آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125384 / ڈاؤنلوڈ: 7176
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

بچے کے سرپرستوں کو چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

بعض ایسے ہیں جو کھیل کو بچے کا عیب اور بے ادبی کی علامت سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حتی المقدور بچے کو کھیل سے بازرکھیں تا کہ وہ آرام سے ایک گوشے میں بیٹھا رہے _

کچھ ایسے بھی ہیں جو بچوں کے کھیل کے مخالف نہیں ہیں اور وہ بچے کو کھیلنے کے لیے آزاد چھوڑدیتے ہیں اور اس کے کھیل میں کوئی دخل بھی نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ بچہ خود ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ کسے اور کس چیز سے کھیلا جائے _

تیسری قسم ایسے سرپرستوں کی ہے جو بچوں کے کھیل کے لیے مشغولیت کے علاوہ کوئی ہدف نہیں سمجھتے _ وہ کھیل کے مقصد کی طرف توجہ کیے بغیر بچوں کے لیے کھیل کا سامان خرید تے ہیں کھیل کا اچھا برا سامان خرید کر بچوں کے ہاتھوں میں تھمادیتے ہیں اور اپنے گھر کو کھیل کے سامان کی دوکان بنادیے ہیں لیکن بچوں کے کھیل میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتے بچہ اپنی مرضی سے کھیلتا ہے ، بگاڑتا ہے اور پھینک دیتا ہے ہنستا ہے اورخوش ہوتا ہے اوراپنے خوبصورت کھلونوں کی بناء پر دوسروں پر فخر کرتا ہے _

چوتھی قسم ایسے سرپرستوں کی ہے جو نہ صرف بچے کو کھیل کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کے کھیل پر پوری نظر بھی رکھتے ہیں _ اور گوئی مشکل پیش آجائے تو وضاحت کرتے ہیں اور اس مشکل کو حل کرتے ہیں _بچے کوموقع نہیں دیتے کہ مشکلات میں اپنی فکر و عقل کو استعمال کرے اور اپنی صلاحیت سے مشکلات کو حل کرے، اس طرح سے بچے میں خود صلاحیت پیدانہیں ہوتی اور اس کی قوت ارادی پروان نہیں چڑھتی بلکہ وہ تمام تر ماں باپ پر انحصار کرتا ہے کہ وہ فوراً اس کی مدد کو لپکیں _

ان چاروں میں سے کوئی طریقہ بھی پسندیدہ اور سودمند نہیں ہے کہ جسے بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے مفید اور بے نقص قراردیا جائے _ ہر ایک میں ایک یا زیاہ نقص موجود ہیں _ بہترین روش کو جو ایک ذمہ دار اور آگاہ مربی اختیار کرسکتا ہے یہ ہے کہ _

اولاً: بچے کو کاملاً آزاد چھوڑ دے تا کہ وہ اپنے میلان کے مطابق کھیلے _

ثانیاً: اس کے کھیلنے کے لیے ضروری چیزیں فراہم کرے _

۱۶۱

ثالثاً: کھیل کے لیے ایسی چیزوں کا انتخاب کرے کہ جن سے بچے کی فکر اور دماغی صلاحیتوں کو تقویت پہنچے اور دوسری طرف اس میں کوئی فنی پہلو بھی موجود ہونا چاہیے جوبچے کو مفید کاموں کے لیے تشویق کرے اور اسے اجتماعی اور معاشرتی امور اور کاموں کی انجام وہی پر آمادہ کرے کھیلوں کی زیادہ تر چیزیں وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ کچھ ثمر نہیں رکھتیں _

مثلاً اگر آپ اس کے لیے بجلی سے چلنے والی کاریاریل گاڑی خریدیں یا کوئی اور چیز _خریدیں تو آپ کا بچہ صرف ایک تماشہ بن جائے گا _ سارادن اسی میں گمن رہے گا _ اسے دیکھے گا _ ہنسے گا _ نہ اس میں کوئی اس کی فکر استعمال ہوگی _ نہ کوئی ایسی چیز یاد کرسکے گا جو آئندہ زندگی میں اس کے کام آسکے _

کھیلنے کے لیے بہترین چیزیں کھیل کا وہ سامان ہے جو فنی پہلو رکھتا ہو اور نامکملہوجسے بچے مکمل کریں مثلاً کسی عمارت کے مختلف حصے اور ٹکڑے ہوں _ نامکمل تصویرں _ سلائی اور کڑھائی کا سامان ، بجلی کی لائن بچھانے اور دیگر میکانیاتی کام _ اسی طرح بڑھئی اور دیگر فنون سے متعلقہ چیزں _ زراعت اور درخت لگانے میں درکار اشیاء ٹریکٹر ، اور کھیتی باڑی کی مشنیں _ دھاگا بننے اور کپڑے بننے کی مشینیں ڈرائنگ اور مصور ہی و نقاشی کی اشیاء _ الگ الگ الف، ب ، اسی طرح سکھلانے اور بنانے کی چیز یں اور مجموعی طور پر کھیل کا وہ ستاسامان کو جو بچے کے کام آسکے اور وہ اسے بناتا رہے _ بگاڑے پھر بنائے اور اس طرح سے اپنے تجربے اور پہچان کو بڑھاتا رہے _ کھیل کا ایسا سامان بچے کی دماغی صلاحیت کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے مفید اجتماعی کاموں کی طرف راغب کرتا ہے اور اسے تعمیری اور پیداداری سرگرمیوں کے لیے ابھارتا ہے _ نہ کہ اسے ایک تماشائی اور صارف اور خرچ کرنے والا بنادیتا ہے _

اس کے بعد بچہ کو راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک اچھا مربی بچوں کے کھیل کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور اس پر نظررکھتا ہے _ کھیل کی نگرانی بذات خود ایک طرح کی تعلیم و تربیت ہے _

