ہے۔( ۶۲ )

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ”سویة “کا مطلب قبر کے بالائی حصہ کو ایک سطح میں برابر کر دیا جائے نہ یہ کہ اسے اونٹ کے کوہان یا مچھلی کی پشت کی طرح کر دیا جائے جیسا کہ اہل سنت کے علماء نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ان تین احتمالات ،قبر ڈھادینا قبر کو زمین کے برابر کر دینا اور اس کے بالائی حصہ کو مسطح کرنے میں پہلا اور دوسرا احتمال غلط ہے اور تیسرا صحیح ہے، اس بنا پر یہ حدیث دلالت کے اعتبار سے بھی اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ قبروں کا ویران کرنا جائز ہے۔( ۶۳ )

یہاں ہم تھوڑا سا اضافہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر امام علی علیہ السلام مزار اور قبور کو ویران کرنا واجب اور ضروری جانتے تو ان کی خلافت کے زمانہ میں اولیاء خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبریں موجود تھیں انھیں کیوں نہیں ویران کیا کیونکہ تاریخ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ملتی کہ آپ نے کسی قبر کو مسمار کیا ہو کہ یہ اونچی ہے۔

اور اگر عصر حاضر میں وہابی مزاروں کو ویران کرنا واجب جانتے ہیں تو ابھی تک پیغمبر اکرم ، ابوبکر وعمر کے مزاروں کو کیوں نہیں ویران کیا؟

وہابی: ”ان کے مزاروں کو اس لئے خراب اور ویران نہیں کیا کیونکہ ان کے اور نماز گزاروں کے درمیان دیوار حائل ہوتی ہے جس کی وجہ سے نماز گزار انھیں اپنا قبلہ قرار نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان پر سجدہ کر سکتے ہیں“۔

شیعہ عالم: ”یہ کام تو صرف ایک دیوار کی وجہ سے قابل قبول تھا لیکن اس پر گنبد خضرا اور اس کے قریب گلدستہ کی کوئی ضرورت نہ تھی“۔

وہابی: ”میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کیا تمہارے پاس قرآن سے کوئی دلیل ہے کہ تم اولیائے خدا کی قبروں کے لئے خوبصورت مقبرہ بنوائیں؟“

شیعہ عالم: ”اول تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز یہاں تک کہ مستحبات کا بھی ذکر قرآن میں موجود ہو اور اگر ایسا ہوتا تو قرآن مجید اپنے موجودہ حجم سے کئی گنا زیادہ ہوتا۔

دوم یہ کہ قرآن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسے سورہ حج کی ۳۲ ویں آیت میں آیا ہے۔

( وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ )

”اور جو شعائر خدا کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے“۔

لفظ”شعائر“شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت اور نشانی کے ہیں اس آیت میں خدا کے وجود اور اس کی علامت نہیں بلکہ اس کے دین کی علامتوں کا ذکر ہے۔( ۶۴ )

سورہ شوری کی ۲۳ ویں آیت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقرباء کی مودت اجر رسالت کہی گئی ہے۔

کیا اگر ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقرباء کے مقبروں کو ان کی محبت اور احترام میں خوبصورت بنائیں اور ان کو صاف ستھرا رکھیں تو یہ کوئی غلط کام ہوگا؟“

مثال کے طور پر اگر قرآن کو ایک دھول سے اٹی ہوئی جگہ پر زمین ہی پر رکھ دیا جائے تو کیا یہ قرآن کی بے ادبی نہیں ہو گی؟ اور یہ مان بھی لیں کہ یہ توہین نہ ہوگی تب بھی اگر اسے صاف ستھری جگہ پر نہایت ادب واحترام کے ساتھ رکھیں تو کیا یہ کام اچھا نہ ہوگا؟“

وہابی: ”یہ جو تم کہہ رہے ہو لوگوں کے پسند کی باتیں ہیں کیا تمہارے پاس قرآن کی کوئی دلیل بھی موجود بھی ہے ؟“

شیعہ عالم: ”قرآن میں اصحاب کہف کے ذکر میں آیا ہے۔

”جب ان لوگوں نے غار میں پناہ لی اور وہیں ایک نہ جاگنے والی گہری نیند میں سوگئے تو لوگوں نے انھیں ڈھونڈنکالا ان لوگوں کے دمیان اس جگہ کے بارے میں نزاع ہو گیا کچھ لوگوں نے کہا:

ابنوا علیهم بنیانا “یہاں ایک عمارت بنادو“۔

لیکن دوسرے گروہ نے کہا: ”لنتخذن علیهم مسجدا “ہم یہاں مسجد بنائیں گے“۔

قرآن مجید نے دونوں نظریوں کوذکر کیا ہے لیکن اس نے اس پر کسی طرح کی کوئی تنقید نہیں کی اگر ان دونوں نظریوں میں سے کوئی رائے حرام اور ناجائز ہوتی تو قرآن ضرور اس بات کا ذکر کرتا لیکن بات تو یہ تھی کہ یہ دونوں گروہ اصحاب کہف کے احترام کے لئے اپنی صواب دید کے مطابق کام کرنا چاہتے تھے۔ا س طرح تین مذکورہ آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اولیاء کے قبروں کو شاندار بنا نا مستحب ہے۔( ۶۵ )

