آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121949
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121949 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کام اور فرض کی ادائیگی

کام اور کوشش انسانی زندگی کی بنیاد ہیں _ کام کے ذریعے انسان روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرتا ہے _ کام اور محنت کے ذریعے زمین آباد ہوتی ہے _ اور لوگوں کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم ہوتے ہیں یہ اتنی صنعتیں او رحیران کن ایجادات انسانی کام او رمحنت کا نتیجہ ہیں _ یہ علم اور محنت ہے کہ جس نے موجودہ تمندن کو جود بخشا ہے اور انسان کویہ عظمت علا کی ہے _ ہر ملک کی ترقی اور پیش رفت اس ملک کے افراد کی محنت اور کوشش سے وابستہ ہے _ اگر کسی ملک کے افراد مختلف حیلوں بہانوں سے کام کرنے سے بچپں_ بالخصوص پیداواری کاموں سے بچپں تو وہ ملک خوشحال نہیں ہوسکتا _ ایسی قوم پیدا کرنے والی نہیں صرف صرف کرنے والی ہوگیاور وہ استعماری قوتوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی _ ہر فرد کی ترقی بھی اس کے علم ، کام اور کوشش سے وابستہ ہے _ دنیا کام اور محنت کا مقام ہے نہ کہ سستی اور تن پروری کا _ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے _

'' وَاَن لیس للانسان الاّ ما سعی''

''انسان کے لیے جو کچھ بھی ہے وہ اس کی کوشش کا ماحصل ہے'' (1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :

----------

1_ سورہ نجم ، آیہ 39

۲۰۱

''وہ جو اپنا بوجھ دوسروں پہ ڈالے رکھے وہ ملعون ہے'' (1)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ ''عبادت کے ستّر (70) حصے ہیں _ جن میں سب سے افضل رزق حلال کے حصول کی کوشش ہے '' (2)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' میرے دوستوں اور شیعوں کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا تقوی کو نہ چھوڑنا اور اپنی آخرت کے لیے تو شہ تیار کرنا _ خدا کی قسم میں صرف اس چیز کا تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جس پر خود عمل کرتا ہوں _ محنت او رکوشش کریں _ نماز صبح کے بعد جلد کام پر نکل جائیں اور رزق حلال حاصل کریں _ کام کریں ، خدا تمہیں رزق دے گا اور تمہاری مدد کرے گا '' _ (3)

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:''جو شخص دنیاوری امور میں سست اور کاہل ہو وہ مجھے برا لگتا ہے _ جو شخص محنت و مشقت میں سست ہو وہ امور آخرت میں بھی سست ہوگا '' _ (4) ثواب ملے گا'' _ (5)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

-----------

1_ کافی، ج 5، ص 72

2_ کافی ، ج 5، ص 78

3_ کافی،ج 5، ص 78

4_ کافی، ج 5، ص85

5_ کافی، ج 5،ص 88

۲۰۲

''کسان انسانوں کے لیے خدا کے خزانے ہیں ، وہ اچھا بیج بولتے ہیں اور خدا اس بیج کو اگاتا ہے قیامت میں کسانوں کا بہترین مقام ہے _ اور انہیں '' مبارکین'' کے نام سے پکاراجائے گا '' _ (1)

ہر انسان دوسروں کی محنت اور کام سے فائدہ اٹھاتا ہے _ وہ دوسروں کی محنت اور زحمت کے بغیر زندگی نہیں گزارسکتا اس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق کام اور محنت کرے اور دوسرے انسانوں کو بھی فائدہ پہنچائے _ مزدور بہترین اور شریف ترین انسان ہیں جو لوگ خود طاقت رکھتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے اور دوسروں کی محنت پر پلتے ہیں وہ پروردگار عالم کی رحمت سے دور ہیں جن ماں باپ کو اپنی اولاد کی سعادت اور خوش بختی مطلوب ہے اور جنہیں اپنے ملک کی خوشحالی اور ترقی پسندہے وہ اپنے تربیت پروگرام میں بچوں کو محنت کرنا بھی سکھائیں _ اپنے بچوں کی اس طرح سے تریت کریں کہ وہ بچپن ہی سے کام کرنے کے شوقیں اور عادی ہوجائیں تا کہ بڑے ہوکرنہ صرف یہ کہ وہ کام کرنے کو ننگ و عار نہ سمجھیں بلکہ اس پر افتخار کریں _ بہت سے ماں باپ زندگی کے اس انتہائی اہم موضوع سے غفلت برتتےہیں اور اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے یہاں تک کہ ایک عرصے تک وہ بچوں کے کام خو انجام دیتے ہیں اور انھیں کوئی ذمہ داری نہیں سونپتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنی اولاد کی خدمت کررہے ہیں جب کہ یہ خدمت نہیں بلکہ بہت بڑی خیانت ہے بچے سے بھی ملک و قوم سے بھی ،کبھی وہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ کام کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے ، کام کرنے بچے کے لیے دشوار ہے _ بڑا ہوگا تو خود ہی کام کے پیچھے چل پڑے گا _ جب کہ ان کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جو کام بچے کی عمر اور طاقت کے مطابق ہو وہ بچے کی طبیعت کے مخالف نہیں ہے جب کہ اس کی جبلّت اور ضرورت کے مطابق ہے_ اگر انسان کو بچپن ہی سے کام کر نے کی عادت نہ پڑے تو بڑا ہوکر کام کرنے میں دیر بھی لگے گی اور اس کے لیے دشوار بھی ہوگا _ اگر صحیح تربیت کی جائے تو کام کرنابچے کے لیے پسندیدہ بھی ہوگا اور لذّت بخش بھی

---------

1_کافی ، ج 5، ص 261_

۲۰۳

ایسے ماں باپ کبھی کہتے ہیں اتنا حوصلہ کس میں ہے کہ انتظار کرے کہ بچہ اپنا کام خود انجام دے _ ہم اس کے لیے زیادہ جلد ہی کام کرکے فارغ ہوسکتے ہیں _ بڑا ہوگا تو خود کام کرتارہے گا _

