مناظرات پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

مناظرات پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 0%

مناظرات پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

مناظرات پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

مؤلف: استاد محمدی اشتہاردی
زمرہ جات:

مشاہدے: 4470
ڈاؤنلوڈ: 3486

مناظرات پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 7 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4470 / ڈاؤنلوڈ: 3486
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

مناظرات پیامبر اعظم (ص)

استاد محمدی اشتہاردی

مترجم: اقبال حیدر حیدری

پانچ گروہوں کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مناظرہ( ۱ )

۲۵ افراد پر مشتمل اسلام مخالفوں کے پانچ گروہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ پیغمبر کے پاس جاکر مناظرہ کریں۔

ان گروہوں کے نام اس طرح تھے: یہودی، عیسائی، مادّی، مانُوی اور بت پرست۔

یہ لوگ مدینہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چاروں طرف بیٹھ گئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ہی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو بحث کا آغاز کرنے کی اجازت دی۔

یہودی گروہ نے کہا:

”ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”عزیر“ نبی( ۲ ) خدا کے بیٹے ہیں، ہم آپ سے بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہیںاور اگر اس مناظرہ میں ہم حق پر ہوں تو آپ بھی ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں کیونکہ ہم آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہماری موافقت نہ کی تو پھر ہم آپ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے“۔

عیسائی گروہ نے کہا:

”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں، اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے، ہم آپ کے پاس بحث و گفتگو کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری پیروی کریں اور ہمارے ہم عقیدہ ہوجائیں (تو بہتر ہے) کیونکہ ہم اس عقیدہ میں آپ سے مقدم ہیں، اور اگر آپ نے ہمارے اس عقیدہ میں مخالفت کی تو ہم (بھی) آپ کی مخالفت کریں گے“۔

مادّہ پرست (منکر خدا) گروہ نے کہا:

”ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”موجوات عالَم“ کا کوئی آغاز اور انجام نہیں ہے، اور یہ ”عالَم“ قدیم اور ہمیشہ سے ہے، ہم یہاں آپ سے بحث و گفتگو کے لئے آئے ہیں، اگر آپ ہماری موافقت کریں گے تو واضح ہے کہ برتری ہماری ہوگی، ورنہ ہم آپ کی مخالفت کریں گے“۔

دو گانہ پرست آگے بڑھے اور کہا:

ہم اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دنیا کے دو مربی، دو تدبیر کرنے والے اور دو مبدا ہیں، جن میں سے ایک نور اور روشنی کا خلق کرنے والا ہے اور دوسرا ظلمت اور تاریکی کا خالق ہے، ہم یہاں پر آپ سے مناظرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، اگر آپ اس بحث میں ہمارے ہم عقیدہ ہوگئے تو بہتر ہے اور اس میں ہماری سبقت اور برتری ہے، اور اگر آپ نے ہماری مخالفت کی تو ہم بھی آپ کی مخالفت کریں گے“۔

بت پرستوں نے کہا:

ہم اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ ہمارے بت ہمارے خدا ہیں، ہم آپ سے اس سلسلہ میں بحث و گفتگو کرنے آئے ہیں، اگر آپ اس عقیدہ میں ہمارے موافق ہوگئے تو معلوم ہے کہ سبقت اور تقدم ہمارا ہے، ورنہ تو ہم آپ سے دشمنی کریں گے“۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں ارشاد فرمایا:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے کلی طور پر جواب میں بیان فرمایا:

(تم نے اپنا عقیدہ بیان کردیا، اب میری باری ہے کہ میں اپنا عقیدہ بیان کروں) ”میرا عقیدہ ہے کہ خداوندعالم وحدہ لاشریک ہے، میں اس کے علاوہ ہر دوسرے معبود کا منکر ہوں، اور میں ایسا پیغمبر ہوں جس کو خداوندعالم نے تمام دنیا کے لئے مبعوث کیا ہے، میں خداوندعالم کی رحمت کی بشارت اور اس کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں، نیز میں دنیا بھر کے تمام لوگوں پر حجت ہوں، اور خداوندعالم مجھے دشمنوں اور مخالفوں کے خطرہ سے محفوظ رکھے گا“۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان گروہوں کو باری باری مخاطب کیا تاکہ ہر ایک سے الگ الگ مناظرہ کریں، چونکہ یہودیوں کے گروہ نے چیلنج کیا تھا اس وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کے گروہ کو مخاطب کیا:

ا۔ یہودیوں سے مناظرہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری باتوں کو بغیر کسی دلیل کے مان لوں؟

یہودی گروہ: نہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: اس بات پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ ”عزیر“ خدا کے بیٹے ہیں؟

یہودی گروہ: کتاب ”توریت “مکمل طور پر نیست و نابود ہوچکی تھی اور کوئی اس کو زندہ نہیں کرسکتا تھا، جناب عزیر نے اس کو زندہ کیا، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اگر تمہارے پاس جناب عزیر کے خدا کے بیٹے ہونے پر یہی دلیل ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو توریت لانے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود اعتراف کرتے ہو، وہ تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا اس سے بھی بالاتر ہوں ! پس تم لوگ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے یہ عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جن کا درجہ جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہے؟

اس کے علاوہ اگر خدا کا بیٹا ہونے سے تمہارا مقصود یہ ہے کہ عزیر بھی دوسرے باپ اور اولاد کی طرح شادی اور ہمبستری کے ذریعہ خدا سے پیدا ہوئے ہیں تو اس صورت میں تم نے خدا کو ایک مادّی، جسمانی اور محدود موجودقرار دیدیا ہے، جس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے والا ہو، اور اس کو دوسرے خالق کا محتاج تصور کریں۔

یہودی گروہ: جناب عزیر کا خدا کا بیٹا ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ان کی اس طرح ولادت ہوئی، کیونکہ یہ معنی مراد لینا جیسا کہ آپ نے فرمایا کفر و جہل کے مترادف ہے، بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام ہے،جیسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ایک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور اس کے لئے کہتے ہیں: ”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، یہ بات تو معلوم ہے کہ ولادت کے لحاظ سے بیٹا نہیں ہے کیونکہ شاگرد ،استاد کی اولاد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے، اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزیر کی شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا کہا ہے، اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بیٹا“ کہتے ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : تمہارا جواب وہی ہے جو میں دے چکا ہوں، اگر یہ منطق اور دلیل اس بات کا سبب ہے کہ جناب عزیر خدا کے بیٹے بن جائیں تو پھر جو شخص مثل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب عزیر سے بھی بلند و بالا ہوں اس بات کا زیادہ مستحق ہیں۔

خداوندعالم کبھی بعض لوگوں کو دلائل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا، تمہاری دلیل اور تمہارا اقرار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اس سے بڑھ کر کہو جو جناب عزیر کے بارے میں کہتے ہو، تم لوگوں نے مثال دی اور کہا: کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہیں رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے:

”اے میرے بیٹے!“ یا ”وہ میرا بیٹا ہے“، اس بناء پر تم لوگ یہ بھی جائز سمجھو کہ وہ اپنے دوسرے محبوب شاگرد سے کہے: ”یہ میرا بھائی ہے“، اور کسی دوسرے سے کہے: ”یہ میرا استاد ہے“، یا ”یہ میرا باپ اور میرا آقا ہے“۔

یہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہیں، جس کا بھی زیادہ احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے پکارا جائے، اس صورت میں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی ہیں، یا خدا کے استاد یا باپ ہیں، کیونکہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ جناب عزیر سے بلند و بالا ہے۔

اب میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے بھائی، یا خدا کے باپ یا خدا کے چچا، یا خدا کے استاد ، آقا اور ان کے سردار ہوں، اور خداوندعالم احترام کی وجہ سے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے کہے: اے میرے باپ!، اے میرے استاد، اے میرے چچا اور اے میرے سردار۔۔۔؟

یہ سن کریہودی گروہ لا جواب ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا، اور وہ حیران و پریشان رہ گئے تھے،چنانچہ انھوں نے کہا: ”آپ ہمیں غور و فکر اور تحقیق کرنے کی اجازت دیں!“

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ میں غور و فکر کرو تو خداوندعالم تم لوگوں کو حقیقت کی طرف راہنمائی فرمادے گا۔

۲ ۔ عیسائیوں سے مناظرہ

عیسائیوں کی باری آئی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا:

تم لوگ کہتے ہو کہ خداوندقدیم اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ متحد ہے، اس عقیدہ سے تمہاری مراد کیا ہے؟

