آئین تربیت

آئین تربیت15%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125466 / ڈاؤنلوڈ: 7176
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

فطری طور پر ودیعت کیے گئے عقائد نشو و نما پا سکیں _ انسان بچپن ہے سے ایک ایسی قدرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ جو اس کی ضروریات پوری کر سکے _ لیکن اس کا ادراک اس حد تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرتکز شدہ توجہ کو بیان کرسکے _ لیکن آہستہ آہستہ یہ توجہ ظاہر ہوجاتی ہے _ جو بچہ ایک مذہبی گھرانے میں پرورش پاتا ہے وہ کوئی چار سال کی عمر میں اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور یہی وہ عمر ہے جس میں بچے کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات ابھر نے لگتے ہیں _ کبھی کبھی وہ اللہ کا نام زبان پر لاتا ہے _ اس کے سوالوں اور باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فطت بیدا ہوچکی ہے اور وہ اس سلسلے میں زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہے بچہ سوچتا ہے کہ :سورج کس نے بنایا ہے ؟ چاندتارے کس نے پیدا کیے ہیں؟ کیا اللہ تعالی مجھ سے پیار کرتا ہے؟ کیا اللہ تعالی میٹھی چیزیں پسند کرتا ہے؟ بارش کون برساتا ہے؟ ابو کو کس نے پیدا کیا ہے؟ کیا اللہ ہماری باتیں سنتا ہے؟ کیا ٹیلی فون کے ذریعے اللہ سے باتیں کی جاسکتی ہیں؟ اللہ کہاں رہتا ہے ؟ اس کی شکل کس طرح کی ہے ؟ کیا خدا آسمان پر ہے؟ چارسال کے بعد بچے اس طرح کے ہزاروں سوال کرتے اور سوچتے ہیں _

ان سوالات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کی فطرت خداپرستی بیدار ہوچکی ہے اور وہ یہ باتیں پوچھ کر اپنی معلومات مکمل کرنا چاہتا ہے _ معلوم نہیں کہ ننّھا منّا بچہ خدا کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے _ شاید وہ یہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ابّو کی طرح ہے لیکن اس

۳۰۱

سے بڑا اور زیادہ طاقتور ہے _ بچے کا شعور جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے _ خدا کے بارے میں اس کی شناخت برھتی جاتی ہے _ اس سلسلے میں ماں باپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ وہ اپنے بچوں کے عقائد کی تکمیل میں بہت اہم خدمت انجام دے سکتے ہیں _ اس سلسلے میں اگر انہوں نے کوتاہی کی تو روز قیامت ان سے بازپرس کی جائے گی _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے تمام سوالوں کا جواب دیں اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو بچے کی روح تحقیق مرجائے گی _ لیکن بچے کے سوالوں کا جواب دینا کوئی آسان کام نہیں _ جواب صحیح ، مختصر اور بچے کے لیے قابل فہم ہونا چاہیے _ بچے کا شعور جس قدر ترقی کرتا جائے جواب بھی اس قدر عمیق ہونا چاہیے _ یہ کام ہر ماں باپ نہیں کرسکتے _ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے سے اس کے لیے تیاری کریں _ زیادہ گہرے اور صبر آزما مطلب بیان نہ کریں کیونکہ یہ نہ فقط بچے کے لیے سودمند نہ ہوں گے بلکہ ناقابل فہم اور پریشان کن بھی ہوں گے _ چھوٹا بچہ مشکل مطالب نہیں سمجھ پاتا لہذا اس کی طبیعت ، فہم اور صلاحیت کے مطابق اسے دینی تعلیم دی جانا چاہیے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

بچہ تین سال کا ہوجائے تو اسے ''لا الہ الا اللہ '' سکھائیں _پھر اسے چھوڑدیں _ جب اس کی عمر تین سال ، سات ماہ اور بیس دن ہوجائے تو اسے ''محمد رسول اللہ'' یاد کروائیں پھر چار سال تک اسے چھوڑدیں _ جب چار سال کا ہوجائے تو اسے پیغمبر خدا پر درود بھیجنا سکھائیں _ (۱) بچوں کا چھوٹے چھوٹے اور سادہ دینی اشعار یادکروانا ان کے لیے مفید اور لذت بخش ہوتا ہے _ اسی طرح انہیں آہستہ آہستہ نبوت اور امامت کے بارے _ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں بتائیں کہ اللہ نے انہیں نبی بنا کر بھیجا تا کہ ہماری ہدایت کریں _ پھر ان کی خصوصیات اور کچھ واقعات بتائیں _ پھر عمومی نبوت کا مفہوم بتائیں اور نبوت کی ضروری ضروری شرائط سے انہیں آگاہ کریں او ر یوں ہی امامت کے بارے میں بھی سمجھائیں _

-----------

۱_ مکارم الاخلاق ، ج ۱ ، ص ۲۵۴

۳۰۲

چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے کہانی کی صورت میں پیار سے یہ باتیں کریں گے _ تو بہت مؤثر ہوں گے _

ہاں قیامت کے بارے میں بچہ جلدی متوجہ نہیں ہوتا وہ سوچتا ہے کہ وہ اور اس کے ماں باپ ہمیشہ یوں ہی رہیں گے _ مرنے کو وہ ایک لمبے سفر کی طرح خیال کرتا ہے _ جب تک بچہ موت کی طرف متوجہ نہ ہو تو ضروری نہیں ہے بلکہ شاید مناسب بھی نہیں کہ اس سے اس سلسلے میں بات چیت کی جائے _ البتہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں کہ ماں باپ کو مجبوراً ان کے سامنے موت کی حقیقت کے بارے میں کچھ اظہار کرنا پڑجاتا ہے _ ممکن ہے کسی رشتے دار، دوست یا جان پہچان والے شخص کی موت بچے کو سوچنے پر مجبور کردے _ مثلاً خدا نخواستہ بچے کے دادا وفات پاجائیں اور وہ پوچھے کہ :

امّی دادا بّو کہاں چلے گئے ہیں؟

ایسے موقع پر بچے کو حقیقت بتادنی چاہیے _ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے _ بچے سے یہ کہا جا سکتا ہے تمہارے دادا جان وفات پاگئے ہیں ، وہ دوسرے دنیا میں چلے گئے ہیں _ ہر مرنے والا اس دنیا میں چلا جاتا ہے _ اگر کوئی نیک ہوا تو جنت کے خوبصورت باغوں میں خوشی رہے گا اور اگر کوئی برا ہوا تو جہنم کی آگ میں وہ اپنی سزا بھگتے گا _ بچے کو موت کا یع معنی رفتہ رفتہ سمجھایاجائے کہ یہ ایک دنیا سے دوسری دنیا کی طرف انتقال ہے _ اسے جنت ، دوزخ ، حساب کتاب اور قیامت کے بارے میں ساداسادا اور مختصر طور پر بتایا جانا چاہیے _

تربیت عقاید کا یہ سلسلہ پرائمری ، مڈل ، ہائی اور پھر بالائی سطح تک جاری رہنا چاہیے _

۳۰۳

بچہ اور فرائض دینی

یہ درست ہے کہ لڑکا پندرہ سال کی عمر میں اور لڑکی نو سال کی عمر میں مکلّف ہوتے ہیں اور شرعی احکام ان پر لاگو ہو جاتے ہیں _ لیکن دینی فرائض کی انجام دہی کو بلوغت تک ٹالانہیں جا سکتا_ انسان کو بچپن ہی سے عبادت اور دینی فرائض کی انجام دہی کی عادت ڈالنی چاہیے تا کہ بالغ ہوں تو انہیں شوق سے بجالائیں خوش قسمتی سے ایک مذہبی گھرانے میں پرورش پانے والا بچہ تین سال کی عمر ہی سے اپنے ماں باپ کی تقلید میں بعض مذہبی کام بجالاتا ہے _ کبھی ان کے لیے جائے نماز بچھاتا ہے ، کبھی ان کے ساتھ سجدے میں جاتا ہے ، اللہ اکبر اور لا الہ اللہ کہتا ہے چھوٹے چھوٹے مذہبی اشعار مزے مزے سے پڑھتا ہے _ فرض شناس اور سمجھ دار ماں باپ بچے کی ان فطری حرکات سے استفادہ کرتے ہیں _ ان پر مسکراکر اور اظہار مسرت کرکے اسے تقویت کرتے ہیں _ اگر زبردستی یہ چیزیں بچے پر ٹھونس نہ جائیں تو بہت مفید ہوتی ہیں _ اس عمر میں ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ بچے کو سکھانے اور نماز پڑھانے و غیرہ کے امور میں جلدی کریں یا ان پر دباؤ ڈالیں _ پانچ سال کی عمر کے قریب بچہ سورہ فاتحہ و غیرہ یا دکرسکتا ہے آہستہ آہستہ یادکروانا شروع کریں اور پھر سات سال کی عمر میں اسے حکم دیں کہ وہ باقاعدہ نماز پڑھا کرے _ اول وقت میں خود بھی نماز پڑھا کریں اور بچوں کو بھی اس کی نصیحت کریں _ نو سال کی عمر میں انہیںحتمی طور پر نماز پڑھنے کی تلقین کریں _ انہیں سمجھائیں کہ سفر حضر میں نماز پڑھا کریں _ عمل نہ کرے تو سختی بھی کریں اور اس سلسلے میں کوئی سستی نہ کریں _ اگر ماں باپ خود نمازی ہوں تو آہستہ آہستہ بچوں کو بھی اس کا عادی بناسکتے ہیں اور پھر وہ سنّ بلوغ تک پہنچ کر خود

۳۰۴

بخود شوق و ذوق سے نماز پڑھنے لگیں گے _ اگر ماں باپ نے یہ عذر سمجھا کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے ، بالغ نہیں ہوا اور اس پر نماز ابھی فرض نہیں ہوئی لہذا اسے کچھ نہ کہیں تو پھر بالغ ہوکر بچے کے لیے نماز پڑھنا مشکل ہوگا_ کیوں کہ جس عمل کا انسان بچپن میں عادی نہ ہو اہو بڑے ہو کر اسے اپنا نا مشکل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اطہار(ع) نے چھ یا سات سال کی عمر میں بچے کو نماز پڑھنے کا عادی بنانے کا حکم دیا ہے _

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں نماز پڑھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور سات سال کی عمر میں انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں _ (۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

جب آپ کے بچے چھ سال ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کاحکم دیں اور سات سال کے ہوجائیں تو انہیں اس کے لیے زیادہ تاکید کریں اور اگر ضرورت ہو تو مارپیٹ سے بھی انہیں نماز پڑھوائیں _ (۲) امام باقر علیہ السلام یا امام صادق علیہ السام نے فرمایا:

جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے کہیں کہ منہ ہاتھ دھوئے اور نمازپڑھے لیکن جب ۹ سال کا ہوجائے تو اسے صحیح اور مکمل وضو سکھائیں اور سختی سے نماز پڑھنے کا حکم دیں _ ضرورت پڑے تو اسے مارپیٹ کے ذریعے بھی نماز پڑھنے پر مائل کیا جا سکتا ہے _ (۳) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جب بچہ چھ برس کا ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ نماز پڑھے اور جب وہ روزہ

----------

۱_ وسائل ، ج ۳، ص ۱۲

۲_ مستدرک ، ج ۱ ، ص ۱۷۱

۳_ وسائل، ج ۳، ص ۱۳

۳۰۵

رکھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ روزہ رکھتے _ (۱)

روزے کے معاملے میں بچے کو آہستہ آہستہ عادت ڈالنا چاہیے _ جو بچہ سن تمیز کو پہنچ چکا ہوا سے سحری کے لیے بیدار کریں تا کہ وہ ناشتے کی جگہ سحری کھائے اور اس کا عادی ہو جائے _ جب بچہ روزہ رکھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے اس کی ترغیب دی جائے اور اگر وہ روزہ رکھ کر اسے نبھانہ پارہاہو تو اسے درمیان میں کچھ کھانے پینے کو دیا جا سکتا ہے _ آہستہ آہستہ اس کے روزوں کی تعداد بڑھائی جائے البتہ اس کی طاقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے بچہ بالغ ہوجائے تو اسے کہا جائے کہ تم پر فرض ہے کہ روزہ رکھواور نماز پڑھوا اگر تم نے ایسا نہ کیا تو گنہ کار ہوگے _ بہتر یہ ہے کہ اسے روز ے کی فضیلت اور ثواب بھی بتایا جائے تا کہ اس میں برداشت کرنے کی قوت بڑھے_ رمضان المبارک کے آخری ایام میں بچے کی دیگر ذمہ داریوں میں کمی کی جانا چاہیے تا کہ وہ آرام سے روزہ رکھ سکے _ آخر رمضان المبارک میں اسے انعام کے طور پر بھی کچھ دیں _ دن دھیان رکھیں کہ کہیں چھپ چھپا کرروزہ توڑنہ لے _

ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ بلوغ سے پہلے بچے کو احتلام کی علامتوں سے آگاہ کریں _ غسل اور استنجا کے بارے میں اسے بتائیں_

اس نکتے کی یاددہانی بھی ضروری ہے کہ اگر ماں باپ کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اہل مسجد ہوں اور دینی محافل کی طرف راغب ہوں تو پھر بچپن ہی سے انہیں اس کا عادی بنائیں _ مسجد اور دینی محفل میں انہیں اپنے ہمراہ لے جایا کریں تا کہ ان میں بھی اس کا شوق پیدا ہوجائے ورنہ بڑے ہوکر وہ رغبت سے ایسی محفلوں میں نہیں جایا کریں گے _

آخر میں اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ بچہ بالغ ہونے سے پہلے مکلف نہیں ہوتا اور مذہبی فرائض اس پر عائد نہیں ہوتے اور انہیں ترک کرنے پر اسے گناہ نہیں ہوگا مگر ماں باپ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ بلوغ سے پہلے بچوں کو آزاد چھوڑدیں کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں _ کیونکہ نماز روزہ اس پر واجب نہ بھی ہو تو اگر وہ کسی کا شیشہ توڑ آئے کسی کے جسمانی عضو کو نقصان

۳۰۶

پہنچائے مثلاً کسی کا کان کاٹ دے ، آنکھ اندھی کردے یا ہاتھ توڑڈالے تو واجب ہے کہ بالغ ہوکر اس کی شرعی دیت اداکرے _

دوسری طرف اگر آزاد چھوڑدیا جائے کہ جو اس کے جی میں آئے کرے تو پھر بڑا ہوکر بھی وہ گناہ اور غلط کاموں کا عادی ہوگا کیونکہ بالغ ہوکر پھر وہ بچپن کا طر ز عمل نہیں چھوڑے گا _ لہذاا ماں باپ کے لیے ضروری ہے کہ اسے بچپن ہی سے واجبات اور محرّمات کی حدود سے آگاہ کریں _ حرام کا م انجام دینے سے روکیں او رواجب کام کی انجام وہی میں اس کی مدد کریں _

۳۰۷

سیاسی اور سماجی تربییت

آج کے بچے کل کے جوان ہیں _ ملک انہیں کاماں ہے _ اور انہیں کو کل ملک کا نظام چلاناہ ے _ ان کی سیاسی آگاہی اور شعور ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا ی_ یہی ہیں کہ جنہیں ملک کی ثقافتی اور اسلامی دولت کی پاسداری کرنا ہے _ اور ملک کی عظمت و سربلندی کے لیے انہیں کو کوشش کرنا ہے _ انہیں کو سامرا جی اور استعماری قوتوں کے، ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا ہے _ بچوں کو آج ہی اس مقصدتکے لیے تیارکرنا چاہیے _ ان کی تربیت کرنا چاہیے اور یہ بھاری ذمہ داری بھی ماں باپ کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے _

سیاسی و سماجی تربیت کی بنیاد بھی بچپن ہی میں رکھی جانا چاہیے تا کہ وہ زیادہ ثمر بخش ہو _ جب بچہ سن تمیز کو پہنچے تو اسے اس کے فہم و شعور کی حد تک سیاسی و سماجی مسائل کو سمجھنا چاہیے _ اسے اقتصادی اور سیاسی حالات کو آہستہ آہستہ جاننا چاہیے _ ملک کے فقر محرومیت اور پسماندگی کی وجوہات تدریجاً اسے سمجھائی جانا چاہیئں _ حکمرانوں کی اچھائیاں اور برائیاں بچوں سے بیان کی جا سکتی ہیں _ اور نظام کس طرح سے چلتا ہے انہیں سمجھایا جا سکتا ہے گاؤں، شہر اور ملک کمی عمومی حالت اس سے بیان کی جا سکتی ہے _بچہ انتخابات میں شرکت نہیں کرسکتا ، لیکن ماں باپ انتخابات میں شرکت کی خصوصیات اور شرائط کی اس کے سامنے وضاحت کرسکتے ہیں _ اور اسے سمجھا سکتے ہیں کہ کس طرح کے لوگوں کو منتخب کرنا چاہیے _ مثلاً اس سے کہہ سکتے ہیں ہم نے فلاں شخص کو دوٹ دیا ہے کیونکہ اس میں فلان خوبی ہے بچہ بھی جلسے جاسوس میں شرکت کرسکتا ہے _ وہ بھی نعرہ لگا سکتا ہے _ تقریریں سکتا ہے _

۳۰۸

اشتہارات تقسم کرسکتا ہے _ اور دیوار نویسی (وال چاکنگ) کرسکتا ہے _ اور یہ کام اس کے لیے مؤثر بھی ہوں گے _ ایران کے اسلامی انقلاب نے بخوبی ثابت کردیا ہے کہ بچے اور نوجواں بھی سیاسی امور میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں _ یہی تو تھے کہ جنہوں نے اپنے نعروں ، جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں سے طاغوت کی آلہ کار خود غرض حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا _ انہیں نے انقلابیوں کو تقویت بخشی اور ایران کی مسلمان ملت کی مظلومیت اور شاہی حکومت کے ایجنٹوں کے ظلم و خیانت کو دنیا والوں کے کانوں تک پہنچایا _ سب جانتے ہیں کہ ایران کے عظیم انقلاب کی کامیابی کا ہم حصّہ نوجوانوں ہی کی فعّال اور متحرک قوّت اور انہیں کی جانثاریوں کامرہون منت ہے _

چاہیے کہ بچے سیاسی واقعات کا مطالعہ کرکے ، اخبارات وجرائد کو پڑھ کر ، ریڈیو اور ٹیلی وین کے سیاسی اور سماجی پروگرام سن اور دیکھ کر ماں باپ اور دوسرے بچوں سے بات چیت کر کے تدریجاً سیاسی رشد پیدا کریں _ اور اپنے اور اپنے ہموطنوں کے مستقبل کے بارے میں دلچسپی پیدا کریں _ انہیں جاننا چاہیے کہ مستقل میں ان کے وطن کی تقدیر ان کے اور ان کے ہم سن بچوں اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی _ بچے کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا آخرت سے اور دین سیاست سے جدا نہیں ہے _ اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سماجی اور دنیاوی امور میں دخیل رہیں تا کہ ملک آباد اور ملت با شعور بنے _

نوجوانی اور جوانی میں اولاد کو نسبتاً زیادہ آزاید ملنی چاہیے تا کہ وہ خود با قاعدہ سیاسی امور سماجی امور میں شرکت کریں _

۳۰۹

بچہ اور ریڈیو ٹی وی

ریڈیوی، ٹیلی وی ژ ن اور سینما بہت ہی سودمند ایجادات ہیں _ ان کے ذریعے سے تعلیم و تربیت کی جاسکتی ہے _ لوگوں کے افکار کو جلا بخشی جا سکتی ہے _ دینی و اخلاقی اقدار کو رائج کیا جا سکتا ہے زرعی اور صنعتی شعبوںمیں راہنمائی کی جا سکتی ہے _ صحت و صفائی کے امور پر رشد پیدا کیا جا سکتا ہے _ سیاسی اور سماجی حوالے سے عوام کی سطح معلومات کو بلند کیا جا سکتا ہے _

انسان عوامی رابطے کے ان وسائل سے سینکڑوں قسم کے فائدے اٹھا سکتا ہے البتہ یہ وسائل جس قدر مفید ہوسکتے ہیں اسی قدر ان سے سوء استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے _ اگر یہ وسائل نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجائیں تو وہ غلط راستے پر ڈال دیں گے اور ان کے ذریعے سے عوام کو صحت ، ثقافت ، دین ، اخلاق ، اقتصاد اور سیاست کے حوالے سے سینکڑوں قسم کے نقصانات پہنچائیں گے _ ریڈیو اور ٹی _ وی تقریباً عمومی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اب ہرگھر میں جا پہنچا ہے _ بیشتر لوگ اسے ایک تفریح اور مشغولیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں _ اور انہیں دیکھنا اورسننا پسند کرتے ہیں _ خصوصاً بچے اور نوجواں ان سے بہت دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں _

باخبر لوگوں کی رائے کے مطابق ایرانی بچے امریکہ ، فرانس، برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی نسبت ٹیلی وین کے پروگراموں سے زیادہ دلچپسی رکھتے ہیں ، ایران میں ۲۰۷ کے ناظریں میں سے چالیس فیصد بچے ہیں ، تیس فیصد نوجوان ہیں جب کہ بچپن

