۱۰۔ معاویہ کی سیاسی سازش کا جواب
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عظیم صحابی عمار یاسر جو آنحضرت کی رحلت کے بعدبھی مذہب اسلام کی پیروی میںعلی علیہ السلام کے ہر قدم پر ساتھ ساتھ تھے یہاں تک کہ جنگ صفین میں آپ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمار یاسر سے فرمایا تھا: ”تقتلک الفئة الباغیة“تمہیں باغی گروہ قتل کرے گا“۔
یہ بات تمام مسلمانوں کے درمیان مشہور ہو گئی کہ عمار کے سلسلے میں پیغمبر نے اس طرح فرمایا ہے۔ابھی چند سال گزرے تھے کہ امام علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں آپ کے اور معاویہ کے سپاہیوں کے درمیان جنگ کا بازار گرم ہوا جسے تاریخ میںجنگ صفین کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس جنگ میں عمار یاسر اما م علی علیہ السلام کے لشکر کے سپاہی تھے اس جنگ میں آپ نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے آخر کار معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھ شہید ہو گئے۔
وہ لوگ جو جنگ صفین میں شک و شبہ میں تھے کہ آیا معاویہ حق پر ہے یا علی علیہ السلام ؟ان کے نزدیک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پڑ رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام نے یہ فرمایا تھا کہ عمار ایک ظالم وباغی گروہ کے ذریعہ قتل کئے جائیں گے اور عمار کو قتل کرنے والا گروہ معاویہ کا تھا لہٰذا معاویہ باطل پر ہے۔
معاویہ نے جب یہ دیکھا کہ پیغمبر کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پڑ رہے ہیں تو اس نے ایک ڈھونگ رچا اورکہنے لگا کہ عمار یاسر کو میں نے قتل نہیں،بلکہ علی نے قتل کیا ہے کیونکہ اگر وہ ہمارے مقابلہ میں انھیں نہ بھیجتے تو وہ ہر گز قتل نہ کئے جاتے۔معاویہ کی اسی توجیہ نے بعض لوگوں کو بیوقوف بنا دیا۔
امام علی علیہ السلام نے اس ڈھونگ کا بہت کھل کر جواب دیتے ہوئے فرمایا: ”اگر معاویہ کی یہ بات صحیح ہے تو یہ بھی کہنا صحیح ہوگا کہ جنگ احد میں جناب حمزہ علیہ السلام کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قتل کیا ہے نہ کہ مشرکوں نے، کیونکہ جناب حمزہ علیہ السلام کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھیجا تھا“۔
علی علیہ السلام کے اس جواب کو عبد اللہ بن عمر عاص نے معاویہ تک پہنچادیا جواب سن کر معاویہ اس قدر بوکھلا گیا کہ اس نے اپنے نہایت مکار و سازشی مشاور خاص کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔”اے احمق کے بیٹے جلدی یہاں سے بھاگ جا“۔
غرض کہ یہ بذات خود ایک ایسا مناظرہ تھا جس نے دشمن کی سازشوں کو خاک میں ملا کر ان کے سارے منصوبوں کی مٹی پلید کردی۔
۱۱۔ امام سجاد علیہ السلام کا ایک بوڑھے شخص سے مناظرہ اور اس کی نجات
امام سجاد علیہ السلام جب اپنے قافلے والوں کے ساتھ اسیر ہو کر وارد دمشق ہوئے تو شام کا رہنے والا ایک بوڑھا شخص امام سجاد علیہ السلام اور ان کے قافلے والوں کے پاس آکر کہنے لگا۔
”خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں قتل کیا،تمہارے شہروں کو تمہارے مردوں کی وجہ سے آسودہ کیا اور امیر المومنین یزید کو تم پر مسلط کیا“۔
امام سجاد علیہ السلام نے اس بوڑھے سے ،جو مسلمانوں سے بالکل بے بہرہ تھا اس طرح مناظرہ کیا۔
