۲۶۔امام علی رضا علیہ السلام کا ابو قرة سے مناظرہ
ابو قرة(اسقف اعظم کے دوستوں میں تھا)امام علی رضا علیہ السلام کے زمانہ کے خبر پردازوں میں تھا۔
امام علی رضا علیہ السلام کے ایک شاگرد صفوان بن یحییٰ کہتے ہیں کہ ابو قرة نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اسے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں لے جاوں۔
میں نے امام علی رضا علیہ السلام سے اجازت لی ،آپ نے اجازت دے دی۔ابو قرة نے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ کر احکام دین ،حلال وحرام کے سلسلے میں چند سوالات کئے۔یہ سوال طول پکڑتے پکڑتے مسئلہ توحید تک پہنچ گیا جس کے بارے میں ابو قرة نے اس طرح سوال کیا:
مجھ سے کچھ لوگوں نے روایت کی ہے کہ خداوند عالم نے اپنا دیدار اور اپنی بات چیت کو دو پیغمبروں کے درمیان تقسیم کر رکھا ہے (یعنی خد ا وند عالم نے دو پیغمبروں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ایک سےگفتگو کرے اور دوسرے کو اپنا کو دیدار کرائے )۔لہٰذا اس نے ہم کلام ہونے کا مرتبہ جناب موسیٰ علیہ السلام کو دیا اور اپنے دیدار کا رتبہ اور منزلت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو عطا فرمایا: ”اس بنا پر خدا ایک ایسا وجود رکھتا ہے جسے دیکھا جا سکتا ہے“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اگر اس طرح ہوتو جس پیغمبر نے جن وانس کو یہ بتا یا ہے کہ آنکھیں خدا کو دیکھ نہیں سکتی ہیں اور اپنی مخلوقات کے سلسلے میں جو اسے آگاہی ہے اس کا احاطہ کرنا اور اس کی ذات کو سمجھنا کسی کے بس میں نہیں ہے وہ اپنا شبیہ اور مثل نہیں رکھتا ہے وہ کون پیغمبر تھا؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی نے اس طرح نہیں فرمایاہے؟
ابو قرة: ”ہاں انھوں نے ایسا ہی فرمایا“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ جولوگوں کے لئے خدا کی طرف سے آیا ہواور لوگوں کو دعوت حق دے اور لوگوں سے کہے کہ یہ آنکھیں اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ خداکو دیکھ سکیں ،اس کا کوئی شبیہ نہیں اور اس کے بعد خود ہی پیغمبر یہ کہے کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے خدا کو دیکھا ہے اور اس کے احاطہ علمی کو درک کیا ہے کیاوہ انسان کی طرح دیکھا جا سکتا ہے کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی ؟ “
بے دین اور ٹیڑھے دل والے افراد بھی اس طرح کی کوئی نسبت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں دے سکے کہ پہلے انھوں نے اس طرح فرمایا اور اس کے اس بر عکس کہنے لگے۔
ابو قرة: ”خدا وند متعال خود قرآن مجید کے سورہ نجم (آیت ۱۳ ) میں فرماتا ہے:
”(
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً اٴُخْرَی
)
“
”اور سول خدا نے خدا کو دوبارہ دیکھا“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اسی جگہ سورہ نجم کی ۱۱ ویں آیت بھی ہے جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو دیکھا ہے اسے بیان کیا ہے۔
”(
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٴَی
)
“
”ان کے دل نے جو کچھ دیکھا اسے کبھی نہیں جھٹلایا“۔
اور اسی سورہ میں آیت نمبر ۱۸ میں خدا وند متعال نے اس چیز کا بھی پتہ بتا دیا جسے پیغمبر اکرم نے دیکھا ہے:
”(
لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الْکُبْرَی
)
“
”اس نے اپنے پروردگار کی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں“۔
پس وہ نشانیاں جنھیں رسول نے دیکھی وہ ذات خدا کے علاوہ کوئی اور چیز ہے۔
اس طرح خدا وند عالم (سورہ طہ کی ۱۱۰ ویں آیت میں )ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَلاَیُحِیطُونَ بِهِ عِلْمًا
)
“
”وہ خدا وند عالم سے آگاہی نہیں رکھتے“۔
اس بنا پر اگر آنکھیں خدا کو دیکھ سکتی ہیں اور سمجھ سکتی ہیں تو اس کے آگاہی اور علم کا احاطہ بھی کر سکتی ہیں (جب کہ مذکورہ آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے علم وآگاہی کا احاطہ نا ممکن ہے )
ابو قرة: ”توتم ان روایتوں کی تکذیب کر رہے ہو جن میں یہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم نے خدا کو دیکھا ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”اگر روایتیں قرآن کے مخالف ہوں گی تو میں ان کی تکذیب کروں گا اور تمام مسلمان جس رائے پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ نہ اس کے علم وآگاہی کا کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ ہی آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہے وہ کسی بھی چیز سے شباہت نہیں رکھتا“۔
نیز صفوان کہتے ہیں: امام علی رضا علیہ السلام سے ملنے کی اجازت کے لئے ابو قرة نے مجھے واسطہ قرار دیا اور اجازت ملنے کے بعدوہ وہاں پہنچ کر اول چند سوال حرام اور حلال کے سلسلے میں دریافت کئے یہاں تک کہ ابو قرة نے پوچھا: آیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ خدا محمول ہے؟“
امام علی رضا علیہ السلام: ”محمول اس کو کہتے ہیں کہ جس پر کوئی فعل حمل ہو ا ہواور اس حمل کی نسبت کسی دوسرے کی طرف دی گئی ہو اور محمول ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی نقص اور دوسرے کے سہارے کے ہوتے ہیں جسے نسبت کہا جاتا ہے مثلاًتم کہتے ہو زیر ،زبر،اوپر نیچے جس میں زبر اور اوپر کا لفظ قابل تعریف اور اچھا سمجھا جاتا ہے اور زیر اور نچے کا لفظ ناقص سمجھا جاتا ہے اور یہ مناسب نہیں ہے کہ خداوند متعال قابل تغیر ہو۔خدا خود حامل یعنی تمام چیزوں کی نگہداشت کرنے والاہے اور لفظ محمول بغیر کسی کے سہارے کے کوئی معنی ومفہوم نہیں رکھتا (اس بنا پر اس کے لئے لفظ محمول مناسب نہیں ہے) اور جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی عظمت کاقائل ہے، اس لئے تم نے کبھی یہ نہ سنا ہوگا کہ اللہ سے دعاکرتے وقت اسے ”اے محمول“کہہ کر پکارا جائے! “
ابو قرة: ”خدا وند متعال قرآن کریم (سورہ حاقہ ، آیت ۱۷) میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَهُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَةٌ
)
“
”اور اس دن آٹھ لوگ تمہارے پروردگار کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے“۔
اور اسی طرح (سورہ غافر کی ساتویں آیت میں)فرماتا ہے:
”(
الَّذِینَ یَحْمِلُونَ الْعَرْشَ
)
“
”جوعرش اٹھاتے ہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”عرش ،خدا کانام نہیں ہے بلکہ عرش علم اور قدرت کا نام ہے اور ایک ایسا عرش ہے کہ جس کے درمیان تمام چیزیں پائی جاتی ہیں اس کے بعد خدا وند متعال نے حمل اور عرش کی نسبت اپنے فرشتوں کی طرف دی ہے۔
