آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125348 / ڈاؤنلوڈ: 7174
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

صحت و صفائی

بچے کا لباس سال کے مختلف موسموں اور آب دہوا کے اعتبار سے ایسا تیارکنا چاہیے کہ نہ اسے ٹھنڈے مگے اور نہ ہی گرمی کی شدت سے اس کا پسنہ بہتا رہے اور اسے تکلیف محسوس ہو _ نرم اور سادہ سوتی کپڑے بچے کی صحت اور آرام کے لیے بہتر ہیں _ تنگ اور چپکے ہوئے لباس بچے کی آزادی کو سلب کرلیتے ہیں اور ایسا ہونا اچھا نہیں ہے _ ان کو تبدیل کرتے وقت بھی ماں اور بچے دونوں کو زحمت ہوتی ہے _ اکثر لوگوں میں رواج ہے کہ بچے کو سخت کپڑوں میں پیک کردیتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطی سے باندھ دیتے ہیں _ ظاہراً ایسا کرنا اچھا نہیں ہے اور بچے کے جسم اور روح کے لیے ضرر رساں ہے _ اس غیر انسانی عمل سے اس ننھی سی کمزور جان کی آزادی سلب کرلی جاتی ہے _ اسے اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ آزادی سے اپنے ہاتھ پاؤں مارے اور حرکت دے سکے اس طرح سے اس کی فطری نشو و نمااور حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے _

ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :

جو نہی بچہ کے پیٹ سے نکلتا ہے اور آزادی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دیتا ہے تو فوراً اس کے ہاتھ پاؤں کو ایک نئی قید و بند میں جکڑدیا جاتا ہے _ پہلے تو اسے پیک کردیتے ہیں _ اس کے ہاتھ پاؤں کو دراز کرکے زمین پر سلادیتے ہیں اور پھر اس کے جسم پر اتنے کپڑے اور لباس چڑھاتے ہیں اور کمربند باندھتے ہیں کہ وہ حرکت تک نہیں

۱۰۱

کر سکتا اس طرح سے بچے کی داخلی نشو و نما کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتی ہے اس خارجی رکاوٹ کی وجہ سے رک جاتی ہے کیونکہ بچہ نشو و نما اور پرورش کے لیے اپنے بدن کے اعضاء کو اچھی طرح سے حرکت نہیں دے پاتا جن ممالک میں اس طرح کی وحشیانہ دیکھ بھال کا معمول نہین ہے اس علاقے کے لوگ طاقت دریاقوی ، بلند قامت اور متناسب اعضا ء کے حال ہوتے ہیں _ اس کے برعکس جن علاقوں میں بچوں کو کس باندھ دیا جاتا ہے وہاں پر بہت سے لوگ لولے لنگڑے ، ٹیڑے میڑھے، پست قامت اور عجیب و غریب ہوتے ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی پرورش اور ایسے وحشیانہ عمل اس کے اخلاق اور مزاج کی کیفیت پر نامطلوب اثر نہیں ڈالیں گے _ سب سے پہلا احساس اس میں درد اور قید و بند کا ہوتا ہے کیونکہ وہ ذرا بھی حرکت کرنا چاہتا ہے تو اسے رکاوٹ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اس کی حالت تو اس قیدی سے بھی بری ہوتی ہے جو قید بامشقت بھگت رہا ہوتا ہے _ ایسے بچے ایسے ہی کوشش کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں غصہ آتا ہے _ پھر چیختے چلاتے ہیں اگر آپ کے بھی ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو آپ اس بھی زیادہ او ربلند تر چیخیں چلائیں _

