آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125370 / ڈاؤنلوڈ: 7175
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آئین تربیت

تالیف:

آیت اللہ استاد ابراہیم امینی

ترجمہ :

  قیصر عبّاس    ثاقب نقوی

۱

۲

بسم الله الرحمن الحیم

۳

۴

عرض ناشر

دور حاضرمیں جہاں حضرت انسان نے مادیت میں اس قدر ترقس کی ہے اب وہ خلائی سفر کامیابی سے انجام دیتے ہوئے مظام شمسی میں دیگر سیارگان پر کمندین ڈال رہا ہے ، وہاں وہ اقدار انسانی میں مسلسل الخطاط کے مسئلہ سے بھی شدّت کے ساتھ دو چار ہے _ ظاہر ہے کہ یہ مادّی ترقی مادی تعلیم کے حصول کامنطقی نتیجہ ہے لیکن اقدار حیات کی ترقّی میں ایک اور چیز بھی ناگزیر ہے حبس کو تربیت کہتے ہیں _ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جو مہد یعنی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور یہ وہ کیفیت ہے جبس کی عدم مو جود گی مادّی تعلیم کے با وجود انسان کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں ترقّی علوم مادّی کا عملی مقصد مخالفین کی حیات کو صفحہ ء ہستی سے یکمرمٹا دنیا ہے _ دنیا کی بڑی طاقتوں کے وہ منصوبے اس بات کی دلیل

۵

ہیں جو بتدریج سائنسی تجربات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ان کے ذریعے کوشش کی جادہی ہے کہ ایسے ہتھیار ایجاد کریں ، جن کا استعمال کم سے کم وقت میں زیاد ہ سے زیادہ انسانوں کو نیست و نابود کردے _

ان تمام حالات کے پیش نظر تربیت انسان کی ضرورت ون بدن زیادہ محسوس ہوتی جارہی ہے _ کتا ب ہذا آئین تربیت ایران کے فاضل مصنّف جناب ابراہیم امینی نجف آبادی کی ایک نہایت عمدہ سعی ہے حبس میں تر بیت انسان کے موضوع پر اسوہ ء معصومین علیہم السلام کی روشنی میں بجث کی گئی ہے _ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں عرض کیا ہے ، تربیت کا پہلا مدرسہ آغوش مادر ہے _ اس سلسلہ مسن شاعر مشرق علاّمہ محمّد اقبال رحمة اللہ علیہ قرماتے ہیں _

سیرت فرزند ہا از امہات

جو ہر صدق وصفا از امہات

کتاب ہذا میں مندرجہ ذیل امور پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے جو ضروریات تربیت میں شامل ہیں :

۱ : جسمانی اور نفسانی دونوں میں تربیت کنندہ

۶

کی امور تربیت سے کما حقّہ ، واقفیت

۲: ہدف تربیت سے واقفیت _

۳: تربیت کے لیے جن اقدار و اوضاع کی ضرورت ہوتی ہے ، ان سے کما حقّہ واقفیت _

فاضل مؤلّف نے یہ سب کچھ سیرت معصومین کی روشنی میں پیش کیا ہے _ ہم ان کی اس کاوش کو اردو زبان میں بطور ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرر ہے ہیں _ امید و اثق ہے کہ یہ کتاب والدین اور اساتذہ کے لیے تربیت او لاد و شاگردان میں ایسی معاون ثابت ہو گی حبس سے دور مادیت میں قوم کو با اقدار انسان مل سکیں گے _

قارئین کرام سے استداعا ہے کہ کتاب ہذا کے مطالعہ کے بعد اپنی قیمتی آراء سے ادارہ مصباح الہدی پبلیکیشنز کو ضرور مطلع فرمائیں

طلبگاری تعاون

ڈائر یکڑ مصباح الہدی پبلیکیشنز

لاہور

۷

انتساب

حضرت علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما _ گی خدمت میں _ کہ جو اسلام کے مثالی ماں باپ ہیں _ جنہوں نے _ امام حسن ، امام حسین ، زینب اور ام کلشوم جیسی لائق اولاد کی تربیت کی _

ان لائق احترام ماں باپ _ کی خدمت میں _ جن کے دامن میں اما م خمینی روحی فدا جیسے با بصیرت اور مضبوط مو قف کے حامل رہبر کے سے فداکار اور آبرومند بیٹے پر وان چڑھے _

ان ماں باپ _ کی خدمت میں _ جو اپنے تربیت یافتہ مجاہد اور جانباز فرزندوں کی جدائی کا داغ سینے پر لگا ئے ہوئے ہیں _ وہی فرزند کہ جنہوں نے اسلام کے لیے شہادت نوش کیا اور اپنے عزیز خون کو نثار کر کے انقلاب اسلامی ایران کے چہر ے کو گل رنگ کردیا اور شجر اسلام کی آبیاری کی _

