دوسرا حصہ:
اکابر علمائے اسلام کے مختلف گروہوں کے ساتھ مناظرے
۳۱۔سبط ابن جوزی سے ایک ہوشیار عورت کا مناظرہ
سبط ابن جوزی اہل سنت کے ایک بہت ہی مشہور ومعروف عالم تھے ،اس نے بہت ہی اہم کتابیں بھی لکھی ہیں یہ بغداد کی مسجدوں میں وعظ کیا کرتے تھے اور لوگوں کی تبلیغ کرتے تھے ۱۲ رمضان المبارک ۵۹۸ ھ کو ان کی وفات ہوئی۔
حضرت علی علیہ السلام کی مشہور فضیلتوں میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ اکثر بھرے مجمع میں ” سلونی قبل ان تفقدونی“کہا کرتے تھے۔اس طرح کی باتیں آپ اور دوسرے معصوم ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہیں ان کے علاوہ جس نے بھی اس کا دعویٰ کیا وہ ذلیل ہوا،اب آپ ایک باہمت عورت کا سبط ابن جوزی کے ساتھ مناظرہ ملاحظہ فرمائیں:
سبط ابن جوزی نے بھی ایک دن منبر پر جانے کے بعد دعوائے سلونی کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ اے لوگو! تمہیں جو کچھ بھی پوچھنا ہے پوچھ قبل اس کے میں تمہارے درمیان نہ رہوں، منبر کے نیچے بہت سے شیعہ سنی مرد اور عورت بیٹھے ہوئے تھے۔یہ سنتے ہی ان میں سے ایک عورت کھڑی ہوئی اور اس نے سبط ابن جوزی سے اس طرح سوال کیا۔
تم مجھے یہ بتاوکہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ جب عثمان کو قتل کر دیا گیا تو ان کا جنازہ تین دن تک پڑا رہا اور کوئی بھی انھیں دفن کرنے نہ آیا؟
سبط: ”ہاں ایسا ہی ہے ۔“
عورت: ”کیا یہ بھی صحیح ہے کہ جب جناب سلمان علیہ الرحمة نے مدائن میں وفات پائی تو حضرت علی علیہ السلام مدینہ (یا کوفہ) سے مدائن گئے اور آپ نے ان کی تجہیز وتکفین میں شرکت کی اور ان کی نماز جناز ہ پڑھائی ؟“
سبط: ”ہاں صحیح ہے“۔
”لیکن علی علیہ السلام عثمان کی وفات کے بعد ان کے جنازے پر کیوں نہیں گئے جب کہ وہ خود مدینہ میں موجود تھے اس طرح دوہی صورت رہ جاتی ہے یا توحضرت علی علیہ السلام نے غلطی کی کہ ایک مومن کی لاش تین دن تک پڑی رہی اور آپ گھر ہی میں بیٹھے رہے یا پھر عثمان غیر مومن تھے جس کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تجہیز وتکفین میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیا اور اپنے عمل کو اپنے لئے درست سمجھا۔”یہاں تک کہ انھیں تین روز بعد مخفی طور پر قبرستان بقیع کے پیچھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کیاگیا جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ میں یہ ذکر کیا ہے (ج ۹ ،ص ۱۴۳ ۔)
ابن جوزی اس عورت کے اس سوال کے آگے بے بس ہو گیا کیونکہ اس نے دیکھا کہ اگر دونوں میں سے کسی ایک کو بھی خطا کار ٹھہرا ئے گا تو یہ بات خلاف عقیدہ ہوجائے گی کیونکہ اس کے نزدیک دونوں خلیفہ حق پر تھے لہٰذا اس نے اس عورت کو مخاطب کر تے ہوئے کہا:
اے عورت !وائے ہوتجھ پر،اگر تو اپنے شوہر کی اجازت سے گھر کے باہر آئی کہ نامحرموں کے درمیان مناظرہ کررہی ہے، تو خدا تیرے شوہر پر لعنت کرے اور اگر بغیر اجاز ت آئی ہے تو خدا تجھ پر لعنت کرے“۔
اس ہو شمند عورت نے بڑی بے باکی سے جواب دیا:
”آیا عایشہ جنگ جمل میں مولائے کائنا ت علی ابن ابی طالب سے لڑنے اپنے شوہر رسول اکرم کی اجازت سے آئیں تھیں یا بغیر اجازت کے ؟“
یہ سوال سن کر سبط ابن جوزی کے رہے سہے ہوش بھی جاتے رہے اور وہ بوکھلا گیا کیونکہ اگر وہ یہ کہے کہ عائشہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ہی آئی تھیں تو عائشہ خطاکار ہوں گی اور اگر یہ کہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت سے باہر آئیں تھیں تو علی علیہ السلام خطاکار ٹھہرتے تھے، یہ دونوں صورت حال اس کے اس عقیدہ کے خلاف تھیں، لہٰذا وہ نہایت بے بسی کے عالم میں منبر سے اتر ا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
۳۲۔ایک حملہ میں تین سوالوں کے جواب
بہلول بن عمرو کوفی امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم علیہما السلام کے زمانہ کے ایک زبردست عالم تھے انھوں نے ہارون کے سامنے پیش کئے جانے والے عہدہ قضاوت سے جان چھڑانے کے لئے خود کو دیوانہ بنا لیا تھا ، وہ مناظر ہ میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور مخالف کے الٹے سیدھے اعتراضوں کا بڑا عمدہ جواب دیاکرتے تھے، انھوں نے سن رکھا تھا کہ ابو حنیفہ نے اپنے ایک درس میں کہا کہ جعفر بن محمد (امام صادق علیہ السلام )نے تین باتیں کہیں ہیں، لیکن میں ان میں سے کسی بھی بات کو قابل قبول نہیں سمجھتا اوروہ تین باتیں یہ ہیں:
۱ ۔ شیطان جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود آگ ہے لہٰذاآگ اسے کیسے جلا سکتی ہے؟
۲ ۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا دکھائی نہیں دیتا۔جب کہ جو چیز بھی موجود ہے اسے دکھائی دینا چاہئے۔
۳ ۔ بندے جو کام انجام دیتے ہیں وہ اپنے اختیار وارادے سے انجام دیتے ہیں ان کی یہ بات بھی سراسر ان احادیث و روایات کے مخالف ہے جو اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ بندوں کے تمام کام خدا کی طرف منسوب ہیں اور اس کے حکم کے بغیر کوئی کام انجام نہیںپایا۔
