آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121972
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121972 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بچے کے سرپرستوں کو چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

بعض ایسے ہیں جو کھیل کو بچے کا عیب اور بے ادبی کی علامت سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حتی المقدور بچے کو کھیل سے بازرکھیں تا کہ وہ آرام سے ایک گوشے میں بیٹھا رہے _

کچھ ایسے بھی ہیں جو بچوں کے کھیل کے مخالف نہیں ہیں اور وہ بچے کو کھیلنے کے لیے آزاد چھوڑدیتے ہیں اور اس کے کھیل میں کوئی دخل بھی نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ بچہ خود ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ کسے اور کس چیز سے کھیلا جائے _

تیسری قسم ایسے سرپرستوں کی ہے جو بچوں کے کھیل کے لیے مشغولیت کے علاوہ کوئی ہدف نہیں سمجھتے _ وہ کھیل کے مقصد کی طرف توجہ کیے بغیر بچوں کے لیے کھیل کا سامان خرید تے ہیں کھیل کا اچھا برا سامان خرید کر بچوں کے ہاتھوں میں تھمادیتے ہیں اور اپنے گھر کو کھیل کے سامان کی دوکان بنادیے ہیں لیکن بچوں کے کھیل میں کوئی دخل اندازی نہیں کرتے بچہ اپنی مرضی سے کھیلتا ہے ، بگاڑتا ہے اور پھینک دیتا ہے ہنستا ہے اورخوش ہوتا ہے اوراپنے خوبصورت کھلونوں کی بناء پر دوسروں پر فخر کرتا ہے _

چوتھی قسم ایسے سرپرستوں کی ہے جو نہ صرف بچے کو کھیل کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کے کھیل پر پوری نظر بھی رکھتے ہیں _ اور گوئی مشکل پیش آجائے تو وضاحت کرتے ہیں اور اس مشکل کو حل کرتے ہیں _بچے کوموقع نہیں دیتے کہ مشکلات میں اپنی فکر و عقل کو استعمال کرے اور اپنی صلاحیت سے مشکلات کو حل کرے، اس طرح سے بچے میں خود صلاحیت پیدانہیں ہوتی اور اس کی قوت ارادی پروان نہیں چڑھتی بلکہ وہ تمام تر ماں باپ پر انحصار کرتا ہے کہ وہ فوراً اس کی مدد کو لپکیں _

ان چاروں میں سے کوئی طریقہ بھی پسندیدہ اور سودمند نہیں ہے کہ جسے بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے مفید اور بے نقص قراردیا جائے _ ہر ایک میں ایک یا زیاہ نقص موجود ہیں _ بہترین روش کو جو ایک ذمہ دار اور آگاہ مربی اختیار کرسکتا ہے یہ ہے کہ _

اولاً: بچے کو کاملاً آزاد چھوڑ دے تا کہ وہ اپنے میلان کے مطابق کھیلے _

ثانیاً: اس کے کھیلنے کے لیے ضروری چیزیں فراہم کرے _

۱۶۱

ثالثاً: کھیل کے لیے ایسی چیزوں کا انتخاب کرے کہ جن سے بچے کی فکر اور دماغی صلاحیتوں کو تقویت پہنچے اور دوسری طرف اس میں کوئی فنی پہلو بھی موجود ہونا چاہیے جوبچے کو مفید کاموں کے لیے تشویق کرے اور اسے اجتماعی اور معاشرتی امور اور کاموں کی انجام وہی پر آمادہ کرے کھیلوں کی زیادہ تر چیزیں وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ کچھ ثمر نہیں رکھتیں _

مثلاً اگر آپ اس کے لیے بجلی سے چلنے والی کاریاریل گاڑی خریدیں یا کوئی اور چیز _خریدیں تو آپ کا بچہ صرف ایک تماشہ بن جائے گا _ سارادن اسی میں گمن رہے گا _ اسے دیکھے گا _ ہنسے گا _ نہ اس میں کوئی اس کی فکر استعمال ہوگی _ نہ کوئی ایسی چیز یاد کرسکے گا جو آئندہ زندگی میں اس کے کام آسکے _

کھیلنے کے لیے بہترین چیزیں کھیل کا وہ سامان ہے جو فنی پہلو رکھتا ہو اور نامکملہوجسے بچے مکمل کریں مثلاً کسی عمارت کے مختلف حصے اور ٹکڑے ہوں _ نامکمل تصویرں _ سلائی اور کڑھائی کا سامان ، بجلی کی لائن بچھانے اور دیگر میکانیاتی کام _ اسی طرح بڑھئی اور دیگر فنون سے متعلقہ چیزں _ زراعت اور درخت لگانے میں درکار اشیاء ٹریکٹر ، اور کھیتی باڑی کی مشنیں _ دھاگا بننے اور کپڑے بننے کی مشینیں ڈرائنگ اور مصور ہی و نقاشی کی اشیاء _ الگ الگ الف، ب ، اسی طرح سکھلانے اور بنانے کی چیز یں اور مجموعی طور پر کھیل کا وہ ستاسامان کو جو بچے کے کام آسکے اور وہ اسے بناتا رہے _ بگاڑے پھر بنائے اور اس طرح سے اپنے تجربے اور پہچان کو بڑھاتا رہے _ کھیل کا ایسا سامان بچے کی دماغی صلاحیت کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے مفید اجتماعی کاموں کی طرف راغب کرتا ہے اور اسے تعمیری اور پیداداری سرگرمیوں کے لیے ابھارتا ہے _ نہ کہ اسے ایک تماشائی اور صارف اور خرچ کرنے والا بنادیتا ہے _

اس کے بعد بچہ کو راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ایک اچھا مربی بچوں کے کھیل کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور اس پر نظررکھتا ہے _ کھیل کی نگرانی بذات خود ایک طرح کی تعلیم و تربیت ہے _

ایک آگاہ اور ذمہ دار مربی کھیل کا مفید سامان بچے کے سپرد کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑدیتا ہے تا کہ وہ کھیلے اور اس میں اپنی فکر کو استعمال کرے لیکن بالواسطہ وہ کھیل کی نگرانی