ان نادان ماںباپ کو اگر واقعاً اپنی اولاد سے محبت ہو تو وہ ایسے بے جا بہانے کر اپنے آپ کو اولاد کی تربیت سے بری الذمہ قرار نہ دیں اور سست کاہل اور بے کار افراد معاشرے میں بطور یادگار نہ چھوڑیں _فرض شناس اور سمجھدار ماں باپ بچے کی عمر ، جسمانی قوت اور اس کے فہم و شعور کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کوئی کا م اسے کے ذمّے لگاتے ہیں نیز اس کام کی انجام دہی میں اس کی مدد کرتے ہیں ، مثلاً تین سالہ بچے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنا جوتا اور جرابیں خو پہنو اور خود اتارو، اپنی نیکر خود پہنو نمک دانی ، چمچہ اور کانٹا لاؤ_ جب بچہ کچھ بڑا ہوجائے تو تدریجاً بڑے کام اس کے ذمّے لگائے جا سکتے ہیں _مثلاً اپنا بستر خود بچھائے اور خود ہی نہ کرے کوڑا کر کٹ کابرتن خالی کرکے لائے، کھانا پکائے ، دستر خوان لگائے اور اٹھائے ، برتن دھوئے ، کمروں میں جھارو دے، مخصوص اوقات میں اپنے چھوٹے بہن بھائیں کی حفاظت کرے باغیچے میں پھلوں اور درختوں کو پانی دے ، پالتو جانوروں کو پانی اور کھانا دے ، روٹی، سبزی، دودھ، دہی، سرف ، صابن ، ٹوتھ، پیسٹ خرید کر لائے، کھیل کا سامان صاف کرے اور سلیقے سے رکھے، ایسے کام بچے آرام سے انجام بھی دے سکتے ہیں اور انہیں اپنے ذمہ بھی نے سکتے ہیں _

جب بچے کچھ اور بڑے ہوجائیں تو کچھ مشکل تر کام ان کے ذمّے لگائے جا سکتے ہیں _

اس سلسلے میں ماں باپ کے لیے چند باتیں ضروری ہیں:

1_ بچے کی عمر اور بدنی قوت کو مدّ نظر رکھتے ، جب بھی وہ دیکھیں کہ بچہ کسی کام کی استعداد رکھتا ہے تو وہ کام اسے کے ذمّے لگادیں _ بالخصوص جب چہ خود کوئی کام کرنے کی خواہش کرے _ خاص طور پر وہ کام جو خود بچے کی ذات سے مربوط ہیں تا کہ

۲۰۴

و ہ بچپن ہی سے کام کرنے کا عادی ہوجائے اور سست اور آرام طلب فرد نہ بن جائے _

2_ بچے کی قوت اور حوصلے کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور مشکل کو اور زیادہ سخت کام اس کے ذمے نہ لگایاجائے _ کیوں کہ ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے وہ کام سے بیزار ہو جائے اور آئندہ کام سے جی چرائے _ اگر کام تھکادینے والا ہو تو ہوسکتا ہے بچہ سرکشی کا مظاہر ہ کرے_

3_ کوشش کریں کہ کام بچے کے سپرد کرتے وقت افہام و تفہیم سے کام لیں _ اسے سمجھائیں کہ گھر کے کام خودبخود انجام نہیں پاتے _ باپ محنت و مشقت کرکے گھر کا خرچ چلاتا ہے ،ماں بھی گھریلو کام انجام دیتی ہے ، تم بھی اسی خاندان کے ایک فرد ہو ، گھر کے کام چلانے کے لیے ہمت کرو اور اپنی طاقت کےمطابق ان کاموں میں کمک کرو_ ایسے مواقع پر حتی المقدور زور اورو جبر سے پرہیز کرنا چاہیے _ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ غلط اور اندھی اطاعت کا عادی ہوجائے _

4_ اگر ممکن ہو تو کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے حق انتخاب بچے کو دیں مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں اگر تو چاہے تو برتن دھولے چاہے تو کمرہ صاف کرلے _

5_کام کی حدود اور مقدار بچوں پہ بالکل واضح کریں تا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس میں شک و شبہ میں نہ پڑیں _

6_ جن بچوں میں صلاحیت ہو ان کے لیے مستقل کام معین کردیں _ اس طرح سے کہ وہ متوجہ رہیں اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہو _ مثلاً کسی ایک بچے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دستر خوان پہ ہمیشہ سلادہونا چاہیے _ سلاد خریدنا تیرے ذمے ہے _ سرف ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ خریدنا بھی تیرے ذمہ ہے _ ہمیشہ توجہ رکھنا کہ گھر صرف ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ سے خالی نہ ہو _

7_ کوشش کریں کہ حتی المقدور بچے کے ذمّے ایسا کام کریں جو اس کی طبیعت اور پسند کے مطابق ہوتا کہ وہ اپنا کام خوشی خوشی انجام دے _ البتہ بعض استثنائی مواقع

۲۰۵

پر اسے طبیعت کے خلاف کام بھی کرنا چاہیے _ اور چاہیے کہ وہ ایسے کام بھی ناک منہ چڑھائے بغیر انجام دے _

حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''گھر میں سب کام کرنے والوں کے لیے ایک کام معین کردو اور ہر کسی کی ذمہ داری اس کے سرڈال دو جب وہ اپنی ذمہ داری سمجھ لیں گے تو پھر یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ کام کسی دوسرے کو کرنا ہے '' (1)

8_ اگر آپ کے گھر میں متعدد بچے ہوں تو تقسیم کار میں عدالت کو محلوظ رکھیں تا کہ لڑائی جھگڑا نہ ہو اور وہ خوشی خوشی اپنا کام انجام دیں _

