آئین تربیت

آئین تربیت0%

آئین تربیت مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خاندان اوراطفال
صفحے: 361

آئین تربیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 361
مشاہدے: 121943
ڈاؤنلوڈ: 6758

تبصرے:

آئین تربیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 361 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 121943 / ڈاؤنلوڈ: 6758
سائز سائز سائز
آئین تربیت

آئین تربیت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

لہذا جو ماں باپ بن جاتے ہیں ان کے کندھے پر ایک بھاری ذمہ داری آن پڑتی ہے او ریہ ذمہ داری خدا کے حضور بھی مخلوق کے روبرو بھی اور اولاد کے سامنے بھی ہے _ اگر انہوں نے اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کردیا تو ان کے لئے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے ، وہ دنیا و آخرت میں اس کا نیک صلہ پائیں گے _ لیکن اگر انہوں نے اس معاملے میں کوتاہی کی تو خود بھی نقصان اٹھائیں گے اور اپنی اولاد اور معاشرے کے ساتھ بھی خیانت اور ناقابل بخشش گناہ کے مرتکب ہوں گے _

۲۱

تربیت کرنے والوں کی آگاہی اور باہمی تعاون

بچے کی تربیت کوئی ایسی سادہ اور آسان سی بات نہیں ہے کہ جسے ہر ماں باپ آسانی سے انجام دے سکیں _ بلکہ یہ کام بہت سی باریکیوں اور ظرافتوں کا حامل ہے _ اس میں سینکڑوں بال سے باریک تر نکات موجود ہیں _ مربی کا تعلق بچے کی روح سے ہوتا ہے _ وہ روحانی ، نفسیاتی علمی اور تجرباتی پہلوؤں سے آگاہی کے بغیر اپنی ذمہ داری بخوبی انجام نہیں دے سکتا _ بچے کی دنیا ایک اور ہی دنیا ہے اور اس کے افکار ایک اور ہی طرح کے افکار ہیں اس کی سوچوں کا انداز مختلف ہوتا ہے ، جس کا بڑوں کے طرز تفکر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا بچے کی روح نہایت ظریف اور حساس ہوتی ہے اور ہر نقش سے خالی ہوتی ہے اور ہر طرح کی تربیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتی ہے _ بچہ ایک ایسا چھٹا سا انسان ہوتا ہے ، جس نے ابھی تک ایک مستقل شکل اختیار نہیں کی ہوتی جب کہ ہر طرح کی شکل قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے _ بچے کے مربّی کو انسان شناس اور بالخصوص بچوں کا شناسا ہونا چاہیے _ تربیت کے اسرار و رموز پر اس کی نظر ہونی چاہیے _ انسانی کمالات او رنقائص پر اس کی نگاہ ہونے چاہیے _ اس کے اندر احساس ذمہ داری بیدار ہونا چاہیے اور اسے اپنے کام سے دلچسپی بھی ہونا چاہیے _ اسے صابراور حوصلہ مند ہونا چاہیے اور مشکلات سے ہراسان نہیں ہونا چاہیے _ علاوہ ازین تربیت کے قوانین سو فیصد کلی نہیں ہوتے کہ جنہیں ہر جگہ پر اور ہر کسی کے لیے قابل اعتماد قرار دیا جا سکے _ بلکہ ہر بچے کی اپنی جسمانی ساخت اور عقلی صلاحیتوں کے اعتبار سے اپنی ہی خصوصیات ہوتی ہیں لہذا اس کی تربیت اس کی جسمانی ساخت ، عقلی قوتوں ، حالات اور ماحول کے تقاضوں کی مناسبت

۲۲

سے ہونی چاہیے _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کی جسمانی ساخت کا صحیح طرح سے جائزہ لیں اور اسی کے پیش نظر اس کی تربیت کریں ورنہ ممکن ہے ان کی کوششوں کاوہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکے جو ان کی خواہش ہے _

مرداور عورت کو چاہیے کہ ماں باپ بننے سے پہلے بچے کی تعلیم و تربیت کے طریقے سے آگاہی حاصل کریں _ اس کے بعد بچے کی پیدائشے کے لئے اقدام کریں ، کیوں کہ بچے کی تربیت کامرحلہ اس کی ولادت سے بلکہ اس سے بھی پہلے شروع ہوجاتاہے _ اس حساس عرصے میں بچے کی لطیف اور حساس طبیعت کوئی شکل اختیار کرتی اور اس کے اخلاق، کردار ، عادات حتی کہ افکار کی بنیاد پڑتی ہے _

یہ صحیح نہیں ہے کہ ماں باپ اس حاس عرصے میں غفلت سے کام لیں اور تعلیم و تربیت کو آئندہ پر ٹال دیں _ یعنی تعلیم و تربیت کو اس وقت پر اٹھانہ رکھیں کہ جب بچہ اچھے یا برے اخلاق و کردار یا اچھی یا بری عادتوں کے بارے میں تقریبا ایک مزاج اختیار کرچکا ہو _ کیونکہ ابتدائی مراحل میں تربیت عادتوں کے تبدیل کرنے کی نسبت کہیں آسان ہے _ عادت کا تبدیل کرنا اگرچہ ناممکن نہیں تا ہم اس کے لیے بہت زیادہ آگاہی، صبر ، حوصلہ اور کوشش کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ سب تربیت کرنے والوں کے بس کی بات نہیں _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اصعب السیاسیات نقل العادات'' مشکل ترین سیاست لوگوں کی عادات کو تبدیل کرنا ہے '' (غرر الحکم ص 181)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: للعادة علی کلّ انسان سلطان عادت انسان پر مسلط ہوجاتی ہے _ (غررالحکم _ص 580)

