۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے11%

۱۰۱ دلچسپ مناظرے مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 29 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 37479 / ڈاؤنلوڈ: 7602
سائز سائز سائز
۱۰۱ دلچسپ مناظرے

۱۰۱ دلچسپ مناظرے

مؤلف:
اردو

1

۱۶۔عبد اللہ دیصانی کا مسلمان ہونا

ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بہترین شاگرد تھے۔ایک دن ایک منکر خدا نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا: ”کیا تمہارا خدا ہے“۔

ہشام: ”ہاں“۔

عبد اللہ: ”آیا تمہارا خدا قادر ہے ؟ “

ہشام: ”ہاں میرا خدا قادر ہے اور تمام چیزوں پر قابض بھی ہے“۔

عبد اللہ: ”کیا تمہارا خدا ساری دنیا کو ایک انڈے میں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بڑا ہوا۔؟ “

ہشام: ”اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو“۔

عبد اللہ: ”میں تمہیں ایک سال کی مہلت دیتا ہوں“۔

ہشام یہ سوال سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: ”اے فرزند رسول !،عبد اللہ دیصانی نے مجھ سے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب کے لئے صرف خداوند متعال اور آپ کا سہارا لیا جا سکتا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اس نے کیا سوال کیا ہے ؟ “

ہشام: ”اس نے کہا کہ کیا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسیع دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا ہو ؟ “

امام علیہ السلام: ”اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہیں ؟ “

ہشام: ”میرے پانچ حواس ہیں“۔(سامعہ ،باصرہ، ذائقہ ،لامسہ اور شامہ )

امام علیہ السلام: ”ان میں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ “

ہشام: ”باصرہ“۔

امام علیہ السلام: ”آنکھوں کا وہ ڈھیلا جس سے دیکھتے ہو، کتنا بڑا ہے ؟ “

ہشام: ”ایک چنے کے دانے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا ہے“۔

امام علیہ السلام: ”اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے دیکھ کر مجھے بتاو کہ کیا دکھتے ہو ؟“

ہشام نے دیکھا اور کہا: ”زمین، آسمان ،گھر، محل ،بیابان ،پہاڑ اور نہروں کو دیکھ رہا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنیا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ میں سمو دے وہی اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس دنیا کو ایک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنیا چھوٹی ہو نہ انڈہ بڑا ہو۔

ہشام نے جھک کر امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھ اور پیروں کا بوسہ دیتے ہوئے کہا: ”اے فرزند رسول ! بس یہی جواب میرے لئے کافی ہے“۔( ۱ )

ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد اللہ ان سے جاکر کہنے لگا:“۔میں سلام عرض کرنے آیا ہوں نہ کہ اپنے سوال کے جواب کے لئے“۔

ہشام نے کہا: ”تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب یہ ہے، اس کے بعد آپ نے امام علیہ السلام کا جواب اسے سنا دیا۔

عبد اللہ دیصانی نے فیصلہ کیا کہ خود ہی امام کی خدمت میں پہنچ کر اپنے سوالات پیش کرے۔

وہ امام کے گھر کی طرف چل پڑا، دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہوگیا۔اندر جانے کے بعد وہ امام کے قریب آکر بیٹھ گیا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا:

”اے جعفر بن محمد مجھے میرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو“۔

امام علیہ السلام نے پوچھا:

”تمہارا نام کیا ہے ؟ “

عبد اللہ باہر نکل گیا اور اس نے نام نہیں بتایا۔اس کے دوستوں نے اس سے کہا:

تم نے اپنا نام کیوں نہیں بتایا؟“

اس نے جواب دیا:

”میں اگر اپنا نام عبد اللہ (خدا بندہ )بتاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بندہ ہو ، وہ کون ہے ؟

عبد اللہ کے دوستوں نے کہا:

”امام علیہ السلام کے پاس واپس جاواور ان سے یہ کہو آپ مجھے میرے معبود کا پتہ بتائیں اور میرا نام نہ پوچھیں“۔

عبد اللہ واپس گیا اور جا کر امام علیہ السلام سے عرض کیا:

”آپ مجھے خدا کی طرف ہدایت کریں مگر میرا نام نہ پوچھیں“۔

امام علیہ السلام نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے فرمایا:

”وہاں بیٹھ جاو“۔

عبد اللہ بیٹھ گیا۔اسی وقت ایک بچہ ہاتھ میں ایک انڈا لئے کھیلتا ہوا وہاں پہنچ گیا ،امام علیہ السلام نے بچہ سے فرمایا:

لاو انڈہ مجھے دے دو“۔

امام علیہ السلام نے انڈہ کو ہاتھ میں لے کر عبد اللہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اے دیصانی !اس انڈہ کی طرف دیکھ جو ایک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھلیوں میں مقید ہے۔

۱ ۔موٹی جھلی۔

۲ ۔موٹی جھلی کے نیچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔

۳ ۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نیچے پگھلی ہوئی چاند ی(انڈہ کی سفیدی ) ہے۔

۴ ۔اس کے بعد پگھلا ہوا سونا (انڈے کی زردی)ہے مگر نہ یہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وہ پگھلی ہوئی چاندی اس سونے میں ملی ہوتی ہے بلکہ یہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آیا ہے جو یہ کہے کہ میں نے اسے بنایا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گیا ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں نے اسے تباہ کیا ہے ،نہ یہ معلوم کہ یہ نر کے لئے ہے یامادہ کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد یہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس میں سے ایک پرندہ مور کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کیا تیری نظر میں اس طرح کی ظریف وباریک تخلیقات کے لئے کوئی مدبر و خالق موجود نہیں ہے ؟ “

عبد اللہ دیصانی نے یہ سوال سن کر تھوڑی دیر تک سر جھکائے رکھا(اس کے قلب میں ایمان روشن ہو چکا تھا )اور پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ” میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے وہ وحدہ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس کے رسول ہیں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معین کئے گئے ہیں، میں اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کرتا ہوں اور پشیمان ہوں۔( ۲ )

۱۷۔ایک ثنوی کو امام علیہ السلام کا جواب

ایک ثنوی (دو خدا کا عقیدہ رکھنے والا) امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر اپنے عقیدہ کے اثبات میں گفتگو کرنے لگا، اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اس جہان ہستی کے دو خدا ہیں، ایک نیکیوں کا خدا ہے اور دوسرابرائیوں کا۔

اگر تو یہ کہتا ہے کہ خدا دو ہیں تو وہ ان تین تصورات سے خارج نہیں ہو سکتے:

۱ ۔یا دونوں طاقتور اور قدیم ہیں۔

۲ ۔یا دونوں ضعیف و ناتواں ہیں۔

۳ ۔یا ایک قوی و مضبوط اور دوسرا ضعیف و ناتواں ہے۔

پہلی صورت کے مطابق ،کیوں پہلا خدا دوسرے کی خدائی کو ختم نہیں کر دیتا تاکہ وہ اکیلا ہی پوری دنیا پر حکومت کرے ؟(یہ نظام کائنات جو ایک ہے اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ اس کا حاکم بھی ایک ہے ،جو قوی و مطلق ہے)

تیسری صورت بھی اس بات کی دلیل بن رہی ہے کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور ہماری بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ ہم اسی کو خدا کہتے ہیں جو قوی ومضبوط ہے اور دوسرا اس لئے خدا نہیں کیونکہ وہ ضعیف و ناتواں ہے ،اور یہ اس کے خدا نہ ہونے کی دلیل ہے۔

دوسری صورت میں (اگر دونوں ضعیف وناتواں ہوں)یا دونوں کسی ایک جہت سے متفق ہوں اور دوسری جہت سے مختلف( ۳ ) تو اس صورت میں لازم آتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک (مابہ الامتیاز ہو) ( یعنی ان دونوں خداوں میں ایک خدا کے پاس کوئی ایک شئے ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو) اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ ( مابہ الامتیاز )ا مر وجودی قدیم ہو (یعنی وہ شئے اس میں ہمیشہ پائی جاتی ہو ) اور شروع سے ہی وہ ان دوخداوں کے ساتھ موجود رہے تاکہ ان کی ”دوئیت“ صحیح ہو۔

اس صورت میں ”تین خدا وجود میں آجائیں گے اور اسی طرح چار خدا پانچ خدا اور اس سے بھی زیادہ ،بلکہ بے انتہا خداوں کا معتقد ہونا پڑے گا۔

ہشام کہتے ہیں: اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا: ”خدا کے وجود پر آپ کی کیا دلیل ہے ؟“

امام جعفرصادق علیہ السلام: ”دنیا کی یہ تمام چیزیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے جیسے تم جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو دیکھتے ہو تو تمہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے والا ہے بھلے ہی تم نے اس کے معمار کو نہ دیکھا ہو“۔

ثنویہ: ”خدا کیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام: ”خدا ،تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک چیز ہے اور دوسرے الفاظ میں اس طرح کہ وہ تمام چیزوں کے معنی ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروہ تمام کی حقیقت ہے لیکن جسم اور شکل نہیں رکھتا اور وہ کسی حس سے نہیں سمجھا جا سکتا ،وہ خیالوں میں نہیں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتااور نہ ہی وہ اسے بدل سکتا ہے۔( ۴ )

۱۸۔ منصور کے حضور میں امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا مناظرہ

ابن شہر آشوب ،مسند ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حسن بن زیاد نے کہا: ابو حنیفہ (حنفی مذہب کے رہبر ) سے سوال کیا گیا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ عظیم فقیہ کون ہے ؟

ابو حنیفہ نے جواب میں کہا: ”لوگوں میں سے سب سے زیادہ عظیم فقیہ جعفر بن محمد (امام جعفر صادق علیہ السلام )ہیں، منصور دوانقی (عباسی حکومت کا دوسر ا خلیفہ ) جب امام کو اپنے پاس لے گیا تھا تو اس نے میرے پاس اس طرح پیغام بھیجا:

اے ابو حنیفہ !جعفر بن محمد (امام جعفر صاد ق علیہ السلام ) کو لوگ بہت زیادہ چاہنے لگے ہیں تم کچھ سخت و پیچیدہ سوالات آمادہ کرو، اور ان سے مناظرہ کرو“۔ (تاکہ وہ ان کے جواب نہ دے پائیں اور اس طرح ان کی مبقولیت میں کمی ہو جائے ) میں نے چالیس سوالات تیار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حیرہ“(بصرہ اور مکہ کے درمیان )میں مجھے حاضر ہونے کے لئے کہا ،میں ان کے پاس گیا تو دیکھا امام جعفر صادق علیہ السلام اس کے داہنے جانب بیٹھےے ہوئے ہیں ،جیسے ہی میری نظر امام جعفر صادق علیہ السلام پر پڑی میں ان کی عظمت وجلالت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج تک منصور سے نہیں ہوا تھا۔میں نے منصور کو سلام کیا ، اس نے مجھے بیٹھنے کا اشا رہ کیا، میں بیٹھ گیا پھر منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابا عبد اللہ !یہ ابو حنیفہ ہے“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں میں اسے پہچانتا ہوں“۔

اس کے بعد منصور نے میری طرف رخ کر کے کہا: ”اے ابو حنیفہ تو اپنے سوالات پیش کر“۔

میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اپنا ایک ایک سوال پوچھ ڈالا انھوں نے ان سب کا جواب دیا اور آپ جواب کے دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ میں تم اس طرح کہتے ہو ،اہل مدینہ اس طرح کہتے ہیں ،ان کے بعض جوابات میرے نظریئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدینہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔

یہا ں تک کہ میں نے اپنے چالیس سوالات کر ڈالے اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر سوال کا جواب بطور احسن واکمل دیا، اس کے بعد ابو حنیفہ کہتا ہے:

الیس اعلم الناس ،اعلمهم باختلاف الناس ۔“

”کیا سب سے زیادہ آگاہ اور دانشور شخص وہ نہیں ہے جو لوگوں کے مختلف نظریوں کو سب سے زیادہ جانتا ہو“۔( ۵ )

۱۹۔ایسا مناظرہ جس نے ایک ”خدا نما “کو بے بس کردیا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں”جعد بن درہم “نامی ایک شخص تھا جس نے اسلام کے خلاف بہت سی بدعتیں ایجاد کی تھیں اور اس نے چند لوگوں کو اپنا شاگرد بنا لیا تھا۔آخر کار اسے عید قربان کے دن سزائے موت دے دی گئی۔

اس نے ایک دن تھوڑی خا ک اور پانی لے کر ایک شیشی میں ڈالا چند دنوں بعد اس میں کیڑے مکوڑے پیدا ہو گئے۔وہ شیشی لے کر لوگوں کے درمیان آکر یہ دعویٰ کرنے لگا۔ان کیڑے مکوڑوں کو میں نے پیدا کیا ہے ،چونکہ ان کی پیدائش کا سبب میں بنا ہوں لہٰذا میں ہی ان کا خالق و خدا ہوں“۔

چند مسلمانوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اس سے پوچھو کہ شیشی میں کیڑوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اس میں نر و مادہ کتنے ہیں ،ان کا وزن کتنا ہے ؟اس سے کہو کہ ان کی شکل بدل دے ، کیونکہ جو ان کا خالق ہوگا وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہوگا کہ ان کی شکل بدل دے“۔

ان چند مسلمانوں نے اس سے انھیں سوالات کے ذریعہ مناظرہ کیا اور وہ ان کے جوابات سے قاصر رہا اس طرح اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔( ۶ )

۲۰۔تم یہ جواب حجاز سے لے آئے ہو

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں بہت ہی مشہور و معروف ،ابو شاکر دیصانی نام کا ایک شخص تھا جو توحید کا انکار کرتا تھا اور اس بات کا معتقد تھا کہ ایک نور کا خدا ہے اور دوسرا ظلمت کا۔وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ اپنی کلامی بحث چھیڑ کر اپنے عقیدے کو ثابت کرے اور اسلام کو نیچا دکھائے، اس نے عقیدہ دیصانیہ کی بنیا د ڈالی تھی اوراس کے کچھ شاگرد بھی تھے۔یہاںتک کہ ہشام بن حکم بھی کچھ دنوں تک اس کے شاگرد رہے تھے، ہم یہاں پر اس کے اعتراض کا ایک نمونہ نقل کرتے ہیں تو جہ فرمائیں:

