آئین تربیت

آئین تربیت10%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125335 / ڈاؤنلوڈ: 7173
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ملکیت

ماں سے محبت انان کی طبیعت کا حصّہ ہے جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے انہیں اپنی ملکیت بنالیتا ہے _ اور اپنے تئیں اس کا مالک سمجھتا ہے _ دوسروں سے بھی وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کی ملیکت کا حترام کریں اور اس کے مزاحم نہ ہوں _ ملکیت کی خواہش انسان کی فطرت ہیں اس طرح سے، موجود ہے کہ اسے کاملاً ختم نہیں کیا جا سکتا _ جدھرسے بھی اس کا مقابلہ کیا جائے وہ کسی اور صورت میں ظاہر ہوجائے گی _ ملکیت اگر چہ ایک امر اعتباری ہے لیکن ایسا امر اعتباری کہ جس نے حقیقت کی صورت اختیار کررکھی ہے اور انسان کی فطرت میں جاگزیں ہوچکا ہے اور اس کے بغیر انسانی کا نظام چلنا ممکن نہیں ہے _ جب سے بچہ اپنے آپ کو بچاننے لگتا ہے اور اپنے احتیاجات کو سمجھنے لگتا ہے تو اس کا اشیاء سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے اور اس کا احساس اس کے وجود میں پیدا ہوجاتا ہے _

بچے کو جو چیز زمین پہ پڑی مل جائے یا کسی کے ہاتھ سے لے لے وہ اسے اپنے آپ سے مختص سمجھتا ہے _ اسے مضبوط سے تھام لیتا ہے اور آسانی سے تیار نہیں ہوتا کہ کسی کودے دے _ وہ اپنے جوتے ، لباس اور کھلونوں کا اپنے آپ کو مالک سمجھتا ہے اور کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ ان میں تصرف کرے اور اگر کوئی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرے تو اسے غاصب اور متجاوز سمجھتا ہے اور اس کے خلاف قیام کرتا ہے اور لڑتا ہے _

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے اپنے کھلونوں سے یہاں تک کہ نایت غیر اہم سی چیزوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے لیے لڑتے

۲۲۱

جھگڑتے ہیں او ریہ ان کا حق ہے کیوں کہ وہ مالک ہیں اور اپنے حق کا دفاع کرتے ہیں _ اگر کوئی اپنے حق کے حصول کے لیے قیام کرے تو اسے شریر اور غلط نہیں سمجھنا چاہیے _ احساس ملکیت کوئی غلط چیز نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لیے فطری ہے _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس فطری احساس کو قبول کرلیں اور اس کی خلاف ورزی نہ کریں _

ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچے ایک دوسرے کی ملکیت میںتجاوز کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسروں کی چیزوں او رکھلونوں میں تصرف کریں یا انہیں غصب کرلیں ماں باپ کو چاہیے کہ ایسے کاموں کی بچوں کو اجات نہ دیں _ کیوں کہ جن میں زیادہ طاقت ہوگی انہیں دوسروں کے حقوق اس طرح غصب کرنے کی عادت پڑجائے گی _ اور چھوٹے مظلوم بن جائیں گے او ران کے دل اس پر ملول ہوں گے _ اگر ماں باپ ایسے امور میں ظالم کی حمایت کریں تو وہ شریک جرم ہوں گے اور جو بچہ مظلوم ہوگاوہ ان کے بارے میں بدگمان ہوجائے گا _ اگر وہ ایسے مسئلے پر چپ رہیں تو اپنے سکوت سے بھی وہ زیادتی کرنے والے کے عمل کی تائید کریں گے اور اسے تشویق کریں گے _ اور اس طرح سے وہ بچوں کو تجاوز پر سکوت اور حق کا دفاع نہ کرنا سکھائیں گے _ اور یہ بھی ایک بہت بڑا جرم ہے _ ماں باپ کو ایسے امور میں دخیل ہونا چاہیے _ زیادتی کرنے والے بچے کی زیادتی کو روکنا چاہیے اور اسے اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ طاقت سے کسی دوسرے بچے کے کھلونے چھین لے _ لیکن یہ کام مارپیت اور گالی گلوچ کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے _ بلکہ شروع میں اچھے انداز سے اور مشفقانہ طریقے سے اسے سمجھائیں کہ یہ چیز تمہاری بہن کی ہے یا تمہارے بھائی کی ہے _ اور تمہیں ان میں تصرف کا حق نہیں پہنچتا _ بعد ازاں پوری قاطعیت سے کہیں کہ ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ تم اپنی بہن یا بھائی کی چیزوں پر زبردستی قبضہ جمالو_ اور اگر یہ طریقہ بھی مؤثر نہ ہو تو کچھ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے روکیں اور جس بچے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہو اس کی حمایت کریں یہ صحیح ہے کہ احساس ملکیت کا احترام کیا جانا چاہیے اور جائز حدود میں اس کی حمایت کی جانا چاہیے لیکن اس بالکل آزاد او رغیر مشروط نہیں چھوڑ دینا چاہیے _ انسان کی نفسانی خواہشات ہمیشہ بڑھتی رہتی ہیں اور کسی معین حد پر جاکر ٹھرتی نہیں _ اگر ان پر کنڑول نہ کیا جائے تو انسان کی تباہی اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہیں _

۲۲۲

اصول ملکیت انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیے _ اور ملیکت کے حصول کے لیے کام اور محنت کو جائز قرار دیا گیا ہے _ اور حبّ مال جائز حدود میں نہ فقط عیب نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے ایک فطری امر شمار ہوتا ہے لیکن اگر بالکل آزادی دے دی جائے تو پھر یہ مال پرستی کی صورت اختیار کرے گی _ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جو مال و دولت پہ مرے جاتے ہیں _ بغیر ضرورت کے شب و روز دیوانہ وار اس کے لیے لگے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض لوگ حصول دولت کے لیے اپنا آرام و راحت عزت و آبرو، ، دین و اکرام اور احترام و شرافت سب کچھ فردا کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو عقل مند انسان نہیں سمجھا جا سکتا _ ماں پرستی بھی ایک طرح کا جنون ہے وہ لوگ کہ جنہیں نہ ضرورت ہوتی ہے نہ خود کھاتے ہیں نہ دوسروں کو دیتے ہیں فقط اور فقط جمع کیے جاتے ہیں اور ڈھیر لگائے جاتے ہیں ایسے لوگوں کو عاقل اور خردمند نہیں سمجھاجاسکتا_

لہذا ماں باپ بچے کے احساس ملکیت کے حترام کے ساتھ ساتھ اس کی زیادہ طلبی کی خواہش کو بھی روکیں _ اس کے کھلونے ضرورت کے مطابق ہونا چاہئیں _ زیادہ نہیں _ بس اتنے کہ ان سے وہ کھیل سکے اور کوئی کام سیکھ سے _ نہ اتنے کے بس جمع کررکھے اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں فخر کرتا رہے _ اگر اس کے پاس اتنے کھلونے ہوں کہ اسے ان کی ضرورت نہ ہو اور انہیں اس نے بس جمع کرکے رکھ چھوڑا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ماں باپ اسے شوق دلائیں کہ وہ دوسرے بچوں کو دے دے جنہیں ان کی ضروت نہیں جب کہ دوسرے بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں او ران کو ضرورت بھی ہے _ مناسب نہیں ہے کہ تم ان کا ذخیرہ کر رکھو اور دوسروں کو نہ دو _ جن کھلونوں کی تمہیں ضرورت نہیں ہے وہ دوسرے ضرورت مند بچوں کو دے دو _ وہ خوش ہوں گے خدا بھی خوش ہوگا او رماں باپ بھی _ بچہ چون کہ صاف ذہن ہوتا ہے اور فطری طور پر خیرخواہ ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ماں باپ کی خوشنودی حاصل کرے وہ ان کی بات سنتا ہے اور یوں اس کے اندر جو دو عطا کی ایک پسندیدہ عادت پیدا ہوجائے گی _ اس صورت میں جب کہ بچے کو کھلونے کی ضرورت نہیں _

۲۲۳

اور دوسرا بھی کوئی بچہ ان کھلونوں سے کھیلنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ ماں باپ بچے کو نرمی اور پیار سے تشویق کریں کہ وہ کچھ دیر کے لیے کھلونے دوسرے بچے کو دے دے تا کہ وہ ان سے کھیل سکے _ اس طرح سے اس میں تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے _ باہمی تعاون کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے ایسے کھلونے بچوں کو خرید کردیے جا سکتے ہیں کہ جن سے مشترکہ طور پر کھیلا جائے _ اور انہیں شوق دلانا چاہیے کہ مل جل کر کھیلیں _ اور مل جل کر فائدہ اٹھائیں _ مختصر یہ کہ ماں باپ کو چاہیے تریت کرتے ہوئے تمام مراحل بچوں کے لیے حد اعتدال کو محلوظ رکھیں احساس ملکیت کے اصول کی حمایت کریں اور خرابیوں کو روکیں ، کوشش کریں کہ اس احساس کو کنٹرول کریں اور صحیح راستے پر ڈالیں _ اور اس امر پر نظررکھیں کہ کہیں وہ مال و دولت کے اندھے عاشق اور زرپرست نہ بن جائیں _

