۹۶۔پیغمبراسلام آخری نبی ہیں، اس سلسلہ میں ایک مناظرہ
اشارہ
ضروریات دین میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آخری پیغمبر ماننا ہے جس کے بعد خدا وند متعال کی طرف سے نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی شریعت ،اس بات کے اثبات میں قرآن میں بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جیسے سورہ احزاب آیت ۴۰ ،سورہ فرقان آیت ۱ ، سورہ فصلت آیت ۴۱ ۔ ۴۲ ۔سورہ انعام آیت ۱۹ ،سورہ سبا ، آیت ۲۸ وغیرہ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایتیں آپ کے خاتم الانبیاء ہونے پر صریحی ور سے دلالت کرتی ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد آنے والے زمانوں میں فریبی اور چالباز لوگوں نے نیا نیا پیغمبر بنا کر آپ کی خاتمیت کو مخدوش بنانا چاہا۔تاکہ اس طرح سے خود ساختہ ادیان جیسے قادیانیت، بابی گری اور بہائیت معاشرہ میں اپنا اثر ورسوخ پید ا کرسکیں۔
اب درج ذیل مناظرہ جو ایک مسلمان اور بہائی کے درمیان ہوا ملاحظہ فرمائیں:
مسلمان: ”تم اپنی کتابوں اور تقریروں میں اسلام اور قرآن کو اس فرق کے ساتھ قبول کرتے ہو کہ اسلام نسخ ہو گیا ہے اور اس کی جگہ دوسری شریعت آگئی ہے اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن نے تو اپنی متعدد آیتوں میں اسلام کو ایک عالمی اور قیامت تک باقی رہنے والا مذہب کہا ہے اور ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاتمیت کا اعلان کرتے ہوئے آنے والے نئے دین کا باطل قرار دیا ہے۔
بہائی: ”مثلاًکون سی آیت یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخری پیغمبر ہیں ؟“
مسلمان: ”سورہ احزاب کی ۴۰ ویں آیت میں۔
”(
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اٴَبَا اٴَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمًا
)
“
”محمد ، تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر شئے کا علم رکھنے والا ہے“۔
آیت میں جملہ ”خاتم النبیین “ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری پیغمبر ہیں،کیونکہ لفظ خاتم کو جس طرح بھی پڑھا جائے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے ،لہٰذا اس آیت سے صریحی طور پر سمجھ میں آتا ہے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد کوئی بھی پیغمبر اور شریعت نہیں آئے گی“۔
بہائی: ”خاتم انگوٹھی کے معنی میں بھی آیا ہے جو زینت کے لئے استعمال ہوتی ہے اس طرح اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انبیاء کی زینت ہیں“۔
مسلمان: ”لفظ خاتم کا رائج اور حقیقی معنی ختم کرنے والے کے ہیں اور کہیں پر یہ نہیں آیا کہ لفظ خاتم کسی انسان کے لئے آیا ہو جس سے زینت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کریں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہی ہیں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ کچھ سیاق وسباق رکھتا ہو،ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرینہ یا کسی طرح کی کوئی دلیل نہیں پاتے ہیں جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائیں۔
یہاں پر لفظ خاتم کے بارے میں چند لغات آپ ملاحظہ فرمائیں فیروز آبادی ”قاموس اللغة“ میں کہتے ہیں ”ختم“مہر کرنے کے معنی میں آتا ہے اور ”ختم الشئی“یعنی کسی چیز کا آخر۔
جوہری ”صحاح“میں کہتے ہیں کہ ختم یعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ یعنی اس چیز کاآخر۔
ابو منظور ”لسان العرب“میں کہتے ہیں کہ” ختام القوم“ یعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبیین“ یعنی انبیاء کی آخری فرد۔
راغب ”مفردات“میں کہتے ہیں کہ خاتم النبیین یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود آکر سلسلہ نبوت کو منقطع کر دیا اور نبوت کو تمام کر دیا۔
نتیجہ یہ ہو اکہ لفظ خاتم سے زینت معنی مراد لینا ظاہر کے خلاف ہے جس کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور یہاں پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے“۔
بہائی: ”لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہرہے جس کے معنی تصدیق شدہ کے ہیں لہٰذا اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبیاء کی تصدیق کرنے والے تھے۔
مسلمان: ”غرض پہلے سوال کے جواب سے یہ واضح ہو گیا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہیں اور یہ کہیں پر نہیں سنا گیا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصدیق مراد لی گئی ہو،اتفاق سے اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ خاتم یعنی آخر میں مہر لگانا یعنی خاتمہ کا اعلان کرنا“۔
بہائی: ”آیت کہتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاتم النبیین،یعنی پیغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہیں ،آیت یہ نہیں کہتی کہ مرسلین کے ختم کرنے والے ہیں لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے کی نفی ہوتی ہے“۔
مسلمان: ”اگر چہ قرآن میں رسول اور نبی میں فرق پایا جاتا ہے مثلاًخداوند متعال نے قرآن میں جناب اسماعیل علیہ السلا م کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے (سورہ مریم آیت ۵۴) اور اسی طرح جناب موسیٰ کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے (سورہ مریم آیت ۵۱) لیکن یہ چیز کسی بھی طرح لفظ خاتم میں شبہ نہیں پیدا کرتی ہے کیونکہ نبی یعنی ایسا پیغمبر جس پر خدا وند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کی تبلیغ کرنے والا ہو یا نہ ہو، لیکن رسول وہ ہے جو صاحب شریعت اور صاحب کتاب ہو لہٰذاہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔
نتیجہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خاتم انبیاء کہاجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پیغمبر ہے بس رسول بھی نہیں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی مثال انسان اور عالم دین (منطق کی زبان میں عموم خصوص مطلق )کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہیں کہ آج ہمارے گھر کوئی انسان نہیں آیا یعنی عالم دین انسان بھی نہیں آیا، اور ہماری بحث میں اگر کہا جائے گیا کہ کوئی پیغمبر ،رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد نہیں آئے گا یعنی کوئی رسول بھی نہیں آئے گا“۔
بہائی: ”نبی اور رسول کے درمیان تباین (جدائی )پایا جاتا ہے جو نبی ہوگا وہ رسول نہیں ہوگا اور جو رسول ہوگا وہ نبی نہیں ہوگا لہٰذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔
مسلمان: ”لفظ رسول ونبی میں اس طرح کا فرق ،علماء اور مفکرین اور آیات وروایات کے خلاف ہے اور یہ ایک مغالطہ ہے کیونکہ تمہارا یہ مسئلہ خود آیت میں ذکر ہوا ہے“۔
”وَلَکِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ
“
”اور لیکن وہ رسول خدا اور خاتم النبیین ہیں“۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے:”وکان رسولا ”نبیا““موسیٰ علیہ السلام رسول بھی تھے اور نبی بھی (سورہ نساء آیت ۱۷۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی (سورہ نساء آیت ۱۷۱ میں)رسول کہہ کر پکارے گئے اور سورہ مریم آیت ۳۰ ،میں نبی کہہ کر پکارے گئے ہیں اگر لفظ نبی اور رسول آپس میں ایک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور موسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام جیسے انبیاء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے، اس کے علاوہ اور بہت سی روایتیں اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں جس میں پیغمبر اکرم کو خاتم المرسلین کہا گیا ہے جن میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہیں“۔
بہائی: ”جملہ خاتم النبیین سے ممکن ہے خاص پیغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پیغمبر اس آیت میں شامل نہیں ہوں گے“۔
مسلمان: ”اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زیادہ مضحکہ خیز ہے کیونکہ جو شخص بھی عربی قواعدسے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہوگا وہ اس طرح کے جملے میں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور یہاں اس الف اور لام سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا اس سے عموم ہی مراد لیا جائے گا“۔
۹۷۔امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی حقیقت کے سلسلے میں ایک مناظرہ
وہابی: ” شیعہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان پر گریہ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ اپنے اباء واجداد کے گزشتہ ظلم کا جبران کریں کیونکہ انھیں کے باپ داداوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو قتل کیا ، اور پھر ان لوگوں نے توبہ کی اور اس طرح انھوں نے توابین (زیادہ توبہ کرنے والوں) کے عنوان سے اپنے گزشتہ ظلم و ستم کا جبران کرنا چاہا “۔
شیعہ: ”تم شیعوں پر یہ تہمت کس ماخذاور حوالہ سے پر لگار ہے ہو؟ “
وہابی: ”جو لوگ کربلا میں امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے آئے تھے وہ شام و حجاز اور بصرہ کے نہیں تھے بلکہ سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت کوفہ میں اکثر شیعہ ہی رہتے تھے، انھیں لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا“۔
شیعہ: ”اولاً اگر بفرض محال شیعوں ہی میں سے کچھ لوگ خوف و فریب سے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلہ میں جنگ کے لئے آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہب شیعہ اور اس کے تمام ماننے والوں نے امام حسین علیہ السلام سے منحرف ہو کر یزید کے راستہ کو اختیار کر لیا تھا ،عموما ً یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر مذہب وملت میں کچھ نہ کچھ لوگ اپنے مذہب سے منحرف ہوجاتے ہیں لیکن ان کا عمل مذہب کے بے بنیاد ہونے پر دلیل نہیں بن سکتا ہے ،ثانیا ً یہ کہ حقیقت میں یہ سب باتیں محض تہمتیں ہیں جو بالکل بے بنیاد اور جھوٹی ہیں“۔
وہابی: ”کیوںاور کس دلیل سے ؟ “
شیعہ: ”سپاہیوں کا وہ لشکر جو کوفہ سے کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام سے لڑنے آیا تھا ان میں اکثر خوارج ، بنی امیہ اور وہ منافق تھے جو حضرت علی علیہ السلام حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس سے بھگائے گئے تھے اور اس لشکر کے تمام سردار حکومت علی علیہ السلام کے مخالفین میں سے تھے جن کو حضرت علی علیہ السلام نے معزول کر دیا تھا اور وہ لوگ خاندان رسالت علیہم السلام کے معتوب شمار کئے جاتے تھے جن سے ابن زیاد نے نا جائز فائدہ اٹھا یا۔
اور زیادہ تر اس گروہ مرتزقہ(خریدے ہوئے غیر عرب افراد)سے تعلق رکھتے تھے ،جنھیں بنی امیہ نے اپنی داخلی شورش کے کارکنوں کی سرکوبی کے لئے محفوظ کر رکھا تھا اس بنیاد پر کربلا میں جنگ کرنے والے شیعہ ہر گز نہیں تھے۔
وضاحت: اگرچہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ میں شیعوں کی اکثریت تھی لیکن آپ کی شہادت کے بعد معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں اس کے جلادوں کی اذیت اور سزاوں کے خوف کی وجہ سے وہ بھاگ گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے تھے اور معاویہ کے خریدے ہوئے ظالموں نے اکثر کو قتل کر دیا تھا اور بہت سے بچے ہوئے لوگوں کو کوفہ سے نکال دیا تھا یہاں تک کہ زیاد ابن ابیہ (عراق میں معاویہ کا گورنر) کے زمانہ میں تمام شیعوں کو قتل کر دیا گیا یا زندان میں ڈال دیا گیا تھا اور یا تو وہ لوگ کوفہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے، معاویہ کے زمانہ میں اگر کسی پر کفر والحاد اور شرک کا جرم عائد ہوتا تو اس کے لئے نہ کوئی سزا تھی اور نہ کوئی خوف تھا لیکن کسی کو شیعہ کہنا اس کے جان ومال اور اس کے گھر کو ویران کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،زیاد ابن ابیہ ”سمیہ روسپی“کا بیٹا تھا جب یہ کوفہ کے دار الامارة میں مقرر ہو گیا تو معاویہ نے اسے لکھا: ”اے زیاد ! جو لوگ علی( علیہ السلام) کے مذہب پر زندگی گزار رہے ہیں انھیں قتل کردو اور قتل کے بعد ان کے ناک کان کاٹ لو“۔زیادنے مسجد میں اہل کوفہ کو بلوا کر کہا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کریں اگر کوئی ان پر لعنت نہیں کرے گا تو اس کی گردن اڑادی جائے گی۔
منقول ہے کہ زیاد ابن ابیہ ”سعد بن سرح “نامی شخص کے قتل کے کے درپے تھا ،امام حسن علیہ السلام نے زیاد کو اپنے خط کے آخر میں لکھا کہ سعد بن سرح بے گناہ مسلمان ہے اس کا پیچھا چھوڑ دے۔
زیاد نے امام حسن علیہ السلام کے خط کے جو اب میں لکھا: ”کہیں نہ کہیں وہ میرے ہاتھ لگ ہی جائے گا اور اسے میں اس لئے قتل کردوں گا کہ وہ تمہارے (نعوذ باللہ )فاسق باپ سے محبت کرتا ہے“۔
زیاد ابن ابیہ کی ایک ظلم یہ تھا کہ اس نے” سمرہ بن جندب “کو کوفہ اور بصرہ میں اپنا جانشین بنا دیا تھا اور زیاد ابن ابیہ کے مرنے کے بعد معاویہ نے سمرہ کو اس کے عہدہ پر باقی رکھا ،سمرہ کی خونخوار ی کی انتہا یہ تھی کہ اس نے ایک مرتبہ ۸۰ ہزار افراد کو نہایت دردناک طریقہ سے موت کے گھاٹ اتا ر دیا تھا۔
عدوی کہتے ہیں: سمرہ نے ایک دن صبح کو ہمارے ۱۴۷/ افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا جو سب کے سب حافظ قرآن تھے۔
