آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121925
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121925 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

چغل خوری

چغل خوری ایک انتہائی بری عادت ہے کہ جو بد قسمتی سے بہت سے افراد میں پائی جاتی ہے اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں بری بات کرتو چغل خور اسے اگے پہنچاتا ہے اور کہتا ہے فلان نے تیرے بارمیں ایسا ویسا ہا ہے چغل خوری پست فکری اور شیطنت کی صفات میں سے ہے _ اس سے ایک دوسرے کے درمیان کینہ اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے _ دوستوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتی ہے _ بہت سے جرائم ، جھگڑے ، قتل ، لڑائیاں اسی چغل خوری کا نتیجہ ہوتی ہیں _ کتنے گھروں کو اس عادت نے خراب کردیا ہے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ چغل خور لوگوں کے راز فاش کرتا ہے _ جب کہ خدا اس امر پر راضی نہیں ہے _ چغل خور کی لوگوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی _ اسے شیطان ، جاسوس اور بدذات سمجھا جاتا ہے ، زیادہ تر لوگ اس سے ہم نشینی اوردوستی سے گریز کرتے ہیں اور اس پر اور اس کے والدین پر لعنت بھیجتے ہیں _ بدترین چغل خوری ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا اور ٹوہ لگانا ہے _ اگر کوئی شخص کسی ظالم کے لیے جاسوسی کرے اور کسی مسلمان کو مصیبت میں پھنسادے _ اور اس کی قید ، اذیت یا قتل کا سبب بنے تو و ہ ظالم کے ظلم میں شریک ہے _ روز قیامت اسے سزا ملے گی _ اگر چہ وہ ظلم اور قتل کے جرم میں ظاہراً شریک نہ ہو _

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کی بادشاہ کے پاس چغلی کرے

۲۸۱

اور اس کی جاسوسی کرے _ یہ جاسوسی اس کے لیے بھی باعث ہلاکت ہے

اس کے بھائی کے لیے بھی اور بادشاہ کے لیے بھی _ (1)

اسلام کے دین مقدس نے جاسوسی اور چغل خوری کو حرام قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

چغل خور پہ بہشت حرام کردی گئی ہے اور وہ اس میں داخل نہیں ہوسکتا _ (2)

امیر المومین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:تم میں سے شریر اور برے وہ ہیں کہ جو چغل خوری سے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور پاکدامن افراد کی عیب جوئی کرتے ہیں _ (3)

چغل خوری کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں _ کبھی دشمنی اس کا باعث بنتی ہے _ چغل خور کو کسی ایک یا دونوں افراد سے دشمنی ہوتی ہے اس لیے ایک سے دوسرے کی بات بیان کرتا ہے تا کہ ان میں پھوٹ پڑجائے _ اور وہ آپس میں لڑ پڑیں _ کبھی کوئی شخص خودنمائی اور دوستی و خیرخواہی جتانے کے لیے چغلی کھاتا ہے _ اور کبھی اس کا مقصد فقط محفل آرائی ہوتا ہے _ بہر حال مقصد کچھ بھی ہوکام بہت برا ہے کہ ایک مسلمان کو جس سے بہر حال اجتناب کرنا چاہیے _ دین مقدس اسلام نے چغلی سننے تک کو حرام قرار دیا ہے _پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:چغل خوری نہ کرو اور نہ چغل خور کی بات پر کان لگاؤ_ (4)

-----------

1_ بحار، ج 75، ص 266

2_ اصول کافی، ج 2 ص 369

3_ اصول کافی ، ج 2 ، ص 379

4_ مجمع الزوائد ، ج 8، ص 91

۲۸۲

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

ٹوہ لگانے والے اور چغل خور کی بات کی تکذیب کرو وہ غلط ہو یا صحیح _ (1)

واضح ہے کہ اگر کوئی شخص چغل خور کی باتوں پر کان نہ دھرے گا تو وہ ناچار اس عادت سے دستبردار ہوجائے گا_ جو شخص کسی کی چغلی آپ کے سامنے کرتا ہے آپ اطمینان رکھیں کہ وہ آپ کا حقیقی دوست اور خیر خواہ نہیں ہے _ اگر وہ آپ کا دوست ہوتا تو کہنے والے کے سامنے تمہارا دفاع کرتا نہ کہ اس کی بات آکر تمہارے سامنے نقل کرتا _ تا کہ تم غصّے میں جلو اور پریشان ہو _ اور کبھی وہ تمہیں غلط کاموں پہ ابھارتا ہے ، مسلمان کو چاہیے کہ وہ راز دار ہو اور اپنی زبان پر کنڑول کرے اور جاسوسی اور چغل خوری سے پرہیز کرے _ بہت سے لوگ یہ ناپاک عادت بچپن ہی میں ماں باپ کے ہاں سے حاصل کرتے ہیں _ لہذا ماں باپ کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے _ اپنی اولاد کو اس بری عادت سے بچانے کے لیے پہلے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ کسی کی چغلی نہ کھائیں ماں کو نہیں چاہیے کہ وہ پھوپھی ، باجی ، خالہ اور ہمسائیوں کی شکایتیں اپنے شوہر سے کرے _ اور شوہر بھی بیوی سے دوسروں کی چغلی نہ کھائے کیونکہ اگر ماں باپ کو چغل خوری کی عادت ہوگی تو ان کی اولاد بھی ان کی تقلید کرے گی _ اور اس بری عادت کو ان سے سیکھے کی _ کبھی کوئی بچہ اپنی امی، بہن یا بھائی کی شکایت ابو سے کرتا ہے اور چغلی کھاتا ہے _ اس موقع پر باپ کی ذمہ داری ہے کہ فوراً بچے کو روکے اور اس سے کہیں کہ چغلی کھانا برا کام ہے _ کیوں امّی امّی کی بات میرے سامنے بیان کرتے ہو؟ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم دوسروں کی باتیں مجھ سے بیان کرو _ پھر میں نہ دیکھوں کہ تو چغلی کھاتاہے _ علاوہ ازیں اس کی چغلیوں پر رد عمل بھی بالکل ظاہر نہ کریں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں _ بچوں کو یہ بری عادت نہ پڑے اس لیے

