آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 122016
ڈاؤنلوڈ: 6764

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122016 / ڈاؤنلوڈ: 6764
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

2_ ناز ونعم میں پلنے والے بچے عموماً ضعیف و ناتوان روح اور رنجیدہ نفسیات کے حامل ہوتے ہیں _ یہ دوسروں کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور خود اعتمادی سے عاری ہوتے ہیں _ لہذا جب مشکلات پیش آتی ہیں تو راہ فرار ڈھونڈتے ہیں _ ان میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ بڑے کاموں میں ہاتھ ڈالیں _ زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ اللہ پر اور اپنی ذات پر اعتماد کرنے کے بجائے دوسروں کی مدد کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں _

3_ لاڈپیار سے بگڑے ہوئے اور ناز پروردہ افراد عموماً خودپسند اور اپنے آپ میں مگن ہوتے ہیں _ چونکہ ان کی حد سے زیادہ تعریف کی جاتی ہے اس لیے وہ اپنے تئیں ایک بہت بڑی شخصیت سمجھنے لگتے ہیں جب کہ حقیقت یوں نہیں ہوتی _ وہ اپنی برائیاں نہیں دیکھتے بلکہ عیب کو کمال سمجھتے ہیں اور غرور بھی ایک بہت بڑا اخلاقی عیب اور ایک خطرناک نفسیاتی بیماری ہے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:خود پسندی بدترین چیز ہے _ (1) امام علی علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا:جو شخص بھی خودپسند ہواور بس اپنے میں مگن ہواس کے عیب اور برائیاں اس پر واضح ہوجائیں گی _ (2)

ایسا شخص لوگوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کی جھوٹی شخصیت کی تعریف کریں _ اس وجہ سے کاسہ لیس اور چاپلوس قسم کے لوگ اس کے گرد جمع ہوجائیں گے _ لیکن سچ گو اور تنقید کرنے والوں کی اس کے ہاں کوئی جگہ نہ ہوگی _ خود پسند لوگ نہ صرف یہ کہ دوسروں کی محبت اور دوستی کو جذب نہیں کرسکتے بلکہ ہمیشہ دوسروں کے نزدیک قابل نفرت قرار پاتے ہیں _

------------

1_ غررالحکم ، ص 446

2_ غررالحکم ، ص 685

۱۴۱

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی خودپسند ہوگا اور بس اپنی ذات میں مگن ہوگا وہ بہت زیادہ مشکلوں میں پھنس جائے گا _ (1)

4_ جن بچوں سے حد سے بڑھ کر محبت اور نوازش کی جاتی ہے اور ماں باپ ان کی ہر بات مانے چلے جاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ ماں باپ بالکل مسلّط ہوجاتے ہیں _ جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بھی اقتدار طلبی سے باز نہیں آتے اور ماں باپ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں _ اگر ماں باپ ان کی خواہش کے مقابلے میں آئیں تو وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ غصّہ ،جھگڑا ، اور نازنخرا کرتے ہیں اور عادتیں بگاڑنے والے ماں باپ سے ہر جانہ وصول کرتے ہیں _ چونکہ اپنے لاڈلے پن کا احساس ہوتا ہے اس لیے آخر عمر تک ماں باپ سے جھوٹ بولتے ہیں اور ہر جانہ وصول کرتے ہیں _

5_ محبت میں افراط بعض اوقات اس مقام پر جا پہنچتی ہے کہ اسے خوش رکھنے کے لیے حقیقی مصلحتوں اور تعلیم و تربیت پر اس کی رضامندی کو ترجیح دینا پڑتی ہے _ اس کے عیبوں کو نہیں دیکھا جاتا یا نظر انداز کردیا جاتا ہے اور اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی جاتی _ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لے کسی بھی کام سے دریغ نہیں کیا جاتا اگر چہ وہ غیر شرعی ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح سے ماں باپ اپنے عزیز بچے کے ساتھ عظیم ترین خیانتوں کے مرتکب ہوتے ہیں _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:بدترین باپ وہ ہے کہ جو اپنے بچے سے احسان اور مہر و محبت میں افراط اور حد سے تجاوز کرے _ (2) بچے کو ہمیشہ خوف و رجاء کی کیفیت میں زندگی بسر کرنا چاہیے _ اسے یہ اطمینان ہونا

---------

1_ غرر الحکم ، ص 659

2_ تاریخ یعقوبی ، جلد 2 ، ص 320

۱۴۲

چاہیے کہ وہ واقعاً ماں باپ کا محبوب ہے اور جہاں بھی ضروری ہو اوہ اس کی مدد کو دوڑیں گے اور دوسری طرف اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جہاں بھی اس نے کوئی غلط کام انجام دیا ماں باپ اس کا مؤاخذہ کریں گے _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں

بچّے سے پیار ایک ضروری چیز ہے _ لیکن بچے کا یہ چاہنا صحیح نہیں ہے کہ ماں باپ سارا وقت اسی کو دے دیں اور ہمیشہ اسی کے چاؤ چونچلے کرتے _ (1)

ڈاکٹر جلالی ہی لکھتے ہیں :

اگر بچہ ایسے ماحول میں زندگی گزارتا ہو کہ جہاں اسے بہت لاڈسے رکھا جاتاہو _ ہمیشہ دوسرے اس کی حمایت کرتے ہوں _ اس کے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو معاف کردیا جاتا ہو اور مشقت طلب دنیا میں رہنے کے لیے اسے تیار نہ کیا جاتا ہو وہ معاشرے میں ہمیشہ بہت ساری مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرے گا _ بچے کو آغاز تولد سے ہی یہ سکھایا جانا چاہیے کہ زندگی گزارنے والا وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ وہ ایک معاشرے کاحصّہ ہے اور اس کی خواہش کو دوسروں کی خواہشات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے _ (2)

