آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121982
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121982 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

صحت و صفائی

بچے کا لباس سال کے مختلف موسموں اور آب دہوا کے اعتبار سے ایسا تیارکنا چاہیے کہ نہ اسے ٹھنڈے مگے اور نہ ہی گرمی کی شدت سے اس کا پسنہ بہتا رہے اور اسے تکلیف محسوس ہو _ نرم اور سادہ سوتی کپڑے بچے کی صحت اور آرام کے لیے بہتر ہیں _ تنگ اور چپکے ہوئے لباس بچے کی آزادی کو سلب کرلیتے ہیں اور ایسا ہونا اچھا نہیں ہے _ ان کو تبدیل کرتے وقت بھی ماں اور بچے دونوں کو زحمت ہوتی ہے _ اکثر لوگوں میں رواج ہے کہ بچے کو سخت کپڑوں میں پیک کردیتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیتے ہیں _ ظاہراً ایسا کرنا اچھا نہیں ہے اور بچے کے جسم اور روح کے لیے ضرر رساں ہے _ اس غیر انسانی عمل سے اس ننھی سی کمزور جان کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے _ اسے اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ آزادی سے اپنے ہاتھ پاؤں مارے اور حرکت دے سکے اس طرح سے اس کی فطری نشو و نمااور حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے _

ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :

جو نہی بچہ کے پیٹ سے نکلتا ہے اور آزادی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دیتا ہے تو فوراً اس کے ہاتھ پاؤں کو ایک نئی قید و بند میں جکڑدیا جاتا ہے _ پہلے تو اسے پیک کردیتے ہیں _ اس کے ہاتھ پاؤں کو دراز کرکے زمین پر سلادیتے ہیں اور پھر اس کے جسم پر اتنے کپڑے اور لباس چڑھاتے ہیں اور کمربند باندھتے ہیں کہ وہ حرکت تک نہیں

۱۰۱

کر سکتا اس طرح سے بچے کی داخلی نشو و نما کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتی ہے اس خارجی رکاوٹ کی وجہ سے رک جاتی ہے کیونکہ بچہ نشو و نما اور پرورش کے لیے اپنے بدن کے اعضاء کو اچھی طرح سے حرکت نہیں دے پاتا جن ممالک میں اس طرح کی وحشیانہ دیکھ بھال کا معمول نہین ہے اس علاقے کے لوگ طاقت دریاقوی ، بلند قامت اور متناسب اعضا ء کے حال ہوتے ہیں _ اس کے برعکس جن علاقوں میں بچوں کو کس باندھ دیا جاتا ہے وہاں پر بہت سے لوگ لولے لنگڑے ، ٹیڑے میڑھے، پست قامت اور عجیب و غریب ہوتے ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی پرورش اور ایسے وحشیانہ عمل اس کے اخلاق اور مزاج کی کیفیت پر نامطلوب اثر نہیں ڈالیں گے _ سب سے پہلا احساس اس میں درد اور قید و بند کا ہوتا ہے کیونکہ وہ ذرا بھی حرکت کرنا چاہتا ہے تو اسے رکاوٹ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اس کی حالت تو اس قیدی سے بھی بری ہوتی ہے جو قید بامشقت بھگت رہا ہوتا ہے _ ایسے بچے ایسے ہی کوشش کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں غصہ آتا ہے _ پھر چیختے چلاتے ہیں اگر آپ کے بھی ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو آپ اس بھی زیادہ او ربلند تر چیخیں چلائیں _

بچہ بھی ایک انسان ہے اس میں بھی احساس اور شعور ہے وہ بھی آزادی اورراحت کا طلب گار ہے _ اسے بھی اگر کس باندھ دیا جائے اور اس کی آزادی سلب کرلی جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے _ لیکن وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اس کا ایک ہی ردعمل ہے گریہ و زاری اور دادو فریاد اور اس کے سوا اس کا کوئی چارہ ہی نہیں _ یہ دباؤ، بے آرامی اور تکلیف تدریجاً بچے کے اعصاب اور ذہن پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک تند مزاج اور چڑچڑآ شخص بنادیتی ہے بچے کے لباس کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھیں جب بھی وہ پیشاب کرے تو اس کا لباس تبدیل کریں

