۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے0%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 35166
ڈاؤنلوڈ: 6436

تبصرے:

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 35166 / ڈاؤنلوڈ: 6436
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

۱۶۔عبد اللہ دیصانی کا مسلمان ہونا

ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بہترین شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکر خدا نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا: ”کیا تمہارا خدا ہے“۔

ہشام: ”ہاں“۔

عبد اللہ: ”آیا تمہارا خدا قادر ہے ؟ “

ہشام: ”ہاں میرا خدا قادر ہے اور تمام چیزوں پر قابض بھی ہے“۔

عبد اللہ: ”کیا تمہارا خدا ساری دنیا کو ایک انڈے میں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بڑا ہوا۔؟ “

ہشام: ”اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو“۔

عبد اللہ: ”میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں“۔

ہشام یہ سوال سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ”اے فرزند رسول !،عبد اللہ دیصانی نے مجھ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کے لئے صرف خداوند متعال اور آپ کا سہارا لیا جا سکتا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اس نے کیا سوال کیا ہے ؟ “

ہشام: ”اس نے کہا کہ کیا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسیع دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا ہو ؟ “

امام علیہ السلام: ”اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہیں ؟ “

ہشام: ”میرے پانچ حواس ہیں“۔(سامعہ ،باصرہ، ذائقہ ،لامسہ اور شامہ )

امام علیہ السلام: ”ان میں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ “

ہشام: ”باصرہ“۔

امام علیہ السلام: ”آنکھوں کا وہ ڈھیلا جس سے دیکھتے ہو، کتنا بڑا ہے ؟ “

ہشام: ”ایک چنے کے دانے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے دیکھ کر مجھے بتاو کہ کیا دکھتے ہو ؟“

ہشام نے دیکھا اور کہا: ”زمین، آسمان ،گھر، محل ،بیابان ،پہاڑ اور نہروں کو دیکھ رہا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنیا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ میں سمو دے وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنیا چھوٹی ہو نہ انڈہ بڑا ہو۔

ہشام نے جھک کر امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھ اور پیروں کا بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”اے فرزند رسول ! بس یہی جواب میرے لئے کافی ہے“۔( ۱ )

ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد اللہ ان سے جاکر کہنے لگا:“۔میں سلام عرض کرنے آیا ہوں نہ کہ اپنے سوال کے جواب کے لئے“۔

ہشام نے کہا: ”تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے، اس کے بعد آپ نے امام علیہ السلام کا جواب اسے سنا دیا۔

عبد اللہ دیصانی نے فیصلہ کیا کہ خود ہی امام کی خدمت میں پہنچ کر اپنے سوالات پیش کرے۔

وہ امام کے گھر کی طرف چل پڑا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اندر جانے کے بعد وہ امام کے قریب آکر بیٹھ گیا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:

”اے جعفر بن محمد مجھے میرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو“۔

امام علیہ السلام نے پوچھا:

”تمہارا نام کیا ہے ؟ “

عبد اللہ باہر نکل گیا اور اس نے نام نہیں بتایا۔اس کے دوستوں نے اس سے کہا:

تم نے اپنا نام کیوں نہیں بتایا؟“

اس نے جواب دیا:

”میں اگر اپنا نام عبد اللہ (خدا بندہ )بتاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بندہ ہو ، وہ کون ہے ؟

عبد اللہ کے دوستوں نے کہا:

”امام علیہ السلام کے پاس واپس جاواور ان سے یہ کہو آپ مجھے میرے معبود کا پتہ بتائیں اور میرا نام نہ پوچھیں“۔

عبد اللہ واپس گیا اور جا کر امام علیہ السلام سے عرض کیا:

”آپ مجھے خدا کی طرف ہدایت کریں مگر میرا نام نہ پوچھیں“۔

امام علیہ السلام نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا:

”وہاں بیٹھ جاو“۔

عبد اللہ بیٹھ گیا۔اسی وقت ایک بچہ ہاتھ میں ایک انڈا لئے کھیلتا ہوا وہاں پہنچ گیا ،امام علیہ السلام نے بچہ سے فرمایا:

لاو انڈہ مجھے دے دو“۔

امام علیہ السلام نے انڈہ کو ہاتھ میں لے کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اے دیصانی !اس انڈہ کی طرف دیکھ جو ایک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھلیوں میں مقید ہے۔

۱ ۔موٹی جھلی۔

۲ ۔موٹی جھلی کے نیچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔

۳ ۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نیچے پگھلی ہوئی چاند ی(انڈہ کی سفیدی ) ہے۔

۴ ۔اس کے بعد پگھلا ہوا سونا (انڈے کی زردی)ہے مگر نہ یہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وہ پگھلی ہوئی چاندی اس سونے میں ملی ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آیا ہے جو یہ کہے کہ میں نے اسے بنایا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گیا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں نے اسے تباہ کیا ہے ،نہ یہ معلوم کہ یہ نر کے لئے ہے یامادہ کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد یہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس میں سے ایک پرندہ مور کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کیا تیری نظر میں اس طرح کی ظریف وباریک تخلیقات کے لئے کوئی مدبر و خالق موجود نہیں ہے ؟ “

عبد اللہ دیصانی نے یہ سوال سن کر تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا(اس کے قلب میں ایمان روشن ہو چکا تھا )اور پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ” میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس کے رسول ہیں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معین کئے گئے ہیں، میں اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور پشیمان ہوں۔( ۲ )

