آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125380 / ڈاؤنلوڈ: 7176
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارياں ۷

مشركين :۱

ہودعليه‌السلام :حضرت ہود(ع) اور جنون ۳; حضرت ہود(ع) اورقوم عاد ۵ ;حضرت ہود(ع) پر جنون كى تہمت ۲; حضرت ہود(ع) كا بيزارى كا اعلان ۵;حضرت ہودعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۸; حضرت ہود(ع) كا قصہ ۵،۶;حضرت ہود(ع) كا گواہ بنانا ۶; حضرت ہودعليه‌السلام كے ارادہ كا محكم ہونا ۸

آیت ۵۵

( مِن دُونِهِ فَكِيدُونِي جَمِيعاً ثُمَّ لاَ تُنظِرُونِ )

لہذا تم سب مل كر ميرے ساتھ مكارى كرو اور مجھے مہلت نہ دو(۵۵)

۱_ حضرت ہو د(ع) نے اپنى قوم كے مشركين كو اعلان كركے بتاديا كہ وہ فقط خداوند متعال كى ذات كو كائنات ميں مؤثر اور لائق عباد ت سمجھتے ہيں _انّى بريء مما تشركون من دونه

( دونہ ) كى ضمير لفظ ( الله )جو اس سے پہلے والى آيت ميں ہے كى طرف لوٹ رہى ہے_

۲_ حضرت ہودعليه‌السلام نے قوم عاد كے تمام مشركين اور ان كے خداؤں كو اپنے خلاف سازش اور جنگ كے ليے للكارا_

فكيدونى جميع

كيونكہ اس سے پہلى والى آيت ميں مشركين اور ان كے بتوں كے بارے ميں گفتگو تھى تو لفظ(جميعا) سے مراد، تمام مشركين اور بت ہيں _

۳_ حضرت ہودعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مشركين ميں اعلان كيا كہ وہ مكارى اور سازش ميں انہيں مہلت نہ ديں اور انہيں اپنے اندر سے نكال باہر كرديں _فكيدونى جميعا ثم لا تنظرون

(انظار) كا معنى مہلت دينا ہے اور(لا تنظرون ) كا معنى يہ ہوگا كہ مجھے مہلت نہ دو يہ كنايہ ہے كہ (مجھے ختم كردو) _

۴_بتوں كى عاجزى اور انسانوں كى زندگى ميں ان كا بے اثر ہونا ،نيز قوم عاد كى خداوند متعال كے ارادے كے سامنے بے بسي، وہ مقاصد ہيں جس كى وجہ سے حضرت ہود(ع) نے لوگوں كو مقابلہ اوراپنے خلاف سازش كے ليے بلايا_

فكيدونى جميعا ثم لا تنظرون

۱۶۱

(كيدوا) (كيد) مصدر سے فعل امر ہے (جو فريب دينے)كے معنى ميں آتا ہے_ مذكورہ بالا جملہ ميں قرينہ مقامى كى وجہ سے امر سے مراد امر تعجيزى ہے يعنى مخاطب كے كام كو انجام دينے ميں عاجز ہونے كو بتانے كے ليے اس سے كوئي چيز طلب كرنا _

۵_ قوم عاد اور ان كے خداؤں كا اپنے درميان سے حضرت ہودعليه‌السلام كے ہٹانے پر عاجز ہونا، ان كى رسالت كى حقانيت پر واضح دليل اورنشانى ہے_فكيدونى جميعا ثم لا تنظرون

''فا'' ''فكيدوني'' ميں نتيجہ كيلئے ہے اور ايك جملہ سے حاكى ہے جو كہ مقدر ہے''ان نقول لا اعتريك ...''كے قرينہ سے وہ جملہ يوں ہوگا''ان كا ن كما تقولون فكيدوني'' اگر بتوں ميں اتنا دم خم ہے تو تم ان كے ساتھ مل كر ميرے مقابلے ميں آجاؤ اور ميرا كام تمام كردو_

۶_ حضرت ہود عليہ السلام كا على الاعلان بتوں سے بيزارى كا اظہار كرنا اور بتوں كا حضرت ہودعليه‌السلام كا كچھ نہ بگاڑ سكنا يہ اس بات كى دليل تھى كہ قوم عاد كا حضرتعليه‌السلام كے بارے ميں جو دعوى ( حضرت ہودعليه‌السلام كا بتوں كے ذريعے جنوں ميں مبتلا ہوجانا) تھا اسميں كوئي حقيقت نہيں تھي_إن نقول الّا اعترى ك بعض الهتنا بسوء فيكدونى جميعاً ثم لا تنظرون

بت :بتوں كا عاجز ہونا ۴،۵،۶

بيزاري:باطل خداؤں سے بيزارى ۶

خدا:خداوند متعال كى خصوصيات ۱; مشيت الہى ۴

قوم عاد:تاريخ قوم عاد۴،۵; قوم عاد كا عاجز ہونا ۴،۵; قوم عاد كا مكر۳;قوم عاد كو دعوت ۲; قوم عاد كى سازش ۳; قوم عاد كے باطل خدا ۵;قوم عاد كے جھوٹ بولنے كے دلائل ۶

ہود(ع) :حضرت ہود اور قوم عاد ۱،۲،۳ ، ۴;حضرت ہود(ع) پر جنون كى تہمت ۶; حضرت ہودعليه‌السلام كا شرك كے خلاف جہاد ۲; حضرت ہود كا عقيدہ ۱; حضرت ہودعليه‌السلام كا قصّہ ۲،۳،۴;حضرت ہود كا لڑائي كے ليے بلانے كا فلسفہ ۴; حضرت ہودكا نظر يہ كائنات ۱; حضرت ہودعليه‌السلام كو مہلت ۳;حضرت ہودعليه‌السلام كى بيزارى ۶; حضرت ہودعليه‌السلام كى توحيد افعالي۱;حضرت ہودعليه‌السلام كى توحيد عبادى ۱;حضرت ہودعليه‌السلام كى حقانيت كے دلائل ۵; حضرت ہودعليه‌السلام كى دعوت حق ۲; حضرت ہودعليه‌السلام كے قتل كى سازش ۳

۱۶۲

آیت ۵۶

( إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللّهِ رَبِّي وَرَبِّكُم مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

ميرا اعتماد پروردگار پر ہے جو ميرا اور تمھارا سب كا خدا ہے اور كوئي زمين پر چلنے وال ايسا نہيں ہے جس كى پيشانى اس كے قبضہ ميں نہ ہو ميرے پروردگار كا راستہ بالكل سيدھا ہے (۵۶)

۱_ قوم عاد اس كوشش ميں تھى كہ حضرت ہودعليه‌السلام كو آزار و اذيت ديں اور اپنے در ميان سے انكو ختم كرديں _

فكيدونى جميعاً ثم لا تنظرون إنى توكلت على الله ربّى و ربّكم

۲_ حضرت ہود(ع) اپنے الہى توكّل كى وجہ سے قوم عاد كے مكر و سازش كے خوف سے محفوظ ہونے پر مطمئن تھے_

فكيدونى جميعاً ثم لا تنظرون إنّى توكلت على الله

( إنى توكلت ...) كا جملہ معنى كنائي (فيكدونى جميعاً ...) كے ليے علت ہے وہ معنى كنائي يہ ہے كہ قوم عاد حضرت ہودعليه‌السلام كو ضرر دينے سے عاجز تھى _

۳_ خداوند عالم، تمام انسا نوں كا مالك و پرودگار او ر ان كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_على الله ربّى و ربّكم

۴_ خداوند متعال كى معرفت اور اسكى عالمگير ربوبيت، اسكى ذات پر توكل اور دشمنان دين سے خوف نہ كھانے كا موجب ہے_ثم لا تنظرون إنّى توكلت على الله ربّى و ربّكم

اپنے توكل كو بيان كرنے كے بعدخداوند متعال كى ربوبيت كى توصيف ( ربّى و ربّكم) اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ خداوند متعال تمام مخلوقات كا ربّ ہے اور وہ سزاوار ہے كہ اس پر توكل كيا جائے _

۱۶۳

۵_ حضرت ہود،عليه‌السلام ابلاغ رسالت الہى ميں مصمم تھے اور اس راستے ميں ہر مشكل و اذيت كو برداشت كرنے كے ليے آمادہ تھے _فكيدونى جميعاً ثم لاتنظرون إنى توكلت على الله ربّى و ربّكم

۶_ مبلغين دين كو چاہيے كہ وہ خدا پر توكل اور امور كو خداوند عالم كے سپرد كرتے ہوئے دين كے دشمنوں سے خوف نہ كھائيں اور اپنى ذمہ دارى كو بھر پور انداز سے انجام ديں _فكيدونى جميعاً ثم لا تنظرون انى توكلت على الله ربى و ربّكم

۷_ تمام مخلوقات پر خداوند متعال كى حاكميت كا اعتقاد اور اسے تمام انسانوں كا ربّ سمجھنا انسان ميں الله پر توكل كا انگيزہ پيدا كرتا ہے _إنى توكلت على الله ربى و ربكم ما من دابّة الّا هو ء اخذ بناصيته

۸_ تمام زندہ مخلوقات، فرمان اور حاكميت الہى كے ماتحت ہيں _ما من دابّة الّا هو ء اخذ بناصيته

( ناصية) سر كى پيشانى كو كہا جاتا ہے كبھى پيشانى كے اوپر والے بالوں پر اطلاق ہوتا ہے _ سركے آگے والے حصّے اور بالوں كو پكڑنا يہ اسكى حاكميت اور تسلط سے كنايہ ہے_

۹_ كوئي بھى جاندار شے خواہ وہ انسان ہو يا حيوان، الله تعالى كى مرضى كے بغير كسى دوسرے كو ضرر پہنچانے پر قادر نہيں ہے_ثم لا تنظرون إنّى توكلت على الله ما من دابّة الّا هو ء اخذ بناصيته

حضرت ہود(ع) كے مقابلہ طلب كرنے اور خداوند عالم پر توكل ركھنے كے بعد خدا وند عالم كا تمام جانداروں پر اپنى حاكميت كو بيان كرنا يہ معنى ديتا ہے كہ تمام اشياء مرضى خدا كے تابع ہيں اور اس كى مرضى كے بغير كوئي بھى جاندار ( بے جان بت تو دركنار) كسى كو بھى ضررو تكليف پہنچانے پر قادر نہيں ہے_

۱۰_ خداوند متعال كى عالمگير ربوبيت اور تمام جانداروں پر تسلّط اورذات الہيپر توكل ركھنا حضرت ہود(ع) كى تعليمات ميں سے تھيں _إنّى توكلت عل الله ربّى و ربّكم ما من دابّة الّا هو ء اخذ بناصيته

۱۱_ افعال خداوندى اور اسكى تدبير، حكمت كى بنياد اور صحيح راستے پر ہے _إن ربّى على صراط مستقيم

۱۲_انبياء كے دشمنوں كے مقابلہ ميں خداوند عالم كى اپنے انبياء كى حمايتكرنا اسكى ربوبيت كے تقاضوں ميں سے اور اپنے كاموں كو حكمت و صحيح بنيادوں پر قرار دينے ميں سے ہے_إنّى توكلت على الله ربّى و ربّكم إنّ ربّى على صراط مستقيم

۱۶۴

( إنّى توكلت ...) كا جملہ خداوند متعال كى حضرت ہودعليه‌السلام كى حمايت پر دلالت كرتا ہے _ اور (إن ربّي ...) كا جملہ اس معنى كى علت ہے _ اس صورت ميں خداوند متعال كے صحيح و سيدھے كاموں كا ہونا يہ تقاضا كرتا ہے كہ حضرت ہودعليه‌السلام كى دشمنوں كے مقابلے ميں حمايت كى جائے _