۸

بسم الله الرحمن الرحیم

کچھ تر جمے کے بار ے میں

ترجمہ کیا ہو ؟ اس کی شرائط کیا ہیں؟ اس پر بہت کچھ کہا گیا ہے ، کہا جاتار ہے گا اور کہا جا تار ہنا چا ہیے معمولا دو طریقے ترجمے کے لیے رائج ہیں :

۱_ لفظی ترجمہ

۲_ آزاد اور مفہومی ترجمہ

ان دونوں کی اپنی خو بیاں ہیں ، دونوں کے حامیوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں او ردونوں کے لیے موجود وزنی دلائل کی اپنے اپنے مقام پر اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا _

ہمیں یہاں صرف _ زیر نظر ترجمے کے بار ے میں کچھ عرض کرنا ہے _

آئین تربیت کے خاص اسلوب نگارش اور ترجمے کے قارئین پر نظر نے ہم سے ایک جدا گانہ سے طرز ترجمہ کا تقاظا کیا ہو ہو نے ;

بعض مقامات پر لفظی ترجمہ ضروری سمجھا اور بعض عبارتوں کو فقط اردو کا لباس پہنا کر آپ تک پنچا دیا ہے _

بعض _ بلکہ بہت سے مقامات پر آزاد ترجمے کی روش اپنائی ہے اور مفہوم عبارت منتقل کرنے کی کوشش کی ہے

بعض مقامات پران دونون صورتوں سے کام نہیں لیا بلکہ مقصود پہنچانے کی کوشش

۹

کی ہے کیونکہ دہاں ترجمے کی صورت مین مقصود مضمحل ہو جاتا اور مطلوب و مقصود کو بہر حال لفظ اور مفہوم پر فوقیت حاصل ہے _

جیسے اردو پر یورپی زبانوں کیے اثرات بے پناہ ہیں اسی طرح فارسی جیسی وسیع زبان بھی اپناد امن اس سے بچا نہیں سکی _ بہت سے انگیریزی لفظ اور اصطلاحات فرسی لہجے کا رنگ اختیار کر کے فارسی میں داخل ہو گئے ہیں یا یوں کہا جا ئے کہ فا رسیا لیے گئے ہیں _ اسی طرح فارسی کی اپنی اصطلاحات ہیں اور ہمارے ہاں اپنی اصطلاحات _ ان پہلوؤں کو ترجمہ کرتے ہو ئے ملحوظ رکھا گیا ہے _ متبادل اصطلاحات لکھی گئی ہیں جہاں جہاں ضروری محسوس ہو ا متبادل انگیزی اصطلاحات بھی لکھ دی گئی ہیں _

اصل کتاب میں قرآنی آیات اور روایات کی عربی عبارات نہایت ہی کم درج کی گئی ہیں ترجمہ کر تے ہو ئے خاص طور پر قرآنی آیات اپنے اصل متن کے ساتھ درج کردی گئی ہیں اور بہت سے مقامات پر روایات کی عربی عبارات بھی اصل متن کودیکھ کر لکھ دی کئی ہیں _

کوشش کی گئی ہے کہ عبادت رواں ، ساوہ او رعام فہم ہو لیکن پھر بھی یہ ترجمہ ہی ہے _ تالیف یا تضعیف نہیں لہذا کہیں کہیں بو جھل پن کا احساس ہو تو قارئین معاف فرمائیں _

کتاب چو نکہ تربیتی ہے لہذا بہت سے مطالب تکراری ہیں اور یہ تربیت کا تقاضا بھی ہے اور خاصہ بھی _ ترجمہ کرتے ہوئے اس حو الے سے تصرف سے دامن بچا نے کی کوشش کی گئی ہے _

مذکورہ امور میں سے بینادی امور پر خود صاحب کتاب یعنی حضرت آیت اللہ ابراہیم امینی سے تبادلہ خیال کے بعد ہم آہنگی پاکر ہمین کچھ اور بھی اطمینان ہے _

تنقید اور آراء کے لیے بہر حال ہم خندہ پیشانی سے منتظر ہیں _ کیوں کہ کمال کا راستہ انہی وادیوں سے ہو کرگزرتا ہے

مترجمین

۱۰

پیشگفتار

تعلیم اور تربیت میں فرق ہے تعلیم کا معنی ہے آموزشی، سکھا نا یا کسی کو کوئی مطلب یاد کرانا_جب کہ تربیت کہ مطلب ہے شخصیت کی تعمیر اور پرورش _ تربیت کے ذریعے سے اپنے پسند کے مطابق افراد ڈھالے اور تیارکیے جا سکتے ہیں او رنتیجتا معاشر ے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے _

ضروری ہے کہ تربیت ایک سو چے سمجھے اور دقیق پروگرام کے تحت انجام پا ئے تا کہ کا میابی کے ساتھ نتیجہ ثابت ہو _ تربیت ہیں صرف و عظ و نصیحت اور ڈرانا رھمکانا ہی کافی نہیں بلکہ پا ہیے کہ تمام حالت اور شرائط مقصد کے مطابق فراہم ہوں _ تا کہ مقصود حاصل ہو سکے _