آخری بات یہ کہ جو بعض تاریخی اور حدیث کتابوں میں دیکھا گیا ہے کہ قبروں پر مزار اور قبہ نہ بنا یا جائے تو وہ اس لئے ہے کہ کہیں خود قبور اولیاء ،عبادت گاہ اور سجدہ گاہ نہ بن جائے لیکن اگر مومن وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے والا کمال خلوص سے مزار اور مقبروں کو مقامات مقدسہ ہونے کی وجہ سے یہاں اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس میں شرک کی کیا بات ہے بلکہ اس طرح تو اس کی توحید اور اخلاص میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

۸۷۔ خانہ کعبہ میںحضرت علی علیہ السلام کی ولادت پر ایک مناظرہ

اشارہ

امام علی علیہ السلام کے امتیازات اور افتخارات میں سے ایک عظیم افتخار یہ بھی ہے کہ آپ دنیا کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور یہ چیز شیعہ اور سنی دونوں طرح سے ثابت اوریقینی ہے۔

علامہ امینی ،صاحب الغدیر نے اپنی کتاب کی چھٹی جلد میں اس بات کو اہل سنت کی ۱۹/ معتبر کتابوں سے نقل کیا ہے۔

یہ بات خود امام علی علیہ السلام کی افضلیت کے لئے ایک اہم اور زندہ ثبوت ہے جو دوسروں میں نہیں پائی جاتی اور اس بات سے ان کی رہبری اور ولایت بھی منحرف لوگوں پر ثابت ہوتی ہے۔

حاکم نے اپنی کتاب مستدرک (ج ۲ ،ص ۴۸۳) میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔

چنانچہ اسی کے متعلق ایک شیعہ اور سنی عالم کے مناظرہ پر توجہ فرمائیں:

سنی عالم: ”تاریخ میں آیا ہے کہ حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوا ہے“۔

شیعہ عالم: ”اس طرح کی چیز تاریخ میں ثابت نہیں ہے جیسا کہ بڑے علماء ،جیسے ابن صباغ مالکی( ۶۶ ) ،گنجی شافعی( ۶۷ ) شبلنجی( ۶۸ ) اور محمد بن ابی طلحہ شافعی( ۶۹ ) کہتے ہیں:

لم یولد فی الکعبة احد قبله “۔

”حضرت علی علیہ السلام سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔

(اس بات پر توجہ رہے کہ حکیم بن حزام حضرت علی سے عمر میں بڑا تھا )یہ گڑھی ہوئی روایت بھی حضرت علی علیہ السلام کے دشمنوں کی کارستانی ہے۔انھوں نے اس طرح اس عظیم افتخار کی اہمیت کو ختم کرنا چاہا ہے“۔

سنی عالم: ”کعبہ میں ولادت ہونا مولود کے لئے کون سا افتخار ہے ؟“

شیعہ عالم: ”ایک وقت یہ ہے کہ اگر کوئی عورت اتفاق سے ایسی جگہ پہنچ جائے اور وہاں ولادت ہو جائے تو اس یقینا اس میں کوئی افتخار نہیں ہے، لیکن اگر کوئی عورت اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہو کہ خدا اس کے لئے خاص انتظام کرے اور وہاں پہنچ کر بچہ کی ولادت ہوتو یہ بات یقینا دونوں کے لئے افتخار کا باعث ہوگی۔حضرت علی علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت خدا وند متعال کی خاص عنایتوں میں ہے جیسا کہ دیوار کاشق ہونا اور جناب فاطمہ بنت اسد کا اندر جانا سب کرامت ولطف خداوند کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے ؟“( ۷۰ )

سنی عالم: ” جب علی علیہ السلام پیدا ہوئے تو وہ بعثت سے ۱۰ سال پہلے کا واقعہ ہے اس وقت کعبہ میں بت بھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں تھی بلکہ وہ بت کدہ تھا اور حضرت علی علیہ السلام جب ایک بت کدہ میں پیدا ہوئے تو بھلا ان کے لئے کون سی فضیلت کی بات ہوگی“۔

شیعہ عالم: ” کعبہ وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو دنیا میں بنائی گئی ،جسے حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا اور جہاں جنت سے حجر الاسود لا کر نصب کیا گیا تھا اس کے بعد طوفان نوح کے بعد جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ اس کی تعمیر کی کعبہ پوری تاریخ میں تمام انبیاء اور اولیاء خدا اور فرشتوں کا جائے طواف رہا ہے، اب اگر اس مقدس جگہ پر کچھ دنوں کے لئے بت پرست قابض ہوجائیں اور اسے بت کدہ بنا دیں تو اس کی عظمت ومنزلت میں کمی نہیں آئے گی مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مسجد میں ایک بوتل شراب لے جائے تو کیا اس مسجد کی عظمت ختم ہو جائے گی ؟

اگو کوئی شخص حالت جنابت میں یاشراب لئے مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ حرام کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا لیکن جب فاطمہ بنت اسد خدا کے حکم اور مشیت سے کعبہ میں داخل ہوئیں تو یہ ان کی فضیلت و طہارت کی دلیل ہے اور وہ اس طرح سے خدا کی مہمان ہوئیں۔چنانچہ اس طرح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات حضرت علی علیہ السلام کے افتخار کا سبب ہے۔

اسی وجہ سے اوائل اسلام میں شاعروں نے خاص طور سے اس کرامت اور عنایت کو اپنے شعروں میں بیان کیا ہے اور خود اس بات کو ایک عجیب وغریب واقعہ سے قرار دیا گیا ہے۔