۱۷۔ایک ثنوی کو امام علیہ السلام کا جواب

ایک ثنوی (دو خدا کا عقیدہ رکھنے والا) امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر اپنے عقیدہ کے اثبات میں گفتگو کرنے لگا، اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اس جہان ہستی کے دو خدا ہیں، ایک نیکیوں کا خدا ہے اور دوسرابرائیوں کا۔

اگر تو یہ کہتا ہے کہ خدا دو ہیں تو وہ ان تین تصورات سے خارج نہیں ہو سکتے:

۱ ۔یا دونوں طاقتور اور قدیم ہیں۔

۲ ۔یا دونوں ضعیف و ناتواں ہیں۔

۳ ۔یا ایک قوی و مضبوط اور دوسرا ضعیف و ناتواں ہے۔

پہلی صورت کے مطابق ،کیوں پہلا خدا دوسرے کی خدائی کو ختم نہیں کر دیتا تاکہ وہ اکیلا ہی پوری دنیا پر حکومت کرے ؟(یہ نظام کائنات جو ایک ہے اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ اس کا حاکم بھی ایک ہے ،جو قوی و مطلق ہے)

تیسری صورت بھی اس بات کی دلیل بن رہی ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور ہماری بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہم اسی کو خدا کہتے ہیں جو قوی ومضبوط ہے اور دوسرا اس لئے خدا نہیں کیونکہ وہ ضعیف و ناتواں ہے ،اور یہ اس کے خدا نہ ہونے کی دلیل ہے۔

دوسری صورت میں (اگر دونوں ضعیف وناتواں ہوں)یا دونوں کسی ایک جہت سے متفق ہوں اور دوسری جہت سے مختلف( ۳ ) تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک (مابہ الامتیاز ہو) ( یعنی ان دونوں خداوں میں ایک خدا کے پاس کوئی ایک شئے ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو) اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ( مابہ الامتیاز )ا مر وجودی قدیم ہو (یعنی وہ شئے اس میں ہمیشہ پائی جاتی ہو ) اور شروع سے ہی وہ ان دوخداوں کے ساتھ موجود رہے تاکہ ان کی ”دوئیت“ صحیح ہو۔

اس صورت میں ”تین خدا وجود میں آجائیں گے اور اسی طرح چار خدا پانچ خدا اور اس سے بھی زیادہ ،بلکہ بے انتہا خداوں کا معتقد ہونا پڑے گا۔

ہشام کہتے ہیں: اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا: ”خدا کے وجود پر آپ کی کیا دلیل ہے ؟“

امام جعفرصادق علیہ السلام: ”دنیا کی یہ تمام چیزیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے جیسے تم جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو دیکھتے ہو تو تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے بھلے ہی تم نے اس کے معمار کو نہ دیکھا ہو“۔

ثنویہ: ”خدا کیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام: ”خدا ،تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک چیز ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طرح کہ وہ تمام چیزوں کے معنی ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروہ تمام کی حقیقت ہے لیکن جسم اور شکل نہیں رکھتا اور وہ کسی حس سے نہیں سمجھا جا سکتا ،وہ خیالوں میں نہیں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اسے بدل سکتا ہے۔( ۴ )

۱۸۔ منصور کے حضور میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا مناظرہ

ابن شہر آشوب ،مسند ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے کہا: ابو حنیفہ (حنفی مذہب کے رہبر ) سے سوال کیا گیا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ عظیم فقیہ کون ہے ؟

ابو حنیفہ نے جواب میں کہا: ”لوگوں میں سے سب سے زیادہ عظیم فقیہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام )ہیں، منصور دوانقی (عباسی حکومت کا دوسر ا خلیفہ ) جب امام کو اپنے پاس لے گیا تھا تو اس نے میرے پاس اس طرح پیغام بھیجا:

اے ابو حنیفہ !جعفر بن محمد (امام جعفر صاد ق علیہ السلام ) کو لوگ بہت زیادہ چاہنے لگے ہیں تم کچھ سخت و پیچیدہ سوالات آمادہ کرو، اور ان سے مناظرہ کرو“۔ (تاکہ وہ ان کے جواب نہ دے پائیں اور اس طرح ان کی مبقولیت میں کمی ہو جائے ) میں نے چالیس سوالات تیار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حیرہ“(بصرہ اور مکہ کے درمیان )میں مجھے حاضر ہونے کے لئے کہا ،میں ان کے پاس گیا تو دیکھا امام جعفر صادق علیہ السلام اس کے داہنے جانب بیٹھےے ہوئے ہیں ،جیسے ہی میری نظر امام جعفر صادق علیہ السلام پر پڑی میں ان کی عظمت وجلالت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج تک منصور سے نہیں ہوا تھا۔میں نے منصور کو سلام کیا ، اس نے مجھے بیٹھنے کا اشا رہ کیا، میں بیٹھ گیا پھر منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابا عبد اللہ !یہ ابو حنیفہ ہے“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں میں اسے پہچانتا ہوں“۔

اس کے بعد منصور نے میری طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابو حنیفہ تو اپنے سوالات پیش کر“۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنا ایک ایک سوال پوچھ ڈالا انھوں نے ان سب کا جواب دیا اور آپ جواب کے دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ میں تم اس طرح کہتے ہو ،اہل مدینہ اس طرح کہتے ہیں ،ان کے بعض جوابات میرے نظریئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدینہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔

یہا ں تک کہ میں نے اپنے چالیس سوالات کر ڈالے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر سوال کا جواب بطور احسن واکمل دیا، اس کے بعد ابو حنیفہ کہتا ہے:

الیس اعلم الناس ،اعلمهم باختلاف الناس ۔“

”کیا سب سے زیادہ آگاہ اور دانشور شخص وہ نہیں ہے جو لوگوں کے مختلف نظریوں کو سب سے زیادہ جانتا ہو“۔( ۵ )

۱۹۔ایسا مناظرہ جس نے ایک ”خدا نما “کو بے بس کردیا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں”جعد بن درہم “نامی ایک شخص تھا جس نے اسلام کے خلاف بہت سی بدعتیں ایجاد کی تھیں اور اس نے چند لوگوں کو اپنا شاگرد بنا لیا تھا۔آخر کار اسے عید قربان کے دن سزائے موت دے دی گئی۔

اس نے ایک دن تھوڑی خا ک اور پانی لے کر ایک شیشی میں ڈالا چند دنوں بعد اس میں کیڑے مکوڑے پیدا ہو گئے۔وہ شیشی لے کر لوگوں کے درمیان آکر یہ دعویٰ کرنے لگا۔ان کیڑے مکوڑوں کو میں نے پیدا کیا ہے ،چونکہ ان کی پیدائش کا سبب میں بنا ہوں لہٰذا میں ہی ان کا خالق و خدا ہوں“۔

چند مسلمانوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو کہ شیشی میں کیڑوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اس میں نر و مادہ کتنے ہیں ،ان کا وزن کتنا ہے ؟اس سے کہو کہ ان کی شکل بدل دے ، کیونکہ جو ان کا خالق ہوگا وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہوگا کہ ان کی شکل بدل دے“۔

ان چند مسلمانوں نے اس سے انھیں سوالات کے ذریعہ مناظرہ کیا اور وہ ان کے جوابات سے قاصر رہا اس طرح اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔( ۶ )

۲۰۔تم یہ جواب حجاز سے لے آئے ہو

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں بہت ہی مشہور و معروف ،ابو شاکر دیصانی نام کا ایک شخص تھا جو توحید کا انکار کرتا تھا اور اس بات کا معتقد تھا کہ ایک نور کا خدا ہے اور دوسرا ظلمت کا۔وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ اپنی کلامی بحث چھیڑ کر اپنے عقیدے کو ثابت کرے اور اسلام کو نیچا دکھائے، اس نے عقیدہ دیصانیہ کی بنیا د ڈالی تھی اوراس کے کچھ شاگرد بھی تھے۔یہاںتک کہ ہشام بن حکم بھی کچھ دنوں تک اس کے شاگرد رہے تھے، ہم یہاں پر اس کے اعتراض کا ایک نمونہ نقل کرتے ہیں تو جہ فرمائیں:

ابو شاکر نے خود اپنی فکر کے مطابق قرآن کریم میں ایک قابل اعتراض بات ڈھونڈ نکالی۔ایک روز اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے کہا: ”مجھے قرآن میں ایک ایسی آیت ملی ہے جو ہمارے عقیدے (ثنویہ) کی تصدیق کرتی ہے“۔

ہشام: ”کس آیت کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ “

ابو شاکر: ”سورہ زخرف کی ۸۴ ویں آیت پڑھتا ہوں:

( وَهُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِی الْاٴَرْضِ إِلَهٌ )

”اور جو آسمان میں خدا ہے اور زمین میں خدا ہے“۔

اس بنا پر ایک معبود آسما ن کا ہے اور دوسرا زمین کا ہے۔

ہشام کہتے ہیں: ”میں سمجھ نہیں سکا کہ اس کا جواب کس طرح دوں، لہٰذا اسی سال میں جب خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا تو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جا کر یہ مسئلہ پیش کردیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ ایک بے دین خبیث کی بات ہے جب تم واپس جاو تو اس سے پوچھو کہ کوفے میں تیرا کیا نام ہے ؟وہ کہے گا فلاں، ”تم پھر کہو “: تیرا بصرہ میں کیانام ہے؟ ”وہ کہے گا کہ فلاں، تب تم اس سے کہو ”ہمارا پروردگار بھی اسی طرح ہے ، آسمان میں اس کا نام ”الہ“ ہے اور زمین میں بھی اس کا نام ”الہ “ہے بیشک دریاوں صحراوں اور ہر جگہ کا وہی معبود الہ ہے“۔

ہشام کہتے ہیں: ”جب میں واپس لوٹا تو ابو شاکر کے پاس جاکر میں نے اسے یہ جواب سنا دیا۔

اس نے کہا: ”یہ تمہاری بات نہیں ہے، تم اسے حجاز سے لے آئے ہو“۔( ۷ )

۲۱۔امام علیہ السلام کے شاگردوں کا ایک مردشامی سے مناظرہ

امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں شام کا ایک دانشور( ۸ ) (مکہ ) میںآپ کی خدمت میں پہنچا اور اپنا تعارف اس نے اس طرح کرایا: ”میں علم کلام،علم فقہ اور احکام الٰہی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور میں یہاں آپ کے شاگردوں سے بحث ومناظرہ کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”تیری باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پر مبنی ہوں گی یا تیری خود کی ہوں گی؟“

