دوسراحصہ و تیسراحصہ
۵۰۔ایک شیعہ عالم کا امر بالمعروف کمیٹی کے صدر سے مناظرہ
ایک شیعہ عالم دین سعودی حکومت کے مرکز امر با لمعروف اور نہی عن منکر میںپہنچ گئے وہاں انھوں نے اس کے سر پرست سے کچھ گفتگو کی جو ایک مناظرہ کی شکل اختیار کر گئی ہم اسے یہاں نقل کر رہے ہیں:
سرپرست: ”رسو ل اکرم صلی الله علیه و آله وسلم دنیا سے چلے گئے اور جو مرجاتا ہے وہ کسی کو نقصان یا فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو تم لوگ قبر رسول سے کیا چاہتے ہو۔؟“
شیعہ عالم دین: ”رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم اگر چہ اس دنیا کو چھوڑ چکے ہیں مگر در حقیقت وہ زندہ ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
”(
وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُونَ
)
“
”اور اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والوں کو تم ہرگز مردہ نہ سمجھنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف سے رزق پاتے ہیں“۔
نیز بہت سی روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زندگی میں احترام کرنا واجب تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی احترام کرنا چاہئے“۔
سرپرست: ”اس آیت میں جو زندگی مراد لی گئی ہے کیا وہ ہماری اس زندگی سے مختلف اور اس کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ؟“
شیعہ عالم: ”اس میں کیا حرج ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم رحلت کے بعد ایک دوسری زندگی کے مالک ہوں اور ہماری باتیں سنیں اور اسی عالم میں خدا کے حکم سے ہم پر لطف کریں ہماری مشکلات حل کریں؟ میں تم سے پوچھتا ہوں ”جب تمہارا باپ مر جاتا ہے تو کیا تم اس کی قبر پر نہیں جاتے اور اس کے لئے خداسے مغفرت کی دعا نہیں کرتے ؟“
سرپرست: ”کیوں نہیں ہم جاتے ہیں“۔
شیعہ عالم: میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں نہیں تھا کہ اس طرح ان کی زیارت سے مشرف ہو جاتا لہٰذا اب ان کی قبر کی زیارت کے لئے آیا ہوں“۔
اس سے واضح الفاظ میں یوںکہا جائے:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم اطہر کی وجہ سے قبر کے اطراف کا حصہ یقینا مبارک ہو گیا ہے اگر ہم اس قبر مقدس کی خاک کا بوسہ لیتے ہیں یا اسے تبرک سمجھتے ہیں تو یہ بالکل اس کے مانند ہے کہ جیسے ایک شاگرد یا بیٹا اپنے استاد یا باپ کی محبت کی وجہ سے اس کے پیر کی خاک اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگاتا ہے۔
مولف کا قول: مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب امام خمینی کو ملک بدر کیا گیا تھا تو اس وقت میرے ایک نہایت بزرگ استاد نے کہا تھا: ”میں چاہتاہوں کہ اپنے عمامہ کے تحت الحنک کو امام خمینی کے نعلین سے مس کروں اور اس خاک آلود تحت الحنک کے ساتھ نما ز پڑھوں“۔
اس طرح کی باتیں در اصل شدید محبت اور تعلق کی عکاسی کرتی ہیں ان میں کسی طرح کے کسی شرک کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا قرآن کریم نے اولیائے خداسے توسل کرنا جائز قرار دیتے ہوئے اسے بخشش و مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے جیسا کہ سورہ نساء کی ۶۴ ویں آیت میں ہم پڑھتے ہیں۔
”(
وَلَوْ اٴَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا
)
“
” اور جب انھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا تو اگر تمہارے پاس آکر اللہ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو وہ اللہ کو تو اب ورحیم پاتے“۔
۵۱۔علامہ امینی کا قانع کنندہ جواب
علامہ امینی شیعوں کے عظیم عالم دین کتاب ”الغدیر “کے مولفنے اپنے ایک سفر کے دوران ایک جلسہ میں شر کت کی تو وہاں ایک سنی عالم دین نے آپ سے کہا: ”تم شیعہ حضرات علی کے سلسلہ میں غلو کرتے ہو اور انھیں حد سے زیادہ بڑھاتے ہو مثلاً”ید اللہ، عین اللہ “جیسے القاب سے یاد کرتے ہو، صحابہ کی اس حد تک توصیف کرنا غلط ہے“۔
علامہ امینی نے برجستہ جواب دیا:
”اگر عمر بن خطاب نے علی علیہ السلام کو ان القاب سے یاد کیا ہو تو اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ؟“
اس نے کہا: ”حضرت عمر کی بات ہمارے لئے حجت ہے“۔
علامہ امینی نے اسی بزم میں اہل سنت کی ایک کتاب منگوائی وہ کتاب لائی گئی علامہ نے چند ورق پلٹنے کے بعد اس صفحہ کو کھو ل دیا جہا ں یہ عبارت نقل ہوئی تھی:
”ایک شخص خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھا اسی وقت اس نے ایک نامحرم پر غلط نظر ڈالی تو امام علی علیہ السلام نے وہیں اس کے چہرہ پر ایک طمانچہ مارا وہ اپنے چہرہ پر ہاتھ رکھے عمر ابن خطاب کے پاس شکایت کرنے آیااورپورا واقعہ بیان کیا۔
عمر نے اس کے جوا ب میں کہا:
”قد رآی عینُ الله و ضرب یدُ الله
“۔
”بے شک خدا کی آنکھ نے دیکھا اور خدا کے ہاتھ نے مارا“۔
سوال کرنے والے نے جب اس حدیث کو دیکھا تو قانع ہو گیا۔
اس طرح کے الفاظ و القاب در اصل احترام و تعظیم کی خاطر ہوا کرتے ہیں مثلاً”روح اللہ“ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ کے روح بھی ہوتی ہے بلکہ یہ ان کی عظمت و بلندی کے بیان کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔
۵۲۔کیا سجدہ گاہ اور پتھر پر سجدہ کرنا شرک ہے؟
ایک مرجع تقلید کہتے ہیں کہ میں ایک روز مسجد نبوی میں نماز صبح انجام دینے کے بعد روضہ مقدس میں بیٹھا ہوا تھا اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول تھا۔اسی دوران میں نے دیکھا کہ ایک شیعہ آیا اور روضہ کے بائیں طرف کھڑا ہوکر نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا اس کے قریب ہی دوآدمی مصری روضہ کے ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے جب انھوں نے اس شیعہ کو نماز کے دوران اپنی جیب سے سجدگاہ نکالتے دیکھاتو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ”اس عجمی کو دیکھو یہ پتھر پر سجدہ کرنا چاہتا ہے“۔
شیعہ مرد رکوع میں گیا، رکوع کے بعد سجدہ کرنے کے لئے ایک پتھر پر اپنی پیشانی رکھ دی یہ منظر دیکھ کر ان میں سے ایک دوڑتا ہوا اس کی طرف جانے لگا لیکن قبل اس کے وہ وہاں تک پہنچتا میں نے اس کا ہا تھ پکڑ کر کہا: ”تم کیوں ایک مسلمان کی نماز باطل کرنا چاہتے ہو جو اس مقدس جگہ پر نماز ادا کررہا ہے“۔
اس نے کہا: ”وہ پتھر پر سجدہ کرنا چاہتا ہے“۔
میں نے کہا: ”پتھر پر سجدہ کرنے میں کیا اشکال ہے میں بھی پتھر پر سجدہ کرتا ہوں“۔
اس نے کہا: ”کیوں اور کس لئے“۔
میں نے کہا: ”وہ شیعہ ہے اور مذہب جعفری کا پیرو ہے میں بھی مذہب جعفری کا معتقد ہوں کیا جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام کو پہنچانتے ہو؟“
اس نے کہا: ”ہاں“
میں نے کہا: ”کیا وہ اہل بیت رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم میں سے ہیں ؟“
اس نے کہا: ”ہاں“۔
میں نے کہا: ”وہ ہمارے مذہب کے پیشوا ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ فرش اور قالین پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ایسی چیز پر سجدہ کرنا چاہئے جو زمین کے اجز امیں سے ہو“۔
اس سنی شخص نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ”دین ایک ہے نماز بھی ایک ہے“۔
