آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 122014
ڈاؤنلوڈ: 6764

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122014 / ڈاؤنلوڈ: 6764
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

... بچپن کی یہ یادتو بہت ہی تلخ ہے کہ جسے میں فراموش نہیں کرسکتا _ ابو میرے اور بھائی کے درمیان فرق روار کھتے تھے اس کی پوری خواہشوں پر عمل کرتے اور میری طرف اعتنا نہ کرتے _ اس کا احترام کرتے اور میری توہین کرتے _ اسے مجھ سے زیادہ پیار کرتے اور اس پر نواز شیں کرتے _ نتیجہ یہ ہوا کہ ابو اور بھائی مجھے بہت برے لگنے لگے _ میرا دل چاہتا کہ اس غیر انسانی سلوک پر ابوسے بدلہ لوں لیکن یہ کام میرے بس میں نہ تھا _ پریشانی کے مارے ہر وقت میں تنہا تنہا رہتا _ مہمان خانے میں چلا جاتا _ دیواروں میں کہیں تھوکتا اور انہیں خراب کرکے رہتا _ شیشے توڑدیتا _ اورکیا کرتا؟ کچھ اورکر نہیں سکتا تھا _ لیکن ابو کو اس بات کا خیال بھی نہ تھا اور انہیں ہرگز پتہ نہ تھا کہ میں یہ نقصان ان کو پہنچا رہا ہوں _

ایک خاتون اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں:

... ہمارے قریبی عزیزوں میں سے ایک خاتون کو دو بیٹیاں تھیں _ ایک زیادہ لائق تھی اور دوسری کچھ کم _ دونوں سکول جاتیں _ بڑی بیٹی جو زیادہ لائق تھی اور دوسری کچھ کم _ دونوں سکول جاتیں _ بڑی بیٹی جو زیادہ با صلاحیت نہ تھی کم نمبر لاتی اور چھوٹی زیادہ نمبر لاتی _ ماں جس کے پاس بھی بیٹھتی چھوٹی کی تعریف کرتی رہتی اور بڑی کو برا کھلا کہتی _ چھوٹی کو زیادہ نوازتی ، شاباش کہتی اور بڑی سے کہتی تمہارے سر میں خاک کیا فضول بچی ہو _ پیسے حرام کرتی ہو اور سبق یاد نہیں کرتی ہو _ کھانا کھانے اور لباس بدلنے کا تمہیں کیا فائدہ _ بدبخت ، سست آخر کیا بنوگی ،

وہی بڑی بیٹی اب شادی شدہ ہے _ اس کے چند بچے ہیں _ وہ ایک معمول کی خاتون نہیں ہے _ بیماری لگتی ہے _ احساس کمتری کا شکار ہے چپ چپ او رڈری ڈری رہتی ہے _ کسی دعوت میں ہو تو کونے میں جا بیٹھتی ہے اور بات نہیں کرتی _ جب میں اس سے کہتی ہوں کو تم بھی کچھ کہو _ تو آہ بھرتی ہے _ کہتی ہے کیا کہوں اس کی شادی سے پہلے کی بات ہے کہ میں ایک مرتبہ اسے اعصاب کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی _

۲۴۱

242

ڈاکٹر نے معانہ اور اس سے گفتگو کے بعد کہا یہ صاحبہ مریض نہیں ہے بلکہ اس کے ماں باپ مریض ہیں جنہوں نے اس بے گناہ بیٹی کو ان دنوں تک پہنچایا ہے _

ایک دن ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ کھانا پکالیتی ہو وہ رونے لگی اور اس نے کہا پکالیتی ہوں لیکن جب بھی کھانا پکاتی ہو ں تو امّی ابو پرواہ نہیں کرتے کہتے ہیں ماشاء اللہ اس کی بہن خوب کھانا پکاتی ہے _