۲۲۴

سخاوت

جو دو سخا ایک اچھی اور پسندیدہ صفت ہے _ ایک سخی انسان مال و دولت جمع کرنے میں محنت کرتا ہے لیکن مال سے دل بستگی نہیں رکھتا _ وہ دولت چاہتا ہے لیکن خرچ کرنے کے لیے دوسروں کو دینے کے لیے _ وہ مال کو ذخیرہ اندوزی کے لیے جمع نہیں کرتا _ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اچھی زندگی گزارتا ہے اور فلاحی کاموںمیں شرکت بھی کرتا ہے _ وہ محروم اور بے نوا لوگوں کی مدد کرتا ہے _ ایسے لوگ اپنے مال سے صحیح استفادہ اٹھاتے ہیں _ کنجوس شخص مال کو جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کے لیے اکٹھاکرتا ہے ، خرچ کرنے کے لیے نہیں اس سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کا خاندان _ نہ ہی دل اسے راہ خیر میںخرچ کرنے کو چاہتا ہے _ ایسا ذخیرہ اندوز شخص ایک ایسا ملازم ہے جو بغیر خواہش کے مال ورثاء کے لیے اکٹھاکرتاہے _

اسلام نے بخل کی مذمت اور سخاوت کی تعریف کی ہے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سخاوت ایمان کا حصّہ ہے اور ایمان بہشت میں لے جاتا ہے _ (۱)

نبی اکرم (ص) فرماتے ہیں:

سخاوت ایک ایسا شجر بہشت ہے کہ جس کی شاخیں زمین تک پہنچی ہوئی ہیں _

--------

۱_ جامع السعادت ، ج ۲ ، ص ۱۱۳

۲۲۵

جس نے بھی ان میں سے کوئی ایک شاخ پکڑلی وہ اسے جنت تک لے جائے گی _ (۱)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:بہشت اہل سخاوت کا گھر ہے _ (۲)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:اللہ جوّاد اور سخی ہے اور وہ سخاوت کو پسند کرتا ہے (۳)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم فرماتے ہیں:

''بخل وہ درخت ہے کہ جو آتش دوزخ میںاگتا ہے _ اور کنجوس لوگ دوزخ میں جائیں گے '' _ (۴)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:''مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بخیل اور بزدل ہو '' _ (۵)

جو د وبخشش دلوں اور محبتوں کوانسان کی طرف جذب کرلیتے ہیں ، لوگ ایک شخی شخص کو پسند کرتے ہیں اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں _ جو د و بخشش سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے اور ان پہ حکومت کی جاسکتی ہے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:سخی شخص اللہ کے بندوں اور بہشت کے نزدیک ہے اور آتش دوزخ سے دور ہے _ اور بخیل انسان خدا سے دور ہے اور انسانوں سے بھی دور ہے ،

----------

۱_ جامع السعادات ، ج ۲، ص ۱۱۳

۲_ جامع السعادات ، ج ۲، ص ۱۱۴

۳_جامع السعادات ، ج ۲، ص ۱۱۳

۴_جامع السعادات ، ج ۲، ص ۱۱۰

۵_جامع السعادات ، ج ۲، ص ص ۱۱۱

۲۲۶

بہشت سے دور ہے ، لیکن آگ سے نزدیک ہے _ (۱)

بخیل شخص اپنے اموال سے واجب حقوق ادا نہیں کرتا اور اس وجہ سے بھی وہ عذاب اخروی کا حقدار ہوگا سخاوت انسان کی دنیا و آخرت کو آباد کرتی ہے اور بخل انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے جو دو سخا کی بنیاد دیگر تمام اچھی صفات کی طرح سے فطری ہے لیکن اسے پروان چھڑھانا بہت حد تک ماں باپ کے اختیار میں ہے _ یہ درست ہے کہ ہر بچہ ایک خاص مزاج رکھتا ہے ، بعض مزاج جود و عطا کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں اور بعض بخل اور کنجوسی کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں _ لیکن بہر حال ماں باپ کی تربیت بلا شک بہت اہم اثرابت مترتب کرتی ہے _ ماں باپ اگر باتدبیر اور داناہوں تو وہ بخل کے اسباب و عوامل کو روک سکتے ہیں اور بچوں کی طبیعت ہیں جودو سخا کی پرورش کر سکتے ہیں _

جو چیز ان میں سے زیادہ اثر رکھتی ہے وہ ماں باپ کا کردار ہے _ ماں باپ بچے کے لیے نمونہ عمل اور سرمشق ہیں _ اگر ماں باپ سخی ہوں خود خرچ کرنے والے ہوں اور نیک کاموں میں شرکت کرنے والے ہوں تو ان کے بچے بھی ماں باپ کا کردار دیکھیں گے اور ان کی تقلید کریں گے _ او ررفتہ رفتہ ان کے ندر بھی اس کی عادت پڑ جائے گی _ اس کے برعکس اگر والدین بخیل اور کنجوس ہوں تو ان کے بچے بھی زیادہ تر انہیں کا نمونہ اپنائیں گے اور کنجوسی کے عادی بن جائیں گے _ اخلاق کو پروان چڑھانے میں عادت بہت کردار ادا کرتی ہے _ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:'' اپنے نفس کو بخشش کا عادی بناؤ اور ہر خلق میں سے بہتر کا انتخاب کرو کیونکہ خوبی عادت کی شکل اختیار کر لیتی ہے _ (۲) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:''سخاوت اچھی عادتوں میں سے ہے '' (۳)

-----------

۱_ مہجة البیضاء ، ج ۳ ، ص ۲۴۸

۲_ بحار، ج ۷۷، ص ۲۱۳

۳_ غرر الحکم ، ص ۱۷

۲۲۷

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''انان کی گنہکار ی کے لیے یہی کافی ہے وہ اپنے خاندا کے لیے کچھ خرچ نہ کرے اور اسے محروم رکھے'' (۱)

ماں باپ بچے میں سخاوت اور بخشش کے جذبے کو فروع دینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقوں سے استفادہ کرسکتے ہیں _

۱_ بچوں سے کہیں کہ جو چیزوں ان کی ہیں ان میںسے کچھ ماں باپ کو یا بہی بھائی کو دے دیں اور جب ایسا کریں تو ان کی تعریف و ستائشے کریں _ اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ آہستہ آہستہ انہیں سخاوت کی عادت پڑجائے _ البتہ اس امر کی طرف توجہ رکھیں کہ ممکن ہے شروع شروع میں یہ عمل بچوں کے لیے مشکل ہو _ لہذا یہ علم کبھی کبھی اور کم مقدار میں ہونا چاہیے _ اور اس میں زبردستی بھی نہ کی جائے کہیں الٹ نتیجہ نہ نکل آئے اور بچے سرکشی نہ کرنے لگیں _

۲_ کبھی کبھی بچوں سے کہیں کہ وہ اجازت دیں کہ ان کے کھلونوں سے دوسروے بچے کھیلیں _ اسی طرح انہیں نصیحت کریں کہ ان کے پاس جو کھانے کی چیزیں ہیں وہ اپنے دوستوں اور ہم جولیوں کو دیں اور اس امر پر ان کو شاباش بھی دیں _

۳_ کبھی کبھی انہیں نصیحت کریں کہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ غریب لوگوں کو دیں _ یا کسی کار خیر میں صرف کریں _ اور اگر یہ کام ایک دائمی شکل اختیار کرے تو اس کا اثر بہتر ہوگا _

۴_ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ اپنے دوستوں کی گھر پہ دعوت کریں اور پھر ان کی خاطر تواضع کریں _

۵_ آپ ہر روز کچھ پیسے بچے کو دے سکتے ہیں کہ وہ کسی غریب کو دے یا کار خیر میں صرف کرے _

----------

۱_ رسائل ، ج ۱۵، ص ۵۲۱

۲۲۸

۶_ غریب لوگوں کی مشکلات اور ان کی زندگی کی دشواریوں کو بچوں سے بیان کریں ممکن ہو تو انہیں اپنے ہمراہ ہسپتال ، یتیم خانوں اور غریب مسکین اور گھروں میں لے جائیں اور ان کی موجودگی میں ضرورت مند وں کی مدد کریں _

اس طریقے سے آپ بچوں کے احساسات کو تحریک کر سکتے ہیں او ران کی طبیعت میں سخاوت کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں تا کہ آہستہ آہستہ وہ قوی ہوجائے اور ایک عادت اور اخلاق کی شکل اختیار کرے البتہ ہم اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ اس طرح کے کام سب بچوں پر سو فیصد کامیاب اثر ڈالیں گے اور سب کے اندر جو د و سخا کا جذبہ پیدا کردیں گے _ آپ کو بھی روشن امید نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہر شخص کی ایک خاص استعداد ہوتی ہے اور خصوصی مزاج ہوتا ہے کہ شاید جسے انہوں نے ماں باپ سے یابزرگوں سے درثے میں پایا ہو _ لیکن یہ دعوی یقینا کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے ماں باپ کی تربیت اور کوشش بے اثر نہیں رہے گی _ اور کچھ نہ کچھ ان پر ضرور اثر کرے گی _ کامل نتیجہ نہ بھی نکلے تو بھی بے نتیجہ تو نہیں رہے گی _

ایک خاتون اپنے ایک خطر میں لکھتی ہے :

... ایک پر فضا مقام پر ہمارا ایک باغ تھا اس میں مختلف قسم کے پھل تھے امی او او رہماری دادی اماں کچھ پھل حاجت مندوں کو بھیجی تھیں _ جو خدمت گزار ہوتے ان پر ان کی خصوصی عنایت ہوتی تھی _ اور یہ کام وہ میرے ذریعے سے انجام دیا کرتی تھی _ چھ ، سات سال کی عمر سے مجھے اس کام کی عادت پڑگئی ، گاؤں میں دو نابینا خاندا ن تھے _ میرا دل ان کی حالت پہ بہت کڑھتا تھا _ ہر روز جب میں ان کے گھر جاتی ان کا ہاتھ پکڑتی ،کمرے سے انہیں صحن میں لے آتی اور پھر صحن سے انہیں کمرے میں لے جاتی اور چشمے سے ان کے برتن بھی کر ان کے کمرے میں رکھ دیتی وہ میرے لیے دعا کرتے جب مین نے یہ بات اپنی امّی ابو کو بتائی وہ بہت خوش ہوئے _ میرے ابو نے یہ شعر پڑھا