۳۱۰

اور نوجوانی کی عمر تعلیم و تربیت کے اعتبار سے حساس ترین دور ہوتا ہے _ ریڈیوٹیلی وین کے پروگرام اچھے ہوں یا برے بلا شک ان کی حساس روح پر بہت اثر کرتے ہیں _ اور انہیں سطحی اور بے اثر نہیں سمجھنا چاہیے _ بچّے کو آزادی نہیں دی جا سکتی کہ وہ ہر طرح کا پروگرام دیکھے یا سنے کیونکہ بعض پروگرام بچے کے لیے نقصان وہ ہوتے ہیں _ کاش ریڈیواور ۲۰۷ کے اہل کار یہ جانیں کہ وہ کس حساس منصب پر کام کررہے ہیں اور کتنی عظم ذمہ داری ان کے دوش پر ہے افراد ملت خصوصاً بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا حصّہ انہیں کے ذمہ ہے _ ماں باپ بھی اس سلسلے میں لا تعلق نہیں رہ سکتے اور بچوں کو ہر طرح کا پروگرام سننے اور دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے _

ریڈیو، ۲۰۷ کے پروگراموں کا یاک حصہ ایسی کہانیوں اور فلموں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں قتل ، ڈاکلہ ، چوری ، جرم ، اغوائ، لڑائی جھگڑا، تشدد، فریب ، دھوکا و غیرہ جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں _ بچے ایسی کہانیوں اور فلموں کے شوقیں ہوتے ہیں اور ان سے بہت لطف اٹھاتے ہیں _ جب کہ ایسی فلمیں اور کہانیاں بچوں کے لیے کئی جہات سے نقصان وہ ہیں _ مثلاً

۱_ بچوں کی حساس اور لطیف روح کو بڑی شدت سے تحریک کرتی ہیں _ ہوسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے بچوں کے اندر ایک اضطراب اور خوف ووحشت کی کیفیت پیدا ہوجائے _ہوسکتا ہے وہ رات کو ڈراؤنے خواب دیکھیں اور سوتے میں چیخ ماریں _ ہوسکتا ہے انیہں سردرد لاحق ہوجائے اور یہاں تک ممکن ہے کہ وہ ایسی فلمیں دیکھتے ہوئے بے ہوش ہوجائیں یا ان پر سکتہ طاری ہوجائے _

۲_ ایسی فلموں سے ہوسکتا ہے کہ اخلاق کے حوالے سے نقصان وہ اثرات مرتب ہوں _ اور بچوں کی پاک طبیعت کو وہ گناہ اور برائیوں کی طرف کھینچ لائیں _ ہوسکتا ہے کہ بچے ان سے اس قدر متاثر ہوں کہ ان کے ہیرو کی تقلید کریں _ اور جرم ، تقل اور چوری کرنے لگیں _

یونسکو نے اس سلسلے میں جو تفصیل جاری کی ہے اس کے مطابق اسپین میں ۱۹۴۴ سے لے کر ۱۹۵۳ ء تک سزا پانے والے بچوں میں سے ۳۷ فیصد نے جرائم پر مبنی فلموں سے متاثر

۳۱۱

ہوکر جرم کیا ہے _

امریکہ میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تحقیقات کے مطابق مجرم بچوں میں سے دس فیصد لڑکے اور پچیس فیصد لڑکیاں جرائم سے بھر پور فلمین دیکھ کر مجرم بنتی ہیں _ یہ اعداد شمار واقعاً ہلاکررکھ دینے والے ہیں _ (۱)

بلامرد پازرکے نظریے کے مطابق ۴۹/ مجرم فلموں سے متاثر ہوکر اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں _ ۲۸/ چوری کرنے اور ۲۱/ فیصد قانون کی گرفت سے بھاگنے اور پولیس کوچکّرد ینے کے طریقہ انہی فلموں سے سیکھتے ہیں _ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ۲۵/ عورتیں بری فلموں کے زیرا اثر برائی اور بدکاری کی راہ پر چل پڑی ہیں نیز ۵۴/ عورتیں پلا پرواہ فلمی ستاروں کی تقلید میں قحبسہ خانوں اور برائی کی محفلوں کی زینت بنی ہیں _ (۲)

یونیورسٹی لاس اینجلز کے ایک پروفیسر واکس مین کہتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی وی کی سکرین سے نکلنے والی الیکٹرک مقناطیسی لہریں انسانی آرگنزم پر بہت اثر کرتی ہیں _ ٹیلی وین یا رڈاریا گھریلو ضرورت کی بجلی کی چیزوں سے نکلنے والی لہریں شارٹ ویوز کی قسم میں سے ہیں _ اور اس کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے سر میں درد ہوتا ہے اورسر چکرانے لگتا ہے _ اس سے انسان کی فکری صلاحیت کم ہوجاتی ہے _ خون کا دباؤ تبدیل ہوجاتا ہے _ طبیعت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور خون کے سفید خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے علاوہ ازیں یہ لہریں انسان کے نظام ، اعصاب پر بہت برا اثر ڈالتی ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن جاتی ہیں _ (۳)

---------

۱_ مجلہ : مکتب اسلام جلد ۱۵ شمارہ ۱۱

۲_ مجلہ: مکتب اسلام ، جلد ۱۵ شمارہ ۱۱

۳_ مجلہ ; مکتب اسلام ، جلد ۱۸ ، شمارہ ۱

۳۱۲

ڈاکٹر الکسنر کارل لکھٹے ہیں:

ریڈیو _ ٹی وی اور نامناسب کھیل ہمارے بچوں کے جذبات کو تباہ کر دیتے ہیں _ (۱)

روزنامہ اطلاعات اپنے شمارہ ۱۵۷۴۳ میں ایک یورپی طالب علم کے بارے میں لکھتا ہے:

کالج کے ایک اٹھارہ سالہ طالب علم کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا _ اس پر الزام ہے کہ اس نے ایک فلمی اداکار والٹر کا تائر کے بیٹے اغوا کیا اور پھر دھمکی دی کہ اسے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈالر پہنچادیے جائیں ورنہ وہ اسے قتل کردے گا _ ملزم نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ قتل کی دھمکی دے کر غنڈہ ٹیکس وصول کرنے کا خیل اس کے ذہن میں ٹیلی وین کی ایک فلم دیکھتے ہوئے پیدا ہوا _

اس سلسلے میں پولی کا کہنا یہ ہے کہ ایسے بہت سے کیس ہمارے پاس پہنچے ہیں کہ نوجوانوں نے ٹیلی وین سے جرم کا ارتکاب کرنا سیکھا ہے _ مشہد میں ایک دس سالہ بچے نے کراٹے کی ایک فلم دیکھنے کے بعد اپنے آٹھ سالہ دوست کو کک مارکر مارڈالا _ (۲)

تعلیم و تربیت کے نائب وزیر جناب صفی نیا کہتے ہیں:

جب ٹی وی برائی کا درس دے رہا ہو تو بہترین استاد بھی کچھ نہیں کرسکتا _ (۲)

کیوبا کے ایک پندرہ سالہ لڑکے رونے زامورانے ایک ۸۳ سالہ بوڑھی عورت کو قتل

---------

۱_ مکتب اسلام ،جلد ۱۵ ، شمارہ ۳

۲_ مکتب اسلام ، جلد ۱۵ ، شمارہ ۱۱

۳_ مکتب اسلام ، جلد ۱۸ ، شمارہ ۱

۳۱۳

کردیا اس نے یہ جرم فلوریڈ میں انجام دیا _ اور اب وہ اس شہر کی ایک جیل میں اس جرم کی سزا کے طور پر عمر قید کاٹ رہا ہے _ اس کے والدین نے امریکی ٹیلی وین کے تین چینلوں کے خلاف دوکروڑ پچاس لاکھ ڈالر ہر جانے کا دعوی دائر کیا ہے _ انہوں نے عدالت میں اپنے دعوی کے ثبوت میں جو شواہد پیش کیے ہیں ان کے مطابق بچے نے آدم کشی کا سبق اسی ٹیلی وین کے پروگراموں سے سیکھا ہے _ گذشتہ ستمبر عدالت میں اس کیس کی سماعت ہوئی اس موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ ملزم جب بچہ تھا تو آیا اسے چپ کرانے کے لیے ٹی _ وی کے سامنے بٹھادیتی _ اس سے اس میں ٹیلی وین دیکھنے کا بہت شوق پیدا ہوگیا وہ روزانہ آٹھ اٹھ گھنٹے تیلی وین پروگرامم دیکھتا رہتا _ اسے ٹی _ وی کے پروگراموں سے بہت دلچسپی پیدا ہوگئی خاص طور پر '' پلیس کو جاک'' نامی سیریز سے وہ بہت متاثر تھا ارتکاب جرم سے ایک رات پہلے اس فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح سے ایک امیر عورت کو لوٹا گیا _

ایک لڑکی جس کا نام رضائیہ تھا _ پندرہ سال اس کی عمر تھی بہت خوبصورت لڑکی تھی ٹیلی وین پر ایک پر ہیجان فلم دیکھتے ہوئے اس پر اس قدر اثر ہو اکہ وہ زمین پری گری اور مرگئی _ جب اس نے فلم میں دیکھا کہ ایک سفید فام شخص ایک سیاہ فام کے سر کی چمڑی ادھیڑنے لگا ہے تو اس نے ایک چیخ ماری _ پھر اس کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی _ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی _

اعصاب اور نفسیات کے ماہر ڈاکٹر جلال بریمانی کہتے ہیں:

خوف ناک، ڈراؤنی اور ہیجان انگیز فلمیں بچوں کی نفسیات پر نامطلوب اثر ڈالتی ہیں _ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک بچہ ماردھاڑسے بھر پور فلم دیکھنے کے بعد فلم کے ہیر و کی تقلید میں اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کو قتل کردیتا ہے _ ایسی فلمیں بچے کی آئندہ شخصیت پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں خوفناک فلموں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برے ہوکر ان کے اندر بزدلی پیدا ہوجاتی ہے ، مارڈھاڑ کی فلمیں آئندہ کی زندگی میں انہیں بھی ایسا ہی بنادیتی ہیں _ ان کے اثرات انسان کی روح پر رہتے ہیں اور پھر جہاں موقع ملتا ہے کسی غلط واقع کی صورت میں

۳۱۴

نمودار ہوتے ہیں اور انسان کو برائی کی طرف کھینتے ہیں _

نفسیات کے ڈاکٹر شکر اللہ طریقتی کہتے ہیں:

بری فلموں کا اثر بچے کے مستقبل پر ناقابل انکار ہے _ یہ فلمیں بچوں کی نفسیات پر ایسا نامطلوب اثر ڈالتی ہیں کا بالغ ہوکر جب مناسب موقع ملتا ہے اور دوسرے اسباب بھی فراہم ہوجاتے ہیں تو وہ خطرناک کاموں کی انجام دہی کی صورت میں اس کی مدد کرتا ہے _ لہذا میں ماں باپ و نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو ہرگز اجازت نہ دیں کہ وہ غلط فلمیں دیکھیں _ خاص طور پر وہ فلمیں جو بڑوں کے لیے مخصوص ہیں خصوصاً رات کے دس بجے کے بعد آنے والی فلموں کی اجازت نہ دیں _ اگر بچے ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ضد کریں اور والدین انہیں اس کی اجازت نہ دیں تو اولاد کے حق میں یہی ان کی محبت ہے _