۱۶۲

کرتا ہے اور جہاں ضرور ی ہو اس کی مدد کرتا ہے _

مثلاً اگر اس کے لیے کئی گاڑی یا ریل گاڑی خریدتا ہے تو اس سے پوچھ کہ کار اور ریل گاڑی کس کام آتی ہے _ بچہ سوچنے کے بعد جواب دیتا ہے مسافروں اور سامان کولے جانے کے لیے _ پھر وہ مزید اس میں دخالت نہیں کرتا _ بچہ خود سوچنے لگتا ہے کہ اس پر سامان اور مسافر سوار کرے اور اگر اس کام میں کوئی کمی ہو اور کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو وہ خود اسے مہیا کرے گا _ اگر گاڑی میں یا کسی اور کھلونے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہوجائے تو نہ آپ خود اس خرابی کو دورکریں اور نہ اس کے لیے کوئی اور کھلونا خریدیں _ بلکہ خودبچے کوتشویق کریں کہ وہ اس کی خرابی کو دور کرے اور مجموعی طور پر اس کمے مسائل حل کرنے میں بلا واسطہ دخالت نہ کریں _ بلکہ اس سلسلے میں خود بچے سے کام لیں اور اس کی راہنمائی کریں تا کہ اس میں اپنے آپ پر اعتماد پیدا ہو اور اس کا ذوق اور ہنر ظاہر ہونے لگے اگر آپ اپنی بیٹی کے لیے گڑیا خریدیں تو اسے بالکل کامل صورت میں نہ خریدیں بلکہ اس کی تکمیل کرنے کے لیے خود بیٹی سے کہیں _ اگر آپ بیٹی سے پوچھیں کہ اس گڑیا کے لیے کیا چیز ضروری ہے تو وہ سوچنے کے بعد جواب دے گی کہ اسے لباس کی ضرورت ہے _ پھر آپ اسے کپڑادے سکتے ہیں تا کہ وہ اس کے لیے لباس تیارکرے _ آپ کی راہنمائی میں وہ اپنی گڑیا کے لیے لباس تیار کرے گی _ اس پہنائے گی _ اس کے کپڑے دھوئے گی گڑیا کے لیے کھانا تیار کرے گی _ اس کا منہ دھوئے گی _ اسے نہلائے گی _ اسے سلادے گی _ پھر اسے جگائے گی پھر اسے مہمان کے طور پر لے جائے گی _ پھر اس کو بات کرنا اور ادب آداب سکھائے گی اس طرح سے بیٹی گڑیا سے کھیلے گی _ لیکن ایک سودمند مفید اور تعمیری کھیل_

اس وقت آپ یہ دیکھیں گے آپ کی بیٹی نے جو کچھ دیکھا یا سنا ہے وہ اپنی گڑیا پر آزمائے گی بچہ ایک مقلّد ہے _ بہت سے کام اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دوسرے لوگوں کی تقلید میں انجام دیتا ہے _ کھلونے اس وقت مفید ہیں جب بچہ ان سے کھیلے اور کام اور ہنر سیکھے نہ یہ کہ انہیں حفاظت سے رکھے اور ان کی حرکات کو کافی سمجھے اور دوسرے بچوں پر فخر کرے _ کھلونوں کے لیے ایک مخصوص جگہ ہونا چاہیے جہاں بچہ کھیل کے بعد انہیں رکھ سکے _

۱۶۳

اس جگہ کی صفائی اور تنظیم و ترتیب بچے کے ذمّے ہونی چاہیے کھلونے بہت زیادہ نہیں ہونے چاہئیں کہ بچہ ان میں الجھارہے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ اسے کس کے ساتھ کھیلنا ہے بلکہ ضروری مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے _ ضروری نہیں کہ کھلونے بہت خوبصورت اور مہنگے ہوں _ خود بچہ کاغذ ، گتے ،ڈبّے ، ٹکٹوں و غیرہ کے ذریعے کھلونے بنا سکتا ہے یا جو کھلونے اس نے خریدے ہیں انہیں کھل کر سکتا ہے _مجموعی طور پر کھیل کو چند قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1_ انفرادی کھیل کہ جس میں بچہ خو اکیلا ہی کھیل سکتا ہے _

2_ اجتماعی کھیل کہ جو دوسروں سے مل کر کھیلا جاتا ہے

3_ فکر کھیل کہ جو فہم و امداک کو تقویت پہنچاتا ہے _

4_ ورزشی کھیل کہ جو جسم اور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے _

5_ حملے اور دفاع کا کھیل کہ جس میں کھلاڑی حملہ اور دفاع کے بارے میں سیکھتا ہے _

6_ ایک دوسرے سے تعاون کرکے کھیلا جانے والا کھیل کہ جس میں دوسروں سے تعاون کی روح کو تقویت پہنچائی جا سکتی ہے _

ابتداء میں بچہ انفرادی کھیل کھیلتا ہے _ اس مرحلے میں بچے کو آزاد چھوڑدینا چاہیے تا کہ وہ کھلونے سے کھیلتا رہے _ لیکن مربّی کی ذمہ داری ہے کہ اس کے کھیل پر نظر رکھے اس کے لیے کھلونوں کا انتخاب کرے اس کی دماغی قوت کو کام میں لائے اور اس کی سوجھ بوجھ میں اضافہ کرے دوسری طرف ، مربی یہ بھی دیکھے کہ بچے کا کھیل فنّی اور پیدا داری پہلو بھی رکھتا ہوتا کہ اسے مفید اجتماعی کاموں کا عادی بنایا جا سکے ، کبھی بچہ یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اپنا کوئی کھلونا توڑبگاڑدے اور پھر اسے دوبارہ ٹھیک کرے _ اسے اس کام میں آزادی دینا چاہیے کیوں کہ وہ تجربہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے فنّی پہلو کو سیکھنا چاہتا ہے _ لیکن اگر اسے کوئی مشکل دور پیش آجائے تو مربّی کو چاہیے کہ اس کی راہنمائی کرے _ کچھ عرصے بعد بچہ کسی حد تک اجتماعی مزاج کا حامل ہوجاتا ہے _ اس موقع پر اسے اجتماعی اور گروہی کھیل پسند ہوتے ہیں _ جب مربّی دیکھے کہ بچہ معاشرے کی طرف متوجہ

