آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125383 / ڈاؤنلوڈ: 7176
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦۔ محبت و امید کے ساتھ خوف:

خدا کے دوست اس کے جمال کے شیفتہ ہونے کے باوجود اس کی عظمت کے ادراک کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں کیونکہ جس طرح اللہ کے جمال کا ادراک محبت کا پیش خیمہ ہے اسی طرح اس کی عظمت کا ادراک بھی ہیبت اور ہراس کا سبب ہوتا ہے، یہ خوف و رجاء پروردگار کی بندگی میں مکمل تکمیل کا کردار ادا کرتے ہیں راہ الہی کے بعض راہرئووں نے کہا ہے: ''خدا کی بندگی صرف محبت کے ساتھ اور بغیر خوف کے، امید کی زیادتی اور حد درجہ انبساط و سرور کی وجہ سے آدمی کی ہلاکت کا باعث ہوجاتی ہے۔ نیز عبودیت صرف خوف وہراس کے ساتھ بغیر امید کے وحشت کی وجہ سے پروردگار سے دوری اور ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، خدا وند ذوالجلال کی بندگی خوف ومحبت دونوں کے ساتھ اس کی محبت اور تقرب کا سبب ہوتی ہے ''۔(١)

٧۔اللہ کی محبت کا کتمان اور اس کا دعویٰ نہ کرنا:

محبت محبوب کے اسرار میںسے ایک سر ہے اور بسا اوقات اس کے اظہار میں کوئی ایسی چیز کہی جاتی ہے جو واقع کے برخلاف اور محبوب پرافترا پردازی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انسان کی محبت پروردگار کے خاص دوستوں یعنی عظیم ملائکہ اور ان انبیاء و اولیاء کی محبت واشتیاق کے مراتب کی نسبت قابل ذکر تحفہ نہیں ہے جو خود کو خدا کے شائستہ عشق ومحبت میں ناکام تصور کرتے تھے، بلکہ حقیقی محبت کی علامت یہ ہے کہ اپنی محبت کے درجات کو ہیچ خیال کرے اور اسے قابل ذکر نہ سمجھے اور خود کو ہمیشہ اس سلسلہ میں قاصر اور عاجز خیال کرے۔

ج۔ خداوند عالم کی محبت کے علائم:

خداوند عالم کی محبت کے علائم کثرت اور فراوانی کے ساتھ انسان کے مختلف وجودی پہلوئوں میںپائے جاتے ہیں۔ یہاں پر ان علائم کی طرف جو کہ نفسانی صفت کے عنوان سے ذکر کئے گئے ہیں، اشارہ کیا جاتا ہے:

١۔ پروردگار سے انس:

جب انسان کادل اللہ کے قرب اور محبوب کے جمال مکشوف کے مشاہدہ سے شاد ومسرور ہوتا ہے تو انسان کے قلب میں ایک بشارت داخل ہوتی ہے کہ جسے'' انس'' کہا جاتا ہے۔ خداوندعالم سے انس کی علامت یہ ہے کہ گوشہ نشینی، خلوت اور اس کے ذکر میںمشغول ہونا خلائق سے انس اور ہم نشینی کرنے سے کہیں زیادہ بہتر اور خوشگوار ہے ایسا شخص لوگوں کے درمیان ہونے کے باوجو د بھی در حقیقت تنہا ہے۔ اور جس وقت وہ خلوت میں ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہمنشین ہوتا ہے۔ اس کا جسم تو لوگوں کے درمیان ہوتا ہے لیکن اس کادل ان سے الگ اور جدا ہوتا ہے۔(٢)

____________________

١۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٧٦ ، ٧٧۔ ٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص١٢٤، ١٨٩، ١٩٠۔

۸۱

حضرت امیر المومنین علی ـ نے ایسے صفات کے حامل افراد کے متعلق فرمایا ہے: '' انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں، انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنالیا ہے جنھیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انھیں حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ان اجسام کے ساتھ رہے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں، یہی روئے زمین پر اﷲ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں''۔(۱)

٢۔ خداوند عالم کی جانب اشتیاق:

جمال الہی کا مشاہدہ کرنے کے خواہاں افراد جب وہ غیب کے پردوں کے پیچھے محبوب کے رخسار کا نظارہ کرنے بیٹھے ہوں اور اس حقیقت تک پہونچ چکے ہیں کہ اس کے جلال و عظمت کی حقیقی رویت سے قاصر و عاجز ہیںتو جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا ہے اس کے مشاہدہ کے لئے ان کی تشنگی اور شوق بڑھتا جاتا ہے، اس حالت کو '' مقام شوق '' کہا جاتا ہے بر خلاف مقام انس، جو محبوب کے کھلے چہرے کے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے، مقام اشتیاق، محبوب کے محجوب (درپردہ) جمال و جلال کے ادراک کے شوق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔(۴)

٣۔ قضائے الہی سے راضی ہونا:

'' رضا '' '' سخط'' یعنی ناراضگی کے مقابلہ میں ہے اور' 'رضا'' سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے مقدر فرمایا ہے اس پر ظاہر و باطن، رفتار وگفتار میں اعتراض نہ کرنا۔ رضااللہ کی محبت کے علائم و لوازم میںشمار ہوتی۔ کیونکہ محب جو کچھ محبوب سے صادر ہوتا ہے اسے خوبصورت اور بہتر سمجھتا ہے جو انسان مقام رضا کا مالک ہوجاتا ہے اس کے نزدیک فقر و غنا، آرام وتکلیف، تندرستی اور بیماری، موت اور زندگی وغیرہ وغیرہ یکساںہوتی ہے اوران میں سے کسی ایک کا تحمل بھی دشوار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ سب ہی کو محبوب کی طرف سے خیا ل کر تا ہے وہ ہمیشہ خود کو فرحت و سرور، آرام وآسائش میں محسوس کرتے ہوئے زندگی گذارتا ہے کیونکہ تمام چیزوںکو نگاہ رضایت سے دیکھتا ہے اور در حقیقت تمام امور اس کی مراد کے مطابق واقع ہوتے ہیں، نتیجہ کے طور پر ہر قسم کے غم و اندوہ سے دور ہوگا، قرآن کریم میں کئی جگہ اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، منجملہ ان کے ''حزب اﷲ'' کی شناخت کراتے ہوئے فرماتا ہے: ''خدا وند رحمان ان سے راضی و خوشنود اور وہ اس سے راضی و خوشنود ہیں، یہ لوگ خدا کے گروہ ہیں، حزب خدا ہی کامیاب ہے''۔(۳)

____________________

١۔ نہج البلاغہ: حکمت ١٤٧۔ ٢۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٨، ص ٥٥۔

٣۔ مجادلہ ٢٢ ؛ بینہ ٨، ملاحظہ ہو۔

۸۲

حضرت امام زین العابدین ـ مقام رضا کی عظیم شان ومنزلت کے بیان میں فرماتے ہیں: ''زہد کا سب سے بلند درجہ ورع کا پست ترین درجہ ہے اور فدع کا بلندترین درجہ یقین کا پست ترین درجہ ہے اوریقین کا بلند ترین درجہ رضاکا سب سے پست مقام و درجہ ہے''۔(١) اس وجہ سے خداکے دوست جو کچھ وہ مقدّر فرماتا ہے اس پر رضامندی کے ساتھ ہرقسم کے غم و اندوہ سے دور ہوتے ہیںاور نہایت سرور شادمانی کے ساتھ خوشگوارزندگی گذارتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میںمذکور ہے: ''آگاہ ہوکہ خداکے دوستوںکو نہ کوئی غم و اندوہ ہے اور نہ ہی کوئی خوف و ہراس انہوںنے اپنے تمام امور خدا کے حوالے کردئیے ہیںاور اس کے ارادہ کے سامنے سراپا تسلیم ہیں''۔(٢)

د۔محبت پروردگارکاانجام:

محبت الہی کاخاتمہ دیگرساری محبتوں کی طرح محبوب کے وصال پر منحصر نہیں ہے۔ اس رویت کا تحقق خداو ندعالم کی معرفت پر موقوف ہے، جو خود ہی تطہیر باطن اور دنیوی لگاؤسے دل کو پاک وصاف رکھنے کامحتاج ہے، محبت الہی کی راہ میں سیر وسلوک کرنے والوں کے لئے دنیا میں اس کا حصول ہوتا ہے۔

اس ملاقات کی حقیقت کا سمجھنا ہمیشہ انسانی اذہان کے لئے دشوار رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے راہ انکار اختیار کرلی ہے۔

حضرت علی ـ سے خوارج میں سے ایک شخص نے سوال کیا: '' کیا آپ نے اپنے رب کو اس کی عبادت کرتے وقت دیکھا ہے؟'' آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: '' تم پر وائے ہو ! میں ان لوگوں میںسے نہیں ہوں جنھوں نے پروردگار کو نہ دیکھا ہو اور اس کی عبادت وپرستش کرتے ہوں '' اس وقت سوال کرنے والے نے اس ملاقات کی حقیقت اور ماہیت کے بارے میں سوال کیا: کس طرح آپ نے اسے دیکھا ہے ؟ آپ نے جواب دیا! ''تم پر وائے ہو ! نگاہیںدیکھنے کے وقت اس کا ادراک نہ کرسکیں لیکن قلوب حقایق ایمان کے ساتھ اسے دیکھتے ہیں''۔(٣)

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص١٢٨، ح٤۔

٢۔یونس ٦٢۔

٣۔ اصول کافی، کلینی، باب ابطال الروےة، ح ٦، اسی طرح ملاحظہ ہو امام حسین ـ کی دعا ئے عرفہ۔

۸۳

دوسری نظر: خدا وندسبحان کی بندوں سے محبت

قرآن و روایات ا ہل بیت (ع) ان آیات وروایات کے حامل ہیں جو پروردگار کی اپنے بعض بندوں سے خاص محبت ودوستی کی عکاسی کرتی ہیں، اس محبت کے خاص علائم ہیں جوصرف اور صرف خاص بندوں کو شامل ہوتے ہیں۔

البتہ خداوند سبحان کی عام رحمت و محبت، دنیوی مواہب و احکام شرعی کے قالب میں سب کو شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے کہ خدا وندعالم قرآن میںاپنی دوستی کو مجاہدین، نیکو کار افراد، زیادہ توبہ کرنے والوں، پرہیزگاروں، عدالت پیشہ افراد، صابروں، پاک وپاکیزہ افراد اور پروردگار پر اعتماد و بھروسہ کرنے والوں کی نسبت اعلان کرتا ہے۔(١)

جمال الہی کا دیداراور اس کا مشاہدہ اتنا لذت بخش اور سرور آور ہے جو ناقابل توصیف وتشریح ہے۔ جن لوگوں نے اس کے ادنیٰ مراتب کو بھی چکھا ہے وہ کبھی دیگر خیالی لذتوں سے اس کا سودا نہیں کرتے اسی وجہ سے انبیاء اور

اولیائے الہی نے اپنے محبوب سے اپنی مناجات میں مسلسل اپنے اشتیاق کااس کی بہ نسبت آشکار طور پر اظہار کیا ہے اورعرفاء اور سالکین نے اپنے اشعار اور قصائد میں جو انہوں نے بطور یادگار چھوڑے ہیں اپنے آتش عشق کے دلکش اور جاذب نظر مناظرکی، جمال محبوب کی مراد و ملاقات و شہود سے متعلق اظہار خیال کیا ہے نیز دوست کے فراق و جدائی کے غم انگیز اور حزن آور حالات کی منظر کشی کی ہے۔ ان کے نزدیک خدا کی ملاقات عرفان کی بلند ترین چوٹی اور سالکین کی سیرکا منتہیٰ ہے انھوں نے ایسی بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جن میں اس مقصد تک رسائی کے اسباب و ذرائع اور ان منازل ومراحل کو بیان کیا ہے جو اس راہ کے سالکوں کے لئے سرراہ پائے جاتے ہیں اور جو خطرات اس راہ میں ہیں ان سے بھی آگاہ کیا ہے نیز اس راہ میںجو زاد و توشہ کام آسکتا ہے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔

خدا وند عالم کی داؤد پیغمبر سے گفتگو کے درمیان مذکور ہے: ''اے داؤد! ہمارے زمین میں رہنے والے بندوں سے کہو ! میں اس کا دوست ہوں جو مجھے دوست رکھتا ہے اور اس کا ہمنشین ہوں جو مجھ سے ہمنشینی کرتا ہے اور اس کا ہمدم ہوں جو میری یاد اور نام سے انسیت حاصل کرتا ہے اور اس کے ہمراہ ہوں جو میرے ہمراہ ہے، میں اس کا انتخاب کرتا ہوں جو میرا انتخاب کرتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہوں جو میرا فرمانبردار ہے، جو انسان مجھے قلبی اعتبار سے دوست رکھتا ہے اور میں اس پریقین کرلوں تو اسے اپنے ساتھ قبول کرلوں گا ( اور اسے ایسا دوست رکھوںگا ) کہ میرے بندوں میں سے کوئی بندہ اس پر سبقت نہ کر پائے، جو انسان واقعی مجھے تلاش کرے تو پالے گا