بچہ بھی ایک انسان ہے اس میں بھی احساس اور شعور ہے وہ بھی آزادی اورراحت کا طلب گار ہے _ اسے بھی اگر کس باندھ دیا جائے اور اس کی آزادی سلب کرلی جائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے _ لیکن وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اس کا ایک ہی ردعمل ہے گریہ و زاری اور دادو فریاد اور اس کے سوا اس کا کوئی چارہ ہی نہیں _ یہ دباؤ، بے آرامی اور تکلیف تدریجاً بچے کے اعصاب اور ذہن پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک تند مزاج اور چڑچڑآ شخص بنادیتی ہے بچے کے لباس کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھیں جب بھی وہ پیشاب کرے تو اس کا لباس تبدیل کریں

۱۰۲

اس کے پاؤں کو دھوئیں اور زیتون کے تیل سے اس کی مالش کریں تا کہ وہ خشکی اور سوزن کا شکار نہ ہو _ چند مرتبہ پیشاب کے بعد بچے کو نہلائیں اور اسے پاک کریں اس طرح بچے کی صحت و سلامتی میں آپ اس کی مدد کرسکتے ہیں اور اسے بچپنے کی کئی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں _ علاوہ ازیں بچہ نفیس و پاکیزہ ہوگا ، آنکھوں کو بھلا لگے گا اور سب اس سے پیار کریں گے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''اسلام دین پاکیزگی ہے _ آپ بھی پاکیزہ رہیں کیونکہ فقط پاکیزہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے '' _ (۱)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:''بچوں کو چلنا ہٹ اور میل کچیل سے پاک کریں کیونکہ شیطان انہیں سونگھتا ہے پھر بچہ خواب میں دڑتا ہے اور بے چین ہوتا ہے اور فرشتہ ناراحت ہوتے ہیں '' _ (۲)

بیٹوں کا ختنہ کرنا ایک اسلامی رواج ہے اور واجب ہے _ختنہ بچے کی صحت و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے ختنہ کرکے بچے کو میل کچیل اور آلہ تناسل اور اضافی گوشت کے درمیان پیدا ہونے والے موذی جراثیم سے بچایا جا سکتا ہے _ ختنے کو زمانہ بلوغ تک مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ پیدائشے کے پہلے پہلے دنوں میں ہی یہ انجام پاجائے _ اسلام حکم دیتا ہے کہ ساتویں دن نو مولود کا ختنہ کردیا جائے _حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ''اختنوا اولادکم لسبعة ایام، فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم ، و ان الارض لتکره بول الاغلف''

''ساتویں دن اپنے بچوں کا ختنہ کریں _ یہ ان کے لیے بہتر بھی ہے اور پاکیزہ تر

-----------

۱_ مجمع الزوائد ج ۵ ص ۱۳۲

۲_ بحار الانوار ج ۱۰۴ ص ۹۵

۱۰۳

بھی نیز ان کی سریع تر نشو و نما اور پرورش کے لیے بھی مفید ہے اور یقینا زمین اس انسان کے پیشاب سے کراہت کرتی ہے کہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو '' _ (۱)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: ''اختنوا اولاد کم یوم السابع فانه اطهر و اسرع لنبات اللحم''

''نو مولد کا ساتویں دن ختنہ کریں تا کہ وہ پاک ہوجائے اور بہتر رشد و نمو کرے '' _ (۲)

عقیدہ کرنا بھی مستحبات مؤکد میں سے ہے _ اسلام نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ساتویںدن بچے کے بال کٹوائے جائیں اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر سونے یا چاندی صدقہ دیا جائے اور اسی روز عقیقہ کے طور پر دنبہ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت فقرا میں تقسیم کیا جائے _

یا انہیں دعوت کرکے کھلایاجائے _ عقیقہ کرنا ایک اچھا صدقہ ہے اور بچہ کی جان کی سلامتی اور دفع بلا کے لئے مفید ہے _