شکر خدای کن کہ موفق شدی بہ خیر

زانعام و فضل خود نہ معطل گذاشتت

۲۲۹

میری امی نے کہا جو نابینا ہوجا ئے وہ واقعاً ہی مستحق ہے _

وہ ہمیشہ اچھے کاموں میں مجھے تشویق کرتے _ میں اپنا جیب خرچ جمع کرتی اور فقرا کو دے دیتی آہستہ آہستہ اس کام کی مجھے عادت ہوگئی _ اس وقت میں سماجی خدمت کے ایک ادارے میں :ام کرتی ہوں اور چودہ خاندانوں کی سرپرستی کر رہی ہوں _

میرے طرز علم نے میرے بچے پر بھی اچھا اثر کیا ہے ایک دن کہنے لگا کہ ہر روز مجھے کچھ دیا کریں مں نے کہا کیا کروگے ؟ او رکتنے پیسے کہنے لگا ہر روز دو روپے مین چاہتا ہوں جمع کروں ہر روز میں اسے دو روپے دے دیتی ہوں _ اور کہتی دعاین رکھنا فضول خرچی نہ کرنا _ چند دنوں بعد وہ اپنا گلاّلے آیا اس میں اڑتالیس روپے تھے کہنے لگا امّی مجھے اجازت دیں یہ پیسے میں فلان نابینا کو دے آؤں وہ ہمارے سکول کے راستے میں رہتا ہے _ مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے بے اختیار اس کو چوم لیا _

۲۳۰

نیک کاموں میں تعاون

بعض کا خصوصاً اہم اور بڑے کام اکیلا شخص نہیں کرسکتا _ البتہ دوسروں کے تعاون اور ہمکاری سے اہم اور بڑے بڑے کام انجام دیے جا سکتے ہیں _ اگر انسان اکیلا اور تنہا ہی کام کرنا چاہے تو بہت سے اہم اور نہایت مفید کام کرنے سے محروم رہ جائے گا اور وہ کام پڑے رہ جائیں گے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص تنہا سماجی بھلائی کا کوئی ادارہ بنا سکے مثلاً ہسپتال، شفاخانہ ، سکون ، مسجد ، یتیم خانہ ، لائبریری اور تربیت گاہ و غیرہ _ بلکہ بیشتر اوقات اکیلا شخص کسی ایسے ادارے کا نظام بھی نہیں چلا سکتا _ البتہ دوسروں کے تعاون اور مدد سے ایسے اور زبادہ اہم کام انجام دیے جا سکتے ہیں _ کسی قوم میں امداد باہمی اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ جتنا قوی ہو گا اتنا ہی ان کا اجتماعی امور کانظام بہتر چل سکے گا _

اس اعتبار سے دین اسلام ایک کامل اجتماعی نظام ہے کہ جو لوگوں کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے تعاون کی دعوت دیتاہے _اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے _

''تعانوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ''

''ایک دوسرے سے بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کریں اور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کریں'' (۱)

--------

۱_ سورہ مائدہ ، آیہ ۴

۲۳۱

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''حق کے قیام کے لیے تعاون کرنا امانت اور دیانت ہے '' (۱)

تعاون اور ہمکاری کا جذبہ بچپن سے ہی پیدا ہونا چاہیے _ خوش قسمتی سے انسان فطری طور پر معاشرتی مزاج رکھتا ہے _ لیکن اس سے صحیح طریقے سے استفادہ کرنا چاہیے جو ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کے خواہش مند ہیں وہ مختلف طریقوں سے بچوں کے اندر سے یہاں تک کہ مناسب کھیلوں سے تعاون اور ہمکاری کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں اور ان کی توجہ امور خیر کی طرف جذب کرسکتے ہیں اور اس خداداد فطرت کو پروان چڑھا سکتے ہیں _ مثلاً بچوں کے لیے مناسب کھلونے خرید کر ان کو باہم مل جل کر ایسا ہسپال یا سکول یا پل بنانے کی دعوت دیں بچوں کے لیے وہ ایک مشترک گلّا بنا سکتے ہیں اور ان سے کہہ سکتےہیں کہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ پیسے گلّے میں ڈالیں _ کچھ عرصہ بعد نکالیں اور ماں باپ کی نگرانی میں امور خیر میں صرف کریں _ یہ بھی ہوسکتا ہے وہ پیسوں سے پھل یا مٹھائی خریدیں اور ماں باپ سے مل کر یا تنہا بیماروں کی عیادت کے لیے جائیں _ وہ غریب لوگوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں _ ماں باپ انہیں کچھ پیسے دے سکتے ہیں تا کہ وہ طے شدہ طریقے سے یا کبھی کبھی کسی امور خیر کے ادارے کو دیں یا کسی عمومی کتاب خانے کے لیے کتاب خریدیں ، بچوں کو یہ تجویز بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ خود سے ایک کمیٹی بنائیں اور اس کی میٹینک کریں اور کسی اچھے کام کے لیے کوشش کریں _ اور اس سلسلے میں ان کی مدد کی جا سکتی ہے _

اگر ماں باپ سماجی خدمت کے کسی ادارے میں شرکت کرتے ہوں تو اپنے بچوں کو بھی ان میں شریک کرسکتے ہیں اور کچھ رقم ان کے حوالے کرسکتے ہیں کہ وہ خود سے اس ادارے کو دیں اور اس کے با قاعدہ ممبر بن جائیں _

----------

۱_ غرر الحکم ص ۴۸

۲۳۲

انسان دوستی اور بچّے

سب لوگ اللہ کے بندے ہیں _ سب کا ماں باپ ایک ہے اور در اصل ہر انسان ایک خاندان کا فردہے _ اللہ تعالی نے انہیں پیدا کیا ہے اور انہیں پسند کرتا ہے _ ہر کسی کو روزی دیتاہے ان کی ضروریات کو اللہ نے پیداکیا ہے اور پھر انہیں ان کے اختیار میں دیا ہے _ عقل اور طاقت دی ہے تا کہ اللہ کی نعمات سے استفادہ کریں _ اللہ نے ان کی روح کو کمال تک پہنچانے اور ان کی اخروی سعادت کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے ان کی ہدایت کا سامان بھی فراہم کیا ہے ان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء کو بھیجا ہے _ اماموں اور دنی رہبروں کو مامور کیا ہے تاکہ وہ انسانوں کی سعادت اور انھیں کمال تک پہنچانے کی کوشش کریں _ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور سب کی بھلائی اور سعادت کا آرزومند ہے _ اس نے سب انسانوں سے چاہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد ، مہربان ، خیرخواہ خوں اور ایک دوسرے کے لیے سودمند بنیں _ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کریں _ مشکلوں اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کی فریاد کو پہنچیں _ انسانوں کے خدمتگزار بنیں اور سب کے فائدے کو ملحوظ خاطر رکھیں _ انسان کی خدمت گزار اور خیرخواہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور بلند مرتبے کے حامل ہوتے ہیں _ ان لوگوں کے لیے بہت زیادہ جزا مقرر کی گئی ہے _ دین اسلام کہ جو ایک مقدس اجتماعی نظام ہے اس نے اس بارے میں توجہ دی ہے اور ان امور کو سب کی ذمہ داری قرار دیا ہے _

۲۳۳

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' سب بندے اللہ کا رزق کھاتے ہیں _ پس انسانوں میں سے اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے جو انسانوں کو فائدہ پہنچائے یا کسی خاندان کو خوش کرے '' _ (۱)

امام صادق (ع)نے فرمایا:'' خدا فرماتا ہے کہ لوگ میرارزق کھاتے ہیں اور بندوں میں سے میرے نزدیک محبوب ترین وہ ہے کہ جو میرے بندوں کے لیے زیادہ ہمدرد ہو او ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ کوشش کرے '' _ (۲)

رسول خدا سے پوچھا گیا:کہ لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک محبوب ترین کون ہے، آپ نے فرمایا:وہ کہ جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ رساں ہو _ (۳) پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:دین کے بعدسب سے اہم دانائی لوگوں سے محبت اور نیکی ہے ہر کسی سے اگر چہ وہ اچھا ہو یا برا ہو _ (۴)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: '' من اصبح و لم یهتمّ بامور المسلمین فلیس بمسلم:''

جو مسلمان کے امور کے اصلاح کی فکر میں نہ ہووہ مسلمان نہیں ہے '' (۵)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

------------

۱_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۱۷

۲_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۳۷

۳_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۳۹

۴_ بحار ، ج ۷۴، ص ۳۹۲

۵_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۳۷

۲۳۴

اللہ کے خاص بندے وہ ہیں کہ لوگ اپنی ضروریات کے وقت ان کی پناہ میں آئیں _ یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت میں اللہ کی امان میں ہوں گے _ (۱)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا:''جو شخص کسی مسلمان کی فریا د سنے اور اس کا جواب نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے '' _ (۲)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:''اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ مہربان لوگوں کو دوست رکھتا ہے ''_ (۲)

پیغمبر اکرم اورائمہ اطہار (ع) سے ایسی سینکڑؤں احادیث مروی ہیں کہ جو حدیث کی کتب میں موجود ہیں _