____________________

١۔ ترتیب وار رجوع کیجئے: سورئہ صف، ٤ ؛ بقرہ ١٩٥ ، ٢٢٢ ۔ آل عمران ٧٦، ١٤٦، ١٥٩ ؛ مائدہ ٤٢، اور توبہ ١٠٨۔ منجملہ ان کے میرزاجواد ملکی تبریزی کارسالہ، ' ' لقاء اللہ''ملاحظہ ہو ۔

۸۴

اور جو کوئی میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کرے تو مجھے نہیں پائے گا، لہٰذا اے اہل زمین! دنیا کے فریبوں اور اس کی باطل چیزوںکو چھوڑ دو، اور میری کرامت، مصاحبت، ہمنشینی کے لئے جلدی کرو اور مجھ سے انس اختیار کرو تاکہ میں بھی تم سے انس اختیارکروں اور تم سے دوستی کے لئے جلدی کروں''۔(١)

٢۔توکل

اخلاق اسلامی میںایک دوسرا عام مفہوم جو نفسانی صفت پر ناظر اور انسان و خدا کے درمیان رابطہ کا بیان کرنے والا ہے''توکل''کامفہوم ہے۔ اس مختصر کتاب میںاس کے مقام و منزلت، ماہیت و درجات اورسعی و کوشش کے ساتھ اس کی نسبت کے بارے میں مطالعہ کریں گے۔

ایک۔ توکل کی حقیقت و ماہیت:

توکل کی حقیقت و ماہیت کس طر ح بیان کی جائے ؟ علماء اخلاق نے اس کی تعریف کے باب میں یہ ذکر کیا ہے: توکل یعنی اپنے تمام امور میں انسان کا خدا پر قلبی اطمینان اور اعتماد کرنا نیز تمام قدرتوں سے بیزاری اختیار کرنا ہے، البتہ انسان کے اندر اس حالت کا تحقق اس بات پر موقوف ہے کہ اس کا ایمان و یقین اور قوت قلب اس بات کو قبول کرے کہ عالم وبنی آدم کے کسی کام میں خدا کے علاوہ کوئی قوت اورطاقت موثر و کار ساز نہیں ہے اور تمام اسباب و علل قدرت الہی کے مقہور اور زیر اثرہیں اوراسی کے ارادہ کے تحت عمل کرتے ہیں کہ یہ خود توحید کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے ''توکل'' کی اصل واساس توحید ہے اورحصول توحید کے بقیہ وہ وجود میں نہیں آسکتا۔(٢) یہ اس اعتبار سے ہے کہ خداوند عالم نے امور کو ان کے اسباب و علل کی طرف اور کاموںکو ان کے فاعل کی طرف منسوب کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک طرح سے ہے اور علل اور فاعلوں کو حوادث اور افعال پر مسلّط کیا ہے؛ اگر چہ یہ تسلط اور غلبہ اصلی اور ذاتی نہیں ہے اور طبیعی علل اور انسانی فاعل تاثیر گذاری میں استقلال نہیں رکھتے، صرف خدا وند عالم ہے جو مستقل سبب اور تمام اسباب سے بالا تر ہے۔ اس بنا ء پر جب ایک عاقل اور رشید انسان نے کسی کام کا ارادہ کیا اور اس کے عادی و معمول کے مطابق اسباب و وسائل کو فراہم کیا تو وہ جانتا ہے کہ تدبیر امور میں مستقل سبب تنہا خدا ہے اورکسی قسم کی اصالت اور استقلال کا اپنے لئے نیز ان اسباب و علل کے لئے جن کا وہ استعمال کرتا ہے قائل نہیں ہے، لہٰذا وہ خداوند سبحان پر توکل کرتا ہے، اس بنا ء پر توکل کے معنی انسان یا طبیعی اسباب و علل کی جانب امور کے انتساب کی نفی کرنا اوراصالت و استقلال کو خدا سے مخصوص سمجھنا ہے(٣)

____________________

١۔ سید بن طاؤوس، مسکن الفواد، ص ٢٧۔٢۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے توکل اور توحید کو ایک ردیف میںذکرکیا ہے، رجوع کیجئے: فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٣٧٧۔٣۔ علامہ طباطبائی کی المیزان، ج ١١، ص ٢١٦ ، ٢١٧ ملاحظہ ہو۔

۸۵

دو۔ توکل کے درجات:

اخلاق اسلامی بعض علماء خداوند عالم پر توکل کے لئے تین درجات کے قائل ہیں کہ ان کا مختصر بیان درج ذیل ہے:

خداوندذ والجلال پرتوکل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اس پر اعتماد و اطمینان رکھے۔ بعینہ اس اعتما د کی طرح جو کسی وکیل پراپنے امور کی انجام دہی میں انتخاب کرکے رکھتا ہے۔ درحقیقت یہ توکل کا سب سے ادنی درجہ ہے اور آسانی کے ساتھ دسترسی کے قابل ہے اور زیادہ دن تک باقی رہتا ہے نیز انسان کے اختیار اور تد بیر سے بھی منافات نہیں رکھتا۔

توکل کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اصل توکل سے غافل اور اپنے وکیل یعنی خداوند سبحان کے بارے میں فانی ہے، بر خلاف پہلی قسم کے کہ انسان کی توجہ زیادہ تر وکالت کے قرار دادی رابطہ کی طرف ہوتی ہے۔ توکل کا یہ درجہ کم محقّق ہوتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دو دن سے زیادہ باقی نہیں رہتا ہے اور صرف خاص افراد کو حاصل ہوتا ہے انسان اس حالت میں اپنی بہتر سے بہتر کوشش گریہ اور خدا وند عالم سے دعا ودرخواست میں صرف کرتا ہے۔

توکل کا بلند ترین درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حرکات و سکنات کو خداوند عالم کے اختیار میں سمجھتا ہے۔ اس قسم اور قسم دوم میں فرق یہ ہے کہ اس میں انسان حتیٰ التماس، درخواست، تضرع و زاری اور دعا کو بھی نظر انداز کردیتا ہے اور اس بات کا اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوند عالم اپنی حکمت سے امور کی تدبیر کرتا ہے اگر چہ وہ درخواست والتماس نہ کرے۔ اس توکل کا واقعی نمونہ حضرت ابراہیم ـ کا (خداپر) توکل کرنا ہے۔ کیونکہ جب نمرودیوں نے انھیںمنجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈالا تو الہی فرشتہ انھیںیاد آوری کرتا ہے کہ وہ خدا سے امداد کی درخواست کریں، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں: ''خدا وندعالم کا میرے حال سے آگاہ ہونا، مجھے اس سے نجات کی درخواست کرنے سے بے نیاز کرتا ہے ''۔(١)

البتہ ایسی قسم ندرت سے دیکھنے میں آتی ہے اور نہایت کمیاب ہے۔ یہ صد یقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتی ہے اور اگر واقع ہو بھی گئی تو جلد ہی زائل ہوجاتی ہے اور چند لحظہ سے زیادہ اس کو دوام نہیں رہتا ۔(٢)

____________________

١۔ تفسیر قمی، ج٢، ص ٧٣ ملاحظہ ہو۔

٢۔ فیض کاشانی المحجة البیضائ، ج٧، ص ٤٠٨، ٤٠٩ ؛نراقی، ج٣، ص ٢٢٣تا ٢٢٥۔

۸۶

دوسرے رخ سے، لوگ خداوند عالم پر توکل و اعتماد کرنے میںیکساں مراتب و درجات نہیں رکھتے۔ ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے توکل کے بقدر اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اسباب و علل سے چارہ جوئی کرے۔ خداوند عالم ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے بالکل اسباب و علل طبیعی سے اپنا قطع تعلق کرلیا ہے اسی اعتماد کے تناسب سے برتائو کرے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا ہے: ''خدا نہیں چاہتا ہے کہ مومنین کی روزی اس جگہ سے فراہم کرے جہاں سے وہ گمان نہیں رکھتے''(١) خداوند عالم کا یہ برتائو ان مومنین سے مخصوص ہے جو توکل کے اعلیٰ درجہ پرفائز ہیں ؛ لیکن جو لوگ اس درجہ پرفائز نہیں ہوئے ہیں اور ان کا خدا وند عالم پر اعتماد کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و علل پر بھی اعتماد باقی ہے، خداوند عالم بھی اسباب و علل کے ذریعہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔(٢)

تین۔ توکل کی اہمیت:

قرآن کریم نے دسیوں بار صراحت اورکنایہ کے ساتھ انسان بالخصوص مومنین کو خداوند عالم پر توکل کی دعوت دی ہے اور بندوں کے اس اعتماد و اطمینان کے مقابل ان کے امور کی کفالت سے متعلق خداوند عالم کے وعدہ کا اعلان کیا ہے۔ منجملہ ان کے قرآن میں ذکر ہے: '' مومنین کو چاہئے کہ صرف اور صرف خدا پر توکل کریں''۔(٣) ''خداوند عالم توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے''۔(٤) اسی طرح خدا پر اعتماد اور توکل کے انجام کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: '' جو خدا پر اعتماد کرتا ہے اس کے لئے وہی کافی ہے ''(٥) احادیث نبوی اور اہل بیت (ع) کے ارشادات ان عبارتوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں توکل کی اہمیت اور فضیلت بیان ہوئی ہے، مثال کے طور پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: ''بے شک بے نیازی اور عزت گردش کی حالت میں ہیں وہ جیسے ہی توکل کی منزل سے گذرتی ہیں اس جگہ کو اپنا ٹھکانہ اور وطن بنالیتی ہیں''۔(٦)

____________________

١۔ کلینی، کافی، ج٥، ص٨٣، ح١۔ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٦٠۔شیخ طوسی، امالی، ص٣٠٠، ح٥٩٣۔

٢۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص٢٢٩، ٢٣٠۔

٣۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٢٢، ١٦٠۔ مائدہ ، آیت ١٢، ٢٦۔ توبہ آیت ٥٢۔ ابراہیم، آیت ١١۔ مجادلہ، آیت ١٠۔ تغابن، ١٣۔

٤ ۔سورئہ آل عمران، آیت ١٥٩۔

٥۔ سورئہ طلاق، آیت ٣۔

٦۔ کلینی، کافی ج٢، ص ٦٥، ح٣۔

۸۷

چار۔ سعی وکوشش اور توکل:

اگر چہ توکل کی حقیقت کے بارے میں غور و فکرکرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ توکل سعی وتلاش اور اسباب ووسائل سے استفادہ کرنے سے منافات نہیں رکھتا لیکن کبھی ایسا شبہہ پیش آتا ہے کہ اس کی جانب اشارہ کرنا مفید ہے۔ انسان ان امور کی نسبت جن کے اسباب و علل اس کے ارادہ سے خارج ہیں وہ توکل کے سوا کوئی چا رہ کا ر نہیں رکھتا لیکن ان حوادث کی نسبت جن کے اسباب و علل کی ایجاد اس کے ہاتھ میں ہے باوجودیکہ توکل کے سبب اسباب ووسائل کے لئے مستقل تاثیر کا قائل نہیں ہے، لیکن اس کا فریضہ ہے کہ ان کی فراہمی کے لئے کوشش کرے اور جس چیز کی سببیت کے لئے یقین یا گمان رکھتا ہے اس کا استعمال کرے اور اس حیثیت میں اپنی عقل و ہوش سے استفادہ کرے۔ کیونکہ خدا کی سنت اس بات پر قائم ہے کہ امور عالم اپنے خاص اسباب و علل کے ساتھ آگے بڑھیں، اسی بنیاد پر اس نے فرمایا ہے: '' جنگ کے موقع پر خاص طریقہ اور اسلحہ کے ساتھ نماز پڑھو''(١) '' اور اپنے لئے دفاعی قوت پیدا کرو''۔(٢) موسیٰ ـ کو حکم دیا کہ ''ہمارے بندوں کو شب (کے سناٹے) میں فرعونیوں کی نگاہوں سے بچا کر شہر سے نکال لو''۔(٣) پیغمبر اکرم نے جب ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے خداوند عالم پر توکل کے بہانہ اپنے اونٹوں کو جنگل میں چھوڑدیا تو فرمایا: ''اعقلھا و توکّل''(٤) ''اونٹ کو باندھ دو اور خدا پر توکل کرو''۔

٣۔شکر

یہ مفہوم بھی چند لحاظ سے تحقیق کے قابل ہے :

ایک۔ شکر کی ماہیت اور درجات:

شکر کی ماہیت کے سلسلہ میں متعدد عبارتیں استعمال کی گئی ہیں'' نعمت کا تصوراور اس کااظہار ''(٥) ''منعم کی نعمت کی شناخت اور اس کی بہ نسبت سرور و شادمانی، اس سرورکے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنا امور خیر پر عزم کے ساتھ، منعم کی شکرگذاری اور خداوند عالم کی راہ بندگی میں نعمت کا استعمال''(٦) اور ''اظہار نعمت''(٧) یہ ساری تعریفیں شکر کے لئے بیان کی گئی ہیں ان تمام تعریفوںکو یکجا کرکے کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت شکروہی ''نعمت کا اظہار'' ہے ۔