۱۰۲

اس کے پاؤں کو دھوئیں اور زیتون کے تیل سے اس کی مالش کریں تا کہ وہ خشکی اور سوزن کا شکار نہ ہو _ چند مرتبہ پیشاب کے بعد بچے کو نہلائیں اور اسے پاک کریں اس طرح بچے کی صحت و سلامتی میں آپ اس کی مدد کرسکتے ہیں اور اسے بچپنے کی کئی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں _ علاوہ ازیں بچہ نفیس و پاکیزہ ہوگا ، آنکھوں کو بھلا لگے گا اور سب اس سے پیار کریں گے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''اسلام دین پاکیزگی ہے _ آپ بھی پاکیزہ رہیں کیونکہ فقط پاکیزہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے '' _ (1)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:''بچوں کو چلنا ہٹ اور میل کچیل سے پاک کریں کیونکہ شیطان انہیں سونگھتا ہے پھر بچہ خواب میں دڑتا ہے اور بے چین ہوتا ہے اور فرشتہ ناراحت ہوتے ہیں '' _ (2)

بیٹوں کا ختنہ کرنا ایک اسلامی رواج ہے اور واجب ہے _ختنہ بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے ختنہ کرکے بچے کو میل کچیل اور آلہ تناسل اور اضافی گوشت کے درمیان پیدا ہونے والے موذی جراثیم سے بچایا جا سکتا ہے _ ختنے کو زمانہ بلوغ تک مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ پیدائشے کے پہلے پہلے دنوں میں ہی یہ انجام پاجائے _ اسلام حکم دیتا ہے کہ ساتویں دن نو مولود کا ختنہ کردیا جائے _حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ''اختنوا اولادکم لسبعة ایام، فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم ، و ان الارض لتکره بول الاغلف''

''ساتویں دن اپنے بچوں کا ختنہ کریں _ یہ ان کے لیے بہتر بھی ہے اور پاکیزہ تر

-----------

1_ مجمع الزوائد ج 5 ص 132

2_ بحار الانوار ج 104 ص 95

۱۰۳

بھی نیز ان کی سریع تر نشو و نما اور پرورش کے لیے بھی مفید ہے اور یقینا زمین اس انسان کے پیشاب سے کراہت کرتی ہے کہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو '' _ (1)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: ''اختنوا اولاد کم یوم السابع فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم''

''نو مولد کا ساتویں دن ختنہ کریں تا کہ وہ پاک ہوجائے اور بہتر رشد و نمو کرے '' _ (2)

عقیدہ کرنا بھی مستحبات مؤکد میں سے ہے _ اسلام نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ساتویںدن بچے کے بال کٹوائے جائیں اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر سونے یا چاندی صدقہ دیا جائے اور اسی روز عقیقہ کے طور پر دنبہ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت فقرا میں تقسیم کیا جائے _

یا انہیں دعوت کرکے کھلایاجائے _ عقیقہ کرنا ایک اچھا صدقہ ہے اور بچہ کی جان کی سلامتی اور دفع بلا کے لئے مفید ہے _

نو مولود نہایت نازک او ر ناتوان ہوتا ہے _ اسے ماں باپ کی توجہ اور نگرانی کی بہت احتیاج ہوتی ہے _ صحت و سلامتی یا رنج و بیماری کی بچپن میں ہی انسان میں بنیاد پڑجاتی ہے اور اس کی ذمہ داری ماں باپ پر عائد ہوتی ہے جو ماں باپ اس کے وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ اس کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے کا وش کریں اور ایک سالم اور تندرست انسان پروان چڑھائیں _ اگرماں باپ کی سہل انگاری اور غفلت کی وجہ سے بچے کے جسم و روح کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ مسئول ہیں اور ان سے مؤاخذہ کیا جائے گا _ بچہ دسیوں بیماریوں میں گھر اہوتا ہے ، جن میں سے بہت سی بیماریوں کو لاحق ہونے سے روکا جا سکتا ہے مثلاً بچوں کا فالج ، جسم پر چھالوں کا پیدا ہونا ، خسرہ چیچک ، خناق، تشنج