شامی دانشور: ”پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثیں بھی ہوں گی اور میری کچھ ذاتی باتیں بھی ہوں گی“۔

امام علیہ السلام: ”تو پھر تو پیغمبر کا شریک کار ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں ان کا شریک نہیں ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تو جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت واجب جانتا ہے اسی طرح اپنی بھی اطاعت واجب جانتا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں اپنی اطاعت واجب نہیں جانتا“۔

اب امام جعفر صادق علیہ السلام انے ایک شاگرد (یونس بن یعقوب )کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے یونس ! اس شخص نے بحث ومناظرہ شروع کرنے سے پہلے ہی شکست کھالی (کیونکہ اس نے بغیر کسی دلیل کے اپنی بات کو حجت سمجھا ،حجت جانا ) اے یونس ! اگر تم علم کلام( ۹ ) اچھی طرح جانتے تو اس شامی مرد سے مناظرہ کرتے“۔

یونس: ”افسوس کہ میں علم کلام سے آگاہی نہیں رکھتا میں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کلام سے منع فرمایا اور کہا ہے: ”قابل افسوس ہیں وہ لوگ جو علم کلام سے سروکار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں “یہ صحیح ہے ،یہ غلط ہے۔یہ بات نتیجہ تک پہنچتی ہے ،یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور یہ چیز سمجھ میں نہیں آتی“۔

امام علیہ السلام: ”میں نے جو منع کیا تھا وہ اس صورت میں تھا کہ اسے اختیار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑدیں اور جو خود جانتے ہیں اسی پر تکیہ کریں۔ اے یونس ! باہر جاو اور دیکھو اگر علم کلام جاننے والا میرا کو ئی شاگرد ہو تو اسے یہاں لے آو“۔

یونس: ”میں باہر گیا اور تین افراد (حمران بن اعین ،مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم )جو علم کلام میں کافی مہارت رکھتے تھے انھیں لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں نے قیس بن ماصر کو بھی لے لیا جو میری نظر میں علم کلام میں ان تمام لوگوں سے زیادہ ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد علیہ السلام سے یہ علم حاصل کیا تھا۔جب سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے تو امام جعفر صادق علیہ السلام خیمے سے باہر آئے یہ وہی خیمہ تھا جو کہ مکہ میں حرم کے بغل میں آپ کے لئے لگایاگیا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ایک ایسے اونٹ پر پڑی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمایا: ”خدا کی قسم اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہیں“۔

لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقیل کے بیٹے ہیں کیونکہ امام انھیں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اونٹ نزدیک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے (امام کے ایک بہترین شاگرد) وہ اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی ان کی ڈارھی نکلی تھی موجودہ لوگوں میں ان کی عمر سب سے کم تھی تقریبا ً سبھی ان سے بڑے تھے۔امام نے ہشام کو جیسے ہی دیکھا بڑے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان میں یہ حدیث فرمائی:

ناصرنا بقلبه ولسانه ویده “۔

ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔

اسی وقت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے تمام موجود شاگردوں میں سے ایک ایک سے فرمایا: ”اس شامی دانشور سے تم لوگ بحث ومناظرہ کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمایا: ”شامی مرد سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے اس سے مناظرہ کیا ابھی چند لمحے نہیں گزرے تھے کہ شامی، حمران کے سامنے بے بس ہو گیا اس کے بعد امام علیہ السلا م نے مومن الطاق( ۱۰ ) سے فرمایا: ”طاق مرد شامی سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظرہ شروع کیا ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامیاب و کامران ہوگئے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم بھی شامی مرد سے باتیں کرو“، وہ بھی گئے اور اس سے باتیں کی لیکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہیں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔

اب امام علیہ السلام نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم جا کر اس سے مناظرہ کرو“۔قیس نے شامی سے مناظرہ شروع کیا امام علیہ السلام اس مناظرہ کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کیونکہ شامی مرد قیس کے مقابل بے بس ہو گیا تھا اور اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے جسے اچھی طرح دیکھا جا سکتا تھا۔( ۱۱ )

۲۲۔شامی دانشورسے ہشام کا زبردست مناظرہ

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مکہ میں شامی دانشور اور اپنے شاگردوں کے درمیان ہوئے مناظرہ میں (جس کی تفصیل اس سے پہلے مناظرہ میں گزرچکی ہے) ایک جوان نے (ہشام بن حکم) کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”اس سے مناظرہ کرو“۔شامی دانشور مناظرہ کے لئے تیار ہو گیا اس طرح ہشام بن حکم اورشامی دانشور کا مناظرہ شروع ہوا۔

شامی دانشور (ہشام کی طرف رخ کر کے )اے جوان! اس مرد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی امامت کے سلسلہ میں مجھ سے سوال کر(میں تجھ سے اس شخص کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا ہوں )“

ہشام امام کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سے)اس قدر غصہ ہوئے کہ ان کابدن کانپنے لگا اور اسی حالت میں انھوں نے شامی دانشور سے کہا: ”کیا تیرا پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خیر و سعادت زیادہ چاہتا ہے یا خود بندہ اپنے بارے میں بہتر سمجھتے ہیں ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں بلکہ پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں ان سے زیادہ خیر وسعادت چاہتا ہے“۔