____________________

١۔ سورئہ نساء ١٠١۔ ٢۔ سورئہ انفال ٦١۔ ٣۔سورئہ دخان ٢٣۔ ٤۔ طوسی، امالی، ص ١٩٣، ح ٣٢٩۔٥۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ٢٧٢۔

٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج٣، ص ٢٣٣۔ اسی طرح ملا حظہ ہو فیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج٧، ص٤٤تا ١٤٦۔

٧۔ علا مہ طباطبائی، المیزان، ج٤، ص ٣٨، اور ج٦، ص ٢١٥۔

۸۸

نعمت کا اظہار ایک طرف اس کے تصورو ادراک کا مستلزم ہے اور دوسری طرف یہ اظہار مختلف مراتب اور پہلوؤں کا حامل ہے کیونکہ نعمت کے اظہار سے مراد اس کا ایسی راہ میںاستعمال کرنا ہے جس میں منعم نے ارادہ کیا ہو، اسی طرح اس کی کا ذکر اور اس کی نعمت کے لئے اس کی مدح و ثنا کرنا ہے۔ اس وجہ سے شکر سہ گانہ مراتب کا حامل ہے قلبی: (یاد کرنا ) ، زبانی (مدح و ثنا ) اورعملی۔ شکر خدا وندی سے مرادیہ ہے کہ انسان پہلے دل میں ہمیشہ اس کی نعمتوں کی طرف متوجہ ہواور اس کی نعمتوں کو یادرکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی بیکراں نعمتوں سے استفادہ کرنے کے وقت اللہ کی حمد و ستائش کے لئے زبان کھولے۔ تیسرے خدا کی نعمتوں اور اس کی برکتوں کواس راہ میںاستعمال کرے جس میں اس کی مرضی اور خواہش ہو ۔(١) شکر کے مقابل کفر ہے جو کہ اللہ کی نعمتوں کو پوشیدہ و مخفی کرنے کے معنی میں ہے۔ البتہ واضح ہے کہ اللہ کی بے شمار نعمتوں کی بہ نسبت اللہ کے شاکر بندے بھی شکر گزاری سے عہدہ بر نہیں ہو سکتے ، اس کے باوجود ادب بندگی اقتضاء کرتا ہے کہ اس راہ میں اپنی انتھک کوشش کرے۔ قرآن اللہ کی نعمتوں کی وسعت اور نوع بشر کے میزان شکر کے بارے میں فرماتا ہے: ''اور تم نے جو کچھ مانگا اس نے عطا کیا، اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرو تو ان کا شمار نہیں کرسکتے یقینا انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے''۔(٢)

دو۔ شکر کی اہمیت:

آیات و روایات میں شکر کی شرح میںذکر ہوا ہے: شکر گزاری خدا کے صفات میں سے ہے '' اور خدا شکر گزار اور برد بار ہے''۔(٣) شکر گزاری جنت میں رہنے والوں کے کلام کی ابتدا وانتہا ہے: ''شکر اس خدا کا جس نے ہم سے کئے گئے اپنے وعدہ کو ہم پر سچ کردکھا یا ''(٤) اور ان کی مناجات کا آخری کلام یہ ہے: ''الحمد لله رب العالمین ''۔(٥) خدا وند عالم نے شکر گزاری کو ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب سے روکنے کا باعث قرار دیا ہے: '' اگر شکر گذار بنو اور ایمان لے آؤ تو خدا تم پر عذاب کر کے کیا کرے گا ؟ ''(٦)

____________________

١۔ شکر کے مراتب کو معتبر و مستند احادیث کے مضامین سے استنباط کیا جا سکتا ہے ؛ جیسے کافی، ج٢، ص ٩٦، ح ١٥، اور ص ٩٥، ح٩، ١١۔

٢۔ سورئہ ابراہیم، آیت ٣٤، اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف، آیت ١٠ اور ١٧، سورئہ یونس، آیت ٦٠ اور سورئہ غافر، آیت ٦١۔

٣۔ سورئہ تغابن، آیت١٧ اسی طرح ملاحظہ ہوسورئہ نساء آیت ١٤٧۔

٤۔ سورئہ زمر ٧٤۔ ٥۔ یونس ١٠۔ ٦۔ نساء ١٤٧۔

۸۹

شکر گزاری کی فضیلت میںاتنا ہی کافی ہے کہ خداوندعالم صریحی طور پر بندوںکو اس کا حکم دیتا ہے: '' اور میرا شکر بجا لاؤ اور میرے ساتھ ناشکری نہ کرو ''(١) حضرت امام زین العابدین ـ کے بقول خداوند عالم کا شکر ادا کرنا انسان کو اللہ کی خاص محبت کے دائرہ میں قرار دیتا ہے: '' حقیقت میںخداوندعالم ہر محزون وغمزدہ دل اور ہر شکر گذار و قدرداں بندہ کودوست رکھتا ہے '' ۔(٢) اس وجہ سے حق شناسی اور شکر گزاری خداوند عالم اور انسان کے درمیان رابطہ بر قرارکرنے و الے اساسی وبنیادی عناصر میں سے ہے یہ انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ ہے جس کی اصل الہٰی نعمتوں اور برکتوں کے ادراک اور ان کی نسبت قلبی اعتراف میں پوشیدہ ہے۔قابل ذکر بات ہے کہ ''شکر ''اپنے مجموعی مفہوم کے اعتبار سے لوگوں کی شکر گزاری بھی لوگوں کی خدمتوں کے سلسلہ میں شامل ہے اس طرح کے شکر کے سلسلہ میں اخلاق معاشرت کی بحث میںگفتگو کی جاتی ہے۔

تین۔ شکر خداوندی کا دنیوی نتیجہ:

سب سے اہم دنیوی اثر جو دینی کتابوں میں شکر گزاری کے لئے بیان کیا گیا ہے، پروردگار کی نعمتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: ''جب کہ تمہارے رب نے اعلان کیا کہ اگر شکر کروگے تو(نعمت) کو تم پر زیادہ کردوں گا اور اگرناشکری کروگے تو یقینا میرا عذاب سخت ہے''۔(٣) یہ حقیقت بہت سی روایات میں بیان ہوئی ہے ؛ منجملہ ان کے حضرت علی ـ نے فرمایا: ''خداوند عالم کسی بندہ پر شکر گذاری کا دروازہ نہیں کھولتا، اس حال میں کہ نعمت کا دروازہ اس پر بندکردے '' ۔(٤)

یہ سوال ہمیشہ ہوتا رہتا ہے کہ آیا خداوند سبحان کی شکر گزاری بندوں کے لئے مقدور ہے؟کیونکہ سپاس گذار ی کی توفیق اور اس کی قوت خود خدا کی ایک نعمت ہے اور دوسرے شکر کامستلزم ہے۔ اگراس فریضہ کاانجام دینا انسان کے امکان سے خارج ہے، توپھر کس طرح ا نسان کو اس کے کرنے کاحکم دیتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ''وہ باتیں جن کی خداوندعالم نے موسٰی ـ کووحی کی تھی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ موسیٰ میراشکر ایسا اداکرو، جو میرے شایان شان ہو '' موسٰی ـ نے جواب میں پوچھا: خدایا! کس طرح تیری شکرگذاری کا حق ادا کروں جب کہ ہرطرح میری شکرگذاری خود ہی ایک دوسری نعمت ہے ؟ خدا نے جواب میں فرمایا: اب (جب کہ تم نے جان لیا کہ تمہارا شکر کرنا خود ہی ایک دوسری نعمت ہے) تم نے میرے شکرکا حق ادا کردیا '' ۔(١) یعنی شکر الہی کا حق یہ ہے کہ انسان اپنی آخری کوشش کو اس راہ میں صرف کرے، اسی کے ساتھ یہ یقین رکھتاہو کہ اللہ کے شایان شان شکر ادا نہیں ہوسکتا۔

____________________

١۔ بقرہ ١٥٢ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ اعراف ١٤٤ اور سورئہ زمر ٦٦۔٢۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٩ح٣٠۔ ٣۔ ابراہیم ٧۔ ٤۔ نہج البلاغہ، حکمت ٤٣٥؛ کافی، ج ٢، ص ٩٤، ح٢اورص ٩٥، ح ٩ ؛ امالی، ص ٥٩۔

۹۰

ب۔ نفس کا اپنی عاقبت کی طرف رجحان

بعض عام اخلاقی مفاہیم انسان کے نفسانی حالات کے نظام کو اپنی عاقبت اور انجام کار کے لئے وجود میں لاتے ہیں وہ اہم ترین مفاہیم جو اس باب میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں: خوف، رجائ، مایوسی، نا امیدی اور تدبیر خداوندی سے حفاظت۔ چونکہ یاس و ناامیدی ''خوف وخشیت '' کے لئے نقصاندہ اور تدبیر خداوندی سے حفاظت، امید و رجاء کے لئے بلا شمار ہوتی ہے، نتیجہ کے طور پر بحث و گفتگوکا موضوع اس حصہ میں'' خوف و امید '' ہے اور دیگرمفاہیم انھیںدو عنوانوں کے تحت زیر بحث قرار پائیں گے۔

١۔خوف

الف۔ خوف کا مفہو م:

خوف یعنی مستقبل میں یقینی یاظنّی علامتوں کی بنیاد پر انسان کے لئے کسی ایسے ناگوار واقعہ کے پیش آنے کا احتمال(٢) جو فطری طور پر درد مندی اور پریشانی کا باعث ہے۔(٣) اس بناپر ''خوف'' ''بزدلی'' سے اساسی فرق رکھتا ہے کیونکہ'' جبن (بزدلی ) '' سے مراد ہے خود کو دفاع اور انتقام وغیرہ سے ایسی جگہوں پر روکنا جہاں شرعی اور عقلی دونوں لحاظ سے اس کا اقدام کرنا جائز اور بہتر ہے۔(٤)

____________________

١۔ کافی، کلینی، ج٢، ص٩٨، ص٩٨، ح٢٧ملاحظہ ہو۔

٢۔ راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ قرآن، ص ١٦١۔

(٣۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٤٩؛ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص٢٠٩۔

٤۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٠٩۔

۹۱

علماء اخلاق نے پہلی تقسیم میں خوف کو دو پسندیدہ اور ناپسندیدہ قسم میں تقسیم کیاہے۔ ناپسند خوف وہی خدا کے علاوہ کسی دوسری چیز سے خوف کھانا ہے اور خوف پسندیدہ عذاب خداوندی اور برے انجام سے خوف کھاناہے اور حقیقت میں اپنی بری رفتار اور اعمال کے ناگوار عواقب سے خوف کھانا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث کا موضوع پسندیدہ خوف ہے۔

ب۔ خوف کے درجات:

اخلاق اسلامی کی مشہور کتابوں میں ''ورع'' ''تقویٰ'' اور ''صدق'' کو ''خوف '' کے درجات میں شمار کیا گیا ہے اس طرح سے خوف کا سب سے معمولی درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا باعث ہو کہ انسان اخلاقی ممنوعات ومنہیات کے ارتکاب سے پرہیز کرے۔ ''خوف ''کے اس درجہ کو ''ورع ''کہتے ہیں۔ اور جب خوف کی قوت اورطاقت میںاضافہ ہوجائے اور وہ اس بات کا باعث ہوکہ انسان محرمات کے ارتکاب کے علاوہ مشکوک و مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے تو اسے تقویٰ'' کہتے ہیں۔ تقویٰ میں صداقت یہ ہے کہ حتی بعض جائز و مباح امور کے ارتکاب سے بھی پرہیز کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حرام کے ارتکاب کی راہ ہموار کردے اور آخر کار جب انسان خدا سے شدت خوف کی وجہ سے سراپا آمادئہ خدمت ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ کوئی گھر نہیں بناتا اور نہ کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اسے ایک دن چھوڑ جائے گا اور کوئی سانس بھی غیر خدا کی راہ میں نہیں لیتا تو درحقیقت اس نے ''صدق ''کی وادی میںقدم رکھ دیا ہے اور ایسے مرتبہ کے مالک کو صدّیق کہتے ہیں اس بنا پر مقام ''صدق'' اپنے اندر تقویٰ و ورع بھی رکھتا ہے اور تقویٰ و ورع کا حامل بھی ہے البتہ ''ورع'' عفّت کے ساتھ بھی ہے کیونکہ عفّت نفسانی شہوات وخواہشات سے پرہیز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے لیکن اس کے بر عکس صادق نہیں ہے۔(١)

ج۔ خوف کی اہمیت:

اولاً

خدا کا خوف انسان کے لئے سعادت حاصل کرنے میں بڑا بنیادی کردار اداکرتا ہے، کیونکہ پہلے بیان کئے گئے مباحث کی روشنی میں انسان کی سعادت پروردگارسے ملاقات اور اس کے جوار میں سکونت اختیارکرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ بات انس ومحبت الہی کے سایہ ہی میں ممکن و میسر ہے اور وہ خود معرفت الہی پر منحصر ہے اور معرفت خود فکر کی مرہون منت ہے اور انس محبت وذکرپر منحصر ہے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢١٩، ٢٢٠۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص ٢٧٠ ، ١ ٢٧۔