---------

1_ وسائل الشیعہ ج 15ص 161

2_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 165

۱۰۴

اور کالی کھانسی و غیرہ جیسی بیماریوں سے متعلقہ ٹیکے لگواکر (دیکسنیشن کے ذریعے ) بچے جا سکتا ہے خوش قسمتی سے شفا خانوں اور طبی مراکز میں اس قسم کی بیماریوں کی روک تھام کا انتظام موجود ہے _ اور رجوع کرنے والوں کو اس مقصد کے لیے مفت ٹیکہ لگایا جاتا ہے _ ماں باپ کے پاس اس بارے میں کوئی عذر موجود نہیں ہے _ اگر وہ کوتاہی کریں اور ان کا عزیز بچہ فالج زدہ ہوجائے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجائے یا آخر عمر تک ناقص اور بیماررہ جائے تو وہ خدا اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں گے _ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی صحت و سلامتی کی حفاظت کے لیے کوشش کریں اور توانا اور صحیح و سالم انسان پروان چڑھائیں _

۱۰۵

بچے کی نیند اور آزادی

چند ابتدائی ہفتے نو مولود زیادہ وقت سویا رہتا ہے _ شاید رات دن وہ بیس گھنٹے سوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی نیند کی مدت کمتر ہوتی جاتی ہے _ نومولود کو نیند اور مکمل آرام کی شدید ضرورت ہوتی ہے _ زیادہ شور و شین اور مزاحمت سے وہ بیزار اور متنفر ہوتا ہے _ وہ پر سکون ماحول کو پسند کرتا ہے تا کہ آرام سے سوسکے اور اس میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہو _ زیادہ چوما چاٹی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گردش اور دوسروں کو دکھاتے رہنے سے بچے کا آرام و استراحت تباہ ہوجاتا ہے _ زیادہ غل غپاڑا اور ریڈیو اور ٹیلی وین کی سمع خراش آوازیں بچے کے نازک اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ بچے کی مزے کی نیند کو بے مقصد خراب نہیں کرتا چاہیے اور اسے خواہ مخواہ ادھر ادھر نہیں لے جانا چاہیے _ ایسی حرکتیں بچے کے آرام کو برباد کردیتی ہیں اور اس کے اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو ممکن ہے بچے میں تند مزاجی ، کج خلقی ، چڑچڑاپن اور اضطراب پیدا ہوجائے _

زیادہ شور و غل سے اور ادھر ادھر لے جائے جانے سے نومولود نفرت کرتا ہے _البتہ وہ ہلنے جلنے کا مخالف نہیں ہے _ اسے اچھا لکتا ہے کہ ماں کی گود میں یا گہوارے میں اسے حرکت دی جائے _ ہلنے جلنے وہ سکون محسوس کرتا ہے اور اس کا دل خوش ہوتا ہے _ کیونکہ حرکت اس امر کی علامت ہے کہ کوئی اس کے قریب موجود ہے اور اس کی دیکھ بھال کررہا ہے _ جب کہ خاموشی اور بے حرکتی تنہائی کی نشانی ہے علاوہ ازیں عالم جنیں میں بچہ ماں کے گہوارہ شکم میں حرکت کرتا رہا ہے اسی وجہ سے اگلے مرحلے میں بھی وہ

۱۰۶

چاہتا ہے کہ ویسی ہی کیفیت جاری رہے _ بچہ ماں کی پیاری اور میٹھی لوریوں سے بھی احساس راحت کرتا ہے _

بچے کی زندگی کا پہلا سال اس کے پٹھوں اور اعضاء کی مشق کا سال ہے _ بچہ پسند کرتا ہے کہ آزادنہ حرکت کرے اور اپنے ہاتھ پاؤں مارے نومولود کا لباس نرم اور کھلا ہونا چاہیے _ بچے کو تہ درتہ کپڑروں میں کس باندھ دینے سے اس کی آزادی حرکت جاتی رہتی ہے اور اس سے اس کے اعصاب پر اثر پڑتا ہے _ جس بچے کی آزادی چھین لی جائے اس کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا لہذا وہ دادو فریاد کرتا رہتا ہے _ اور اعصاب کی یہی بے آرامی ممکن ہے تند مزاجی اور شدید غصیلے پن کا مقدمہ بن جائے _