ابو شاکر نے خود اپنی فکر کے مطابق قرآن کریم میں ایک قابل اعتراض بات ڈھونڈ نکالی۔ایک روز اس نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے کہا: ”مجھے قرآن میں ایک ایسی آیت ملی ہے جو ہمارے عقیدے (ثنویہ) کی تصدیق کرتی ہے“۔

ہشام: ”کس آیت کے بارے میں کہہ رہے ہو؟ “

ابو شاکر: ”سورہ زخرف کی ۸۴ ویں آیت پڑھتا ہوں:

( وَهُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلَٰهٌ وَفِی الْاٴَرْضِ إِلَهٌ )

”اور جو آسمان میں خدا ہے اور زمین میں خدا ہے“۔

اس بنا پر ایک معبود آسما ن کا ہے اور دوسرا زمین کا ہے۔

ہشام کہتے ہیں: ”میں سمجھ نہیں سکا کہ اس کا جواب کس طرح دوں، لہٰذا اسی سال میں جب خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا تو میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں جا کر یہ مسئلہ پیش کردیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”یہ ایک بے دین خبیث کی بات ہے جب تم واپس جاو تو اس سے پوچھو کہ کوفے میں تیرا کیا نام ہے ؟وہ کہے گا فلاں، ”تم پھر کہو “: تیرا بصرہ میں کیانام ہے؟ ”وہ کہے گا کہ فلاں، تب تم اس سے کہو ”ہمارا پروردگار بھی اسی طرح ہے ، آسمان میں اس کا نام ”الہ“ ہے اور زمین میں بھی اس کا نام ”الہ “ہے بیشک دریاوں صحراوں اور ہر جگہ کا وہی معبود الہ ہے“۔

ہشام کہتے ہیں: ”جب میں واپس لوٹا تو ابو شاکر کے پاس جاکر میں نے اسے یہ جواب سنا دیا۔

اس نے کہا: ”یہ تمہاری بات نہیں ہے، تم اسے حجاز سے لے آئے ہو“۔( ۷ )

۲۱۔امام علیہ السلام کے شاگردوں کا ایک مردشامی سے مناظرہ

امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں شام کا ایک دانشور( ۸ ) (مکہ ) میںآپ کی خدمت میں پہنچا اور اپنا تعارف اس نے اس طرح کرایا: ”میں علم کلام،علم فقہ اور احکام الٰہی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور میں یہاں آپ کے شاگردوں سے بحث ومناظرہ کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”تیری باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث پر مبنی ہوں گی یا تیری خود کی ہوں گی؟“

شامی دانشور: ”پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثیں بھی ہوں گی اور میری کچھ ذاتی باتیں بھی ہوں گی“۔

امام علیہ السلام: ”تو پھر تو پیغمبر کا شریک کار ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں ان کا شریک نہیں ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”کیا تو جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت واجب جانتا ہے اسی طرح اپنی بھی اطاعت واجب جانتا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں میں اپنی اطاعت واجب نہیں جانتا“۔

اب امام جعفر صادق علیہ السلام انے ایک شاگرد (یونس بن یعقوب )کی طرف رخ کرکے فرمایا:

”اے یونس ! اس شخص نے بحث ومناظرہ شروع کرنے سے پہلے ہی شکست کھالی (کیونکہ اس نے بغیر کسی دلیل کے اپنی بات کو حجت سمجھا ،حجت جانا ) اے یونس ! اگر تم علم کلام( ۹ ) اچھی طرح جانتے تو اس شامی مرد سے مناظرہ کرتے“۔

یونس: ”افسوس کہ میں علم کلام سے آگاہی نہیں رکھتا میں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کلام سے منع فرمایا اور کہا ہے: ”قابل افسوس ہیں وہ لوگ جو علم کلام سے سروکار رکھتے ہیں اور کہتے ہیں “یہ صحیح ہے ،یہ غلط ہے۔یہ بات نتیجہ تک پہنچتی ہے ،یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور یہ چیز سمجھ میں نہیں آتی“۔

امام علیہ السلام: ”میں نے جو منع کیا تھا وہ اس صورت میں تھا کہ اسے اختیار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑدیں اور جو خود جانتے ہیں اسی پر تکیہ کریں۔ اے یونس ! باہر جاو اور دیکھو اگر علم کلام جاننے والا میرا کو ئی شاگرد ہو تو اسے یہاں لے آو“۔

یونس: ”میں باہر گیا اور تین افراد (حمران بن اعین ،مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم )جو علم کلام میں کافی مہارت رکھتے تھے انھیں لے کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ میں نے قیس بن ماصر کو بھی لے لیا جو میری نظر میں علم کلام میں ان تمام لوگوں سے زیادہ ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد علیہ السلام سے یہ علم حاصل کیا تھا۔جب سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ گئے تو امام جعفر صادق علیہ السلام خیمے سے باہر آئے یہ وہی خیمہ تھا جو کہ مکہ میں حرم کے بغل میں آپ کے لئے لگایاگیا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ایک ایسے اونٹ پر پڑی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمایا: ”خدا کی قسم اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہیں“۔

لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقیل کے بیٹے ہیں کیونکہ امام انھیں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے دیکھا کہ اونٹ نزدیک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے (امام کے ایک بہترین شاگرد) وہ اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی ان کی ڈارھی نکلی تھی موجودہ لوگوں میں ان کی عمر سب سے کم تھی تقریبا ً سبھی ان سے بڑے تھے۔امام نے ہشام کو جیسے ہی دیکھا بڑے پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان میں یہ حدیث فرمائی:

ناصرنا بقلبه ولسانه ویده “۔

ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔

اسی وقت امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے تمام موجود شاگردوں میں سے ایک ایک سے فرمایا: ”اس شامی دانشور سے تم لوگ بحث ومناظرہ کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمایا: ”شامی مرد سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے اس سے مناظرہ کیا ابھی چند لمحے نہیں گزرے تھے کہ شامی، حمران کے سامنے بے بس ہو گیا اس کے بعد امام علیہ السلا م نے مومن الطاق( ۱۰ ) سے فرمایا: ”طاق مرد شامی سے مناظرہ کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظرہ شروع کیا ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامیاب و کامران ہوگئے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم بھی شامی مرد سے باتیں کرو“، وہ بھی گئے اور اس سے باتیں کی لیکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہیں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔

اب امام علیہ السلام نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم جا کر اس سے مناظرہ کرو“۔قیس نے شامی سے مناظرہ شروع کیا امام علیہ السلام اس مناظرہ کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کیونکہ شامی مرد قیس کے مقابل بے بس ہو گیا تھا اور اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں تھے جسے اچھی طرح دیکھا جا سکتا تھا۔( ۱۱ )

۲۲۔شامی دانشورسے ہشام کا زبردست مناظرہ

امام جعفر صادق علیہ السلام نے مکہ میں شامی دانشور اور اپنے شاگردوں کے درمیان ہوئے مناظرہ میں (جس کی تفصیل اس سے پہلے مناظرہ میں گزرچکی ہے) ایک جوان نے (ہشام بن حکم) کی طرف رخ کر کے فرمایا: ”اس سے مناظرہ کرو“۔شامی دانشور مناظرہ کے لئے تیار ہو گیا اس طرح ہشام بن حکم اورشامی دانشور کا مناظرہ شروع ہوا۔

شامی دانشور (ہشام کی طرف رخ کر کے )اے جوان! اس مرد (امام جعفر صادق علیہ السلام) کی امامت کے سلسلہ میں مجھ سے سوال کر(میں تجھ سے اس شخص کے بارے میں باتیں کرنا چاہتا ہوں )“

ہشام امام کی شان میں گستاخی اور بے ادبی سے)اس قدر غصہ ہوئے کہ ان کابدن کانپنے لگا اور اسی حالت میں انھوں نے شامی دانشور سے کہا: ”کیا تیرا پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خیر و سعادت زیادہ چاہتا ہے یا خود بندہ اپنے بارے میں بہتر سمجھتے ہیں ؟ “

شامی دانشور: ”نہیں بلکہ پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں ان سے زیادہ خیر وسعادت چاہتا ہے“۔

ہشام: ”خدا وند متعال نے انسانوں کی خیر وسعادت کے لئے کیا کیا ہے ؟ “

شامی دانشور: ”خدا وند متعال نے اپنی حجت کو ان پر معین کیا ہے تاکہ وہ منتشر نہ ہونے پائیں وہ اپنے بندوں میں اپنی حجت کے ذریعہ الفت ومحبت پیدا کرتا ہے تاکہ ان کی بے سرو سامانی اس دوستی اور الفت کی وجہ سے ختم ہو جائے اور اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون الٰہی سے آگاہ کرتا ہے“۔

ہشام: ”وہ حجت کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”وہ رسول خدا ہیں“۔

ہشام: ”رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “

شامی دانشور: ”پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہیں“۔

ہشام: ”کیا قرآن وسنت آج ہمارے اختلاف کو ختم کرنے میں سود مند ثابت ہو سکتے ہیں؟ “

شامی دانشور: ”ہاں“۔

ہشام: ”پھر ہمارے تمہارے درمیان کیوں اختلاف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے یہاں مکہ آئے ہو ؟ “

شامی دانشوراس سوال کے جواب میں خاموش ہو گیا امام جعفرصادق علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”کیوں نہیں کچھ بولتے ؟ “

شامی دانشور: ”اگر ہشام کے سوال کا جواب میں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختلاف کو ختم کرتے ہیں تو یہ بے ہودہ بات ہوگی کیونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہیں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختلاف قرآن و سنت کے سمجھنے میں ہے تو اس طرح میرے عقیدہ کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں دعویٰ کریں کہ ہم حق پر ہیں تو اس صورت میں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختلاف میں کسی طرح سود مند ثابت نہیں ہو سکتے ہیں لیکن یہی (مذکورہ دلیل) میرے عقیدہ کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقیدہ کے لئے نہیں“۔

امام علیہ السلام: ”اس مسئلہ کو ہشام (جو علم وکمال سے سر شار ہے )سے پوچھو وہ تمہیں قانع کنندہ جواب دیں گے“۔

شامی دانشور: ”آیا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے تاکہ لوگ آپس میں متحد و ہم آہنگ رہیں ؟اور وہ ان کے اختلاف کو ختم کرے اور انھیں حق وباطل کے بارے میں توضیح دے ؟

ہشام: ” رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں یا آج ؟ “

شامی دانشور: ”رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تو وہ خو دتھے لیکن آج وہ شخص کون ہے ؟ “

ہشام نے ،امام علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”یہ شخص جو مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر جگہ سے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اور یہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختلاف کو ختم کرنے والے ہیں کیونکہ یہ وارث علم نبوت ہیں جو ان کے باپ دادا سے انھیں ملا ہے اور یہی ہیں جو زمین وآسمان کی باتوں کو ہمیں بتاتے ہیں“۔

شامی دانشور: ”میں کس طرح سمجھوں کہ یہ شخص (امام جعفر صادق علیہ السلام )وہی حجت حق ہے“۔

ہشام: ”جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہیں دلیل مل جائے“۔

شامی دانشور: ”اے ہشام ! تم نے یہ کہہ کر میرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہیں چھوڑا ہے، اب مجھ پر واجب ہے کہ میں سوال کروں اور حقیقت تک پہنچوں“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”کیا تم یہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے یہاں تک کہ سفر کے دوران تمہیں کیا کیا چیزیں پیش آئیں ؟ اور امام علیہ السلام نے اس کے سفر کی کیفیت کے بارے میں سب کچھ بیان کر دیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے بیانات سے شامی دانشور حیرت زدہ ہو گیا تھا اور اب اس نے حقیقت کو پالیا تھا جس کی وجہ سے اسی وقت اس کے قلب میں ایمان کا چراغ روشن ہوگیا اور بڑی خوشی کے ساتھ اس نے کہا: ”آپ نے سچ کہا، خدا کی قسم میں اب (حقیقی) اسلام لایا ہوں“۔

امام علیہ السلام: ”بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ایمان لے آیااور اسلام ،ایمان سے پہلے ہے۔اسلام کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں لیکن ایمان کے ذریعہ لوگ خدا کے یہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ اجر وثواب ایمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا لیکن ہماری امامت کو قبول نہیں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نیک اعمال کے ثواب کے لائق ہو گیا ہے۔

شامی دانشور: ”آپ نے صحیح فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور آپ ان کے جانشین ہیں“۔

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظرہ کی کیفیت اس طرح بیان کی:

آپ نے حمران سے فرمایا: ”تم اپنی بات کو احادیث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام بن سالم سے فرمایا: ”تم احادیث کو حاصل کرنے میں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو لیکن اس کے حاصل کر نے اور اسے سمجھنے کی صحیح صلاحیت نہیں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمایا: ”تم قیاس اور تشبیہ کے ذریعہ بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذریعہ ردّ کرتے ہو اور تمہارا باطلی استدلال بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قیس بن ماصر سے فرمایا: ”تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حدیث کے قریب کرنا چاہتے ہو لیکن دور ہو جاتے ہو، حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کردیتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت سی باطل چیزوں سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے، تم اور مومن طاق بحث کے دوران ایک طرف سے دوسری طرف بھا گتے ہو اور تم دونوں اس میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔

یونس کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ امام علیہ السلام نے جو قیس اور مومن کے سلسلہ میں کہا ہے وہی ہشام کے بارے میں بھی کہیں گے لیکن آپ نے ہشام کی بڑی تعریف کی اور ان کی شان میں فرمایا:

یا هشام لا تکاد تقع تلوی رجلیک إذا هممت بالارض طرت “۔

”اے ہشام ! تمہارے دونوں پیر کبھی زمین پر ٹکنے نہیں پاتے جیسے ہی تم شکست کے قریب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے ہو“۔