۹۲

فکر وذکر الہی اس وقت ہوتا ہے جب انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت سے الگ کر لے اور دنیا سے قلبی لگاؤ کو قطع کرنے کے لئے شہوتوں اور لذتوں سے کنارہ کشی کرنے کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اور خوف خدا وندی کی آگ لذتوں اور شہوتوںکی راہ میں ایک کار آمد اسلحہ ہے۔(١) نتیجةً خوف الہی انسان کا مقصد کی طرف حرکت کرنے کا پہلا سنگ بنیاد ہے۔

ثانیاً،

بہت سی آیات وروایات مختلف انداز سے خدا کے خوف کی اہمیت و منزلت پر تاکید کرتی ہیں۔ منجملہ ان کے قرآن نے خدا سے خوف کرنے والوں کورحمت و رضوان و ہدایت کا وعدہ دیا ہے: ''ان لوگوں کے لئے جو اپنے رب کاخوف رکھتے تھے ہدایت و رحمت تھی''۔(٢) ''خدا ان لوگوں سے راضی و خوشنود ہے اور وہ لوگ بھی اس سے راضی و خوشنود ہیں یہ جزا اس کی ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے''۔(٣) اسی طرح قرآن خوف کا دعوی صرف حقیقی عالموں سے قبول کرتا ہے: ''خدا کے بندوں میں صرف علماء ہیں جواس سے ڈرتے ہیں''۔(٤) دوسری جگہ خوف کو ایمان کے لوازم میں شمار کیا ہے: ''مومنین وہی لوگ ہیںکہ جب خدا کاذکر ہو تو ان کے دل خوفزدہ ہوں''(٥) سر انجام قرآن نے خدا ترس لوگوں سے بہشت کا وعدہ کیا ہے: '' اور رہے وہ جو خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے ہراساں ہیں اور اپنے نفس کو ہواو ہوس سے روک رکھا ہے، اس کا ٹھکانہ بہشت ہے ''۔(٦) خداوندعالم کی حضرت عیسیٰ ـسے گفتگو میں مذکور ہے: ''اے عیسیٰ ! مجھ سے ڈرواور میرے بندوں کو میری نسبت خوف دلاؤ، شاید گناہگار لوگ جو وہ گناہ کرتے ہیں اس سے باز آجائیں اور نتیجہ کے طور پر ہلاک نہ ہوں سوائے ان کے جو جانتے ہیں''۔(٧)

____________________

١۔ ایضاً۔

٢۔ اعراف ١٥٤۔

٣۔ بینہ ٨۔

٤۔ فاطر ٢٨۔

٥۔انفال ٢ ۔ آل عمران ١٧٥۔

٦۔ نازعات ٤٠، ٤١۔

٧۔) کافی، ج ٨، ص ١٣٨، ح ١٠٣۔

۹۳

د۔ خوف کے بارے میں ہوشیاری:

خداوند ذو الجلال سے خوف کھانا وادی قرب الہی میں بندوں کے سلوک کے لئے ایک تازیانہ ہے۔ جیسا کہ اس تازیانہ کا کمزور ہونا یا فقدان، الہی راہ کے سالکوں کے لئے بے زادو راحلہ بنادیتا ہے، حد سے زیادہ اس کی زیادتی بھی امید کی کرن کو اس کے دل میں منزل مقصود تک پہونچنے کے امکان میں خاموش کردے گی اور حرکت کرنے کی طاقت بھی اس سے سلب کرلے گی۔ لہٰذا خدا وند عالم سے خوف میں افراط کرنا رحمت الہی سے قنوط ومایوسی ہے جو خوف خدا کی عظیم آفت ہے۔ اور اخلاقی برائی شمار ہوتی ہے ]بعض ارباب لغت نے قنوط کو مایوسی کا شدید درجہ سمجھتے ہیں ۔(١) اسی بنیاد پر قرآن کریم رحمت خداوندی سے مایوسی کو محض گمراہی تصور کرتا ہے: '' کون ہے جز گمراہوں کے جو رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے ؟ ''(٢) اور دوسری جگہ رحمت خداوندی سے مایوسی کو کا فروںکا شیوہ تصور کرتا ہے: '' یقینا ً کافروں کے سوا کوئی رحمت الہی سے مایوس نہیں ہوتا ''۔(٣) بہت سے موارد میںانسان کاخوف زندگی کے برے انجام اور شوم عاقبت سے ہوتا ہے ؛ خوف اس بات کا کہ کہیں انسان کفر کی حالت یا خدا کے انکار یا شک وتردید کی حالت میں دنیا سے چلا جائے یا ایسے حال میں دنیا چھوڑے کہ اس کا دل خدا کی محبت اور اس کے انس سے خالی ہو، نتیجہ کے طور پر اپنے اعمال سے شرمندہ اور عذاب الہی میںگرفتار ہو۔ واضح ہے کہ جو بھی ایسا خوف و ہراس دل میں رکھے گا اسی وقت سے اپنی را ہ وروش اور گفتار کو بدلنا چاہے گا اور یہ وہی خدا سے خوف رکھنے کی فضیلت کا رمز ہے۔

٢۔ امید

الف۔ امید کا مفہوم: '' رجائ'' (''امید '' ) سے مراد قلبی سکون کا احساس ہے اور وہ کسی ایسے امرکے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں ہے جو محبوب اور خوش آیند ہے، البتہ ایسی صورت میں جبکہ اس محبوب امر کے اکثر اسباب اور موجبات محقق وثابت ہوں۔ لیکن جب اسباب کاوجود یا عدم معلوم نہ ہو تو ایسے انتظار کو '' تمنا'' اور '' آرزو'' کہا جاتا ہے۔ اگر امر محبوب کے وجود کے اسباب و علل فراہم نہ ہوں اور اس کے باوجود انسان اس کے تحقق کا انتظار رکھتا ہو توایسے انتظار کو '' فریب '' اور ''حماقت '' کہتے ہیں اور کبھی اس پر رجاء و امید کامفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ ''امید ''بھی '' خوف وہراس '' کے مانند ایسی جگہ ذکر کی جاتی ہے جہاں واقعہ کا ظاہر ہونا عام طور سے محتمل ہو نہ کہ قطعی۔ اس وجہ سے امید سورج کے طلوع یا غروب کے متعلق جس کا تحقق قطعی ہے ، صحیح نہیں ہے۔(٤)

____________________

١۔ ملاحظہ ہو ابو ہلال عسکری اور نور الدین جزائری کی کتاب معجم الفروق اللغوےة، ص ٤٣٥، ٤٣٦۔ ٢۔ سورئہ حجر، آیت ٥٦۔ ٣۔ سورئہ یوسف، آیت ٨٧۔ ٤۔ ملافیض کاشانی، محسن، المحجة البیضائ، ج ٧، ص٢٤٩۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج١، ص ٢٤٤۔

۹۴

ب۔ امید کی اہمیت:

قرآن وروایات میں رحمت خداوندی ا ور نیک انجام سے امید مختلف جہات اور اسالیب میںمورد تاکید وترغیب واقع ہوا ہے کہ ذیل میں ان کے صرف اصلی محور کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ وہ آیات وروایات جو رحمت خداوندی سے اس مایوسی اور نا امیدی کی مذمت میںہے جو '' امید '' کے مقابل ہے، وارد ہوئی ہیں، ان میں سے بعض بیان ہوچکی ہیں۔

٢۔ وہ آیات وروایات جو بندوں کو واضح طور پر فضل خداوندی کا امید وار بناتی ہیں اور اس کی تشویق وترغیب کرتی ہیں؛ منجملہ ان کے یہ ہے کہ خداوند ذوالجلال رسول اکرم سے فرماتا ہے: ''عمل کرنے والے (مومنین ) ان اعمال پر اعتماد نہ کریں جو میرے ثواب کے حصول کے لئے انجام دیتے ہیں، کیونکہ اگر اپنی تمام عمر میری عبادت کے لئے کوشاں ہوںاور زحمت کریں اس کے بعد بھی کوتاہی کی ہو اور میری عبادت کی کنہ و حقیقت کو کہ جس کے سبب سے وہ کرامت جو میرے نزدیک ہے اور میری بہشت کی نعمتوںکو تلاش کرتے ہیں، نہیں پہونچ سکتے، بلکہ انھیںچاہئے کہ میری رحمت پر اعتماد کریں اور میری بخشش کے امید وار رہیں''۔(١)

٣۔ قرآن وروایات میں مذکور ہے کہ فرشتے اور اللہ کے انبیاء ہمیشہ مومنین کے لئے خداوند عالم سے عفو و بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور یہ خود رحمت خداوندی سے امید رکھنے کا باعث ہے۔

قرآن میں مذکور ہے: ''فرشتے اپنے پروردگار کی حمد میں تسبیح پڑھتے ہیں اوران لوگوںکے لئے جو زمین میں ہیں عفو وبخشش طلب کرتے ہیں''۔(٢)

٤۔ وہ آیات وروایات جو اللہ کے بے کراں عفو ومغفرت پر دلالت کرتی ہیں: ''یقیناً تمہارا رب لوگوں کی نسبت ان کے ستم کے باوجود بخشنے والاہے''۔(٣)

اسی طرح جو کچھ پیغمبر اکرم کی شفاعت کے بارے میں ان کی امت کی نسبت وارد ہوا ہے،(٤) یا وہ آیات وروایات جو اس بات کو بیان کرنے والی ہیں کہ جہنم صرف اور صرف کافروں کے لئے فراہم کی گئی ہے،(٥) یا مومنین کے آتش (جہنم ) میں ہمیشہ رہنے کی نفی کرتی ہیں، اسی طرح گناہگاروں کو عفو و گذشت کی درخواست میں جلدی کرنے کی دعوت دیتی ہیں یہ تمام آیات وروایات درحقیقت خداوندعالم سے امید رکھنے اور حسن عاقبت کی تشویق کرتی ہیں۔(٦)

____________________

١۔ کافی، ج٢، ص٧١، ح ١۔ ٢۔سورئہ شوری، آیت٥۔ ٣۔سورئہ رعد، آیت ٦۔ ٤۔ سورئہ ضحی کی پانچویںآیت کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

٥۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣١۔ ٦۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٢٤٧ تا ٢٥٤۔

۹۵

ج۔ امیدکے نقصانات:

خداوندعالم کی رحمت سے امید اور نیک انجام کی توقع رکھنے سے دو لحاظ سے شدت کے ساتھ خطرہ محسوس ہوتاہے کہ ذیل میںا ن کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

١۔ بغیر عمل کے امید وارہونا:

'' امید '' کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ کسی خوش آیند امر کے تحقق کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی کو اس صورت میں امید واری کا نام دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اکثر وبیشتر اسباب وعلل فراہم ہوں ورنہ خوش آیند سر انجام کا انتظار بغیر اس کے اسباب کے تحقق کے '' حماقت ''اور ''غرور'' کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی۔

امیدواری کی ایک اہم ترین مشکل درواقع جھوٹی اور بے بنیاد امیدیں ہیں، اسلام کے اخلاقی نظام میں سعادتمندی اور نیک بختی صرف عمل صالح کی راہ سے گذرتی ہے لیکن بہت سے ایسے افراد ہیں جو بغیر کوشش اور نیک عمل کے، نیک اور اچھے انجام کی امیدکے داعویدار ہیں۔ حضرت علی ـ اس گرو ہ کو ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں''کیا تم امید رکھتے ہو کہ تمہیںخدا متواضع افراد جیسا اجر دے دیگا جب کہ تم اس کے نزدیک سرکشوں میں شمار سے ہو اور صدقہ دینے والوں کے ثواب کی آرزو رکھتے ہو جب کہ تم نعمت سے مالامال ہو اوراسے بے چاروں اور بیوہ عورتوں پر خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہو !آدمی نے جو کچھ کیا ہے وہ اسی کی جزا پاتا ہے اور جو اس نے پہلے روانہ کیا ہے اسی پر وارد ہوتا ہے''۔(١)

٢۔ تدبیر خداوندی سے اپنے کو محفوظ سمجھنا:

خداوند رحمان کی بخشش کا حد درجہ امیدوار ہونا تدبیر خداوندی (سزائے الہی) سے بے خوفی کا احساس دلاتا ہے جو کہ اخلاقی رزائل میںسے ایک ہے۔ خود کو اللہ کے عذاب سے محفوظ سمجھنا خوف الہی سے منافات رکھتا ہے، نیز تدبیر الہی سے امان کا احساس انسان کو گناہ و عصیان میںغوطہ لگانے کا آغاز ہے۔ اسی بنیاد پر انبیاء واولیاء خود کو امن وامان میں نہیں سمجھتے تھے اور ہمیشہ عذاب خداوندی سے خوفزدہ رہتے تھے۔ قرآن کریم تدبیر خداوندی سے امان کے احساس کی مذمت میں فرماتا ہے: ''آیا انہوں نے خود کو تدبیر خداوندی سے امان میں خیال کیا ہے ؟ (باوجودیکہ) خسارہ اٹھانے والے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی خود کو تدبیر الہی سے محفوظ نہیں سمجھتا''۔(٢)