ابو قرة: ”ایک روایت میں آیا ہے کہ جب بھی خداوند متعال غضبناک ہوتا ہے تو فرشتے اس کے غصہ کے وزن کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرتے ہیں اور سجدہ میں گرجاتے ہیں جب خداکا غصہ ختم ہوجاتا ہے تو ان کے کاندھے ہلکے ہو جاتے ہیں اور اپنی عام حالت میں واپس آجاتے ہیں۔کیا آپ اس روایت کی بھی تکذیب کریں گے؟ “
امام علی رضا علیہ السلام نے اس روایت کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ”اے ابو قرة! تو یہ بتا کہ جب خدا وند عالم نے شیطان پر لعنت کی اور اپنے دربار سے نکالا تب سے لے کر آج تک کیا خدا شیطان سے خوش ہوا ہے ؟(ہرگز اس سے خوش نہیں ہوا)بلکہ ہمیشہ شیطان اور اس کے چاہنے والے اور اس کی پیروی کرنے والوں پر غضبناک ہی رہا ہے (اس طرح تیرے قول کے مطابق اس وقت سے لے کر آج تک تمام فرشتوں کو سجدہ کی حالت میں رہنا چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے اس سے ثابت ہوگیا کہ عرش خدا کانام نہیں ہے )
پس تو اس وقت کس طرح یہ جرائت کرتا ہے کہ اپنے پروردگار کو تغیر و تبدل جیسے صفتوں سے یاد کرے اور اسے مخلوق کی طرح مختلف حالات سے متصف کرے۔وہ ان تمام چیزوں سے پاک و پاکیزہ ہے اس کی ذات غیر قابل تغیرو تبدل ہے ،دنیا کی تمام چیزیں اس کے قبضے میں ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔
۲۷۔ ایک منکر خدا سے امام علی رضا علیہ السلام کا مناظرہ
امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک منکرخداآیا،آپ نے اس سے فرمایا:
”اگر تو حق پر ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے)تو اس صوت میں ہم اور تم دونوں برابر ہیں اور نماز، روزہ،حج،زکات اور ہمارا ایمان ہمیں کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر ہم حق پر ہیں(جب کہ ایسا ہی ہے ) تو اس صورت میں ہم کامیاب ہیں اور تو گھاٹے میں ہے اور اس طرح تو ہلاکت میں ہوگا“۔
منکر خدا: ”مجھے یہ سمجھائیں کہ خدا کیا ہے ؟کہاں ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ” وائے ہو تجھ پرکہ تو جس راستے پر چل رہا ہے وہ غلط ہے ،خدا کو کیفیتوں (وہ کیسا ہے اور کیسا نہیں ہے) سے متصف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسی نے اشیاء میں کیف و کیفیت کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی اسے مکان سے نسبت دی جا سکتی ہے کیونکہ اسی نے حقیقت مکان کو وجود بخشا ہے۔اسی بنا پر خدا وند متعال کو کیفیت اور مکان سے نہیں پہچاناجاسکتا اور نہ ہی وہ حواس سے محسوس کیاجا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کی شبیہ ہو سکتا ہے۔
منکر خدا: ”اگر خدا وند متعال کسی بھی حسی قوت سے در ک نہیں کیا جا سکتا ہے تو وہ کوئی وجود نہیں ہے“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”وائے ہو تجھ پر تیری حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہوں تو اس کا انکار کر دے گا لیکن میں جب کہ میری بھی حسی قوتیں اسے درک کرنے سے عاجز ہیں ،اس پر ایمان رکھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ ہمارا پروردگار ہے اور وہ کسی کی شبیہ نہیں ہے“۔
منکر خدا: ”مجھے یہ بتائیں کہ خدا کب سے ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”تو یہ بتا کہ خدا کب نہیں تھا تاکہ میں تجھے یہ بتاوں کے کہ خدا کب سے ہے ؟ “