امام علیہ السلام: ”کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ؟“
بوڑھا: ”ہاں“
امام علیہ السلام: ”کیا تم نے اس آیت کا معنی خوب اچھی طرح سمجھا ہے جس میں خداوندمتعال فرماتاہے:
”(
قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْهِ اٴَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی
)
“
”اے پیغمبر ان سے کہو کہ میں تم سے اجر رسالت کچھ نہیں چاہتا مگر یہ کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو“۔
بوڑھامرد: ”ہاں میں نے اس آیت کو پڑھا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”اس آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابتداروں سے مراد ہم لوگ ہیں، اے شخص! کیا تونے سورہ انفال کی ۴۱ ویں آیت پڑھی ہے:
”(
وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاٴَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی
)
“
”اور جان لو کہ جو کچھ بھی تم نے مال غنیمت حاصل کیا ہے بلاشبہ اس کا خمس اللہ،اس کے رسول اور ذی القربی کے لئے ہے ۔۔۔“۔
بوڑھا مرد: ”ہاں میں نے پڑھا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”اس آیت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابت دار اس آیت میں ہم لوگ ہیں اے شخص ! کیا تونے اس آیت کو پڑھا ہے“۔
”(
إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا
)
“
”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔
بوڑھا مرد: ”ہاں پڑھا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”ہم ہیں وہ لوگ کہ جن کے لئے خداوند عالم نے آیہ تطہیر نازل کی ہے“۔
یہ سن کر بوڑھا خاموش ہو گیا اور اس کے نزدیک حقیقت واضح ہو گئی جس کی وجہ سے اپنے کہے ہوئے جملہ پر اس کے چہرہ سے پشیمانی ظاہر ہو رہی تھے۔
چند لمحوں بعد اس نے امام علیہ السلام سے کہا: ”خدا کی قسم کھاو کہ تم وہی جو تم نے کہا ہے“۔
امام علیہ السلام: ”خدا کی قسم اور اپنے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق کا واسطہ دے کر کہا کہ میں انھیں کے خاندان سے ہوں“۔
یہ جملہ سنتے ہی بوڑھے مرد کی حالت غیر ہو گئی اور روتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ”بار الہٰا ہم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے تمام دشمنوں (جن وانس)سے برائت کا اظہار کرتے ہیں“، اسی وقت اس نے امام کی بارگاہ میں توبہ کی۔
اس واقعہ کی خبر یزید کے کانوں تک پہنچی۔یزید نے فوراً اس کے لئے پھانسی کا حکم صادر کیا اور اس ہدایت یافتہ بوڑھے کو شہید کر دیا۔
۱۲۔ ایک منکر خدا کاامام صاد ق علیہ السلام سے مناظرہ کے بعد مسلمان ہونا
سر زمین مصر میں عبد الملک نام کا ایک شخص رہتا تھا جس کے بیٹے کا نام عبد اللہ تھا ، اس بنا پر لوگ اسے ابو عبد اللہ کہتے تھے۔عبد الملک منکر خدا تھا اور اس کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آگئی ہے اس نے یہ سن رکھا تھا کہ شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام مدینہ میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس نے مدینہ کا قصد کیا تاکہ ان سے خداوند متعال کے بارے میں مناظرہ کرے۔
جب یہ شخص مدینہ پہنچ کر امام کا پتہ معلوم کرنے لگا تو اسے لوگوں نے بتایا کہ وہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ تشریف لے گئے ہیں۔