۲۴۲

بچّون کا احترام

بچہ بھی ایک انسان ہوتا ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے _ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی قدر جانین اور اس کا احترام کریں _ دوسرے جب اس کا احترام کرتے ہیں تو وہ اسے اپنی بڑائی سمجھتا ہے اور اسے ایک طرح کی قدردانی سمجھتا ہے _ جن ماں باپ کو اپنی اولاد سے محبت سے انہیں چاہیے کہ ہمیشہ ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان کے وجود کو اہمیت دیں _ بچے کی تربیت میں اس کا احترام اہم عوامل میں سے شمار کیا جاتا ہے _ جس بچے کو عزت و احترام میسّر ہو وہ بزرگوار، شریف اور باوقار بنتا ہے _ اور اپنے مقام کی حفاظت کے لیے برے کاموں سے بچتا ہے _ وہ کوشش کرتا ہے کہ اچھے اچھے کام کرکے دوسروں کی نظر میں اپنے مقام کو اور بھی بڑھائے تا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جائے _ جس بچے کا ماں باپ احترام کرتے ہوں وہ اپنے عمل میں ان کی تقلید کرتا ہے اور ماں باپ کا اور دوسرے لوگوں کا احترام کرتا ہے _ بچہ ایک چھوٹا سا انسان ہے اسے اپنی شخصیت سے پوری محبّت ہے _ توہین اور تحقیر سے آزردہ خاطر ہوجاتا ہے _ ماں باپ جس بچے کی توہین و تحقیر کرتے ہوں اس کے دل میں ان کے بارے میں کینہ پیداہوجاتا ہے اور جلد یا بدیر و ہ سرکش اور نافرمان بن جاتا ہے اور ان سے انتقام لیتا ہے _ نادان ماں باپ کہ بدقسمتی سے جن کی تعداد کم نہیں سمجھتے ہیں کہ بچون کا احترام ان کی تربیت کے منافی ہے _ ماں باپ کے شایان شان نہیں ہے _ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بچے کا احترام کیا تو وہ بگڑجائے گا _ اور پھر ہمارا احترام نہیں کرے گا _ وہ بچوں سے بے اعتنائی

۲۴۳

اور ان کی بی احترامی کو ان کی تربیت کا ذریعہ شمار کرتے ہیں اس طرح وہ ان کی شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کرمتری پیدا کردیتے ہیں _ جب کہ یہ روش تربیت کے حوالے سے بہت بڑا اشتباہ ہے اگر ماں باپ بچے کا احترام کریں تو اس سے نہ صرف یہ کہ ان کا مقام بچے کی نظر میں کم نہ ہوگا بلکہ اس طرح سے اس کے اندر بھی بزرگواری اور وقار کی روح پر وان چڑھے گی _ بچہ اسی بچپن سے سمجھنے لگتا ہے کہ ماں با پ اسے ایک انسان سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت کے قائل ہیں _ اس طرح سے جو کام معاشرے میں اچھے نہیں سمجھتے جاتے وہ ان سے بچتا ہے _ وہ اچھے کام کرتا ہے تا کہ اپنے مقام کو محفوظ رکھے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کا جس طرح سے احترام ہونا چاہیے نہیں کیا جاتا اور انہیں خاندان کا ایک باقاعدہ جزوشمار نہیں کیا جاتا _ یہاں تک کہ دعوتوں میں بچے ماں باپ کے طفلی ہوتے ہیں انہیں باقاعدہ دعوت نہیں دی جاتی _ اور انہیں کسی نچلی جگہ پر یا کمرے کے دروازے کے ساتھ جگہ ملتی ہے اور ان کے لیے باقاعدہ پلیٹ، چمچہ و غیرہ پیش نہیں کیا جاتا _ آتے وقت اور جاتے وقت کوئی ان کا احترام نہیں کرتا _ گاڑی میں ان کے لیے مخصوص نشست نہیں ہوتی _ یا تووہ کھڑے ہوں یا ماں باپ کی گود میں بیٹھے ہوں _ محفل میں انہیں بات کرنے کاحق نہیں ہوتا اگر وہ بات کریں بھی تو کوئی ان کی سنتا نہیں بے احترامی سے بلایا جاتا ہے ، میل ملاقات اور بات چیت میں ان سے مؤدبانہ سلوک نہیں کیا جاتا _ ان کے لیے سلام خوش آمدید ، خداحافظ اور شکریہ نہیں ہوتا_ ان کی خواہش کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا _ گھریلو امو رمیں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا _ گھٹیا اور توہین آمیز کام کرنے کے لیے ان سے کہا جاتا ہے _

دین مقدس اسلام نے بچوں کی طرف پوری توجہ دی ہے اس نے بچوں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اپنی اولاد کی عزّت کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو تا کہ اللہ تمہیں بخش دے _

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

۲۴۴

سب سے گھٹیا انسان وہ ہے جو دوسروں کی توہین کرے _ (1)

رسول اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتے _ جب وہ سفر سے واپس آتے تو بچے ان کے استقبال کے لیے دوڑتے _ رسول اللہ ان سے پیار کرتے ، محبت کرتے اور ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ سوار کرلیتے اور اپنے اصحاب سے بھی وہ کہتے کہ دوسروں کو وہ سوار کرلیں _ اور اس حال میں شہر کے اندر لوٹتے _

