آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 122013
ڈاؤنلوڈ: 6764

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 122013 / ڈاؤنلوڈ: 6764
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فطری طور پر ودیعت کیے گئے عقائد نشو و نما پا سکیں _ انسان بچپن ہے سے ایک ایسی قدرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جو اس کی ضروریات پوری کر سکے _ لیکن اس کا ادراک اس حد تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرتکز شدہ توجہ کو بیان کرسکے _ لیکن آہستہ آہستہ یہ توجہ ظاہر ہوجاتی ہے _ جو بچہ ایک مذہبی گھرانے میں پرورش پاتا ہے وہ کوئی چار سال کی عمر میں اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہی وہ عمر ہے جس میں بچے کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات ابھر نے لگتے ہیں _ کبھی کبھی وہ اللہ کا نام زبان پر لاتا ہے _ اس کے سوالوں اور باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فطت بیدا ہوچکی ہے اور وہ اس سلسلے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہے بچہ سوچتا ہے کہ :سورج کس نے بنایا ہے ؟ چاندتارے کس نے پیدا کیے ہیں؟ کیا اللہ تعالی مجھ سے پیار کرتا ہے؟ کیا اللہ تعالی میٹھی چیزیں پسند کرتا ہے؟ بارش کون برساتا ہے؟ ابو کو کس نے پیدا کیا ہے؟ کیا اللہ ہماری باتیں سنتا ہے؟ کیا ٹیلی فون کے ذریعے اللہ سے باتیں کی جاسکتی ہیں؟ اللہ کہاں رہتا ہے ؟ اس کی شکل کس طرح کی ہے ؟ کیا خدا آسمان پر ہے؟ چارسال کے بعد بچے اس طرح کے ہزاروں سوال کرتے اور سوچتے ہیں _

ان سوالات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی فطرت خداپرستی بیدار ہوچکی ہے اور وہ یہ باتیں پوچھ کر اپنی معلومات مکمل کرنا چاہتا ہے _ معلوم نہیں کہ ننّھا منّا بچہ خدا کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے _ شاید وہ یہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ابّو کی طرح ہے لیکن اس

۳۰۱

سے بڑا اور زیادہ طاقتور ہے _ بچے کا شعور جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے _ خدا کے بارے میں اس کی شناخت برھتی جاتی ہے _ اس سلسلے میں ماں باپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ وہ اپنے بچوں کے عقائد کی تکمیل میں بہت اہم خدمت انجام دے سکتے ہیں _ اس سلسلے میں اگر انہوں نے کوتاہی کی تو روز قیامت ان سے بازپرس کی جائے گی _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے تمام سوالوں کا جواب دیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو بچے کی روح تحقیق مرجائے گی _ لیکن بچے کے سوالوں کا جواب دینا کوئی آسان کام نہیں _ جواب صحیح ، مختصر اور بچے کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے _ بچے کا شعور جس قدر ترقی کرتا جائے جواب بھی اس قدر عمیق ہونا چاہیے _ یہ کام ہر ماں باپ نہیں کرسکتے _ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سے اس کے لیے تیاری کریں _ زیادہ گہرے اور صبر آزما مطلب بیان نہ کریں کیونکہ یہ نہ فقط بچے کے لیے سودمند نہ ہوں گے بلکہ ناقابل فہم اور پریشان کن بھی ہوں گے _ چھوٹا بچہ مشکل مطالب نہیں سمجھ پاتا لہذا اس کی طبیعت ، فہم اور صلاحیت کے مطابق اسے دینی تعلیم دی جانا چاہیے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بچہ تین سال کا ہوجائے تو اسے ''لا الہ الا اللہ '' سکھائیں _پھر اسے چھوڑدیں _ جب اس کی عمر تین سال ، سات ماہ اور بیس دن ہوجائے تو اسے ''محمد رسول اللہ'' یاد کروائیں پھر چار سال تک اسے چھوڑدیں _ جب چار سال کا ہوجائے تو اسے پیغمبر خدا پر درود بھیجنا سکھائیں _ (1) بچوں کا چھوٹے چھوٹے اور سادہ دینی اشعار یادکروانا ان کے لیے مفید اور لذت بخش ہوتا ہے _ اسی طرح انہیں آہستہ آہستہ نبوت اور امامت کے بارے _ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بتائیں کہ اللہ نے انہیں نبی بنا کر بھیجا تا کہ ہماری ہدایت کریں _ پھر ان کی خصوصیات اور کچھ واقعات بتائیں _ پھر عمومی نبوت کا مفہوم بتائیں اور نبوت کی ضروری ضروری شرائط سے انہیں آگاہ کریں او ر یوں ہی امامت کے بارے میں بھی سمجھائیں _

-----------

1_ مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 254

۳۰۲

چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے کہانی کی صورت میں پیار سے یہ باتیں کریں گے _ تو بہت مؤثر ہوں گے _

ہاں قیامت کے بارے میں بچہ جلدی متوجہ نہیں ہوتا وہ سوچتا ہے کہ وہ اور اس کے ماں باپ ہمیشہ یوں ہی رہیں گے _ مرنے کو وہ ایک لمبے سفر کی طرح خیال کرتا ہے _ جب تک بچہ موت کی طرف متوجہ نہ ہو تو ضروری نہیں ہے بلکہ شاید مناسب بھی نہیں کہ اس سے اس سلسلے میں بات چیت کی جائے _ البتہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ ماں باپ کو مجبوراً ان کے سامنے موت کی حقیقت کے بارے میں کچھ اظہار کرنا پڑجاتا ہے _ ممکن ہے کسی رشتے دار، دوست یا جان پہچان والے شخص کی موت بچے کو سوچنے پر مجبور کردے _ مثلاً خدا نخواستہ بچے کے دادا وفات پاجائیں اور وہ پوچھے کہ :