تہران یونیورسٹی کے ایک استاد اور جرم شناسی ڈاکٹر رضا مظلومی کہتے ہیں:

ٹیلی وین اور سینما گھروں میں دکھائی جانے والی بہت سی فلمیں ہمارے معاشرے کے لیے خطرناک ہیں _ ان کے خطرات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ گیارہ سالہ بچی کو انہوں نے زندگی سے محروم کردیا اور اس کے دل کی دھڑکن کو بند میں جرات مندی کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ عصر حاضر میں ہونے والے بہت سے جرائم اور مظالم انہیں فلموں کے برے اثرات کی وجہ ہیں _ (۱)

نیویارک کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر آرنالڈ فریمانی نے جدیدترین الیکٹرانک آلات اور تجربات سے یہ ثابت کیا ہے روحانی اور فکری کمزوری اور شدید سردرد ریڈیوپر نشر ہونے والی موسیقی کے سننے سے پیدا ہوتے ہیں _ (۲)

اخبار ٹائمز اپنے ۱۹۶۴ کے شمارہ میں لکھتا ہے:

---------

۱_ روزنامہ اطلاعات _ ۱۰ آبان ماہ ۱۳۵۲

۲_ مکتب اسلام : جلد ۱۵ شمارہ ۳

۳۱۵

بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر نے فضائیہ کی دو چھاؤنیوں میں اس بات کو محسوس کیا کہ اس علاقے میں کام کرنے والے افسران کے بچے کہ جن کی عمر ۳ سال سے بارہ سال کے درمیان ہے ہمیشہ دردسر، بے خوابی ، معدہ کی گڑبڑ، قے پیچش اور دیگر بیماریوں میں گھرے رہتے ہیں _ طبی نقطہ نظر سے اس بیماری کی کوئی وجہ معلوم نہ ہوئی _ لیکن مکمل طور پر تحقیق کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ تمام بچے ٹیلی وین کے طویل پروگرام دیکھنے کے عادی ہیں اور ہر روز ۳ گھنٹے سے ۴ گھنٹے تک ٹی _ وی پروگرام دیکھتے ہیں _ ڈاکٹروں نے ان کے لیے صرف یہی علاح متعین کیا کہ ان کوئی _ وی پروگرام دیکھنے کی اجازت نہ دی جائے _ یہ علاج کیا اور مؤثر بھی رہا _ سردرد ، قے ، پیچش اور باقی تمام بیماریاں ختم ہوگئیں _ (۱)

لہذا جن والدین کو اپنے بچوں سے محبت ہے وہ انہیں دن رات ریڈیو اور ٹیلی وین سننے اور دیکھنے کی اجازت نہ دیں _ صرف ان پروگراموں کو دیکھنے کی اجازت دیں جن سے بچوں کو کوئی نفسیاتی ، روحانی اور اخلاقی نقصان نہ پہنچے _

--------

۱_ پیوند ہای کودک و خانوادہ ص ۱۳۱

۳۱۶

جنسی مسائل

جنسی قوت انسان کی انتہائی قوی اور حساس جبلّتون میں سے ہے _ یہ قوت انسان کے لیے بہت تعمیری ہے _ انسان کی نفسیاتی اور جسمانی زندگی کے لئے اس کے اچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں انسان کے بہت سے اعمال، یہاں تک کہ متعدد جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کی بنیاد یہی جبلّت ہوتی ہے اگر انسان کی پرورش عاقلانہ اور دست ہو تو یہ قوت انسان کی خوشی اور آرام کا ذریعہ بنتی ہے _ اور اگر تربیت میں افراط یا تفریط ہو تو ممکن ہے سینکڑوں جسمانی اور نفسیاتی نقصانات کا سبب بنے _ اور انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کردے _

ایسا نہیں ہے کہ جنسی قوت بلوغت کے زمانے میں پیدا ہوتی ہو _ بلکہ یہ بچپن ہی سے انسانی طبیعت میں خوابیدہ ہوتی ہے _ اور مختلف شکلوں میں اس کا ظہور ہوتا ہے _ چھوٹے بچے اپنے آلہ تناس کو چھکر لذت محسوس کرتے ہیں اور اس سے ان کے اندر ایک تحرک کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ والدین کے اظہار محبت اور بوسوں سے لذت محسوس کرتے ہیں _ وہ خوبصورتی اور بد صورتی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کبھی زبان سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں _ دو تین سال کی عمر میں وہ لڑکے اور لڑکی میں فرق سمجھنے لگتے ہیں اور بڑی توجہ اور جستجو سے ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھتے ہیں _ جب کچھ بڑے ہوجائیں تو وہاں تصویریں انہیں اپنی طرف کھینچتی ہیں _ وہ حیران ہو ہو کر ان کی طرف دیکھتے ہیں _ز بان سے فحش اور گندے مذاق کرتے ہیں اور ان پر خوش ہوتے ہیں جنس مخالف کی طرف انہیں کچھ کچھ میلان پیدا ہوجاتا ہے _ اور انہیں اپنی طرف

۳۱۷

متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں _ کبھی کبھی وہ تصریحاً یا اشارة جنسی امور کے بارے میں والدین سے سوال کرتے ہیں _ ماں باپ کی سرگوشیوں کی طرف وہ کان دھرتے ہیں اور ان کے کاموں پر نظر کرھتے ہیں _ اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے گوشہ و کنار میں بیٹھ کر راز و نیاز کرتے ہیں _ ان سب چیزوں سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جنسی قوت نابالغ بچوں میں بھی موجود ہوتی ہے لیکن مبہم اور تاریک صورت میں _ بغیر آگاہی اور کامل شعور کے ان کی توجہ اس کی طرف کھنچتی ہے لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اس امر کی طرف ان کی توجہ ہوتی ہے کہ لذّت کہاں سے حاصل ہوتی ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ لذت کیسے حاصل کریں ؟ دس بارہ سال کی عمر تک بچے اسی حالت میں ہوتے ہیں اور ان کی جنسی جبلّت پوری طرح سے بیدار نہیں ہوتی اور ایک ابہام کی سی کیفیت ہوتی ہے لیکن بارہ سے پندرہ سال کی عمر میں وہ بڑی تیزی سے پروان چڑھتی ہے اور تقریبا بیدار ہوجاتی ہے _

فرض شناس ماں باپ اپنے بچوں کی جنسی جبلّت سے لا تعلق نہیں رہ سکتے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ اس بارے میں کوئی حکمت عملی وضع نہ کریں _ کیوں کہ جنسی اعتبار سے تربیت دشوار ترین اور حساس ترین تربیتوں میں سے ہے _ اس سلسلے میں ذرّہ بھر اشتباہ یا غفلت بھی ممکن ہے بچوں کو برائی اور تباہی کی وادی کی طرف کھینچ لے جائے _

ماں باپ کی توجہ اس امر کی طرف ہونی چاہیے کہ بلوغ سے پہلے بدنی اور فکری رشد کے اعتبار سے بچے تولید نسل او رجنسی قوت کو عمل میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے _ اس لیے اللہ تعالی نے بلوغ سے پہلے ان کی جنسی جبلّت کو ان کی طبیعت میں خفتہ و خوابیدہ رکھا ہوتا ہے _ بچوں کی انفرادی اور اجتماعی بھلائی بھی اس میں ہے کہ بلوغ سے پہلے ان کی جنسی قوّت بیدار اور متحرک نہ ہو کیونکہ اگر جنسی قوت بلوغت سے پہلے اور جلدی ہی بیدار ہوجائے تو اس سے بچے کی زندگی بہت سی مشکلات کا شکار ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے وہ اس کی بدبختی اور انحراف کے اسباب فراہم کرے _

لہذا ماں باپ کو ہر اس علم سے سخت پرہیز کرنا چاہیے کہ جس سے بچوں کی جنس جبلّت کو تحریک ہوسکے اور وہ بیدا رہوسکے _ اور ان کے لیے ایسے حالات فراہم کریں کہ ان کی

۳۱۸

نشو و نما تدریجی طور پر اور قطری لحاظ سے ہو _ والدین اگر عقل مند اور باتدبیر ہوں تو وہ خود اس ضمن میں تمیز کرسکتے ہیں کہ کون سے کام مفید ہیں اور کون سے مضر _ لیکن ہم یاد دہانی کے طورپر کچھ باتیں بیان کرتے ہیں بچوں کی شرمگاہ پر ہاتھ پھیرنا ، وہاں پیار کرنا _ اخبار و جرائد کی خوبصورت اور ننگی تصویروں کو دیکھنا ، عشقیہ اور تحرک انگیز کانوں اور کہانیوں کو سننا، دوسروں کی شرم گاہ کی طرف دیکھنا یا اس پہ ہاتھ پھیرنا ، دوسروں کے حسن اور خوبصورت کی تعریف کرنا ، اور دوسروں کے ہر حصّہ بدن اور ننگی ٹانگوں کی طرف دیکھنا _ ماں باپ کی آپس میں یا دوسروں سے معاشقہ بازی اور جنسی مذاق ، شہوت انگیز مناظر کو دیکھنا یا ان کے بارے میں سننا اور اس طرح کے دیگر امور کو سرانجام دینا بچے کی جنسی قوت کو تحرک کرنے اور بیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور بچہ بھی ایسی لذت کے حصول کے بارے میں سوچنے لگتا ہے _

پانچ چھ سال سے اوپر کی عمر کے بچوں کو تنہا نہ رہنے دیں _ ہوسکتا ہے وہ ایک دوسرے کی شرمگاہ سے کھیلیں اور اس سے ان میں تحریک پیدا ہو بچوں کو اجازت نہ دیں کہ وہ بستر پہ ایسے ہی پڑے رہیں اور جاگتے رہیں پانچ چھ سال کے بچوں کے بستر جدا کردیں اور انہیں ایک بستر پر نہ لٹائیں کیوں کہ ممکن ہے ایک دوسرے سے مس ہونے سے ان میں تحریک پیدا ہو _ پانچ چھ سال کے بچوں کو خود اپنے بستر پر نہ لٹائیں خاص طور پر مخالف جنس کے بچوں کو _ یہاں تک کہ ماں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا بدن اپنی چھ سالہ بیٹی کے بدن کے ساتھ ملے _پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:جب بچّے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر جد اکردیں _ (۱) امام صادق (ع) اپنے بزرگوں سے نقل فرماتے ہیں:عورتوں اور دس سالہ بچوں کے بستر جدا ہونے چاہئیں _ (۲) امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

----------

۱_ مکارم الاخلاق ، ج ۱ ، ص ۳۵۶

۲_ وسائل ، ج ۱۴،ص ۲۸۶

۳۱۹

جو ماں اپنی چھ سالہ بیٹی سے اپنا بدن ملتی ہے ایک طرح کے زنا کا ارتکاب کرتی ہے _ (۱)