ایک دن ابوحنیفہ بہلول کو نظر آگئے انھوں نے زمین سے ایک ڈھیلااٹھایا اور ان کی پیشانی پر مار دیا ابو حنیفہ نے ہارون سے بہلول کی شکایت کی اور ہارون نے بہلول کو بلوالیا اور ان کی سرزنش کرنے لگا تو آپ نے ابو حنیفہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا:
۱ ۔ تمہیں جو درد ہو رہا ہے دکھاو ورنہ اس عقیدہ کو غلط کہو جو تم یہ کہتے ہو کہ ہر موجود چیز کا دکھائی دینا ضروری ہے۔
۲ ۔ اسی طرح تمہارا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی چیز اپنی ہم جنس شئے کو نقصان نہیں پہنچاتی تو پھر تمہیں کیوں درد ہو رہا ہے جب کہ تم خود مٹی سے بنے ہوئے ہو(اور ڈھیلا بھی مٹی کا تھا)؟
۳ ۔ تم تو یہ کہتے ہو کہ بندوں کے سارے کام خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں تو پھر مجھ سے کیوں شکوہ کرتے ہو کیونکہ یہ ڈھیلا تو خدا نے مارا ہے۔
یہ سن کر ابو حنیفہ خاموشی سے اس بزم سے نکل گئے وہ سمجھ گئے کہ بہلول نے یہ ڈھیلا میرے اس عقیدہ کی وجہ سے مارا تھا۔
۳۳۔جناب بہلول کاوزیر کو بہترین جواب
ایک دن ہارون رشید کے درباری وزیر نے بہلول سے کہا: ”تم بڑے خوش نصیب ہو تمہیں خلیفہ نے سوروں اوربھیڑیوں کا سر پرست بنا دیا ہے“۔
بہلول نے بڑی بے باکی سے کہا: ”اب جب تو اس بات سے آگاہ ہوگیا ہے توآج سے تیرے اوپر میری اطاعت لازم ہوگئی ہے“۔بہلول کا یہ جواب سن کر وہ شرمندگی سے خاموش ہو گیا، اور وہاں پر موجود لوگ یہ سن کر ہنسنے لگے۔
۳۴۔جبر یہ کے ایک استاد سے شیعہ عالم کا مناظرہ
ایک دن اہل سنت کے ایک بزرگ عالم اور مذہب جبر کے استاد ضرار بن ضبی ہارون رشید کے وزیر یحییٰ بن خالد کے پاس آکر کہنے لگا “میں بحث و مناظرہ کرنا چاہتا ہوں تم کوئی ایسا آدمی لے آو جو مجھ سے بحث کر سکے۔“
یحییٰ: ”تم کسی شیعہ عالم سے بحث کروگے؟
ضرار: ”ہاں میں ہر ایک سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔“
یحییٰ نے ہشام بن حکم (امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد رشید)کو یہ پیغام بھیجا ،جناب ہشام مناظرہ کے لئے آگئے اور مناظرہ اس طرح شروع ہوا:
ہشام: ”امامت کے سلسلہ میں انسان کی ظاہری صلاحتیں معیار ہیں یا باطنی صلاحیتیں؟“
ضرار: ”ہم تو ظاہری پر ہی حکم لگاتے ہیں کیونکہ کسی کے باطن کو صرف ”وحی“کے ذریعہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔“
ہشام: ”تو نے سچ کہا۔اب یہ بتاو کہ ابو بکر اور حضرت علی علیہ السلام میں ظاہری اور باطنی اعتبار سے کون رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زیادہ ساتھ رہا ،کس نے اسلا م کا زیادہ دفاع کیا اور بڑی بہادری سے اسلام کی راہ میں جہاد کیا،اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کیا اور ان دونوں میں کون ہے جس کا تمام اسلامی فتوحات میں سب سے زیادہ اہم کرداررہا؟“
ضرار: ”علی علیہ السلام نے بہت جہادکیا اور اسلام کی بڑی خدمت کی لیکن ابو بکر معنوی لحاظ سے ان سے بلند تھے ۔“
ہشام: ”یہ تو باطن کی باتیں کیوں کرنے لگا جبکہ ابھی تونے یہ کہا کہ باطن کی باتیں صرف وحی کے ذریعہ معلوم ہو سکتی ہیں اور ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ہم صرف ظاہر کی باتیں کریں گے اور تونے اس اقرار سے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اسلامی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اس بات کا بھی اعتراف کر لیاکہ وہ اور دوسرے لوگوں کے مقابل خلافت کے زیادہ حقدار تھے۔“
ضرار: ”ہاں ظاہر اً تو یہی بات صحیح ہے ۔“
ہشام: ”اگر کسی کا نیک ظاہر ،نیک باطن جیسا ہو تو کیا یہ چیز اس کے افضل اور برتر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ۔“
ضرار: ”یقیناً یہ چیز انسان کے افضل وبرتر ہونے کی دلیل ہوگی۔“
ہشام: ”کیا تمہیں اس حدیث کے بارے میں معلوم ہے کہ جس کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ارشاد فرمائی اور جسے تمام اسلامی فرقوں نے قبول کیا ہے:
”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا لا نبی بعدی
“۔
”اے علی ! تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“
ضرار: ”میں اس حدیث کو قبول کرتا ہوں ۔“(اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ضرار نے کہا تھا کہ کسی کا باطن صرف وحی کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی تمام باتیں وحی الٰہی سے ہوا کرتی تھیں)۔
ہشام: ”کیا یہ صحیح ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی اس طرح کی تعریف اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی علیہ السلام باطنی طور پر بھی ایسی ہی صلاحیتیوں کے مالک تھے؟ ورنہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی تعریف غلط ہو جائے گی۔“
ضرار: ”ہاں یہ اس بات کی دلیل ہے۔یقینا ً حضرت علی علیہ السلام باطنی طور پر بھی ویسی ہی صلاحیتوں کے مالک رہے ہوں گے تب ہی تو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ان کی تعریف کی ۔“