امّی دادا بّو کہاں چلے گئے ہیں؟

ایسے موقع پر بچے کو حقیقت بتادنی چاہیے _ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے _ بچے سے یہ کہا جا سکتا ہے تمہارے دادا جان وفات پاگئے ہیں ، وہ دوسرے دنیا میں چلے گئے ہیں _ ہر مرنے والا اس دنیا میں چلا جاتا ہے _ اگر کوئی نیک ہوا تو جنت کے خوبصورت باغوں میں خوشی رہے گا اور اگر کوئی برا ہوا تو جہنم کی آگ میں وہ اپنی سزا بھگتے گا _ بچے کو موت کا یع معنی رفتہ رفتہ سمجھایاجائے کہ یہ ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف انتقال ہے _ اسے جنت ، دوزخ ، حساب کتاب اور قیامت کے بارے میں ساداسادا اور مختصر طور پر بتایا جانا چاہیے _

تربیت عقاید کا یہ سلسلہ پرائمری ، مڈل ، ہائی اور پھر بالائی سطح تک جاری رہنا چاہیے _

۳۰۳

بچہ اور فرائض دینی

یہ درست ہے کہ لڑکا پندرہ سال کی عمر میں اور لڑکی نو سال کی عمر میں مکلّف ہوتے ہیں اور شرعی احکام ان پر لاگو ہو جاتے ہیں _ لیکن دینی فرائض کی انجام دہی کو بلوغت تک ٹالانہیں جا سکتا_ انسان کو بچپن ہی سے عبادت اور دینی فرائض کی انجام دہی کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ بالغ ہوں تو انہیں شوق سے بجالائیں خوش قسمتی سے ایک مذہبی گھرانے میں پرورش پانے والا بچہ تین سال کی عمر ہی سے اپنے ماں باپ کی تقلید میں بعض مذہبی کام بجالاتا ہے _ کبھی ان کے لیے جائے نماز بچھاتا ہے ، کبھی ان کے ساتھ سجدے میں جاتا ہے ، اللہ اکبر اور لا الہ اللہ کہتا ہے چھوٹے چھوٹے مذہبی اشعار مزے مزے سے پڑھتا ہے _ فرض شناس اور سمجھ دار ماں باپ بچے کی ان فطری حرکات سے استفادہ کرتے ہیں _ ان پر مسکراکر اور اظہار مسرت کرکے اسے تقویت کرتے ہیں _ اگر زبردستی یہ چیزیں بچے پر ٹھونس نہ جائیں تو بہت مفید ہوتی ہیں _ اس عمر میں ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ بچے کو سکھانے اور نماز پڑھانے و غیرہ کے امور میں جلدی کریں یا ان پر دباؤ ڈالیں _ پانچ سال کی عمر کے قریب بچہ سورہ فاتحہ و غیرہ یا دکرسکتا ہے آہستہ آہستہ یادکروانا شروع کریں اور پھر سات سال کی عمر میں اسے حکم دیں کہ وہ باقاعدہ نماز پڑھا کرے _ اول وقت میں خود بھی نماز پڑھا کریں اور بچوں کو بھی اس کی نصیحت کریں _ نو سال کی عمر میں انہیںحتمی طور پر نماز پڑھنے کی تلقین کریں _ انہیں سمجھائیں کہ سفر حضر میں نماز پڑھا کریں _ عمل نہ کرے تو سختی بھی کریں اور اس سلسلے میں کوئی سستی نہ کریں _ اگر ماں باپ خود نمازی ہوں تو آہستہ آہستہ بچوں کو بھی اس کا عادی بناسکتے ہیں اور پھر وہ سنّ بلوغ تک پہنچ کر خود

۳۰۴

بخود شوق و ذوق سے نماز پڑھنے لگیں گے _ اگر ماں باپ نے یہ عذر سمجھا کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے ، بالغ نہیں ہوا اور اس پر نماز ابھی فرض نہیں ہوئی لہذا اسے کچھ نہ کہیں تو پھر بالغ ہوکر بچے کے لیے نماز پڑھنا مشکل ہوگا_ کیوں کہ جس عمل کا انسان بچپن میں عادی نہ ہو اہو بڑے ہو کر اسے اپنا نا مشکل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار(ع) نے چھ یا سات سال کی عمر میں بچے کو نماز پڑھنے کا عادی بنانے کا حکم دیا ہے _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں نماز پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں _ (1)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

جب آپ کے بچے چھ سال ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کاحکم دیں اور سات سال کے ہوجائیں تو انہیں اس کے لیے زیادہ تاکید کریں اور اگر ضرورت ہو تو مارپیٹ سے بھی انہیں نماز پڑھوائیں _ (2) امام باقر علیہ السلام یا امام صادق علیہ السام نے فرمایا:

جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے کہیں کہ منہ ہاتھ دھوئے اور نمازپڑھے لیکن جب 9 سال کا ہوجائے تو اسے صحیح اور مکمل وضو سکھائیں اور سختی سے نماز پڑھنے کا حکم دیں _ ضرورت پڑے تو اسے مارپیٹ کے ذریعے بھی نماز پڑھنے پر مائل کیا جا سکتا ہے _ (3) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب بچہ چھ برس کا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے اور جب وہ روزہ

----------

1_ وسائل ، ج 3، ص 12

2_ مستدرک ، ج 1 ، ص 171

3_ وسائل، ج 3، ص 13

۳۰۵

رکھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ روزہ رکھتے _ (1)