۱۶۴

ہے اور اجتماعی کھیل کھیلنے کا آرزو مند ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کرے تا کہ بچے کا یہ اجتماعی جذبہ دن بدن ترقی کرتا جائے _ اس مرحلے پر بھی مربی کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچے کے کھیل پر نظر رکھے اور اسے مفید اجتماعی کھیلوں کی طرف راہنمائی کرے _ زیادہ مروّج کھلیں فٹ بال ، والی بال اور باسکٹ با ل ہیں _ (1) اکثر بچے اسکول میں اور اسکول سے باہر اپنے فارغ اوقات انہی کھیلوں میں گزارتے ہیں _ یہ کھیلیں اگر بچہ پٹھوں کی ورزش اور مضبوطی کے لیے سودمند ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان کھیلوں میں ایک بہت بڑا نقص بھی ہے وہ یہ کہ حملہ آور ہونے کی کھیلیں ہیں اور ایسی کھیلیں بچے میں جنگجوئی اور تشدد پسندی کا مزاج پیدا کردیتی ہیں _ ان کھیلوں میں حصّہ لینے والے بچوں کی پوری توجہ اس جانب مبذول ہوتی ہے کہ اپنے ساتھیوں یعنی دوسرے انسانوں پر کس طرح برتری حاصل کی جائے اور انہیں کیسے مغلوب اور شکست خورد کیا جائے اور یہ انسان کے لیے ایک بری صفت ہے _ ان کھیلوں میں اگر چہ تعاون بھی ہوتا ہے لیکن یہ تعاون بھی دوسرے انسانوں پر غلبہ حاصل کرنے کی نیت سے ہوتا ہے _ ان کھیلوں سے بھی بدتر کشتی اور باکسنگ ہے _ جو کہ ابتدائی انسان کے وحشی پن کی ایک کامل یادگار ہے _ کالش اس طرح کے کھیل بالکل رائج نہ ہوتے اور ان کی جگہ ایسے کھیل مرسوم ہوتے جن میں اجتماعی تعاون کی روح کارفرما ہوتی اور بچوں میں انسان دوستی کے جذبے کوتقویت ملتی اور وہ فائدہ مند پیداواری سرگرمیوں کی طرف متوجہ ہوتے _ رسل اس ضمن میں تحریرکرتے ہیں:آج کی انسانیت پہلے کی نسبت بہت زیادہ فکری پرورش اور باہمی تعاون کی محتاج ہے کہ جس کا سب سے بڑا دشمن مادہ پرستی ہے _انسان رقابت آمیز اعمال اور مزاحمت و حسد کا محتاج نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہ چیزیں ہیں کہ جو کبھی انسان پر غالب آجاتی ہیں اور کبھی وہ ان پر غالب آجاتا ہے _ (2)

----------

1_ ایران میں یہی کھیل زیادہ رائج ہیں (مترجم)

2_ در تربیت ص 121

۱۶۵

باعث افسوس ہے کہ سرپرست حضرات نہ فقط یہ کہ اس امر کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ دانستہ یا نا دانستہ ایسے کھیلوں کی بہت زیادہ ترویج کررہے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو حدّ سے زیادہ ان میں مصروف کررہے ہیں _ اے کاش اسکولوں اور کالجوں کے سمجھدار اور ذمہ سرپرست اس بارے میں کوئی چارہ کار سوچتے اور ہمدرد ماہرین کے ذریعے فائدہ مند اجتماعی کھیلوں کو رواج دیتے جو ایسے مذکورہ کھیلوں کی جگہ لے سکتے _

اس سلسلہ بحث کے آخر پر اس نکتے کا ذکر بھی پر اس نکتے کا ذکر کر بھی ضروری ہے کہ بچھ کو اگر چہ کھیل کی ضرورت ہے اور یہ اس کے لیے ضروری ہے لیکن کھیل کے اوقات محدود ہونے چاہئیں _ ایک سمجھدار اور با شعور مرّبی بچے کے کھیل کے اوقات اس طرح سے مرتب کرتا ہے کہ بچہ خود بخود اجتماعی اور سودمندپیدا واری سرگرمیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے _ یوں زندگی کے دوسے مرحلے میں کھیل کو چھوڑ کرحقیقی اور سودمند کام انجام دینے لگتا ہے _ ایسا مربی اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ بچے کا مزاج ہی کھیل کودکا بن جائے اور اس کا کمال یہی کھیل کود بن جائے او ر وہ اس بات پر فخر کرنے لگے کہ میںبہترین کھلاڑی ہوں _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :جو کھیل کارہیا ہو گا کامیاب نہ ہو سکے گا _ (1) رسل اس کے متعلق لکھتا ہےیہ نظریہ کہ کسی انسان کی شخصیت کا معیار کھیل میں اس کا سابقہ ہے ، ہمارے سماجی عجزو تنزل کی علامت ہے کہ ہم یہ بات نہیں سنجھ سکے کہ ایک جدید اور پیچیدہ دنیا میں رہنے کے لیے معرفت اور تفکر کی ضرورت ہے (2)

اجتماعی کھیلوں کی ایک مشکل یہ ہے کہ ان سے بچوں میں کدورت اور لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے _ اکٹھے کھینے والے بچے کبھی ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھی ہیں _

----------

1_ غر الحکم ، ص 854

2_ در تربیت ص 122

۱۶۶

ایسے موقع پر سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے کہ فورا دخالت کریں اور ان میں صلح و محبت پیدا کرکے انہیں کھیل میں مشغول کردیں یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی تک عناد اور دشمنی بچوں کے دل میں جڑ پیدا نہیں کرچکی ہوتی _ اس لیے وہ بہت جلد ایک دوسرے سے پھر گھل مل جاتے ہیں _