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''چغل خوری کی چغلیوں پہ کان نہ دھرو''

---------

1_ غررالحکم ، ص 125

۲۸۳

عیب جوئی

لوگوں میں یہنی کیڑے نکالنا بھی بری اور مذموم عادتوں میں سے ہے _ عیب جوئی کرنے والے شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں اور اس سے میل ملاپ پسند نہیں کرتے _ عیب جوئی دشمنی اور کینے کا باعث بن جاتی ہے ، دوستیوں کے بندھن توڑدیتی ہے اور دوستوں کے ما بین جدائی ڈال دیتی ہے _ اگر کسی کی غیر موجودگی میں اس کی عیب جوئی کی جائے تو یہ غیبت ہے اور سامنے کی جائے تو بھی برائی ہے _ دین مقدس اسلام نے اس بڑی عادت کو گناہوں کبیرہ میں سے شمارکیا ہے اس بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں _ مثلاً:

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ دیتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:

اے وہ لوگو کہ جو زبان سے ایمان کا دعوی کرتے ہو _ لیکن تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہو مسلمانوں کی غیبت اور بدگوئی نہ کرو اور ان کے عیب تلاش نہ کرتے رہو کیونکہ ہر وہ شخص جو اپنے بھائی کے عیب ڈھونڈے اللہ اس کے عیوب آشکار کردے گا اور اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردے گا _ (1)

-------

1_ جامع السعادات ، ج 2 ، ص 203

۲۸۴

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص بھی کسی مومن سے متعلق کوئی ایسی بات کہے کہ جس سے اس کی عزت و آبرو جاتی ہو ، اللہ اسے اپنے دوستوں کے زمرے سے نکال کر شیطان کے دوستوں میں شامل کردے گا اور شیطان بھی اسے قبول نہیں کرے گا _ (1)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو کوئی بھی کسی مسلمان مرد یا عورت کی غیبت اور بدگوئی کرے گا ، اللہ چالیس روز تک اس کی نماز روزہ قبول نہیں کرے گا مگر یہ کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس راضی کرلے _ (2)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

غیبت اور بدگوئی حرام ہے اور نیکیوں کو یوں تباہ کردیتی ہے جیسے آگ ایندھن کو جلاڈالتی ہے _ (3)

بد قسمتی سے اتنا برا گناہ ہمارے لوگوں کا معمول بن چکا ہے _ یہاں تک کہ اب یہ لوگوں کو برائی ہی معلوم نہیں ہوتا اور لوگ اس کے عادی ہوچکے ہیں _ ماں باپ کی برائی کرتی ہیں اور باپ ماں کی _ ہمسائے اور رشتے دار ایک دوسرے کی عیب جوئی کرتے ہیں _ معصوم بچے یہ بری عادت اپنے گھر اور ماں باپ ہی سے اپناتے ہیں _ بچے دوسرے بچوں کی عیب جوئی کرتے ہیں _ تدریجاً بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر اس خود کو چھوڑنا ان کے لیے مشکل ہوجاتا ہے _

بعض نا سمجھ ماں باپ اپنے بچوں کی برائی بھی کرتے ہیں جب کہ انہیں اپنی اولاد

-------------

1_ جامع السعادات ، ج 2 ، ص 305

2_ جامع السعادات ، ج 2 ، ص 304

4_ جامع السعادات ، ج 2 ، ص 305

۲۸۵

کی کوتاہیوں کو چھپانا چاہیے _ کبھی ماں باپ اپنی اولاد کی برائی اس کے سامنے مذاق کے طور پر یا غصّے میں بیان کرتے ہیں _

ایسی صورت میں بچے ماں باپ کے بارے میں بدظن ہوجاتے ہیں ، یا ان میں بھی یہ عادت پڑجاتی ہے اور یا پھر اپنے بارے میں وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں لہذا ماں باپ کو بچوں کی عیب جوئی سے پرہیز کرن چاہیے _