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: ''العادة طبع ثان'' ''عادت فطرت ثانیہ بن جاتی ہے '' _ (غررالحکم _ ص 26)

۲۳

ترک عادت اس قدر مشکل ہے کہ اسے بہترین عبادتوں سے شمار کیا گیا ہے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

''افضل العبادة غلبة السعادة'' '' بری عادت پر غلبہ پالینا افضل ترین عبادتوں میں سے ہے '' ( غرر الحکم _ص 176)

بچے کو راہ کمال پر تربیت دینے کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی اہم ہے کہ ماں باپ اور دیگر تمام مربیوں کے درمیان فکری اور عملی طور پر تربیت کے تمام پروگراموں میں اور ان کے اجراء کی کیفیت میں ہم آہنگی اور تفاہم موجود ہو _ اگر ماں باپ اور دیگر لوگ کہ جن کا بچے کی تربیت میں عمل دخل ہو مثلاً دادا اور دادی و غیرہ ان کے درمیان تربیتی پروگراموں میں اتفاق اور ہم آہنگی موجود ہو اور ان کے اجرائیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں اور ایک اچھا اور ممتاز بچہ پروان چڑھا سکتے ہیں _ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک بھی تربیت کے بارے بے اعتناء یا تربیتی امور میں خلاف سلیقہ رکھتا ہو تو مراد حاصل نہیں ہوسکتی کیونکنہ تربیت کے مسئلہ میں مکمل یقین اور ہم آہنگی ضروری ہے _

بچے کو اپنے فریضے سے آگاہی ہونا چاہیے _ جب ماں باپ کچھ اور کہہ رہے ہیں اور دادا دادی اور تو بچہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے _ اسے سمجھ نہیں آتی کہ کیا کرے _ بالخصوص اگر ان میں سے ہر کوئی اپنے نظریے پر زور دے رہا ہو _ ایسی صورت میں نہ فقط یہ کہ اچھا نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ ایسا ہوتا تربیت میں نقص کا باعث بھی بن سکتا ہے _ تربیت کی بڑی مشکلات میں سے یہ ہے کہ بچے کے بارے میں باپ کچھ فیصلہ کرے اور ماں یا دادی اس میں دخالت کرکے اس کے برخلاف عمل کرے یا پھر اس کے الٹ مسئلہ ہو _ مربیوں کے درمیان ایسے اتفاق اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے کہ جس سے بچہ واضح طور پر یہ سمجھ سکے کہ اسے کیا کرنا ہے اور اس کی خلاف ورزی کا خیال اس کے ذہن میں نہ آئے _

کبھی یوں ہوتا ہے کہ باپ ایک خوش اخلاق اور اچھا تربیت یافتہ بچہ پروان چڑھانا چاہتا ہے لیکن ماں بداخلاف اور بے تربیت ہوتی ہے اسے تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے _ یہ مشکل بہت سے گھرانوں میں نظر آتی ہے _ ایسے

۲۴

خاندانوں میں پرورش پانے والے بچے عموماً اچھی اور صحیح تربیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ ایک تربیت یافتہ اور صالح فرد کی تربیت اس کی ناصالح بیوی کے سبب بے اثر ہوجاتی ہے _ اس صورت میں صحیح تربیت بہت مشکل امر بن جاتا ہے البتہ ایسی دشواریں کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تربیت کی ذمہ داری سے دست بردار ہوجائیں _

ایسی صورت میں تربیت کی ذمہ داری اور بھی ہواہوجاتی ہے _ چاہیے کہ ایسی صورت میں اولاد کی تربیت کے بارے میں زیادہ توجہ دی جائے _ اپنے اخلاق و کردار کی پوری طرح اصلاح کی جائے اور بچوں کی زیادہ دیکھ بھال سے کام لیا جائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ مانسیت پیدا کی جائے _ اچھے کام اور خوش رفتاری کے ذریعے بچوں کی توجہ اپنی طرف جذب کی جائے اور ان کے لیے بہترین نمونہ عمل بن جایا جائے _ اپنے بچوں سے تفاہم پیدا کیا جائے _ اچھائی برائی اور نیکی بدی کا مفہوم ان کے سامنے کامل طور پر واضح کیا جائے _ ایسا عمل کیا جائے کہ بچہ خودبخود اچھے اور برے اخلاق کے درمیا ن تمیز کرسکے اور برائیوں سے متنفر ہو جائے _ اگر مرّبی عاقل ، تدبر، صابر، اور حوصلہ مند ہو تو کسی حد تک اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے اور اپنی بیوی کی غلط تربیت اور بدآموزی کی اثرات زائل کرسکتا ہے _ بہر حال یہ ایک مشکل اور اہم کام ہے لیکن کے علاوہ چارہ بھی نہیں _

ایک دانشور کا قول ہے :

وہ خاندان کہ جس میں ماں اور باپ کی تربیت کے بارے میں ہم فکر ہیں اور اپنے کردار اور رفتار کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں تو بچے کے اعصاب کے لیے مناسب ماحول مہیا ہوجاتا ہے _ خاندان ایک ایسا چھوٹا سا معاشرہ ہے کہ جس میں بچے کی اخلاقی خصوصیات ایک خاص صورت اختیار کرتی ہیں _ وہ خاندان کہ جس کے افراد ایک دوسرے سے دوستانہ برتاؤ کرتے ہیں اس کے بچے عموماً متین ، خوددار اور انصاف پسند ہوتے ہیں _ اس کے برعکس وہ