سر فہرست افراد جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ،مالک اشتر، محمد بن ابی بکر ،عمر بن حمق وغیرہ معاویہ کے خرید ہوئے مزدوروں کے سبب شہید کردیئے گئے۔
معاویہ کی بھیانک اور خطرناک حکومت ایسی تھی کہ عمربن حمق کا کٹا ہو اسر زندان میں ان کی بیوی کے لئے بھیجا گیا،
اور کوفہ کی فضا اتنی خطرناک حد تک دل ھلا دینے والی تھی کہ لوگ اپنے نزدیک ترین افراد پر بھی اس وجہ سے اطمینان نہیں رکھتے تھے کہ کہیں یہ معاویہ کا جاسوس نہ ہو۔
علامہ امینی لکھتے ہیں: ”اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زیاد بن ابیہ کوفہ کے تمام افراد کو پہچانتا تھا کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں وہ انھیں لوگوں کا جزء تھا اور وہ تمام شیعوں کو جانتا تھا جس کہ وجہ سے اگر کسی شیعہ نے پتھر کی آڑ میں یا کسی بل میں بھی پناہ لے رکھی تھی تو وہ اسے تلاش کروا کر قتل کردیتا اور ان کے ہاتھ پیر کاٹ دیتا اور ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر پھانسی پر چڑھا دیتا اور بعض کو شہر بدر کروا دیتاتھا نتیجہ میں شیعہ نام کا ایک شخص بھی کوفہ میں باقی نہیں رہ گیا تھا۔
مختصر یہ کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ امام حسین علیہ السلام کے زمانہ میں چار ہزار یا پانچ ہزار شیعہ کوفہ میں نہیں بچے تھے اور ابن زیاد جب تخت پر آیاتو ان افراد کو بھی پکڑوا لیا اور امام حسین علیہ السلام کے عراق میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ان سب کو جیل میں ڈال دیا شیعوں کی تعداد اس زمانہ میں بس انھیں افراد پر مشتمل تھی جو یزید کے مرنے اور زیاد ابن ابیہ کے بصرہ جانے کے بعد زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کیا تھا لیکن اس وقت تک امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو چار سال گزر چکے تھے اور جناب مختار کا قیام اس وقت تک عمل میں نہیں آیا تھا۔
زندان سے نکلے ہوئے یہ تمام شیعہ ۹۳ سالہ ”سلیمان بن صرد خزاعی “کی قیادت میں سپاہ شام سے جنگ کے لئے روانہ ہوگئے نتیجہ میں سلیمان اور اس کے بہت سے ساتھی اس دلیرانہ جنگ میں شہید ہوگئے۔
علامہ مامقانی لکھتے ہیں:
”امام حسین علیہ السلام کے عراق میں وارد ہونے سے پہلے ابن زیادہ نے ۴۵۰۰ شیعوں کو جیل میں ڈال دیا تھا جن میں سلیمان بن صرد خزاعی تھے جنھوں نے چار سال تک جیل کے کوٹھڑیوں میں زندگی گزاری ،اس طرح جو مشہور ہے اور ابن اثر سے نقل ہوا ہے کہ شیعہ اپنی جان کے خوف سے امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں نہیںکھڑے ہوئے لیکن وہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد کافی شرمندہ ہوئے اور سلیمان بن صرد کی قیادت میں توابین نامی ایک گروہ کو تشکیل کیا تاکہ گزشتہ گناہ کی تلافی کر سکیں، یہ سراسر جھوٹ بات ہے۔
اس طرح پتہ چلتا ہے کہ قاتلین امام حسین علیہ السلام کو فہ کے شیعہ نہیں تھے بلکہ خوارج، مرتدین اور منافقین تھے جو حضرت علی علیہ السلام کے دور حکومت میں معزول کردئے گئے تھے اور یہ امام حسین علیہ السلام کی حکومت کے بھگوڑے اور غیر عرب کے خریدے ہوئے پٹھو تھے۔
۹۸۔آیہ ہلاکت سے متعلق میں مناظرہ
اشارہ:
قرآن کی آیتوں میں سے سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۵ آیت ہلاکت کے نام سے مشہور ہے۔
”(
وَاٴَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِاٴَیْدِیکُمْ إِلَی التَّهْلُکَةِ وَاٴَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ
)
“
”اور راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالو، نیک برتاؤ کرو تاکہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
یہاں ہم مذکورہ آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے استاد و شاگرد کے درمیان ہونے والے مناظرہ کو نقل کرتے ہیں:
شاگرد: ”اس آیت میں آیا ہے کہ ”اپنے ہاتھ سے اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو، لہٰذا آیت کے مطابق ایسا قیام جس میں جان کا خطرہ ہو یا ایسی نہی عن المنکر جو ضرر و نقصان کا سبب بنے اس کا اقدام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ضررونقصان ایک قسم کی ہلاکت ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قیام امام حسین علیہ السلام آپ کی جنگ اور آپ کے دوستوں کی شہادت اس آیت سے کس طرح سازگار ہے ؟
استاد: ”اس آیت کے ابتدائی حصہ پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی راہ میں مال کا انفاق کرنا جہاد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں انفاق کرنے یا حد سے زیادہ انفاق کرنے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور انفاق کرنے میں افراط و تفریط سے کام نہ لو۔
اسی وجہ سے تفسیر درّمنثور میں اس آیت کے ذیل میں ”اسلم بن ابی عمران“سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا: ”ہم قسطنطنیہ (ترکیہ میں آج کا استامبول) میں تھے تو دیکھا عقبہ بن سالم مصر والوں کے ساتھ اور فضال بن عبید بھی شام والوں کے ساتھ وہاں موجود تھے اور جب روم کا ایک بہت ہی عظیم لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے میدان میں آگیا تو میں نے بھی ان کے مقابلہ کے لئے صفوں کو منظم کیا اس اثنا میں ایک مسلمان شخص نے روم کے قلب لشکر پر اس طر ح حملہ کیا کہ وہ لشکر میں داخل ہوگیا یہ دیکھ کر بعض مسلمانوں نے چیخ کر کہا: ”یہ شخص اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے“۔
اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشہور صحابی ابو ایوب انصاری نے کھڑے ہوکر کہا: ”تم لوگ اس آیت ”ولا تلقوابایدیکم ۔۔۔“کے معنی اپنی طرف سے غلط کر رہے ہویہ آیت ہم گروہ انصار کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب خداوند متعال نے اپنے دین کو کامران و کامیاب کیا اور اس کے چاہنے والے بہت زیادہ ہوگئے تو ہم بعض لوگوں نے چھپ چھپ کے آپس میں کہا کہ ہمارا مال ضائع ہو گیا خداوند متعال نے اسلام کو سر فراز کیا اور اس کے ماننے والے بھی زیادہ ہوگئے اگر ہم لوگ اپنے مال کو بچائے ہوئے رہتے تو ہمارا مال ضائع نہ ہوتا اس وقت ہمارے اس بیہودہ اور منفی عمل کی رد میں خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی ۔”اس طرح اس آیت میں ہلاکت سے مراد اپنے مال کی حفاظت اور جہاد کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے ہیں۔
شاگرد: ”اس بات میں کیا مضائقہ ہے کہ اصل آیت انفاق کے بارے میں ہو لیکن اس کا آخری ٹکڑا ایک قاعدہ کلیّہ کے طور پر آیاہو؟“
