آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121969
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121969 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ملکیت

ماں سے محبت انان کی طبیعت کا حصّہ ہے جن چیزوں کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے انہیں اپنی ملکیت بنالیتا ہے _ اور اپنے تئیں اس کا مالک سمجھتا ہے _ دوسروں سے بھی وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کی ملیکت کا حترام کریں اور اس کے مزاحم نہ ہوں _ ملکیت کی خواہش انسان کی فطرت ہیں اس طرح سے، موجود ہے کہ اسے کاملاً ختم نہیں کیا جا سکتا _ جدھرسے بھی اس کا مقابلہ کیا جائے وہ کسی اور صورت میں ظاہر ہوجائے گی _ ملکیت اگر چہ ایک امر اعتباری ہے لیکن ایسا امر اعتباری کہ جس نے حقیقت کی صورت اختیار کررکھی ہے اور انسان کی فطرت میں جاگزیں ہوچکا ہے اور اس کے بغیر انسانی کا نظام چلنا ممکن نہیں ہے _ جب سے بچہ اپنے آپ کو بچاننے لگتا ہے اور اپنے احتیاجات کو سمجھنے لگتا ہے تو اس کا اشیاء سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے اور اس کا احساس اس کے وجود میں پیدا ہوجاتا ہے _

بچے کو جو چیز زمین پہ پڑی مل جائے یا کسی کے ہاتھ سے لے لے وہ اسے اپنے آپ سے مختص سمجھتا ہے _ اسے مضبوط سے تھام لیتا ہے اور آسانی سے تیار نہیں ہوتا کہ کسی کودے دے _ وہ اپنے جوتے ، لباس اور کھلونوں کا اپنے آپ کو مالک سمجھتا ہے اور کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ ان میں تصرف کرے اور اگر کوئی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرے تو اسے غاصب اور متجاوز سمجھتا ہے اور اس کے خلاف قیام کرتا ہے اور لڑتا ہے _

آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے اپنے کھلونوں سے یہاں تک کہ نایت غیر اہم سی چیزوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے لیے لڑتے

۲۲۱

جھگڑتے ہیں او ریہ ان کا حق ہے کیوں کہ وہ مالک ہیں اور اپنے حق کا دفاع کرتے ہیں _ اگر کوئی اپنے حق کے حصول کے لیے قیام کرے تو اسے شریر اور غلط نہیں سمجھنا چاہیے _ احساس ملکیت کوئی غلط چیز نہیں ہے بلکہ ہر انسان کے لیے فطری ہے _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس فطری احساس کو قبول کرلیں اور اس کی خلاف ورزی نہ کریں _

ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچے ایک دوسرے کی ملکیت میںتجاوز کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسروں کی چیزوں او رکھلونوں میں تصرف کریں یا انہیں غصب کرلیں ماں باپ کو چاہیے کہ ایسے کاموں کی بچوں کو اجات نہ دیں _ کیوں کہ جن میں زیادہ طاقت ہوگی انہیں دوسروں کے حقوق اس طرح غصب کرنے کی عادت پڑجائے گی _ اور چھوٹے مظلوم بن جائیں گے او ران کے دل اس پر ملول ہوں گے _ اگر ماں باپ ایسے امور میں ظالم کی حمایت کریں تو وہ شریک جرم ہوں گے اور جو بچہ مظلوم ہوگاوہ ان کے بارے میں بدگمان ہوجائے گا _ اگر وہ ایسے مسئلے پر چپ رہیں تو اپنے سکوت سے بھی وہ زیادتی کرنے والے کے عمل کی تائید کریں گے اور اسے تشویق کریں گے _ اور اس طرح سے وہ بچوں کو تجاوز پر سکوت اور حق کا دفاع نہ کرنا سکھائیں گے _ اور یہ بھی ایک بہت بڑا جرم ہے _ ماں باپ کو ایسے امور میں دخیل ہونا چاہیے _ زیادتی کرنے والے بچے کی زیادتی کو روکنا چاہیے اور اسے اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ طاقت سے کسی دوسرے بچے کے کھلونے چھین لے _ لیکن یہ کام مارپیت اور گالی گلوچ کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے _ بلکہ شروع میں اچھے انداز سے اور مشفقانہ طریقے سے اسے سمجھائیں کہ یہ چیز تمہاری بہن کی ہے یا تمہارے بھائی کی ہے _ اور تمہیں ان میں تصرف کا حق نہیں پہنچتا _ بعد ازاں پوری قاطعیت سے کہیں کہ ہم اجازت نہیں دے سکتے کہ تم اپنی بہن یا بھائی کی چیزوں پر زبردستی قبضہ جمالو_ اور اگر یہ طریقہ بھی مؤثر نہ ہو تو کچھ سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے روکیں اور جس بچے کے ساتھ زیادتی ہوتی ہو اس کی حمایت کریں یہ صحیح ہے کہ احساس ملکیت کا احترام کیا جانا چاہیے اور جائز حدود میں اس کی حمایت کی جانا چاہیے لیکن اس بالکل آزاد او رغیر مشروط نہیں چھوڑ دینا چاہیے _ انسان کی نفسانی خواہشات ہمیشہ بڑھتی رہتی ہیں اور کسی معین حد پر جاکر ٹھرتی نہیں _ اگر ان پر کنڑول نہ کیا جائے تو انسان کی تباہی اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہیں _

۲۲۲

اصول ملکیت انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہیے _ اور ملیکت کے حصول کے لیے کام اور محنت کو جائز قرار دیا گیا ہے _ اور حبّ مال جائز حدود میں نہ فقط عیب نہیں ہے بلکہ انسان کے لیے ایک فطری امر شمار ہوتا ہے لیکن اگر بالکل آزادی دے دی جائے تو پھر یہ مال پرستی کی صورت اختیار کرے گی _ ایسے بہت سے لوگ ہیں کہ جو مال و دولت پہ مرے جاتے ہیں _ بغیر ضرورت کے شب و روز دیوانہ وار اس کے لیے لگے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض لوگ حصول دولت کے لیے اپنا آرام و راحت عزت و آبرو، ، دین و اکرام اور احترام و شرافت سب کچھ فردا کردیتے ہیں ایسے لوگوں کو عقل مند انسان نہیں سمجھا جا سکتا _ ماں پرستی بھی ایک طرح کا جنون ہے وہ لوگ کہ جنہیں نہ ضرورت ہوتی ہے نہ خود کھاتے ہیں نہ دوسروں کو دیتے ہیں فقط اور فقط جمع کیے جاتے ہیں اور ڈھیر لگائے جاتے ہیں ایسے لوگوں کو عاقل اور خردمند نہیں سمجھاجاسکتا_

لہذا ماں باپ بچے کے احساس ملکیت کے حترام کے ساتھ ساتھ اس کی زیادہ طلبی کی خواہش کو بھی روکیں _ اس کے کھلونے ضرورت کے مطابق ہونا چاہئیں _ زیادہ نہیں _ بس اتنے کہ ان سے وہ کھیل سکے اور کوئی کام سیکھ سے _ نہ اتنے کے بس جمع کررکھے اور دوسرے بچوں کے مقابلے میں فخر کرتا رہے _ اگر اس کے پاس اتنے کھلونے ہوں کہ اسے ان کی ضرورت نہ ہو اور انہیں اس نے بس جمع کرکے رکھ چھوڑا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ماں باپ اسے شوق دلائیں کہ وہ دوسرے بچوں کو دے دے جنہیں ان کی ضروت نہیں جب کہ دوسرے بچوں کے پاس کھلونے نہیں ہیں او ران کو ضرورت بھی ہے _ مناسب نہیں ہے کہ تم ان کا ذخیرہ کر رکھو اور دوسروں کو نہ دو _ جن کھلونوں کی تمہیں ضرورت نہیں ہے وہ دوسرے ضرورت مند بچوں کو دے دو _ وہ خوش ہوں گے خدا بھی خوش ہوگا او رماں باپ بھی _ بچہ چون کہ صاف ذہن ہوتا ہے اور فطری طور پر خیرخواہ ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ماں باپ کی خوشنودی حاصل کرے وہ ان کی بات سنتا ہے اور یوں اس کے اندر جو دو عطا کی ایک پسندیدہ عادت پیدا ہوجائے گی _ اس صورت میں جب کہ بچے کو کھلونے کی ضرورت نہیں _

۲۲۳

اور دوسرا بھی کوئی بچہ ان کھلونوں سے کھیلنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ ماں باپ بچے کو نرمی اور پیار سے تشویق کریں کہ وہ کچھ دیر کے لیے کھلونے دوسرے بچے کو دے دے تا کہ وہ ان سے کھیل سکے _ اس طرح سے اس میں تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے _ باہمی تعاون کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے ایسے کھلونے بچوں کو خرید کردیے جا سکتے ہیں کہ جن سے مشترکہ طور پر کھیلا جائے _ اور انہیں شوق دلانا چاہیے کہ مل جل کر کھیلیں _ اور مل جل کر فائدہ اٹھائیں _ مختصر یہ کہ ماں باپ کو چاہیے تریت کرتے ہوئے تمام مراحل بچوں کے لیے حد اعتدال کو محلوظ رکھیں احساس ملکیت کے اصول کی حمایت کریں اور خرابیوں کو روکیں ، کوشش کریں کہ اس احساس کو کنٹرول کریں اور صحیح راستے پر ڈالیں _ اور اس امر پر نظررکھیں کہ کہیں وہ مال و دولت کے اندھے عاشق اور زرپرست نہ بن جائیں _

۲۲۴

سخاوت

جو دو سخا ایک اچھی اور پسندیدہ صفت ہے _ ایک سخی انسان مال و دولت جمع کرنے میں محنت کرتا ہے لیکن مال سے دل بستگی نہیں رکھتا _ وہ دولت چاہتا ہے لیکن خرچ کرنے کے لیے دوسروں کو دینے کے لیے _ وہ مال کو ذخیرہ اندوزی کے لیے جمع نہیں کرتا _ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اچھی زندگی گزارتا ہے اور فلاحی کاموںمیں شرکت بھی کرتا ہے _ وہ محروم اور بے نوا لوگوں کی مدد کرتا ہے _ ایسے لوگ اپنے مال سے صحیح استفادہ اٹھاتے ہیں _ کنجوس شخص مال کو جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزی کے لیے اکٹھاکرتا ہے ، خرچ کرنے کے لیے نہیں اس سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کا خاندان _ نہ ہی دل اسے راہ خیر میںخرچ کرنے کو چاہتا ہے _ ایسا ذخیرہ اندوز شخص ایک ایسا ملازم ہے جو بغیر خواہش کے مال ورثاء کے لیے اکٹھاکرتاہے _