۱۳_ خداوند متعال، مومنين اور جو اس پر توكل كرتے ہيں ان كا حامى اور مددگار ہے _

إنى توكلت على الله إن ربى على صراط مستقيم

۱۴_'' عن على ابن ا بى طالب(ع) فى قوله( إن ربى على صراط مستقيم) يعنى انه على حق يجزى بالإحسان إحساناً و بالسّيء سئيّاً ويعفو عمن يشاء و يغفر سبحانه و تعالى (۱)

خداوند عالم كے اس قول (ان ربّى على صراط مستقيم ) كے بارے ميں امير المومنين(ع) سے روايت ہے كہ اس آيت شريفہ كا معنى يہ ہے كہ پروردگار، حق كے راستے پر ہے _ نيكى كى جزا نيكى اور بدى كى سزا بدى ديتا ہے اور وہ ذات پاك و بلند مرتبہ ہے اور جسكو معاف كرنا چاہے تو اسكو بخشش ديتا ہے _

اطمينان:اطمينان كے عوامل ۲

انبياء:انبيا عليہم السلام كى حمايت ۱۲

انسان :انسانوں كا پرودگار۳; انسانوں كا مالك ۳; انسانوں كا مدبّر ۳

ايمان :ايمان كے آثار ۷; خدا كى حاكميت پر ايمان۷

تبليغ:تبليغ كى روش ۶; تبليغ ميں توكل ۶;تبليغ ميں مصمم ہونا ۶

توحيد:توحيد ربوبى ۸

توكل:خدا پر توكل ۴،۶،۷; خدا پر توكل كى اہميت ۱۰; خداپر توكل كے آثار ۲

جانداران:جانداروں كا حاكم ۷; جانداروں كا عاجز ہونا ۹;جانداروں كى حركت ۸

خدا كا حمايت كرنا :افعال خداوندى ۱۱; افعال الہى كى خصوصيات ۱۲;حاكميت خدا ۸،۹، ۱۰; حكمت الہى ۱۱;حكمت

____________________

۱) تفسير عياشى ج۲، ص۱۵۱، ح۴۲; نور الثقلين ج۲، ص۳۷۴، ح۱۵۰_

۱۶۵

الہي كے آثار ۱۲;حمايت خدا ۱۲; خدا كى معرفت كے آثار ۴;خدا كے مختصّات ۸،۹;ربوبيت الہى ۳، ۱۰ ، ۱۱ ;ربوبيت خدا كى معرفت كے آثار ۴;ربوبيت خدا كے آثار ۱۲; عدالت الہى ۱۴; مالكيت الہى ۳;مشيت الہى كے آثار ۹

روايت :۱۴

صراط مستقيم:صراط مستقيم سے مراد ۱۴

قوم عاد:قوم عاد كى اذيتں ۱; قوم عاد كى تاريخ ۱; قوم عاد كى سازش ۲

كائنات كى معرفت :توحيدى كائنات كى معرفت ۸

مؤمنين:مؤمنين كے حامى ۱۳

مبلغين:مبلغين كى ذمہ دارى ۶

متوكلين :متوكلين كے حامى ۱۳

ہودعليه‌السلام :اذيت ہودعليه‌السلام ۱; استقامت ہودعليه‌السلام ۵; تعليمات حضرت ہودعليه‌السلام ۱۰;حضرت ہودعليه‌السلام كا اپنى ذمہ دارى كو پورا كرنا ۵;حضرت ہودعليه‌السلام كا عقيدہ ۲;حضرت ہود(ع) كى قاطعيت ۵;حضرت ہو دعليه‌السلام كى قتل كى سازش ۱; حفاظت ہودعليه‌السلام ۲;ہودعليه‌السلام كا توكل ۲

آیت ۵۷

( فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقَدْ أَبْلَغْتُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّونَهُ شَيْئاً إِنَّ رَبِّي عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ )

اس كے بعد بھى انحراف كرو تو ميں نے خدائي پيغام كو پہنچاديا ہے اب خدا تمھارى جگہ پر دوسرى قوموں كو لے آئے گا اور تم اس كا كچھ نہيں بگاڑ سكتے ہو بيشك ميرا پروردگار ہر شے كا نگران ہے (۵۷)

۱_ حضرت ہودعليه‌السلام كى ذمہ دارى تھى كہ قوم عاد كو خدا كا پيغام پہنچائيں _فقد ابلغتكم ما اْ رسلت به إليكم

۲_حضرت ہودعليه‌السلام ،نے خدا كے پيغامات كو لوگوں تك پہنچاي اور اپنى ذمہ دارى كو با خوبى انجام ديا _فقد أبلغتكم ما أرسلت به إليكم

۳_ حضرت ہودعليه‌السلام ،خدا كے پيغامات كو پہنچانے اور لوگوں پر اتمام حجت كرنے كے بعد انكى رو گردانى كا خود كو ذمہ دارنہيں سمجھتے تھے _فإن تولّوا فقد أبلغتكم ما ا رسلت به إليكم

۱۶۶

يہ بات واضح ہے كہ(فقد أبلغتكم ...) كا جملہ( فإن تولّوا ...) كى شرط كا جواب نہيں ہوسكتا كيونكہ حضرت ہودعليه‌السلام نے ابلاغ رسالت كى ، خواہ لوگ ايمان لائيں يا منہ پھير ليں بلكہ وہ جملہ جواب كا سبب اور اسكا جانشين ہوسكتا ہے يعنى اگر تم لوگوں نے منہ پھير ليا تو ميرى كوئي ذمہ دارى نہيں ہے اسكى سزا مجھ پرنہيں ہے كيونكہ وہ جو تمہارى طرف بھيجا گيا ہے اسكو ميں تمہيں پہنچا چكاہوں _

۴_ مبلغين دين كى ذمہ داري، حقائق كا ابلاغ اور معارف دين كو لوگوں تك پہنچانا ہے نہ اسكو قبول كرنے پر آمادہ كرنا _

فإن تولّوا فقد أبلغتكم ما ا رسلت به إليكم

۵_ حضرت ہودعليه‌السلام نے قوم عاد كو اس سے خوف دلوايا كہ تم لوگوں ميں سے كفار كو تباہ كرنے كے بعد ان كى جگہ دوسرى اقوام كوبسايا جائے گا _فإن تولّوا و يستخلف ربّى قوماً غيركم

( إستخلاف) كا معنى جانشين بنانا اور نائب قرار دينا ہے _ يہمعنى قوم عاد كو نابود كرنے كو مستلزم ہے_

۶_ انبيا عليہم السلام كے مخالفين اور حقائق و معارف الہى سے منہ موڑنے والے، نابودى كے دہانے اور عذاب الہى كے خطرے ميں ہيں _فإن تولّوا يستخلف ربّى قوماً غيركم

۷_ كفار كو نابود كرنے كے بعد صالح اور موحد اقوام كو پيدا كرنا، خداوند عالم كى ربوبيت كا جلوہ ہے_

و يستخلف ربّى قوماً غيركم

يہ بات واضح ہے جو نابود ہونے والى قوم كى جگہ لے گى وہ خود اسى قوم سےنہيں ہوگى لہذا كلمہ (غيركم) دلالت كرتا ہے كہ اس قوم كا عقيدہ اور مقصود ميں پہلى قوم سے اختلاف ہے اسى وجہ سے ( غيركم) كى تفسير صالح اور موحد ہوناكى گئي ہے_

۸_ شرك كرنا اور پيغمبروں كى نصيحتوں اور تعليمات كى مخالفت كرنا، معاشرے كو نابود كرنے كے اہم اسباب ہيں اور يہ چيزيں تاريخ ميں تحول و تبديلى كا موجب بنتى ہيں _فإن تولّوا يستخلف ربّى قوماً غيركم

۹_ لوگوں كا دين اور معارف الہى سے منہ پھيرنا، خداوند متعال كو كوئي ضررنہيں پہنچاسكتا _فإن تولّوا و لاتضرّونه شيئ

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہوسكتى ہے جب ہم (لا تضّرونه ) كو (فإن تولّوا )كى شرط كا جواب قرار ديں يہ بات قابل ذكر ہے كہ (تضرّون ) كو (قد أبلغتكم ) جو ماضى ہے اس

۱۶۷

پر عطف كيا گيا ہے جسكى وجہ سے وہ مجزومنہيں ہوا_

۱۰_ كافروں كو عذاب الہى سے ہلاك كرنے سے خداوند متعال كو كوئي ضررنہيں ہوتا_

و يستخلف ربّى قوماً غيركم و لا تضرّونه شيئ

جب ہم جملہ ( لا تضّرونہ) كو جملہ ( يستخلف ربّي ...) كے ساتھ ارتباط ديں گے تو مذكورہ بالا تفسير حاصل ہوگى يعنى تمہارى نابودى خداوند متعال كو كوئي ضررنہيں پہنچاتي_

۱۱_ كافروں پر عذاب الہى كا نازل ہونا ان كا عذاب كے مستحق ہونے كى وجہ سے ہے نہ يہ كہ ان كا وجود ، خداوند عزّوجل كو ضرر و زياں ديتا ہے _و يستخلف ربّى قوماً غيركم و لا تضرّونه شيئ

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے جب ہم (لا تضرّونہ ...) كے جملے كو حال قرار ديں تب جملہ ( يستخلف ...ولاتضرّونہ ...) كا يہ معنى ہوگا درحاليكہ كوئي ضرر و زياں خدا كونہيں پہنچتا پھر بھى وہ تمھيں عذاب كرے گا _ اور اس سے يہ مطلب بھى حاصل ہوتا ہے كہ كفارعذاب كے مستحق تھے نہ يہ كہ ان كا وجود، خداوند متعال كے ليے موجب ضرر وزياں تھا_

۱۲_ خداوند متعال تمام مخلوقات پر دقيق نظر ركھنے والا اور مكمل آگاہى كے ساتھ حفاظت كرنے والا ہے _

إن ربّى على كل شيء حفيظ

۱۳_ خداوند متعال كا تمام مخلوقات كا مالك اور مربّى ہونا،يہ ان مخلوقات پر اسكى دقيق نظراور حفاظت كامل كألازمہ ہے_

إن ربّى على كل شي حفيظ

۱۴_ قوم عاد كے كفار كا كردار او ران كا انجام، خداوند متعال كے نزديك دقيق جہان بينى كے ساتھ تھا_

إن ربّى على كل شي حفيظ

۱۵_ خداوند متعال كى وسيع تر آگاہى اور تمام چيزوں پر دقيق نظر ركھنا ، دليل ہے كہ خداوند متعال كو ضرر دينے ميں يہ سب عاجز ہيں _و لا تضرونه شيئاً إن ربّى على كل شي حفيظ

(إن ربّي ) كا جملہ ( لا تضرونہ شيئاً) كے جملے كے ليے علت ہے _

اسماء و صفات :حفيظ :۱۲

اقوام :اقوام صالح كيپيدائش ۷;اقوام كى جانشينى ۷; اقوام مؤحدكا پيداہونا ۷

۱۶۸

انبيا:انبياء عليہم السّلام كى مخالفت كے آثار ۸; مخالفين انبياء كا عذاب ۶

انسان:انسانوں كے عاجز ہونے كے دلائل ۱۵

تاريخ:تاريخ ميں تحولات و تبديلى كے مؤثر عوامل۸

خدا:خدا كا حساب ركھنا ۱۴; خدا كا سلطہ ۱۲;خدا كا علم ۱۲; خدا كا علمى احاطہ ۱۵; خدا كو ضرر دينا ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۵;خدا كى ربوبيت ۱۳;خدا كى ربوبيت كى نشانياں ۷;خدا كى مالكيت ۱۳; خدا كى محافظت ۱۲، ۱۵