نو مولود نہایت نازک او ر ناتوان ہوتا ہے _ اسے ماں باپ کی توجہ اور نگرانی کی بہت احتیاج ہوتی ہے _ صحت و سلامتی یا رنج و بیماری کی بچپن میں ہی انسان میں بنیاد پڑجاتی ہے اور اس کی ذمہ داری ماں باپ پر عائد ہوتی ہے جو ماں باپ اس کے وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ اس کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے کا وش کریں اور ایک سالم اور تندرست انسان پروان چڑھائیں _ اگرماں باپ کی سہل انگاری اور غفلت کی وجہ سے بچے کے جسم و روح کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ مسئول ہیں اور ان سے مؤاخذہ کیا جائے گا _ بچہ دسیوں بیماریوں میں گھر اہوتا ہے ، جن میں سے بہت سی بیماریوں کو لاحق ہونے سے روکا جا سکتا ہے مثلاً بچوں کا فالج ، جسم پر چھالوں کا پیدا ہونا ، خسرہ چیچک ، خناق، تشنج

---------

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۵ص ۱۶۱

۲_ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ص ۱۶۵

۱۰۴

اور کالی کھانسی و غیرہ جیسی بیماریوں سے متعلقہ ٹیکے لگواکر (دیکسنیشن کے ذریعے ) بچے جا سکتا ہے خوش قسمتی سے شفا خانوں اور طبی مراکز میں اس قسم کی بیماریوں کی روک تھام کا انتظام موجود ہے _ اور رجوع کرنے والوں کو اس مقصد کے لیے مفت ٹیکہ لگایا جاتا ہے _ ماں باپ کے پاس اس بارے میں کوئی عذر موجود نہیں ہے _ اگر وہ کوتاہی کریں اور ان کا عزیز بچہ فالج زدہ ہوجائے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجائے یا آخر عمر تک ناقص اور بیماررہ جائے تو وہ خدا اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں گے _ بہر حال ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی صحت و سلامتی کی حفاظت کے لیے کوشش کریں اور توانا اور صحیح و سالم انسان پروان چڑھائیں _

۱۰۵

بچے کی نیند اور آزادی

چند ابتدائی ہفتے نو مولود زیادہ وقت سویا رہتا ہے _ شاید رات دن وہ بیس گھنٹے سوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کی نیند کی مدت کمتر ہوتی جاتی ہے _ نومولود کو نیند اور مکمل آرام کی شدید ضرورت ہوتی ہے _ زیادہ شور و شین اور مزاحمت سے وہ بیزار اور متنفر ہوتا ہے _ وہ پر سکون ماحول کو پسند کرتا ہے تا کہ آرام سے سوسکے اور اس میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہو _ زیادہ چوما چاٹی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں گردش اور دوسروں کو دکھاتے رہنے سے بچے کا آرام و استراحت تباہ ہوجاتا ہے _ زیادہ غل غپاڑا اور ریڈیو اور ٹیلی وین کی سمع خراش آوازیں بچے کے نازک اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ بچے کی مزے کی نیند کو بے مقصد خراب نہیں کرتا چاہیے اور اسے خواہ مخواہ ادھر ادھر نہیں لے جانا چاہیے _ ایسی حرکتیں بچے کے آرام کو برباد کردیتی ہیں اور اس کے اعصاب کو متاثر کرتی ہیں _ اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو ممکن ہے بچے میں تند مزاجی ، کج خلقی ، چڑچڑاپن اور اضطراب پیدا ہوجائے _

زیادہ شور و غل سے اور ادھر ادھر لے جائے جانے سے نومولود نفرت کرتا ہے _البتہ وہ ہلنے جلنے کا مخالف نہیں ہے _ اسے اچھا لکتا ہے کہ ماں کی گود میں یا گہوارے میں اسے حرکت دی جائے _ ہلنے جلنے وہ سکون محسوس کرتا ہے اور اس کا دل خوش ہوتا ہے _ کیونکہ حرکت اس امر کی علامت ہے کہ کوئی اس کے قریب موجود ہے اور اس کی دیکھ بھال کررہا ہے _ جب کہ خاموشی اور بے حرکتی تنہائی کی نشانی ہے علاوہ ازیں عالم جنیں میں بچہ ماں کے گہوارہ شکم میں حرکت کرتا رہا ہے اسی وجہ سے اگلے مرحلے میں بھی وہ