اگر بچہ بے مقصد ہی روئے یا غصہ کرے یا سر کو دیوار سے مارے اور اس طرح سے ماں باپ پر کامیابی حاصل کرنا چاہے اور اپنی غلط سلط خواہشات کو منوانا چاہے تو اس کی طرف اعتناء نہیں کرنا چاہیے _ اسے چھوڑدیں تا کہ وہ سمجھ لے کہ اس کے رونے دھونے سے دنیا کا کچھ نہیں بگڑسکتا _ کچھ صبر کریں وہ خود ہی ٹھیک ہو

---------

1_ روانشناسی کودک ص 461

2_ روانشناسی کودک ص 353

۱۴۳

جائے گا _

اگر آپ کا بچّہ زمین پرگرجائے تو ضروری نہیں کہ اسے اٹھائیں اور اسے تسلی دیں یا زمین کو برا بھلا کہیں _ رہنے دیں تا کہ وہ خود اٹھے پھر اسے نصیحت کریں کہ محتاط رہے زمین پر نہ گرے _ اگر اس کا سر دیوار سے ٹکرا جائے تو چومنا اور پیار کرنا ضروری نہیں ہے ایسے امور کی پرواہ نہ کریں _ کچھ ذرا ٹھیک ہوجائے تو پھر اسے نصیحت کریں _ جب آپ کا بچہ بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کی کوشش کریں _ اس کے لیے دوا اور غذا مہیا کریں _ اس کی دیکھ بھال میں دریغ نہ کریں اس کی بیماری کو ایک معمولی واقعہ قرار دیں اور اپنے روزمرہ کے کام انجام دیتے رہیں _ آپ کی نیند، کھانا اور کام معمول کے مطابق انجام پانا چاہیے _ ایسا نہ ہوکہ اپنے کام اورمعمولات زندگی کو چھوڑ بیٹھیں اور غم و اندوہ کے ساتھ روتی آنکھوں کے ساتھ اس کے بستر کے کنارے بیٹھ جائیں اور وقت بے وقت اس کے بخار میں تپتے ہوئے چہرے کو چومتے رہیں _ یہ کام بچے کے معالجے پر کوئی اثر نہیں ڈالتے البتہ اسے بگاڑ ضرور دیتے ہیں کیوں کہ وہ خوب احساس کرتا ہے کہ اس کی بیماری ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس نے ماں باپ کی زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے _

اپنے خط میں لکھتی ہے :

دو بیٹیوں کے بعد میرے ماں باپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا مجھے اپنی ماں کا شور شرا بہ اور جشن و سرور بھولتا نہیں، میرے ماں باپ نے اس قدر اسے لاڈپیار کیا کہ دو سال کی عمر میں وہ مجھے اور میری بہن کو خوب مارتا اور کاٹتا تھا او رہمیں جرات نہ تھی کہ اپنا دفاع کریں _ جو کچھ وہ چاہتا بلا چون و چرا مہیا کردیا جاتا _ بچوں کو اذیت کرتا _ اس کے مدرسہ جانے کے لیے اس پر بہت زیادہ عنایات کی جاتیں _ لیکن وہ کوئی کام کرنے پر آمادہ نہ ہوتا _ استاد کی بات پر کان نہ دھرتا لہذا وہ سلسلہ تعلیم جاری نہ رکھ سکااور ترقی نہ کر سکا _ اب جب کہ بڑا ہوگیا ہے بالکل ان پڑھ

۱۴۴

ہے _ تنہائی پسند، کم گواور اپنے آپ میں کھویا رہتا ہے _ کسی کام کے کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا _ بے مقصد ادھر ادھر غصہ کرتا اور جھگڑتا رہتا ہے _ اپنی بہنوں سے اسے کوئی محبت نہیں _ اس کاانجام کار معلوم نہیں ہے _

ہاں ہمارا پیارا بھائی ماں باپ کی غلط تربیت اور حد سے زیاادہ محبت میں افراط کی بھینٹ چڑھ گیا ہے _

۱۴۵

انگوٹھا چوسنا

بچے کی ایک عام عادت انگوٹھا چوسنا ہے _ عموماً بچے اپنے پیدائشے سے تین ماہ بعد انگوٹھا چوسنے لگتے ہیں او رکچھ عرصہ یہ سلسلہ جاری رکھتے ہیں _ اس کام کے فطری عامل اور اصلی بنیاد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ بچہ اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں دودھ کے ذریعے سیراب ہوتا ہے اور دودھ چوس کرہی پیتا ہے _ اسے جب بھی بھوک لگتی ہے اور کچھ ناراحتی دور کرتا ہے _ اس مدّت میں اسے اس عمل کے تکرار سے یہ تجربہ ہوتا ہے کہ چوسنے کے ذریعے ناراحتی دور ہوتی ہے اور آرام سا ملتا ہے _ تدریجاً وہ چوسنے کا عادی ہوجاتا ہے اور اس عمل سے کیف حاصل کرتا ہے _ ان ایام میں جب کہ بچے کے معاشرتی احساسات کسی حدتک بیدار ہوچکے ہوتے ہیں اور وہ خارجی دنیا کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے ، اس کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس لذت بخش عمل یعنی چوسنے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اس مقصد کے لیے بہترین اور آسان ترین چیز اس کے پاس انگوٹھا چوسنا ہی ہوتا ہے _ اس وجہ سے وہ اپنا انگوٹھا چوستا ہے اوررفتہ رفتہ اس کا عادی ہوجاتا ہے اور اسے جب بھی موقع ملے ہر طرح کی ناراحتی دور کرنے کے لئے اس لذت بخش مشغولیت سے استفادہ کرتا ہے _ بہت سے ماں باپ انگوٹھا چوسنے کو ایک بری عادت سمجھتے ہیں اور اس پر اپنی ناپسند کا اظہار کرتے ہیں اور ناراض ہوکر اس کا چارہ کار سوچتے ہیں _ یہاں پر اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ اگر چہ دانتوں کے بعض ڈاکٹر اس عادت کو نقصان دہ سمجھتے ہیں او ر یہ کہتے ہیں کہ انگوٹھا چوسنے سے دانتوں

