۴۱۔ ناروا تہمتوں کا جواب
ایک دوست کاکہنا ہے کہ میں سعودی عرب میں تھا وہاں کی ایک مسجد میں ایک ادھیڑ عمر کا شخص میرے پاس آیاجس کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ شام کا رہنے والا ہے اور اس نے بھی مجھے جان لیا کہ میں شیعہ اثنا عشری ہوں۔
چند سوال و جواب کے بعد اس نے کہا: ”تم شیعہ لوگ نماز کے آخر میں تین مرتبہ کیوں ”خان الامین ،خان الامین ،خان الامین “(جبرئیل نے خیانت کی) کہتے ہو؟“
یہ بات سن کر میں پریشان ہو گیا اور میں نے اس سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دو اور تم یہ اچھی طرح دیکھو کہ میںکس طرح نماز پڑھتا ہوں۔
اس نے کہا: ”ٹھیک ہے تم نماز پڑھو، میں کھڑا ہوں۔میں دو رکعت نماز آخر ی تین مستحبی تکبیروں کے ساتھ بجالایا ،اس کے بعد اس کا نظریہ معلوم کیا تو اس نے کہا: ”تم نے تو ایک ایرانی اور عجم ہوتے ہوئے بھی ہم عربوں سے اچھی نماز پڑھی ہے لیکن ”خان الامین ،خان الامین ،خان الامین
“ کیوں نہیں کیا ؟“
میں نے کہا: ”یہ چیزیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے تم جیسے سادہ لوگوں کے دلوں میں ڈالی گئی ہیں اور یہ تہمت ہمارے دشمنوں کی طرف سے لگائی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہے“۔
وضاحت کے طور پر: ”خان الامین “سے ان کا مطلب یہ ہے کہ العیاذ باللہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ فرشتہ وحی جبرئیل امین کو علی علیہ السلام کے پاس قرآن لانا چاہتے تھا لیکن انھوں نے دھوکہ دیا اور آتے آتے راستہ بدل دیا اور قرآن پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت اقدس میں لے آئے اور قرآن آپ کے حوالہ کر دیا۔اسی وجہ سے شیعہ حضرات نماز کے بعد تین مرتبہ ”خان الامین“ (جبرئیل نے خیانت کی )کہتے ہیں۔
کتنی بے انصافی ہے ؟!ارے کون شیعہ ہے جو اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہے ؟سچ مچ اگر دنیا کے مسلمان شیعوں کو (جو مسلمانوں کا ایک اٹوٹ حصہ ہے)اس عقیدہ سے پہچاننے لگیں تو کیا وہ کافر کہنے کا حق نہیں رکھتے ہیں ؟!
اسی طرح کی دوسری تہمت یہ ہے کہ ہمارے استاد کہتے ہیں کہ حجاز کے ایک درباری ملانے اپنے خطبہ میں اس طرح کہا:
”اگرشیعہ اتحاد کی دعوت دیں تو ان کے قریب نہ جانا وہ ہم سے کسی بھی چیز میں ایک نظریہ نہیں رکھتے،نہ توحید کے بارے میں، نہ صفات خدا، نہ قرآن کے بارے میں اور نہ دوسرے امور میں وہ ہمارے اور عالم اسلام کے لئے بہت ہی خطرناک ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔اس نے یہاں تک کہا کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا نہ عالم ہے نہ سمیع ہے نہ بصیر بلکہ یہ تمام صفات وہ اپنے امام سے منسوب کرتے ہیں اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہ لوگ اسے قبول نہیں کرتے ۔۔۔اس سے زیادہ تعجب خیز بات تو یہ تھی کہ اس ملا نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تمام باتیں اس نے شیعی کتب سے کہی ہیں !!