بد قسمتی سے بعض اوقات بچوں کا جھگڑا بڑوں میں سرایت کرجاتا ہے اور وہ کہ جو عقل مند ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑ ے ہو جاتے ہیں _ پھرماں باپ بغیر تحقیق کے اور کی بات سمجھے بغیراپنے بچے کا دفاع شروع کردیتے ہیں اور یہ امر کبھی لڑائی جھگڑا مار پیٹ یہاں تک کہ کبھی تھا نے تک جاپہنچتا ہے _ جب کہ ایسا کرنے سے بچوں کی غلط تربیت ہوتی ہے اور یہ بچے پر بہت بڑا ظلم ہے جو بچے ایسے واقعے کو دیکھتا ہے سو چتا ہے کہ جق و حقیقت کی کوئی اہمیت نہ8یں اور کسی کو حق سے سرو کاو نہیں اور ہر ماں باپ تعصب کی بنا پر اپنے بچے کا دفاع کررہے ہیں _ اس طرح کا بچہ بے جا تعصب اور حق کشی کا عملی سبق اپنے ماں باپ سے لیتا ہے اور کل کے معاشر ے میں اس سے کام لیتا ہے

۱۶۷

خود نمائی

خود نمائی اور اپنی شخصیت کو نما یاں کرنے کا احساس ہر ایک میں تھوڑا بہت موجود ہے _

ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جاذب نظر اور اہم کام انجام دے کر اپنی شخصیت و اہمیت دوسروں پر ثابت کرسکے تا کہ دوسرے اسے سرا ہیں ، اس کی قدر پہچانیں اور اس کے وجود کو غنیمت شمار کریں _ تقریبا ایک سال کی عمر کے بعد اس فطری خواہش کی علامتیں بچے میں ظاہر ہونے لگتی ہں _ بچہ کوشش کرتا ہے کہ محفل میں ایک سے دوسری جگہ جاتا رہے اور اپنی حرکات سے دوسروں کی توجہ اپنی طرف ہبذول کروائے_جس کام سے اس کے ماں باپ اور دوسرے لوگ خوش ہوں اور وہ ہنسیں ان کا تکرار کرتا ہے ، انہیں دیکھ کر خوش ہو تا ہے اور اپنی کا میابی پر فخر کرتا ہے _ کبھی اشار ے اور کبھی تصریح کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں میں کتنا اہم کام انجام دے رہاہوں

خود نمائی کی خواہش فی نفسہ کوئی بری صفت نہیں ہے _ یہی درونی احساس انسان کو کوشش اور جدو جہد کے لیے ابھار تا ہے تا کہ وہ سبق پڑھ کر بہتریں نمبر حاصل کرے یا بہترین مقرربن جائے یا اچھا خطیب قرار پائے یا ماہر مصور ہو جائے یا ایک زبر دست شاعر بن جائے یا ایک اچھا مصنف بن جائے یا ایک اچھا صنّاع یا موجد ہو جا ئے _

اس صفت کا اصل وجود برانہیں لیکن اہم بات اس سے استفادہ ہے _ اگر اس خواہش کی درست راہنمائی کی جائے اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین نتائج کی حاصل ہو تی ہے _ ابتدائی طور پر بچہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتا _ ہر کام کی اچھائی

۱۶۸

یا برائی کا معیار اس کے لیے یہ ہے کہ اس کے والدین اسے پسند کرتے ہیں یا ناپسند _ ایک اچھا مربی کہ جس کی اس نکتے پر توجہ ہو وہ تحسین و تشویق کے ذریعے بچے کی خودنمائی کی خواہش کی تقویت کرتا ہے _ اس کے اچھے اور مفید کاموں پر اظہار مسرت کرتا ہے اور اس طرح سے اس میں اچھے اخلاق و آداب کی بنیاد رکھتا ہے اگر اس سے کوئی غلط اور خلاف ادب کام دیکھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اظہار مسرت نہیں کرتا بلکہ اپنی ناراضی اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتا ہے اور اس طرح سے اس عمل کی برائی بچے کو سمجھتا ہے _ اس کی طرف سے تھین و تعریف سوچی سمجھی اور حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس بارے میں وہ تھوڑی سی بھی سہل انگاری اور غفلت نہیں کرتا _ اور اس طریقے سے وہ بچے کو اچھائیوں کی طرف جذب کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے _

البتہ بعض نادان ماں باپ اس بارے میں افراط سے کام لیتے ہیں _ بچے کے ہر کام پر اگر چہ وہ غلط او ربے ادبی پر مبنی کیوں نہ ہو اظہار مسرت کرتے ہیں اور اس طرح سے اس میں ناپسندیدہ اخلاق و آداب کی بنیاد رکھتے ہیں _ اس کی خوبیوں کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں _ ہر جگہ او رہر کسی کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہیں _ اس کی ہنر نمائیوں کو دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں _ ایسا بچہ ممکن ہے تکبر اور خود پسندی میں مبتلا ہوجائے اور پھر آہستہ آہستہ ایک خو د غرض اور جاہ طلب شخص بن جائے اور اپنے لیے ایک جھوٹی شخصیت گھڑے اور لوگوں سے خواہس کرے کہ اس کے ماں باپ کی طرح اس کی موہوم اور خیالی شخصیت کی تعریف و توصیف کریں اور اگر وہ اس بارے میں کامیاب نہ ہو ا تو ممکن ہے اس میں ایک نفسیاتی عقدہ پیدا ہوجائے اور وہ لوگوں کو قدر ناشناس سمجھنے لگ جائے _ یہاں تک ممکن ہے کہ اپنی خیالی شخصیت کے لیے اور لوگوں کی ناقدری کا بداء لینے کے لیے وہ کوئی غلط یا خطرناک اقدام کرے _ وہ چاہے گا کہ اپنی شکست خوردہ خواہشات کو پورا کرے اور دوسروں کی توجہ اپنی شخصیت کی طرف مبذول کرے چاہے اس کے لیے کچھ بھی ہوجائے _