شارع مقدس اسلام نے ایک وسیع نظر سے پورے انسانی معاشرے کو اور بالخصوص اہل ایمان کے معاشرے کو ایک کائی کے طور پر جانا ہے اور اپنے پیروکاروں سے خواہس کی ہے کہ وہ سب کی بھلائی اور سعادت کی کوشش کریں اور سب کےخیرخواہ بنیں _ اسلام سو فیصد ایک معاشرتی دین ہے اور وہ افراد کی بھلائی کو معاشرے کی بھلائی سمجھتا ہے اور وہ ہر طرح کی خود غرضی کے خلاف جہاد کرتا ہے _ ایک مسلمان اور دیندار شخص خود غرض نہیں ہوسکتا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کردے _

انسان دوستی ایک بہت ممتاز انسانی صفت ہے اور یہ انسان کے مزاج میں داخل ہے البتہ تربیت کے ذریعے سے اسے کمال تک پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ختم بھی ہوجائے_ یہ عادت بھی تمام پسندیدہ انسانی صفات کے مانند ہے کہ جس کی بنیاد بچپن ہی میں رکھی جانا چاہیے _ ماں باپ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو انسان دوست مہربان اور خیرخواہ

--------

۱_ بحار ، ج ۷۴، ص ۳۱۸

۲_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۳۹

۳_ بحار، ج ۷۴، ص ۳۹۴

۲۳۵

بنائیں _ اگر ماں باپ خود مہربان اور خیرخواہ ہوں اور خیر خواہی کے آثار ان کی گفتار و کردار میں نظر آئیں تو وہ اپنے بچوں کو بھی مہربان اور انسان دوست بنا سکتے ہیں _

فرض شناس اور آگاہ ماں باپ کبھی کبھی اپنے بچوں کے سامنے ان کی حالت بیان کر سکتے ہیں جو محتاج ہوں ، غریب ہوں ،ناتوان ہوں اور ممکن ہو تو ایسے لوگوں سے انہیں ملوا بھی سکتے ہیں اور بچوں سے کہہ سکتے ہیں یہ سب انسان ہیں اور ہمارے بھائی ہیں _ ان کے حقوق پامان کیے گئے ہیں یہ محروم و بے نوا ہیں _ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا دفاع کریں اور ان کے پامان شدہ حقوق انہیں واپس دلوائیں اور اب وقتی طور پر جو کچھ ہمارے بس میں ہے ان کی مدد کریں _ وہ بچوں کی موجودگی میں بلکہ خود بچوں کے ذریعے سے ایسے افراد کی مدد کریں _ ماں باپ کبھی کبھی ظالموں کے ظلم اور مظلوموں کی غم ناک حالت بچوں سے بیان کریں نیز ایک مسلمان انسان کی اس بارے میں ذمہ داری بھی انہیں بتائیں _ وہ بچوں کو ہسپتال اور شفاخانوں میں بھی لے جا سکتے ہیں اور محتاج بیماروں کو انہیں دکھا سکتے ہیں _ اور اس سلسلے میں اسلام ذمہ داریاں انہیں بیان کرسکتے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق ان کی مدد بھی کرسکتے ہیں ننّعے یتییم بچے کہ جن کے سرپہ کوئی نہ ہو کی حالت بھی وہ بچوں کے سامنے بیان کرستے ہیں اور ممکن ہو تو ان سے ملوا بھی سکتے ہیں _ اور بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ ان کی حمایت اور مدد کس قدر ضروری ہے _

۲۳۶

عدل و مساوات

چند افراد پر مشتمل خاندان ایک چھوٹے سے ملک کی طرح ہے اور ماں باپ اس چوٹے سے ملک کو چلاتے ہیں _ جیسے ایک ملک کا اچھا نظام عدل و مساوات کے بغیر ممکن نہیں ایک گھر کے نظام کے لیے بھی عدل و مساوات ضروری ہے _ صاف دلی اور خلوص ، محبت و الفت ، اعتماد و حسن ظن ، آرام و راحت ، عدل و مساوات کے ماحول میں ہی میسّر آسکتی ہے _ ایسے ہی ماحول میں صحیح بچے پرورش پاسکتے ہیں اور انکی داخلی صلاحیتیں نکھر سکتی ہیں اور وہ ماں باپ سے عملی طور پر عدل و مساوات کا درس لے سکتے ہیں _ جیسے بڑے عدل وانصاف کے احتیاج مند ہیں ایسے ہی بچّے بھی عدل ومساوات کے پیاسے ہیں_

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک پیاسے انسان کے لیے جیسے ٹھنڈا اور اچھا پانی بہت اچھا لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے لیے عدل وانصاف کا ذائق شیرین تر اورعمدہ تر ہوتا ہے _ کاموں کو چلانے کے لے اگر چہ کوئی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو عدل سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے _ (۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

تین طرح کے لوگ قیامت میں خدا کے قریب ترین ہوں گے

--------

۱_ اصول کافی ، ج ۲، ص ۱۴۷

۲۳۷

اوّل _ وہ کو جو غصّے کے عالم میں اپنے ما تحتوں پہ ستم نہ کرے _

دوم _ کہ جو دوافرادمیں صلح کے لے ان کے پاس آئے جائے لیکن حق کی ذرا بھی خلاف ورزی نہ کرے _

سوم حق کہے اگر چہ خود اس کے اپنے نقصان میں ہو '' _ (۱) اللہ تعالی قرآن میں فرماتاہے :

''انّ الله یامر بالعدل و الاحسان''

''اللہ عدل او ر نیکی کا حکم دیتا ہے'' (۲)

عادل اور منصف ماں باپ سب چوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں _ اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے ، بیٹی ہو یا بیٹا _ خوبصورت ہو یا بدشکل ، بڑاہو یا چھوٹا با صلاحیت ہو یا کم استعداد ، جسمانی طور پر سالم ہو یا غیر سالم سب کو اپنی اولاد سمجھتے ہیں اور ان کے درمیان تفاوت کے قائل نہیں ہوتے ، مہر بانی ، اظہار محبّت ، پیار ، احترام ، کھانے پینے لباس ، جیب خرچ ، گھر میں کاموں کی تقسیم اور زندگی کے باقی تمام امور میں بجوں کو برابر سمجھتے ہیں اور سب سے ایک طرح کا سلوک کرتے ہیں _

پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :عدم مو جودگی میں بھی اپنی اولاد میں عدل کو ملحوظ رکھیں _ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری اولادتم سے احسان،محبّت اور عدالت کے ساتھ پسش آئے تو وہ بھی تم سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں ( ۳)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنے ایک بچے سے پیار کر رہاتھا اوردوسرے سے نہیں تو آپ نے اس سے فرمایا :

--------

۱_ بحار ، ج ۷۵ ، ص ۳۳

۲_ سورہ نحل ، آیہ ۹۰

۳_ مکارم الاخلاق ، ج ، ص ۲۵۲

۲۳۸

تم عدل ومساوات کا خیال کیوں نہیں رکھتے ( ۱) ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علمیہ و آلہ وسلم کی خدمت میٹ بیٹھا تھا کہ ا س کا بیٹا و ہاں پر آگیا _ اس شخص نے اپنے بیتے کو چوم کراپنے زانو پر بٹھا لیا _ تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی آئی تو اس شخص نے بچی کو اپنے، سامنے بٹھا لیا _ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :

تم نے اپنی اولادکے در میان عدالت کاو ربرابری کا لحاظ کیوں نہیں رکھّا ( ۲)

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا :عدالت و مساوات کی پا سداری بہترین سیاست ہے ( ۳ )

ایک عورت اپنے دو چھو ٹے بچوں کے ہمراہ زوجہ رسول حضرت عائشےہ کے پاس آئی _ حضرت عائشےہ نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں _ان بچوں کی ماں نے ہر بچے کو ایک ایک کھجورد ے دی پھر تیسری کھجور کے بھی دوحصّے کرکے آدھی آدھی دونوں کو دے دی _ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشےہ نے انہیں واقعہ سنا یا _

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

کیا تجھے اس عورت کے عمل پر حیرت ہوئی ہے ؟ اللہ عدالت و مساوات کا خیال رکھنے کی بناء پر اس عورت کو جنّت میں داخل کرے گا ( ۴)اگر ماں باپ اپنی اولاد کے ساتھ عادلا نہ بر تا ؤ کے بجائے امتیازی طرز عمل کامظاہر ہ کریں اور ایک کو دوسرے پر تر جیح دیں تو ان بچوں پر اخلاقی لحاظ سے نا قابل تلا فی برے اثرات پڑیں گے _ مثلا

۱_ گھر کے ماحول میں بچے عملی طور پر ماں باپ سے نا انصافی کا سبق سیکھیںگے اور

----------

۱_ مکارم الاخلاق ، ج ۱ ، ص ۲۵۲

۲_ مجمع الزوائد ، ج ۸ ، ص ۱۵۶

۳_ عزر الحکم ص ۶۴

۴_ سنن ابن ماجہ ، ج ۲ ، ص ۱۲۱۰

۲۳۹

رفتہ رفتہ اس کے عدی ہو جائیں گے _

۲_ جن بچوں سے ن انصافی کی گئی ہو ماں باپ کے بار ے میں ان کے دل میں کینہ پیداہو جاتا ہے _ ممکن ہے وہ کسی ردّ عمل کا مظاہرہ کریں اور نا فرمانی و سرکشی پر اتر آئیں

چ۳_ غیر عادلانہ سلوک سے بہن بھا ئیوں کے در میان حسد اور دشمنی پیدا ہو جائے گی اور وہ ہمیشہ لڑتے جھگڑ تے رہیں گے ممکن ہے وہ کسی سخت ردّ عمل کا اظہار کریں اور کسی مسئلے پر شرارت اور زیادتی کے مرتکب ہوں