ہشام: ”بس اب اس طرح خود تمہارے قول سے حضرت علی علیہ السلام کی امامت ثابت ہو گئی کیونکہ تم نے خود ہی کہا ہے کہ باطن کی اطلاع وحی کے ذریعہ ممکن ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے آپ کی تعریف کی ہے اور وہ بغیر وحی کے کسی کی تعریف نہیں کرسکتے لہٰذا حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام لوگوں کے مقابل زیادہ خلافت کے حقدار ہوئے۔
۳۵۔جناب فضال کا ابو حنیفہ سے دلچسپ مناظرہ
امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا زمانہ تھا ایک دن مسجد کو فہ میں ابو حنیفہ درس دے رہاتھااس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد ”فضال بن حسن “اپنے ایک د وست کے ساتھ ٹہلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابو حنیفہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ انھیں درس دے رہے ہیں، فضال نے اپنے دوست سے کہا: ”میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاوں گا جب تک ابو حنیفہ کو مذہب تشیع کی طرف راغب نہ کر لوں۔“
فضال اپنے اس دوست کے ساتھ اس جگہ پہنچے جہاں ابو حنیفہ بیٹھے درس دے رہے تھے، یہ بھی ان کے شاگرد وں کے پاس بیٹھ گئے۔تھوڑی دیرکے بعد فضال نے مناظرہ کے طور پر اس سے چند سوالات کئے۔
فضال: ”اے رہبر !میرا ایک بھائی ہے
جو مجھ سے بڑا ہے مگر وہ شیعہ ہے۔حضرت ابوبکر کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے میں جو بھی دلیل لے آتا ہوں وہ رد کردیتا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے چند ایسے دلائل بتادیں جن کے ذریعہ میں اس پر حضرت ابوبکر ،عمراور عثمان کی فضیلت ثابت کر کے اسے اس بات کا قائل کر دوں کہ یہ تینوں حضرت علی سے افضل وبر تر تھے ۔“
ابو حنیفہ: ”تم اپنے بھائی سے کہنا کہ وہ آخر کیوں حضرت علی کو حضرت ابو بکر ،عمر اور عثمان پر فضیلت دیتا ہے جب کہ یہ تینوں حضرات ہر جگہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت میں رہتے تھے اور آنحضرت ،حضرت علی علیہ السلام کو جنگ میں بھیج دیتے تھے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ان تینوں کو زیادہ چاہتے تھے اسی لئے ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے انھیں جنگ میں نہ بھیج کر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج دیا کرتے تھے ۔“
فضال: ”اتفاق سے یہی بات میں نے اپنے بھائی سے کہی تھی تو اس نے جواب دیا کہ قرآن کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام چونکہ جہاد میں شرکت کرتے تھے اس لئے وہ ان تینوں سے افضل ہوئے کیونکہ قرآن مجید میں خدا کاخود فرمان ہے:
”(
وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجَاهِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ اٴَجْرًا عَظِیمًا
)
“
”خدا وند عالم نے مجاہدوں کو بیٹھنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے“۔
ابو حنیفہ: ”اچھا ٹھیک ہے تم اپنے بھائی سے یہ کہو کہ وہ کیسے حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل وبرتر سمجھتا ہے جب کہ یہ دونوں آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میںدفن ہیںاورحضرت علی علیہ السلام کا مرقد رسول سے بہت دور ہے ۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میں دفن ہونا ایک بہت بڑا افتخار ہے یہی بات ان کے افضل اور بر تر ہونے کے لئے کافی ہے ۔“
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی اپنے بھائی سے یہی دلیل بیان کی تھی مگر اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ
)
“
”رسول کے گھر میں بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو“۔
یہ بات واضح ہے کہ رسو ل خدا کا گھر خود ان کی ملکیت تھا اس طرح وہ قبر بھی خود رسول خدا کی ملکیت تھی اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے انھیںا س طرح کی کوئی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ان کے ورثاء نے اس طرح کی کوئی اجازت دی۔“
ابو حنیفہ: ”اپنی بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول پر باقی تھا، ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل خدا کے گھر کا وہ حصہ اپنے باپ کو بخش دیا۔
فضال: ”اتفاق سے یہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی سے بیان کی تھی تو اس نے جواب میں کہا کہ خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرما تا ہے۔
”(
یَااٴَیُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَحْلَلْنَا لَکَ اٴَزْوَاجَکَ اللاَّتِی آتَیْتَ اٴُجُورَهُنّ
)
“
”اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حلال کیا ہے جن کی اجرتیں (مہر)تم نے ادا کر دی“۔
اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اپنی زندگی میں ہی ان کا مہر ادا کر دیا تھا“۔