منکر خدا: ”خدا کے وجود پرکیا دلیل ہے ؟ “
امام علی رضا علیہ السلام: ”میں جب اپنے پیکر کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اس کے طول وعرض میں کسی طرح کی کوئی کمی و بیشی نہیں کر سکتا اس سے اس کا نقصان دور نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے فوائد اس تک پہنچا سکتا ہوں، اسی بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ اس پیکر کا کوئی بنانے والا ہے اور اسی وجہ سے میں نے وجود صانع کا اقرار کیا۔اس کے علاوہ بادل بنانا، ہواوں کا چلانا ،آفتاب اور ماہتاب کو حرکت دینا، اس بات کی نشانی ہے کہ ان کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ضرور ہے۔
۲۸۔مشیت اور ارادہ کے معنی کے سلسلہ میں ایک مناظرہ
یونس بن عبدالرحمن ،امام علی رضا علیہ السلام کے شاگرد تھے، ان کے زمانہ میں ”قضا وقدر‘کی بڑی گرما گرم بحثیں ہو اکرتی تھیں لہٰذ یونس نے سوچا اس کے متعلق خود امام علی رضا علیہ السلام کی زبانی کچھ سننا چاہئے، یہ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور قضاو قدر کی بحث کے متعلق گفتگو کرنے لگے امام علی رضاعلیہ السلام نے فرمایا:
اے یونس ! قدر یہ کا عقیدہ قبول نہ کرو کیونکہ ان کا عقیدہ نہ تو دوزخیوں سے ملتا ہے اور نہ ہی شیطان سے اورنہ ۔۔۔۔
یونس: ”خدا کی قسم مجھے اس سلسلے میں قدریہ کا عقیدہ قبول نہیں ہے، بلکہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا کے حکم اور ارداہ کے بغیر کوئی چیز وجود میں آتی ہی نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”اے یونس ! ایسانہیں ہے، بلکہ خدا کی مشیت یہ ہے کہ انسان بھی اپنے امور میں مختار رہے، کیا تم مشیت خدا کا مطلب جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”مشیت خدا،لوح محفوظ ہے۔کیا تم ارادہ کے مطلب جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”ارادہ یعنی وہ جو چاہے وہ ہو جائے۔کیا تم قدر کے معنی جانتے ہو؟ “
یونس: ”نہیں“۔
امام علی رضا علیہ السلام: ”قدر یعنی اندازہ،تخمینہ اور احاطہ ہے جیسے مدت حیات اورموت کا علم، اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”قضا کا مطلب ہے مضبوط بنانا اور عینی وواقعی قراردینا“۔
یونس ،امام علی رضا علیہ السلام کی اس توضیح سے مطمئن اور خوش حال ہو کر چلنے کو تیار ہوگئے، انھوں نے امام کے سر اقدس کو بوسہ لیتے ہوئے آپ سے چلنے کی اجازت چاہی اور کہا: ”آپ نے میری وہ مشکل حل کر دی جن کے متعلق میں غفلت میں تھا۔
۲۹۔ امام علی نقی (ع) کی فضیلت میں مامون کا بنی عباس سے مناظرہ
شیخ مفید علیہ الرحمة کتاب ”ارشاد“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ عباسی دور کا ساتواں خلیفہ مامون رشید ،امام علی نقی علیہ السلام پر فریفتہ ہو گیا تھا کیونکہ اس نے امام کے علم و فضل اور کمال کا مشاہدہ ان کےبچپن میں ہی کر لیا تھا۔اس نے دیکھا کہ جو علم وکمال امام کی ذات میں پائے جاتے ہیں وہ اس دور کے بڑے بڑے علماء اور دانشوروں میں دکھائی نہیں پڑتے۔
انھیں کمالات کی بنا پر مامون نے اپنی لڑکی (ام فضل)کی شادی آپ سے کر دی اور مامون نے امام کو بڑی شان وشوکت سے مدینہ کی طرف روانہ کیا۔حسن بن محمد سلیمانی ،ریان بن شبیب سے روایت کرتے ہیں کہ جب مامون نے چاہا کہ اپنی بیٹی ام فضل کی شادی امام علی نقی علیہ السلام سے کرے اور یہ بات بنی عباس کے کانوں تک پہنچی تو انھیں یہ بات بہت گراں محسوس ہوئی اور وہ مامون کے اس ارادہ سے بہت ناراض ہوئے انھیں اس بات کا خوف لاحق ہوگیا کہ ولیعہدی کا منصب کہیں بنی ہاشم کے ہاتھوں میں نہ چلا جائے۔