عبدالباقی عمری اس کے متعلق حضرت علی علیہ السلام سے خطاب کر کے کہتا ہے:

انت العلی الذی فوق العلی رفعا

ببطن مکة وسط البیت اذ وضعا ( ۷۱ )

”تم وہی ہو جو بلندیوں سے بھی بلند ہو گئے ،جب کہ تم مکہ کے درمیان ،خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔

اسی طرح فارسی شاعر کہتا ہے:

درکعبہ تولد وز محراب شد شہید

نازم بہ حسن مطلع وحسن ختام او

”کعبہ میں ولادت اور محراب میں شہادت، ان کے آغاز و انجام ناز کرتا ہوں“۔

سنی عالم نے ہار مان کر مناظرہ کے اختتام کا اعلان کردیا۔

۸۸۔امامت اور حدیث ”اصحابی کالنجوم “سے متعلق مناظرہ

شیعہ استاد: ”ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت ،خلافت ،پیغمبر کی جانشینی دنیا وآخرت دونوں کی ایک عظیم زعامت و ریاست ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جانشین شریعت کی حفاظت و احکام خدا کی نشر و اشاعت، حدودا لٰہی کا نفاذ اور دنیاسے تمام فتنہ کی نابودی میں رسول کا نمائندہ ہوتا ہے، ہرکس و ناکس اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس منصب کا حقدار وہی ہے جو اسلام میں تقویٰ ،جہاد ،علم ،ہجرت،ذہانت ،سیاست ،عدالت،شجاعت اوراخلاق کے لحاظ سے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہو اور ان تمام صفات کو دیکھنے کے بعد تاریخ اس بات کی شاہد ہے اور شیعہ و سنی روایتیں بھی اس کا اثبات کرتی ہیں کہ مولائے کائنات علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی ایسا شخص تاریخ اسلام میں موجود نہیں ہے جسے ان تمام صفات سے ایک ساتھ متصف دیکھا گیا ہو“۔

سنی استاد: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اصحابی کالنجوم بایهم اقدیتم اهتدیتم ۔“( ۷۲ )

”میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ،ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے ہدایت پا جاوگے“۔

اس حدیث کی بنا پر ہم بھی صحابی کی پیروی کرکے نجات حاصل کر سکتے ہیں“۔

شیعہ استاد: ” اس حدیث کی سند کو چھوڑتے ہوئے چند دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جعلی اور گڑھی ہوئی ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح کی کوئی حدیث بیان نہیں کی“۔

سنی استاد: ”کن دلائل سے ؟“

شیعہ استاد: اس حدیث کے جعلی ہونے کے بہت سے دلائل ہیں:

۱ ۔رات کے مسافر جب اپنا اصل راستہ بھول جاتے ہیں تو وہ لاکھوں اور کروڑوں ستاروں کو آسمان میں چمکتے ہوئے دیکھتے ہیں اب اگر یہ مسافر اس میں سے اپنی خواہش کے مطابق کسی بھی ایک ستارے کو معین کر لیں تو وہ ہر گز اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ کچھ مخصوص ستارے ہیں جنھیں سب جانتے ہیں کہ اگر مسافران ستاروں کا سہارا لے کر اپنی منزل کی طرف آگے بڑھیں گے تو ضرور اپنی منزل تک جا پہنچ جائے گا۔

۲ ۔ مذکورہ حدیث رسول خدا کی دوسری حدیثوں مثلاً حدیث ثقلین،حدیث خلفائے قریش، حدیث علیکم بالائمة من اھل بیتی اور حدیث اہل بیتی کالنجوم وغیرہ کے مخالف ہے۔

جیسے آنحضرت نے فرمایاہے:

النجوم امان لاهل الارض من الغرق واهل بیتی امان من الاختلاف “۔( ۷۳ )

”ستارے زمین والوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں اور میرے اہل بیت اختلاف سے نجات دیتے ہیں“۔

اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ حدیث”اصحابی کالنجوم“کو مسلمانوں کے ایک خاص گروہ نے نقل کیا ہے لیکن اس کی مخالف حدیثوں کو مسلمانوں کے تمام گروہوں نے نقل کیا ہے۔

۳ ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اصحاب میں جو کشمکش اور اختلافات وجود میں آئے وہ اس حدیث سے موافقت نہیں کرتے کیونکہ آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے اور بعض نے بعض پر اعتراض اور طعنہ زنی کی اور یہ اختلاف و اعتراض اس حد تک پہنچا کہ عثمان کو قتل کر ڈالا گیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی اس حدیث کے ساتھ موافق نہیں جو بعض نے بعض کو لعن وطعن کیا مثلاًمعاویہ نے حضرت علی علیہ السلام پر لعن وطعن کرنے کا حکم دیا اور بعض اصحاب نے بعض صحابہ سے جنگ کی جیسے طلحہ وزبیر نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جمل میں مقابلہ کیا اور معاویہ نے جنگ صفین میں ان کے سامنے صف آرائی کی۔بعض اصحاب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور شراب خوری اور زنا کی وجہ سے ان پر حد جاری کی گئی۔(جیسا کہ ولید بن عقبہ ،اور مغیرہ بن شعبہ کے متعلق ملتا ہے۔)

کیا ”بسر بن ارطاة “جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے اصحاب میں تھا اور جس نے ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کرنے سے مسلمان ہدایت پاجائےں؟