۲۵

گھر کہ جس میں ماں باپ کے درمیان روزروز کی نوک جھونک اورتو تکرار رہتی ہے اس کے بچے کج اخلاق ، بہانہ ساز اور غصیلے ہوتے ہیں _ (1)

-----------

1_ روان شناسی تجربی کو دک ص 191_

۲۶

تربیت عمل سے نہ کہ زبان سے

بہت سے ماں باپ ایسے ہیں جو تربیت کے لیے وعظ و نصیت اور زبانی امر و نہی کافی سمجھتے ہیں _ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ جب وہ بچے کو امر و نہی کررہے ہوتے ہیں ، اسے زبانی سمجھا بجھارے ہوتے ہیں تو گویا وہ تربیت میں مشغول ہیں اور باقی امور حیات میں وہ تربیت سے دست بردار ہوجاتے ہیں _ یہی وجہ ہے کہ ایسے ماں باپ ننھے بچے کو تربیت کے قابل نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے کچھ نہیں سمجھ سکے گا _ جب بچہ رشد و تمیز کی عمر کو پہنچتا ہے تو وہ تربیت کا آغاز کرتے ہیں _ جب وہ خوب و بد کو سمجھنے لگے تو اس کی تربیت شروع کرتے ہیں _ جب کہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے _ بچہ اپنی پیدائشے کے روز ہی سے تربیت کے قابل ہوتا ہے _ وہ لحظہ لحظہ تربیت پاتا ہے اور ایک خاط مزاج ہیں ڈھلتا چلا جاتا ہے ، ماں باپ متوجہ ہوں یا نہ ہوں _ بچہ تربیت کے لیے اس امر کا انتظار نہیں کرتا کہ ماں باپ اسے کسی کام کا حکم دیں یا کسی چیز سے روکیں بچے کے اعصاب اور حساس و ظریف ذہن روز اوّل ہی سے ایک کیمرے کی طرح تمام چیزوں کی فلم بنانے لگتے ہیں اور اسی کے مطابق اس کی تعمیر ہوتی ہے او ر وہ تربیت پاتاہے _ پانچ چھ سالہ بچہ تعمیر شدہ ہوتا ہے اور جو ایک خاص صورت اختیار کرچکا ہوتا ہے اور جو کچھ اسے بننا ہوتا ہے بن چکتا ہے _ اچھائی یا برائی کا عادی ہوچکتا ہے لہذا بعد کی تربیت بہت مشکل اور کم اثر ہوتی ہے بچے تو بالکل مقلد ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ اور ادھر ادھر رہنے والے دیگر لوگوں کے اعمال، رفتار اور اخلاق کو دیکھتا ہے اور اس کی تقلید کرتا ہے وہ ماں باپ کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں کے طرز حیات اور کاموں کو اچھائی اور برائی کا

۲۷

معیار قرار دیتا ہے اور پھر اسی کے مطابق عمل کرتا ہے _ بچے کا وجود تو کسی سانچے میں نہیں ڈھلا ہوتا وہ ماں باپ کو ایک نمونہ سمجھ کر ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے _ وہ کردار کو دیکھتا ہے باتوں اور پند ونصیحت پر توجہ نہیں دیتا _ اگر کردار گفتار سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ کردار کو ترجیح دیتا ہے _

بیٹی اپنی ماں کو دیکھتی ہے اور اس سے آداب زندگی ، شوہر داری ، خانہ داری اور بچوں کی پرورش کا سلیقہ سیکھتی ہے اور اپنے باپ کو د یکھ کے مردوں کو پہچانتی ہے _ بیٹا اپنے باپ کے طرز زندگی سے درس حبات لبتا ہے ، اس سے بیو ی اور بچوں سے سلوک کرنا سکیھتا ہے اور اپنی ماں کے طرر عمل سے عورتو کو پہچانتا ہے اور اپنی آئندہ زندگی کے لیے اسی کو دیکھ کر منصوبے بنا تا ہے _

لہذا ذمہ دار اور آگاہ افراد کے لیے ضروری ہے کہ ابتدامیں ہی اپنی اطلاح کریں _ اگر ان کے اعمال ، کردار اور اخلاف عیب دار ہیں توا ان کی اطلاح کریں _ اچھی صفات اپنائیں نیک اخلاق اختیار کریں اور پسندیدہ کردار ادار کریں _ مختصریہ کہ اپنے آپ کو ایک اچھے اور کامل انسان کی صورت میں ڈھالیں اس کے بعد نئے انسانوں کی تولید اور پرورش کی طرف قدم بڑھائیں _ ماں باپ کو پہلے سو چنا چا ہیے کہ و ہ کس طرح کا بچہ معاشر ے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اگر انھیں یہ پسند ہے کہ ان کا بچہ خوش اخلاق ، مہربان ، انسان دوست ، خیر خواہ ، دیندار ، با ہدف شریف ، آگاہ حریت پسند ، شجاع ، مفید ، فعال ، اور فرض شناس ہو تو خود انہیں بھی ایسا ہی ہو نا چاہیے تا مہ وہ بچے کے لیے نمونہ عمل قرار پائیں _ جس ماں کی خواہش ہو کہ اس کی بیٹی فرض شناس ، خوش اخلاق ، مہربان ، سمجھدار ، شوہر کی وفادار ، باتمیز ، ہر طرح کے حالات میں گزر لبسر کر لینے والی اور نظم و ضبط حیات حاصل کرے _ اگر ماں بد اخلاق ،بے ادب ، سست ، بے نظم ، بے مہر ، کثیف ، دوسروں سے زیادہ توقع با ند ھنے والی اور بہانہ ساز ہو تو وہ صرف و عظ و نصیحت سے ایک اچھی بیٹی پروان نہیں چڑھا سکتی _