ایک آگاہ اور ذمہ دار مربی کھیل کا مفید سامان بچے کے سپرد کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑدیتا ہے تا کہ وہ کھیلے اور اس میں اپنی فکر کو استعمال کرے لیکن بالواسطہ وہ کھیل کی نگرانی

۱۶۲

کرتا ہے اور جہاں ضرور ی ہو اس کی مدد کرتا ہے _

مثلاً اگر اس کے لیے کئی گاڑی یا ریل گاڑی خریدتا ہے تو اس سے پوچھ کہ کار اور ریل گاڑی کس کام آتی ہے _ بچہ سوچنے کے بعد جواب دیتا ہے مسافروں اور سامان کولے جانے کے لیے _ پھر وہ مزید اس میں دخالت نہیں کرتا _ بچہ خود سوچنے لگتا ہے کہ اس پر سامان اور مسافر سوار کرے اور اگر اس کام میں کوئی کمی ہو اور کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو وہ خود اسے مہیا کرے گا _ اگر گاڑی میں یا کسی اور کھلونے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہوجائے تو نہ آپ خود اس خرابی کو دورکریں اور نہ اس کے لیے کوئی اور کھلونا خریدیں _ بلکہ خودبچے کوتشویق کریں کہ وہ اس کی خرابی کو دور کرے اور مجموعی طور پر اس کمے مسائل حل کرنے میں بلا واسطہ دخالت نہ کریں _ بلکہ اس سلسلے میں خود بچے سے کام لیں اور اس کی راہنمائی کریں تا کہ اس میں اپنے آپ پر اعتماد پیدا ہو اور اس کا ذوق اور ہنر ظاہر ہونے لگے اگر آپ اپنی بیٹی کے لیے گڑیا خریدیں تو اسے بالکل کامل صورت میں نہ خریدیں بلکہ اس کی تکمیل کرنے کے لیے خود بیٹی سے کہیں _ اگر آپ بیٹی سے پوچھیں کہ اس گڑیا کے لیے کیا چیز ضروری ہے تو وہ سوچنے کے بعد جواب دے گی کہ اسے لباس کی ضرورت ہے _ پھر آپ اسے کپڑادے سکتے ہیں تا کہ وہ اس کے لیے لباس تیارکرے _ آپ کی راہنمائی میں وہ اپنی گڑیا کے لیے لباس تیار کرے گی _ اس پہنائے گی _ اس کے کپڑے دھوئے گی گڑیا کے لیے کھانا تیار کرے گی _ اس کا منہ دھوئے گی _ اسے نہلائے گی _ اسے سلادے گی _ پھر اسے جگائے گی پھر اسے مہمان کے طور پر لے جائے گی _ پھر اس کو بات کرنا اور ادب آداب سکھائے گی اس طرح سے بیٹی گڑیا سے کھیلے گی _ لیکن ایک سودمند مفید اور تعمیری کھیل_

اس وقت آپ یہ دیکھیں گے آپ کی بیٹی نے جو کچھ دیکھا یا سنا ہے وہ اپنی گڑیا پر آزمائے گی بچہ ایک مقلّد ہے _ بہت سے کام اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دوسرے لوگوں کی تقلید میں انجام دیتا ہے _ کھلونے اس وقت مفید ہیں جب بچہ ان سے کھیلے اور کام اور ہنر سیکھے نہ یہ کہ انہیں حفاظت سے رکھے اور ان کی حرکات کو کافی سمجھے اور دوسرے بچوں پر فخر کرے _ کھلونوں کے لیے ایک مخصوص جگہ ہونا چاہیے جہاں بچہ کھیل کے بعد انہیں رکھ سکے _

۱۶۳

اس جگہ کی صفائی اور تنظیم و ترتیب بچے کے ذمّے ہونی چاہیے کھلونے بہت زیادہ نہیں ہونے چاہئیں کہ بچہ ان میں الجھارہے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ اسے کس کے ساتھ کھیلنا ہے بلکہ ضروری مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے _ ضروری نہیں کہ کھلونے بہت خوبصورت اور مہنگے ہوں _ خود بچہ کاغذ ، گتے ،ڈبّے ، ٹکٹوں و غیرہ کے ذریعے کھلونے بنا سکتا ہے یا جو کھلونے اس نے خریدے ہیں انہیں کھل کر سکتا ہے _مجموعی طور پر کھیل کو چند قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱_ انفرادی کھیل کہ جس میں بچہ خو اکیلا ہی کھیل سکتا ہے _

۲_ اجتماعی کھیل کہ جو دوسروں سے مل کر کھیلا جاتا ہے

۳_ فکر کھیل کہ جو فہم و امداک کو تقویت پہنچاتا ہے _

۴_ ورزشی کھیل کہ جو جسم اور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے _

۵_ حملے اور دفاع کا کھیل کہ جس میں کھلاڑی حملہ اور دفاع کے بارے میں سیکھتا ہے _

۶_ ایک دوسرے سے تعاون کرکے کھیلا جانے والا کھیل کہ جس میں دوسروں سے تعاون کی روح کو تقویت پہنچائی جا سکتی ہے _

ابتداء میں بچہ انفرادی کھیل کھیلتا ہے _ اس مرحلے میں بچے کو آزاد چھوڑدینا چاہیے تا کہ وہ کھلونے سے کھیلتا رہے _ لیکن مربّی کی ذمہ داری ہے کہ اس کے کھیل پر نظر رکھے اس کے لیے کھلونوں کا انتخاب کرے اس کی دماغی قوت کو کام میں لائے اور اس کی سوجھ بوجھ میں اضافہ کرے دوسری طرف ، مربی یہ بھی دیکھے کہ بچے کا کھیل فنّی اور پیدا داری پہلو بھی رکھتا ہوتا کہ اسے مفید اجتماعی کاموں کا عادی بنایا جا سکے ، کبھی بچہ یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اپنا کوئی کھلونا توڑبگاڑدے اور پھر اسے دوبارہ ٹھیک کرے _ اسے اس کام میں آزادی دینا چاہیے کیوں کہ وہ تجربہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے فنّی پہلو کو سیکھنا چاہتا ہے _ لیکن اگر اسے کوئی مشکل دور پیش آجائے تو مربّی کو چاہیے کہ اس کی راہنمائی کرے _ کچھ عرصے بعد بچہ کسی حد تک اجتماعی مزاج کا حامل ہوجاتا ہے _ اس موقع پر اسے اجتماعی اور گروہی کھیل پسند ہوتے ہیں _ جب مربّی دیکھے کہ بچہ معاشرے کی طرف متوجہ