اس زر خرید ملا ّسے کہنا چاہئے “اگر تو غرض پر ست نہیں ہے تو ذرا انصاف سے فیصلے کر۔شیعوں کی حقیقی کتابیں ہر جگہ دستیاب ہیں اور شیعوں کا قرآن بھی لاکھوں لوگوں کے پاس موجود ہے اور تفاسیر علماء شیعہ بھی لوگوں کے ہے
تمہارے لئے مناسب ہے کہ ایران کا ایک سفر کر و اورشیعوں کے حوزہائے علمیہ کو قریب سے دیکھ لو تب تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ تمہاری بیہودہ تہمتیں کتنی بے بنیاد ہیں۔
۴۲۔دلائل کے مقابل ایک وہابی عالم کی لاچاری
ایک عالم دین فرماتے ہیں کہ میں مدینہ میں تھا، مسجد نبی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمقبر منورکے پاس کھڑاہوا تھاکہ ناگاہ ایک ایرانی شیعہ آیا اور مرقد رسول اکرم کے درو دیوار کا بوسہ دینے لگا۔
مسجد کا امام جماعت جو ایک وہابی عالم تھا اس نے ایرانی کو بوسہ دیتے دیکھ کر چلانا شروع کیا ”کیوں ان بے شعور پتھر اور کھڑکی کا بوسہ دیتا ہے اور شرک کا مرتکب ہو تا ہے، یہ دیوار پتھر کی اور کھڑکی لوہے کی ہے، کیوں بے شعور پتھر اور کھڑکی کا بوسہ لیتا ہے؟“
اس وہابی اما م جماعت کی چیخ سن کر ایرانی شیعہ کے لئے میرے دل میں محبت پیدا ہوئی میں نے امام جماعت کے سامنے جاکر اس سے کہا: ”درو دیوار کا بوسہ دینا اس بات کی علامت ہے کہ ہم رسول اکرم سے محبت کرتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنے چھوٹے بچہ کو محبت کی وجہ سے اس کا بوسہ دیتا ہے (اس کا م میں کسی بھی طرح کا کوئی شرک نہیں ہے)
اس نے کہا: ”نہ یہ شرک ہے“۔
میں نے اس سے کہا: ”آیا قرآن میں سورہ یوسف کی ۹۶ ویں آیت پڑھی ہے جس میں خداوند عالم فرماتا ہے:
”(
فَلَمَّا اٴَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ اٴَلْقَاهُ عَلَی وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا
)
“
”پس جب بشیر (یوسف کی زندگی کی بشارت لے کر یعقوب کے پاس)آیا اور اس (قمیص)کوان کے چہرے پر ڈال دیا گیا تو ان کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی“۔
تم سے میرا سوال یہ ہے کہ یہ پیرا ہن تو ایک کپڑا تھا اس کپڑے نے کس طرح جنا ب یعقوب علیہ السلام کی بینائی عطا کی، آیا اس کے علاوہ کوئی اوربات ہے کہ یہ کپڑا جنا ب یوسف علیہ السلام کے پاس رہنے سے ان خصوصیتوں کا مالک ہو گیا تھا؟
وہابی امام جماعت میرے اس سوال کے جواب میں بے بس ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
سورہ یوسف کی ۹۴ ویں آیت میں بھی آیا ہے۔
جس وقت قافلہ سر زمین مصر سے جدا ہوا (اور کنعان کی طرف روانہ ہوا)تو یعقوب علیہ السلام (کنعان مصر سے تقریباً ۸۰ فرسخ پر واقع ہے )نے کہا: ”انی لاجد ریح یوسف“ میں بوئے یوسف سونگھ رہا ہوں“۔
پتہ چلا اولیا علیہم السلام معنوی طاقت کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی اس نامرئی طاقت سے بہرہ مند ہونا نہ صرف یہ کہ شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے کیونکہ ایسے آثار ان کے پاک اور منزہ عقیدہ توحید سے ہی وجود میں آئے ہیں۔
وضاحت: قبور اولیاعلیہم السلام پر ہم دل کی گہرائی سے ان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں اور انھیں ہم خانہ خدا کے دروازے قرار دیتے ہیں کیونکہ ہماری زبان اس چیز کی صلاحیت نہیں رکھتی کہ بغیر کسی وسیلہ کے خدا سے رابطہ پیدا کر سکیں۔
اس لئے ہم انھیں اپنے اورخدا کے درمیان واسطہ قرا ردیتے ہیں۔
جیسا کہ سورہ یوسف کی آیت ۹۷ میں آیا ہے:
”(
قَالُوا یَااٴَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ
)
“
” انھوں نے (یعنی برادران یوسف نے)کہا اے بابا! آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کریں بے شک ہم گنہگار تھے“۔
اس طرح اولیاء علیہم السلام سے توسل کرنا جائز ہے اور جو لوگ اسے توحید کے خلاف جانتے ہیں وہ یا تو قرآن کی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں یا انھوں نے اپنے آنکھوں پر تعصب کی عینک چڑھا رکھی ہے۔
ہم سورہ مائدہ کی ۲۵ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:
”(
یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسِیلَةَ
)
“
”اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈروا اور اس کے لئے وسیلہ تلاش کرو“۔
اس آیت میں وسیلہ سے مراد صرف انجام واجبات اور ترک محرمات نہیں ہے بلکہ مستحبات منجملہ اولیاء خداعلیہم السلام سے توسل کرنا بھی وسیلہ شمار ہوگا۔
روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ منصور دوانقی (عباسی سلسلہ کا دوسرا خلیفہ )نے مفتی اعظم(مالک بن انس مذہب مالکی کے بانی )سے پوچھا ”حرم پیغمبر میں آیا روبہ قبلہ کھڑے ہوکر دعا مانگو ں یا روبہ پیغمبر ؟
مالک نے جواب میں کہا:
”لم تصرف وجهک عنه وهو وسیلتک و وسیلة اٴبیک آدم علیه السلام یوم القیامة بل استقبله واستشفع به فیشفعک الله ،قال الله تعالیٰ ،ولوانهم اذ ظلموا انفسهم
“
”تو کیوں اپنا چہرہ ادھر سے گھمانا چاہتا ہے جب کہ وہ تیرے وسیلہ ہیںقیامت تک کے لئے تیرے باپ آدم علیہ السلام کے وسیلہ ہیں بلکہ ان کی طرف رخ کر کے دعا مانگ اور ان سے شفاعت طلب کر تو اللہ تیری شفاعت کرے گا“۔
خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا ہے:
”(
وَلَوْ اٴَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا
)
“
”اور اگر وہ ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت کرتے اور رسول اکرم بھی ان کے لئے مغفرت کرتے تو وہ یقینا خدا کو تواب ورحیم پاتے“۔
شیعہ اور سنی روایتوں میں نقل ہوا ہے کہ تو بہ کے وقت حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ خدا میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کو واسطہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا:
”اللهم اسئلک بحق محمد الاغفرت لی
“۔
”خدا یا ! تجھے محمد کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے“۔
اس بات کی تائید میں کہ اولیائے خدا علیہم السلام کی قبروں کا بوسہ دینا شرک نہیں ہے ،مندرجہ ذیل اہل سنت کی تین احادیث پر توجہ فرمائیں:
۱ ۔ایک شخص نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں آکر پوچھا: ”اے رسول خدا میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جنت کے دروازے اور حورالعین کی پیشانی کا بوسہ دوں، اب میں کیا کروں ؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ”ماں کا پیر اور باپ کی پیشانی کا بوسہ دو(یعنی اگر ایسا کروگے تو اپنی آرزو حورعین کی پیشانی کا بوسہ دینا اور جنت کے دروازے کا بوسہ دینے تک پہنچ سکتے ہو)
اس نے پوچھا: ”اگر ماں باپ مر گئے ہوں تو کیا کروں ؟“
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ‘”ان کی قبروں کا بوسہ دو“۔
۲ ۔جس وقت جنا ب ابراہیم علیہ السلام، اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے دیدار کے لئے شام سے مکہ آئے تو دیکھا اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں ہیں ابراہیم علیہ السلام واپس چلے گئے جب اسماعیل علیہ السلام اپنے سفر سے واپس آئے تو ان کی زوجہ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی آمد کی اطلاع دی اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کے قدم کی جگہ کو معلوم کر کے احترام کے طور پر قدم کے نشان کا بوسہ دیا۔
۳ ۔سفیان ثوری ( اہل سنت کا صوفی)نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے پاس آکر عرض کیا: ”کیوں لوگ کعبہ کے پردے کا دامن پکڑتے ہیں جب کہ وہ پردہ بالکل پرانا ہو چکا ہے جو کسی طرح کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے ؟“
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”یہ اس کام کے مانند ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے بارے میں گناہ کا مرتکب ہوا ہو(مثلاً اس کا حق ضائع کر دیا ہو ) اور اس کے دامن سے چپکے ،لپٹے اور اس کے اطراف اس امید سے گھومے کہ اس کا گناہ معاف کردے گا“۔
۴۳۔ایک مرجع کا وہابی پلس سے مناظرہ