روزے کے معاملے میں بچے کو آہستہ آہستہ عادت ڈالنا چاہیے _ جو بچہ سن تمیز کو پہنچ چکا ہوا سے سحری کے لیے بیدار کریں تا کہ وہ ناشتے کی جگہ سحری کھائے اور اس کا عادی ہو جائے _ جب بچہ روزہ رکھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے اس کی ترغیب دی جائے اور اگر وہ روزہ رکھ کر اسے نبھانہ پارہاہو تو اسے درمیان میں کچھ کھانے پینے کو دیا جا سکتا ہے _ آہستہ آہستہ اس کے روزوں کی تعداد بڑھائی جائے البتہ اس کی طاقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے بچہ بالغ ہوجائے تو اسے کہا جائے کہ تم پر فرض ہے کہ روزہ رکھواور نماز پڑھوا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گنہ کار ہوگے _ بہتر یہ ہے کہ اسے روز ے کی فضیلت اور ثواب بھی بتایا جائے تا کہ اس میں برداشت کرنے کی قوت بڑھے_ رمضان المبارک کے آخری ایام میں بچے کی دیگر ذمہ داریوں میں کمی کی جانا چاہیے تا کہ وہ آرام سے روزہ رکھ سکے _ آخر رمضان المبارک میں اسے انعام کے طور پر بھی کچھ دیں _ دن دھیان رکھیں کہ کہیں چھپ چھپا کرروزہ توڑنہ لے _

ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ بلوغ سے پہلے بچے کو احتلام کی علامتوں سے آگاہ کریں _ غسل اور استنجا کے بارے میں اسے بتائیں_

اس نکتے کی یاددہانی بھی ضروری ہے کہ اگر ماں باپ کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اہل مسجد ہوں اور دینی محافل کی طرف راغب ہوں تو پھر بچپن ہی سے انہیں اس کا عادی بنائیں _ مسجد اور دینی محفل میں انہیں اپنے ہمراہ لے جایا کریں تا کہ ان میں بھی اس کا شوق پیدا ہوجائے ورنہ بڑے ہوکر وہ رغبت سے ایسی محفلوں میں نہیں جایا کریں گے _

آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے سے پہلے مکلف نہیں ہوتا اور مذہبی فرائض اس پر عائد نہیں ہوتے اور انہیں ترک کرنے پر اسے گناہ نہیں ہوگا مگر ماں باپ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلوغ سے پہلے بچوں کو آزاد چھوڑدیں کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں _ کیونکہ نماز روزہ اس پر واجب نہ بھی ہو تو اگر وہ کسی کا شیشہ توڑ آئے کسی کے جسمانی عضو کو نقصان

۳۰۶

پہنچائے مثلاً کسی کا کان کاٹ دے ، آنکھ اندھی کردے یا ہاتھ توڑڈالے تو واجب ہے کہ بالغ ہوکر اس کی شرعی دیت اداکرے _

دوسری طرف اگر آزاد چھوڑدیا جائے کہ جو اس کے جی میں آئے کرے تو پھر بڑا ہوکر بھی وہ گناہ اور غلط کاموں کا عادی ہوگا کیونکہ بالغ ہوکر پھر وہ بچپن کا طر ز عمل نہیں چھوڑے گا _ لہذاا ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ اسے بچپن ہی سے واجبات اور محرّمات کی حدود سے آگاہ کریں _ حرام کا م انجام دینے سے روکیں او رواجب کام کی انجام وہی میں اس کی مدد کریں _

۳۰۷

سیاسی اور سماجی تربییت

آج کے بچے کل کے جوان ہیں _ ملک انہیں کاماں ہے _ اور انہیں کو کل ملک کا نظام چلاناہ ے _ ان کی سیاسی آگاہی اور شعور ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا ی_ یہی ہیں کہ جنہیں ملک کی ثقافتی اور اسلامی دولت کی پاسداری کرنا ہے _ اور ملک کی عظمت و سربلندی کے لیے انہیں کو کوشش کرنا ہے _ انہیں کو سامرا جی اور استعماری قوتوں کے، ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا ہے _ بچوں کو آج ہی اس مقصدتکے لیے تیارکرنا چاہیے _ ان کی تربیت کرنا چاہیے اور یہ بھاری ذمہ داری بھی ماں باپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے _

سیاسی و سماجی تربیت کی بنیاد بھی بچپن ہی میں رکھی جانا چاہیے تا کہ وہ زیادہ ثمر بخش ہو _ جب بچہ سن تمیز کو پہنچے تو اسے اس کے فہم و شعور کی حد تک سیاسی و سماجی مسائل کو سمجھنا چاہیے _ اسے اقتصادی اور سیاسی حالات کو آہستہ آہستہ جاننا چاہیے _ ملک کے فقر محرومیت اور پسماندگی کی وجوہات تدریجاً اسے سمجھائی جانا چاہیئں _ حکمرانوں کی اچھائیاں اور برائیاں بچوں سے بیان کی جا سکتی ہیں _ اور نظام کس طرح سے چلتا ہے انہیں سمجھایا جا سکتا ہے گاؤں، شہر اور ملک کمی عمومی حالت اس سے بیان کی جا سکتی ہے _بچہ انتخابات میں شرکت نہیں کرسکتا ، لیکن ماں باپ انتخابات میں شرکت کی خصوصیات اور شرائط کی اس کے سامنے وضاحت کرسکتے ہیں _ اور اسے سمجھا سکتے ہیں کہ کس طرح کے لوگوں کو منتخب کرنا چاہیے _ مثلاً اس سے کہہ سکتے ہیں ہم نے فلاں شخص کو دوٹ دیا ہے کیونکہ اس میں فلان خوبی ہے بچہ بھی جلسے جاسوس میں شرکت کرسکتا ہے _ وہ بھی نعرہ لگا سکتا ہے _ تقریریں سکتا ہے _