اس نکتے کی یاد دھانی بھی ضروری ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس احساس

۱۶۹

سے استفادہ کریں اور تدریجاً اس کی تربیت او رتکامل کی کوشش کریں اور اس کی ایک بلند اور بہتر راستے کی طرف راہنمائی کریں _ ماں باپ کی رضا اور خوشنودی کی جگہ آہستہ آہستہ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی اس میں خوپیدا کریں _ آہستہ آہستہ اس طرح کے جملے کہنے کی بجائے کہ مجھے یہ کام پسند نہیں یا فلاں کام ابو کو پسند نہیں یہ کہیں کہ اللہ کو یہ کام پسند نہیں او روہ اس کام پر راضی نہیں _

۱۷۰

تقلید

تقلید کی سرشت انسانی فطرت میں موجود قوی ترین جبلتّوں میں سے ہے یہ بھی ایک سودمند اور تعمیری سرشت ہے _ اسی طبیعت کی بدولت بچہ بہت سی رسوم زندگی آداب معاشرت کھانا کھنا ، لباس پہننا ، طرز تکلّم ، اور الفاظ اور جملوں کی ادائیگی کا طریقہ ماں باپ اور دوسروں سے سیکھتا ہے انسان ایک مقلّد ہے اوراپنی پوری زندگی میں دوسروں کی تھوڑی یا زیادہ تقلید کرتا ہے لیکن ایک سے پانچ چھ سال کی عمر کے دوران اس میں یہ سرشت زیادہ نمایان ہوتی ہے ، بچہ ایک عرصے تک چیزوں کے حقیقی مصالح اور مفاسد سے ہرگز آگاہ نہیں ہوتا وہ اپنے کاموں کے لیے ایک عاقلانہ اور درست ہدف کا تعین نہیں کرسکتا اس مدت میں اس کی تمام تر توجہ ماں باپ اور ارد گرد کے دوسرے لوگوں کی طرف ہوتی ہے ان کے اعمال اور حرکات کو دیکھتا ہے اور ان کی تقلید کرتا ہے _

لفظ پانی ماں باپ سے سنتا ہے تقلید کرتے ہوئے وہی لفظ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے _ پھر اس کے معنی کی طرف توجہ کرتا ہے پھر اسے اس کے موقع پر استعمال کرتا ہے ایک بچی دیکھتی ہے کہ ماں صفائی کرتی ہے اور کپڑے دھوتی ہے وہ بھی بالکل ایسے ہی کام انجام دیتی ہے _ دیکھتی ہے کہ ماں آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتی وہ بھی اس سے بچتی ہے _ وہ دیکھتی ہے کہ وہ پھلوں کو دھوتی ہے ان کے چھلکے اتارتی ہے اور پھر کھاتی ہے وہ بھی یہی عادت اپنا لیتی ہے _ وہ دیکھتی ہے کہ امی ابو اور اس کے بہن بھائی گھر کے امور میں منظم ہیں اور ہر چیز کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی میں اس نظم کے بارے ان کی تقلید کرتی ہے

۱۷۱

وہ دیکھتی ہے کہ اس کے ماں باپ ادب سے بات کرتے میں وہ بھی مؤدب ہوجاتی ہے وہ دیکھتی ہے کہ گھر کے چلانے میں ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں وہ بھی اس تعاون میں اپنا حصّہ ادا کرتی ہے _ جب وہ دیکھتی ہے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے اس کے ماں باپ اس جگہ سے عبور کرتے ہیں جہاں لائنیں لگی ہوئی ہیں وہ بھی یہی کام انجام دیتی ہے اور رفتہ رفتہ اسے اس کی عادت پڑجاتی ہے جب بیٹا دیکھتا ہے کہ اس کا باپ باغبانی کرتا ہے یا لکڑی کاکام کرتا ہے یا تعمیر کا کام کرتا ہے _

وہ بھی شروع شروع میں وہی کام کھیل کی طرح انجام دیتا ہے اور یہی کھیل ممکن ہے اس کی زندگی کے آئندہ پیشے کے طور پر مؤثر ہو _

بچے کی تعلیم و تربیت اور اسی کی تعمیر میں تقلید کا اثر و عظ ونصیحت سے زیادہ ہوتا ہے _ تقلید خودبخود انچام پاتی ہے اور اس کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی _ کہ دیکھ امّی کیا کررہی ہے بلکہ کہے بغیر ہی وہ امّی اور ابو کے کام کی طرف پوری توجہ دیتا ہے _ ایک متکبر، بد اخلاق، بے ادب اور بد زبان باپ اپنے بچے کے لیے سرمشق قرار پائے گا _ اور ایک ہٹ ڈھرم ، گستاخ بے ادب اور بد زبان ماں اپنے ننھے بچے کو ایسی ہی بری صفات سے پر کردے گی _ ایک جھوٹا ، بزدل اور خیانت کارمربّی ، ایک سچا ، شجاع اور امانت دار بچہ پروان نہیں چڑھا سکتا _ بچے آپ کی وعظ ونصیحت اور گفتگو پر کوئی توجہ نہیں کرتے وہ آپ کے اعمال اورکردار کی طرف پوری توجہ کترے ہیں اور اسے کے مطابق عمل کرتے ہیں _ لہذا تقلید کی سرشت کو اہم تربیتی عوامل میں سے شمار کیا جا سکتا ہے _ اس مقام پر ماں باپ اورتمام تربیت کرنے والے ایک بہت ہی بھاری ذمہ داری کے حامل ہیں وہ اپنے کاموں کے بارے میں بے توجہ نہیں رہ سکتے وہ اپنے اچھے اعمال و اخلاق سے اپنے بچوں کے لیے بہترین نمونہ بن سکتے ہیں _ اگر ماں باپ برے ہوں گے تو وہ وعظ و نصیحت سے بچوں کی نیکی اور بھلائی کی طرف ہدایت نہیں کرسکتے _ لہذا جن ماں باپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے انہیں چاہیے کوشش کریں کہ پہلے اپنے آپ کی اور گھر کے ماحول کی اصلاح کریں اور اپنے بچوں کے لیے بہترین