میں نے کہا: ”ہاں دین ایک ہے نماز ایک ہے تو اہل سنت بھی نماز میں قیام کے وقت مختلف طریقوں سے نماز کیوں ادا کرتے ہیں تمہارے مذہب میں کچھ لوگ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے ہیں اور کچھ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہیں دین ایک ہے اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک ہی طریقہ سے نماز ادا کی تھی پھر یہ اختلاف کیوں؟تم کہوگے کہ ابو حنیفہ یا شافعی یا مالک یا احمد بن حنبل نے اس طرح کہا ہے ۔(ہاتھ کے اشارے سے بتایا )
اس نے کہا: ”ہاں ان لوگوں نے اسی طرح کہا ہے“۔
میں نے کہا: ”جعفر بن محمد امام جعفر صادق علیہ السلام ہمارے مذہب کے پیشوا ہیں جن کے لئے تم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ خاندان رسالت سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ”اہل البیت ادری بما فی البیت“ گھر والے گھر کی باتیں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔”لہٰذا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے اہل بیت احکام الٰہی سے دوسروں کے مقابل زیادہ آگاہ ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم بہر حال ابو حنیفہ سے کئی گنا زیادہ ہے ان کا قول ہے کہ ”زمین کے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے لہٰذا اون اور روئی پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے ہمارے اور تمہارے درمیان اختلاف کی نوعیت بالکل وہی ہے جو خود تمہارے مذہب میں پائے جانے والے مختلف مسالک میں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے سلسلے میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف فروع دین کا اختلاف ہے نہ کہ اصول دین کا اور فروع دین کا اختلاف کسی بھی طرح سے شرک سے تعلق نہیں رکھتا۔
جب میری بات یہاں تک پہنچ گئی تو وہاں بیٹھے ہوئے تمام اہل سنت حضرات نے میری بات کی تصدیق کی اور تب میں نے غصہ میں اس سے (جو شیعہ کی سجدہ گاہ چھیننے کے لئے دوڑا تھا)کہا:
کیا تجھے رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے شرم نہیں آتی کہ ایک شخص ان کی قبر کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور تو اس کی نماز باطل کررہا ہے جب کہ وہ خود اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھ رہا ہے اور یہ شخص اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب یہ صاحب قبر لے کر آیا ہے ؟
”(
الذین اذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا
)
“
وہ (اہل بیت)جن سے (خدا نے) ہر برائی کو دور رکھا اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“۔
تمام حاضرین نے اس کی لعنت و ملامت کی اور اس سے کہا: ”جب وہ اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھ رہا ہے تو اس سے کیوں لڑائی جھگڑا کرتا ہے “، اور اس نے اس کے بعد سب لوگوں نے مجھ سے معافی مانگی۔
مختصر وضاحت
واقعی وہابیوں اور سنیوں کے علماء کا کام کتنا حیر ت انگیز ہے کہ وہ عوام کو فریب دیتے ہیں اور انھیں یہ بات ذہن نشین کراتے ہیں کہ خاک شفاء پتھر یا لکڑی پر سجدہ کرنا حرام اور شرک ہے میں ان سے پوچھتا ہوں سجدہ خاک شفا،لکڑی پتھر یا فرش اور ٹاٹ پر کرنے میں کیا فرق پایا جاتا ہے ؟تم ٹاٹ اور چٹائی پر سجدہ کرتے ہو اسے شرک نہیں قراردیتے ہو لیکن شیعہ حضرات اگرپتھر اور خاک شفا پر سجدہ کریں تو یہ شرک ہے ؟
کیا جو شخص فرش اور چٹائی پر سجدہ کرتا ہے تو گویا اس کی عبادت کرتا ہے ؟تم لوگ شیعہ حضرات کو شرک کی نسبت دیتے ہو کیا انھیں سجدہ کرتے وقت نہیں دیکھتے کہ سجدہ میں وہ تین بار ”سبحان اللہ“ کہتے ہیں یا ایک بار ”سبحان ربی الاعلیٰ“
(پاک وپاکیزہ ہے وہ ذات)اور اس کی حمد وستائش پر غور نہیں کرتے ؟تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے تمہیں عربی الفاظ سے زیادہ وا قف ہونا چاہئے تمہیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ جس پر سجدہ کیا جاتا ہے اور جس کے لئے سجدہ کیا جاتا ہے ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟
اگر ہم کسی چیز پر سجدہ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اس کی عبادت کرنے لگے ہیں بلکہ سجدہ کی حالت میں ہم نہایت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھ اپنے خدا وند متعال کے سامنے سر نیازخم کرتے ہیں، کیا تم نے یہ دیکھا ہے کہ بت پرست اپنے سر کے نیچے بتوں کو رکھ کر ان کا سجدہ کرتے ہوں؟ نہیں بلکہ وہ اپنے بتوں کو اپنے سامنے رکھتے ہیں پھر ان کے سامنے اپنی پیشانی زمین پر ٹیکتے ہیں، یہاں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں نہ کہ ان چیزوں کی جس پر وہ اپنی پیشانیوں کورکھتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ پتھر پر سجدہ یا فرش پر سجدہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ ہم ان کا سجدہ کرتے ہیں بلکہ یہ تمام صرف خداوند عالم کے لئے ہوتے ہیں، ہاں فرق یہ ہے کہ ہمارے مذہب کے پیشوا اور رہبر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ زمین کی اجزاء (پتھر یا ایسی سجدہ گاہ جو مٹی یا پتھر سے بنی ہو )پر سجدہ کرو لیکن اہل سنت کے مذہب کے رہبر اور پیشوا (مثلاً ابوحنیفہ، امام شافعی وغیر ہ)کہتے ہی کہ اگر فرش پر نماز پڑھ رہے ہو تو اسی پر سجدہ کرو۔
یہاں پر اہل سنت حضرات یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ فرش پر سجدہ کیوں نہیں کرتے بلکہ خاک یا خاک کی انواع میں سے کسی ایک پر سجدہ کرتے ہو ؟
اس کا جواب یہی ہے: ”رسول اکرم صلی الله علیه و آله وسلم فرش پر سجدہ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ریت اور خاک پر سجدہ کیا کرتے تھے اور اس زمانہ کے تمام مسلمان بھی ریت اور مٹی پر سجدہ کرتے تھے آج ہم انھیں کی پیروی میں ریت اور مٹی پر سجدہ کرتے ہیں۔
ہاں بعض روایات کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے لباس پر سجدہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ انس بن مالک سے ایک روایت نقل ہوئی ہے۔
”کنا نصلي مع النبی صلی الله علیه و آله و سلم فیضع احدنا طرف الثوب من شدة الحر فی مکان السجود
“۔
”ہم لوگ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو بعض لوگ شدید گرمی کی وجہ سے سجدہ کے وقت مقام سجدہ پر اپنے لباس کا دامن رکھ دیا کرتے تھے“۔
اس روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت فرش پر سجدہ کرنے میں کوئی قباحت نہیںہے لیکن آیا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے بھی وقت ضرورت گرمی کی شدت کی وجہ سے فرش پر سجدہ کیا تھایا نہیں۔؟اس طرح کی کوئی روایت اس موضوع پر آپ کے سلسلے میں نہیں پائی جاتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر زمین کے اجزاء پر سجدہ کرنا شرک ہے تو ہمیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ جوان لوگوں نے آدم کے سامنے کیا تھا وہ بھی شر ک ہی تھا یا کعبہ کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا بھی شرک ہے ،بلکہ ان دونوں موارد پر تو شرک میں خاصی شدت پائی جاتی ہے کیونکہ فرشتوں نے تو جناب آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کیا تھا نہ کہ حضرت آدم پر اور اس طرح تمام مسلمان بھی کعبہ پر سجدہ نہیں کرتے بلکہ کعبہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔
اس کے باوجود کسی مسلمان نے یہ نہیں کہا کہ جناب آدم علیہ السلام کے سامنے یا کعبہ کی سمت سجدہ کرنا شرک ہے کیونکہ حقیقت سجدہ یعنی نہایت خضوع وخشوع کے ساتھ خداوند متعال کے حکم کے سامنے سر نیاز خم کرنا ہے اسی وجہ سے کعبہ کی سمت سجدہ کرنا خدا کے حکم سے خدا کا سجدہ کرنا ہے اور جناب آدم علیہ السلام کے سامنے بھی جناب آدم کا سجدہ اولا ً توحکم خدا تھا جس کی اطاعت کے لئے فرشتوں نے اپنی پیشانیاں خم کی تھیں دوسرے یہ کہ یہ سجدہ شکر الٰہی کے طور پر تھا اور اس بنیاد پر ہم سجدہ گاہ خاک شفایا لکڑی پر سجدہ تو کرتے ہیں لیکن یہ سجدہ خدا کے حکم کی بجاآوری کے لئے ہے اور ہمارا یہ سجدہ اس چیز پر ہے جو زمین کے اجزاء میں سے ہے جیسا کہ ہمارے مذہب کے راہنما وپیشوا نے فرمایا ہے کہ خدا کے سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کو زمین کے اجزاء میںسے کسی چیز پررکھو۔
۵۳۔امر بالمعروف کمیٹی کے صدر سے ایک شیعہ دانشور کا مناظرہ
ایک شیعہ عالم دین مدینہ میںامر بالمعروف کے رئیس کے پاس اپنے کسی کام سے گیا تو وہاں کمیٹی کے رئیس اور شیعہ عالم دین میں بعض شیعہ امور کے سلسلہ میں اس طرح بحث ہوئی:
رئیس: ”تم لوگ قبر پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے قریب نماز زیارت کس لئے پڑھتے ہو جب کہ غیر خدا کے لئے نماز پڑھنا شرک ہے ؟“
شیعہ مفکر: ”ہم پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے لئے نماز نہیں پڑھتے بلکہ نماز خدا کے لئے پڑھتے ہیں اور اس کا ثواب رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی روح کے لئے ہدیہ کرتے ہیں“۔
رئیس: ”قبروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے“۔
شیعہ مفکر: ”اگر قبروں کے پاس نماز پڑھنا شرک ہے تو کعبہ میں بھی نماز پڑھنا شرک ہے کیونکہ حجر اسماعیل علیہ السلام میں بھی جناب ہاجرہ ،اسماعیل اور بعض دوسرے پیغمبروں کی قبریں پائی جاتی ہیں، اور یہ بات اہل سنت اور اہل تشیع دونوں سے منقول ہے کہ بعض انبیاء کی قبریں وہاں پر موجود ہیں تمہارے کہنے کے مطابق حجر اسماعیل میں نماز پڑھنا شرک ہے جب کہ تمام مذاہب کے علماء (حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی وغیرہ)سب کے سب حجر اسماعیل میں نماز پڑھتے ہیں۔لہٰذا اس بنا پر قبروں کے قریب نماز پڑھنا شر ک نہیں ہے“۔
اس کمیٹی کے ایک شخص نے کہا: ”پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے نہی فرمایا ہے۔
شیعہ مفکر: ”یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سرار تہمت لگائی گئی ہے اگر قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہی کیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے تو لاکھوں اور کروڑوں زائرین کیوں ان کی مخالفت کرتے ہیں اور مسجد نبوی میں آپ کی قبر اور عمر و ابوبکر کی قبروں کے سامنے اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں؟“
اس سلسلہ میں چند روایتیں بھی نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے چند صحابیوں نے قبروں کے قریب نماز پڑھی ہے۔منجملہ صحیح بخاری
میں نقل ہوا ہے کہ عید قربان کے دن آنحضرت نے بقیع میں نماز پڑھی اور اس کے بعد آپ نے فرمایا:
”آج کے دن کی خاص عباد ت یہ ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور اس کے بعد واپس ہوں اور قربانی کریں اور جس نے اس طرح کیا اس نے گویا میری سنت پر عمل کیا“۔
اس روایت کے مطابق رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے قبروں کے قریب نماز پڑھی ہے لیکن تم لوگوں کو قبروںکے پاس نماز پڑھنے سے روکتے ہو کہ اسلام میں یہ چیز جائزنہیں ہے اگر اسلام سے تمہارا مطلب شریعت محمدی ہے تو صاحب شریعت حضرت محمد صلی الله علیه و آله وسلم نے خود بقیع میں نماز پڑھی ہے ہاں اس بات کی طرف توجہ رہے کہ آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم جب مدینہ میں وارد ہوئے تھے تو اس وقت بقیع قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔
اس بنا پر پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے نزدیک اور ان کی پیروی کرنے والوں کے نزدیک قبروں کے پاس نماز پڑھنا جائز ہے۔لیکن تم لوگ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی رائے کے خلاف قبروں کے نزدیک نماز پڑھنے سے منع کرتے ہو۔
اس سلسلہ میں ایک غم انگیز واقعہ
ڈاکٹر سید محمد تیجانی سماوی اہل سنت کے ایک ایسے مفکر ہیں جنھوں نے شیعیت اختیار کرلی وہ لکھتے ہیں:
”میں بقیع زیارت کے لئے گیا ہوا تھا اوروہاںکھڑا ہو کر اہل بیت علیہم السلام پر درود پڑ ھ رہا تھا کہ دیکھا ایک بوڑھا ضعیف اور ناتوان شخص رورہا ہے میں نے ا س کے گریہ سے سمجھ لیا کہ وہ شیعہ ہے تھوڑی ہی دیر بعد یہ شخص قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا کہ ناگہاں دیکھا ایک سعودی فوج کا آدمی اس کے پاس دوڑا ہوا آیا جس سے یہ پتہ چل رہا تھا کہ بہت ہی دیر سے وہ اس شیعہ کی ٹوہ میں لگا ہوا تھا آتے ہی اس نے اپنی اونچی ایڑی کے جوتے سے اسے اس طرح مارا کہ فوراًہی وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑ ا اور کچھ دیر کے لئے وہ بے ہوش ہو گیا اور اسی بے ہوشی کی حالت میں فوج کا آدمی اسے کچھ دیر تک مارتا اور برا بھلا کہتا رہا۔
اس بوڑھے کو دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور خیال کیا کہ وہ مر چکا ہے ، میری غیرت جوش میں آئی اور میں نے اس فوجی سے کہا:
”خدا خوش نہیں ہوگا اسے نماز پڑھنے کی حالت میں کیوں مار رہے ہو؟“
اس نے جھلاّ کر مجھ سے کہا: ”خاموش ہو جا ورنہ تیرا بھی یہی حشر ہوگا جو اس کا ہوا ہے“۔
میں نے اسی جگہ بعض زائرین کو دیکھا وہ کہہ رہے تھے۔”وہ جوتے ہی کا مستحق ہے کیونکہ اس نے قبر کے پاس نماز پڑھی ہے“۔
میں نے غصہ میں کہا: ”قبر کے پاس نماز پڑھنا کس نے حرام قرار دیا ہے ؟اور طویل گفتگو کے بعد میں نے کہا:
”اگربالفرض قبر کے پاس نماز پڑھنا حرام ہے تو نرمی سے منع کرنا چاہئے نہ کہ غصہ سے“۔
میں ایک بادیہ نشین کا واقعہ تمہارے لئے نقل کرتا ہوں۔
پیغمبر اسلام کا زمانہ تھا ایک بے حیا اور بے شرم بادیہ نشین نے آکر پیغمبر اسلام کے سامنے مسجد میں پیشاب کر دیا یہ دیکھ کر ایک صحابی اپنی شمشیر لے کر اسے قتل کرنے کے لئے بڑھا لیکن پیغمبر اسلام نے اسے سختی سے روکا اور کہا: ”اسے اذیت نہ دو ایک بالٹی پانی لا کر اس کے پیشاب پر ڈال دو تاکہ مسجد پا ک ہو جا ئے تم لوگوں کے امور کو آسان کرنے لئے بھیجے گئے ہو نہ کہ اذیت دینے کے لئے(تم میں جاذبیت ہونی چاہئے نہ کہ نفرت)
اصحاب نے پیغمبر کے حکم پر عمل کیا اس کے بعد آنحضرت نے بادیہ نشین کو بلایا اور اپنے قریب بٹھا کر بڑے ہی نرم لہجے میں اس سے کہا: ”یہ خدا کا گھر ہے اسے نجس نہیں کرنا چاہئے“۔
چنانچہ یہ سب دیکھ کر وہ بادیہ نشین اسی وقت مسلمان ہو گیا۔
کیا واقعی حرمین کے خدام کا اسی طرح سلوک ہونا چاہئے جس طرح وہ ایک بوڑھے اور نابینا سے پیش آتے ہیں اور کیا اس طرح اپنے اخلاق کو پیغمبر کا اخلاق کہہ کر لوگوں کے لئے اپنے کو نمونہ قرار ددے سکتے ہیں ؟
۵۴۔مظلومیت فاطمہ الزہرا علیہا السلام کیوں؟
امر بالمعروف کمیٹی کے ساتھ شیعہ علماء کے چند مناظرے بیان کئے جا چکے اور اب ہم چند دوسرے حصے بیان کر رہے ہیں توجہ فرمائیں۔
رئیس: ”قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس اذکار کے درمیان تم لوگ”السلام علیک ایھا المظلومة“کیوں کہتے ہو(اے مظلومہ تم پر سلام ہو)کس شخص نے فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا پر ظلم کیا ہے؟