۳۰۸

اشتہارات تقسم کرسکتا ہے _ اور دیوار نویسی (وال چاکنگ) کرسکتا ہے _ اور یہ کام اس کے لیے مؤثر بھی ہوں گے _ ایران کے اسلامی انقلاب نے بخوبی ثابت کردیا ہے کہ بچے اور نوجواں بھی سیاسی امور میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں _ یہی تو تھے کہ جنہوں نے اپنے نعروں ، جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں سے طاغوت کی آلہ کار خود غرض حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا _ انہیں نے انقلابیوں کو تقویت بخشی اور ایران کی مسلمان ملت کی مظلومیت اور شاہی حکومت کے ایجنٹوں کے ظلم و خیانت کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچایا _ سب جانتے ہیں کہ ایران کے عظیم انقلاب کی کامیابی کا ہم حصّہ نوجوانوں ہی کی فعّال اور متحرک قوّت اور انہیں کی جانثاریوں کامرہون منت ہے _

چاہیے کہ بچے سیاسی واقعات کا مطالعہ کرکے ، اخبارات وجرائد کو پڑھ کر ، ریڈیو اور ٹیلی وین کے سیاسی اور سماجی پروگرام سن اور دیکھ کر ماں باپ اور دوسرے بچوں سے بات چیت کر کے تدریجاً سیاسی رشد پیدا کریں _ اور اپنے اور اپنے ہموطنوں کے مستقبل کے بارے میں دلچسپی پیدا کریں _ انہیں جاننا چاہیے کہ مستقل میں ان کے وطن کی تقدیر ان کے اور ان کے ہم سن بچوں اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی _ بچے کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا آخرت سے اور دین سیاست سے جدا نہیں ہے _ اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سماجی اور دنیاوی امور میں دخیل رہیں تا کہ ملک آباد اور ملت با شعور بنے _

نوجوانی اور جوانی میں اولاد کو نسبتاً زیادہ آزاید ملنی چاہیے تا کہ وہ خود با قاعدہ سیاسی امور سماجی امور میں شرکت کریں _

۳۰۹

بچہ اور ریڈیو ٹی وی

ریڈیوی، ٹیلی وی ژ ن اور سینما بہت ہی سودمند ایجادات ہیں _ ان کے ذریعے سے تعلیم و تربیت کی جاسکتی ہے _ لوگوں کے افکار کو جلا بخشی جا سکتی ہے _ دینی و اخلاقی اقدار کو رائج کیا جا سکتا ہے زرعی اور صنعتی شعبوںمیں راہنمائی کی جا سکتی ہے _ صحت و صفائی کے امور پر رشد پیدا کیا جا سکتا ہے _ سیاسی اور سماجی حوالے سے عوام کی سطح معلومات کو بلند کیا جا سکتا ہے _

انسان عوامی رابطے کے ان وسائل سے سینکڑوں قسم کے فائدے اٹھا سکتا ہے البتہ یہ وسائل جس قدر مفید ہوسکتے ہیں اسی قدر ان سے سوء استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے _ اگر یہ وسائل نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجائیں تو وہ غلط راستے پر ڈال دیں گے اور ان کے ذریعے سے عوام کو صحت ، ثقافت ، دین ، اخلاق ، اقتصاد اور سیاست کے حوالے سے سینکڑوں قسم کے نقصانات پہنچائیں گے _ ریڈیو اور ٹی _ وی تقریباً عمومی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اب ہرگھر میں جا پہنچا ہے _ بیشتر لوگ اسے ایک تفریح اور مشغولیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں _ اور انہیں دیکھنا اورسننا پسند کرتے ہیں _ خصوصاً بچے اور نوجواں ان سے بہت دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں _

باخبر لوگوں کی رائے کے مطابق ایرانی بچے امریکہ ، فرانس، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی نسبت ٹیلی وین کے پروگراموں سے زیادہ دلچپسی رکھتے ہیں ، ایران میں 207 کے ناظریں میں سے چالیس فیصد بچے ہیں ، تیس فیصد نوجوان ہیں جب کہ بچپن

۳۱۰

اور نوجوانی کی عمر تعلیم و تربیت کے اعتبار سے حساس ترین دور ہوتا ہے _ ریڈیوٹیلی وین کے پروگرام اچھے ہوں یا برے بلا شک ان کی حساس روح پر بہت اثر کرتے ہیں _ اور انہیں سطحی اور بے اثر نہیں سمجھنا چاہیے _ بچّے کو آزادی نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہر طرح کا پروگرام دیکھے یا سنے کیونکہ بعض پروگرام بچے کے لیے نقصان وہ ہوتے ہیں _ کاش ریڈیواور 207 کے اہل کار یہ جانیں کہ وہ کس حساس منصب پر کام کررہے ہیں اور کتنی عظم ذمہ داری ان کے دوش پر ہے افراد ملت خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا حصّہ انہیں کے ذمہ ہے _ ماں باپ بھی اس سلسلے میں لا تعلق نہیں رہ سکتے اور بچوں کو ہر طرح کا پروگرام سننے اور دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے _

ریڈیو، 207 کے پروگراموں کا یاک حصہ ایسی کہانیوں اور فلموں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں قتل ، ڈاکلہ ، چوری ، جرم ، اغوائ، لڑائی جھگڑا، تشدد، فریب ، دھوکا و غیرہ جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں _ بچے ایسی کہانیوں اور فلموں کے شوقیں ہوتے ہیں اور ان سے بہت لطف اٹھاتے ہیں _ جب کہ ایسی فلمیں اور کہانیاں بچوں کے لیے کئی جہات سے نقصان وہ ہیں _ مثلاً