آیت اللہ العظمیٰ عبد اللہ شیرازی(علیہ الرحمة ) کتاب ”الاحتجاجات العشرة“ میں فرماتے ہیں: ”ایک روز میں مدینہ میں قبر رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ حوزہ علمیہ قم کا ایک طالب علم ضریح پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی طرف بڑھا اور اس نے جب دیکھا کہ شرطی (امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے کارکن جو ضریح مقدس کا بوسہ دینے والوں کو روکتے ہیں )اس سے غافل ہے تو اس نے قریب پہنچ کر ضریح مقدس کا کئی بار بوسہ لیا۔
شرطی نے جب دیکھا تو بہت ناراض ہوا اور مجھے دیکھ کر میرے پاس آکر اس نے بڑے احترام سے کہا: ”اے آقا! اپنے چاہنے والوں کو ضریح چومنے سے منع کیوں نہیں کرتے یہ درو دیوار کو جو بوسہ دیتے ہیں یہ لوہے کے علاوہ کچھ بھی نہیں جسے استامبول سے لایا گیا ہے انھیں چومنے سے منع کریں کیونکہ یہ تمام شرک ہے“۔
میں نے کہا: ”تم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہو؟“
شرطی نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی قبر پر بھی پتھر ہے اگر اس پتھر کا چومنا شرک ہے تو حجر اسود کا بھی چومنا شرک ہے“۔
اس نے کہا: ”حجر اسود کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چوما ہے“۔
میں نے کہا: ”اگر کسی چیز کا ”تیمناً و تبرکاً“ چومنا شرک ہے تو پیغمبر اور غیر پیغمبر میں کوئی فرق نہیں ہے“۔
اس نے کہا: ” پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے اس لئے چوما کہ وہ جنت سے آیا ہے“۔
میں نے کہا: ”ہاں حجر اسود جنت سے لایا گیا ہے اس لئے وہ محترم ومقدس ہو گیا ہے اور اسے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے چوما ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے چوما جائے کیونکہ بہشت کا ایک حصہ ہے“۔
اس نے کہا: ہاں ”یہی وجہ ہے“۔
میں نے کہا: ”بہشت اور اجزاء بہشت کا مقدس اور محترم ہونا وجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے“۔
اس نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”جب بہشت اور اجزاء بہشت، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو جاتے ہیں اور ان کا بوسہ دینا ”تیمناً و تبرکا ً“جائز ہوجاتا ہے تو یہ لوہا(جو قبر پیغمبر اکرم کے اطراف میں لگا ہوا ہے)اگر چہ استامبول سے آیا ہے لیکن قبر پیغمبر میں لگنے کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو گیا ہے اس وجہ سے ان کا بھی چومنا جائز ہے“۔
توضیح کے لئے بات آگے بڑھاوں۔ قرآن کی جلدچمڑے سے بنائی جاتی ہے۔کیا یہ چمڑا صحرا اور دریا کی گھاس کھانے والے حیوانوں سے نہیں لیاجاتا ہے جس کا نہ پہلے احترام کر ناضروری تھا اور نہ نجس کرنا حرام تھا لیکن اسی چمڑے سے جلد قرآن بننے سے وہ محترم ہو جاتا ہے اور اس کی توہین کرنا حرام ہے اور ہم اسے بوسہ دیتے ہیں جس طرح صدر اسلام سے اب تک مسلمانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ جلد قرآن کا چومناجیسے ایک باپ اپنے بیٹے کا بوسہ لیتا ہے،آج تک کسی نہیں کہا کہ یہ شر ک اور حرام ہے، اسی طرح ضریح پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور تمام ائمہ علیہم السلام کی ضریحوں کا بوسہ دینا نہ شرک ہے نہ بت پرستی۔
مولف کا قول: لیلیٰ ومجنوں کی تاریخ حیات میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ لیلیٰ کے محلہ کا ایک کتا مجنوں کے محلہ تک پہنچ گیا مجنوں نے جب اسے دیکھا تو اسے اپنی آغوش میں لے کر بوسہ دینے لگا ، ایک شخص نے اس سے کہا: ”لیس علی المجنون حرج“مجنوں کے لئے یہ کوئی حرج نہیں ہے یعنی تم دیوانہ ہو اس لئے کتے کا بوسہ دینے پر میں کوئی اعتراض نہیں کروں گا۔
مجنوں نے جواب میں کہا: ”لیس علی الاعمیٰ حرج“اندھے کے لئے کوئی بات نہیں ہے ، یعنی تم اندھے ہو اور تم ہمارے اس بوسہ لینے کو درک نہیں کر سکتے ہو“۔
یہ قطعہ بھی مجنوں کے لئے منسوب ہے:
اٴمر علی الدیار دیار لیلی اُقبل ذالجدارو ذالجدار
وما حب الدیار شغفن قلبي ولکن حب من سکن الدیار