ڈاکٹر جلالی لکھتے ہیں _

۲۸

بچوں کو احساسات اور جذبات کے اعتبار سے وہی لوگ صحیح تربیت وے سکتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے بچپن میں اور باقی تمام عمر صحیح تربیت پائی ہو _ جوماں باپ آپس میں ناراض رہتے ہوں اور چھوٹی باتوں پر جھگڑاتے ہوں ، یا جن لوگوں نے کاردبار کے طور پرپرورش کا سلسلہ شروع کیا ہو اور انھیں تربیت دینے کا کوئی ذوق و شوق نہ ہو _ اور جو بچوں کو نقرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں ، خود حوصلے سے عاری ہوں اور غصیلی طبیعت رکھتے ہوں اور جنیں خود اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو وہ بچوں کے جذبات اور احساسات کو صحیح راستے پر نہیں ڈال سکتے (1)

ڈاکٹر جلالی مزید لکھتے ہیں : بچے کی تربیت جس کے بھی ذمے ہوا سے چاہیے کہ کبھی کبھی اپنی صفات کا بھی جائزہ لے اور اپنی ذمہ داریوں کے بار ے میں سو چے اور اپنی خامیوں کو دور کرے (2)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

من نصب نفسه اماماً فلیبدا بتعلیم نفسه قبل تعلیم غیره و لیکن تادیبه بسیرته قبل تادیبه بلسانه و معلّم نفسه و مؤدبها احق بالاجلال من معلم النّاس و مؤدبهم _

جو شخص دوسروں کا پیشوا بنے چاہیے کہ پہلے وہ اپنے اصلاح کرے پھر دوسروں کی اصلاح کے لیے اٹھے اور دوسروں کو زبان سے ادب سکھانے سے پہلے اپنے کردار سے ادب سکھائے اور جو اپنے آپ کو تعلیم اور ادب سکھاتا ہے وہ اس شخص کی نسبت زیادہ عزّت کا حقدار ہے جو دوسروں کو ادب

-------------

1_ روان شناسی کودک_ ص 296_

2_ روان شناسی کودک ص 297_

۲۹

سکھاتا ہے _ (نہج البلاغہ _کلامت قصار نمبر 73)

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: وقّروا کبارکن یوقّرکم صغارکم

تم اپنے بزرگوں کا احترام کرو تا کہ تمہارے بچے تمہارا احترام کریں _(غرر الحکم _ ص 78)

پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت ابوذر سے فرمایا:

جب کوئی شخص خود صالح ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے نیک ہوجانے کے وسیلے سے اس کی اولاد اور اس کی اولاد کی اولاد کو بھی نیک بنادیتا ہے _(مکارم الاخلاق _ ص 546)

امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں: ان سمت همّتک لاصلاح النّاس فابدء بنفسک فانّ تعاطیک صلاح غیرک و انت فاسد اکبر العیب

اگر تو دوسروں کی اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس سلسلے کا آغاز اپنی ذات کی اصلاح سے کر اور اگر تودوسروں کی اصلاح کرنا چاہے اور اپنے آپ کو فاسد ہی رہنے دے تو یہ سب سے بڑا عیب ہوگا _ (غرر الحکم ص 278)

تو یہ سب سے بڑا عیب ہوگا _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: انّ الوعظ الّذی لا یمّجه سمع و لا یعوله نفع ما سکت عنه لسان القول و نطق به لسان الفعل

جس نصیحت کے لیے زبان گفتار خاموش ہو اور زبان کردار گویا ہو کوئی کان اسے باہر نہیں نکال سکتا اور کوئی فائدہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا_ (غرر الحکم ص 232)ایک خاتون اپنے ایک خط لکھتی ہے:

... میرے ماں باپ کے کردار نے مجھ پر بہت اثر کیا ہے انہوں نے ہمیشہ میرے ساتھ اور میرے بہن بھائیوں کے ساتھ مہربانی کی ہے _ میں نے کبھی بھی ان کے

۳۰

کردار اور گفتار میں برائی نہیں دیکھی _ خود ہماری بہت عادت ویسی ہی ہوگئی _ میں ان کا اچھا اخلاق اور کردار بھلا نہیں سکتی _ اب جب کہ میں خودمان بن گئی ہوں تو کوشش کرتی ہوں کہ کوئی برا کام خاص طور پر اپنے بچوں کے سامنے مجھ سے سرزد نہ ہو _ میرے ماں اور باپ کا کردار میری زندگی میں میرے لئے نمونہ عمل بن گیا _ میں کوشش کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کی بھی اس طرح سے تربیت کروں _

ایک اور خاتون اپنے خط میں لکھتی ہیں:

... جب میں اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے یاد آتا ہے _ کہ میری ماں چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسے ہی چیختی چلاتی تھی _ اب جب کہ میں خودماں بن گئی ہوں تو میں دیکھتی ہوں کہ تھوڑی سی کمی کے ساتھ وہی میری حالت بھی ہے _ اس کی ساری بد اخلاقیاں مجھ میں پیدا ہوگئی ہیں اور عجیب مسئلہ یہ ہے کہ میں جتنا بھی کوشش کرتی ہوں کہ اپنی اصلاح کروں نہیں کر پاتی ہوں _ یقینی طور پر میرے لئے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ماں باپ کا کردار اور اخلاق اولاد کی تربیت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے : کہ ماں اپنی تربیت کے ذریعے ایک دینا کو بدل سکتی ہے بالکل درست بات ہے _