۱۰۷
۱۰۸
۱۰۹
۱۱۰
۱۱۱

نومولود اور اخلاقی تربیت

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بہت کمزور ہوتا ہے _ عقل بالقوت رکھتا ہے مگر کچھ چیز سمجھتا نہیں ، فکر اور سوچ بچار نہیں کرتا ، آنکھ سے دیکھتا ہے لیکن کسی چیز کو پہچانتا نہیں _ رنگوں اورشکلوں کو مشخص نہیں کر پاتا ، دوری اور نزدیکی ، بزرگی اور بچپن کو نہیں سمجھتا ، آوازیں سنتا ہے لیکن ان کے معانی اور خصوصیات اس کی سمجھ میں نہیں آتے اور یہی حالت اس کے تمام حواس کی ہے مگر وہ سمجھنے اور کمال تک پہنچنے کی وقت و استعداد رکھتا ہے تدریجا ً تجربوں سے گزرتا ہے اور چیزوں کو سمجھنے لگتا ہے _ اللہ قرآن میں فرماتا ہے :

والله اخرجکم من بطون امّهاتکم لا تعلمون شیئا و جعل لکم السّمع و الابصار و الافئدة لعلّکم تشکرون

اللہ نہ تمہیں تمہاری ماؤن کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل عطا کیا شاید کہ تم شکرگزار ہوجاؤ _

سورہ نحل _ آیہ 78

بچے کی زیادہ تر مصروفیات یہ ہیں کہ وہ کھاتا ہے ، سوتا ہے _ ہاتھ پاؤں مارتا ہے روتا ہے اور پیشاب کرتا ہے _ چند ہفتوں تک وہ ان کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا _نومولود کے ابتدائی کام اگر چہ بہت سادہ سے اور چند ایک ہیں لیکن انہیں کے ذریعے سے بچہ دوسرے لوگوں سے ارتباط پیدا کرتا ہے ، تجربے کرتا ہے ، عادتیں اپناتا ہے اور علم حاصل

۱۱۲

کرتا ہے _ یہی رابطے اور تجربے ہیں کہ جن سے بچے کی آئندہ کی اخلاق اور معاشرتی خصیت کی بنیاد پڑتی ہے اور وہ تشکیل پاتی ہے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

الا یام تو ضح السّرا ئرا لکا منه

جوں جوں دن گزرتے ہیں بھید کھلتے ہیں (1) بچہ ایک کمز رو معاشر تی فرد ہے کہ جو دوسروں کی مدد کے بغیر نہ زندہ رہ سکتا ہے اورنہ زندگی ، بسر کرسکتا ہے اگر دوسرے اس کی مدد کونہ لپکیں اور اس کی احتیاجات کوپویانے کریں تو وہ مر جائے گا _ نو مو لود کی جسمانی صحت اور پرورش جن کے ذمے ہوتی ہے اس کی اخلاق ، اجتماعی یہاں تک کہ دینی تربیت اور رشد بھی انہیں سے وابستہ ہے

سمجھدار اور احساس دمہ داری کرنے والے ماں باپ اپنے صحیح اور سو چے سمجھے طرز عمل سے نو مولود کی ضروریات کوپورا کرسکتے ہیں اور اس کے جسم و روح کی پرورش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرسکتے ہیں اور اس کی حساس اور بے آلائشے روح میں پاکیزہ اخلاق اور نیک عادات پیدا کرسکتے ہیں _ اسی طرح ایک نادان تربیت کرنے، والا اپنے غلط طرز عمل اور اشتباہ سے ایک نو مولود کے پاک اور بے آلائشے نفس میں برے اخلاق او رناپسندیدہ عادات پیدا کر سکتا ہے _

نو مولود کو بھوک لگتی ہے اور اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی ضرورت کا احساس کرتا ہے اور وہ ایک بڑی قوت کی طرف تو جہ کرتا ہے کہ جواس کی ضروریات کو بر طرف کرسکتی ہو اسی لیے وہ رو تا ہے ، شور مچاتا ہے کہ اس کی فریاد کو پہنچا جائے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اگر بچے کی داخلی خواہشات کی طرف پوری تو جہ کی جائے اور ایک صحیح پرو گرام تربیت و یا جائے اسے معین مواقع پرا و ضروری مقدا میں دودھ یا جائے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے مطمئن ہو کے سوتا ہے اور معین اوقات پر جب اسے بھوک لگتی ہے