”میں لیلیٰ کے گھر کی طرف سے گزرتا ہوں تو اس کے درودیوار کو چومتا ہوں۔ اس گھر کی محبت نے مجھے پاگل نہیں کیا بلکہ اس کی محبت نے مجھے دیوانہ بنا دیا جو اس گھر میں رہتا ہے“۔
علی بن میثم کے چند دلچسپ مناظرے
اشارہ:
تاریخ شیعہ کے ایک جید اور زبردست متکلم جنا ب میثم تمار کے پوتے جن کا نام علی ابن اسماعیل بن شعیب بن میثم تھا لیکن انھیں علی بن میثم کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ امام رضا علیہ السلام کے صحابیوں میں سے تھے اوراپنے مخالف سے بحث ومناظرہ کرنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔
ہم یہاں پر نمونہ کے طور پر ان کے چند مناظرے تحریر کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
۴۴۔علی بن میثم کاایک عیسائی سے مناظرہ
ایک روز آپ نے ایک عیسائی سے اس طرح مناظرہ کیا:
علی بن میثم: ” تم لوگوں نے اپنی گردن میںصلیب کی شکل کیوں لٹکا رکھی ہے “؟
عیسائی: ”کیونکہ یہ شکل اس چیز سے شباہت رکھتی ہے جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو لٹکا کر پھانسی دی گئی تھی“۔
علی بن میثم: ”کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود اس طرح کی چیز کا اپنی گردن میں لٹکا نا پسند کریں گے ؟“
عیسائی: ”ہر گز نہیں“۔
علی بن میثم: ”کیوں؟“۔
عیسائی: ”کیونکہ وہ جس چیز پر قتل کئے گئے ہیں اس کو ہر گز نہیں پسند کریں گے“۔
علی بن میثم: ”مجھے یہ بتاو کہ کیا جناب عیسیٰ علیہ السلام اپنے کاموں کے لئے گدھے پر سوار ہوتے تھے ؟“۔
عیسائی: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ا س چیز کو پسند کرتے کہ وہ گدھا باقی رہے اور ان کی ضرورت کے وقت انھیں ان کی منزل مقصود تک لے جائے؟“
عیسائی: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”تم نے اس چیز کو تر ک کر دیا جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ باقی رہے اور جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے تھے تم لوگوں نے اسے باقی رکھا ہے اور اسے اپنی گردن میں لٹکا رکھا ہے جب کہ تمہارے نظریہ کے مطابق تو تمہارے لئے بہتر یہ تھا کہ گدھے کی شکل کی کوئی چیز گردن میں لٹکاتے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے باقی رکھنا چاہتے تھے، تم صلیب کو دور پھینکو ورنہ اس سے تمہاری جہل و نادانی ثابت ہوگی“۔
۴۵۔ علی بن میثم کا ایک منکر خدا سے بہترین مناظرہ
ایک روز علی بن اسماعیل مامون کے وزیرحسن بن سہل کے پا س گئے تو دیکھا ایک ہواو ہوس پرست منکر خدا لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا ہے اور وزیر مامون اس کا بہت احترام کر رہا ہے اور دیگر تما م بڑے بڑے اور عظیم دانشور حضرات اس کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ منکر خدا بڑی گستاخی کے ساتھ اپنے مذہب کی حقانیت کے بارے میں باتیں کر رہا ہے۔
علی بن میثم یہ دیکھ کر ٹھہر گئے اور اپنے مناظرہ کی شروعات کی۔
علی بن میثم نے حسن بن سہل سے اس طرح کہا: ”اے وزیر! آج میں نے تمہارے گھر کے باہر ایک بہت ہی عجیب چیز دیکھی ہے ؟
وزیر: ”کیا دیکھا ؟“
علی بن میثم : ”دیکھا کہ ایک کشتی بغیر کسی ناخدا اور رسی کے ادھر سے ادھر چل رہی ہے“۔
اس وقت وہ منکر خدا جو وہاں بیٹھا ہوا تھا اس نے وزیر سے کہا: ”یہ (علی بن میثم)دیوانہ ہے کیونکہ عجیب الٹی سیدھی بات کرتا ہے“۔
علی بن میثم: ”نہیں صحیح بات کر رہاہوں میں دیوانہ کیوں ہونے لگا؟“
منکر خدا: ”لکڑی سے بنی کشتی بغیر ناخدا کے کیسے ادھر سے ادھر جائے گی؟“
علی بن میثم: ”یہ میری بات تعجب آور ہے یا تمہاری کہ یہ عالم ہستی جو عقل وجان رکھتی ہے یہ مختلف گھاس اور دیگر نباتات جو زمین سے اگتے ہیں، یہ باران رحمت جو زمین پر نازل ہوتی ہے تیرے عقیدہ کے مطابق بغیر کسی خالق و مدبر کے ہے جب کہ تو ایک چھوٹی سی چیز کے لئے کہتا ہے کہ بغیر کسی ناخدا اور راہنما کے ادھر سے ادھر نہیں چل سکتی؟“
یہ منکر خدا علی بن میثم کا جواب دینے سے بے بس ہو گیا اور سمجھ گیا کہ یہ کشتی والی مثال صرف مجھے شکست دینے کے لئے دی گئی تھی۔