تربیت کے لیے چند چیزیں ضروری ہیں _

۱_ چاہیے کہ مربّی اس شخص کو اچھی طرح پہنچا نتا ہو کہ جس کی اسے تربیت کرنا ہے _ اس کی خوصیات اور اس کے جسمانی اور نفسیاتی رموز سے آگاہ ہو _

۲_ مربّی کی نگاہ میں تربیت کا کوئی ہدف ہو نا چا ہیے _ یعنی اس کی نظر میں یہ ہونا چا سیے کہ وہ کیسا انسان بنا نا چاہتا ہے _

۳_ تربیت کے لیے مربّی کے پاس کوئی پروگرام ہو نا چا ہیے _ یعنی اسے جاننا چاہیے کہ جیسی شخصیت و ہ پروان چڑھانا چاہتا ہے اس کے لیے کن حالات اور شرائط کی ضرورت ہے لہذا ان سب کو اسے فراہم کرنا چاہیے اور پورے غورو خوض سے کام لینا چاہیے _ پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کسی مثبت نتیجہ کا انتظار کرے _

۱۱

تربیت کے لئے بہترین زمانہ بچین کا ہے کیونکہ بچے نے ابھی پوری شکل اختیار نہیں کی ہوتی اور ہر طرح کی تربیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے _ یہ حساس اور اہم ذم داری پہلے مرحلہ پرماں باپ کے ذمے ہے _ لیکن تربیت ایک سہل اور سادہ سا کام نہیں ہے _بلکہ ایک انتہائی ظریف و حساس فن ہے کہ جس کے لیے کام کی شناخت ، کافی اطاعات ، تجربہ ، برد باری اور حوصلہ و عزم کی ضرورت ہے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ اکثرماں باپ فن تربیت سے آشنا نہیں _ یہی و جہ ہے کہ زیادہ تر بچوں کی کسی حساب شدہ اور منظم پروگرام کے تحت پرورش نہیں ہوتی بلکہ وہ گویا خود رو پودوں کی طرح پروان چڑ ھتے ہیں _

مشرق و مغرب کے ترقی یافتہ کہلا نے والے ممالک میں تربیت کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے _ انہوں نے اس سلسلے میں بہت تحقیقات کی ہیں ، بہت سی سودمند کتا بیں لکھی ہیں اوران کے ہاں فن کے بہت سے ماہرین موجود ہین _ لیکن ہمارے ملک میں زندگی کے اس اہم مسئلہ کی طرف کوئی تو جہ نہیں کی گئی _ البتہ چند ایک ماہرین موجود ، ہیں اور تھوڑی بہت کتا بیں بھی ہیں لیکن اتنا کچھ کفایت نہیں کرنا _ دوسری زبانوں سے اس ضمن میں بہت سی کتابوں کافارسی میں ترجمہ ہوا ہے جو سب کی دسترس میں ہیں _ لیکن ان مشترقی اور مغربی کتابوں میں دوبڑے نقص موجود ہیں _

پہلا عیب یہ ہے کہ ان میں انسان کو فقط جسمانی حوالے اور اس کی دینا دی زندگی کے حوالے سے دیکھا گیا ہے اور بحث و تحقیق کی گئی ہے _اور وحانی سعادت و بد بختی اور اخروی زندگی سے یا غفلت برقی گئی ہے یااعراض کیا گیا ہے _

مغرب میں تربیت کے لیے اس کے علاوہ کوئی ہدف نہیں کہ بچے کی جسمانی طاقت اس کی حیوائی قوتوں ، اعصاب اور مغز کو صحیح طریقے سے پروان چڑ ھا یا جائے تا کہ جس و قت وہ بڑا ہو آرام سے زندگی گزارسکے اور مادی فوائد اور حیوانی لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور ان کتابوں ہیں اگر اخلاق کے بارے مین گفتگو ہوتی بھی ہے تو وہ بھی ای دنیا وی زندگی اور مادی مفادات کے حصول سے مربوط ہے _ ان کتایوں میں روحانی کمالات یا نقائص کاذکر نہیں _

۱۲

اخروی خوشبختی یا بد بختی کا تذکرہ نہیں اور مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے ان مین اخلاقی اور روحانی زندگی کے بارے مین کچھ نییں _ دوسراعیب یہ ہے کہ مغرب والوں کے نزدیک تربیتی مسائل کا انحصار تجربات اور شماریات پر ہے _ دذین کا ان پرکوئی رنگ نہیں _