امام صادق علیہ السلام ہی فرمات ہیں:

مرد اپنی چھ سالہ بیٹی کو نہ چومے اور عورت اپنے سات سالہ بیٹے کو نہ چومے _ (۲)

بہت سے گھرانوں میں ;عمول ہے کہ عورتیں عریان یا نیم عریان بدن کے ساتھ گھروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بعض مرد بھی اس سلسلے مین ھورتوں سے پیچھے نہیں رہتے _ وہ اپنے گھروں میں نیم عریان بدن یا ننگی پیڈلیاں اپنے چھوٹے بڑے بیٹے بیٹیوں کو دکھاتے رہتے ہیں _ ان گھروں کی بیٹیاں اور بیٹے بھی اپنے ماں باپ کی پیروی کرتے ہیں اور گھر میں نیم عریان بدن کے ساتھ رہتے ہیں _ اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک خاندان کے افراد ہیں _ اپنے میں محرم ہیں_ محرموں کے درمیان کوئی پابندی اور حجاب نہیں ہے یا ماں باپ سمجھتے ہیں کہ ان کے نیم عریان بدن اور ان کی ننگی ٹانگیں ان کے بچوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتے کیوں کہ اولاً تو وہ محرم ہیں اور ثانیاً بچے بھی ابھی کچھ نہیں سمجھتے _ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا کھلا سینہ اور ننگی ٹانگیں ان کے بیٹے پر کوئی اثر نہیں ڈالتی اور اس سے ان کی جنسی جبلّت کو کوئی تحریک نہیں ہوتی کیوں کہ وہ آپس میں بھائی بہن ہیں _ جب کہ یہ بات درست نہیں _ البتہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے بچے ان واقعات کی طرف توجہ دیں _ لیکن یہ بات اتنی اطمینان بخش نہیں ہے _ جنسی جبلّت ایک بہت طاقتور قوّت ہے _ اور محرم و ناحرم ہونا ، بھائی اور بہن ہونا ، ماں اور باپ ہونا اس کے سر میں نہیں سماتا _ ہوسکتا ہے ایک نظر دیکھنے سے ان میں تحریک پیدا ہوجائے اور جنسی لذت کے حصول کی فکر ان میں بیدار ہوجائے _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

----------

۱_ وسائل ، ج ۱۴، ص ۱۷۰

۲_ وسائل، ج ۱۴، ص ۱۷۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

كيونكہ جملہ''ان تضل'' علت كو بيان كر رہا ہے لہذا اپنے مورد (عورتوں كى گواہي) كے غير كو بھى شامل ہو سكتا ہے _

٢٨_ اگر ايك گواہ بھول جائے يا غلطى كرے تو دوسرے پر اسے ياد دلانا واجب ہے_ان تضل احديهما فتذكر احديهما الاخري

٢٩_ جب گواہوں كو گواہى كيلئے بلايا جائے تو ان پر واجب ہے كہ گواہى ديں _ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا'' كا مطلب گواہى دينے كى دعوت ہو يعني''اذا ما دعوا الى اداء الشهادة'' _

٣٠_ جب مومنين كو گواہ بننے كيلئے كہا جائے تو ان پر اس كا قبول كرنا واجب ہے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

يہ اس صورت ميں ہے كہ''اذا ما دعوا''سے مراد گواہ بننے كى دعوت ہو يعنى''اذا ما دعوا الى تحمل الشهادة''

٣١_ خودبخود گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں جب تك بلايا نہ جائے_ولايأب الشهداء اذا ما دعوا

كيونكہ گواہ بننے اور گواہى دينے كے وجوب كو دعوت دينے كے ساتھ مشروط كيا گياہے پس جملہ شرطيہ كا مفہوم يہ ہوگا كہ اگر گواہى كيلئے دعوت نہ دى جائے تو گواہ بننا اور گواہى دينا واجب نہيں ہے_

٣٢_ گواہى دينے كيلئے گواہوں كو حاضر كرنا جائز ہے_ ولاياب الشهداء اذا ما دعوا

٣٣_ معاملے كا چھوٹا يا بڑا ہونا لكھنے والے كيلئے ، قرضوں اور حقوق كى دستاويز تيار كرنے اور ان كى مدت كے لكھنے كے فريضہ سے اكتاہٹ كا موجب نہيں ہونا چاہئے_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

٣٤_ مبادلات و معاملات كى دستاويز مرتب كرنے اور لكھنے كى خاص اہميت_ولاتسئموا ان تكتبوه صغيرا او كبيرا الى اجله

قرضے كى دستاويز لكھنے ميں اكتاہٹ برتنے سے نہى كرنا اگرچہ معاملہ چھوٹا ہى ہو، قرضوں اور معاملات كى دستاويز تيار كرنے كى اہميت سے حكايت كرتا ہے_

٣٥_ قرضوں ، ان كى مدت اور حقوق كا ثبت كرلينا

۳۴۱

معاملہ چھوٹا ہو يا بڑا خداوندعالم كے نزديك بڑا عادلانہ عمل اور گواہى قائم كرنے كيلئے بہت زيادہ ممد و معاون اور مضبوط و ٹھوس بنياد ہے_ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٦_ دستاويز تيار كرنے ميں الہى احكام پر عمل كرنا اور ان كا خيال ركھنا لوگوں كے حقوق كو عدل و انصاف كے ساتھ ادا كرنے كا سبب ہے_ذلكم اقسط عند الله

٣٧_ تيار شدہ دستاويز كو آئينى و حقوقى حيثيت حاصل ہے_ولاتسئموا ان تكتبوه ذلكم اقسط عند الله و اقوم للشهادة

٣٨_ عدل و انصاف قائم كرنا اور اس كو عام كرنا ،گواہى قائم كرنے اور ادا كرنے ميں ٹھوس بنياد كا فراہم كرنا اور شكوك و شبہات كے پيدا ہونے كى روك تھام كرنا معاملات كى دستاويز تيار كرنے كے لازم ہونے كا فلسفہ ہے_

ذلكم اقسط عند الله و ادنى الا ترتابوا

٣٩_ معاشرہ كے افراد كے حقوق كے سلسلہ ميں عدل و انصاف كى رعايت نہ كرنا اور اقتصادى روابط كے حدود كى تعيين ميں متزلزل رہنا، اقتصادى تعلقات كى بربادى كا سبب ہے_ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

كيونكہ''ذلكم اقسط ''مذكورہ احكام كى علت ہے لہذا يہ ايك قاعدہ كليہ ہے كہ سماجى انصاف اور اقتصادى روابط كى حدود مشخص كرنے ميں ثابت قدمى ايك ايسا قانون اور اصول ہے كہ اگر اس كى رعايت اور پابندى نہ كى جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد كا شكار ہوجاتاہے_

٤٠_ معاشرہ كے اقتصادى تعلقات منظم و مرتب كرنے ميں بہت ٹھوس اقدامات اور سوچ بچار كى ضرورت ہے_

اذا تداينتم بدين فاكتبوه فليكتب و ليملل فليملل وليه بالعدل و استشهدوا شهيدين ولايأب الشهداء الا ترتابوا

٤١_ احكام كوانجام دينے كى ترغيب دلانے كيلئے قرآن كريم كا ايك طريقہ يہ ہے كہ ان احكام كا فلسفہ بيان كرتاہے_

ان تضل احديهما ذلكم اقسط عندالله و اقوم للشهادة و ادنى الا ترتابوا

۳۴۲

٤٢_ نقد معاملات ميں دستاويز تيار كرنا ضرورى نہيں ہے_

الا ان تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٣_نقد معاملات كى دستاويز تيار كرنا بھى اچھا اقدام ہے_*فليس عليكم جناح الا تكتبوها

٤٤_ معاملہ اگرچہ نقد ہو خريد و فروخت كے وقت گواہ بنانا لازمى ہے_واشهدوا اذا تبايعتم

٤٥_ لكھنے والوں اور گواہوں پر حرام ہے كہ وہ طرفين كو نقصان پہنچائيں يا ان كے ساتھ خيانت كريں _

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول ايسى صورت ميں اس كا تعلق طرفين معاملہ سے ہوگا يعنى كاتب اور گواہ طرفين معاملہ كو نقصان نہ پہنچائيں _

٤٦_ لكھنے والے اور گواہ كو تحفظ فراہم كرنا ضرورى ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد

يہ اس صورت ميں كہ''لايضار'' مجہول ہو اور''كاتب'' اور''شہيد''نائب فاعل ہو_

٤٧_ لكھنے اور گواہى دينے كى وجہ سے لكھنے والے يا گواہ كو پہنچنے والے نقصان كا تدارك كرنا ضرورى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد يہ اس صورت ميں ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو اور ضرر سے مراد گواہى اور كتابت كے نتيجے ميں ہونے والا نقصان ہو يعنى كاتب اور گواہ پر كسى قسم كى خسارت نہ ڈالى جائے اس كا لازمہ يہ ہے كہ اگر انہيں ضرر پہنچے تو اس كا ازالہ ضرورى ہے مثلاً اپنے كام سے بيكار ہونا يا آنے جانے كا كرايہ وغيرہ_

٤٨_ گواہ اور معاملات لكھنے والے كو نقصان پہنچانا فسق اور حق سے انحراف و روگردانى ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ تب ہے كہ''لايضار'' فعل مجہول ہو_

٤٩_ گواہ اور لكھنے والے كا خيانت كرنا فسق اور حق سے انحراف ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم يہ اس صورت ميں ہے كہ ''لايضار'' فعل معلوم ہو نہ مجہول _

۳۴۳

٥٠_ جو خسارہ كاتب اور گواہ كو كتابت اور گواہى كى وجہ سے اٹھا ناپڑے اس كا ازالہ نہ كرنا فسق اور حق سے انحراف كا موجب ہے_ولايضار كاتب و لاشهيد و ان تفعلوا فانه فسوق بكم اگر''لايضار'' مجہول ہو تو ''ضرر''سے مراد كتابت اور گواہى كے نتيجے ميں ہونے والے نقصانات ہيں يعنى كاتب اور شاہد كو پہنچنے والے نقصان كا پورا نہ كرنا فسق و فجور اور انحراف ہے_

٥١_ اقتصادى معاملات اور لين دين ميں الہى احكام پر عمل پيرا ہونے كيلئے تقوي اور خوف خدا، ممد و معاون ہے_

ولايضار كاتب و لاشهيد واتقوا الله

٥٢_ قرض كى دستاويز لكھنے والا طرفين كے علاوہ ايك تيسرا شخص ہونا چاہئے_*

وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولايأب كاتب ولايضار كاتب

٥٣_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور دستاويز تيار كرنے والوں كيلئے تقوي كى رعايت لازمى ہے_

اذا تدانيتم ولايأب كاتب و استشهدوا شهيدين واتقوا الله

گواہ، كاتب اور معاملہ كرنے والے''واتقوا الله ''كے خطاب ميں شامل ہيں _

٥٤_اسلام ميں اخلاقيات اور اقتصاديات ہم آہنگى ركھتے ہيں _اذا تداينتم ولا يأب كاتب واستشهدوا ولاتسئموا واتقوا الله