۱۶۴

ہے اور اجتماعی کھیل کھیلنے کا آرزو مند ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ بچے کا یہ اجتماعی جذبہ دن بدن ترقی کرتا جائے _ اس مرحلے پر بھی مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کے کھیل پر نظر رکھے اور اسے مفید اجتماعی کھیلوں کی طرف راہنمائی کرے _ زیادہ مروّج کھلیں فٹ بال ، والی بال اور باسکٹ با ل ہیں _ (۱) اکثر بچے اسکول میں اور اسکول سے باہر اپنے فارغ اوقات انہی کھیلوں میں گزارتے ہیں _ یہ کھیلیں اگر بچہ پٹھوں کی ورزش اور مضبوطی کے لیے سودمند ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان کھیلوں میں ایک بہت بڑا نقص بھی ہے وہ یہ کہ حملہ آور ہونے کی کھیلیں ہیں اور ایسی کھیلیں بچے میں جنگجوئی اور تشدد پسندی کا مزاج پیدا کردیتی ہیں _ ان کھیلوں میں حصّہ لینے والے بچوں کی پوری توجہ اس جانب مبذول ہوتی ہے کہ اپنے ساتھیوں یعنی دوسرے انسانوں پر کس طرح برتری حاصل کی جائے اور انہیں کیسے مغلوب اور شکست خورد کیا جائے اور یہ انسان کے لیے ایک بری صفت ہے _ ان کھیلوں میں اگر چہ تعاون بھی ہوتا ہے لیکن یہ تعاون بھی دوسرے انسانوں پر غلبہ حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے _ ان کھیلوں سے بھی بدتر کشتی اور باکسنگ ہے _ جو کہ ابتدائی انسان کے وحشی پن کی ایک کامل یادگار ہے _ کالش اس طرح کے کھیل بالکل رائج نہ ہوتے اور ان کی جگہ ایسے کھیل مرسوم ہوتے جن میں اجتماعی تعاون کی روح کارفرما ہوتی اور بچوں میں انسان دوستی کے جذبے کوتقویت ملتی اور وہ فائدہ مند پیداواری سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوتے _ رسل اس ضمن میں تحریرکرتے ہیں:آج کی انسانیت پہلے کی نسبت بہت زیادہ فکری پرورش اور باہمی تعاون کی محتاج ہے کہ جس کا سب سے بڑا دشمن مادہ پرستی ہے _انسان رقابت آمیز اعمال اور مزاحمت و حسد کا محتاج نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہ چیزیں ہیں کہ جو کبھی انسان پر غالب آجاتی ہیں اور کبھی وہ ان پر غالب آجاتا ہے _ (۲)

----------

۱_ ایران میں یہی کھیل زیادہ رائج ہیں (مترجم)

۲_ در تربیت ص ۱۲۱

۱۶۵

باعث افسوس ہے کہ سرپرست حضرات نہ فقط یہ کہ اس امر کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ دانستہ یا نا دانستہ ایسے کھیلوں کی بہت زیادہ ترویج کررہے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو حدّ سے زیادہ ان میں مصروف کررہے ہیں _ اے کاش اسکولوں اور کالجوں کے سمجھدار اور ذمہ سرپرست اس بارے میں کوئی چارہ کار سوچتے اور ہمدرد ماہرین کے ذریعے فائدہ مند اجتماعی کھیلوں کو رواج دیتے جو ایسے مذکورہ کھیلوں کی جگہ لے سکتے _

اس سلسلہ بحث کے آخر پر اس نکتے کا ذکر بھی پر اس نکتے کا ذکر کر بھی ضروری ہے کہ بچھ کو اگر چہ کھیل کی ضرورت ہے اور یہ اس کے لیے ضروری ہے لیکن کھیل کے اوقات محدود ہونے چاہئیں _ ایک سمجھدار اور با شعور مرّبی بچے کے کھیل کے اوقات اس طرح سے مرتب کرتا ہے کہ بچہ خود بخود اجتماعی اور سودمندپیدا واری سرگرمیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے _ یوں زندگی کے دوسے مرحلے میں کھیل کو چھوڑ کرحقیقی اور سودمند کام انجام دینے لگتا ہے _ ایسا مربی اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ بچے کا مزاج ہی کھیل کودکا بن جائے اور اس کا کمال یہی کھیل کود بن جائے او ر وہ اس بات پر فخر کرنے لگے کہ میںبہترین کھلاڑی ہوں _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :جو کھیل کارہیا ہو گا کامیاب نہ ہو سکے گا _ (۱) رسل اس کے متعلق لکھتا ہےیہ نظریہ کہ کسی انسان کی شخصیت کا معیار کھیل میں اس کا سابقہ ہے ، ہمارے سماجی عجزو تنزل کی علامت ہے کہ ہم یہ بات نہیں سنجھ سکے کہ ایک جدید اور پیچیدہ دنیا میں رہنے کے لیے معرفت اور تفکر کی ضرورت ہے (۲)

اجتماعی کھیلوں کی ایک مشکل یہ ہے کہ ان سے بچوں میں کدورت اور لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے _ اکٹھے کھینے والے بچے کبھی ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھی ہیں _

----------

۱_ غر الحکم ، ص ۸۵۴

۲_ در تربیت ص ۱۲۲

۱۶۶

ایسے موقع پر سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے کہ فورا دخالت کریں اور ان میں صلح و محبت پیدا کرکے انہیں کھیل میں مشغول کردیں یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی تک عناد اور دشمنی بچوں کے دل میں جڑ پیدا نہیں کرچکی ہوتی _ اس لیے وہ بہت جلد ایک دوسرے سے پھر گھل مل جاتے ہیں _