استاد: ”کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس صورت میں اس قاعدہ کی اس طرح وضاحت ہوگی“، وہ جگہیں جو ہلاکت میں شمار کی جاتی ہیں وہاں اپنے سے نہ جاو یعنی ایسے مقامات پر جہاں بلا وجہ جان جانے کا خطرہ ہو اور جہاں جان دینے سے کوئی فائد ہ نہ ہو“۔
لیکن اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ”اہم اور اہم ترین“ کا قاعدہ نافذ ہوگا یعنی اگر جان کا خطرہ مول لے کر کوئی بہت بڑا دینی فائدہ حاصل ہو اور اسلام کو ضرورت ہو تو اس وقت اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالنا صرف یہی نہیں کہ کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ بعض اوقات واجب وضروری ہوجاتا ہے، اسلام کے اکثر احکام جیسے جہاد ،نہی عن المنکر اور امر بالمعروف میں خطرہ پایا جاتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کے خطرے سعادت و کامرانی تک پہنچنے کے ذرائع ہوا کرتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی حرج نہیں۔
اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں کہا جائے کہ ”ہلاکت“کے معنی وہ خطرات ہیں جو بد بختی اور ذلت کا سبب بنیں لیکن اگر جہاد جیسے خطرناک کام انجام دیئے جائیں تو یہ عین سعادت اور کامرانی ہے ،امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے قیام اور انقلاب میں بھی یہی مقصد کار فرما تھا ان لوگوں نے ایسے خطرے اور ایسی موت کو خود سے اختیار کیا تھا جس کے واضح اور روشن نتائج اس زمانہ میں اور روز قیامت تک ہر زمانہ میں دکھائی دیتے رہیں گے، لہٰذا ایسا قدم سعادت کا وسیلہ ہوتا ہے نہ کہ بدبختی کا۔
مثال کے طور پر اگر کوئی ایسے خطر ے میں کو دپڑے جس میں کچھ لوگوں کی جان چلی جائے اور سیکڑوں دیناروں کا نقصان ہو لیکن اس کے بدلے لاکھوں انسانوں کی جان بچ جائے اور ہزاروں دینار کا فائدہ حاصل ہو تو کیا یہ کام اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوگا؟
اگر کسان گیہوں کے دانوں کو زمین میں ڈالتا ہے تاکہ اس سے ہزاروں من گیہوں حاصل کرسکے تو کیا ا سے یہ کہنا درست ہے ”تم کیوں ان دانوں کو بیکار کر رہے ہو اور مٹی میں ملارہے ہو؟“
اسی بنیاد پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
”(
لَوْلاَدَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتْ الْاٴَرْضُ
)
“
” اگر خدا کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں کے وسیلہ سے دفع نہ کرے تو زمین پر فتنہ و فساد پھیل جائے“۔
۹۹۔ ایرانیوں کی شیعت کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
اشارہ
اگرچہ ملک ایران میں اسلام حضرت عمر کے دور خلافت میں پہنچا مگر اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ یہاں شیعوں کی اکثریت ہے؟
تاریخی شواہد کی بنیاد پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایرانی عوام پہلی صدی سے لے کر ساتویں ہجری صدی تک آہستہ آہستہ اسلام لے آئے ،ہر دفعہ ایک مخصوص کیفیت اور مخصوص واقعہ کی بنا پر ایسا ہوتا تھا جس کے اثرات کافی متاثر کن ہوا کرتے تھے ،اب آپ درج ذیل کے مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
زر تشتی: ”میری نظر میں ایرانیوں نے چار وجوہات کی بنا پر شیعیت کو اختیار کیا“۔
۱ ۔ایرانیوں کے یہاں چونکہ موروثی سلطنت پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے انھوں موروثی امامت کو پسند کیا۔
۲ ۔ایرانی قوم پہلے ہی سے اس بات کی معتقد تھی کہ سلطنت وحکومت الٰہی تحفہ ہوتا ہے ان کا یہ عقیدہ شیعوں کے عقیدہ سے میل کھاتا تھا۔
۳ ۔ایرانیوں کے آخری بادشاہ تیسرا ”یز د گرد “کی بیٹی ’شہر بانو“سے امام حسین علیہ السلام کی شادی بھی ایرانیوں کے شیعہ ہونے میں کافی اثرانداز رہی۔
۴ ۔عربوں کے مقابلہ میں ایرانیوں کا نفسیاتی رد عمل شیعیت تھا تاکہ وہ اس کے زیر پردہ اپن زرتشی اعمال کو انجام دے سکیں، لہٰذا تشیع ایرانیوں کا ایجاد کردہ مذہب ہے۔
شیعہ: ”ایرانیوں کے شیعہ ہونے میں ان چاروں اسباب میں سے ایک بھی سبب درست نہیں ہے ،کیونکہ ایران میں تشیع کی بنیاد سب سے پہلے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں پڑ چکی تھی رسول اسلام کی وفات کے بعد بنی ہاشم اور کچھ اصحاب جیسے سلمان فارسی ،ابوذر،مقداد وغیرہ کا ایران سے رابطہ تھا۔
ساسانیوں کے ظلم وستم کی تاریخ او ر اس زمانہ کے حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایرانی عوام اس موروثی سلطنت سے پریشان ہو چکے تھے اور وہ ایک جامع اور عادلانہ نظام کی تلاش میں تھے جو انھیں ان نا انصافیوں سے چھٹکارا دلا سکے۔
ممکن ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور جناب شہر بانو کی شادی ایرانی تشیع پر تھوڑا بہت اثر انداز ہوئی ہو مگر اسے اساسی سبب قرار دینا غلط ہے۔
زرتشی: ”اگر ایران میں تشیع کے یہ چار اسباب نہ تھے تو وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر ایران میں تشیع کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہو گئیں؟“
شیعہ: ”اسکی بڑی لمبی داستان ہے خلاصہ کے طور پر درج ذیل گیارہ مرحلوں میں اس کی توضیح کی جاسکتی ہے:
۱ ۔پہلی ہجری صدی کے دوسرے حصہ میں ایرانی ،اسلام سے آشنا ہوئے کیونکہ وہ ساسانی حکمرانوں کے ظلم وجور سے تنگ آگئے تھے اور ایک مکمل اور عادلانہ نظام کے منتظر تھے۔
اس مرحلہ میں جناب سلما ن کا کردار نبیادی حیثیت کا حامل تھا جنھوں نے ساسانیوں کے سابق دارالحکومت مدائن کو اسلام کی نشر و اشاعت اور تشیع کا مرکز قرادے دیا تھا ،جناب سلمان نے اسلام کے تعارف کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اختیار کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو گم نہ کردیں اور ایرانیوں نے اسلام کی صحیح شناخت کے لئے جناب سلمان کا انتخاب کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور حضرت علی علیہ السلام کو گم نہ کر دیں۔
۲ ۔حضرت علی علیہ السلام کی کوفہ میں عادلانہ حکومت جہاں ایرانیوں کا آناجانا ہوتا رہتا تھا آپ کے عدل پسند انہ طرز حکومت اور مساوات کے طریقوں نے ان ایرانیوں کو محبت آل رسول کی طرف جذب کر لیا اور وہ اس طرح سے حقیقی اسلام سے آشنا ہوگئے۔
۳ ۔ امام حسین علیہ السلام کا قیام اور ان کے پیغامات بھی ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ایرانیوں نے بنی امیہ کو اپنے ساسانی حکمرانوں سے الگ نہ پایا اور انھوں نے یہ جان لیاکہ یہ بھی ویسی ہی ظالم وجابر حکومت ہے لہٰذاوہ خود بخود اہل بیت علیہم السلام کی طرف کھینچتے چلے گئے اس کے بعد غم انگیز واقعہ کربلا ایک ایسے نور کی جھلک تھی جو ان کے دلوں کو اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے منور کر گئی۔