۳۱

گھریلو لڑائی جھگڑے سے پرہیز

بچے کے لیے گھر آشیانے کے مانند ہے _ وہ خود کو اس سے وابستہ سمجھتا ہے اور اس کا دل اسی سے بندھا ہوا ہے _ اگر اس کے ماں باپ آپس میں اچھے دوست ہوں تو اس کا آشیانہ پائیدار ، گرم آغوش کی طرح اور باصفا ہوگا _ ایسے گھر میں بچہ آرام و اطمینان کا احساس کرے گا _ اس اچھے آشیانے میں پرورش پانے سے بچے کی داخلی صلاحیتیں صحیح طور پر پرواں چڑھتی ہیں اور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں _ لیکن اگر ماں باپ میں لڑائی جھگڑا ہوا تو بچے کا چین اور سکون چھن جاتا ہے _ وہ پریشان اور مضطرب رہتا ہے _ ماں باپ آپس میں لڑرہے ہوتے ہیں انہیں آس امر کا اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ بے چارے بچے کی کیا کیفیت ہے _ ایسے عالم میں بچے خوف زدہ ہوتے ہیں اور ان کے دل ٹوٹے ہوتے ہیں وہ یا کسی کونے کھدرے میں حیرت و استعجاب میں ڈوبے ہوتے ہیں یا پھر ایسے آشیانے سے فرار کرکے کسی کوچہ و بازار میں پناہ حاصل کرتے ہیں _ بچے کی زندگی کی تلخ ترین یادیں اس کے ماں باپ کی باہمی لڑائی ہے _ بچے ایسے واقعات اپنی آخری عمر تک بھلا نہیں پاتے _ یہ واقعات ان کی روح پر برے طریقے سے اثر پذیر ہوتے ہیں _

ایسے بچوں کے دلوں میں گرہیں پرجاتی ہیں ، اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں ، دل شکستہ رہتے ہیں اور وہ بدبینی کے عالم میں زندگی گزارتے ہیں _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کی بیٹی اپنے باپ کی بداخلاقی اور کج مزاجی سے یہ سمجھے کہ سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ممکن ہے اس خیال کے باعث وہ شادی کے نام ہی سے خوف کھاتی ہو _ ہوسکتا ہے ایسے گھر کا بیٹا

۳۲

اپنی ماں کی بداخلاقی اور لڑا کا پن کے باعث سب عورتوں کو ایسا ہی خیال کرے اور شادی سے بیزار ہوجائے _ اس صورت حال میں اولاد کے دل میں ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے لیے کینہ اور نفرت پیدا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اولاد انتقامی حربے بھی اختیار کرتی ہے _ اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے آوارہ ، نشہ باز اور بدکردار بچے ماں باپ کے روز روز کے جھگڑوں کے باعث اس مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں _

اگر آپ اپنے بچوں کے تلخ واقعات اور ماں باپ کے اختلافات (اگر تھے) کا سوچیں تو آپ محسوس کریں گے کہ سالہا گزرنے کے باوجود ان کی تلخ یادیں آپ کے ذہن پر نقش ہیں _

ایک دانشور لکھتے ہیں :

ماں باپ کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ گھر کے بڑے افراد کے درمیان لڑائی جھگڑا بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے اور بڑوں کے باہمی روابط بچے کی شخصیت کی تعمیر پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر ایک گھر میں اتفاق و اتحاد کی فضا نہ ہو تو ایسی صورت میں ممکن نہیں کہ وہاں بچوں کی صحیح پرورش ہوسکے _ جب بڑے لڑنے جھگڑنے لگیں تو انہیں بھول جاتا ہے کہ بچے بھی ان کے ساتھ ہیں اور ان کی تربیت بھی ان کے ذمہ ہے _ ایسی صورت میں بچہ کوئی صحیح سبق نہیں سیکھ سکتا _ اس کا مزاج بھی غصیلا ہوجاتا ہے وہ تند مزاج اور گوشہ نشین ہوجاتا ہے _ خصوصاً کچھ بڑی عمر کے بچے ایسی صورت میں سخت مشکل سے دوچار ہوجاتے ہیں _

ان کا دل باپ کی حالت پر کڑھتا ہے _ وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کس کا ساتھ دیں اور کس کے ساتھ ہوجائیں _ کبھی وہ حقیقت کو پہچانے بغیر ہر دو کے خلاف ہوجاتے ہیں _ (1)

کسی نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ :

---------------

1_ روان شناسی تجربی ص 673

۳۳

'' میرے بچپن کے بدترین واقعات میں سے وہ مواقع ہیں کہ جب میرے ماں باپ آپس میں جھگڑتے تھے اور گالی گلوچ کرتے تھے _ میں میری بہن اور میرا بھائی ایسے موقعے پر ایک طرف کھڑے ہو کر لرزتے رہتے تھے _ جب تک لڑائی رہتی تھی ہم میں کچھ کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا _ مجھے یاد ہے کہ میری چھوٹی بہن اس صورت حال کو دیکھ کررونے لگتی تھی اور کتنی دیر تک اس کے اوسان بحال نہ ہوتے تھے _ اس وقت وہ ضعف اعصاب کا شکار ہوچکی ہے _ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ماں باپ کے لڑائی جھگڑے میری بہن کی روح پر بری طرح اثر انداز ہوئے ہیں ...''_

