آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121946
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121946 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہوتا ہے اور ایک انجانی قدرت پر بھروسہ کرتا ہے _ وہ رنے کی زبان سے اس کی پناہ حاصل کرتا ہے اور اپنی احتیاج کا اظہار کرتا ہے _ مارپیٹ کے ذریعے اسے مایوس اور بدظن نہ کردیں _

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

''بچوں کو رونے پر مارنانہ چاہیئےیونکہ چار ماہ تک اپنے اس رونے کے ذریعے وہ اللہ اور اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں '' _ (1)

ہر حال میں بچے کے مددگار رہیں اگر وہ کوئی انجام دینا چاہتا ہے اور آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے تو بھی اس سے نوازش و محبت سے پیش آئیں _ اگر بچہ پریشان ہواور وہ ناراحتی محسوس کرتا ہو تو اس پریشانی کے اسباب ختم کریں اور اس کو مطمئن کریں اسے ہرگز ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ میں تمہیں یہیں چھوڑ کر جارہی ہوں _ کیونکہ یہی ڈانٹ ڈپٹ ممکن ہے اس کی روح پر برا اثر کرے اور اسے پریشان کردے _ بچہ چاہتا ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسروں کو محبوب ہو _ اگر ماں باپ اس سے محبت نہ کریں تو وہ اس پر سخت پریشان ہوتا ہے _ وہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ ان کا پیارااور محبت ہمیشہ باقی رہے _ بعض ماں باپ بچے کے اس جذبے سے استفادہ کرتے ہیں اور بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ اگر تونسے یہ کام نہ یکا تو ہم تم سے پیار نہیں کریں گے لیکن آپ کو چاہیے کہ اس حربے کو استعمال نہ کریں _ کیونکہ اس طرح کی ڈانٹ ممکن ہے تدریجاً بچے کی روح پر برے اثرات مرتب کرے اور اس سے اس کا عتماد اور رآرام جاتا رہے اور یہ بچے کے ضعیف اعصاب اور داخلی اضطراب کا سبب بن جائے _ اگر وہ رورہا ہو یا شور کررہا ہو تو وہ یہ نہیں چاہ رہا ہوتا کہ آپ کو بے آرام کرے بلکہ وہ آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہ رہا ہوتا ہے تا کہ آپ اس کی بات سنیں _ آپ صبر اور سمجھداری کے ساتھ اس کی بے آرامی کی وجوہ سمجھیں اور اس بے آرامی کو دور کریں _ تا کہ اسے آرام ملے _ اگر آپ اسے رونے پر ڈانٹیں گے یا ماریں _ گے تو ممکن ہے وہ خاموش ہوجائے _ لیکن کیسے خاموش ؟ ایک اضطراب آمیز

----------

1_ بحار الانوار _ جلد 104 ص 103

۱۲۱

مایوسانہ خاموشی کہ جو بہت خطرناک ہے جو ممکن ہے اس کے مستقبل کو دگرگوں کردے _ ماں باپ کی موجودگی سے بچہ ہمیشہ خوش رہتا ہے اور ان کی جدائی سے وحشت کھاتا ہے _ آپ کبھی اپنی موت کے بارے میں سے بات نہ کریں کیونکہ یہ اس کی پریشانی اور وحشت کا سبب ہوگی _ اگر آپ بیمار ہوجائیں تو موت کاذکر نہ کریں _ بلکہ اپنے بچوں کو پر امید رکھیں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں اگر آپ ایک عرصے کے لیے بچوں سے دور ہونے پر مجبور ہوں تو پہلے انہیں اس پر آمادہ کریں _ ان کادل بڑھائیں پھر سفر اختیار کریں اور اس کے بعد ابھی ہمیشہ ان سے رابطہ برقرار رکھیں اور نامہ و پیام کے ذریعے سے ان کی دھارس بندھاتے رہیں_

اگر آپ کا بچہ بیمار ہوجائے تو دوا کھلانے کے لیے اسے موت سے اور اچھا نہ ہونے سے نہ ڈرائیں _ بلکہ ایسے مواقع پر تشویش کی راہ اختیار کریں اور اسے صحیح ہوجانے کی امید دلائیں _ یہاں تک کہ اسے اگر کوئی خطرناک بیماری ہو تو اپنی پریشانی اور اضطراب کو اس سے چھپائے رکھیں _ مختصر یہ کہ پوری عمر اپنے بچوں سے ایسا سلوک رکھیں کہ وہ آپ کو اپنا بہترین غمگسار اور غمخوار سمجھیں _

البتہ اس بات کا خیال رہے کہ بچے سے اظہار محبت ضروری حد تک اور ضروری مقامات پر ہونا چاہیے _ اس طرح سے کہ وہ لا ڈپیارسے بگڑنہ جائے اور خود اعتمادی سے محروم نہ ہوجائے _ جہاں بچہ واقعی کوئی کام نہ کرسکتا ہو اس کی مدد کرنا چاہیے لیکن اگر وہ ایک کام خود کرسکتا ہے اور اسے مدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ دوسروں پر رعب جمانے کے لیے شور کررہا ہو تو اس کی طرف اعتناء نہیں کرنا چاہیے _

رسل لکھتا ہے :

اگر بچہ کسی وجہ اور واضح علت کے بغیر روئے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اور وہ جتنا چلاّ نے دیں _ ایسے مواقع پر اگر کوئی اور روش اپنائی گئی تو وہ جلدی ہی ایک جابر حاکم کی صورت اختیار کرلے گا