کیا مروان بن حکم جس نے طلحہ کو قتل کیا اس کی پیروی سے ہدایت مل جائے گی؟

کیا مروان کے باپ حکم کی پیروی ہدایت دے دے گی جو اصحاب رسول میں تھا اور آنحضرت کا مذاق اڑایا کرتا تھا ان تمام باتوں پر توجہ رکھتے ہوئے اس جعلی حدیث کو صحیح ماننا واقعا ً مضحکہ خیز ہے!!“۔

سنی استاد: ”اصحابی کا مطلب یہ ہے کہ جو حقیقت میں آنحضرت کے اصحاب تھے نہ کہ وہ لوگ جو یوں ہی اصحاب بنے بیٹھے تھے۔

شیعہ استاد: ”اس طرح کے اصحاب تو صرف، سلمان ،ابوذر،مقداد،اور عمارجیسے ہی لوگ تھے مگر تم لوگ ان کے بجائے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ شمار کرتے ہوئے لہٰذا اب بھی اختلاف ختم نہیں ہوگا ، اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ ہم ان حدیثوں کے بارے میں بحث کریں جو کسی طرح سے بھی قابل اعتراض نہیں ہیں جیسے حدیث ثقلین ،حدیث سفینہ یا وہ روایتیں جن کے بارے میں ائمہ علیہم السلام نے تصریح کی ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ جب جنا ب سلمان مدائن کی طرف روانہ ہوئے تو اشعث اور جریر نامی دو افراد نے ان سے ملاقات کی مگر انھیں یقین نہ آیا کہ یہی سلمان ہیں لیکن جناب سلمان نے خود ہی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں وہی سلمان اور صحابی رسول ہوں، پھر فورا ً آپ نے فرمایا: ”لیکن یہ جان لو کہ آنحضرت کا حقیقی صحابی وہی ہے جو ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائے“۔( ۷۴ )

واضح الفاظ میں یہ کہیں کہ صحابی وہی ہے جو اپنی پوری زندگی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کی پابندی کرے اور اس پر آخری عمر تک قائم رہے اس بنا پر جناب سلمان علیہ السلام سے نقل ہوئی حدیث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس طرح کے صحابیوں کی پیروی کرکے ہم جنت وہدایت پا سکتے ہیں لیکن میں یہ پوچھتا ہوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کتنے لوگ ایسے تھے جنھوں نے اپنی راہ نہیں بدلی اور آنحضرت کے بتائے ہوئے راستہ پر باقی رہے ؟

ہماری روایتوں کے مطابق تو صرف تین یا چار اصحاب ہی ایسے تھے جو اپنے دین پر باقی رہے جیسے سلمان ،مقداد، عمار یاسر ،لیکن ان کے علاوہ بقیہ سب مرتد ہوگئے تھے“۔

۸۹۔علی علیہ السلام ، راہ عدالت کے شہید

حقجو اور حمید نامی دو اسلامی دانشوروںنے اس طرح مناظرہ کیا:

حمید: ”ہم جب امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا اکثر حصہ جنگ و جہادمیں پاتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ان کی جنگ آنحضرت کے حکم سے ہوا کرتے تھی جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے لیکن علی علیہ السلام نے اپنی خلافت (جسے عمر نے غصب کر لیا تھا) کے زمانہ میں جو جنگیں لڑیں جیسے جنگ جمل ،جنگ صفین اور جنگ نہروان ان سب میں مناسب تو یہی تھا کہ وہ قوم کے بزرگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مصالحت کر لیتے اور اس قدر خوریزی سے پر ہیز کرتے“۔

حق جو: ”ہم امام علی علیہ السلام کو ایک حق پرست مخلص اور کامل انسان کے عنوان سے جانتے ہیں انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مشرکوں او ر اسلام کے مخالفوں سے جنگ کی اور اپنے دور خلافت میں بھی انھیں لوگوں سے جنگ کی جنھوں نے اسلام کے ظاہر کو لے لیا اور باطن کو چھوڑ دیا تھا یہ وہی منافق تھے جو اسلام کے نام پر اسلام کو بے عزت کر رہے تھے اور اسلام کو اس کی حقیقت سے دور کر کے اسے اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہے تھے،اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کو کافروں کے مقابلہ میں منافقوں سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

حمید: ”حضرت علی اگر چاہتے تو ناکثین (اصحاب جمل)قاسطین (جنگ صفین کی آگ بھڑکانے والے)اور مارقین(خوارج)کے سرداروں کو اقتدار اور بیت المال سے خاموش کر دیتے اور اس طرح وہ لوگوں کو اپنی طرف ملا لیتے“۔

حق جو: ” تمہاری بات کا انداز بتا رہا ہے کہ تم ایک عام حاکم اور خدائی رہنما جو اپنے ذاتی فائدہ پر خدا کے احکام کو ترجیح دیتا ہے دونوں کے درمیان فرق کو نہیں سمجھتے، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔

بہتر یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں ہوئی جنگوں کا ہم اچھی طرح سے جائزہ لیں تاکہ یہ بات اچھی طرح سے واضح ہو جائے۔

جنگ جمل کے وجود میں آنے کے اسباب معاشرتی برتری اور نا انصافی تھے ان تمام باتوں کو جنگ جمل کی آگ بھڑکانے والے اسلام کے نام پر اسلامی حکومت میں یہی نا انصافیاںنافذ کرنا چاہتے تھے طلحہ وزبیر جیسے لوگ حضرت علی علیہ السلام سے اپنے لئے بڑے بڑے عہدہ کا مطالبہ کر رہے تھے یہ لوگ صاف صاف آپ سے عہدوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کرتے تھے فلاں عہدہ ہمیں دے دیں ،بیت المال کا اتنا حصہ ہمارا ہونا چاہئے۔