۱۰۶

چاہتا ہے کہ ویسی ہی کیفیت جاری رہے _ بچہ ماں کی پیاری اور میٹھی لوریوں سے بھی احساس راحت کرتا ہے _

بچے کی زندگی کا پہلا سال اس کے پٹھوں اور اعضاء کی مشق کا سال ہے _ بچہ پسند کرتا ہے کہ آزادنہ حرکت کرے اور اپنے ہاتھ پاؤں مارے نومولود کا لباس نرم اور کھلا ہونا چاہیے _ بچے کو تہ درتہ کپڑروں میں کس باندھ دینے سے اس کی آزادی حرکت جاتی رہتی ہے اور اس سے اس کے اعصاب پر اثر پڑتا ہے _ جس بچے کی آزادی چھین لی جائے اس کے پاس رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا لہذا وہ دادو فریاد کرتا رہتا ہے _ اور اعصاب کی یہی بے آرامی ممکن ہے تند مزاجی اور شدید غصیلے پن کا مقدمہ بن جائے _

۱۰۷
۱۰۸
۱۰۹
۱۱۰
۱۱۱

نومولود اور اخلاقی تربیت

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بہت کمزور ہوتا ہے _ عقل بالقوت رکھتا ہے مگر کچھ چیز سمجھتا نہیں ، فکر اور سوچ بچار نہیں کرتا ، آنکھ سے دیکھتا ہے لیکن کسی چیز کو پہچانتا نہیں _ رنگوں اورشکلوں کو مشخص نہیں کر پاتا ، دوری اور نزدیکی ، بزرگی اور بچپن کو نہیں سمجھتا ، آوازیں سنتا ہے لیکن ان کے معانی اور خصوصیات اس کی سمجھ میں نہیں آتے اور یہی حالت اس کے تمام حواس کی ہے مگر وہ سمجھنے اور کمال تک پہنچنے کی وقت و استعداد رکھتا ہے تدریجا ً تجربوں سے گزرتا ہے اور چیزوں کو سمجھنے لگتا ہے _ اللہ قرآن میں فرماتا ہے :

والله اخرجکم من بطون امّهاتکم لا تعلمون شیئا و جعل لکم السّمع و الابصار و الافئدة لعلّکم تشکرون

اللہ نہ تمہیں تمہاری ماؤن کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل عطا کیا شاید کہ تم شکرگزار ہوجاؤ _

سورہ نحل _ آیہ ۷۸

بچے کی زیادہ تر مصروفیات یہ ہیں کہ وہ کھاتا ہے ، سوتا ہے _ ہاتھ پاؤں مارتا ہے روتا ہے اور پیشاب کرتا ہے _ چند ہفتوں تک وہ ان کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا _نومولود کے ابتدائی کام اگر چہ بہت سادہ سے اور چند ایک ہیں لیکن انہیں کے ذریعے سے بچہ دوسرے لوگوں سے ارتباط پیدا کرتا ہے ، تجربے کرتا ہے ، عادتیں اپناتا ہے اور علم حاصل

۱۱۲

کرتا ہے _ یہی رابطے اور تجربے ہیں کہ جن سے بچے کی آئندہ کی اخلاق اور معاشرتی خصیت کی بنیاد پڑتی ہے اور وہ تشکیل پاتی ہے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

الا یام تو ضح السّرا ئرا لکا منه

جوں جوں دن گزرتے ہیں بھید کھلتے ہیں (۱) بچہ ایک کمز رو معاشر تی فرد ہے کہ جو دوسروں کی مدد کے بغیر نہ زندہ رہ سکتا ہے اورنہ زندگی ، بسر کرسکتا ہے اگر دوسرے اس کی مدد کونہ لپکیں اور اس کی احتیاجات کوپویانے کریں تو وہ مر جائے گا _ نو مو لود کی جسمانی صحت اور پرورش جن کے ذمے ہوتی ہے اس کی اخلاق ، اجتماعی یہاں تک کہ دینی تربیت اور رشد بھی انہیں سے وابستہ ہے