1_ بچوں کی حساس اور لطیف روح کو بڑی شدت سے تحریک کرتی ہیں _ ہوسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے بچوں کے اندر ایک اضطراب اور خوف ووحشت کی کیفیت پیدا ہوجائے _ہوسکتا ہے وہ رات کو ڈراؤنے خواب دیکھیں اور سوتے میں چیخ ماریں _ ہوسکتا ہے انیہں سردرد لاحق ہوجائے اور یہاں تک ممکن ہے کہ وہ ایسی فلمیں دیکھتے ہوئے بے ہوش ہوجائیں یا ان پر سکتہ طاری ہوجائے _

2_ ایسی فلموں سے ہوسکتا ہے کہ اخلاق کے حوالے سے نقصان وہ اثرات مرتب ہوں _ اور بچوں کی پاک طبیعت کو وہ گناہ اور برائیوں کی طرف کھینچ لائیں _ ہوسکتا ہے کہ بچے ان سے اس قدر متاثر ہوں کہ ان کے ہیرو کی تقلید کریں _ اور جرم ، تقل اور چوری کرنے لگیں _

یونسکو نے اس سلسلے میں جو تفصیل جاری کی ہے اس کے مطابق اسپین میں 1944 سے لے کر 1953 ء تک سزا پانے والے بچوں میں سے 37 فیصد نے جرائم پر مبنی فلموں سے متاثر

۳۱۱

ہوکر جرم کیا ہے _

امریکہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیقات کے مطابق مجرم بچوں میں سے دس فیصد لڑکے اور پچیس فیصد لڑکیاں جرائم سے بھر پور فلمین دیکھ کر مجرم بنتی ہیں _ یہ اعداد شمار واقعاً ہلاکررکھ دینے والے ہیں _ (1)

بلامرد پازرکے نظریے کے مطابق 49/ مجرم فلموں سے متاثر ہوکر اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں _ 28/ چوری کرنے اور 21/ فیصد قانون کی گرفت سے بھاگنے اور پولیس کوچکّرد ینے کے طریقہ انہی فلموں سے سیکھتے ہیں _ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ 25/ عورتیں بری فلموں کے زیرا اثر برائی اور بدکاری کی راہ پر چل پڑی ہیں نیز 54/ عورتیں پلا پرواہ فلمی ستاروں کی تقلید میں قحبسہ خانوں اور برائی کی محفلوں کی زینت بنی ہیں _ (2)

یونیورسٹی لاس اینجلز کے ایک پروفیسر واکس مین کہتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی وی کی سکرین سے نکلنے والی الیکٹرک مقناطیسی لہریں انسانی آرگنزم پر بہت اثر کرتی ہیں _ ٹیلی وین یا رڈاریا گھریلو ضرورت کی بجلی کی چیزوں سے نکلنے والی لہریں شارٹ ویوز کی قسم میں سے ہیں _ اور اس کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے سر میں درد ہوتا ہے اورسر چکرانے لگتا ہے _ اس سے انسان کی فکری صلاحیت کم ہوجاتی ہے _ خون کا دباؤ تبدیل ہوجاتا ہے _ طبیعت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور خون کے سفید خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے علاوہ ازیں یہ لہریں انسان کے نظام ، اعصاب پر بہت برا اثر ڈالتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن جاتی ہیں _ (3)

---------

1_ مجلہ : مکتب اسلام جلد 15 شمارہ 11

2_ مجلہ: مکتب اسلام ، جلد 15 شمارہ 11

3_ مجلہ ; مکتب اسلام ، جلد 18 ، شمارہ 1

۳۱۲

ڈاکٹر الکسنر کارل لکھٹے ہیں:

ریڈیو _ ٹی وی اور نامناسب کھیل ہمارے بچوں کے جذبات کو تباہ کر دیتے ہیں _ (1)

روزنامہ اطلاعات اپنے شمارہ 15743 میں ایک یورپی طالب علم کے بارے میں لکھتا ہے:

کالج کے ایک اٹھارہ سالہ طالب علم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا _ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک فلمی اداکار والٹر کا تائر کے بیٹے اغوا کیا اور پھر دھمکی دی کہ اسے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر پہنچادیے جائیں ورنہ وہ اسے قتل کردے گا _ ملزم نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ قتل کی دھمکی دے کر غنڈہ ٹیکس وصول کرنے کا خیل اس کے ذہن میں ٹیلی وین کی ایک فلم دیکھتے ہوئے پیدا ہوا _

اس سلسلے میں پولی کا کہنا یہ ہے کہ ایسے بہت سے کیس ہمارے پاس پہنچے ہیں کہ نوجوانوں نے ٹیلی وین سے جرم کا ارتکاب کرنا سیکھا ہے _ مشہد میں ایک دس سالہ بچے نے کراٹے کی ایک فلم دیکھنے کے بعد اپنے آٹھ سالہ دوست کو کک مارکر مارڈالا _ (2)

تعلیم و تربیت کے نائب وزیر جناب صفی نیا کہتے ہیں:

جب ٹی وی برائی کا درس دے رہا ہو تو بہترین استاد بھی کچھ نہیں کرسکتا _ (2)