____________________

١۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٢١، اور ملاحظہ ہو خطبہ ١٦٠، حکمت١٥٠ حرانی، تحف العقول، ص ٢ ۔ کافی، کلینی، ج٢، ص ٦٨، ح٥۔

٢۔ اعراف ٩٩۔

۹۶

۳۔ خوف ورجاء کے درمیان مناسبتیں:

اس سلسلہ میں دورخ سے توجہ کی جاسکتی ہے: ایک قلب انسان پر ان میں سے ہر ایک کی کیفیت اور اثر کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کیا مقام ومنزلت اور کیا اہمیت رکھتے ہیں ،یعنی یہ کہ آیا امید، خوف سے زیادہ اہم چیز ہے یا اس کے عکس (خوف امید سے زیادہ اہم ہے؟)

پہلی بات تویہ ہے کہ خوف ورجاء گذشتہ مفہوم کے اعتبار سے اصل وجود میں ایک دوسرے کی نسبت لازم وملزوم ہیں ؛ کیونکہ ''خوف '' کسی ناگوار امر کے وقوع اور آئندہ ممکن الحصول چیز کے انتظار کے نتیجہ میں قلبی گھبراہٹ اور پریشانی ہے ، اس وجہ سے جس طرح اس کا واقع ہونا احتمال رکھتا ہے اسی طرح اس کاواقع نہ ہونا بھی احتمال رکھتا ہے نیز جس طرح اس کا واقع ہوناناگوار اور نا خوش آیند ہے اسی طرح اس کا واقع نہ ہونا بھی خوش آیند اور اس کے عدم کا انتظار خودہی مایۂ امید ہوگا۔اس وجہ سے ہرامید اپنے دامن میں خوف و ہراس رکھتی ہے اور اس کے برعکس ہر خوف و ہراس بھی اپنے دامن میں امید رکھتا ہے۔ رہا اس سوال کا جواب کہ ان دونوں کا اثر انسان پر کس درجہ ہے؟ کہا جا سکتا ہے: یہ نسبت اسی اندازہ اور میزان کے ساتھ ہونی چاہیے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی دوسرے کے اثر حرکت اور کارآمد ہونے کو کم نہ کرے، کیونکہ خوف و رجاء عمل صالح اور خداوند عالم سے تقرب کا ذریعہ ہیں، اور یہ اس وقت ثابت ہوگا جب دونوں ہی تعادل وتوازن کے ساتھ( میانہ حالت پر) ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اہمیت کے اعتبار سے جب دونوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کیا جائے تو یہی ذہن میں آتا ہے کہ اس قیاس کو دوسطح میں انجام دیا جا سکتا ہے: ١ فرداًفرداًافراد اور مصادیق کے اعتبار سے، ٢ مصادیق سے صرف نظر کرکے تنہاخوف ورجاء کی حقیقت پر غور کرتے ہوئے افراد کی نسبت ان دونوںمیں سے ہر ایک کا مقدم ہونا فردکی حالت سے وابستہ ہے۔ بعض کو ''امید '' متحرک کردیتی ہے تو بعض کو ''خوف '' متحرک بنادیتا ہے۔ واضح ہے کہ مناسب دوا ہرایک کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن معین افراد واشخاص سے قطع نظر اور خوف و رجاء کی حقیقت کے پیش نظر بعض آیات(١) و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر عمل خداوندرحمان پر امید کے ذریعہ انجام پائے تو اس عمل پر جو خوف کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ برتری رکھتا ہے۔ منجملہ ان کے حضرت علی ـسے نقل ہوا ہے: ''رحمت الہی کی امید خوف الٰہی سے زیادہ قوی ہے۔کیونکہ خداوندعالم سے تمہارا خوف کھانا تمہارے گناہوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن خدا سے تمہاری امید اس کی بخشش سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا خوف تمہاری طرف سے ہے اور امید اس کی طرف سے''۔(٢) دعائے جوشن کبیر میں وارد ہوا ہے:''یا من سبقت رحمته غضبه'' اے وہ ذات جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

____________________

١۔ فصلت ٢٣ اور فتح ١٢۔ ٢۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدیدمعتزلی، ج٢٠، ص ٣١٩ ،ح ٦٦٦۔

۹۷

ج۔ نفس کا خود اپنی طرف رجحان

نفس انسانی کے اپنی نسبت رجحان کا تعادل وتوازن بعبارت دیگر اپنے کام سے متعلق صحیح جانچ پڑتال رکھنا اخلاق اسلامی میں عام مفاہیم کے دوسرے گروہ کا ہدف ومقصد ہے۔ سب سے اہم وہ مفہوم جو انسانی کے اپنی نسبت مثبت رجحان اور صحیح جانچ پڑتال کا ذریعہ بیان کرتا ہے وہ '' انکساری '' یا '' خود شکنی '' اور '' تواضع '' ہے۔

١۔ انکسار نفس

نفس کی انکساری اور خود شکنی سے مراد یہ ہے کہ انسان بغیر اس کے کہ اپنا کسی غیر سے مقایسہ کرے خود کو سب سے حقیر چھوٹا سمجھے نیز خود پسند اور اپنے آپ سے راضی نہ ہو، خود شکنی تواضع کا سرچشمہ ہے اور بغیر اس کے تواضع محقق نہیں ہوتی۔ اس بنا پر جو کچھ تواضع کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں بیان کیا جائے گاوہ سب فروتنی اور خود شکنی کی فضیلت پر بھی دلالت کرے گا، اور شاید اسی وجہ سے آیات و روایات میں زیادہ تر ''تواضع '' کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور انکساری نفس اور خود کو حقیر شمار کرنے کے بارے میں کم ذکر آیا ہے۔ انکساری نفس کی فضیلت کے مختلف پہلوئوں کو جب اس کے موانع سے مقایسہ کریں اور ان کے متضاد مفاہیم پر غور کریں تو بخوبی دریافت کرسکتے ہیں، یہ موانع درج ذیل ہیں:(١)

پہلی نظر عُجب(خود پسندی)

عُجب خود ستائی اور غرور فروتنی اور خودکو حقیر شمار کرنے کے اصلی و بنیادی موانع میں سے ایک ہے، چونکہ خودستائی حقیقت میں خود پسندی کی علامت اور اس کے ملحقات میں سے ہے لہذا ہم موانع کی بحث کو خود پسندی اور غرور کے محور پر بیان کریں گے۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٤٣ملاحظہ ہو۔

۹۸

الف۔ عُجب کا مفہوم:

عُجب یعنی خود کو اس کمال کی وجہ سے عظیم اور بلند سمجھنا ا جو وہ اپنے اندر سمجھتا ہے خواہ وہ کمال واقعاً اس میں پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو، نیز جس چیز کو وہ کمال تصور کررہا ہے واقعاً بھی کمال ہو یا نہ ہو اس وجہ سے خود پسندی میں بھی انکسار نفس اور فروتنی کے مانند دوسرے سے مقایسہ نہیں پایا جاتا ہے اور بغیر اس کے کہ انسان اپنا دوسروں سے مقایسہ کرے اپنے اندرپائے جانے والے واقعی یاخیالی کمال کے تصوّر کی وجہ سے نیز اس بات سے غفلت کے سبب کہ ہر کمال خدا کی جانب سے ہے، اپنے آپ پر مغرور اور راضی و خوشنود ہے اور اپنی حالت کوپسند کرتا ہے۔ بر خلاف ''کبر '' کے کہ متکبر انسان اپنے آپ سے راضی و خوشنود ہونے کے علاوہ خود کو دوسروں سے مقایسہ کرکے اور اپنے آپ کو غیروں سے بہتر سمجھتا ہے نیز اپنے لئے دوسروں کے مقابل حق اور اہمیت و امتیاز کا قائل ہے(١)

اس بنا پر، ''کبر'' کا محقق ہونا اس بات کا مستلزم ہے کہ'' عُجب '' بھی پایا جائے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں عُجب و خود پسندی ہووہاں کبر بھی ضروری ہو۔کبھی انسان کی خود پسندی اس درجہ بڑھ جاتی ہے کہ جو اس کے اندر کمال پایا جاتا ہے اس کی وجہ سے اپنے لئے خدا وند عالم سے حقوق اور مطالبات کا انتظار کرتا ہے اور اپنے لئے خدا کے نزدیک حیثیت و مرتبہ کا قائل ہو جاتا ہے، اس طرح سے کہ ناگوار حوادث کا وقوع اپنے لئے بعید سمجھتا ہے ایسی حالت کو ''ادلال'' کہا جاتا ہے ،درحقیقت یہ حالت خود پسندی کا سب سے بڑا اور بدترین درجہ ہے۔(٢)

ب۔ خود پسندی کی مذمت :

قرآن کریم میں بارہاخود پسندی کی مذمت کی گئی ہے، منجملہ ان کے جنگ حنین میں مسلمانوں کی شکست کی علّت بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: ''یقیناً خداوندرحمان نے تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کی ہے اورحنین کے روز بھی جب کہ تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں فخر وناز میں مبتلا کر دیا تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم دشمن کی طرف پیٹھ کر کے فرار کر گئے''۔(٣)

اس آیت میں خود پسندی کا ذکر اخلاقی برائی کے عنوان سے ہوا ہے جو کہ لشکر اسلام کی شکست کا باعث بن گئی ۔ پیغمبر اکرم سے منقو ل ہے کہ خدا وند عالم نے حضرت داؤد ـ سے فرمایا: ''اے داؤد! گناہگاروں کو بشارت دے دو اور صدیقین (سچے اور پاک باز لوگوں کو ) ڈراؤ۔

____________________

١۔ نراقی، محمد مہدی، جامع السعادات، ج ١، ص ٣٢١، ٣٢٢ملاحظہ ہو۔ ٢۔ ایضاً، ص٣٢٢۔٣۔ سورئہ توبہ، آیت٢٥۔ اسی طرح ملاحظہ ہو سورئہ حشر، آیت ٢۔ سورئہ کہف، آیت ٤٠۔ اور سورئہ فاطر، آیت ٨۔

۹۹

داؤد ـ نے عرض کی: گناہگاروں کو کس طرح مژدہ سنائوں اورصدیقین کوکیسے ڈراؤں ؟ خدا نے فرمایا: اے داؤد! گنہگاروں کو اس بات کی خوش خبری دو کہ میں توبہ قبول کروں گا اوران کے گناہوں کو معاف کر دوں گا اور صدیقین کو ڈراؤ کہ اپنے اعمال پر اترائیں نہیں ، کیونکہ کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جس کا محاسبہ کروں مگر یہ کہ وہ ہلاک ہو۔(١)

بے شک خود پسندی اور خود بینی اخلاق اسلامی کی رو سے نہ صرف ایک غیر اخلاقی عمل ہے بلکہ اخلاقی رذائل کی ایک شاہراہ ہے اورجو تعبیریں دینی کتابوںمیں اس کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں وہ اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہیں۔(٢)

ج۔خود پسندی کے اسباب:

اسلامی اخلاق کے عالموںنیخود پسندی کے بہت سے اسباب و عوامل ذکر کئے ہیں کہ ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:

١۔ جسمانی بنیاد پر خود پسندی، جیسے خوبصورتی، جسم کا تناسب، اس کی صحت اور اس کا قوی ہونا، خوش آواز ہونا ِ اور اس کے مانند۔

٢۔ اقتداراور قدرت کے احساس کی بنا پر خود پسندی، جیسا کہ خدا وندعالم قوم عاد کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ لوگ اسی طرح کے توہم کا شکار ہوکر بولے: '' ہم سے زیادہ قوی کون ہے(٣) ؟'' اس طرح کی خود پسندی عام طور پر جنگ اور ظلم وستم ایجاد کرتی ہے۔

٣۔ عقل ودانش، ذہانت وآگاہی اور دینی اور دنیوی امور کے بارے میں دقیق اور وسیع علم رکھنے کی بنیاد پر خود پسندی۔ اس طرح کی خود پسندی کا نتیجہ خود رائی، ہٹ دھرمی، مشورہ سے بے نیازی کا احساس، دوسروں کو جاہل خیال کرنا اور عالموں اور دانشوروں کی باتوں کو سننے سے پرہیز کرنا ہے۔

٤۔ انتساب کی وجہ سے خود پسندی یعنی باشرف نسب اور با عظمت بزرگوں کی طرف منسوب ہونے کی بنا پر جیسے بنی ہاشم کی طرف منسوب ہونااور سید ہونا یا بزرگ خاندان سے تعلق یاشاہان وسلاطین کی طرف انتساب۔ انسان کاایسا خیال اپنے لئے لوگوں کی خدمت گذاری کی چاہت پیدا کرتا ہے۔