اسلام نے بخل کی مذمت اور سخاوت کی تعریف کی ہے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سخاوت ایمان کا حصّہ ہے اور ایمان بہشت میں لے جاتا ہے _ (1)

نبی اکرم (ص) فرماتے ہیں:

سخاوت ایک ایسا شجر بہشت ہے کہ جس کی شاخیں زمین تک پہنچی ہوئی ہیں _

--------

1_ جامع السعادت ، ج 2 ، ص 113

۲۲۵

جس نے بھی ان میں سے کوئی ایک شاخ پکڑلی وہ اسے جنت تک لے جائے گی _ (1)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:بہشت اہل سخاوت کا گھر ہے _ (2)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:اللہ جوّاد اور سخی ہے اور وہ سخاوت کو پسند کرتا ہے (3)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم فرماتے ہیں:

''بخل وہ درخت ہے کہ جو آتش دوزخ میںاگتا ہے _ اور کنجوس لوگ دوزخ میں جائیں گے '' _ (4)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:''مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بخیل اور بزدل ہو '' _ (5)

جو د وبخشش دلوں اور محبتوں کوانسان کی طرف جذب کرلیتے ہیں ، لوگ ایک شخی شخص کو پسند کرتے ہیں اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں _ جو د و بخشش سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے اور ان پہ حکومت کی جاسکتی ہے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:سخی شخص اللہ کے بندوں اور بہشت کے نزدیک ہے اور آتش دوزخ سے دور ہے _ اور بخیل انسان خدا سے دور ہے اور انسانوں سے بھی دور ہے ،

----------

1_ جامع السعادات ، ج 2، ص 113

2_ جامع السعادات ، ج 2، ص 114

3_جامع السعادات ، ج 2، ص 113

4_جامع السعادات ، ج 2، ص 110

5_جامع السعادات ، ج 2، ص ص 111

۲۲۶

بہشت سے دور ہے ، لیکن آگ سے نزدیک ہے _ (1)

بخیل شخص اپنے اموال سے واجب حقوق ادا نہیں کرتا اور اس وجہ سے بھی وہ عذاب اخروی کا حقدار ہوگا سخاوت انسان کی دنیا و آخرت کو آباد کرتی ہے اور بخل انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے جو دو سخا کی بنیاد دیگر تمام اچھی صفات کی طرح سے فطری ہے لیکن اسے پروان چھڑھانا بہت حد تک ماں باپ کے اختیار میں ہے _ یہ درست ہے کہ ہر بچہ ایک خاص مزاج رکھتا ہے ، بعض مزاج جود و عطا کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں اور بعض بخل اور کنجوسی کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں _ لیکن بہر حال ماں باپ کی تربیت بلا شک بہت اہم اثرابت مترتب کرتی ہے _ ماں باپ اگر باتدبیر اور داناہوں تو وہ بخل کے اسباب و عوامل کو روک سکتے ہیں اور بچوں کی طبیعت ہیں جودو سخا کی پرورش کر سکتے ہیں _

جو چیز ان میں سے زیادہ اثر رکھتی ہے وہ ماں باپ کا کردار ہے _ ماں باپ بچے کے لیے نمونہ عمل اور سرمشق ہیں _ اگر ماں باپ سخی ہوں خود خرچ کرنے والے ہوں اور نیک کاموں میں شرکت کرنے والے ہوں تو ان کے بچے بھی ماں باپ کا کردار دیکھیں گے اور ان کی تقلید کریں گے _ او ررفتہ رفتہ ان کے ندر بھی اس کی عادت پڑ جائے گی _ اس کے برعکس اگر والدین بخیل اور کنجوس ہوں تو ان کے بچے بھی زیادہ تر انہیں کا نمونہ اپنائیں گے اور کنجوسی کے عادی بن جائیں گے _ اخلاق کو پروان چڑھانے میں عادت بہت کردار ادا کرتی ہے _ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:'' اپنے نفس کو بخشش کا عادی بناؤ اور ہر خلق میں سے بہتر کا انتخاب کرو کیونکہ خوبی عادت کی شکل اختیار کر لیتی ہے _ (2) حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:''سخاوت اچھی عادتوں میں سے ہے '' (3)

-----------

1_ مہجة البیضاء ، ج 3 ، ص 248

2_ بحار، ج 77، ص 213

3_ غرر الحکم ، ص 17

۲۲۷

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''انان کی گنہکار ی کے لیے یہی کافی ہے وہ اپنے خاندا کے لیے کچھ خرچ نہ کرے اور اسے محروم رکھے'' (1)

ماں باپ بچے میں سخاوت اور بخشش کے جذبے کو فروع دینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقوں سے استفادہ کرسکتے ہیں _