دين:تبليغ دين كى اہميت ۴;دين سے منہ موڑنے كے آثار ۶; دين سے منہ موڑنے كے نقصان ۹; دين سے منہ موڑنے والوں كا عذاب ۶; دين ميں جبر كى نفى ۴

شرك:شرك كے آثار۸

عذاب :اہل عذاب۱۱; عذاب كے اسباب ۱۱

عمل:عمل كى ذمہ دارى ۳

قوم عاد:قوم عاد پر اتمام حجت ۳; قوم عاد كا عمل۱۴;قوم عاد كا كيفرو كردار۱۴; قوم عاد كو ڈرانا ۵;قوم عاد كى تاريخ۵;قوم عاد كى جانشيني۵; قوم عاد كى ہلاكت ۵;قوم عاد كے كفّار۵

كافرين:كافروں كا عذاب ۱۰، ۱۱; كافروں كى ہلاكت ۱۰

معاشرہ:معاشرے ميں ضرر كى پہچان۸;معاشروں كى نابودى كے عوامل ۸

مبلغين :مبلغين كى ذمہ دارى كا دائرہ كار۴

موجودات :موجودات كا مالك ۱۳;موجودات كا مربّى ۱۳; موجودات كى حفاظت ۱۳

ہود :حضرت ہودعليه‌السلام اور قوم عاد ۱،۳; حضرت ہودعليه‌السلام كا اپنى ذمہ دارى نبھانا ۲; حضرت ہودعليه‌السلام كا خبردار كرنا ۵; حضرت ہودعليه‌السلام كى اتمام حجت ۳;حضرت ہودعليه‌السلام كى تبليغ ۱، ۲، ۳;حضرت ہودعليه‌السلام كى رسالت ۱،۲;حضرت ہودعليه‌السلام كى فكر ۳

۱۶۹

آیت ۵۸

( وَلَمَّا جَاء أَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوداً وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَنَجَّيْنَاهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ )

اور جب ہمارا حكم آگيا تو ہم نے ہود اور ان كے ساتھ ايمان لانے والوں كو اپنى رحمت سے بچاليا اور انھيں سخت عذاب سے نجات دے دى (۵۸)

۱_ قوم عادكے افراد ، حضرت ہودعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان نہ لائے بلكہ اپنے شرك و كفر پر باقى رہے_

فان تولّوا يستخلف ربى قوماً غير كم و لما جاء امرنا نجيّنا هودا

۲_خداوند متعال نے قوم عاد كے كفر و شرك پر اصرار كے سبب سخت اورمہلك عذاب ان پر نازل كيا _

و لمّا جاء امرنا و نجّينا هم من عذاب غليظ

(أمر ) سے مراد وہ عذاب ہے جو قوم عاد پر نازل ہوا ،ايك احتمال كى بناء پر پہلى آيت ميں (عذاب غليظ) سے مراد دنيا كا عذاب ہے اوريہ دلالت كرتا ہے كہ ڈرانے والا (ہلاك كرنے والا) عذاب، قوم عاد پر نازل ہوا تھا_

۳_كائنات ہستى ميں فرمان الہي، بغير كسى كمى وبيشى كے متحقق ہوتا ہے_و لمّا جا امرنا

عذاب كو (أمر ) سے تعبيركرنا كہ جس كا معنى حكم ہے ممكن ہے اس حقيقت كى طرف اشارہ ہو كہ وہ چيز جس كے تحقق كا خدا حكم ديتا ہے بغير كسى كمى وبيشى كے بعينہ انجام پذير ہوتى ہے_ گويا كہ فرمان الہى كا مورديہى فرمان تھا_

۴_ قوم عاد كے كچھ لوگوں نے توحيد الہى كو قبول كيا اور حضرت ہودعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لائے_

و الذين ء امنوا معه

۵_ خداوند متعال نے حضرت ہودعليه‌السلام اور ان كے پيروكاروں كو قوم عاد پر نازل شدہ عذاب سے نجات عطا كي_

و لمّا جاء أمرنا نجّينا هودا و الذين ء امنوا معه

۱۷۰

۶_ حضرت ہودعليه‌السلام اوران كے پيروكاروں كا نازل شدہ عذاب سے نجات حاصل كرنا ان پر، خداوند متعال كى رحمت كا ايك جلوہ تھا_نجّينا هودا و الذين ء امنوا معه برحمة منّا

(برحمة) كا لفظ (نجّينا ) كے فعل سے متعلق ہے_

۷_صاحبان ايمان ہى رحمت الہى كے مستحق ہيں _نجّينا هودا و الذين ء امنوا معه برحمة منّا

۸_ خداوند متعال، ہلاك كرنے والے عذاب كونازل كرنے سے پہلے ، مومنين اورصالحين كو اس ہلاكت سے نجات عطا فرماتا ہے تا كہ وہ اس عذاب ميں گرفتار نہ ہوجائيں _و لمّا جاء نا أمرنا نجّينا هودا و الذين ء امنوا معه

۹_ قوم عاد كے كفار، دنياوى عذاب كے علاوہ اخروى عذاب ميں بھى گرفتار ہوں گے_و نجّيناهم من عذاب غليظ

مذكورہ تفسير اس صورت ميں ہے كہ جب جملہ ''ونجّينا ہم من عذاب''ميں (عذاب) سے مراد آخرت كا عذاب مراد ليا جائے_

۱۰_ خداوند متعال نے حضرت ہودعليه‌السلام اور ان كے پيروكاروں كو آخرت كے عذاب ميں گرفتار ہونے سے نجات عطا فرمائي _و نجّيناهم من عذاب غليظ

يہ حكمى اس صورت ميں ہے كہ (عذاب غليظ) سے مراد آخرت كا عذاب ہوتو (نجّينا ) كا فعل ماضى لانے كا مقصد اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ قوم عاد پرمہلك عذاب نازل ہونے كے بعد بھى حضرت ہود(ع) كے مومنين اپنے ايمان پر ثابت قدم رہے اور آخرت كے عذاب كے مستحق نہيں ہوئے_

۱۱_ آخرت كا عذاب، سخت اور ہلاك كرنے والا ہے_و نجّينا هم من عذاب غليظ

۱۲_'' عن ابى عبد اللّه(ع) قال : لما بعث اللّه عزوجل هود اً ا سلم له العقب من ولد سام و ا مألاخرون ...فأهلكو بالريح العقيم ...'' (۱)

امام صادق(ع) سے روايت ہے آپ(ع) نے فرمايا كہ جب خداوند متعال نے حضرت ہودعليه‌السلام كو مبعوث فرمايا تو حضرت سام كى باقى ماندہ اولاد انكى طرف متوجہ ہوئي _ ليكن دوسرے لوگ ، باد عقيم (عذاب دينے والى ہوا) سے ہلاك ہوگے

خدا :اوامر الہى كا حتمى ہونا ۳;حاكميت خدا ۳;خدا كا نجات دينا ۵، ۸، ۱۰; خدا كى رحمت كى نشانياں ۶; خدا كى سنتيں ۸; خدا كے عذاب ۲; رحمت الہى ۷

____________________

۱) اكمال الدين ، ج ۱، ص ۱۳۶، ح ۵ ، ب ۲ _نور الثقلين ج ۲ ، ص ۴۳، ح ۱۷۱_

۱۷۱

رحمت :رحمت كے شامل حال افراد ۶،۷

روايت : ۱۲

شرك :شرك پر مصر رہنے كے آثار ۲

صالحين :صالحين كى نجات ۸

عذاب :اہل عذاب ۹; سخت عذاب ۲; عذاب آخرت سے نجات ۱۰;عذاب اخروى كے درجات ۱۱; عذاب سے نجات ۵، ۸;عذاب كے اسباب ۲

قوم عاد:قوم عاد كا شرك پر اصرار ۱، ۲; قوم عاد كا عذاب ۲; قوم عاد كاكفر پر اصرار ۱،۲;قوم عاد كى تاريخ ۱، ۲; قوم عاد كى ہٹ دھرمي۱;قوم عاد كے آخرت كا بہت

عذاب ۹; قوم عاد كے دنيا كا عذاب ۹; قوم عاد كے كفار ۹; قوم عاد كے معاشرتى گروہ ۴; قوم عاد كے مؤحدين ۴;قوم عاد كے مؤمنين ۴

كفار: ۱//كفر :كفر پر اصرار كے آثار ۲

مشركين : ۱

مومنين:مومنين كى نجات ۸; مومنين كے فضائل۷

ہودعليه‌السلام :حضرت ہودعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ۴،۱۲; حضرت ہودعليه‌السلام كو جھٹلانے والے ۱; حضرت ہودعليه‌السلام كے پيروكاروں كى نجات ۵،۶،۱۰; حضرت ہودعليه‌السلام كى نجات ۵،۶،۱۰قصّہ حضرت ہودعليه‌السلام ۵،۱۰

آیت ۵۹

( وَتِلْكَ عَادٌ جَحَدُواْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَهُ وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ )

يہ قوم عاد ہے جس نے پروردگار كى آيتوں كا انكار كيا اس كے رسولوں كى نافرمانى كى اور ہر ظالم و سركش كا اتباع كرليا(۵۹)

۱_ قوم عاد كے پاس توحيد ربوبى كو درك كرنے كيلئے آيات اور نشانياں تھيں _

و تلك عاد حجدوا بأيات ربهم

۲_ قوم عاد كى مسلّم اكثريت نے آيات الہى اور ربوبيت خداوندى كى نشانيوں كا انكا ركيا _و تلك عاد جحدوا بأيات ربّهم

۱۷۲

عاد كى امت ميں سے چند لوگ ايمان لائے تھے_ ليكن خداوند متعال نے آيات كے انكار اور پيغمبروں كى مخالفت كى نسبت تمام قوم كى طرف دى تا كہ اس نكتے كى طرف اشارہ كرے كہ ان كى مسلّم اكثريت كفر اختيار كرنے پر مصر تھى اور ان كے مقابلے ميں مومنين بہت ہى كم تھے _ يہ بات قابل ذكر ہے كہ فعل (جحد) حرف'' با'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے اور كفر كا معنى اس ميں پايا جاتا ہے يعنى كفر سے بھرا ہونا كے معنى ميں ہے_

۳_حضرت ہودعليه‌السلام نے قوم عاد كو خداوند عالم كى ربوبيت كے اثبات كے ليے كئي معجزات دكھائے_

و تلك عاد جحدوا بأيات ربّهم

۴_ خداوند متعال نے قوم عاد كى پورى تاريخى زندگى ميں بہت سے انبياءعليه‌السلام كو ان كى ہدايت كے ليے بھيجا_

و تلك عاد و عصوا رسله

مذكورہ بالا تفسير اس صورت ميں ہے كہ (رُسل ) رسول كى جمع ہے_

۵_ قوم عاد كى اكثريت نے انبياء الہى كى مخالفت كى اور انكى رسالت اور ان كے احكام سے روگردانى كي_

و تلك عاد و عصوا رسله

۶_كسى ايك رسول كى مخالفت، تمام انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كے برابر ہے_و تلك عاد و عصوا رسله

بعض شواہد كى بناء پر كہا گيا ہے كہ قوم عاد سوائے حضرت ہود(ع) كے كوئي پيغمبر نہيں ركھتے تھے_ پس جو آيت ميں لفظ (رسل) جمع كا صيغہ ہے تو اسكا معنى يہ ہوگا كہ اگرچہ قوم عاد نے ايك نبى كى مخالفت كى ہے ليكن اسكى مخالفت تمام انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كے برابر ہے _ كيونكہ وہ ايك بات اور ايك ہى مقصد ركھتے ہيں اور وہ توحيد اور اس كے فروعات كى تبليغ ہے_

۷_قوم عاد،تكبر اور سركش سرداروں پر مشتمل تھى اور لوگ انہيں كے پيروكار تھے_و اتبعوا أمر كل جبار عنيد