۲۸۶

گھر میں بچوں کا لڑائی جھگڑا

ایک بہت بڑی گھریلو پریشانی بچوں کا لڑائی جھگڑا ہے _ بچے جب ایک سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ان کے درمیان لڑائی جگھڑا بھی شروع ہوجاتا ہے _ ایک دوسرے کو اپنے لیے بدشگون سمجھتا ہے _ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھکّے د یتے ہیں ، کھلونے چھینتے ہیں ، ایک دوسرے کی کاپی پر لکیریں کھینچ دیتے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں، ایک شور مچاتاہے تا کہ دوسرا اسکول کا سبق یا دنہ کر سکے ، ہر بچہ جانتا ہے کہ وہ کن طریقوں سے اپنے بھائی یا بہن کو ستا اور لا سکتا ہے وہ ایک دوسرے کی خوب خبر لیتے ہیں _ اس صورت حال پر ماں باپ بے چار ے کڑھتے رہتے ہیں _ لڑائی جھگڑے کی شکایت ان کے پاس آتی ہے ، خرابی تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بچوں کی لڑائی ماں باپ پر اثر انداز ہوجاتی ہے _ ماں ، باپ س کہتی ہے تم تو بچے کی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے ، وہ تم سے دڑتے تک نہیں ، یہ تمہاری لا پروا ہی کی وجہ ہی سے گھر میدان جنگ بن چکا ہے _

باپ ، ماں سے کہتا ہے ،اگر تو سمجھدار عورت ہوتی تو یہ سچے اتنے شیطان اور نالائق نہ ہوتے _ تیری حمایت کی وجہ سے بچوں کی یہ حالت ہے _

یہاں پر ماں باپ کو یادرکھنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں _ ان سے اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ وہ پینتالیس سالہ کسی شخص کی طرح آرام سے کسی کونسے میں بیٹھے ہوں _ آپ اس حقیقت کو قبول کریں کہ بچوں کا لڑائی جھگڑا تو ایک فطری سی بات ہے _ لڑائی تو بڑوں میں بھی ہوجاتی ہے _ ایک گھر میں بچوں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ہمیشہ آرام و

۲۸۷

سکون سے بیٹھے رہیں اور کبھی لڑائی جھگڑا نہ کریں_ بچے تو شریر ہوتے ہی ہیں _ وہ جلدی پھر آپس میں گھل مل جاتے میں بڑوں کی طرح دیر تک ایک دوسرے سے منہ بسورے بیٹھے نہیں رہتے _ ایک ماہر نفسیات اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ بات ہمیں سوچنا ہی نہیں چاہیے کہ ایک گھر ، اس میں چند بچے بھی ہوں مگر وہ ہمیشہ مل جل کر رہیں کبھی لڑیں جھگڑیں نہیں _ ہم نے جس بچے سے بھی بات کی ہے وہ یہ کہتا ہے کہ امی ابو یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم بہن بھائی جب اکھٹے ہوں تو ہمیں بہت زیادہ اتفاق و آرام سے رہنا چاہیے _ اگر آپ حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی اس توقع سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائیں توبچوں کے اس لڑائی جھگڑے سے اتنا پریشان نہیں ہوں گے _ (1)

ہمیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ بچوں کہ یہ عادت ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہوجائے گی _ اگر ماں باپ ان کے بچن کے طرز عمل کو ایک حقیقت کے طور پر مان لین تو پھر کسی حد تک انہیں اطمینان ہوجائے گا اور کم از کم وہ ان کے بچپن کے لڑائی جھگڑے خو د ان تک نہیں پہنچنے دیں گے _

ایک ماہر نفسیات لکھتے ہیں:

شاید بچوں کے بہت سارے کام مثلاً آپس میں مذاق کرنا _ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرنا _ کشتی کرنا _ صرف وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے بڑے ہونے سے ختم ہوجاتے ہیں _ (2)

ہاں یہ درست ہے کہ زیادہ تر موقع پر ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑوں کو ختم نہیں کرسکتے لیکن عقل اور تدبیر سے ان میں کمی پیدا کرسکتے ہیں_ عقل مند ماں باپ بچوں کے

-----------

1_ روان شناسی کودک از تولّد تادہ سالگی ، ص 286

2_ روان شناسی کودک _ رفتار کودکان از تولد تا دہ سالگی ص 286

۲۸۸

لڑائی جھگڑے پر بالکل تماشائی نہیں بنے رہ سکتے _ بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ عقل و تدبیر سے اس کے عوامل کو ختم کریں _ انہیں اجازت نہ دیں کہ وہ ایک دوسرے کو اذیت پہنچائیں _ ماں باپ کو چاہیے کہ پہلے وہ اختلاف کے عوامل کو سمجھیں اور ان اسباب کو پیدا ہونے سے روکیں وگرنہ بعد میں مسئلہ مشکل ہوجائے گا _ بچوں کے درمیان اختلاف کی ایک اہم وجہ ان کا آپس میں حسد ہے نظر انداز کرنے سے حسد ختم نہیں ہوسکتا _ اور ڈانٹ ڈپٹ بھی اس کا علاج نہیں ہے _ چاہیے کہ حسد پیدا ہونے کے اسباب کو روکا جائے _