ایک مرد نے اپنے خط میں لکھا ہے _

'' بچپن کے ایک تلخ واقعے کی یادمیرے دل سے جاتی ہی نہیں _ میرا باپ بہت بداخلاق ، بدسلوک ، غصیلا ، اور خود غرض تھا ، گھر میں وہ بہانے بہانے سے جھگڑتا رہتا اور سب پر برستا _ ہمارے ماں باپ صبح سے آدھی رات تک آپس میں لڑتے رہتے ، خدا جانے وہ تھکتے کیوں نہ تھے _ جھگڑے بھی بالکل معمولی معمولی باتوں پر ہوتے تھے _ کوئی رات ایسی نہ تھی کہ میں روئے بغیر سوجاتا _ اسی وجہ سے میرے اعصاب کمزور پڑگئے ہیں ڈرتا رہتاہوں اور ڈراؤنے خواب دیکھتا ہوں _ ڈاکٹر کے پاس بھی گیا ہوں وہ کہتا ہے کہ گھریلو اختلافات کا اثر ہے اور اس کا آرام کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے _ میری خوشی کا زمانہ اس وقت شروع ہوا جب میری شادی ہوگئی اور میں نے اس گھر سے نجات پالی اور اب اگر چہ میری زندگی اچھی گزررہی ہے پھر بھی یوں لگتا ہے جیسے میں ایک شکست خوردہ آدمی ہوں اور زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا _ میں والدین سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہو بھی تو اپنے بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑا نہ کرو _

وہ اپنے تفصیلی خط میں مزید لکھتا ہے : میرے بچپن کا بدترین واقعہ وہ ہے کہ میں جب آٹھ سال کا تھا اور میرے والدین کے درمیان سخت جھگڑا رونما ہوا _ سارے

۳۴

بچے ڈرکے مارے مختلف گوشوں میں جا چھپے اس واقعے کا میری روح پر ایسا اثر ہواکہ میں ایک عرصے تک مضطرب اور پریشان رہا _ میں اپنے گھروالوں سے بیزار ہوگیا _ میرا دل نہ کرتا کہ سکول سے گھر آؤں _ میں خدا سے دعا کرتا کہ بیمارہوجاؤں اور مرجاؤں _ کئی دفعہ میں نے خودکشی کا سوچا کئی مرتبہ خوابوں میں میں نے دیکھا کہ میں اپنی ہونے والی بیوی سے لڑرہا ہوں اور اس سے جنگ وجدال میں مصروف ہوں عالم خواب میں میں یہ پروگرام بناتا کہ اپنے حق کو میں کیسے بچا سکتا ہوں _ شادی کے شروع شروع میں میں نے کئی بہانوں سے کوشش کی کہ اپنی بیوی سے جھگڑوں اور اسے بتاؤں کہ میں بہت غصے والا ہوں اور اونچی آواز سے بولوں تا کہ اس پر ظاہر کر سکوں کہ میری بھی کوئی شخصیت ہے _ خوش قسمتی سے میری بیوی ٹھنڈے دل و دماغ والی اور عقل مند تھی _ وہ میرے ساتھ اچھا سلوک کرتی تھی اور اس کے بعد دلیل و برہان سے مجھے مطمئن کرتی _ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ میرا یہ مزاج زیادہ دیر تک باقی نہ رہا _ جب مجھے اپنے ماں باپ کی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے خوداپنی کمزوریوں پر نظر کی تو میں نے اپنے اخلاق کو تبدیل کرلیا اور اب زندگی آرام سے گزرہی ہے _

ایک اور صاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں:

... میں نوسال کا تھا کہ میرے ماں باپ نے باہمی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ئی کا فیصلہ کرلیا _ انہوں نے مجھے، میری بہن اور بھائی کو دادا کے گھر بھجوادیا _ ہم وہاں روتے رہتے _ جب میں اپنی ماں سے ملنے جاتا تو راتوں کو ایسے خواب دیکھتا کہ کہ رہا ہوتا کہ میں ابو کے گھر نہیں جاؤںگا _ کچھ عرصے کے بعد امی اور ابو کے بعض رشتہ داروں نے مل ملاکر صلح کرادی اور میری امی واپس گھر آئی _ لیکن اس تھوڑے سے عرصے نے میری روح پر ایسا اثر کیا کہ ابھی تک اس کے آثار باقی ہیں _ میں اب کوشش کرتا ہوں کہ اگر میرے اور بیوی کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے اپنے بچوں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں _

۳۵

ایک اور خط ہا خطہ کیجئے :

میرے بچپن کی بہت سی تلخ یادیں ہیں ، خوشی کی یادیں تو بہت ہی کم میں _

جب تھی مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے تو ناراحت ہو جاتی ہوں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس غم کی وجہ یہ ہے کہ جب سے مجھے یاد ہے میں نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو بحث و جدل اور لڑائی جھگڑ اکر تے ہی دیکھا _ اس طرح انہوں نے مجھ پر اور میرے بہن بھائیوں پر زندگی اجیرن کردی تھی _ ہم آئھ بہن بہن بھائی تھے اسی وجہ سے مین اپنے شوہر سے تو تکرار نہیں کرتی اور اپنے شوہر اور بچوں کی زندگی تلخ نہیں کرتی _

ایک خط میں کسی نے لکھا :