۴_ وہ بچے جن سے نا انصافی کی گئی ہے ، احساس محرومی و مظلومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے _ ممکن ہے یہی بات ان کی پر یشانی ، اظطراب ، بے چینی ، اعصاب کی کمزوری اور متعد د نفسیاتی بیماریؤن کا باعث بن جائے

ان تمام قباحتوں کے ذمہ دار وہ ماں باپ ہیں جنہوں نے عدل و مساوات کے لازمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے فرق رو ارکھا ہو _

البتہ ماں باپ اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلو ک نہیں کرسکتے محتلف عمر میں بچوں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں _مختلف اد وار اور مختلف جنس ہونے کے اعتبار سے بھی ان کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہوتیں_ عدل و مساوات کا قانون بھی ایسے مواقع پر ایک جیسے سلوک کا تقاضا نہیں کرتا _ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بڑے بچّے کو گود میں لیا جائے اور اس سے دودھ پیتے بچے کی طرح پیار کیا جائے؟ اسی طرح کیا ہو سکتا ہے کہ تین سالہ بچے کو اتنا ہی جیب خرچ دیا جائے جتنا اٹھارہ سالہ بچے کو دیا جاتا ہے ؟ کیا بیٹی بھی بیٹے کی طرح آزادی سے آنے جانے اور ملنے جلنے کا حق رکھتی ہے عدالت و مساوات بھی اس بات کا تقاضا نہیں کرتی اور ہم بھی اس بات کا مشورہ نہیں دیتے _بہر حال ماں با پ کو چاہیے کہ وہ پوری طرح سے عقل و تدبیر کے ساتھ ایسے سلوک کا انتخاب کریں کہ جس ان کے بچے نا انصافی کا احساس نہ کریں یہ بات حسد کی بحث میں بیان کی گئی ہے اس حصّے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے _

ایک صاحب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں :

۲۴۰

... بچپن کی یہ یادتو بہت ہی تلخ ہے کہ جسے میں فراموش نہیں کرسکتا _ ابو میرے اور بھائی کے درمیان فرق روار کھتے تھے اس کی پوری خواہشوں پر عمل کرتے اور میری طرف اعتنا نہ کرتے _ اس کا احترام کرتے اور میری توہین کرتے _ اسے مجھ سے زیادہ پیار کرتے اور اس پر نواز شیں کرتے _ نتیجہ یہ ہوا کہ ابو اور بھائی مجھے بہت برے لگنے لگے _ میرا دل چاہتا کہ اس غیر انسانی سلوک پر ابوسے بدلہ لوں لیکن یہ کام میرے بس میں نہ تھا _ پریشانی کے مارے ہر وقت میں تنہا تنہا رہتا _ مہمان خانے میں چلا جاتا _ دیواروں میں کہیں تھوکتا اور انہیں خراب کرکے رہتا _ شیشے توڑدیتا _ اورکیا کرتا؟ کچھ اورکر نہیں سکتا تھا _ لیکن ابو کو اس بات کا خیال بھی نہ تھا اور انہیں ہرگز پتہ نہ تھا کہ میں یہ نقصان ان کو پہنچا رہا ہوں _

ایک خاتون اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں:

... ہمارے قریبی عزیزوں میں سے ایک خاتون کو دو بیٹیاں تھیں _ ایک زیادہ لائق تھی اور دوسری کچھ کم _ دونوں سکول جاتیں _ بڑی بیٹی جو زیادہ لائق تھی اور دوسری کچھ کم _ دونوں سکول جاتیں _ بڑی بیٹی جو زیادہ با صلاحیت نہ تھی کم نمبر لاتی اور چھوٹی زیادہ نمبر لاتی _ ماں جس کے پاس بھی بیٹھتی چھوٹی کی تعریف کرتی رہتی اور بڑی کو برا کھلا کہتی _ چھوٹی کو زیادہ نوازتی ، شاباش کہتی اور بڑی سے کہتی تمہارے سر میں خاک کیا فضول بچی ہو _ پیسے حرام کرتی ہو اور سبق یاد نہیں کرتی ہو _ کھانا کھانے اور لباس بدلنے کا تمہیں کیا فائدہ _ بدبخت ، سست آخر کیا بنوگی ،

وہی بڑی بیٹی اب شادی شدہ ہے _ اس کے چند بچے ہیں _ وہ ایک معمول کی خاتون نہیں ہے _ بیماری لگتی ہے _ احساس کمتری کا شکار ہے چپ چپ او رڈری ڈری رہتی ہے _ کسی دعوت میں ہو تو کونے میں جا بیٹھتی ہے اور بات نہیں کرتی _ جب میں اس سے کہتی ہوں کو تم بھی کچھ کہو _ تو آہ بھرتی ہے _ کہتی ہے کیا کہوں اس کی شادی سے پہلے کی بات ہے کہ میں ایک مرتبہ اسے اعصاب کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی _

۲۴۱

242

ڈاکٹر نے معانہ اور اس سے گفتگو کے بعد کہا یہ صاحبہ مریض نہیں ہے بلکہ اس کے ماں باپ مریض ہیں جنہوں نے اس بے گناہ بیٹی کو ان دنوں تک پہنچایا ہے _

ایک دن ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ کھانا پکالیتی ہو وہ رونے لگی اور اس نے کہا پکالیتی ہوں لیکن جب بھی کھانا پکاتی ہو ں تو امّی ابو پرواہ نہیں کرتے کہتے ہیں ماشاء اللہ اس کی بہن خوب کھانا پکاتی ہے _

۲۴۲

بچّون کا احترام

بچہ بھی ایک انسان ہوتا ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے _ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر جانین اور اس کا احترام کریں _ دوسرے جب اس کا احترام کرتے ہیں تو وہ اسے اپنی بڑائی سمجھتا ہے اور اسے ایک طرح کی قدردانی سمجھتا ہے _ جن ماں باپ کو اپنی اولاد سے محبت سے انہیں چاہیے کہ ہمیشہ ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان کے وجود کو اہمیت دیں _ بچے کی تربیت میں اس کا احترام اہم عوامل میں سے شمار کیا جاتا ہے _ جس بچے کو عزت و احترام میسّر ہو وہ بزرگوار، شریف اور باوقار بنتا ہے _ اور اپنے مقام کی حفاظت کے لیے برے کاموں سے بچتا ہے _ وہ کوشش کرتا ہے کہ اچھے اچھے کام کرکے دوسروں کی نظر میں اپنے مقام کو اور بھی بڑھائے تا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جائے _ جس بچے کا ماں باپ احترام کرتے ہوں وہ اپنے عمل میں ان کی تقلید کرتا ہے اور ماں باپ کا اور دوسرے لوگوں کا احترام کرتا ہے _ بچہ ایک چھوٹا سا انسان ہے اسے اپنی شخصیت سے پوری محبّت ہے _ توہین اور تحقیر سے آزردہ خاطر ہوجاتا ہے _ ماں باپ جس بچے کی توہین و تحقیر کرتے ہوں اس کے دل میں ان کے بارے میں کینہ پیداہوجاتا ہے اور جلد یا بدیر و ہ سرکش اور نافرمان بن جاتا ہے اور ان سے انتقام لیتا ہے _ نادان ماں باپ کہ بدقسمتی سے جن کی تعداد کم نہیں سمجھتے ہیں کہ بچون کا احترام ان کی تربیت کے منافی ہے _ ماں باپ کے شایان شان نہیں ہے _ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بچے کا احترام کیا تو وہ بگڑجائے گا _ اور پھر ہمارا احترام نہیں کرے گا _ وہ بچوں سے بے اعتنائی

۲۴۳

اور ان کی بی احترامی کو ان کی تربیت کا ذریعہ شمار کرتے ہیں اس طرح وہ ان کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کرمتری پیدا کردیتے ہیں _ جب کہ یہ روش تربیت کے حوالے سے بہت بڑا اشتباہ ہے اگر ماں باپ بچے کا احترام کریں تو اس سے نہ صرف یہ کہ ان کا مقام بچے کی نظر میں کم نہ ہوگا بلکہ اس طرح سے اس کے اندر بھی بزرگواری اور وقار کی روح پر وان چڑھے گی _ بچہ اسی بچپن سے سمجھنے لگتا ہے کہ ماں با پ اسے ایک انسان سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت کے قائل ہیں _ اس طرح سے جو کام معاشرے میں اچھے نہیں سمجھتے جاتے وہ ان سے بچتا ہے _ وہ اچھے کام کرتا ہے تا کہ اپنے مقام کو محفوظ رکھے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کا جس طرح سے احترام ہونا چاہیے نہیں کیا جاتا اور انہیں خاندان کا ایک باقاعدہ جزوشمار نہیں کیا جاتا _ یہاں تک کہ دعوتوں میں بچے ماں باپ کے طفلی ہوتے ہیں انہیں باقاعدہ دعوت نہیں دی جاتی _ اور انہیں کسی نچلی جگہ پر یا کمرے کے دروازے کے ساتھ جگہ ملتی ہے اور ان کے لیے باقاعدہ پلیٹ، چمچہ و غیرہ پیش نہیں کیا جاتا _ آتے وقت اور جاتے وقت کوئی ان کا احترام نہیں کرتا _ گاڑی میں ان کے لیے مخصوص نشست نہیں ہوتی _ یا تووہ کھڑے ہوں یا ماں باپ کی گود میں بیٹھے ہوں _ محفل میں انہیں بات کرنے کاحق نہیں ہوتا اگر وہ بات کریں بھی تو کوئی ان کی سنتا نہیں بے احترامی سے بلایا جاتا ہے ، میل ملاقات اور بات چیت میں ان سے مؤدبانہ سلوک نہیں کیا جاتا _ ان کے لیے سلام خوش آمدید ، خداحافظ اور شکریہ نہیں ہوتا_ ان کی خواہش کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا _ گھریلو امو رمیں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا _ گھٹیا اور توہین آمیز کام کرنے کے لیے ان سے کہا جاتا ہے _