بچہ خود پرست ہے وہ چاہتا ہے کہ فقط وہی ماں باپ کا محبوب ہو اور کوئی اور ان کے دل میں جگہ نہ پائے _ پہلا بچہ عموماً ماں باپ کو لاڈلاہوتا ہے _ وہ اس سے پیار محبت کرتے ہیں _ اس کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں _ لیکن جب دوسرا بچہ دنیا میں آتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں _ ماں باپ کی پوری توجہ نو مولودکی طرف ہوجاتی ہے اب بڑا بچہ خطرہ کا احساس کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ننھا بن بلا یا مہمان اب اس کا رقیب بن گیا ہے _ اور ماں باپ کو اس نے اپنا بنالیا ہے _ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے انتقام لینا چاہیے _ لیکن نومولود پر اں باپ کی شفقت ہوتی ہے لہذا اسے قبول کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا _ ان حالات میں ممکن ہے بڑا بچہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرے ، زمین پر گرجائے ، کھانا ہ کھائے ، غصّہ کرے ، روئے یا اپنے کپڑوں کو خراب کردے تا کہ اس طرح سے وہ ماں باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکے یہ بچہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے اور اسی وقت سے بھائی یا بہن کے بارے میں اپنے دل میں کینہ کرلیتا ہے _ اور اس موقع کے انتظام میں رہتا ہے کہ اس سے انتقام لے سکے _ اس کیفیت میں سب بچے پیدا ہوتے ہیں اور گھر کے دوسرے بچوں سے آملتے ہیں _ انہیں حالات میں حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے _ کیا یہ بہتر نہیں ہے کاماں باپ شروع ہی ہے اپنے طرز عمل پر توجہ رکھیں _ اور بچوں میں حسد کے اسباب پیدا نہ ہونے دیں _ سمجھدار ماں باپ نو مولود کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی بڑے بچوں کو ذہنی طور پر اس کے استقبال کے لیے اور قبول کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں _ ان سے کہتے ہیں _ انہیں پہلے ہی سمجھاتے ہیں کہ جلد ہی تمہارا ننھا بھائی یا ننھی بہن پیدا ہوگی _ تعجب وہ بڑی ہوگی تو

۲۸۹

تم سے پیار کرے گی _ تمہارے ساتھ مل کے کھیلے گی _

اگر وہ نو مولود کے لیے کوئی چیز تیار کریں تو بڑے بچوں کے لیے بھی کوئی چیز خریدیں جب ماں نئی پیدائشے کے لیے کسی میڈیکل سینٹر میں داخل ہوجائے تو باپ بچوں کے لیے تحفہ لاسکتا ہے اور ان سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ننّھے کی آمد کی خوشی میں تمہارے لیے تحفہ لایا ہوں _ جب نو مولود گھر آئے تو زیادہ شورو شرابہ نہ کریں اور دوسرے بچوں کی موجودگی میں اسی کی زیادہ تعریف نہ کریں _ پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ان کا خیال کریں _ ان سے محبت کریں ایسا سلوک کریں کہ بڑے بچے مطمئن ہوں وہ سمجھیں کہ نئے بچے کہ آنے سے ان کی زندگی کو نقصان نہیں پہنچا _ اس طرح سے وہ نئے بچے کے لیے اپنی گو دپھیلا سکتے ہیں اور خوشی خوشی اس کا استقبال کرسکتے ہیں _ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماں باپ چاہیں کہ ان کے بچے آپس میں دوست ہوں اور ان میں لڑائی جھگڑانہ ہو تو ان میں حسد کے اسباب پیدا ہونے دیں اور ان کو ایک آنکھ سے دیکھیں _ سب سے ایک جیسا سلوک کریں تا کہ وہ آپس میں دوست ہوں _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:انصاف اختلاف کو ختم کردیتا ہے اور دوستی کا سبب بنتا ہے _ (1) امیر المومنین علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:عادلانہ سلوک بہترین تدبیر ہے _ (2) ممکن ہے بعض بچوں میں واقعاً ایسی خصوصیت ہو کہ جس کی وجہ سے ماں باپ کی محبت ان سے زیادہ ہوجائے _ ہوسکتا ہے بعض بچے زیادہ ذہین ہوں ، زیادہ خوبصورت ہوں _ بعض کا اخلاق بہتر ہو _ ہوسکتا ہے زیادہ محنتی ہو _ ہوسکتا ہے بعض زیادہ خوش زبان ہوں ، ہو سکتا ہے کسی کا سلوک دوسرے سے ماں باپ سے بہتر ہو _ ہوسکتا ہے کوئی کلاس سے دوسروں کی نسبت نمبر اچھے لائے _ ہوسکتا ہے ماں باپ بیٹی یا بیٹے کو زیادہ پسند