____________________

١۔ اصول کافی، کلینی، ج٢، ص ٣١٤، ح٨۔

٢۔ علامہ مجلسی ،بحار الانوار، ج ٧١، ص ٢٢٨تا ص ٢٣٥۔ کافی، ج ٢، ص ٣١٣، ٣١٤۔

٣۔ سورئہ فصلت، آیت ١٥۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

چغل خوری

چغل خوری ایک انتہائی بری عادت ہے کہ جو بد قسمتی سے بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں بری بات کرتو چغل خور اسے اگے پہنچاتا ہے اور کہتا ہے فلان نے تیرے بارمیں ایسا ویسا ہا ہے چغل خوری پست فکری اور شیطنت کی صفات میں سے ہے _ اس سے ایک دوسرے کے درمیان کینہ اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے _ دوستوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے _ بہت سے جرائم ، جھگڑے ، قتل ، لڑائیاں اسی چغل خوری کا نتیجہ ہوتی ہیں _ کتنے گھروں کو اس عادت نے خراب کردیا ہے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ چغل خور لوگوں کے راز فاش کرتا ہے _ جب کہ خدا اس امر پر راضی نہیں ہے _ چغل خور کی لوگوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی _ اسے شیطان ، جاسوس اور بدذات سمجھا جاتا ہے ، زیادہ تر لوگ اس سے ہم نشینی اوردوستی سے گریز کرتے ہیں اور اس پر اور اس کے والدین پر لعنت بھیجتے ہیں _ بدترین چغل خوری ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا اور ٹوہ لگانا ہے _ اگر کوئی شخص کسی ظالم کے لیے جاسوسی کرے اور کسی مسلمان کو مصیبت میں پھنسادے _ اور اس کی قید ، اذیت یا قتل کا سبب بنے تو و ہ ظالم کے ظلم میں شریک ہے _ روز قیامت اسے سزا ملے گی _ اگر چہ وہ ظلم اور قتل کے جرم میں ظاہراً شریک نہ ہو _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی بادشاہ کے پاس چغلی کرے

۲۸۱

اور اس کی جاسوسی کرے _ یہ جاسوسی اس کے لیے بھی باعث ہلاکت ہے

اس کے بھائی کے لیے بھی اور بادشاہ کے لیے بھی _ (۱)

اسلام کے دین مقدس نے جاسوسی اور چغل خوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

چغل خور پہ بہشت حرام کردی گئی ہے اور وہ اس میں داخل نہیں ہوسکتا _ (۲)

امیر المومین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:تم میں سے شریر اور برے وہ ہیں کہ جو چغل خوری سے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور پاکدامن افراد کی عیب جوئی کرتے ہیں _ (۳)

چغل خوری کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں _ کبھی دشمنی اس کا باعث بنتی ہے _ چغل خور کو کسی ایک یا دونوں افراد سے دشمنی ہوتی ہے اس لیے ایک سے دوسرے کی بات بیان کرتا ہے تا کہ ان میں پھوٹ پڑجائے _ اور وہ آپس میں لڑ پڑیں _ کبھی کوئی شخص خودنمائی اور دوستی و خیرخواہی جتانے کے لیے چغلی کھاتا ہے _ اور کبھی اس کا مقصد فقط محفل آرائی ہوتا ہے _ بہر حال مقصد کچھ بھی ہوکام بہت برا ہے کہ ایک مسلمان کو جس سے بہر حال اجتناب کرنا چاہیے _ دین مقدس اسلام نے چغلی سننے تک کو حرام قرار دیا ہے _پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:چغل خوری نہ کرو اور نہ چغل خور کی بات پر کان لگاؤ_ (۴)

-----------

۱_ بحار، ج ۷۵، ص ۲۶۶

۲_ اصول کافی، ج ۲ ص ۳۶۹

۳_ اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۳۷۹

۴_ مجمع الزوائد ، ج ۸، ص ۹۱

۲۸۲

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ٹوہ لگانے والے اور چغل خور کی بات کی تکذیب کرو وہ غلط ہو یا صحیح _ (۱)

واضح ہے کہ اگر کوئی شخص چغل خور کی باتوں پر کان نہ دھرے گا تو وہ ناچار اس عادت سے دستبردار ہوجائے گا_ جو شخص کسی کی چغلی آپ کے سامنے کرتا ہے آپ اطمینان رکھیں کہ وہ آپ کا حقیقی دوست اور خیر خواہ نہیں ہے _ اگر وہ آپ کا دوست ہوتا تو کہنے والے کے سامنے تمہارا دفاع کرتا نہ کہ اس کی بات آکر تمہارے سامنے نقل کرتا _ تا کہ تم غصّے میں جلو اور پریشان ہو _ اور کبھی وہ تمہیں غلط کاموں پہ ابھارتا ہے ، مسلمان کو چاہیے کہ وہ راز دار ہو اور اپنی زبان پر کنڑول کرے اور جاسوسی اور چغل خوری سے پرہیز کرے _ بہت سے لوگ یہ ناپاک عادت بچپن ہی میں ماں باپ کے ہاں سے حاصل کرتے ہیں _ لہذا ماں باپ کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے _ اپنی اولاد کو اس بری عادت سے بچانے کے لیے پہلے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ کسی کی چغلی نہ کھائیں ماں کو نہیں چاہیے کہ وہ پھوپھی ، باجی ، خالہ اور ہمسائیوں کی شکایتیں اپنے شوہر سے کرے _ اور شوہر بھی بیوی سے دوسروں کی چغلی نہ کھائے کیونکہ اگر ماں باپ کو چغل خوری کی عادت ہوگی تو ان کی اولاد بھی ان کی تقلید کرے گی _ اور اس بری عادت کو ان سے سیکھے کی _ کبھی کوئی بچہ اپنی امی، بہن یا بھائی کی شکایت ابو سے کرتا ہے اور چغلی کھاتا ہے _ اس موقع پر باپ کی ذمہ داری ہے کہ فوراً بچے کو روکے اور اس سے کہیں کہ چغلی کھانا برا کام ہے _ کیوں امّی امّی کی بات میرے سامنے بیان کرتے ہو؟ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم دوسروں کی باتیں مجھ سے بیان کرو _ پھر میں نہ دیکھوں کہ تو چغلی کھاتاہے _ علاوہ ازیں اس کی چغلیوں پر رد عمل بھی بالکل ظاہر نہ کریں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں _ بچوں کو یہ بری عادت نہ پڑے اس لیے

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''چغل خوری کی چغلیوں پہ کان نہ دھرو''

---------

۱_ غررالحکم ، ص ۱۲۵

۲۸۳

عیب جوئی

لوگوں میں یہنی کیڑے نکالنا بھی بری اور مذموم عادتوں میں سے ہے _ عیب جوئی کرنے والے شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور اس سے میل ملاپ پسند نہیں کرتے _ عیب جوئی دشمنی اور کینے کا باعث بن جاتی ہے ، دوستیوں کے بندھن توڑدیتی ہے اور دوستوں کے ما بین جدائی ڈال دیتی ہے _ اگر کسی کی غیر موجودگی میں اس کی عیب جوئی کی جائے تو یہ غیبت ہے اور سامنے کی جائے تو بھی برائی ہے _ دین مقدس اسلام نے اس بڑی عادت کو گناہوں کبیرہ میں سے شمارکیا ہے اس بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں _ مثلاً:

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ دیتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:

اے وہ لوگو کہ جو زبان سے ایمان کا دعوی کرتے ہو _ لیکن تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہو مسلمانوں کی غیبت اور بدگوئی نہ کرو اور ان کے عیب تلاش نہ کرتے رہو کیونکہ ہر وہ شخص جو اپنے بھائی کے عیب ڈھونڈے اللہ اس کے عیوب آشکار کردے گا اور اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردے گا _ (۱)

-------

۱_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۲۰۳

۲۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی کسی مومن سے متعلق کوئی ایسی بات کہے کہ جس سے اس کی عزت و آبرو جاتی ہو ، اللہ اسے اپنے دوستوں کے زمرے سے نکال کر شیطان کے دوستوں میں شامل کردے گا اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرے گا _ (۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو کوئی بھی کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت اور بدگوئی کرے گا ، اللہ چالیس روز تک اس کی نماز روزہ قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس راضی کرلے _ (۲)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

غیبت اور بدگوئی حرام ہے اور نیکیوں کو یوں تباہ کردیتی ہے جیسے آگ ایندھن کو جلاڈالتی ہے _ (۳)

بد قسمتی سے اتنا برا گناہ ہمارے لوگوں کا معمول بن چکا ہے _ یہاں تک کہ اب یہ لوگوں کو برائی ہی معلوم نہیں ہوتا اور لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں _ ماں باپ کی برائی کرتی ہیں اور باپ ماں کی _ ہمسائے اور رشتے دار ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے ہیں _ معصوم بچے یہ بری عادت اپنے گھر اور ماں باپ ہی سے اپناتے ہیں _ بچے دوسرے بچوں کی عیب جوئی کرتے ہیں _ تدریجاً بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر اس خود کو چھوڑنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے _

بعض نا سمجھ ماں باپ اپنے بچوں کی برائی بھی کرتے ہیں جب کہ انہیں اپنی اولاد

-------------

۱_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۵

۲_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۴

۴_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۵

۲۸۵

کی کوتاہیوں کو چھپانا چاہیے _ کبھی ماں باپ اپنی اولاد کی برائی اس کے سامنے مذاق کے طور پر یا غصّے میں بیان کرتے ہیں _

ایسی صورت میں بچے ماں باپ کے بارے میں بدظن ہوجاتے ہیں ، یا ان میں بھی یہ عادت پڑجاتی ہے اور یا پھر اپنے بارے میں وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں لہذا ماں باپ کو بچوں کی عیب جوئی سے پرہیز کرن چاہیے _

۲۸۶

گھر میں بچوں کا لڑائی جھگڑا

ایک بہت بڑی گھریلو پریشانی بچوں کا لڑائی جھگڑا ہے _ بچے جب ایک سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ان کے درمیان لڑائی جگھڑا بھی شروع ہوجاتا ہے _ ایک دوسرے کو اپنے لیے بدشگون سمجھتا ہے _ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھکّے د یتے ہیں ، کھلونے چھینتے ہیں ، ایک دوسرے کی کاپی پر لکیریں کھینچ دیتے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں، ایک شور مچاتاہے تا کہ دوسرا اسکول کا سبق یا دنہ کر سکے ، ہر بچہ جانتا ہے کہ وہ کن طریقوں سے اپنے بھائی یا بہن کو ستا اور لا سکتا ہے وہ ایک دوسرے کی خوب خبر لیتے ہیں _ اس صورت حال پر ماں باپ بے چار ے کڑھتے رہتے ہیں _ لڑائی جھگڑے کی شکایت ان کے پاس آتی ہے ، خرابی تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچوں کی لڑائی ماں باپ پر اثر انداز ہوجاتی ہے _ ماں ، باپ س کہتی ہے تم تو بچے کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے ، وہ تم سے دڑتے تک نہیں ، یہ تمہاری لا پروا ہی کی وجہ ہی سے گھر میدان جنگ بن چکا ہے _

باپ ، ماں سے کہتا ہے ،اگر تو سمجھدار عورت ہوتی تو یہ سچے اتنے شیطان اور نالائق نہ ہوتے _ تیری حمایت کی وجہ سے بچوں کی یہ حالت ہے _

یہاں پر ماں باپ کو یادرکھنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں _ ان سے اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ وہ پینتالیس سالہ کسی شخص کی طرح آرام سے کسی کونسے میں بیٹھے ہوں _ آپ اس حقیقت کو قبول کریں کہ بچوں کا لڑائی جھگڑا تو ایک فطری سی بات ہے _ لڑائی تو بڑوں میں بھی ہوجاتی ہے _ ایک گھر میں بچوں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہمیشہ آرام و

۲۸۷

سکون سے بیٹھے رہیں اور کبھی لڑائی جھگڑا نہ کریں_ بچے تو شریر ہوتے ہی ہیں _ وہ جلدی پھر آپس میں گھل مل جاتے میں بڑوں کی طرح دیر تک ایک دوسرے سے منہ بسورے بیٹھے نہیں رہتے _ ایک ماہر نفسیات اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ بات ہمیں سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ ایک گھر ، اس میں چند بچے بھی ہوں مگر وہ ہمیشہ مل جل کر رہیں کبھی لڑیں جھگڑیں نہیں _ ہم نے جس بچے سے بھی بات کی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ امی ابو یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم بہن بھائی جب اکھٹے ہوں تو ہمیں بہت زیادہ اتفاق و آرام سے رہنا چاہیے _ اگر آپ حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی اس توقع سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائیں توبچوں کے اس لڑائی جھگڑے سے اتنا پریشان نہیں ہوں گے _ (۱)

ہمیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ بچوں کہ یہ عادت ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہوجائے گی _ اگر ماں باپ ان کے بچن کے طرز عمل کو ایک حقیقت کے طور پر مان لین تو پھر کسی حد تک انہیں اطمینان ہوجائے گا اور کم از کم وہ ان کے بچپن کے لڑائی جھگڑے خو د ان تک نہیں پہنچنے دیں گے _