دین مقدس اسلام نے بچوں کی طرف پوری توجہ دی ہے اس نے بچوں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اپنی اولاد کی عزّت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تا کہ اللہ تمہیں بخش دے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

۲۴۴

سب سے گھٹیا انسان وہ ہے جو دوسروں کی توہین کرے _ (1)

رسول اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتے _ جب وہ سفر سے واپس آتے تو بچے ان کے استقبال کے لیے دوڑتے _ رسول اللہ ان سے پیار کرتے ، محبت کرتے اور ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ سوار کرلیتے اور اپنے اصحاب سے بھی وہ کہتے کہ دوسروں کو وہ سوار کرلیں _ اور اس حال میں شہر کے اندر لوٹتے _

بچوں سے یہاں تک شیرخوار بچوں کی توہین سے بھی سختی سے پرہیز کرنا چاہیے _ ام الفضل کہتی ہیں _ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسین علیہ السلام کو جب کہ وہ شیرخوار تھے مجھ سے لے لیا _ اور سینہ سے لگایا _ حسین علیہ السلام نے رسول (ع) کے کپڑوں پر پیشاب کردیا میں نے حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) سے زبردستی لے لیا _ اس طرح سے کہ وہ رونے لگے رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا _ ام الفضل آرام سے اس پیشاب کو پانی پاک کردے گا لیکن حسین علیہ السلام کے دل سے ناراضی اور ناراحتی کون دور کرے گا ؟ (3) ایک صاحب لکھتے ہیں :ماں باپ کی نظر میں میری کوئی اہمیت نہ تھی _ نہ صرف وہ میرا احترام نہ کرتے تھے بلکہ اکثر میری توہین اور سرزنش کرتے رہتے کاموں میں مجھے شریک نہ کرتے اور اگر میں کوئی کام انجام دیتا تو اس میں سے کپڑے نکالتے _ دوستوں کے سامنے یہاں تک کہ میرے دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کر دیتے _ مجھے دوسروں کے سامنے بولنے کی اجازت نہ دیتے _ اس وجہ سے ہمیشہ میرے دل میں اپنے بارے میں احساس ذلت و حقارت رہتا _میں اپنے تئیں ایک فضول اور اضافی چیز سمجھتا _ اب جب کہ میں بڑا ہوگیا ہوں

------------

1_ بحار ، ج 104، ص 25

2_ غرر الحکم ، ص 189

3_ ہدیة الاحباب ، ص 176

۲۴۵

اب بھی میری وہی کیفیت باقی ہے _ بڑے کام سامنے آجائیں تو میں اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہوں _ کاموں کی انجام وہی میں فیصلہ نہیں کرپاتا _ میں اپنے تئیں کہتا ہوں میری رائے چونکہ درست نہیں ہے اس لیے دوسروں کو میرے بارے میں اظہار رائے کرنا چاہیے _ اپنے تئیں حقیر و ناچیز سمجھتا ہوں سمجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے یہاں تک کہ دوستوں کی موجودگی میں مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اگر کچھ کہہ بیٹھیوں تو کئی گھنٹے سوچتا رہتا ہوں کہ کیا میری بات درست تھی اور صحیح موقع پر تھی _

۲۴۶

خودشناسی اور بامقصد زندگی

حیوان کی ساری زندگی کھانے ، سونے ، خواہشات نفس کی تکمیل اور اولاد پیداکرنے سے عبارت ہے _ حیوان کی عقل اور آگاہی کامل نہیں ہوتی وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرسکتا _ اس لیے اس پر کوئی فرض اورذمہ داری نہیں ہے اس کے لیے کوئی حساب و کتاب اور ثواب و عذاب نہیں ہے _ اس کی زندگی میں کوئی عاقلانہ پروگرام اور مقصد نہیں ہوتا _ لیکن انسان کہ جو اشرف المخلوقات ہے وہ حیوان کی طرح نہیں ہے _ انسان عقل ، شعور اور آگاہی رکھتا ہے _ اچھے ، برے ، خوبصورت اور بد صورت میں تمیز کر سکتا ہے _ انسان کو ایک دائمی اور جاوید زندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ نابودی اور فنا کے لیے _ اس اعتبار سے اس کے سر پہ ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی _ انسان خلیفة اللہ ہے اور امین الہی ہے _ انسان کی زندگی کا حاصل فقط کھانا ، سونا ، خواہشات کی تکمیل اور نسل بڑھانا ہی نہیں ہوسکتا انسان کو ایسے راستے پر چلنا چاہیے کہ وہ فرشتوں سے بالاتر ہوجائے _ وہ انسان ہے اسے چاہیے کہ اپنی انسانیت کو پروان چڑھائے او راس کی تکمیل کرے انسان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے البتہ ایک بلند ہدف نہ کر پست حیوانی ہدف _ انسان رضائے خدا کے لیے اورمخلوق خدا کی خدمت کے لیے کوشش اور جد و جہد کرتا ہے نہ کہ زود گزر دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے _ انسان متلاشی حق اور پیروحق ہے _

ہاں انسانی وجود ایسا گوہر گران بہا ہے کہ جو حیوانات سے بہت ممتاز ہے یہ امر بہت افسوس نا ک ہے کہ بہت سے انسانون نے اپنی اس انمول انسانی قیمت کو گنوادیا ہے _

۲۴۷

اور اپنی قیمتی زندگی کو ایک حیوان کی طرح سے گزار رہے ہیں اور ان کی نظر میں حیوانوں کی طرح سے کھانے ، پینے ، سونے اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کے علاوہ کوئی ہدف نہیں ہے _ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان سو سال زندہ رہے لیکن اپنی انسانی قیمت کو نہ پہچان سکے اور اپنے بارے میں جاہل ہی مرجائے _ دنیا میں ایک حیوان کی صورت آئے اور ایک حیوان کی صورت چل بسے بے مقصد اور سرگردان رہے اور اس کی ساری جد و جہد کا نتیجہ بدبختی کے علاوہ کچھ نہ نکلے _

انسان کو جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ اور کہاں جانا ہے ؟ اس کے آنے کا مقصد کیا ہے ؟ اور اس کو کس راستے پر چلنا چاہیے _ اور اس کے لیے حقیقی کمال اور سعادت کیا ہے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :بہترین معرفت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان نے اور سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ اپنے آپ کو نہ پہچانے _ (1) امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:جس نے اپنے آپ کو نہ پہچانا وہ راہ نجات سے دور اور جہالت و گمراہی کے راستے پر رہا _ (2) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کے نزدیک انسانوں میں سے ناپسندیدہ ترین شخص وہ ہے کہ جس کا زندگی میں مقصد شکم سیری اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہ ہو _ (3) حضر ت علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:

----------

1_ غررالحکم ، ص 179

2_ غررالحکم ، ص 707

3_ غررالحکم ، ص 205

۲۴۸

''جس نے اخروی سادت کو اپنا مقصد بنالیا وہ بلندترین خوبیوں کو پالے گا '' (1)

ماں باپ کو چاہیے خودشناسی اور بامقصدیت کا درس بچے کو دیں ، وہ تدریجاً اپنی اولاد کی تعمیر کرسکتے ہیں اور انہیں بامقصد اور خودشناس بناسکتے ہیں _ وہ آہستہ آہستہ اپنی اولاد کو انسانیت کا بلند مقصد سمجھا سکتے ہیں اور ان کے سامنے زندگی کا مقصد واضح کرسکتے ہیں _ بچے کو ماں باپ کے ذریعے رفتہ رفتہ سمجھنا چاہیے وہ کون ہے ؟ کیا تھا؟ کہاں سے آیا ہے _

اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے _ آخر کار اسے کہاں جانا ہے _ اس دنیا میں اس کی ذمہ داری اور فریضہ کیا ہے _ اور اسے کس پروگرام اور ہدف کے تحت زندگی گزارنا چاہیے اس کی خواہش نصیبی اور بد نصیبی کس میں ہے _ اگر ماں باپ خودشناس ہوں اور ان کی اپنی زندگی با مقصد ہو اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں تو وہ خودشناس اور بامقصد انسان پروان چڑھا سکتے ہیں _

----------

1_ غرر الحکم ، ص 693

۲۴۹

گھر کی آمدنی اور خرچ

کسی گھر کے انتظامی امور میں سے اہم ترین اس کا معاشی پہلو ہے اور گھر کی آمدن اور خرچ کا حساب ہے اور با سمجھ خاندان آمد و خرچ کے حساب کو پیش نظر رکھتے ہیں _ اور آمدنی کے مطابق خرچ کرتے ہیں _ ہر خاندان کو جاننا چاہیے کہ پیسہ کس راستے پر خرچ کرے سمجھدار خاندان قرض سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں _ اور پریشانیوں میں گرفتار نہیں ہوتے اور زندگی آرام سے اور دردرسر کے بغیر گزارتے ہیں _ ان کے اقتصادی حالات خراب بھی ہوں تو تدریجاً انہیں بہتر بناتے ہیں _ اور زندگی کو فقر و بے سروسامانی سے نکال لیتے ہیں _