لہذار یہ مابیں مسلمانوں کے نزدیک مفید ، جامغ اور کامل نہیں ہو سکتیں کیوں کہ ایک مسلمان کی نظر مین انسان کے دو پہلو میں _ ایک جسم اور دوسرا روح _ لیک دنیا دی زندگی اور دوسری اخروی زندگی _ لہذا قم نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے اس مین مطالعہ اور تحقیق کی جائے اور پھرا پنے نتیجہ کو تحریر کی صورت مین طالبین کی خدمت میں پیش کیا جائے _ اس کتاب کی تحریر کے لیے را قم کا اصلی ماخذ قآن اور کمتب حدیث و اخلاق ہیں _ البتہ بچے کی تربیت سے متعلق اور فضیات سے متعلق دسیلوں کتابیں جو فارسی اور عربی زبان مین ترجمہ ہو چکی مین او رحفظان صحت سے متعلق کتب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے _ ایرانی علماء نے بچے کی تربیت کے متعلق جو کتابیں لکھی ہیں ان سے بھی استفادہ کیا گیا ہے _ البتہ اس سلسلے مین را قم کے اپنے بھی کچھ تجربات ہیں _ امید ہے کہ یہ نا چیز پیش کش تربیت کرنے والوں کے مفید ثابت ہو گی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے سودمند قرار پائے گی _

ابراہیم امینی نجف آبادی

حوزہ علمیہ قم

بہمن ماہ۱۳۵۸ ھ

جنوری سنہ ۱۹۸۰ئ

۱۳
۱۴

ماں باپ کی ذمہ داری

اسلام کی نظر مین ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے _ اللہ تعالی نھ ، رسول اکرام نے اور آئمہ معصومین علیہم السلام نے اس بار ے میں بہت تا کید کی ہے اور اس سلسلے میں بہت سی آیات اور روایات موجود ہین _ ماں باپ سے حسن سلوک کو بہترین عبادات میں سے شمار کیا گیا ہے _ارشاد الہی ہے _ وقضی ربک الا تعبد و االا آیاه و لاوالدین احسنا

اورتیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور والادن کے تاسھ حسن سلوک اختیاد کرو _ ( بنی اسرائیل ۲۳ )

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _

تین چیزین بہترین عمل ہین :

۱_ پابندی وقت کے ساتے نماز نچگہنہ کی اوائیگی _

۲_ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور

۳_ راہ خدا میں جہاد

(اصول کافی ج ۲ ص ۱۵۸)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماں ماپ کو سہ مرتبہ کیوں اور کیوں کرملا ہے ؟ کیا اللہ تعالی انے انہیں یہ مقام بلا وجہ عطا کردیا ہے یا ان کے کسی قیمتی عمل کی وجہ سے ؟ ماں باپ بچے کے لیے کون سابڑا کام انجام دیتے ہیں کہ جس کے باعث وہ اس فذر مقام و خدمت کے لائق قرار

۱۵

پاتے ہیں _ باپ نے ایک جنسی جذبے کس تسکین کے لیے ایک خلیہ حیات ( ) رحم مادر میں منتقل کیا ہے _ یہ سیل ماں کی جانب سے ایک اور سیل کے ساتھ مل کرمرکب ہو جاتا ہے جو ایک نئے وجود کے طور پر رحم مادر مین پرورش پاتا ہے _ جونو ماہ کے بعد ایک ننھے منے بچے کی صورت میں زمین پر قدم رکھتا ہے _ اں اسے دودھ او رودسری غذا دیتی ہے _ اسے کبھی صاف کرتی ہے کبھی کپڑ ے بدلتی ہے اس کی تری اور خشکی کا خیال رکھتی ہے ان مراحل میں باپ خاندان کے اخراجات پورے کرتا ہے اوران کی دیکے بھال کرتا ہے _ کیاماں باپ کی ان کاموں کے علاوہ کوئی مہ داری نہیں ؟ کیا انہی کاموں کی وجہ سے ماں باپ کو اس قدر بلند مقام حاصل ہے ؟ کیا صرف ماں باپ اپنی اولاد پر حق رکھتے ہیں اور اولاد اپنے مان باپ پر کوئی حق نہیں رکھتی ؟ میرے خیال میں ایسا یک طرفہ حق تو کوی بھی قبول نہیں کرتا _ احادیث معصومین علیم السلام میں ایسے حقوق اولاد بھی بان فرمائے کئے ہیں کہ جن کی ادائیکی ماں باپ کی ذمہ داری ہے _ ان میں سے چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کر تے ہین :

۱_ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :چنانچہ جس طرح تیرا باپ تجھ پر حق رکھتا ہے تیری اولاد بھی پر حق رکھتی ہے

مجمع الزوائد ، ج ۸ ، ص ۱۴۶

۲_پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :جیسے اولاد اپنے ماں باپ کس نا فرمانی کی وجہ سے عاق ہو حاتی ہے اسی طرح سے ممکن ہے ماں باپ بھی اپنے فریضے کی عدم ادائیگی کے باعث اولاد کی طرف سے عاق ہو جائیں : بحار ، ج ۱۰ ،ص ۹۳

۳_ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو اپنی اولاد کے عاق ہونے کا باعث بنیں ( مکارم الاخلاق ، ص ۵۱۸ )