کیوبا کے ایک پندرہ سالہ لڑکے رونے زامورانے ایک 83 سالہ بوڑھی عورت کو قتل

---------

1_ مکتب اسلام ،جلد 15 ، شمارہ 3

2_ مکتب اسلام ، جلد 15 ، شمارہ 11

3_ مکتب اسلام ، جلد 18 ، شمارہ 1

۳۱۳

کردیا اس نے یہ جرم فلوریڈ میں انجام دیا _ اور اب وہ اس شہر کی ایک جیل میں اس جرم کی سزا کے طور پر عمر قید کاٹ رہا ہے _ اس کے والدین نے امریکی ٹیلی وین کے تین چینلوں کے خلاف دوکروڑ پچاس لاکھ ڈالر ہر جانے کا دعوی دائر کیا ہے _ انہوں نے عدالت میں اپنے دعوی کے ثبوت میں جو شواہد پیش کیے ہیں ان کے مطابق بچے نے آدم کشی کا سبق اسی ٹیلی وین کے پروگراموں سے سیکھا ہے _ گذشتہ ستمبر عدالت میں اس کیس کی سماعت ہوئی اس موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ ملزم جب بچہ تھا تو آیا اسے چپ کرانے کے لیے ٹی _ وی کے سامنے بٹھادیتی _ اس سے اس میں ٹیلی وین دیکھنے کا بہت شوق پیدا ہوگیا وہ روزانہ آٹھ اٹھ گھنٹے تیلی وین پروگرامم دیکھتا رہتا _ اسے ٹی _ وی کے پروگراموں سے بہت دلچسپی پیدا ہوگئی خاص طور پر '' پلیس کو جاک'' نامی سیریز سے وہ بہت متاثر تھا ارتکاب جرم سے ایک رات پہلے اس فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح سے ایک امیر عورت کو لوٹا گیا _

ایک لڑکی جس کا نام رضائیہ تھا _ پندرہ سال اس کی عمر تھی بہت خوبصورت لڑکی تھی ٹیلی وین پر ایک پر ہیجان فلم دیکھتے ہوئے اس پر اس قدر اثر ہو اکہ وہ زمین پری گری اور مرگئی _ جب اس نے فلم میں دیکھا کہ ایک سفید فام شخص ایک سیاہ فام کے سر کی چمڑی ادھیڑنے لگا ہے تو اس نے ایک چیخ ماری _ پھر اس کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی _ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی _

اعصاب اور نفسیات کے ماہر ڈاکٹر جلال بریمانی کہتے ہیں:

خوف ناک، ڈراؤنی اور ہیجان انگیز فلمیں بچوں کی نفسیات پر نامطلوب اثر ڈالتی ہیں _ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک بچہ ماردھاڑسے بھر پور فلم دیکھنے کے بعد فلم کے ہیر و کی تقلید میں اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کو قتل کردیتا ہے _ ایسی فلمیں بچے کی آئندہ شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں خوفناک فلموں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برے ہوکر ان کے اندر بزدلی پیدا ہوجاتی ہے ، مارڈھاڑ کی فلمیں آئندہ کی زندگی میں انہیں بھی ایسا ہی بنادیتی ہیں _ ان کے اثرات انسان کی روح پر رہتے ہیں اور پھر جہاں موقع ملتا ہے کسی غلط واقع کی صورت میں

۳۱۴

نمودار ہوتے ہیں اور انسان کو برائی کی طرف کھینتے ہیں _

نفسیات کے ڈاکٹر شکر اللہ طریقتی کہتے ہیں:

بری فلموں کا اثر بچے کے مستقبل پر ناقابل انکار ہے _ یہ فلمیں بچوں کی نفسیات پر ایسا نامطلوب اثر ڈالتی ہیں کا بالغ ہوکر جب مناسب موقع ملتا ہے اور دوسرے اسباب بھی فراہم ہوجاتے ہیں تو وہ خطرناک کاموں کی انجام دہی کی صورت میں اس کی مدد کرتا ہے _ لہذا میں ماں باپ و نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو ہرگز اجازت نہ دیں کہ وہ غلط فلمیں دیکھیں _ خاص طور پر وہ فلمیں جو بڑوں کے لیے مخصوص ہیں خصوصاً رات کے دس بجے کے بعد آنے والی فلموں کی اجازت نہ دیں _ اگر بچے ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ضد کریں اور والدین انہیں اس کی اجازت نہ دیں تو اولاد کے حق میں یہی ان کی محبت ہے _

تہران یونیورسٹی کے ایک استاد اور جرم شناسی ڈاکٹر رضا مظلومی کہتے ہیں:

ٹیلی وین اور سینما گھروں میں دکھائی جانے والی بہت سی فلمیں ہمارے معاشرے کے لیے خطرناک ہیں _ ان کے خطرات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ گیارہ سالہ بچی کو انہوں نے زندگی سے محروم کردیا اور اس کے دل کی دھڑکن کو بند میں جرات مندی کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ عصر حاضر میں ہونے والے بہت سے جرائم اور مظالم انہیں فلموں کے برے اثرات کی وجہ ہیں _ (1)

نیویارک کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر آرنالڈ فریمانی نے جدیدترین الیکٹرانک آلات اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے روحانی اور فکری کمزوری اور شدید سردرد ریڈیوپر نشر ہونے والی موسیقی کے سننے سے پیدا ہوتے ہیں _ (2)

اخبار ٹائمز اپنے 1964 کے شمارہ میں لکھتا ہے:

---------

1_ روزنامہ اطلاعات _ 10 آبان ماہ 1352

2_ مکتب اسلام : جلد 15 شمارہ 3

۳۱۵

بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر نے فضائیہ کی دو چھاؤنیوں میں اس بات کو محسوس کیا کہ اس علاقے میں کام کرنے والے افسران کے بچے کہ جن کی عمر 3 سال سے بارہ سال کے درمیان ہے ہمیشہ دردسر، بے خوابی ، معدہ کی گڑبڑ، قے پیچش اور دیگر بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں _ طبی نقطہ نظر سے اس بیماری کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوئی _ لیکن مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ تمام بچے ٹیلی وین کے طویل پروگرام دیکھنے کے عادی ہیں اور ہر روز 3 گھنٹے سے 4 گھنٹے تک ٹی _ وی پروگرام دیکھتے ہیں _ ڈاکٹروں نے ان کے لیے صرف یہی علاح متعین کیا کہ ان کوئی _ وی پروگرام دیکھنے کی اجازت نہ دی جائے _ یہ علاج کیا اور مؤثر بھی رہا _ سردرد ، قے ، پیچش اور باقی تمام بیماریاں ختم ہوگئیں _ (1)

لہذا جن والدین کو اپنے بچوں سے محبت ہے وہ انہیں دن رات ریڈیو اور ٹیلی وین سننے اور دیکھنے کی اجازت نہ دیں _ صرف ان پروگراموں کو دیکھنے کی اجازت دیں جن سے بچوں کو کوئی نفسیاتی ، روحانی اور اخلاقی نقصان نہ پہنچے _

--------

1_ پیوند ہای کودک و خانوادہ ص 131

۳۱۶

جنسی مسائل

جنسی قوت انسان کی انتہائی قوی اور حساس جبلّتون میں سے ہے _ یہ قوت انسان کے لیے بہت تعمیری ہے _ انسان کی نفسیاتی اور جسمانی زندگی کے لئے اس کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں انسان کے بہت سے اعمال، یہاں تک کہ متعدد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد یہی جبلّت ہوتی ہے اگر انسان کی پرورش عاقلانہ اور دست ہو تو یہ قوت انسان کی خوشی اور آرام کا ذریعہ بنتی ہے _ اور اگر تربیت میں افراط یا تفریط ہو تو ممکن ہے سینکڑوں جسمانی اور نفسیاتی نقصانات کا سبب بنے _ اور انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردے _

ایسا نہیں ہے کہ جنسی قوت بلوغت کے زمانے میں پیدا ہوتی ہو _ بلکہ یہ بچپن ہی سے انسانی طبیعت میں خوابیدہ ہوتی ہے _ اور مختلف شکلوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے _ چھوٹے بچے اپنے آلہ تناس کو چھکر لذت محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے اندر ایک تحرک کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ والدین کے اظہار محبت اور بوسوں سے لذت محسوس کرتے ہیں _ وہ خوبصورتی اور بد صورتی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کبھی زبان سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں _ دو تین سال کی عمر میں وہ لڑکے اور لڑکی میں فرق سمجھنے لگتے ہیں اور بڑی توجہ اور جستجو سے ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھتے ہیں _ جب کچھ بڑے ہوجائیں تو وہاں تصویریں انہیں اپنی طرف کھینچتی ہیں _ وہ حیران ہو ہو کر ان کی طرف دیکھتے ہیں _ز بان سے فحش اور گندے مذاق کرتے ہیں اور ان پر خوش ہوتے ہیں جنس مخالف کی طرف انہیں کچھ کچھ میلان پیدا ہوجاتا ہے _ اور انہیں اپنی طرف

۳۱۷

متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں _ کبھی کبھی وہ تصریحاً یا اشارة جنسی امور کے بارے میں والدین سے سوال کرتے ہیں _ ماں باپ کی سرگوشیوں کی طرف وہ کان دھرتے ہیں اور ان کے کاموں پر نظر کرھتے ہیں _ اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے گوشہ و کنار میں بیٹھ کر راز و نیاز کرتے ہیں _ ان سب چیزوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جنسی قوت نابالغ بچوں میں بھی موجود ہوتی ہے لیکن مبہم اور تاریک صورت میں _ بغیر آگاہی اور کامل شعور کے ان کی توجہ اس کی طرف کھنچتی ہے لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اس امر کی طرف ان کی توجہ ہوتی ہے کہ لذّت کہاں سے حاصل ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ لذت کیسے حاصل کریں ؟ دس بارہ سال کی عمر تک بچے اسی حالت میں ہوتے ہیں اور ان کی جنسی جبلّت پوری طرح سے بیدار نہیں ہوتی اور ایک ابہام کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن بارہ سے پندرہ سال کی عمر میں وہ بڑی تیزی سے پروان چڑھتی ہے اور تقریبا بیدار ہوجاتی ہے _

فرض شناس ماں باپ اپنے بچوں کی جنسی جبلّت سے لا تعلق نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اس بارے میں کوئی حکمت عملی وضع نہ کریں _ کیوں کہ جنسی اعتبار سے تربیت دشوار ترین اور حساس ترین تربیتوں میں سے ہے _ اس سلسلے میں ذرّہ بھر اشتباہ یا غفلت بھی ممکن ہے بچوں کو برائی اور تباہی کی وادی کی طرف کھینچ لے جائے _

ماں باپ کی توجہ اس امر کی طرف ہونی چاہیے کہ بلوغ سے پہلے بدنی اور فکری رشد کے اعتبار سے بچے تولید نسل او رجنسی قوت کو عمل میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے _ اس لیے اللہ تعالی نے بلوغ سے پہلے ان کی جنسی جبلّت کو ان کی طبیعت میں خفتہ و خوابیدہ رکھا ہوتا ہے _ بچوں کی انفرادی اور اجتماعی بھلائی بھی اس میں ہے کہ بلوغ سے پہلے ان کی جنسی قوّت بیدار اور متحرک نہ ہو کیونکہ اگر جنسی قوت بلوغت سے پہلے اور جلدی ہی بیدار ہوجائے تو اس سے بچے کی زندگی بہت سی مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے وہ اس کی بدبختی اور انحراف کے اسباب فراہم کرے _