بد قسمتی سے بعض اوقات بچوں کا جھگڑا بڑوں میں سرایت کرجاتا ہے اور وہ کہ جو عقل مند ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑ ے ہو جاتے ہیں _ پھرماں باپ بغیر تحقیق کے اور کی بات سمجھے بغیراپنے بچے کا دفاع شروع کردیتے ہیں اور یہ امر کبھی لڑائی جھگڑا مار پیٹ یہاں تک کہ کبھی تھا نے تک جاپہنچتا ہے _ جب کہ ایسا کرنے سے بچوں کی غلط تربیت ہوتی ہے اور یہ بچے پر بہت بڑا ظلم ہے جو بچے ایسے واقعے کو دیکھتا ہے سو چتا ہے کہ جق و حقیقت کی کوئی اہمیت نہ۸یں اور کسی کو حق سے سرو کاو نہیں اور ہر ماں باپ تعصب کی بنا پر اپنے بچے کا دفاع کررہے ہیں _ اس طرح کا بچہ بے جا تعصب اور حق کشی کا عملی سبق اپنے ماں باپ سے لیتا ہے اور کل کے معاشر ے میں اس سے کام لیتا ہے

۱۶۷

خود نمائی

خود نمائی اور اپنی شخصیت کو نما یاں کرنے کا احساس ہر ایک میں تھوڑا بہت موجود ہے _

ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جاذب نظر اور اہم کام انجام دے کر اپنی شخصیت و اہمیت دوسروں پر ثابت کرسکے تا کہ دوسرے اسے سرا ہیں ، اس کی قدر پہچانیں اور اس کے وجود کو غنیمت شمار کریں _ تقریبا ایک سال کی عمر کے بعد اس فطری خواہش کی علامتیں بچے میں ظاہر ہونے لگتی ہں _ بچہ کوشش کرتا ہے کہ محفل میں ایک سے دوسری جگہ جاتا رہے اور اپنی حرکات سے دوسروں کی توجہ اپنی طرف ہبذول کروائے_جس کام سے اس کے ماں باپ اور دوسرے لوگ خوش ہوں اور وہ ہنسیں ان کا تکرار کرتا ہے ، انہیں دیکھ کر خوش ہو تا ہے اور اپنی کا میابی پر فخر کرتا ہے _ کبھی اشار ے اور کبھی تصریح کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں میں کتنا اہم کام انجام دے رہاہوں

خود نمائی کی خواہش فی نفسہ کوئی بری صفت نہیں ہے _ یہی درونی احساس انسان کو کوشش اور جدو جہد کے لیے ابھار تا ہے تا کہ وہ سبق پڑھ کر بہتریں نمبر حاصل کرے یا بہترین مقرربن جائے یا اچھا خطیب قرار پائے یا ماہر مصور ہو جائے یا ایک زبر دست شاعر بن جائے یا ایک اچھا مصنف بن جائے یا ایک اچھا صنّاع یا موجد ہو جا ئے _

اس صفت کا اصل وجود برانہیں لیکن اہم بات اس سے استفادہ ہے _ اگر اس خواہش کی درست راہنمائی کی جائے اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین نتائج کی حاصل ہو تی ہے _ ابتدائی طور پر بچہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتا _ ہر کام کی اچھائی

۱۶۸

یا برائی کا معیار اس کے لیے یہ ہے کہ اس کے والدین اسے پسند کرتے ہیں یا ناپسند _ ایک اچھا مربی کہ جس کی اس نکتے پر توجہ ہو وہ تحسین و تشویق کے ذریعے بچے کی خودنمائی کی خواہش کی تقویت کرتا ہے _ اس کے اچھے اور مفید کاموں پر اظہار مسرت کرتا ہے اور اس طرح سے اس میں اچھے اخلاق و آداب کی بنیاد رکھتا ہے اگر اس سے کوئی غلط اور خلاف ادب کام دیکھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اظہار مسرت نہیں کرتا بلکہ اپنی ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اس طرح سے اس عمل کی برائی بچے کو سمجھتا ہے _ اس کی طرف سے تھین و تعریف سوچی سمجھی اور حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس بارے میں وہ تھوڑی سی بھی سہل انگاری اور غفلت نہیں کرتا _ اور اس طریقے سے وہ بچے کو اچھائیوں کی طرف جذب کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے _

البتہ بعض نادان ماں باپ اس بارے میں افراط سے کام لیتے ہیں _ بچے کے ہر کام پر اگر چہ وہ غلط او ربے ادبی پر مبنی کیوں نہ ہو اظہار مسرت کرتے ہیں اور اس طرح سے اس میں ناپسندیدہ اخلاق و آداب کی بنیاد رکھتے ہیں _ اس کی خوبیوں کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں _ ہر جگہ او رہر کسی کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہیں _ اس کی ہنر نمائیوں کو دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں _ ایسا بچہ ممکن ہے تکبر اور خود پسندی میں مبتلا ہوجائے اور پھر آہستہ آہستہ ایک خو د غرض اور جاہ طلب شخص بن جائے اور اپنے لیے ایک جھوٹی شخصیت گھڑے اور لوگوں سے خواہس کرے کہ اس کے ماں باپ کی طرح اس کی موہوم اور خیالی شخصیت کی تعریف و توصیف کریں اور اگر وہ اس بارے میں کامیاب نہ ہو ا تو ممکن ہے اس میں ایک نفسیاتی عقدہ پیدا ہوجائے اور وہ لوگوں کو قدر ناشناس سمجھنے لگ جائے _ یہاں تک ممکن ہے کہ اپنی خیالی شخصیت کے لیے اور لوگوں کی ناقدری کا بداء لینے کے لیے وہ کوئی غلط یا خطرناک اقدام کرے _ وہ چاہے گا کہ اپنی شکست خوردہ خواہشات کو پورا کرے اور دوسروں کی توجہ اپنی شخصیت کی طرف مبذول کرے چاہے اس کے لیے کچھ بھی ہوجائے _