۱۴۶

اور منہ کی طبیعی و فطری حالت بگڑجاتی ہے لیکن ان کے مقابلے میں دانتوں کے بہت سے ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ انگوٹھا چوسنے _ سے کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا _

ایک ماہر لکھتے ہیں:بہت سے معالجین نفسیات اور ماہرین نفسیات اور اسی طرح بچوں کے امور کے بہت سے ماہرین کا نظریہ ہے کہ اصولاً یہ عمل کوئی نقصان وہ عادت نہیں ہے اور بہت سے مقامات پر یہ عمل بچے کہ منہ میں کسی قسم کی تبدیلی کا باعث نہیں بنتا _ ان کا خاص طور پر یہ نظریہ ہے کہ یہ عادت جیسا کہ عموماً دیکھنے میں بھی آیا ہے مستقل دانت نکلنے پر ختم ہوجاتی ہے لہذا یہ بچے کے لیے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتی _ (1)

البتہ ممکن ہے کبھی یہ عادت بچے کی صحت و سلامتی کو نقصان پہنچائے کیوں کہ بچے کی انگلی عموماً گندی اور کثیف ہوتی ہے اور ایسی کثیف انگلی چوسنے سے اکثر نقصان کا امکان ہوتا ہے_ زیادہ تر ماں باپ اس عادت کو پسند نہیں کرتے اور شرم کا احساس کرتے ہیں _

بہر حال ظاہراً یہ موضوع کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اور بچہ جب چار پانچ سال کا ہوجاتا ہے تو خودبخود یا ماں باپ کے ذریعے یہ عادت ختم ہوجاتی ہے البتہ ماں باپ کو اگر یہ عادت پسند نہیں تو بہتر ہے کہ اس کے وقوع سے پہلے ہی اس کا علاج کریں کیونکہ کسی عادت کو پیدا ہونے سے روکنا ترک عادت کی نسبت بہت آسان ہے _

جب وہ دیکھیں کہ بچہ اپنی انگلی چوسنا چاہتا ہے تو اس کا سبب معلوم کرنے کی کوشش کریں اگر وہ سیر نہیں ہواتواسے دودھ اور پلائیں اگر اسے جلد بھوک لگ جاتی ہو تو غذائی وقفے کے دوران میں اسے کوئی سادہ سی غذا مثلاً بسکٹ اور پھلوں کارس دے سکتے ہیں _

اگر اس کی وجہ احساس تنہائی یا کوئی تکلیف ہے تو اس کی طرف زیادہ توجہ کرنا چاہیے اور

----------

1_ رواں شناسی کودک _ رفتار کودکان _ از تولد تا دہ سالگی ، ص 172

۱۴۷

اس سے اظہارت محبت کرین _ ایسی چیزیں ہوسکتا ہے اس عادت کی پیدائشے کا سبب ہوں _ اگر سبب دور کردیا جائے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ بچے میں ایسی عادت پیدا نہیں ہوگی _ لیکن اگر عادت پیدا ہوگئی تو پھر اس کا علاج مشکل ہے _ اگر اسے کھیلنے کی مناسب چیزیں دے دی جائیں یا اس کے ساتھ کوئی کھیلنے والا مل جائے تو شاید تدریجاً یہ عادت ترک ہوجائے _ شاید اس کا بہترین علاج اسے چوسنی دے دینا ہو _ لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ اسے چوسنی کی عادت پڑجائے گی _ اگر ایسے کاموں کے ذریعے سے اس عادت کو روک سکیں تو کیا ہی بہتر _ لیکن اگر کامیاب نہ ہوں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پر سختی شروع کردی جائے مثلاً اس کے ہاتھ باندھ دیے جائیں ، اسے ماراجائے _ اس سے تلخی کی جائے ، اسے ڈانٹ ڈپٹ یا ملامت و سرزنش کی جائے کیوں کہ ایسے کام اس کے علاوہ کہ عموماً بے فائدہ ہوتے ہیں بچے کی روح اور نفسیات پر بھی برے اثرات مرّتب کرتے ہیں _ بہتر ہے کہ صبر کریں اور کسی مناسب موقع کا انتظار کریں زیادہ تر یہ عادت چار یا پانچ سال کی عمر میں خود، بخود ختم ہوجاتی ہے _

۱۴۸

خوف

خوف سب میں پائی جانے والی ایک صفت ہے _ تھوڑا یا زیادہ سب لوگوں میں ہوتا ہے _ اجمالی طور پر خوف انسان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے اور اس طرح سے ہونا کوئی بڑی چیز بھی نہیں ہے _ جس میں بالکل ہی خوف نہ ہو وہ انسان معمول کے مطابق نہیں ہے بلکہ بیمار اور ناقص ہے _ یہ خوف ہے جس کی وجہ سے انسان خطرناک حوادث سے بھاگتا ہے اور اپنے آپ کو موت سے بچاتا ہے _ لہذا خوف اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے کہ جو خالق کائنات نے انسان کے وجود میں ودیعت کی ہیں اور اس میں مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں _ لیکن یہ عظیم نعمت دیگر تما م نعمتوں کی طرح اس صورت میں مفید ہوگی کہ جب انسان اس سے صحیح طور پر استفادہ کرے _ اگر وہ اپنے صحیح مقام کے برخلاف استعمال ہوئی تونہ صرف یہ کہ مفید نہیں ہے بلکہ ممکن ہے برے نتائج کی حامل بھی ہو _ خوف کے مواقع کو مجموعی طور پر 2 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے _

پہلا _ خیالی ، بے موقع اور غیر عقلی خوف

دوسرا _ معقول ، درست اور بجا خوف

غیر عاقلانہ خوف

پہلی قسم کا غیر عاقلانہ خوف عموماً زیادہ ہوتا ہے _ جیسے جن اور بھوٹ سے ڈرنا تاریکی سے خوف کھانا ، بے ضرر حیوانات سے ڈرنا، بلی ، چوہے ، لال بیگ، مینڈک، اونٹ گھوڑے

۱۴۹

اور دیگر ایسے جانوروں سے ڈرنا _ چورسے ڈرنا ، مردے ، قبرستان ، قر اور کفن سے ڈرنا ، ڈاکٹر ، ٹیکے اور دوا سے خوف کھانا، دانتوںکے ڈاکٹر سے ڈرنا ، ریل گاری کی آوازیا بادل کے گر جنے اور بجلی کے کڑکنے سے خوف کھانا، اکیلے سونے سے ڈرنا ، امتحان دینے اور سبق سنانے سے ڈرنا، بیماری سے خوف کھانا، موت سے ڈرنا اور ایسے ہی دیگر دسیوں قسم کے خوف کہ جو بالکل بے موقع ہیں اور ان کی بالکل کوئی عقلی بنیاد نہیں ہے _ ایسے خوف کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ایسے ہی خوف ہوتے ہیں کہ جو بچے کو دائمی رنج و عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں _ یہاں تک کہ وہ سکھ کی نیند سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور نیند میں وحشت ناک قسم کے خواب دیکھتا ہے ور چیختا چلاتا ہے _ بے جاف خوف و اضطراب ایک نفسیاتی بیماری ہے جو بچے کی آئندہ زندگی پر بھی برے اثرات مرتب کرے گی _ ڈرپوک آدمی میں جرات نہیں ہوتی کہ وہ کوئی بڑا قدم اٹھائے ہمیشہ اضطراب کے عالم میں رہے گا اور اس کے دل میں ہمیشہ گرہ سی رہے گی ، ملنے جلنے سے کترائے گا، پریشان اور افسردہ رہے گا _ اجتماع سے بھاگے گا اور اپنی ذات میں گم ہوجائے گا _ اکثر نفسیاتی بیماریاں ایسے ہی بے جا خوف سے وجود میں آتی ہیں _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:خوف بھی ایک مصیبت ہے _ (1)

لہذا ایک اچھا مربی اس امر سے لا تعلق نہیں رہ سکتا بلکہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے بچے کے بے جا خوف کو دور کرے _ اس موقع پر مربّی حضرات کی خدمت میں ہم چند گزارشات پیش کرتے ہیں _

1_ خوف کو دور کرنے سے کہیں آسان ہے کہ اسے پہلے سے روکا جائے _ کوشش کریں کہ خوف کے علل اور عوامل حتی المقدور پیدا ہی نہ ہوں تا کہ آپ کا بچہ ڈرپوک نہ بنے ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ ریل گاڑی کی آواز، بادل اور بجلی کی صدا، خطرے کے آلارم کی آواز اور بچے کے سربانے شور مچانا بچوں کے لیے خوف کے ابتدائی عومل

---------

1_ غرر الحکم ص 8

۱۵۰

میں سے ہیں _ جہاں تک ہوسکے کوشش کریں کہ بچے اس طرح کی چیزوں سے بچیں اگر چہ نو مولود کیوں نہ ہوں ان کے سرہانے شور نہ مچائیں _ ان کی طرف غصے سے نہ دیکھیں _

2_ دڑمتعدی بیماریوں میں ہے _ بچہ ذاتی طور پر ڈرپوک نہیں ہوتا ماں باپ اور اردگرد والے لوگ اگر دڑپوک ہوں تو بچہ دڑپوک بن جاتا ہے _ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے ڈرپوک نہ ہوں تو پہلے اپنے دڑ کا علاج کریں اور غیر عقلی عوامل پر اظہار خوف اور جزع و فزع نہ کریں تا کہ بچے بھی ڈرپوک نہ ہوں _

3_ پولیس اور جرائم سے متعلقہ فلموں کو دیکھنا ، ٹیلویں کے بعض پروگراموں کو دیکھنا ، ریڈیوکی ہیجان آور داستانوں کا سننا ، ہیجان انگیز قصوں او رداستانوں کا پڑھنا اور سننا، یہاں تک کہ مجلوں اور روزناموں میں چھپنے والے بعض اوقات کا پڑھنا بچے کے لیے ضرر رساں ہے بچے کے نازک اور ظریف اعصاب پر ان کا اثر ہوتا ہے اور ان سے بچے کے دل میں ایک خوف ، پریشانی اور گرہ سی پیدا ہوجاتی ہے _ جہاں تک ممکن ہو سکے بچے کو ان چیزوں سے دوررکھیں _ جن اور پری کے بارے میں بات تک نہ کریں _ اگر انہوں نے کسی اور سے سن لیا ہو تو انہیں سمجھائیں کہ جن اگر موجود بھی ہو اجیسا کہ قرآن کریم نے ان کے وجود کے بارے میں تصریح بھی کی ہے تو وہ بھی انسانوں کی طرح سے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں اور انسان کے لیے ان کا کوئی نقصان نہیں اور ان سے خوف کی کوئی وجہ نہیں ہے _

4_ بچے کی تربیت کے لیے اس ڈرانے اور سختی سے پرہیز کریں _ بچوں کو بھوت ، دیو، لولو، و غیرہ سے نہ ڈرائیں _ ایسے خوف ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر بچے پر اثر ڈالیں لیکن یقیناً ان سے بچے میں برے اثرات باقی رہ جائیں گے کہ جن کا نقصان فائدے سے زیادہ ہے _ اس طرح سے آپ کو ڈرپوک اور کمزور بنادیں گے بچوں کو تنبیہہ کے لیے تاریک اور دہشت آور جگہوں پر بند نہ کریں _ بچوں کو کتّے بلّی سے نہ ڈرائیں _ بعض بیوقوف ماؤں کی غلط عادت ہے کہ بچے کو چپ کروانے کے لیے