کیا تم لوگوں کی مراد یہ ہے کہ خدانے اپنے قدیم ہونے سے تنزل کرلیا ہے، اور ایک حادث (جدید خلقت) موجود میں تبدیل ہوگیا ہے، اور ایک حادث موجود (جناب عیسیٰ) کے ساتھ متحد ہوگیا ہے یا اس کے برعکس، یعنی حضرت عیسیٰ جو ایک حادث اور محدود موجود ہیں انھوں نے ترقی کی اوروہ خداوندقدیم کے ساتھ متحد ہوگئے ہیں، یا اتحاد سے تمہارا مقصد صرف حضرت عیسیٰ کا احترام اور شرافت ہے؟!

اگر تم لوگ پہلی بات کو قبول کرتے ہو یعنی قدیم وجود حادث وجود میں تبدیل ہوگیا تو یہ چیز عقلی لحاظ سے محال ہے کہ ایک ازلی و لامحدود چیز، حادث اور محدود ہوجائے۔

اور اگر دوسری بات کو قبول کرتے ہو تو وہ بھی محال ہے، کیونکہ عقلی لحاظ سے یہ چیز بھی محال ہے کہ ایک محدود اور حادث چیز لامحدود اور ازلی ہوجائے۔

اور اگر تیسری بات کے قائل ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) دوسرے بندوں کی طرح حادث ہیں لیکن وہ خدا کے ممتاز اور لائق احترام بندہ ہیں، تو اس صورت میں بھی خداوندکا (جو قدیم ہے) جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے متحد اور برابر ہونا قابل قبول نہیں ہے۔

عیسائی گروہ: چونکہ خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) کو خاص امتیازات سے نوازا ہے، عجیب و غریب معجزات اور دوسری چیزیں انھیں دی ہیں، اسی وجہ سے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے، اور یہ خدا کا بیٹا ہونا شرافت اور احترام کی وجہ سے ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : ”بعینہ یہی مطلب یہودیوں سے گفتگو کے درمیان بیان ہوا ہے اور تم لوگوں نے سنا کہ اگر یہ طے ہو کہ خداوندعالم نے ان کو امتیاز اور (معجزات) کی بنا پر اپنا بیٹا قرار دیا ہو تو پھر جو شخص جناب عیسیٰ (علیہ السلام) سے بلند تر یا ان کے برابر ہو تو پھر اس کو اپنا باپ، یا استاد یا اپنا چچا قرار دے۔۔۔“۔

عیسائی گروہ یہ اعتراض سن کر لاجواب ہوگیا، نزدیک تھا کہ ان سے بحث و گفتگو ختم ہوجائے، لیکن ان میں سے ایک شخص نے کہا:

کیا آپ جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو ”خلیل خدا“ (یعنی دوست خدا) نہیں مانتے؟“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : جی ہاں، مانتے ہیں۔

عیسائی: اسی بنیاد پر ہم جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ”خدا کا بیٹا“ مانتے ہیں، پھر کیوں آپ ہم کو اس عقیدہ سے روکتے ہیں؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : یہ دونوں لقب آپس میں بہت فرق رکھتے ہیں،لفظ ”خلیل“ دراصل لغت میں ”خَلّہ“ (بروزن ذرّة) سے ہے جس کے معنی فقر و نیاز اور ضرورت کے ہیں، کیونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) بی نہایت خدا کی طرف متوجہ تھے، اور عفت نفس کے ساتھ، غیر سے بے نیاز ہوکر صرف خداوندعالم کی بارگاہ کا فقیر اور نیاز مند سمجھتے تھے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا ”خلیل“ قرار دیا، تم لوگ جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ یاد کرو:

جس وقت (نمرود کے حکم سے) ان کو منجنیق میں رکھا تاکہ ان کو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی آگ کے اندر ڈالا جائے، اس وقت جناب جبرئیل خدا کی طرف سے آئے اور فضا میں ان سے ملاقات کی اور ان سے عرض کی کہ میں خدا کی طرف سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آیا ہوں، جناب ابراہیم( علیہ السلام) نے ان سے کہا: مجھے غیر خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے اس کی مدد کافی ہے، وہ بہترین محافظ اور مددگار ہے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہیم( علیہ السلام) کو اپنا ”خلیل“ قرار دیا، خلیل یعنی خداوندعالم کا محتاج اور ضرورت مند، اور خلق خدا سے بے نیاز۔