ہشام: ”خدا وند متعال نے انسانوں کی خیر وسعادت کے لئے کیا کیا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”خدا وند متعال نے اپنی حجت کو ان پر معین کیا ہے تاکہ وہ منتشر نہ ہونے پائیں وہ اپنے بندوں میں اپنی حجت کے ذریعہ الفت ومحبت پیدا کرتا ہے تاکہ ان کی بے سرو سامانی اس دوستی اور الفت کی وجہ سے ختم ہو جائے اور اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون الٰہی سے آگاہ کرتا ہے“۔

ہشام: ”وہ حجت کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”وہ رسول خدا ہیں“۔

ہشام: ”رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہیں“۔

ہشام: ”کیا قرآن وسنت آج ہمارے اختلاف کو ختم کرنے میں سود مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ “

شامی دانشور: ”ہاں“۔

ہشام: ”پھر ہمارے تمہارے درمیان کیوں اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکہ آئے ہو ؟ “

شامی دانشوراس سوال کے جواب میں خاموش ہو گیا امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”کیوں نہیں کچھ بولتے ؟ “

شامی دانشور: ”اگر ہشام کے سوال کا جواب میں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختلاف کو ختم کرتے ہیں تو یہ بے ہودہ بات ہوگی کیونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہیں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختلاف قرآن و سنت کے سمجھنے میں ہے تو اس طرح میرے عقیدہ کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں دعویٰ کریں کہ ہم حق پر ہیں تو اس صورت میں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختلاف میں کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہو سکتے ہیں لیکن یہی (مذکورہ دلیل) میرے عقیدہ کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقیدہ کے لئے نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”اس مسئلہ کو ہشام (جو علم وکمال سے سر شار ہے )سے پوچھو وہ تمہیں قانع کنندہ جواب دیں گے“۔

شامی دانشور: ”آیا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے تاکہ لوگ آپس میں متحد و ہم آہنگ رہیں ؟اور وہ ان کے اختلاف کو ختم کرے اور انھیں حق وباطل کے بارے میں توضیح دے ؟

ہشام: ” رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں یا آج ؟ “

شامی دانشور: ”رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تو وہ خو دتھے لیکن آج وہ شخص کون ہے ؟ “

ہشام نے ،امام علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ شخص جو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ سے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور یہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختلاف کو ختم کرنے والے ہیں کیونکہ یہ وارث علم نبوت ہیں جو ان کے باپ دادا سے انھیں ملا ہے اور یہی ہیں جو زمین وآسمان کی باتوں کو ہمیں بتاتے ہیں“۔

شامی دانشور: ”میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص (امام جعفر صادق علیہ السلام )وہی حجت حق ہے“۔

ہشام: ”جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہیں دلیل مل جائے“۔

شامی دانشور: ”اے ہشام ! تم نے یہ کہہ کر میرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہیں چھوڑا ہے، اب مجھ پر واجب ہے کہ میں سوال کروں اور حقیقت تک پہنچوں“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”کیا تم یہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے یہاں تک کہ سفر کے دوران تمہیں کیا کیا چیزیں پیش آئیں ؟ اور امام علیہ السلام نے اس کے سفر کی کیفیت کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیانات سے شامی دانشور حیرت زدہ ہو گیا تھا اور اب اس نے حقیقت کو پالیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت اس کے قلب میں ایمان کا چراغ روشن ہوگیا اور بڑی خوشی کے ساتھ اس نے کہا: ”آپ نے سچ کہا، خدا کی قسم میں اب (حقیقی) اسلام لایا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ایمان لے آیااور اسلام ،ایمان سے پہلے ہے۔اسلام کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں لیکن ایمان کے ذریعہ لوگ خدا کے یہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ اجر وثواب ایمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا لیکن ہماری امامت کو قبول نہیں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نیک اعمال کے ثواب کے لائق ہو گیا ہے۔

شامی دانشور: ”آپ نے صحیح فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور آپ ان کے جانشین ہیں“۔

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظرہ کی کیفیت اس طرح بیان کی:

آپ نے حمران سے فرمایا: ”تم اپنی بات کو احادیث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم احادیث کو حاصل کرنے میں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو لیکن اس کے حاصل کر نے اور اسے سمجھنے کی صحیح صلاحیت نہیں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمایا: ”تم قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذریعہ ردّ کرتے ہو اور تمہارا باطلی استدلال بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حدیث کے قریب کرنا چاہتے ہو لیکن دور ہو جاتے ہو، حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کردیتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت سی باطل چیزوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے، تم اور مومن طاق بحث کے دوران ایک طرف سے دوسری طرف بھا گتے ہو اور تم دونوں اس میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔

یونس کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ امام علیہ السلام نے جو قیس اور مومن کے سلسلہ میں کہا ہے وہی ہشام کے بارے میں بھی کہیں گے لیکن آپ نے ہشام کی بڑی تعریف کی اور ان کی شان میں فرمایا:

یا هشام لا تکاد تقع تلوی رجلیک إذا هممت بالارض طرت “۔

”اے ہشام ! تمہارے دونوں پیر کبھی زمین پر ٹکنے نہیں پاتے جیسے ہی تم شکست کے قریب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے ہو“۔