1_ بچوں سے کہیں کہ جو چیزوں ان کی ہیں ان میںسے کچھ ماں باپ کو یا بہی بھائی کو دے دیں اور جب ایسا کریں تو ان کی تعریف و ستائشے کریں _ اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ آہستہ آہستہ انہیں سخاوت کی عادت پڑجائے _ البتہ اس امر کی طرف توجہ رکھیں کہ ممکن ہے شروع شروع میں یہ عمل بچوں کے لیے مشکل ہو _ لہذا یہ علم کبھی کبھی اور کم مقدار میں ہونا چاہیے _ اور اس میں زبردستی بھی نہ کی جائے کہیں الٹ نتیجہ نہ نکل آئے اور بچے سرکشی نہ کرنے لگیں _

2_ کبھی کبھی بچوں سے کہیں کہ وہ اجازت دیں کہ ان کے کھلونوں سے دوسروے بچے کھیلیں _ اسی طرح انہیں نصیحت کریں کہ ان کے پاس جو کھانے کی چیزیں ہیں وہ اپنے دوستوں اور ہم جولیوں کو دیں اور اس امر پر ان کو شاباش بھی دیں _

3_ کبھی کبھی انہیں نصیحت کریں کہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ غریب لوگوں کو دیں _ یا کسی کار خیر میں صرف کریں _ اور اگر یہ کام ایک دائمی شکل اختیار کرے تو اس کا اثر بہتر ہوگا _

4_ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ اپنے دوستوں کی گھر پہ دعوت کریں اور پھر ان کی خاطر تواضع کریں _

5_ آپ ہر روز کچھ پیسے بچے کو دے سکتے ہیں کہ وہ کسی غریب کو دے یا کار خیر میں صرف کرے _

----------

1_ رسائل ، ج 15، ص 521

۲۲۸

6_ غریب لوگوں کی مشکلات اور ان کی زندگی کی دشواریوں کو بچوں سے بیان کریں ممکن ہو تو انہیں اپنے ہمراہ ہسپتال ، یتیم خانوں اور غریب مسکین اور گھروں میں لے جائیں اور ان کی موجودگی میں ضرورت مند وں کی مدد کریں _

اس طریقے سے آپ بچوں کے احساسات کو تحریک کر سکتے ہیں او ران کی طبیعت میں سخاوت کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں تا کہ آہستہ آہستہ وہ قوی ہوجائے اور ایک عادت اور اخلاق کی شکل اختیار کرے البتہ ہم اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ اس طرح کے کام سب بچوں پر سو فیصد کامیاب اثر ڈالیں گے اور سب کے اندر جو د و سخا کا جذبہ پیدا کردیں گے _ آپ کو بھی روشن امید نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہر شخص کی ایک خاص استعداد ہوتی ہے اور خصوصی مزاج ہوتا ہے کہ شاید جسے انہوں نے ماں باپ سے یابزرگوں سے درثے میں پایا ہو _ لیکن یہ دعوی یقینا کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے ماں باپ کی تربیت اور کوشش بے اثر نہیں رہے گی _ اور کچھ نہ کچھ ان پر ضرور اثر کرے گی _ کامل نتیجہ نہ بھی نکلے تو بھی بے نتیجہ تو نہیں رہے گی _

ایک خاتون اپنے ایک خطر میں لکھتی ہے :

... ایک پر فضا مقام پر ہمارا ایک باغ تھا اس میں مختلف قسم کے پھل تھے امی او او رہماری دادی اماں کچھ پھل حاجت مندوں کو بھیجی تھیں _ جو خدمت گزار ہوتے ان پر ان کی خصوصی عنایت ہوتی تھی _ اور یہ کام وہ میرے ذریعے سے انجام دیا کرتی تھی _ چھ ، سات سال کی عمر سے مجھے اس کام کی عادت پڑگئی ، گاؤں میں دو نابینا خاندا ن تھے _ میرا دل ان کی حالت پہ بہت کڑھتا تھا _ ہر روز جب میں ان کے گھر جاتی ان کا ہاتھ پکڑتی ،کمرے سے انہیں صحن میں لے آتی اور پھر صحن سے انہیں کمرے میں لے جاتی اور چشمے سے ان کے برتن بھی کر ان کے کمرے میں رکھ دیتی وہ میرے لیے دعا کرتے جب مین نے یہ بات اپنی امّی ابو کو بتائی وہ بہت خوش ہوئے _ میرے ابو نے یہ شعر پڑھا

شکر خدای کن کہ موفق شدی بہ خیر

زانعام و فضل خود نہ معطل گذاشتت

۲۲۹

میری امی نے کہا جو نابینا ہوجا ئے وہ واقعاً ہی مستحق ہے _

وہ ہمیشہ اچھے کاموں میں مجھے تشویق کرتے _ میں اپنا جیب خرچ جمع کرتی اور فقرا کو دے دیتی آہستہ آہستہ اس کام کی مجھے عادت ہوگئی _ اس وقت میں سماجی خدمت کے ایک ادارے میں :ام کرتی ہوں اور چودہ خاندانوں کی سرپرستی کر رہی ہوں _