اور اگر لفظ خلیل کو ”خِلّہ“ (بروزن پِلّہ) سے مانیں جس کے معنی ”معانی کی تحقیق اور خلقت وحقائق کے اسرار و رموز پر توجہ کرنا ہے“، اس صورت میں بھی جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل ہیں یعنی وہ خلقت اور حقائق کے اسرار اور لطائف سے آگاہ تھے، اور یہ معنی خالق و مخلوق میں شباہت کی باعث نہیں ہوتی، اس بنا پر اگر جناب ابراہیم( علیہ السلام) صرف خدا کے محتاج نہ ہوتے، اور اسرار و رموز سے آگاہ نہ ہوتے تو خلیل بھی نہ ہوتے، لیکن باپ بیٹے کے درمیان پیدائشی حوالہ سے ذاتی رابطہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر باپ اپنے بیٹے سے قطع تعلق کرلے تو بھی وہ اس کا بیٹا ہے اور باپ بیٹے کا رشتہ باقی رہتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر تمہاری دلیل یہی ہے کہ چونکہ جناب ابراہیم( علیہ السلام) خلیل خدا ہیں لہٰذا وہ خدا کے بیٹے ہیں، تو اس بنیاد پر تمہیں یہ بھی کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) بھی خدا کے بیٹے ہیں، بلکہ جس طرح میں نے یہودی گروہ سے کہا، اگر یہ طے ہو کہ لوگوں کے مقام و عظمت کی وجہ سے یہ نسبتیں صحیح ہوں تو کہنا چاہئے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے باپ، استاد، چچا یا آقا ہیں۔۔۔ جبکہ تم لوگ کبھی بھی ایسا نہیں کہتے۔

عیسائیوں میں سے ایک شخص نے کہا: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کے حوالہ سے بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا: ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، لہٰذا اس جملہ کی بنا پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے خود کو خدا کا بیٹا قرار دیا ہے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : اگر تم لوگ کتاب انجیل کو قبول کرتے ہو تو پھر اس جملہ کی بنا پر تم لوگ بھی خدا کے بیٹے ہو، کیونکہ جناب عیسیٰ کہتے ہیں: ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ میں بھی خدا کا بیٹا ہوںاور تم بھی۔

دوسری طرف یہ عبارت تمہاری گزشتہ کہی ہوئی بات (یعنی چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خاص امتیازات، شرافت اور احترام رکھتے تھے اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے) کو باطل اور مردود قرار دیتی ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس جملہ میں صرف خود ہی کو خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتے بلکہ سبھی کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔

اس بنا پر بیٹا ہونے کا معیار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص امتیازات (اور معجزات میں سے) نہیں ہے، کیونکہ دوسرے لوگوں میں اگرچہ یہ امتیازات نہیں ہیں لیکن خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے جملہ کی بنا پر خدا کے بیٹے ہیں، لہٰذا ہر مومن اور خدا پرست انسان کے لئے کہا جاسکتا ہے: وہ خدا کا بیٹا ہے، تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہو لیکن اس کے برخلاف گفتگو کرتے ہو۔

کیوں تم لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو میں بیان ہونے والے ”باپ بیٹے“ کے لفظ کو اس کے غیر معنی میں استعمال کرتے ہو، شاید جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کی مراد اس جملہ ”میں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“، سے مراد اس کے حقیقی معنی ہوں یعنی میں حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) کی طرف جارہا ہوں جو ہمارے سب کے باپ ہیں، اور خداوندعالم مجھے ان کے پاس لے جارہا ہے، جناب آدم و نوح ہمارے سب کے باپ ہیں، اس بنا پر تم کیوں اس جملہ کے ظاہری اور حقیقی معنی سے دوری کرتے ہو اور اس سے دوسرے معنی مرادلیتے ہو؟!

عیسائی گروہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مستدل گفتگو سے اس قدر مرعوب ہواکہ کہنے لگے: ہم نے آج تک کسی کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس ماہرانہ انداز میں اس طرح بحث و گفتگو کرے جیسا کہ آپ نے کی ہے، ہمیں اس بارے میں غور و فکر کی فرصت دیں۔