------------

1_ غرر الحکم ، ص 64

2_ غررالحکم ، ص 64

۲۹۰

کرتے ہوں _

ممکن ہے اس میں کوئی حرج بھی نہ ہو کہ ماں باپ قلباً کسی ایک بچے کو زیادہ پسند کرتے ہوں لیکن ان کا سلوک سب سے ایک جیسا ہونا چاہیے او راس میں فرق نہیں کرنا چاہیے _ یہاں تک کہ بچے ذرا بھی دوسرے کے بارے میں ترجیحی سلوک نہ دیکھیں _ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ بچے ماں باپ کی محبت کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں _ اور اس پر بہت توجہ دیتے ہیں اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں _ لہذا ماں باپ کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے _

بعض ماں باپ بچوں کی تربیت کے لیے ایک کی خصوصیات دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں_ مثلاً کہتے ہیں : حسن خوب سبق پڑھوتا کہ عباس کی طرح اچھے نمبر حاصل کرسکو_ کہتے ہیں: زہرا تم اپنی بہن زینب کی طرح ماں کی مدد کرو زینب کتنی اچھی بچی ہے کہتے ہیں: رضا تم بھی اپنے بھائی علی کی طرح دستر خوان پر سلیقے سے بیٹھو_ دیکھو وہ کتنا با ادب بچہ ہے _ ایسے ماں باپ کا طرز عمل بالکل غلط ہے کیونکہ غلط ہے کیونکہ اس کا نہ فقط مثبت تربیتی نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس سے بچوں میں رقابت اور حسد پیدا ہوجاتاہے اور انہیں انتقام اور دشمنی پر ابھارتا ہے _ کبھی بچے خود بھی ایسی باتوں کا اظہار کرتے ہیں _

بچوں کے لڑائی جھگڑے کی ایک وجہ ماں باپ کی ان سے بے جا توقع ہے _ بچہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی یا بہن کے کھلونوں سے کھلیے لیکن وہ اسے اس کی اجازت نہیں دیتے _ لہذا لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے وقت ماں یا باپ دخالت کرتے ہیں اور پیاز کے ساتھ سمجھاتے ہیں اور اگر پیار کا اثر نہ ہو تو سختی سے انہیں سمجھا تے ہیں کہ وہ اپنے کھلونے اپنے بھائی کودے دیں _ مثلاً کہتے ہیں: یہ تمہارا بھائی ہے ، کیوں اے کھلونے نہیں دیتے ہو کھلونے لائے و ہم ہی ہیں ، کیا یہ تمہاری ملکیت ہیں کہ جو اسے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے ہو اگر تم نے ایسا کیا تو پھر تم سے ہم پیار نہیں کریں گے اور نہ ہی آئندہ تمہیں کھلونے خرید کردیں گے _

بچہ بیچار مجبور ہوجاتا ہے _ کھلونے دے تو دیتا ہے لیکن ماں یا باپ کو سخت مزاج

۲۹۱

اور بھائی کو ظالم سمجھنے لگتا ہے اور دل میں دونوں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے پھر وہ اس کا اظہار کرتا ہے کیوں کہ بچہ ان کھلونوں کو اپنا مال سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ کسی کو حق نہیں کہ اس کی اجازت کے بغیر انہیں ہاتھ لگائے لہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم اور اپنے بھائی اور باپ کو ظالم سمجھتا ہے _ ایسے موقع پر یہ بچہ حق پر ہے کیوں کہ ماں باپ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ ان کی مخصوص چیزوں کو کوئی چھیڑے پھر یہ حق وہ بچوں کو کیوں نہیں دیتے اور ہر شخص کی کچھ اپنی چیزیں ہوتی ہیں کہ جن کے استعمال سے وہ دوسروں کو روک سکتا ہے _ البتہ عقل مند اور باتدبیر ماں باپ آہستہ آہستہ بچوں کے اندر تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں _ اور ایسی فضا پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ خوشی خوشی اپنے بہن بھائیوں کو اپنے کھلونوں سے کھیلنے اور اپنی چیزوں کے استعمال کی اجازت دیں کبھی اختلاف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کبھی ماں باپ کوئی کا م ایک بچے کے سپردکردیتے ہیں اور دوسروں کو ایسے ہی چھوڑدیتے ہیں اس صورت میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _اگر ماں باپ اس طرح کی کشمکشوں سے بچنا چاہیں تو انہیں چاہیے کہ سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھیں اور ان میں کوئی تفریق روانہ رکھیں _ یا تو کسی سے کوئی نہ کہیں _ یا پھر ان کی صلاحیت کو سمجھ کر ہر کسی کے لیے کوئی کام متعین کریں اور ان کے ذمہ لگائیں تا کہ اختلاف پیدا نہ ہو بیکاری بھی خرابیوں کی ایک وجہ ہے بچوں کی مشغولیت کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے تا کہ ان میں جھگڑا کم سے کم ہو _ خاص طور پر اگر ہ سکے تو انہیں کسی ایسے کھیل پر ابھاریں کہ جسے وہ مل جل کر کھیل سکیں _ یہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا _کبھی ماں باپ کی آپس کی لڑائی بھی بچوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتی ہے _ جب معصوم بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ ایک دوسرے سے قوتکار اور لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑائی جھگڑا زندگی کے لازمی امور میں سے ہے _ اور ایک ایسا کام ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا _ اس لحاظ سے وہ ماں باپ کی تقلید کرتے ہیں _ اور یہی کام وہ آپس میں کرتے ہیں _لہذا جو ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑے سے تنگ ہوں انہیں پہلے اپنی اصلاح