میرے طرز علم نے میرے بچے پر بھی اچھا اثر کیا ہے ایک دن کہنے لگا کہ ہر روز مجھے کچھ دیا کریں مں نے کہا کیا کروگے ؟ او رکتنے پیسے کہنے لگا ہر روز دو روپے مین چاہتا ہوں جمع کروں ہر روز میں اسے دو روپے دے دیتی ہوں _ اور کہتی دعاین رکھنا فضول خرچی نہ کرنا _ چند دنوں بعد وہ اپنا گلاّلے آیا اس میں اڑتالیس روپے تھے کہنے لگا امّی مجھے اجازت دیں یہ پیسے میں فلان نابینا کو دے آؤں وہ ہمارے سکول کے راستے میں رہتا ہے _ مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میں نے بے اختیار اس کو چوم لیا _

۲۳۰

نیک کاموں میں تعاون

بعض کا خصوصاً اہم اور بڑے کام اکیلا شخص نہیں کرسکتا _ البتہ دوسروں کے تعاون اور ہمکاری سے اہم اور بڑے بڑے کام انجام دیے جا سکتے ہیں _ اگر انسان اکیلا اور تنہا ہی کام کرنا چاہے تو بہت سے اہم اور نہایت مفید کام کرنے سے محروم رہ جائے گا اور وہ کام پڑے رہ جائیں گے ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص تنہا سماجی بھلائی کا کوئی ادارہ بنا سکے مثلاً ہسپتال، شفاخانہ ، سکون ، مسجد ، یتیم خانہ ، لائبریری اور تربیت گاہ و غیرہ _ بلکہ بیشتر اوقات اکیلا شخص کسی ایسے ادارے کا نظام بھی نہیں چلا سکتا _ البتہ دوسروں کے تعاون اور مدد سے ایسے اور زبادہ اہم کام انجام دیے جا سکتے ہیں _ کسی قوم میں امداد باہمی اور مل جل کر کام کرنے کا جذبہ جتنا قوی ہو گا اتنا ہی ان کا اجتماعی امور کانظام بہتر چل سکے گا _

اس اعتبار سے دین اسلام ایک کامل اجتماعی نظام ہے کہ جو لوگوں کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے تعاون کی دعوت دیتاہے _اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے _

''تعانوا علی البر و التقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ''

''ایک دوسرے سے بھلائی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کریں اور گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کریں'' (1)

--------

1_ سورہ مائدہ ، آیہ 4

۲۳۱

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

''حق کے قیام کے لیے تعاون کرنا امانت اور دیانت ہے '' (1)

تعاون اور ہمکاری کا جذبہ بچپن سے ہی پیدا ہونا چاہیے _ خوش قسمتی سے انسان فطری طور پر معاشرتی مزاج رکھتا ہے _ لیکن اس سے صحیح طریقے سے استفادہ کرنا چاہیے جو ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت کے خواہش مند ہیں وہ مختلف طریقوں سے بچوں کے اندر سے یہاں تک کہ مناسب کھیلوں سے تعاون اور ہمکاری کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں اور ان کی توجہ امور خیر کی طرف جذب کرسکتے ہیں اور اس خداداد فطرت کو پروان چڑھا سکتے ہیں _ مثلاً بچوں کے لیے مناسب کھلونے خرید کر ان کو باہم مل جل کر ایسا ہسپال یا سکول یا پل بنانے کی دعوت دیں بچوں کے لیے وہ ایک مشترک گلّا بنا سکتے ہیں اور ان سے کہہ سکتےہیں کہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ پیسے گلّے میں ڈالیں _ کچھ عرصہ بعد نکالیں اور ماں باپ کی نگرانی میں امور خیر میں صرف کریں _ یہ بھی ہوسکتا ہے وہ پیسوں سے پھل یا مٹھائی خریدیں اور ماں باپ سے مل کر یا تنہا بیماروں کی عیادت کے لیے جائیں _ وہ غریب لوگوں کی مدد بھی کر سکتے ہیں _ ماں باپ انہیں کچھ پیسے دے سکتے ہیں تا کہ وہ طے شدہ طریقے سے یا کبھی کبھی کسی امور خیر کے ادارے کو دیں یا کسی عمومی کتاب خانے کے لیے کتاب خریدیں ، بچوں کو یہ تجویز بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ خود سے ایک کمیٹی بنائیں اور اس کی میٹینک کریں اور کسی اچھے کام کے لیے کوشش کریں _ اور اس سلسلے میں ان کی مدد کی جا سکتی ہے _

اگر ماں باپ سماجی خدمت کے کسی ادارے میں شرکت کرتے ہوں تو اپنے بچوں کو بھی ان میں شریک کرسکتے ہیں اور کچھ رقم ان کے حوالے کرسکتے ہیں کہ وہ خود سے اس ادارے کو دیں اور اس کے با قاعدہ ممبر بن جائیں _