۱۵۱

در واز ے اور دیوار کے پیچھے سے میاؤ ں میاؤں کرتی ہیںکرتی ہیں اور دروازے اور دیوار پرہاتھ مارتی ہیں اور اس طرح سے اسے طرح سے اسے ڈراتی ہیں تا کہ وہ چپ کرجائے _ ان نادان ماؤں کو خبر نہیں کہ وہ اس غلط عادت سے کتنے بڑے جرم کی مرتکب ہوتی ہیں اور بچے کی حساس روح کو پریشان کردیتی ہیں اور اس کی آئندہ نفسیاتی زندگی و تباہ کردیتی ہیں اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے :

ہماری دادی امّاں ہمیں شرارتوں سے روکنے کے لیے دوسرے کمر ے میں چلی اورایک خاص آواز نکال کرکہتی ، میں دیو ہوں ، میں آگیا ہوں کہ تمہیں کھا جاؤں _ ہم ڈر جاتے اور چپ کرجاتے اورسمجھتے کہ یہ حقیقت ہے _ اسی وجہ سے میں ایک ڈر پوک شخص ہوں اور اکیلا گھر ے سے باہر نہیں رہ سکتا _ اب حب کہ بڑا ہ گیا ہوں وہی خوف ایک اضطراب اور دل گرفتگی کی صورت اختیار کر چکا ہے ..._اپنے ایک خط میں لکھتی ہے _

میں پانچ سال کی تھی اپنی خالہ زاد کے ساتھ کھیل رہی تھی اچانک ہم نے ایک وحشت ناک ہیولا بڑا ساسر درشت آنکھیں ، بڑے بڑے دانت ، کھلا سیاہ لباس اور بڑ ے بڑے کا لے جوتے _ وہ صحن کے در میان میں تھا _ عجیب آواز نکا لتے ہوئے وہ چاہتا تھا کہ نہیں کھا جائے _ ہم نے چینح ماری اور تار یک دالان کی طرف بھاگ گئیں _ میں خوف سے یوں دیوار سے جاچمٹی کہ میری انگلیاں زخمی ہو گئیں _ خوف کے مارے میں بے ہوش ہو گئی اور کچھ مجھے سمجھ نہ آیا _ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اور مجھے مرنے سے بچایا _ اس غیر انسانی فعل نے مجھ پر ایسا اثر کیا کہ ایک عرصے تک میں کونوں کھدروں میں چھپتی اور ذر اسی آواز بھی مجھے خوف و وحشت میں مبتلا کردیتی اور میری چینح نکال جاتی اب حب کہ میں بڑی ہوگئی ہوں تو میں ضعف اعصاب او رسوزش قلب میں مبتلا ہو گئی ہوں _ ہمیشہ غم زدہ رہتی ہوں اور عجیب و غریب خیالات آتے ہیں _ کام اور زندگی میں میرا دل نہیں لگتا نہ کسی سے میل ملاقات ہے اور نہ کہیں آتی جاتی ہوں _

۱۵۲

بے چین اور مضطرب سی رہتی ہوں _ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ہماری پھوپھی زادنے اپنے سرپر ایک بڑا سادیگچہ رکھ کے وہ ڈراؤنی بھوت کی شکل بنائی تھی تا کہ ہمیں ڈرائے اور وہ ہے میری بیماری اور اعصاب کی کمزوری کی ذمہ دار_

5_ اگر آپ کا بچہ آپ کی سہل انگاری اور عدم توجہ یا دوسرے اسباب کے باعث ڈرپوک بن گیا ہو تو اس کے ڈر کو غیر اہم چیز نہ سمجھیں _ کوشش کریں کہ جتنی جلدی ہوسکے اس کی روح کو آرام پہنچائیں اور اس کا خوف دور کریں _ اگربچے کو اپنے بعض کاموں کے حقیقی اسباب کاعلم ہوگیا تو اس کا کچھ خود بخود جاتا رہے گا لیکن خوف کا علاج بچے کہ جھاڑ پھٹکار پلانا اس کا مذاق اڑانا اور دوسروں کے سامنے شرمندہ کرنا نہیں ہے_ ایسا کام نہ فقط یہ کہ بچے کا خوف دور نہیں کرے گا بلکہ اس کی حسّاس روح کو آزردہ ترکردے گا _ خوف میں اس کا کوئی گناہ نہیں ہے _ وہ دڑنا نہیں چاہتا _ آپ خود اور دوسرے عوامل اس کے خوف کا سبب بنے ہیں _ اسے کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں _ صبر ، بردباری سمجھداری اور تحقیق و جستجو کے ساتھ اس کے خوف کے علل و اسباب معلوم کریں پھر ان کے لیے چارہ کارسوچیں _ اگر وہ جنّ اور بھوت سے دڑتا ہے تو اسے پیار محبت سے سمجھائیں کہ بھوت ، لولواور دیو و غیرہ کا وجود جھوٹ ہے اور ایسی چیزوں کا اصلاً وجو د ہی نہیں ہے _ اسے مطمئن کریں کہ جن کا انسان سے کوئی کام نہیں _ کوشش کریں کہ ان چیزوں کا اس کے سامنے اصلاً ذکر ہی نہ کیا جائے تا کہ رفتہ رفتہ ان کا خیال بچے کے ذہن سے محو ہوجائے _ اگر وہ بے ضرر حیوانات سے دڑے توان کا بے ضرر ہونا اس کے سامنے عملی طور پر ثابت کریں _ ان حیوانات کے قریب جائیں اور انہیں چھوئیں اور ہاتھ پکڑیں تا کہ بچہ تدریجاً ان سے مانوس ہوجائے اور اس کا خوف دور ہو جائے _ اگر وہ اندھیرے سے دڑتا ہے تو اسے کم روشنی کا عادی کریں تا کہ رفتہ رفتہ اس کا خوف جاتارہے اور وہ تاریکی کا بھی عادی ہوجائے _ جب آپ خود بچے کے پاس موجود ہوں تو کچھ دیر کے لیے چراغ گل کردیں _ پھر تدریجاًاس مدت کو بڑھائیں _ جب آپ کسی کمرے میں بچے سے کچھ فاصلے پر ہوں تو یہی عمل دھرائیں _ صبر اور حوصلے سے اس عمل کا تکرار کریں یہاں تک بچے کا خوف دور ہوجائے اور وہ تاریکی میں رہنے کا عادی ہوجائے _