۸_ قوم عاد كے لوگ، اپنے سرداروں كے فرمان پرعمل كرتےہوئے آيات الہى كا انكار اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كرتے تھے_و تلك عاد جحدوا بأيات ربّهم و عصوا رسله و اتبعو امر كل جبار عنيد

۹_ قوم عاد پر ايك ظالمانہ اور استبدادى نظام، حاكم تھا_و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۰_حضرت ہودعليه‌السلام كى تعليمات، قوم عاد كے سركش اور جبّار سرداروں كے منافع كے خلاف تھيں _

و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۷۳

۱۱_ متكبرين اور حق كے منكر سركش لوگوں كاعوام پر تسلط ، پيغمبروں كى كاميابى كے ليے مانع تھا_

و تلك عاد جحدوا بأيات ربّهم و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۲_ متكبرين اور حق كے منكر سركش افرادكى پيروى كرنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۳_ قوم عاد كے سرداروں كى لجاجت ، سركشى اور تكبّر، حضرت ہودعليه‌السلام كى رسالت سے انكار اور انكى تعليمات كو قبول نہ كرنے كے اسباب تھے_و تلك عاد جحدو ا بأيات ربهم و عصوا رسله و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۴_ربوبيت الہى كو قبول نہ كرنا اور پيغمبروں اور ان كے كاموں كى مخالفت كرنا، ظالموں كى حكومت اور طاغوتى نظام كاپيش خيمہ ہے_و تلك عاد جحدوا بأيات ربهم و اتبعوا امر كل جبار عنيد

مذكورہ بالا تفسير اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ جب (اتبعوا)كے جملے كا سابقہ جملات پر ترتيب ذكري، ترتب خارجى سے حكايت ہو_

۱۵_ربوبيت الہى كا قبول كرنا اور پيغمبروں كے احكامات پر عمل كرنا ، ظالموں اور ستم گروں كى حاكميت اور سلطنت كے ليے ركاوٹ ہيں _و تلك عاد جحدوابأيات ربّهم و اتبعوا امر كل جبار عنيد

۱۶_وہ لوگ جو ربوبيت الہى كا انكار اور پيغمبروں كى مخالفت نيز ستمگروں كى پيروى كرتے ہيں ، وہ دنياوى عذاب ميں گرفتار ہونے والے ہيں _و لمّا جاء امرنا و تلك عاد جحدوا بأيات ربّهم و اتّبعوا امر كل جبّار عنيد

۱۷_ربوبيت الہى سے انكار ، پيغمبروں كى مخالفت اور ان كے احكامات سے منكر ہونا نيز ستمگروں اور ظالموں كى پيروى كرنا ، قيامت ميں سخت ترين عذاب كا موجب بنتا ہے_و نجّينا هم من عذاب غليظ و تلك عاد جحدوا و اتبعوا امر كل جبار عنيد

اس آيت كريمہ ميں قوم عاد كے ان گناہوں كو بيان كيا گيا ہے جو ان كے ليے عذاب دنياوى و اخروى كا سبب بنے ہيں _

آيات خداوندى :آيات خداوندى كو جھٹلانے والے ۲،۸

انبياءعليه‌السلام :انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كے آثار ۱۴،۱۷; انبياءعليه‌السلام كے ساتھ مخالفت ۶; انبياءعليه‌السلام كے مخالفين ۵;انبياءعليه‌السلام كے مخالفين پر دنياوى عذاب ۱۶; انبياءعليه‌السلام كے مخالفين كى پيروى ۸; انبياءعليه‌السلام كے ہدف ميں كاميابى كے موانع ۱۱

ايمان :ايمان كے آثار ۱۵; ربوبيت خداوندى پر ايمان ۱۵

۱۷۴

تكبّر:تكبّر كے آثار ۱۳

حكومت :ظالم حكومت كے اسباب ۱۴

خدا :ربوبيت خداوندى كى تكذيب كے آثار ۱۴، ۱۷; ربوبيت خداوندى كے دلائل ۳

خدا كے رسول: ۴

ربوبيت خدا:ربوبيت خداوندى كو جھٹلانے والے۲;ربوبيت خداوندى كے جھٹلانے والوں كو دنياوى عذاب ۱۶

ظالمين :ظالموں كى حكومت كے موانع ۱۵;ظالمين كى پيروى كے آثار ۱۷; ظالمين كى حاكميت كا سبب ۱۴

ظلم :ظلم كے آثار ۱۷

عذاب :اہل عذاب ۱۶;عذاب آخرت كے اسباب ۱۷; عذاب كے مراتب ۱۷

قوم عاد:قوم عاد او ر آيات الہى ۱،۲، ۸; قوم عاد اور توحيد الہى ۱; قوم عاد اور ربوبيت خداوندى ۲;قوم عاد كا پيغمبر ۴;قوم عاد كا گناہ ۵;قوم عاد كا كفر ۲; قوم عا، كى اكثريت ۲، ۵;قوم عاد كى تاريخ ۱،۲،۴،۵ ،۷ ، ۸ ، ۱۳،۹; قوم عاد كى سرگرمياں ۷; قوم عاد كى سياسى سرگرمياں ۹; قوم عاد كى ظالمانہ حكومت ۹;قوم عاد كى مخالفت ۵،۷; قوم عاد كے حاكموں كا تكبر ۱۳; قوم عاد كے حكّام كا گناہ ۱۳ ;قوم عاد كے معاشرہ ميں درجہ بندى ۷، ۸;قوم عاد كے معصيت كار ۷; قوم عاد كے متكبرين ۷

متكبرين :متكبرين كى پيروى سے اجتناب ۱۲; متكبرين كے تسلّط كے آثار ۱۱

نافرماني:انبياء كى نافرمانى ۵; نافرمانى كے آثار ۱۳، ۱۷

نافرمان : ۵

نافرمانوں كى پيروى سے اجتناب ۱۲; نافرمانوں كى پيروى كرنے والوں پر دنياوى عذاب ۱۶; نافرمانوں كى حكومت كے موانع ۱۵

ہودعليه‌السلام :ہودعليه‌السلام كو جھٹلانے كے اسباب ۱۳;ہودعليه‌السلام كى تعليمات ۰ ۱; ہودعليه‌السلام كى ظلم كے ساتھ مخالفت ۱۰; ہودعليه‌السلام كے متعدد معجزات ۳

۱۷۵

آیت ۶۰

( وَأُتْبِعُواْ فِي هَـذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلا إِنَّ عَاداً كَفَرُواْ رَبَّهُمْ أَلاَ بُعْداً لِّعَادٍ قَوْمِ هُودٍ )

اور اس دنيا ميں بھى اور قيامت ميں بھى ان كے پيچھے لعنت لگادى گئي ہے _ آگاہ ہوجائو كہ عادنے اپنے پروردگار كا كفر كيا تو اب ہود كى قوم عاد كے لئے ہلاكت ہى ہلاكت ہے (۶۰)

۱_ قوم عاد كے افراد دنيا ميں لعنت خداوندى كے مستحق ہوئے اور آخرت ميں بھى اسكى رحمت سے محروم ہوں گے_

و اتبعوا فى هذه الدنيا لعنة و يوم القيامة

۲_ قوم عاد نے ربوبيت خداوندى كا انكار كيا اور اس كے احكام كى نافرمانى كى _الا ان عادا كفروا ربّهم

كيونكہ لفظ ( ربّہم ) فعل (كفروا) كے ليے حرف باء كے واسطہ كے بغير مفعول واقع ہوا ہے تو يہاں ہم كہہ سكتے ہيں كہ لفظ (كفرو) ميں نافرمانى كا معنى پايا جاتا ہے_ تو يوں معنى كريں گے(عصوا ربّہم كا فرين بہ )

۳_ ربوبيت خداوندى سے انكار اور اس كے پيغمبروں كے احكامات كى نافرماني، خدا كى لعنت اور اسكي رحمت سے دورى كا موجب ہے_و أتبعوا فى هذه الدنيا لعنة و يوم القيامة الا ان عادا كفروا ربّهم

۴_ ظالموں اور ستمگروں كى پيروي، دنيا و آخرت ميں رحمت الہى سے دورى كا سبب بنتى ہے_

و اتبعوا امر كل جبار عنيد و اتبعوا فى هذه الدنيا لعنة و يوم القيامة

۵_قوم عاد ، خدا اور انبياء كى نافرمانى اور كفر كے سبب، رحمت الہى سے دورى اور ہلاكت كے مستحق ٹھہري_

الا بعدا لعاد قوم هود

(بُعداً) (ہلاك ہونا يا دور ہونا) يہ مفعول مطلق ہے فعل محذوف (ليبعد) كے ليے _ يعنى عبارت يوں ہے_الا ليبعد قوم عاد بُعدا'' كيونكہ قوم

۱۷۶

عاد ہلاك ہوئي اور رحمت الہى سے محروم ٹھہرى تو ممكن ہے يہ كہا جائے كہ عذاب سے يہاں مراد عذاب آخرت ہو اور رحمت الہى سے دورى بھى آخرت ميں ہو _اور احتمال ہے كہ (الا بُعداً) سے مراد جسطرح زمخشرى نے كہا ہے رحمت سے دورى اور ہلاكت كا مستحق ہونا ہو يعني(قوم عاد ) رحمت الہى سے دور او ر ہلاكت كى مستحق ٹھرى جان ليں كہ وہ ايسى سزاا ور عذاب كے مستحق تھي_

۶_ قوم عاد ميں سے فقط جو حضرت ہودعليه‌السلام كے ہم عصر افراد رحمت الہى سے محروم اور عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے_

الا بُعداً لعاد قوم هود

(قوم ہود ) لفظ(عاد) كے ليے عطف بيان ہے كيونكہ قوم عاد، حضرت ہودعليه‌السلام سے پہلے موجود تھى اور حضرتعليه‌السلام كے بعد بھى يہ قوم موجود تھي_لہذا ہم يوں كہہ سكتے ہيں كہ لفظ (عاد) سے (قوم ہود ) كى وضاحت اور تو ضيح بيان كرنے كامقصد مندرجہ بالا مفہوم كوبيان كرنا ہے_

خدا :خدا كى ربوبيت كو جھٹلانے كے آثار ۳; لعنت الہى كے اسباب ۳

ربوبيت خدا :ربوبيت خداوند كو جھٹلانے والے ۲

رحمت :آخرت كى رحمت سے محروميت۴; آخرت ميں رحمت الہى سے محرومين۱،۵،۶; دنيا كى رحمت سے محروميت ۴;رحمت الہى سے محروم ہونے كے اسباب ۴

طاغوت:طاغوت كى اطاعت كے آثار ۴

عذاب :اہل عذاب ۶

قوم عاد :قوم عاد پر عذاب ۶; قوم عاد پر لعنت ۱;قوم عاد كا كفر ۵;قوم عاد كى آخرت ميں محروميت ۱;قوم عاد كى تاريخ ۶;قوم عاد كى محروميت كے اسباب ۵;قوم عاد كى نافرمانى ۲،۵;قوم عاد كى ہلاكت كے اسباب ۵; قوم عاد كے محروم لوگ ۶

كافرين : ۵

كفر :كفر كے آثار ۵

لعنت :لعنت كے مستحق ۱

نافرمانى :انبياءعليه‌السلام كى نافرمانى كے آثار ۳،۵; خدا كى نافرمانى كے آثار ۲،۵نافرمان لوگ :۲،۵

نافرمان لوگوں كى پيروى كے آثار ۴

۱۷۷

آیت ۶۱

( وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحاً قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ )

اور ہم نے قوم ثمود كى طرف ان كے بھائي صالح كو بھيجا اور انھوں نے كہا كہ اے قوم اللہ كى عبادت كرو اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے اس نے تمھيں زمين سے پيدا كيا ہے اور اس ميں آباد كيا ہے اب اس سے استغفار كرو اور اسكى طرف متوجہ ہوجائو كہ ميرا پروردگار قريب تر اور دعائوں كا قبول كرنے والا ہے (۶۱)

۱_ حضرت صالحعليه‌السلام ، خداوند متعال كے پيغمبروں اور رسل ميں سے تھے_و لقد ا رسلنا و الى ثمو د اخاهم صالح

(الى ثمود)كا ( الى قومہ) پر عطف اور (اخاہم ) كا عطف لفظ (نوحاً) پر ہے جو آيت نمبر ۲۵ ميں ذكر ہوا ہے _

لقد ارسلنا الى ثمود اخاهم صالح

۲_حضرت صالحعليه‌السلام كى رسالت، قوم ثمود تك محدود تھي_و الى ثمود اخاهم صالح

۳_حضرت صالح(ع) ، قوم ثمود سے رشتہ دارى ركھتے تھے_و الى ثمود اخاهم صالح

اس بات كى وضاحت كرنا ، كہ حضرت صالحعليه‌السلام قوم ثمود كے بھائي تھے اس ليے ہو سكتا ہے جملہ (اخاہم صالحا) حضرت صالحعليه‌السلام كى قوم ثمود سے رشتہ دارى كى طرف اشارہ ہو_

۴_حضرت صالحعليه‌السلام پيغمبر مبعوث ہونے سے پہلےہى اپنى قوم سے محبتكرنے والے اور ان كے ہمدرد تھے_

و الى ثمود اخاهم صالح

حضرت صالحعليه‌السلام كى قوم ثمود سے اخوت و برادرى كا يہ معنى بھى ہوسكتا ہے كہ وہ انكے ساتھ مہربانى اور ہمدردى كرتےتھے_

۵_ حضرت صالحعليه‌السلام كا قوم ثمود كيلئے پہلا اور اہم پيغام، خدا وحدہ لا شريك كى عبادت كى دعوت دينا تھا _

قال يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۶_ قوم ثمود ، خداوند متعال كے وجود پراعتقاد ركھتے تھے_يا قوم اعبدوا اللّه

۱۷۸

۷_ وجود خدا پر يقين ركھنا ، تاريخ بشرى كابنيادى اعتقاد ہے _يا قوم اعبدوا اللّه

۸_ قوم ثمود، مشرك اور متعدد خداؤں پر اعتقاد ركھتے تھے_يا قوم اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۹_ انسان كا بنيادى طور پر روحى مزاج، معبود كى عبادت اور اسكى طرف جھكاؤ ركھنا ہے_مالكم من اله غيره

۱۰_ توحيد عملى كا دارومدار توحيد نظرى پر ہے_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

(مالكم ...) كا جملہ (اعبدوا اللّہ ) كے ليے علت ہے يعنى حقيقت يہ ہے كہ خدا كے علاوہ كوئي معبود نہيں ،لہذاعملى طور پر بھى اسكى عبادت كى جائے نہ اس كے غير كى _

۱۱_ فقط خداوندعالم ہى ايسى حقيقت ہے جو لائق عبادت ہے_اعبدوا اللّه ما لكم من اله غيره

۱۲_ فقط خداوند ہى وجود دينے اور پيدا كرنے والا ہے_هو انشأكم من الأرض

(ہو انشأكم ) اور (انا قمت )جيسى نحوى تركيبات معنى ميں مبتداء اور فاعل ہے اور انكى خبر فعل ہے _ يہ كبھى تاكيد پر لالت كرتيہيں اور كبھى حصر و انحصار پر دلالت كرتى ہيں _ كلام ميں موجود قرينہ ان كو مشخص كرتا ہے_

۱۳_ جو خالق اور پيدا كرنے والا ہو وہى حقيقت ميں عبادت و پرستش كے لائق ہوتا ہے_

اعبدوا اللّه هو انشأكم من الارض

(ہو انشأكم ) كا جملہ توحيد اوروحدہ كے ليے استدلال ہے جس كا جملہ( اعبدوا اللّه ...) سے استفادہ ہوتا ہے يعنى كيونكہ خداوندعالم خالق ہے پس اسى وجہ سے لائق عبادت ہے او ر كيونكہ پيدا كرنے ميں شريك نہيں ركھتا پس عبادت ميں بھى اسكا كوئي شريك نہيں ہونا چاہيے_

۱۴_ زمين كے عناصر، خلقت انسانى كا خمير ہيں _

۱۷۹

هو انشأكم من الارض

۱۵_ خداوند متعال نے انسانوں كو زمين آباد كرنے كى طاقت و استعداد عطا كى ہے اور ان ميں اسے آباد كرنے كاميلان پيدا كيا ہے _و استعمر كم فيه

''استعمره فيه'' ، سے مراد يہ ہے كہ '' جعلہ يعمرہ'' اسے آباد كرنے والا بنايا (لسان العرب ) اس صورت ميں (استعمر كم فيہا) كا معنى يوں ہوگا : خداوند متعال نے تم كو ايسا بنايا كہ تم زمين كو آباد كرو يعنى زمين كو آباد كرنے كى صلاحيت اور طاقت عطا فرمائي اورز مين كو تمہارى ضرورت قرار ديا تا كہ ہميشہ اسےآباد كرنے كى طرف متوجہ رہو _

۱۶_خداوند متعال نے چونكہ انسانوں كوزمين كى آباد كارى كى استعداد عطا كى ہے لہذا وہ لائق عبادت ہے_

اعبدوا اللّه استعمر كم فيه

(استعمر كم فيها ) كا جملہ مثل( هو انشاكم ) كے(اعبدوا اللّه ) كے ليے دليل ہے_

۱۷_خداوند متعال كے حضور استغفار كرنے اور گناہوں كى معافى طلب كرنا ضرورى ہے_فاستغفرو

۱۸_ خداوند متعال كے تقرب كو حاصل كرنا اور اسكى طرف متوجہ ہونا ضرورى ہے _ثم توبوا اليه

جملہ ( توبوا اليہ) كا جملہ (استغفروا) پر عطف كرنا، يہ دليل ہے كہ توبہ سے استغفار كا معنى نہيں ليا گيا_ توبہ كے لغوى معنى (رجوع كرنا ) كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جا سكتا ہے كہ آيت شريفہ ميں توبہ سے مراد خدا كے اوامر و نواہى كى اطاعت كے ذريعہ اس كى طرف حركت كرنا ہے_

۱۹_گناہوں سے استغفار ، خداوند متعال كى عبادت اور شرك سے دورى ،تقرب الہى كا پيش خيمہ ہيں _

فاستغفروا ثم توبوا اليه

مذكورہ بالا معنى حرف (ثم) كے عطف سے حاصل ہوا ہے _ جو يہ دلالت كرتا ہے كہ توبہ كا مرحلہ استغفار كے بعد ہے_

۲۰_ حضرت صالحعليه‌السلام نے قوم ثمود كو يہ پيغام اور نصيحت كى كہ وہ خداوند متعال سے اپنے گناہوں كى معافى مانگيں اور اسكى طرف توجہ كريں نيز شرك سے استغفار كريں _قال يا قوم فاستغفروا ثم توبوا اليه

۲۱_ خالقيت كو خداوند متعال ميں منحصر سمجھنے كا يقين ،انسان كو اسكى عبادت كرنے اور اسكا شريك قرار دينے سے منع اور گناہ سے پرہيزاورگذشتہگناہوں سے استغفار كرنے پر آمادہ كرتا ہے_هو انشأكم من الا رض فأستغفروه

مذكورہ بالا معنى حرف (فأ) سے حاصل ہوا ہے جس كے ذريعہ جملہ (استغفروا ...) جملہ''ہو

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

چغل خوری

چغل خوری ایک انتہائی بری عادت ہے کہ جو بد قسمتی سے بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں بری بات کرتو چغل خور اسے اگے پہنچاتا ہے اور کہتا ہے فلان نے تیرے بارمیں ایسا ویسا ہا ہے چغل خوری پست فکری اور شیطنت کی صفات میں سے ہے _ اس سے ایک دوسرے کے درمیان کینہ اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے _ دوستوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے _ بہت سے جرائم ، جھگڑے ، قتل ، لڑائیاں اسی چغل خوری کا نتیجہ ہوتی ہیں _ کتنے گھروں کو اس عادت نے خراب کردیا ہے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ چغل خور لوگوں کے راز فاش کرتا ہے _ جب کہ خدا اس امر پر راضی نہیں ہے _ چغل خور کی لوگوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی _ اسے شیطان ، جاسوس اور بدذات سمجھا جاتا ہے ، زیادہ تر لوگ اس سے ہم نشینی اوردوستی سے گریز کرتے ہیں اور اس پر اور اس کے والدین پر لعنت بھیجتے ہیں _ بدترین چغل خوری ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا اور ٹوہ لگانا ہے _ اگر کوئی شخص کسی ظالم کے لیے جاسوسی کرے اور کسی مسلمان کو مصیبت میں پھنسادے _ اور اس کی قید ، اذیت یا قتل کا سبب بنے تو و ہ ظالم کے ظلم میں شریک ہے _ روز قیامت اسے سزا ملے گی _ اگر چہ وہ ظلم اور قتل کے جرم میں ظاہراً شریک نہ ہو _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی بادشاہ کے پاس چغلی کرے

۲۸۱

اور اس کی جاسوسی کرے _ یہ جاسوسی اس کے لیے بھی باعث ہلاکت ہے

اس کے بھائی کے لیے بھی اور بادشاہ کے لیے بھی _ (۱)

اسلام کے دین مقدس نے جاسوسی اور چغل خوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

چغل خور پہ بہشت حرام کردی گئی ہے اور وہ اس میں داخل نہیں ہوسکتا _ (۲)

امیر المومین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:تم میں سے شریر اور برے وہ ہیں کہ جو چغل خوری سے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور پاکدامن افراد کی عیب جوئی کرتے ہیں _ (۳)

چغل خوری کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں _ کبھی دشمنی اس کا باعث بنتی ہے _ چغل خور کو کسی ایک یا دونوں افراد سے دشمنی ہوتی ہے اس لیے ایک سے دوسرے کی بات بیان کرتا ہے تا کہ ان میں پھوٹ پڑجائے _ اور وہ آپس میں لڑ پڑیں _ کبھی کوئی شخص خودنمائی اور دوستی و خیرخواہی جتانے کے لیے چغلی کھاتا ہے _ اور کبھی اس کا مقصد فقط محفل آرائی ہوتا ہے _ بہر حال مقصد کچھ بھی ہوکام بہت برا ہے کہ ایک مسلمان کو جس سے بہر حال اجتناب کرنا چاہیے _ دین مقدس اسلام نے چغلی سننے تک کو حرام قرار دیا ہے _پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:چغل خوری نہ کرو اور نہ چغل خور کی بات پر کان لگاؤ_ (۴)

-----------

۱_ بحار، ج ۷۵، ص ۲۶۶

۲_ اصول کافی، ج ۲ ص ۳۶۹

۳_ اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۳۷۹

۴_ مجمع الزوائد ، ج ۸، ص ۹۱

۲۸۲

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ٹوہ لگانے والے اور چغل خور کی بات کی تکذیب کرو وہ غلط ہو یا صحیح _ (۱)