بچوں سے یہاں تک شیرخوار بچوں کی توہین سے بھی سختی سے پرہیز کرنا چاہیے _ ام الفضل کہتی ہیں _ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسین علیہ السلام کو جب کہ وہ شیرخوار تھے مجھ سے لے لیا _ اور سینہ سے لگایا _ حسین علیہ السلام نے رسول (ع) کے کپڑوں پر پیشاب کردیا میں نے حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) سے زبردستی لے لیا _ اس طرح سے کہ وہ رونے لگے رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا _ ام الفضل آرام سے اس پیشاب کو پانی پاک کردے گا لیکن حسین علیہ السلام کے دل سے ناراضی اور ناراحتی کون دور کرے گا ؟ (3) ایک صاحب لکھتے ہیں :ماں باپ کی نظر میں میری کوئی اہمیت نہ تھی _ نہ صرف وہ میرا احترام نہ کرتے تھے بلکہ اکثر میری توہین اور سرزنش کرتے رہتے کاموں میں مجھے شریک نہ کرتے اور اگر میں کوئی کام انجام دیتا تو اس میں سے کپڑے نکالتے _ دوستوں کے سامنے یہاں تک کہ میرے دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کر دیتے _ مجھے دوسروں کے سامنے بولنے کی اجازت نہ دیتے _ اس وجہ سے ہمیشہ میرے دل میں اپنے بارے میں احساس ذلت و حقارت رہتا _میں اپنے تئیں ایک فضول اور اضافی چیز سمجھتا _ اب جب کہ میں بڑا ہوگیا ہوں

------------

1_ بحار ، ج 104، ص 25

2_ غرر الحکم ، ص 189

3_ ہدیة الاحباب ، ص 176

۲۴۵

اب بھی میری وہی کیفیت باقی ہے _ بڑے کام سامنے آجائیں تو میں اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہوں _ کاموں کی انجام وہی میں فیصلہ نہیں کرپاتا _ میں اپنے تئیں کہتا ہوں میری رائے چونکہ درست نہیں ہے اس لیے دوسروں کو میرے بارے میں اظہار رائے کرنا چاہیے _ اپنے تئیں حقیر و ناچیز سمجھتا ہوں سمجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے یہاں تک کہ دوستوں کی موجودگی میں مجھ میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اگر کچھ کہہ بیٹھیوں تو کئی گھنٹے سوچتا رہتا ہوں کہ کیا میری بات درست تھی اور صحیح موقع پر تھی _

۲۴۶

خودشناسی اور بامقصد زندگی

حیوان کی ساری زندگی کھانے ، سونے ، خواہشات نفس کی تکمیل اور اولاد پیداکرنے سے عبارت ہے _ حیوان کی عقل اور آگاہی کامل نہیں ہوتی وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرسکتا _ اس لیے اس پر کوئی فرض اورذمہ داری نہیں ہے اس کے لیے کوئی حساب و کتاب اور ثواب و عذاب نہیں ہے _ اس کی زندگی میں کوئی عاقلانہ پروگرام اور مقصد نہیں ہوتا _ لیکن انسان کہ جو اشرف المخلوقات ہے وہ حیوان کی طرح نہیں ہے _ انسان عقل ، شعور اور آگاہی رکھتا ہے _ اچھے ، برے ، خوبصورت اور بد صورت میں تمیز کر سکتا ہے _ انسان کو ایک دائمی اور جاوید زندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ نابودی اور فنا کے لیے _ اس اعتبار سے اس کے سر پہ ذمہ داری بھی ہے اور فرض بھی _ انسان خلیفة اللہ ہے اور امین الہی ہے _ انسان کی زندگی کا حاصل فقط کھانا ، سونا ، خواہشات کی تکمیل اور نسل بڑھانا ہی نہیں ہوسکتا انسان کو ایسے راستے پر چلنا چاہیے کہ وہ فرشتوں سے بالاتر ہوجائے _ وہ انسان ہے اسے چاہیے کہ اپنی انسانیت کو پروان چڑھائے او راس کی تکمیل کرے انسان کی زندگی کا کوئی مقصد ہے البتہ ایک بلند ہدف نہ کر پست حیوانی ہدف _ انسان رضائے خدا کے لیے اورمخلوق خدا کی خدمت کے لیے کوشش اور جد و جہد کرتا ہے نہ کہ زود گزر دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے _ انسان متلاشی حق اور پیروحق ہے _

ہاں انسانی وجود ایسا گوہر گران بہا ہے کہ جو حیوانات سے بہت ممتاز ہے یہ امر بہت افسوس نا ک ہے کہ بہت سے انسانون نے اپنی اس انمول انسانی قیمت کو گنوادیا ہے _

۲۴۷

اور اپنی قیمتی زندگی کو ایک حیوان کی طرح سے گزار رہے ہیں اور ان کی نظر میں حیوانوں کی طرح سے کھانے ، پینے ، سونے اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کے علاوہ کوئی ہدف نہیں ہے _ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان سو سال زندہ رہے لیکن اپنی انسانی قیمت کو نہ پہچان سکے اور اپنے بارے میں جاہل ہی مرجائے _ دنیا میں ایک حیوان کی صورت آئے اور ایک حیوان کی صورت چل بسے بے مقصد اور سرگردان رہے اور اس کی ساری جد و جہد کا نتیجہ بدبختی کے علاوہ کچھ نہ نکلے _