اس نکتے کی یاد دھانی بھی ضروری ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس احساس

۱۶۹

سے استفادہ کریں اور تدریجاً اس کی تربیت او رتکامل کی کوشش کریں اور اس کی ایک بلند اور بہتر راستے کی طرف راہنمائی کریں _ ماں باپ کی رضا اور خوشنودی کی جگہ آہستہ آہستہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی اس میں خوپیدا کریں _ آہستہ آہستہ اس طرح کے جملے کہنے کی بجائے کہ مجھے یہ کام پسند نہیں یا فلاں کام ابو کو پسند نہیں یہ کہیں کہ اللہ کو یہ کام پسند نہیں او روہ اس کام پر راضی نہیں _

۱۷۰

تقلید

تقلید کی سرشت انسانی فطرت میں موجود قوی ترین جبلتّوں میں سے ہے یہ بھی ایک سودمند اور تعمیری سرشت ہے _ اسی طبیعت کی بدولت بچہ بہت سی رسوم زندگی آداب معاشرت کھانا کھنا ، لباس پہننا ، طرز تکلّم ، اور الفاظ اور جملوں کی ادائیگی کا طریقہ ماں باپ اور دوسروں سے سیکھتا ہے انسان ایک مقلّد ہے اوراپنی پوری زندگی میں دوسروں کی تھوڑی یا زیادہ تقلید کرتا ہے لیکن ایک سے پانچ چھ سال کی عمر کے دوران اس میں یہ سرشت زیادہ نمایان ہوتی ہے ، بچہ ایک عرصے تک چیزوں کے حقیقی مصالح اور مفاسد سے ہرگز آگاہ نہیں ہوتا وہ اپنے کاموں کے لیے ایک عاقلانہ اور درست ہدف کا تعین نہیں کرسکتا اس مدت میں اس کی تمام تر توجہ ماں باپ اور ارد گرد کے دوسرے لوگوں کی طرف ہوتی ہے ان کے اعمال اور حرکات کو دیکھتا ہے اور ان کی تقلید کرتا ہے _

لفظ پانی ماں باپ سے سنتا ہے تقلید کرتے ہوئے وہی لفظ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے _ پھر اس کے معنی کی طرف توجہ کرتا ہے پھر اسے اس کے موقع پر استعمال کرتا ہے ایک بچی دیکھتی ہے کہ ماں صفائی کرتی ہے اور کپڑے دھوتی ہے وہ بھی بالکل ایسے ہی کام انجام دیتی ہے _ دیکھتی ہے کہ ماں آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتی وہ بھی اس سے بچتی ہے _ وہ دیکھتی ہے کہ وہ پھلوں کو دھوتی ہے ان کے چھلکے اتارتی ہے اور پھر کھاتی ہے وہ بھی یہی عادت اپنا لیتی ہے _ وہ دیکھتی ہے کہ امی ابو اور اس کے بہن بھائی گھر کے امور میں منظم ہیں اور ہر چیز کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی میں اس نظم کے بارے ان کی تقلید کرتی ہے

۱۷۱

وہ دیکھتی ہے کہ اس کے ماں باپ ادب سے بات کرتے میں وہ بھی مؤدب ہوجاتی ہے وہ دیکھتی ہے کہ گھر کے چلانے میں ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں وہ بھی اس تعاون میں اپنا حصّہ ادا کرتی ہے _ جب وہ دیکھتی ہے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے اس کے ماں باپ اس جگہ سے عبور کرتے ہیں جہاں لائنیں لگی ہوئی ہیں وہ بھی یہی کام انجام دیتی ہے اور رفتہ رفتہ اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے جب بیٹا دیکھتا ہے کہ اس کا باپ باغبانی کرتا ہے یا لکڑی کاکام کرتا ہے یا تعمیر کا کام کرتا ہے _

وہ بھی شروع شروع میں وہی کام کھیل کی طرح انجام دیتا ہے اور یہی کھیل ممکن ہے اس کی زندگی کے آئندہ پیشے کے طور پر مؤثر ہو _

بچے کی تعلیم و تربیت اور اسی کی تعمیر میں تقلید کا اثر و عظ ونصیحت سے زیادہ ہوتا ہے _ تقلید خودبخود انچام پاتی ہے اور اس کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی _ کہ دیکھ امّی کیا کررہی ہے بلکہ کہے بغیر ہی وہ امّی اور ابو کے کام کی طرف پوری توجہ دیتا ہے _ ایک متکبر، بد اخلاق، بے ادب اور بد زبان باپ اپنے بچے کے لیے سرمشق قرار پائے گا _ اور ایک ہٹ ڈھرم ، گستاخ بے ادب اور بد زبان ماں اپنے ننھے بچے کو ایسی ہی بری صفات سے پر کردے گی _ ایک جھوٹا ، بزدل اور خیانت کارمربّی ، ایک سچا ، شجاع اور امانت دار بچہ پروان نہیں چڑھا سکتا _ بچے آپ کی وعظ ونصیحت اور گفتگو پر کوئی توجہ نہیں کرتے وہ آپ کے اعمال اورکردار کی طرف پوری توجہ کترے ہیں اور اسے کے مطابق عمل کرتے ہیں _ لہذا تقلید کی سرشت کو اہم تربیتی عوامل میں سے شمار کیا جا سکتا ہے _ اس مقام پر ماں باپ اورتمام تربیت کرنے والے ایک بہت ہی بھاری ذمہ داری کے حامل ہیں وہ اپنے کاموں کے بارے میں بے توجہ نہیں رہ سکتے وہ اپنے اچھے اعمال و اخلاق سے اپنے بچوں کے لیے بہترین نمونہ بن سکتے ہیں _ اگر ماں باپ برے ہوں گے تو وہ وعظ و نصیحت سے بچوں کی نیکی اور بھلائی کی طرف ہدایت نہیں کرسکتے _ لہذا جن ماں باپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے انہیں چاہیے کوشش کریں کہ پہلے اپنے آپ کی اور گھر کے ماحول کی اصلاح کریں اور اپنے بچوں کے لیے بہترین