۱۲۲

ایسے مواقع کہ جہاں ضرورت ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے وہاں بھی افراط سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ حسب ضرورت طرز عمل اپنا ناچاہیے اور زیادہ ہی اظہار محبت نہیں کرنا چاہیے _ (1)

----------

1_ در تربیت ، ص 79

۱۲۳

جب بچہ باہر کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے

بچہ ایک چھو ٹا سا انسان ہوتا ہے اور انسان مدنی با لطبع ہے _ مدد اور تعادن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندگی گزار سکتا ہے دوسروں کی طرف توجہ رکھتا ہے ان سے استفادہ کرتا ہے اور انہیں فائدہ پہنچا تا ہے _ لیکن نومولود اپنی زندگی کے ابتدائی مہینوں میں کسی کو نہیں پہچانتا اور دوسروں کی طرف توجہ نہیں کرتا یعنی اجتماعی مزاج ابھی اس میں ظاہر نہیں ہوا ہوتا جب تقر بیا چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ مدنی بالطبع ہونے کے آثار اس میں ظاہر ہو نے لگتے ہیں _ اس وقت وہ اپنے سے خارجی دنیا اور اپنےھ ارد گرد کے موجودات کی طرف توجہ کرتا ہے وہ ماں کی حرکات و سکنات کو دیکھتا رہتا ہے _ ماں کی حرکات پر اپنا رو عمل ظاہر کرتا ہے مسکراہٹ کے جواب میں مسکراتا ہے اور اس کی را بردؤں کے جواب میں اپنے ابردؤں کو حرکت دیتا ہے بچوں کے کھیل کو حیرت سے دیکھتا ہے ، اٹھکیلیاں کرتا ہے اور مسکر اتا ہے دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، غصے پر اپنے تیئں پیچھے کھینچ لیتا ہے _

خوش دخرم چر ے اور محبّت آمیز آواز ہو تو ھمک ھمک کر قریب آتا ہے _ وہ چا ہتا ہے کہ اسے بٹھا دیا جائے تا کہ دنیا کو اپنے سامنے دیکھے _

جب بچہ اس مرحلے میں پہنچ جائے تو ماں باپ کو توجہ رکھنا چاہیئے کہ بچے میں اجتماعی احساسات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ اب خاندان کا ایک با قاعدہ حصہ بن گیا ہے _ دوسروں کی طرف تو جہ رکھٹا ہے اور ان کے جذبات کو کسی حد تک محسوس کرتا ہے _ اب نہیں چائے کہ اسے بے شعور

۱۲۴

اور لا تعلق سمجھا جائے اور اس سے لا تعلق ہا جائے _ ان چار اہ کی مدت میں اس نے تجربے کیے ہیں اور چیزوں کو یاد کیا ہے وہ اب خارجی دنیا کو دیکھنے والا اور اجتماعی وجود رکھنے والا انسان ہے _ یہ احساس اگر چہ بہت سادہ اور بار یک ساہے _ لیکن یہ اس کی آئندہ کی مفصّل اجتماعی زندگی کا افق ہے _ اگر ماں باپ اپنے بچے کے اس نئے احساس کو پہچانیں اور سوچ سنجھ کر عقلی بنیاد وں پر اس کی تکمیل کی کوشش کریں تو وہ ایک اجتماعی شعور رکھنے والا مفید انسان پروان چڑھا سکتے ہیں لیکن خارجی دنیا کایہ احساس آہستہ آہستہ دب جاتا ہے اور بچہ داخلی دنیا کی ہو لنا ک وادی کی طرف لوٹ جاتا ہے اور یہ بذات خود نقصان وہ صفات میں سے ہے _ اسی صفت کی وجہ سے انسان گوشہ نشینی پسند کرنے لگتا ہے اور خو د بین ہو جاتا ہے _ معاشر ے اور معاشرتی کاموں سے گریزاں ہو جاتا ہے دوسرں کے بارے میں بد گمال ہو جاتا ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے _ تعاوں اور ہمکار ی سے ڈرتاہے اور خوف کھا تا ہے _

اس موقع پر ماں باپ کے سر پرنئی ذمہ داریاں آجاتی ہیں _ انہیں چا ہیے کہ بچے کو با شعور سمجھیں کہ جو ان کے جذبات کو محسوس کرتا ہے اور ان کے کردار سے اثر قبول کرتا ہے _ بچے کو بھول نہیں جانا چاہیے اور ہمیشہ اس کی طرف تو جہ رکھنا چاہیے اس سے مسکراتے برتٹوں اور اور خوش و

و خرم چہرے سے ملاقات کرناچا ہیے _ اس سے محبت آمیز انداز سے بات کرنا چاہیے _ پیار بھر ے انداز سے بوسہ لے کر اس سے اظہار محبت کرنا چا ہیے _ ایک مہربان ماں اپنے سر اور گردن کی حرکت سے ، اپنے چشم و آبرو کے اشار ے سے ، اپنی میٹھی مسکراہٹ سے اور اپنی محبت آمیز گنگنا ہٹ سے بچے کی حس اجتماعی کو تقویت پہنچا سکتی ہے اور اسے خارجی دنیا کی طرف متوجہ کرسکتی ہے کھیلنے کی اچھی اچھی اور مناسب چیزوں کے ذریعے اسے خارجی دنیا کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے _

بچے کی اندرونی خواہشات اگر ٹھیک طریقے سے پوری کردی جائیں تو وہ آرام اور سکون محسوس کرتا ہے _ دوسروں کے بارے میں خوش بین ہوجاتا ہے _لوگوں کو خیر خواہ ، مہربان اور ہمدرد سمجھتا ہے _ جب معاشرہ اس سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کی اندرونی خواہشات کا مثبت جواب دیتا ہے تو بچہ بھی اس سے خوش بین اور مانوس ہو جاتا ہے _ اس طرح کا

۱۲۵

طرز فکر بچے کی روح اور جسم پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کی آئندہ زندگی کے لیے اچھی بنیاد بنتا ہے اچھے ماں اور باپ بچے کو مارتے نہیں ، تر ش روٹی سے پیش نہیں آتے اور اس کی زندگی کو تلخ نہیں بنا تے کیونکہ انہیں معلوم ہو تا ہے کہ اس طرح کا احمقانہ رویہ بچے پر روحانی اور نفسیاتی اعتبار سے برے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کے جذبات اور پاک احساسات کو مجروح کردیتا ہے اور اس کی شکستگی کا باعث بنتا ہے _ اسی غیر عاقلانہ طر ز عمل کا نتیجہ ہی ہو تا ہے کہ بچہ ڈر پوک ، احساس کمتر ی کا شکار ، گوشہ نشین ، بد بین اوردل گرفتہ ہو جاتا ہے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا :

اپنی اولاد کا احترام کرواور ان کی اچھی تربیت کرد تا کہ اللہ تمہین بخش دے ( 1)

--------

1_ مکارم الاخلاق ص 255

۱۲۶

محبّت

انسان محبت کا پیا سا ہے محبّت دلوں کو زندگی بخشتی ہے _ جو اپنے آپ کو پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں ، محبوبیت کا یہ احساس اس کے دل کو شاد کردیتا ہے _ جسے یہ معلوم ہو کہ اسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا وہ اس پر آشوب زندگی میں اپنے آپ کو تنہا اور بے کس سمجھتا ہے _ اس وجہ سے وہ ہمیشہ افسردہ اور پر مدہ رہتا ہے_ بچہ بھی ایک چھوٹا سا انسان ہے اور اسے بڑوں کی نسبت محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے _ بچہ یہ نہیں سمجھتا کہ محل میں زندگی گزار رہا ہے یا جھونپٹری میں _ البتہ یہ خوب سمجھتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں _ اس احساس محبت سے وہ آرام و سکون کے ساتھ اپنی نشوو نما کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور انسانیت کی بلند صفات حاصل کرسکتا ہے _ اچھے اخلاق کا سرچشمہ محبت ہے _ محبّت کے پر تومیں بچے کے جذبات اور احساسات کو اچھے طریقے سے پروان چڑ ھا یا جا سکتا ہے اور اسے ایک اچھا انسان بنا یا جاسکتا ہے

جس بچے کو بھر پور محبت ملی ہو اس کی روح شاد اور دل پر نشاط ہو تا ہے _ وہ احساس محرومی کا شکار ہو کر بڑاردّ عمل ظاہر نہیں کرتا _ خوش بین ، خوش مزاج اور پر اعتماد ہو تا ہے _ اس فطری نشوونما کی وجہ سے وہ نفسیاتی مشکلات کا شکار نہیں ہو تا _ خیر خواہ اور انسان دوست بن جاتا ہے _ کیونکہ وہ محبت کے میٹھے چشمے سے سیراب ہو ا ہوتا ہے لہذا چاہتا ہے کہ دوسروں کوبھی اس سے سیراب کرے _ وہ لوگوں سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسااس سے کیا جاتا ہے _

۱۲۷

جو بچہ پیار محبت کے ماحول میں پرورش پاتا ہے وہ دوران بلوغت پیش آنے والی مشکلات اور جسمانی و نفسیاتی تبدیلیوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتا ہے _جس لڑکی کو ماں باپ سے محبت ملی ہوا ور اس کا گھریلو حول محبت سے معمور ہو وہ جوانی میں بے کسی اور محرومی کا احساس نہیں کرتی _ وہ کسی خود غرض لڑکے کے چند محبت آمیز جملے سن کر اپنے تئیں اس کے سپرد کرکے اپنا مستقبل تباہ نہیں کردیتی _ جس نوجوان نے پیار اور محبت کے ماحول میں پرورش پائی ہو وہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتا کہ اسے برائیوں ، منشیات اور شراب کے مراکز پناہ کی ضرورت پڑے _

نفسیاتی نکتہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ وہ بچے جنہیں خوب محبت ملی ہو ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوشمند اور صحیح و سالم ہوتے ہیں جو پرورش گاہوں میں پلے ہوں _ اگر چہ پرورش گاہوں میں پلنے والے بچے غذا اور حفظان صحت کے اعتبار سے اچھے ہوں ،مگر جس نے جذبات سے عاری سرد ماحول میں پرورش پائی ہو اور ماں باپ کی مہر و محبت نہ دیکھی ہو اس شخص کی کیفیت اطمینان بخش اور فطری نہیں ہوگی _ جس شخص نے محبت کا ذائقہ نہ چکھا ہو وہ اسے دوسروں پر کیسے نثار کرسکتاہے _ ایسے محروم انسان سے انسان دوستی کی توقع نہیں کی جا سکتی _