۲۹۲

کرنا چاہیے _ آپس کے نزاع اور کشمکش کو ترک کردینا چاہیے پھر بچوں کی اصلاح کے درپے ہونا چاہیے _ شاید ایسا کوئی خاندان کم ہی ہو کہ جس میں کبھی کوئی جھگڑا پیدانہ ہواہو _ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کی عدم موجودگی میں وہ آپس میں اس سلسلے میں بات کریں _ اور اگر کوئی بات بچوں کے سامنے ہوجائے تو وہ بچوں سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی مسئلے پر ہمارا اختلاف رائے ہے _ ہم چاہتے ہیں کہ اسے حل کریں _

آخر میں ہم اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے آپ ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھیں لیکن پھر بھی بچوں کے لڑائی جھگڑے سے کامل طور پر نہ بیچ سکیں _ آپ کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے _ نہ ہی ہم نے اس کی ضمانت دی ہے _ آپ کے بچے بھی عام بچوں کی طرح ہیں _ بچوں کے جھگڑے ایک فطری سی بات ہے _ بچوں میں توانائی زیادہ ہوتی ہے _ جو وہ ایسے کاموں پہ خرچ کرتے ہیں _ آپ متوجہ رہیں کہ وہ ایک دوسرے نقصان نہ پہنچائیں اور ایک دوسرے کو شدید اذیت نہ دیں بہتر یہ ہے کہ حتی الامکان بچوں کے چھوٹے موٹے جگڑوں میں آپ شریک نہ ہوں _ انہیں آپ رہنے دیں کہ وہ اپنے مسئلے خود حل کریں _ نہ ہی آپ ایسی باتوں پر زیادہ پریشان ہوں _ ان کا طرز عمل خود ہی ٹھیک ہوجائے گا _

۲۹۳

دوست اور دوستی

اچھا دوست اور مہربان رفیق اللہ کی عظم نعمتوں میں سے ہے _ مصیبت میں دوست ہی انسان کی پناہ ہوتا ہے اور قلب ور وح کے آرام کا ذریعہ ، مشکلات سے بھر ی اس دنیا میں ایک حقیقی دوست کی موجودگی ہر انسان کی ضرورت ہے _ جو شخص ایک مہربان دوست کی نعمت ہے محروم ہو وہ وطن سے دور تنہائی کی سی کیفیت میں ہوتا ہے اور کوئی اس کا غمخوار نہیں ہوتا کہ زندگی کی مشکلات میں وہ جس کا سہارا لے سکے _

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دنیا میں آرام کا بہترین وسیلہ کیا ہے _ فرمایا: کھلا گھر اور زیادہ دوست '' (1) حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: کمزورترین شخص وہ ہے جو کسی کو دوست اور بھائی نہ بنا سکے _ (2)

حضرت علی علیہ السلام ہی فرماتے ہیں:

دوستوں کا نہ ہونا ایک طرح کی غریب الوطنی او رتنہائی ہے _ (3)

-----------

1_ بحار ، ج 74، ص 177

2_ نہج البلاغہ ، ج 3، ص 153

3_ بحار، ج 74، ص 178

۲۹۴

جیسے بڑوں کو دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی بچوں کو بھی یاردوست کی ضرورت ہوتی ہے جس بچے کا کوئی دوست نہ ہو وہ ہر جگہ تنہا تنہا سا ، مرجھایا مرجھا یا سا اور افسردہ افسردہ سا رہتا ہے _ بچے کو فطری طور پر دوست کی خواہش ہوتی ہے اور اس فطری خواہش سے اسے محروم نہیں رکھا جا سکتا _ دوست اور ہم جولی میں فرق ہے _ ہوسکتا ہے اس کا ہم جولی تو ہو مگر دوست نہ ہو _ کبھی بچہ ہم جولیوں اور کلاس فیلوزیں میں سے کسی دوست کا انتخاب کرتا ہے _ شاید دوستی کا اصلی محرک اور عامل زیادہ واضح نہ ہو _ ہوسکتا ہے دو افراد کی باہمی روحانی ہم آہنگی انہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردے _

امیر المومنی علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگوں کے دل بھکتے ہوئے جنگلیوں کے مانند ہیں جو بھی ان سے محبت کرے اسی میں کھوجاتے ہیں _ (1)

دوست کسی پر ٹھونسا نہیں جا سکتا کہ ماں باپ اپنی اولاد سے کہیں کہ فلاں بچے کو دوست بناؤ اور فلاں کو نہ بناؤ _ دوست کے انتخاب میں بچے کو آزادی ملنا چاہیے البتہ ہر طرح کی آزادی نہیں دی جا سکتی کیونکہ دوستوں کا اخلاق و کردار ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک دوست دوسرے کے اخلاق اور طرز عمل کو اپناتا ہے _ اگر بچے نے ایک خوش اخلاق اور اچھا دوست بنالیا تو وہ اس سے اچھائیاں اپنائے گا اور برا دوست مل گیا تو اس کی برائیاں اس پر ا ثر انداز ہوں گی _ بہت سے معصوم بچے اور نوجوان ہیں کہ جو اپنے برے دوستوں کے باعث گناہ کی وادی میں جا پہنچے ہیں اور ان کی دنیا و آخرت تباہ ہوچکی ہے _