۱۷۲

نمونہ عمل بنیں _ خود ایسا عمل کریں جیسا وہ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد عمل کرے _ تقلید سے روکنا بہت مشکل ہے آپ کوشش کریں کہ اپنی اولاد کے لیے بہترین نمونہ عمل بنیں _امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :اگر آپ دوسروں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اصلاح کریں یہ بہت بڑی برائی ہے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوں اور خود فاسد رہیں ( 1)پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا :

اللہ تعالی ماں باپ کی نیکی اور پر ہیز گاری و جہ سغ ان کی اولاد اور پھران کی اولاد کو صلاح اور نیک تربناد ے گا (1)

ایک ذمہ دار مربی اپنے بچے کے دوستوں اور ہم جو لیوں سے لا تعلق اور بے توجہ نہین رہ سکتا کیونکہ بچہ بہت سارے کاموں میں اپنے دوستوں اور ہم جو لیوں کی تقلید کرے گا _ (2)

ایک ذمہ دا ر مربی اپنے بچے کے دوستوں اور ہم جو لیوں سے لا تعلق اور بے توجہ نہیں رہ سکتا کیونکہ بچہ بہت سارے کاموں میں اپنے دوستوں اورہم جو لیوں کی تقلید کرے گا _ بعض اوقات بچہ سینما میں یا ٹیلی وین کی سکر ین پر ادا کاروں کو قتل ، جرم ، چوری ، اور چاقو زنی کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے اندر بھی اس سے تحریک پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی و یسے ہی اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال پڑھتے ہوں گے کہ جو اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال سینما اور ٹیلی وین میں انہوں نے جو پو لیس کے کام دیکھے یا قتل اور جرم کے مناظر دیکھے تو وہ ان میں تحریک پیدا کرنے کا عامل بن گئے _ ایسی صورت میں کیا بچوں کو ایسی چیزیں دیکھنے کے لیے کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ؟

------------

1_ غررالحکام ص 278

2_ مکارم الا خلاق ص 546

۱۷۳

تلاش حقیقت

جب نومولود دنیا میں آتا ہے تو جہان خارج کی اسے کوئی خبر نہیں ہوتی _ ہر چیز اس کے لیے برابر ہے _ وہ شکلوں میں ، رنگوں میں اور لوگوں میں فرق نہیں کرسکتا _ وہ شکلوں اور آوازوں سے متا ثر ہو تا ہے لیکن انہیں پہچان نہیں پاتا _ لیکن اسی وقت سے اس میں تحقیق ، جستجو اور چیزوں کے پہچاننے کی شدید خواہش اور تمنا ہوتی ہے _ وہ مسلسل اس طرف طرف اور طرف دیکھتا ہے اور لوگوں کی صورتیں دیکھ دیکھ کے حیران ہوا ہے بچہ اپنے حواس کے ذریعے اوراپنی تحقیق و جستجو لگن سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتا ہے اور کسب علم کرتا ہے اللہ تعالی قرآن میں فرماتا :

والله اخرجکم من بطون امها تکم لا تعلمون شیئا وجعل لکم السمع و الا بصار والا فئد ة لعلکم تشکرون

اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو پہچا نو اور شکر گزار بن جاؤ _ (1)

کچھ مدت کے بعد بچہ جہان خارج کی طرف تو جہ کرنے لگتا ہے _ چیزوں کو ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے _ انہیں حرکت دیتا ہے _ پھر زمین پر پھنیک دیتا ہے _ منہ میں لے جاتا ہے آوازوں

--------

1_ نحل ، 78

۱۷۴

کی طرف دھیان دیتا ہے _ آنکھول سے لوگوں کی حرکتوں کودیکھتا رہتا ہے _ اس طرح سے تلاش حقیقت کی خواہش اور حس کو وہ پورا کرتا ہے اور دنیا کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی نے تحقیق و جستجو کی سرشت نوع انساں کو و دیعت کی ہے تا کہ ہے تا کہ اپنی کوشش اور جستجو سے اسرار جہان کے پر دے ہٹا ئے اور تخلیق عالم کار از پالے_ بچہ میں فطری طور پر تحقیق اور جستجوکاماوہ ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں حتی المقدور کوشش کرتا ہے _ ماں باپ اس ضمن میں بچے کوتشویق و تحریک بھی کرسکتے ہیں اور اس داخلی احساس کو دبا بھی سکتے ہیں _ اگر ماں باپ تحقیق سے متعلقہ چیزیں اسے دیں اور اسے یہ آزادی بھی دیں کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق تجربہ کرے اور اس کی عمر کے تقاضے کے مطابق اسے فکری و علمی اعتبار سے جاذب کھلونے خرید دیں تو س کی تحقیق و جستجو کی روح پر و ان چڑ ھے گی بچے کی یہی ہے _ ایک کمر ے میں موجود مختلف چیزیں اس کے اختیار میں نہ دیں اور اسے تحقیق و تجربے سے منع کریں تو تلاش حقیقت کی روح اس کے اندر دب جائے گی _ اور وہ سائنسی اور تحقیقی امور میں شکست خوردہ اور مایوس ہو گا_ اس مرحلے سے اہم تر وہ مرحلہ ہے جب بچہ مختلف قسم کے علمی تحقیقی اور معلوماتی سوالات کرنے لگتا ہے دو سال سے اور وہ باتبں کرنا سیکھ لیتا ہے _ اور ماں باپ سے بہت سے سوالات کرنے لگتا ہے مثلا میں بعد میں ماں بنوں گا یا باپ ؟ ابو ہر روز گھر سے با ہر کیوں جاتے ہیں ؟ پتھر سخت اور پانی نرم کیوں ہے ؟ مجھے دادی اماں اچھی نہیں لگتی میں ان کے گھر کیوں جاؤں ؟ بارش میں کیوں نہ کھیلوں ؟ مچھلیاں پانی میں مر کیوں نہیں جاتیں ؟ آپ ہر روز نماز کیوں پڑ ھتے ہیں ؟ نماز کیا ہے ؟ سورج رات کو کہاں چلا جاتا ہے ؟ بارش اور بر فباری کہاں سے ہوتی ہے ؟ یہ ستار ے کیا ہیں ؟ کس نے ان کو بنا یا ہے ؟ مکھی اور مچھر کا کیا فائدہ ہے ؟ جب