٥٥_ ايسے قوانين كى تعليم دينے والا خداوند عالم ہے جو معاشرتى اور اقتصادى روابط پر حاكم ہوں _

اذا تداينتم و يعلمكم الله

٥٦_ تقوي اپنانے كا طريقہ، خدا تعالي تعليم ديتا ہے_*واتقوا الله و يعلمكم الله

''واتقوا الله ''كے قرينہ كو ديكھتے ہوئے احتمال ديا جاسكتا ہے كہ''يعلمكم الله '' كا مفعول محذوف تقوي كا طريقہ ہو يعنى''يعلمكم الله طريقة التقوي'' _

٥٧_ معاشرہ كے افراد كى قانونى ملكيت كا احترام اور اس كے حدود كى رعايت كرنا ضرورى ہے_

اذا تداينتم ذلكم اقسط واتقوا الله احكام و مسائل كہ جن ميں اشخاص كى اپنے اموال پر ملكيت بھى ہے ، كو بيان كرنے نيز ان اموال كے دوسروں كى طرف نقل و انتقال كى

۳۴۴

شرائط كو بيان كرنے كے بعد تقوي كا حكم دينا بتلاتا ہے كہ ان مسائل كا احترام و رعايت كرنا ضرورى ہے_

٥٨_ خداوند عالم كا تمام موجودات عالم كے بارے ميں وسيع علم (خدا كا مطلق علم)_والله بكل شى عليم

٥٩_ خداوند عالم، عليم ہے_والله بكل شى عليم

٦٠_ الہى قوانين خدا وند عالم كے وسيع اور آفاقى علم سے نشأت پاتے ہيں _فاكتبوه ولايأب كاتب و ليملل واستشهدوا والله بكل شى عليم

٦١_ معاشرہ كے اندر مؤمنين ايك دوسرے كے سامنے جوابدہ ہيں اور سب كے سب ايك دوسرے كے ساتھ جڑے ہوئے ہيں _يا ايها الذين امنوا ولاياب كاتب ولاياب الشهداء و اشهدوا ولايضار كاتب و لاشهيد

اس آيت شريفہ نے لين دين كرنے والوں ، لكھنے والے اور گواہوں كے كچھ حقوق و فرائض معين كيئے ہيں جو كہ ان كے ايك دوسرے كے سامنے ذمہ دارى اور جواب دہى كو بيان كرتے ہيں _

٦٢_ لين دين كرنے والوں ، گواہوں اور لكھنے والوں كے اعمال و كردار خدا وند متعال كے وسيع علم كے احاطے ميں ہيں _اذا تداينتم وليكتب بينكم كاتب بالعدل ولاياب كاتب ولايأب الشهداء والله بكل شى عليم

احكام: ٢، ٣، ٤،٦، ٨، ١١، ١٢، ١٤، ١٦، ١٨، ١٩، ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٣٧، ٤٢، ٤٤، ٤٥، ٤٧، ٥٢ احكام كا فلسفہ ٢٦، ٢٧، ٣٦، ٣٨، ٤١ احكام كى تشريع ٦٠

اسماء و صفات: عليم ٥٩

اقتصاد: اقتصاداور اخلاق ٥٤

اقتصادى نظام: ٤٠، ٥٤، ٥٥، ٥٧

اقرار: اقرار كے احكام ١٤

۳۴۵

انتخاب كرنا: انتخاب كرنے كى شرائط ٥

ايمان: ايمان كے آثار ا

تحريك: تحريك كے عوامل ١

تربيت: تربيت كا طريقہ ٤١

تقوي: تقوي كى اہميت ١٢، ٥٣، ٥٦ ;تقوي كے اثرات ١٥، ٥١

حقوق: حقوق كى لكھائي ٣٥

حقوق كا نظام: ١٩

خدا تعالي: خداتعالي كا علم ٥٨، ٦٠، ٦٢ خدا تعالي كى نعمتيں ٩

خوف: خوف كے اثرات ٥١

دستاويز: دستاويز تيار كرنا٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٦، ٢١، ٣٣، ٣٤، ٣٦، ٤٣ ;دستاويز كى اہميت ٧; دستاويز كى شرائط ٨، ١١

دينى نظام تعليم: ٥١

سفيہہ: سفيہہ كا كفيل ١٦ ; سفيہہ كى كفالت ١٨ ; سفيہہ كے حقوق ١٧

سماجى روابط: ٥٥ سماجى نظام: ١٨، ٥٥، ٦١

شرعى فريضہ: اس پر عمل كرنا ١، ٥١

عدل وانصاف : اسكى اہميت ١٩، ٢٠، ٣٥، ٣٨، ٣٩

علم: علم اور شرعى فريضہ ١٠; علم كے اثرات ١٠

علماء: علماء كى ذمہ دارى ١٠

عمل: عمل صالح كا پيش خيمہ ا٤;عمل كا پيش خيمہ ١، ٥١

۳۴۶

عورت: عورت كى گواہى ٢٣، ٢٦ ; عورت كى لغزش ٢٥

فساد: فساد كا پيش خيمہ٣٩ ; فساد كے عوامل ٥٠; فساد كے موارد ٤٨، ٤٩

فقہى قاعدہ: ١٤ قانون سازي: قانون سازى كى شرائط ١٧

قرض: قرض كا لكھنا ٣٥ ;قرض كى دستاويز ٢، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٦، ٣٣، ٥٢; قرض كے احكام ٢، ٣، ٤، ٦، ٨، ١١، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٢، ٢٥ قرض ميں گواہى ٢٤

كاتب: اسكى خيانت ٤٥، ٤٩ ;اسكى ذمہ دارى ٥٣; اس كى شرائط ٥٣

كفالت: كفالت كے احكام ١٩; كفالت ميں عدل و عدالت ١٩، ٢٠

كمزور و ناتوان: كمزور و ناتو ان كى كفالت ١٨ ;كمزور و ناتوان كے حقوق ١٧ ;كمزور و ناتوان كے كفيل ١٦

گمراہي: گمراہى كے عوامل ٥٠;گمراہى كے موارد ٤٨، ٤٩

گواہ: گواہ كو نقصان ٤٨ ;گواہ كى خيانت ٤٥، ٤٩ ; گواہى كى ذمہ دارى ٥٣; گواہ كى شرائط ٢٢، ٢٤

گواہي: گواہى دينا ٣٥ ، ٣٨;گواہى كا واجب ہونا ٢٩، ٣٠ ; گواہى كى اہميت ٤٦ ; گواہى كے احكام ٢١، ٢٢، ٢٤، ٢٦، ٢٧، ٢٨، ٢٩، ٣٠، ٣١، ٣٢، ٤٤، ٤٧، ٥٠; گواہى ميں بالغ ہونا ٢٢

لكھائي: لكھائي كى اہميت ٤٦ ; لكھائي كى نعمت ٩ ; لكھائي كے احكام ٤٧، ٥٠; لكھائي ميں عدل و عدالت ٥

لوگ: لوگوں كے حقوق ١٥، ٣٦، ٣٩

مالكيت: مالكيت كى اہميت ٥٧

محرمات: ٤٥

مرد: مرد كى گواہى ٢٣، ٢٦

معاشرہ:

۳۴۷

اسكے انحطاط كے اسباب و عوامل ٣٩ معاشرہ كى ذمہ دارى ا٦ ; معاشرے ميں مؤمنين ٦١

معاملہ: اس ميں گواہ ٤٨، ٤٩ ;اس ميں گواہى ٤٤ ; نقد معاملہ٤٢،٤٣

وَإِن كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (٢٨٣)

اور اگر تم سفر ميں ہو اور كوئي كاتب نہيں مل رہا ہے تو كوئي رہن ركھ دو اور ايك كو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار ہے اس كو چاہئے كہ امانت كو واپس كردے اور خدا سے ڈرتا رہے_ اور خبردار گواہى كو چھپانا نہيں كہ جو ايسا كرے گا اس كا دل گنہگار ہو گا اور الله تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے _

١_ اگر كاتب نہ مل سكے تو قرض و بقاياجات كى دستاويزكى بجائے كوئي چيز گروى ركھنا (رہن) كافى ہے_

و ان كنتم على سفر و لم تجدوا كاتبا

معاہدہ: اسكے احكام ٣٧

مقروض: اسكى ذمہ دارى ١٢

واجبات: ٢، ٣، ٤، ١٢، ١٦، ٢١، ٢٩، ٣٠، ٤٤

فرھان مقبوضة ظاہرى طور پر جملہ''و لم تجدوا كاتبا'' بيان ہے''على سفر'' كا يعنى مسافر ہونا خصوصيت نہيں ركھتا بلكہ سفر صرف وہ مورد

۳۴۸

ہے كہ جس ميں عموماً لكھنے والا نہيں ملتا پس اصل چيز كاتب كا نہ ملنا ہے سفر ميں ہو يا حضر ميں _

٢_ اگر مقروض پر اعتماد ہو تو كوئي چيز گروى ركھنا ضرورى نہيں ہے_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

جملہ''فان امن '' گروى ركھنے كا فلسفہ بيان كر رہا ہے يعنى قرض كے ضائع ہونے كے خوف كو ختم كرنا لہذا اگر يہ پريشانى مقروض پر اعتماد كے ذريعے دور ہوجائے تو رہن لينے كى ضرورت نہيں ہے البتہ يہ معني تب درست ہے كہ جملہ''فان امن ...'' رہن لينے كے لزوم سے استثنا ہو اور امانت سے مراد قرض ہو_

٣_ امانت كو اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته

٤_ گروى ركھى جانے والى چيز امانت ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

يہ اس صورت ميں ہے كہ امانت سے مراد گروى ركھى جانے والى چيز ہونہ كہ قرض جو طرفين ميں سے كسى كے ذمے رہتا ہے_

٥_ گروى ركھى جانے والى چيز كا اس كے مالك كو لوٹانا واجب ہے_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته

٦_ امانت ميں خيانت حرام ہے_فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

٧_ اقتصادى و تجارتى لين دين كے آسان ہونے ميں اعتماد و امانت كى تاثير_فان امن بعضكم بعضا فليؤد الذى اؤتمن امانته گذشتہ ايك احتمال كى بناپر قرض دينے والے پر مقروض سے رہن لينا لازمى نہيں ہے اور يہ چيز اقتصادى معاملات ميں آسانى ہے_

٨_ اسلام ميں اقتصادى روابط كا اخلاقيات سے ہم آہنگ ہونا_فرهان مقبوضة فان امن بعضكم بعضا

٩_ خوف خدا اور تقوي امانتيں لوٹانے اور الہى احكام پر عمل كرنے كا موجب بنتے ہيں _فليؤد الذى اؤتمن امانته و ليتق الله ربه