اس بیکار خواہش کی بنا پر یہ اسلامی احکام کے خلاف باتیں حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں رائج کرانا چاہتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام اس بات پر تیار نہیں ہوئے کہ خود غرض لوگوں کو ان کے ذاتی مفاد کی وجہ سے عوام کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیںن اور انھیں ان پر مسلط کر دیں۔

امام علی علیہ السلام ایک خدا پرست انسان تھے نہ کہ ایک خود خواہ اور خود غرض حاکم جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے خدائی احکامات کو پس پشت ڈال دیتے۔

جنگ صفین میں بھی معاویہ حضرت علی علیہ السلام سے قانونی طور پر حکومت شام کے تمام اختیارات لینا چاہتا تھا اور یہ بات بھی واضح ہے کہ معاویہ ان اختیارات کے ذریعہ اپنے خاندان اور اپنی تعریف کرنے والے شکم پر ستوں کو عوام کی جان ومال پر مسلط کرنا چاہتا تھا اور اس طرح اس کی حکومت یقینا اسلامی اقدار کے برخلاف اونچ نیچ اور طبقاتی تفریق کی بنیادوں پر استوار ہوتی۔

لیکن کیاحضرت علی علیہ السلام ایسا کرنے کا موقع دیتے ؟!!کیا اس جیسے بے دین شخص کو اسلامی حکومت کی باگ ڈور پکڑا دیتے؟نہیںیہ ہرگز نہیں ہو سکتا تھا۔

اسی دوران مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگوں نے بھی ”النصیحة لامر اء المسلمین“، (مسلمانوں کے حاکموں کے لئے نصیحت )کی نقاب اوڑھ کر حضرت علی علیہ السلام سے اس قسم کے مطالبے کئے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس کا سخت جواب دیتے ہوئے فرمایا:

ولم یکن الله یرانی اتخذت المضلین عضدا “۔( ۷۵ )

-”خدا مجھے اس حالت میں کبھی نہیں دیکھ سکتا کہ میں گمراہوں کو اپنا مددگار بناوں“۔

اس طرح کے مطالبے اور اس کے نتیجہ میں حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے بعض حضرت علی علیہ السلام کے مخلص اصحاب جیسے عمار یاسر ،ابو الہیثم تیہان وغیرہ نے آپ کو مشورہ بھی دیا کہ وقتی طور پر آپ ان لوگوں سے محبت اور رغبت کا اظہار کریں اور ان قوم کے لٹیروں کو امتیازی مقامات دے دیں تاکہ وہ آپ کی حکومت کے خلاف قیام نہ کریں اور بعض حکام اور گورنروں میں اہلیت نہ پاتے ہوئے بھی انھیں ان کے مقام پر باقی رکھیں کیونکہ یہ لوگ بہر حال قوم کے بڑے ہیں لہٰذا آپ ان کا خیال کریں“۔

امام علی علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا:

اتامرونی ان اطلب النصر بالجور ،فیمن ولیت علیه ،والله لا اطور به ما سمر سمیرو ما ام نجم فی السماء نجماً ۔“( ۷۶ )

”کیا تم مجھے اس بات کا حکم دیتے ہو کہ میں محکوم لوگوں پر ظلم وجور کے ذریعہ غلبہ حاصل کروں خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور جب تک آسمان میں کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے پیچھے پیچھے چلتا رہے گا میں اس طرح کا کام نہیں کر سکتا“۔

اس طرح حضرت علی علیہ السلام کا بے انصافی اور طبقاتی تفریق کرنے والوں سے سختی سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے اس تحریک کے حامی آپ کے مخالف ہوگئے اور جنگ جمل اور صفین میں دو محاذوں پر وہ سامنے آگئے اس کے ساتھ ہی جنگ صفین میں ہی جنگ نہروان کی داغ بیل پڑ گئی تھی، اس جنگ میں روباہ صفت معاویہ کی طرف سے نیزوں پر قرآن بلند کرنا اس کے دھوکہ بازی کے ذریعہ صلح کی خواہش نے حضرت علی علیہ السلام کے فوجیوں کو سست کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ دوحاکموں کی جنگ ہے اور جوکل تک حضرت علی علیہ السلام کے سا تھی تھے جذبات میں آکر آپ کو کافر کہنے لگے نتیجہ میں جنگ نہروان عمل میں آئی جس میں شرکت کرنے والے حضرت علی علیہ السلام کے وہ ساتھی تھے جنھوں نے صفین میں آپ کی طرف سے تلوار چلائی تھی۔اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں سے بھاگ نکلنے والوں نے مل کر آپ کے قتل کامنصوبہ بنایا اور اس طرح ”ابن ملجم اشقی الاولین والاخرین “کے ذریعہ آپ شہید کر دیئے گئے جیسا کہ آپ کے لئے لوگوں نے کہا۔”قتل علی لشدةعدلہ۔“علی اپنے عدل وانصاف میں شدت کی وجہ سے قتل کر دیئے گئے“۔

اسی وجہ سے جب آپ کے سر مبارک پر ضربت لگی تو آپ نے فرمایا:

فزت ورب الکعبة( ۷۷ )