سمجھدار اور احساس دمہ داری کرنے والے ماں باپ اپنے صحیح اور سو چے سمجھے طرز عمل سے نو مولود کی ضروریات کوپورا کرسکتے ہیں اور اس کے جسم و روح کی پرورش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرسکتے ہیں اور اس کی حساس اور بے آلائشے روح میں پاکیزہ اخلاق اور نیک عادات پیدا کرسکتے ہیں _ اسی طرح ایک نادان تربیت کرنے، والا اپنے غلط طرز عمل اور اشتباہ سے ایک نو مولود کے پاک اور بے آلائشے نفس میں برے اخلاق او رناپسندیدہ عادات پیدا کر سکتا ہے _

نو مولود کو بھوک لگتی ہے اور اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے وہ اپنی ضرورت کا احساس کرتا ہے اور وہ ایک بڑی قوت کی طرف تو جہ کرتا ہے کہ جواس کی ضروریات کو بر طرف کرسکتی ہو اسی لیے وہ رو تا ہے ، شور مچاتا ہے کہ اس کی فریاد کو پہنچا جائے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اگر بچے کی داخلی خواہشات کی طرف پوری تو جہ کی جائے اور ایک صحیح پرو گرام تربیت و یا جائے اسے معین مواقع پرا و ضروری مقدا میں دودھ یا جائے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے مطمئن ہو کے سوتا ہے اور معین اوقات پر جب اسے بھوک لگتی ہے

--------

۱_ غرر الحکم ص ۴۷

۱۱۳

تو بیدا ر ہوتا ہے پھر دود ھ پیتا ہے اور پھر سو جاتال ہے ایسے بچے کے اعصاب آرام و راحت سے رہتے ہیں _ اسے اضطراب اور بے چینی نہیں ہوتی ، اسے زندگی میں اچھے اخلاق، صبر اور نظم و ضبط کی عادت پڑ جاتی ہے اس کی حساس روح میں دوسروں پر اعتماد اور حسن ظن کی بنیاد پڑ جاتی ہے _ نومولود زندگی کے اس مرحلے میں کہ جب وہ کسی کونہیں پہچانتا فطری طور پر دو امور کی طرف تو جہ رکھتا ہے _ ایک اپنی ناتوانی اور نیازمندی کا اسے پورا احساس ہو تا ہے اور دوسری طرف ایک بڑی اور مطلق قوت کی طرف تو جہ رکھتا ہے کہ جو تمام احتیاجات کے لئے ملجاو پناہ گاہ ہے اسی سبب سے روتا ہے اور اس بر تر قوت کو مدد کے لیے پکار تا ہے کہ جسے و ہ پہچانتا نہیں اور وہ غیبی قوت سب اہل جہان کو پیدا کرنے والی ہے بچہ اپنے ضعف و ناتوانی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک بے نیاز طاقت سے وابستہ اور متعلق سمجھتاہے _ اگر یہ احساس تعلق آرام کے ساتھ بخوبی بندھآ رہے تو بچے کے دل میں ایمان اور روحانی سکون کی بنیاد پڑ جاتی ہے _

پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ہے _

(( رونے پر بچوں کونہ مارنا بلکہ ان کی ضروریات کو پورا کرنا کیوں کہ چار ماہ تکح بچے کا رونا پروردگار عالم کے وجود اور اس کی وحدانیت پر گواہی ہو تا ہے (۱)