9_ بچوں کو کام کرنے پر مائل کرنے کے لیے آپ ان کے ساتھ مل جل کر کام کرسکتے ہیں کیونکہ بچوں کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ بڑوں سے ساتھ مل کر کام کریں _

10_ اگر ماں باپ کے درمیان گھر کا نظام چلانے میں ہم آہنگی اور تعاون ہو تو وہ اپنی اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور اس طرح سے وہ بچوں میں ذمہ داری قبول کرنے کا شوق پیدا کرسکتے ہیں _

11_ جب بچے بڑے ہوجائیں اور وہ کوئی ایسا کام کرسکیں جو مادی اعتبار سے مفید ہو تو چھٹیوں کے دنوں میں ان کے لیے کوئی کام اور ممکن ہو تو کوئی پیدا وار کام ان کے لیے مہیا کریں اور اس کی انجام دہی میں انھیں تشویش کریں _ اس طرح سے انہیں کام کرنے کی عادت بھی پڑے گی اور گھر کے خرچ میں وہ مدد کرسکیں گے او راس کے ساتھ ساتھ وہ قوم و ملک کی خدمت بھی کر سکیں گے _ انہیں سمجھائیں کہ کام کرنے میں کوئی عار نہیں بلکہ یہ باعث افتخار و شرف ہے _ البتہ ان پر زیادہ دباؤ بھی نہ ڈالیں _ انہیں تفریح اور کھیل کا بھی موقع دیں یہ درست نہیں کہ ماں باپ کہیں ہم مالی اعتبار سے خوش حال ہیں اور اپنے بچوں سے کام لینے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں _ کیونکہ اس صورت میں

------------

1_ غرر الحکم ، ص 124

۲۰۶

تو وہ آوارہ گرد اور مفت خور بن جائیں گے _

آخر میں ہم ایک بار پھر یاددلادیں کہ کام کرے کے شوق اور محبت کی بنیاد بچپن میں رکھی جانا چاہیے تا کہ یہ بات بچے کی طبیعت میں رچ بس جائے اور وہ اس کا عادی ہوجائے ورنہ بعد میں یہ کام دشوار ہوجائے گا _ فرض شناس ماں باپ کو چاہیے کہ اس اہم فرض سے غفلت نہ کریں _

ایک عورت اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہے _

''میں بہت سست، بے حوصلہ اور ضدی عورت ہوں _ بچے چین او رڈری ڈری رہتی ہوں _ میرے معدے میں ورم ہے _ کچھ کام کرنے کو میرا جی نہیں چاہتا _ کام کرنا تو میرے لیے بہت مشکل ہے _ گھر کانظام سنبھالنے اور کھانا پکانے سے عاجز ہوں _ اسیوجہ سے شوہر اور ساس سے ہمیشہ میری جنگ رہتی ہے _ اور ان سب بدبختیوں کا سبب میر ی ماں ہے _ وہ بہت مہربان، باصبر ، اور باحوصلہ عورت تھیں _ میں ایکم گھریلو لڑکی تھی _ لیکن امّی کوئی کام میرے سپرد نہیں کرتی تھی _ گھر کے سب کام خود انجام دیتی تھی انہوں نے مجھے کام کرنا اور گھر کا نظام چلانا نہ سکھایا _ کوئی ذمہ داری مجھ پر نہ ڈالی کہ مجھے بھی کوئی ذمہ داری نبھانے کی عادت پڑتی _ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں تھک جاؤں اور اپنے تئیں وہ میرے بارے میں اچھا سوچتی تھیں _ لیکن اس بات کی طرف ان کی توجہ نہ تھی کہ مجھے آئندہ زندگی بھی گزارنا ہے اور مجھے بھی ایک گھر کا نظام چلاناہے _

ایک صاحبہ اپنے ایک خط میں لکھتی ہیں:

... ... میں گھر کی سب سے بڑی بیٹی ہوں _ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہوں اور کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کرتی _ بخیل اور حاسد نہیں ہوں _ دوسروں کے لیے مہربان اور ہمدرد ہوں _ دنیا کے زور و زیور کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں _ سب کچھ کرنا جانتی ہوں _ زندگی کے معاملات احسن طریقے سے نبھاتی ہوں _ مجھے کسی قسم کا کوئی غم نہیں ہے _ ایک صاف ستھری ، پر سکون اور آرام دہ زندگی بسر کررہی ہوں _ میں اپنے ماں باپ کی شکرگزار ہوں کیوں کہ یہ انہی کی عاقلانہ

۲۰۷

تربیت کا نتیجہ ہے _

جب میرے ابو گھر میں داخل ہوتے تو مجھے پکارتے جو کچھ لاتے مجھے تھمادیتے _ زیادہ پیسے لاتے تو میرے سپردکردیتے کہ سیف میں رکھ دوں _ اگر ان کا بٹن توٹ گیا ہوتا یا ان کے لباس کو استری یا سلائی کی ضرورت ہوتی تومجھے دے دیتے تا کہ میں یہ کام انجام دوں _ جب میں وہ کام کردیتی تو مجھے شاباش دیتے _ ایک روز میں نے ان کا لباس خوب اچھا طریقے سے سیا وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے : میں تمہارے لیے ایک سلائی مشین لاؤںگا _

چندی ہی روز بعد انہوں نے اپنا وعدہ کو پورا کردیا اور میرے لیے سلائی مشین لے آئے _ اس دن سے سلائی کا کام میرے ذمّے ہوگیا _ میری امّی قیمتی کپڑا مجھے دیتی اور کہتیں : جاؤ اسے سیو، اگر خراب ہوجائے توکوئی حرج نہیں ٹھیک ہوجائے گا _

میری امّی چونکہ مجھے اطمینان دلاتی تھی لہذا مجھ میں خود اعتمادی بڑھ گئی _ میں کوشش کرتی کہ کام اچھے طریقے سے انجام دوں _ مجھے نہیں یادکہ میں نے کبھی کوئی کپڑا خراب کیا ہو _