ایک ماہر نفسیات لکھتے ہیں:

شاید بچوں کے بہت سارے کام مثلاً آپس میں مذاق کرنا _ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرنا _ کشتی کرنا _ صرف وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے بڑے ہونے سے ختم ہوجاتے ہیں _ (۲)

ہاں یہ درست ہے کہ زیادہ تر موقع پر ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑوں کو ختم نہیں کرسکتے لیکن عقل اور تدبیر سے ان میں کمی پیدا کرسکتے ہیں_ عقل مند ماں باپ بچوں کے

-----------

۱_ روان شناسی کودک از تولّد تادہ سالگی ، ص ۲۸۶

۲_ روان شناسی کودک _ رفتار کودکان از تولد تا دہ سالگی ص ۲۸۶

۲۸۸

لڑائی جھگڑے پر بالکل تماشائی نہیں بنے رہ سکتے _ بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ عقل و تدبیر سے اس کے عوامل کو ختم کریں _ انہیں اجازت نہ دیں کہ وہ ایک دوسرے کو اذیت پہنچائیں _ ماں باپ کو چاہیے کہ پہلے وہ اختلاف کے عوامل کو سمجھیں اور ان اسباب کو پیدا ہونے سے روکیں وگرنہ بعد میں مسئلہ مشکل ہوجائے گا _ بچوں کے درمیان اختلاف کی ایک اہم وجہ ان کا آپس میں حسد ہے نظر انداز کرنے سے حسد ختم نہیں ہوسکتا _ اور ڈانٹ ڈپٹ بھی اس کا علاج نہیں ہے _ چاہیے کہ حسد پیدا ہونے کے اسباب کو روکا جائے _

بچہ خود پرست ہے وہ چاہتا ہے کہ فقط وہی ماں باپ کا محبوب ہو اور کوئی اور ان کے دل میں جگہ نہ پائے _ پہلا بچہ عموماً ماں باپ کو لاڈلاہوتا ہے _ وہ اس سے پیار محبت کرتے ہیں _ اس کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں _ لیکن جب دوسرا بچہ دنیا میں آتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں _ ماں باپ کی پوری توجہ نو مولودکی طرف ہوجاتی ہے اب بڑا بچہ خطرہ کا احساس کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ننھا بن بلا یا مہمان اب اس کا رقیب بن گیا ہے _ اور ماں باپ کو اس نے اپنا بنالیا ہے _ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے انتقام لینا چاہیے _ لیکن نومولود پر اں باپ کی شفقت ہوتی ہے لہذا اسے قبول کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا _ ان حالات میں ممکن ہے بڑا بچہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرے ، زمین پر گرجائے ، کھانا ہ کھائے ، غصّہ کرے ، روئے یا اپنے کپڑوں کو خراب کردے تا کہ اس طرح سے وہ ماں باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکے یہ بچہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے اور اسی وقت سے بھائی یا بہن کے بارے میں اپنے دل میں کینہ کرلیتا ہے _ اور اس موقع کے انتظام میں رہتا ہے کہ اس سے انتقام لے سکے _ اس کیفیت میں سب بچے پیدا ہوتے ہیں اور گھر کے دوسرے بچوں سے آملتے ہیں _ انہیں حالات میں حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے _ کیا یہ بہتر نہیں ہے کاماں باپ شروع ہی ہے اپنے طرز عمل پر توجہ رکھیں _ اور بچوں میں حسد کے اسباب پیدا نہ ہونے دیں _ سمجھدار ماں باپ نو مولود کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی بڑے بچوں کو ذہنی طور پر اس کے استقبال کے لیے اور قبول کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں _ ان سے کہتے ہیں _ انہیں پہلے ہی سمجھاتے ہیں کہ جلد ہی تمہارا ننھا بھائی یا ننھی بہن پیدا ہوگی _ تعجب وہ بڑی ہوگی تو

۲۸۹

تم سے پیار کرے گی _ تمہارے ساتھ مل کے کھیلے گی _

اگر وہ نو مولود کے لیے کوئی چیز تیار کریں تو بڑے بچوں کے لیے بھی کوئی چیز خریدیں جب ماں نئی پیدائشے کے لیے کسی میڈیکل سینٹر میں داخل ہوجائے تو باپ بچوں کے لیے تحفہ لاسکتا ہے اور ان سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ننّھے کی آمد کی خوشی میں تمہارے لیے تحفہ لایا ہوں _ جب نو مولود گھر آئے تو زیادہ شورو شرابہ نہ کریں اور دوسرے بچوں کی موجودگی میں اسی کی زیادہ تعریف نہ کریں _ پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان کا خیال کریں _ ان سے محبت کریں ایسا سلوک کریں کہ بڑے بچے مطمئن ہوں وہ سمجھیں کہ نئے بچے کہ آنے سے ان کی زندگی کو نقصان نہیں پہنچا _ اس طرح سے وہ نئے بچے کے لیے اپنی گو دپھیلا سکتے ہیں اور خوشی خوشی اس کا استقبال کرسکتے ہیں _ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماں باپ چاہیں کہ ان کے بچے آپس میں دوست ہوں اور ان میں لڑائی جھگڑانہ ہو تو ان میں حسد کے اسباب پیدا ہونے دیں اور ان کو ایک آنکھ سے دیکھیں _ سب سے ایک جیسا سلوک کریں تا کہ وہ آپس میں دوست ہوں _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:انصاف اختلاف کو ختم کردیتا ہے اور دوستی کا سبب بنتا ہے _ (۱) امیر المومنین علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:عادلانہ سلوک بہترین تدبیر ہے _ (۲) ممکن ہے بعض بچوں میں واقعاً ایسی خصوصیت ہو کہ جس کی وجہ سے ماں باپ کی محبت ان سے زیادہ ہوجائے _ ہوسکتا ہے بعض بچے زیادہ ذہین ہوں ، زیادہ خوبصورت ہوں _ بعض کا اخلاق بہتر ہو _ ہوسکتا ہے زیادہ محنتی ہو _ ہوسکتا ہے بعض زیادہ خوش زبان ہوں ، ہو سکتا ہے کسی کا سلوک دوسرے سے ماں باپ سے بہتر ہو _ ہوسکتا ہے کوئی کلاس سے دوسروں کی نسبت نمبر اچھے لائے _ ہوسکتا ہے ماں باپ بیٹی یا بیٹے کو زیادہ پسند

------------

۱_ غرر الحکم ، ص ۶۴

۲_ غررالحکم ، ص ۶۴

۲۹۰

کرتے ہوں _

ممکن ہے اس میں کوئی حرج بھی نہ ہو کہ ماں باپ قلباً کسی ایک بچے کو زیادہ پسند کرتے ہوں لیکن ان کا سلوک سب سے ایک جیسا ہونا چاہیے او راس میں فرق نہیں کرنا چاہیے _ یہاں تک کہ بچے ذرا بھی دوسرے کے بارے میں ترجیحی سلوک نہ دیکھیں _ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بچے ماں باپ کی محبت کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں _ اور اس پر بہت توجہ دیتے ہیں اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں _ لہذا ماں باپ کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے _

بعض ماں باپ بچوں کی تربیت کے لیے ایک کی خصوصیات دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں_ مثلاً کہتے ہیں : حسن خوب سبق پڑھوتا کہ عباس کی طرح اچھے نمبر حاصل کرسکو_ کہتے ہیں: زہرا تم اپنی بہن زینب کی طرح ماں کی مدد کرو زینب کتنی اچھی بچی ہے کہتے ہیں: رضا تم بھی اپنے بھائی علی کی طرح دستر خوان پر سلیقے سے بیٹھو_ دیکھو وہ کتنا با ادب بچہ ہے _ ایسے ماں باپ کا طرز عمل بالکل غلط ہے کیونکہ غلط ہے کیونکہ اس کا نہ فقط مثبت تربیتی نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس سے بچوں میں رقابت اور حسد پیدا ہوجاتاہے اور انہیں انتقام اور دشمنی پر ابھارتا ہے _ کبھی بچے خود بھی ایسی باتوں کا اظہار کرتے ہیں _

بچوں کے لڑائی جھگڑے کی ایک وجہ ماں باپ کی ان سے بے جا توقع ہے _ بچہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی یا بہن کے کھلونوں سے کھلیے لیکن وہ اسے اس کی اجازت نہیں دیتے _ لہذا لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے وقت ماں یا باپ دخالت کرتے ہیں اور پیاز کے ساتھ سمجھاتے ہیں اور اگر پیار کا اثر نہ ہو تو سختی سے انہیں سمجھا تے ہیں کہ وہ اپنے کھلونے اپنے بھائی کودے دیں _ مثلاً کہتے ہیں: یہ تمہارا بھائی ہے ، کیوں اے کھلونے نہیں دیتے ہو کھلونے لائے و ہم ہی ہیں ، کیا یہ تمہاری ملکیت ہیں کہ جو اسے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے ہو اگر تم نے ایسا کیا تو پھر تم سے ہم پیار نہیں کریں گے اور نہ ہی آئندہ تمہیں کھلونے خرید کردیں گے _

بچہ بیچار مجبور ہوجاتا ہے _ کھلونے دے تو دیتا ہے لیکن ماں یا باپ کو سخت مزاج

۲۹۱

اور بھائی کو ظالم سمجھنے لگتا ہے اور دل میں دونوں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے پھر وہ اس کا اظہار کرتا ہے کیوں کہ بچہ ان کھلونوں کو اپنا مال سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ کسی کو حق نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر انہیں ہاتھ لگائے لہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم اور اپنے بھائی اور باپ کو ظالم سمجھتا ہے _ ایسے موقع پر یہ بچہ حق پر ہے کیوں کہ ماں باپ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ ان کی مخصوص چیزوں کو کوئی چھیڑے پھر یہ حق وہ بچوں کو کیوں نہیں دیتے اور ہر شخص کی کچھ اپنی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کے استعمال سے وہ دوسروں کو روک سکتا ہے _ البتہ عقل مند اور باتدبیر ماں باپ آہستہ آہستہ بچوں کے اندر تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں _ اور ایسی فضا پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ خوشی خوشی اپنے بہن بھائیوں کو اپنے کھلونوں سے کھیلنے اور اپنی چیزوں کے استعمال کی اجازت دیں کبھی اختلاف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کبھی ماں باپ کوئی کا م ایک بچے کے سپردکردیتے ہیں اور دوسروں کو ایسے ہی چھوڑدیتے ہیں اس صورت میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _اگر ماں باپ اس طرح کی کشمکشوں سے بچنا چاہیں تو انہیں چاہیے کہ سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھیں اور ان میں کوئی تفریق روانہ رکھیں _ یا تو کسی سے کوئی نہ کہیں _ یا پھر ان کی صلاحیت کو سمجھ کر ہر کسی کے لیے کوئی کام متعین کریں اور ان کے ذمہ لگائیں تا کہ اختلاف پیدا نہ ہو بیکاری بھی خرابیوں کی ایک وجہ ہے بچوں کی مشغولیت کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے تا کہ ان میں جھگڑا کم سے کم ہو _ خاص طور پر اگر ہ سکے تو انہیں کسی ایسے کھیل پر ابھاریں کہ جسے وہ مل جل کر کھیل سکیں _ یہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا _کبھی ماں باپ کی آپس کی لڑائی بھی بچوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتی ہے _ جب معصوم بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ ایک دوسرے سے قوتکار اور لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑائی جھگڑا زندگی کے لازمی امور میں سے ہے _ اور ایک ایسا کام ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا _ اس لحاظ سے وہ ماں باپ کی تقلید کرتے ہیں _ اور یہی کام وہ آپس میں کرتے ہیں _لہذا جو ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑے سے تنگ ہوں انہیں پہلے اپنی اصلاح

۲۹۲

کرنا چاہیے _ آپس کے نزاع اور کشمکش کو ترک کردینا چاہیے پھر بچوں کی اصلاح کے درپے ہونا چاہیے _ شاید ایسا کوئی خاندان کم ہی ہو کہ جس میں کبھی کوئی جھگڑا پیدانہ ہواہو _ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کی عدم موجودگی میں وہ آپس میں اس سلسلے میں بات کریں _ اور اگر کوئی بات بچوں کے سامنے ہوجائے تو وہ بچوں سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسئلے پر ہمارا اختلاف رائے ہے _ ہم چاہتے ہیں کہ اسے حل کریں _

آخر میں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے آپ ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھیں لیکن پھر بھی بچوں کے لڑائی جھگڑے سے کامل طور پر نہ بیچ سکیں _ آپ کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے _ نہ ہی ہم نے اس کی ضمانت دی ہے _ آپ کے بچے بھی عام بچوں کی طرح ہیں _ بچوں کے جھگڑے ایک فطری سی بات ہے _ بچوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے _ جو وہ ایسے کاموں پہ خرچ کرتے ہیں _ آپ متوجہ رہیں کہ وہ ایک دوسرے نقصان نہ پہنچائیں اور ایک دوسرے کو شدید اذیت نہ دیں بہتر یہ ہے کہ حتی الامکان بچوں کے چھوٹے موٹے جگڑوں میں آپ شریک نہ ہوں _ انہیں آپ رہنے دیں کہ وہ اپنے مسئلے خود حل کریں _ نہ ہی آپ ایسی باتوں پر زیادہ پریشان ہوں _ ان کا طرز عمل خود ہی ٹھیک ہوجائے گا _