چار ماہ پورے ہونے سے پہلے نومولود ابھی ایک معاشرتی و جود نہیں بنا ہوتا _ کسی کو نہیں پہچانتا _ جتی اپنی ماں اور دوسروں میں فرق نہیں کرپاتا اور ماؤں کے بقول وہ دوری نہیں کرتا یہی چار ماہ ہیں کہ بچہ بس ایک ہی ذات کی طرف متوجہ ہو تا ہے لیکن جو بچہ ماں کی غفلت اور سستی کی وجہ سے صحیح اور منظم توجہ اورغذا سے محروم ہو جاتا ہے ناچار گاہ بگاہ روتا ہے اور شور کرتا ہے تا کہ کوئی اس کی مدد کو پہنچے _ ایسے بچے کے

-----------

۱_ بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۱۰۳

۱۱۴

اعصاب اورذھن ہمیشہ مضطرب اور دگرگوں رہتے ہیں اور اسے آرام نہیں ملتا _ آہستہ آہستہ وہ چڑ چڑ اور تند خو ہو جاتا ہے _ اس کے اندر بے اعتمادی اور پریشانی کی حس پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک نامنظم اور ڈہیٹ و جود بن جاتا ہے _

۱۱۵

نومولود اور دنی تربیت

یہ صحیح ہے کہ نو مولود الفاظ او رجملے نہیں سمجھتا _ مناظر اور شکلوں کی خصوصیات کو پہچان نہیں سکتا _ لیکن آوازوں کو سنتا ہے اور اس کے اعصاب اور ذہن اس سے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح سے مناظر اورشکلوں کو دیکھتا ہے اور اس کے اعصاب اس سے بھی متاثر ہوتے ہیں _ لہذا اس بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دیکھی جانے والی اور سنی جانے والی چیزیں نو مولود پر اثر نہیں کرتیں اور وہ ان کے بارے میں بالک لاتعلق ہوتا ہے _ نومولود اگر چہ جملوں کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہ جملے اسکی حساس اور ظریف روح پر نقش پیدا کرتے ہیں _ بچہ رفتہ رفتہ ان جملوں سے آشنا ہوجاتا ہے اور یہی آشنائی ممکن ہے اس کے آئندہ کے لیے مؤثر ہو _ جس لفظ سے ہم زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس کے معنی کو بہتر سمجھتے ہیں _ نا آشنا افراد کی نسبت آشنا افراد کو ہم زیادہ پسند کرتے ہیں ایک بچہ ہے کہ جو دینی ماحول میں پرورش پاتا ہے ، سینکڑوں مرتبہ اس نے تلاوت قرآن کی دلربا آواز سنی ہے ،اللہ کا خوبصورت لفط اس کے کالوں سے ٹکرایا ہے اور اس نے اپنی آنکھوں سے بارہا ماں باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے _ دوسری طرف ایک نومولود ہے کہ اس نے برے اور بے دین ، ماحول میں پرورش پائی ہے ، اس کے کانوں نے غلیظ اور گندے سنے ہیں اور اس کی آنکھیں فحش مناظر دیکھنے کی عادی ہوگئی ہیں یہ دونوں بچے ایک جیسے نہیں ہیں _

سمجھدار اورذمہ دار ماں با پ اپنے بچوں کو تربیت کے لیے کسی موقع کو ضائع نہیں کرتے یہاں تک کہ اچھی آوازیں اور اچھے مناظر سے انہیں مانوس کرنے سے بھی غفلت

۱۱۶

نہیں کرتے_

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس حساس تربیتی نقطے کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ ''جو نہی بچہ دنیا میں آئے اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہیں''_

حضرت علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

جس کے ہاں بھی بچہ ہوا سے چاہیے کہ اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہے تا کہ وہ شر شیطان سے محفوظ رہے _ آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) کے بارے میں بھی اسی حکم پر عمل کرنے کے لیے کہا _ علاوہ ازیں حکم دیا کہ ان کے کانوں میں سورہ حمد ، آیة الکرسی ، سورہ حشر کی آخری آیات ، سورہ اخلاق ، سورہ والناس اور سورہ و الفلق پڑھی جائیں_ (۱)