شیعہ مفکر: ”فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں غم انگیز ستم کا واقعہ تمہاری کتابوں میں پایا جاتا ہے“۔
رئیس: ”کس کتاب میں؟“
شیعہ مفکر: ”کتاب ”الامامة والسیاسة“کے صفحہ نمبر ۱۳ پر جس کے مولف ابن قتیبہ دینوری ہیں۔
رئیس: ”ہمارے پاس اس طرح کی کوئی کتاب نہیں ہے“۔
شیعہ: ”میں اس کتاب کو دکان سے خرید کر تمہارے لئے لاوں گا“۔
رئیس نے میر ی اس پیش کش کو قبول کر لیا میں بازار جا کر کتاب ”الامامہ والسیاسة“خرید لا یا اور اس کے سامنے ج اول ، ص ۱۹ کھول کر رکھ دیا اور کہا اسے پڑھو اس صفحہ پر اس طرح لکھا ہوا تھا۔
”اس وقت ابو بکر ان لوگوں کی جستجو میں تھا جنھوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کیااورعلی علیہ السلام کے گھر میں پناہ لی تھی۔ابو بکر نے عمر کو ان لوگوں کے پاس بھیجا عمر علی علیہ السلام کے گھر کے پا س آکر بلند آواز سے علی علیہ السلام اور ان کے گھر میں جو بھی لوگ تھے انھیں بلایا اور کہا ابو بکر کی بیعت کے لئے گھر سے باہر نکل آو مگر وہ لوگ گھر سے باہر نہیں آئے تو عمر نے آگ لکڑی منگوائی اور کہا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے تم لوگ جلد سے جلد باہر آو ورنہ تم لوگوں کے ساتھ اس گھر کو آگ لگادوں گا۔
عمر کے بعض ساتھیوں نے کہا اس گھر میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
عمر نے کہا: ”ہوا کریں“۔
مجبور ہو کر حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ تمام لوگ گھر سے باہر نکل آئے۔
اسی صفحہ ( ۱۹) کے ذیل میں لکھا ہوا ہے کہ مرتے وقت ابو بکر نے بستر علالت پر کہا:
”کاش علی علیہ السلام کے گھر پر حملہ نہ ہوا ہوتااگر چہ انھوں نے ہم سے اعلان جنگ کیا تھا“۔
یہاں شیعہ نے وہابی رئیس سے کہا: ”ابو بکر کی بات پر خوب توجہ کرو مرتے وقت انھوں نے کس طرح افسوس اور پشیمانی کا اظہار کیا“۔
رئیس اس کتاب کے استدلال سے تلملا اٹھا اور کہنے لگا۔”اس کتاب کا مولف ابن قتیبہ شیعوں کی طرف مائل ہے“۔
شیعہ مفکر: ”اگر ابن قتیبہ مذہب تشیع کی طرف مائل ہے تو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے مولفین کے بارے میں کیا کہتے ہو جب کہ دونوں نے روایت کی ہے:
”فهجرته فاطمة و لم تکلمه فی ذلک حتی ماتت
“
”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مرتے وقت ابوبکر سے ناراض تھیں اور نفرت کرتی تھیں یہاں تک کہ دنیا کو خدا حافظ کیا“۔
اس سلسلہ میں صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۵۳ طبع مصر۔صحیح بخاری ج ۵ ص ۱۷۷ طبع الشعب (باب غزوة خبیر) ملاحظہ فرمائیں۔
۵۵۔خاک شفا اور سجدہ گاہ پر سجدہ کے بارے میں ایک مناظرہ
مصر کی ”الازہر “یونیور سٹی کے فارغ التحصیل اہل سنت کے یک عالم دین جن کا نام ”شیخ محمد مرعی انطاکی “تھا اور یہ شام کے رہنے والے تھے انھوں نے اپنی بہت ہی عظیم تحقیق کے بعد مذہب تشیع اختیار کر لیا، وہ اپنی کتاب ”لما ذا اخترت مذہب الشیعة“میں اپنے مذہب شیعہ اختیار کرنے کے سلسلہ میں تمام علل واسباب کے مدارک لکھتے ہیں۔
یہاں پر اہل سنت سے ان کا ایک مناظرہ نقل کر رہے ہیں جو خاک شفا پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں ہوا تھا ملاحظہ فرمائیں:
محمد مرعی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے چند اہل سنت ان کے گھر پر ان سے ملاقات کے لئے آئے جن میں ان کے کچھ جامعہ ازہر کے پرانے دوست بھی تھے۔گھر پر گفتگو کے دوران بات چیت یہاں تک پہنچ گئی۔
علماء اہل سنت: ”تمام شیعہ حضرات خاک شفا پر سجدہ کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ مشرک ہیں“۔
محمد مرعی: ”خاک شفا پر سجدہ کرنا شرک نہیںہے کیوںکہ شیعہ خاک شفا پر خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نہ کہ مٹی کا سجدہ کرتے ہیں البتہ تمہارے فکر میں اگر اس میں کوئی چیز ہے اور شیعہ اس کا سجدہ کرتے ہیں تو وہ شرک ہے لیکن شیعہ اپنے معبود خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نتیجہ میں وہ خدا کے سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے ہیں۔اس سے واضح یہ کہ حقیقت سجدہ، خدا کے سامنے خضوع وخشوع کا آخری درجہ ہے نہ کہ خاک شفا کے سامنے خضوع وخشوع ہے۔
ان میں سے ایک حمید نامی شخص نے کہا تمہیں اس چیز کی میں داد دیتا ہوں کہ تم نے بہت ہی اچھا تجزیہ کیا لیکن ہمارے لئے ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ تم لوگ (شیعہ)کیوں اس چیز پر مصر ہو کہ خاک شفا پر ہی سجدہ کیا جائے اور جس طرح مٹی پر سجدہ کرتے ہو اسی طرح دوسری تمام چیزوں پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟
محمد مرعی: ”ہم لوگ اس بنیاد پر خاک پر سجدہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک حدیث جو تمام فرقوں میں پائی جاتی ہے فرمایاہے:
”جعلت لی الارض مسجدا وطهورا
“
”زمین میرے لئے سجدہ گا ہ اور پاک وپاکیزہ قرار دی گئی ہے“۔
حمید:کس طرح تمام مسلمان اس نظریہ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں ؟“
محمد مرعی: ”جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اسی وقت آپ نے مسجد بنا نے کاحکم دیا کیا اس وقت اس مسجد میں فرش تھا؟“
حمید: ”نہیں فرش نہیں تھا“۔
محمد مرعی: ”بس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس وقت کے تمام مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا تھا؟“
حمید: ”مسلمانوں نے اس زمین پر سجدہ کیا تھا جس کا فرش خاک سے بنا ہوا تھا“۔
محمد مرعی: ”بعد رحلت پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ابو بکر ،عمر اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا؟کیا اس وقت مسجد میں فرش تھا؟“
حمید: ”نہیں فرش نہیں تھا۔ان لوگوں نے بھی مسجد کی زمین پر سجدہ کیا تھا“۔
محمد مرعی: ”تمہارے اس اعتراض کی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام نمازوں کے سجدے زمین پر کئے ہیں اس طرح تمام مسلمان نے آنحضرت کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی زمین پر ہی سجدہ کیا بس انھیں وجوہ کی بنا پر خاک پر سجدہ کرنا صحیح ہے“۔
حمید: ”ہمارا اعتراض یہ ہے کہ شیعہ صرف خاک پر سجدہ کرتے ہیں اور خاک زمین سے لی گئی ہے اسے سجدہ گاہ بنا دیا اور جس پر وہ اپنی پیشانیوں کو رکھتے ہیں اور سجدہ کے وقت اسی کو دوسری زمین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں“۔
محمد مرعی: ”اولاًیہ کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ہر طرح کی زمین پر سجدہ کرنا جائز ہے خواہ پتھر کا فرش ہو یا خاک کا فرش ہو۔ثانیا ً یہ کہ جہاں سجدہ کیا جائے وہ پاک ہو بس نجس زمین یا خاک پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اسی وجہ سے وہ مٹی کا ایک ٹکڑا جو سجدہ گا ہ کی شکل کا بنا یا جاتا ہے وہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ یہ پاک ہے اور اس پر سجدہ ہو سکتا ہے۔
حمید: ”اگر شیعوں کی مراد صرف پاک اور خاص مٹی پر سجدہ کرنا ہے تو کیوں اپنے ساتھ سجدہ گاہ رکھتے ہیں کیوں نہیں تھوڑی سے خاک اپنے پاس رکھتے ؟