اس کے برعکس جس خاندان کا معاشی اعتبار سے ، اور آمدن و خرچ کے اعتبار سے نظام درست نہ ہو اور اس کے افراد بغیر کسی حساب کے خرچ کرتے ہوں تو ایسا خاندان عموماً دوسروں کا مقروض اور مرہون رہتا ہے _ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا خاندان ناچار سودی قرض لیتا ہے_ یا قرض پر مہنگی چیزیں خریدتا ہے _یعنی دوسروں کے لیے زخمت اٹھاتا ہے _ ایسے خاندان کی زندگی زیادہ تر خوش نہیں گزرتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زندگی کی ابتدائی ضروریات سے محروم رہے اور ان کی زندگی کی حالت مناسب نہ ہو، اگر چہ اس کی آمدنی اچھی ہی کیوں نہ ہو لیکن چونکہ ان کے گھر میں کوئی عقل و تدبیر نہیں ہوتی اورایسے گھر کے لوگ ہوس اور بلند پروازی کا شکار ہوتے ہیں لہذا زیادہ تر گرفتار بلاہی رہتے ہیں _ کسی خاندان کی خوش حالی اور آسائشے صرف کمال کرلانے پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے بھی اہم عقل و تدبیر اور کسی منظم معاشی پروگرام کے مطابق اس کو خرچ کرنا ہے _

۲۵۰

امام صدق علیہ السلام فرماتے ہی:

''جب اللہ کسی خاندان کے لیے بھلائی اور سعادت چاہتا ہے تو انہیں زندگی میں تدبیر اور سلیقہ عطا کردیتا ہے '' _ (1)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''تمام کمالات تین چیزوں میں جمع ہیں ان میں سے ایک زندگی میں فہم و تدبیر (سے) اور معاشی امور میں عقل (سے کام لینا)ہے _ (2)

حضرت صادق علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:''فضول خرچی غربت و ناداری کا باعث بنتی ہے اور زندگی میں اعتدال اور میانہ روی بے نیازی اور استغناء کا باعث بنتے ہیں'' _ (3)

حضرت علی علیہ اسلام فرمایا:اعتدال سے آدھی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں _ (4)

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:فضول خرچ کی تین نشانیاں ہیں:

1_ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی وہ کھاتا ہے

2_ جس چیز کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ خرید تاہے اور

3_ جس لباس کی قیمت ادا نہیں کرسکتا اسے پہنتا ہے _ (5)

---------

1_ کافی ، ج 5، ص 88

2_ کافی ، ج 5، ص 87

3_ وسائل ، ج 12 ، ص 41

4_ مستدرک ، ج 2 ، ص 424

5_ وسائل، ج 21، ص 41

۲۵۱

گھر کے مالی امور کو منظم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی پائی جائے اگر میاں یا بیوی گھر کی آمدنی کو مد نظر نہ رکھیں اور بغیر کسی حساب کتاب کے خرچ کریں تو ان کے گھر کاکام نہیں چل سکتا _

دوسرے درجے پربچوں میں بھی باہمی تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے _ گھر کے بچے بھی اگر آمدنی کو پیش نظر نہ رکھیں اور بغیر کسی حساب کتاب کے خرچ کریں تو بھی خاندان مشکلات اور مصائب کا شکار ہوجائے گا _

ماں باپ کو چاہیے کہ مالی امور میں اپنے بچوں کے ساتھ ہم فکری پیدا کریں اور انہیں گھر کی آمدنی اور خرچ سے آگاہ کریں _ بچوں کو تدریجاً یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پیسے آسانی او رایسے ہی ہاتھ نہیں آجاتے بلکہ اس کے لیے محنت صرف ہوتی ہے _ انہیں جاننا چاہیے کہ باپ زحمت اٹھاتا ہے اور ہرروز کام پر جاتا ہے تا کہ پیسے کماکرلائے اور گھر کے اخراجات پورے کرے _ اور اگر ماں بھی کہیں کام یا ملازمت کرتی ہو تو یہ بات بھی بچوں کو سمجھنا چاہیے اور اگر ماں خانہ دار ہو تو بچوں کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ گھر کا نظام آسانی سے نہیں چلتا بلکہ اس کی ماں شب و روز محنت کرتی ہے _

چاہیے کہ بچے آہستہ آہستہ ماں باپ کے کام اور گھر کی آمدنی کی مقدار کو جانیں انہیں یہ سمجھنا چہیے کہ ماں باپ کی آمدنی ہی سے گھر کسے سارے اخراجات پور ے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نہیں اور انہیں سمجھناچاہیے کہ گھر کے تمام اخراجات کو ان پیسوں کے اندر پورا ہونا چاہیے اور سارے اخراجات ایک ہی سطح کے نہیں ہوتے بلکہ بعض اخراجات کو ترجیح دینا پڑتی ہے مثلاً مکان کا خرچ یا مکان کا کرایہ ، پانی اور بجلی کابل، روٹی اور کپڑے کے پیسے ، گھر میں روزمرّہ کی ضروریات کاسامان اور ڈاکٹر کی فیس دیگر ضروریات پر مقدم ہیں _ پہلے مرحلے میں زندگی کی ضروریات پوری کرناچاہئیں باقی چیزیں بعد میں آتی ہیں _ باقی چیزیں بھی ایک سطح کی نہیں ةوتیں بچوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور ماں باپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے _

بچوں کو ابتدائی زندگی ہی سے اس امر کا عادی بنایا جانا چاہیے کہ ان کی خواہشات

۲۵۲

اور توقعات کو گھر کی آمدنی سے ہم آہنگ ہونا چاہیے_ انہیں بے جا خواہشات اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے سے بچنا چاہیے _ انہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو گھر کا ایک باقاعدہ فرد سمجھیں اور گھر کا خرچ چلانے میں اپنے آپ کو شریک سمجھیں _ وہ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم کوئی بلند مرتبہ لوگ ہیں اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے خرچے پورے کریں _ بچوں کو صرف اپنی خواہشات کو پیش نظر رکھ کر گھر کی باقی ضروریات کو نظر انداز نہیں کردینا چاہیے _ بچے کو اوائل عمر ہی سے اپنی خواہشات سے چشم پوشی کرکے گھر کی ضروریات کو ترجیح دینے کی عادت پڑنی چاہیے _

انہیں بچوں نے آئندہ بڑے ہو کر نظام چلانا ہے _ لہذاانہیں ابھی سے فضول خرچ نہیں ہونا چاہیے گھر کی مالی حالت خوب اچھی ہی کیوں نہ ہو پھر بھی ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو اجازت دیں کہ وہ بے حدو حساب خرچ کرتے ہیں _ انہیں چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں کہ سب لوگ ایک خاندان کے فروہیں اور امیر وں کو چاہیے کہ غریبوں کی مدد کریں اور اگر کوئی کم آمدنی والا خاندان ہے اور مشکل سے روزانہ کے اخراجات پورے ہوتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی روزانہ کی آمدن کے مطابق اخراجات کریں البتہ انہیں نہیں چاہیے کہ اپنی مشکلات کی شکایت اپنے بچوں سے کریں بلکہ انہیں صبر و استقامت کا درس دیں اور انہیں آئندہ زندگی کو بہتر کرنے کے لیے آمادہ کریں_ جب بچے میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو اسے کام کرنے پر ابھاریں بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم بھی کام کروگے تو اس سے آمدنی ہوگی اور پھر ہمارے گھر کے حالات بھی بہتر ہوجائیں گے _ بچے کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنی آمدنی کاکچھ حصّہ گھر میں دے دے کیونکہ وہ اسی خاندان کے ساتھ کررہتا ہے بچے میں مفت خوری کی عادت نہیں پیدا ہونی چاہیے _ بچوں کا جیب خرچ بھی گھر کی آمدنی کے مطابق ہونا چاہیے _

۲۵۳

قانون کااحترام

لوگ قانون کے بغیر زندگی نہیں گزارسکتے _ معاشرے کے نظام کو چلانے کے لیے برائیوں کو روکنے کے لیے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اور عوام کے آرام و آسائشے کے لیے قانون ضروری ہے جن ملکوں میں قانون بنانے والے افراد اور عوامل کے اچھے باہمی ربط ہوتے ہیں اور جہاں لوگوں کے لیے قانون بنائے گئے ہیں وہاں لوگ قانون کا احترام بھی کرتے ہیں اور قانون کے احترام سے ہی ملک میں امن و امان اور عوام کی زندگی کے لیے آرام و راحت وجود میں آتا ہے _

لیکن جن ملکوں میں قانون بنانے والے لوگ حکومتوں کے مفادات کے لیے قانون بناتے ہوں اور عوام کے حقیقی مفادات ان کی نظر میں نہیں ہوتے وہاں عوام کی نظر میں قانون کا کوئی احترام بھی نہیں ہوتا اور مل بھی امن او رچین سے محروم رہتا ہے _ بدقسمتی سے پہلے ہمارے ملک کی بھی یہی حالت تھی _ بیشتر قوانین اسلامی اور عوامی نہ تھے بلکہ حکومتوں کی خواہش پر او رمغرب و مشرق کی سامراجی طاقتوں اور ان کے چیلوں کے فائدے میں قانون بنتے تھے _ مزدور ، محنت کس اور محروم افراد کے حقیقی مفادات کی طرف کوئی توجہ نہ تھی _ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ رعب و دبدبہ سے اور مکر و فریب سے عوامل دشمن قوانین ہی کہ عوام پر نافذ کریں_ لیکن ایران کے مسلمان عوام چونکہ ان قوانین ک و اسلامی اور اپنے مفادات کا محافظ نہیں سمجھتے تھے _ لہذا ان کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی _ البتہ ان قوانین میں کچھ عوامی فائدے کے قوانین بھی موجود تھے لیکن چونکہ عوام کا ان پر اعتماد نہیں تھا لہذا ان کا احترام بھی نہیں کرتے تھے _ البتہ جائز