۴_ اما م سجّاد علیہ السلام نے فرمایا :

تیر ی اولاد کا حق یہ ہے کہ تو اس پر غور کر کہ وہ بری ہے یااچھی ہے بہر حال

۱۶

تجھی سے وجود میں آئی ہے اوراس دنیا میں وہ تجھی سے منسوب ہے اور تیری ذمہ دار ہے کہ تو اسے ادب سکھا، اللہ کی معرفت کے لیے اس کی راہنمائی کر اور اطاعت پروردگار میں اس کی مددکر، تیرا سلوک اپنی اولاد کے ساتھ ایسے شخص کاساہونا چاہیے کہ جسے یقین ہوتا ہے کہ احسان کے بدلے میں اسے اچھی جزا ملے گی اور بد سلوکی کے باعث اسے سزاملے گی ''_ (مکارم الاخلاق ص ۴۸۴)

۵_ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

''کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری وجہ سے تیرا خاندان اور تیرے اقربا بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوجائیں ''_ (غررالحکم ص ۸۰۲)

۶_ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''جو کوئی بھی یہ چاہتا ہو کہ اپنی اولاد کو عاق ہونے سے بچائے اسے چاہیے کہ نیک کاموں میں اس کی مدد کرے''_ (مجمع الزوائد ج ۸ ص ۱۴۶)

۷_ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''جس کسی کے ہاں بیٹی ہو اور وہ اسے خوب ادب و اخلاق سکھائے ، اسے تعلیم دینے کے لیے کوشش کرے، اس کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم کرے تو وہ بیٹی اسے دوزخ کی آگ سے بچائے گی '' _(مجمع الزوائد _ ج ۸ _ ص ۱۵۸)

سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

یا ایها الذین آمنوا قو اانفسکم و اهلیکم ناراً وقودها الناس و الحجارة _

اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں _ (سورہ تحریم _ آیہ ۶)

۱۷

بچے نے سبب کہ ابھی وضع زندگی کے بارے میں کوئی راستہ متعین نہیں کیا ہوتا اور سعادت و بدبختی ہر دو کی اس میں قابلیت ہوتی ہے اس سے ایک کامل انسان بھی بنایا جا سکتا ہے اور ایک گھٹیا درجے کا حیوان بھی _ ہر انسان کی سعادت اور بدبختی اس کی کیفیت تربیت سے وابستہ ہے اور اس عظیم کام کی ذمہ داری ماں باپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے _ اصولاً ماں باپ کا معنی یہی ہے _ ماں باپ یعنی انسان ساز اور کمال بخشنے والے دو وجود _ عظیم ترین خدمت کہ جو ماں باپ اپنی اولاد کے لیے انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے اسے خوش اخلاق ، مہربان، انسان دوست ، خیرخواہ، حریت پسند، شجاع ، عدالت پسند، دانا، درست کام کرنے والا، شرافت مند ، با ایمان فرض شناس ، سالم ، محنتی ، تعلیم یافتہ ، اور خدمت گزار بننے کی تربیت دیں _

ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو اس طرح سے ڈھالیں کہ وہ دنیا میں بھی سعادت مند ہو اور آخرت میں بھی سرخرد_ ایسے ہی افراد در حقیقت ماں باپ کے عظیم مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں نہ وہ کہ جنہوں نے ایک جنسی جذبہ کے تحت اولاد کو وجود بخشاہے اور اسے بڑا ہونے کے لئے چھوڑدیا ہے کہ وہ خود بخود تر بیت پائے پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:باپ جو اپنی اولاد کو بہترین چیز عطا کرسکتا ہے وہ اچھا ادب اور نیک تربیت ہے _ (مجمع الزوائد _ ج ۸ ص ۱۵۹)

خصوصاً ماں کی اس سلسلے میں زیادہ اہمیت ہے _ حتی کہ دوران حمل بھی اس کی خوراک اور طرز عمل بچے کی سعادت اور بدبختی پر اثر انداز ہوتا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:خوش نصیب وہ ہے کہ جس کی خوش بختی کی بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑی ہو اور بدبخت وہ ہے جس کی سعادت کا آغاز شکم مادر سے ہوا ہو _ (بحار الانوار _ ج ۷۷ _ ص۱۱۵_۱۳۳)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا: الجنة تحت اقدام الامهات   (مستدرک _ ج ۲ _ ص ۶۳۸)