۴ ۔امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظیم علمی اور ثقافتی تحریک کہ جس میں چار ہزار شاگرد شامل تھے اور سب کے سب شیعیت کے عظیم مبلغ تھے ،یہ ایک اور مرحلہ تھا جس کی بنا پر ایرانیوں کے دلوں میں شیعیت کی بنیادیں مزید مضبوط ہوتی چلی گئیں کیونکہ کوفہ،مدائن سے نزدیک تھا اور بصرہ ،ایران کی سرحد تھی لہٰذ ا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے بہت سے شاگرد انھیں اطراف کے تھے جو کوفہ کی عظیم مسجد میں بیٹھ کر شیعی طرز تفکر کی تبلیغ کرتے تھے اور اس کی نشر واشاعت میں بڑی محنت کرتے تھے۔
۵ ۔قم وہ مرکز بن چکا تھا جہاں عراق کے جابر حکمرانوں سے بھاگ کر شیعہ پناہ لیتے تھے، ایران میں شیعیت کے پھیلاو میں اس کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
۶ ۔امام علی رضا علیہ السلام کا مدینہ سے خراسان کا سفر اور ان کی علمی و ثقافتی تحریک بھی انھیں اسباب میں سے تھی کیونکہ مامون شیعہ ہو چکا تھا اور اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو سنیوں کو بڑے بڑے علماء سے بحث ومناظرہ کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام نے اسلامی بنیادوں کے بیان میں حدیث ”سلسلة الذہب “بیان کی تو بیس ہزار یا ایک روایت کے مطابق چوبیس ہزار راویوں نے یہ حدیث سنی اور اسے لکھا۔
جب کہ اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد نہ پڑھنے لکھنے والوں کے مقابلہ میں بہت کم تھی جب وہاں موجود مجمع میں ۲۴ ہزار افراد لکھنے پر قدرت رکھتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مجمع اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔
۷ ۔حجاز سے مختلف امام زادے اور امام علی رضا علیہ السلام کے خاص احباب کا سفر بھی انھیں اسباب میں سے ہے ،یہ لوگ امام علی رضا علیہ السلام کے عشق میں مدینہ وغیرہ سے ہجرت کر کے ایران آگئے تھے اور بعد میں ایران کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے تھے، اور ان لوگوں کا دوسرے لوگوں سے حسن رابطہ تھا، ایران میں اس طرح بھی شیعیت بہت تیزی سے پھیلی۔
۸ ۔ایران میں شیعوں کے بزرگ علماء کا وجود جیسے شیخ کلینی ،شیخ طوسی،شیخ صدوق،شیخ مفیدوغیرہ یہ سب اسلام حقیقی یعنی شیعیت کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسے پھیلانے میں پورے خلوص اور جدوجہد سے عملی اقدامات کرتے تھے جس کی وجہ سے ایران میں مذہب جعفری کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں، اس کے علاوہ حوزہ علمیہ نجف کی تشکیل نے بھی شیعیت کو کافی فروغ دیا۔
۹ ۔آل بابویہ (دیالمہ)کی حکومت نے جو شیعہ تھا چوتھی اور پانچویںصدی کے دوران سیاسی اعتبار سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس کی حکومت نے ایران میں شیعیت کو استحکام بخشا اور اس مذہب کے لئے بڑے نفع بخش کا م انجام دیئے۔
۱۰ ۔آٹھویں صدی کے اوائل میں سلطان خداوند کا علامہ حلی کے ہاتھوں شیعہ ہو جانا بھی ایران میں قانونی طور پر شیعیت رائج ہو نے کا سبب بنا ،اسی زمانہ میں شیعیت نے اپنے استحکام کی طرف ایک نہایت مضبوط قدم بڑھایا۔
اسی زمانے میں علامہ حلی کا حوزہ علمیہ اور ان کی مختلف کتابیں بھی اس مذہب کی تبلیغ میں حصہ دار تھیں ان کے اس اہم کردار کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔
۱۱ ۔دسویں اور گیارویں صدی میں صفوی حکومت کا ظہور اور ان کے ساتھ شیعہ کے مختلف بزرگ علماء کا وجود جیسے علامہ مجلسی ،میرداماد،شیخ بہائی ،یہ بھی شیعیت کے لئے ایک سنہرا زمانہ گزرا ہے۔
یہ تمام عوامل اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کی وجہ سے ایران میں شیعیت کی بنیاد پڑی اور دیکھتے دیکھتے پورے ایران کو اس نے اپنے اثر میں لے لیا۔
زرتشتی: ”ایرانیوں کے تشیع میں صرف بیرونی عوامل کا ر فرما تھے یاا ندورونی یا دونوں؟“
شیعہ: ”ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ دونوں عوامل اس میں شریک ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ایرانی عوام ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بے چین تھی اور مختلف بادشاہوں کے ظلم وجور سے وہ پریشان ہو کر ایک عادلانہ نظام کے خواہاں تھے ،ایک ایسا نظام ،جس میں استحصال و غارت گری کا وجود نہ ہو۔
لہٰذاان وجوہات کی بنا پر ایرانی ،اندورونی طور سے اس طرح کے نظام کے خواہاں تھے دوسری طرف خارجی طور سے انھوں نے عدل وپاکی سے آراستہ اور نہایت عالم ومقدس رہبروں کے سائے میں مذہب شیعیت دیکھا لہٰذا وہ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے۔
ایرانی قوم ایک مکمل آئین اور ایک مکمل عادلانہ نظام کو امام علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کے سائے میں دیکھتے تھے اور ان کے مخالفین کے پاس آئین ونظام کے خلاف نیا آئین پاتے تھے۔
لہٰذا اس بنا پر اندورونی اور بیرونی عوامل نے ایک ساتھ مل کر ایرانیوں کے درمیان ایک عظیم الٰہی انقلاب برپا کردیا اور ان لوگوں نے اسلام کی بہترین راہ یعنی شیعیت کو اختیار کیاچنانچہ پیغمبر نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”اسعد العجم بالاسلام اهل فارس
“۔
”اسلام کے ذریعہ سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے عجم اہل فارس ہیں“۔
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:
”اعظم الناس نصیبا فی الاسلام اهل فارس
“۔
”مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ اسلام میں حصہ دار اہل فارس ہیں“۔
۱۰۰۔بعض قرآنی آیتوں کے درمیان ظاہری اختلاف کے متعلق ایک مناظرہ
شاگرد: ”میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو اس کی آیتوں کو دوسری بعض آیتوں کے ساتھ مقائسہ کرتا ہوں لیکن میںان کے درمیان تضاد پاتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے ؟کیا ممکن ہے کہ کلام خدا میں اختلاف پایا جائے؟“
استاد: ”خدا کے کلام میں اختلاف ناممکن ہے اور قرآن کی تمام آیتوں کے درمیان کسی طرح کا تضاد نہیں پایا جاتا
لہٰذا ہم خود سورہ نساء کی ۸۲ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
”(
وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلاَفًا کَثِیراً
)
“
”اگر قرآن غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو وہ لوگ اس میں بہت اختلاف پاتے“۔
یہ قرآن کی حقانیت کی ایک دلیل ہے کہ اس کی تمام آیتوں میں کسی طرح کا کوئی تضاد اور اختلاف نہیں پایا جاتا اور یہی اختلاف کا نہ پایا جانا اس کے معجزہ ہونے کی سند ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کسی بشر کی فکری صلاحیتوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