جو بچہ ماں باپ کی محبت سے محروم رہا ہو یا صحیح طریقے سے اس سے بہرہ مند نہ ہوا ہو وہ اپنے اندر احساس محرومی و کمتری کرتا ہے اور اس میں ہر طرح کے انحراف کی گنجائشے ہوتی ہے ، تندخوئی ، غصّہ، ڈھٹائی ، بدبینی ، جھوٹ ، حساسیت ، ناامیدی، افسردگی ، گوشہ نشینی، نام آہنگی کی زیادہ تر وجہ محبت سے محروی ہوتی ہے _

جو محبت سے محروم رہا ہو ، ہوسکتا ہے ، وہ چوری اور قتل میں ملوث ہوجائے تا کہ وہ اس معاشرے سے انتقام لے جو اسے پسند نہیں کرتا یہاں تک ممکن ہے وہ خودکشی کرلے تا کہ وہ وحشت اور تنہائی سے نجات حاصل کرے _ بہت سے چور اور مجروم ایسی ہی محرومیت کا شکار اور دلگرفتہ ہوتے ہیں _ آپ اخبارات اور رسائل کو دیکھ سکتے ہیں اور ایسے لوگوں کا حال پڑھ سکتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں _

۱۲۸

انجمن ملی حمایت بچگان کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر حسن احدی نے پانچ سو مجرموں پر ایک تحقیق کی ہے _ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے افراد نے پہلا جرم 12 سے 13 سال کی عمر کے دوران کیا ہے اور اس کی وجہ خاندان میں محبت کی کمی سے مربوط ہے ...انجمن ملی حمایت بچگان کے نفسیاتی دیکھ بھال کے شعبے کے سربراہ اور معروف ماہر نفسیات و عمرانیات کہتے ہیں :

''بہت سارے نفسیاتی مسائل کو بنیاد بچپن میں پڑی ہوتی ہے _ یہاں تک کہ سمجھدار ترین بچے کو جو مسئلہ پریشان کرتا ہے وہ اس کے جذبات کی تسکین کا معاملہ ہے '' _ (1)

... اپنے خط میں لکھتا ہے :

ایک چھوتے سے قصبے میں، ایک غریب سے گھرانے میں میں نے آنکھ کھولی _ میرے ماں باپ کے لیے میری اور میری دو بہنوں کی پرورش مشکل تھی _ میری دادی مجھے اپنے گھرلے گئی _ ان کی حالت ہم سے بہتر تھی _ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھی _ میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور دیگر ضروری چیزیں مہیا کرتی تھی _ لیکن یہ رنگارنگ دنیا میری اس تشنگی کو دور نہ کرسکی جو ماں باپ سے دوری کی وجہ سے محسوس ہوتی تھے مجھے یوں لگتا جیسے مجھ سے کچھ کھو گیا ہو _ کبھی کبھی دوسروں کی نظروں سے اوجھل میں پہروں روتا رہتا _ میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا _ ایک مرتبہ میرا باپ مجھے ملنے آیا _ اس نے مجھے اپنے گھر جانے کے لیے کہا _ میں خوش ہوکر چلنے کو تیار ہوگیا _ مجھے یوں لگا جیسے میرا سالہا سال کا غم پل بھر میں ختم ہوگیا ہے _ میں ہر ماں باپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں اپنے بچوں کو اپنے آپ سے جدا نہ کریں _ انہیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ماں باپ سے دوری اور ان کی محبت سے

------------

1_ روزنامہ کیہا ن _ شمارہ 10042

۱۲۹

محرومی بچوں کے لیے نہایت سنگین اور تکلیف وہ ہے اس کی جگہ کوئی چیز بھی پر نہیں کرسکتی _

... اپنے ایک خط میں لکھتا ہے _

میں ماں باپ کے پیار سے محروم تھا _ اس لیے میں ایک دل گرفتہ اور حاسد انسان ہوں _ ڈرپوک بھی ہوں اور غصیلا بھی _ بچپن میں میں اسکول سے بھاگ جایا کرتا تھا _ چھٹی جماعت مشکل سے پڑھ پایا ہوں _

دین مقدس اسلام کہ جس کی تربیتی مسائل کی جانب پوری توجہ ہے ، اس نے محبت کے بارے میں بہت تاکید کی ہے _ قرآن او رحدیث میں اس ضمن میں بہت کچھ موجود ہے _ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

انسان کو اپنی اولاد سے جو شدید محبت ہوتی ہے اس کے باعث اللہ اپنے اس بندے کو مشمول رحمت قرار دے گا _ (1)

بچوں سے محبت بہترین عمل ہے کیونکہ ان کی خلقت کی بنیاد خداپرستی اور توحید ہے _ اگر وہ بچپن میں ہی مرجائیں تو بہشت میں داخل ہوں گے _ (2) پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:بچوں سے پیار کرو اور ان پر مہربانی کرو _ (3)

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اپنے بچوں کو خوب چوموکیونکہ ہر بوسے کے بارے میں اللہ جنّت میں تمہارا ایک درجہ بڑھادے گا _ (4)

----------

1_ وسائل ، ج 15 ، ص 98

2_ مستدرک ، ج 2، ص 615

3_ بحار، ج 104، ص 92

4_ بحار، ج104، ص 92

۱۳۰

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا :

میں نے آج تک کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا _

جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

میری نظر میں یہ شخص دوزخی ہے _ (1)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو ، بچوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے _ (2)