۲۵۴

صحیح اور سودمند قانون کا احترام ضروری ہے اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ یہ بات اپنی اولاد کو سمجھائیں _ جب بچے اپنے ماں باپ کو دیکھتا ہے کہ وہ سڑ ک پار کرتے ہوئے سڑک پار کرنے کی معینہ جگہ (زیبرا کراسنگ) ہی سے سڑک پارکرتے ہیں تو اس میں بھی اس کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر وہ اس کی خلاف ورزی کو اچھا نہیں سمجھتا _

خصوصاً ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں سڑک کو استعمال کرنا ڈرائیوروں کا حق ہے اور زیبرا کراسنگ پیدال چلنے والوں کا حق ہے اور دوسرے کے حق پہ تجاوز درست نہیں ہے _ جب بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ قانون پر عمل در آمد خود اس کے اور معاشرے کے فائدے میں ہے تو پھر تدریجاً ماں باپ کے عمل کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر بھی اس بات کی عادت پڑ جاتی ہے

حضرت علی علیہ السام فرماتے ہیں:

''عادت فطرت ثانیہ ہے '' _ (1)

--------

1_ غرر الحکم ، ص 26

۲۵۵

ادب

ہر ماں باپ کی یہ حتمی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے مہذب ہوں، اچھے اور باادب بچے ہر ماں باپ کی سربلندی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہ ان پر فخر کرتے ہیں _ جو بچے دوسروں سے ملاقات کے موقع پر سلام کرتے ہیں اور جدا ہونے پر خداحافظ کرتے ہیں _ مصافحہ کرتے ہیں _ حال پوچھتے ہیں ،پیار سے انداز سے بات کرتے ہیں، بزرگوں کا احترام کرتے ہیں ، ان کے آنے پر احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں _ صاحبان علم ، باتقوی اور نیک افراد کا احترام کرتے ہیں _ محفل میں مؤدب رہتے ہیں شور نہیں کرتے اور اگر کوئی کچھ دے تو اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں _ کسی کو گالی نہیں دیتے ، دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتے ، دوسروں کی بات نہیں کاٹتے، کھانے کے آداب ملحوظ رکھتے ہیں _ بسم اللہ کہتے ہیں _ چھوتے نوالے لیتے ہیں ، آہستہ آہستہ چباتے ہیں، اپنے سامنے سے کھاتے ہیں ، زیادہ نہیں کھاتے ، کھانا زمین پر نہیں پھینکتے ، اپنے ہاتھوں اور لباس کو خراب نہیں کرتے ، صاف ستھرے اور پاکیزہ رہتے ہیں _ کسی کی توہین نہیں کرتے _ دوسروں کا لحاظ کرتے ہیں اور صحیح طریقے سے بیٹھتے اور اٹھتے ہیں، صحیح انداز سے چلتے ہیں _ اطاعت شعار اور فرمان بردار ہوتے ہیں _ کسی کا تمسخر نہیں اڑاتے _ اور دوسروں کی بات کان لگاکر سنتے ہیں ایسے بچے باادب ہوتے ہیں _

نہ صرف والدین بلکہ سب لوگ با ادب بچوں سے پیار کرتے ہیں اور گستاخ اور بے ادب بچوں سے نفرت_

۲۵۶

امیر المؤمین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ادب انسان کا کما ل ہے'' _ (1)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ادب انسان کے لیے خوبصورت لباس کے مانند ہے '' _ (2)

''لوگوں کو اچھے آداب کی سونے اور چاندی سے زیادہ ضرورت ہے '' _ (3)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''ادب سے بڑھ کے کوئی زینت نہیں '' _ (4) امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''باپ کی بہترین وراثت اپنے بچے کے لیے یہ ہے کہ اسے اچھے آداب کی تربیت دے '' _ (5)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''بے ادب شخص میں برائیاں زیادہ ہوں گی'' _ (6) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''سات سال تک اپنے بچے کو کھیلنے کی اجازت دو اور سات سال سے آدا ب زندگی سکھاؤ'' _ (7)

---------

1_ غرر الحکم ، ص34

2_ غرر الحکم ، ص 21

3_ غرر الحکم ، ص 242

4_ غرر الحکم ، ص 830

5_ غرر الحکم ، ص 393

6_ غرر الحکم ، ص 634

7_ بحار، ج 104، ص 95

۲۵۷

رسول اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:''بچے کے والدین پر تین حق ہیں ،

1_ اس کے لیے اچھا نام منتخب کریں

2_ اسے با ادب بنائیں اور

3_ اس کے لیے اچھا شریک حیات انتخاب کریں '' _ (1)

ہر ماں باپ کی انتہائی آرزو یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولادبا ادب ہو لیکن یہ آرزو خود بخود اور بغیر کوشش کے پوری نہیں ہو سکتی اور نہ ہی زیادہ و عظ و نصیحت سے بچوں کو مؤدب بنایا جا سکتا ہے _ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے بہترین راستہ ان کے لیے اچھا نمونہ عمل مہیا کرنا ہے _ ماں باپ کو خود مؤدب ہونا چاہیے _ تا کہ وہ اپنی اولاد کو عملی سبق دے سکیں _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''بہترین ادب یہ ہے کہ اپنے آپ سے آغاز کرو'' (2) امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''اپنے کردار کو مؤدب بنائیں پھر دوسروں کو وعظ و نصیحت کریں'' _ (3)

بچہ تو نرا مقلّد ہوتا ہے تقلید کی فطرت اس کے اندر بہت اہم اور طاقتور ہوتی ہے _ بچہ ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے گفتار و کردار کی پیروی کرتا ہے _ یہ صحیح ہے کہ تلقین بھی تربیتی عوامل میں سے ایک ہے _ لیکن تقلید انسانی جبلّت میں زیادہ قوی اور طاقت ور ہوتی ہے خصوصاً بچپن میں جن ماں باپ کی خواہش ہے کہ ان کے بچے مؤدب ہوں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے طرز عمل کی اصلاح کریں وہ با ادب ماں باپ بنیں _ انہیں چاہیے کہ

---------

1_ وسائل ، ج 15 ص 123

2_ غرر الحکم ، ص 191

3_ نہج البلاغہ ، ج 3 ، ص 166

۲۵۸

ایک دوسرے سے ، اپنے بچوں سے اور تمام لوگوں سے مؤدبانہ طرز عمل اختیار کریں _ اور آداب زندگی کی پابندی کریں تا کہ بچے ان سے سبق حاصل کریں ان سے درس حیات حاصل کریں _ اگر ماں باپ آپس میں ایک دوسرے سے بااب ہوں ، گھر میں آداب واقدار کو ملحوظ رکھتے ہوں بچوں سے بھی با ادب رہتے ہوں لوگوں سے مؤدبانہ طریقہ سے میل ملاقات کرتے ہوں ایسے گھر کے بچے فطری طور پر مؤدب ہوں گے _ وہ ماں باپ کا طرز عمل دیکھیں گے اور اسے اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں گے اور اس کے لیے ان کو وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہوگی _

جو ماں باپ خود آداب کو محلوظ نہیں رکھتے _ انہیں بچوں سے بھی ادب کی توقع نہیں کرنی چاہیے اگر چہ سینکڑوں مرتبہ انہیں نصیحت کریں _ جو ماں باپ ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور خود اپنے بچوں کے ساتھ غیر مودبانہ سلوک کرتے ہیں وہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ان کے بچے با ادب ہوں _

ایسے گھر کے بچے زیادہ تر ماں باپ کی طرح یا ان سے بھی زیادہ بے ادب ہوں گے اور انہیں اچھی تلقین اور وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا _ بچے بھی سوچتے ہیں کہ اگر ماں باپ کی بات صحیح ہوتی تو وہ خود عمل نہ کرتے لہذا یہ ہمیں دھوکا دے رہے ہیں _

البتہ تلقیں بالکل بے اثر نہیں ہوتی لیکن اس کا پورا اثر اس وقت ہوتا ہے کہ جب بچے اس کا نمونہ عمل دیکھیں _ با ادب ماں باپ بچوں کو اچھے آداب کی نصیحت بھی کر سکتے ہیں _ لیکن اچھے انداز سے _ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، تندی ، بدتمیزی اور بے ادبی سے نہیں _ بعض ماں باپ کی عادت ہوتی ہے کہ جب وہ بچوں کا کوئی خلاف ادب کام دیکھتے ہیں تو دوسروں کی موجودگی میں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں _ مثلاً کہتے ہیں اوبے ادب تو نے سلام کیوں نہیں کیا خداحافظ کیوں نہیں کیا ؟ گونگے ہو احمق اور بے شعو ربچے تو نے دوسروں کے سامنے پاؤں کیوں پھیلائے ؟ کسی کے ہاں آکر شور کیوں مچا رہے ہو حیوان کہیں کے دوسروں کی باتوں میں بولتے کیوں ہوں _یہ نادان ماں باپ اپنے تئیں اس طرح سے اپنے بچوں کی تربیت کررہے

۲۵۹

ہوتے ہیں جب کہ بے ادبی سے ادب نہیں سکھایا جا سکتا_ اگر بچے سے کوئی بے ادبی سرزد ہوجائے تو اسے نصیحت کرنی چاہیے _ لیکن بے ادبی سے نہیں _ نہ دوسروں کے سامنے بلکہ تنہائی میں اور بھلے انداز سے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرماتے تھے ''میں بچوں کو سلام کرتا ہوں کہ سلام کرنا ان کا معمول بن جائے ''

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361