۱۵۳

اس امر کی طرف بہرحال متوجہ رہیں کہ دڑانے ڈھمکانے ، مارپیٹ اور سختی سے کام نہ لیں کیونکہ اس طرز عمل سے آپ بچے کا خوف دورنہیں کر سکتے _ بلکہ ممکن ہے یہ برے اعمال کا پیش خیمہ بنے _ بچے کو اس امر پر مجبور کرنا کہ وہ جن چیزوں سے دڑتا ہے ان کے سامنے جائے ، اس کے اضطراب اور پریشانی میں اضافے کا سبب بنتا ہے _ اس طریقے سے اس کے اعصاب پر بہت دباؤ پڑتا ہے _ اگر بچہ ڈاکٹر اور ٹیکے سے دڑتا ہے تو اسے پیار اور محبت کی زبان میں سمجھائیں کہ وہ بیمار ہے اور اگر وہ تندرست ہونا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ دو اکھائے اور ٹیکہ لگوائے _ اسے دکھائیں کہ دوسرے لوگ بھی ٹیکہ لگواتے ہیں اور روتے دھوتے نہیں تا کہ وہ آہستہ آہستہ ڈاکٹر اور ٹیکے سے مانوس ہوجائے اور اس کا خوف زائل ہوجائے _ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو اسے زبردستی ٹیکہ نہ لگایا جائے کیونکہ ممکن ہے اس کے بر ے اثرات مرتب ہوں _ کبھی ضرورت کا تقاضا ہوتا ہے کہ بچہ ہسپتال میں داخل ہوجائے لیکن اکثر بچے ہسپتال میں داخل ہونے اور ماں باپ کی جدائی سے دڑتے ہیں _ اس بناء پر کبھی وہ ماں باپ کے لیے بڑی مشکل پیدا کردیتا ہے _ اگر اسے سختی سے ہسپتال میں داخلے پرمجبور کیا جائے تومسلماً اس سے روحانی اور نفسیاتی طور پر اس پر برے اثرات مرتب ہوں گے _ اگر ماں باپ یہ سمجھیں کہ ہسپتال میں داخل نہ کروانا اس کی صحت و سلامتی کے لیے نقصان وہ ہے ، یہاں تک کہ اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے تو والدین کے لیے ضروری ہے کہ بچے کو پہلے ہی سے ہسپتال کے ماحول سے مانوس کریں _ جب کبھی وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے جائیں تو اپنے بچے کو بھی ساتھ لے جائیں اور وہاں کچھ دیر ٹھہریں اور اسے یہ بات اچھی طرح سمجھائیں کہ ہسپتال ایک اچھی اور آرام وہ جگہ ہے جہاں پر ڈاکٹر اور مہربان نرسیں موجود ہیں اور یہ لوگ مریض کا علاج کرتے ہیں اسے بتائیں کہ خطرناک بیماریوں کا علاج ہسپتال ہی میں ممکن ہے _ بچے کوتدریجاً ہسپتال کے ماحول سے مانوس کیا جا سکتا ہے _ ایسی صورت میں اگر بچے کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑجائے تو وہ اس کے لیے آمادہ ہوگا _ بہتر ہے کہ پہلے اس بات کی یاد دہانی کرو ادی جائے کہ تم بیمار ہو ، تندرست ہوجاؤ گے لیکن اس کے لیے تمہیں کچھ عرصہ ہسپتال میں رہنا ہوگا _ وہاں پر نرسیں اور مہربان ڈاکٹر موجود ہیں جو تمہاری تندرستی کے لیے کوشش کریں گے _ ہم بھی تمہیں لئے

۱۵۴

آتے رہیں گے  لیکن آپاس امر کی طرف متوجہ رہیں کہ بچے سے جھوٹ نہ بولیں جب آپ کو جانا ہے تو اس سے یہ نہ کہیں کہ یہاں سوجاؤ، ہم تمہارے پاس ہی ہیں اس سے یہ نہ کہیں کہ ڈرومت تمہیں دوا نہیں دی جائے گی اورٹیکہ نہیں لگایا جائے گا _ اس سے یہ نہ کہیں کہ ہسپتال میں تمہارا وقت خوب گزرے گا کیونکہ یہ تمام باتیں خلاف حقیقت ہیں _ ان سے بچے کا اعتماد جاتا رہتا ہے بلکہ اس سے یہ کہیں کہ تم بیمار ہو اورتمہارے علاج کے لیے ہسپتال میں داخلے کے سواچارہ نہیں ہے _ ہسپتال میں داخلے کے بعدجہاں تک ممکن ہو سکے اس کی عیادت کے لیے جائیں  اس کے پاس ٹھہریں اور اس کے لیے خوشی اور آرام وراحت کا باعث بنیں