١٠_ گواہى كا كتمان كرنا حرام ہے_ولاتكتموا الشهادة

۳۴۹

١١_ گناہگار دل كتمان شہادت كا (گواہى نہ دينے كا ) سرچشمہ ہيں _و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٢_ گواہى چھپانا قلبى گناہ ہے_و من يكتمها فانه اثم قلبه

١٣_ خدا تعالي كا انسان كے اعمال كے بارے ميں ہر لحاظ سے مكمل آگاہ ہونا_والله بما تعملون عليم

١٤_ خدا تعالي كى طرف سے امانت ميں خيانت كرنے والوں اور گواہى چھپانے والوں كو تنبيہ _

فليؤد الذى اؤتمن امانته ولاتكتموا الشهادة والله بما تعملون عليم

١٥_ انسان كے اعمال سے خداوند عالم كى مكمل آگاہى كى طرف متوجہ رہنا الہى احكام پر عمل اور خداتعالي كى نافرمانى سے اجتناب كا پيش خيمہ ہے_والله بما تعملون عليم

٦ا_ رہن كى شرط يہ ہے كہ جو چيز رہن ميں دى جارہى ہے اس قبضہ كرليا جائے _

فرهان مقبوضة اس مطلب كى مؤيّد امام باقر(ع) سے يہ روايت ہے كہ فرمايا لارھن الا مقبوضا (١) رہن تب ہوتاہے جب قبضہ كرلياجائے_

١٧_ گواہى كا چھپانا، چھپانے والے كے باطنى كفركى حكايت كرتا ہے_ولاتكتموا الشهادة و من يكتمها فانه آثم قلبه امام باقر(ع) آيت''فانہ آثم قلبہ''كے بارے ميں فرماتے ہيں _ كافر قلبہ (٢) اس كا دل كافر ہے_

احكام: ١، ٢، ٣،٤، ٥، ٦، ١٠، ١٦

اعتماد: اعتماد كى اہميت ٧

اقتصاد: اقتصاد اور اخلاق ٨

اقتصادى نظام: ٧، ٨

____________________

١) تہذيب شيخ طوسي ج ٧ ص ١٧٦ حديث٣٦ ، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ٢٠٤ا_

٢) من لايحضرہ الفقيہ ج ٣ ص ٣٥ حديث ٥، نورالثقلين ج ١ ص ٣٠١ حديث ١٢٠٧_

۳۵۰

امانت: امانت كا لوٹانا ٩ امانت كى اہميت ٧; امانت كے احكام ٣، ٤، ٦ ; امانت ميں خيانت ٦، ١٤

انسان: انسان كا عمل ١٣

تقوي: تقوي كا پيش خيمہ ٥ا;تقوي كے اثرات ٩

خداتعالي: خداتعالي كا علم ١٣، ١٥ خداتعالي كى تنبيہ١٤

دستاويز: دستاويز تيار كرنا ا

دل: دل كا كفر ١٧; دل كا گناہ ١٢

روايت : ١٦، ١٧

رہن: احكام رہن ١، ٢، ٤، ٥، ١٦

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٩، ١٥

قرض: قرض كے احكام ١، ٢

گواہي: گواہى كے احكام ١٠ گواہى كا چھپانا ١٠، ١١، ١٢، ١٤، ١٧

مالى روابط: ٧

محرمات: ٦، ١٠

واجبات: ٣، ٥

۳۵۱

لِلَّهِ ما فِي السَّمَاواتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِن تُبْدُواْ مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللّهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاء وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاء وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (٢٨٤)

الله ہى كے لئے زمين و آسمان كى كل كا ئنات ہے _تم اپنے دل كى باتوں كا اظہار كرو يا ان پر پردہ ڈالو وہ سب كا محاسبہ كرے گا _ وہ جس كو چاہے گا بخش دے گا اور جس پر چاہے گا عذاب كرے گا وہ ہر شے پر قدرت و اختيار ركھنے والا ہے _

١_ آسمانوں اور زمين كى تمام موجودات كا تنہا مالك خداوند عالم ہے_لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٢_ خدا وند متعال كى مطلق مالكيت پر توجہ مالى و اقتصادى روابط ميں عدل و انصاف اور ا حكام الہى پر عمل كرنے كا پيش خيمہ ہے_اذا تداينتم بدين و ان كنتم على سفر لله ما فى السماوات و ما فى الارض

٣_ خدا وند متعال اس كا حساب لے گا جو آدمى كے دل ميں ہے چاہے اسے ظاہر كرے يا چھپائے ركھے_

وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٤_ گواہى چھپانے والوں كو خداتعالي كى تنبيہہ اور ان كے گناہ كا محاسبہ_و من يكتمها فانه اثم قلبه و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٥_ خداوند عالم، انسان كى نفسيانى صفات و صلاحيتوں اور نيتوں كا حساب بھى لے گا_و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله

۳۵۲

''ما فى انفسكم'' نيتوں كے علاوہ نفسيانى صفات (جيسے شجاعت، بزدلي، بخل وغيرہ) كو بھى شامل ہوسكتا ہے ليكن اگر''فى انفسكم'' جار و مجرور استقرار كے متعلق ہونہ صرف وجودكے تو نفس ميں يہى صفات مستقر ہيں _

٦_ انسان كا نفس اور باطن اس كے اعمال كا سرچشمہ ہے_و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه

جملہ''و ان تبدوا '' كا مطلب يہ ہے كہ انسان سے مقام عمل ميں وہى اعمال صادر ہوتے ہيں جو اس كے دل ميں ہوتے ہيں يعنى مقام عمل ميں اعمال ،انسان كے باطن اور نفس كا مظہر ہيں _

٧_ انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا مالك خداوند متعال ہے_ لله مافى السماوات و ما فى الارض وان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

٨_ خداتعالي كى مطلق مالكيت انسان كے اعمال ،اس كى نيتوں اور ان كے حساب پر حكمرانى كى علت ہے_

لله ما فى السماوات و ما فى الارض و ان تبدوا ما فى انفسكم او تخفوه يحاسبكم به الله

جملہ''لله ما فى السماوات ''،''ان تبدوا ''كيلئے تمہيد كے طور پر ہے يعنى خداوندعالم سب چيزوں كا حقيقى مالك ہے كہ جن ميں سے انسان كے اعمال اور اس كى نيتيں بھى ہيں _ اور چونكہ وہ حقيقى مالك ہے لہذا انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے پر قدرت ركھتا ہے_

٩_ خداوند عالم، انسان كے اعمال اور نيتوں كا حساب لينے كے بعد يا اسے معاف كردے گا يا عذاب كرے گا_

و ان تبدوا فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٠_ انسان كے گناہوں كى بخشش يا ان پر عذاب كرنا خداوند متعال كى مشيت سے و ابستہ ہے_

فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١١_ خداوند متعال كى رحمت و مغفرت اس كے عذاب ، قہر اور غضب پر مقدم ہے_ *فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء يہ نكتہ عذاب سے پہلے مغفرت كے ذكر سے حاصل كيا گيا ہے_

١٢_ انسانوں كو سزا دينا ان كے اپنے اعمال كا نتيجہ اور انجام ہے_

۳۵۳

و ان تبدوا ما فى انفسكم يحاسبكم به الله و يعذب من يشاء

١٣_ قرآن كريم كا انسانوں كى تربيت ميں خوف و رجاء (خوف و اميد) كى روش سے استفادہ كرنا_

يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

١٤_ خدا تعالي انسان كے اعمال اور اس كى نيتوں كا حساب لينے اور اسے بخشنے يا عذاب كرنے پر قادر ہے_

و ان تبدوا يحاسبكم به الله فيغفر و يعذب والله على كل شى قدير

١٥_ خدا وند عالم كى قدرت، مطلقہ ہے _و الله على كل شى قدير

١٦_ خداوند متعال، قدير ہے_و الله على كل شى قدير

آسمان: آسمان كا مالك ١

اسماء و صفات: قدير ١٦

انسان: انسان كا عمل ٧، ٨، ٩، ١٤ انسان كا مالك ٧، انسان كى نيت ٣، ٥، ٧، ٨، ٩، ١٤

تربيت: تربيت كا طريقہ ١٣

خداتعالي: خدا تعالي كا حساب لينا ٣، ٤، ٥، ٨، ٩، ١٤ ;خدا تعالي كا عذاب ١١، ١٤;خداتعالي كا معاف كرنا ٩; خداتعالي كى تنبيہہ٤; خدا تعالي كى رحمت ١١ خداتعالي كى طرف سے سزا ٩; خداتعالي كى قدرت ١٥، ١٦ ;خداتعالي كى مالكيت ١، ٢، ٧، ٨ ;خدا تعالي كى مشيت ١٠; خداتعالي كى مغفرت ١١، ١٤

خوف: خوف اور اميد ١٣

راہ و روش: راہ و روش كى بنياديں ٦

زمين: زمين كا مالك ١

شرعى فريضہ: شرعى فريضہ پر عمل ٢

عدل و انصاف: عدل و انصاف قائم كرنا ٢

علم: علم كے اثرات ٢

۳۵۴

عمل: عمل كا پيش خيمہ ٢; عمل كى سزا ١٢ ;عمل كے اثرات ١٢

گناہ: گناہ كى بخشش ١٠ ; گناہ كى سزا ١٠

مالى روابط: ٢

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (٢٨٥)

رسول ان تمام باتوں پر ايمان ركھتا ہے جو اس كى طرف نازل كى گئي ہيں اور مومنين بھى سب الله اور ملائكہ اور مرسلين پر ايمان ركھتے ہيں ان كا كہنا ہے كہ ہم رسولوں كے در ميان تفريق نہيں كرتے _ ہم نے پيغام الہى كو سنا اور اس كى اطاعت كى _ پروردگار اب تيرى مغفرت در كار ہے اور تيرى ہى طرف پلٹ كرآنا ہے _

١_ پيغمبر اكرم (ص) كا اس چيز پر ايمان جو پروردگار كى طرف سے ان پر نازل ہوئي _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٢_ دين كى تبليغ و ترويج كرنے والوں كا دين پر يقين ہونا چاہئے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

خداوند متعال كا اس نكتہ پر توجہ كرنا كہ آنحضرت(ص) خود قرآن اور اپنے اوپر نازل كئے جانے والے احكام پر ايمان ركھتے تھے مذكورہ بالا نكتے كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے_

٣_ قرآن كريم اور وحى كا نازل ہونا خداوند عالم كى

۳۵۵

ربوبيت سے نشأة پاتا ہے_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

٤_ خداوند متعال كے نزديك پيغمبر اكرم (ص) كا عظيم المرتبہ ہونا_آمن الرسول بما انزل اليه من ربه

كلمہ'' رب ''كى ضمير كى طرف اضافت تشريفيہ ہے كہ جس سے آنحضرت(ص) كے مقام كى عظمت كاپتہ چلتاہے_