(یعنی جیسے ہی تم اپنے اندر لا چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بڑی مہارت سے خود کو بچالیتے ہو۔)

اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمایا: ”تم جیسے لوگوں کو مقرروں سے مناظرہ کرنا چاہئے اور یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کیونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظرہ اور بحث میں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکیں۔( ۱۲ )

اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہشام بن حکم کے بارے میں فرمایا:

”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے، ہمارے نظریات کو لوگوں تک پہنچانے والے، ہماری حقانیت کو ثابت کرنے والے اور بیہودہ باتیںاور لغو کلام کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دینے والے ہیں ،جس نے ہشام بن حکم کی پیروی کی اور ان کے افکار میں غور خوض کیا اس نے گویا ہماری پیروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت کی“۔( ۱۳ )

۲۳۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے حضور ایک جاثلیق کا مسلمان ہونا

امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغیرہ سے شیخ صدوق علیہ الرحمةنے روایت کی ہے کہ ایک بہت ہی پڑھا لکھا عیسائی تھا جس کا نام ”بریھہ“تھا لیکن اسے لوگ ”جاثلیق“( ۱۴ ) کہا کرتے تھے۔وہ ستر سال سے مذہب عیسائیت پر باقی تھا اور وہ برابر اسلام اور حق کی تلاش میں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ایک عورت رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔

بریھہ نے مذہب عیسائیت کے ہیچ اور گھٹیا استدلال کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وہ اس کے اس راز سے آگاہ نہ ہو سکے۔بریھہ برابر اسلام کے بارے میں سوالات کیا کرتا تھا اور اسلام کے راہبر علمائے صالح کی تلاش میں رہتا تھا اور اسلامی مفکروں کے حصول میں اس نے کافی جستجو اور تحقیق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروہ میں جا کر ان کے عقائد کے سلسلہ میں تحقیق کرتا رہتا لیکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔

جاثلیق ان لوگوں سے کہتاہے: اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم میں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پایا جاتا۔

یہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقیق کے درمیان شیعوں کے بارے میں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔

یونس بن عبد الرحمن (امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد )کہتے ہیں کہ ہشام نے کہا: ”ایک روز میں اپنی دکان (جو باب الکرخ میں واقع تھی) پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ نا آگاہ دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک گروہ بریھہ کے ساتھ چلا آرہا ہے جس میں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وہ تقریبا ً سو افراد تھے، کالے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عیسائیت کی مخصوص لمبی ٹوپیاں لگائے تھے۔بریھہ جاثلیق اکبر بھی ان لوگوں کے درمیان موجود تھا وہ سب میری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بریھہ کے لئے ایک مخصوص کرسی لگائی گئی وہ اس پر بیٹھ گیا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے عصاو ں پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔

بریھہ نے کہا: ”مسلمانوں میں کوئی ایسا علم کلام کامشہور عالم نہیں ہے جس سے میں نے عیسائیت مذہب کی حقانیت کے بارے میں بحث نہ کی ہو مگر میں نے ان میں ایسی چیز نہیں پایا جس سے میں شکست کھا جاوں، اب میں تیرے پاس اس لئے آیا ہوں تاکہ اسلام کی حقانیت کے بارے میں تجھ سے مناظرہ کروں“۔

یونس نے ہشام اور جاثلیق کے درمیان ہونے والے پورے مناظرہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد کہا: ”تمام نصرانی ادھر ادھر بکھر گئے۔وہ آپس میں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بریھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم زدہ ہوا وہ اپنے گھر واپس آیا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا: ”کیا وجہ ہے کہ میں تجھے غمگین و پریشان دیکھ رہی ہوں ؟ “

بریھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظرہ کی تفصیل اسے بتادی اور کہا کہ میرے غم زدہ ہونے کی وجہ یہی ہے۔

اس عورت نے بریھہ سے کہا: ”وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو یا باطل پر ؟ “

بریھہ نے جواب دیا: ”میں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔

اس عورت نے کہا: ”تمہیں جہاں بھی حق نظر آئے وہیں چلے جاو اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کیونکہ یہ ایک طرح کا شک ہے اور شک بہت ہی بری چیز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہیں“۔

بریھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر لیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وہ ہشام کے پاس پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہیں ہے اس نے کہا: ”اے ہشام ! کیا تمہاری نظر میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پیروی کرسکو؟“

ہشام نے کہا: ”ہاں اے بریھہ!“۔

بریھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے اوصاف بتا دیئے، بریھہ امام جعفر صادق علیہ السلا م سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا لہٰذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدینہ کا سفر اختیار کیا ،وہ خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے ملاقات کریںمگر آپ کے گھر کے دالان ہی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملا قات ہو گئی۔

”ثاقب المناقب “کی روایت کے مطابق ہشام نے ان کو سلام کیا بریھہ نے بھی ان کی تقلید میں آپ کو سلام کیا اس کے بعد امام جعفرصاد ق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی علت بتائی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اس وقت بہت کم عمر تھے(شیخ صدوق کی روایت کے مطابق ہشام نے بریھہ کی پورا واقعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو سنادیا )

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے جاثلیق کی گفتگو

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اے بریھہ ! تو اپنی کتاب انجیل کے بارے میں کس حد تک معلومات رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”میں اپنی کتاب سے پوری طرح آگاہ ہوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس کے باطنی معنی پر کتنا اعتماد رکھتا ہے ؟ “

بریھہ: ”اتناہی جتنا مجھے اس پر عبور ہے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے انجیل کی آیتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔

بریھہ امام سے اتنا مرعوب ہوگیا کہ وہ کہنے لگا: ”جناب مسیح آپ کی طرح انجیل کی تلاوت کیا کرتے تھے اس طرح کی تلاوت جناب عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی نہیں کرتا“۔اس کے بعد بریھہ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی طرف رخ کر کے عرض کیا: ”میں پچاس سال سے آپ یا آپ جیسے کسی شخص کی تلاش میں تھا“۔ اس کے بعد بریھہ وہیں مسلمان ہوگیا اور اس کے بعد بھی وہ راہ اسلام پر بڑے استحکام کے ساتھ ڈٹا رہا اس کے بعد ہشام بریھہ کو اس عورت کے ساتھ لے کر امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور ہشام نے پوری بات آپ کو بتائی اور اس خادمہ اور بریھہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی آپ کو سنا دیا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( ذُرِّیَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )( ۱۵ )

”وہ لوگ ایسے فرزندان تھے جو ایک دوسرے سے لئے گئے تھے اور خدا سمیع وعلیم ہے“۔

بریہہ کی امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ گفتگو

بریھہ: ”میں آپ پر فدا ہوں، توریت وانجیل اور دوسرے پیغمبر وں کی کتابیں آپ کے پاس کیسے اور کہاں سے آئیں ؟ “

امام جعفر صادق علیہ السلام: ”یہ کتابیں ان کی طرف سے ہمیں وراثت میں ملی ہیں جو ہم ان لوگوں کی طرح ہی ان کتابوں کی تلاوت کرتے ہیں خداوند عالم اس دنیا میں کسی ایسے کو اپنی حجت قرار نہیں دیتا کہ جب اس سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہے: ”میں نہیں جانتا“۔

اس کے بعد بریھہ امام جعفرصاد ق علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہی رہنے لگا اور آخر کار امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پا گیا امام جعفر صادق علیہ السلا م نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے غسل وکفن دیا اور خود ہی اسے قبر میں لٹا کر فرمایا:

هذا حواری من حواری المسیح علیه السلام یعرف حق الله علیه

”یہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک تھا جو اپنے اوپر اللہ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کے اکثر اصحاب یہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائیں۔( ۱۶ )

۲۴۔امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام کے سامنے ابو یوسف کی لاچاری

مہدی عباسی بنی عباس کا تیسرا خلیفہ ایک دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، ابو یوسف بھی (جو اہل بیت علیہم السلام کا پکا مخالف تھا ) اس بزم میں حاضر تھا اس نے مہدی عباسی کی طرف رخ کر کے کہا کہ مجھے موسیٰ بن جعفر سے چند سوال کرنے کی اجازت دیجئے تاکہ میرے سوال کے جواب نہ دینے کی وجہ سے وہ مجبور و لاچار ہو جائیں۔

مہدی عباسی نے کہا: ”میں اجازت دیتا ہوں“۔

ابو یوسف نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا: ”اجازت ہے کہ میں ایک سوال کروں ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”سوال کر“۔

ابو یوسف نے کہا: ”جس نے حج کاا حرام باندھ رکھا ہو آیا اس کا سائے میں چلنا جائز ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے کہا: ”جائز نہیں ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”اگر کسی محرم نے زمین میں خیمہ نصب کر رکھا ہو تو کیا اس میں اس کاجانا جائز ہے؟“

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ہاں جائز ہے“۔

ابو یوسف نے کہا: ”ان دونوں سایوں میں کیا فرق ہے کہ پہلے والے میں جائز نہیں اور دوسرے والے میں جائز ہے ؟ “

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ”عورت پر اپنی ماہواری کے زمانہ میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا واجب ہے ؟ “

ابو یوسف نے کہا: ”نہیں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا عورت پر عادت کے زمانہ میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے ؟ “۔

ابو یوسف نے کہا: ”ہاں“۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اب تو یہ بتا کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ پہلے میں عورت پر قضاواجب نہیںہے اور دوسرے میں قضا واجب ہے؟“

ابو یوسف نے کہا: ”احکام میں اسی طرح آیا ہے ؟ “

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”حج کے زمانہ میں احرام باندھ لینے والے کے لئے بھی اسی طرح کا حکم آیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا شرعی مسائل میں قیاس درست نہیں ہے“۔

ابو یوسف اس جواب سے پانی پانی ہو گیا،مہدی عباسی نے اس سے کہا: ”انھیں شکست دینا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہو پایا“۔

ابو یوسف نے کہا: ”رمانی بحجر دامغ “موسیٰ بن جعفر نے مجھے ہلاکت خیز پتھر سے قتل کر دیا جس کی وجہ سے میں بے بس ولاچار ہو گیا۔( ۱۷ )

۲۵۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا ہارون کے ساتھ مناظرہ

ہارون رشید خلفائے بنی عباس میںسے پانچواںخلیفہ تھا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران اس نے امام علیہ السلا م کو مخاطب کر تے ہوئے کہا: ” آپ نے خاص و عام میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپ پیغمبر کی اولادہیں جب کہ آنحضرت کے کوئی بیٹا ہی نہیں تھا جس کے ذریعہ ان کی نسل آگے بڑھتی، اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسل ہمیشہ بیٹے کی طرف سے آگے بڑھتی ہے اور آپ لوگ ان کی بیٹی کی اولاد میں سے ہیں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی ابھی حاضر ہو جائیں اور تیری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تو انھیں مثبت جواب دے گا ؟ “

ہارون: ”میں صرف مثبت جواب ہی نہیں دوں گا“۔بلکہ ان سے رشتہ جوڑکر میں عرب و عجم کے درمیان فخر کروں گا۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بیٹی کو پیغام نہیں دیں گے اور میں اپنی لڑکی کو ان کی زوجہ نہیں بنا سکتا“۔

ہارون: ”کیوں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”اس لئے کہ میری ولادت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سبب سے ہے (کیونکہ میں ان کا نواسہ ہوں )لیکن تیری پیدائش میں وہ سبب نہیں بنے ہیں“۔

ہارون: ”واہ ! بہت اچھا جواب ہے، اب میرا یہ سوال ہے کہ آپ لوگ کیوں خود کو پیغمبر اکرم کی ذریت سے کہتے ہو جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہیں تھی کیونکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے نہ کہ لڑکی سے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کوئی لڑکا نہیں تھا اور آپ ان کی لڑکی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نہیں ہوگی ؟!

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”کیا میں جوا ب دوں ؟“

ہارون: ”ہاں“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں سورہ انعام کی ۸۴ ویں آیت میں ارشادفرماتا ہے:

( وَمِنْ ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاٴَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِنْ الصَّالِحِینَ )( ۱۸ )

”اور اس کی ذریت سے دادو،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون ہیں اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزادیا کرتے ہیں اور اسی طرح زکریا ویحیٰ و عیسیٰ والیاس یہ سب صالحین میں سے تھے“۔

اب میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کون باپ تھا ؟

ہارون: ”جناب عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”جس طرح خداوند متعال نے مذکورہ آیت میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کی طرف سے پیغمبروں کی ذریت میں قرار دیا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام للہ علیہا کی طرف سے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت میں شامل ہیں“۔

اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”آیا میں اپنی دلیل اور آگے بڑھاوں؟“

ہارون نے کہا: ”ہاں بڑھایئے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام: ”خداوند متعال (مباہلہ کے متعلق )فرماتا ہے:

( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ )( ۱۹ )

”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی (نصاریٰ)کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئیں ہم اپنے بیٹوں کو لے آئیں تم اپنے بیٹوں کو ،ہم اپنی عورتوں کو لے آئیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کریں“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: ”آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی ،اور فاطمہ زہرا،امام حسن اور امام حسین (سلام اللہ علیہم)کے علاوہ انصار یامہاجرین میں سے بھی کسی کو ساتھ لیا ہو، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام حسین علیہما السلام ہیں۔خداوند متعال نے حسنین علیہما السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیٹے کہہ کر یاد کیا ہے۔

ہارون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی واضح دلیل قبول کر لی اور کہا: بہت خوب اے موسیٰ۔( ۲۰ )

____________________

(۱) اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے تعلق نہیں رکھتی۔اس جواب میں امام کا مقصد در اصل عوام کو قانع کرنا تھا جیسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کیا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وہ اس کے جواب میں کہے: ”ہاں اڑ سکتا ہے وہ ایک ہوائی جہاز بنائے اور اس میں بیٹھ کر فضا میں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ،آنکھ کے ڈھیلے کی مثال سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غیر معقول مثال کے ذریعہ کہ کیا خدا انڈہ میں پوری دنیا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈہ بڑاہو یا یہ بھی کوئی محال کام نہیں ہے اور خدا اس بات پر قادر ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محالات عقلیہ پر قدرت نہیں رکھتا یہ توایسا ہی ہوگا کہ ہم سوال کریں کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط ہے، اس مسئلہ کی مکمل تحقیق اور یہ کہ خدا کی قدرت محال چیزوں سے متعلق ہوتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں مختلف کلامی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے ۔