واضح ہے کہ اگر کوئی شخص چغل خور کی باتوں پر کان نہ دھرے گا تو وہ ناچار اس عادت سے دستبردار ہوجائے گا_ جو شخص کسی کی چغلی آپ کے سامنے کرتا ہے آپ اطمینان رکھیں کہ وہ آپ کا حقیقی دوست اور خیر خواہ نہیں ہے _ اگر وہ آپ کا دوست ہوتا تو کہنے والے کے سامنے تمہارا دفاع کرتا نہ کہ اس کی بات آکر تمہارے سامنے نقل کرتا _ تا کہ تم غصّے میں جلو اور پریشان ہو _ اور کبھی وہ تمہیں غلط کاموں پہ ابھارتا ہے ، مسلمان کو چاہیے کہ وہ راز دار ہو اور اپنی زبان پر کنڑول کرے اور جاسوسی اور چغل خوری سے پرہیز کرے _ بہت سے لوگ یہ ناپاک عادت بچپن ہی میں ماں باپ کے ہاں سے حاصل کرتے ہیں _ لہذا ماں باپ کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے _ اپنی اولاد کو اس بری عادت سے بچانے کے لیے پہلے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ کسی کی چغلی نہ کھائیں ماں کو نہیں چاہیے کہ وہ پھوپھی ، باجی ، خالہ اور ہمسائیوں کی شکایتیں اپنے شوہر سے کرے _ اور شوہر بھی بیوی سے دوسروں کی چغلی نہ کھائے کیونکہ اگر ماں باپ کو چغل خوری کی عادت ہوگی تو ان کی اولاد بھی ان کی تقلید کرے گی _ اور اس بری عادت کو ان سے سیکھے کی _ کبھی کوئی بچہ اپنی امی، بہن یا بھائی کی شکایت ابو سے کرتا ہے اور چغلی کھاتا ہے _ اس موقع پر باپ کی ذمہ داری ہے کہ فوراً بچے کو روکے اور اس سے کہیں کہ چغلی کھانا برا کام ہے _ کیوں امّی امّی کی بات میرے سامنے بیان کرتے ہو؟ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم دوسروں کی باتیں مجھ سے بیان کرو _ پھر میں نہ دیکھوں کہ تو چغلی کھاتاہے _ علاوہ ازیں اس کی چغلیوں پر رد عمل بھی بالکل ظاہر نہ کریں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں _ بچوں کو یہ بری عادت نہ پڑے اس لیے

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''چغل خوری کی چغلیوں پہ کان نہ دھرو''

---------

۱_ غررالحکم ، ص ۱۲۵

۲۸۳

عیب جوئی

لوگوں میں یہنی کیڑے نکالنا بھی بری اور مذموم عادتوں میں سے ہے _ عیب جوئی کرنے والے شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور اس سے میل ملاپ پسند نہیں کرتے _ عیب جوئی دشمنی اور کینے کا باعث بن جاتی ہے ، دوستیوں کے بندھن توڑدیتی ہے اور دوستوں کے ما بین جدائی ڈال دیتی ہے _ اگر کسی کی غیر موجودگی میں اس کی عیب جوئی کی جائے تو یہ غیبت ہے اور سامنے کی جائے تو بھی برائی ہے _ دین مقدس اسلام نے اس بڑی عادت کو گناہوں کبیرہ میں سے شمارکیا ہے اس بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں _ مثلاً:

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ دیتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:

اے وہ لوگو کہ جو زبان سے ایمان کا دعوی کرتے ہو _ لیکن تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہو مسلمانوں کی غیبت اور بدگوئی نہ کرو اور ان کے عیب تلاش نہ کرتے رہو کیونکہ ہر وہ شخص جو اپنے بھائی کے عیب ڈھونڈے اللہ اس کے عیوب آشکار کردے گا اور اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردے گا _ (۱)

-------

۱_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۲۰۳

۲۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی کسی مومن سے متعلق کوئی ایسی بات کہے کہ جس سے اس کی عزت و آبرو جاتی ہو ، اللہ اسے اپنے دوستوں کے زمرے سے نکال کر شیطان کے دوستوں میں شامل کردے گا اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرے گا _ (۱)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو کوئی بھی کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت اور بدگوئی کرے گا ، اللہ چالیس روز تک اس کی نماز روزہ قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس راضی کرلے _ (۲)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

غیبت اور بدگوئی حرام ہے اور نیکیوں کو یوں تباہ کردیتی ہے جیسے آگ ایندھن کو جلاڈالتی ہے _ (۳)

بد قسمتی سے اتنا برا گناہ ہمارے لوگوں کا معمول بن چکا ہے _ یہاں تک کہ اب یہ لوگوں کو برائی ہی معلوم نہیں ہوتا اور لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں _ ماں باپ کی برائی کرتی ہیں اور باپ ماں کی _ ہمسائے اور رشتے دار ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے ہیں _ معصوم بچے یہ بری عادت اپنے گھر اور ماں باپ ہی سے اپناتے ہیں _ بچے دوسرے بچوں کی عیب جوئی کرتے ہیں _ تدریجاً بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر اس خود کو چھوڑنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے _

بعض نا سمجھ ماں باپ اپنے بچوں کی برائی بھی کرتے ہیں جب کہ انہیں اپنی اولاد

-------------

۱_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۵

۲_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۴

۴_ جامع السعادات ، ج ۲ ، ص ۳۰۵

۲۸۵

کی کوتاہیوں کو چھپانا چاہیے _ کبھی ماں باپ اپنی اولاد کی برائی اس کے سامنے مذاق کے طور پر یا غصّے میں بیان کرتے ہیں _

ایسی صورت میں بچے ماں باپ کے بارے میں بدظن ہوجاتے ہیں ، یا ان میں بھی یہ عادت پڑجاتی ہے اور یا پھر اپنے بارے میں وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں لہذا ماں باپ کو بچوں کی عیب جوئی سے پرہیز کرن چاہیے _

۲۸۶

گھر میں بچوں کا لڑائی جھگڑا

ایک بہت بڑی گھریلو پریشانی بچوں کا لڑائی جھگڑا ہے _ بچے جب ایک سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ان کے درمیان لڑائی جگھڑا بھی شروع ہوجاتا ہے _ ایک دوسرے کو اپنے لیے بدشگون سمجھتا ہے _ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھکّے د یتے ہیں ، کھلونے چھینتے ہیں ، ایک دوسرے کی کاپی پر لکیریں کھینچ دیتے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں، ایک شور مچاتاہے تا کہ دوسرا اسکول کا سبق یا دنہ کر سکے ، ہر بچہ جانتا ہے کہ وہ کن طریقوں سے اپنے بھائی یا بہن کو ستا اور لا سکتا ہے وہ ایک دوسرے کی خوب خبر لیتے ہیں _ اس صورت حال پر ماں باپ بے چار ے کڑھتے رہتے ہیں _ لڑائی جھگڑے کی شکایت ان کے پاس آتی ہے ، خرابی تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچوں کی لڑائی ماں باپ پر اثر انداز ہوجاتی ہے _ ماں ، باپ س کہتی ہے تم تو بچے کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے ، وہ تم سے دڑتے تک نہیں ، یہ تمہاری لا پروا ہی کی وجہ ہی سے گھر میدان جنگ بن چکا ہے _

باپ ، ماں سے کہتا ہے ،اگر تو سمجھدار عورت ہوتی تو یہ سچے اتنے شیطان اور نالائق نہ ہوتے _ تیری حمایت کی وجہ سے بچوں کی یہ حالت ہے _

یہاں پر ماں باپ کو یادرکھنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں _ ان سے اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ وہ پینتالیس سالہ کسی شخص کی طرح آرام سے کسی کونسے میں بیٹھے ہوں _ آپ اس حقیقت کو قبول کریں کہ بچوں کا لڑائی جھگڑا تو ایک فطری سی بات ہے _ لڑائی تو بڑوں میں بھی ہوجاتی ہے _ ایک گھر میں بچوں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہمیشہ آرام و

۲۸۷

سکون سے بیٹھے رہیں اور کبھی لڑائی جھگڑا نہ کریں_ بچے تو شریر ہوتے ہی ہیں _ وہ جلدی پھر آپس میں گھل مل جاتے میں بڑوں کی طرح دیر تک ایک دوسرے سے منہ بسورے بیٹھے نہیں رہتے _ ایک ماہر نفسیات اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ بات ہمیں سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ ایک گھر ، اس میں چند بچے بھی ہوں مگر وہ ہمیشہ مل جل کر رہیں کبھی لڑیں جھگڑیں نہیں _ ہم نے جس بچے سے بھی بات کی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ امی ابو یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم بہن بھائی جب اکھٹے ہوں تو ہمیں بہت زیادہ اتفاق و آرام سے رہنا چاہیے _ اگر آپ حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی اس توقع سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائیں توبچوں کے اس لڑائی جھگڑے سے اتنا پریشان نہیں ہوں گے _ (۱)

ہمیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ بچوں کہ یہ عادت ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہوجائے گی _ اگر ماں باپ ان کے بچن کے طرز عمل کو ایک حقیقت کے طور پر مان لین تو پھر کسی حد تک انہیں اطمینان ہوجائے گا اور کم از کم وہ ان کے بچپن کے لڑائی جھگڑے خو د ان تک نہیں پہنچنے دیں گے _

ایک ماہر نفسیات لکھتے ہیں:

شاید بچوں کے بہت سارے کام مثلاً آپس میں مذاق کرنا _ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرنا _ کشتی کرنا _ صرف وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے بڑے ہونے سے ختم ہوجاتے ہیں _ (۲)

ہاں یہ درست ہے کہ زیادہ تر موقع پر ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑوں کو ختم نہیں کرسکتے لیکن عقل اور تدبیر سے ان میں کمی پیدا کرسکتے ہیں_ عقل مند ماں باپ بچوں کے

-----------

۱_ روان شناسی کودک از تولّد تادہ سالگی ، ص ۲۸۶

۲_ روان شناسی کودک _ رفتار کودکان از تولد تا دہ سالگی ص ۲۸۶

۲۸۸

لڑائی جھگڑے پر بالکل تماشائی نہیں بنے رہ سکتے _ بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ عقل و تدبیر سے اس کے عوامل کو ختم کریں _ انہیں اجازت نہ دیں کہ وہ ایک دوسرے کو اذیت پہنچائیں _ ماں باپ کو چاہیے کہ پہلے وہ اختلاف کے عوامل کو سمجھیں اور ان اسباب کو پیدا ہونے سے روکیں وگرنہ بعد میں مسئلہ مشکل ہوجائے گا _ بچوں کے درمیان اختلاف کی ایک اہم وجہ ان کا آپس میں حسد ہے نظر انداز کرنے سے حسد ختم نہیں ہوسکتا _ اور ڈانٹ ڈپٹ بھی اس کا علاج نہیں ہے _ چاہیے کہ حسد پیدا ہونے کے اسباب کو روکا جائے _

بچہ خود پرست ہے وہ چاہتا ہے کہ فقط وہی ماں باپ کا محبوب ہو اور کوئی اور ان کے دل میں جگہ نہ پائے _ پہلا بچہ عموماً ماں باپ کو لاڈلاہوتا ہے _ وہ اس سے پیار محبت کرتے ہیں _ اس کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں _ لیکن جب دوسرا بچہ دنیا میں آتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں _ ماں باپ کی پوری توجہ نو مولودکی طرف ہوجاتی ہے اب بڑا بچہ خطرہ کا احساس کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ننھا بن بلا یا مہمان اب اس کا رقیب بن گیا ہے _ اور ماں باپ کو اس نے اپنا بنالیا ہے _ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے انتقام لینا چاہیے _ لیکن نومولود پر اں باپ کی شفقت ہوتی ہے لہذا اسے قبول کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا _ ان حالات میں ممکن ہے بڑا بچہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرے ، زمین پر گرجائے ، کھانا ہ کھائے ، غصّہ کرے ، روئے یا اپنے کپڑوں کو خراب کردے تا کہ اس طرح سے وہ ماں باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکے یہ بچہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے اور اسی وقت سے بھائی یا بہن کے بارے میں اپنے دل میں کینہ کرلیتا ہے _ اور اس موقع کے انتظام میں رہتا ہے کہ اس سے انتقام لے سکے _ اس کیفیت میں سب بچے پیدا ہوتے ہیں اور گھر کے دوسرے بچوں سے آملتے ہیں _ انہیں حالات میں حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے _ کیا یہ بہتر نہیں ہے کاماں باپ شروع ہی ہے اپنے طرز عمل پر توجہ رکھیں _ اور بچوں میں حسد کے اسباب پیدا نہ ہونے دیں _ سمجھدار ماں باپ نو مولود کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی بڑے بچوں کو ذہنی طور پر اس کے استقبال کے لیے اور قبول کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں _ ان سے کہتے ہیں _ انہیں پہلے ہی سمجھاتے ہیں کہ جلد ہی تمہارا ننھا بھائی یا ننھی بہن پیدا ہوگی _ تعجب وہ بڑی ہوگی تو