٥_ پيغمبر اكرم(ص) كے ايمان كا دوسرے مومنين كے ايمان پر افضل و برتر ہونا_ *آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون كل آمن رسول خدا (ص) كا ايمان ''والمؤمنون كلّ ... ''ميں بيان كيا جاسكتا تھا اسے جدا ذكر كرنے كى ضرورت نہ تھى ليكن آنحضرت (ص) كے ايمان كى امتيازى حيثيت اور برترى كو واضح كرنے كى خاطر عليحدہ ذكر كيا گيا ہے_

٦_ ايمان كے كئي مراتب ہيں _ *آمن الرسول و المؤمنون كل امن بالله ''آمن الرسول'' اور ''والمؤمنون كل آمن''ميں ايمان كا تكرار كرنا اس كے مختلف مراتب كى حكايت كرتا ہے_

٧_ پيغمبر اسلام (ص) اور مومنين كا ملائكہ، آسمانى كتابوں اور انبياء (ع) پر ايمان_آمن الرسول و المؤمنون كل آمن بالله و ملائكته و كتبه و رسله كلمہ''كل'' مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہے يعنى پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين سب كے سب خدااور پر ايمان ركھتے ہيں _

٨_ مومنين كا اس چيزپر ايمان جو آنحضرت(ص) پر خداتعالي كى طرف سے نازل كيا گيا ہے _آمن الرسول بما انزل اليه من ربه و المؤمنون يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ ''المومنون'' كا ''الرسول'' پر عطف ہو نہ كہ يہ مبتدا ہو يعنى آنحضرت (ص) اور مومنين اس پر ايمان ركھتے ہيں جوآپ(ص) پر نازل ہوا ہے_

٩_ رسول اكرم (ص) اور مومنين ہر ايك پيغمبر پر ايمان ركھتے ہيں اور كسى ايك كا بھى انكار نہيں كرتے_

لانفرق بين احد من رسله

١٠_ مومنين كى نظر ميں تمام انبيائے (ع) الہى كا عقيدہ اور ہدف ايك تھا_

و المومنون كل آمن بالله و كتبه و

۳۵۶

رسله لانفرق بين احد من رسله

١١_ تمام انبياء اور آسمانى كتابوں ميں سے ہر ايك پر ايمان ضرورى ہے_كل آمن و كتبه و رسله لانفرق بين احد من رسله

١٢_ آنحضرت (ص) كا تمام سابقہ انبياء (ع) اور آسمانى كتابوں پر ايمان_كل آمن لانفرق بين احد من رسله

يہ اس صورت ميں ہے كہ كلمہ''كل'' تمام مومنين كے علاوہ پيغمبر اكرم (ص) كو بھى شامل ہو اس كا نتيجہ يہ ہوگا كہ جملہ''لانفرق '' پيغمبر اكرم(ص) كا قول بھى بن جائے گا_

١٣_ ايمان كا لازمہ قبول كرنا، اطاعت كرنا اور سرتسليم خم كرنا ہے_لانفرق بين احد من رسله و قالوا سمعنا و اطعنا

''سمعنا''(سمع سے سننے كے معنى ميں ) قبول كرنے سے كنايہ ہے_

١٤_ مؤمنين خداوندعالم كى مغفرت كے طلبگار ہيں _غفرانك ربنا

١٥_ خدا اور انبياء (ع) كى اطاعت كرنا اور مغفرت طلب كرنا مؤمنين كى خصوصيات ميں سے ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

١٦_ خداوند عالم كے احكام كى اطاعت كرنا اور انہيں قبول كرنا اللہ تعالي كى بخشش كا ذريعہ ہے_و قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا پيغمبر اكرم (ص) اور مؤمنين جو كہ تمام انسانوں كيلئے نمونہ كے طور پر ذكر كئے گئے ہيں ، اطاعت اور قبول كرنے كے بعد خداتعالي كى مغفرت كى اميد كو پيش كرتے ہيں _

١٧_ خدا وند متعال كى بخشش اس كى ربوبيت كا تقاضا ہے_غفرانك ربنا

١٨_ خداوند عالم كے سامنے اپنے فرائض انجام دينے كے بارے ميں مومنين كا عاجزى كا اظہار و احساس_

قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا مومنين كا خداوند عالم كے احكام كو قبول كر كے ان كى اطاعت كرنے كے باوجود مغفرت طلب كرنا دلالت كرتا ہے كہ وہ خداوند متعال كے حضور اپنے فرائض كى انجام دہى سے عاجز ہيں _

١٩_ خداوند متعال كے انبياء (ع) ،اس كى مغفرت كے محتاج اور طالب ہيں _قالوا سمعنا و اطعنا غفرانك ربنا

۳۵۷

يہ اس صورت ميں ہے كہ''قالوا''كى ضمير مؤمنين كے علاوہ رسل كى طرف بھى لوٹے_

٢٠_ مؤمنين كا معاد اور خداتعالي كى طرف لوٹنے پر اعتقاد و يقين_و اليك المصير

٢١_ كائنات كى حركت صرف خدا كى طرف ہے_و اليك المصير المصيرميں ''ال''جنس كا ہے يعنى ہر قسم كى حركت و تحول خداتعالي كى طرف ہے اور تمام كائنات ميں تغير و تبدل اور حركت پائي جاتى ہے_

آنحضرت (ص) : آپ (ص) كا ايمان ١، ٥، ٧، ٩، ١٢ ;_آپ(ص) كے فضائل ٤

اطاعت: اطاعت كى اہميت ١٣ ; اطاعت كے اثرات ١٦; انبياء (ع) كى اطاعت ١٥ ;خدا كى اطاعت ١٣، ١٥، ١٦

انبياء (ع) : انبياء (ع) كا عقيدہ ١٠ ; انبياء (ع) كى دعا ١٩ ;انبياء (ع) كى ہم آہنگى ١٠ ; انبياء (ع) كے اہداف ١٠

ايمان: آسمانى كتابوں پر ايمان ٧، ١١، ١٢ ;انبياء (ع) پر ايمان ٧، ٩، ١١، ١٢;ايمان كے اثرات ١٣; ايمان كے مراتب ٥، ٦;خدا پر ايمان ٧ ;خدا كے مبعوث كيئے گئے پرايمان ١، ٨; قيامت پر ايمان ٢٠ ;ملائكہ پر ايمان ٧

خداتعالي: خداتعالي كى ربوبيت ٣، ١٧ ;خداتعالي كى مغفرت ١٤، ١٧، ١٩

سرتسليم خم كرنا: اسكى اہميت ١٣

عالم خلقت : اس كا انجام ٢١ ;اسكى حركت ٢١

قرآن كريم : قرآن كريم كا نزول ٣

مغفرت: مغفرت كا پيش خيمہ ١٦

مقربين: ٤

مومنين: مومنين كا استغفار ١٥; مومنين كا ايمان ٧، ٨، ٩، ٢٠ ; مومنين كا عقيدہ ١٠;مومنين كى دعا ١٤ مومنين كى صفات ١٥، ١٨

وحي: اس كا نزول ٣

۳۵۸

لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (٢٨٦)

الله كسى نفس كو اس كى وسعت سے زيادہ تكليف نہيں ديتا _ ہر نفس كے لئے اس كى حاصل كى ہوئي نيكيوں كا فائدہ بھى ہے اور اس كى كمائي ہوئي برائيوں كا مظلمہ بھى _ پروردگار ہم جو كچھ بھول جائيں يا ہم سے غلطى ہو جائے اس كا ہم سے مواخذہ نہ كرنا _ خدايا ہم پر ويسا بوجھ نہ ڈالنا جيسا پہلے والى امتوں پر ڈالا گيا ہے _ پروردگار ہم پر وہ بار نہ ڈالنا جس كى ہم ميں طاقت نہ ہو _ ہميں معاف كر دينا ہميں بخش دينا ہم پر رحم كرنا تو ہمار امولا اور مالك ہے اب كا فروں كے مقابلہ ميں ہمارى مدد فرما _

١_ خداوند متعال ہر انسان پر اس كى عادى توان و استعداد سے زيادہ بوجھ نہيں ڈالتا_لايكلف الله نفسا الا وسعها

اس نكتے ميں ''عادي''كى قيد كلمہ''وسع''سے سمجھى گئي ہے كہ جس كے معني''مايسھل عليہ من المقدور''كے ہيں يعنى جو اس كى توان كے لحاظ سے اس پر آسان ہو_

٢_ عادى توان شرعى ذمہ دارى كى شرط ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

٣_ خداوند عالم كى جانب سے عائدكردہ فرائض و تكاليف ہر انسان كى ظرفيت اور صلاحيت كے مطابق ہيں _

۳۵۹

لايكلف الله نفسا الا وسعها

٤_ الہى فرائض كے تحمل و برداشت كرنے ميں انسانوں كى توان و ظرفيت فرق كرتى ہے_لايكلف الله نفسا الا وسعها

كلمہ''نفسا''كو مفرد لانا كہ جو ہرہر انسان كى طرف اشارہ ہے اور''وسعہا''كى ضمير كو''نفسا''كى طرف لوٹانا، ممكن ہے اس حقيقت كے بيان كرنے كى خاطر ہو كہ ہر انسان مخصوص قدرت اور قوت برداشت كا حامل ہے_

٥_ انسان كے اچھے ، برے اعمال كے نتائج خود اس كى طرف پلٹتے ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٦_ اعمال اور ان كے نتائج ايك نظام اور قانون كے تحت ہيں _لها ما كسبت و عليها ما اكتسبت

٧_ مومنين كى خداوند عالم سے يہ درخواست كہ شرعى فرائض ميں ان كى خطا اور فراموشى پر انہيں عذاب نہ كرے_

لايكلف الله نفسا الا وسعها ...ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا

٨_ مومنين اگر غلطى كى وجہ سے يا بھول كر خداوند متعال كے احكام كو انجام نہ دے سكيں تو اپنے آپ كو عذاب كا مستحق سمجھتے ہيں _ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطانا عذاب كے معاف كرنے كى درخواست ضمنا ً استحقاق عذاب كا اعتراف ہے_

٩_ خداوند متعال كے احكام ميں خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے_*ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خطا اور نسيان پر عذاب نہ كرنے كى درخواست سے پتہ چلتا ہے كہ بھول كر يا غلطى سے احكام الہى كو چھوڑ نے والے كو بھى عذاب كا احتمال ہے پس الہى احكام ميں حتى الامكان خطا اور نسيان سے بچنے كى كوشش كرنى چاہيئے_

١٠_ مؤمنين گناہوں كے ترك اور احكام پر عمل كرنے كے پابند ہوتے ہيں _و قالوا سمعنا و اطعنا ربنا لاتو اخذنا ان نسينا او اخطا نا خدا تعالي كے احكام ميں خطا اور نسيان كے نتائج پر توجہ اور ان كے مورد ميں مغفرت كى درخواست مومنين كى اپنے اعمال و كردار پر خاص توجہ ركھنے كا غماز ہے_

١١_ خطا اور نسيان انسان كى ترقى كے موانع ميں سے

۳۶۰

361