--------

1_ غرر الحکم ص 47

۱۱۳

تو بیدا ر ہوتا ہے پھر دود ھ پیتا ہے اور پھر سو جاتال ہے ایسے بچے کے اعصاب آرام و راحت سے رہتے ہیں _ اسے اضطراب اور بے چینی نہیں ہوتی ، اسے زندگی میں اچھے اخلاق، صبر اور نظم و ضبط کی عادت پڑ جاتی ہے اس کی حساس روح میں دوسروں پر اعتماد اور حسن ظن کی بنیاد پڑ جاتی ہے _ نومولود زندگی کے اس مرحلے میں کہ جب وہ کسی کونہیں پہچانتا فطری طور پر دو امور کی طرف تو جہ رکھتا ہے _ ایک اپنی ناتوانی اور نیازمندی کا اسے پورا احساس ہو تا ہے اور دوسری طرف ایک بڑی اور مطلق قوت کی طرف تو جہ رکھتا ہے کہ جو تمام احتیاجات کے لئے ملجاو پناہ گاہ ہے اسی سبب سے روتا ہے اور اس بر تر قوت کو مدد کے لیے پکار تا ہے کہ جسے و ہ پہچانتا نہیں اور وہ غیبی قوت سب اہل جہان کو پیدا کرنے والی ہے بچہ اپنے ضعف و ناتوانی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک بے نیاز طاقت سے وابستہ اور متعلق سمجھتاہے _ اگر یہ احساس تعلق آرام کے ساتھ بخوبی بندھآ رہے تو بچے کے دل میں ایمان اور روحانی سکون کی بنیاد پڑ جاتی ہے _

پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ہے _

(( رونے پر بچوں کونہ مارنا بلکہ ان کی ضروریات کو پورا کرنا کیوں کہ چار ماہ تکح بچے کا رونا پروردگار عالم کے وجود اور اس کی وحدانیت پر گواہی ہو تا ہے (1)

چار ماہ پورے ہونے سے پہلے نومولود ابھی ایک معاشرتی و جود نہیں بنا ہوتا _ کسی کو نہیں پہچانتا _ جتی اپنی ماں اور دوسروں میں فرق نہیں کرپاتا اور ماؤں کے بقول وہ دوری نہیں کرتا یہی چار ماہ ہیں کہ بچہ بس ایک ہی ذات کی طرف متوجہ ہو تا ہے لیکن جو بچہ ماں کی غفلت اور سستی کی وجہ سے صحیح اور منظم توجہ اورغذا سے محروم ہو جاتا ہے ناچار گاہ بگاہ روتا ہے اور شور کرتا ہے تا کہ کوئی اس کی مدد کو پہنچے _ ایسے بچے کے

-----------

1_ بحارالانوار جلد 104 ص 103

۱۱۴

اعصاب اورذھن ہمیشہ مضطرب اور دگرگوں رہتے ہیں اور اسے آرام نہیں ملتا _ آہستہ آہستہ وہ چڑ چڑ اور تند خو ہو جاتا ہے _ اس کے اندر بے اعتمادی اور پریشانی کی حس پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک نامنظم اور ڈہیٹ و جود بن جاتا ہے _

۱۱۵

نومولود اور دنی تربیت

یہ صحیح ہے کہ نو مولود الفاظ او رجملے نہیں سمجھتا _ مناظر اور شکلوں کی خصوصیات کو پہچان نہیں سکتا _ لیکن آوازوں کو سنتا ہے اور اس کے اعصاب اور ذہن اس سے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح سے مناظر اورشکلوں کو دیکھتا ہے اور اس کے اعصاب اس سے بھی متاثر ہوتے ہیں _ لہذا اس بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھی جانے والی اور سنی جانے والی چیزیں نو مولود پر اثر نہیں کرتیں اور وہ ان کے بارے میں بالک لاتعلق ہوتا ہے _ نومولود اگر چہ جملوں کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہ جملے اسکی حساس اور ظریف روح پر نقش پیدا کرتے ہیں _ بچہ رفتہ رفتہ ان جملوں سے آشنا ہوجاتا ہے اور یہی آشنائی ممکن ہے اس کے آئندہ کے لیے مؤثر ہو _ جس لفظ سے ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس کے معنی کو بہتر سمجھتے ہیں _ نا آشنا افراد کی نسبت آشنا افراد کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں ایک بچہ ہے کہ جو دینی ماحول میں پرورش پاتا ہے ، سینکڑوں مرتبہ اس نے تلاوت قرآن کی دلربا آواز سنی ہے ،اللہ کا خوبصورت لفط اس کے کالوں سے ٹکرایا ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے بارہا ماں باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے _ دوسری طرف ایک نومولود ہے کہ اس نے برے اور بے دین ، ماحول میں پرورش پائی ہے ، اس کے کانوں نے غلیظ اور گندے سنے ہیں اور اس کی آنکھیں فحش مناظر دیکھنے کی عادی ہوگئی ہیں یہ دونوں بچے ایک جیسے نہیں ہیں _