محمد مرعی: ”اپنے ساتھ خاک رکھنے سے کپڑے وغیرہ گندے ہو سکتے ہیں کیونکہ خاک کی طبیعت ہے کہ اسے جہاں بھی رکھا جائے گا وہ اسے آلودہ کر دے گی شیعہ حضرات اسی وجہ سے اس خاک کو پانی میں ملا کر ایک خوبصور ت شکل کی سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اپنے ساتھ رکھنے میں زحمت نہ ہوا اور لباس گندہ نہ ہونے پائے۔
حمید: ”خا ک کے علاوہ بورئے اور قالین وغیر پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟
محمد مرعی: ”جیسا کہ میں نے کہا کہ سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سامنے آخری درجہ کا خشوع و خضوع کیا جائے، میں کہتا ہوں کہ خاک پر سجدہ کرنا خواہ وہ سجدہ گاہ ہو یا نرم خاک ہو خدا کے سامنے زیادہ خشوع و خضوعپر دلالت کرتا ہے کیونکہ خاک سب سے زیادہ حقیر چیز ہے اور ہم اپنے جسم کا سب سے عظیم حصہ (یعنی پیشانی)کوسب سے حقیر اور پست چیز پر سجدہ کے وقت رکھتے ہیں تاکہ خدا کی عبادت نہایت خشوع و خضوعسے کریں۔اسی وجہ سے مستحب ہے کہ جائے سجدہ ،پیر اور اعضائے بدن سے نیچی ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع پردلالت کرے اور اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ ناک کی نوک خاک میں آلودہ ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع کا اظہار ہو۔خاک کے ایک ٹکڑے (سجدہ گاہ)پر سجدہ کرنا اسی وجہ سے تمام چیزوں سے بہتر ہے اگر کوئی انسان اپنی پیشانی کو ایک بہت ہی قیمتی سجدہ گاہ پر سونے چاندی کے ٹکڑے پرسجدہ کرے تو اس سے اس کے خضوع وخشوع میں کمی آجاتی ہے ، اور کبھی بھی ایسابھی ہوسکتا ہے کہ بندہ خدا کے سامنے اپنے کو چھوٹا اور پست شمار نہیں کرے گا۔
اسی وضاحت کے ساتھ کہ آیا کسی شخص کے خشک مٹی (سجدہ گاہ) پر سجدہ کرنے سے تاکہ اس کا خضوع وخشوع خدا کے نزدیک زیادہ ہو جائے وہ مشرک اور کافر ہوجائے گا؟لیکن قالین ،سنگ مرمر اور قالین و فرش وغیرہ پر سجدہ کرنا خضوع وخشوع میں زیادتی کرتا ہے اور تقرب خدا کا سبب بنتا ہے ؟ اس طرح کا تصور کرنے والا شخص غلط اور گھٹیا فکر کامالک ہے“۔
حمید: ”یہ کیاہے جو شیعوں کی سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے؟“
محمد مرعی: ”اولاً یہ تمام سجدہ گاہوں پر لکھا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسی ہیں جن پر کچھ نہیں لکھا ہوتا ہے ثانیاً بعض پر لکھا بھی ہوتا ہے تو وہ ”سبحان ربی الاعلیٰ وبحمده
‘ ‘ہے جو ذکر سجدہ کی طرف اشارہ کرتاہے اور بعض سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ مٹی کربلا سے لی گئی ہے تمہیں خدا کی قسم ہے آیا یہ لکھے ہوئے کلمات موجب شرک ہیں؟اور آیا یہ لکھے ہوئے کلمات مٹی کو مٹی ہونے سے خارج کردیتے ہیں؟
حمید: ”نہیں یہ ہرگز موجب شرک نہیں ہے اور اس پر سجدہ کرنے میں عدم جواز پر کوئی دلیل بھی نہیںہے لیکن ایک دوسرا سوال یہ کہ خاک شفا کیا خصوصیت رکھتی ہے کہ اکثر شیعہ خاک شفا پر ہی سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟“
محمد مرعی: ”اس کا راز یہ ہے کہ ہمارے ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے روایت ہے کہ خاک شفا ہر خاک سے افضل و برتر ہے۔امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”السجود علی تربة الحسین یخرق الحجب السبع
“۔
”خاک شفا پر سجدہ کرنے سے ساتھ حجاب ہٹ جاتے ہیں“۔
یعنی نماز قبولیت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور آسمان کی طرف جاتی ہے نیز یہ بھی روایت ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ میں تذلل اور انکساری کی وجہ سے صرف خاک شفا پر سجدہ کرتے تھے۔
اس بنا پر خاک شفا میں ایک ایسی فضیلت ہے جو دوسری خاک میں نہیں پائی جاتی ہے“۔
حمید: ”آیا خاک شفا پر سجدہ کرنے سے نماز قبول ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اور کسی مٹی پر سجدہ کرنے سے نماز قبول نہیں ہوگی ؟
محمد مرعی: ”مذہب شیعہ کہتا ہے اگر آپ نماز کے شرائط صحت سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے تو نمازباطل ہے اور قبول نہیں ہوگی لیکن اگرنماز کے تمام شرائط پائے جاتے ہیں اور اس کا سجدہ خاک شفا پر کیا گیا ہو تو نماز قبول بھی ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ اہمیت کی بھی حامل ہوگی اور اس کا ثواب زیادہ ہو جائے گا۔
حمید: ”کیا زمین کربلا تمام زمینوں حتی مکہ اور مدینہ کی زمینوں سے بھی افضل وبرتر ہے تاکہ یہ کہا جائے کہ خاک شفا پر نماز پڑھنا تمام خاک سے افضل و برتر ہے؟“
محمد مرعی: ”اس میں کیا اعتراض ہے کہ خدا وند عالم نے خا ک کربلا ہی میںاس طرح کی خصوصیت قرار دی ہو“۔
حمید: ”زمین مکہ جو جناب آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک مقام کعبہ ہے اور مدینہ کی زمین جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک مدفون ہے کیا ان کا مقام ومنزلت کربلا کی زمین سے کمتر ہے؟ یہ بڑی عجیب بات ہے کیا حسین علیہ السلام اپنے جد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے افضل و برتر ہیں؟
محمد مرعی: ”نہیں ہر گز نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت ومنزلت ان کے جد رسول کی وجہ سے ہے لیکن خاک کربلا کو فضیلت حاصل ہونے کے سلسلے میں یہ راز ہے کہ امام حسین علیہ السلام اس سر زمین پر اپنے نانا کے دین کی راہ میں شہید ہوئے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اور خاندان کے لوگوں نے شریعت محمد ی کی حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلہ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں اس وجہ سے خداوند عالم نے انھیں تین خصوصیتیں عنایت فرمائی ہیں۔
۱ ۔آپ کے مرقد شریف میں گنبد کے نیچے قبولیت دعا کی ضمانت۔
۲ ۔تمام دیگر ائمہ علیہم السلام آپ کی نسل سے ہیں۔
۳ ۔آپ کی خاک (خاک کربلا)میں شفا ہے۔
آیا اس طرح خاک کربلا کو خصوصیتیں عطا کرنا کوئی اعتراض کا مقام ہے؟ کیا زمین کربلا کو زمین مدینہ سے افضل کہنے کا یہ مطلب ہوا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے نانا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر ہیں؟اور تمہیں اس طرح اعتراض کرنے کا موقع مل جائے؟نہیں بلکہ مطلب اس کے بر عکس ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کا احترام ان کے جد رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا احترام ہے اور رسول اکرم کا احترام خدا کا احترام ہے“۔
جب یہ بات یہاں تک پہنچی تو انھیں میں سے ایک شخص جو قانع ہو چکا تھا وہ خوش ہو کر وہاں سے اٹھا اور میری تعریف و تمجید کرنے لگا اور اس نے شیعوں کی کتابوں کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا:
”تمہاری باتیں نہایت سنجیدہ اور مستحکم ہیں ابھی تک میں خیال کررہا تھا کہ شیعہ امام حسین علیہ السلام کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر سمجھتے ہیں۔آج مجھے حقیقت معلوم ہوئی، تمہارے اس حسین بیان پر تمہار ا بہت شکر گزار ہوں۔آج کے بعد سے میں بھی خاک شفا کی سجدہ گاہ اپنے ساتھ رکھو ںگا اور اس پر نماز پڑھوں گا۔
۵۶۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اگر کوئی رسول ہوتا تو وہ کون ہوتا؟
ایک مرجع تقلید (مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی ) نے فرمایا: ”جب میں مکہ میں تھا تو ”باب السلام“کے نزدیک کتاب خریدنے ایک کتاب کی دوکان پر گیا تو وہاں بہت ہی پڑھے لکھے اہل سنت کے عالم سے میری ملاقات ہوگئی جب اس نے مجھے پہچان لیا کہ میں ایک شیعہ عالم ہوں تو اس نے میرا بہت ہی اچھی طرح احترام کیا اور مجھ سے چند سوالات کئے جن میں سے چند خاص خاص سوالات عرض کرتا ہوں۔اس نے مجھ سے یہ سوال کیا:
تم اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:
”لوکان نبی غیری لکان عمر
“۔
”اگر میرے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے“۔
میں نے کہا: ”پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے ہر گز اس طرح کی کوئی حدیث نہیں بیان کی ہے یہ حدیث جھوٹی اور جعلی ہے“۔
اس نے کہا: ”کیا دلیل ہے ؟“
میں نے کہا: ”تم حدیث منزلت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟آیا یہ حدیث ہمارے اور تمہارے درمیان مسلم ہے یا نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:
”یا علی انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی
“
”اے علی علیہ السلام !تمہارے نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا“۔
اس نے کہا: ”ہماری نظر میں اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے“۔
میں نے کہا: ”اس حدیث کی دلالت التزامی سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر پیغمبر اکرم کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا تو وہ قطعی اور یقینی طور پر علی علیہ السلام ہوتے اس حدیث کی بنا پر جس کا تم اعتراف کرتے ہو کہ یہ یقینی اور قطعی ہے دوسری حدیث خود بخود بے بنیاد اور محض جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے“۔
وہ اس بات کے سامنے بے بس اور لاچار ہو گیا اور حیرت زدہ ہو کر خاموشی اختیار کر لی۔
۵۷۔متعہ (وقتی شادی) کے جواز پر ایک مناظرہ
مرحوم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد اللہ شیرازی فرماتے ہیں: ”اس نے اپنا دوسرا سوال اس طرح پیش کیا:“
کیا تم شیعہ حضرات متعہ کو جائز جانتے ہو؟
میں نے کہا: ”ہاں“۔
اس نے کہا: ”کس دلیل کی بنا پر؟“
میں نے کہا: ”عمر ابن خطاب کی بات کی بنا پرکہ عمر ابن خطاب نے کہا تھا:
”متعتان محللتان فی زمن الرسول وانا احرمھما“
”دو متعہ رسول خدا کے زمانہ میں حلال تھے اور میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا ہوں“۔
اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے۔
”متعتان کانتا علی عهد رسول الله وانا انهی عنهما واعاقب علیهما متعة الحج ومتعة النساء
“۔
”رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانہ میں دو متعہ پائے جاتے تھے لیکن میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور ان دونوں کے انجام دینے والوں کی سزادوں گا وہ دومتعہ ۔۔۔متعہ حج اور متعہ نساء ہے“۔
حضرت عمر کی اس بات (روایت وقرآن کے دلائل کو چھوڑ تے ہوئے )سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں متعہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے زمانے میں جائز تھے لیکن اسے عمر نے حرام قرار دیا ہے۔میں تم سے پوچھتا ہوں کہ عمر نے کس وجہ سے ان کو حرام قرار دیا آیا وہ رسول اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کے بعد پیغمبر تھے اور انھیں خدا وند متعال نے حکم دیا کہ تم ان دونوں کوحرام کر دو یا عمر پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی؟ کسی دلیل سے انھوں نے متعہ کو حرام قرار دیا جب کہ یہ بھی ہے:
”حلال محمد حلال الی یوم القیامة وحرامه حرام الی یوم القیامة
“۔
”حلال محمد قیامت تک کے لئے حلال اورحرام محمد قیامت تک کے لئے حرام ہے“۔
آیا اس طرح کی تبدیلی ایک قسم کی بدعت نہیں ہے جب کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا: ”ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کی وجہ سے انسان جہنم میں جھونکا جائے گا “اس وجہ سے اب مسلمان کس دلیل سے عمر کی بدعت کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بات کو چھوڑ دیتے ہیں؟“
وہ اس طرح کی باتوں کے سامنے بے بس و لاچار ہو کر خاموش ہو گیا۔
مولف کا قول: ”اس سلسلہ میں بہت سی باتیں ہیں کہ لیکن اس بات کا اصلی مقام فقہی کتابیں ہیں۔
سورہ نساء کی ۲۴ ویں آیت متعہ کے جائز ہونے پر ایک دلیل ہے صرف یہاں پر متعہ کے بارے میں امام علی علیہ السلام سے ایک روایت نقل کرنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
”ان المتعة رحمةٌ رحم الله بها عباده ولولانهی عمر مازنی الا شقی
“۔
”یقینا متعہ ایک ایسی رحمت ہے جس کے ذریعہ خدا وند عالم نے اپنے بندوں پر رحم کیا ہے اور اگر اسے عمر حرام نہ کرتے تو کسی بد بخت کے علاوہ زنا کا کوئی مرتکب نہ ہوتا۔
۵۸۔ایک شیعہ دانشور کا عیسائی دانشورسے مناظرہ
قرآن کے سورہ ”عبس“کی پہلی اور دوسری آیت میں آیا ہے:
”(
عَبَسَ وَتَوَلَّی اٴَنْ جَائَهُ الْاٴَعْمَی
)
“
”اس نے منھ بسور لیا اور پیٹھ پھیر لی کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا“۔
کتب اہل سنت میں ایک روایت اس آیت کے شان نزول کے بارے میں نقل ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم قریش کے سرداروں سے باتیں کررہے تھے تاکہ انھیں اسلام کی طرف دعوت دے سکیں ان کے درمیان ایک نابینا مومن فقیر بھی تھا جس کانام ”عبد اللہ بن مکتوم“تھا اس نےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب آکر چند بار کہا کہ یا رسول اللہ مجھے بھی قرآنی آیات کی تعلیم دیجئے۔پیغمبر اس پرناراض ہو گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا تو خداوند متعال نے سورہ عبس کے شروع کی آیت کے ذریعہ پیغمبر کی اس فعل پر سر زنش کی۔
لیکن شیعہ روایت کے مطابق سورہ عبس کی شروع کی آیتیں عثمان کے لئے نازل ہوئی ہیں اور انھیں خدا کی طرف سے ڈانٹا گیا ہے کہ نابینا فقیر سے کیوں بے اعتنائی کی ہے۔
مذکورہ بات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذیل اس مناظرہ کو ملاحظہ فرمائیں جو ایک شیعہ مفکر اور عیسائی عالم کے درمیان ہوا ہے۔
عیسائی عالم: ”ہمارے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام تمہارے پیغمبر محمد صلی الله علیه و آله وسلم سے بہتر ہیں اس لئے کہ تمہارے پیغمبر تھوڑے سے بد اخلاق تھے کیونکہ انھوں نے ایک نابینا فقیر سے جھنجھلا کر اسے ڈانٹا اور اس کی طرف سے منہ موڑ لیا جیسا کہ سورہ عبس کی شروع کی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس قدر خوش اخلاق تھے کہ جب بھی کبھی کسی مبروص کو دیکھ لیتے تھے تو اس پرناراض نہیں ہوتے تھے بلکہ اسے شفا دے دیتے تھے“۔
عیسائی عالم: ”ہم شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ سورہ عثمان کی بد اخلاقی پر نازل ہوا ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کا فروں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملتے تھے ہدایت یافتہ مومنین کی تو الگ بات ہے جیسا کہ تم نے قرآن کا نام لیا اسی قرآن میں خدا وند متعال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں ارشادفرماتا ہے:
”(
انک لعلی خلق عظیم
)
“
”بلا شک تم عظیم اخلاق کے درجہ پر فائز ہو“۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
”(
وما ارسلناک الا رحمة للعالمین
)
“
”اور ہم نے تمہیں صرف عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
عیسائی عالم: ”یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ بات میں نے بغداد کے ایک مسلمان خطیب سے سنا ہے“۔