(۲) اصول کافی ، ص ۷۹ و۸۰۔

(۳) کیونکہ ان دونوں میں ہر جہت سے اختلاف کا فرض غلط ہے کیونکہ دو چیزیں بھلے (ایک ہی جہت سے )مانند و مثل ضرور رکھتی ہیں جیسے جہت وجود وہستی میں ہر موجود شئے ایک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔

(۴) اصول کافی ،حدیث ۵، ص۸۰و ۸۱ ج۱ ، تلخیص و توضیح اور مولف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔

(۵) انوار البہیہ، ص ۱۵۲۔

(۶) سفینة البحار ،ج ۱،ص ۱۵۷۔

(۷) اصول کافی، ج۱، ص۱۲۸۔

(۸) شامی دانشور ایک سنّی عالم دین تھا ۔

(۹) علم کلام ایک ایسا علم ہے جو اصول عقائد میں عقلی ونقلی دلیلوں کے ذریعہ بحث کرتا ہے ۔

(۱۰) اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہیں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل میں ان کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفین ان کو ”شیطان الطاق “کہا کرتے تھے (سفینة البحار ج۲، ص ۱۰۰)

(۱۱) اصو ل کافی ج۱، ص۱۷۱۔

(۱۲) اصول کافی ، ص ۱۷۲و ۱۷۳ ۔

(۱۳) الشافی سید مرتضی ،ص ۱۲۔تنقیح المقال ،ج ۳ ص۲۹۵۔

(۱۴) جاثلیق ،عیسائیت کی ایک بڑی شخصیت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف “اور اسقف کے بعد” قیس“کا درجہ ہوتا ہے۔

(۱۵) سورہ آل عمران ، آیت ۳۴۔

(۱۶) انوار البھیہ ،ص۱۸۹ تا ۱۹۲۔

(۱۷) عیون اخبار الرضا ج۱، ص۷۸ سے اقتباس ۔

(۱۸) سورہ انعام، آیت ۸۴ و ۸۵۔

(۱۹) سورہآل عمران ، آیت ۶۱۔

(۲۰) احتجاج طبرسی ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۵ سے اقتباس ،اسی بنا پر بعض لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تمام اولادجو قیامت تک ان کی نسل سے وجود میں آئے گی سید ہوگی اور رسول اسلام کی ذریت میں شمار ہوگی، لہٰذا اگر کسی کا باپ سید نہ ہو لیکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہو تو وہ سید ہوگا۔(غور کریں)، مولف۔

بطور نمونہ ان میں سے صرف دو یہ مناظرے ملاحظہ فرمائیں:

پہلا نمونہ

جب عبد اللہ بن سلام ایمان لے آیا:

یہودیوں کے بزرگ علماء میں سے ایک مشہور و معروف عالم دین جس کا نام ”عبد اللہ بن سلام“ اور یہودی قبیلہ بنی قینقاع سے تعلق رکھتا تھا، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے پہلے سال ایک روز عبد اللہ بن سلام( ۲۸ ) آپ کی نشست میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ آپ اپنے موعظہ میں اس طرح کی چیزیں بیان کر رہے ہیں۔

”اے لوگو! آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرو اوران تک کھانا پہنچاو،اپنے رشتہ داروں سے مل جل کر رہو،آدھی رات کو جب ساری دنیا سو جایا کرے تو اٹھ کر نماز شب پڑھو اور خداوند متعال سے راز ونیاز کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ خدا وند متعال کی بہشت میں داخل ہو سکو“۔

عبد اللہ نے دیکھا کہ آپ کی باتیں اچھی ہیں جس کہ وجہ سے وہ اس نشست کا گرویدہ ہو گیااور اس نے اس میں شرکت کا ارادہ کر لیا( ۲۹ ) ایک روز عبد اللہ نے مذہب یہود کے چالیس بزرگ علماء کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ ہم پیغمبر کے پاس جا کر ان کی نبوت کے بارے میں بحث کریں اور انھیں زیر کریں۔

اس ارادے سے جب وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے عبد اللہ بن سلام کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”میں بحث کے لئے تیار ہوں“۔

یہودیوں نے موافقت کی اور بحث ومناظرہ شروع ہوا ،تمام یہودی پیغمبر پر پیچیدہ سوالوں کی بوچھار کررہے تھے ،آپ ایک ایک کرکے ان جواب کا دیتے،یہاں تک کہ ایک روز عبد اللہ بن سلام پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تنہا حاضر ہوا اور کہنے لگا“۔میرے پاس تین سوال ہیں جن کا جواب پیغمبر کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا ،کیا اجازت ہے کہ میں انھیں بیان کروں؟ “

عبد اللہ نے سوال کیا: ”مجھے بتایئے کہ قیامت کی پہلی علامت کیا ہے؟جنت کی خاص غذا کیا ہے؟اس کی کیا وجہ ہے کہ بیٹا کبھی باپ کے اور کبھی ماں کے مشابہ ہوتا ہے؟“

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ابھی جبرئیل تمہارے جوابات خدا کی طرف سے لارہے ہیں اور میں تمہیں بتاوں گا“۔

جیسے ہی جبرئیل کا نام درمیان میں آیا عبد اللہ نے کہا: ”جبرئیل تو یہودیوں کا دشمن ہے کیونکہ اس نے متعدد مقامات پر ہم سے دشمنی کی ہے بخت نصر جبرئیل کی فوج کی وجہ سے ہم پر غالب ہوا اور شہر بیت المقدس میں آگ لگا دی ۔۔۔۔وغیرہ“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے جواب میں سورہ بقرہ کی ۹۷ ویں آیت کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے:

”جبرئیل جنھیں تم اپنا دشمن سمجھتے ہو وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے اور انھوں نے قرآن کو خدا کے اذن سے قلب پیغمبر پر نازل کیا ہے وہ قرآن جو ان کتابوں سے مطابقت رکھتا ہے جن میں رسول خدا کی نشانیوں کا تذکرہ ہے ،وہ ان کی تصدیق کرنے والا ہے ،فرشتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں اگر کوئی ان میں سے کسی ایک سے دشمنی رکھتا ہے تو گویا وہ تمام فرشتوں ،پیغمبروں اور خدا کا دشمن ہے کیونکہ فرشتے اور پیغمبر سب کے سب خدا کے فرمانبردارہوتے ہیں۔( ۳۰ )

اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبد اللہ کے جواب میں فرمایا:

”قیامت کی پہلی علامت دھوئیں سے بھری ہوئی آگ ہے جو لوگوں کو مشرق ومغرب کی طرف لے جائے گی اور جنت کی خاص غذامچھلی کا جگر اور اس کا اضافی ٹکڑا ہے جو نہایت ہی اچھی اور لذیذ ترین غذا ہے،اور تیسرے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: ”انعقاد نطفہ کے وقت عورت یا مرد کے نطفہ میں جس کا نطفہ غلبہ پاجاتا ہے بچہ اسی کی شبیہ ہوتا ہے ، اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ ماں کی طرح ہوگا اور اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آگیا تو بچہ باپ کی طرح ہوگا“۔

عبد اللہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ان جوابوں کی تطبیق جب توریت اور انبیاء سابق کی خبروں سے کی تو یہ تمام جوابات صحیح ثابت ہوئے ،جس کے نتیجہ میں اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور اپنی زبان پر کلمہ شہادتین جاری کیا۔

اس وقت عبد اللہ بن سلام نے پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم سے عرض کیا: ”میں یہودیوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں اور بہت ہی پڑھے لکھے شخص کا بیٹا ہوں اگر انھیں میرے اسلام قبول کرنے کی خبر ہوگئی تو وہ مجھ کو جھٹلائیں گے، لہٰذا ابھی آپ میرے ایمان کو پنہاں رکھئے تاکہ آپ یہ معلوم کر سکیں کہ یہودی میرے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں“۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس فرصت کو غنیمت جان کر کہ عبد اللہ کا اسلام لانا مجادلہ اور آزاد بحث کے لئے خود ایک طرح کی دلیل بن سکتا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن سلام کو وہیں قریب میں پردے کی آڑ میں بٹھا دیا یہودیوں سے گفتگو کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”میں پیغمبر ہوں خدا کو حاضر ناظر جانو اور ہواوہوس کو ترک کرکے اسلام قبول کر لو“۔

جواب میں کہا گیا: ”دین اسلام کے صحیح ہونے کے بارے میں ہم بالکل بے اطلاع ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”تمہارے درمیان عبد اللہ بن سلام کیسا شخص ہے ؟“

گروہ یہود: ”وہ ہمارا رہبر اور ہمارے رہبر کا بیٹا ہے وہ ہمارے درمیان ایک بہت ہی پڑھا لکھا شخص ہے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”وہ اگر مسلمان ہو جائے تو کیا تم لوگ اس بات پر تیار ہو کہ اس کا اتباع کرو؟“

گروہ یہود: ”وہ ہر گز مسلمان نہیں ہوگا“۔

رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے عبد اللہ کو آواز دی، عبد اللہ بن سلام پردے سے باہر لوگوں کے سامنے حاضر ہو کر کہنے لگا: ”اشھد ان لا الہ الااللہ وان محمد رسول الله“۔

اے گروہ یہود! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاوجب تم جانتے ہو کہ وہ پیغمبر خدا ہے تو تم کیوں ایمان نہیں لاتے ؟“

یہودیوں نے ابھی کچھ ہی دیر پہلے اس کی تعریف کی تھی مگر اب وہ اسے بد ترین شخص اور ذلیل آدمی کا بیٹا بتانے لگے۔

آپ کا یہ طرز استدلال نہایت عمدہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا منہ چھپانے لگے لیکن در حقیقت وہ شکست کھا چکے تھے ،عبد اللہ کے لئے اگر چہ اسلام اس زمانہ میں بہت دشوار ثابت ہوا لیکن وہ حقیقتاً اسلام لایا تھا،اسی لئے آنحضرت نے اس کا نام عبد اللہ رکھا تھا( ۳۱ ) اس کا ایمان قبول کرنا بعد میں اور دوسرے ایمان لانے والوں کے لئے ہی موثر ثابت ہوا، ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایک یہودی دانشور جس کانام ”مخَیرِق“ تھا وہ بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایمان لے آیا۔( ۳۲ )

دوسرا نمونہ

۴۔ قبلہ کے سلسلہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کایہودیوں سے مناظرہ

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں بیت المقدس (یہودیوں کے قبلہ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں بھی آپ ۱۶ مہینے تک بیت المقدس ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔

اسلام دشمن ،یہودیوں نے اسلام کو بُرا بھلا کہنے اور اسے بے اہمیت کر نے کے لئے ایک اچھا بہانہ تلاش کر لیا اور کہنے لگے: ”محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماس بات کو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مستقل شریعت لائے ہیں جبکہ ان کا وہی قبلہ ہے جو یہودیوں کا قبلہ ہے“۔

اس طرح کے اعتراضات سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رنجیدہ خاطر ہوئے آنحضرت راتوں کو گھر سے باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاہ کرکے وحی کے منتظر رہتے تھے یہاں تک کہ سورہ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت نازل ہوئی جس میں قبلہ کی جہت بیت المقدس سے بدل کر خانہ کعبہ کی طرف کردی گئی۔

ہجرت کے ۱۶ ماہ بعد نیمہ رجب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند صحابیوں کے ساتھ مسجد بنی سلمہ (جو مسجد احزاب سے ایک کلو میٹر شمال کی طرف واقع ہے)میں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے ،دو رکعت نماز تمام ہونے کے بعد جبرئیل سورہ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت لے کر نازل ہوئے:

( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَه )( ۳۳ )

”اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑ دیجئے اور جہاں بھی رہئے اس طرف رخ کیجئے“۔

تو آپ حالت نماز ہی میں کعبہ کی طرف پلٹے اور دو رکعت نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی، اسی طرح آپ کی اقتداء کرنے والوں نے بھی کیا ،اور اسی نماز کی وجہ سے مسجد بنی سلمہ کو مسجد ”ذو قبلتین“ کہا جانے لگا“۔

اس واقعہ کے بعد یہودی ہر جگہ قبلہ بدلنے کے سلسلہ میں اعتراض اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور یہودیوں کے درمیان طے پایا کہ وہ ایک جلسے میں اس موضوع پر آزاد انہ طور پر بحث کریں ،اس جلسہ میں چند یہودیوں نے شرکت کی اور جلسہ کی شروعات یہودیوں نے کی اور سوال کی صورت میں انھوں نے اس طرح کہا:”آپ کو مدینہ آئے اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا لیکن اب آپ بیت المقدس سے رخ موڑ کر کعبہ کی طرف نماز پڑ ھ رہے ہیں آپ ہمیں اس کا جواب دیں کہ آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں وہ درست تھیں یا باطل؟ اگر وہ درست تھیں تو لا محالہ آپ کا دوسرا عمل باطل ہے اور اگر باطل تھیں تو ہم کس طرح آپ کے دوسرے اعمال (جو بدلنے کی صورت میں ہیں)پر مطمئن ہوں کہ اس طرح آپ کا یہ قبلہ بھی باطل نہ ہو؟“

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم : ”دونوں قبلے اپنے موقع کے لحاظ سے درست اور حق ہیں ان چند مہینوں میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا حق تھا اور اب ہم خدا کی طرف سے اس بات پر مامور کئے گئے ہیں کہ خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ قرار دیں“، اور خدا کے لئے مشرق ومغرب ہیں تم جس طرف بھی رخ کرو وہاں خدا ہے اور بیشک خدا بے نیاز اور دانا ہے“۔( ۳۴ )