اسی وجہ سے بنی عباس کے تمام افراد نے ایک جگہ جمع ہوکر مامون سے کہا: ”اے امیر المومنین! ہم لوگ تجھے خدا کی قسم دیتے ہیں کہ تونے جو ام الفضل کی شادی امام علی نقی علیہ السلام سے کرنے کا ارادہ کیا ہے اسے ترک کردے ورنہ اس چیز کا امکان پایا جاتا ہے کہ خداوند متعال نے جو ہمیں منصب و تخت و تاج عنایت فرمایا ہے،وہ ہمارے ہاتھ سے چلا جائے اور جو مقام ومنزلت اور عزت و حشمت کا لباس ہمارے تن پر ہے وہ اتر جائے کیونکہ خاندان بنی ہاشم سے ہمارے آباء اجداد کی دشمنی سے تو اچھی طرح واقف ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ تمام خلفاء نے انھیں شہر بدر کیا اور انھیں ہمیشہ جھوٹا سمجھتے رہے اس کے علاوہ تونے جو حرکت امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ کی تھی اس سے ہمیں بہت تشویش ہوئی تھی لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچالیاتجھے خدا کی قسم ہے کہ تو اپنے اس عمل میں ذرا غور وفکر کر جس نے ہمارے دلوں میں تکلیف پیدا کر دی ہے، تو اس ارادہ سے باز آجا اور ام فضل کا رشتہ خاندان بنی عباس کے کسی مناسب فرد سے کردے۔
مامون نے بنی عباس کے اعتراض کے جواب میں کیا: ”تمہارے اور ابو طالب کے بیٹوں کے درمیان کینہ پروری اور دشمنی کی وجہ خود تم لوگ ہو !!اگر انھیں انصاف سے ان کا حق دے دو تو اس منصب خلافت کے وہی حقدار ہوتے ہیں لیکن جیسا تم نے بیان کیا کہ ہمارے گزشتہ خلفاء نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیامیں ایسے کاموں سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں خدا کی قسم جو بھی میں نے امام علی رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے لئے کیا تھا اس پر میں ذرا بھی پشیمان نہیں ہوں۔میں نے تو یہی چاہاتھا کہ وہ خلافت کے امور کو سنبھال لیں مگر خود انھوں نے ہی اسے قبول نہیں کیا اس کے بعد خدا نے کیا کیا یہ تم لوگوں نے خود یکھا۔لیکن جس کی وجہ سے میں نے امام جواد کو اپنا داماد بنانا چاہا ہے وہ ان کا بچپن کا علم وفضل ہے وہ تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہیں اور ان کی عقل کی بلندی اس عمر میں بھی تعجب خیز ہے، میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میری نظروں نے جو دیکھا ہے اس کا تم لوگوں نے بھی مشاہدہ کیا ہے اور بہت جلد ہی تمہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ میں نے جس راستہ کا انتخاب کیا ہے وہی درست ہے“۔
ان لوگوں نے مامون کے جواب میں کہا: ”بیشک اس کم عمر نوجوان کی رفتار و کردار نے تجھے تعجب میں ڈال دیا ہے اور اس طرح اس نے تجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے لیکن جو بھی ہو وہ ابھی بچہ ہے اس کا علم و ادراک ابھی کم ہے اسے کچھ دن چھوڑ دے تاکہ وہ با عقل اور علم دین میں فقیہہو جائے اس کے بعد جو تیرا دل چاہے کرنا“۔