----------

1_ غرر الحکم ص 48

۲۳۲

انسان دوستی اور بچّے

سب لوگ اللہ کے بندے ہیں _ سب کا ماں باپ ایک ہے اور در اصل ہر انسان ایک خاندان کا فردہے _ اللہ تعالی نے انہیں پیدا کیا ہے اور انہیں پسند کرتا ہے _ ہر کسی کو روزی دیتاہے ان کی ضروریات کو اللہ نے پیداکیا ہے اور پھر انہیں ان کے اختیار میں دیا ہے _ عقل اور طاقت دی ہے تا کہ اللہ کی نعمات سے استفادہ کریں _ اللہ نے ان کی روح کو کمال تک پہنچانے اور ان کی اخروی سعادت کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے ان کی ہدایت کا سامان بھی فراہم کیا ہے ان کی ہدایت و راہنمائی کے لیے انبیاء کو بھیجا ہے _ اماموں اور دنی رہبروں کو مامور کیا ہے تاکہ وہ انسانوں کی سعادت اور انھیں کمال تک پہنچانے کی کوشش کریں _ یہ سب اس لیے ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور سب کی بھلائی اور سعادت کا آرزومند ہے _ اس نے سب انسانوں سے چاہا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد ، مہربان ، خیرخواہ خوں اور ایک دوسرے کے لیے سودمند بنیں _ ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کریں _ مشکلوں اور مصیبتوں میں ایک دوسرے کی فریاد کو پہنچیں _ انسانوں کے خدمتگزار بنیں اور سب کے فائدے کو ملحوظ خاطر رکھیں _ انسان کی خدمت گزار اور خیرخواہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور بلند مرتبے کے حامل ہوتے ہیں _ ان لوگوں کے لیے بہت زیادہ جزا مقرر کی گئی ہے _ دین اسلام کہ جو ایک مقدس اجتماعی نظام ہے اس نے اس بارے میں توجہ دی ہے اور ان امور کو سب کی ذمہ داری قرار دیا ہے _

۲۳۳

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

'' سب بندے اللہ کا رزق کھاتے ہیں _ پس انسانوں میں سے اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے جو انسانوں کو فائدہ پہنچائے یا کسی خاندان کو خوش کرے '' _ (1)

امام صادق (ع)نے فرمایا:'' خدا فرماتا ہے کہ لوگ میرارزق کھاتے ہیں اور بندوں میں سے میرے نزدیک محبوب ترین وہ ہے کہ جو میرے بندوں کے لیے زیادہ ہمدرد ہو او ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زیادہ کوشش کرے '' _ (2)

رسول خدا سے پوچھا گیا:کہ لوگوں میں سے اللہ کے نزدیک محبوب ترین کون ہے، آپ نے فرمایا:وہ کہ جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ رساں ہو _ (3) پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:دین کے بعدسب سے اہم دانائی لوگوں سے محبت اور نیکی ہے ہر کسی سے اگر چہ وہ اچھا ہو یا برا ہو _ (4)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: '' من اصبح و لم یهتمّ بامور المسلمین فلیس بمسلم:''

جو مسلمان کے امور کے اصلاح کی فکر میں نہ ہووہ مسلمان نہیں ہے '' (5)

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

------------

1_ بحار، ج 74، ص 317

2_ بحار، ج 74، ص 337

3_ بحار، ج 74، ص 339

4_ بحار ، ج 74، ص 392

5_ بحار، ج 74، ص 337

۲۳۴

اللہ کے خاص بندے وہ ہیں کہ لوگ اپنی ضروریات کے وقت ان کی پناہ میں آئیں _ یہی وہ لوگ ہیں جو قیامت میں اللہ کی امان میں ہوں گے _ (1)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا:''جو شخص کسی مسلمان کی فریا د سنے اور اس کا جواب نہ دے وہ مسلمان نہیں ہے '' _ (2)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:''اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور وہ مہربان لوگوں کو دوست رکھتا ہے ''_ (2)

پیغمبر اکرم اورائمہ اطہار (ع) سے ایسی سینکڑؤں احادیث مروی ہیں کہ جو حدیث کی کتب میں موجود ہیں _

شارع مقدس اسلام نے ایک وسیع نظر سے پورے انسانی معاشرے کو اور بالخصوص اہل ایمان کے معاشرے کو ایک کائی کے طور پر جانا ہے اور اپنے پیروکاروں سے خواہس کی ہے کہ وہ سب کی بھلائی اور سعادت کی کوشش کریں اور سب کےخیرخواہ بنیں _ اسلام سو فیصد ایک معاشرتی دین ہے اور وہ افراد کی بھلائی کو معاشرے کی بھلائی سمجھتا ہے اور وہ ہر طرح کی خود غرضی کے خلاف جہاد کرتا ہے _ ایک مسلمان اور دیندار شخص خود غرض نہیں ہوسکتا اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دوسروں کے مفادات کو نظر انداز کردے _

انسان دوستی ایک بہت ممتاز انسانی صفت ہے اور یہ انسان کے مزاج میں داخل ہے البتہ تربیت کے ذریعے سے اسے کمال تک پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ختم بھی ہوجائے_ یہ عادت بھی تمام پسندیدہ انسانی صفات کے مانند ہے کہ جس کی بنیاد بچپن ہی میں رکھی جانا چاہیے _ ماں باپ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو انسان دوست مہربان اور خیرخواہ