وہ مکہ کے طرف روانہ ہوا ،مکہ معظمہ پہنچ کر اس نے دیکھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام طواف میں مشغول ہیں عبد الملک طواف کرنے والوں کی صف میں داخل ہوا اور عناد کی وجہ سے اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دھکا دیا لیکن امام علیہ السلام نے بڑی محبت سے فرمایا: ”تمہارا نام کیا ہے ؟“
اس نے کہا: ”عبد الملک“۔
امام علیہ السلام: ”تمہاری کنیت کیا ہے ؟“
عبد الملک: ”ابو عبد اللہ“۔
امام علیہ السلام: ”وہ مالک کہ جس کے تم بندہ ہو(جیسا کہ تمہارے نام سے ظاہر ہوتا ہے)وہ زمین کا حاکم ہے یا آسمان کا؟جب (تمہاری کنیت کے مطابق)تمہارا بیٹا بندہ خدا ہے ؟ذرا بتاو وہ زمین کے خدا کا بندہ ہے یا آسمان کے ؟تم جو بھی جواب دوگے شکست کھاوگے“۔
عبد الملک لا جواب ہو گیا۔ہشام برمکی امام کے شاگرد وہاں موجود تھے انھوں نے عبد الملک سے کہا: ”کیوں نہیں امام کا جواب دیتے ؟“
عبد الملک کو ہشام کی بات بہت بری لگی اور اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے بڑی نرمی سے عبد الملک سے کہا: ”طواف ختم ہونے تک صبر کرو اور طواف کے بعد تم میرے پاس آو تاکہ دونوں مل کر کچھ گفتگو کریں“۔
جب امام جعفر صادق علیہ السلام طواف سے فارغ ہوئے تو وہ ان کے پاس آکر برابر میں بیٹھ گیا۔اس وقت امام کے چند شاگرد بھی وہاں تشریف رکھتے تھے۔
اس وقت امام علیہ السلام اور اس کے درمیان اس طرح مناظرہ شروع ہوا۔
امام علیہ السلام: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ زمین تہ وبالا ہو تی ہے ، اورظاہر و باطن رکھتی ہے؟“
منکر خدا: ”ہاں“۔
امام علیہ السلام: ”آیا زمین کے نیچے گئے ہو؟“
منکر خدا: ” نہیں“۔
امام علیہ السلام: ”بس تمہیں کیا معلوم کہ زمین کے نیچے کیا ہے ؟“
منکر خدا: ”زمین کے نیچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن یہ گمان کرتا ہوں کہ زمین کے نیچے کسی چیز کا وجود نہیں ہے“۔
امام علیہ السلام: ” گمان اور شک ایک طرح کی لاچاری ہے جہاں تم یقین پیدا نہیں کر سکتے۔کیا تم آسمان کے اوپر گئے ہو ؟“
منکر خدا: ” نہیں“۔
امام علیہ السلام: ” کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ آسمان میں کیا ہے اور وہاں کون کون سی چیزیں پائی جاتی ہیں ؟“
منکر خدا: ”نہیں“۔
امام علیہ السلام: ”عجیب !نہ تم نے مشرق دیکھا نہ مغرب دیکھا ہے نہ زمین کے نیچے گئے ہو اور نہ آسمان کے اوپر گئے تاکہ یہ معلوم کر سکو کہ وہاں کیا کیا ہے اور اس جہل ونادانی کے بعد بھی تم ان تمام چیزوں کے منکر ہو( تم اوپر اور نیچے کی موجودہ اشیاء اور اس کے نظم و ترتیب جو خداوند متعال کے وجود کی حکایت کرتی ہیں اس سے بالکل نا آشنا ہو پھر کیوں منکرخد اہو؟)کیا کوئی عاقل شخص جس موضوع میں جاہل ہوتاہے اس کا انکار کرتا ہے ؟!“
منکر خدا: ”آج تک مجھ سے کسی نے اس طرح کی باتنہیں کی“۔
امام علیہ السلام: ”غرض تم اس حقیقت پر شک کرتے ہو کہ آسمان کے اوپر اور زمین کے نیچے کچھ چیز موجود ہے ہی نہیں ؟“
منکر خدا: ”ہاں شاید اسی طرح ہو“۔(اس طرح منکر خدا آہستہ آہستہ مرحلہ انکار سے شک وتردید کے مرحلہ تک پہنچا)