(یعنی جیسے ہی تم اپنے اندر لا چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بڑی مہارت سے خود کو بچالیتے ہو۔)

اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمایا: ”تم جیسے لوگوں کو مقرروں سے مناظرہ کرنا چاہئے اور یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کیونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظرہ اور بحث میں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکیں۔( ۱۲ )

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہشام بن حکم کے بارے میں فرمایا:

”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے، ہمارے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے والے، ہماری حقانیت کو ثابت کرنے والے اور بیہودہ باتیںاور لغو کلام کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دینے والے ہیں ،جس نے ہشام بن حکم کی پیروی کی اور ان کے افکار میں غور خوض کیا اس نے گویا ہماری پیروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی“۔( ۱۳ )

۲۳۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حضور ایک جاثلیق کا مسلمان ہونا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغیرہ سے شیخ صدوق علیہ الرحمةنے روایت کی ہے کہ ایک بہت ہی پڑھا لکھا عیسائی تھا جس کا نام ”بریھہ“تھا لیکن اسے لوگ ”جاثلیق“( ۱۴ ) کہا کرتے تھے۔وہ ستر سال سے مذہب عیسائیت پر باقی تھا اور وہ برابر اسلام اور حق کی تلاش میں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ایک عورت رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔

بریھہ نے مذہب عیسائیت کے ہیچ اور گھٹیا استدلال کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وہ اس کے اس راز سے آگاہ نہ ہو سکے۔بریھہ برابر اسلام کے بارے میں سوالات کیا کرتا تھا اور اسلام کے راہبر علمائے صالح کی تلاش میں رہتا تھا اور اسلامی مفکروں کے حصول میں اس نے کافی جستجو اور تحقیق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروہ میں جا کر ان کے عقائد کے سلسلہ میں تحقیق کرتا رہتا لیکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔

جاثلیق ان لوگوں سے کہتاہے: اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم میں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پایا جاتا۔

یہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقیق کے درمیان شیعوں کے بارے میں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔

یونس بن عبد الرحمن (امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد )کہتے ہیں کہ ہشام نے کہا: ”ایک روز میں اپنی دکان (جو باب الکرخ میں واقع تھی) پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ نا آگاہ دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک گروہ بریھہ کے ساتھ چلا آرہا ہے جس میں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وہ تقریبا ً سو افراد تھے، کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عیسائیت کی مخصوص لمبی ٹوپیاں لگائے تھے۔بریھہ جاثلیق اکبر بھی ان لوگوں کے درمیان موجود تھا وہ سب میری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بریھہ کے لئے ایک مخصوص کرسی لگائی گئی وہ اس پر بیٹھ گیا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے عصاو ں پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔

بریھہ نے کہا: ”مسلمانوں میں کوئی ایسا علم کلام کامشہور عالم نہیں ہے جس سے میں نے عیسائیت مذہب کی حقانیت کے بارے میں بحث نہ کی ہو مگر میں نے ان میں ایسی چیز نہیں پایا جس سے میں شکست کھا جاوں، اب میں تیرے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تجھ سے مناظرہ کروں“۔

یونس نے ہشام اور جاثلیق کے درمیان ہونے والے پورے مناظرہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا: ”تمام نصرانی ادھر ادھر بکھر گئے۔وہ آپس میں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بریھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم زدہ ہوا وہ اپنے گھر واپس آیا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے کہ میں تجھے غمگین و پریشان دیکھ رہی ہوں ؟ “

بریھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظرہ کی تفصیل اسے بتادی اور کہا کہ میرے غم زدہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔

اس عورت نے بریھہ سے کہا: ”وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو یا باطل پر ؟ “

بریھہ نے جواب دیا: ”میں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔

اس عورت نے کہا: ”تمہیں جہاں بھی حق نظر آئے وہیں چلے جاو اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کیونکہ یہ ایک طرح کا شک ہے اور شک بہت ہی بری چیز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہیں“۔

بریھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر لیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وہ ہشام کے پاس پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہیں ہے اس نے کہا: ”اے ہشام ! کیا تمہاری نظر میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پیروی کرسکو؟“

ہشام نے کہا: ”ہاں اے بریھہ!“۔

بریھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے اوصاف بتا دیئے، بریھہ امام جعفر صادق علیہ السلا م سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا لہٰذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدینہ کا سفر اختیار کیا ،وہ خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے ملاقات کریںمگر آپ کے گھر کے دالان ہی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملا قات ہو گئی۔

”ثاقب المناقب “کی روایت کے مطابق ہشام نے ان کو سلام کیا بریھہ نے بھی ان کی تقلید میں آپ کو سلام کیا اس کے بعد امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی علت بتائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اس وقت بہت کم عمر تھے(شیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے بریھہ کی پورا واقعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو سنادیا )

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے جاثلیق کی گفتگو

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اے بریھہ ! تو اپنی کتاب انجیل کے بارے میں کس حد تک معلومات رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”میں اپنی کتاب سے پوری طرح آگاہ ہوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس کے باطنی معنی پر کتنا اعتماد رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”اتناہی جتنا مجھے اس پر عبور ہے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے انجیل کی آیتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔

بریھہ امام سے اتنا مرعوب ہوگیا کہ وہ کہنے لگا: ”جناب مسیح آپ کی طرح انجیل کی تلاوت کیا کرتے تھے اس طرح کی تلاوت جناب عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں کرتا“۔اس کے بعد بریھہ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف رخ کر کے عرض کیا: ”میں پچاس سال سے آپ یا آپ جیسے کسی شخص کی تلاش میں تھا“۔ اس کے بعد بریھہ وہیں مسلمان ہوگیا اور اس کے بعد بھی وہ راہ اسلام پر بڑے استحکام کے ساتھ ڈٹا رہا اس کے بعد ہشام بریھہ کو اس عورت کے ساتھ لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ہشام نے پوری بات آپ کو بتائی اور اس خادمہ اور بریھہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی آپ کو سنا دیا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )( ۱۵ )

”وہ لوگ ایسے فرزندان تھے جو ایک دوسرے سے لئے گئے تھے اور خدا سمیع وعلیم ہے“۔

بریہہ کی امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گفتگو

بریھہ: ”میں آپ پر فدا ہوں، توریت وانجیل اور دوسرے پیغمبر وں کی کتابیں آپ کے پاس کیسے اور کہاں سے آئیں ؟ “

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”یہ کتابیں ان کی طرف سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں جو ہم ان لوگوں کی طرح ہی ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں خداوند عالم اس دنیا میں کسی ایسے کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا کہ جب اس سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہے: ”میں نہیں جانتا“۔

اس کے بعد بریھہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہی رہنے لگا اور آخر کار امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پا گیا امام جعفر صادق علیہ السلا م نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے غسل وکفن دیا اور خود ہی اسے قبر میں لٹا کر فرمایا:

هذا حواری من حواری المسیح علیه السلام یعرف حق الله علیه

”یہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک تھا جو اپنے اوپر اللہ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے اکثر اصحاب یہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائیں۔( ۱۶ )

۲۴۔امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کے سامنے ابو یوسف کی لاچاری

مہدی عباسی بنی عباس کا تیسرا خلیفہ ایک دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، ابو یوسف بھی (جو اہل بیت علیہم السلام کا پکا مخالف تھا ) اس بزم میں حاضر تھا اس نے مہدی عباسی کی طرف رخ کر کے کہا کہ مجھے موسیٰ بن جعفر سے چند سوال کرنے کی اجازت دیجئے تاکہ میرے سوال کے جواب نہ دینے کی وجہ سے وہ مجبور و لاچار ہو جائیں۔

مہدی عباسی نے کہا: ”میں اجازت دیتا ہوں“۔

ابو یوسف نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا: ”اجازت ہے کہ میں ایک سوال کروں ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”سوال کر“۔

ابو یوسف نے کہا: ”جس نے حج کاا حرام باندھ رکھا ہو آیا اس کا سائے میں چلنا جائز ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے کہا: ”جائز نہیں ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”اگر کسی محرم نے زمین میں خیمہ نصب کر رکھا ہو تو کیا اس میں اس کاجانا جائز ہے؟“

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں جائز ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”ان دونوں سایوں میں کیا فرق ہے کہ پہلے والے میں جائز نہیں اور دوسرے والے میں جائز ہے ؟ “

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”عورت پر اپنی ماہواری کے زمانہ میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا واجب ہے ؟ “

ابو یوسف نے کہا: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا عورت پر عادت کے زمانہ میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے ؟ “۔

ابو یوسف نے کہا: ”ہاں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اب تو یہ بتا کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ پہلے میں عورت پر قضاواجب نہیںہے اور دوسرے میں قضا واجب ہے؟“

ابو یوسف نے کہا: ”احکام میں اسی طرح آیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”حج کے زمانہ میں احرام باندھ لینے والے کے لئے بھی اسی طرح کا حکم آیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا شرعی مسائل میں قیاس درست نہیں ہے“۔

ابو یوسف اس جواب سے پانی پانی ہو گیا،مہدی عباسی نے اس سے کہا: ”انھیں شکست دینا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہو پایا“۔

ابو یوسف نے کہا: ”رمانی بحجر دامغ “موسیٰ بن جعفر نے مجھے ہلاکت خیز پتھر سے قتل کر دیا جس کی وجہ سے میں بے بس ولاچار ہو گیا۔( ۱۷ )

۲۵۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ہارون کے ساتھ مناظرہ

ہارون رشید خلفائے بنی عباس میںسے پانچواںخلیفہ تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران اس نے امام علیہ السلا م کو مخاطب کر تے ہوئے کہا: ” آپ نے خاص و عام میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپ پیغمبر کی اولادہیں جب کہ آنحضرت کے کوئی بیٹا ہی نہیں تھا جس کے ذریعہ ان کی نسل آگے بڑھتی، اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل ہمیشہ بیٹے کی طرف سے آگے بڑھتی ہے اور آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی ابھی حاضر ہو جائیں اور تیری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تو انھیں مثبت جواب دے گا ؟ “

ہارون: ”میں صرف مثبت جواب ہی نہیں دوں گا“۔بلکہ ان سے رشتہ جوڑکر میں عرب و عجم کے درمیان فخر کروں گا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بیٹی کو پیغام نہیں دیں گے اور میں اپنی لڑکی کو ان کی زوجہ نہیں بنا سکتا“۔

ہارون: ”کیوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس لئے کہ میری ولادت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سبب سے ہے (کیونکہ میں ان کا نواسہ ہوں )لیکن تیری پیدائش میں وہ سبب نہیں بنے ہیں“۔

ہارون: ”واہ ! بہت اچھا جواب ہے، اب میرا یہ سوال ہے کہ آپ لوگ کیوں خود کو پیغمبر اکرم کی ذریت سے کہتے ہو جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہیں تھی کیونکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے نہ کہ لڑکی سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کوئی لڑکا نہیں تھا اور آپ ان کی لڑکی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نہیں ہوگی ؟!