--------

1_ بحار ، ج 74، ص 318

2_ بحار، ج 74، ص 339

3_ بحار، ج 74، ص 394

۲۳۵

بنائیں _ اگر ماں باپ خود مہربان اور خیرخواہ ہوں اور خیر خواہی کے آثار ان کی گفتار و کردار میں نظر آئیں تو وہ اپنے بچوں کو بھی مہربان اور انسان دوست بنا سکتے ہیں _

فرض شناس اور آگاہ ماں باپ کبھی کبھی اپنے بچوں کے سامنے ان کی حالت بیان کر سکتے ہیں جو محتاج ہوں ، غریب ہوں ،ناتوان ہوں اور ممکن ہو تو ایسے لوگوں سے انہیں ملوا بھی سکتے ہیں اور بچوں سے کہہ سکتے ہیں یہ سب انسان ہیں اور ہمارے بھائی ہیں _ ان کے حقوق پامان کیے گئے ہیں یہ محروم و بے نوا ہیں _ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا دفاع کریں اور ان کے پامان شدہ حقوق انہیں واپس دلوائیں اور اب وقتی طور پر جو کچھ ہمارے بس میں ہے ان کی مدد کریں _ وہ بچوں کی موجودگی میں بلکہ خود بچوں کے ذریعے سے ایسے افراد کی مدد کریں _ ماں باپ کبھی کبھی ظالموں کے ظلم اور مظلوموں کی غم ناک حالت بچوں سے بیان کریں نیز ایک مسلمان انسان کی اس بارے میں ذمہ داری بھی انہیں بتائیں _ وہ بچوں کو ہسپتال اور شفاخانوں میں بھی لے جا سکتے ہیں اور محتاج بیماروں کو انہیں دکھا سکتے ہیں _ اور اس سلسلے میں اسلام ذمہ داریاں انہیں بیان کرسکتے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق ان کی مدد بھی کرسکتے ہیں ننّعے یتییم بچے کہ جن کے سرپہ کوئی نہ ہو کی حالت بھی وہ بچوں کے سامنے بیان کرستے ہیں اور ممکن ہو تو ان سے ملوا بھی سکتے ہیں _ اور بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ ان کی حمایت اور مدد کس قدر ضروری ہے _

۲۳۶

عدل و مساوات

چند افراد پر مشتمل خاندان ایک چھوٹے سے ملک کی طرح ہے اور ماں باپ اس چوٹے سے ملک کو چلاتے ہیں _ جیسے ایک ملک کا اچھا نظام عدل و مساوات کے بغیر ممکن نہیں ایک گھر کے نظام کے لیے بھی عدل و مساوات ضروری ہے _ صاف دلی اور خلوص ، محبت و الفت ، اعتماد و حسن ظن ، آرام و راحت ، عدل و مساوات کے ماحول میں ہی میسّر آسکتی ہے _ ایسے ہی ماحول میں صحیح بچے پرورش پاسکتے ہیں اور انکی داخلی صلاحیتیں نکھر سکتی ہیں اور وہ ماں باپ سے عملی طور پر عدل و مساوات کا درس لے سکتے ہیں _ جیسے بڑے عدل وانصاف کے احتیاج مند ہیں ایسے ہی بچّے بھی عدل ومساوات کے پیاسے ہیں_

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک پیاسے انسان کے لیے جیسے ٹھنڈا اور اچھا پانی بہت اچھا لگتا ہے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے لیے عدل وانصاف کا ذائق شیرین تر اورعمدہ تر ہوتا ہے _ کاموں کو چلانے کے لے اگر چہ کوئی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو عدل سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے _ (1)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

تین طرح کے لوگ قیامت میں خدا کے قریب ترین ہوں گے

--------

1_ اصول کافی ، ج 2، ص 147

۲۳۷

اوّل _ وہ کو جو غصّے کے عالم میں اپنے ما تحتوں پہ ستم نہ کرے _

دوم _ کہ جو دوافرادمیں صلح کے لے ان کے پاس آئے جائے لیکن حق کی ذرا بھی خلاف ورزی نہ کرے _

سوم حق کہے اگر چہ خود اس کے اپنے نقصان میں ہو '' _ (1) اللہ تعالی قرآن میں فرماتاہے :

''انّ الله یامر بالعدل و الاحسان''

''اللہ عدل او ر نیکی کا حکم دیتا ہے'' (2)

عادل اور منصف ماں باپ سب چوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں _ اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے ، بیٹی ہو یا بیٹا _ خوبصورت ہو یا بدشکل ، بڑاہو یا چھوٹا با صلاحیت ہو یا کم استعداد ، جسمانی طور پر سالم ہو یا غیر سالم سب کو اپنی اولاد سمجھتے ہیں اور ان کے درمیان تفاوت کے قائل نہیں ہوتے ، مہر بانی ، اظہار محبّت ، پیار ، احترام ، کھانے پینے لباس ، جیب خرچ ، گھر میں کاموں کی تقسیم اور زندگی کے باقی تمام امور میں بجوں کو برابر سمجھتے ہیں اور سب سے ایک طرح کا سلوک کرتے ہیں _

پیغمبر اکر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا :عدم مو جودگی میں بھی اپنی اولاد میں عدل کو ملحوظ رکھیں _ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری اولادتم سے احسان،محبّت اور عدالت کے ساتھ پسش آئے تو وہ بھی تم سے اسی بات کی توقع رکھتے ہیں ( 3)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنے ایک بچے سے پیار کر رہاتھا اوردوسرے سے نہیں تو آپ نے اس سے فرمایا :