ابو حنیفہ: ”اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بیویاں تھیں انھوں نے ارث کے طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وہ وہاں دفن ہوئے“۔
فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی یہ دلیل بیان کی تھی مگر میرے بھائی نے کہا کہ تم اہل سنت تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ پیغمبر وفات کے بعد کوئی چیز بطور وراثت نہیں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کردیا اور اس کے علاوہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہیں تب یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں۔
اور وہ بھی ارث کی حقدار تھیں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے گھرکا آٹھواں کاحصہ ان تمام بیویوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بیویو ں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو ہر بیوی کے حصے میں ایک بالشت زمین سے زیادہ نہیں کچھ نہیں آئے گا ایک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہیں“۔
ابو حنیفہ یہ بات سن کر حیران ہو گئے اور غصہ میں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے:
”اسے باہر نکالو یہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہیں ہے“۔
۳۶۔ایک شجاع عورت کا حجاج سے زبردست مناظرہ
عبد الملک ( اموی سلسلہ کا پانچواں خلیفہ)کی طرف سے تاریخ کا بد ترین مجرم حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر مقررکیا گیا تھا۔اس نے جناب کمیل ،قنبر ،سعید بن جبیرکو قتل کیا تھا کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے بہت بغض رکھتا تھا۔
اتفاق سے ایک دن ایک نہایت شجاع و دلیر عورت جسے حلیمہ سعدیہ کی بیٹی کہا جاتا تھا اور جس کانام حرہ تھا حجاج کے دربار میں آئی یہ حضرت علی علیہ السلام کی چاہنے والی تھی۔
حجاج اور حرہ کے درمیان ایک نہایت پر معنی اور زبردست مناظر ہ ہوا جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
حجاج: ”حرہ کیا تم حلیمہ سعدیہ کی بیٹی ہو؟
حرہ: ”یہ بے ایمان شخص کی ذہانت ہے (یہ اس بات کی طر ف اشارہ تھا کہ میں حرہ ہوں مگر تونے بے ایما ن ہوتے ہوئے مجھے پہچان کر اپنی ذہانت کا ثبوت دیا ہے )؟
حجاج: ”تجھے خدا نے یہاں لا کر میرے چنگل میں پھنسادیا ہے میں نے سنا ہے کہ تو علی کو ابوبکر و عمر وعثمان سے افضل سمجھتی ہے ؟“
حرہ: ”تجھ سے اس سلسلہ میں جھوٹ کہا گیا ہے کیونکہ ان تینوں کی کیا بات میں حضرت علی علیہ السلام کو جناب آدم،جناب نوح،جناب ابراہیم ،جناب موسیٰ ،جناب عیسیٰ ،جناب داود ،جناب سلیمان علیہم السلام سے افضل سمجھتی ہوں“۔
حجاج: ”تیرا برا ہو، تو علی کو تمام صحابہ سے بر تر جانتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انھیں آٹھ پیغمبروں سے جن میں سے بعض اولوالعزم بھی ہیں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس دعویٰ کو دلیل سے ثابت نہ کیا تو میں تیری گردن اڑاد وں گا۔“
حرہ: ”یہ میں نہیں کہتی کہ میں علی علیہ السلام کو ان پیغمبروں سے افضل وبر تر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود انھیں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجید جناب آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
”(
وَعَصیٰ آدمُ رَبَّهُ فَغَویٰ“
)
”اور آدم اپنے رب کی نافرمانی کا نتیجہ میں اس کی جزا سے محروم ہو گئے“۔
لیکن خدا وند متعال علی علیہ السلام ،ان کی زوجہ اور ان کے بیٹوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
”(
وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُورًا
)
“
”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔
حجاج: ”شاباش لیکن یہ بتا کہ تونے حضرت علی علیہ السلام کو نوح و لوط علیہما السلام پر کس دلیل کے ذریعہ فضیلت دی “۔
حرہ: ”خداوند متعال انھیں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
”(
ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَاٴَةَ نُوحٍ وَاِمْرَاٴَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْهُمَا مِنْ اللهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ
)
“
”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بیویوں کی مثالیں دی ہیں۔یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھیں مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی لہٰذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاو“۔
لیکن علی علیہ السلام کی زوجہ ،پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج: شاباش حرہ! لیکن یہ بتا تو کس دلیل کی بنا پر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت دیتی ہے؟
حرہ: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:
”(
رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِن قَلْبِي
)
“