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”کیا میں جوا ب دوں ؟“

ہارون: ”ہاں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں سورہ انعام کی ۸۴ ویں آیت میں ارشادفرماتا ہے:

( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ )( ۱۸ )

”اور اس کی ذریت سے دادو،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون ہیں اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزادیا کرتے ہیں اور اسی طرح زکریا ویحیٰ و عیسیٰ والیاس یہ سب صالحین میں سے تھے“۔

اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کون باپ تھا ؟

ہارون: ”جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”جس طرح خداوند متعال نے مذکورہ آیت میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کی طرف سے پیغمبروں کی ذریت میں قرار دیا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام للہ علیہا کی طرف سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت میں شامل ہیں“۔

اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”آیا میں اپنی دلیل اور آگے بڑھاوں؟“

ہارون نے کہا: ”ہاں بڑھایئے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خداوند متعال (مباہلہ کے متعلق )فرماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ )( ۱۹ )

”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی (نصاریٰ)کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئیں ہم اپنے بیٹوں کو لے آئیں تم اپنے بیٹوں کو ،ہم اپنی عورتوں کو لے آئیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کریں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی ،اور فاطمہ زہرا،امام حسن اور امام حسین (سلام اللہ علیہم)کے علاوہ انصار یامہاجرین میں سے بھی کسی کو ساتھ لیا ہو، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔خداوند متعال نے حسنین علیہما السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے کہہ کر یاد کیا ہے۔

ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی واضح دلیل قبول کر لی اور کہا: بہت خوب اے موسیٰ۔( ۲۰ )

____________________

(۱) اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے تعلق نہیں رکھتی۔اس جواب میں امام کا مقصد در اصل عوام کو قانع کرنا تھا جیسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وہ اس کے جواب میں کہے: ”ہاں اڑ سکتا ہے وہ ایک ہوائی جہاز بنائے اور اس میں بیٹھ کر فضا میں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ،آنکھ کے ڈھیلے کی مثال سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غیر معقول مثال کے ذریعہ کہ کیا خدا انڈہ میں پوری دنیا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈہ بڑاہو یا یہ بھی کوئی محال کام نہیں ہے اور خدا اس بات پر قادر ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محالات عقلیہ پر قدرت نہیں رکھتا یہ توایسا ہی ہوگا کہ ہم سوال کریں کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط ہے، اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور یہ کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے متعلق ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف کلامی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

(۲) اصول کافی ، ص ۷۹ و۸۰۔

(۳) کیونکہ ان دونوں میں ہر جہت سے اختلاف کا فرض غلط ہے کیونکہ دو چیزیں بھلے (ایک ہی جہت سے )مانند و مثل ضرور رکھتی ہیں جیسے جہت وجود وہستی میں ہر موجود شئے ایک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔

(۴) اصول کافی ،حدیث ۵، ص۸۰و ۸۱ ج۱ ، تلخیص و توضیح اور مولف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔

(۵) انوار البہیہ، ص ۱۵۲۔

(۶) سفینة البحار ،ج ۱،ص ۱۵۷۔

(۷) اصول کافی، ج۱، ص۱۲۸۔

(۸) شامی دانشور ایک سنّی عالم دین تھا ۔

(۹) علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول عقائد میں عقلی ونقلی دلیلوں کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔

(۱۰) اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہیں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل میں ان کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفین ان کو ”شیطان الطاق “کہا کرتے تھے (سفینة البحار ج۲، ص ۱۰۰)

(۱۱) اصو ل کافی ج۱، ص۱۷۱۔

(۱۲) اصول کافی ، ص ۱۷۲و ۱۷۳ ۔

(۱۳) الشافی سید مرتضی ،ص ۱۲۔تنقیح المقال ،ج ۳ ص۲۹۵۔

(۱۴) جاثلیق ،عیسائیت کی ایک بڑی شخصیت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف “اور اسقف کے بعد” قیس“کا درجہ ہوتا ہے۔

(۱۵) سورہ آل عمران ، آیت ۳۴۔

(۱۶) انوار البھیہ ،ص۱۸۹ تا ۱۹۲۔

(۱۷) عیون اخبار الرضا ج۱، ص۷۸ سے اقتباس ۔

(۱۸) سورہ انعام، آیت ۸۴ و ۸۵۔

(۱۹) سورہآل عمران ، آیت ۶۱۔

(۲۰) احتجاج طبرسی ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۵ سے اقتباس ،اسی بنا پر بعض لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تمام اولادجو قیامت تک ان کی نسل سے وجود میں آئے گی سید ہوگی اور رسول اسلام کی ذریت میں شمار ہوگی، لہٰذا اگر کسی کا باپ سید نہ ہو لیکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہو تو وہ سید ہوگا۔(غور کریں)، مولف۔