مامون نے کہا: ”تم لوگوں پر وائے ہو ،میں اس جوان کو تم سے زیادہ جانتاہوں اور اسے بہت اچھی طرح سے پہچانتا ہوں،یہ جوان اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جوخدا کی طرف سے علم لے کر آتا ہے اور اس کا علم لامحدود ہے کیونکہ اس کے علم کا تعلق امام سے ہوتا ہے اس کے تمام آباواجداد علم دین میں تمام لوگوں سے بے نیاز تھے اور دوسرے لوگ ان کے کمال کے سامنے بے حیثیت تھے اور ان کی ڈیوڑھی پر علم وکمال کے حصول کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے تھے اگر تم میری باتوں کی تصدیق کرنا چاہتے ہو تو ان کا امتحان لے لو تاکہ تمہارے نزدیک بھی ان کا فضل وکمال واضح ہو جائے“۔
ان لوگوں نے کہا: ”یہ اچھا مشورہ ہے اور اس بات پر ہم خوش بھی ہیں کہ اس بچہ کی آزمائش ہوجائے اب تو ہمیں اس بات کی اجازت دے کہ ہم کسی ایسے شخص کو لے آئیں جو اس نوجوان سے مسائل شرعیہ کے بارے میں بحث ومناظرہ کر سکے وہ چند سوالات کرے گا اگر انھوں نے اس کے سوالات کے صحیح جواب دیئے تو ہم تجھے اس کا م سے ہر گز نہیں روکیں گے اور اس طرح تجھ پر اپنے پرائے کا فرق بھی واضح ہو جائے گا اور اگر یہ نوجوان جواب دینے سے قاصر رہا تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہمارا یہ مشورہ مستقبل کے لئے کتنا مفید ہے“۔
مامون نے کہا: ”جہاں بھی تم چاہوان کا امتحان لے سکتے ہو میری طرف سے یہ اجازت ہے“۔
وہ لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اور بعد میں سب نے مل کر یہ پیش کش کر دی کہ مشہور زمانہ عالم اور قاضی یحییٰ بن اکثم کو امام کے مقابل لایاجائے۔
امام محمد تقی علیہ السلام میدان علم و دانش کے مجاہد
وہ سارے اعترض کرنے والے یحییٰ بن اکثم کے پاس گئے اور اسے ڈھیروں دولت کا لالچ دے کر امام علیہ السلام سے مناظرہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔
ادھر کچھ لوگ مامون کے پاس تاریخ معین کرنے پہنچ گئے ،مامون نے تاریخ معین کر دی،معین دن اس دور کے بڑے بڑے علماء یحییٰ بن اکثم کے ساتھ موجود تھے ،مامون کے حکم کے مطابق امام محمد تقی علیہ السلام کے لئے مسند بچھائی گئی اور تھوڑی دیر بعد امام علیہ السلام تشریف لے آئے (اس وقت آپ کی عمر محض نو سال تھی)مامون کی مسند بھی آپ کے بالکل قریب بچھی ہوئی تھی وہ اس پر آکر بیٹھ گیا اور دوسروں کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔یحییٰ بن اکثم نے مامون کی طرف رخ کر کے کہا: ”اے امیر المومنین ! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں ابو جعفر سے سوال کروں؟“
مامون: ”خود ان سے اجازت لو“۔
یحییٰ بن اکثم نے آپ کی طرف مڑکر کہا: ”میں آپ پر قربان ہو جاوں کیا مجھے سوال کرنے کی اجازت ہے ؟ “
امام محمد تقی علیہ السلام: ”پوچھو“۔
یحییٰ: ”اس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے حالت احرام میں شکار کیا ہو“۔
امام محمد تقی علیہ السلام: ”آیا حرم میں قتل کیا ہے یاحرم سے باہر ؟وہ مسئلہ اور حکم سے آگاہ تھا ہی نہیں؟جان بوجھ کر شکار کیا یابھول کر ؟پہلی دفعہ تھا یا اس سے پہلے بھی چند دفعہ ایسا کر چکا تھا؟وہ شکار پرندہ تھا یا اس کے علاوہ کچھ اور ؟وہ شکار چھوٹا تھا یا بڑا اور ساتھ ساتھ اس کام میں وہ بے باک تھا یا پشیمان ؟دن میں تھا یا رات میں؟احرام عمرہ میں تھایا احرام حج میں؟(ان بائیس ( ۲۲) قسموں میں سے کون سی قسم تھی کیونکہ ان سب کا حکم الگ الگ ہے )