گروہ یہود: ”اے محمد ! کیا خدا کے لئے بداء واقع ہوا؟(یعنی ایک کام گذشتہ زمانہ میں اس پر مخفی تھا اور اب ظاہر ہوگیا اور اس نے اپنے پہلے حکم سے پشیمان ہو کر ددوسرا حکم دیا ہے)اور اس بنا پر اس نے تمہارے لئے نیا قبلہ معین کیا؟اگر اس طرح کی بات کرتے ہو تو گویا تم نے خدا وند متعال کو عام انسانوں کی طرح نادان تصور کر لیا“۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم :خدا کے یہاں بداء اس معنی میں نہیں پایا جاتا ہے ،خدا ہر چیز سے آگاہ اور قادر مطلق ہے اس سے کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی جسکی وجہ سے وہ پشیمان ہو اور تجدید نظر کرے نیز اس کے راستہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی جس کی وجہ سے وہ اوقات میں تبدیلی کرے،میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ ”کیا مریض صحت یاب نہیں ہوتا یا تندرست آدمی غمگین اور مریض نہیں ہوتا؟ یا زندہ مرتا نہیں اور موسم گرما موسم سرما میں تبدیل نہیں ہوتا؟ کیا خداوندمتعال اس طرح کے تمام امور میں تبدیلی لاتا رہتا ہے تو اس کے یہاں بداء واقع ہوتا ہے؟ “

پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم : قبلہ کی تبدیل بھی انھیں چیزوں میں سے ہے خدا وند متعال ہمیشہ اور ہر زمانہ میں اپنے بندوں کی فلاح وبہبود کے لئے خاص حکم رکھتا ہے جو شخص بھی اطاعت کرے گا جزاکا مستحق ہوگا ورنہ اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا،اس کی تدبیر اور مصلحت میں کسی کو مخالفت کرنے کا حق نہیں۔( ۳۵ )

اور تم سے میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا تم سنیچر کے دن اپنے تمام کا موں کی چھٹی نہیں کرتے ہو اور پھر اتوار سے اپنے کاموں میںمشغول ہوجاتے ہواس میں سے تمہارا کون ساعمل صحیح ہے کیا پہلا درست ہے اور دوسرا باطل ہے یا دوسرا صحیح ہے اور پہلا باطل یا دونوں صحیح یا دونوں باطل ؟

گروہ یہود: ”دونوں صحیح ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”میں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ دونوں حق ہیں چند ماہ اور چند سال پہلے بیت المقدس کی طرف قبلہ قرار دینا صحیح تھا لیکن آج کعبہ کو قبلہ سمجھنا صحیح ہے۔

تم لوگ بیماروں کی طرح ہو اور تمہارا طبیب حاذق خدا ہے اور بیماروں کی صحت اور عافیت اس میں ہے کہ وہ طبیب حاذق کی پیروی کرےں اور اس کے حکم کو اپنے ہواو ھوس پر مقدم کریں“۔

اس مناظرہ کے ناقل امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک شخص نے سوال کیا کہ روز اول سے ہی کعبہ مسلمانوں کا قبلہ کیوں نہیں ہوا؟“

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: ”خداوند متعال نے قرآن میں سورہ بقرہ کی ۱۴۳ ویں آیت میں اس کا جواب دیا ہے اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی:

”اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنا یا تھا کہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون پچھلے پاوں پلٹ جاتا ہے اگر چہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا ،وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے“۔

اس آیت میں مومنین کے لئے یہ حکم آیا ہے کہ ہم مشرکین سے مومنین کو جدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ پہچانے جائیں اور ان کی صفیں جدا اور الگ ہوں، خداوندمتعال نے بیت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ اس لئے قرار دیا تھا کیونکہ اس زمانہ میں خانہ کعبہ مشرکین کے بتوں کا مرکز تھا اور مشرکین جاکران کے سامنے سجدہ کرتے تھے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مدینہ ہجرت فرمائی اور وہاں ایک مستقل حکومت کی تشکیل دی تو مسلمانوں کی صفیں خود بخود مشرکوں سے الگ تھلگ ہوگئیں۔( ۳۶ ) اور اب اس چیز کی ضرورت نہیں رہی کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف سر جھکائیں، لہٰذا مسلمانوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا شروع کردیا، یہ بات بھی واضح ہے کہ بیت المقدس کی طرف خداوندعالم نے سجدہ کرنے کا حکم اس لئے دیا تھا کہ نئے نئے مشرک جو مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے اپنی عادتیں چھوڑنا ایک بہت ہی مشکل کام تھا کیونکہ ابھی ان میں پرانے رسوم باقی تھے اور جب تک انسان میں یہ قوت وصلاحیت نہ پیدا ہو کہ وہ اپنی عادت اور خرافات کو باآسانی ترک کرسکے وہ حق کی طرف مائل نہیں ہو سکتا لہٰذا جب انھیں پوری طرح آزمالیا گیا تو انھیں بیت المقدس کی طرف سے ہٹا کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ،اور در حقیقت شروع شروع میں بیت المقدس کو قبلہ قرار دینا اسلام کی ایک فکری اور معنوی تحریک تھی جس کے ذریعہ اسلام نے مشرکین کی پرانی عادتوں کو ختم کر دیا ،لیکن مدینہ میں اس طرح کی مصلحتیں نہیں پائی جاتی تھیں یا کعبہ کی طرف رخ کرنے میں زیادہ مصلحتیں تھیں۔( ۳۷ )

۵۔قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب

ایک روز کچھ لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ”ہم قرآن کے سلسلہ میں چند اعتراضات لے کر حاضر ہوئے ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”اپنے اعتراضات بیان کرو“۔

ایک نے کہا: ”آیا آپ خدا کے رسول ہیں؟“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ہاں“۔

گروہ: ”سورہ انبیاء کی ۹۸ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے:

”إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ حَصَبُ جَہَنَّمَ“

”یاد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چیزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔۔۔“۔

” ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اس مفہوم کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اہل دوزخ ہوئے کیونکہ کچھ لوگ ان کی بھی عبادت کرتے ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنجیدگی اور متانت سے ان کی باتیں سنیں اور فرمایا:

”قرآن عرب کی رائج زبان کے مطابق نازل ہوا ہے عربی زبان میں لفط ”من“ اکثر ذوالعقول (وہ افراد جو عقل رکھتے ہیں) کے لئے اور لفظ”ما“غیر ذوالعقول (حیوانات، جمادات اور اشجار) کے لئے استعمال ہوتا ہے تم جس آیت کے سلسلہ میں اعتراض کر رہے ہو اس میں لفظ ”ما“استعمال ہوا ہے جس سے مراد عقلا ء نہیں بلکہ وہ معبود ہیں جو عقل نہیں رکھتے جیسے بت جنھیں مٹی،لکڑی اور پتھر سے بنایا جاتا ہے ،اس طرح آیت کے معنی یہ ہوں گے:

”غیر خدا کی عبادت کرنے والے لوگ جنھیں تم نے اپنے ہاتھوں سے مختلف قسم کے معبود بنا رکھا ہے وہ سب کے سب جہنمی ہوں گے“۔

وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جواب سے مطمئن ہوگئے اور آپ کی تصدیق کر کے رخصت گئے۔( ۳۸ )

۶۔ چوبیس منافقوں کی سازش اور آنحضرت کا ان سے مناظرہ

منافقوں کی ہر زمانہ میں یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں حکومت واقتدار کے

حصول میں صرف کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی ہمدردی کی آڑ میں عوام کے درمیان مقبولیت پیدا کر کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

اسی وجہ سے وہ ہمیشہ رہبری اور حکومت کے مسئلے میں بہت ہی چوکنا رہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے زمانہ میں مناسب موقع دیکھ کر مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی رہبری کا اعلان کر دیا ،لیکن منافقوں کی کوشش یہ تھی کہ رہبری اور حکومت کے سلسلہ میں علی اور پیغمبر پر چند ایسے حملے کئے جائیں جس سے یہ عہدہ ان کے خاندان سے نکل کر کہیں اور چلا جائے۔

جنگ تبوک میں منافقوں کی ایک سازش یہ تھی کہ وہ اپنا خفیہ منصوبہ کے ذریعہ علی علیہ السلام اور پیغمبر کو قتل کر دیں۔

ملاحظہ فرمائیں:

منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی ایک خفیہ میٹنگ بلائی جس میں یہ طے پایا کہ اس وقت مسلمان جنگ میں سر گرم ہیں لہٰذا کچھ لوگ علی علیہ السلام کے قتل کے لئے مدینہ میں رک جائیں اور کچھ لوگ جنگ تبوک میں شرکت کریں اور مناسب موقع پر دیکھ کر وہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کردیں۔

پیغمبر کی قیادت میں ۱۰ ہزار سواروں اور ۲۰ ہزار پیادہ افرا د پر مشتمل لشکر اسلام تھا جنگ تبوک کے لئے روانہ ہو گیا،کچھ لوگ اپنی سازش کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لئے مدینہ ہی رک گئے اور بقیہ منافقین مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے روانہ ہوگئے یہ خبر پیغمبر تک پہنچ چکی تھی کہ رومی فوج پیادہ اور سوارملاکر چالیس ہزار افراد پر مشتمل ہے شام کی سرحد پر پہنچ چکی ہے اور اس فکر میں ہے کہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا جائے اگر چہ یہ جنگ مختلف جہات سے جیسے گرمی کی شدت، طویل مسافت دشمنوں کی کثرت ،پانی اور غذاکی قلت کی وجہ سے بہت ہی دشوار تھی اسی وجہ سے اس کو جیش العسرة کہا گیا ہے، لیکن مسلمان استقامت اور وہ ایمان توکل اور بلند ہمتی کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سپہ سالار ی میں آگے بڑھے اور مدینہ وتبوک کے درمیانی طویل راستہ طے کیا اور نویں ہجری کے ماہ شعبان کے اوائل میں سر زمین تبوک پہنچ گئے یہ دیکھ کر روم کی فوج خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئی اور جنگ نہ ہو سکی ایسے موقع پر حکومت واقتدارکے لالچی منافقین علی علیہ السلام اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کی فکر میں لگے ہوئے تھے ،پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد علی علیہ السلام کو اس جنگ میں اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا اور انھیں مدینہ میں چھوڑ گئے تھے ،تاکہ وہ پیغمبر کی غیر موجودگی میں مدینہ کی حفاظت کریں۔

حضرت علی علیہ السلام کی موجودگی کی وجہ سے جب منافقوں کی سازش تیس ہزار مسلمانوں کی غیر حاضری کے باجود کامیاب نہ ہوسکی تو انھوں نے افواہوں کی مدد سے فتنہ کھڑ ا کرنا چاہا وہ کہنے لگے کہ علی علیہ السلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اختلاف ہوگیا اور پیغمبر ان کی ہم نشینی سے بیزار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے ساتھ جنگ میں نہیں لے گئے وغیرہ۔۔۔

منافق اپنی اس بزدلانہ تہمت کے ذریعہ علی علیہ السلام کی قیادت و رہبری کی مجروح کرنا چاہتے تھے علی علیہ السلام اس غلط پروپیگنڈہ سے سخت ناراض ہوئے اور مدینہ چھوڑ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچے اور آپ کو مدینہ کے حالات سے مطلع کیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لانبی بعدی “۔

”کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری منزلت میرے نزدیک وہی ہے جونسبت ہارون کو موسیٰ سے تھی صرف اتنا ہے کہ میرے بعدنبی نہیں ہے“۔

یہ سن کر علی علیہ السلام کے دل کو ٹھنڈک پہنچی اور وہ لوٹ آئے منافقین جو یہ چاہتے تھے کہ علی علیہ السلام کی قیادت اور رہبری کو مجروح کردیں نہ یہ کہ ان کی تمام تر کوششیں نقش بر آب ہوگئیں بلکہ ساتھ ساتھ علی علیہ السلام کی جانشینی اور نیابت ،مذکورہ حدیث کے ذریعہ واضح طور پر ثابت ہوگئی۔

منافقوں نے اپنی ایک خفیہ میٹنگ میں علی علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنا یا اور راستے میں ایک گڑھا کھوددیا اور اسے گھاس پھوس سے ڈھک دیا تاکہ علی علیہ السلام واپسی کے موقع پر اس گڑھے میں اپنے جان کھوبیٹھیں۔

خداوند متعال نے علی علیہ السلام کو اس گڑھے کے خطرے سے محفوظ رکھا اور وہ صحیح وسالم مدینہ واپس آگئے نتیجہ میں اس دن منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

اور وہاں منافقوں کا ۱۴ آدمیوں پر مشتمل دوسرا گروہ( ۳۹ ) جو اسلامی لشکر کے ساتھ تھا ان کے درمیان خفیہ طور پر یہ طے ہواکہ تبوک سے لوٹتے وقت مدینہ اور شام کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ کو چھپ کر پتھروں کے ذریعہ بھڑکا دیا جائے تاکہ اونٹ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو درّہ کے اندر گرادے اور آپ کو اس بات کی اطلاع بھی نہ ہونے پائے کہ اونٹ کو بھڑکانے والا کون تھا۔

جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی اس چوٹی کے قریب پہنچے جہاں درہ تھا، تو جبرئیل نے آکر آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کر دیا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو منافقوں کی ،بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کی گئی سازش سے مطلع کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں چند باتیں کہیں۔

چودہ افراد پر مشتمل منافقوں کا گروہ جو یہ سمجھ رہا تھا کہ کسی کو کچھ خبر نہیں ہے، لہٰذا یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے دوستی اور محبت کا دم بھرنے لگے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر علی علیہ السلام کی رہبری اور قیادت کے سلسلہ میں سوالات کرنے لگے وہ اپنے سوال کرنے سے یہ ظاہر کرنا چاہے تھے کہ ہم تفاہم اور معلومات کے لئے بحث کر رہے ہیں اور اطمینان بخش جواب ملنے کی صورت میں قانع ومطمئن ہوجائیں گے۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتمام حجت کے لئے ان کی گزارش کو قبول کیا اور ان کے سوالا ت کے جواب دیئے۔