۴۶۔ علی بن میثم کاابو الہذیل سے مناظرہ
ایک روز علی بن میثم نے ابو الہذیل سے پوچھا: ”کیا یہ صحیح ہے کہ ابلیس نوع انسان کو ہر نیکی سے روکتا ہے اور ہر بدی کا حکم دیتا ہے ؟“
ابو الہذیل: ”ہاں یہ صحیح ہے“۔
علی بن میثم: ”چونکہ نیک کام کو نہیں پہچانتا لہٰذا اس کے انجام دینے سے لوگوں کو منع کرتا ہے یا برائی کرنے کا حکم دیتا ہے کیونکہ اس کو نہیں جانتا“۔
ابو الہذیل: ”نہیں بلکہ وہ جانتا ہے“۔
علی بن میثم: ”یعنی یہ ثابت ہے کہ ابلیس ہر نیکی اور ہر بدی کو جانتا ہے“۔
ابو الہذیل: ”ہاں“۔
علی بن میثم: ”مجھے یہ بتاو کہ رسو ل خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد تمہارا امام کون تھا؟کیا وہ تمام نیکی اور بدی کو جانتا تھا یا نہیں؟“
ابو الہذیل: ”نہیں تمام نیکی اور بدی کو نہیں جانتا تھا“۔
علی بن میثم: ”بس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس تمہارے امام سے زیادہ عقلمند اور عالم ہے“۔
ابو الہذیل اس بات کو جواب دینے سے قاصر رہا اور وہ بری طرح پھنس گیا۔
ایک روز ابو الہذیل نے علی بن میثم سے پوچھا کہ رسول صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد علی علیہ السلام کی امامت اور حضرت ابو بکر سے افضل ہونے پر کیا دلیل ہے؟
علی بن میثم: ”رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد تمام مسلمانوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ علی علیہ السلام ایک کامل مومن اور عالم ہیں جب کہ اس وقت ابو بکر کے سلسلہ میں اس طرح کا اجماع نہیں تھا“۔
ابو الہذیل: ”استغفر اللہ ، خدا معاف کرے کس شخص نے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر کے علم وایمان پر اجما ع نہیں کیا تھا؟!“
علی بن میثم: ”میں اور مجھ سے پہلے والے اور حالیہ زمانے میں میرے ساتھی“۔
ابو الہذیل: ”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اورتمہارے ہمنواگمراہی کی زندگی گزار رہے ہیں“!۔
علی بن میثم: ”اس طرح کا جواب گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں یعنی تو منطقی جواب نہ دے کر برا بھلا کہہ رہا ہے اور مجھے گمراہ جانتا ہے، تیرا بھی جواب گالی گلوچ ہی ہے“
(کیونکہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو بہتر ہے)۔
۴۷۔ عمر بن عبد العزیز کا مناظرہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی برتری کا اعلان
عمر بن عبد العزیز (اموی سلسلہ کا آٹھواں خلیفہ )کے دور خلافت میں ایک سنی نے اس طرح قسم کھائی :
”ان علیا ًخیر هذه الامة والاامراتی طالق ثلاثا
“۔
یقینا علی علیہ السلام اس امت کی بہترین فرد ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو میری بیوی کوتین طلاق ہو۔
وہ شخص اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد سب سے بہترین شخص علی ابن ابی طالب علیہماالسلام ہیں بس اس وجہ سے اس کی طلاق باطل ہے۔
اہل سنت حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق طلاق کہہ دیا جائے تو طلاق صحیح ہے اس شخص کی بیوی کا باپ اس طلاق کو صحیح جانتا تھا کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رحلت کے بعد علی علیہ السلام تمام مسلمانوں سے افضل وبرتر نہیں تھے۔
اس عورت کے شوہر اور اس کے باپ میں بحث ہو گئی۔
شوہر کہتا تھا: ”یہ عورت میری بیوی ہے اور طلاق باطل ہے کیونکہ شرط طلاق علی علیہ السلام کا تمام امت میں برتر نہ ہونا ہے جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ علی علیہ السلام تمام لوگوں سے افضل و برتر ہیں تو طلاق کہاں واقع ہوئی ؟“
باپ کہتا تھا: ”طلاق واقع ہوگئی کیونکہ علی علیہ السلام تما م لوگوں سے افضل و برتر نہیں ہیں نتیجہ میں یہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہے“۔
یہ بحث آگے بڑھ گئی اور کچھ لوگ باپ کے طرفدار ہوگئے اور کچھ شوہر کے اور یہ مسئلہ ایک مشکل بن گیا۔
میمون بن مہران نے اس واقعہ کو عمر بن عبد العزیز کے پاس لکھ بھیجا تاکہ وہ اسے حل کرے۔یہ مسئلہ ایک مشکل بن گیا۔