۲۸۹

تم سے پیار کرے گی _ تمہارے ساتھ مل کے کھیلے گی _

اگر وہ نو مولود کے لیے کوئی چیز تیار کریں تو بڑے بچوں کے لیے بھی کوئی چیز خریدیں جب ماں نئی پیدائشے کے لیے کسی میڈیکل سینٹر میں داخل ہوجائے تو باپ بچوں کے لیے تحفہ لاسکتا ہے اور ان سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ننّھے کی آمد کی خوشی میں تمہارے لیے تحفہ لایا ہوں _ جب نو مولود گھر آئے تو زیادہ شورو شرابہ نہ کریں اور دوسرے بچوں کی موجودگی میں اسی کی زیادہ تعریف نہ کریں _ پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان کا خیال کریں _ ان سے محبت کریں ایسا سلوک کریں کہ بڑے بچے مطمئن ہوں وہ سمجھیں کہ نئے بچے کہ آنے سے ان کی زندگی کو نقصان نہیں پہنچا _ اس طرح سے وہ نئے بچے کے لیے اپنی گو دپھیلا سکتے ہیں اور خوشی خوشی اس کا استقبال کرسکتے ہیں _ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماں باپ چاہیں کہ ان کے بچے آپس میں دوست ہوں اور ان میں لڑائی جھگڑانہ ہو تو ان میں حسد کے اسباب پیدا ہونے دیں اور ان کو ایک آنکھ سے دیکھیں _ سب سے ایک جیسا سلوک کریں تا کہ وہ آپس میں دوست ہوں _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:انصاف اختلاف کو ختم کردیتا ہے اور دوستی کا سبب بنتا ہے _ (۱) امیر المومنین علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:عادلانہ سلوک بہترین تدبیر ہے _ (۲) ممکن ہے بعض بچوں میں واقعاً ایسی خصوصیت ہو کہ جس کی وجہ سے ماں باپ کی محبت ان سے زیادہ ہوجائے _ ہوسکتا ہے بعض بچے زیادہ ذہین ہوں ، زیادہ خوبصورت ہوں _ بعض کا اخلاق بہتر ہو _ ہوسکتا ہے زیادہ محنتی ہو _ ہوسکتا ہے بعض زیادہ خوش زبان ہوں ، ہو سکتا ہے کسی کا سلوک دوسرے سے ماں باپ سے بہتر ہو _ ہوسکتا ہے کوئی کلاس سے دوسروں کی نسبت نمبر اچھے لائے _ ہوسکتا ہے ماں باپ بیٹی یا بیٹے کو زیادہ پسند

------------

۱_ غرر الحکم ، ص ۶۴

۲_ غررالحکم ، ص ۶۴

۲۹۰

کرتے ہوں _

ممکن ہے اس میں کوئی حرج بھی نہ ہو کہ ماں باپ قلباً کسی ایک بچے کو زیادہ پسند کرتے ہوں لیکن ان کا سلوک سب سے ایک جیسا ہونا چاہیے او راس میں فرق نہیں کرنا چاہیے _ یہاں تک کہ بچے ذرا بھی دوسرے کے بارے میں ترجیحی سلوک نہ دیکھیں _ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بچے ماں باپ کی محبت کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں _ اور اس پر بہت توجہ دیتے ہیں اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں _ لہذا ماں باپ کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے _

بعض ماں باپ بچوں کی تربیت کے لیے ایک کی خصوصیات دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں_ مثلاً کہتے ہیں : حسن خوب سبق پڑھوتا کہ عباس کی طرح اچھے نمبر حاصل کرسکو_ کہتے ہیں: زہرا تم اپنی بہن زینب کی طرح ماں کی مدد کرو زینب کتنی اچھی بچی ہے کہتے ہیں: رضا تم بھی اپنے بھائی علی کی طرح دستر خوان پر سلیقے سے بیٹھو_ دیکھو وہ کتنا با ادب بچہ ہے _ ایسے ماں باپ کا طرز عمل بالکل غلط ہے کیونکہ غلط ہے کیونکہ اس کا نہ فقط مثبت تربیتی نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس سے بچوں میں رقابت اور حسد پیدا ہوجاتاہے اور انہیں انتقام اور دشمنی پر ابھارتا ہے _ کبھی بچے خود بھی ایسی باتوں کا اظہار کرتے ہیں _

بچوں کے لڑائی جھگڑے کی ایک وجہ ماں باپ کی ان سے بے جا توقع ہے _ بچہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی یا بہن کے کھلونوں سے کھلیے لیکن وہ اسے اس کی اجازت نہیں دیتے _ لہذا لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے وقت ماں یا باپ دخالت کرتے ہیں اور پیاز کے ساتھ سمجھاتے ہیں اور اگر پیار کا اثر نہ ہو تو سختی سے انہیں سمجھا تے ہیں کہ وہ اپنے کھلونے اپنے بھائی کودے دیں _ مثلاً کہتے ہیں: یہ تمہارا بھائی ہے ، کیوں اے کھلونے نہیں دیتے ہو کھلونے لائے و ہم ہی ہیں ، کیا یہ تمہاری ملکیت ہیں کہ جو اسے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے ہو اگر تم نے ایسا کیا تو پھر تم سے ہم پیار نہیں کریں گے اور نہ ہی آئندہ تمہیں کھلونے خرید کردیں گے _

بچہ بیچار مجبور ہوجاتا ہے _ کھلونے دے تو دیتا ہے لیکن ماں یا باپ کو سخت مزاج

۲۹۱

اور بھائی کو ظالم سمجھنے لگتا ہے اور دل میں دونوں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے پھر وہ اس کا اظہار کرتا ہے کیوں کہ بچہ ان کھلونوں کو اپنا مال سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ کسی کو حق نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر انہیں ہاتھ لگائے لہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم اور اپنے بھائی اور باپ کو ظالم سمجھتا ہے _ ایسے موقع پر یہ بچہ حق پر ہے کیوں کہ ماں باپ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ ان کی مخصوص چیزوں کو کوئی چھیڑے پھر یہ حق وہ بچوں کو کیوں نہیں دیتے اور ہر شخص کی کچھ اپنی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کے استعمال سے وہ دوسروں کو روک سکتا ہے _ البتہ عقل مند اور باتدبیر ماں باپ آہستہ آہستہ بچوں کے اندر تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں _ اور ایسی فضا پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ خوشی خوشی اپنے بہن بھائیوں کو اپنے کھلونوں سے کھیلنے اور اپنی چیزوں کے استعمال کی اجازت دیں کبھی اختلاف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کبھی ماں باپ کوئی کا م ایک بچے کے سپردکردیتے ہیں اور دوسروں کو ایسے ہی چھوڑدیتے ہیں اس صورت میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _اگر ماں باپ اس طرح کی کشمکشوں سے بچنا چاہیں تو انہیں چاہیے کہ سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھیں اور ان میں کوئی تفریق روانہ رکھیں _ یا تو کسی سے کوئی نہ کہیں _ یا پھر ان کی صلاحیت کو سمجھ کر ہر کسی کے لیے کوئی کام متعین کریں اور ان کے ذمہ لگائیں تا کہ اختلاف پیدا نہ ہو بیکاری بھی خرابیوں کی ایک وجہ ہے بچوں کی مشغولیت کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے تا کہ ان میں جھگڑا کم سے کم ہو _ خاص طور پر اگر ہ سکے تو انہیں کسی ایسے کھیل پر ابھاریں کہ جسے وہ مل جل کر کھیل سکیں _ یہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا _کبھی ماں باپ کی آپس کی لڑائی بھی بچوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتی ہے _ جب معصوم بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ ایک دوسرے سے قوتکار اور لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑائی جھگڑا زندگی کے لازمی امور میں سے ہے _ اور ایک ایسا کام ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا _ اس لحاظ سے وہ ماں باپ کی تقلید کرتے ہیں _ اور یہی کام وہ آپس میں کرتے ہیں _لہذا جو ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑے سے تنگ ہوں انہیں پہلے اپنی اصلاح

۲۹۲

کرنا چاہیے _ آپس کے نزاع اور کشمکش کو ترک کردینا چاہیے پھر بچوں کی اصلاح کے درپے ہونا چاہیے _ شاید ایسا کوئی خاندان کم ہی ہو کہ جس میں کبھی کوئی جھگڑا پیدانہ ہواہو _ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کی عدم موجودگی میں وہ آپس میں اس سلسلے میں بات کریں _ اور اگر کوئی بات بچوں کے سامنے ہوجائے تو وہ بچوں سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسئلے پر ہمارا اختلاف رائے ہے _ ہم چاہتے ہیں کہ اسے حل کریں _

آخر میں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے آپ ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھیں لیکن پھر بھی بچوں کے لڑائی جھگڑے سے کامل طور پر نہ بیچ سکیں _ آپ کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے _ نہ ہی ہم نے اس کی ضمانت دی ہے _ آپ کے بچے بھی عام بچوں کی طرح ہیں _ بچوں کے جھگڑے ایک فطری سی بات ہے _ بچوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے _ جو وہ ایسے کاموں پہ خرچ کرتے ہیں _ آپ متوجہ رہیں کہ وہ ایک دوسرے نقصان نہ پہنچائیں اور ایک دوسرے کو شدید اذیت نہ دیں بہتر یہ ہے کہ حتی الامکان بچوں کے چھوٹے موٹے جگڑوں میں آپ شریک نہ ہوں _ انہیں آپ رہنے دیں کہ وہ اپنے مسئلے خود حل کریں _ نہ ہی آپ ایسی باتوں پر زیادہ پریشان ہوں _ ان کا طرز عمل خود ہی ٹھیک ہوجائے گا _

۲۹۳

دوست اور دوستی

اچھا دوست اور مہربان رفیق اللہ کی عظم نعمتوں میں سے ہے _ مصیبت میں دوست ہی انسان کی پناہ ہوتا ہے اور قلب ور وح کے آرام کا ذریعہ ، مشکلات سے بھر ی اس دنیا میں ایک حقیقی دوست کی موجودگی ہر انسان کی ضرورت ہے _ جو شخص ایک مہربان دوست کی نعمت ہے محروم ہو وہ وطن سے دور تنہائی کی سی کیفیت میں ہوتا ہے اور کوئی اس کا غمخوار نہیں ہوتا کہ زندگی کی مشکلات میں وہ جس کا سہارا لے سکے _

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دنیا میں آرام کا بہترین وسیلہ کیا ہے _ فرمایا: کھلا گھر اور زیادہ دوست '' (۱) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کمزورترین شخص وہ ہے جو کسی کو دوست اور بھائی نہ بنا سکے _ (۲)