پانچ سال کی عمر بچپن کا بہترین زمانہ ہو تا ہے _ میں اس عمر کا تھا کہ میرے ماں باپ میں شدید اختلاف پیدا ہوئے _ میرے باپ نے دوسری شادی کرلی _ اس اختلاف کی وجہ سے میر ی ماں نے طلاف لے لی _ ہم چھ بہن بھائی تھے _ ایک دن بہت تلخ تھا _ میں اور میرا بھائی کھیل رہے تھے کہ امی جان خداحافظ کہنے کو آئیں _ خدا جانتا ہے ہ بچے کس قدر ناراحت ہوئے _ ہماری ماں چلی گئی اور ہم اپنے باپ اور نئی ماں کے ساتھ رہ گئے _ دو سال گویا ہم ماں کے بغیررہے اور باپ کی بے اعتنائی کے صد ے سہتے رہے _ اس کے بعد ایک روز ہماری آمی آئیں اور مجھے اور میرے بھائی کو اپنے گھر لے گئیں _ انہیں ہماری نانی سے جائیداد سے کچھ حصہ ملا تھا وہ اسی کے ذریعے ہماری دیکھ بھال کرتی رہیں _ پھر دگر بہن بھائی بھی آگئے _ ہماری ماں نے ہمارے ساتھ ماں کا کردار بھی ادا کیا اور باپ کا بھی _ہم اس کے ایثار اور قربانیوں کو بھلا نہیں سکتے:

ایک خاتون اپنے خط میں لکھتی ہے :میرے ماں باپ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے تھے اور ہمارے گھر میں ایک جنجال بپا ہو تا تھا _ ہماری ماں ہمیشہ غصے میں رہتی ہیں آٹے سال کی تھی دوسرے

۳۶

بچوں کو میرے پاس پھوڑتی اور چلی جاتی _ میرے بہن بھائی کوئی دو سال کا تھا ، کوئی چار سال کا تھا ، کوئی چھ سال کا تھا _ یہاں تک کہ ایک چھ ماہ کا بھی تھا_ میں نا چار ان سب کی خدمت کرتی رہتی _ کبھی باپ سے بھی مارکھاتی _ ان سارے حالات کے باوجود میں کوشش کرتی کہ پڑھتی بھی رہوں لیکن دوسری جماعت میں میں فیل ہو گئی تھی _ میری استانیوں کو میرے حالات کی خبر تھی _ انہوں نے میرے اور پر رحم کیا اور مجھے کچھ اضافی نمبر دے دیئے _ انہیں حالات میں میں ہائی سکول تک جا پہنچی _ اس وقت تو میں خود ماں بن چکی ہوں _ کوشش کرتی ہوں کہ جنگ و جدل سے نہ اپنے آپ کو بے آرام کروں اور نہ شوہر اور بچوں کو _

جوماں باپ احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور انہین اپنے بچوں کی تربیت سے دلچسپی ہے تو انہیں چاہیے گھر کے لڑائی جھگڑ ے سے سختی سے اجتناب کریں اور ہر گز بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑانہ کریں اور لمبی کدور توں اور با ہمی غصے سے بچوں کے لیے ناراضی اور پریشانی کے اسباب فراہم نہ کریں _ اس سے بدتر کوئی کام نہیں ہو سکتا کہ ماں باپ گھر میں جھگڑیں اور بے گناہ بچوں کو چھوڑ کر اپنی راہ لیں _ اگر ماں باپ کو پتہ ہو کہ اس مارت مین اگر چہ وہ تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو ، بچوں پر کیا گزری تو وہ کبھی اس لڑائی جھگڑے کو اختیار نہ کریں _ ایسے واقعات آخر عمر تک نہیں بھولتے اور اولاد کی روح کو اداس اور پریشان کردیتے ہیں _ البتہ شاید بہت کم ہی گھرا یسے ہوں جہاں سلیقے کا اختلاف نہ ہو لیکن از دواجی زندگی میں در گزرکی ضرورت ہوتی ہے _ سمجھدار اور آگاہ ماں باپ اپنے اختلافات کو افہام و تفہیم اور منطق و استدلال کے ذریعے سے حل کرتے ہیں اور اگر نا چار کچھ سخت سست کہنا ہی پڑ جائے تو جائے تو بچوں کے سامنے ایسا نہیں ہو نا چا ہیے اور اگ بچوں کو کچھ پتہ چل بھی جائے تو انہین بتا نا چا ہیے کہ اختلاف کام میں نہیں ہے بلکہ ہمارے در میان صرف طریقے میں اختلاف اور مشکلات ہیں اور ان کے حل کوشش کررہے ہیں اور یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے _ ماں باپ کو نہین چاہیے اگر چہ وہ غصے کے عالم میں ہوں طلاق اور جدائی کا ذکر کریں _ کیونکہ اس سے نہ فقط ازدواجی زندگی متز لزل ہو جاتی ہے بلکہ بچوں کے لیے بھی بے اطمینانی اور اضطراب پیدا ہو تا ہے _ میاں بیوی کی ایک دوسرے سے جدائی اولاد کے ساتھ