سمجھدار اورذمہ دار ماں با پ اپنے بچوں کو تربیت کے لیے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتے یہاں تک کہ اچھی آوازیں اور اچھے مناظر سے انہیں مانوس کرنے سے بھی غفلت

۱۱۶

نہیں کرتے_

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس حساس تربیتی نقطے کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ ''جو نہی بچہ دنیا میں آئے اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہیں''_

حضرت علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

جس کے ہاں بھی بچہ ہوا سے چاہیے کہ اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہے تا کہ وہ شر شیطان سے محفوظ رہے _ آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) کے بارے میں بھی اسی حکم پر عمل کرنے کے لیے کہا _ علاوہ ازیں حکم دیا کہ ان کے کانوں میں سورہ حمد ، آیة الکرسی ، سورہ حشر کی آخری آیات ، سورہ اخلاق ، سورہ والناس اور سورہ و الفلق پڑھی جائیں_ (1)

بعض احادیث میں آیا ہے :

خود رسول اللہ نے امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) کے کان میں اذان و اقامت کہی _

ہاں

رسول اسلام جانتے تھے کہ نو مولود اذان، اقامت اور قرآنی الفاظ کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہی الفاظ بچے کے ظریف اور لطیف اعصاب پر جو اثر مرتب کرتے ہیں آپ (ص) نے اسے نظر انداز نہیں کیا _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس نکتے کی طرف توجہ تھی کہ یہ جملے بچے کی روح اور نفسیات پر نقش مرتب کرتے ہیں اور اسے ان سے مانوس کرتے ہیں _ اور الفاظ سے یہ مانوسیت بے اثر نہیں رہے گی _ علاوہ ازیں ممکن ہے کہ اس تاکیدی حکم کے لیے رسول (ع) کے پیش نظر کوئی اور بات ہو _ شاید وہ چاہتے ہوں کہ ماں باپ کو متوجہ کریں کہ بچے کی تعلیم و

-----------

1_ مستدرک ج 2 ص 619

۱۱۷

تربیت کے بارے میں سہل انگاری درست نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ذریعے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے جب ایک با شعور مربی نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتا ہے تو گویا اس کے مستقبل کے لئے واضح طور پر اعلان کرتا ہے اور اپنے پیارے بچے کو خداپرستوں کے گروہ سے ملحق کردیتا ہے _

بچے پرہونے والے اثر کا تعلق صرف سماعت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز بھی بچے کے حواس، ذہن اور اعصاب پر اثر اندازہوتی ہے اس کی آئندہ کی زندگی سے لاتعلق نہیں ہوتی مثلاً جو نو مولود کوئی بے حیائی کا کام دیکھتا ہے اگر چہ اسے سمجھ نہیں پاتا _ لیکن اس کی روح اور نفسیات پر اس برے کام کا اثر ہوتا ہے اور یہی ایک چھوٹا کام ممکن ہے اس کے انحراف کی بنیاد بن جائے _ اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے:

''گہوراہ میں موجود بچہ اگر دیکھ رہا ہو تو مرد کو نہیں چاہیے کہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے '' _ (1)