عمر بن عبد العزیزنے ایک نشست بلوائی جس میں بنی ہاشم ،بنی امیہ اور قریش کے چند بزرگوں کو شرکت کی دعوت دی اور ان سے کہا کہ اس مسئلہ کا حل پیش کریں۔
اس جلسہ میں بات چیت تو بہت زیادہ ہوئی، بنی امیہ اس کا جوا ب دینے سے بے بس تھے، اس لئے انھوں نے سکوت اختیار کیا۔
آخر میں بنی ہاشم کے ایک شخص نے کہا:
”طلاق صحیح نہیں ہے کیونکہ علی علیہ السلام تمام امت میں سب سے افضل و برتر ہیں۔اور طلاق کی شرط عدم برتری ہے لہٰذ ا طلاق واقع نہیں ہوئی“۔
اس شخص نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے عمر بن عبد العزیزی سے کہا:تجھے خدا کی قسم ہے کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بیمار پڑنے پر ان کی عیادت کے لئے گئے تھے اور اس وقت علی علیہ السلام کی زوجیت میں تھیں۔
آپ نے فرمایا: ”بیٹی کیا کھانا چاہتی ہو؟“
جنا ب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا نے عرض کیا: ”بابا انگور کھا نے کو دل چاہتا ہے“۔
حالانکہ یہ انگور کا موسم نہیں تھا اور حضرت علی علیہ السلام بھی سفر پر تھے مگر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے یوں دعا کی:
”اللهم آتنا به مع اٴفضل اٴمتی عندک منزلة
“۔
”پالنے والے ! انگو ر کو میرے پاس اس شخص کے ذریعہ پہنچا جس کی منزلت تیرے نزدیک سب سے زیادہ ہو“۔
ناگاہ علی علیہ السلام نے دق الباب کیا اوراپنے ہاتھوں میں عبا سے ڈھکی ٹوکری کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔
پیغمبر خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”علی علیہ السلام یہ کیا ہے ؟“
علی علیہ السلام نے کہا: ”یہ انگور ہے جس کی فاطمہ الزہرا سلا م اللہ علیہا نے خواہش کی ہے“۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”اللہ اکبر ،اللہ اکبر،خدایا تو نے جس طرح علی کو اس امت کا بہترین شخص قرا دے کر مجھے خوش کیا اسی طرح ان انگور کو میری بیٹی فاطمہ کے شفا قرار دے“۔
اس کے بعد آپ نے انگور کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے پاس رکھ دئے اور فرمایا: ”بیٹی اسے بسم اللہ کہہ کر کھاو“۔
ابھی رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے باہر نہیں نکلے تھے کہ آپ صحت یاب ہوگئیں۔
عمر بن عبد العزیز نے ہاشم مرد سے کہا: ”سچ کہا اور اچھی طرح بیان کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث کو میں نے سنا ہے اور کئی جگہ دیکھا ہے اور میں اس کو ماتنا ہوں“۔
اس کے بعد عبد العزیز نے اس عورت کے شوہر سے کہا: ”عورت کا ہاتھ پکڑ اور اپنے گھر لے جا،یہ تیری بیوی ہے اگر اس کا باپ روکے تو مار مار کر اس کا چہرہ بگاڑدے“۔
اس طرح اس اہم جلسہ میں عمر بن عبد العزیز (اموی دور کے آٹھویں خلیفہ ) نے قانونی طور پر تمام امت پر امام علی علیہ السلام کی برتری کا اعلان کر ادیا جس کی وجہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ عورت اس اہل سنت شخص کی زوجیت میں باقی ہے۔
۴۸۔ مخالف کی رسوائی کے لئے شیخ بہائی کا ایک عجیب مناظرہ
دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے عالم تشیع کے ایک بہت ہی جلیل القدر عالم دین محمد بن حسین بن عبد الصمد گزرے ہیں جنھیں لوگ ”شیخ بہائی“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
شیخ بہائی نے ۱۰۳۱ ھ قمری میں اس دنیا کو خیر آباد کہا، آپ کی قبر امام رضا علیہ السلام کے مرقد مقدس کے جوا ر میں واقع ہے۔
ایک سفر کے دوران آپ کی ملاقات ایک شافعی مذہب عالم دین سے ہوئی ، آپ نے بھی اس کے سامنے اپنے آپ کو شافعی ظاہر کیا۔جب اس شافعی کو یہ معلوم ہوا کہ شیخ بہائی شافعی مسلک ہیں اور مرکز تشیع (ایران) سے آئے ہیں تو اس نے شیخ بہائی سے کہا:
”یہ شیعہ حضرات اپنی باتوں کے اثبات کے لئے کوئی دلیل و شاہد بھی رکھتے ہیں؟
شیخ بہائی نے کہا: ”میرا کبھی کبھی ان سے سامنا ہوا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنے مطلب و مقصد کے ثبوت میں بہت ہی محکم دلائل رکھتے ہیں“۔