۱۸

جو ماں باپ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ اپنی رفتار و کردار سے انہیں منحرف بنادیتے ہیں وہ بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ایسے ماں باپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس بے گناہ بچے نے تقاضا کیا تھا کہ تم اسے وجود بخشو کہ اب وجود میں لانے کے بعد اسے تم نے گائے ے بچھڑے کی طرح چھوڑدیا ہے _ اب جب کہ تم اس کے وجود کا باعث بن گئے ہو تو شرعاً اور عقلا ً تم ذمہ دار ہو کہ اس کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کرو _ لہذا تعلیم و تربیت ہر ماں باپ کی عظیم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے _اس کے علاوہ ماں باپ معاشرے کے سامنے بھی جواب وہ ہیں _ آج کے بچے ہی کل کے مرد او رعورت ہیں _ کل کا معاشرہ انہیں سے تشکیل پاناہے _ آج جو سبق سیکھیں گے کل اسی پر عمل کریں گے _ اگر ان کی تربیت درست ہوگئی تو کل کا معاشرہ ایک کامل تراور صالح معاشرہ ہوگا اور اگر آج کی نسل نے غلط پروگرام کے تحت اور نادرست طور پر پرورش پائی تو ضروری ہے کہ کل کا معاشرہ فاسدتر اور بدتر قرارپائے _ کل کی سیاسی ، علم اور سماجی شخصیات انہیں سے وجود میں آئیں گی _ آج کے بچے کل کے ماں باپ ہیں _ آج کے بچے کل کے مربّی قرار پائیں گے _ اور اگر انہوں نے اچھی تربیت پائی ہوگی تو اپنی اولاد کو بھی ویسا ہی بنالیں گے اور اسی طرح اس کے برعکس _ لہذا اگر ماں باپ چاہیں _ تو آئندہ آنے والے معاشرہ کی اصلاح کرسکتے ہیں اور اسی طرح اگرچاہیں تو اسے برائیں اور تباہی سے ہمکنار کرسکتے ہیں _ اس طرح سے ماں باپ معاشرے کی حوالے سے بھی ایک اہم ذمہ داری کے حامل ہیں _ اگر وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو انہوں نے گویا معاشرے کی ایک عظیم خدمت سرانجام دی ہے او روہ اپنی زحمتوں کے صلے میں اجر کے حقدار ہیں اور اگر وہ اس معاملے میں غفلت اور سہل انگاری سے کام لیں تو نہ صرف اپنے بے گناہ بچوں کے بارے میں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یقینی طور پر بارگاہ الہی میں جواب وہ ہوں گے _

تعلیم و تربیت کے موضوع کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے _ ماں باپ اولاد کی تربیت کے لئے جو کوشش کرتے ہیں اور جو مصیبتیں اٹھاتے ہیں وہ سینکڑوں استادوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں اور عالموں کے کاموں پر بھاری ہیں _ یہ ماں باپ ہیں جو انسان کامل پرواں چڑھاتے ہیں اور ایک

۱۹

لائق و دیندار استاد، ڈاکٹر اور انجینئر وجود میں لاتے ہیں _

خاص طور پر مائیں بچوں کی تربیت کے بارے میں زیادہ ذمہ داری رکھتی ہیں اور تربیت کا بوجھ ان کے کندھوں پر رکھا گیا ہے _ بچے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ ماؤں کے دامن میں ہی گزارتے ہیں _ اور آئندہ زندگی کے رخ کی بنیاد اسی زمانہ میں پڑتی ہے _ لہذا افراد کی خوشبختی اور بدبختی اور معاشرے کی ترقی او رتنزل کی کنجی ماؤں کے ہاتھ میں ہے _ عورت کا مقام وکالت وزارت ، اور افسری میں نہیں یہ سب چیزیں مقام مادر سے کہیں کم تر ہیں _ مائیں کامل انسانوں کی پرورش کرتی ہیں اور صالح وزیر، وکیل ، افسر اور استاد پروان چڑھاتی ہیں اور معاشرے کو عطا کرتی ہیں _

جو ماں باپ پاک، صالح اور قیمتی بچے پروان چڑھاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ اپنی اولاد اور معاشرے کی خدمت کرتے ہیں بلکہ خود بھی اسی جہان میں ان کے وجود کی خیر وخوبی سے بہرہ مند ہوتے ہیں _ نیک اولاد ماں باپ کی سرافرازی کا سرمایہ ہوتی ہے اور ناتوانی کے زمانے میں ان کا سہارا ہوتی ہے _ اگر ماں باپ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو اسی دنیا میں اس کا نتیجہ دیکھیں گے اور اگر اس معاملے میں غفلت اور سہل انگاری سے کام لیں تو اسی دنیا میں اس کا ضرر بھی دیکھ لیں گے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:بری اولاد انسان کے لیے بڑی مصیبتوں میں سے ہے _ (غرر الحکم _ ص ۱۸۰)

حضرت علی علیہ السلام نے یہ بھی فرمایاہے:بری اولاد ماں باپ کی آبروگنوادیتی ہے اور وارثوں کو رسوا کردیتی ہے _ (غررالحکم _۷۸۰)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:خدا رحمت کرے ان ماں باپ پر جنہوں نے اپنی اولاد کو تربیت دی کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں _ (مکارم الاخلاق_ ص ۵۱۷)

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

 اب  انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر  جاۓ تو  یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ،  لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے  -