--------

1_ مستدرک ج 2 ص 546

۱۱۸

احساس وابستگی

نومولود بہت کمزور سا وجود ہے جو دوسروں کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ پرورش پا سکتا ہے نو مولود ایسا محتاج وجود ہے جس کی ضروریات دوسرے پوری کرتے ہیں _ جب وہ رحم مادر میں تھا تواسے نرم و گرم جگہ میسّر تھی _ وہاں اس کی غذا اور حرارت کیاحتیاج ماں کے ذریعے پوری ہو رہی تھی _ وہ چین سے ایک گوشے میں پڑاتھا اوراپنی ضروریات کے لیے بالکل بے فکر تھا _ اب جب کہ وہ دنیا میں آیا ہے تو احساس نیاز کرتا ہے _ بچے کا پہلا پہلا احساس شاید سردی کے بارے میں ہوتا ہے اور اس کے بعد بھوک کے بارے میں _ اسے پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ حرارت اور غذا کے لیے وہ دوسرے کا محتاج ہے _ اس مرحلے میں وہ کسی کو نہیں پہچانتا _ اپنی ضروریات کو فطرتاً سمجھتا ہے اور ایک انجانی قدرت مطلقہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ اپنے تئیں اس قدرت مطلقہ سے منسلک سمجھتا ہے _ اسے انتظار ہوتا ہے وہ قدرت اس کی ضروریات پورا کرے گی _ بچہ زندگی کی ابتدا ہی میں کسی سے وابستگی کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس زندگی کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ رہتا ہے _ بھوک یا پیاس لگے تو دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے روتا ہے _ ماں کے سینے سے چمٹ جاتا ہے اور اس کی محبتوں اور لوریوں سے سکون محسوس کرتا ہے _ اگر اسے کوئی تکلیف ہو یا کسی خطرے کا احساس کرے تو ماں کے دامن میں پناہ لیتا ہے _

یہی وابستگی اور احساس ضرورت ہے جو بعد میں دوسرے لوگوں کی تقلید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے_ یہ ایک نفسیاتی وابستگی ہے _ بچہ اپنے اخلاق اور طرز عمل کو اپنے

۱۱۹

ارد گردوالوں کے اخلاق اور طرز عمل کے مطابق ڈھالتا ہے _ یہی احساس تعلق ہے جو بعد ازاں کھیلوں اور دوسرے سے مل جل کر کام کرنے اور دوست بنانے میں ظاہر ہوتا ہے _ بیوی بچوں سے الفت و محبت کا سرچشمہ بھی یہی احساس ہے اجتماعی زندگی کی طرف میلان ، باہمی تعاون اور مل جل کر کام کرنے کا مزاج بھی اسی احساس سے تشکیل پاتا ہے _ احساس وابستگی کو کوئی معمولی سی چیز نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بچے کی اخلاقی اور سماجی تربیت اور اس کی تکمیل شخصیت کا ایک اہم ذریعہ ہے _ اگر اس احساس وابستگی و تعلق کی صحیح طور پر راہنمائی کی جائے تو بچہ آرام و سکون محسوس کرتا ہے _ وہ پر اعتماد اور خوش مزاج ہوجاتا ہے _ اچھی امیدوار توکل کی کیفیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے _ دوسروں کے بارے میں اس میں حسن ظن پیدا ہوجاتا ہے _ اس طرح معاشرتی زندگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے _ دوسروں کو اچھا سمجھتا ہے اور ان سے تعاون کی امید رکھتا ہے _ جب معاشرے کے بارے میں اس کے رائے اچھی ہوگی تو اس سے تعاون بھی کرے گا اور اس کے لیے ایثار بھی کرے گا _ معاشرے کے لوگ بھی جب اسے اپنا خیر خواہ اور خدمت گزار سمجھیں گے تو وہ بھی اس سے اظہار محبت کریں گے _

اس کے برعکس اگر یہ گراں بہا احساس کچلا جائے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ نہ کیا جائے تو خدا نے جو صحیح راستہ بچے کے لیے مقرر کیا ہے اس کی اجتماعی زندگی اس سے بھٹک جائے گی _ ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ بہت سے مواقع پر خوف ، اضطراب ، بے اعتمادی ، بدگمانی ، شرمندگی، گوشہ نشینی، افسردگی اور پریشانی یہاں تک کہ خودکشی اور جراثیم کی بنیاد بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کے احساس وابستگی کو صحیح طرح سے مطمئن کریں تو ہمیشہ اس کے مددگار ہیں _ جب اسے بھوک لگے تو غذا دیں اور اس کے لیے آرام و راحت کا سامن فراہم کریں _ اگر اسے درد ہو یا کوئی اور تکلیف پیش آئے تو فوراً اس کی داد رسی کریں _ اس کی نیند اور خوراک کو منظم رکھیں _ اس طرح سے کہ اسے بالکل پریشانی نہ ہو او ر وہ آرام کا احساس کرے _

نو مولود کو مارپیٹ نہ کریں _ نو مولود کچھ نہیں پہچانتا _ اسے صرف اپنی ضرورت کا احساس

۱۲۰