منافقوں کے سوالات

منافقوں نے اپنی بحث کا آغاز اس طرح کیا:

ہمیں بتایئے کہ علی علیہ السلام بہتر ہیں یافرشتے؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”فرشتوں کا مقام اس وجہ سے افضل ہے کہ وہ محمد، علی علیہ السلام اور خدا کے انبیاء علیہم السلام سے محبت کرتے ہیں اور ان کی رہبری وقیادت کو قبول کرتے ہیں اور جو بھی انسان ان حضرات کی رہبری کو قبول کرے اور ان سے محبت کرے اس کا مقام فرشتوں سے افضل و برتر ہوگا ،کیا تم یہ نہیں جانتے کہ فرشتے اپنے آپ کو ہر جہت سے آدم علیہ السلام سے افضل سمجھتے تھے، لیکن جب خداوندعالم نے انھیں حضرت آدم کا علمی مرتبہ ظاہر کیا تو وہ اپنے کو پست سمجھ کر ان کے سامنے سجدہ کے لئے جھک گئے، اور سجدہ والے دن ہی کچھ عظیم اور نیک شخصیتیں (جیسے پیغمبر ،علی علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام ائمہ علیہم السلام )آد م کے صلب میں موجود تھیں یعنی تمام مقدس شخصیتیں آدم کے پیچھے صف بنا ئے کھڑی رہیں ،فرشتوں نے آدم کے ساتھ ساتھ ان کی تمام ذریت کا سجدہ کیا۔

بے شک سجدہ بظاہر آدم کے لئے ہو الیکن حقیقت میں وہ سجدہ خدا وند عالم کا سجدہ تھا ،جناب آدم علیہ السلام صرف قبلہ (خانہ کعبہ) کی حیثیت رکھتے تھے ،لیکن ابلیس نے گھمنڈ اورتکبر میں چور ہونے کی وجہ سے جناب آدم علیہ السلام کا سجدہ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ بارگاہ خدا وندی سے نکال دیا گیا“، اس بات کا امکان پایا جاتاتھا کہ منافق جناب آدم علیہ السلام جیسے نبی پر گناہ اور ترک اولیٰ کا الزام لگا کر ان کی شخصیت کو مجروح کرتے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے پہلے ان کے اس اعتراض کا دروازہ بند کردیا۔

اور آپ نے ان سے فرمایا: ”اگر آدم علیہ السلام نے بہشت کے اس درخت سے چند دانے کھائے جس کے لئے خداوندعالم نے نہی کی تھی تو بیشک انھوں نے ترک اولیٰ کیا لیکن ان کا ترک اولیٰ تکبر اور غرور کی وجہ سے نہیں تھا اسی لئے انھوں نے توبہ کی اور خداوند عالم نے ان کی توبہ کو قبول بھی کر لیا“۔( ۴۰ )

منافقوں کی سازش ناکام ہو گئی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مذکورہ نصیحتوں سے منافقوں کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ پوری طرح اپنے دل میں یہ ٹھانے ہوئے تھے کہ جیسے ہی پیغمبر کا اونٹ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تواس کو بھڑکا دیا جائے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خاص اور ماہر صحابی (حذیفہ)کو بلا کرفرمایا: ”تم پہاڑ کے نیچے کنارے کی طرف بیٹھ جا واور تمام آنے جانے والوں پر سخت نظر رکھو تاکہ مجھ سے پہلے کوئی بھی پہاڑ پر نہ جاسکے“۔

اس کے بعد پیغمبر نے عمومی اعلان کر دیا کہ تمام لوگ میرے پیچھے پیچھے آئیں اور کوئی بھی مجھ سے آگے جانے کی کوشش نہ کرے۔

حذیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حکم کے مطابق پہاڑ کے نیچے پہنچ کر اپنے کو ایک پتھر کی آڑ میںچھپالیا اور چوکنا ہو کر چاروں طرف دیکھتے رہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آگے کوئی پہاڑ کی جانب نہ جاسکے لیکن حذیفہ نے دیکھا کہ منافقوں کا وہی گروہ جو چودہ افراد پر مشتمل تھا بڑے ہی ماہرانہ انداز میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے لگا اور وہاں پہنچ کر اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کے تحت پتھر کی آڑ میں چھپ گیا۔

حذیفہ نے جب انکی یہ تمام حرکتیں دیکھیں اور باتیں بھی سنیں تو فوراً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات سے آگاہ کیا،رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منافقوں کی سازش سے آگاہ ہونے کے باوجود شتر پر سوار ہوئے اور چل پڑے، حذیفہ ،سلمان و عمارپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حفاظت کے لئے ساتھ ساتھ چلے۔

آپ جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو منافقوں نے اوپر سے پتھر لڑھکانا شروع کیا تاکہ پیغمبر کا اونٹ بھڑک اٹھے اور وہ درے میں جاگریں۔

لیکن تمام پتھر درے کی طرف لڑھک گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بغیر نقصان کے نیچے اتر آئے پیغمبر اسلام نے عمار سے فرمایا: ”پہاڑ کے اوپر جاو اور اپنے ڈنڈے سے مار کر ان کی سواریوں کو دور بھگا دو“۔

عمار،پیغمبر کے حکم کی تعمیل کے لئے منافقوں کی تلاش میں نکلے اور پہاڑ پر پہنچ کر انھیں تتر بتر کر دیا اور ان کی سواریوں کو اپنے ڈنڈے سے مارا جس کے نتیجے میں چند منافق اپنی سواری کے ساتھ ساتھ خود بھی نیچے گرے اور ان کے ہاتھ پیر ٹوٹ گئے۔( ۴۱ )

تاریخ اسلام کے یہ دقیق اور ظریف سبق آموز واقعات اور نصیحتیں ہیں جن کے ذریعہ ہم منافقوں کے حالات سے آگاہ ہو سکتے ہیں ہمیں چاہئے کہ ان کی رنگ برنگی اور نئی نئی سازشوں کے نقاب،ان کے چہرے سے نوچ کر ان کی تمام تر سازشوں کو نقش بر آب کردیں،خاص بات یہ تھی کہ منافقوں نے اپنی سازش کو رات کی تاریکی میں انجام دیا اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہمیشہ اس بات کی کوشش میں تھے کہ ان کا ہر کام پس پردہ رہے ،لیکن ہوشیار اور بیدار مسلمانوں نے ان کے پردے چاک کر کے ان کی سازش اور خفیہ ارادوں کو ناکام بنا دیا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام اور حذیفہ کی تعریف چند جملوں میں اس طرح کی:

”علی علیہ السلام اور حذیفہ منافقوں کی سازشوں سے تمام لوگوں سے زیادہ واقف ہیں“۔

نتیجہ یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ رہنے والے منافقوں کی سازش آشکار ہونے سے پہلے ان سے مناظرہ کیا اور اس بات کو ملحوظ نظر رکھا کہ شاید وہ انھیں سمجھا بجھا کر راہ راست پر لے آئیں لیکن جب ان کی بزدلی اور سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا تو پیغمبر اسلام نے ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

۷۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاعلماء نجران سے مناظرہ

”نجران“مکہ اور یمن کے درمیان ایک شہر تھا جس میں ۷۳ بستیاں تھےں ،صدر اسلام میں وہاں عیسائی مذہب رائج تھا اور اس وقت وہاں بہت ہی پڑھے لکھے اور عظیم علماء رہتے تھے،خلاصہ کے طور پر یہ کہہ دینا بہتر ہوگا کہ اس وقت نجران ،آج کا ”ویٹکان“تھا۔

اس وقت شہر نجران کا بادشاہ ”عاقب“ نام کا ایک شخص تھا، جس کے ہاتھ میں مذہب کی باگ ڈور تھی اس کا نام ”ابو حارثہ“تھا،اور جو شخص ہر دل عزیز، محترم اور لوگوں کے نزدیک قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا اس کا نام ”ایہم“تھا۔

جب پورے عالم میںاسلام کی آواز گونجی تو عیسائی علماء جنھوں نے پیغمبر کے بارے میں جو بشارتیں توریت اور انجیل میں پڑھ رکھی تھیں اس کے سلسلہ میں ہمیشہ ہی بہت حساس رہتے تھے جب انھوں نے اسلام کی آواز سنی تو تحقیق کرنا شروع کر دیا۔

نجران کے عیسائی عوام نے اپنے نمائندوں کے ساتھ ایک خصوصی گروہ بنا کر تین مرتبہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ اچھی طرح اور قریب سے ان کی نبوت کی تحقیقکرسکیں۔

ایک دفعہ یہ گروہ ہجرت سے پہلے مکہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ کیا اور دو دفعہ ہجرت کے بعد مدینہ میں آکر اس گروہ نے آپ سے مناظرہ کیا۔

ہم ان کے تینوں مناظروں کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔

۱۔علمائے نجران سے پہلا مناظرہ

نجران کے عیسائی علماء کا ایک گروہ مکہ کی طرف اس قصد سے روانہ ہو اکہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قریب سے دیکھے اور ان کی نبوت کے بارے میں تحقیق کرے ،یہ لوگ کعبہ کے نزدیک پہنچ کر پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور وہیں مناظرہ اور گفتگو شروع کر دی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی خوش اخلاقی سے ان کے سوالات سنے اور جواب دیئے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں جنھیں سن کر ان لوگوں کے دل بھر آئے، اور فرط مسرت سے ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور اپنی تحقیقات میں انھیں ایسی چیزیں معلوم ہوئیں جو توریت اور انجیل سے بالکل مطابق تھیں جب انھوں نے یہ تمام چیزیں پیغمبر کی ذات میں دیکھیں تو مسلمان ہوگئے۔( ۴۲ )

مشرکین بالخصوص ابو جہل اس مناظرہ سے بہت زیادہ ناراض ہوا اور جب نمائندہ نجران مناظرہ ختم کر کے واپس جانے لگے تو ابوجہل چند لوگوں کے ساتھ آیا اور راستے میں انھیں گالیاں دینے لگا اور کہنے لگا کہ ہم نے تم لوگوں جیسا پاگل اور دیوانہ آج تک نہیں دیکھا تم لوگوں نے اپنی قوم وملت کے ساتھ خیانت کی اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر اسلام کے گرویدہ ہو گئے ان لوگوں نے بڑے ہی نرم لہجہ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ہم سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ہم نے جو بھی کیا ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو۔( ۴۳ )

۲۔عیسائیوں کے اکابر علماء سے مناظرہ

دوسرا مناظرہ نجران کے عظیم سیاسی مذہبی راہنماوں سے مدینہ میں ہجرت کے نویں سال واقع ہوا جس کی نوبت مباہلہ تک پہنچ گئی اور وہ اس طرح ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو خطوط سر براہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن میں ایک خط آپ نے نجران کے پوپ ابو حارثہ کو بھی لکھا تھا جس میں آپ نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔

چار افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس خط کو لے کر نجران کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خط کو پوپ کی خدمت میں پیش کیا ،پوپ خط پڑھ کر بہت ناراض ہوا اور غصہ میں آکر اسے پھاڑ دالا اور آپ کے ان نامہ بروں کا کوئی احترام نہیں کیااور یہ ارادہ کیا کہ اس خط کے سلسلہ میں نجران کے پڑھے لکھے لوگ غور وفکر کریں ،نجران کے پڑھے لکھے اور مقدس لوگ جیسے شرحبیل، عبدا للہ بن جبّار بن فیض غور وفکر اور مشورہ کے لئے بلائے گئے۔

ان تینوں افراد نے کہا: ”چونکہ یہ بات نبوت سے متعلق ہے اس لئے ہم اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی نظریہ نہیں دے سکتے ہیں“۔پوپ نے اس مسئلہ کو نجران کے عوام کے سامنے پیش کیا،ان کی رائے لینے پر بھی یہی نتیجہ نکلا کہ ہماری قوم کی طرف سے کچھ ہو شمند اور علم وعقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدینہ میں محمد بن عبد اللہ کے پا س جائیں اور ان سے اس سلسلہ میں بحث ومناظرہ کریں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے۔

اس سلسلہ میں بحث وگفتگو بہت زیادہ ہوئی( ۴۴ ) لیکن آخر میں یہ طے پایا کہ نجران کے ساٹھ افراد جن میں سے چودہ عظیم علماء منجملہ عاقب ابو حارثہ اور ایہم بھی تھے مناظرے کے لئے مدینہ جائیں۔

ساٹھ آدمیوںپر مشتمل یہ قافلہ پیغمبر سے مناظرہ کے لئے مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔

بیشک کسی بھی مذہب کے بارے میں بحث ومناظرہ جو بغیر دھوکا دھڑی اور فریب کے ہو اور اس میں منطقی بحث ہو تو بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ بحث ومناظرہ کو سازش اور فریب کا رنگ دے کر عوام کو دھوکا دے تو یقینا ایسے بحث و مناظرہ کو شدت سے روکنا چاہئے۔

نجران کے نمائندوں نے جان بوجھ کر بہت ہی زرق و برق لبا س زیب تن کیا اور بہت سے زیور پہنے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف جذب کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔( ۴۵ )

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی ہو شیاری سے ان کے اس فعل کی طرف توجہ کی اور ان کے اس فریب کو ناکارہ بنا نے کے لئے ایک طریقہ اپنایا کہ جب علمائے نجران پیغمبر کی خدمت میں اس زرق وبرق لباس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان سے کوئی بات کی ،پیغمبر کی اتباع میں وہاں بیٹھے ہوئے مسلمانوں نے بھی ان سے کسی طرح کی کوئی بات نہیں کی۔

علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور عبد الرحمن اور عثمان سے پہلے کی جان پہچان کی بنا پر بے توجہی کا سبب معلوم کیا تو یہ لوگ انھیں حضرت علی علیہ السلام کے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علی علیہ السلام نے علمائے نجران سے فرمایا: ”تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبر کی خدمت میں عام لوگوں کی طرح جاو انشاء اللہ ضرور تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گے۔

علمائے نجران نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اس حکم کا اتباع کیا اور کامیاب ہو ئے۔

مناظرہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ بحث وگفتگو میں ہر طرح کی آزادی ہو اور مناظرہ کی فضا بھی ہموار ہو،پیغمبر مسجد میں پنجگانہ نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے اور تمام مسلمان آپ کے گرد جمع ہوجاتے تھے ،عیسائی گروہ مسلمانوں کے اس طرح کے اجتماع سے بہت ہی حیران تھا لیکن تمام عیسائی اپنے عقیدے کے مطابق ایک گوشے میں مشرق(بیت المقدس )کی طرف رخ کر کے نماز ادا کیا کرنے لگے،بعض مسلمانوں نے چاہا کہ ان کی اس آزادی میں مانع ہوں لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو روک دیا۔

ہمیں اس مختصر سی بات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی علماء مدینہ میں بالکل آزاد تھے اور ان پر کسی بھی طرح کی قید وبندش نہیں تھی اورنہ ہی وہ کسی کے تحت تھے۔

نتیجہ میں تین روز گزر جانے پر نماز جماعت کے بعد مسجد ہی میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا۔

علمائے نجران کے ۶۰/ افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیٹھ گئے اور بحث ومناظرہ کو سننے کے لئے تھوڑے فاصلہ پر مسلمان بھی بیٹھ گئے، قابل توجہ بات یہ تھی کہ چند یہودیوں نے بھی مسیحیوں اور مسلمانوں سے بحث کرنے کے لئے اس جلسہ میں شرکت کی تھی۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے محبت اور خلوص سے ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی اور آئے ہوئے علمائے نجران کو توحید واسلام کی دعوت دی اور فرمایا: ”آوہم سب مل کر وحدہ ٘ لا شریک کی عبادت کریں تاکہ ہم سب کے سب ایک زمرہ میں آجائیں اور خدا کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاریں اس کے بعد آپ نے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرمائیں۔

پوپ: ”اگر اسلام کا مطلب خدا پر ایمان رکھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے تو ہم تم سے پہلے ہی مسلمان ہیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”حقیقی اسلام کی چند علامتیں ہیں اور تین چیزیں ہمارے درمیان ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تم لوگ اہل اسلام نہیں ہو،پہلی یہ کہ تم صلیب کی پوجا کرتے ہو،دوسری یہ کہ تم سور کے گوشت کو حلال جانتے ہو ،تیسری یہ کہ تم اس بات کے معتقد ہو کہ خدا صاحب اولاد ہے۔

علمائے نجران: ”ہمارے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح خدا ہیں کیونکہ انھوں نے مردوں کو زندہ کیا ہے اور لا علاج بیماروں کو شفا بخشی ہے حضرت مسیح نے مٹی سے پرندہ بنایا اس میںروح پھونکی اور وہ اڑ گیا وغیرہ وغیرہ اس طرح کے ان کے تمام کام ان کی خدائی پر دلالت کرتے ہیں“۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم : ”نہیں ایسانہیں ہے کوئی بھی ایسا کام خدائی پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ وہ خدا کے ایک بندہ ہی ہیں، جنھیں خداوندمتعال نے جناب مریم علیہ السلام کے رحم میں رکھا اور اس طرح کے تمام معجزات ا نہیں عنایت فرمائے۔وہ کھانا کھاتے تھے پانی پیتے تھے ان کے گوشت ،ہڈی اور کھال تھی اور اس طرح جو بھی ہوگا وہ خدا نہیں ہو سکتا ہے“۔

ایک نمائندہ: ”حضرت مسیح خدا کے بیٹے ہیں کیونکہ ان کی ماں جناب مریم علیہ السلام نے بغیر کسی سے شادی کئے انھیں جنم دیا، یہی ہماری دلیل ہے کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا ان کا باپ ہے“۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وحی الٰہی سورہ آل عمران آیت ۶۱ کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا: ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال آدم جیسی ہے جس طرح خداوند متعال نے جناب آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے خاک سے پیدا کیا اسی طرح جناب عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور اگر باپ کا نہ ہونا خدا کے بیٹے ہونے پر دلیل بن سکتا ہے تو جناب آدم کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے کہ کیونکہ ان کے باپ اور ماں دونوں نہیں تھے“۔

علمائے نجران نے جب یہ دیکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وہ حضرات جو ریاست دنیا کے چکر میں اسلام لانا نہیں چاہتے تھے انھوں نے مناظرہ کو ختم کر دیا اور کہنے گلے اس طرح کے جوابات ہمیں مطمئن نہیں کر رہے ہیں لہٰذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تیار ہیں یعنی دونوں طرف کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز ونیاز کریں اور جھوٹوں پر لعنت کریں تاکہ خدا جھوٹوں کو ہلاک کردے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ آل عمران کی ۶۱ آیت کے نازل ہونے پر انکی اس بات کو قبول کر لیا۔

تمام مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع ہو گئی اور جہاں دیکھئے وہیں لوگ بیٹھ کر چہ می گوئیاں کرنے لگے کہ دیکھئے مباہلہ میں کیا ہوتا ہے؟ لوگ بڑی بے صبری سے مباہلہ کا انتظار کررہے تھے کہ بڑے انتظار کے بعد ۲۴ ذی الحجة کا دن آہی گیا، علمائے نجران اپنے خاص جلسہ میں نفسیاتی طور پر یہ طے کر چکے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثیر تعداد میں لوگ آئیں تو بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ان کے ساتھ مباہلہ کے لئے تیار ہو جانا ، کیونکہ اس صورت میں کوئی حقیقت نہیں ہے اس لئے کہ وہ لوگوں کو جمع کرکے دنیاوی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، لیکن اگر یہ دیکھو کہ پیغمبر اپنے چند خاص افراد کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے ہوئے ہیں تو ہر گز مباہلہ نہ کرنا کیونکہ نتیجہ بہت ہی خطرناک نکلے گا۔

علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجیل و توریت پڑھ کر خدا کی بارگاہ میں راز ونیاز کرکے مباہلہ کے لئے تیار ہو گئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کرنے لگے۔

اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چار افراد یعنی اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا اور اپنے داماد علی علیہ السلام اور اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ تشریف لارہے ہیں، شرحبیل (عیسائیوں کا ایک عظیم اور بڑا عالم )نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم !میں وہ صورتیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے چاہیں کہ پہاڑ اپنی جگہ ہٹ جائے تو یقینا وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ان سے ڈرو اور مباہلہ نہ کرو،اگر آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے مباہلہ کروگے تو نجران کا ایک بھی عیسائی اس روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا خدا کے لئے میری بات ضرور مان لو چاہے بعد میںکچھ ماننا یا نہ ماننا۔

شرحبیل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں میں عجیب اضطرابی کیفیت پیدا کر دی اور انھوں نے اپنے ایک آدمی کو پیغمبر کی خدمت میں بھیج کر ترک مباہلہ کی در خواست کی اور صلح کی التماس کی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے کرم اور رحمت خداوند سے ان کی اس گزارش کو قبول کیا اور صلح نامہ لکھا گیا جو چار نکات پر مشتمل تھا:

۱ ۔اہل نجران کی یہ ذمہ داری ہے(تمام اسلامی ممالک کی امنیت کے سلسلہ میں)کہ وہ ہر سال دو ہزار جوڑے کپڑے دو قسط میں مسلمانوں کو دیں۔

۲ ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے نمائندہ نجران میں ایک ماہ یا ایک ماہ سے زیادہ مہمان کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔

۳ ۔جب بھی کبھی یمن میں اسلام کے خلاف کوئی سازش بلند ہو تو اہل نجران کے لئے واجب ہے کہ وہ ۳۰ ڈھال ۳۰ گھوڑے اور ۱۳۰ اونٹ عاریہ کے طور پر حکومت اسلامی کی حفاظت کے لئے دیں۔

۴ ۔اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔

علماء نجران کی اس کمیٹی نے صلح نامہ کے تمام شرائط کو قبول کر لیا اور وہ لوگ شکست خوردہ حالت میں مدینہ سے نجران کی طرف روانہ ہوئے( ۴۶ ) ،ضمناً یہ بھی بتاتے چلیں کہ اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی عظمت ومنزلت کے لئے آیہ مباہلہ زندہ ثبوت ہے۔

۳۔ علمائے نجران کے تیسرے گروہ سے مناظرہ

نجران کے عیسائیوں کا تیسرا گروہ جو قبیلہ بنی الحارث سے تعلق رکھتا تھا اس نے نجران میں تحقیق کر کے اسلام قبول کر لیا تھا بعض ان کی نمائندگی کرنے کے لئے خالدبن ولید کے ساتھ مدینہ آئے اور پیغمبر کی خدمت میں مشرف ہو کر اظہار اسلام کیا اور کہا کہ ہم شکر ادا کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے آپ کے ذریعہ ہم لوگوں کو ہدایت کی۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا: ”تم لوگ کیسے اپنے دشمنوں پر غالب ہوئے؟“

انھوں نے کہا: ”اول یہ کہ ہم لوگوں میں کسی طرح کاکوئی تفرقہ واختلاف نہیں تھا دوسرے یہ کہ ہم نے کسی پر ظلم کی ابتداء نہیں کی“۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”صدقتم “تم نے سچ کہا“۔( ۴۷ )

نتیجہ یہ ہے:

جیسا کہ پہلے بھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ نجران کے پہلے اور تیسرے گروہوں نے اسلام کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کی اور اس کے بعداسلام کو قبول کر لیا لیکن دوسرا گروہ وہ تھا جس کی مباہلہ کی نوبت پہنچ گئی اور آخر کار انھوں نے مباہلہ ترک کرنے کی خواہش کی انھوں نے بھی اسلام کے قوانین کے سلسلہ میں تحقیق کی اور اس کی حقانیت کو سمجھ گئے لیکن انھوںنے اپنے پہلے گروہ کی روش اختیار نہ کی اور مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ظاہر ًاسلام قبول نہیں کیا۔

۱ ۔پوپ نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کا خط پھاڑ ڈالا یہ اس کی ریاست طلبی اور تعصب کی دلیل تھی جو حق قبول کرنے میں مانع ہوا۔

۲ ۔وہ مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوئے کیونکہ اگر وہ اسلام اور محمد کی حقانیت کے سلسلے میں تحقیق نہ کی ہوتی تو مباہلہ کے ترک کرنے کی درخواست ہرگز نہ کرتے۔یہ خود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسلام اور محمد کے مکتب کے بارے میں اچھی خاصی تحقیق رکھتے تھے اور اس کی حقانیت کو سمجھ چکے تھے۔

۳ ۔تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ نجران کے نمائندے جب مدینہ سے واپس جارہے تھے تو ایک نمائندہ نے راستہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا بھلا کہا تو ابو حارثہ (پوپ)نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ پیغمبر کو کہیں بُرا بھلا کہتے ہیں؟یہی بات اس کا باعث ہوئی کہ اس شخص نے مدینہ واپس آکر اسلام قبول کر لیا۔

تاریخ کا یہ رخ بھی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ علمائے نجران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صداقت کو سمجھ گئے تھے۔

۴ ۔نجران کے علماء جب واپس پہنچے تو لوگوں کو اپنی روداد سنائی،ان کی روداد سن کر نجران کا ایک راہب اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے عبادت خانہ سے چیخ کر کہا: ”اے لوگو!جلدی آو اور مجھے نیچے لے چلو ورنہ میں ابھی اپنے آپ کو نیچے گرا کر اپنی زندگی تمام کر لوں گا“۔

لوگ اسے سہار ا دے کر عبادت خانہ سے نیچے لے آئے وہ دوڑا ہوا مدینہ کی طرف آیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہ کر اس نے کچھ مدت تک علمی استفادہ کیا اور قرآنی آیتیں سنیں ،کچھ دنوں بعد وہ نجران واپس گیا،واپس جاتے وقت وہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم سے یہ وعدہ کر کے گیا تھا کہ جب مدینہ دوبارہ آئے گا تو اسلام قبول کر لے گا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔( ۴۸ )

غرض تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک حقیقت اسلام ثابت ہو چکی تھی اور وہ اچھی خاصی تحقیق بھی کر چکے تھے لیکن چند چیزیں جیسے ریاست طلبی، دنیا داری اور اہل نجران سے خوف وغیرہ ان کے اسلام قبول کرنے میں رکاوٹ بن رہیں تھیں۔

۸۔ معاویہ سے حضرت علی علیہ السلام کا تحریری مناظرہ

معاویہ بن ابو سفیان نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں جنگ صفین کی آگ بھڑکانے کے بعد ایک خط لکھا جس میں اس نے چار چیزوںکو عنوان قرار دیا:

۱) سر زمین شام میرے قبضہ میں دے دی جائے تاکہ اس کی رہبری خود میرے ذمہ ہو۔

۲) جنگ صفین جاری رکھنا عرب کی خونریزی اور نابودی کا سبب بن سکتا ہے لہٰذا اسے ختم کر دیا جائے۔

۳) ہم دونوں جنگ میں برابر ہیں ،دونوں طرف مسلمانوں ہیں اور دونوں طرف اسلامی شخصیات موجود ہیں۔

۴) ہم دونوں عبد مناف (پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پردادا) کے بیٹے ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں رکھتے لہٰذا ابھی وقت باقی ہے کہ ہم لوگ اپنی گزشتہ باتوں پر پشیمان ہوں اور آئندہ کی اصلاح کریں۔( ۴۹ )

امام علی علیہ السلام نے اس کی ہربات کا بہترین جواب دیا اور لکھا:

۱) تونے جو کہا ہے کہ سر زمین شام تیرے قبضے میں دے دی جائے ،تو تجھے یہ جاننا چاہئے کہ کل جس چیز کے لئے میں نے تجھے منع کیا تھا آج تجھے ہر گز اسے نہیں دے سکتا (حکومت الٰہی کے لئے آج اور کل میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آج وہ فاسد وں کے ہاتھوں میں پہنچ جائے۔)

۲) اور تونے جو یہ لکھا ہے کہ جنگ عرب کی نابودی کا سبب بنے گی تو تجھے یہ جاننا چاہئے کہ جو بھی اس جنگ میں حق کی طرف سے قتل ہوا ہے اس کی جگہ بہشت ہے اور اگر باطل کا طرفدار تھا تو جہنم کی آگ میںجھلسے گا۔

۳) اور تیرایہ دعویٰ کہ جنگ میں ہم دونوں برابر ہیں تو ایسا نہیں ہے کیونکہ تو شک میں ہے ہمارے یقین کے درجہ تک نہیںپہنچااور اہل شام اہل عراق سے زیادہ آخرت کی خاطر کوشاں نہیں رہتے ہیں۔

۴) جو تونے یہ کہا کہ ہم سب عبد مناف کے بیٹے ہیں بیشک ایسا ہی ہے لیکن امیہ ،جو تیرا دادا ہے اور اس کے بھائی ہاشم جو میرے دادا ہیںبرابر نہیں ہو سکتے، تیرا دادا حرب میرے جد عبد المطلب کی طرح نہیں ہے اور تیرا باپ ابو سفیان میرے باپ ابو طالب کی طرح نہیں ہے،مہاجرین کبھی اسراء (وہ کفار جنھیں فتح مکہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آزاد کیا تھا)کی مانند نہیں ہو سکتے ،اپنے باپ کا صحیح النسب فرزند اور کسی کی نسل سے منسوب حرام زادہ کی طرح نہیں ہو سکتا اور نہ حق پرست اور باطل پرست ،مومن اور فاسق کو ایک زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے کتنے بد تر ہیں وہ لوگ جو جہنم کی آگ میں جلنے والے اپنے آباء اجداد کی اطاعت کرتے ہیں!