شیعہ مفکر: ”ہم شیعوں کے نزدیک یہی مشہور ہے جو میں نے کہا آیت سورہ عبس عثمان کے لئے نازل ہوئی ہیں لیکن بعض پست اور بنی امیہ کے زر خرید راویوں نے عثمان کی عزت محفو ظ رکھنے کے لئے ان آیتوں کی نسبت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی طرف دیدی ہے۔بعبارت دیگر سورہ عبس کی آیت میں تصریح نہیں ہوئی ہے کہ جس نے اس نابینا سے منہ موڑا تھا وہ شخص کون تھا؟ایک قرینہ کے مطابق جیسے سورہ قلم کی چوتھی آیت اور سورہ انبیاء کی ۱۰۷ ویں آیت میں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سورہ عبس کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”سورہ عبس بنی امیہ کے ایک شخص کے سلسلے میں نازل ہوا جو آنحضرت کے ساتھ ساتھ رہا اور اس نے جب ابن ام مکتوم نابینا کو دیکھا تو اس پر ناراض ہو ا اور اس سے دور بھاگنے لگا اور اس نے اپنا منہ موڑ لیا۔
یہ سن کر عیسائی عالم بے بس ہو گیا اور اس کے بعد کچھ نہیں کہا۔
۵۹۔شیخ مفید کا قاضی عبد الجبار سے مناظرہ
شیعوں کے بہت ہی برجستہ اور مشہور معروف عالم دین محمد بن محمد نعمان جو لوگوں کے درمیان شیخ مفید کے نام سے مشہور ہوئے۔
وہ ذی الحجہ میں ۳۳۶ یا ۳۳۸ ھ ق میں ”سوبقہ“نام کے ایک دیہات (جو بغداد سے دس فرسخ شمال میں واقع”عکبرا“کے علاقہ میں واقع ہے ) میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے باپ (جو معلم تھے) کے ساتھ بغداد آئے وہاں آکر تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھایا،یہاں تک کہ عظیم علماء میں شما ر کئے جانے لگے اور مسلمانوں کے تمام فرقوں میں مقبول ہوگئے۔
علامہ حلی، شیخ مفید کے بارے میں کہتے ہیں: ”وہ شیعوں کے ایک جلیل القدر عالم اور بڑے بڑے علماء کے استاد ہیں۔ان کے بعد آنے والے تمام لوگوں نے ان کے علم سے استفادہ کیا۔
ابن کثیر شامی کتاب ”البدایة النہایة“میں کہتے ہیں: ”شیخ مفید شیعوں کے رہبر ،مصنف اور شیعیت کا دفاع کرنے والے تھے ان کے درس میں طرح طرح کے مذاہب کے علماء شرکت کرتے تھے“۔
شیخ مفید نے مختلف فرقوں پر دوسو سے زیادہ کتابیں تالیف کی ہیں معروف نسب شناس نجاشی ان کی ۱۷۰ کتابوں سے زیادہ کانام لکھتے ہےں
،شیخ مفید کی وفات شب جمعہ میں ماہ مبارک رمضان سال ۴۱۳ ھ ق کو بغداد میں ہوئی اور آپ کی قبر کاظمین میں امام محمد تقی علیہ السلام کی قبر کے قریب مسلمانوں کے ایک قبر ستان میں واقع ہے۔
شیخ مفید فن مناظرہ میں بہت ہی مستحکم اور مضبوط تھے، ان کے مناظروں میں سے کچھ ٹھوس اور مستدل مناظرے جو کتابوں میں نقل ہوئے ہیں ان میں سے ایک مناظرہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسی مناظرہ کی وجہ سے شیخ مفید کویہ لقب ملا ہے۔
شیخ مفید کے زمانہ میں اہل سنت کا ایک بہت ہی عظیم عالم دین جسے لوگ قاضی ”عبد الجبار“ کے نام سے جانتے تھے جو بغداد میں در س دیا کرتے تھے، ایک روز قاضی عبد الجبار در س کے لئے بیٹھے تھے اور تمام شیعہ سنی شاگرد بھی اس کے اس درس میں موجود تھے اس دن شیخ مفید بھی درس میں حاضر ہوئے اور آکر چوکھٹ پر بیٹھ گئے۔
قاضی نے شیخ مفید کو اب تک نہیں دیکھا تھا لیکن انھوں نے ان کے اوصاف سن رکھے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد شیخ مفید نے قاضی کی طرف دیکھ کر کہا:
”آیا مجھے ان دانشوروں کے سامنے اجازت دیتے ہو کہ میں آپ سے ایک سوال کروں؟“
شیخ مفید: یہ حدیث جس کے بارے میں شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر نے صحرائے عرب غدیر میں علی علیہ السلام کے لئے فرمایا:
”من کنت مولاه فهذا علی مولاه
“۔
جس کا میں مولا ہوں پس اس کے علی مولا ہیں“۔
کیا یہ صحیح ہے یاشیعوں نے گڑھ لی ہے ؟
قاضی: ”یہ روایت صحیح ہے“۔
شیخ مفید :اس روایت میں کلمہ مولا سے کیا مراد ہے ؟“
قاضی: ”مولا سے مطلب سر پرست اور اولویت ہے“۔
شیخ مفید: اگر اسی طرح ہے تو پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے فرمان کے مطابق علی علیہ السلام دوسرے لوگوں کے سرپرست اور سب پر اولویت رکھتے ہیں“۔
اب اس حدیث کے بعد شیعہ اور سنی کے درمیا ن اختلاف اور دشمنی کیوں ہے ؟“
قاضی: ”اے بھائی ! یہ حدیث” غدیر“ روایت ہے لیکن خلافت ابو بکر ”درایت“اور امر مسلم ہے اور عاقل شخص روایت کی خاطر درایت کو ترک نہیں کرتا“۔
شیخ مفید: تمام حدیث کے بارے میں کہتے ہو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”یا علی حربک حربی وسلمک سلمی
“۔
”اے علی علیہ السلام ! تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے“۔
قاضی: ”یہ حدیث صحیح ہے“۔
شیخ مفید:اس حدیث کی بنیاد پر جن لوگوں نے جنگ جمل شروع کی جیسے ،طلحہ،زبیر ،عائشہ وغیرہ علی علیہ السلام سے جنگ کی اس حدیث کی رو سے (جب کہ تمہارا یہ بھی اعتراف ہے کہ حدیث صحیح ہے) تو ان لوگوں نے گویا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے جنگ کی اور یہ لوگ کافر ہوئے“۔
قاضی: ”اے بھائی!طلحہ وزبیر وغیرہ نے توبہ کر لی تھی“۔
شیخ مفید:جنگ جمل درایت اور قطعی ہے لیکن یہ جنگ کرنے والوں نے توبہ کی یہ روایت اور ایک سنا ہوا قول ہے اور تم نے خود ہی کہا ہے کہ درایت کو روایت پر قربان نہیں کرنا چاہئے او ر عاقل شخص درایت کو روایت کی وجہ سے ترک نہیں کرتا ہے“۔
قاضی: ”اس سوال کا جواب دینے سے بے بس ہو گیا اور ایک لمحہ بعد اس نے چونک کر اپنا سر اٹھا یا اور کہا ”تم کون ہو“
شیخ مفید : ”میں آپ کا خادم محمد بن محمد نعمان ہوں“۔
قاضی ، اس وقت اپنی جگہ سے اٹھے اور شیخ مفید کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنی جگہ بٹھا کر ان سے کہا:
”انت المفید حقاً “تم حقیقت میں مفید ہو“۔
بزم کے تمام علماء قاضی کی اس بات سے رنجیدہ ہوئے اور کافی شور وغل مچایا ،قاضی نے ان لوگوں سے کہا: ”میں اس شیخ مفید کا جواب دینے میں بے بس ہو گیا تم میں سے جو بھی ان کا جواب دے سکے وہ اٹھے اور بیان کرے“۔
ایک آدمی بھی نہیں اٹھا اس طرح شیخ مفید کامیاب ہوگئے اور اسی بزم سے ان کا لقب مفید ہوگیا جو تمام لوگوں کی زبان پر آج تک جاری ہے۔
۶۰شیخ مفید کا عمر بن خطاب سے (عالم خواب میں) مناظرہ
ہم قرآن میں سورہ توبہ کی ۴۰ ویں آیت میں پڑھتے ہیں:
”(
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ اٴَخْرَجَهُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ هُمَا فِی الْغَارِ إِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاٴَنزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَیْهِ وَاٴَیَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا
)
“
”اگر تم رسول کی مدد نہیں کروگے تو اللہ نے ان کی مدد کی جب کفار نے انھیں مکہ سےنکال دیا، حالانکہ وہ دو میں سے ایک تھے جب وہ دونوں غار میں تھے اوروہ اپنے ہم سفر سے کہہ رہے تھے غم زدہ نہ ہو، خدا ہمارے ساتھ ہے اس وقت خدا نے اپنے سکینہ (سکون)کو ان (رسول )پر نازل کیا اور ان کی ایسے لشکر سے تائید کی جسے تم نے نہیں دیکھا“۔
علمائے اہل سنت اس آیت کو فضائل ابو بکر کے لئے دلیل مانتے ہیں اور ابو بکر کو رسول اکرم کا یار وفادار جانتے ہیں اور ان کی خلافت کی تائید کے لئے اس آیت کا سہارا لیتے ہیں۔
نیز اہل سنت کے شعراء بھی اسی آیت کا سہارا لیتے ہوئے ابو بکر کی ستائش کرتے ہیں۔
مثلاًسعدی کہتا ہے:
ای یار غار سید و صدیق وراھبر
مجموعہ فضائل و گجنینہ صفا
مردان قدم بہ صحبت یاران نھادہ اند