شاگرد: ”تو پھر میں کیوں بعض آیتوںکو پڑھتے وقت اس طرح کا احساس کرتا ہوں جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس میں اختلاف ممکن نہیں ہے؟ “
استاد: ”تم ان آیتوں کے ایک دونمونے بتاوجن میں تمہارے خیال میں تضاد اور اختلاف پایاجاتا ہے تاکہ ان پر غور وفکر کیا جا سکے اور بات واضح ہوجائے“۔
شاگرد: ”مثال کے طور پر میں دو نمونے ذکر کرتا ہوں۔
۱ ۔قرآن نے بعض مقامات پر انسان کی قدر منزلت کو اتنا بڑھا یا ہے کہ اس نے کہا ہے:
”(
فَإِذَا سَوَّیْتُهُ وَنَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِین
)
“
”پس جب میں اسے برابر کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم لوگ سجدہ ریزہوجانا“۔
لیکن بعض آیتوں میں قرآن نے اس طرح انسانوں کے مقام کو پست بتایا ہے کہ جانوروں کو بھی ان سے بلند مقام دیا ہے جیسا کہ ہم سورہ انعام میں پڑھتے ہیں:
”(
وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِیرًا مِنْ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لاَیَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ اٴَعْیُنٌ لاَیُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لاَیَسْمَعُونَ بِهَا اٴُوْلَئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ هُمْ اٴَضَلُّ اٴُوْلَئِکَ هُمْ الْغَافِلُونَ
)
“
”اور بتحقیق ہم نے بہت سے جن وانس کے گروہوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو دل رکھتے ہیں مگر اس سے کچھ سمجھتے نہیں،یہ لوگ چوپائے بلکہ اس سے بھی بد تر ہیں اور وہی لوگ غافل ہیں“۔
استاد: ”ان دونوں آیتوں کے درمیان کسی طرح کا کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ان دونوں آیتوں نے انسانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے،اچھے، بُرے ،جو لوگ اچھے ہیں وہ اتنے زیادہ مقرب بارگاہ ہیں کہ اللہ ان کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیتا ہے مگر ان کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جانوروں سے بھی بد تر ہیں اور عقل جیسی گراں بہا نعمت کی موجودگی میں چوپایوں جیسی حرکت کرتے ہیں“۔
لہٰذا اس بنا پر جو پہلی آیت میں انسانوں کی اتنی قدرومنزلت بیان کی گئی ہے وہ مثبت استعداد رکھنے والوں کی بات ہے،جو اپنی عقل کو صحیح طور سے کار فرما کرکے سعادت وبلند سے بلند ترین مقامات پر پہنچ جاتے ہیں ،اور دوسری آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اندر موجود شہوتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں جو اپنے اندر اتنی ساری صلاحیتوں اور خصوصیتوں کے باوجود خود کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور چوپایوں کے طور طریقے اپنا لیتے ہیں“۔
شاگرد: ”میں آپ کے قانع کنندہ بیان کا بہت شکر گزار ہوں اگر آپ اجازت دیں تو دوسرا نمونہ بھی عرض کروں؟“
استاد: ‘”کہو کوئی بات نہیں“۔
شاگرد: ”سورہ نساء کی تیسری آیت میں ہم پڑھتے ہیں“۔
”فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَی وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ اٴَلاَّ تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً
“
”پس پاک عورتوں سے نکاح کرو،دوکے ساتھ تین کے ساتھ یا چار کے ساتھ لیکن اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ تم عدالت نہیں کر پاوگے تو ایک سے نکاح کرو“۔
اس آیت کے مطابق اسلام میں عدالت کی مراعات کرنے کی صورت میں ایک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن ہم اسی سورہ کی ۱۱۹ ویں آیت میں پڑھتے ہیں۔
”وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا اٴَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُم
“
”اور تم کبھی بھی عورتوں کے درمیان عدالت نہیں کر سکتے بھلے ہی تم کوشش ہی کیوں نہ کرو“۔
لہٰذا پہلی آیت کے مطابق کئی بیویاں رکھنا جائز ہے البتہ بشرط عدالت ،مگر دوسری آیت کے مطابق چونکہ متعدد بیویوں کے درمیان عدالت ممکن ہی نہیں ہے لہٰذا ان دونوں آیتوں کے درمیان ایک طرح کا اختلاف پایا جاتا ہے؟“
استاد: ”اتفاق سے یہی بات امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں منکرین خدا ،جیسے ابن ابی العوجاء جیسے لوگوں کی جانب سے اٹھائی گئی تھی،ہشام بن حکم نے امام سے اس اعتراض کا جواب حاصل کیا اور ان اعتراض کرنے والوں کو اس کا جواب دیا
وہ جواب یہ ہے۔
پہلی آیت میں عدالت سے مراد رفتار وکردار میں انصاف کرنا ہے یعنی تمام بیویوں کے حقوق برابر ہیں اورانسان سب سے ظاہرا ً ایک جیسا برتاو کرے لیکن دوسری آیت میں عدالت سے مراد قلبی لگاو اور محبت میں عدالت قائم کرنا ہے (جو نا ممکن سی بات ہے) لہٰذا ان دونوں آیتوں میں تضاد نہیں ہے اگر کوئی ظاہری طور سے اپنی باتوں اور اپنے کردار سے چار بیویوں کے درمیان عدالت قائم کر سکتا ہو لیکن محبت اور دلی لگاو میں عدالت کی رعایت نہ کرسکےتو اس کے لئے چار بیویوں کا رکھنا جائز ہوگا“۔
شاگرد: ”ہم ان دونوں آیتوں میں کیوں عدالت کے دومعنی مراد لیں جب کہ عدالت کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں؟“
استاد: ”عربی قانون کے لحاظ سے اگر کسی معنی کے لئے قرینہ موجود ہو تو اس کے ظاہری معنی مراد نہ لیتے ہوئے دوسرے مجازی اور باطنی معنی مراد لے سکتے ہیں، اور ان دونوں آیتوں میں واضح شواہد موجود ہیں کہ پہلی آیت میں عدالت سے مراد ظاہر رفتار وکرادر اور دوسری میں باطنی ،جیسا کہ ظاہر آیت سے یہی بات واضح ہوتی ہے لیکن دوسری آیت میں جملے اس طرح ہیں۔
”فَلاَتَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوهَا کَالْمُعَلَّقَةِ
“
”اپنے تمام میلان کو ایک ہی بیوی کی طرف متوجہ نہ کردو کہ اس کے نتیجے میں دوسری بیویوں کو یوں ہی بلا وجہ چھوڑ دوگے۔
اس جملہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس آیت میں جو یہ کہا گیا ہے کہ تم عورتوں کے درمیان عدالت نہیں قائم کرسکتے اس سے مراد وہ عدالت ہے جو قلبی لگاو اور رجحانات میں ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی عدالت ناممکن ہے یعنی کوئی شخص اگر چار بیویوں کا شوہر ہوگا تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ چاروں کوایک مقدارمیںچاہے اور ان سب سے برابر کی محبت کرے البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ چاروں سے ایک جیسا سلوک کرے۔
لہٰذ اان دونوں آیتوں میں کوئی تضاد نہیں پایاجاتا۔
شاگرد: ”میں آپ کے اس قانع کنندہ اور مدلل بیان سے مطمئن ہو گیا،آپ کا شکریہ“۔