تجھے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مقام نبوت کی برتری اور افتخار ہمارے اختیار میں ہے جس کے ذریعہ ہم نے عزیزوں کو ذلیل اور ذلیلوں کو عزیز بنادیا اور جس وقت لوگ جوق در جوق اسلام کے گرویدہ ہو رہے تھے اور اسلام قبول کر نے میں ایک دوسرے سے پر سبقت لے جارہے تھے اس وقت بھی تم نے سب کے بعد دنیا کی لالچ میں یا خوف کی وجہ سے اسلام قبول کیا (بس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے تم کسی بھی طرح کی فضیلت اسلام لانے کے سلسلہ میں نہیں رکھتے ہو)(لہٰذا تجھے ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں تیرے اندر شیطان نفوذ نہ کر جائے۔( ۵۰ )

۹۔ علی علیہ السلام کااپنے حق کے دفاع میں ایک مناظرہ

خلافت عثمان کے زمانہ میںمہاجرین اور انصار کا ایک گروہ مسجد نبوی میں جمع ہوا جن کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی اور وہیں ٹولیوں میں تقسیم ہو کر ان لوگوں نے آپس میں گفتگو اور مناظرہ کیا۔

بعض لوگ علم و تقویٰ کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے کہتے تھے کہ قریش تمام دوسرے لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی فضیلت کے سلسلہ میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا تھا:

الائمة من قریش ،ائمہ قریش سے ہیں“۔

یا دوسری جگہ فرمایا:

الناس تبع لقریش وقریش ائمة العرب

”لوگ قریش کے پیروہیں اور قریش عرب کے امام ہیں“۔

اس طرح ہر گروہ اپنی اپنی صاحب افتخار شخصیتوں کو شمار کرنے لگا ،مہاجرین میں علی علیہ السلام سعد وقاص عبد الرحمن عوف ،طلحہ وزبیر، مقداد ، ہاشم بن عتبہ، عبد اللہ بن عمر،حسن وحسین علیہم السلام اور عمر بن ابوبکر عبد اللہ بن جعفر جیسے لوگ تھے۔

اور انصار میں ابی بن کعب ،زید بن ثابت ،ابو ایوب انصاری ،قیس بن سعد،جابر بن عبد اللہ انصاری انس بن مالک جیسے لوگ تھے یہ گفتگو اور مناظرہ صبح سے لے کر دو پہر تک اسی حالت میں ہوتا رہا، عثمان اپنے گھر میں تھے جب کہ علی علیہ السلام اور ان کے متعلقین سب کے سب خاموش بیٹھے تھے۔

اسی دوران کچھ لوگ امام علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا: ”آپ کیوں نہیں کچھ بول رہے ہیں؟“

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”تم دونوں گروہوں نے اپنی اپنی عظمت بیان کی (اور رہبری کے لئے اپنی شائستگی کے متعلق باتیں کی)لیکن میں دونوں گروہ سے یہ پوچھتاہوں کہ تم لوگوں کو خدا وند متعال نے یہ فضیلت اور برتری کس کی وجہ سے عطا کی ہے؟“مہاجرین اور انصار نے کہا: ”یہ تمام امتیازات و فضیلتیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور ان کے خاندان کی وجہ سے ہمیں حاصل ہوئی ہیں“، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: ”سچ کہا،آیا تم یہ نہیں جانتے کہ اس دنیا اور آخر ت کی تمام سعادتیں تمہیں ہمارے خاندان نبوت کی بدولت ملی ہیں اور میرے چچازاد بھائی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: ”میں اور میرا خاندان جناب آدم علیہ السلام کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے نور کی شکل میں خداوند عالم کی بار گاہ میں موجود تھا پھر خداوندمتعال اس نور کو ایک نسل کے بعد دوسری آنے والی نسل کے صلب اور پاک رحم میں منتقل ہوتا رہا جس میں ذرہ برابر بھی نجاست نہیں پائی جاتی ہے۔

اس کے بعد مولائے کائنات علی علیہ السلام نے اپنے فضائل کا ایک ٹکڑا بیان کیا اور لوگوں سے قسم دے کر پوچھا کہ کیا ایسا نہیں ہے؟تمام لوگوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ رسول اسلام نے آپ کے بارے میں یہ چیزیں بیان فرمائیں ہیں۔

منجملہ یہ بھی فرمایا: ”تم لوگوں کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے بھی پیغمبر کی زبان سے میری خلافت کے بارے میں سنا ہے وہ اٹھ کر گواہی دے“۔

اسی وقت سلمان ،ابوذر،مقداد، عمار ،زید بن ارقم، براء بن عازب جیسے لوگوں نے اٹھ کر کہا:

”ہم لوگ گواہی دیتے ہیں ہمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس روزکی بات آج بھی یاد ہے کہ جب رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتشریف رکھتے تھے اور آپ منبر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ آنحضرت نے فرمایا: ”خدا وند متعال نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ علی میرے ،وصی ،جانشین اور میرے بعد میرے تمام کاموں کے ذمہ دار ہیں اور خداوند متعال نے ان کی اطاعت تمام مومنوں پر واجب قرار دی ہے ،اے لوگو! یہ میرا بھائی علی میرے بعد تمہارا امام مولا اور راہنما ہے:

وهو فیکم بمنزلتي فیکم فقلدوه دینکم واطیعوه فی جمیع امورکم “۔( ۵۱ )

”تمہارے درمیان جو مقام ومنزلت میرا ہے وہی علی کا بھی ہے تم دین خدا میں ان کی پیروی کرو اور اپنے تمام امور میں انھیں کی اطاعت کرو“۔

اس طرح مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے لوگوں کے درمیان اپنی امامت کو ثابت کیا اور اتمام حجت کر دیا۔

____________________

(۲۸) عبد اللہ کانام ”حُصین “تھا، یہودی ا س کا بڑا احترام کرتے تھے، اسلام لانے کے بعد آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم نے اس کا نام عبد اللہ رکھا دیا تھا۔

(۲۹) اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد اللہ ضدی ،سرکش،خود خواہ اور نفسانی خواہشات کا اسیر نہیں تھا بلکہ حق پسند وحق طلب تھا اسی وجہ سے وہ یقینی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا،حق طلبی کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان آزاد فکر اور ہر طرح کے تعصب سے دور ہو۔

(۳۰) بعض مفسروں نے ان آیتوں کی شان نزول کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عبد اللہ بن صوریا کے بارے میں نازل ہوئی ہےں لیکن اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ عبد اللہ بن سلام نے اس طرح کی بحث نہ کی ہوگی ۔

(۳۱) جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس کا نام حُصین تھا ۔

(۳۲) نا سخ التواریخ ج۱،ص ۳۹،سیرة ابن ہشام ج۱، ص۵۱۶اور احتجاج طبرسی ج۱۔

(۳۳) سورہ بقرہ، آیت ۱۳۹ ۔

(۳۴) ”وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاٴَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ إِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ “ (سورہ بقرہ، آیت ۱۱۵)

(۳۵) قبلہ کی تبدیلی میں چند مصلحتیں تھیں منجملہ:

۱۔عرب کے قبیلےکعبہ کو پسند کرتے تھے لہٰذا وہ اس کی وجہ سے اسلام کی طرف راغب ہوئے۔

۲۔کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حکم سے بنایاتھا حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریبا ًتمام مذاہب میں محترم تھے لہٰذا تمام مذاہب اسلام کی طرف مائل ہوئے ۔

۳۔یہودیوں کا اعتراض کہ مسلمانوں کا الگ قبلہ نہیں ہے بلکہ وہ ہمارے قبلہ ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں اس تبدیلی سے بر طرف ہوگیا۔

۴۔مکہ مسلمانوں کے لئے نزدیک تھا اس کو قبلہ بنانا اس بات کا سبب بنا کہ مسلمان کعبہ اور مکہ کو بت پرستوں سے پاک کریں اور اپنے قبلہ کو اسلام کے پرچم تلے لے آئیں۔

۵۔اس تبدیلی سے پیغمبر کا احترام بھی مقصود تھا کیونکہ مکہ آپ کی جائے پیدائش تھا۔

۶۔ایک مقصد مومن اور غیر مومن کی شناخت تھا جیسا کہ آپ اس مناظرہ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں گے ۔

(۳۶) یہ حکم یہودیوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا تھا جیسا کہ منصف مزاج یہودی مائل ہوئے ۔

(۳۷) بحار الا انوار ، نیا ایڈیشن،ج۹،۳۰۳ ،تفسیر نمونہ ،ج۱،ص۲۵۶، ناسخ التواریخ ہجرت ، ج۱، ص۹۲،احتجاج طبرسی ج۱ ، ص۴۴ وغیرہ سے اقتباس ۔یہاں پر یہ بات بھی یادرہے کہ سمت قبلہ کی تبدیلی ایک طرح کی آزمائش تھی تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ تمام مسلمان اسلامی قوانین کے پوری طرح پابند ہیں یا نہیں؟ اوریہ بات بھی واضح ہے کہ خصوصاً ایسے مقامات پر منافقین غیر محسوس طریقہ اور نادانستگی کے عالم میں اپنے آپ کو پہچنوا دیتے ہیں ،ایسے ہی مواقع پر مومنین اور کمزور ایمان والے اشخاص کے درمیان ممتاز ہو جاتے ہیں اور ان کی شناخت نہایت آسان ہو جاتی ہے۔

(۳۸) بحار الانوار ، نیا ایڈیشن،ج۹،ص۲۸۲۔

(۳۹) بعض مورخین نے ان منافقوں کی تعداد ۱۲ بتائی ہے جن میں سے ۸ قریش کے اور ۴ مدینہ کے تھے۔

(۴۰) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مناظرہ میں بھی اس وجہ سے کہ قدرت طلب منافقین رہبری کے مسئلہ پر اعتراض کر رہے تھے اور ان کا سارا ہم و غم رہبری اور امامت کو نقصان پہنچا نا تھا لہٰذا آنحضرت نے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی یہاں تک کہ فرشتوں کے سجدہ کو جو رہبری اور شائستہ انسانوں کو خداکی جانشینی کے بارے میں تھا آنحضرت نے ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھا دیا تاکہ ولایت واسلامی رہبری کے مسئلے کو اپنی ہوا ہوس کا بازار قرار نہیں نہ دے سکیں۔

(۴۱) احتجاج طبرسی ج۱ص۹۵ سیرہ ابن ہشام ج۳ ص۵۲۷ سے اقتباس۔

(۴۲) سورہ مائدہ کی ۸۳ ویں آیت ۔

(۴۳) سیرہ حلبی ج۱،ص۳۸۳۔

(۴۴) یہ مفصل گفتگو بحار الانوار ج۲۱ص۲۷۶پر ذکر ہوئی ہے۔

(۴۵) حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس حرکت کا توڑ کر لیا تھا لیکن پھر بھی بعض ضعیف الاعتقاد لوگ متاثر ہو ئے بغیر نہ رہ سکے ،یہ لوگ حسرت سے کہتے تھے کہ اے کاش! ہم لوگ بھی ان عیسائیوں کی طرح مالدار ہوتے،یہاں تک کہ اس بارے میں سورہ آل عمران کی ۱۵ ویں آیت نازل ہوئی جس میں ارشاد ہوتا ہے: ”(اے پیغمبر !)کہہ دو کہ کیا میں تم کو ایسی چیز کا پتہ بتاوں جو اس مادی سرمایہ سے بہتر ہوان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک دوسرے جہان میں ایسے باغ ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں رواں ہیں وہ اس میں ہمیشہ اپنی پاکیزہ بیویوں کے ساتھ رہیں گے۔

(۴۶) (۴۶) بحار الانوار ج۲۱،ص۳۱۹۔سیرہ ابن ہشام ج۲،ص۱۷۵، فتوح البدان ص ۱۷۶ اور اقبال ابن طاووس ص۴۹۶۔

(۴۷) البدایہ ،ج۵،ص۹۸۔

(۴۸) البدایہ ،ج۵،ص۵۵۔

(۴۹) کتاب الصفین، مولفہ ابن مزاحم، ص۴۶۸ تا ۴۷۱سے اقتباس۔

(۵۰) نہج البلاغہ ، مکتوب نمبر ۱۷ سے اقتباس۔

(۵۱) الغدیر ،ج۱،ص۱۶۳ سے ۱۶۶ تک کا خلاصہ ،فرائد السمطین ،باب ۷۸،سمط اول۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18