اسی طرح فضیل بن یسار  نے امام محمد باقر      سے  روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ  ” (1) آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ       کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو  امام زمانہ کے ظہور  میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا  و ہ  اپنے امام کے ہمراہ  جہاد میں انکے خیمے میں ہے  -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الإیمان  صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ” إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (2) “  فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3) کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت  نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے  الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں  مگر ان افراد کے  جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی  گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ  علم  رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ   پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا 

--------------

(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ 

(2):- زخرف :۸۶ - 

(3):- صدوق :کمال الد ین اتمام النعمة :ج 1 ص 19

۴۱

(یعنی انکے ظہور اور قیام پر   اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران  انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے  ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی

ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں

 صحیح  روایات  سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ   ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے  کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص)  اس بارے  آنحضرت میں فرماتا ہے

لما اسری بی الی السماء ........  (1)   جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر  پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا“لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ  أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے  مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ  کا نور کوکب درّی  کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا  میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔

--------------

(1):- سید ہاشم بحر ینی :مدینة  المعاجز ص ۱۵۳ -  

۴۲

اسی طرح امیر المومنین       فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی إلی السماء.......   فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1)    “ جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ،   ندا آئی یا محمد(ص)  تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے  ہے میں نے  عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ  انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر  ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم  گرامی  لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ  کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ  کا نام تھا -

ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا..... (2)

--------------

(1):- صدوق :  کمال الد ین ج : 1 ص : 25 ۶   

(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22 

۴۳

 آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا  ذکر  اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا  ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض        اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا  اور انھیں کی برکت سے آسمان  ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا  اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات  کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں نیز امام علی ابن حسین  فرماتے ہین: وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ‏ بِأَهْلِهَا (1)   ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی  اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة  الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی  عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے  انکے  وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا  زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم  وجور سے بھر چکی ہو گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔

--------------

(1):-  کمال الد ین و تمام النعمة / ج 1 / 207 / 21 ص : 201

۴۴

ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے 

امام حسین          سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا  گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1)   ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت  کو لوگوں پر  واجب کیا ہے  -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“  ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو  پہچان لیا ہو  یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار )  اگر چہ  وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو  -جیسا کہ چھٹے امام  سے روایت ہے  آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2)   جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں  ہے -

د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :

--------------

(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 - 

۴۵

 عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ. (1)   میرے بعد بارہ امام  سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا

اسی طرح چھٹے اما  م        فرماتے ہیں :إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام   (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ  تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ  اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا  (ص) انکی  مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للإمام‏ علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (3)   حضرت ولی عصر        لوگوں میں سب سے زیادۃ  دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛  عابد اور عبادت گزار  ہونگے ” 

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو  زند ہ کریں گے

 قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و  پاکدامنی کو رواج دینا تھا  -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے

--------------

(1):- کل ین ی: کافی،ج1 ،ص 181 - 

(2):- صافیگلپائ ی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -    علیبن محمد خزاز قم ی: کفا یةالاثر ص : 4 

(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ - 

۴۶

جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے  آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے  زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس  تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ  آیہ مبارکہ یہ ہے :يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک  مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا  ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭   خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص)  کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار  کیوں نہ ہو ۔

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے  اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ   حقیقت میں تمام  انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی)  پورا ہونے وآپکے  علمی مقام  و  آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت  بیان کو  کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)

--------------

(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437 

۴۷

 رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور  زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں  کیا حال  گا ان قوموں کا  جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے    ۔

  اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے  ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی  رسالت کے   انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں :قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ‏:. (1)   قائم میرا  فرزند  ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت  پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے   انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....

--------------

(1):- علیبن محمد خزاز: کفا یةال اثر ص : 45  

۴۸

اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص)  کی معرفت  اور اطاعت ہے اور  انکا  انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ  الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے  بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی  حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا(یا حسرتا  !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک  مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی  ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1)    اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے  میں امام زمانہ کے موجود  ہونےکی ضرورت پر  دلالت کرتی ہیں  

۲: امام مہدی ؑ کی محبت

معرفت کا  لازمہ محبت ہے  یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا  اور  اسکی عظمت وفضائل اسکے      مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا  ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛  فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے 

--------------

(1):- صدوق : کمال الد ین ج : 2 ص : 4 ۱۱-: اعلام الور ی          425   -

۴۹

اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا  اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک  و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے  نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران  امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص  توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص)   فرماتے ہیں  :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی  امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب       کو اچانک میں نے علی ابی طالب     .......اور حجت قائم          کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ  میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں  

پس اگر چہ تمام  معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے  اسیلۓ  آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر .. (1)   ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان         کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر  چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔

--------------

(1):-  کاف ی:ج1 ،ص179 اور الغ یبة ،نعمان یص 141  اور ک فایة الاثر ص 162 - 

۵۰

الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت 

امام زمانہ           ہ  کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں  سےمطلع اوراسکے   رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے  اچھے اور نیک کاموں  کود یکھ کر انکے  دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے  برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر  انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا  او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی  ہے ،اور میرا  ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛  انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ  اما م  زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل  پیروی سے  حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے(وانت عاصیُ           ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ) یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔

اسیلۓ صادق آل محمد        د فرماتے ہیں: مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ  (1)

--------------

(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص :  14 ۹ 

۵۱

  جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں  میں سے قرار  دۓ .....