بعض احادیث میں آیا ہے :

خود رسول اللہ نے امام حسن (ع) اورامام حسین (ع) کے کان میں اذان و اقامت کہی _

ہاں

رسول اسلام جانتے تھے کہ نو مولود اذان، اقامت اور قرآنی الفاظ کے معانی نہیں سمجھتا لیکن یہی الفاظ بچے کے ظریف اور لطیف اعصاب پر جو اثر مرتب کرتے ہیں آپ (ص) نے اسے نظر انداز نہیں کیا _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس نکتے کی طرف توجہ تھی کہ یہ جملے بچے کی روح اور نفسیات پر نقش مرتب کرتے ہیں اور اسے ان سے مانوس کرتے ہیں _ اور الفاظ سے یہ مانوسیت بے اثر نہیں رہے گی _ علاوہ ازیں ممکن ہے کہ اس تاکیدی حکم کے لیے رسول (ع) کے پیش نظر کوئی اور بات ہو _ شاید وہ چاہتے ہوں کہ ماں باپ کو متوجہ کریں کہ بچے کی تعلیم و

-----------

۱_ مستدرک ج ۲ ص ۶۱۹

۱۱۷

تربیت کے بارے میں سہل انگاری درست نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ذریعے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے جب ایک با شعور مربی نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہتا ہے تو گویا اس کے مستقبل کے لئے واضح طور پر اعلان کرتا ہے اور اپنے پیارے بچے کو خداپرستوں کے گروہ سے ملحق کردیتا ہے _

بچے پرہونے والے اثر کا تعلق صرف سماعت سے متعلق نہیں ہے بلکہ مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز بھی بچے کے حواس، ذہن اور اعصاب پر اثر اندازہوتی ہے اس کی آئندہ کی زندگی سے لاتعلق نہیں ہوتی مثلاً جو نو مولود کوئی بے حیائی کا کام دیکھتا ہے اگر چہ اسے سمجھ نہیں پاتا _ لیکن اس کی روح اور نفسیات پر اس برے کام کا اثر ہوتا ہے اور یہی ایک چھوٹا کام ممکن ہے اس کے انحراف کی بنیاد بن جائے _ اسی لیے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایاہے:

''گہوراہ میں موجود بچہ اگر دیکھ رہا ہو تو مرد کو نہیں چاہیے کہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے '' _ (۱)

--------

۱_ مستدرک ج ۲ ص ۵۴۶

۱۱۸

احساس وابستگی

نومولود بہت کمزور سا وجود ہے جو دوسروں کی مدد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے نہ پرورش پا سکتا ہے نو مولود ایسا محتاج وجود ہے جس کی ضروریات دوسرے پوری کرتے ہیں _ جب وہ رحم مادر میں تھا تواسے نرم و گرم جگہ میسّر تھی _ وہاں اس کی غذا اور حرارت کیاحتیاج ماں کے ذریعے پوری ہو رہی تھی _ وہ چین سے ایک گوشے میں پڑاتھا اوراپنی ضروریات کے لیے بالکل بے فکر تھا _ اب جب کہ وہ دنیا میں آیا ہے تو احساس نیاز کرتا ہے _ بچے کا پہلا پہلا احساس شاید سردی کے بارے میں ہوتا ہے اور اس کے بعد بھوک کے بارے میں _ اسے پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ حرارت اور غذا کے لیے وہ دوسرے کا محتاج ہے _ اس مرحلے میں وہ کسی کو نہیں پہچانتا _ اپنی ضروریات کو فطرتاً سمجھتا ہے اور ایک انجانی قدرت مطلقہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے _ اپنے تئیں اس قدرت مطلقہ سے منسلک سمجھتا ہے _ اسے انتظار ہوتا ہے وہ قدرت اس کی ضروریات پورا کرے گی _ بچہ زندگی کی ابتدا ہی میں کسی سے وابستگی کا احساس کرتا ہے اور یہ احساس زندگی کے تمام مراحل میں اس کے ساتھ رہتا ہے _ بھوک یا پیاس لگے تو دوسروں کو متوجہ کرنے کے لیے روتا ہے _ ماں کے سینے سے چمٹ جاتا ہے اور اس کی محبتوں اور لوریوں سے سکون محسوس کرتا ہے _ اگر اسے کوئی تکلیف ہو یا کسی خطرے کا احساس کرے تو ماں کے دامن میں پناہ لیتا ہے _