یحییٰ ان سوالات کے سامنے حیرت زدہ ہو گیا اور اس کی بے بسی اور لاچاری کی کیفیت چہرہ سے ظاہرہونے لگی،اس کی زبان لکنت کرنے لگی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر تمام لوگوں نے امام محمد تقی علیہ السلام کے سامنے اسے بے بس اور لاچار سمجھ لیا۔
مامون نے کہا: ”خدا وند عالم کی اس نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں کہ جو میں نے سوچ رکھا تھا وہی ہوا، اس کے بعد اس نے تمام خاندان کے افراد کی طرف رخ کر کے کہا: ”تم لوگوں نے دیکھا“۔اس کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کا نکاح مامون کی بیٹی سے ہو گیا۔
۳۰۔ عراقی فلسفی کی حالت متغیر کردینے والا ایک مناظرہ
اسحاقِ کندی جو کافر تھا، عراق کا بہت بڑا عالم اور فلسفی مانا جاتا تھا ،اس نے قرآن کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ بعض آیتیں بعض کے خلاف ہیں تو اس نے ایک ایسی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا جس میں تناقض قرآن کوجمع کردیا گیا ہو،اس نے یہ کام شروع کردیا۔
اس کا ایک شاگرد امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے اس سے فرمایا: ”کیا تمہارے درمیان کوئی عاقل و باشعور شخص نہیں ہے جو اسحق کو اس کے اس کام سے باز رکھے؟“
شاگرد نے کہا: ”میں اس کا شاگرد ہوں، اسے اس کام سے کیسے باز رکھ سکتا ہوں“۔
امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ”میں تمہیں ایک ایسی بات بتاتا ہوں جسے تم اسحاق کندی سے کہنا ،تم اس کے پاس جاو اور چند دن تک اس کے اس کام میں اس کی مدد کرتے رہو جب وہ تمہیں اپنا قریبی دوست سمجھ لے اور تم سے مانوس ہو جائے تو اس سے کہو کہ میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں وہ کہے گا ”پوچھو“۔تو تم اس سے کہنا: ”اگر قرآن کا بھیجنے والا تمہارے پاس آئے اور آکر کہے کہ جس آیت کے معنی تم نے مراد لئے ہیں ، آیا اس کے معنی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتے ؟“، اسحاق کندی کہے گا“، ہاں ،یہ امکان پایا جاتا ہے“۔تب تم اس سے کہنا کہ تمہیں کیا معلوم؟! ہوسکتا ہے کہ اس آیت سے جو معنی تم نے سمجھے ہیں خدا نے اس کے علاوہ کوئی دوسرے معنی مراد لئے ہوں“۔
شاگرد اسحاق کندی کے پاس پہنچا اور کچھ دن تک اس کی کتاب کی تالیف میں اس کی مدد کرتا رہا یہاں تک کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے حکم کے مطابق اس نے اسحاق کندی سے کہا: ”آیا اس بات کا امکان ہے کہ خداوند متعال نے اس معنی کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب مراد لیا ہو جو تم نے سمجھا ہے؟“۔
استاد نے کہا: ”ہاں ممکن ہے کہ خداوند متعال نے ظاہری معنی سے ہٹ کر کوئی اور معنی مراد لئے ہوں“۔
اس کے بعد اس نے شاگرد سے کہا: ”یہ بات تجھے کس نے بتائی ؟ “
شاگرد نے کہا: ”یوں ہی میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا“۔
اس نے کہا: ”یہ بہت ہی معیاری اور پائے کا کلام ہے،ابھی تووہاں تک نہیں پہنچ سکا ہے سچ بتا یہ کس کاکلام ہے ؟ “
شاگرد نے کہا: حضرت امام صادق علیہ السلام کا۔
اسحاق کندی نے کہا: ”ہاں تونے صحیح کہا، اس طرح کی باتیں اس خاندان اہل بیت علیہ السلام کے علاوہ کہیں اور کوئی فرد نہیں کہہ سکتا“۔
اس کے بعد اسحاق کندی نے آگ منگواکر وہ ساری چیزیں جلاڈالیں جو اس نے تناقض قرآن کے متعلق لکھی تھیں۔
____________________
(۲۱) سورہ نجم، آیت ۱۸۔