امام علیہ السلام: ”جو شخص جاہل ہے وہ عالم کے لئے دلیل نہیں ہو سکتا ،اے مصری برادر ! میری بات سنو اور سمجھو ہم خدا کے وجود کے بارے میں ہر گز شک نہیں کرتے کیا تم سورج ،چاند اور دن ورات کو نہیں دیکھتے کہ وہ صفحہ افق پر آشکار ہوتے ہیں اور وہ مجبورا ً اپنے معین راستہ پر گردش کرکے واپس پلٹتے ہیں اور وہ اپنی معین مسیر میں مجبور وناچار ہیں؟
اب میں تم سے پوچھتا ہوںاگر چاند سورج کے پاس گردش کرنے کی ذاتی قوت ہے تو وہ کیوں پلٹتے ہیں اور اگر اپنے آپ کو مجبورنہیں سمجھتے ہیں تو کیوں رات دن نہیں ہو جاتی اور دن رات نہیںہو جاتا ہے ؟اے مصری برادر !خدا کی قسم یہ چاند وسورج اپنی گردش پر مجبور ہیں اور جس نے ان کو ان کی گردش پر مجبور کیا ہے وہ ان سے زیادہ حکومت کا اہل اور بہترین حاکم ہے۔
منکر خدا: ”سچ کہا“۔
امام علیہ السلام اے مصری برادر! تم یہ بتاو کہ تمہارے عقیدہ کے مطابق اگر زمانہ کے ہاتھوں میں موجودات کی زمام ہے اور وہی لوگوں کو لے جاتا ہے تو انھیں دوبارہ کیوں لوٹا تا اور اگر لوٹا دیتا ہے تو پھر انھیں کیوں نہیں لے جاتا؟
اے مصری برادر ! دنیا کی ہر چیز مجبور ہے کیوں آسمان اوپر اور زمین نیچے واقع ہے ؟آسمان زمین پرکیوں نہیں گر پڑتا یا زمین اپنی سطح سے بلند ہو کر آسمان سے کیوںچپک نہیں جاتی ؟اور زمین کی تمام موجودہ اشیاء آسمان سے کیوں نہیں چپک جاتی ہیں“۔
(امام علیہ السلام کا مضبوط استدلال یہاں تک پہنچا تو عبد الملک کا شک ختم کرکے ایمان کی منزل میں آپہنچا )وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں ایمان لے آیا اور اس نے وحدہ لاشریک کی گواہی دی اور اس نے اسلام کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے بڑے ہی پر جوش انداز میں کہا: ”وہ خدا ہے جو زمین وا ٓسمان کا حاکم ہے اور جس نے انھیں روک رکھا ہے“۔
حمران: ”امام علیہ السلام کا ایک شاگرد بھی وہاں موجود تھا، اس نے امام علیہ السلام کی طرف دیکھ کر کہا: ”میری جان آ پ پر فدا ہو اگر منکرین خدا آپ کی وجہ سے ایمان لائے اور مسلمان ہو جائیں تو آپ کے جد کی وجہ سے کافروں نے بھی اسلام وایمان قبول کیا ہے“۔
عبد الملک نے جو ابھی ابھی مسلمان ہواتھا امام سے عرض کیا: ”آپ مجھے شاگرد کے طور پر قبول کر لیجئے“۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے فرمایا: ”عبد الملک کو اپنے ساتھ لے جاو اور اسے احکام اسلام کی تعلیم دو“۔ہشام بن حکم جو شام اور مصر کے عوام کے لئے بہترین معلم تھے، عبد الملک کو اپنے ساتھ لے گئے اور عقائد اور احکام اسلام کی تعلیم دی تاکہ وہ سچے اور مضبوط عقیدہ والے ہوجائیں، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس مومن کے ایمان اور ہشام بن حکم کی تعلیمی روش کو بہت پسند کیا۔
۱۳۔ابن ابی العوجا ء کی بے انتہا لاچاری
”عبد الکریم “جو” ابن ابی العوجاء“کے نام سے مشہور تھا ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مناظرہ کے لئے حاضر ہوا اس نے دیکھا کہ چندگروہ امام کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی امام علیہ السلام کے قریب آکر خاموشی سے بیٹھ گیا۔
امام علیہ السلام: ”تو دوبارہ اس غرض سے آیا ہے کہ میرے اور تیرے درمیان جو باتیں ہوئی تھیں ان کے بارے میں تحقیق کرے“۔
ابن ابی العوجاء: ”ہاں، یابن رسول اللہ میں اسی لئے آیا ہوں“۔
امام علیہ السلام: ” تجھ پر تعجب ہوتا ہے کہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ میں پیغمبر کا بیٹاہوں اور خدا کا انکار کرتا ہے “!!