حضرت علی علیہ السلام نے وصیت کرتے وقت فرمایا:

بچوں پر مہربانی کرو اور بڑوں کا احترام کرو _ (3)

---------

1_ بحار، ج 104، ص 99

2_ بحار ، ج 75، ص 137

3_ بحار، ج 175، ص 136

۱۳۱

اظہار محبت

اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے _ شاید بہت کم ماں باپ ایسے ملیں جو اپنی اولاد کو دل سے عزیز رکھتے ہوں_ البتہ نری یہ دلی محبت بچے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے _ بچہ اس محبت کا ضرورت مند ہے جو ماں باپ کے طرز عمل سے ظاہر ہو _ بچے سے پیار کیا جائے _ اس کا بوسہ لیا جائے ، اسے گود میں اٹھایا جائے ، اس سے مسکراکر پیش آیا جائے ، یہاں تک کہ ماں باپ چب اسے پیار بھری لوریاں سناتے ہیں تو وہ احساس محبت کرتا ہے _ بچے کا دل چاہتا ہے کہ کبھی ماں باپ سے کھیلے اور اٹھکیلیاں کرے _ اسے وہ محبت کی ایک علامت سمجھتا ہے _ ان کے غصے، جھگڑے اور سختی کو بے مہری کی دلیل سمجھتا ہے _ جب ماں باپ بچے کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سے بات کرتے ہیں تو وہ اندازہ لگالیتا ہے کہ اس سے پیارکرتے ہیں یا نہیں _

بعض ماں باپ ایسے بھی ہیں کہ بچہ چھوٹا ہو تواس سے اظہار محبت کرتے ہیں _ لیکن جب بڑا ہوجائے تواظہار محبت تدریجا کم کردیتے ہیں اور جب وہ نوجوان اور جوان ہوجاتا ہے تو اسے بالکل ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں اب بڑا ہوگیا ہے او راظہار محبت سے بگڑجائے گا اور ویسے بھی بڑا ہو کر کسی محبت اور نوازش کی ضرورت نہیں ہوتی _ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بیٹا تمام عمر محبت کا محتاج رہتا ہے _ ماں باپ کی محبت سے خوش ہوتا ہے اور ان کی بے مہری پر افسردہ ہوجاتا ہے _خاص طور پر نوجوانی اور جوانی کی عمر کہ جو نفسیاتی اعتبار سے ایک ہیجانی دورہوتا ہے اس میں اسے ہر زمانے سے زیادہ ماں باپ کی ہمدردی مہربانی

۱۳۲

اور دلجوئی کی احتیاج ہوتی ہے _ یہ بے مہریوں کا نتیجہ ہے کہ بہت سے جوان خودکشی کر لیتے ہیں _ یا اپنے گھر ، شہر اور ملک سے بھاگ جاتے ہیں _ اس مقام پر غیر مناسب نہ ہوگا کہ ایک سولہ سالہ لڑکی کی ڈائری سے چند یادداشتیں آپ کی توجہ کے لیے پیش کی جائیں _ لڑکی کا نام نازنین ہے لکھتی ہے _

واقعاً جب میں اپنی امی اور ابو کے بارے سوچتی ہوں تو ہنستی ہوں اگر چہ ان کی کیفیت نہ صرف کہ ہنسنے کے لائق نہیں بلکہ بہت ہی غم انگیز ہے _ ماں تو اپنی ہی دنیا میں اور اپنی زبان چلانے میں اور نہ جانے اپنے ہی کاموں میں سرگرم رہتی_ اس کی کل خواہش یہی ہے کہ خالہ و رزی جان اور حمیدہ بیگم کے ساتھ بیٹھی رہے اور گھنٹوں باتیں کرتی رہے جب وہ ان سے باتین کررہی ہو تو اگر میں یا میرے بھائی بہنوں کو اس سے کوئی کام پڑجائے تو گویا اس کی گھڑیاں بہت تلخ ہوجاتی ہیں _ اسے معلوم نہیں کہ جب وہ عورتوں کے ساتھ بیٹھی دوسروں کی غیبت کررہی ہوتی ہے _ کبھی کسی کے جوتے کی بات ہے اور کبھی کسی کی پگڑی کی _ اس وقت میرے دل کی حالت ایک ایسے بے آشیاں پرندے کی سی ہوتی ہے کہ جو سرگرداں او رنالاں ہو اور درودیوار سے ٹکرار ہا ہوتا کہ اسے بھی بات کرنے کے لیے کوئی ساتھی مل جائے _ اس سے اپنا دردبیان کرے اور کچھ تسلی پائے _ کوئی ایسا ساتھی ہو کہ جو غلطیوں اور کوتاہیوں پر کبھی برا بھلا نہ کہے اور بے عزتی نہ کرے _ امی اور ابوتوآپس میں تو تکرار کرتے رہتے ہیں یا اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں _ یا پھر گھر میں نہیں ہوتے _ میں بھی صبح سے شام تک مدد سے میں ہوں اور بہت دن گزر گئے کہ میں نے ابوکو نہیں دیکھا کہ انہیں سلام کروں _ میری ادبیات کی استاد ایک ماہر نفسیات ہے آج اس نے کلام میں بیٹی کی زندگی پر باپ کے اثر پر بات کی _ اس کے باتیں کیسے میرے دل میں بیٹھ گئیں _ ہم سب کے دل میں بیٹھ گئیں _ اس نے سچ کہا آج جب کہ میں سب لڑکیوں کی نظروں میں بڑی ہوگئی ہوں ہر زمانے سے زیادہ احساس کرتی ہوں کہ مجھے اپنے باپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے

۱۳۳

ایک فہمیدہ اور مہربان شخص کی توانائی کی احتیاج ہے _

میں سچ کہتی ہوں :

مجھے اپنے باپ کی عمدہ نوازشات کی چند سال پہلے کی نسبت زیادہ ضرورت ہے _ میرا دل چاہتا ہے کہ کبھی وہ مجھے اپنے زانو پر بٹھالے اور مجھے کہانی سنائے _ مجھے اجازت دے کہ میں ہر چیز کے بارے میں اس سے سوال کروں _ مجھے اجازت دے کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اس کے بارے میں جو احساس ہے اور ارادہ ہے اس کا اظہار کروں لیکن ہائے افسوس کہ وہ کس قدر سرد اور ترش رد انسان ہے _ اصلاً اسے اس کا خیال بھی نہیں آتا کہ میں اس کی سولہ سالہ بیٹی چھ سال کی عمر سے زیادہ اس کی دلگرم اور خوبصورت مہربانیوں کی احتیاج مند ہوں _ میرے دل میں کتنی باتیں ہیں جو میں اس سے کہنا چاہتی ہوں _ میرے ایسے غم ہیں کہ ایک دانا شخص بہتر سمجھ سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے اور ہم سب سے یوں دور ہے جیسے ہم اس کی زندگی میں کچھ بھی نہیں گھر میں اگر کوئی مہمان نہ ہو تو پھر وہ کتاب پڑھتا ہے _ اخبار کا مطالعہ کرتا ہے یا سردرد اور دل درد لے کر بیٹھ جاتا ہے اور پیار محبت کی کوئی بات نہیں کرتا _ یہ باپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ جب وہ خاندان کے لیے نان و نفقہ فراہم کردیں تو اس کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں _ یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ بیٹی اور بیٹا جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بالکل اسی طرح جیسے انہیں غذا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے انہیں زیادہ معقول اور بیشتر محبت اور توجہ کی بھی نیاز ہوتی ہے _ ماں باپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی 16 سالہ بیٹی سے کبھی محبت کا اظہار کیا یا کوئی پیار بھر اکلمہ کہہ دیا اس سے پندو نصیحت کے بغیر کوئی دوستانہ بات کردی تو ماں باپ کی شخصیت اور حیثیت مجروح ہوگی _ میرے دل میں بہت غصہ ہے _ میں بہت کمی کا احساس کرتی ہوں _ اگر چہ میرے خوبصورت گھر میں میرے لیے اچھا کمرہ ہے اچھے اسکول میں جاتی ہوں _ میری وضع قطع اور لباس اچھا ہے ان سب چیزوں کے لیے میرے ابو پیسہ بھی دیتے ہیں اور آرام ہے خرچ بھی کرنے ہیں _ زحمت بھی اٹھاتے

۱۳۴

ہیں _ لیکن وہ کام جس پر کچھ خرج نہیں ہوتا اور بہت ہی کم زحمت اٹھانا پڑتی ہے وہ نہیں کرتے _ وہ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے _ (1)

بچے کی تربیت کے لیے بہترین جگہ ، بالخصوص زندگی کے ابتدائی دور میں گھر کا ماحول ہوتا ہے _ اس میں بچہ اپنے ماں باپ کی پوری توجہ ، نوازش اور محبت سے بہرہ مند ہوتا ہے _ ماں باپ کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ حتی المقدور اپنے بچوں کو مراکز پرورش کے سپرد نہ کریں کیونکہ ہوسکتا ہے پرورش گاہ غذا اور حفظان صحت کا اعتبار سے گھر کی نسبت بہتر ہو لیکن بچے کے لیے ایک سرد اور بے مہر ماحول ہے _ پرورش گاہ اس بچے کے لیے زندان اور صحت افزا مقام پر جلا وطنی کے مانند ہے کہ جو ماں باپ کی توجہ اور محبت کا ضرورت مند ہے _ اچھی آب و ہوا اوراچھی غذا روحانی مسرت اور مہر و محبت کی جگہ نہیں لے سکتی _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جب تم کسی کو پسند کرتے ہو تو اپنے محبت کا اظہار بھی کرو اظہار محبت سے صلح و صفائی وجود میں آتی ہے وہ تمہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردیتی ہے _ (2)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح سویرے اپنی اولاد اور نواسوں سے پیار کیا کرتے تھے _ (3)