انسان کو جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے ؟ اور کہاں جانا ہے ؟ اس کے آنے کا مقصد کیا ہے ؟ اور اس کو کس راستے پر چلنا چاہیے _ اور اس کے لیے حقیقی کمال اور سعادت کیا ہے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :بہترین معرفت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان نے اور سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ اپنے آپ کو نہ پہچانے _ (1) امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:جس نے اپنے آپ کو نہ پہچانا وہ راہ نجات سے دور اور جہالت و گمراہی کے راستے پر رہا _ (2) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

خدا کے نزدیک انسانوں میں سے ناپسندیدہ ترین شخص وہ ہے کہ جس کا زندگی میں مقصد شکم سیری اور خواہشات نفسانی کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہ ہو _ (3) حضر ت علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:

----------

1_ غررالحکم ، ص 179

2_ غررالحکم ، ص 707

3_ غررالحکم ، ص 205

۲۴۸

''جس نے اخروی سادت کو اپنا مقصد بنالیا وہ بلندترین خوبیوں کو پالے گا '' (1)

ماں باپ کو چاہیے خودشناسی اور بامقصدیت کا درس بچے کو دیں ، وہ تدریجاً اپنی اولاد کی تعمیر کرسکتے ہیں اور انہیں بامقصد اور خودشناس بناسکتے ہیں _ وہ آہستہ آہستہ اپنی اولاد کو انسانیت کا بلند مقصد سمجھا سکتے ہیں اور ان کے سامنے زندگی کا مقصد واضح کرسکتے ہیں _ بچے کو ماں باپ کے ذریعے رفتہ رفتہ سمجھنا چاہیے وہ کون ہے ؟ کیا تھا؟ کہاں سے آیا ہے _

اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے _ آخر کار اسے کہاں جانا ہے _ اس دنیا میں اس کی ذمہ داری اور فریضہ کیا ہے _ اور اسے کس پروگرام اور ہدف کے تحت زندگی گزارنا چاہیے اس کی خواہش نصیبی اور بد نصیبی کس میں ہے _ اگر ماں باپ خودشناس ہوں اور ان کی اپنی زندگی با مقصد ہو اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں تو وہ خودشناس اور بامقصد انسان پروان چڑھا سکتے ہیں _

----------

1_ غرر الحکم ، ص 693

۲۴۹

گھر کی آمدنی اور خرچ

کسی گھر کے انتظامی امور میں سے اہم ترین اس کا معاشی پہلو ہے اور گھر کی آمدن اور خرچ کا حساب ہے اور با سمجھ خاندان آمد و خرچ کے حساب کو پیش نظر رکھتے ہیں _ اور آمدنی کے مطابق خرچ کرتے ہیں _ ہر خاندان کو جاننا چاہیے کہ پیسہ کس راستے پر خرچ کرے سمجھدار خاندان قرض سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں _ اور پریشانیوں میں گرفتار نہیں ہوتے اور زندگی آرام سے اور دردرسر کے بغیر گزارتے ہیں _ ان کے اقتصادی حالات خراب بھی ہوں تو تدریجاً انہیں بہتر بناتے ہیں _ اور زندگی کو فقر و بے سروسامانی سے نکال لیتے ہیں _

اس کے برعکس جس خاندان کا معاشی اعتبار سے ، اور آمدن و خرچ کے اعتبار سے نظام درست نہ ہو اور اس کے افراد بغیر کسی حساب کے خرچ کرتے ہوں تو ایسا خاندان عموماً دوسروں کا مقروض اور مرہون رہتا ہے _ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا خاندان ناچار سودی قرض لیتا ہے_ یا قرض پر مہنگی چیزیں خریدتا ہے _یعنی دوسروں کے لیے زخمت اٹھاتا ہے _ ایسے خاندان کی زندگی زیادہ تر خوش نہیں گزرتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زندگی کی ابتدائی ضروریات سے محروم رہے اور ان کی زندگی کی حالت مناسب نہ ہو، اگر چہ اس کی آمدنی اچھی ہی کیوں نہ ہو لیکن چونکہ ان کے گھر میں کوئی عقل و تدبیر نہیں ہوتی اورایسے گھر کے لوگ ہوس اور بلند پروازی کا شکار ہوتے ہیں لہذا زیادہ تر گرفتار بلاہی رہتے ہیں _ کسی خاندان کی خوش حالی اور آسائشے صرف کمال کرلانے پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے بھی اہم عقل و تدبیر اور کسی منظم معاشی پروگرام کے مطابق اس کو خرچ کرنا ہے _