لیکن نہ ھمچنان کہ تو در کام اژدھا
(”اے یار غار !سردار و صدیق و رہبر! اے مجموعہ فضائل اور پاکیزگی و صفا کے مرکز! لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے ہیں لیکن نہ اس طرح کہ آپ نے ازدہا کے منھ اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے“)
اب مذکورہ بالا مطلب کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ذیل میں شیخ مفید علیہ الرحمة کا (جن کی زندگی کے حالات گزر چکے) ایک مناظرہ نقل ہوا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں:
علامہ طبرسی کتاب ”احتجاج “میں اور کراجکی ”کنزالفوائد“میں شیخ ابو علی حسن بن محمد رقی سے نقل کرتے ہیں کہ شیخ مفید نے فرمایا: ”ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ راستہ چل رہا ہوں چلتےچلتے میری نظر لوگوں پڑی تو دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں اور وہ ان لوگوں کو قصہ سنا رہا ہے میں نے پوچھا وہ مرد کون ہے؟”لوگوں نے کہا عمر بن خطاب ہیں“۔
میں حضرت عمر کے قریب گیا تو دیکھا ایک شخص ان سے بات کر رہا ہے لیکن میں ان کی باتوں کو نہیں سمجھ پارہا ہوں ان لوگوں کی بات کاٹ کر میں نے کہا: ”مجھے بتاو کہ آیہ غار(ثانی اثنین إذھما فی الغار)سے ابو بکر کی برتری کی کیا دلیل ہے“۔
عمر نے کہا: ”اس آیت میں ایسے چھ نکات ہیں حضرت ابو بکر کی فضیلت کی حکایت کرتے ہیں“، ان چھ نکتوں کو شمار کر نا شروع کیا:
خدا وند متعال نے قرآن میں (سورہ توبہ، آیت ۴۰ ) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب کیا ہے اور ابو بکر کو ان کے بعد دوسرا شخص قرار دیا ہے۔(ثانی اثنین)
۲ ۔خدا وند متعال نے ان دونوں (پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم اور ابوبکر)کو ایک ساتھ اور ایک جگہ خطاب کیا ہے یہ خود ان دونوں کے تعلقات کی حکایت ہے۔ ((
اذهما فی الغار
)
)
۳ ۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیت میں ابو بکر کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رفیق کہہ کر خطاب کیا ہے جو خود ابو بکر کے رتبہ اور منزلت کی حکایت کرتا ہے۔ ((
اذیقول لصاحبه
)
)
۴ ۔خدا وند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عشق ومحبت کی وجہ سے ابو بکر کو خبر دی کہ مذکورہ آیت کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوبکر سے کہا:((
ولا تحزن
)
)غمگین نہ ہو۔
۵ ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے کہا: ”خدا وند متعال ہم دونوں کا برابر کا ہمدرد ہے اور ہماری طرف سے دفاع کرنے والا ہے۔ ((
ان الله معنا
)
)
۶ ۔خداوند متعال نے اس آیت میں ابو بکر کے لئے سکینہ (سکون قلب) نازل ہونے کی خبر دی ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ چین و سکون میں تھے وہ سکینہ کے نازل ہونے کے محتاج نہیں تھے: ((
فانزل الله سکینته علیه
)
)
یہ چھ نکتے ابو بکر کی فضیلت کو ثابت کررہے ہیں کہ کوئی شخص ان کے رد کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔
شیخ مفید کہتے ہیں: ”سچ مچ تم نے ابوبکر سے اپنی رفاقت اور دوستی کا حق ادا کیا لیکن اب میں خدا کی مدد سے ان چھ نکتوں کا جواب اس طرح دے رہا ہوں جیسے آندھی کی تیز ہوا راکھ کو اُڑا لے جاتی ہے۔
۱ ۔ابوبکر کو اس آیت میں دوسرا شخص قرا رد ینا ان کی فضیلت نہیں ہے کیونکہ مومن مومن کے ساتھ اور اسی طرح مومن کافر کے ساتھ ایک جگہ رہ سکتے ہیں اور جب انسان ان دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو کہے گا ان دونوں میں دوسرا (ثانی اثنین)
۲ ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابوبکر کا ایک ساتھ ذکر کرنا بھی ابوبکر کی فضیلت پر دلالت نہیں کرتا ہے جیسا کہ پہلی دلیل میں کہا کہ ایک جگہ اکٹھا ہونا اچھائی پر دلیل نہیں ہے بہت سے مواقع پر مومن اور کافر ایک جگہ اکٹھا ہوتے ہیں جیسے مسجد پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم جو غار ثور سے نہایت ہی بافضل ہے وہاں پر بھی مومن اور منافق ایک ساتھ جمع ہوتے تھے۔اسی لئے ہم قرآن میں سورہ معارج کی ۳۶ ویں اور ۳۷ آیت پڑھتے ہیں۔
”(
فَمَالِ الَّذِینَ کَفَرُوا قِبَلَکَ مُهْطِعِینَ عَنْ الْیَمِینِ وَعَنْ الشِّمَالِ عِزِینَ
)
“
”پس ان کافروں کو کیا ہوا ہے جو تمہارے پاس جلدی جلدی داہنے بائیں سے گروہ در گروہ آتے ہیں اور اسی طرح کشتی نوح میں پیغمبر ،شیطان اور تمام جانورایک جگہ جمع ہو گئے تھے“۔
غرض ایک جگہ جمع ہونا دلیل فضیلت نہیں ہے۔
۳ ۔لیکن مصاحب ہونے کے بارے میں یہ بھی فضیلت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ یہاں پر مصاحب ہمراہ کے معنی میں ہے بہت سے موقع پر کافر مومن کے ہمراہ ہوتا ہے جیسا کہ خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
”(
قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ یُحَاوِرُهُ اٴَکَفَرْتَ بِالَّذِی خَلَقَکَ مِنْ تُرَاب
)
“
”اس سے (کافر)اس کے (مومن)دوست نے بات کے درمیان کہا کیا تو اس کا انکار کررہا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا؟“
۴ ۔یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے فرمایا: ””لا تحزن “غمگین نہ ہو “یہ ابو بکر کی خطا پر دلیل ہے نہ کہ ان کی فضیلت پر کیونکہ یہ حزن یا اطاعت کی وجہ سے تھا یا گناہ تھا اگر اطاعت تھا تو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کبھی اس کے لئے منع نہ کرتے پس پتہ چلا گناہ تھا جس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا۔
۵ ۔یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”ان اللہ معنا“(خدا ہمارے ساتھ ہے )اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کے لئے فرمایا ہے نہیں بلکہ اس سے مراد خود تنہا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے جیسا کہ خدا وند متعال نے اپنے لئے لفظ جمع استعمال کیا ہے۔
”(
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون
)
“
”ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں“۔
۶ ۔یہ کہ تم نے کہا کہ سکینہ اور آرام ابو بکر پر نازل ہوا آیت کا ظاہری سیاق اس کا مخالف ہے کیونکہ سکینہ اس شخص پر نازل ہوا جس کی مدد کے لئے خداوند متعال نے نامرئی (نہ دکھائی دینے والا) لشکر روانہ کیا اور یہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔
اور اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ دونوں(سکینہ اور نامرئی لشکر)ابو بکر کے لئے تھا تو یہاں چاہئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت سے خارج کردو۔
بس اس سے معلوم ہوا کہ سکینہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا کیونکہ تنہا رسول ہی تھے جو غار میں اس چیز کے لئے مناسب تھے لیکن دوسری جگہوں پر پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم کے ساتھ ساتھ مومنین پر بھی سکینہ نازل کیا گیا ہے ان کا الگ الگ ذکر پایا جاتا ہے۔جیسا کہ سورہ فتح آیت ۲۶ پڑھتے ہیں:
”(
فَاٴَنْزَلَ اللهُ سَکِینَتَهُ عَلَی رَسُولِهِ وَعَلَی الْمُؤْمِنِینَ
)
“
بہتر ہے کہ اس آیت سے اپنے دوست کی فضیلت ثابت نہ کرو تو بہتر ہے۔
شیخ مفید کہتے ہیں اس کے بعد عمر میرا جواب نہ دے سکا اور لوگ اس سے دور بھاگے اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔
____________________
(۱) سورہ آل عمران آیت ۱۶۹۔