۱۷۲

نمونہ عمل بنیں _ خود ایسا عمل کریں جیسا وہ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد عمل کرے _ تقلید سے روکنا بہت مشکل ہے آپ کوشش کریں کہ اپنی اولاد کے لیے بہترین نمونہ عمل بنیں _امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :اگر آپ دوسروں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اصلاح کریں یہ بہت بڑی برائی ہے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوں اور خود فاسد رہیں ( ۱)پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا :

اللہ تعالی ماں باپ کی نیکی اور پر ہیز گاری و جہ سغ ان کی اولاد اور پھران کی اولاد کو صلاح اور نیک تربناد ے گا (۱)

ایک ذمہ دار مربی اپنے بچے کے دوستوں اور ہم جو لیوں سے لا تعلق اور بے توجہ نہین رہ سکتا کیونکہ بچہ بہت سارے کاموں میں اپنے دوستوں اور ہم جو لیوں کی تقلید کرے گا _ (۲)

ایک ذمہ دا ر مربی اپنے بچے کے دوستوں اور ہم جو لیوں سے لا تعلق اور بے توجہ نہیں رہ سکتا کیونکہ بچہ بہت سارے کاموں میں اپنے دوستوں اورہم جو لیوں کی تقلید کرے گا _ بعض اوقات بچہ سینما میں یا ٹیلی وین کی سکر ین پر ادا کاروں کو قتل ، جرم ، چوری ، اور چاقو زنی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے اندر بھی اس سے تحریک پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی و یسے ہی اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال پڑھتے ہوں گے کہ جو اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال سینما اور ٹیلی وین میں انہوں نے جو پو لیس کے کام دیکھے یا قتل اور جرم کے مناظر دیکھے تو وہ ان میں تحریک پیدا کرنے کا عامل بن گئے _ ایسی صورت میں کیا بچوں کو ایسی چیزیں دیکھنے کے لیے کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ؟

------------

۱_ غررالحکام ص ۲۷۸

۲_ مکارم الا خلاق ص ۵۴۶

۱۷۳

تلاش حقیقت

جب نومولود دنیا میں آتا ہے تو جہان خارج کی اسے کوئی خبر نہیں ہوتی _ ہر چیز اس کے لیے برابر ہے _ وہ شکلوں میں ، رنگوں میں اور لوگوں میں فرق نہیں کرسکتا _ وہ شکلوں اور آوازوں سے متا ثر ہو تا ہے لیکن انہیں پہچان نہیں پاتا _ لیکن اسی وقت سے اس میں تحقیق ، جستجو اور چیزوں کے پہچاننے کی شدید خواہش اور تمنا ہوتی ہے _ وہ مسلسل اس طرف طرف اور طرف دیکھتا ہے اور لوگوں کی صورتیں دیکھ دیکھ کے حیران ہوا ہے بچہ اپنے حواس کے ذریعے اوراپنی تحقیق و جستجو لگن سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور کسب علم کرتا ہے اللہ تعالی قرآن میں فرماتا :

والله اخرجکم من بطون امها تکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع و الا بصار والا فئد ة لعلکم تشکرون

اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو پہچا نو اور شکر گزار بن جاؤ _ (۱)

کچھ مدت کے بعد بچہ جہان خارج کی طرف تو جہ کرنے لگتا ہے _ چیزوں کو ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے _ انہیں حرکت دیتا ہے _ پھر زمین پر پھنیک دیتا ہے _ منہ میں لے جاتا ہے آوازوں

--------

۱_ نحل ، ۷۸

۱۷۴

کی طرف دھیان دیتا ہے _ آنکھول سے لوگوں کی حرکتوں کودیکھتا رہتا ہے _ اس طرح سے تلاش حقیقت کی خواہش اور حس کو وہ پورا کرتا ہے اور دنیا کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی نے تحقیق و جستجو کی سرشت نوع انساں کو و دیعت کی ہے تا کہ ہے تا کہ اپنی کوشش اور جستجو سے اسرار جہان کے پر دے ہٹا ئے اور تخلیق عالم کار از پالے_ بچہ میں فطری طور پر تحقیق اور جستجوکاماوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں حتی المقدور کوشش کرتا ہے _ ماں باپ اس ضمن میں بچے کوتشویق و تحریک بھی کرسکتے ہیں اور اس داخلی احساس کو دبا بھی سکتے ہیں _ اگر ماں باپ تحقیق سے متعلقہ چیزیں اسے دیں اور اسے یہ آزادی بھی دیں کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق تجربہ کرے اور اس کی عمر کے تقاضے کے مطابق اسے فکری و علمی اعتبار سے جاذب کھلونے خرید دیں تو س کی تحقیق و جستجو کی روح پر و ان چڑ ھے گی بچے کی یہی ہے _ ایک کمر ے میں موجود مختلف چیزیں اس کے اختیار میں نہ دیں اور اسے تحقیق و تجربے سے منع کریں تو تلاش حقیقت کی روح اس کے اندر دب جائے گی _ اور وہ سائنسی اور تحقیقی امور میں شکست خوردہ اور مایوس ہو گا_ اس مرحلے سے اہم تر وہ مرحلہ ہے جب بچہ مختلف قسم کے علمی تحقیقی اور معلوماتی سوالات کرنے لگتا ہے دو سال سے اور وہ باتبں کرنا سیکھ لیتا ہے _ اور ماں باپ سے بہت سے سوالات کرنے لگتا ہے مثلا میں بعد میں ماں بنوں گا یا باپ ؟ ابو ہر روز گھر سے با ہر کیوں جاتے ہیں ؟ پتھر سخت اور پانی نرم کیوں ہے ؟ مجھے دادی اماں اچھی نہیں لگتی میں ان کے گھر کیوں جاؤں ؟ بارش میں کیوں نہ کھیلوں ؟ مچھلیاں پانی میں مر کیوں نہیں جاتیں ؟ آپ ہر روز نماز کیوں پڑ ھتے ہیں ؟ نماز کیا ہے ؟ سورج رات کو کہاں چلا جاتا ہے ؟ بارش اور بر فباری کہاں سے ہوتی ہے ؟ یہ ستار ے کیا ہیں ؟ کس نے ان کو بنا یا ہے ؟ مکھی اور مچھر کا کیا فائدہ ہے ؟ جب