۳۷

بھی ایک بہت بڑی خیانت ہے _ کیونکہ ان کاتو گو یا آشیانہ گر جا تا ہے اور ان کی زندگی پریشان و ویران ہو جاتی ہے _ کیونکہ بچے تو ماں باپ دونوں کو چا ہتے ہوتے ہیں نہ کہ ان میں سے کسی ایک کو _ اگر طلاق کے بعد بچے باپ کی تحویل میں رہیں اور وہ دوسری شادی کرلے تو وہ بے گناہ مجبورا سو تیلی ماں کے زیر دست زندگی گزاریں گے _ سوتیلی ماں اگر چہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو حقیقی ماں کی جگہ نہیں لے سکتی _ زیادہ تر تو وہ اپنے شوہر کے بچوں کو اذیت و آزار ہی پہنچا تی ہے سوتیلی ماں کے سولک کے بارے میں آپ اخبار و جرائد مین پڑ ھتے ہی ہوں گے اور اگر بچے ماں کی تحویل میں چلے جائے تو اگر چہ وہ باپ سے بہتر نگھداری کرتی ہے لیکن باپ کی جگہ خالی رہتی ہے اور باپ سے دوری کا غم انہیں ستا تا رہتا ہے اور اگر وہ دونوں ڈھٹائی سے کام لیں اور اپنے بچوں کو کسی اور کے پس چھوڑدیں تو وا مصیبتا _

بہر حال بچے پیدار ہونے سے پہلے میاں بیوی آزاد ہیں _ لیکن اولاد کی پیدائشے کے بعد وہ ذمہ دار ہیں کہ اختلاف سے پر ہیز کریں اور گھر کے نظام کی المقدور حفاظت کریں اور بے گناہ بچوں کی پریشانی اور اذیت سامان فراہم نہ کریں _ ورنہ وہ بارگاہ عدل الہی میں جواب دہ ہو ں

گے اوران کا مو آحذہ کیا جائے گا_

۳۸

ماں کی حیثیت سے زندگی کا آغاز

جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے اور عورت کے نطفے سے ملتاہے تو اس لمحے سے عورت کے لیے ماں بننے کے دور کار آغاز ہوتا ہے _ اسی وقت سے عورت کے رحم میں ایک زندہ موجود وجود میں آتا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ حرکت کرتا ہوا تکمیل کی طرف بڑھتا ہے _ وہ بہت چھوٹا سا وجود غیر معمولی صورت کے ساتھ پرورش پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے _ یہاں تک کہ ایک انسان کی کامل صورت اختیار کرلیتا ہے _ انسان کی عمر حقیقی طور پر اسی زمانے سے شروع ہوجاتی ہے _

ایک دانشور لکھتا ہے :

جس وقت انسان اس دنیا میں آتاہے تو نو مہینے اس کی عمر کے گزرچکے ہوتے ہیں _ اور ان اولین نو مہینوں میں وہ ایسے مراحل سے گزرتا ہے کہ جس میں ایک ایسے وجود کا تعین ہوجاتا ہے جو بالکل مختلف اور بے نظیر ہوتا ہے اور یہ زمانہ اس کی ساری عمر کے لیے مؤثر ہوتا ہے_ (1)

عورت جب حاملہ ہوجاتی ہے تو اسی وقت وہ ماں بن جاتی ہے اور جو بچہ اس کے پیٹ رحم میں پرورش پارہا ہوتا ہے اس کے بارے میں وہ ذمہ دار ہوتیہے _ یہ درست ہے کہ باپ کا نطفہ قانون وراثت کے اعتبار سے بچے کی جسمانی اور نفسیاتی شخصیت پر اثر رکھتا ہے

----------

1_ بیوگرافی پیش از تولد ص 16

۳۹

لیکن اس موجود زندہ کا مستقبل بہت زیادہ ماں کے اختیار میں ہوتا ہے ، باپ کا نطفہ بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور ماحول کسی فرد کی شخصیت کی پرورش پر بہت زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے _ ایک دانشور لکھتا ہے :

بچے کے والدین کیایک ایسے ماحول میں نشو و نما کرسکتے ہیں کہ جو اس کی طبیعت اور مزاج کے لیے صحیح و سلامت ہو اور وہ اسے ایک خراب اور گندے ماحول میں بھی پروان چڑھاسکتے ہیں _ اور امر مسلّم ہے کہ ایسا ماحول ایک انسان کی روح جاوداں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے _ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ انسانیت کی طرف سے سب سے بھاری ذمہ داری کے حامل ہوتے ہیں _ (1)

ہر شخص کی سلامتی یا بیماری ، طاقت یا کمزوری ، خوبصورتی یا بدصورتی ، خوش استعدادی یا بد استعدادی اور خوش اخلاقی یا بد اخلاقی کی بنیاد ماں کے رحم میں پڑتی ہے _بچے کی خوش بختی یا بد بختی کی اساس ماں کے بطن میں ہی رکھی جاتی ہے_

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:ہر شخص کی سعادت اور بدبختی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب وہ ماں کے رحم میں ہوتا ہے _ (2)

دوران حمل ایک نہایت حساس اور ذمہ داری کا زمانہ ہے _ ایک خاتون کہ جو اپنی اہم ذمہ داری سے واقف ہو وہ دوران حمل کو ایک معمولی زمانہ تصور نہیں کر سکتی اور اس سے بے پرواہ نہیں رہ سکتی کیونکہ اگر وہ تھوڑی سی بھی غفلت یا سہل انگاری سے کام لے تو ممکن ہے اس کی اپنی صحت خراب ہوجائے یا اس کا بچہ ناقص ہوجائے ، یا بیمار پڑجائے اور ہمیشہ کے لئے بد نصیب بن کر دنیا میں آئے _ اور ساری عمر آہ و زاری کرتا رہے _

-----------

1_ راز آفرینش انسان _ ص _ 108_

2_ بحار الانوار _ ج 77_ص 133نیز ج 77_ ص 115

۴۰