”ابراہیم نے کہا پالنے والے! تو مجھے یہ دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تو خدا نے کہا کیا تمہارا اس پر ایمان نہیں ہے تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر میں اطمینان قلب چاہتا ہوں“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام ا س حد تک یقین کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمایا:
”لوکشف الغطا ء ماازددت یقینا
“۔
”اگر تمام پردے میرے سامنے سے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔“
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ۔“
حجاج: ”شاباش لیکن تو کس دلیل سے حضرت علی کو جناب موسیٰ کلیم اللہ پر فضیلت دیتے ہے؟“۔
حرہ: ”خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ
)
“
”وہ وہاں سے ڈرتے ہوئے (کسی بھی حادثہ کی)تو قع میں (مصر)سے باہر نکلے“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کسی سے نہیں ڈرے، شب ہجرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے سوئے اور خدا نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:
”(
وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ
)
“
”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیتے ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتا کہ داود علیہ السلام پر علی کو کس دلیل سے فضیلت حاصل ہے ؟“
حرہ: ”خداوند متعال جناب دادو علیہ السلام کے سلسلہ میں فرماتا ہے:
”(
یَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْهَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ
)
“
”اے دادو! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا یا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق سے فیصلے کرو اور اپنی خواہشات کو پیروی نہ کرو کہ اس طرح تم راہ خدا سے بھٹک جاو گے“۔
حجاج: ”جناب داود کی قضاوت کس سلسلے میں تھی؟”
حرہ: ”دو آدمیوں کے بارے میں کہ ان میں سے ایک بھیڑ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان، اس بھیڑ کے مالک کی بھیڑوں نے اس کے کھیت میں جاکر اس میں کھیتی چرلی، اور اس کی زراعت کو تباہ و برباد کردیا، یہ دونوں آدمی فیصلہ کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی شکایت سنائی، حضرت داؤد نے فرمایا: بھیڑکے مالک کو اپنی تمام بھیڑوں کو بیچ کر اس کا پیسہ کسان کو دے دینا چاہئے تاکہ وہ ان پیسوں سے کھیتی کرے اور اس کا کھیت پہلے کی طرح ہو جائے لیکن جناب سلیمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بھیڑوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے“۔
اس سلسلہ میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”ففہمنا سلیمان“
” ہم نے حکم (حقیقی) سلیمان کو سمجھا دیا“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”سلونی قبل ان تفقدونی
“۔
”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔
جنگ خیبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خد مت میں تشریف لے آئے تو آنحضرت نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
”اٴفضلکم و اٴعلمکم و اٴقضاکم علي
“۔
”تم میں سے افضل اور سب اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتاو کہ کس دلیل سے علی جناب سلیمان علیہ السلام سے افضل ہیں‘۔
( ۱) حرہ: ”قرآن میں جنا ب سلیمان کا یہ قول نقل ہوا ہے:
”(
رَبِّ اغْفِرْ لِی وَهَبْ لِی مُلْکاً لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی
)
“
” پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا کردے جو میرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام نے دنیا کو تین طلاق دی ہے جس کے بعد آیت نازل ہوئی:
”(
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ
)
“
”وہ آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار دیتے ہیں جو زمین پر بلندی اور فساد کو دوست نہیں رکھتے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے“۔
حجاج: ”شاباش اے حرہ اب یہ بتا کہ تو کیوں حضرت علی کو جنا ب عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر جانتی ہے؟“
حرہ: ”خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا:
”وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَهَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ # مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِهِ
“
”اور جب (روز قیامت) خدا کہے گا: اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دو، تو وہ کہیں گے تو پاک وپاکیزہ ہے میں کیسے ایسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان لیتا تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو عالم الغیب ہے میں نے ان سے صرف وہی کیا ہے جو تونے مجھے حکم دیا تھا“۔
اسی طرح جناب عیسی ٰ کی عباد ت کرنے والوں کا فیصلہ قیامت کے دن کے لئے ٹال دیا گیا مگر نصیروں نے حضرت علی علیہ السلام کی عبادت شروع کر دی تو آپ نے انھیں فوراً قتل کردیا اور ان کے عذاب و فیصلہ کو قیامت کے لئے نہیں چھوڑا ۔“