خلاصہ یہ کہ میں اپنے ماں باپ کی توجہ او ر تشویق کی وجہ سے تمام کام کرنا سیکھ گئی _کام کرنے اور ذمہ داری نبھانے کی عادی ہوگئی میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی اولاد کی بھی اسی طرح تربیت کروں گی _

۲۰۸

راستگوئی

جھوٹ بولنا ایک انتہائی بری صفت ہے اور گناہان کبیرہ میں ہے _ دنیا کی تمام قومیں اور ملتیں ، جھوٹ بولنے کی مذمت کرتی ہیں _ اور جھوٹ بولنے والے کو پست اورگھٹیا قرار دیتی ہیں _ جھوٹ بولنے والے شخص کا دنیا والوں کی نظر میں کوئی عزت واعتبار نہیں ہوتا _ ایک شریف اور اچھا شخص جھوٹ نہیں بولتا _ اسلام نے بھی اس بری صفت کی مذمت کی ہے _ اور اسے گناہ کبیرہ اور حرام قرار دیا ہے _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جھوٹ خرابی ایمان کی بنیاد ہے '' (1)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا جو زیادہ جھوٹ بولتا ہے اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی (2)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

کوی کام جھوٹ سے بڑھ کے گھٹیا نہیں _ (3)

-----------

1_ اصول کافی ، ج 4، ص 36

2_ اصول کافی ، ج 4، ص 33

3_ مستدرک ، ج 2، ص 100

۲۰۹

اللہ کے سب نبیوں اور سب دینی رہنماؤں نے لوگوں کو سچائی کی دعوت دی ہے _ سچ ایک فطری اور طبیعی چیز ہے _ اور انسان کی سرشت کا حصہ ہے سب سچ اور سچّے کو پسند کرتے ہیں _ اور جھوٹے سے نفرت کرتے ہیں _ یہاں تک کہ جھوٹ بولنے والا شخص بھی ایسا ہی ہے _ اگر بچے کو اس کے حال پہ چھوڑدیاجائے تو فطری طور پر اس کی تربیت ایسی ہوگی کہ وہ سچا ہوگا _ یہ تو خارجی عوامل اور اسباب ہیں کہ جو اسے خداداد فطرت سے منحرف کردیتے ہیں اور اسے دروغ گوئی کی طرف لے جاتے ہیں _ جھوٹ بولنا ایک ننھے بچے سے اصلاً میں نہیں کھاتا _ بعد از آن اس سے منحرف ہوجائے اور جھوٹ بولنے کا عادی بن جائے تو بڑے ہوکر یہ عادت ترک کرنا اس کیلئے دشوار ہوگا اور زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ اس سے دستبر دار نہیں ہوگا پھر اس پر نہ کوئی آیت اثر کرے گی نہ روایت اور نہ وعظ ونصیحت _ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچپن ہی سے اس بات کی فکر کریں کہ ان کی اولاد سچی ہو _ جھوٹ کے علل و اسباب کوروکیں _ اور سچائی کو جو ان کی سرشت میں شامل ہے اس کی پرورش کریں _ سچائی کی تربیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور نہ اسے بڑے ہونے پرٹال دینا چاہیے _جو ماں باپ اپنی اولاد کی تربیت کے خواہش مند ہیں اور احساس ذمہ داری رکھتے ہیں توانہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل امور کی طرف توجہ فرمائیں _

1_ بچے کی تربیت پر اثر انداز ہونے وای ایک نہایت اہم چیز خاندان کا ماحول ہے _ خاندان کے ماحول میں بچہ پروان چڑھتاہے _ اور وہ ماں باپ سے اور ساتھ رہنے والوں سے اخلاق سیکھتا ہے اور ان کی پیروی کرتا ہے _ اگرگھر کا ماحول سچائی اور درستی پر بنی ہو ، ماں باپ اور دیگر افراد صداقت اور سچائی سے ایک دوسرے کے ساتھ پیش آنے والے ہوں تو ان کے بچے بھی یہی سیکھیں گے _ اس کے برعکس اگر گھر کا ماحول ہی جھوٹ اور دروغ گوئی پر بنی ہو، ماں باپ ایک دوسرے سے اپنی اولاد سے اور دیگر افراد سے جھوٹ بولتے ہوں _بے گناہ بچے جو ایسے ماحول میں پرورش پائیں گے یہی بری عادت ماں باپ سے سیکھیں گے اور دروغ گو بن جائیںگے _ جن بچوں کے کان جھوٹ سے آشنا ہو گئے ہوں اور جو ہر روز

۲۱۰

ماں باپ سے دروغ گوئی کے مظاہر دیکھتے ہوں ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ سچّے اور صادق پروا ن چڑھیں _ ایسے ماحول میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ جھوٹے اور فریبی شخص کے علاوہ کچھ تریت کرے _ ایسا زہر یلا ماحول ہی ہے کہ جو ایک حساس اور اثرات قبول کرنے والے بچے کی فطرت کو سچائی سے منحرف کردیتا ہے اور دروغ گوئی کا عادی بنادیتا ہے _ بعض نادان ماں باپ نہ صرف یہ کہ خود جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی جھوٹ بولنے کی تلقین کرتے ہیں _ باپ گھر پہ ہے لیکن بچے کو کہتا ہے فلان شخص سے کہو ابو گھر پہ نہیں ہیں _ بچہ جو ٹھیک ٹھاک تھا اور اس نے گھر کا کام نہیں کیا باپ اس سے کہتاہے استاد سے کہنا میں بیمار تھا _ ایسے سینکڑوں جھوٹ ہیں جن کا بعض گھروں میں ہر روز تکرار ہوتا ہے _ ایسے نادان ماں باپ اپنے بچوں سے بہت بڑی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں _ جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن جھوٹ سکھانا اس سے کہیں بڑا گناہ ے _ جھوٹے ماں باپ جھوٹ بولنے کی سزاکی علاوہ بھی بہت بڑی سزاپائیں گے اور وہ ہے جھوٹ بولنے کی تربیت دینا _