۲۵۰

امام صدق علیہ السلام فرماتے ہی:

''جب اللہ کسی خاندان کے لیے بھلائی اور سعادت چاہتا ہے تو انہیں زندگی میں تدبیر اور سلیقہ عطا کردیتا ہے '' _ (1)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''تمام کمالات تین چیزوں میں جمع ہیں ان میں سے ایک زندگی میں فہم و تدبیر (سے) اور معاشی امور میں عقل (سے کام لینا)ہے _ (2)

حضرت صادق علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:''فضول خرچی غربت و ناداری کا باعث بنتی ہے اور زندگی میں اعتدال اور میانہ روی بے نیازی اور استغناء کا باعث بنتے ہیں'' _ (3)

حضرت علی علیہ اسلام فرمایا:اعتدال سے آدھی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں _ (4)

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:فضول خرچ کی تین نشانیاں ہیں:

1_ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی وہ کھاتا ہے

2_ جس چیز کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ خرید تاہے اور

3_ جس لباس کی قیمت ادا نہیں کرسکتا اسے پہنتا ہے _ (5)

---------

1_ کافی ، ج 5، ص 88

2_ کافی ، ج 5، ص 87

3_ وسائل ، ج 12 ، ص 41

4_ مستدرک ، ج 2 ، ص 424

5_ وسائل، ج 21، ص 41

۲۵۱

گھر کے مالی امور کو منظم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی پائی جائے اگر میاں یا بیوی گھر کی آمدنی کو مد نظر نہ رکھیں اور بغیر کسی حساب کتاب کے خرچ کریں تو ان کے گھر کاکام نہیں چل سکتا _

دوسرے درجے پربچوں میں بھی باہمی تعاون اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے _ گھر کے بچے بھی اگر آمدنی کو پیش نظر نہ رکھیں اور بغیر کسی حساب کتاب کے خرچ کریں تو بھی خاندان مشکلات اور مصائب کا شکار ہوجائے گا _

ماں باپ کو چاہیے کہ مالی امور میں اپنے بچوں کے ساتھ ہم فکری پیدا کریں اور انہیں گھر کی آمدنی اور خرچ سے آگاہ کریں _ بچوں کو تدریجاً یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پیسے آسانی او رایسے ہی ہاتھ نہیں آجاتے بلکہ اس کے لیے محنت صرف ہوتی ہے _ انہیں جاننا چاہیے کہ باپ زحمت اٹھاتا ہے اور ہرروز کام پر جاتا ہے تا کہ پیسے کماکرلائے اور گھر کے اخراجات پورے کرے _ اور اگر ماں بھی کہیں کام یا ملازمت کرتی ہو تو یہ بات بھی بچوں کو سمجھنا چاہیے اور اگر ماں خانہ دار ہو تو بچوں کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ گھر کا نظام آسانی سے نہیں چلتا بلکہ اس کی ماں شب و روز محنت کرتی ہے _

چاہیے کہ بچے آہستہ آہستہ ماں باپ کے کام اور گھر کی آمدنی کی مقدار کو جانیں انہیں یہ سمجھنا چہیے کہ ماں باپ کی آمدنی ہی سے گھر کسے سارے اخراجات پور ے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نہیں اور انہیں سمجھناچاہیے کہ گھر کے تمام اخراجات کو ان پیسوں کے اندر پورا ہونا چاہیے اور سارے اخراجات ایک ہی سطح کے نہیں ہوتے بلکہ بعض اخراجات کو ترجیح دینا پڑتی ہے مثلاً مکان کا خرچ یا مکان کا کرایہ ، پانی اور بجلی کابل، روٹی اور کپڑے کے پیسے ، گھر میں روزمرّہ کی ضروریات کاسامان اور ڈاکٹر کی فیس دیگر ضروریات پر مقدم ہیں _ پہلے مرحلے میں زندگی کی ضروریات پوری کرناچاہئیں باقی چیزیں بعد میں آتی ہیں _ باقی چیزیں بھی ایک سطح کی نہیں ةوتیں بچوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور ماں باپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے _

بچوں کو ابتدائی زندگی ہی سے اس امر کا عادی بنایا جانا چاہیے کہ ان کی خواہشات

۲۵۲

اور توقعات کو گھر کی آمدنی سے ہم آہنگ ہونا چاہیے_ انہیں بے جا خواہشات اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے سے بچنا چاہیے _ انہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو گھر کا ایک باقاعدہ فرد سمجھیں اور گھر کا خرچ چلانے میں اپنے آپ کو شریک سمجھیں _ وہ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم کوئی بلند مرتبہ لوگ ہیں اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے خرچے پورے کریں _ بچوں کو صرف اپنی خواہشات کو پیش نظر رکھ کر گھر کی باقی ضروریات کو نظر انداز نہیں کردینا چاہیے _ بچے کو اوائل عمر ہی سے اپنی خواہشات سے چشم پوشی کرکے گھر کی ضروریات کو ترجیح دینے کی عادت پڑنی چاہیے _