۲۹۳

دوست اور دوستی

اچھا دوست اور مہربان رفیق اللہ کی عظم نعمتوں میں سے ہے _ مصیبت میں دوست ہی انسان کی پناہ ہوتا ہے اور قلب ور وح کے آرام کا ذریعہ ، مشکلات سے بھر ی اس دنیا میں ایک حقیقی دوست کی موجودگی ہر انسان کی ضرورت ہے _ جو شخص ایک مہربان دوست کی نعمت ہے محروم ہو وہ وطن سے دور تنہائی کی سی کیفیت میں ہوتا ہے اور کوئی اس کا غمخوار نہیں ہوتا کہ زندگی کی مشکلات میں وہ جس کا سہارا لے سکے _

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دنیا میں آرام کا بہترین وسیلہ کیا ہے _ فرمایا: کھلا گھر اور زیادہ دوست '' (۱) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کمزورترین شخص وہ ہے جو کسی کو دوست اور بھائی نہ بنا سکے _ (۲)

حضرت علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

دوستوں کا نہ ہونا ایک طرح کی غریب الوطنی او رتنہائی ہے _ (۳)

-----------

۱_ بحار ، ج ۷۴، ص ۱۷۷

۲_ نہج البلاغہ ، ج ۳، ص ۱۵۳

۳_ بحار، ج ۷۴، ص ۱۷۸

۲۹۴

جیسے بڑوں کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بچوں کو بھی یاردوست کی ضرورت ہوتی ہے جس بچے کا کوئی دوست نہ ہو وہ ہر جگہ تنہا تنہا سا ، مرجھایا مرجھا یا سا اور افسردہ افسردہ سا رہتا ہے _ بچے کو فطری طور پر دوست کی خواہش ہوتی ہے اور اس فطری خواہش سے اسے محروم نہیں رکھا جا سکتا _ دوست اور ہم جولی میں فرق ہے _ ہوسکتا ہے اس کا ہم جولی تو ہو مگر دوست نہ ہو _ کبھی بچہ ہم جولیوں اور کلاس فیلوزیں میں سے کسی دوست کا انتخاب کرتا ہے _ شاید دوستی کا اصلی محرک اور عامل زیادہ واضح نہ ہو _ ہوسکتا ہے دو افراد کی باہمی روحانی ہم آہنگی انہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردے _

امیر المومنی علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگوں کے دل بھکتے ہوئے جنگلیوں کے مانند ہیں جو بھی ان سے محبت کرے اسی میں کھوجاتے ہیں _ (۱)

دوست کسی پر ٹھونسا نہیں جا سکتا کہ ماں باپ اپنی اولاد سے کہیں کہ فلاں بچے کو دوست بناؤ اور فلاں کو نہ بناؤ _ دوست کے انتخاب میں بچے کو آزادی ملنا چاہیے البتہ ہر طرح کی آزادی نہیں دی جا سکتی کیونکہ دوستوں کا اخلاق و کردار ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک دوست دوسرے کے اخلاق اور طرز عمل کو اپناتا ہے _ اگر بچے نے ایک خوش اخلاق اور اچھا دوست بنالیا تو وہ اس سے اچھائیاں اپنائے گا اور برا دوست مل گیا تو اس کی برائیاں اس پر ا ثر انداز ہوں گی _ بہت سے معصوم بچے اور نوجوان ہیں کہ جو اپنے برے دوستوں کے باعث گناہ کی وادی میں جا پہنچے ہیں اور ان کی دنیا و آخرت تباہ ہوچکی ہے _

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب ، طریقے اور روش کا خوگر بن جاتا ہے _ (۲)

------------

۱_ بحار، ج ۷۴، ص ۱۷۸

۲_ اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۳۷۵

۲۹۵

حضرت علی علیہ السلام فرمایا ہیں :

لوگوں میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہے کہ جس کامیل جول اچھے لوگوں کے ساتھ ہو (۱)

اسی وجہ سے اسلام اپنے ماننے والوں کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ وہ برے دوست سے اجتناب کریں

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

فاسقوں اور گنہ گاروں کے ساتھ دوستی سے بچو کیونکہ برائی کہ تاثیر برائی ہی ہے (۲)

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند و لبند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :

اے میرے بیٹے : پانچ طرح کے لوگوں سے رفاقت نہ رکھو :

۱_ جھوٹے کے ساتھ رفاقت نہ کرو کہ وہ سرا ب کے مانند ہے _ وہ تجھے فریب دے گا _ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور بتا ئے گا _

۲_ فاسق اور بد کار کو دوست نہ بناؤ کہ وہ تجھے بہت کم قیمت پریہاں تک کہ ایک نوالے کے مول بیچ دے گا_

۳_ کنجوس کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ ضرورت پڑنے پر مدد نہیں کرے گا_

۳_ کسی احمق کو دوست نہ بناؤ کیوں کہ وہ اپنی بے وقوفی کے باعث تمہیں نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچادے _

۵_ قطع رحمی کرنے والے کو دوست نہ بناؤ کیونکہ قطع رحمی کرنے والا خدا کی رحمت سے دو ر اور ملعون ہے (۳)

۲۹۶

لہذا سمجھدا ر اور فرض شناس ماں باپ کی دمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں سے لا تعلق نہ دہیں کیونکہ ایسا کرنا نہ بچوں کے فائدہ ے میں ہے اور نہ مال باپ کے البتہ ماں باپ کی اس معاملے میں بلا واسطہ دخالت بھی درست نہیں ہے _

اگر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک اچھا اور نیک دوست مہیا کر سکیں توانہوں نے بچے کی بھلائی کا انتظام کیا ہے اور اسے تباہی کے راستے سے بچایا ہے _ لیکن یہ بھی کوئی آسان کا م نہیں _ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب اچھے برے کی کچھ تمیز کرنے لگے تو اسے پیار محبت سے ایک اچھے اور برے د وست کی صفات بتائیں برے بچوں کے ساتھ دوستی کے نتائج بھی اس پر واضح کریں _

پھر بچوں کے دوستوں اور ان کے طرز عمل پر کچھ فاصلے سے نگاہ رکھیں اگر ماں باپ دیکھیں کہ ان کے دوست اچھے ہیں تو ان کی تائید و تشویق کریں اور انہیں ملنے جلنے کے مواقع فراہم کریں لیکن اگر دیکھیں کہ ان کے بچے دھو کا کھا گئے ہیں اور برے بچوں کو دوست بنار ہے ہیں تو پیار محبت سے ان کی خامیوں کی طرف متوجہ کرکے اپنے بچوں کو ان سے میں ملاقات سے روکیں _ پیار محبت سے یہ کام نہ ہو سکے تو کچھ سختی سے منع کیا جاسکتا ہے _ ایک اور طریقے سے بھی ماں باپ بچے کے لیے اچھے دوست کے انتخاب میں مدد کرسکتے ہیں _ اس کے ہمجولیوں ، محلے والوں ، ہمسایوں ، و غیرہ میں سے کسی اچھے دوست کو تلاش کریں اور ان کے در میان بہتر رابطے کا وسیلہ فراہم کریں _ اس طرح اگر وہ آپس میں دوست ہو جائیں تو ان کی تشویق کریں _ اس طرح ماں باپ بہت اچھی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں اور بچوں کی بہت سی خامیاں اچھے دوست کے انتخاب سے دور کرسکتے ہیں _ مثلا وہ ماں باپ جن کا بیٹا بزول ہے وہ اس کے لیے کوئے شجاع بچہ انتخاب کریں کہ جس سے دوستی کے ذریعے اس کی بزولی جاتی رہے _

بہر حال ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں بالخصوص نو جوانی کے دور میں ان کے دوستوں سے غافل رہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیں کیونکہ بچہ اور نو جوان کے لیے بدلنے کے زیادہ امکانات ہیں _ حب کہ عمومی اخلاق اور معاشر ہے کی حالت

۲۹۷

بھی ٹھیک نہ ہو تو ممکن ہے تھوڑی سی غفلت سے آپ کا فرزند دلبند برائی اور بد بختی کے گڑھے میں جاگرے _ لہذا یاد رکھیں کہ پر ہنر علاج سے کہیں بہتر ہے _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :ہر چیز کے لیے ایک آفت ہے اور نیکی کے لیے آفت برا دوست ہے ایک صاحب لکھتے ہیں :

میرے ماں باپ مجھے دوستوں سے ملنے کی اجزات نہ دیتے تھے _ اگر دوست مجھے گھر پر ملنے آتے تو میںمجبور ہوتا کہ ایک دو باتیں کرکے انہیں رخصت کردوں _ ایک دوست ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا ہے _ امّی ابو اسے جانتے تھے لیکن وہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت نہ دیتے _ مجھے بہت خواہش ہوتی کہ دوستوں سے لموں ، ان کے ساتھ بیٹھوں اور ان سے بات چیت کروں لیکن کیا کرتا امّی ابو حائل تھے _ مجھے اس کا بہت غم تھا _ ایک روز میں نے ارادہ کرلیا کہ جیسے بھ ہو دوستوں سے ملنے ضرور جاؤں گا _ میں نے امّی سے کہا : میرا امتحان ہے اس کے لیے مجھے جانا ہے اجازت تو امتحان کے لیے لی لیکن اپنے دوست کے ہاں جا پہنچا _ اس دوست کا گھر کچھ دور تھا _ ایک دیگن پر بیٹھا اور اس کے ہاں چلا گیا _ وہاں اور دوست بھی تھے _ دن ان کے ساتھ خوب خوش گپیوں میں گزرا _ شام واپس آیا تو امّی نے کہا بہت دیر سے آئے ہو پھر _ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے مجھے اور کئی جھوٹ بولنا پڑے _آج سو چتا ہوں کہ کیا امّی جان کو معلوم نہ تھا کہ دوست اور رفیق کی کسی بچے کو کتنی ضرورت ہوتی ہے _ انہوں نے مجھے ای قدر پابند کیوں کر رکھّا تھا _

ایک لڑکی لکھتی ہے :ایک مرتبہ میں نے اپنی کچھ سہیلیوں کو گھر بلا یا _ اور میرے پاس جو پیسے گلّے میں جمع تھے _ وہ نکالے بھا گم بھاگ گئی اور ان کے لیے آئس کریم لائی _ امّ کہیں

۲۹۸

گئی ہوئی تھیں _ سہیلیاں آئس کریم کھا رہی تھیں او پر سے امی گھر میں داخل ہوئیں

مجھے بہت خوف ہو ا خدا جائے امی کیا کہیں کیوں کہ وہ تو ہمیشہ مجھے سہیلیوں سے ملنے سے منع کرتی رہتی تھیں : انہیوں نے با لکل میری عزت کا خیال نہ کیا اور میری سہیلیوں سے کہنے لگیں تم نے صائمہ سے فضول خرچی کروائی ہے _

میری استانی سے حاکر شکایت کے لہجے میں میری سہیلیوں کے بارے میں کہا یہ ہمارے گھر آتی ہیں اور میری بیٹی کو فضول خرچی پر مجبور کرتی ہیں _ کل میری بیٹی سے آئس کریم کھا رہی تھیں _ سہیلیاں جو میری ہم کلاس بھی تھں وہ کہنے لگیں _ آنٹی کل والی آئس کریم کے پیسے ہم دے دیتی ہیں _ مجھے اتنی شرم آئی دل چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور میں غرق ہو جاوں _ وہ دن اور آج کادن پھر میں سکول نہیں جاسکی _ سہیلیاں اگلی کلاسوں میں جاپہنچیں _ اور میں پشیمان پشیمان سی سہمی سہمی سی _

او اس اواس سی آج ان سے کہیں پیچھے رہ گئی ہوں _

۲۹۹

بچہ اور دینی تعلیم

اللہ اور دین کی طرف توجہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اس کا سرچشمہ انسان کی اپنی سرشت ہے _

اللہ تعالی قرآن حکیم میں فرماتا ہے :

فاقکم وجهک للدّین حنیفا _ فطرة الله التی فطر النّاس علیها

اپنا رخ دین مستقیم کا طرف کرلو_ وہی دین کو جو فطرت الہی کا حامل ہے اور وہی فطرت کی جس کی بنیاد پر اس نے انسان کو خلق فرمایاہے _ (روم _۳۰)

ہر بچہ کی فطری طور پر خدا پرست ہے لیکن خارجی عوامل اثر انداز ہوجائیں تو صورت بدل جاتی ہے جیسا کہ

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

کل ّ مولد یولد علی فطرة الاسلام ...

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعدا ز اں اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی ، بنادیتے ہیں _ (۱)

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ اس میں

----------

۱_ بحار، ج ۳ ، ص ۲۸۱

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361