۱۷۵

داداجان مرے تھے تو انہین مٹی میں کیوں ڈال دیا تھا؟ وہ کہاں گئے ہیں ؟ واپس کسب آئیں گے ؟یہ موت کیا ہوتی ہے ؟ کم و بیش بچوں کے اس طرح کے سوالات ہوتے ہیں بچوں کے سوالات ایک جیسے نہیں ہوتے عمر اور افراد کے فرق کے ساتھ سوالات بھی مختلف ہوتے ہیں _ سمجھدار بچے زیادہ گہر ے اور زیادہ سوال کرتے ہیں _ جوں جوں ان کی معلومات بڑھتی جاتی ہیں ان کے سوالات دقیق تر ہوتے جاتے ہیں _ بچہ سوالات اور تحقیق سے خارجی دنیا کی شناخت کے لیے دوسروں کی معلومات اور تجربات سے استفادہ کرناچاہتا ہے _ تلاش حقیقت اور جستجو کی سر شت انسان کی بہت ہی قیمتی سر شتوں میں سے ہے _ اس سرشت کے وجود کی برکت سے انسان نے کمال حاصل کیا ہے _ جہان خلقت کے بہت سے اسرار اور از کشف کیے ہیں _ اور سائنس اور صنعت میں حیران کن ترقی کی ہے _ جن ماں باپ کو اپنی اولاد اور انسانی معاشر ے کی ترقی اور کمال عزیز ہے وہ اس خداو ادصلاحیت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں _ بعض ماں باپ بچگانہ سوالات کو ایسے ہی بے کار اور فضول سمجھتے ہیں اور جواب دینے کی طرف ہر گز تو جہ نہیں دیتے کہتے ہیں بچہ کیا سنجھتا ہے ؟ بڑا ہو گا تو خود ہی سمجھ لے گا آخر ہم بچوں کے سوالوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں _ بچوں کے سوالات سن کرکہتے ہیں بیٹا جی اتنی باتیں نہ کرو _ ایسے ہی نہ بو لتے رہو _ مجھے کیا پتہ جب بڑے ہو گے تو خود ہی سنجھ لوگے _ ایسے سوالاں کا وقت نہیں ہے ان کو چھوڑو یہ میرے بس میں نہیں ہے _ ایسے ماں باپ اپنے بچے کی قیمتی ترین انسانی صلاحیت کو خاموش کردیتے ہیں _ اس کی عقلی رشد و نمو کو روک دیتے ہیں _ پھر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے میں سائنس انکشافات سے دلچسپی کیوں نہیں ہے _ وہ علمی اور سائنسی سوالات حل کرنے میں عاجز کیوں ہے _ جب کہ خود ہی وہ اس کام کا سبب بنے ہیں _ اگر اس صلاحیت کی صحیح تسکین نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقی راستے سے بھئک جائے اور بعد ازاں لوگوں کے راز معلوم نے اور لوگوں کے اسرار کے بارے میں تجسس کی صورت میں ظاہر ہو _

بعض ماں باپ اپنے بچوںکو خوش کنے کے لیے ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں

۱۷۶

لیکن انہین ہرگز سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ جواب صحیح ہو وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ چپ کرجائے جواب صحیح ہو یا غلط _ وہ سمجھتے ہیں کہ صحیح جواب بچوں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے _ لہذا انہیں مطمئن کرنے کے لیے ایسا جواب دیتے ہیں کہ بس وہ چپ کرجائے _ ممکن ہے بچہ اس طرح سے وقتی طور پر خاموش ہو جائے _ لیکن تلاش حقیقت کے بارے میں اس کی خواہش سیر نہیں ہوئی اور کمال کے راستے پر آگے نہیں بڑھی بلکہ گمراہی او رخلاف حقیقت راستے کی طرف بھٹک گئی ہے جب وہ بڑا ہو گا _ اور حقیقت اسے معلوم ہو جائے گی تووہ ان ماں باپ کے بارے میں بد بین ہو جائے گاجنہوں نے اسے گمراہ کیا تھا بلکہ یہاں تک ممکن ہے وہ ایک شکی قسم کا شخص بن جائے کہ جوہر کسی کے بارے میں ہر مقام پر بد گمانی کرے _ لیکن سمجھدار اور فرض شناس ماں باپ اس قیمتی خدا داد صلاحیت کو ضائع نہیں کرتے اور راس سے اور قابل فہم جوابدیں _ پہلے وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں _ سو چتے ہیں _ بچوں سے ان کی زبان میں بات کرتے ہیں اور ان کے یوالوں کی طرف خوب تو جہ کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ہر گز خلاف حقیقت بات نہیں کرتے اگر کسی موقع پروہ جواب دینے سے عاجز ہوں تو با قاعدہ اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح بچے کی تلاش حقیقت کی اس صلاحیت کو بھی ابھار تے ہیں او رساتے ہی ساتھ انہیں یہ بھی سکھا تے ہیں کہ جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو لا علمی کا اظہار کرنے میں شرم ومحسوس نہیں کرنے چاہیے _ بعض ماں باپ بچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں یعنی ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دینے کے لیے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور جو کچھ بھی انہیں معلوم ہوتا ہے سب کچھ کہہ ڈا لتے ہیں یہ کام بھی درست نہیں کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بچہ زیادہ باتیں سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا _ اسے صرف اپنے سوال کے جواب سے غرض ہوتی ہے اور زیادہ باتوں سے وہ تھک جاتا ہے تحقیق و جستجو میں بچوں اور نو چوانوںکی تشویق کریں _ انہیں بحث و استدلال سے آشنا کریں اور جہاں امکان ہو اور ضروری ہو و ہاں انہیں تجربے کے لیے بھی ابھلاریں _ بچہ ایک سو چنے والا انسان ہے _ اس کی سوچ