حضرت علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

دوستوں کا نہ ہونا ایک طرح کی غریب الوطنی او رتنہائی ہے _ (۳)

-----------

۱_ بحار ، ج ۷۴، ص ۱۷۷

۲_ نہج البلاغہ ، ج ۳، ص ۱۵۳

۳_ بحار، ج ۷۴، ص ۱۷۸

۲۹۴

جیسے بڑوں کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بچوں کو بھی یاردوست کی ضرورت ہوتی ہے جس بچے کا کوئی دوست نہ ہو وہ ہر جگہ تنہا تنہا سا ، مرجھایا مرجھا یا سا اور افسردہ افسردہ سا رہتا ہے _ بچے کو فطری طور پر دوست کی خواہش ہوتی ہے اور اس فطری خواہش سے اسے محروم نہیں رکھا جا سکتا _ دوست اور ہم جولی میں فرق ہے _ ہوسکتا ہے اس کا ہم جولی تو ہو مگر دوست نہ ہو _ کبھی بچہ ہم جولیوں اور کلاس فیلوزیں میں سے کسی دوست کا انتخاب کرتا ہے _ شاید دوستی کا اصلی محرک اور عامل زیادہ واضح نہ ہو _ ہوسکتا ہے دو افراد کی باہمی روحانی ہم آہنگی انہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردے _

امیر المومنی علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگوں کے دل بھکتے ہوئے جنگلیوں کے مانند ہیں جو بھی ان سے محبت کرے اسی میں کھوجاتے ہیں _ (۱)

دوست کسی پر ٹھونسا نہیں جا سکتا کہ ماں باپ اپنی اولاد سے کہیں کہ فلاں بچے کو دوست بناؤ اور فلاں کو نہ بناؤ _ دوست کے انتخاب میں بچے کو آزادی ملنا چاہیے البتہ ہر طرح کی آزادی نہیں دی جا سکتی کیونکہ دوستوں کا اخلاق و کردار ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک دوست دوسرے کے اخلاق اور طرز عمل کو اپناتا ہے _ اگر بچے نے ایک خوش اخلاق اور اچھا دوست بنالیا تو وہ اس سے اچھائیاں اپنائے گا اور برا دوست مل گیا تو اس کی برائیاں اس پر ا ثر انداز ہوں گی _ بہت سے معصوم بچے اور نوجوان ہیں کہ جو اپنے برے دوستوں کے باعث گناہ کی وادی میں جا پہنچے ہیں اور ان کی دنیا و آخرت تباہ ہوچکی ہے _

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب ، طریقے اور روش کا خوگر بن جاتا ہے _ (۲)

------------

۱_ بحار، ج ۷۴، ص ۱۷۸

۲_ اصول کافی ، ج ۲ ، ص ۳۷۵

۲۹۵

حضرت علی علیہ السلام فرمایا ہیں :

لوگوں میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہے کہ جس کامیل جول اچھے لوگوں کے ساتھ ہو (۱)

اسی وجہ سے اسلام اپنے ماننے والوں کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ وہ برے دوست سے اجتناب کریں

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

فاسقوں اور گنہ گاروں کے ساتھ دوستی سے بچو کیونکہ برائی کہ تاثیر برائی ہی ہے (۲)

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند و لبند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :

اے میرے بیٹے : پانچ طرح کے لوگوں سے رفاقت نہ رکھو :

۱_ جھوٹے کے ساتھ رفاقت نہ کرو کہ وہ سرا ب کے مانند ہے _ وہ تجھے فریب دے گا _ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور بتا ئے گا _

۲_ فاسق اور بد کار کو دوست نہ بناؤ کہ وہ تجھے بہت کم قیمت پریہاں تک کہ ایک نوالے کے مول بیچ دے گا_

۳_ کنجوس کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ ضرورت پڑنے پر مدد نہیں کرے گا_

۳_ کسی احمق کو دوست نہ بناؤ کیوں کہ وہ اپنی بے وقوفی کے باعث تمہیں نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچادے _

۵_ قطع رحمی کرنے والے کو دوست نہ بناؤ کیونکہ قطع رحمی کرنے والا خدا کی رحمت سے دو ر اور ملعون ہے (۳)

۲۹۶

لہذا سمجھدا ر اور فرض شناس ماں باپ کی دمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں سے لا تعلق نہ دہیں کیونکہ ایسا کرنا نہ بچوں کے فائدہ ے میں ہے اور نہ مال باپ کے البتہ ماں باپ کی اس معاملے میں بلا واسطہ دخالت بھی درست نہیں ہے _

اگر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک اچھا اور نیک دوست مہیا کر سکیں توانہوں نے بچے کی بھلائی کا انتظام کیا ہے اور اسے تباہی کے راستے سے بچایا ہے _ لیکن یہ بھی کوئی آسان کا م نہیں _ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب اچھے برے کی کچھ تمیز کرنے لگے تو اسے پیار محبت سے ایک اچھے اور برے د وست کی صفات بتائیں برے بچوں کے ساتھ دوستی کے نتائج بھی اس پر واضح کریں _

پھر بچوں کے دوستوں اور ان کے طرز عمل پر کچھ فاصلے سے نگاہ رکھیں اگر ماں باپ دیکھیں کہ ان کے دوست اچھے ہیں تو ان کی تائید و تشویق کریں اور انہیں ملنے جلنے کے مواقع فراہم کریں لیکن اگر دیکھیں کہ ان کے بچے دھو کا کھا گئے ہیں اور برے بچوں کو دوست بنار ہے ہیں تو پیار محبت سے ان کی خامیوں کی طرف متوجہ کرکے اپنے بچوں کو ان سے میں ملاقات سے روکیں _ پیار محبت سے یہ کام نہ ہو سکے تو کچھ سختی سے منع کیا جاسکتا ہے _ ایک اور طریقے سے بھی ماں باپ بچے کے لیے اچھے دوست کے انتخاب میں مدد کرسکتے ہیں _ اس کے ہمجولیوں ، محلے والوں ، ہمسایوں ، و غیرہ میں سے کسی اچھے دوست کو تلاش کریں اور ان کے در میان بہتر رابطے کا وسیلہ فراہم کریں _ اس طرح اگر وہ آپس میں دوست ہو جائیں تو ان کی تشویق کریں _ اس طرح ماں باپ بہت اچھی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں اور بچوں کی بہت سی خامیاں اچھے دوست کے انتخاب سے دور کرسکتے ہیں _ مثلا وہ ماں باپ جن کا بیٹا بزول ہے وہ اس کے لیے کوئے شجاع بچہ انتخاب کریں کہ جس سے دوستی کے ذریعے اس کی بزولی جاتی رہے _

بہر حال ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں بالخصوص نو جوانی کے دور میں ان کے دوستوں سے غافل رہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیں کیونکہ بچہ اور نو جوان کے لیے بدلنے کے زیادہ امکانات ہیں _ حب کہ عمومی اخلاق اور معاشر ہے کی حالت

۲۹۷

بھی ٹھیک نہ ہو تو ممکن ہے تھوڑی سی غفلت سے آپ کا فرزند دلبند برائی اور بد بختی کے گڑھے میں جاگرے _ لہذا یاد رکھیں کہ پر ہنر علاج سے کہیں بہتر ہے _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :ہر چیز کے لیے ایک آفت ہے اور نیکی کے لیے آفت برا دوست ہے ایک صاحب لکھتے ہیں :

میرے ماں باپ مجھے دوستوں سے ملنے کی اجزات نہ دیتے تھے _ اگر دوست مجھے گھر پر ملنے آتے تو میںمجبور ہوتا کہ ایک دو باتیں کرکے انہیں رخصت کردوں _ ایک دوست ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا ہے _ امّی ابو اسے جانتے تھے لیکن وہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت نہ دیتے _ مجھے بہت خواہش ہوتی کہ دوستوں سے لموں ، ان کے ساتھ بیٹھوں اور ان سے بات چیت کروں لیکن کیا کرتا امّی ابو حائل تھے _ مجھے اس کا بہت غم تھا _ ایک روز میں نے ارادہ کرلیا کہ جیسے بھ ہو دوستوں سے ملنے ضرور جاؤں گا _ میں نے امّی سے کہا : میرا امتحان ہے اس کے لیے مجھے جانا ہے اجازت تو امتحان کے لیے لی لیکن اپنے دوست کے ہاں جا پہنچا _ اس دوست کا گھر کچھ دور تھا _ ایک دیگن پر بیٹھا اور اس کے ہاں چلا گیا _ وہاں اور دوست بھی تھے _ دن ان کے ساتھ خوب خوش گپیوں میں گزرا _ شام واپس آیا تو امّی نے کہا بہت دیر سے آئے ہو پھر _ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے مجھے اور کئی جھوٹ بولنا پڑے _آج سو چتا ہوں کہ کیا امّی جان کو معلوم نہ تھا کہ دوست اور رفیق کی کسی بچے کو کتنی ضرورت ہوتی ہے _ انہوں نے مجھے ای قدر پابند کیوں کر رکھّا تھا _

ایک لڑکی لکھتی ہے :ایک مرتبہ میں نے اپنی کچھ سہیلیوں کو گھر بلا یا _ اور میرے پاس جو پیسے گلّے میں جمع تھے _ وہ نکالے بھا گم بھاگ گئی اور ان کے لیے آئس کریم لائی _ امّ کہیں

۲۹۸

گئی ہوئی تھیں _ سہیلیاں آئس کریم کھا رہی تھیں او پر سے امی گھر میں داخل ہوئیں

مجھے بہت خوف ہو ا خدا جائے امی کیا کہیں کیوں کہ وہ تو ہمیشہ مجھے سہیلیوں سے ملنے سے منع کرتی رہتی تھیں : انہیوں نے با لکل میری عزت کا خیال نہ کیا اور میری سہیلیوں سے کہنے لگیں تم نے صائمہ سے فضول خرچی کروائی ہے _

میری استانی سے حاکر شکایت کے لہجے میں میری سہیلیوں کے بارے میں کہا یہ ہمارے گھر آتی ہیں اور میری بیٹی کو فضول خرچی پر مجبور کرتی ہیں _ کل میری بیٹی سے آئس کریم کھا رہی تھیں _ سہیلیاں جو میری ہم کلاس بھی تھں وہ کہنے لگیں _ آنٹی کل والی آئس کریم کے پیسے ہم دے دیتی ہیں _ مجھے اتنی شرم آئی دل چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور میں غرق ہو جاوں _ وہ دن اور آج کادن پھر میں سکول نہیں جاسکی _ سہیلیاں اگلی کلاسوں میں جاپہنچیں _ اور میں پشیمان پشیمان سی سہمی سہمی سی _

او اس اواس سی آج ان سے کہیں پیچھے رہ گئی ہوں _

۲۹۹

بچہ اور دینی تعلیم

اللہ اور دین کی طرف توجہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اس کا سرچشمہ انسان کی اپنی سرشت ہے _

اللہ تعالی قرآن حکیم میں فرماتا ہے :

فاقکم وجهک للدّین حنیفا _ فطرة الله التی فطر النّاس علیها

اپنا رخ دین مستقیم کا طرف کرلو_ وہی دین کو جو فطرت الہی کا حامل ہے اور وہی فطرت کی جس کی بنیاد پر اس نے انسان کو خلق فرمایاہے _ (روم _۳۰)

ہر بچہ کی فطری طور پر خدا پرست ہے لیکن خارجی عوامل اثر انداز ہوجائیں تو صورت بدل جاتی ہے جیسا کہ

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

کل ّ مولد یولد علی فطرة الاسلام ...

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعدا ز اں اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی ، بنادیتے ہیں _ (۱)

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ اس میں

----------

۱_ بحار، ج ۳ ، ص ۲۸۱

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361