ماں باپ کہ جو خاندان کے سرپرست ہوتے ہیں وہ جھوٹ بولیں تو یہ کوئی معمولی گناہ نہیں ہے بلکہ ہمت بڑا گرناہ ہے اس کے ساتھ بہت بڑا گناہ نمسلک ہے اور وہ ہے بچوں کو جھوٹ سکھانا _ ایسے ماں باپ نہ صرف گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور انہیں اس کی سزا ملے گی بلکہ وہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ بھی ایک بہت بڑی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں _ جب کہ یہ بچے ان کے پاس اللہ کی امانت ہیں _ اور یہ خیانت ان کی معاشرے کے ساتھ بھی ہے _ ایسے ماں باپ ہی ہیں جو ایک جھوٹے اور فریب کار معاشرے کو وجود دیتے ہیں _

لہذا جو ماں باپ چاہتے ہیں ان کے بچے سچے ہوں ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ خود راست گوئی اختیار کریں اور اپنی اولاد کے لیے بہترین ماحول فراہم کریں اور ان کے لیے نمونہ عمل بنیں _

رسل لکھتا ہے _'' اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے جھوٹ بولنا نہ سیکھیں تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ بڑے پور ی توجہ سے ہمیشہ بچوں کے سامنے سچائی

۲۱۱

اختیار کریں ''_ (1)

اے کاش رسل کہتا کہ بچوں کے سامنے بھی اور ہر کسی کے سامنے بھی سچائی اختیار کریں _

کیونکہ بچوں کی پاک فطرت ہر جھوٹ سے متاثر ہوتی ہے _ یہاں تک کہ مخفی جھوٹ بھی جلد ان کے سامنے آشکار ہوجاتے ہیں _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''لوگوں کو بغیر زبان کے اچھائی کی طرف دعوت دیں لوگ آپ سے تقوی ، محنت، نماز ، نیکی دیکھیں اور اس طرح اس ان کے لیے ایک نمونہ عمل مہیا ہوجائے '' _ (2)

2_ بچہ فطری طور پر دروغ گو نہیں ہوتا بلکہ اس کی فطرت اولیہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ راستگو ہو _ اس کے جھوٹ بولنے کے لیے کسی سبب کی ضرورت ہے _ اگر ماں باپ جھوٹ بولنے کے علل و اسباب پہچان لیں اور ان کی روک تھام کریں تو بچہ طبعاً راست گو ہوگا _ ایک سبب جو بچے کو جھوٹ بولنے پر ابھارتا ہے وہ ماں باپ کی مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کا خطرہ ہے مثلاً بچے نے کھڑکی کا شیشہ توڑدیا _ ماں باپ سے دڑتا ہے کہیں اسے ماریں نہ _ لہذا جب اس سے پوچھئے کہ شیشہ تم نے توڑا ہے تو جواب دیتا ہے نہیں مجھے بالکل نہیں پتہ یا پھر شیشہ توڑنے کا الزام کسی دوسرے پر لگادیتا ہے _ مثلاً کہتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے کہ حسن نے شیشے کو پتھر مارا ہے واضح ہے کہ اس بچے کے جھوٹ بولنے کی وجہ اس کا ماں باپ سے خوف ہے _ اگر ماں باپ سمجھدار ، ہوش مند اور منصف مزاج ہوں اور بچوں کی تربیت کے لیے انہوں نے صحیح حکمت عملی اپنائی ہو تو ان میں ایسا خوف پیدا نہیں ہوگا کہ جس کی وجہ سے وہ جھوٹ بولین اور پھر تدریجاً جھوٹ بولنے کی انہیں عادت

----------

1_ در تربیت _ ص 148

2_ اصول کافی ، ج2، ص 78

۲۱۲

پڑجائے _ کیونکہ ہوسکتا ہے شیشہ سہواً اور بلا ارادہ ٹوٹ گیا ہو _ اس صورت میں بچہ تنبیہ اور سرزنش کا مستحق نہیں ہے _ یہ تو کئی دفعہ ماں باپ کے ساتھ بھی پیش آیا ہوگا کہ شیشہ ان سے غیر ارادی طور پر ٹوٹ گیا ہو اور اس صورت میں انہوں نے اپنے آپ کو مجرم نہیں سمجھا ہوگا _ پھر بیچارے بچے کو وہ کیوں مجرم سمجھتے ہیں اور اس پہ کیوں غصّہ جھاڑتے ہیں اور اگر شیشہ کم توجہی اور بے احتیاطی کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے توماں باپ کو چاہیے کہ نرمی سے اس کو نصیحت کریں _ اور سمجھائیں اور اسے کہیں کہ وہ اپنے کاموں میں توجہ اور احتیاط سے کام لے تا کہ اس طرح کے واقعات پیش نہ آئیں _