۱۷۷

کو تقوبت دیں تا کہ اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتّیںکام آئیں اور وہ اپنے فکر و شعور سے استقادہ کرے اور اپنےلئےآنئدہ ک ی زندگی کے لیے، تیار ہوجا ئے _ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جو بھی بچین میں سوال کرسکے بڑا ہو کر جواب دے سکے گا (۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

بچے کادل نرم زمین کے مانند ہے آپ جو بھی اس میں ڈالیں گے قبول کرے گا (۲)

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتی ہے ...

ایک رات ابو گھر آئے اور مجھ سے ایک پہیلی کہی _ اور کہا کہ میر ے ساتھی اس پہیلی کو نہیں بو جھ سکے سب سو گئے لیکن میں نے ارادہ کیا کہ اس کو بو جھ کے رہوں گی _ اور دیر تک سو چتی رہی اور آخر کار میں نے اسے بو جھ لیا _ خوشی خوشی میں نے ابو کو جگا یا اور انہیں اس پہیلی کا جواب دیا ابو خوش ہو گئے _ مجھے شا باش کہی الو ہمیشہ فکر ی قسم کے کام مجھ سے کہتے اور اس سلسلے میں مجھے تشویق کرتے اسی لیے میں فکری مسائل حل کرنے میں طاق ہو گئی ہوں _ اور زندگی کی مشکلات کو سوچ بچار سے حل کر لیتی ہو ں

--------

۱_ غرر الحکام ص ۶۴۵

۲_ غررالحکام ص ۳۰۲

۱۷۸

خود اعتمادی

تمام زندگی جد و جہد ، پکار ، کوشش اور جستجو کا نام ہے ، ہر انسان کو زندگی بھر میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ زندہ رہنے اور زندگی گرانے کے لیے اسے عالم طبیعت کی قوتوں سے ناچار جنگ کرنا پڑتی ہے اور انہیں تسخیر کرنا پڑتا ہے بیماریوں اور ان کے اسباب کے خلاف لڑنا پڑتا ہے _ تجاوزوں ، زیادیتوں اور آرام و آزادی کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوامل کے خلاف جد و جہد کرنا پڑتی ہے _ کارزار زندگی میں وہی کامیاب ہے جس کا دل بڑا ہو ، ہمت بلند ہو _ اور ارادہ قوی ہو _ ہر کسی کی خوش بختی یا بدبختی کی بنیاد ود اس کے وجود میں موجود ہے _ دنیا کے بڑے انسان کی درخشان کامیابیوں کا سبب ان کی خود اعتمادی ، قوت ارادی اور مسلسل کوشش رہی ہے عظیم اور قوی لوگ زندگی کی مشکلات سے نہیں دڑتے _ وہ ذاتی استقلال اور خدا پر بھروسنہ کرتے ہوئے ان کے خلاف بر سر پیکار ہوتے ہیں _ اور کمر ہمت باندھ کے جد و جہد کرتے ہیں اور انہیں مغلوب کرلیتے ہیں _ ہمت اور عالمی حوصلگی ہر مشکل کو آسان بنادیتی ہے _ بلکہ جو چیز دوسروں کے لیے محال ہوتی ہے اسے ممکن بنادیتی ہے _ وہ زندگی کے گہرے سمندر میں کسی تنکے کی مانند نہیں ہوتے کہ جو فقط لہروں کے سہارے ادھر ادھر بھٹکتے رہیں بلکہ ایک ماہر پیراک کی طرح اپنے قوی بازؤں آہنی ارادوں اور توکل الی اللہ سے جس طرف کو چاہتے ہیں تیرتے ہیں بلکہ دنیا کے واقعات کا رخ بدل دیتے ہیں _ ہر انسان اپنے ذاتی استقلال ، خود اعتمادی ، ارادے اور جد و جہد سے اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے دین مقدس اسلام میں بھی دنیاوی اور اخروی

۱۷۹

کامیابی و ناکامی کو انسان کے اعمال اور کوشش کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے _ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :

و ان لیس للانسان الاّ ما سعی _ و انَّ سعیه سوف یری

انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ اس کی کوشش کا ماحصل ہے اور وہ جلد اپنی سعد کو (مجسّم) دیکھ لے گا_(نجم ، ۳۹، ۴۰)

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الصوء بهمّته

ہر کسی کی قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہے _ (۱)

جو شخص خود استقلال اور خود اعتمادی کا حامل ہو وہ مشکلات کے حل لیے دوسروں کا منتظر نہیں رہتا بلکہ اپنی بلند ہمتی اور پختہ ارادے کے ذریعے میدان عمل میں کودپڑتاہے اور جب تک اپنے مقصد کو پانہیں لیتا کوشش اور جدّ و جہد سے دستبردار نہیں ہوتا _

امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ہیں :تمام اچھائیاں اس امر میں جمع ہیں کہ انسان دوسروں کے بھر وسے پر نہ بیٹھارہے _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:مومن کی عزت اور بزرگی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیز سے امید وابستہ نہ رکھے _ (۲) البتہ خو د اعتمادی سے محروم افراد اپنی ذات پر بھروسنہ نہیں کرتے _ وہ اپنے تئیں حقیر اور ناتوان سمجھتے ہیں ، زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور ان کے ساتھ مقابلے

------------

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ ص ۱۶۳

۲_ اصول کافی ، ج ۲ ص ۱۴۸

۳_ اصول کافی ، ج ۲ ص ۱۴۸

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361