انہیں بچوں نے آئندہ بڑے ہو کر نظام چلانا ہے _ لہذاانہیں ابھی سے فضول خرچ نہیں ہونا چاہیے گھر کی مالی حالت خوب اچھی ہی کیوں نہ ہو پھر بھی ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو اجازت دیں کہ وہ بے حدو حساب خرچ کرتے ہیں _ انہیں چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں کہ سب لوگ ایک خاندان کے فروہیں اور امیر وں کو چاہیے کہ غریبوں کی مدد کریں اور اگر کوئی کم آمدنی والا خاندان ہے اور مشکل سے روزانہ کے اخراجات پورے ہوتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی روزانہ کی آمدن کے مطابق اخراجات کریں البتہ انہیں نہیں چاہیے کہ اپنی مشکلات کی شکایت اپنے بچوں سے کریں بلکہ انہیں صبر و استقامت کا درس دیں اور انہیں آئندہ زندگی کو بہتر کرنے کے لیے آمادہ کریں_ جب بچے میں کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو اسے کام کرنے پر ابھاریں بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم بھی کام کروگے تو اس سے آمدنی ہوگی اور پھر ہمارے گھر کے حالات بھی بہتر ہوجائیں گے _ بچے کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنی آمدنی کاکچھ حصّہ گھر میں دے دے کیونکہ وہ اسی خاندان کے ساتھ کررہتا ہے بچے میں مفت خوری کی عادت نہیں پیدا ہونی چاہیے _ بچوں کا جیب خرچ بھی گھر کی آمدنی کے مطابق ہونا چاہیے _

۲۵۳

قانون کااحترام

لوگ قانون کے بغیر زندگی نہیں گزارسکتے _ معاشرے کے نظام کو چلانے کے لیے برائیوں کو روکنے کے لیے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے اور عوام کے آرام و آسائشے کے لیے قانون ضروری ہے جن ملکوں میں قانون بنانے والے افراد اور عوامل کے اچھے باہمی ربط ہوتے ہیں اور جہاں لوگوں کے لیے قانون بنائے گئے ہیں وہاں لوگ قانون کا احترام بھی کرتے ہیں اور قانون کے احترام سے ہی ملک میں امن و امان اور عوام کی زندگی کے لیے آرام و راحت وجود میں آتا ہے _

لیکن جن ملکوں میں قانون بنانے والے لوگ حکومتوں کے مفادات کے لیے قانون بناتے ہوں اور عوام کے حقیقی مفادات ان کی نظر میں نہیں ہوتے وہاں عوام کی نظر میں قانون کا کوئی احترام بھی نہیں ہوتا اور مل بھی امن او رچین سے محروم رہتا ہے _ بدقسمتی سے پہلے ہمارے ملک کی بھی یہی حالت تھی _ بیشتر قوانین اسلامی اور عوامی نہ تھے بلکہ حکومتوں کی خواہش پر او رمغرب و مشرق کی سامراجی طاقتوں اور ان کے چیلوں کے فائدے میں قانون بنتے تھے _ مزدور ، محنت کس اور محروم افراد کے حقیقی مفادات کی طرف کوئی توجہ نہ تھی _ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ رعب و دبدبہ سے اور مکر و فریب سے عوامل دشمن قوانین ہی کہ عوام پر نافذ کریں_ لیکن ایران کے مسلمان عوام چونکہ ان قوانین ک و اسلامی اور اپنے مفادات کا محافظ نہیں سمجھتے تھے _ لہذا ان کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی _ البتہ ان قوانین میں کچھ عوامی فائدے کے قوانین بھی موجود تھے لیکن چونکہ عوام کا ان پر اعتماد نہیں تھا لہذا ان کا احترام بھی نہیں کرتے تھے _ البتہ جائز

۲۵۴

صحیح اور سودمند قانون کا احترام ضروری ہے اور ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ یہ بات اپنی اولاد کو سمجھائیں _ جب بچے اپنے ماں باپ کو دیکھتا ہے کہ وہ سڑ ک پار کرتے ہوئے سڑک پار کرنے کی معینہ جگہ (زیبرا کراسنگ) ہی سے سڑک پارکرتے ہیں تو اس میں بھی اس کی عادت پڑ جاتی ہے اور پھر وہ اس کی خلاف ورزی کو اچھا نہیں سمجھتا _