لہذا ماں باپ کو ہر اس علم سے سخت پرہیز کرنا چاہیے کہ جس سے بچوں کی جنس جبلّت کو تحریک ہوسکے اور وہ بیدا رہوسکے _ اور ان کے لیے ایسے حالات فراہم کریں کہ ان کی

۳۱۸

نشو و نما تدریجی طور پر اور قطری لحاظ سے ہو _ والدین اگر عقل مند اور باتدبیر ہوں تو وہ خود اس ضمن میں تمیز کرسکتے ہیں کہ کون سے کام مفید ہیں اور کون سے مضر _ لیکن ہم یاد دہانی کے طورپر کچھ باتیں بیان کرتے ہیں بچوں کی شرمگاہ پر ہاتھ پھیرنا ، وہاں پیار کرنا _ اخبار و جرائد کی خوبصورت اور ننگی تصویروں کو دیکھنا ، عشقیہ اور تحرک انگیز کانوں اور کہانیوں کو سننا، دوسروں کی شرم گاہ کی طرف دیکھنا یا اس پہ ہاتھ پھیرنا ، دوسروں کے حسن اور خوبصورت کی تعریف کرنا ، اور دوسروں کے ہر حصّہ بدن اور ننگی ٹانگوں کی طرف دیکھنا _ ماں باپ کی آپس میں یا دوسروں سے معاشقہ بازی اور جنسی مذاق ، شہوت انگیز مناظر کو دیکھنا یا ان کے بارے میں سننا اور اس طرح کے دیگر امور کو سرانجام دینا بچے کی جنسی قوت کو تحرک کرنے اور بیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور بچہ بھی ایسی لذت کے حصول کے بارے میں سوچنے لگتا ہے _

پانچ چھ سال سے اوپر کی عمر کے بچوں کو تنہا نہ رہنے دیں _ ہوسکتا ہے وہ ایک دوسرے کی شرمگاہ سے کھیلیں اور اس سے ان میں تحریک پیدا ہو بچوں کو اجازت نہ دیں کہ وہ بستر پہ ایسے ہی پڑے رہیں اور جاگتے رہیں پانچ چھ سال کے بچوں کے بستر جدا کردیں اور انہیں ایک بستر پر نہ لٹائیں کیوں کہ ممکن ہے ایک دوسرے سے مس ہونے سے ان میں تحریک پیدا ہو _ پانچ چھ سال کے بچوں کو خود اپنے بستر پر نہ لٹائیں خاص طور پر مخالف جنس کے بچوں کو _ یہاں تک کہ ماں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا بدن اپنی چھ سالہ بیٹی کے بدن کے ساتھ ملے _پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:جب بچّے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر جد اکردیں _ (1) امام صادق (ع) اپنے بزرگوں سے نقل فرماتے ہیں:عورتوں اور دس سالہ بچوں کے بستر جدا ہونے چاہئیں _ (2) امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

----------

1_ مکارم الاخلاق ، ج 1 ، ص 356

2_ وسائل ، ج 14،ص 286

۳۱۹

جو ماں اپنی چھ سالہ بیٹی سے اپنا بدن ملتی ہے ایک طرح کے زنا کا ارتکاب کرتی ہے _ (1)

امام صادق علیہ السلام ہی فرمات ہیں:

مرد اپنی چھ سالہ بیٹی کو نہ چومے اور عورت اپنے سات سالہ بیٹے کو نہ چومے _ (2)

بہت سے گھرانوں میں ;عمول ہے کہ عورتیں عریان یا نیم عریان بدن کے ساتھ گھروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بعض مرد بھی اس سلسلے مین ھورتوں سے پیچھے نہیں رہتے _ وہ اپنے گھروں میں نیم عریان بدن یا ننگی پیڈلیاں اپنے چھوٹے بڑے بیٹے بیٹیوں کو دکھاتے رہتے ہیں _ ان گھروں کی بیٹیاں اور بیٹے بھی اپنے ماں باپ کی پیروی کرتے ہیں اور گھر میں نیم عریان بدن کے ساتھ رہتے ہیں _ اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک خاندان کے افراد ہیں _ اپنے میں محرم ہیں_ محرموں کے درمیان کوئی پابندی اور حجاب نہیں ہے یا ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کے نیم عریان بدن اور ان کی ننگی ٹانگیں ان کے بچوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتے کیوں کہ اولاً تو وہ محرم ہیں اور ثانیاً بچے بھی ابھی کچھ نہیں سمجھتے _ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا کھلا سینہ اور ننگی ٹانگیں ان کے بیٹے پر کوئی اثر نہیں ڈالتی اور اس سے ان کی جنسی جبلّت کو کوئی تحریک نہیں ہوتی کیوں کہ وہ آپس میں بھائی بہن ہیں _ جب کہ یہ بات درست نہیں _ البتہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے بچے ان واقعات کی طرف توجہ دیں _ لیکن یہ بات اتنی اطمینان بخش نہیں ہے _ جنسی جبلّت ایک بہت طاقتور قوّت ہے _ اور محرم و ناحرم ہونا ، بھائی اور بہن ہونا ، ماں اور باپ ہونا اس کے سر میں نہیں سماتا _ ہوسکتا ہے ایک نظر دیکھنے سے ان میں تحریک پیدا ہوجائے اور جنسی لذت کے حصول کی فکر ان میں بیدار ہوجائے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

----------

1_ وسائل ، ج 14، ص 170

2_ وسائل، ج 14، ص 170

۳۲۰