----------

1_ روزنامہ اطلاعات ، شمار 14113 ، خرداد ماہ ص 1358

2_ مستدرک ، ج 2 ، ص 67

3_ بحار، ج 104، ص 99

۱۳۵

محبّت _ کام نکا لنے کاذریعہ نہیں

چونکہ بچے کوماں باپ کی محبّت اور پیار کی ضرورت ہے ، بعض ماں باپ بچے کے اس احساس سے استفادہ کرتے ہیں اور اسے کام نکا لنے کا ذریعہ بنا تے ہیں _ اس سے کہتے ہیں یہ کام کرو تا کہ امی تجھ سے پیار کر ے اور اگرتم نے فلاں کام کیا تو ابوتم سے پیار نہیں کریں گے _ البتہ شک نہیں ہے کہ اس طریقے سے بچے پر اثر انداز ہو ا جاسکتا ہے اور اس کمے کاموں کو ایک حد تک کنٹروں کیا جاسکتا ہے _ لیکن اسی راستی راستے کو اختیار کئے رہنا بے ضرر نہیں ہے کیونکہ اس ذریعہ سے آہستہ آہستہ بچہ میں عادت پیدا ہو جائے گی کہ وہ ماں اور باپ اور دوسر ے لوگوں کی محبت حاصل کرنے کے لیے کام کرے نہ اس لئے کہ وہ کام واقعی اسکے اور معاشر ے کے مفا دمیں ہے وہ کاموں کی اچھائی اور برائی کامعیار انفرادی اور اجتماعی مفاد اور بھلائی اور رضائے الہی کا حصول ہونہ کہ لوگوں خواہش اور ایسا نہیں ہے کہ سب ماں باپ بچے اور معاشر ے کے حقیقی مفادات کو بخوبی پہچان سکیں ایسے ماں باپ بھی ہیں کہ اپنے مفادات اور آرام کو حقیقی فائدے پر ترجیح دیتے ہیں _ اس ذریعہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ چاپلوس ، منافق اور فریب کاربن جائے کیونکہ اس کا مقصد دوسروں کی خوشنودی اور توجہ حاصل کرنا بن جائے گا اگر چہ وہ منافقت اور فریب کاری ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو _لہذا ایک سمجھدار مربی محبت کو مطلب نکالنے اور بچے پر اثر انداز ہونے کا وسیلہ قرار نہیں دیتا _

۱۳۶

محبّت _ جو تربیت میں حائل نہ ہو

بعض ماں باپ اپنی اولاد سے حد سے زیادہ محبّت رکھتے ہیں اس لیے اس کے لئے جو چیزیں ضرر رساں ہیں قطعا نہیں سمجھتے اور اگر کبھی وہ اس میں عیب و یکھیں یا کوئی دوسرا اس کی طرف متوجہ کرے تو چونکہ یہ نہیں چاہتے کہ بچے کو ناراض کریں لہذا وہ اس عیب کو ان دیکھاکر دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے ہیں آپ ایسے بے ادب بچوں کو دیکھتے ہوں گے جو دوسرے بچوں کو اذیت دیتے ہیں ، لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ، لوگں کی در و دیوار کو خراب کردیتے ہیں ، شیشے توڑ دیتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ،لوگوں کے مال کو نقصان پہنچا تے ہیں اور اسی طر ح کی دوسری حرکتیں کرتے ہیں لیکن ان کے نادان ماں باپ نہ قفط یہ کہ ان کو تنبیہ نہیں کرتے بلکہ ایک احمقانہ ، ہنسی سے ان کا بے جاد فاع کرتے ہیں اور اس طر ح سے ایسے کاموں میں ان کی تشویق کا باعث بنتے ہیں یہ بے وقوف ماں باپ اپنی بے جا محبت سے دوستی کے لباس میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت بڑی خیا نت کے مرتکب ہوتی ہیں اور یہ ظلم عظیم اللہ کے نزدیک بے مواخذہ نہیں ہو گا _ بچوں سے محبت کایہ مطلب نہیں کہ ان کی تربیت سے غافل ہو جائیں اور انہیں ہر کام کرنے کی کھلی چھٹی دے دیں _ اظہار محبت تربیت _

کا وسیلہ ہے اسے تربیت میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے _ بہترین ماں باپ وہ ہیں جو بچے کی محبت کو اور تربیت کے مسئلہ کو الگ الگ کرکے دیکھیں، اپنے بچوں سے خوب محبّت کریں لیکن حقیقت بین نظروں سے ان کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں اور نہایت سمجھداری سے ان کی اصلاح کی کوشش کریں بچے کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ وہ بر ے کام کرنے

۱۳۷

میں آزاد نہیں اور اس پر اس کی باز پرس کی جائے گی اور اس کوہمیشہ خوف اور امید کے عالم میں زندگی گزارنی چاہیئےاں باپ کی محبت سے اس کو دلگرم اور پر امید ہونا چاہیئےور بے کاموں پر ان کی ناراضی اور غصّے کا اسے خوف ہو ناچا ہیئےن ماں باپ کو اپنے بچے سے محبت ہے ان کو یہ جاننا چا ہیئےہ ہمیشہ یہ بچہ ہی نہیں رہیگا اور نہ ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہیگا بلکہ وہ بڑا ہو جائے گا اور ناچار معاشر ے میں زندگی گزار ے گالوگوں سے معاشرت کرے گااگر اسے زندگی اور معاشرت کے آداب نہ آنے اور اس نے دوسرں کے حقوق کا احترام کرنانہ سیکھا تو لوگ اس سے نفرت کریں گے اور اس طرح سے وہ لوگوں توجہ او ر محبت حاصل نہیں کرسکے گاکہ جوزندگی کی خوشی اور راحت کے لیے ضروری ہے لوگ ماں باپ کی طرح نہیں ہو تے کہ اولاد کے عیوب کو نظر انداز کردیں _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

سب سے براباپ وہ ہے کہ جو اولاد سے محبت اور احسان کرنے میں حد سے تجاوز کرے ( 1)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :جسے ادب سکھا دیا گیا اس کی برائیاں کم ہو گئیں (2)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:میرے اباجان نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنے بیٹے کے ساتھ جار ہا تھا _ وہ بے ادب بیٹا اپنے باپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہو ئے تھا _ میر ے والد زین العابدین اس بے ادب بیٹے پر اتنے ناراض ہوئے کہ ساری عمر اس سے بات نہ کی ( 3)