--------

1_ بحار ، ج 75 ، ص 33

2_ سورہ نحل ، آیہ 90

3_ مکارم الاخلاق ، ج ، ص 252

۲۳۸

تم عدل ومساوات کا خیال کیوں نہیں رکھتے ( 1) ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علمیہ و آلہ وسلم کی خدمت میٹ بیٹھا تھا کہ ا س کا بیٹا و ہاں پر آگیا _ اس شخص نے اپنے بیتے کو چوم کراپنے زانو پر بٹھا لیا _ تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی آئی تو اس شخص نے بچی کو اپنے، سامنے بٹھا لیا _ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا :

تم نے اپنی اولادکے در میان عدالت کاو ربرابری کا لحاظ کیوں نہیں رکھّا ( 2)

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا :عدالت و مساوات کی پا سداری بہترین سیاست ہے ( 3 )

ایک عورت اپنے دو چھو ٹے بچوں کے ہمراہ زوجہ رسول حضرت عائشےہ کے پاس آئی _ حضرت عائشےہ نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں _ان بچوں کی ماں نے ہر بچے کو ایک ایک کھجورد ے دی پھر تیسری کھجور کے بھی دوحصّے کرکے آدھی آدھی دونوں کو دے دی _ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو حضرت عائشےہ نے انہیں واقعہ سنا یا _

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

کیا تجھے اس عورت کے عمل پر حیرت ہوئی ہے ؟ اللہ عدالت و مساوات کا خیال رکھنے کی بناء پر اس عورت کو جنّت میں داخل کرے گا ( 4)اگر ماں باپ اپنی اولاد کے ساتھ عادلا نہ بر تا ؤ کے بجائے امتیازی طرز عمل کامظاہر ہ کریں اور ایک کو دوسرے پر تر جیح دیں تو ان بچوں پر اخلاقی لحاظ سے نا قابل تلا فی برے اثرات پڑیں گے _ مثلا

1_ گھر کے ماحول میں بچے عملی طور پر ماں باپ سے نا انصافی کا سبق سیکھیںگے اور

----------

1_ مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 252

2_ مجمع الزوائد ، ج 8 ، ص 156

3_ عزر الحکم ص 64

4_ سنن ابن ماجہ ، ج 2 ، ص 1210

۲۳۹

رفتہ رفتہ اس کے عدی ہو جائیں گے _

2_ جن بچوں سے ن انصافی کی گئی ہو ماں باپ کے بار ے میں ان کے دل میں کینہ پیداہو جاتا ہے _ ممکن ہے وہ کسی ردّ عمل کا مظاہرہ کریں اور نا فرمانی و سرکشی پر اتر آئیں

چ3_ غیر عادلانہ سلوک سے بہن بھا ئیوں کے در میان حسد اور دشمنی پیدا ہو جائے گی اور وہ ہمیشہ لڑتے جھگڑ تے رہیں گے ممکن ہے وہ کسی سخت ردّ عمل کا اظہار کریں اور کسی مسئلے پر شرارت اور زیادتی کے مرتکب ہوں

4_ وہ بچے جن سے نا انصافی کی گئی ہے ، احساس محرومی و مظلومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے _ ممکن ہے یہی بات ان کی پر یشانی ، اظطراب ، بے چینی ، اعصاب کی کمزوری اور متعد د نفسیاتی بیماریؤن کا باعث بن جائے

ان تمام قباحتوں کے ذمہ دار وہ ماں باپ ہیں جنہوں نے عدل و مساوات کے لازمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے فرق رو ارکھا ہو _

البتہ ماں باپ اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلو ک نہیں کرسکتے محتلف عمر میں بچوں کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں _مختلف اد وار اور مختلف جنس ہونے کے اعتبار سے بھی ان کی ضروریات ایک جیسی نہیں ہوتیں_ عدل و مساوات کا قانون بھی ایسے مواقع پر ایک جیسے سلوک کا تقاضا نہیں کرتا _ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ بڑے بچّے کو گود میں لیا جائے اور اس سے دودھ پیتے بچے کی طرح پیار کیا جائے؟ اسی طرح کیا ہو سکتا ہے کہ تین سالہ بچے کو اتنا ہی جیب خرچ دیا جائے جتنا اٹھارہ سالہ بچے کو دیا جاتا ہے ؟ کیا بیٹی بھی بیٹے کی طرح آزادی سے آنے جانے اور ملنے جلنے کا حق رکھتی ہے عدالت و مساوات بھی اس بات کا تقاضا نہیں کرتی اور ہم بھی اس بات کا مشورہ نہیں دیتے _بہر حال ماں با پ کو چاہیے کہ وہ پوری طرح سے عقل و تدبیر کے ساتھ ایسے سلوک کا انتخاب کریں کہ جس ان کے بچے نا انصافی کا احساس نہ کریں یہ بات حسد کی بحث میں بیان کی گئی ہے اس حصّے کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے _

ایک صاحب اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں :

۲۴۰