اس صورت میں بھی بچہ مارپیٹ اور ملامت کا مستحق نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خوف زدہ ہوکر جھوٹ کا سہارا لے _ اور اگر اس نے شیشہ عمداً توڑا ہے اور اس کے لیے اسی نے سرکشی اور ڈھٹائی کامظاہرہ کیا ہے پھر بھی مارپیٹ اور سرزنش مسئلے کا حل نہیں ہے _ کیونکہ مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچے کی تربیت نہیں ہوسکتی _ اور نہ اس طرح سے اسے خرابیوں اور ضد بازیوں سے روکا جا سکتا ہے _ اس سلسلے میں ماں باپ کو اس امر کی طرف خیال رکھنا چاہیے کہ بچہ فطری اعتبار سے شر دوست اور بدجنس نہیں ہوتا _ اس کی شرارت اور ضد کا یقیناً کوئی خارجی سبب موجود ہے _ لہذا کوشش اور تحقیق کرنی چاہیے تا کہ شیشے توڑنے کا اصل سبب اور وجہ معلوم کی جائے _ جب سبب دور ہوجائے گا تو پھر اس طرح کے کاموں کی تکرار نہیں ہوگی _ مثلاً ہوسکتا ہے اس کی تحقیر اور توہین کی گئی ہو _ ہوسکتا ہے اس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہو _ ہوسکتا ہے ماں باپ کی سردمہری کا شکار ہو ، ہوسکتا ہے ماں باپ یا کسی اور نے اس پر ظلم کیا ہو _ ہوسکتا ہے اس سے غیر مساویانہ سلوک برتاگیا ہو _ ہوسکتا ہے ایسی ہی کسی وجہ سے بچے کے اندر ضد اور سرکشی پیدا ہوگئی ہو _ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ شیشہ اس نفسیاتی کیفیت یا احساس کمتری کی وجہ سے یا دوسروں کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لیے توڑا ہو یا ایسے ہی کسی سبب سے اس نے کوئی اور غلط کام سرانجام دیا ہو _ اگر ماں باپ اس کے غلط کام کی نفسیاتی وجہ برطرف کردیں تو بچہ بھی غلط کام اور سرکشی چھوڑدے گا تو پھر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جائے گی _ لہذا ایسے موقع پر بھی مارپیٹ اور ڈانٹ

۲۱۳

ڈپٹ کا خوف نہیں ہوگا کہ بچے کو جس کی وجہ سے جھوٹ بولنا پڑے_

3_ اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ کے بچے نے کوئی غلط کا م کیا ہے اور آپ اس کی راہنمائی کرنا چاہیں تو اس سے اعتراف جرم کر انے کے لیے ایک سخت گیر اور بدتمیز پولیس والے کی طرح بازپرس اور سوال نہ کریں ہوسکتا ہے وہ اپنی عزت بچانے کے لیے حقیقت چھپائے اور جھوٹ بولے _ ایسے موقع پر بہتر ہے کہ بغیر سوال و جواب کے اس سے کہیں مثلاً اسی سے کہیں مجھے معلوم ہے کہ جو کتاب تم اپنے دوست سے امانتاً لے کر آئے تھے ابھی تم نے اسے واپس نہیں کی _ یہ اچھا نہیں ہے لوگوں کی امانت مقر ر موقع پر انہیں واپس کرنا چاہیے _ اپنے دوست کی کتاب فوراً اسے لوٹا دو اور اس سے معذرت کرو _

4_ بچہ کو ایسی دھمکی ہرگز نہ دیں کہ جسے انجام دینے کا آپ کا ارادہ نہ ہو _مثلاً اس سے نہ کہیے کہ تو نے فلان کام کیا تو تجھے مارڈالوں گا یا پیٹوں گا _ یا پولیس کے حوالے کردوںگا یا تجھے گھر سے نکال دوں گا _ یا تجھے فلاں کے ہاں دعوت پہ ساتھ نہ لے جاؤں گا کیوں کہ ایسی جھوٹی دھمکیوں سے آپ بچے کہ جھوٹ بولنا سکھائیں گے _ آپ کو چاہیے کہ بچے سے وہی بات کریں جسے آپ انجام دینا چاہتے ہیں اور جس کا انجام دینا درست بھی ہے وہی بات کریں جسے آپ انجام دینا چاہتے ہیں اور جس کا انجام دینا درست بھی ہے

5_ جو ماں باپ اپنی اولاد سے سختی کرتے ہیں اور ان کی طاقت اور صلاحیت سے زیادہ ان سے توقعات رکھتے ہیں ہوسکتاہے وہ اس طرح سے بچوں کو جھوٹ کی طرف دھکیل دیں مثلاً اگر وہ جانتے ہوں کہ ان کا بچہ پڑھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور یہ اس سے توقع رکھتے ہوں کہ مبشر بہترین نمبر لے کر آئے بلکہ کلاس میں فرسٹ آئے ہر روز اس سے پوچھتے رہتے ہوں کہ کتنے نمبر لیے ہیں اور پھر اسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں _ بچہ میں چوں کہ یہ استعداد نہیں ہے وہ جتنی بھی کوشش کرتا ہے ماں باپ کی توقع کے مطابق نمبر نہیں لا پاتا_ بچہ چونکہ چاہتا ہے ماں باپ کی خوشنودی حاصل کرے اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرتا ہے تو وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ کبھی کبھی جھوٹ بولے یا کہے کہ امتحان کے موقع پر میرے سر میں درد ہونے لگا تھا _ میں اچھے طریقے سے امتحان نہیں دے سکا  یا کہتا ہے میرے کلاس فیلونے ایسی باتیں کہیں جس سے میرے حواس کھوگئے ، یا کہتا ہے استاد کو مجھ سے غرضی تھی

۲۱۴

اس لیے اس نے مجھے اچھے نمبر نہیں دیے _ یا کہتا ہے آج میں نے پورے سو نمبر لیآ ہیں _ اگر اس بچے کے ماں باپ اس کی صلاحیت اور طاقت کو سمجھ لیتے اور اس سے بے جا توقعات نہ رکھتے تو اسے دروغ گوئی پر آمادہ نہ کرتے اور اس طرح اسے رفتہ رفتہ جھوٹ بولنے کی عادت نہ پڑتی _

6_ بعض ماں باپ جب اپنے ننھے بچے سے کوئی برا کام دیکھتے ہیں تو اس کو بری الذمہ قراردیتے ہیں اور یہ برا کام دوسروں کے ذمے لگادیتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات حیوانات اور جمادات پر الزام دھرنے لگتے ہیں مثلاً کہتے ہین کہ حسن تو اچھا بچہ ہے اس نے یہ کام نہیں کیا یہ کسی بلی چوہے نے کیا ہے _ ہمسایے کے بچے نے کیا ہے _ یا کسی درخت نے کیا ہے _ گندی بلی نے کیوں یہ کام کیا ہے ؟