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب ، طریقے اور روش کا خوگر بن جاتا ہے _ (2)

------------

1_ بحار، ج 74، ص 178

2_ اصول کافی ، ج 2 ، ص 375

۲۹۵

حضرت علی علیہ السلام فرمایا ہیں :

لوگوں میں سب سے زیادہ خوش نصیب وہ ہے کہ جس کامیل جول اچھے لوگوں کے ساتھ ہو (1)

اسی وجہ سے اسلام اپنے ماننے والوں کو اس امر کا حکم دیتا ہے کہ وہ برے دوست سے اجتناب کریں

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

فاسقوں اور گنہ گاروں کے ساتھ دوستی سے بچو کیونکہ برائی کہ تاثیر برائی ہی ہے (2)

امام سجاد علیہ السلام نے اپنے فرزند و لبند امام باقر علیہ السلام سے فرمایا :

اے میرے بیٹے : پانچ طرح کے لوگوں سے رفاقت نہ رکھو :

1_ جھوٹے کے ساتھ رفاقت نہ کرو کہ وہ سرا ب کے مانند ہے _ وہ تجھے فریب دے گا _ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور بتا ئے گا _

2_ فاسق اور بد کار کو دوست نہ بناؤ کہ وہ تجھے بہت کم قیمت پریہاں تک کہ ایک نوالے کے مول بیچ دے گا_

3_ کنجوس کو دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ ضرورت پڑنے پر مدد نہیں کرے گا_

3_ کسی احمق کو دوست نہ بناؤ کیوں کہ وہ اپنی بے وقوفی کے باعث تمہیں نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچائے گا _ بلکہ یہ تک ممکن ہے کہ وہ فائدہ پہنچانا چاہے مگر نقصان پہنچادے _

5_ قطع رحمی کرنے والے کو دوست نہ بناؤ کیونکہ قطع رحمی کرنے والا خدا کی رحمت سے دو ر اور ملعون ہے (3)

۲۹۶

لہذا سمجھدا ر اور فرض شناس ماں باپ کی دمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں سے لا تعلق نہ دہیں کیونکہ ایسا کرنا نہ بچوں کے فائدہ ے میں ہے اور نہ مال باپ کے البتہ ماں باپ کی اس معاملے میں بلا واسطہ دخالت بھی درست نہیں ہے _

اگر ماں باپ اپنے بچوں کے لیے ایک اچھا اور نیک دوست مہیا کر سکیں توانہوں نے بچے کی بھلائی کا انتظام کیا ہے اور اسے تباہی کے راستے سے بچایا ہے _ لیکن یہ بھی کوئی آسان کا م نہیں _ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب اچھے برے کی کچھ تمیز کرنے لگے تو اسے پیار محبت سے ایک اچھے اور برے د وست کی صفات بتائیں برے بچوں کے ساتھ دوستی کے نتائج بھی اس پر واضح کریں _

پھر بچوں کے دوستوں اور ان کے طرز عمل پر کچھ فاصلے سے نگاہ رکھیں اگر ماں باپ دیکھیں کہ ان کے دوست اچھے ہیں تو ان کی تائید و تشویق کریں اور انہیں ملنے جلنے کے مواقع فراہم کریں لیکن اگر دیکھیں کہ ان کے بچے دھو کا کھا گئے ہیں اور برے بچوں کو دوست بنار ہے ہیں تو پیار محبت سے ان کی خامیوں کی طرف متوجہ کرکے اپنے بچوں کو ان سے میں ملاقات سے روکیں _ پیار محبت سے یہ کام نہ ہو سکے تو کچھ سختی سے منع کیا جاسکتا ہے _ ایک اور طریقے سے بھی ماں باپ بچے کے لیے اچھے دوست کے انتخاب میں مدد کرسکتے ہیں _ اس کے ہمجولیوں ، محلے والوں ، ہمسایوں ، و غیرہ میں سے کسی اچھے دوست کو تلاش کریں اور ان کے در میان بہتر رابطے کا وسیلہ فراہم کریں _ اس طرح اگر وہ آپس میں دوست ہو جائیں تو ان کی تشویق کریں _ اس طرح ماں باپ بہت اچھی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں اور بچوں کی بہت سی خامیاں اچھے دوست کے انتخاب سے دور کرسکتے ہیں _ مثلا وہ ماں باپ جن کا بیٹا بزول ہے وہ اس کے لیے کوئے شجاع بچہ انتخاب کریں کہ جس سے دوستی کے ذریعے اس کی بزولی جاتی رہے _

بہر حال ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں بالخصوص نو جوانی کے دور میں ان کے دوستوں سے غافل رہیں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیں کیونکہ بچہ اور نو جوان کے لیے بدلنے کے زیادہ امکانات ہیں _ حب کہ عمومی اخلاق اور معاشر ہے کی حالت