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ  کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“  و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم ‏ (1) “اگر ہمارے شیعہ  اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے  احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے  پوشیدہ کر رکھّا ہے  جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ  کافی ہے ۔

--------------

(1):- مجلسیبحار انوار ،ج52 ،ص 140 - 

۵۲

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے  ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور  کے شرائط میں سے ایک اہم شرط  ہے ۔

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین        فرماتے ہیں :“إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1)   جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں  انکی زیارت سے  محروم کر دۓ  گا  -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے  ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے  اوریہی  شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔

ب: امام مہدی  کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا  کرنے اور اسے رشد دینے  کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور  پر  یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح  ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔

--------------

(1):-  طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 - 

۵۳

اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش  ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت  کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ  اپنا  اثر خود بخود  چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت  اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ  اعظم  ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ  معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے  دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہےالسلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا  اُجالا پھیل جاۓ(1)   اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے  گا(2)     اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے  کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد  یہاں ذکر کرتے ہیں - 

--------------

(1):- نعمانی:الغ یبة ،باب 10 ،ص 141 -

(2):- پیام اما زمانہ ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہکے متعلق تقر یر کا ایک حصہ-

۵۴

1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور  اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا  بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا  و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے  اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے  ہیں  ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو  آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں  صدقہ دینے کو  اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(1)    اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور  اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں  چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک  اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو -  اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو  اپنے  امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت  اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا  اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور   ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ  ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔

--------------

(1):- مجلسی :ج ۱۰۲  ،ص ۱۱۱ مصباح الزائر ص ۲۳۵ - 

(2):- کشف المحجہ: فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ - 

۵۵

2: انکے  فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .

بعض معصومین ؑبھی  امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین        اپنے  حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه          مثل السقیم  وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه            مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ 

ومن الدلآئل ضحكه بین الوری               والقلب مخزون كقلب الثاكل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔

انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے  بھاگ جاتے ہونگے   ۔

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے  میں خندان نظر آئیں گۓ   جبکہ  انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی  ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام        اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ  (1)

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ اور،ج   ۱ ص ۵۳۸ -  

۵۶

اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے....... 

کسی دوسرے حدیث میں جسے  جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی  ہے ،کہتے ہیں :قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1)   ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق      کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ  تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ،  جُبہ خیبری  زیب تن کیۓ  ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے  گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو  ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں  اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے  آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس  ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ  ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران  اور انکے شوق دیدار میں بے تاب  وگریاں تھے۔

--------------

(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶  باب غیبت -  ---- کمال الد ین ج : 2 ص 35: بحارال انوار ج : 51 ص : 219     

۵۷

۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ  ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے  ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں  امام زمانہ کی بہترین  خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا  ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود  فرماتا ہےوَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ  إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3) بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے

--------------

(1):- وسائل الش یعة ج : 16 ص : 34 ۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35 ۸ 

(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -

(3):- سورہحج ۴۰ - 

۵۸

۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی

امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا  انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار  اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے(بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں  آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصومؑ  فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2)   ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی(3)   لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود  امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین  اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک  احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ  اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر  سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے“ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4) .  اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب  عوام پر واجب ہے ۔

--------------

(1):- دعایندب ہ کا ا یکفقرہ

(2):- صافیگلپائ ی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ - 

(3):- البتہواضح ر ہے یہ غیبت کےپہل ی  معنی کی بنیاد پر ہے

(4):- مجلسی:بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائل الش یعة ج : 27 ص : 13

۵۹

 یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں :أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏  (1) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی  خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه‏.  ” (2) اور ہم نے انھیں  تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے  جو حقیقت میں خدا سے  شرک لانے کی حد میں ہے یعنی   انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی  حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے  :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم   ” (3) ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء  ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،

--------------

(1):- """"   """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوس یص : ۲۹۱ 

(2):- کلینی :اصول   الکاف یج : 1 ص : ۶۷ -   تہذ یب ال اح کام ج : 6 ص :  21 ۸  

(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ،  الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵  :  عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ . 

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361