ابن ابی العوجاء: ”اس طرح بات کرنے پر ہماری عادتمجبور کرتی ہے“۔
امام علیہ السلام: ” تو خاموش کیوںہے؟“۔
ابن ابی العوجاء: ”آپ کی عظمت وجلالت کی وجہ سے میری زبان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ آپ کے سامنے کچھ بولوں۔میں بہت سے دانشوروں اور مقرروں کے پاس جاکر باتیں کرتا ہوں لیکن آپ کی جلالت وعظمت جس طرح مجھے مرعوب کر دیتی ہے ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا“۔
امام علیہ السلام: ” جب تو خاموش ہے تو میں ہی بات شروع کرتا ہوں“۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ” ابن ابی العوجاء تو مجھے بتا کہ تومصنوع (بنایا گیا ) ہے یا نہیں“۔
ابن ابی العوجاء: ”نہیں ،میں نہیں بنا یا گیا ہوں“۔
امام علیہ السلام: ’ اچھا تو یہ بتا اگر تومصنوع (بنایا ہو ا) ہوتا تو کیسا ہوتا“۔
ابن ابی العوجاء: بہت دیر تک اپنے گریبان میں جھانکتا رہا اس کے بعد اس نے اپنے پاس رکھی ہوئی لکڑی کو اٹھا کر ہاتھ میں دبایا اور مصنوعی شئے کے ساخت کی نوعیت اس طرح بیان کرنے لگا: ” لمبی، چوڑی، گہری (عمیق)،چھوٹی ، متحرک ،غیر متحرک وغیرہ ، یہ تمام چیزیں مخلوق اور منصوع ہونے کی خصوصیات ہیں۔
امام علیہ السلام: ”ہاں اگر اس کے علاوہ مصنوع چیز کی دوسری اور صفتیں نہیں جانتا تو تو خود بھی مصنوع ہے اور تجھے چاہئے کہ اپنے آپ کو مصنوع سمجھے کیونکہ یہ تمام صفات تو اپنے وجود میں پاتا ہے“۔
ابن ابی العوجاء: ”آپ نے جیسا سوال کیا ہے ابھی تک کسی نے مجھ سے ایسا سوال نہیں کیا اور نہ آئندہ کرے گا“۔
امام علیہ السلام: ”بالفرض کہ ابھی تک تجھ سے اس طرح کا کسی نے سوال نہیں کیا لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ آئندہ بھی ایسا سوال نہیں کیا جائے گا ؟!“
اس طرح تو اپنی بات سے اپنی ہی بات کی رد کر رہا ہے، کیونکہ تیرے عقیدہ کے مطابق ماضی ، حال اور آئندہ سب یکساں ہیں ، اب کس طرح تو کچھ چیزوں کو پہلے اور کچھ کو بعد میں تصور کرتا ہے، اور اپنی باتوں میں ماضی اور مستقبل کا ذکر کرتا ہے، اے عبد الکریم! اس سے زیادہ توضیح دوں اگر تیرے پاس سونے کے سکوں سے بھری ہوئی ایک تجوری ہو اور تجھ سے کوئی کہے کہ اس تجوری میں سونے کے سکے موجو ہیں اور تو اس کے جواب میں کہے کہ نہیں ، اس میں کچھ نہیں ہے اور وہ تجھ سے کہے کہ سونے کے اوصاف بیان کر، اور اگر تو سونے کے سکے اوصاف نہیں جانتا تو کیا یہ کہہ سکتے ہو کہ تجوری میں سونے کے سکے نہیں ہیں؟“
ابن ابی العوجاء: ”نہیں اگر میں نہیں جانتا تو ہر گز ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔
امام علیہ السلام: ” اس دنیا کی لمبائی اور چوڑائی اس تجوری سے کہیں زیادہ ہے اب تجھ سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ اس پھیلی ہوئی دنیا میں جو مصنوع ہے تو مصنوعی اور غیر مصنوعی چیزوں کی خصوصیت نہیں جانتا“۔
جب بات یہاں تک پہنچی تو ابن ابی العوجاء مجبور ہو کر خاموش ہو گیا یہ دیکھ کر اس کے بعض ہم مسلک لوگ مسلمان ہو گئے اور بعض کفر پر باقی رہے۔
۱۴۔مناظرہ کا تیسرا دن
تیسرے دن بھی ابن ابی العوجاء امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں مناظرہ کی غرض سے یہ سوچ کر آیا کہ آج وہ پہل کرے گا۔ لہٰذا وہ آتے ہی کہنے لگا کہ آج میں مناظرہ کی ابتداء چند سوال سے کرتا ہوں:
امام علیہ السلام: ”جو چاہو پوچھو“۔
ابن ابی العوجاء: ”کس دلیل کی وجہ سے یہ دنیا حادث ہے (یعنی پہلے نہیں تھی اور بعد میں وجود میں آئی ؟)