معقول خوف

معقول خوف کے معاملے میں مربّی کو چاہیے کہ ایک معتدل اور عاقلانہ نہ روش اختیار کرے بچے کے سامنے خطرناک موضوعات چھیڑے اور اسے ان سے بچنے کی تدابیر بتائے ، نیز اسے بے احتیاطی کے برے نتائج سے ڈرائے اسے گیس، ماچس اور برقی اشیاء کے استعمال کا درست طریقہ سمجھائے اسے ممکنہ خطرات کے بارے میں آگاہ کرے اسے سڑک پار کرنے کا صحیح طریقہ بتائے _ گاڑیوں کی آمدو رفت کے ممکنہ خطرات اس سے بیان کرے اور بچے کو اس بات پر ابھارے کہ وہ اجتماعی قوانین ، خصوصاً ٹریفک قوانین کی پابندی کرے اور اسے قانون کی خلاف ورزی کے ممکنہ برے نتائج سے ڈرائے مجموعی طور پر احتمالی خطرات کی اس کے سامنے وضاحت کرے اور ان سے اسے ڈرائے  مجموعی طور پر احتمالی خطرات کی اس کے سامنے وضاحت کرے اور ان سے اسے ڈرائے اور ان سے بچنے کا طریقہ اسے سمجھائے لیکن اس امرمیں مبالغہ سے کام نہ لے _ مبالغہ آرائی سے ایسا نہ کرے کہ بچہ وحشت و اضطراب میں گھر جائے  ڈرپوک اوروسواسی بن جائے _ اوریوں سمجھنے مگے کہ اس کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں _ کوشش یہ کرنا چاہیے کہ اس میں توکل علی اللہ اور امید بر خدا کا جذبہ بیدار ہو خوف کا ایک صحیح مقام موت کاڈرہے البتہ موت سے خوف اگر حدّ سے تجاوز کرجائے تو یہ بھی ایک نفسیاتی بیماربی بن جاتا ہے یہ بیماری انسان سے روحانی آرام و سکون چھین لیتی ہے اور اس کی عملی صلاحیتوں کو ناکارہ کردیتی ہے لہذا اس کے لیے بھی حفاظتی تدابیر ضروری ہیں

۱۵۵

کچھ عرصے تک بچہ اصلاً موت کا مفہوم ہی نہیں سمجھتا _ بہتر یہ ہے کہ مربی حضرات اس بارے میں بات نہ کریں لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اپنے کسی واقف کاریارشتے دار کے مرنے سے موت کی طرف متوجہ ہوتاہے ممکن ہے ایسے موقع پر وہ ماں باپ سے موت کے بارے میں سوالات پوچھے _ اگر اس وقت بچہ رشد و تمیز کے سن کو پہنچ چکا ہو تو ماں باپ اسے اس قضیے کی حقیقت بتادیں _ اس سے کہیں کہ موت کوئی خاص چیز نہیں ہے _ انسان مرنے کی وجہ سے اس جہاں سے دوسرے جہاں میں منتقل ہوجاتاہے ، اسے جہاں آخرت کہتے ہیں _ اس جہاں میں انسان کو اچھے کاموں کا ثواب ملے گا اور برے کاموں پر اسے عذاب ملے گا ، سب نے مرجاتا ہے ، اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے _

''تمام لوگ مرجائیں گے ''

موت اہم چیز نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ انسان برے کام نہ کرے اور اچھے کام کرے تا کہ مرنے کے بعد وہ آرام سے رہے _

موت کی یا دحدّ سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے اور اسے وسواس کے مقام تک نہیں پہنچنا چاہیے _ ایسا ہونا نقصان وہ ہے جب کہ اسی یادسے بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے _

خوف کا ایک مثبت مقام خوف خدا یا خوف قیامت ہے _ یہ خوف بھی اگر ایک نفسیاتی بیماری کی صورت میں نہ ہو تو نہ فقط یہ کہ برا نہیں ہے بلکہ انسان کی دنیاوی اور اخروی سعادت کے لیے بہت مفید ہے _ خوف الہی اور عذاب آخرت کاخوف انسان کونیک کاموں پر ابھارتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے _ اسی لیے اللہ تعالی قرآن مجید میں لوگوں سے فرماتا ہے :

فلا تخافوهم و خافون ان کنتم مومنین اگر تم اہل ایمان ہو تو دوسروں سے نہ ڈرو صرف سمجھ سے دڑو_(آل عمران _175)

نیز قرآن قیامت کی مشکلات اور عذاب کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے _ لہذا ایک عقل مند ، سمجھ دار اور متدین مربّی کوشش کرتا ہے کہ خوف الہی گناہ سے خوف اور خوف قیامت کا بیج بچے کی حسّاس روح میںاس کے بچپن ہی میں بودتے تا کہ رفتہ رفتہ وہ نشو و نما پائے

۱۵۶

157

اور بڑا ہوکر اس کا نیک ثمرہ ظاہر ہو_

البتہ اس نکتے کی یاددھانی بھی ضروری ہے کہ ایک بہترین مربی کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ ہمیشہ دوزخ اور عذاب دوزخ کا ذکر کرتا رہے اور اللہ کو سخت ، جابر شخض کی حیثیت سے متعارف کروائے بلکہ اس کی رحمت ، مہربانی ، شفقت اور لطف کی صفت کا زیادہ تذکرہ کرے _ اس کے ذریعے سے اللہ کو محبوب کے طور پر منوائے اورلوگوں کو گناہ کے عذاب اور اللہ کی عظمت سے اس طریقے سے ڈرائے کہ وہ ہمیشہ خوف و رجاء کی حالت میں رہیں _