شافعی عالم نے کہا: ”اگر ممکن ہوتو ان میں سے کوئی دلیل نقل کرو“۔
شیخ بہائی نے کہا: ”مثلاًوہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے:
”فاطمة بضعة منی من آذاها فقد آذانی و من اغضبها فقد اغضبنی
“
”فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا“۔
اور اس کے چار ہی ورق کے بعد یہ لکھا ہے:
”وخرجت فاطمة من الدنیا و هی غاضبة علیهما
“۔
”فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اس دنیا سے عمر و ابوبکر سے ناراض رخصت ہوئیں“۔
ان دونوں روایتوں کو جمع کرنے کے بعد اہل سنت کے مطابق ان کا کیا جواب ہو سکتا ہے ؟“
شافعی مذہب فکر میں ڈوب گیا، کیونکہ ان روایتوں پر غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں عادل نہیں تھے اور رہبری کی لیاقت نہیں رکھتے تھے )اور تھوڑے تامل کے بعد ان سے کہنے لگا: ”کبھی کبھی شیعہ جھوٹ بھی بول لیتے ہیں ہوسکتا ہے یہ بھی جھوٹ ہو مجھے کچھ وقت دو تاکہ میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرو ں اور اس روایت کے صدق وکذب کا پتہ لگاوں اور سچ ہونے کی صورت میں اس کا جواب بھی معلوم کرلوں“۔
شیخ بہائی کہتے ہیں:
”دوسرے دن جب میں نے اس شافعی کو دیکھا تو میں نے اس سے کہا: ”تمہاری تحقیق کہا ں تک پہنچی ؟“
اس نے کہا: ”وہی ہو جو میں کہتا تھا کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ میں نے ان دونوں روایتوں کو صحیح بخاری میں دیکھالیکن شیعہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان چار ورق کا فاصلہ ہے لیکن میں نے جب گنا تو پانچ ورق کا فاصلہ پایا“!!
کتنا بہترین جواب ہے ؟! کتنی بڑی حماقت ہے ! صحیح بخاری میں ان دونوں روایتوںکا موجود ہونا مقصود ہے خواہ وہ پانچ ورق کے فاصلہ پر ہو یا پچاس ورق کے فاصلہ پر ؟!
۴۹۔ سید موصلی سے علامہ حلی کا مناظرہ
آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں شاہ خدا بندہ ،ایل خانیان کا گیارہواں بادشاہ سنی المذہب تھا مگر ۷۰۹ ہجری میں علامہ حلی (شیعوں کے بزرگ دینی مرجع متوفی ۲۶ ۷ ھ) کی زبردست مناظروں کی وجہ سے وہ شیعہ ہوگیا تھا اس نے مذہب جعفری کا قانونی طور پر اعلان کر دیا اور پورے ایران میں اسی وجہ سے شیعہ مذہب رائج ہوا۔
ایک دن اس کے پاس اہل تسنن کے بڑے بڑے علماء بیٹھے ہوئے تھے، علامہ حلی بھی شاہ کی دعوت پر وہاں موجود تھے اس بزم میں شیعہ و سنی کے درمیان مختلف مناظرے ہوئے ان میں ایک مناظرہ یہ بھی تھا:
اہل سنت کے ایک عظیم عالم دین سید موصلی نے علامہ حلی سے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں (یعنی ائمہ علیہم السلام ) پر صلوات بھیجنے کا کیا جواز ہے ؟“
علامہ حلی نے یہ آیت پڑھ دی:
”(
وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ إِذَا اٴَصَابَتْهُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ اٴُوْلَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ
)
“
”اور ان صابروں کو بشارت دیں جن کے اوپر جب کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم خدا کے لئے ہیں اور اسی کی طرف واپس پلٹ کے جائیں گے ان لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات ورحمت ہو“۔
سید موصلی نے بڑی اعتنائی سے کہا: ”پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے علاوہ اور کن لوگوں (ائمہ معصومین علیہم السلام ) اور کس پر ایسی مصیبت نازل ہوئی کہ وہ صلوات کے مستحق ہوجائیں؟“
علامہ حلی نے فوراً کہا: ”سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے ان کی نسل میں ایک تیرے جیسا آدمی بھی ہے جو منافقوں کو آل رسول پر ترجیح دیتا ہے! “
علامہ کی اس حاضر جوابی پر سارا مجمع ہنس پڑا۔
____________________
(۵۸) ”خان الامین “والی تہمت بعض سنی فرقوں میں بہت زیادہ مشہور ہے جب بھی شیعوں پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں تو یہ جملہ ان کی زبانوں پر ہوتاہے۔لہٰذا ڈاکٹر تیجانی سماوی نے اپنی کتاب ”پھر میں ہدایت پاگیا “میں دو جگہ اس تہمت کا ذکر کیا ہے ۔