یہ نادان ماں باپ اپنے تئیں اچھا کام کررہے ہوتے ہیں کہتے ہیں بہتر ہے بچے کے سامنے برا کام کرنے کی بات کو کھولانہ جائے _ لیکن اس کے اخلاقی نقصانات اور بد آموزیوں سے غافل ہیں _ اسی کام کے دوبڑے نقصانات ہیں _

ایک طرف تو یہ بچے کو غلط بیانی کی تقلین کرنے کے مترادف ہے اور اسے جھوٹ بولنا سکھاتا ہے _ دوسری طرف عملاً اور قولاً اسے یہ بتاتا ہے کہ غلط اور برے کام انجام دے کر انہیں دوسروں کی گردن پر ڈالا جا سکتا ہے _ اور یہ کام جھوٹ بولنے سے بھی زیادہ برا ہے اور اس کا نقصان بھی زیادہ ہے _

اگر اتفاقاً آپ کے بچے جھوٹ بولین تو کوشش کریں کہ اس کی وجہ معلوم کریں اور اس کے علاج کے درپے ہوں _ البتہ اس بات پر زور نہ دیں کہ تحقیق و جستجو سے ان کا جھوٹ بولنا ثابت کیا جائے اور انہیں شرمندہ اور رسوا کیا جائے _ کیونکہ جھوٹ بولنا اگر ثابت ہوجائے تو اس کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ بچے کو شرمندہ اور رسوا کیا جائے اور الٹا وہ اس سے اور بھی بے باک ہوجائے گا _ اور اس کی جرات بڑھ جائے گی _

۲۱۵

وفائے عہد

انسانی زندگی کا نظام عہد و پیمان کے بغیر نہیں چل سکتا _ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ قول و قرار کرتے ہیں یہ عہد و پیمان ہی ہے جس کے ساتھ خاندان تشکیل پاتاہے _ شہروں اور ملکوں کو معاہدے ہی ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہیں _ لوگ اس قول و قرار کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور یہ ان کی اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے ایفائے ہد کا ضروری ہونا ایک فطری چیز ہے اور ہر انسان فطرتاً اس کو سمجھتا ہے اورعہد و پیمان کی خلاف ورزی کو برا اور قبیح سمجھتا ہے _ ہر شخص جو دوسرے سے عہد و پیمان باندھتا ہے توقع کرتاہے کہ وہ اس کی پاسداری کرے گا _ جو گروہ بھی اپنے عہد و معاہدوں کا وفادار ہوگا ان کا اجتماعی نظام اچھے طریقے سے چلے گا _ کیوں کہ ان کو ایک دوسرے پر اعتماد اور حسن ظن ہوگا _ وہ نفسیاتی طور پر آرام اور اطمینان سے رہیں گے _ ان کے درمیان زیادہ لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا _ وہ اعصاب کی کمزوریوں اور نفسیاتی پریشانیوں میں کم مبتلا ہوں گے _ ان کی زندگی سعادت و خوش بختی سے ہمکنار ہوگی _ لوگ جس قدر بھی اپنے عہد کے زیادہ وفادار ہوں گے وہ زیادہ سکون و آرام سے زندگی گزارسکیں گے _ جب کہ اس کے برعکس جن ملک کے لوگ اپنے عہد کے وفادار نہ ہوں اس کا نظم و ضبط درست نہیں ہوگا ایسے لوگ باہمی لڑائی جھگڑے میں مبتلا رہیں گے _ ان کے درمیان نفسیاتی پریشانیاں ، اضطراب اور بے چینی زیادہ ہوگی _ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کریں گے اور بدگمان رہیں گے _ ہر شخص یا ہر وہ معاشرة کو جو اپنے عہد وپیمان کا پابند ہو دوسروں کے نزدیک عزیز، محترم اور قابل اعتماد ہوگا _ جب کہ عہد شکن لوگ دوسروں کے نزدیک ذلیل اور گھیا سمجھے

۲۱۶

جائیں گے _ اسلام کامقدس دین ایک فطری دین ہے اس میں اس حیات آفرین امر پر بہت تاکید کی گئی ہے _ اور ایفائے عہد کو واجب اور ایمان کی نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے _ مثال کے طور پر اللہ تعالی قرآن حکم میں فرماتا ہے :

'' اوفو بالعهد ان العهد کان مسئولا''

اپنے وعدے کو پورا کرو کیوں کہ وعدے کے بارغ میں پوچھا جائے گا _(اسراء ، آیہ 34)

اللہ تعای قرآن حکیم میں ایک دوسری جگہ فرماتا ہے :

والذین هم لاماناتهم و عهدهم راعون

(اورکامیاب مومنین کی ایک نشانی یہ ہے کہ ) وہ امانت ادا کرتے ہیں اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں _ (سورہ مومنون _ آیہ 8)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

'' لا له دین لمن لاعهد''

''جن شخص کا عہد نہیں اس کا دین ہی نہیں ہے '' _ (1)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:جو شخص بھی ا للہ اورروز جزا پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنا وعد ہ و فاکرئے (2) حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں :پیمان شکنی سے خدا بھی ناراض ہو تا ہے اور لوگ بھی (3) حضرت علی علی السلام فرماتے ہیں :

------------

1_ بحار ، ج 75 ، ص 96

2_ کافی ، ح 2 ، ص 364

3_ بحار ، ج 77 ، ص 96

۲۱۷

جس مقام پر اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکتا وہاں وہاں وعدہ ہی نہ کر اور جہاں تو ضمانت پوری نہیں کرسکتا وہاں ضامن نہ بن (1)