۱۵۷

کھیل کود

جیسے سانس لینا بچے کے لیے ضروری ہے ایسے ہی کھیل کوداس کے لیے ایک فطری امرہے _ پر ائمری و مڈل میں بچے کی سب سے بڑی سرگرمی اور مشغولیت کھیل ہے _ اس کے بعد آہستہ کم ہوجاتی ہے اور پھر ضروری کام اس کی جگہ لے لیتے ہیں _ کھیل کے لیے بچے کے پاس دلیل نہیں ہے _ البتہ وہ ایسا نہیں کرسکتاکہ کھیلے نہ _ بچہ ایک موجود زندہ ہے اور ہر موجود زندہ کو چاہیے وہ فعّال رہے _ کھیل بھی بچے کے لیے ایک قسم کی فعالیت اور کام ہے بچے کانہ کھیلنا اس کی بیماری اور ناتوانی کی علامت ہے _ اسلام نے بھے بچے کی فطری ضرورت کی طرف توجہ دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اسے آزاد چھوڑا جائے تا کہ وہ کھیلے _

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:بچے کہ سات سال تک آزاد چھوڑدیں تا کہ وہ کھیلے _ (1)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے کہ جومٹی سے کھیل رہے تھے _ آپ(ص) کے بعض اصحاب نے اہیں کھیلنے سے منع کیا _رسول اللہ نے فرمایا:انہیں کھیلنے دومٹی بچوں کی چراگاہ ہے _ (2)

-----------

1_ وسائل ج 15 ص 193

2_ مجمع الزوائد ج 8 ص 159

۱۵۸

کھیل بچے کے لیے ایک فطری ورزش ہے _ اس سے اس کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں _ اس کی فہم اورعقلی قوتوں کو کام میں لاتی ہے اور اسے مزید طاقت عطا کرتی ہے _ بچے کے اجتماعی جذبات اور احساسات کو بیدار کرتی ہے _ اسے معاشرتی زندگی گزارنے اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے _

ماہرین نفسیات کھیل کے اصلی محرک کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جو تحقیقات کی ہیں وہ ہمارے کام کی ہرگز نہیں ہیں ہمارے لیے جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس فطری امر سے بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے استفادہ کریں اور اس کی آئندہ کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اسے کام میں لائیں _ ایک ذمہ دار مرّی کو نہیں چاہیے کہ وہ کھیل کو بس ایک مشغولیت شمارکرے اور اس حساس اورپر اہمّیت عرصے کو بے وقعت سمجھے _ بچے کھیل کے دوران خارجی دنیا سے آشنا ہوتا ہے _ حقائق سمجھنے لگتا ہے _ کام کرنے کا انداز سیکھتاہے _ خطرات سے بچنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم دست ہونے ، مشق کرنے اور مہارت حاصل کرنے کا انداز سیکھتا ہے _ اجتماعی کھیل میں دو دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اوراجتماعی قوانین کی پابندی کرنا سیکھتا ہے _دیلیم اسٹرن لکھتے ہیں :کھیل صلاحیتوں کے رشد و نمو کا ایک فطری ذریعہ ہے یا آئندہ کے اعمال کے لیے ابتدائی مشق کے مانند ہے  (1) الیکسی میکیم دیچ گورکی لکھتے ہیں:کھیل بچوں کے لیے جہاں ادراک کی طرف راستہ ہے _ وہ راستہ کہ جس پہ وہ زندگی گزارتے ہیں ، وہ راستہ کہ جس پہ بدل کے انہیں جانا ہے _ کھیلنے والا بچہ اچھلنے کودنے کی ضرورت پوری کرتا ہے چیزوں کے خواص سے آشنا ہوتا ہے _ کھیل بچے کو آداب معاشرت سیکھنے میں مدد دیتا ہے _ بچے نے

---------

1 _ روانشناسی کودک تالیف دکتر جلالی ص 331

۱۵۹

جو کچھ دیکھا ہوتا ہے اور جو کچھ وہ جانتا ہے اسے کھیل میں ظاہر کرتاہے _ کھیل اس کے احساس کو مزیدگہرا کردیتا ہے اور اس کے تصورات کو واضح تر بنادیتا ہے _ بچے گھر بناتے ہیں _ کارخانہ تعمیر کرتے ہیں _ قطب شمالی کی طرف جاتے ہیں _ فضا میں پرواز کرتے ہیں ، سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور گاڑی چلاتے ہیں _

آنٹن سمیو نویچ ماکارنو جو روس کے معروف ماہر امور پرورش ہیں ، کہتے ہیں : کھیل میں بچہ جیسا ہوتا ہے، بڑا ہوکر کام میں بھی ویسا ہی ہوگا _ کیونکہ ہر کھیل میں ہر چیز سے پہلے فکر و عمل کی کوشش کارفرما ہوتی ہے _ اچھا کھیل اچھے کام کے مانند ہے _ جو کھیل آشکارہوتا ہے اس میں بچے ے احساسات اور آرزوئیں ظاہر ہوتی ہیں _ کھیلنے والے بچے کو غور سے دیکھیں _ اسے دیکھیں کو جو پروگرام اس نے اپنے لیے بنایا ہے اس پر کیسے حقیقت پسندی سے عمل کرتا ہے _ کھیل میں بچے کے احساسات حقیقی اور اصلی ہوتے ہیں _ بڑوں کو ان سے کبھی بھی بے اعتناء نہیں رہنا چاہیے (1)

ولیم میکڈوگل رقم طراز ہیں:قبل اس کے کہ فطرت میدان عمل میں داخل ہو، کھیل کسی شخص کے فطری میلان کا مظہر ہوتا ہے  (2) لہذا بچہ اگر چہ کھیل میں ظاہراً کوئی اہم مرسوم کام انجام نہیں دے رہا ہوتا لیکن اس کے باوجود کھیل کام سے کوئی نمایان فرق بھی نہیں رکھتا _ اسی کھیل کے دوران میں بچے کے فطری اور ذاتی میلانات ظاہر ہوتے ہیں اسی میں اس کا اجتماعی و انفرادی کردار صحت پذیر ہوتا ہے اور اس کے مستقبل کو روشن کرتا ہے _

---------

1_ روان شناسی تجربی کودک ص 130

2_ روان شناسی کودک از ڈاکٹر جلالی ص 332

۱۶۰