حجاج: ”اے حرہ! تو قابل تعریف ہے تو نے اپنے جواب میں نہایت اچھے دلائل پیش کئے اگر تو آج اپنے تمام دعووں میں سچی ثابت نہ ہوتی تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔“
اس کے بعد حجاج نے حرہ کو انعام دیکر باعزت رخصت کردیا۔
۳۷۔ ابو الہذیل سے ایک گمنام شخص کا عجیب مناظرہ
ابو الہذیل اہل سنت کا ایک بہت ہی مشہور ومعروف عراقی عالم کہتا ہے کہ میں ایک سفر کے دوران جب شہر ”رقہ“(شام کا ایک شہر)میں وارد ہوا تو وہاں میں نے سنا کہ ایک دیوانہ بہت ہی خوش گفتار شخص ”معبدز کی“ میں رہتا ہے۔
میں جب اس کے دیدار کے لئے معبد گیا تو میں نے وہاں ایک نہایت خوبصورت اور چھی قدو قامت کا ایک بوڑھا شخص بوریہ پر بیٹھا ہوا دیکھا جو اپنے بالوں اور ڈاڑھی میں کنگھی کر رہا تھا میں نے داخل ہوتے ہی اسے سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیا اس کے بعد ہمارے درمیان اس طرح گفتگو ہوئی۔
گمنام شخص: ”تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟
ابو الہذیل: ”عراق کا رہنے والا ہوں۔“
گمنام شخص: ”اچھا یعنی تم بہت ماہر ہو اور زندگی کے آداب واطوار سے بخوبی آشنا ہو ااچھا یہ بتاو کہ تم عراق کے کس علاقہ سے تعلق رکھتے ہو؟“۔
ابو الہذیل: ”بصرہ سے“۔
گمنام شخص: ”بس علم وعمل سے آشنا ہو، تمہار نام کیا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”مجھے ابو الہذیل علاف کہتے ہیں“۔
گمنام شخص: ”وہی جو بہت ہی مشہور کلامی ہے ؟“
ابو الہذیل: ”ہاں“۔
یہ سن کر اس نے ایک فرش کی طرف اشارہ کیا اور تھوڑی دیر بات چیت کرنے کے بعد اس نے مجھ سے سوال کیا: ”امامت کے بارے میں تیرا کیا نظریہ ہے؟“
ابو الہذیل: ”تیری مراد کون سی امامت ہے؟“
گمنام شخص: ”میری مرا د یہ ہے کہ تونے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ان کے جانشین کے طور پر کسے دوسرے لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے خلیفہ تسلیم کیا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”اسی کو جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ترجیح دی“۔
گمنام شخص: ”وہ کون ہے ؟“
ابو الہذیل: ”وہ ابو بکر ہیں“۔
گمنام شخص: ”تم نے انھیں کیوں مقدم جانا؟“
ابو الہذیل: ”کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے: ” لوگوں میں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسے اپنا رہبر سمجھو“۔تمام لوگ ابو بکر کو مقدم سمجھنے کے لئے راضی ہوئے ہیں“۔
گمنام شخص: ”اے ابو الہذیل ! یہاں تونے خطا کی ہے۔کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے: ”اپنے میں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسی کو اپنا رہبر جانو“، میرا اعتراض یہ ہے کہ خود ابو بکر نے منبر سے کہا: ”ولیتکم و لست بخیرکم،میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں“۔اگر لوگ ابو بکر کے جھوٹ کو بہتر سمجھتے ہیں اور انھیں اپنا رہبر بناتے ہیں تو گویا سب کے سب رسول اسلام کے قول کے مخالفت کر رہے ہیں اور اگر خود ابو بکر جھوٹ کہتے ہیں کہ ”میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں“، تو جھوٹ بولنے والے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ منبر رسول پر جائے اور تم نے جو یہ کہا تھا کہ ابو بکر کی رہبری پر سب راضی تھے تو یہ اس وقت درست ہوگا جب انصار ومہاجرین نے ایک دوسرے سے یہ نہ کہا ہوتا کہ “ایک امیر ہمارے قبیلے سے ایک تمہارے قبیلے سے“ لیکن مہاجرین کے درمیان زبیر نے کہا کہ میں علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کے ہا تھ پر بیعت نہیں کروں گا ان کی تلوار کو توڑ دیا گیا اور ابو سفیان نے حضرت علی علیہ السلام کے پا س آکر کہا ”اگر آپ علیہ السلام چاہیں تو مدینے کی گلیوں کو پیادہ اور سوار فوجیوں سے بھر دوں“۔جناب سلمان نے بھی باہر آکر کہا ”انھوں نے کیا اور نہیں بھی کیا انھیں معلوم ہی نہیں کہ کیا کیا“۔ ابوبکر کی بیعت کے سلسلہ میں خلاف اصول کام ہوا ،اسی طرح جناب مقداد اور ابوذر نے بھی اعتراض کیا ان سب سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ سب لوگ ابو بکر کی خلافت سے راضی نہیں تھے۔
اے ابو الہذیل! میں تجھ سے چند سوالات کرنا چاہتاہوں تو مجھے اس کا جواب دے“۔
۱ ۔مجھے بتا کیا یہ درست نہیں ہے کہ ابو بکر نے بالائے منبر یہ اعلان کیا:
”ان لي شیطاناً یعترینی، فاذا رائیتمونی مغبضاً فاحذرونی
“۔
”میرے لئے ایک شیطان ہے جو مجھے بہکادیا کرتا ہے لہٰذا میں غصہ میں رہا کروں تو مجھ سے دور ہو جایا کرو“۔
وہ در اصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ” میں پاگل ہوں“۔لہٰذا تم لوگوںنے آخر کیوں ایسے شخص کو اپنا رہبر معین کر لیا؟“