اس لئے کہ پورے معاشر ے میں ایفا ئے عہد کا احیاء ہو اور وہ سب لوکوں کی ایک ذمہ دار یکے طور پر جانا جائے تو آپ اس اچھی عادت کو قانون فطرت کی خلاف ورزی سمجھیں تا کہ انہیں ایفا ئے عہد کی عادت پڑے _ اور وعدہ خلافی کو قانون فطرت کی خلاف ورزی سمجھیں _ ایفائے عہد کی تربیت بچپن میں اور گھر کے ماحول سے شروع کی جانا چاہیے _ بچہ ماں باپ کی طرف احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور گفتار و کردار میں ان کی تقلید کرتا ہے _ ماں باپ بچے کے لیے نمونہ عمل ہیں ، بچے کا ذہن بہت حساس ہوتا ہے اور بہت چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تصویر بھی اس کے ذہن میں نقش ہوجاتی ہے _ وہ ماں باپ کے کاموں کو بہت گہر نظر سے دیکھتا ہے اور آئندہ کی نزدگی میں اس سے استفادہ کرتا ہے _ بچہ اپنی طبیعت اور فطرت کے باعث ایفائے عہد کے ضروری ہونے کو سمجھتا ہے جب ماں باپ اس سے وعدہ کرتے ہیٹ تو اسے ان سے توقع ہوتی ہے کہ وہ اپنے وعدہ پر عمل کریں گے _ اگر وہ عمل کریں تو بچہ ایفائے عہد کا عملی درس ان سے حاصل کرتا ہے _ لیکن اگر وہ اپنا وعدہ پورا نہ کریں تو اسے دکھ ہوتا ہے اور ماں باپ کو غلط کام کرنے والا سمجھتا ہے _ جس گھر میں ماں باپ اپنے وعدے پر عمل کریں آپس میں اپنے بچوں سے اور دوسرے لوگوں سے وعدہ خلافی نہ کریں اس گھر کے بچوں میں بھی ایفائے عہد کی عادت ہوگی _ جب کہ اس کے برعکس جس گھر میں ماں باپ اپنے وعدوں ہر روز ماں باپ کی عہد شکنی کو دیکھتے ہیں ان کی نظر میں ایفائے عہد کی کوئی حیثیت نہیں _ اور وعدے کو فقط چکرا اور فریب دینے کا بہانہ سمجھتے ہیں _

اگر ماں باپ خود عہد شکن ہوں اور جھوٹے وعدوں سے بچے کو فریب دیں اور اپنے وعدے پر عمل نہ کریں _ یا اپنے غلط طرز عمل سے معصوم بچوں کو عہد شکنی کا سبق دیں اور

--------

1_ غرر الحکم ص 801

۲۱۸

عملاً انہیں سمجھائیں کہ انسان اپنے مفادات کے لیے جھوٹے وعدے کرسکتا ہے اور پھر انہیں توڑسکتا ہے جو معصوم اور سادہ بچے اپنے ماں باپ سے سینکڑوں جھوٹ اور وعدہ خلافیاں دیکھتے ہیں _ کیا ایسے بچوں سے توقع ہوسکتی ہے کہ وہ باوفا ہوں ماں بچے کو چپ کرانے کے لیے اس سے وعدہ وعید کرتی ہے کہ میں تمہارے لیے مٹھائی لاؤں گی آئس کریم لے کے دوں گی ، ٹافی کھلاؤں گی _ پھل کے کے دوں گی جوتا نیا خریدوں گی نئے کپڑے لاؤں گی، کھلونے خریدوں گی ، تمہیں دعوت پر اور سیر پر لے جاؤں گی یہ وعدے وہ کبھی صرف اس لیے کرتی ہے کہ بچہ کڑدی دوائی پے لے _ اس لیے کہ بچہ ڈاکٹر کے پاس اور انجکشن لگانے والے کے پاس چلاجائے اسے خوشخبریاں دیتی ہے _ اس سے کہتی ہے اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے پیٹوں گی ، ماڑ ڈالوں گی ، پولیس کے حوالے کہ دوں گی _ گھر سے نکال دوں گی _ تہہ خانے میں بند کردوں گی _ تم سے کوئی بات نہیں کروں گی _ پیسے نہیں دوں گی عید پر تمہارے لیے نئے کپڑے نہیں خریدوں گی _ تمہیں دعوت پہ نہیں لے جاؤں گی تمہارے ابو سے شکایت کروں گی اور ایسی سینکڑوں دہمکیاں _ اگر آپ مختلف خاندانوں اور خود اپنی زندگی پر غورں کریں تو دیکھیں گے کہ ہر روز سادہ لوح بچوں سے کتنے وعدے کیے جاتے ہیں کہ جن میں سے اکثر پرعمل نہیں ہوتا _ کیا ماں باپ جانتے ہیں کہ ان وعدہ خلافیوں کی بچوں کی حساس روح پر کتنی بری تاثیر ہوتی ہے اور اس طریقے سے وہ ان کے بارے میں کتنی بڑی خیانت کے مرتکب ہوتے میں _ بچہ ماں باپ سے جو ناپسندیدہ عمل دیکھتا یا سنتا ہے وہ اس سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ اس کے اثرات آخر عمر تک نہیں جاتے _

خاندان ماں باپ کہ جو وعدہ خلافی کرتے ہیں ایک تو وعدہ خلافی کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں دوسرا وہ ان وعدہ خلافیوں سے اور جھوٹ سے بچے کی بھی تربیت کرتے ہیں کہ جس کا گناہ مسلّمہ طور پر عہد شکنی سے بھی بڑا ہے _

اس وجہ سے اسلام ماں باپ سے کہتا ہے کہ آپ جو وعدہ اپنے بچوں سے کریں اسے حتماً ایفا کریں _

۲۱۹

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :

بچوں سے پیار کریں ، ان سے مہربانی سے پیش آئیں اور اگر ان سے کوئی وعدہ کریں تو اسے حتماً پورا کریں _ بچے یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ ان کو روزی دیتے ہیں'' _ (1)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

جب آپ بچوں سے کوئی وعدہ کریں تو اسے حتماً پورا کریں _

----------

1_ وسائل، ج 15 ، ص 201، بحار ج 104 ، 92

2_مستدرک ج 2 ، ص 606_

۲۲۰