۱۷۵

داداجان مرے تھے تو انہین مٹی میں کیوں ڈال دیا تھا؟ وہ کہاں گئے ہیں ؟ واپس کسب آئیں گے ؟یہ موت کیا ہوتی ہے ؟ کم و بیش بچوں کے اس طرح کے سوالات ہوتے ہیں بچوں کے سوالات ایک جیسے نہیں ہوتے عمر اور افراد کے فرق کے ساتھ سوالات بھی مختلف ہوتے ہیں _ سمجھدار بچے زیادہ گہر ے اور زیادہ سوال کرتے ہیں _ جوں جوں ان کی معلومات بڑھتی جاتی ہیں ان کے سوالات دقیق تر ہوتے جاتے ہیں _ بچہ سوالات اور تحقیق سے خارجی دنیا کی شناخت کے لیے دوسروں کی معلومات اور تجربات سے استفادہ کرناچاہتا ہے _ تلاش حقیقت اور جستجو کی سر شت انسان کی بہت ہی قیمتی سر شتوں میں سے ہے _ اس سرشت کے وجود کی برکت سے انسان نے کمال حاصل کیا ہے _ جہان خلقت کے بہت سے اسرار اور از کشف کیے ہیں _ اور سائنس اور صنعت میں حیران کن ترقی کی ہے _ جن ماں باپ کو اپنی اولاد اور انسانی معاشر ے کی ترقی اور کمال عزیز ہے وہ اس خداو ادصلاحیت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں _ بعض ماں باپ بچگانہ سوالات کو ایسے ہی بے کار اور فضول سمجھتے ہیں اور جواب دینے کی طرف ہر گز تو جہ نہیں دیتے کہتے ہیں بچہ کیا سنجھتا ہے ؟ بڑا ہو گا تو خود ہی سمجھ لے گا آخر ہم بچوں کے سوالوں کا جواب کیسے دے سکتے ہیں _ بچوں کے سوالات سن کرکہتے ہیں بیٹا جی اتنی باتیں نہ کرو _ ایسے ہی نہ بو لتے رہو _ مجھے کیا پتہ جب بڑے ہو گے تو خود ہی سنجھ لوگے _ ایسے سوالاں کا وقت نہیں ہے ان کو چھوڑو یہ میرے بس میں نہیں ہے _ ایسے ماں باپ اپنے بچے کی قیمتی ترین انسانی صلاحیت کو خاموش کردیتے ہیں _ اس کی عقلی رشد و نمو کو روک دیتے ہیں _ پھر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے میں سائنس انکشافات سے دلچسپی کیوں نہیں ہے _ وہ علمی اور سائنسی سوالات حل کرنے میں عاجز کیوں ہے _ جب کہ خود ہی وہ اس کام کا سبب بنے ہیں _ اگر اس صلاحیت کی صحیح تسکین نہ کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ حقیقی راستے سے بھئک جائے اور بعد ازاں لوگوں کے راز معلوم نے اور لوگوں کے اسرار کے بارے میں تجسس کی صورت میں ظاہر ہو _

بعض ماں باپ اپنے بچوںکو خوش کنے کے لیے ان کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں

۱۷۶

لیکن انہین ہرگز سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ جواب صحیح ہو وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ چپ کرجائے جواب صحیح ہو یا غلط _ وہ سمجھتے ہیں کہ صحیح جواب بچوں کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے _ لہذا انہیں مطمئن کرنے کے لیے ایسا جواب دیتے ہیں کہ بس وہ چپ کرجائے _ ممکن ہے بچہ اس طرح سے وقتی طور پر خاموش ہو جائے _ لیکن تلاش حقیقت کے بارے میں اس کی خواہش سیر نہیں ہوئی اور کمال کے راستے پر آگے نہیں بڑھی بلکہ گمراہی او رخلاف حقیقت راستے کی طرف بھٹک گئی ہے جب وہ بڑا ہو گا _ اور حقیقت اسے معلوم ہو جائے گی تووہ ان ماں باپ کے بارے میں بد بین ہو جائے گاجنہوں نے اسے گمراہ کیا تھا بلکہ یہاں تک ممکن ہے وہ ایک شکی قسم کا شخص بن جائے کہ جوہر کسی کے بارے میں ہر مقام پر بد گمانی کرے _ لیکن سمجھدار اور فرض شناس ماں باپ اس قیمتی خدا داد صلاحیت کو ضائع نہیں کرتے اور راس سے اور قابل فہم جوابدیں _ پہلے وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرتے ہیں مطالعہ کرتے ہیں _ سو چتے ہیں _ بچوں سے ان کی زبان میں بات کرتے ہیں اور ان کے یوالوں کی طرف خوب تو جہ کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں ہر گز خلاف حقیقت بات نہیں کرتے اگر کسی موقع پروہ جواب دینے سے عاجز ہوں تو با قاعدہ اپنی لا علمی کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح بچے کی تلاش حقیقت کی اس صلاحیت کو بھی ابھار تے ہیں او رساتے ہی ساتھ انہیں یہ بھی سکھا تے ہیں کہ جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو لا علمی کا اظہار کرنے میں شرم ومحسوس نہیں کرنے چاہیے _ بعض ماں باپ بچوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حد سے بڑھ جاتے ہیں یعنی ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دینے کے لیے تفصیلات میں چلے جاتے ہیں اور جو کچھ بھی انہیں معلوم ہوتا ہے سب کچھ کہہ ڈا لتے ہیں یہ کام بھی درست نہیں کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بچہ زیادہ باتیں سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا _ اسے صرف اپنے سوال کے جواب سے غرض ہوتی ہے اور زیادہ باتوں سے وہ تھک جاتا ہے تحقیق و جستجو میں بچوں اور نو چوانوںکی تشویق کریں _ انہیں بحث و استدلال سے آشنا کریں اور جہاں امکان ہو اور ضروری ہو و ہاں انہیں تجربے کے لیے بھی ابھلاریں _ بچہ ایک سو چنے والا انسان ہے _ اس کی سوچ