۲ ۔تویہ بتا کہ جو شخص اس بات کا معتقد ہو کہ رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم نے کسی کواپنا جانشین نہیں بنا یا مگر ابو بکر نے عمر کو اپنا جانشین معین کیا جب کہ اس کے بعد عمر نے اپنا جانشین کسی کو نہیں بنایا کیا اس کے اعتقاد میں ایک طرح کا تناقض نہیں پایا جاتا۔تیرے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
۳ ۔مجھے یہ بتا جب عمر نے اپنی خلافت کے بعد ایک شوریٰ تشکیل دی تو یہ کیوں کہا کہ یہ چھ کے چھ جنتی ہیں اور اگر ان میں سے دوافراد چار کی مخالفت کریں تو انھیں قتل کر دو اور اگر تین تین افراد آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف رہے اس گروہ کو قتل کردینا۔ ذرا یہ بتا کہ یہ کس طرح صحیح ہوگا اور کہاں کی دیانت داری ہوگی کہ اہل بہشت کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا جائے ؟
۴ ۔تو یہ بھی بتا دے کہ ابن عباس اور عمر کی ملاقات اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو تو کس کے عقیدہ کے مطابق سمجھتا ہے ؟
جب عمر بن خطاب زخمی ہونے کی وجہ سے بستر پر تھے اور عبد اللہ ابن عباس ان کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہ بستر پر تڑپ رہے ہیں ، ابن عباس نے پوچھا:کیوں تڑپ رہے ہو؟تو عمر نے کہا“۔میں اپنی تکلیف کی وجہ سے نہیں تڑپ رہا ہوں بلکہ اس لئے تڑپ رہا ہوں کہ میرے بعد رہبری نہ جانے کس کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس کے بعد ابن عباس اور عمر کے درمیان اس طرح گفتگو ہوئی۔
ابن عباس: ”طلحہ بن عبید اللہ کو لوگوں کا رہبر بنا دو“۔
عمر: ”وہ سخت مزاج ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بارے میں ایسا ہی فرمایا کرتے تھے ،میں اس طرح کے تند خو شخص کے ہاتھ میں رہبری کی مہار نہیں دینا چاہتا“۔
ابن عباس: زبیر بن عوام کو رہبر بنا دو“۔
عمر: وہ کنجوس آدمی ہے میں نے خود اسے دیکھا ہے وہ اپنی بیوی کی مزدوری جو اس کے اُون بننے کی تھی اس کے بارے میں بڑی سختی سے پیش آتا تھا، میں کنجوس کے ہاتھ میں رہبری نہیں دے سکتا“۔
ابن عباس: ”سعد وقاص کو رہبر بنادو“۔
عمر: ”وہ تیر و تلوار اور گھوڑوں سے کام رکھتا ہے، ایسے افراد رہبری کے لئے مناسب نہیں ہوتے“۔
ابن عباس: ”عبد الرحمن بن عوف کو کیوں نہیں رہبر بنا دیتے ؟“
عمر: ”وہ اپنے گھر کو تو چلا نہیں سکتا“۔
ابن عباس: ”اپنے بیٹے عبد اللہ کو بنا دو“۔
عمر: ”نہیں خدا کی قسم نہیں۔جو شخص اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا اس کے حوالہ میں یہ رہبری نہیں کر سکتا“۔
ابن عباس: ”عثما ن کو رہبر بنا دو“۔
عمر: ”خدا کی قسم (تین بار کہا)اگر میں عثمان کو رہبر بنا دوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے ”طائفہ معیط“(بنی امیہ کی ایک شق )کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کر دیا جس سے مجھے یہ بھی خطرہ ہے کہ لوگ کہیں عثمان کو قتل کر ڈالیں“۔
ابن عباس کہتے ہیں: ”اس کے بعد میں خاموش ہو گیا اور چونکہ حضرت علی علیہ السلام اور عمر کے درمیان عداوت تھی اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا لیکن عمر نے خود مجھ سے کہا: ”اے ابن عباس ! اپنے دوست کانام لو“۔
میں نے کہا: ”تو علی کو خلیفہ بنادو“۔
عمر: نے کہا: خدا کی قسم! میں صرف اس وجہ سے پریشان ہوں کہ میں نے حق کو حقدار سے چھین لیا ہے۔
”و الله لئن ولیته لیحملنهم علی المحجة العظمیٰ، و ان یطیعوا یدخلهم الجنة
“۔
خدا کی قسم! اگر میں علی علیہ السلام کو لوگوں کا رہبر بنا دوں تو وہ یقینا لوگوں کو شاہراہ حق وہدایت تک پہنچا دیں گے ، اور اگر لوگ ان کی پیروی کریں گے تو وہ انھیں جنت میں داخل کردیں گے“۔
عمر نے یہ سب کچھ کہا ، مگر پھر بھی اپنے بعد خلافت کے مسئلہ کو چھ نفری شوریٰ کے حوالہ کر دیا۔
ابو الہذیل کہتا ہے: ”جب وہ گمنام شخص یہاں تک پہنچا تو اس کی حالت غیر ہونے لگی اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ نظر آنے لگا، (تقیہ کی وجہ سے خود کو دیوانہ بنالیا)، اس کا پورا واقعہ میں نے ساتویں اموی خلیفہ مامون سے بیان کیا ، اس نے اس شخص کو بلوا کر اس کا علاج کر ایا اور اسے اپنا ندیم خاص قرار دیا ، اور وہ اس کی منطقی بات کی وجہ سے شیعہ ہو گیا۔
۳۸۔مامو ن کا علماء سے مناظرہ
اہل سنت کے عظیم علماء کے لئے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں مامون (عباسی دور کا ساتواں خلیفہ) صدر کی حیثیت سے بیٹھا ہوا تھا اس بزم میں ایک بہت ہی طویل مناظرہ ہوا جس کا ایک حصہ ہم پیش کرتے ہیں۔
اہل سنت کے ایک عالم نے کہا: ”روایت میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر اور عمر کی شان میں فرمایا:
”ابوبکر و عمر سید ا کهول اهل الجنة
“۔
”ابو بکر اور عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔
مامون نے کہا: ”یہ حدیث غلط ہے۔کیونکہ جنت میں بوڑھوں کا وجود ہی نہیں ہے کیونکہ روایت میں ملتا ہے کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گے“۔بوڑھی عورت گریہ وزاری کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: ”خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