یہی وابستگی اور احساس ضرورت ہے جو بعد میں دوسرے لوگوں کی تقلید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے_ یہ ایک نفسیاتی وابستگی ہے _ بچہ اپنے اخلاق اور طرز عمل کو اپنے

۱۱۹

ارد گردوالوں کے اخلاق اور طرز عمل کے مطابق ڈھالتا ہے _ یہی احساس تعلق ہے جو بعد ازاں کھیلوں اور دوسرے سے مل جل کر کام کرنے اور دوست بنانے میں ظاہر ہوتا ہے _ بیوی بچوں سے الفت و محبت کا سرچشمہ بھی یہی احساس ہے اجتماعی زندگی کی طرف میلان ، باہمی تعاون اور مل جل کر کام کرنے کا مزاج بھی اسی احساس سے تشکیل پاتا ہے _ احساس وابستگی کو کوئی معمولی سی چیز نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بچے کی اخلاقی اور سماجی تربیت اور اس کی تکمیل شخصیت کا ایک اہم ذریعہ ہے _ اگر اس احساس وابستگی و تعلق کی صحیح طور پر راہنمائی کی جائے تو بچہ آرام و سکون محسوس کرتا ہے _ وہ پر اعتماد اور خوش مزاج ہوجاتا ہے _ اچھی امیدوار توکل کی کیفیت اس میں پیدا ہوجاتی ہے _ دوسروں کے بارے میں اس میں حسن ظن پیدا ہوجاتا ہے _ اس طرح معاشرتی زندگی کی طرف قدم بڑھاتا ہے _ دوسروں کو اچھا سمجھتا ہے اور ان سے تعاون کی امید رکھتا ہے _ جب معاشرے کے بارے میں اس کے رائے اچھی ہوگی تو اس سے تعاون بھی کرے گا اور اس کے لیے ایثار بھی کرے گا _ معاشرے کے لوگ بھی جب اسے اپنا خیر خواہ اور خدمت گزار سمجھیں گے تو وہ بھی اس سے اظہار محبت کریں گے _

اس کے برعکس اگر یہ گراں بہا احساس کچلا جائے اور اس سے صحیح طور پر استفادہ نہ کیا جائے تو خدا نے جو صحیح راستہ بچے کے لیے مقرر کیا ہے اس کی اجتماعی زندگی اس سے بھٹک جائے گی _ ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ بہت سے مواقع پر خوف ، اضطراب ، بے اعتمادی ، بدگمانی ، شرمندگی، گوشہ نشینی، افسردگی اور پریشانی یہاں تک کہ خودکشی اور جراثیم کی بنیاد بچپن میں پیش آنے والے واقعات ہوتے ہیں

اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کے احساس وابستگی کو صحیح طرح سے مطمئن کریں تو ہمیشہ اس کے مددگار ہیں _ جب اسے بھوک لگے تو غذا دیں اور اس کے لیے آرام و راحت کا سامن فراہم کریں _ اگر اسے درد ہو یا کوئی اور تکلیف پیش آئے تو فوراً اس کی داد رسی کریں _ اس کی نیند اور خوراک کو منظم رکھیں _ اس طرح سے کہ اسے بالکل پریشانی نہ ہو او ر وہ آرام کا احساس کرے _

نو مولود کو مارپیٹ نہ کریں _ نو مولود کچھ نہیں پہچانتا _ اسے صرف اپنی ضرورت کا احساس

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361