کیونکہ ظاہر سی بات ہے اسلامی احکام صرف وہاں تک قابل نفاذ ہوتے ہیں جہاں تک انسان کا اختیار ہو اور عمل یا عدم عمل پر اسے قابو ہو جہاں تک محبت اور دلی تعلق کا سوال ہے تو یہ ایک اضطراری عمل ہے اور اس کا تعلق احساساتی پہلووں سے ہوتا ہے اور انسان اپنے احساس اور قلبی محسوسات پر قادر نہیں ہوتا،لہٰذا اسلام میں چار بیویوں کے درمیان ظاہری طور پر عدالت کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ اس طرح فساد اور لڑائی کا امکان پایا جاتا ہے ۔
۱۰۱۔امام زمانہ (عج ) اور آپ کے مخصوص ۳۱۳ناصروں کے متعلق ایک مناظرہ
اشارہ:
مختلف روایتوں کے فرق کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ امام کے وہ اصحاب جو ظہور کے وقت خانہ کعبہ میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے جب دنیا میں آجائیں گے تو امام ظہور کریں گے اورانھیں کے انتظار میں ہیں،وہ اپنے زمانے کے پہلے انسان ہوں گے جو اپنے امام کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ان کی بیعت امام کے ظہو ر کے ساتھ ہی ہوگی وہ امام کے علمدار ہوں گے اور پوری زمین پر حضرت حجت کی طرف سے منصوب شدہ حاکم ہوں گے۔
اب آپ اسی کے سلسلہ میں در ج ذیل مناظرہ پر توجہ فرمائیں:
جستجو گر: ”براہ کرم مجھے امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ۳۱۳ / اصحاب کے متعلق وارد ہونے والی حدیث بتائیں؟“
محقق: ”یہ حدیث مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے یہ کوئی ایک حدیث نہیں ہے بلکہ دسیوں حدیث ہیں جو سب کی سب امام کے تین سو تیرہ اصحاب کے بارے میں منقول ہوئی ہیں ،ان کے نقل کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ تواتر معنوی کی حد تک پہنچ چکی ہیں یعنی امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے وقت ۳۱۳ افراد کا ان سے ملحق ہونا اس قدر مشہور ہے کہ جس کی شہرت سے اس کا علم پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بات ممکن ہوجاتی ہے کہ اتنے سارے لوگوں نے جھوٹ بول کر اسے نقل کیا ہو اور اس حدیث کے لئے اتنی بڑی سازش رچی ہو۔
جستجو گر: ”کوئی بات نہیں جیسا کہ مولانا کی مثنوی میں ہے“۔
آب دریا ر ا گر نتوان کشید
پس بہ قدر تشنگی باید چشید
(اگر دریا کے پانی کو نہیں بھر سکتے تو پیاس بجھانے کی مقدار کو پینا ہی چاہئے)۔
لہٰذا ان احادیث کے ایک دو نمونے ہی پیش کردیں۔
محقق: ”سورہ ہود کی آیت ۸۰ کی تفسیر میں بیان ہوا کہ جناب لوط علیہ السلام نے اپنی سر کش قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”(
لَوْ اٴَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّةً اٴَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ
)
“
”اے کاش تمہارے مقابل میرے پاس قدرت ہوتی یا میرے پاس کوئی مضبوط پشت پناہ ہوتا“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے: ”یہاں ”قوة“سے مراد وہی قائم عجل اللہ فرجہ الشریف ہیں اور ”رکن شدید“سے مراد ان کے ۳۱۳/ اصحاب ہیں“۔
دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”لکانّی انظر الیهم مصعدین مِن نجف الکوفة ثلاث مائة وبضعة عشر رجلا کاٴن قلوبهم زُبر الحدید
“۔
”جیسے میں ان تین سو اور کچھ آدمیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں جو نجف و کوفہ سے اوپر جارہے ہیں گویا ان کے دل فولاد کے ہیں“۔
جستجو گر: ”کیا پوری دنیا میں ابھی امام کے ۳۱۳ / اصحاب پیدا نہیں ہوئے جو امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ظہور کریں اور لوگوں کو دنیا کے ظلم و جور سے نجات حاصل ہو جائے ؟ “
محقق: ”یہ ۳۱۳ / افراد روایت کے مطابق بہت سی خصوصیتوں کے حامل ہوں گے جس کی طرف توجہ دینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں ابھی اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر سکے“۔
جستجو گر: ”مثلاًکون سی خصوصیتیں؟“
محقق: ”جیسے ہم امام سجاد علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ جب امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف مکہ میں موجود جم غفیر کے سامنے اپنا تعارف کرئیں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے تو کچھ لوگ آپ کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے۔
”فیقوم ثلاثمائة ونیف فیمنعونه منه
“۔
”تین سو کچھ افراد کھڑے ہو کر انھیں روک لیں گے“۔
”یجمعهم الله بمکة قزعاً کقزع الخریف
“۔
”خدا انھیں برسات کے بادلوں کی طرف مکےہ میں اکٹھا کرے گا“۔
”وکانی انظر الی القائم علی منبر الکوفة وحوله ثلاثمائة وثلاث رجلا عدة اهل البدر وهم اصحاب الالویة وهم حکام الله فی ارضه علی خلقه
“۔
”گویا قائم(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کو کوفہ کے منبر پر دیکھ رہاہوں اور ان کے اطراف بدر میں شریک ہونے والوں کی تعداد کے برابر مرد کھڑے ہیں یہ ان کے پرچم دار اصحاب اور اللہ کی طرف سے زمین پر حکومت کرنے والے لوگ ہوں گے“۔
اس حدیث کی بنا پر ان افراد کا علم و تقویٰ میں ایسا ہونا ضروری ہے کہ اگر پوری دنیا کو ۳۱۳ حصوں میں بانٹ دیا جائے تو وہ سب ایک ایک حصے پر حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بعض بزرگوں کے قول کے مطابق تین سو تیرہ افراد امام خمینی کی طرح جنھوں نے ایران کی رہبری سنبھالی لہٰذا ایسے تین سو تیرہ افراد ہونے چاہئے کہ جن کے اندر ایک ملک کو چلانے کی صلاحیت موجود ہو۔
جستجو گر: ”اب میں سمجھ گیا کہ دنیا میں ان خصوصیات کے ساتھ ابھی تین سو تیرہ افراد موجود نہیں ہیں اس کے لئے ایک وسیع منصوبہ کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے افراد تیار کئے جاسکیں اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کی راہیں ہموار ہو سکیں جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مقصد کی تکمیل اور اسلام کی ترقی کے لئے باتقویٰ اور مضبوط وسیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے باایمان اصحاب کی ضرورت محسوس کرتے تھے اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اپنے ظہور کے لئے ایسے ہی افراد کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
کیا آپ ان تین سو تیرہ افراد کی کچھ خصوصیات بتا سکتے ہیں؟ “
محقق: ”سورہ بقرہ کی ۱۴۸ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں:
”(
اٴَیْنَ مَا تَکُونُوا یَاٴْتِ بِکُمْ اللهُ جَمِیعًا
)
“
”تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں یکجا کر دے گا“۔
امام جعفرصادق علیہ السلام نے مذکورہ آیت کو پڑھنے کے بعد فرمایا:
”اس سے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب مراد ہیں جن کی تعداد ۳۱۳/ ہوگی خدا کی قسم !امت معدودوہی لوگ ہیں خدا کی قسم!سب ایک ساعت میں اکٹھے ہو جائیں گے جیسے موسم خزاں کے بادل تیز ہوا کے وجہ سے جمع ہوجائیں،چنانچہ وہ سب ایک دوسرے کے پاس جمع ہو جائیں گے“۔
اسی طرح ان کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دور دراز شہروں اور ملکوں سے مکہ آئیں گے“۔
اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، ذی طوی (مکہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر )ان ۳۱۳/ افراد کے انتظار میں توقف کریں گے یہاں تک کہ وہ لوگ آپ کی خدمت میں پہنچ جائیں گے اور امام علیہ السلام ان کے ساتھ کعبہ تک آئیں گے
وہ لوگ پہلے انسان ہوں گے جو امام علیہ السلام کی بیعت کریں گے۔
وہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھ ساتھ غیبی امداد سے مالا مال ہوںگے اور دست خدا اور اور امام علیہ السلام کا سایہ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوگا۔
جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایاہے:
”گویا میں تمہارے صاحب(امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)کو دیکھ رہا ہوں جو تین سو اور کچھ افراد کے ساتھ کوفہ کے پیچھے سے نجف آرہے ہیں داہنے طرف جبرئیل اور بائیں طرف میکائیل ہیں اور اسرافیل ان کے سامنے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرچم کو اٹھا ئے ہیں اور اس پرچم کو مخالفوں کے جس گروہ کی طرف جھکادیتے ہیں اللہ انھیں ہلا ک کردیا ہے۔
جستجو گر: ”امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب کے بارے میں کیوں ”رجال“ یعنی مردوں کا لفظ استعمال ہوا ہے کیا ان کے اصحاب میں عورتیں نہیں رہیں گی؟کیا عورتیں اس تحریک میں بالکل حصہ نہیں لیں گی؟ “
محقق: ”اکثر مردوں کی بات اس لئے آتی ہے کیونکہ ظہور کے ابتدائی ایام میں صرف جنگ وجہاد کی باتیں ہوں گی لہٰذا مردوں ہی کی بات ہوتی ہے، اور چونکہ جنگ میں جائیں گے لیکن عورتیں محاذ کے علاوہ محنت کریں گی اور مجاہد وں کی خدمت کر کے وہ بھی جہاد کریں گی۔
اور جہاں تک ان ۳۱۳ / اصحاب کا سوال ہے تو بعض روایتوں کے مطابق ان میں عورتیں بھی ہوں گی جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:
”۔۔۔ویجی والله ثلاث مائة وبضعة رجلا فیهم خمسون امراة بمکة علی غیر میعاد قزعا کقزاالخریف
“۔
”خدا کی قسم ! تین سو اور کچھ آفراد آئیں گے جن میں سے پچاس عورتیں ہوگی جو سب مکہ کے پاس فصل خزاںکے بادلوں کی طرح بغیر کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت جمع ہو جائیں گے۔
مفضل سے نقل ہوا ہے کہ امام جعفر صاق علیہ السلام نے فرمایاہے: ”اما م مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھ تیرہ عورتیں ہوں گے“۔
میں نے کہا: ”یہ عورتیں امام علیہ السلام کے پاس کیوں ہوں گی“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ زخمیوں کا علاج کریں گی اور جنگی مریضوں کی تیمارداری کریں گی جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مختلف جنگوںمیں عورتیں اس طرح کا م انجام دیا کرتی تھیں“۔
جستجو گر: ”امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے عالمی قیام کی نسبت سے یہ تعداد بہت کم ہے؟“
محقق: ”یہ اصحاب ابتداہی میں امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملحق ہو جائیں گے لیکن اس کے بعد دھیرے دھیرے آپ کے اصحاب کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا“۔
واضح عبارت میں یوں کہا جائے کہ یہ امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وہ خاص اصحاب ہوں گے جو آپ کی عالمی حکومت کے مرکزی ارکان ہوں گے مثلاً ایک روایت میں آیا ہے۔
” ۳۶۰ / الٰہی وکامل اشخاص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے وہ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے وزراء اور آپ کے عالمی حکومت کے خاص ارکان ہوں گے“۔
اس کے بعد آپ نے یہ بھی فرمایا:
”روم کو فتح کرنے میں امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ستر ہزار اصحاب تکبیر کہتے ہوئے شرکت کریں گے پہلی ہی تکبیر کی گرج کے ساتھ وہ ایک تہائی روم کو فتح کرلیں گے اور دوسری تکبیر کی گرج کے ساتھ دوسرا ایک تہائی حصہ فتح ہو جائے گا تیسری تکبیر کے ساتھ ہی پورا روم فتح ہو جائے“۔
یا دوسری روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا: ”ستر ہزار سچے اور مخلص اصحاب کوفہ سے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مدد کے لئے اٹھیں گے“۔
اس مناظرہ کی مکمل کرنے کی غرض سے اور کتاب کے حسن ختام کے طور پر حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے متعلق چند روایتیں پیش خد مت ہیں:
۱ ۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”ان القائم صلوات الله علیه ینادی باسمه لیلة ثلاث و عشرین، ویقوم یوم عاشوراء یوم قتل فیه الحسین
“۔
”بلا شبہ قائم صلوات اللہ علیہ کو ان کے نام سے (رمضان کی) ۲۳/ ویں شب کو ندادی جائے گی اور یوم عاشورہ امام حسین علیہ السلام کے شہادت کے روز آپ کا قیام ہوگا“۔
۲ ۔امام سجاد علیہ السلام نے فرمایاہے:
”اذا قام قائمنا اذهب الله عزوجل عن شیعتنا العاهة،وجعل قلوبهم کزبر الحدید وجعل قوة الرجل منهم قوة اربعین رجلا ویکونون حکام الارض وسنامها
“۔
”جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو خدا وند عالم تمام آفتیں اور وحشتیں ہمارے شیعوں سے دور کر دے گا اور ان کے دلوں کو فولاد کی طرف مضبوط کر دے گااس وقت ایک آدمی کی طاقت چالیس آدمیوں کے برابر ہو جائے گی وہ لوگ تمام دنیا کے حاکم اور سردارہوں گے“۔
۳ ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایاہے:
”فاذا وقع امرنا وخرج مهدینا ،کان احدهم اجری من اللیث، وامضی من السنان ،ویطاٴ عدونا بقدمیه و یقتله بکفه
“۔
”جب ہمار اقائم ظہور کرے گا تو ہمارا ہر شیعہ شیر سے زیادہ جرات مند ہو جائے گا کہ نیزہ سے زیادہ تیز ہوجائے گا وہ اپنے پیروں سے ہمارے دشمن کو پامال کردے گا اوراپنی ہتھیلیوں سے انھیں مار ڈالے گا“۔
۴ ۔امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”لیعدن اٴحدکم لخروج القائم و لو سهما
“۔
”تم لوگوں کو اپنے آپ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے تیاری کرنا چاہئے بھلے ہی ایک ایک تیر کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو“۔
آپ نے اسی سلسلے میں یہ حدیث بھی فرمائی:
”یذل له کل صعب
“۔
”تمام مشکلات اس کے لئے آسان ہو جائیں گی“۔
الحمد لله رب العالمین
____________________