خصوصاً ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں سڑک کو استعمال کرنا ڈرائیوروں کا حق ہے اور زیبرا کراسنگ پیدال چلنے والوں کا حق ہے اور دوسرے کے حق پہ تجاوز درست نہیں ہے _ جب بچہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ قانون پر عمل در آمد خود اس کے اور معاشرے کے فائدے میں ہے تو پھر تدریجاً ماں باپ کے عمل کو دیکھتے ہوئے اس کے اندر بھی اس بات کی عادت پڑ جاتی ہے

حضرت علی علیہ السام فرماتے ہیں:

''عادت فطرت ثانیہ ہے '' _ (1)

--------

1_ غرر الحکم ، ص 26

۲۵۵

ادب

ہر ماں باپ کی یہ حتمی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے مہذب ہوں، اچھے اور باادب بچے ہر ماں باپ کی سربلندی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہ ان پر فخر کرتے ہیں _ جو بچے دوسروں سے ملاقات کے موقع پر سلام کرتے ہیں اور جدا ہونے پر خداحافظ کرتے ہیں _ مصافحہ کرتے ہیں _ حال پوچھتے ہیں ،پیار سے انداز سے بات کرتے ہیں، بزرگوں کا احترام کرتے ہیں ، ان کے آنے پر احتراماً کھڑے ہوجاتے ہیں _ صاحبان علم ، باتقوی اور نیک افراد کا احترام کرتے ہیں _ محفل میں مؤدب رہتے ہیں شور نہیں کرتے اور اگر کوئی کچھ دے تو اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں _ کسی کو گالی نہیں دیتے ، دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچاتے ، دوسروں کی بات نہیں کاٹتے، کھانے کے آداب ملحوظ رکھتے ہیں _ بسم اللہ کہتے ہیں _ چھوتے نوالے لیتے ہیں ، آہستہ آہستہ چباتے ہیں، اپنے سامنے سے کھاتے ہیں ، زیادہ نہیں کھاتے ، کھانا زمین پر نہیں پھینکتے ، اپنے ہاتھوں اور لباس کو خراب نہیں کرتے ، صاف ستھرے اور پاکیزہ رہتے ہیں _ کسی کی توہین نہیں کرتے _ دوسروں کا لحاظ کرتے ہیں اور صحیح طریقے سے بیٹھتے اور اٹھتے ہیں، صحیح انداز سے چلتے ہیں _ اطاعت شعار اور فرمان بردار ہوتے ہیں _ کسی کا تمسخر نہیں اڑاتے _ اور دوسروں کی بات کان لگاکر سنتے ہیں ایسے بچے باادب ہوتے ہیں _

نہ صرف والدین بلکہ سب لوگ با ادب بچوں سے پیار کرتے ہیں اور گستاخ اور بے ادب بچوں سے نفرت_

۲۵۶

امیر المؤمین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ادب انسان کا کما ل ہے'' _ (1)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ادب انسان کے لیے خوبصورت لباس کے مانند ہے '' _ (2)

''لوگوں کو اچھے آداب کی سونے اور چاندی سے زیادہ ضرورت ہے '' _ (3)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''ادب سے بڑھ کے کوئی زینت نہیں '' _ (4) امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''باپ کی بہترین وراثت اپنے بچے کے لیے یہ ہے کہ اسے اچھے آداب کی تربیت دے '' _ (5)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''بے ادب شخص میں برائیاں زیادہ ہوں گی'' _ (6) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:''سات سال تک اپنے بچے کو کھیلنے کی اجازت دو اور سات سال سے آدا ب زندگی سکھاؤ'' _ (7)

---------

1_ غرر الحکم ، ص34

2_ غرر الحکم ، ص 21

3_ غرر الحکم ، ص 242

4_ غرر الحکم ، ص 830

5_ غرر الحکم ، ص 393

6_ غرر الحکم ، ص 634

7_ بحار، ج 104، ص 95

۲۵۷

رسول اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:''بچے کے والدین پر تین حق ہیں ،

1_ اس کے لیے اچھا نام منتخب کریں

2_ اسے با ادب بنائیں اور

3_ اس کے لیے اچھا شریک حیات انتخاب کریں '' _ (1)

ہر ماں باپ کی انتہائی آرزو یہ ہوتی ہے کہ ان کی اولادبا ادب ہو لیکن یہ آرزو خود بخود اور بغیر کوشش کے پوری نہیں ہو سکتی اور نہ ہی زیادہ و عظ و نصیحت سے بچوں کو مؤدب بنایا جا سکتا ہے _ اس مقصد تک پہنچنے کے لیے بہترین راستہ ان کے لیے اچھا نمونہ عمل مہیا کرنا ہے _ ماں باپ کو خود مؤدب ہونا چاہیے _ تا کہ وہ اپنی اولاد کو عملی سبق دے سکیں _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''بہترین ادب یہ ہے کہ اپنے آپ سے آغاز کرو'' (2) امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:''اپنے کردار کو مؤدب بنائیں پھر دوسروں کو وعظ و نصیحت کریں'' _ (3)