۲۹۷

بھی ٹھیک نہ ہو تو ممکن ہے تھوڑی سی غفلت سے آپ کا فرزند دلبند برائی اور بد بختی کے گڑھے میں جاگرے _ لہذا یاد رکھیں کہ پر ہنر علاج سے کہیں بہتر ہے _حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :ہر چیز کے لیے ایک آفت ہے اور نیکی کے لیے آفت برا دوست ہے ایک صاحب لکھتے ہیں :

میرے ماں باپ مجھے دوستوں سے ملنے کی اجزات نہ دیتے تھے _ اگر دوست مجھے گھر پر ملنے آتے تو میںمجبور ہوتا کہ ایک دو باتیں کرکے انہیں رخصت کردوں _ ایک دوست ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا ہے _ امّی ابو اسے جانتے تھے لیکن وہ ہمیں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی اجازت نہ دیتے _ مجھے بہت خواہش ہوتی کہ دوستوں سے لموں ، ان کے ساتھ بیٹھوں اور ان سے بات چیت کروں لیکن کیا کرتا امّی ابو حائل تھے _ مجھے اس کا بہت غم تھا _ ایک روز میں نے ارادہ کرلیا کہ جیسے بھ ہو دوستوں سے ملنے ضرور جاؤں گا _ میں نے امّی سے کہا : میرا امتحان ہے اس کے لیے مجھے جانا ہے اجازت تو امتحان کے لیے لی لیکن اپنے دوست کے ہاں جا پہنچا _ اس دوست کا گھر کچھ دور تھا _ ایک دیگن پر بیٹھا اور اس کے ہاں چلا گیا _ وہاں اور دوست بھی تھے _ دن ان کے ساتھ خوب خوش گپیوں میں گزرا _ شام واپس آیا تو امّی نے کہا بہت دیر سے آئے ہو پھر _ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے مجھے اور کئی جھوٹ بولنا پڑے _آج سو چتا ہوں کہ کیا امّی جان کو معلوم نہ تھا کہ دوست اور رفیق کی کسی بچے کو کتنی ضرورت ہوتی ہے _ انہوں نے مجھے ای قدر پابند کیوں کر رکھّا تھا _

ایک لڑکی لکھتی ہے :ایک مرتبہ میں نے اپنی کچھ سہیلیوں کو گھر بلا یا _ اور میرے پاس جو پیسے گلّے میں جمع تھے _ وہ نکالے بھا گم بھاگ گئی اور ان کے لیے آئس کریم لائی _ امّ کہیں

۲۹۸

گئی ہوئی تھیں _ سہیلیاں آئس کریم کھا رہی تھیں او پر سے امی گھر میں داخل ہوئیں

مجھے بہت خوف ہو ا خدا جائے امی کیا کہیں کیوں کہ وہ تو ہمیشہ مجھے سہیلیوں سے ملنے سے منع کرتی رہتی تھیں : انہیوں نے با لکل میری عزت کا خیال نہ کیا اور میری سہیلیوں سے کہنے لگیں تم نے صائمہ سے فضول خرچی کروائی ہے _

میری استانی سے حاکر شکایت کے لہجے میں میری سہیلیوں کے بارے میں کہا یہ ہمارے گھر آتی ہیں اور میری بیٹی کو فضول خرچی پر مجبور کرتی ہیں _ کل میری بیٹی سے آئس کریم کھا رہی تھیں _ سہیلیاں جو میری ہم کلاس بھی تھں وہ کہنے لگیں _ آنٹی کل والی آئس کریم کے پیسے ہم دے دیتی ہیں _ مجھے اتنی شرم آئی دل چاہتا تھا زمین پھٹ جائے اور میں غرق ہو جاوں _ وہ دن اور آج کادن پھر میں سکول نہیں جاسکی _ سہیلیاں اگلی کلاسوں میں جاپہنچیں _ اور میں پشیمان پشیمان سی سہمی سہمی سی _

او اس اواس سی آج ان سے کہیں پیچھے رہ گئی ہوں _

۲۹۹

بچہ اور دینی تعلیم

اللہ اور دین کی طرف توجہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اس کا سرچشمہ انسان کی اپنی سرشت ہے _

اللہ تعالی قرآن حکیم میں فرماتا ہے :

فاقکم وجهک للدّین حنیفا _ فطرة الله التی فطر النّاس علیها

اپنا رخ دین مستقیم کا طرف کرلو_ وہی دین کو جو فطرت الہی کا حامل ہے اور وہی فطرت کی جس کی بنیاد پر اس نے انسان کو خلق فرمایاہے _ (روم _30)

ہر بچہ کی فطری طور پر خدا پرست ہے لیکن خارجی عوامل اثر انداز ہوجائیں تو صورت بدل جاتی ہے جیسا کہ

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے:

کل ّ مولد یولد علی فطرة الاسلام ...

ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر بعدا ز اں اس کے ماں باپ اسے یہودی ، عیسائی یا مجوسی ، بنادیتے ہیں _ (1)

ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے ایسا ماحول پیدا کریں کہ اس میں

----------

1_ بحار، ج 3 ، ص 281

۳۰۰