۱۷۷

کو تقوبت دیں تا کہ اس کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتّیںکام آئیں اور وہ اپنے فکر و شعور سے استقادہ کرے اور اپنےلئےآنئدہ ک ی زندگی کے لیے، تیار ہوجا ئے _ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : جو بھی بچین میں سوال کرسکے بڑا ہو کر جواب دے سکے گا (1)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

بچے کادل نرم زمین کے مانند ہے آپ جو بھی اس میں ڈالیں گے قبول کرے گا (2)

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتی ہے ...

ایک رات ابو گھر آئے اور مجھ سے ایک پہیلی کہی _ اور کہا کہ میر ے ساتھی اس پہیلی کو نہیں بو جھ سکے سب سو گئے لیکن میں نے ارادہ کیا کہ اس کو بو جھ کے رہوں گی _ اور دیر تک سو چتی رہی اور آخر کار میں نے اسے بو جھ لیا _ خوشی خوشی میں نے ابو کو جگا یا اور انہیں اس پہیلی کا جواب دیا ابو خوش ہو گئے _ مجھے شا باش کہی الو ہمیشہ فکر ی قسم کے کام مجھ سے کہتے اور اس سلسلے میں مجھے تشویق کرتے اسی لیے میں فکری مسائل حل کرنے میں طاق ہو گئی ہوں _ اور زندگی کی مشکلات کو سوچ بچار سے حل کر لیتی ہو ں

--------

1_ غرر الحکام ص 645

2_ غررالحکام ص 302

۱۷۸

خود اعتمادی

تمام زندگی جد و جہد ، پکار ، کوشش اور جستجو کا نام ہے ، ہر انسان کو زندگی بھر میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے _ زندہ رہنے اور زندگی گرانے کے لیے اسے عالم طبیعت کی قوتوں سے ناچار جنگ کرنا پڑتی ہے اور انہیں تسخیر کرنا پڑتا ہے بیماریوں اور ان کے اسباب کے خلاف لڑنا پڑتا ہے _ تجاوزوں ، زیادیتوں اور آرام و آزادی کے خلاف مزاحمت کرنے والے عوامل کے خلاف جد و جہد کرنا پڑتی ہے _ کارزار زندگی میں وہی کامیاب ہے جس کا دل بڑا ہو ، ہمت بلند ہو _ اور ارادہ قوی ہو _ ہر کسی کی خوش بختی یا بدبختی کی بنیاد ود اس کے وجود میں موجود ہے _ دنیا کے بڑے انسان کی درخشان کامیابیوں کا سبب ان کی خود اعتمادی ، قوت ارادی اور مسلسل کوشش رہی ہے عظیم اور قوی لوگ زندگی کی مشکلات سے نہیں دڑتے _ وہ ذاتی استقلال اور خدا پر بھروسنہ کرتے ہوئے ان کے خلاف بر سر پیکار ہوتے ہیں _ اور کمر ہمت باندھ کے جد و جہد کرتے ہیں اور انہیں مغلوب کرلیتے ہیں _ ہمت اور عالمی حوصلگی ہر مشکل کو آسان بنادیتی ہے _ بلکہ جو چیز دوسروں کے لیے محال ہوتی ہے اسے ممکن بنادیتی ہے _ وہ زندگی کے گہرے سمندر میں کسی تنکے کی مانند نہیں ہوتے کہ جو فقط لہروں کے سہارے ادھر ادھر بھٹکتے رہیں بلکہ ایک ماہر پیراک کی طرح اپنے قوی بازؤں آہنی ارادوں اور توکل الی اللہ سے جس طرف کو چاہتے ہیں تیرتے ہیں بلکہ دنیا کے واقعات کا رخ بدل دیتے ہیں _ ہر انسان اپنے ذاتی استقلال ، خود اعتمادی ، ارادے اور جد و جہد سے اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے دین مقدس اسلام میں بھی دنیاوی اور اخروی

۱۷۹

کامیابی و ناکامی کو انسان کے اعمال اور کوشش کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے _ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے :

و ان لیس للانسان الاّ ما سعی _ و انَّ سعیه سوف یری

انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ اس کی کوشش کا ماحصل ہے اور وہ جلد اپنی سعد کو (مجسّم) دیکھ لے گا_(نجم ، 39، 40)

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الصوء بهمّته

ہر کسی کی قیمت اس کی ہمت کے مطابق ہے _ (1)

جو شخص خود استقلال اور خود اعتمادی کا حامل ہو وہ مشکلات کے حل لیے دوسروں کا منتظر نہیں رہتا بلکہ اپنی بلند ہمتی اور پختہ ارادے کے ذریعے میدان عمل میں کودپڑتاہے اور جب تک اپنے مقصد کو پانہیں لیتا کوشش اور جدّ و جہد سے دستبردار نہیں ہوتا _

امام سجّاد علیہ السلام فرماتے ہیں :تمام اچھائیاں اس امر میں جمع ہیں کہ انسان دوسروں کے بھر وسے پر نہ بیٹھارہے _

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:مومن کی عزت اور بزرگی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیز سے امید وابستہ نہ رکھے _ (2) البتہ خو د اعتمادی سے محروم افراد اپنی ذات پر بھروسنہ نہیں کرتے _ وہ اپنے تئیں حقیر اور ناتوان سمجھتے ہیں ، زندگی کے مسائل کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور ان کے ساتھ مقابلے

------------

1_ نہج البلاغہ ج 3 ص 163

2_ اصول کافی ، ج 2 ص 148

3_ اصول کافی ، ج 2 ص 148

۱۸۰