بچہ تو نرا مقلّد ہوتا ہے تقلید کی فطرت اس کے اندر بہت اہم اور طاقتور ہوتی ہے _ بچہ ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے گفتار و کردار کی پیروی کرتا ہے _ یہ صحیح ہے کہ تلقین بھی تربیتی عوامل میں سے ایک ہے _ لیکن تقلید انسانی جبلّت میں زیادہ قوی اور طاقت ور ہوتی ہے خصوصاً بچپن میں جن ماں باپ کی خواہش ہے کہ ان کے بچے مؤدب ہوں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے طرز عمل کی اصلاح کریں وہ با ادب ماں باپ بنیں _ انہیں چاہیے کہ

---------

1_ وسائل ، ج 15 ص 123

2_ غرر الحکم ، ص 191

3_ نہج البلاغہ ، ج 3 ، ص 166

۲۵۸

ایک دوسرے سے ، اپنے بچوں سے اور تمام لوگوں سے مؤدبانہ طرز عمل اختیار کریں _ اور آداب زندگی کی پابندی کریں تا کہ بچے ان سے سبق حاصل کریں ان سے درس حیات حاصل کریں _ اگر ماں باپ آپس میں ایک دوسرے سے بااب ہوں ، گھر میں آداب واقدار کو ملحوظ رکھتے ہوں بچوں سے بھی با ادب رہتے ہوں لوگوں سے مؤدبانہ طریقہ سے میل ملاقات کرتے ہوں ایسے گھر کے بچے فطری طور پر مؤدب ہوں گے _ وہ ماں باپ کا طرز عمل دیکھیں گے اور اسے اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں گے اور اس کے لیے ان کو وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہوگی _

جو ماں باپ خود آداب کو محلوظ نہیں رکھتے _ انہیں بچوں سے بھی ادب کی توقع نہیں کرنی چاہیے اگر چہ سینکڑوں مرتبہ انہیں نصیحت کریں _ جو ماں باپ ایک دوسرے کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں اور خود اپنے بچوں کے ساتھ غیر مودبانہ سلوک کرتے ہیں وہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ان کے بچے با ادب ہوں _

ایسے گھر کے بچے زیادہ تر ماں باپ کی طرح یا ان سے بھی زیادہ بے ادب ہوں گے اور انہیں اچھی تلقین اور وعظ و نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا _ بچے بھی سوچتے ہیں کہ اگر ماں باپ کی بات صحیح ہوتی تو وہ خود عمل نہ کرتے لہذا یہ ہمیں دھوکا دے رہے ہیں _

البتہ تلقیں بالکل بے اثر نہیں ہوتی لیکن اس کا پورا اثر اس وقت ہوتا ہے کہ جب بچے اس کا نمونہ عمل دیکھیں _ با ادب ماں باپ بچوں کو اچھے آداب کی نصیحت بھی کر سکتے ہیں _ لیکن اچھے انداز سے _ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، تندی ، بدتمیزی اور بے ادبی سے نہیں _ بعض ماں باپ کی عادت ہوتی ہے کہ جب وہ بچوں کا کوئی خلاف ادب کام دیکھتے ہیں تو دوسروں کی موجودگی میں ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں _ مثلاً کہتے ہیں اوبے ادب تو نے سلام کیوں نہیں کیا خداحافظ کیوں نہیں کیا ؟ گونگے ہو احمق اور بے شعو ربچے تو نے دوسروں کے سامنے پاؤں کیوں پھیلائے ؟ کسی کے ہاں آکر شور کیوں مچا رہے ہو حیوان کہیں کے دوسروں کی باتوں میں بولتے کیوں ہوں _یہ نادان ماں باپ اپنے تئیں اس طرح سے اپنے بچوں کی تربیت کررہے

۲۵۹

ہوتے ہیں جب کہ بے ادبی سے ادب نہیں سکھایا جا سکتا_ اگر بچے سے کوئی بے ادبی سرزد ہوجائے تو اسے نصیحت کرنی چاہیے _ لیکن بے ادبی سے نہیں _ نہ دوسروں کے سامنے بلکہ تنہائی میں اور بھلے انداز سے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ بچوں کو سلام کرتے تھے اور فرماتے تھے ''میں بچوں کو سلام کرتا ہوں کہ سلام کرنا ان کا معمول بن جائے ''

۲۶۰