--------

1_ تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص 320

2_ غررا لحکم ج 2 ، ص 645

3_ بحار جلد 74 ص 64

۱۳۸

بگڑا ہو ابچّہ

یہ صحیح ہے کہ بچے کو محبت و نوازش کی ضرورت ہوتی ہے لیکن محبت میں افراط صحیح نہیں ہے _ محبت غذا کے مانند ہے اگر ضروری مقدار میں اپنے مقام پر صرف ہو تومفید ہے لیکن ضروری مقدار سے زیادہ غیر مناسب مقام پر صرف ہو تونہ صرف یہ کہ سود مندنہیں ہے بلکہ کئی ایک نقصانات کی حامل بھی ہے _ زیادہ لا ڈپیار نہ صرف بچے کے لیے مفید نہیں ہے بلکہ ہے نہ ماں باپ کے دل بہلا نے کا ذریعہ ہے وہ ایک چھوٹا سا انسان ہے کہ جس کی خود اس کے لیے اور اکے مستقبل کے لیے تعمیر و تربیت کی جاتی ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ماں باپ کے کند ھے پر رکھی گئی ہے _ بچہ ہمیشہ چھوٹا نہیں رھتا بلکہ بڑابھی ہو جاتا ہے اسے معاشر ے میں زندگی بسر کرنا ہے اور زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں اونچ نیچ ، کامیابی و ناکامی ، عروج وزوال راحت و مصیبت اور خوشی اور غم موجود ہو تا ہے _ ایک سمجھدار مربی صحیح اور علاقلانہ طرز تفکر کے ساتھ زندگی کے حوادث کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کی اس طرح سے تربیت کرتا ہے کہ وہ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے لیے تیار ہو جائے _ ماں باپ کویہ بات معلوم ہو نا چاہیے کہ جیسے بچے کی تربیت کے لیے اصولی طور پر محبت ضرور ہی ہے اسی وہ بگڑ جاتے ہیں اوران کے ناز نخر ے بہت بڑھ جاتے ہیں _ اس بری صفت کا نتیجہ خطر ناک نکلتا ہے مثلا ً:

۱۳۹

1_ جب بچہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے ماں باپ اسے بے انتہا چاہتے ہیں، پرستش کی حد تک اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق اسے سے سلوک کرتے ہیں تو اسے سے اس کی خواہشات کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا _ وہ چاہے گا کہ فقط فرمان صادر کرے اور ماں باپ بلا چون و چرا اس پر عمل کریں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے _ ایسے بچے میں دن بدن استبداد اور قدرت طلبی بڑھتی جائے گی _ یہاں تک کہ وہ ایک آمر حکمران کی صورت اختیار کر لیتا ہے _ ایسا شخص جب معاشرے میں آتا ہے تو لوگوں سے بھی یہ توقع رکھتا ہے کہ اس سے اس کے ماں باپ کی طرح محبت کریں ، اور اس کی خواہشات پر اسی طرح عمل پیراموں جیسے اس کے ماں باپ ہوتے ہیں لیکن لوگ خود غرض شخص سے محبت کرتے ہیں اور نہ اس کی خواہشات کی طرح توجہ کرتے ہیں _ اس بناء پر معاشرے سے اس کادل اچاٹ ہوجاتا ہے _ وہ شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے _ احساس کمتری کے باعث تنہائی پسند اور گوشہ نشین ہوجاتا ہے _ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ شکست و ناکامی کے ساتھ زندگی گزارے یا پھر خودکشی کرکے اپنے آپ کو اس سے نجات دے لے _ بگڑے ہوئے اور ناز پرورلوگ ازدواجی زندگی میں بھی عموماً کامیاب نہیں ہوتے _ ایسا شخص اپنی بیوی سے بھی یہ توقع رکھے گا کہ اس کی ماں سے بھی بڑھ کر اس سے اظہار محبت کرے، اس کے فرامین کی پوری طرح اطاعت کرے اور بلا چون و چرا ان پر عمل کرے _ لیکن افسوس کی عملی زندگی میں صورت حال مختلف ہے بہت سی بیویاں اپنے شوہر کے استبداد اور حکم کے سامنے تسلیم محض کے لیے تیار نہیں ہیں _ اس لیے گھریلو لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں _ اسی طرح ایک بگڑی ہوئی بیٹی بھی جب اپنے سسرال میں جاتی ہے تو اس کی بھی اپنے شوہر سے یہی توقع ہوتی ہے کہ وہ اس سے اس کے ماں باپ سے زیادہ محبت کرے اور اس کی ہر خواہش کوبلا حیل و حجّت قبول کرے _ عموماً مرد بھی ایک بلند پرواز اور ایسی بگڑی ہوئی عورت کی تمام خواہشات پوری نہیں کرسکتے ، لہذا گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے مرد اور عورتیں دیکھنے میں آجاتے ہیں جو اپنے بڑھاپے میں بھی اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ اس بگڑے پن اور بچگانہ عادت سے دست بردار ہو کر بڑے ہوجائیں _ ایسے لوگ گویا اس پر مصر ہیں کہ ہمیشہ بچے ہی رہیں _

۱۴۰