امام علیہ السلام: ”تم جب بھی کسی چھوٹی چیز کا تصور کرتے ہو اگر چھوٹی چیز کو اسی جیسی کسی دوسری چیز سے ملا دو تو وہ مذکورہ شئے بڑی ہو جائے گی اسی کو انتقال کہتے ہیں یعنی پہلی حالت بدل کر دوسری حالت اختیار کرنا، اور حادث کے معنی بھی یہی ہیں، اب اگر وہ چیز قدیم تھی (اول سے تھی) تو دوسری حالت اختیار نہیں کرسکتی کیونکہ جو بھی چیز نابود اور متغیر ہوتی ہے وہ نابودی اور تبدیلی کو قبول کرتی ہے اور اس بنا پر کسی ہستی کا نابود ہونا اس کے حادث ہونے کی دلیل ہواکرتی ہے۔ اور اگر بالفرض وہ قدیم تھی بھی تو اب بڑی ہوجانے کی وجہ سے و ہ تغیر پذیر ہو گئی اور اس طرح وہ حادث ہو گئی ( یہی اشیاء کے قدیم نہ ہونے کی دلیل ہے ) اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ایک چیز حادث بھی ہو اور قدیم بھی، ازلی بھی ہو اور عدمی بھی“۔
ابن ابی العوجاء: ”جی ہاں! اگر یہ فرض کر لیں کہ چھوٹی چیز بڑی ہو جاتی ہے تو آپ کی بات درست ہے اور اس طرح انھیں حادث ماننا پڑے گا لیکن اگر کوئی چیز اپنے اصلی حالت پر یعنی چھوٹی ہی باقی رہے تو ان کے حادث ہونے پر آپ کی دوسری کیادلیل ہے ؟“
امام علیہ السلام: ” ہماری بحث کا محور یہی موجودہ کائنات ہے (جو تغیر و تبدیل کی حالت میں ہے ) اب اگر اس دنیا کو چھوڑ کر دوسری دنیا کو تصور کریں اور اسے موضوع بحث بنائیں تو بھی ایک دنیا کا نابودہونا اور اس کی جگہ ایک دوسری دنیا کا وجود ثابت ہوگا اور یہی حادث ہونے کے معنی ہیں، اور تمہارے کہنے کے مطابق اگر ہر چھوٹی چیز اپنی حالت پرباقی رہتی تو کس طرح حادث ہو گی اس کا بھی جواب دیتا ہوں۔
اگر یہ فرض کر لیں کہ ہر چھوٹی چیز اپنی حالت پر باقی رہے تب بھی یہ فرض کرنا تو بہر حال صحیح ہوگا کہ اگر دو ہم مثل چھوٹی چیزوں کو آپس میں ملادیا جائے تو وہ چھوٹی چیز بڑی چیز ہو جائے گی، اس طرح کے فرض کا صحیح ہونا ہی ان کے حادث ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس طرح کے فرض کی صحت سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ مفروض شئے تغیر و تبدیل کرتی ہے اور یہی تبدیلی اس کے حادث ہونے پر دلالت کرتی ہے اے عبد الکریم اس کے بعد تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچتا۔
۱۵۔ ابن ابی العوجاء کی ناگہانی موت
ابن ابی العوجاء اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے درمیان مکہ معظمہ میں مناظرہ کو ایک سال گزر گیا۔اور دوسرے سال پھر ابن ابی العوجاء کعبہ کے کنارے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام علیہ السلام کے ایک شیعہ نے آپ سے دریافت کہ کیا ابن ابی العوجاء مسلمان ہوگیا؟
امام علیہ السلام: ” اسلام کے سلسلے میں اس کا دل ٹیڑھا ہے وہ ہر گز مسلمان نہیں ہوگا“۔
جب ابن ابی العوجاء کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کہا: ”اے میرے آقا ومولا !“۔
امام علیہ السلام نے کہا: ”کیوں یہاں آئے ہو؟ “
ابن ابی العوجاء: ”میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ اپنے وطن والوں کا بال مونڈنا پتھر پھینکنا یا اس طرح کی دوسری دیوانگی جو وہ حج میں انجام دیتے ہیں دیکھ سکوں“۔
امام علیہ السلام: ”تو ابھی تک اپنی گمراہی اور سرکشی پر باقی ہے“۔
ابن ابی العوجاء چاہتاہی تھاکہ کچھ بولے، امام نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ حج کے زمانہ میں بحث و مجادلہ صحیح نہیں ہے۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنی عبا کو جھٹکا دیا اور فرمایا: ” اگر وہ چیز حق ہے جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں (اور ایسا ہی ہے تو ہم کامیاب ہیں)،نہ کہ تم اور اگر تو حق پر ہے،( جب کہ ایسا نہیں ہے ) تو تم اور ہم دونوں کامیاب ہیں بہر حال ہم دونوں صورتوں میں کامیاب ہیںلیکن تم دوصورتوں میں سے ایک صورت میں ہلاک ہونے والے ہو“۔
اسی وقت ابن ابی العوجاء کی حالت بدلنے لگی اور اس نے اپنے اطرافیوں سے کہا کہ میرے دل میں درد ہو رہا ہے مجھے واپس لے چلو۔ جب اسے اس کے اطرافی واپس لے گئے تو وہ دنیا سے جاچکا تھا، (خدا اسے معاف نہ کرے۔)
____________________