”کعبہ کے پروردگار کی قسم میں کامیاب ہوگیا“۔

علی علیہ السلام کی کامیابی اس وجہ سے نہیں تھی کہ آپ نے ذاتی اہداف کو اہمیت نہیں دی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک عدالت قائم کرنے اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔حضرت علی علیہ السلام یہ چاہتے تھے کہ ذاتی اور شخصی مفاد کو اسلام کے سیاسی اور معاشرتی مفاد پر قربان کردیں تاکہ آئندہ آنے والے مسلمان ظالموں اور ستمگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں مثال کے طور پر ظالم اسرائیل سے مذاکرے کے لئے تیار نہ ہوں اور سامراجی طاقتوں سے دوستی کے لئے کبھی ہاتھ نہ بڑھائیں اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے اسلام کو ایک اجنبی اسلام سمجھ کر معاویہ اور یزید کے اسلام کو نہ اپنالیں۔

۹۰۔ استاد اور شاگرد کے درمیان ائمہ کی سخاوت کے بارے میں مناظرہ

شاگرد: ”بہت سی اسلامی روایات میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ فلاں امام نے فلاں شاعر یا محتاج کو پیسہ دیا یا اس طرح کی مختلف روایات ائمہ علیہم السلام کے عطیوں کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کیایہ روایتیں صحیح ہیں؟“

استاد: ”ممکن ہے بعض روایتوں کی سند صحیح نہ ہو لیکن اس طرح کی اتنی زیادہ روایتیں موجود ہیں کہ جن کا انکار نہیں کی جاسکتا اور قطعی طور پر ان سب میں کچھ روایتیں تو ہر لحاظ سے صحیح ہیں“۔

نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل چار روایتوں پر توجہ فرمائیں:

۱ ۔عبد الرحمن سلمی نے امام حسین علیہ السلام کے بیٹے کو سورہ حمد پڑھایا تو آپ نے اسے ہزار دینار دیا اور اس زمانہ کے ہزار حُلے (جو اس وقت کا بہترین لباس ہوا کرتا تھا) انعام کے طور پر دئے اور اس کامنہ موتیوں سے بھر دیا۔( ۷۸ )

۲ ۔ایک بھٹکاہوا مسافر امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں آکر کہنے لگا میرے پاس زاد راہ ختم ہوگیا ہے آپ مجھے کچھ پیسے دے دیں تاکہ میں اپنے وطن واپس جا سکوں میں وطن پہنچ کر اتنی ہی مقدار میں آپ کی طرف سے صدقہ دے دوں گا۔

امام علی رضا علیہ السلام اٹھ کر اپنے گھر کے اندر گئے اور دو سودرہم کی تھیلی لا کر اسے دی اور فرمایا: ”یہ پیسہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے لہٰذا یہ لازم نہیں ہے کہ تم میری طرف سے اتنی مقدار میں صدقہ دو“۔( ۷۹ )

۳ ۔امام سجاد علیہ السلام نے ”فرزدق“کے لئے قید میں بارہ ہزار درہم یہ کہہ کر بھیجے کہ تمہیں ہمارے حق کی قسم ہے تم اسے قبول کر لو اور فرزدق نے قبول کر لیا“۔( ۸۰ )

۴ ۔دعبل نے اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر ایک مرثیہ پڑھا تو امام رضا علیہ السلام نے انھیں ایک تھیلی بھیجی جس میں سو دینار تھے۔ دعبل نے ان تمام سکوں کو جن پر امام کا نام لکھا تھا عراقی شیعوں میں بانٹ دیا اور ایک ایک سکے کے بدلے سو دینا ر لے کر اپنی زندگی آسودہ کر لی۔( ۸۱ )

اس سلسلہ میں اس طرح کی اور بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں۔

شاگرد: ”اگر یہ تمام روایتیں صحیح ہیں تو حضرت علی علیہ السلام بیت المال کوخرچ کرنے میں اتنی سختی کیوں کرتے تھے ؟اور لوگوں میں برابر سے تقسیم کرتے تھے جیسے ان کے بھائی عقیل نے جب اپنی ضرورت کے تحت اپنا حصہ بڑھانے کے لئے کہا تو حضرت علی علیہ السلام نے لوہے کی ایک سلاخ گرم کر کے عقیل کے ہاتھ پر رکھ دی جس کے بعد جناب عقیل نے ایک بلند چیخ ماری تو امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

”عورتیں تمہارے سوگ میں بیٹھیں تم ایک انسان کی جلائی ہوئی آگ سے چیختے ہو لیکن مجھے اس آگ کی طرف بھیج رہے ہو جسے خدا نے اپنے غیظ و غضب سے جلا رکھا ہے تم ایک چھوٹی سی اذیت سے ڈرتے ہو تو کیا میں ہمیشہ بھڑگنے والے آگ سے نہ ڈروں؟“( ۸۲ )

استاد: ”یہی تمہاری غلطی ہے کہ تم یہ تصور کرتے ہو کہ تمام ائمہ علیہم السلام کی در آمد صرف بیت المال ہی تھی اسی وجہ سے ان کے عطیہ و بخشش اور علی علیہ السلام کی بیت المال میں سختی کو ایک طرح کاتضاد سمجھ رہے ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی در آمد کے مختلف ذرائع تھے اور حضرت علی علیہ السلام کام کیا کرتے تھے۔

جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جب عمر ، ابوبکر اور عثمان کے دور خلافت میں شیعوں کو بڑی سخت زندگی گزارتے دیکھا تو پچیس سال کے دور میں آپ نے بہت سی زمینوں کو قابل کا شت بنایا اور پھر اسے اپنے شیعوں کے درمیان تقسیم کر دیا تا کہ وہ آرام سے رہ سکیں۔

آپ نے اس کے لئے ایک وقف تشکیل دے رکھاتھا جو ان زمینوں کی مجموعی در آمد کو فقراء میں تقسیم کرتے اور فقراء وپریشان حال شیعوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام ،امام محمد باقر علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام نے زراعت کی اور جانوروں کے ذریعہ تجارت کی ہے آپ ان کاموں کے لئے کچھ افراد کو معین کر دیا کرتے تھے کیونکہ انھیں اس با ت کا خیال تھا کہ مذہب حق کے پیروکار کہیں غربت کی وجہ سے دوسری طرف مائل نہ ہو جائیں اسی لئے ائمہ علیہم السلام اپنے اصحاب اور خاص خاص دوستوں اور خود اپنی زمینوں اور غلوں سے ہونے والی درآمد کو اپنے غریب شیعوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے اور اسی مال سے ان کا خیال رکھتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے ان کے عطیات اور بخششیں اسی دولت سے ہوا کرتی تھی نہ کہ بیت المال سے۔

شاگرد: ”میں آپ کی اس منطقی گفتگو سے قانع ہوں لیکن میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ ائمہ علیہم السلام کی در آمد کے ذرائع کے دوچار نمونے بھی ذکر کردیں“۔

استاد: ”بہت ہی اچھا سوال ہے۔میں چند نمونے ذکرکرتا ہوں“۔

۱ ۔امام علی علیہ السلام نے اپنے دوباغ جس میں کنواں بھی تھا ”ابو نیزر“ نامی ایک مسلمان کو دے رکھا تھا جن میں سے ایک کانام ”ابو نیزر“ تھا اور دوسرے کا ”بغیبغہ“ان دونوں باغوں میں کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔

”ابو نیزر“ کا بیان ہے کہ ”ایک روز میں باغ میں تھا اسی دوران علی علیہ السلام باغ میں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس کھانا ہے ؟“

میں نے کہا: ”اسی باغ کے ایک کدو کو میں نے پکایا ہے“، آپ نے جا کر وہ کھانالیا اور کھانا کھانے کے بعد بیلچہ اٹھا کر اس کھیت میں داخل ہوگئے۔تھوڑی دیر تک کھودنے کے بعد جب آپ پسینے میں شرابور ہو گئے تو گڑھے سے باہر آئے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر آپ کام میں مشغول ہو گئے گڑھے کے اندر سے میں بیلچہ کی آواز کے ساتھ آپ کی زیر لب آواز بھی سن رہا تھا آپ نے گڑھے کو کھودا اور اس کی گھاس پھوس صاف کر دیا یہاں تک کہ اونٹ کی گردن کے اتنا اس میں پانی بڑھ گیا اس کے بعد آپ اس گڑھے سے باہر آئے اور فرمایا: ” خدا کی قسم !میں نے اس چشمے کو وقف کر دیا“، اس کے بعد آپ نے کاغذ وقلم مانگا، میں نے لا کر دیا تو آپ نے وہیں وقف نامہ تحریر کردیا۔

روایت میں ہے کہ ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام مقروض ہو گئے تو معاویہ نے آپ کے پاس دولاکھ درہم بھیجے اور اس چشمہ کو خرید نے کی خواہش کا اظہار کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اسے جواب دیا: ”میرے بابا نے اس کھیت اور چشمہ کو وقف کردیا ہے تاکہ قیامت میں جہنم کی آنچ سے محفوظ رہیں،میں اسے کسی قیمت پر نہیں بیچ سکتا“۔( ۸۳ )

۲ ۔امام محمد باقر علیہ السلام اپنے کھیت میں پھاوڑا چلانے میں مشغول تھے کہ اس موقع ”محمد بن منکدر “نام کا ایک زاہد نما شخص آپ کو دنیا کا لالچی سمجھ کر کہنے لگا، اگر تم اسی حالت میں مر جاو تو بڑی سخت حالت ہوگی“۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ” خدا کی قسم اگر اس حالت میں میری موت آجائے جب کہ میں اطاعت خدا میں مشغول ہوں تو بڑی اچھی بات ہوگی کیونکہ میں تمہاری دنیا کے کسی بھی شخص کا محتاج نہیں رہوں گا میں تو گناہ کے عالم میں موت آنے سے ڈرتاہوں“۔( ۸۴ )

اسی طرح کی ایک روایت امام جعفرصادق علیہ السلام کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہے۔( ۸۵ )

۳ ۔ ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے کہا کہ میں ایک روز ایک کھیت میں گیا تو دیکھا کہ امام کاظم علیہ السلام پھاوڑا چلانے میں مشغول ہیں اور ان کا بدن پسینے میں ڈوبا ہوا ہے میں نے کہا: ” آپ کے غلام اور دوسرے لوگ کہاں ہیں کہ آپ پھاوڑا چلا رہے ہیں ؟ “

آپ نے فرمایا: ”جو لوگ مجھ سے اور میرے باپ سے افضل تھے انھوں نے اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کیا ہے“۔

میں نے سوال کیا: ”وہ کون لوگ تھے ؟ “

آپ نے فرمایا:

رسول الله وامیر المومنین وآبائی کلهم کانوا قد عملوا بایدیهم وهو من عمل النبیین والمرسلین والاوصیاء و الصالحین “۔( ۸۶ )

”رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام اور میرے آباو اجداد سب کے سب اپنے ہاتھوں سے اپنا کام کیا کرتے تھے یہ انبیاء اور صالح اوصیاء کاکام ہے“۔

شاگرد: ”میں آپ کے اس قانع کنندہ جواب کے لئے بہت شکر گزار ہوں اس طرح کی اور باتیں ہوں تو آپ بیان فرمائیں،تاکہ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکوں“۔

استاد: ”ضروری بات یہ کہ ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں شیعہ جو حقیقی اسلام پر عمل پیرا تھے ان کی حالت نہایت ابتر تھی اور روز بروزان پر سختیاں بڑھتی رہتی تھیں کیونکہ ان کے حقوق اور وظیفے بند کر دیئے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ نہایت فقیرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے،اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ شیعوں کی حفاظت اسلام ارکان کی حفاظت تھی اور اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ کانٹنے کی مترادف تھا، اس لئے ان لوگوں کو خمس و زکوٰة اور بیت المال میں سے دینا بھی جائز تھا، (البتہ اس طرح کہ ان کے اندر تبعیض نہ ہوسکے) تاکہ ان کے ذریعہ ناپاک لوگوں کے شر سے حقیقی اسلام بچارہے کیونکہ بیت المال کے مصرفوں میں سے ایک مصر ف اسلام کی استواری اور اس کے استحکام کے لئے خرچ کرنا بھی ہے۔( ۸۷ )

____________________

(۵۷) صحیح مسلم ،ج۳،ص۶۱۔سنن ترمذی ،ج۲، ص۲۵۶، سنن نسائی ، ج۴ ،ص۸۸۔

(۵۸) تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔

(۵۹) تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔

(۶۰) تہذیب التہذیب ،ج۱۱،ص۱۲۵، ج۴، ص۱۱۵، ج۳، ص۱۷۹۔

(۶۱) شرح حدیدی ،ج۹،ص۹۹۔

(۶۲) الفقہ علی مذاہب الاربعة ،ج ۱، ص۴۲۰۔

(۶۳) ”آئین وہابیت“سے اقتباس ص۵۶ سے ۶۴ تک۔

(۶۴) مجمع البیان ،ج۴ ،ص۸۳(معالم دین اللہ )

(۶۵) آئین وہابیت سے اقتباس ص۴۳ سے ۴۶ تک۔

(۶۶) الفصول المہمہ ،ص۱۴۔

(۶۷) کفایة الطالب ،ص۳۶۱۔

(۶۸) نور الابصار، ۷۶۔

(۶۹) مطالب السول ،ص۱۱۔

(۷۰) دلائل الصدق ،ج۲،ص۵۰۸و۵۰۹۔

(۷۱) دلائل الصدق ،ج۲،ص۵۰۹و۵۱۰۔

(۷۲) صحیح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ، مسند احمد،ج۴، ص۳۹۸۔

(۷۳) مستدرک حاکم ، ج ۳، ص۱۴۹۔

(۷۴) فتاوی صحابی کبیر ،ص۶۷۷۔

(۷۵) وقعة الصفین ،طبع مصر، ص۵۸۔

(۷۶) نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۲۶۔

(۷۷) نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۲۶۔

(۷۸) مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۶۶۔

(۷۹) فروع کافی، ج۴، ص۲۳و۲۴ سے اقتباس۔

(۸۰) انو ار البہیہ، ص۱۲۵۔

(۸۱) عیون اخبار الرضا،ج ۲، ص۲۶۳و۲۶۶۔

(۸۲) نہج البلاغہ، خطبہ۲۲۴۔

(۸۳) معجم البلدان ، ج ۴، ص ۱۷۶۔

(۸۴) ارشاد شیخ مفید ، ص۲۸۴۔مستدرک الوسائل ، ج ۲، ص ۵۱۴۔

(۸۵) فروع کافی ،ج ۵، ص ۷۴۔ اسی سے مشابہ دوسری مثالیں اسی کتاب میں موجود ہیں۔

(۸۶)

(۸۷) خمس کی بحث طولانی ہے لیکن یہاں خلاصہ کے طور پر ہم عرض کرتے ہیں ۔

خمس کا اصل مسئلہ سورہ انفال آیت ۴۳ میں ذکر ہوا ہے اور اس کے فرعی مسائل کے متعلق تقریبا ۸۰/روایتیں (وسائل الشیعہ،جلد۶ وغیرہ )میں ذکر ہوئی ہیں خمس ایک حکومتی خزانہ ہے (زکات کے بر خلاف جو عمومی دولت ہے ) نصف خمس حاکم (اگر اسلامی حکومت ہو ورنہ مراجع تقلید اسی حکم میں ہیں )کے اختیار میں ہوتا ہے اور دوسرا حصہ مستحق سادات کا ہوتا ہے۔ائمہ معصومین علیہم السلام ولی بھی تھے اور سادات بھی لہٰذ خمس انھیں کے ہاتھوں میں رہتا تھا لہٰذ ا انھیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس کو شیعوں کی زندگی گزارنے بھر ان کو دے دیں کیونکہ ان شیعوں کی حفاظت ایک طرح سے اسلام کی حفاظت تھی کیونکہ ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں شیعوں کی حفاظت سے زیادہ بڑھ کر اسلام کو محفوظ رکھنے کا کوئی اور ذریعہ نہ تھا ۔