”(
إِنَّا اٴَنشَاٴْنَاهُنَّ إِنشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ اٴَبْکَارًا عُرُبًا اٴَتْرَابًا
)
“
”بے شک ہم نے انھیں بہترین طریقہ سے خلق کیا اور ان سب کو باکرہ قرا ردیا وہ ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہروں سے محبت کرتی ہوں گی خوش گفتار اور ان کی ہم سن سال ہوں گی“۔
اگر تمہارے مطابق ابوبکر و عمر جوان ہوں گے تو جنت میں جائیں گے۔تو کس طرح تم کہتے ہوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ان الحسن والحسین سیدا شباب اهل الجنة من الاولین والاخرین وابوهما خیر منهما
“۔
”حسن اور حسین علیہما السلام جنت کے اول وآخر کے جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد علی بن ابی طالب علیہما السلام کا مقام ان سے بالاو بر تر ہے“۔
۳۹۔ حدیث رسول کے سلسلہ میں بیٹے کے اعتراض پر ابو دُلف کا جواب
قاسم بن عیسیٰ عجلی جو”ابو دلف“کے نام سے مشہور تھا یہ نہایت باہمت ،سخی ،کشادہ قلب،عظیم شاعر،اپنے خاندان کا سربراہ اور محب علی ابن ابی طالب علیہما السلام تھا۔اس کی وفات ۲۲۰ ھ ق کوہوئی۔
ابو دلف کا ایک بیٹا تھا جس کانام ”دلف“تھا یہ بیٹا بالکل اپنے باپ کے بر عکس بہت ہی بد بخت اور بد زبان تھا۔
ایک روز اس کے بیٹے دلف نے اپنے دوستوں کے درمیان علی علیہ السلام کی محبت و عداوت کے سلسلہ میں بحث چھیڑ دی یہ بحث یہاں تک پہنچی کہ اس کے ایک دوست نے کہا کہ پیغمبر اسلام سے روایت ہے:
”یا علی لا یحبک الا مومن تقی ولا یبغضک الاولدُ زنیَّةٍ اٴوحیضة
“
”اے علی علیہ السلام ! تم سے صرف متقی مومن محبت کرتا ہے اور تم سے وہی دشمنی و عداوت رکھتا ہے جو زنا زادہ ہو یا جس کا نطفہ حالت حیض میں منعقد ہوا ہو“۔
دلف،جو ان تما چیزوں کا منکر تھا اس نے دوست سے کہا میرے باپ ابو دلف کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے ؟آیا کوئی شخص اس بات کی جرائت کر سکتا ہے کہ ان کی بیوی سے زنا کرے“۔
اس کے دوستوں نے کہا: ”نہیں ہر گز نہیں۔ابو دلف کے بارے میں ایسا سوچنا بھی غلط ہے“۔
دلف نے کہا: ”خدا کی قسم میں علی علیہ السلام سے شدید دشمنی رکھتا ہوں (جب کہ میں نہ ولد الزنا ہوں اور نہ ولد حیض)
اسی وقت ابو دلف گھر سے باہر نکل رہا تھا ان کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی اور دیکھا کہ وہ چند لوگوں سے گفتگو میں مصروف ہے جب ابو دلف موضوع بحث سے آگا ہ ہو ا تو اس نے کہا۔”خدا کی قسم !دلف زنا زادہ بھی ہے اور ولد حیض بھی۔کیونکہ میں ایک روز بخار میں مبتلا تھا اور اپنے بھائی کے گھر جا کر سو گیا تھا دیکھا کہ ایک کنیز گھر میں وارد ہوئی نفس امارہ مجھے اس کی طرف کھینچ کر لے گیا تو اس نے کہا:
”میں اس وقت حالت حیض میں ہوں“۔
میں نے جماع کے لئے اس کو مجبور کیا نتیجہ میں وہ حاملہ ہو گئی جس سے دلف پیدا ہوا، اس طرح یہ ولد الزنابھی ہے اور ولد حیض بھی۔
تمام دوستوں نے یہ سمجھ لیا کہ علی علیہ السلام کی دشمنی دلف کے نطفہ کے وقت سے شروع ہوئی جو آج جڑ پکڑ گئی، جب بنیا د ہی غلط تھی تو عمارت کیوں نہ غلط ہوتی۔
۴۰۔ ایک غیرت مند جوان کا ابو ہریرہ سے دندان شکن مناظرہ
معاویہ نے پیسہ کے ذریعہ کچھ جھوٹے صحابہ اور تابعین کو خرید رکھا تھا تاکہ وہ علی علیہ السلام کے خلاف حدیث گڑھیں ان اصحاب میں سے ابو ہریرہ ،عمر وعاص،مغیرہ بن شعبہ ، اور تابعین سے عروہ بن زبیر وغیرہ شامل تھے۔
ابو ہریرہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ آیا اور عجیب مکرو فریب سے اس نے علی علیہ السلام کے بارے میں نامناسب باتیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب کردیں۔
راتوں میں وہ” با ب الکندہ “مسجد کوفہ کے پاس آکر بیٹھ جا تا تھااور لوگوں کو اپنے مکر و فریب سے منحرف کرتا رہتا تھا۔
ایک روز ایک غیور اور دانشور جوان نے اس کے اس حیلہ میں شرکت کی ،تھوڑی دیر تک وہ ابو ہریرہ کی بیہودہ باتیں سنتا رہا اس کے بعد اس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا:“تجھے خدا کی قسم، کیا تونے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کوحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں یہ دعا کرتے ہوئے نہیں سنا ہے:
”اللهم وال من والاه وعاد من عاداه
“۔
خدا یا !”تو اسے دوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھتا ہو اور اسے دشمن رکھ جو علی علیہ السلام کو دشمن رکھتا ہو“۔
ابو ہریرہ نے جب یہ دیکھا کہ وہ اس واضح حدیث کی تردید نہیں کر سکتا ، تو کہا: ”اللھم نعم“ خدا یا!میں تجھے شاہد وناظر جانتا ہوں ،میں نے یہ سنا ہے۔ غیور نوجوان نے کہا: ”میں خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ تو دشمن علی کو دوست رکھتا ہے اور دوست علی کو دشمن رکھتا ہے ،اور رسول خد ا صلی الله علیه و آله وسلم کی لعنت کا مستحق ہے“، اس کے بعد یہ نواجوا ن بڑی متانت سے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
____________________